15. نماز استسقاء

【1】

باب: پانی مانگنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پانی کے لیے (جنگل میں) نکلنا۔

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عبداللہ بن ابی بکر سے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم نے اور ان سے ان کے چچا عبداللہ بن زید نے کہ نبی کریم ﷺ پانی کی دعا کرنے کے لیے تشریف لے گئے اور اپنی چادر الٹائی۔

【2】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قریش کے کافروں پر بددعا کرنا کہ الٰہی ان کے سال ایسے کر دے جیسے یوسف علیہ السلام کے سال (قحط) کے گزرے ہیں۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے مغیرہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ جب سر مبارک آخری رکعت (کے رکوع) سے اٹھاتے تو یوں فرماتے اللهم أنج عياش بن أبي ربيعة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم أنج سلمة بن هشام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم أنج الوليد بن الوليد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم أنج المستضعفين من المؤمنين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم اشدد وطأتک على مضر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم اجعلها سنين كسني يوسف کہ یا اللہ ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے۔ یا اللہ ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ یا اللہ ! ولید بن ولید کو نجات دے۔ یا اللہ ! بےبس ناتواں مسلمانوں کو نجات دے۔ یا اللہ ! مضر کے کافروں کو سخت پکڑ۔ یا اللہ ! ان کے سال یوسف (علیہ السلام) کے سے سال کر دے۔ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا غفار کی قوم کو اللہ نے بخش دیا اور اسلم کی قوم کو اللہ نے سلامت رکھا۔ ابن ابی الزناد نے اپنے باپ سے صبح کی نماز میں یہی دعا نقل کی۔

【3】

نبی ﷺ کا یہ دعا کرنا کہ اس کو یوسف (علیہ السلام) کے قحط کے سال کی طرح ان کے (کفار قریش کے) لئے بنا دیجئے

ہم سے امام حمیدی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے سلیمان اعمش نے، ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، ان سے عبداللہ بن مسعود نے (دوسری سند) ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے منصور بن مسعود بن معتمر سے بیان کیا، اور ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن مسعود (رض) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے جب کفار قریش کی سرکشی دیکھی تو آپ ﷺ نے بددعا کی اللهم سبع کسبع يوسف کہ اے اللہ ! سات برس کا قحط ان پر بھیج جیسے یوسف (علیہ السلام) کے وقت میں بھیجا تھا چناچہ ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز تباہ ہوگئی اور لوگوں نے چمڑے اور مردار تک کھا لیے۔ بھوک کی شدت کا یہ عالم تھا کہ آسمان کی طرف نظر اٹھائی جاتی تو دھویں کی طرح معلوم ہوتا تھا آخر مجبور ہو کر ابوسفیان حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمد ( ﷺ ) ! آپ لوگوں کو اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ اب تو آپ ہی کی قوم برباد ہو رہی ہے، اس لیے آپ اللہ سے ان کے حق میں دعا کیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن کا انتظار کر جب آسمان صاف دھواں نظر آئے گا آیت انکم عائدون تک (نیز) جب ہم سختی سے ان کی گرفت کریں گے (کفار کی) سخت گرفت بدر کی لڑائی میں ہوئی۔ دھویں کا بھی معاملہ گزر چکا (جب سخت قحط پڑا تھا) جس میں پکڑ اور قید کا ذکر ہے وہ سب ہوچکے اسی طرح سورة الروم کی آیت میں جو ذکر ہے وہ بھی ہوچکا۔

【4】

باب: قحط کے وقت لوگ امام سے پانی کی دعا کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔

ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے، ان سے ان کے والد نے، کہا کہ میں نے ابن عمر (رض) کو ابوطالب کا یہ شعر پڑھتے سنا تھا (ترجمہ) گورا ان کا رنگ ان کے منہ کے واسطہ سے بارش کی (اللہ سے) دعا کی جاتی ہے۔ یتیموں کی پناہ اور بیواؤں کے سہارے۔ اور عمر بن حمزہ نے بیان کیا کہ ہم سے سالم نے اپنے والد سے بیان کیا وہ کہا کرتے تھے کہ اکثر مجھے شاعر (ابوطالب) کا شعر یاد آجاتا ہے۔ میں نبی کریم ﷺ کے منہ کو دیکھ رہا تھا کہ آپ دعا استسقاء (منبر پر) کر رہے تھے اور ابھی (دعا سے فارغ ہو کر) اترے بھی نہیں تھے کہ تمام نالے لبریز ہوگئے۔ وأبيض يستسقى الغمام بوجهه ثمال اليتامى عصمة للأرامل (ترجمہ) گورا رنگ ان کا، وہ حامی یتیموں، بیواؤں کے لوگ ان کے منہ کے صدقے سے پانی مانگتے ہیں۔

