19. زکوۃ کا بیان

【1】

باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے۔

ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا ‘ ان سے زکریا بن اسحاق نے بیان کیا ‘ ان سے یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی نے بیان کیا، ان سے ابومعبد نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے جب معاذ (رض) کو یمن (کا حاکم بنا کر) بھیجا تو فرمایا کہ تم انہیں اس کلمہ کی گواہی کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ لوگ یہ بات مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ لوگ یہ بات بھی مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا۔

【2】

باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے۔

ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے محمد بن عثمان بن عبداللہ بن موہب سے بیان کیا ہے ‘ ان سے موسیٰ بن طلحہ نے اور ان سے ابوایوب (رض) نے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آخر یہ کیا چاہتا ہے۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو بہت اہم ضرورت ہے۔ (سنو) اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراو۔ نماز قائم کرو۔ زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو۔ اور بہز نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن عثمان اور ان کے باپ عثمان بن عبداللہ نے بیان کیا کہ ان دونوں صاحبان نے موسیٰ بن طلحہ سے سنا اور انہوں نے ابوایوب سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اسی حدیث کی طرح (سنا) ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ محمد سے روایت غیر محفوظ ہے اور روایت عمرو بن عثمان سے (محفوظ ہے) ۔

【3】

باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے۔

ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ان سے یحییٰ بن سعید بن حیان نے ‘ ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ آپ مجھے کوئی ایسا کام بتلائیے جس پر اگر میں ہمیشگی کروں تو جنت میں داخل ہوجاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر ‘ اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرا ‘ فرض نماز قائم کر ‘ فرض زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھ۔ دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘ ان عملوں پر میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو جنت والوں میں سے ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔

【4】

باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے۔

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ‘ ان سے یحییٰ بن سعید قطان نے ‘ ان سے ابوحیان نے ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوزرعہ نے نبی کریم ﷺ سے یہی حدیث روایت کی۔

【5】

باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے۔

ہم سے حجاج بن منہال نے حدیث بیان کی ‘ کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوجمرہ نصر بن عمران ضبعی نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سنا ‘ آپ نے بتلایا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ! ہم قبیلہ ربیعہ کی ایک شاخ ہیں اور قبیلہ مضر کے کافر ہمارے اور آپ ﷺ کے درمیان پڑتے ہیں۔ اس لیے ہم آپ ﷺ کی خدمت میں صرف حرمت کے مہینوں ہی میں حاضر ہوسکتے ہیں (کیونکہ ان مہینوں میں لڑائیاں بند ہوجاتی ہیں اور راستے پرامن ہوجاتے ہیں) آپ ﷺ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلا دیجئیے جس پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے قبیلہ کے لوگوں سے بھی ان پر عمل کرنے کے لیے کہیں جو ہمارے ساتھ نہیں آسکے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کی وحدانیت کی شہادت دینے کا (یہ کہتے ہوئے) آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا۔ نماز قائم کرنا ‘ پھر زکوٰۃ ادا کرنا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنے (کا حکم دیتا ہوں) اور میں تمہیں کدو کے تو نبی سے اور حنتم (سبز رنگ کا چھوٹا سا مرتبان جیسا گھڑا) فقیر (کھجور کی جڑ سے کھودا ہوا ایک برتن) اور زفت لگا ہوا برتن (زفت بصرہ میں ایک قسم کا تیل ہوتا تھا) کے استعمال سے منع کرتا ہوں۔ سلیمان اور ابوالنعمان نے حماد کے واسطہ سے یہی روایت اس طرح بیان کی ہے۔ الإيمان بالله شهادة أن لا إله إلا الله یعنی اللہ پر ایمان لانے کا مطلب لا إله إلا الله کی گواہی دینا۔

【6】

باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے۔

ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا کہ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوگئے اور ابوبکر (رض) خلیفہ ہوئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہوگئے (اور کچھ نے زکوٰۃ سے انکار کردیا اور ابوبکر (رض) نے ان سے لڑنا چاہا) تو عمر (رض) نے فرمایا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی موجودگی میں کیونکر جنگ کرسکتے ہیں مجھے حکم ہے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا إله إلا الله کی شہادت نہ دیدیں اور جو شخص اس کی شہادت دیدے تو میری طرف سے اس کا مال و جان محفوظ ہوجائے گا۔ سوا اسی کے حق کے (یعنی قصاص وغیرہ کی صورتوں کے) اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگا۔ اس پر ابوبکر صدیق (رض) نے جواب دیا کہ قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو زکوٰۃ اور نماز میں تفریق کرے گا۔ (یعنی نماز تو پڑھے مگر زکوٰۃ کے لیے انکار کر دے) کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم ! اگر انہوں نے زکوٰۃ میں چار مہینے کی (بکری کے) بچے کو دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا۔ عمر (رض) نے فرمایا کہ بخدا یہ بات اس کا نتیجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا تھا اور بعد میں، میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ ابوبکر (رض) ہی حق پر تھے۔

【7】

باب: زکوٰۃ دینے پر بیعت کرنا۔

ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اسماعیل بن خالد نے بیان کیا ‘ ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ جریر بن عبداللہ (رض) نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز قائم کرنے ‘ زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی تھی۔

【8】

باب: زکوٰۃ نہ ادا کرنے والے کا گناہ۔

ہم سے ابولیمان حکم بن نافع نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا کہ عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا ‘ آپ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اونٹ (قیامت کے دن) اپنے مالکوں کے پاس جنہوں نے ان کا حق (زکوٰۃ) نہ ادا کیا کہ اس سے زیادہ موٹے تازے ہو کر آئیں گے (جیسے دنیا میں تھے) اور انہیں اپنے کھروں سے روندیں گے۔ بکریاں بھی اپنے ان مالکوں کے پاس جنہوں نے ان کے حق نہیں دئیے تھے پہلے سے زیادہ موٹی تازی ہو کر آئیں گی اور انہیں اپنے کھروں سے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا حق یہ بھی ہے کہ اسے پانی ہی پر (یعنی جہاں وہ چراگاہ میں چر رہی ہوں) دوہا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص قیامت کے دن اس طرح نہ آئے کہ وہ اپنی گردن پر ایک ایسی بکری اٹھائے ہوئے ہو جو چلا رہی ہو اور وہ (شخص) مجھ سے کہے کہ اے محمد ( ﷺ ) ! مجھے عذاب سے بچائیے میں اسے یہ جواب دوں گا کہ تیرے لیے میں کچھ نہیں کرسکتا (میرا کام پہنچانا تھا) سو میں نے پہنچا دیا۔ اسی طرح کوئی شخص اپنی گردن پر اونٹ لیے ہوئے قیامت کے دن نہ آئے کہ اونٹ چلا رہا ہو اور وہ خود مجھ سے فریاد کرے ‘ اے محمد ( ﷺ ) ! مجھے بچائیے اور میں یہ جواب دے دوں کہ تیرے لیے میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تجھ کو (اللہ کا حکم زکوٰۃ) پہنچا دیا تھا۔

【9】

باب: زکوٰۃ نہ ادا کرنے والے کا گناہ۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے اپنے والد سے بیان کیا ‘ ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جسے اللہ نے مال دیا اور اس نے اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی تو قیامت کے دن اس کا مال نہایت زہریلے گنجے سانپ کی شکل اختیار کرلے گا۔ اس کی آنکھوں کے پاس دو سیاہ نقطے ہوں گے۔ جیسے سانپ کے ہوتے ہیں ‘ پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں سے اسے پکڑ لے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال اور خزانہ ہوں۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی اور وہ لوگ یہ گمان نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے وہ اس پر بخل سے کام لیتے ہیں کہ ان کا مال ان کے لیے بہتر ہے۔ بلکہ وہ برا ہے جس مال کے معاملہ میں انہوں نے بخل کیا ہے۔ قیامت میں اس کا طوق بنا کر ان کی گردن میں ڈالا جائے گا۔

【10】

باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے۔

ہم سے احمد بن شبیب بن سعید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے میرے والد شبیب نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے خالد بن اسلم نے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن عمر (رض) کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ ایک اعرابی نے آپ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر بتلائیے جو لوگ سونے اور چاندی کا خزانہ بنا کر رکھتے ہیں۔ ابن عمر (رض) نے اس کا جواب دیا کہ اگر کسی نے سونا چاندی جمع کیا اور اس کی زکوٰۃ نہ دی تو اس کے لیے ويل (خرابی) ہے۔ یہ حکم زکوٰۃ کے احکام نازل ہونے سے پہلے تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا حکم نازل کردیا تو اب وہی زکوٰۃ مال و دولت کو پاک کردینے والی ہے۔

【11】

باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے۔

ہم سے اسحاق بن یزید نے حدیث بیان کی ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب بن اسحاق نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے یحییٰ بن ابی کثیر نے خبر دی کہ عمرو بن یحییٰ بن عمارہ نے انہیں خبر دی اپنے والد یحییٰ بن عمارہ بن ابوالحسن سے اور انہوں نے ابو سعید خدری (رض) سے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ وسق سے کم (غلہ) میں زکوٰۃ نہیں ہے۔

【12】

باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے۔

ہم سے علی بن ابی ہاشم نے بیان کیا ‘ انہوں نے ہشیم سے سنا ‘ کہا کہ ہمیں حصین نے خبر دی ‘ انہیں زید بن وہب نے کہا کہ میں مقام ربذہ سے گزر رہا تھا کہ ابوذر (رض) دکھائی دیئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں آگئے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں شام میں تھا تو معاویہ (رض) سے میرا اختلاف (قرآن کی آیت) جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے کے متعلق ہوگیا۔ معاویہ (رض) کا کہنا یہ تھا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور میں یہ کہتا تھا کہ اہل کتاب کے ساتھ ہمارے متعلق بھی یہ نازل ہوئی ہے۔ اس اختلاف کے نتیجہ میں میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخی پیدا ہوگئی۔ چناچہ انہوں نے عثمان (رض) (جو ان دنوں خلیفۃ المسلمین تھے) کے یہاں میری شکایت لکھی۔ عثمان (رض) نے مجھے لکھا کہ میں مدینہ چلا آؤں۔ چناچہ میں چلا آیا۔ (وہاں جب پہنچا) تو لوگوں کا میرے یہاں اس طرح ہجوم ہونے لگا جیسے انہوں نے مجھے پہلے دیکھا ہی نہ ہو۔ پھر جب میں نے لوگوں کے اس طرح اپنی طرف آنے کے متعلق عثمان (رض) سے کہا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر مناسب سمجھو تو یہاں کا قیام چھوڑ کر مدینہ سے قریب ہی کہیں اور جگہ الگ قیام اختیار کرلو۔ یہی بات ہے جو مجھے یہاں (ربذہ) تک لے آئی ہے۔ اگر وہ میرے اوپر ایک حبشی کو بھی امیر مقرر کردیں تو میں اس کی بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔

【13】

باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے۔

ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سعید جریری نے ابوالعلاء یزید سے بیان کیا ‘ ان سے احنف بن قیس نے ‘ انہوں نے کہا کہ میں بیٹھا تھا (دوسری سند) اور امام بخاری (رح) نے فرمایا کہ مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالصمد بن عبدالوارث نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا مجھ سے سعید جریری نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوالعلاء بن شخیر نے بیان کیا ‘ ان سے احنف بن قیس نے بیان کیا کہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں سخت بال ‘ موٹے کپڑے اور موٹی جھوٹی حالت میں ایک شخص آیا اور کھڑے ہو کر سلام کیا اور کہا کہ خزانہ جمع کرنے والوں کو اس پتھر کی بشارت ہو جو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس کی چھاتی کی بھٹنی پر رکھ دیا جائے گا جو مونڈھے کی طرف سے پار ہوجائے گا۔ اس طرح وہ پتھر برابر ڈھلکتا رہے گا۔ یہ کہہ کر وہ صاحب چلے گئے اور ایک ستون کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ چلا اور ان کے قریب بیٹھ گیا۔ اب تک مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ کون صاحب ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کی بات قوم نے پسند نہیں کی۔ انہوں نے کہا یہ سب تو بیوقوف ہیں۔ مجھ سے میرے خلیل نے کہا تھا میں نے پوچھا کہ آپ کے خلیل کون ہیں ؟ جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ اے ابوذر ! کیا احد پہاڑ تو دیکھتا ہے۔ ابوذر (رض) کا بیان تھا کہ اس وقت میں نے سورج کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا کہ کتنا دن ابھی باقی ہے۔ کیونکہ مجھے (آپ کی بات سے) یہ خیال گزرا کہ آپ اپنے کسی کام کے لیے مجھے بھیجیں گے۔ میں نے جواب دیا کہ جی ہاں (احد پہاڑ میں نے دیکھا ہے) آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو میں اس کے سوا دوست نہیں رکھتا کہ صرف تین دینار بچا کر باقی تمام کا تمام (اللہ کے راستے میں) دے ڈالوں (ابوذر (رض) نے پھر فرمایا کہ) ان لوگوں کو کچھ معلوم نہیں یہ دنیا جمع کرنے کی فکر کرتے ہیں۔ ہرگز نہیں اللہ کی قسم نہ میں ان کی دنیا ان سے مانگتا ہوں اور نہ دین کا کوئی مسئلہ ان سے پوچھتا ہوں تاآنکہ میں اللہ تعالیٰ سے جا ملوں۔

【14】

باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے۔

مجھ سے میرے خلیل نے کہا تھا میں نے پوچھا کہ آپ کے خلیل کون ہیں؟ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اے ابوذر! کیا احد پہاڑ تو دیکھتا ہے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اس وقت میں نے سورج کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا کہ کتنا دن ابھی باقی ہے۔ کیونکہ مجھے (آپ کی بات سے) یہ خیال گزرا کہ آپ اپنے کسی کام کے لیے مجھے بھیجیں گے۔ میں نے جواب دیا کہ جی ہاں (احد پہاڑ میں نے دیکھا ہے) آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو میں اس کے سوا دوست نہیں رکھتا کہ صرف تین دینار بچا کر باقی تمام کا تمام (اللہ کے راستے میں) دے ڈالوں (ابوذر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا کہ) ان لوگوں کو کچھ معلوم نہیں یہ دنیا جمع کرنے کی فکر کرتے ہیں۔ ہرگز نہیں اللہ کی قسم نہ میں ان کی دنیا ان سے مانگتا ہوں اور نہ دین کا کوئی مسئلہ ان سے پوچھتا ہوں تاآنکہ میں اللہ تعالیٰ سے جا ملوں۔

【15】

باب: اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان۔

باب : اللہ پاک چوری کے مال میں سے خیرات نہیں قبول کرتا اور وہ صرف پاک کمائی سے قبول کرتا ہے کیونکہ اللہ پاک کا ارشاد ہے بھلی بات کرنا اور فقیر کی سخت باتوں کو معاف کردینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے نتیجہ میں (اس شخص کو جسے صدقہ دیا گیا ہے) اذیت دی جائے کہ اللہ بڑا بےنیاز نہایت بردبار ہے۔

【16】

باب: حلال کمائی میں سے خیرات کرنا۔

ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے ابوالنضر سالم بن ابی امیہ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے ‘ ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلا کر بڑھاتا ہے تاآنکہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ عبدالرحمٰن کے ساتھ اس روایت کی متابعت سلیمان نے عبداللہ بن دینار کی روایت سے کی ہے اور ورقاء نے ابن دینار سے کہا ‘ ان سے سعید بن یسار نے ‘ ان سے ابوہریرہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے اور اس کی روایت مسلم بن ابی مریم ‘ زید بن اسلم اور سہیل نے ابوصالح سے کی ‘ ان سے ابوہریرہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے۔

【17】

باب: صدقہ اس زمانے سے پہلے کہ اس کا لینے والا کوئی باقی نہ رہے گا۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن خالد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے حارثہ بن وہب (رض) سے سنا ‘ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا تھا کہ صدقہ کرو ‘ ایک ایسا زمانہ بھی تم پر آنے والا ہے جب ایک شخص اپنے مال کا صدقہ لے کر نکلے گا اور کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں پائے گا۔

【18】

باب: صدقہ اس زمانے سے پہلے کہ اس کا لینے والا کوئی باقی نہ رہے گا۔

ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قیامت آنے سے پہلے مال و دولت کی اس قدر کثرت ہوجائے گی اور لوگ اس قدر مالدار ہوجائیں گے کہ اس وقت صاحب مال کو اس کی فکر ہوگی کہ اس کی زکوٰۃ کون قبول کرے اور اگر کسی کو دینا بھی چاہے گا تو اس کو یہ جواب ملے گا کہ مجھے اس کی حاجت نہیں ہے۔

【19】

باب: صدقہ اس زمانے سے پہلے کہ اس کا لینے والا کوئی باقی نہ رہے گا۔

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں سعدان بن بشیر نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابومجاہد سعد طائی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے محل بن خلیفہ طائی نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے عدی بن حاتم طائی (رض) سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں موجود تھا کہ دو شخص آئے ‘ ایک فقر و فاقہ کی شکایت لیے ہوئے تھا اور دوسرے کو راستوں کے غیر محفوظ ہونے کی شکایت تھی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جہاں تک راستوں کے غیر محفوظ ہونے کا تعلق ہے تو بہت جلد ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جب ایک قافلہ مکہ سے کسی محافظ کے بغیر نکلے گا۔ (اور اسے راستے میں کوئی خطرہ نہ ہوگا) اور رہا فقر و فاقہ تو قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک (مال و دولت کی کثرت کی وجہ سے یہ حال نہ ہوجائے کہ) ایک شخص اپنا صدقہ لے کر تلاش کرے لیکن کوئی اسے لینے والا نہ ملے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہ ہوگا اور نہ ترجمانی کے لیے کوئی ترجمان ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیا میں نے تجھے دنیا میں مال نہیں دیا تھا ؟ وہ کہے گا کہ ہاں دیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیا میں نے تیرے پاس پیغمبر نہیں بھیجا تھا ؟ وہ کہے گا کہ ہاں بھیجا تھا۔ پھر وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو آگ کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا پھر بائیں طرف دیکھے گا اور ادھر بھی آگ ہی آگ ہوگی۔ پس تمہیں جہنم سے ڈرنا چاہیے خواہ ایک کھجور کے ٹکڑے ہی (کا صدقہ کر کے اس سے اپنا بچاؤ کرسکو) اگر یہ بھی میسر نہ آسکے تو اچھی بات ہی منہ سے نکالے۔

【20】

باب: صدقہ اس زمانے سے پہلے کہ اس کا لینے والا کوئی باقی نہ رہے گا۔

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ (حماد بن اسامہ) نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے برید بن عبداللہ نے ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں پر ضرور ایک زمانہ ایسا آجائے گا کہ ایک شخص سونے کا صدقہ لے کر نکلے گا لیکن کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا اور یہ بھی ہوگا کہ ایک مرد کی پناہ میں چالیس چالیس عورتیں ہوجائیں گی کیونکہ مردوں کی کمی ہوجائے گی اور عورتوں کی زیادتی ہوگی۔

【21】

باب: اس بارے میں کہ جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے یا کسی معمولی سے صدقہ کے ذریعے ہو۔

ہم سے ابوقدامہ عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوالنعمان حکم بن عبداللہ بصریٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان اعمش نے ‘ ان سے ابو وائل نے اور ان سے ابومسعود انصاری (رض) نے فرمایا کہ جب آیت صدقہ نازل ہوئی تو ہم بوجھ ڈھونے کا کام کیا کرتے تھے (تاکہ اس طرح جو مزدوری ملے اسے صدقہ کردیا جائے) اسی زمانہ میں ایک شخص (عبدالرحمٰن بن عوف) آیا اور اس نے صدقہ کے طور پر کافی چیزیں پیش کیں۔ اس پر لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ آدمی ریاکار ہے۔ پھر ایک اور شخص (ابوعقیل نامی) آیا اور اس نے صرف ایک صاع کا صدقہ کیا۔ اس کے بارے میں لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کو ایک صاع صدقہ کی کیا حاجت ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم وہ لوگ جو ان مومنوں پر عیب لگاتے ہیں جو صدقہ زیادہ دیتے ہیں اور ان پر بھی جو محنت سے کما کر لاتے ہیں۔ (اور کم صدقہ کرتے ہیں) آخر تک۔

【22】

باب: اس بارے میں کہ جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے یا کسی معمولی سے صدقہ کے ذریعے ہو۔

ہم سے سعید بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق نے اور ان سے ابومسعود انصاری (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ہم میں سے بہت سے بازار جا کر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کرتے اور اس طرح ایک مد (غلہ یا کھجور وغیرہ) حاصل کرتے۔ (جسے صدقہ کردیتے) لیکن آج ہم میں سے بہت سوں کے پاس لاکھ لاکھ (درہم یا دینار) موجود ہیں۔

【23】

باب: اس بارے میں کہ جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے یا کسی معمولی سے صدقہ کے ذریعے ہو۔