【5】

باب: قحط کے وقت لوگ امام سے پانی کی دعا کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔

اور عمر بن حمزہ نے بیان کیا کہ ہم سے سالم نے اپنے والد سے بیان کیا وہ کہا کرتے تھے کہ اکثر مجھے شاعر (ابوطالب) کا شعر یاد آ جاتا ہے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کو دیکھ رہا تھا کہ آپ دعا استسقاء (منبر پر) کر رہے تھے اور ابھی (دعا سے فارغ ہو کر) اترے بھی نہیں تھے کہ تمام نالے لبریز ہو گئے۔ وأبيض يستسقى الغمام بوجهه ثمال اليتامى عصمة للأرامل (ترجمہ) گورا رنگ ان کا، وہ حامی یتیموں، بیواؤں کے لوگ ان کے منہ کے صدقے سے پانی مانگتے ہیں۔

【6】

باب: قحط کے وقت لوگ امام سے پانی کی دعا کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔

ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبداللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس (رض) نے، ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ جب کبھی عمر (رض) کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر (رض) عباس بن عبدالمطلب (رض) کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم ﷺ کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو، تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم ﷺ کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو، تو ہم پر پانی برسا۔ انس (رض) نے کہا کہ چناچہ بارش خوب ہی برسی۔

【7】

باب: استسقاء میں چادر الٹنا۔

ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں شعبہ نے خبر دی، انہیں محمد بن ابی بکر نے، انہیں عباد بن تمیم نے، انہیں عبداللہ بن زید (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے دعا استسقاء کی تو اپنی چادر کو بھی الٹا۔

【8】

باب: استسقاء میں چادر الٹنا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں دعائے استسقاء قبلہ رو ہو کر کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر بھی پلٹی اور دو رکعت نماز پڑھی۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) کہتے ہیں کہ ابن عیینہ کہتے تھے کہ ( حدیث کے راوی عبداللہ بن زید ) وہی ہیں جنہوں نے اذان خواب میں دیکھی تھی لیکن یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ یہ عبداللہ ابن زید بن عاصم مازنی ہے جو انصار کے قبیلہ مازن سے تھے۔

【9】

باب: جامع مسجد میں استسقاء یعنی پانی کی دعا کرنا۔

ہم سے محمد بن مرحوم بیکندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوضمرہ انس بن عیاض نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے بیان کیا کہ انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا آپ نے ایک شخص (کعب بن مرہ یا ابوسفیان) کا ذکر کیا جو منبر کے سامنے والے دروازے سے جمعہ کے دن مسجد نبوی میں آیا۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس نے بھی کھڑے کھڑے رسول اللہ ﷺ سے کہا یا رسول اللہ ! (بارش نہ ہونے سے) جانور مرگئے اور راستے بند ہوگئے آپ اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا فرمائیے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ کہتے ہی ہاتھ اٹھا دیئے آپ ﷺ نے دعا کی اللهم اسقنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏اللهم اسقنا،‏‏‏‏ اللهم اسقنا کہ اے اللہ ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ ! ہمیں سیراب کر۔ انس (رض) نے کہا بخدا کہیں دور دور تک آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا نظر نہیں آتا تھا اور نہ کوئی اور چیز (ہوا وغیرہ جس سے معلوم ہو کہ بارش آئے گی) اور ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی مکان بھی نہ تھا (کہ ہم بادل ہونے کے باوجود نہ دیکھ سکتے ہوں) پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کے برابر بادل نمودار ہوا اور بیچ آسمان تک پہنچ کر چاروں طرف پھیل گیا اور بارش شروع ہوگئی، اللہ کی قسم ! ہم نے سورج ایک ہفتہ تک نہیں دیکھا۔ پھر ایک شخص دوسرے جمعہ کو اسی دروازے سے آیا۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس شخص نے پھر آپ ﷺ کو کھڑے کھڑے ہی مخاطب کیا کہ یا رسول اللہ ! (بارش کی کثرت سے) مال و منال پر تباہی آگئی اور راستے بند ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ بارش روک دے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی اللهم حوالينا ولا علينا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم على الآکام والجبال والآجام والظراب والأودية ومنابت الشجر کہ یا اللہ اب ہمارے اردگرد بارش برسا ہم سے اسے روک دے۔ ٹیلوں، پہاڑوں، پہاڑیوں، وادیوں اور باغوں کو سیراب کر۔ انہوں نے کہا کہ اس دعا سے بارش ختم ہوگئی اور ہم نکلے تو دھوپ نکل چکی تھی۔ شریک نے کہا کہ میں نے انس (رض) سے پوچھا کہ یہ وہی پہلا شخص تھا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔