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا اور ان سے ابواسحاق عمرو بن عبداللہ سبیعی نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن معقل سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے عدی بن حاتم (رض) سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا کہ جہنم سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر ہی سہی (مگر ضرور صدقہ کر کے دوزخ کی آگ سے بچنے کی کوشش کرو) ۔

【24】

باب: اس بارے میں کہ جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے یا کسی معمولی سے صدقہ کے ذریعے ہو۔

ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن ابی بکر بن حزم نے بیان کیا ‘ ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لیے مانگتی ہوئی آئی۔ میرے پاس ایک کھجور کے سوا اس وقت اور کچھ نہ تھا میں نے وہی دے دی۔ وہ ایک کھجور اس نے اپنی دونوں بچیوں میں تقسیم کردی اور خود نہیں کھائی۔ پھر وہ اٹھی اور چلی گئی۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ ﷺ سے اس کا حال بیان کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ان بچیوں کی وجہ سے خود کو معمولی سی بھی تکلیف میں ڈالا تو بچیاں اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ کے لیے آڑ بن جائیں گی۔

【25】

باب: تندرستی اور مال کی خواہش کے زمانہ میں صدقہ دینے کی فضیلت۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عمارہ بن قعقاع نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوزرعہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! کس طرح کے صدقہ میں سب سے زیادہ ثواب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس صدقہ میں جسے تم صحت کے ساتھ بخل کے باوجود کرو۔ تمہیں ایک طرف تو فقیری کا ڈر ہو اور دوسری طرف مالدار بننے کی تمنا اور امید ہو اور (اس صدقہ خیرات میں) ڈھیل نہ ہونی چاہیے کہ جب جان حلق تک آجائے تو اس وقت تو کہنے لگے کہ فلاں کے لیے اتنا اور فلاں کے لیے اتنا حالانکہ وہ تو اب فلاں کا ہوچکا۔

【26】

باب

باب : چھپ کر خیرات کرنا افضل ہے اور ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ ایک شخص نے صدقہ کیا اور اسے اس طرح چھپایا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تم صدقہ کو ظاہر کر دو تو یہ بھی اچھا ہے اور اگر پوشیدہ طور پر دو اور دو فقراء کو تو یہ بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور تمہارے گناہ مٹا دے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح خبردار ہے۔

【27】

باب: اگر لاعلمی میں کسی نے مالدار کو صدقہ دے دیا (تو اس کو ثواب مل جائے گا)۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ‘ ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص نے (بنی اسرائیل میں سے) کہا کہ مجھے ضرور صدقہ (آج رات) دینا ہے۔ چناچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور (ناواقفی سے) ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ آج رات کسی نے چور کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ (آج رات) میں پھر ضرور صدقہ کروں گا۔ چناچہ وہ دوبارہ صدقہ لے کر نکلا اور اس مرتبہ ایک فاحشہ کے ہاتھ میں دے آیا۔ جب صبح ہوئی تو پھر لوگوں میں چرچا ہوا کہ آج رات کسی نے فاحشہ عورت کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا اے اللہ ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے ‘ میں زانیہ کو اپنا صدقہ دے آیا۔ اچھا آج رات پھر ضرور صدقہ نکالوں گا۔ چناچہ اپنا صدقہ لیے ہوئے وہ پھر نکلا اور اس مرتبہ ایک مالدار کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں کی زبان پر ذکر تھا کہ ایک مالدار کو کسی نے صدقہ دے دیا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ ! حمد تیرے ہی لیے ہے۔ میں اپنا صدقہ (لاعلمی سے) چور ‘ فاحشہ اور مالدار کو دے آیا۔ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) بتایا گیا کہ جہاں تک چور کے ہاتھ میں صدقہ چلے جانے کا سوال ہے۔ تو اس میں اس کا امکان ہے کہ وہ چوری سے رک جائے۔ اسی طرح فاحشہ کو صدقہ کا مال مل جانے پر اس کا امکان ہے کہ وہ زنا سے رک جائے اور مالدار کے ہاتھ میں پڑجانے کا یہ فائدہ ہے کہ اسے عبرت ہو اور پھر جو اللہ عزوجل نے اسے دیا ہے ‘ وہ خرچ کرے۔

【28】

باب: اگر باپ ناواقفی سے اپنے بیٹے کو خیرات دیدے کہ اس کو معلوم نہ ہو؟

ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم اسرائیل بن یونس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوجویریہ (حطان بن خفاف) نے بیان کیا کہ معن بن یزید نے ان سے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے والد اور دادا (اخفش بن حبیب) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ آپ نے میری منگنی بھی کرائی اور آپ ہی نے نکاح بھی پڑھایا تھا اور میں آپ کی خدمت میں ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوا تھا۔ وہ یہ کہ میرے والد یزید نے کچھ دینار خیرات کی نیت سے نکالے اور ان کو انہوں نے مسجد میں ایک شخص کے پاس رکھ دیا۔ میں گیا اور میں نے ان کو اس سے لے لیا۔ پھر جب میں انہیں لے کر والد صاحب کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا کہ قسم اللہ کی میرا ارادہ تجھے دینے کا نہیں تھا۔ یہی مقدمہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور آپ نے یہ فیصلہ دیا کہ دیکھو یزید جو تم نے نیت کی تھی اس کا ثواب تمہیں مل گیا اور معن ! جو تو نے لے لیا وہ اب تیرا ہوگیا۔

【29】

باب: خیرات داہنے ہاتھ سے دینی بہتر ہے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا عبیداللہ عمری سے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے حفص بن عاصم سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے (عرش کے) سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ انصاف کرنے والا حاکم ‘ وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جوان ہوا ہو ‘ وہ شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہے ‘ دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں ‘ اسی پر وہ جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے ‘ ایسا شخص جسے کسی خوبصورت اور عزت دار عورت نے بلایا لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ‘ وہ انسان جو صدقہ کرے اور اسے اس درجہ چھپائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ شخص جو اللہ کو تنہائی میں یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بہنے لگ جائیں۔

【30】

باب: خیرات داہنے ہاتھ سے دینی بہتر ہے۔

ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے معبد بن خالد نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے حارثہ بن وہب خزاعی (رض) سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ‘ آپ ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ کیا کرو پس عنقریب ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب آدمی اپنا صدقہ لے کر نکلے گا (کوئی اسے قبول کرلے مگر جب وہ کسی کو دے گا تو وہ) آدمی کہے گا کہ اگر اسے تم کل لائے ہوتے تو میں لے لیتا لیکن آج مجھے اس کی حاجت نہیں رہی۔

【31】

باب: اس کے بارے میں کہ جس نے اپنے خدمت گار کو صدقہ دینے کا حکم دیا اور خود اپنے ہاتھ سے نہیں دیا۔

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ‘ ان سے منصور نے۔ ان سے شقیق نے ‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر عورت اپنے شوہر کے مال سے کچھ خرچ کرے اور اس کی نیت شوہر کی پونجی برباد کرنے کی نہ ہو تو اسے خرچ کرنے کا ثواب ملے گا اور شوہر کو بھی اس کا ثواب ملے گا اس نے کمایا ہے اور خزانچی کا بھی یہی حکم ہے۔ ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کرتا۔

【32】

باب: صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد بھی آدمی مالدار ہی رہ جائے (بالکل خالی ہاتھ نہ ہو بیٹھے)۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہیں یونس نے، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی ‘ انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بہترین خیرات وہ ہے جس کے دینے کے بعد آدمی مالدار رہے۔ پھر صدقہ پہلے انہیں دو جو تمہاری زیر پرورش ہیں۔

【33】

باب: صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد بھی آدمی مالدار ہی رہ جائے (بالکل خالی ہاتھ نہ ہو بیٹھے)۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے بیان کیا ‘ ان سے حکیم بن حزام (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے انہیں دو جو تمہارے بال بچے اور عزیز ہیں اور بہترین صدقہ وہ ہے جسے دے کر آدمی مالدار رہے اور جو کوئی سوال سے بچنا چاہے گا اسے اللہ تعالیٰ بھی محفوظ رکھتا ہے اور جو دوسروں (کے مال) سے بےنیاز رہتا ہے ‘ اسے اللہ تعالیٰ بےنیاز ہی بنا دیتا ہے۔ اور وہیب نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام نے اپنے والد سے بیان کیا ‘ ان سے ابوہریرہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی بیان فرمایا۔

【34】

باب: صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد بھی آدمی مالدار ہی رہ جائے (بالکل خالی ہاتھ نہ ہو بیٹھے)۔

اور وہیب نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام نے اپنے والد سے بیان کیا ‘ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی بیان فرمایا۔

【35】

باب: صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد بھی آدمی مالدار ہی رہ جائے (بالکل خالی ہاتھ نہ ہو بیٹھے)۔

باب : جو دے کر احسان جتائے اس کی مذمت کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ اپنا مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ انہوں نے خرچ کیا ہے اس کی وجہ سے نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ تکلیف دیتے ہیں۔

【36】

باب: خیرات کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔

ہم سے ابوعاصم نبیل نے عمر بن سعید سے بیان کیا ‘ ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ عقبہ بن حارث (رض) نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کی نماز ادا کی پھر جلدی سے آپ ﷺ گھر میں تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد باہر تشریف لے آئے۔ اس پر میں نے پوچھا یا کسی اور نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں گھر کے اندر صدقہ کے سونے کا ایک ٹکڑا چھوڑ آیا تھا مجھے یہ بات پسند نہیں آئی کہ اسے تقسیم کئے بغیر رات گزاروں پس میں نے اس کو بانٹ دیا۔

【37】

باب: لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دلانا اور اس کے لیے سفارش کرنا۔

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عدی بن ثابت نے بیان کیا ‘ ان سے سعید بن جبیر نے ‘ ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ عید کے دن نکلے۔ پس آپ ﷺ نے (عیدگاہ میں) دو رکعت نماز پڑھائی۔ نہ آپ ﷺ نے اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد۔ پھر آپ ﷺ عورتوں کی طرف آئے۔ بلال (رض) آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ انہیں آپ ﷺ نے وعظ و نصیحت کی اور ان کو صدقہ کرنے کے لیے حکم فرمایا۔ چناچہ عورتیں کنگن اور بالیاں (بلال (رض) کے کپڑے میں) ڈالنے لگیں۔

【38】

باب: لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دلانا اور اس کے لیے سفارش کرنا۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوبردہ بن عبداللہ بن ابی بردہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوبردہ بن ابی موسیٰ نے بیان کیا ‘ اور ان سے ان کے باپ ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اگر کوئی مانگنے والا آتا یا آپ ﷺ کے سامنے کوئی حاجت پیش کی جاتی تو آپ ﷺ صحابہ کرام سے فرماتے کہ تم سفارش کرو کہ اس کا ثواب پاؤ گے اور اللہ پاک اپنے نبی کی زبان سے جو فیصلہ چاہے گا وہ دے گا۔

【39】

باب: لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دلانا اور اس کے لیے سفارش کرنا۔

ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبدہ نے ہشام سے خبر دی ’ انہیں ان کی بیوی فاطمہ بنت منذر نے اور ان سے اسماء (رض) نے بیان کیا کہ مجھ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خیرات کو مت روک ورنہ تیرا رزق بھی روک دیا جائے گا۔

【40】

جہاں تک ہوسکے خیرات کرنے کا بیان۔

ہم سے ابوعاصم (ابوعاصم ضحاک) نے بیان کیا اور ان سے ابن جریج نے بیان کیا۔ (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ ان سے حجاج بن محمد نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا کہ مجھے ابن ابی ملیکہ نے خبر دی ‘ انہیں عباد بن عبداللہ بن زبیر نے اسماء بنت ابی بکر (رض) سے خبر دی کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ہاں آئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (مال کو) تھیلی میں بند کر کے نہ رکھنا ورنہ اللہ پاک بھی تمہارے لیے اپنے خزانے میں بندش لگا دے گا۔ جہاں تک ہو سکے لوگوں میں خیر خیرات تقسیم کرتی رہ۔

【41】

باب: صدقہ خیرات سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے جریر نے اعمش سے بیان کیا ‘ ان سے ابو وائل نے ‘ انہوں نے حذیفہ بن یمان (رض) سے کہ عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی حدیث آپ لوگوں میں کس کو یاد ہے ؟ حذیفہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے کہا میں اس طرح یاد رکھتا ہوں جس طرح نبی کریم ﷺ نے اس کو بیان فرمایا تھا۔ اس پر عمر (رض) نے فرمایا کہ تمہیں اس کے بیان پر جرات ہے۔ اچھا تو نبی کریم ﷺ نے فتنوں کے بارے میں کیا فرمایا تھا ؟ میں نے کہا کہ (آپ ﷺ نے فرمایا تھا ) انسان کی آزمائش (فتنہ) اس کے خاندان ‘ اولاد اور پڑوسیوں میں ہوتی ہے اور نماز ‘ صدقہ اور اچھی باتوں کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے منع کرنا اس فتنے کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ اعمش نے کہا ابو وائل کبھی یوں کہتے تھے۔ نماز اور صدقہ اور اچھی باتوں کا حکم دینا بری بات سے روکنا ‘ یہ اس فتنے کو مٹا دینے والے نیک کام ہیں۔ پھر اس فتنے کے متعلق عمر (رض) نے فرمایا کہ میری مراد اس فتنہ سے نہیں۔ میں اس فتنے کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا پھیلے گا۔ حذیفہ (رض) نے بیان کیا ‘ میں نے کہا کہ امیرالمؤمنین آپ اس فتنے کی فکر نہ کیجئے آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ عمر (رض) نے پوچھا کہ وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا صرف کھولا جائے گا۔ انہوں نے بتلایا نہیں بلکہ وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا۔ اس پر عمر (رض) نے فرمایا کہ جب دروازہ توڑ دیا جائے گا تو پھر کبھی بھی بند نہ ہو سکے گا ابو وائل نے کہا کہ ہاں پھر ہم رعب کی وجہ سے حذیفہ (رض) سے یہ نہ پوچھ سکے کہ وہ دروازہ کون ہے ؟ اس لیے ہم نے مسروق سے کہا کہ تم پوچھو۔ انہوں نے کہا کہ مسروق (رح) نے پوچھا تو حذیفہ (رض) نے فرمایا کہ دروازہ سے مراد خود عمر (رض) ہی تھے۔ ہم نے پھر پوچھا تو کیا عمر (رض) جانتے تھے کہ آپ کی مراد کون تھی ؟ انہوں نے کہا ہاں جیسے دن کے بعد رات کے آنے کو جانتے ہیں اور یہ اس لیے کہ میں نے جو حدیث بیان کی وہ غلط نہیں تھی۔

【42】

باب: اس بارے میں کہ جس نے شرک کی حالت میں صدقہ دیا اور پھر اسلام لے آیا۔

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی ‘ انہیں عروہ نے اور ان سے حکیم بن حزام (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ان نیک کاموں سے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں جنہیں میں جاہلیت کے زمانہ میں صدقہ ‘ غلام آزاد کرنے اور صلہ رحمی کی صورت میں کیا کرتا تھا۔ کیا ان کا مجھے ثواب ملے گا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی ان تمام نیکیوں کے ساتھ اسلام لائے ہو جو پہلے گزر چکی ہیں۔

【43】

باب: خادم نوکر کا ثواب، جب وہ مالک کے حکم کے مطابق خیرات دے اور کوئی بگاڑ کی نیت نہ ہو۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر نے اعمش سے بیان کیا ‘ ان سے ابو وائل نے ‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب بیوی اپنے خاوند کے کھانے میں سے کچھ صدقہ کرے اور اس کی نیت اسے برباد کرنے کی نہیں ہوتی تو اسے بھی اس کا ثواب ملتا ہے اور اس کے خاوند کو کمانے کا ثواب ملتا ہے۔ اسی طرح خزانچی کو بھی اس کا ثواب ملتا ہے۔

【44】

باب: خادم نوکر کا ثواب، جب وہ مالک کے حکم کے مطابق خیرات دے اور کوئی بگاڑ کی نیت نہ ہو۔

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے برید بن عبداللہ نے ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا خازن مسلمان امانتدار جو کچھ بھی خرچ کرتا ہے اور بعض دفعہ فرمایا وہ چیز پوری طرح دیتا ہے جس کا اسے سرمایہ کے مالک کی طرف سے حکم دیا گیا اور اس کا دل بھی اس سے خوش ہے اور اسی کو دیا ہے جسے دینے کے لیے مالک نے کہا تھا تو وہ دینے والا بھی صدقہ دینے والوں میں سے ایک ہے۔

【45】

باب: عورت کا ثواب جب وہ اپنے شوہر کی چیز میں سے صدقہ دے یا کسی کو کھلائے اور ارادہ گھر بگاڑنے کا نہ ہو۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے منصور بن معمر اور اعمش دونوں نے بیان کیا ‘ ان سے ابو وائل نے ‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے نبی کریم ﷺ کے حوالہ سے کہ جب کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر (کے مال) سے صدقہ کرے۔ (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور مجھ سے عمر بن حفص نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ ان سے ابو وائل شقیق نے ‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب بیوی اپنے شوہر کے مال میں سے کسی کو کھلائے اور اس کا ارادہ گھر کو بگاڑنے کا بھی نہ ہو تو اسے اس کا ثواب ملتا ہے اور شوہر کو بھی ویسا ہی ثواب ملتا ہے اور خزانچی کو بھی ویسا ہی ثواب ملتا ہے۔ شوہر کو کمانے کی وجہ سے ثواب ملتا ہے اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے۔

【46】

باب: عورت کا ثواب جب وہ اپنے شوہر کی چیز میں سے صدقہ دے یا کسی کو کھلائے اور ارادہ گھر بگاڑنے کا نہ ہو۔

(دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے عمر بن حفص نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ ان سے ابووائل شقیق نے ‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بیوی اپنے شوہر کے مال میں سے کسی کو کھلائے اور اس کا ارادہ گھر کو بگاڑنے کا بھی نہ ہو تو اسے اس کا ثواب ملتا ہے اور شوہر کو بھی ویسا ہی ثواب ملتا ہے اور خزانچی کو بھی ویسا ہی ثواب ملتا ہے۔ شوہر کو کمانے کی وجہ سے ثواب ملتا ہے اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے۔

【47】

باب: عورت کا ثواب جب وہ اپنے شوہر کی چیز میں سے صدقہ دے یا کسی کو کھلائے اور ارادہ گھر بگاڑنے کا نہ ہو۔

ہم سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے منصور سے بیان کیا، ان سے ابو وائل شقیق نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جب عورت اپنے گھر کے کھانے کی چیز سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور اس کا ارادہ گھر کو بگاڑنے کا نہ ہو تو اسے اس کا ثواب ملے گا اور شوہر کو کمانے کا ثواب ملے گا ‘ اسی طرح خزانچی کو بھی ایسا ہی ثواب ملے گا۔

【48】

باب: (سورۃ واللیل میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس نے (اللہ کے راستے میں) دیا اور اس کا خوف اختیار کیا اور اچھائیوں کی (یعنی اسلام کی) تصدیق کی تو ہم اس کے لیے آسانی کی جگہ یعنی جنت آسان کر دیں گے۔ لیکن جس نے بخل کیا اور بے پروائی برتی اور اچھائیوں (یعنی اسلام کو) جھٹلایا تو اسے ہم دشواریوں میں (یعنی دوزخ میں) پھنسا دیں گے۔

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے میرے بھائی ابوبکر بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان بن بلال نے ‘ ان سے معاویہ بن ابی مزرد نے ‘ ان سے ابوالحباب سعید بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ ! ممسک اور بخیل کے مال کو تلف کر دے۔

【49】

باب: صدقہ دینے والے کی اور بخیل کی مثال کا بیان۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ طاؤس نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ایسے دو شخصوں کی طرح ہے جن کے بدن پر لوہے کے دو کرتے ہیں۔ (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں ابوالزناد نے خبر دی کہ عبداللہ بن ہرمز اعرج نے ان سے بیان کیا اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا اور ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ کو یہ کہتے سنا کہ بخیل اور خرچ کرنے والے کی مثال ایسے دو شخصوں کی سی ہے جن کے بدن پر لوہے کے دو کرتے ہوں چھاتیوں سے ہنسلی تک۔ خرچ کرنے کا عادی (سخی) خرچ کرتا ہے تو اس کے تمام جسم کو (وہ کرتہ) چھپا لیتا ہے یا (راوی نے یہ کہا کہ) تمام جسم پر وہ پھیل جاتا ہے اور اس کی انگلیاں اس میں چھپ جاتی ہے اور چلنے میں اس کے پاؤں کا نشان مٹتا جاتا ہے۔ لیکن بخیل جب بھی خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کرتے کا ہر حلقہ اپنی جگہ سے چمٹ جاتا ہے۔ بخیل اسے کشادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ کشادہ نہیں ہو پاتا۔ عبداللہ بن طاؤس کے ساتھ اس حدیث کو حسن بن مسلم نے بھی طاؤس سے روایت کیا ‘ اس میں دو کرتے ہیں۔ اور حنظلہ نے طاؤس سے دو زرہیں نقل کیا ہے اور لیث بن سعد نے کہا مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عبدالرحمٰن بن ہر مز سے سنا کہا کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا انہوں نے نبی کریم ﷺ سے پھر یہی حدیث بیان کی اس میں دو زرہیں ہیں۔