【10】

باب: جمعہ کا خطبہ پڑھتے وقت جب منہ قبلہ کی طرف نہ ہو پانی کے لیے دعا کرنا۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شریک نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا۔ اب جہاں دار القضاء ہے اسی طرف کے دروازے سے وہ آیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس نے بھی کھڑے کھڑے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کیا کہا کہ یا رسول اللہ ! جانور مرگئے اور راستے بند ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہم پر پانی برسائے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی اللهم أغثنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم أغثنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم أغثنا اے اللہ ! ہم پر پانی برسا۔ اے اللہ ! ہمیں سیراب کر۔ انس (رض) نے کہا اللہ کی قسم ! آسمان پر بادل کا کہیں نشان بھی نہ تھا اور ہمارے اور سلع پہاڑ کے بیچ میں مکانات بھی نہیں تھے، اتنے میں پہاڑ کے پیچھے سے بادل نمودار ہوا ڈھال کی طرح اور آسمان کے بیچ میں پہنچ کر چاروں طرف پھیل گیا اور برسنے لگا۔ اللہ کی قسم ! ہم نے ایک ہفتہ تک سورج نہیں دیکھا۔ پھر دوسرے جمعہ کو ایک شخص اسی دروازے سے داخل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے، اس لیے اس نے کھڑے کھڑے کہا کہ یا رسول اللہ ! (کثرت بارش سے) جانور تباہ ہوگئے اور راستے بند ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ بارش بند ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اللهم حوالينا ولا علينا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم على الآکام والظراب وبطون الأودية ومنابت الشجر اے اللہ ! ہمارے اطراف میں بارش برسا (جہاں ضرورت ہے) ہم پر نہ برسا۔ اے اللہ ! ٹیلوں پہاڑیوں وادیوں اور باغوں کو سیراب کر۔ چناچہ بارش کا سلسلہ بند ہوگیا اور ہم باہر آئے تو دھوپ نکل چکی تھی۔ شریک نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے دریافت کیا کہ کیا یہ پہلا ہی شخص تھا ؟ انہوں نے جواب دیا مجھے معلوم نہیں۔

【11】

باب: منبر پر پانی کے لیے دعا کرنا۔

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! پانی کا قحط پڑگیا ہے، اللہ سے دعا کیجئے کہ ہمیں سیراب کر دے۔ آپ ﷺ نے دعا کی اور بارش اس طرح شروع ہوئی کہ گھروں تک پہنچنا مشکل ہوگیا، دوسرے جمعہ تک برابر بارش ہوتی رہی۔ انس (رض) نے کہا کہ پھر (دوسرے جمعہ میں) وہی شخص یا کوئی اور کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ بارش کا رخ کسی اور طرف موڑ دے۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی کہ اللهم حوالينا ولا علينا اے اللہ ہمارے اردگرد بارش برسا ہم پر نہ برسا۔ انس (رض) نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ بادل ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دائیں بائیں طرف چلے گئے پھر وہاں بارش شروع ہوگئی اور مدینہ میں اس کا سلسلہ بند ہوا۔

【12】

باب: پانی کی دعا کرنے میں جمعہ کی نماز کو کافی سمجھنا (یعنی علیحدہ استسقاء کی نماز نہ پڑھنا اور اس کی نیت کرنا یہ بھی استسقاء کی ایک شکل ہے)۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے، ان کو انس (رض) نے بتلایا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ جانور ہلاک ہوگئے اور راستے بند ہوگئے۔ آپ ﷺ نے دعا کی اور ایک ہفتہ تک بارش ہوتی رہی پھر ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ (بارش کی کثرت سے) گھر گرگئے راستے بند ہوگئے۔ چناچہ آپ ﷺ نے پھر کھڑے ہو کر دعا کی اللهم على الآکام والظراب والأودية ومنابت الشجر کہ اے اللہ ! بارش ٹیلوں، پہاڑوں، وادیوں اور باغوں میں برسا (دعا کے نتیجہ میں) بادل مدینہ سے اس طرح پھٹ گئے جیسے کپڑا پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔

【13】

باب: اگر بارش کی کثرت سے راستے بند ہو جائیں تو پانی تھمنے کی دعا کر سکتے ہیں۔

ہم سے اسماعیل بن ابی ایوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر کے واسطے سے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے کہا کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ! مویشی ہلاک ہوگئے اور راستے بند ہوگئے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی تو ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی پھر دوسرے جمعہ کو ایک شخص حاضر خدمت ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! (کثرت باراں سے بہت سے) مکانات گرگئے، راستے بند ہوگئے اور مویشی ہلاک ہوگئے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی اللهم على رءوس الجبال والآکام وبطون الأودية ومنابت الشجر کہ اے اللہ ! پہاڑوں ٹیلوں وادیوں اور باغات کی طرف بارش کا رخ کر دے۔ (جہاں بارش کی کمی ہے) چناچہ آپ ﷺ کی دعا سے بادل کپڑے کی طرح پھٹ گیا۔

【14】

باب: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن مسجد ہی میں پانی کی دعا کی تو چادر نہیں الٹائی۔

ہم سے حسن بن بشر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معافی بن عمران نے بیان کیا کہ ان سے امام اوزاعی نے، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے (قحط سے) مال کی بربادی اور اہل و عیال کی بھوک کی شکایت کی۔ چناچہ آپ ﷺ نے دعائے استسقاء کی۔ راوی نے اس موقع پر نہ چادر پلٹنے کا ذکر کیا اور نہ قبلہ کی طرف منہ کرنے کا۔

【15】

باب: جب لوگ امام سے دعائے استسقاء کی درخواست کریں تو رد نہ کرئے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک (رح) نے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر کے واسطے سے خبر دی اور انہیں انس بن مالک (رض) نے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کیا یا رسول اللہ ! (قحط سے) جانور ہلاک ہوگئے اور راستے بند، اللہ سے دعا کیجئے۔ چناچہ آپ ﷺ نے دعا کی اور ایک جمعہ سے اگلے جمعہ تک ایک ہفتہ بارش ہوتی رہی۔ پھر ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (بارش کی کثرت سے) راستے بند ہوگئے اور مویشی ہلاک ہوگئے۔ اب رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا کی اللهم على ظهور الجبال والآکام وبطون الأودية ومنابت الشجر کہ اے اللہ ! بارش کا رخ پہاڑوں، ٹیلوں، وادیوں اور باغات کی طرف موڑ دے، چناچہ بادل مدینہ سے اس طرح چھٹ گیا جیسے کپڑا پھٹ جایا کرتا ہے۔

【16】

باب: اس بارے میں کہ اگر قحط میں مشرکین مسلمانوں سے دعا کی درخواست کریں؟

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے منصور اور اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، آپ نے کہا کہ میں ابن مسعود (رض) کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ قریش کا اسلام سے اعراض بڑھتا گیا تو نبی کریم ﷺ نے ان کے حق میں بددعا کی۔ اس بددعا کے نتیجے میں ایسا قحط پڑا کہ کفار مرنے لگے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے۔ آخر ابوسفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد ! ( ﷺ ) آپ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم مر رہی ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا کیجئے۔ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی (ترجمہ) اس دن کا انتظار کر جب آسمان پر صاف کھلا ہوا دھواں نمودار ہوگا الآیہ (خیر آپ نے دعا کی بارش ہوئی قحط جاتا رہا) لیکن وہ پھر کفر کرنے لگے اس پر اللہ پاک کا یہ فرمان نازل ہوا (ترجمہ) جس دن ہم انہیں سختی کے ساتھ پکڑ کریں گے اور یہ پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی اور اسباط بن محمد نے منصور سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دعائے استسقاء کی (مدینہ میں) جس کے نتیجہ میں خوب بارش ہوئی کہ سات دن تک وہ برابر جاری رہی۔ آخر لوگوں نے بارش کی زیادتی کی شکایت کی تو رسول اللہ ﷺ نے دعا کی اللهم حوالينا ولا علينا کہ اے اللہ ! ہمارے اطراف و جوانب میں بارش برسا، مدینہ میں بارش کا سلسلہ ختم کر۔ چناچہ بادل آسمان سے چھٹ گیا اور مدینہ کے اردگرد خوب بارش ہوئی۔

【17】

باب: جب بارش حد سے زیادہ ہو تو اس بات کی دعا کہ ہمارے یہاں بارش بند ہو جائے اور اردگرد برسے۔

مجھ سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے عبیداللہ عمری سے بیان کیا، ان سے ثابت نے، ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ اتنے میں لوگوں نے کھڑے ہو کر غل مچایا، کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! بارش کے نام بوند بھی نہیں درخت سرخ ہوچکے (یعنی تمام پتے خشک ہوگئے) اور جانور تباہ ہو رہے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں سیراب کرے۔ آپ ﷺ نے دعا کی اللهم اسقنا اے اللہ ! ہمیں سیراب کر۔ دو مرتبہ آپ ﷺ نے اس طرح کہا، قسم اللہ کی اس وقت آسمان پر بادل کہیں دور دور نظر نہیں آتا تھا لیکن دعا کے بعد اچانک ایک بادل آیا اور بارش شروع ہوگئی۔ آپ ﷺ منبر سے اترے اور نماز پڑھائی۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو بارش ہو رہی تھی اور دوسرے جمعہ تک بارش برابر ہوتی رہی پھر جب نبی کریم ﷺ دوسرے جمعہ میں خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو لوگوں نے بتایا کہ مکانات منہدم ہوگئے اور راستے بند ہوگئے، اللہ سے دعا کیجئے کہ بارش بند کر دے۔ اس پر نبی کریم ﷺ مسکرائے اور دعا کی االلهم حوالينا ولا علينا اے اللہ ! ہمارے اطراف میں اب بارش برسا، مدینہ میں اس کا سلسلہ بند کر۔ آپ ﷺ کی دعا سے مدینہ سے بادل چھٹ گئے اور بارش ہمارے ارد گرد ہونے لگی۔ اس شان سے کہ اب مدینہ میں ایک بوند بھی نہ پڑتی تھی میں نے مدینہ کو دیکھا ابر تاج کی طرح گردا گرد تھا اور مدینہ اس کے بیچ میں۔

【18】

باب: استسقاء میں کھڑے ہو کر خطبہ میں دعا مانگنا۔

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، ان سے زہیر نے، ان سے ابواسحاق نے کہ عبداللہ بن یزید انصاری (رض) استسقاء کے لیے باہر نکلے۔ ان کے ساتھ براء بن عازب اور زید بن ارقم (رض) بھی تھے۔ انہوں نے پانی کے لیے دعا کی تو پاؤں پر کھڑے رہے، منبر نہ تھا۔ اسی طرح آپ نے دعا کی پھر دو رکعت نماز پڑھی جس میں قرآت بلند آواز سے کی، نہ اذان کہی اور نہ اقامت ابواسحاق نے کہا عبداللہ بن یزید نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا تھا۔

【19】

باب: استسقاء میں کھڑے ہو کر خطبہ میں دعا مانگنا۔

ہم سے ابوالیمان حکیم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عباد بن تمیم نے بیان کیا کہ ان کے چچا عبداللہ بن زید نے جو صحابی تھے، انہیں خبر دی کہ نبی کریم ﷺ لوگوں کو ساتھ لے کر استسقاء کے لیے نکلے اور آپ کھڑے ہوئے اور کھڑے ہی کھڑے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، پھر قبلہ کی طرف منہ کر کے اپنی چادر پلٹی چناچہ بارش خوب ہوئی۔

【20】

باب: استسقاء کی نماز میں بلند آواز سے قرآت کرنا۔

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے زہری سے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم نے اور ان سے ان کے چچا (عبداللہ بن زید) نے کہ نبی کریم ﷺ استسقاء کے لیے باہر نکلے تو قبلہ رو ہو کر دعا کی۔ پھر اپنی چادر پلٹی اور دو رکعت نماز پڑھی۔ نماز میں آپ ﷺ نے قرآت بلند آواز سے کی۔

【21】

باب: استسقاء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف پشت مبارک کس طرح موڑی تھی؟