【50】

باب: صدقہ دینے والے کی اور بخیل کی مثال کا بیان۔

باب : محنت اور سوداگری کے مال میں سے خیرات کرنا ثواب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ البقرہ میں) فرمایا يا أيها الذين آمنوا أنفقوا من طيبات ما کسبتم‏ اے ایمان والو ! اپنی کمائی کی عمدہ پاک چیزوں میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو اور ان میں سے بھی جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہیں۔ آخر آیت غني حميد‏ تک۔

【51】

باب: ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے اگر (کوئی چیز دینے کے لیے) نہ ہو تو اس کے لیے اچھی بات پر عمل کرنا یا اچھی بات دوسرے کو بتلا دینا بھی خیرات ہے۔

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سعید بن ابی بردہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ ابوبردہ نے ان کے دادا ابوموسیٰ اشعری سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے نبی ! اگر کسی کے پاس کچھ نہ ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اپنے ہاتھ سے کچھ کما کر خود کو بھی نفع پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ لوگوں نے کہا اگر اس کی طاقت نہ ہو ؟ فرمایا کہ پھر کسی حاجت مند فریادی کی مدد کرے۔ لوگوں نے کہا اگر اس کی بھی سکت نہ ہو۔ فرمایا پھر اچھی بات پر عمل کرے اور بری باتوں سے باز رہے۔ اس کا یہی صدقہ ہے۔

【52】

باب: زکوٰۃ یا صدقہ میں کتنا مال دینا درست ہے اور اگر کسی نے ایک پوری بکری دے دی؟

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوشہاب نے بیان کیا ‘ ان سے خالد حذاء نے ‘ ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ (رض) نے کہ نسیبہ نامی ایک انصاری عورت کے ہاں کسی نے ایک بکری بھیجی (یہ نسیبہ نامی انصاری عورت خود ام عطیہ (رض) ہی کا نام ہے) ۔ اس بکری کا گوشت انہوں نے عائشہ (رض) کے یہاں بھی بھیج دیا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس کھانے کو کوئی چیز ہے ؟ عائشہ (رض) نے کہا کہ اور تو کوئی چیز نہیں البتہ اس بکری کا گوشت جو نسیبہ (رض) نے بھیجا تھا ‘ وہ موجود ہے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہی لاؤ اب اس کا کھانا درست ہوگیا۔

【53】

باب: زکوٰۃ میں (چاندی سونے کے سوا اور) اسباب کا لینا۔

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن یحییٰ نے خبر دی ‘ انہوں نے ابو سعید خدری (رض) سے سنا اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اسی حدیث کو سنا۔

【54】

باب: زکوٰۃ میں (چاندی سونے کے سوا اور) اسباب کا لینا۔

ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا۔ کہا کہ مجھ سے میرے والد عبداللہ بن مثنی نے بیان کیا۔ کہا کہ مجھ سے ثمامہ بن عبداللہ نے بیان کیا۔ ان سے انس (رض) نے کہ ابوبکر صدیق (رض) نے انہیں (اپنے دور خلافت میں فرض زکوٰۃ سے متعلق ہدایت دیتے ہوئے) اللہ اور رسول کے حکم کے مطابق یہ فرمان لکھا کہ جس کا صدقہ بنت مخاض تک پہنچ گیا ہو اور اس کے پاس بنت مخاض نہیں بلکہ بنت لبون ہے۔ تو اس سے وہی لے لیا جائے گا اور اس کے بدلہ میں صدقہ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں زائد دیدے گا اور اگر اس کے پاس بنت مخاض نہیں ہے بلکہ ابن لبون ہے تو یہ ابن لبون ہی لے لیا جائے گا اور اس صورت میں کچھ نہیں دیا جائے گا ‘ وہ مادہ یا نر اونٹ جو تیسرے سال میں لگا ہو۔

【55】

باب: زکوٰۃ میں (چاندی سونے کے سوا اور) اسباب کا لینا۔

ہم سے مؤمل بن ہشام نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اسماعیل نے ایوب سے بیان کیا اور ان سے عطاء بن ابی رباح نے کہ ابن عباس (رض) نے بتلایا اس وقت میں موجود تھا جب رسول اللہ ﷺ نے خطبہ سے پہلے نماز (عید) پڑھی۔ پھر آپ ﷺ نے دیکھا کہ عورتوں تک آپ ﷺ کی آواز نہیں پہنچی ‘ اس لیے آپ ﷺ ان کے پاس بھی آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال (رض) تھے جو اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے عورتوں کو وعظ سنایا اور ان سے صدقہ کرنے کے لیے فرمایا اور عورتیں (اپنا صدقہ بلال (رض) کے کپڑے میں) ڈالنے لگیں۔ یہ کہتے وقت ایوب نے اپنے کان اور گلے کی طرف اشارہ کیا۔

【56】

باب: زکوٰۃ لیتے وقت جو مال جدا جدا ہوں وہ اکٹھے نہ کئے جائیں اور جو اکٹھے ہوں وہ جدا جدا نہ کیے جائیں۔

ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ ابوبکر (رض) نے انہیں وہی چیز لکھی تھی جسے رسول اللہ ﷺ نے ضروری قرار دیا تھا۔ یہ کہ زکوٰۃ (کی زیادتی) کے خوف سے جدا جدا مال کو یکجا اور یکجا مال کو جدا جدا نہ کیا جائے۔

【57】

باب: اگر دو آدمی ساجھی ہوں تو زکوٰۃ کا خرچہ حساب سے برابر برابر ایک دوسرے سے لین دین کر لیں۔

ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے کہ ابوبکر (رض) نے انہیں فرض زکوٰۃ میں وہی بات لکھی تھی جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائی تھی اس میں یہ بھی لکھوایا تھا کہ جب دو شریک ہوں تو وہ اپنا حساب برابر کرلیں۔

【58】

باب: اونٹوں کی زکوٰۃ کا بیان۔

ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ولید بن مسلم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا ‘ ان سے عطاء بن یزید نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت کے متعلق پوچھا (یعنی یہ کہ آپ ﷺ اجازت دیں تو میں مدینہ میں ہجرت کر آؤں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ افسوس ! اس کی تو شان بڑی ہے۔ کیا تیرے پاس زکوٰۃ دینے کے لیے کچھ اونٹ ہیں جن کی تو زکوٰۃ دیا کرتا ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں ! اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر کیا ہے سمندروں کے اس پار (جس ملک میں تو رہے وہاں) عمل کرتا رہ اللہ تیرے کسی عمل کا ثواب کم نہیں کرے گا۔

【59】

باب: جس کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ زکوٰۃ میں ایک برس کی اونٹنی دینا ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو۔

ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے کہ ابوبکر (رض) نے ان کے پاس فرض زکوٰۃ کے ان فریضوں کے متعلق لکھا تھا جن کا اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا ہے۔ یہ کہ جس کے اونٹوں کی زکوٰۃ جذعہ تک پہنچ جائے اور وہ جذعہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو اس سے زکوٰۃ میں حقہ ہی لے لیا جائے گا لیکن اس کے ساتھ دو بکریاں بھی لی جائیں گی ‘ اگر ان کے دینے میں اسے آسانی ہو ورنہ بیس درہم لیے جائیں گے۔ (تاکہ حقہ کی کمی پوری ہوجائے) اور اگر کسی پر زکوٰۃ میں حقہ واجب ہو اور حقہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ ہی لے لیا جائے گا اور زکوٰۃ وصول کرنے والا زکوٰۃ دینے والے کو بیس درہم یا دو بکریاں دے گا اور اگر کسی پر زکوٰۃ حقہ کے برابر واجب ہوگئی اور اس کے پاس صرف بنت لبون ہے تو اس سے بنت لبون لے لی جائے گی اور زکوٰۃ دینے والے کو دو بکریاں یا بیس درہم ساتھ میں اور دینے پڑیں گے اور اگر کسی پر زکوٰۃ بنت لبون واجب ہو اور اس کے پاس حقہ ہو تو حقہ ہی اس سے لے لیا جائے گا اور اس صورت میں زکوٰۃ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں زکوٰۃ دینے والے کو دے گا اور کسی کے پاس زکوٰۃ میں بنت لبون واجب ہوا اور بنت لبون اس کے پاس نہیں بلکہ بنت مخاض ہے تو اس سے بنت مخاض ہی لے لیا جائے گا۔ لیکن زکوٰۃ دینے والا اس کے ساتھ بیس درہم یا دو بکریاں دے گا۔

【60】

باب: بکریوں کی زکوٰۃ کا بیان۔

ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنیٰ انصاری نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ ابوبکر (رض) نے جب انہیں بحرین (کا حاکم بنا کر) بھیجا تو ان کو یہ پروانہ لکھ دیا۔ شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ زکوٰۃ کا وہ فریضہ ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے لیے فرض قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا۔ اس لیے جو شخص مسلمانوں سے اس پروانہ کے مطابق زکوٰۃ مانگے تو مسلمانوں کو اسے دے دینا چاہیے اور اگر کوئی اس سے زیادہ مانگے تو ہرگز نہ دے۔ چوبیس یا اس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری دینی ہوگی۔ (پانچ سے کم میں کچھ نہیں) لیکن جب اونٹوں کی تعداد پچیس تک پہنچ جائے تو پچیس سے پینتیس تک ایک ایک برس کی اونٹنی واجب ہوگی جو مادہ ہوتی ہے۔ جب اونٹ کی تعداد چھتیس تک پہنچ جائے (تو چھتیس سے) پینتالیس تک دو برس کی مادہ واجب ہوگی۔ جب تعداد چھیالیس تک پہنچ جائے (تو چھیالیس سے) ساٹھ تک میں تین برس کی اونٹنی واجب ہوگی جو جفتی کے قابل ہوتی ہے۔ جب تعداد اکسٹھ تک پہنچ جائے (تو اکسٹھ سے) پچھتر تک چار برس کی مادہ واجب ہوگی۔ جب تعداد چھہتر تک پہنچ جائے (تو چھہتر سے) نوے تک دو دو برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی۔ جب تعداد اکیانوے تک پہنچ جائے تو (اکیانوے سے) ایک سو بیس تک تین تین برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی جو جفتی کے قابل ہوں۔ پھر ایک سو بیس سے بھی تعداد آگے بڑھ جائے تو ہر چالیس پر دو برس کی اونٹنی واجب ہوگی اور ہر پچاس پر ایک تین برس کی۔ اور اگر کسی کے پاس چار اونٹ سے زیادہ نہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی مگر جب ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دے اور ان بکریوں کی زکوٰۃ جو (سال کے اکثر حصے جنگل یا میدان وغیرہ میں) چر کر گزارتی ہیں اگر ان کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہو تو (چالیس سے) ایک سو بیس تک ایک بکری واجب ہوگی اور جب ایک سو بیس سے تعداد بڑھ جائے (تو ایک سو بیس سے) سے دو سو تک دو بکریاں واجب ہوں گی۔ اگر دو سو سے بھی تعداد بڑھ جائے تو (تو دو سو سے) تین سو تک تین بکریاں واجب ہوں گی اور جب تین سو سے بھی تعداد آگے نکل جائے تو اب ہر ایک سو پر ایک بکری واجب ہوگی۔ اگر کسی شخص کی چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر اپنی خوشی سے مالک کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ اور چاندی میں زکوٰۃ چالیسواں حصہ واجب ہوگی لیکن اگر کسی کے پاس ایک سو نوے (درہم) سے زیادہ نہیں ہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر خوشی سے کچھ اگر مالک دینا چاہیے تو اور بات ہے۔

【61】

باب: زکوٰۃ میں بوڑھا یا عیب دار یا نر جانور نہ لیا جائے گا مگر جب زکوٰۃ وصول کرنے والا مناسب سمجھے تو لے سکتا ہے۔

ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ ابوبکر (رض) نے انہیں رسول اللہ ﷺ کے بیان کردہ احکام زکوٰۃ کے مطابق لکھا کہ زکوٰۃ میں بوڑھے، عیبی اور نر نہ لیے جائیں ‘ البتہ اگر صدقہ وصول کرنے والا مناسب سمجھے تو لے سکتا ہے۔

【62】

باب: بکری کا بچہ زکوٰۃ میں لینا۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی اور انہیں زہری نے (دوسری سند) اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن خالد نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے کہ ابوہریرہ (رض) نے بتلایا کہ ابوبکر (رض) نے (نبی کریم ﷺ کی وفات کے فوراً بعد زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے والوں کے متعلق فرمایا تھا) قسم اللہ کی اگر یہ مجھے بکری کے ایک بچہ کو بھی دینے سے انکار کریں گے جسے یہ رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں ان کے اس انکار پر ان سے جہاد کروں گا۔ عمر (رض) نے فرمایا اس کے سوا اور کوئی بات نہیں تھی جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کو جہاد کے لیے شرح صدر عطا فرمایا تھا اور پھر میں نے بھی یہی سمجھا کہ فیصلہ انہیں کا حق تھا۔

【63】

اس کے سوا اور کوئی بات نہیں تھی جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جہاد کے لیے «شرح صدر» عطا فرمایا تھا اور پھر میں نے بھی یہی سمجھا کہ فیصلہ انہیں کا حق تھا۔

【64】

باب: پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔

ہم عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ مازنی نے ‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں ابو سعید خدری (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پانچ وسق سے کم کھجوروں میں زکوٰۃ نہیں اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں۔ اسی طرح پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔

【65】

باب: گائے بیل کی زکوٰۃ کا بیان۔

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے معرور بن سوید سے بیان کیا ‘ ان سے ابوذر (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے قریب پہنچ گیا تھا اور آپ ﷺ فرما رہے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا (آپ ﷺ نے قسم اس طرح کھائی) اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یا جن الفاظ کے ساتھ بھی آپ نے قسم کھائی ہو (اس تاکید کے بعد فرمایا) کوئی بھی ایسا شخص جس کے پاس اونٹ گائے یا بکری ہو اور وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اسے لایا جائے گا۔ دنیا سے زیادہ بڑی اور موٹی تازہ کر کے۔ پھر وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندے گی اور سینگ مارے گی۔ جب آخری جانور اس پر سے گزر جائے گا تو پہلا جانور پھر لوٹ کر آئے گا۔ (اور اسے اپنے سینگ مارے گا اور کھروں سے روندے گا) اس وقت تک (یہ سلسلہ برابر قائم رہے گا) جب تک لوگوں کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ اس حدیث کو بکیر بن عبداللہ نے ابوصالح سے روایت کیا ہے ‘ انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ باب اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا اور نبی کریم ﷺ نے (زینب کے حق میں فرمایا جو عبداللہ بن مسعود کی بیوی تھی) اس کو دو گنا ثواب ملے گا ‘ ناطہٰ جوڑنے اور صدقے کا۔

【66】

میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اس طرح کھائی ) اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یا جن الفاظ کے ساتھ بھی آپ نے قسم کھائی ہو ( اس تاکید کے بعد فرمایا ) کوئی بھی ایسا شخص جس کے پاس اونٹ گائے یا بکری ہو اور وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اسے لایا جائے گا۔ دنیا سے زیادہ بڑی اور موٹی تازہ کر کے۔ پھر وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندے گی اور سینگ مارے گی۔ جب آخری جانور اس پر سے گزر جائے گا تو پہلا جانور پھر لوٹ کر آئے گا۔ ( اور اسے اپنے سینگ مارے گا اور کھروں سے روندے گا ) اس وقت تک ( یہ سلسلہ برابر قائم رہے گا ) جب تک لوگوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ اس حدیث کو بکیر بن عبداللہ نے ابوصالح سے روایت کیا ہے ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ باب اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( زینب کے حق میں فرمایا جو عبداللہ بن مسعود کی بیوی تھی ) اس کو دو گنا ثواب ملے گا ‘ ناطہٰ جوڑنے اور صدقے کا۔

【67】

باب: اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے امام مالک (رح) نے بیان کیا ‘ ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ‘ کہ انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ ابوطلحہ (رض) مدینہ میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار تھے۔ اپنے کھجور کے باغات کی وجہ سے۔ اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ پسند انہیں بیرحاء کا باغ تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏ یعنی تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ یہ سن کر ابوطلحہ (رض) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پاسکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ اور مجھے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پیارا ہے۔ اس لیے میں اسے اللہ تعالیٰ کے لیے خیرات کرتا ہوں۔ اس کی نیکی اور اس کے ذخیرہ آخرت ہونے کا امیدوار ہوں۔ اللہ کے حکم سے جہاں آپ ﷺ مناسب سمجھیں اسے استعمال کیجئے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ خوب ! یہ تو بڑا ہی آمدنی کا مال ہے۔ یہ تو بہت ہی نفع بخش ہے۔ اور جو بات تم نے کہی میں نے وہ سن لی۔ اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو دے ڈالو۔ ابوطلحہ (رض) نے کہا۔ یا رسول اللہ ! میں ایسا ہی کروں گا۔ چناچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں کو دے دیا۔ عبداللہ بن یوسف کے ساتھ اس روایت کی متابعت روح نے کی ہے۔ یحییٰ بن یحییٰ اور اسماعیل نے مالک کے واسطہ سے ( رابح کے بجائے) رائح نقل کیا ہے۔

【68】

باب: اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا۔

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی ‘ انہیں عیاض بن عبداللہ نے ‘ اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا ‘ کہ رسول اللہ ﷺ عید الاضحی یا عیدالفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ پھر (نماز کے بعد) لوگوں کو وعظ فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا۔ فرمایا : لوگو ! صدقہ دو ۔ پھر آپ ﷺ عورتوں کی طرف گئے اور ان سے بھی یہی فرمایا کہ عورتو ! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں بکثرت تم ہی کو دیکھا ہے۔ عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! ایسا کیوں ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ‘ اس لیے کہ تم لعن وطعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے تم سے زیادہ عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کار آزمودہ مرد کی عقل کو بھی اپنی مٹھی میں لے لیتی ہو۔ ہاں اے عورتو ! پھر آپ ﷺ واپس گھر پہنچے تو ابن مسعود (رض) کی بیوی زینب (رض) آئیں اور اجازت چاہی۔ آپ ﷺ سے کہا گیا کہ یہ زینب آئی ہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کون سی زینب (کیونکہ زینب نام کی بہت سی عورتیں تھیں) کہا گیا کہ ابن مسعود (رض) کی بیوی۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اچھا انہیں اجازت دے دو ‘ چناچہ اجازت دے دی گئی۔ انہوں نے آ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آج آپ نے صدقہ کا حکم دیا تھا۔ اور میرے پاس بھی کچھ زیور ہے جسے میں صدقہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن (میرے خاوند) ابن مسعود (رض) یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے لڑکے اس کے ان (مسکینوں) سے زیادہ مستحق ہیں جن پر میں صدقہ کروں گی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ ابن مسعود (رض) نے صحیح کہا۔ تمہارے شوہر اور تمہارے لڑکے اس صدقہ کے ان سے زیادہ مستحق ہیں جنہیں تم صدقہ کے طور پر دو گی۔ (معلوم ہوا کہ اقارب اگر محتاج ہوں تو صدقہ کے اولین مستحق وہی ہیں) ۔

【69】

باب: مسلمان پر اس کے گھوڑوں کی زکوٰۃ دینا ضروری نہیں ہے۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے سلیمان بن یسار سے سنا ‘ ان سے عراک بن مالک نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مسلمان پر اس کے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ واجب نہیں۔

【70】

باب: مسلمان کو اپنے غلام (لونڈی) کی زکوٰۃ دینی ضروری نہیں ہے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے خثیم بن عراک بن مالک نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ کے حوالہ سے (دوسری سند) اور ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خثیم بن عراک بن مالک نے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مسلمان پر نہ اس کے غلام میں زکوٰۃ فرض ہے اور نہ گھوڑے میں۔