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے زہری سے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم نے، ان سے ان کے چچا عبداللہ بن زید نے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو جب آپ ﷺ استسقاء کے لیے باہر نکلے، دیکھا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے اپنی پیٹھ صحابہ کی طرف کردی اور قبلہ رخ ہو کر دعا کی۔ پھر چادر پلٹی اور دو رکعت نماز پڑھائی جس کی قرآت قرآن میں آپ ﷺ نے جہر کیا تھا۔

【22】

باب: استسقاء کی نماز دو رکعتیں پڑھنا۔

مجھ سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عبداللہ بن ابی بکر سے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم نے، ان سے ان کے چچا عبداللہ بن زید (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے دعائے استسقاء کی تو دو رکعت نماز پڑھی اور چادر پلٹی۔

【23】

باب: عیدگاہ میں بارش کی دعا کرنا۔

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عبداللہ بن ابی بکر سے بیان کیا، انہوں نے عباد بن تمیم سے سنا اور عباد اپنے چچا عبداللہ بن زید (رض) سے بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ دعائے استسقاء کے لیے عیدگاہ کو نکلے اور قبلہ رخ ہو کر دو رکعت نماز پڑھی پھر چادر پلٹی۔ سفیان ثوری نے کہا مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ مسعودی نے ابوبکر کے حوالے سے خبر دی کہ آپ ﷺ نے چادر کا داہنا کونا بائیں کندھے پر ڈالا۔

【24】

باب

ایوب بن سلیمان نے کہا کہ مجھ سے ابوبکر بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے سلیمان بن بلال سے بیان کیا کہ یحییٰ بن سعید نے کہا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا انہوں نے کہا کہ ایک بدوی (گاؤں کا رہنے والا) جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! بھوک سے مویشی تباہ ہوگئے، اہل و عیال اور تمام لوگ مر رہے ہیں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے ہاتھ اٹھائے، اور لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ اپنے ہاتھ اٹھائے، دعا کرنے لگے، انس (رض) نے بیان کیا کہ ابھی ہم مسجد سے باہر نکلے بھی نہ تھے کہ بارش شروع ہوگئی اور ایک ہفتہ برابر بارش ہوتی رہی۔ دوسرے جمعہ میں پھر وہی شخص آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ! (بارش بہت ہونے سے) مسافر گھبرا گئے اور راستے بند ہوگئے۔ عبدالعزیز اویسی نے کہا کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ان سے یحییٰ بن سعید اور شریک نے، انہوں نے کہا کہ ہم نے انس (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ (نے استسقاء میں دعا کرنے کے لیے) اس طرح ہاتھ اٹھائے کہ میں نے آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی۔

【25】

ایک بدوی ( گاؤں کا رہنے والا ) جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! بھوک سے مویشی تباہ ہو گئے، اہل و عیال اور تمام لوگ مر رہے ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے، اور لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ہاتھ اٹھائے، دعا کرنے لگے، انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابھی ہم مسجد سے باہر نکلے بھی نہ تھے کہ بارش شروع ہو گئی اور ایک ہفتہ برابر بارش ہوتی رہی۔ دوسرے جمعہ میں پھر وہی شخص آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! ( بارش بہت ہونے سے ) مسافر گھبرا گئے اور راستے بند ہو گئے۔

【26】

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( نے استسقاء میں دعا کرنے کے لیے ) اس طرح ہاتھ اٹھائے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی۔

【27】

باب: امام کا استسقاء میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا۔

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان اور محمد بن ابراہیم بن عدی بن عروبہ نے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے قتادہ اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ دعائے استسقاء کے سوا اور کسی دعا کے لیے ہاتھ (زیادہ) نہیں اٹھاتے تھے اور استسقاء میں ہاتھ اتنا اٹھاتے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آجاتی۔

【28】

باب: مینہ برستے وقت کیا کہے۔

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں عبیداللہ عمری نے نافع سے خبر دی، انہیں قاسم بن محمد نے، انہیں عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ جب بارش ہوتی دیکھتے تو یہ دعا کرتے صيبا نافعا اے اللہ ! نفع بخشنے والی بارش برسا۔ اس روایت کی متابعت قاسم بن یحییٰ نے عبیداللہ عمری سے کی ہے اور اس کی روایت اوزاعی اور عقیل نے نافع سے کی ہے۔

【29】

باب: اس شخص کے بارے میں جو بارش میں قصداً اتنی دیر ٹھہرا کہ بارش سے اس کی داڑھی (بھیگ گئی اور اس) سے پانی بہنے لگا۔