【71】

باب: یتیموں پر صدقہ کرنا بڑا ثواب ہے۔

ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ہشام دستوائی نے ‘ یحییٰ سے بیان کیا۔ ان سے ہلال بن ابی میمونہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عطاء بن یسار نے بیان کیا ‘ اور انہوں نے ابو سعید خدری (رض) سے سنا ‘ وہ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ ہم بھی آپ ﷺ کے اردگرد بیٹھ گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے متعلق اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا کی خوشحالی اور اس کی زیبائش و آرائش کے دروازے کھول دئیے جائیں گے۔ ایک شخص نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! کیا اچھائی برائی پیدا کرے گی ؟ اس پر نبی کریم ﷺ خاموش ہوگئے۔ اس لیے اس شخص سے کہا جانے لگا کہ کیا بات تھی۔ تم نے نبی کریم ﷺ سے ایک بات پوچھی لیکن نبی کریم ﷺ تم سے بات نہیں کرتے۔ پھر ہم نے محسوس کیا کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے پسینہ صاف کیا (جو وحی نازل ہوتے وقت آپ ﷺ کو آنے لگتا تھا) پھر پوچھا کہ سوال کرنے والے صاحب کہاں ہیں۔ ہم نے محسوس کیا کہ آپ ﷺ نے اس کے (سوال کی) تعریف کی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھائی برائی نہیں پیدا کرتی (مگر بےموقع استعمال سے برائی پیدا ہوتی ہے) کیونکہ موسم بہار میں بعض ایسی گھاس بھی اگتی ہیں جو جان لیوا یا تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں۔ البتہ ہریالی چرنے والا وہ جانور بچ جاتا ہے کہ خوب چرتا ہے اور جب اس کی دونوں کوکھیں بھر جاتی ہیں تو سورج کی طرف رخ کر کے پاخانہ پیشاب کردیتا ہے اور پھر چرتا ہے۔ اسی طرح یہ مال و دولت بھی ایک خوشگوار سبزہ زار ہے۔ اور مسلمان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جو مسکین ‘ یتیم اور مسافر کو دیا جائے۔ یا جس طرح نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ہاں اگر کوئی شخص زکوٰۃ حقدار ہونے کے بغیر لیتا ہے تو اس کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو کھاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اور قیامت کے دن یہ مال اس کے خلاف گواہ ہوگا۔

【72】

باب: عورت کا خود اپنے شوہر کو یا اپنی زیر تربیت یتیم بچوں کو زکوٰۃ دینا۔

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ ان سے شقیق نے ‘ ان سے عمرو بن الحارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب (رض) نے۔ (اعمش نے) کہا کہ میں نے اس حدیث کا ذکر ابراہیم نحعی سے کیا۔ تو انہوں نے بھی مجھ سے ابوعبیدہ سے بیان کیا۔ ان سے عمرو بن حارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب نے ‘ بالکل اسی طرح حدیث بیان کی (جس طرح شقیق نے کی کہ) زینب (رض) نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں تھی۔ رسول اللہ ﷺ کو میں نے دیکھا۔ آپ ﷺ یہ فرما رہے تھے ‘ صدقہ کرو ‘ خواہ اپنے زیور ہی میں سے دو ۔ اور زینب اپنا صدقہ اپنے شوہر عبداللہ بن مسعود (رض) اور چند یتیموں پر بھی جو ان کی پرورش میں تھے خرچ کیا کرتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے خاوند سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے پوچھئے کہ کیا وہ صدقہ بھی مجھ سے کفایت کرے گا جو میں آپ پر اور ان چند یتیموں پر خرچ کروں جو میری سپردگی میں ہیں۔ لیکن عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا کہ تم خود جا کر رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لو۔ آخر میں خود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس وقت میں نے آپ ﷺ کے دروازے پر ایک انصاری خاتون کو پایا۔ جو میری ہی جیسی ضرورت لے کر موجود تھیں۔ (جو زینب ابومسعود انصاری کی بیوی تھیں) پھر ہمارے سامنے سے بلال گذرے۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے یہ مسئلہ دریافت کیجئے کہ کیا وہ صدقہ مجھ سے کفایت کرے گا جسے میں اپنے شوہر اور اپنی زیر تحویل چند یتیم بچوں پر خرچ کر دوں۔ ہم نے بلال سے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ لینا۔ وہ اندر گئے اور آپ ﷺ سے عرض کیا کہ دو عورتیں مسئلہ دریافت کرتی ہیں۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ دونوں کون ہیں ؟ بلال (رض) نے کہہ دیا کہ زینب نام کی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کون سی زینب ؟ بلال (رض) نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ! بیشک درست ہے۔ اور انہیں دو گنا ثواب ملے گا۔ ایک قرابت داری کا اور دوسرا خیرات کرنے کا۔

【73】

باب: عورت کا خود اپنے شوہر کو یا اپنی زیر تربیت یتیم بچوں کو زکوٰۃ دینا۔

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدہ نے ‘ ان سے ہشام نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ نے ‘ ان سے زینب بنت ام سلمہ نے ‘ ان سے ام سلمہ نے ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ ! اگر میں ابوسلمہ (اپنے پہلے خاوند) کے بیٹوں پر خرچ کروں تو درست ہے یا نہیں۔ کیونکہ وہ میری بھی اولاد ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ان پر خرچ کر۔ تو جو کچھ بھی ان پر خرچ کرے گی اس کا ثواب تجھ کو ملے گا۔

【74】

باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان (زکوٰۃ کے مصارف بیان کرتے ہوئے کہ زکوٰۃ) غلام آزاد کرانے میں، مقروضوں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کے راستے میں خرچ کی جائے۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے اعرج سے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا۔ پھر آپ ﷺ سے کہا گیا کہ ابن جمیل اور خالد بن ولید اور عباس بن عبدالمطلب نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابن جمیل یہ شکر نہیں کرتا کہ کل تک وہ فقیر تھا۔ پھر اللہ نے اپنے رسول کی دعا کی برکت سے اسے مالدار بنادیا۔ باقی رہے خالد ‘ تو ان پر تم لوگ ظلم کرتے ہو۔ انہوں نے تو اپنی زرہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کر رکھی ہیں۔ اور عباس بن عبدالمطلب ‘ تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں۔ اور ان کی زکوٰۃ انہی پر صدقہ ہے۔ اور اتنا ہی اور انہیں میری طرف سے دینا ہے۔ اس روایت کی متابعت ابوالزناد نے اپنے والد سے کی اور ابن اسحاق نے ابوالزناد سے یہ الفاظ بیان کیے۔ هي عليه ومثلها معها (صدقہ کے لفظ کے بغیر) اور ابن جریج نے کہا کہ مجھ سے اعرج سے اسی طرح یہ حدیث بیان کی گئی۔

【75】

باب: سوال سے بچنے کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں امام مالک نے ‘ ابن شہاب سے خبر دی ‘ انہیں عطاء بن یزید لیثی نے اور انہیں ابو سعید خدری (رض) نے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپ ﷺ نے انہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور آپ ﷺ نے پھر دیا۔ یہاں تک کہ جو مال آپ ﷺ کے پاس تھا۔ اب وہ ختم ہوگیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس جو مال و دولت ہو تو میں اسے بچا کر نہیں رکھوں گا۔ مگر جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے۔ اور جو شخص بےنیازی برتتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بےنیاز بنا دیتا ہے اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر بھی صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے صبر و استقلال دے دیتا ہے۔ اور کسی کو بھی صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بےپایاں خیر نہیں ملی۔ (صبر تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے) ۔

【76】

باب: سوال سے بچنے کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں امام مالک (رح) نے خبر دی ‘ انہیں ابوالزناد نے ‘ انہیں اعرج نے ‘ انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی شخص رسی سے لکڑیوں کا بوجھ باندھ کر اپنی پیٹھ پر جنگل سے اٹھا لائے (پھر انہیں بازار میں بیچ کر اپنا رزق حاصل کرے) تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو کسی کے پاس آ کر سوال کرے۔ پھر جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اسے دے یا نہ دے۔

【77】

باب: سوال سے بچنے کا بیان۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے ‘ ان سے زبیر بن عوام (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اگر (ضرورت مند ہو تو) اپنی رسی لے کر آئے اور لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے۔ اور اسے بیچے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی عزت کو محفوظ رکھ لے تو یہ اس سے اچھا ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے ‘ اسے وہ دیں یا نہ دیں۔

【78】

باب: سوال سے بچنے کا بیان۔

ہم سے عبد ان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں یونس نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں عروہ بن زبیر اور سعید بن مسیب نے کہ حکیم بن حزام (رض) نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا۔ آپ ﷺ نے عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور آپ ﷺ نے پھر عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا آپ ﷺ نے پھر بھی عطا فرمایا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ اے حکیم ! یہ دولت بڑی سرسبز اور بہت ہی شیریں ہے۔ لیکن جو شخص اسے اپنے دل کو سخی رکھ کرلے تو اس کی دولت میں برکت ہوتی ہے۔ اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کی دولت میں کچھ بھی برکت نہیں ہوگی۔ اس کا حال اس شخص جیسا ہوگا جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا (یاد رکھو) اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم بن حزام (رض) نے کہا ‘ کہ میں نے عرض کی اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اب اس کے بعد میں کسی سے کوئی چیز نہیں لوں گا۔ تاآنکہ اس دنیا ہی سے میں جدا ہوجاؤں۔ چناچہ ابوبکر (رض) حکیم (رض) کو ان کا معمول دینے کو بلاتے تو وہ لینے سے انکار کردیتے۔ پھر عمر (رض) نے بھی انہیں ان کا حصہ دینا چاہا تو انہوں نے اس کے لینے سے انکار کردیا۔ اس پر عمر (رض) نے فرمایا کہ مسلمانو ! میں تمہیں حکیم بن حزام کے معاملہ میں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کا حق انہیں دینا چاہا لیکن انہوں نے لینے سے انکار کردیا۔ غرض حکیم بن حزام (رض) رسول اللہ ﷺ کے بعد اسی طرح کسی سے بھی کوئی چیز لینے سے ہمیشہ انکار ہی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وفات پا گئے۔ عمر (رض) مال فے یعنی ملکی آمدنی سے ان کا حصہ ان کو دینا چاہتے تھے مگر انہوں نے وہ بھی نہیں لیا۔

【79】

باب: اگر اللہ پاک کسی کو بن مانگے اور بن دل لگائے اور امیدوار رہے کوئی چیز دلا دے (تو اس کو لے لے)۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے یونس نے ‘ ان سے زہری نے ‘ ان سے سالم نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ میں نے عمر (رض) سے سنا وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ مجھے کوئی چیز عطا فرماتے تو میں عرض کرتا کہ آپ ﷺ مجھ سے زیادہ محتاج کو دے دیجئیے۔ لیکن نبی کریم ﷺ فرماتے کہ لے لو ‘ اگر تمہیں کوئی ایسا مال ملے جس پر تمہارا خیال نہ لگا ہوا ہو اور نہ تم نے اسے مانگا ہو تو اسے قبول کرلیا کرو۔ اور جو نہ ملے تو اس کی پرواہ نہ کرو اور اس کے پیچھے نہ پڑو۔

【80】

باب: اگر کوئی شخص اپنی دولت بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرے؟

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عبیداللہ بن ابی جعفر نے کہا ‘ کہ میں نے حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی ہمیشہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اس کے چہرے پر ذرا بھی گوشت نہ ہوگا۔