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی، کہا کہ ہم سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ انصاری نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں لوگوں پر ایک دفعہ قحط پڑا۔ انہی دنوں آپ ﷺ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ ! جانور مرگئے اور بال بچے فاقے پر فاقے کر ہے ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ پانی برسائے۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر دعا کے لیے دونوں ہاتھ اٹھا دیئے۔ آسمان پر دور دور تک ابر کا پتہ تک نہیں تھا۔ لیکن (آپ ﷺ کی دعا سے) پہاڑوں کے برابر بادل گرجتے ہوئے آگئے ابھی نبی کریم ﷺ منبر سے اترے بھی نہیں تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ ﷺ کی داڑھی سے بہہ رہا ہے۔ انس نے کہا کہ اس روز بارش دن بھر ہوتی رہی۔ دوسرے دن تیسرے دن، بھی اور برابر اسی طرح ہوتی رہی۔ اس طرح دوسرا جمعہ آگیا۔ پھر یہی بدوی یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! (کثرت باراں سے) عمارتیں گرگئیں اور جانور ڈوب گئے، ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے پھر دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی اللهم حوالينا ولا علينا کہ اے اللہ ! ہمارے اطراف میں برسا اور ہم پر نہ برسا۔ انس نے کہا کہ نبی کریم ﷺ اپنے ہاتھوں سے آسمان کی جس طرف بھی اشارہ کردیتے ابر ادھر سے پھٹ جاتا، اب مدینہ حوض کی طرح بن چکا تھا اور اسی کے بعد وادی قناۃ کا نالہ ایک مہینہ تک بہتا رہا۔ انس نے بیان کیا کہ اس کے بعد مدینہ کے اردگرد سے جو بھی آیا اس نے خوب سیرابی کی خبر لائی۔

【30】

باب: جب ہوا چلتی۔

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھے حمید طویل نے خبر دی اور انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب تیز ہوا چلتی تو نبی کریم ﷺ کے چہرہ مبارک پر ڈر محسوس ہوتا تھا۔

【31】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ پروا ہوا کے ذریعہ مجھے مدد پہنچائی گئی۔

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے حکم سے بیان کیا، ان سے مجاہد نے، ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے پروا ہوا کے ذریعہ مدد پہنچائی گئی اور قوم عاد پچھوا کے ذریعہ ہلاک کردی گئی تھی۔

【32】

باب: بھونچال اور قیامت کی نشانیوں کے بیان میں۔

ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے ابوالزناد (عبداللہ بن ذکوان) نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہوجائے گی اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزرے گا اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور هرج کی کثرت ہوجائے گی اور هرج سے مراد قتل ہے۔ قتل اور تمہارے درمیان دولت و مال کی اتنی کثرت ہوگی کہ وہ ابل پڑے گا۔

【33】

باب: بھونچال اور قیامت کی نشانیوں کے بیان میں۔

مجھ سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حسین بن حسن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا اے اللہ ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازل فرما۔ اس پر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد کے لیے بھی برکت کی دعا کیجئے لیکن آپ نے پھر وہی کہا اے اللہ ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما پھر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد میں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہی سے طلوع ہوگا۔

【34】

باب: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی «وتجعلون رزقكم أنكم تكذبون»۔

ہم سے اسماعیل بن ایوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے صالح بن کیسان سے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا، ان سے زید بن خالد جہنی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے حدیبیہ میں ہم کو صبح کی نماز پڑھائی۔ رات کو بارش ہوچکی تھی نماز کے بعد آپ ﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فیصلہ کیا ہے ؟ لوگ بولے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پروردگار فرماتا ہے آج میرے دو طرح کے بندوں نے صبح کی۔ ایک مومن ہے ایک کافر۔ جس نے کہا اللہ کے فضل و رحم سے پانی پڑا وہ تو مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کا منکر ہوا اور جس نے کہا فلاں تارے کے فلاں جگہ آنے سے پانی پڑا اس نے میرا کفر کیا، تاروں پر ایمان لایا۔

【35】

باب: اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو معلوم نہیں کہ بارش کب ہو گی۔

ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ کسی کو نہیں معلوم کہ کل کیا ہونے والا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے، کل کیا کرنا ہوگا، اس کا کسی کو علم نہیں۔ نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ اسے موت کس جگہ آئے گی اور نہ کسی کو یہ معلوم کہ بارش کب ہوگی۔