【81】

قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہو جائے گا کہ پسینہ آدھے کان تک پہنچ جائے گا۔ لوگ اسی حال میں اپنی مخلصی کے لیے آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے۔ اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ عبداللہ نے اپنی روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابن ابی جعفر نے بیان کیا ‘ کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کریں گے کہ مخلوق کا فیصلہ کیا جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھیں گے اور جنت کے دروازے کا حلقہ تھام لیں گے۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ آپ کو ”مقام محمود“ عطا فرمائے گا۔ جس کی تمام اہل محشر تعریف کریں گے۔ اور معلی بن اسد نے کہا کہ ہم سے وہیب نے نعمان بن راشد سے بیان کیا ‘ ان سے زہری کے بھائی عبداللہ بن مسلم نے ‘ ان سے حمزہ بن عبداللہ نے ‘ اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر اتنی ہی حدیث بیان کی جو سوال کے باب میں ہے۔

【82】

باب: (سورۃ البقرہ میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ”جو لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے“ اور کتنے مال سے آدمی مالدار کہلاتا ہے۔

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے محمد بن زیاد نے خبر دی انہوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مسکین وہ نہیں جسے ایک دو لقمے در در پھرائیں۔ مسکین تو وہ ہے جس کے پاس مال نہیں۔ لیکن اسے سوال سے شرم آتی ہے اور وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتا (مسکین وہ جو کمائے مگر بقدر ضرورت نہ پا سکے) ۔

【83】

باب: (سورۃ البقرہ میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ”جو لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے“ اور کتنے مال سے آدمی مالدار کہلاتا ہے۔

ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا ‘ ان سے ابن اشوع نے ‘ ان سے عامر شعبی نے۔ کہا کہ مجھ سے مغیرہ بن شعبہ (رض) کے منشی وراد نے بیان کیا۔ کہ معاویہ (رض) نے مغیرہ بن شعبہ (رض) کو لکھا کہ انہیں کوئی ایسی حدیث لکھئے جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو۔ مغیرہ (رض) نے لکھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتا۔ بلاوجہ کی گپ شپ، فضول خرچی اور لوگوں سے بہت مانگنا۔

【84】

باب: (سورۃ البقرہ میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ”جو لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے“ اور کتنے مال سے آدمی مالدار کہلاتا ہے۔

ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے اپنے باپ سے بیان کیا ‘ ان سے صالح بن کیسان نے ان سے ابن شہاب نے ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص سے خبر دی۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے چند اشخاص کو کچھ مال دیا۔ اسی جگہ میں بھی بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے شخص کو چھوڑ دیا اور انہیں کچھ نہیں دیا۔ حالانکہ ان لوگوں میں وہی مجھے زیادہ پسند تھا۔ آخر میں نے رسول اللہ ﷺ کے قریب جا کر چپکے سے عرض کیا ‘ فلاں شخص کو آپ نے کچھ بھی نہیں دیا ؟ واللہ میں اسے مومن خیال کرتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ یا مسلمان ؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں تھوڑی دیر تک خاموش رہا۔ لیکن میں ان کے متعلق جو کچھ جانتا تھا اس نے مجھے مجبور کیا ‘ اور میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ ! آپ فلاں شخص سے کیوں خفا ہیں ‘ واللہ ! میں اسے مومن سمجھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ‘ یا مسلمان ؟ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص کو دیتا ہوں (اور دوسرے کو نظر انداز کرجاتا ہوں) حالانکہ وہ دوسرا میری نظر میں پہلے سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔ کیونکہ (جس کو میں دیتا ہوں نہ دینے کی صورت میں) مجھے ڈر اس بات کا رہتا ہے کہ کہیں اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔ اور (یعقوب بن ابراہیم) اپنے والد سے ‘ وہ صالح سے ‘ وہ اسماعیل بن محمد سے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ وہ یہی حدیث بیان کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے اپنا ہاتھ میری گردن اور مونڈھے کے بیچ میں مارا۔ اور فرمایا۔ سعد ! ادھر سنو۔ میں ایک شخص کو دیتا ہوں۔ آخر حدیث تک۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ (قرآن مجید میں لفظ) كبکبوا‏ اوندھے لٹا دینے کے معنی میں ہے۔ اور سورة الملک میں جو مكبا‏ کا لفظ ہے وہ أكب سے نکلا ہے۔ أكب لازم ہے یعنی اوندھا گرا۔ اور اس کا متعدی كب ہے۔ کہتے ہیں کہ كبه الله لوجهه یعنی اللہ نے اسے اوندھے منہ گرا دیا۔ اور کببته یعنی میں نے اس کو اوندھا گرایا۔ امام بخاری (رح) نے کہا صالح بن کیسان عمر میں زہری سے بڑے تھے وہ عبداللہ بن عمر (رض) سے ملے ہیں۔

【85】

باب: (سورۃ البقرہ میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ”جو لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے“ اور کتنے مال سے آدمی مالدار کہلاتا ہے۔

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک (رح) نے ابوالزناد سے بیان کیا ‘ ان سے اعرج نے ‘ اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کا چکر کاٹتا پھرتا ہے تاکہ اسے دو ایک لقمہ یا دو ایک کھجور مل جائیں۔ بلکہ اصلی مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہیں کہ وہ اس کے ذریعہ سے بےپرواہ ہوجائے۔ اس حال میں بھی کسی کو معلوم نہیں کہ کوئی اسے صدقہ ہی دیدے اور نہ وہ خود ہاتھ پھیلانے کے لیے اٹھتا ہے۔

【86】

باب: (سورۃ البقرہ میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ”جو لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے“ اور کتنے مال سے آدمی مالدار کہلاتا ہے۔

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوصالح ذکوان نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے ‘ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنی رسی لے کر (میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے یوں فرمایا) پہاڑوں میں چلا جائے پھر لکڑیاں جمع کر کے انہیں فروخت کرے۔ اس سے کھائے بھی اور صدقہ بھی کرے۔ یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔

【87】

باب: کھجور کا درختوں پر اندازہ کر لینا درست ہے۔

ہم سے سہل بن بکار نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے ‘ ان سے عمرو بن یحییٰ نے ‘ ان سے عباس بن سہل ساعدی نے ‘ ان سے ابو حمید ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ ہم غزوہ تبوک کے لیے نبی کریم ﷺ کے ساتھ جا رہے تھے۔ جب آپ ﷺ وادی قریٰ (مدینہ منورہ اور شام کے درمیان ایک قدیم آبادی) سے گزرے تو ہماری نظر ایک عورت پر پڑی جو اپنے باغ میں کھڑی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ اس کے پھلوں کا اندازہ لگاؤ (کہ اس میں کتنی کھجور نکلے گی) نبی کریم ﷺ نے دس وسق کا اندازہ لگایا۔ پھر اس عورت سے فرمایا کہ یاد رکھنا اس میں سے جتنی کھجور نکلے۔ جب ہم تبوک پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی اس لیے کوئی شخص کھڑا نہ رہے۔ اور جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اسے باندھ دیں۔ چناچہ ہم نے اونٹ باندھ لیے۔ اور آندھی بڑے زور کی آئی۔ ایک شخص کھڑا ہوا تھا۔ تو ہوا نے اسے جبل طے پر جا پھینکا۔ اور ایلہ کے حاکم (یوحنا بن روبہ) نے نبی کریم ﷺ کو سفید خچر اور ایک چادر کا تحفہ بھیجا۔ نبی کریم ﷺ نے تحریری طور پر اسے اس کی حکومت پر برقرار رکھا پھر جب وادی قریٰ (واپسی میں) پہنچے تو آپ ﷺ نے اسی عورت سے پوچھا کہ تمہارے باغ میں کتنا پھل آیا تھا اس نے کہا کہ آپ ﷺ کے اندازہ کے مطابق دس وسق آیا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں مدینہ جلد جانا چاہتا ہوں۔ اس لیے جو کوئی میرے ساتھ جلدی چلنا چاہے وہ میرے ساتھ جلد روانہ ہو پھر جب (ابن بکار امام بخاری (رح) کے شیخ نے ایک ایسا جملہ کہا جس کے معنے یہ تھے) کہ مدینہ دکھائی دینے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ہے طابہ ! پھر آپ ﷺ نے احد پہاڑ دیکھا تو فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں انصار کے سب سے اچھے خاندان کی نشاندہی نہ کروں ؟ صحابہ نے عرض کی کہ ضرور کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بنو نجار کا خاندان۔ پھر بنو عبدالاشہل کا خاندان، پھر بنو ساعدہ کا یا (یہ فرمایا کہ) بنی حارث بن خزرج کا خاندان۔ اور فرمایا کہ انصار کے تمام ہی خاندانوں میں خیر ہے ‘ ابوعبداللہ (قاسم بن سلام) نے کہا کہ جس باغ کی چہار دیواری ہو اسے حدیقہ کہیں گے۔ اور جس کی چہار دیواری نہ ہو اسے حدیقہ نہیں کہیں گے۔ اور سلیمان بن بلال نے کہا کہ مجھ سے عمرو نے اس طرح بیان کیا کہ پھر بنی حارث بن خزرج کا خاندان اور پھر بنو ساعدہ کا خاندان۔ اور سلیمان نے سعد بن سعید سے بیان کیا ‘ ان سے عمارہ بن غزنیہ نے ‘ ان سے عباس نے ‘ ان سے ان کے باپ (سہل) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا احد وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔

【88】

احد وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔

【89】

باب: اس زمین کی پیداوار سے دسواں حصہ لینا ہو گا جس کی سیرابی بارش یا جاری (نہر ‘ دریا وغیرہ) پانی سے ہوئی ہو۔

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے یونس بن یزید نے خبر دی ‘ انہیں شہاب نے ‘ انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر نے ‘ انہیں ان کے والد نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ وہ زمین جسے آسمان (بارش کا پانی) یا چشمہ سیراب کرتا ہو۔ یا وہ خودبخود نمی سے سیراب ہوجاتی ہو تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ لیا جائے اور وہ زمین جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو تو اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ لیا جائے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ یہ حدیث یعنی عبداللہ بن عمر (رض) کی حدیث کہ جس کھیتی میں آسمان کا پانی دیا جائے ‘ دسواں حصہ ہے پہلی حدیث یعنی ابوسعید کی حدیث کی تفسیر ہے۔ اس میں زکوٰۃ کی کوئی مقدار مذکور نہیں ہے اور اس میں مذکور ہے۔ اور زیادتی قبول کی جاتی ہے۔ اور گول مول حدیث کا حکم صاف صاف حدیث کے موافق لیا جاتا ہے۔ جب اس کا راوی ثقہ ہو۔ جیسے فضل بن عباس (رض) نے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی۔ لیکن بلال (رض) نے بتلایا کہ آپ ﷺ نے نماز (کعبہ میں) پڑھی تھی۔ اس موقع پر بھی بلال (رض) کی بات قبول کی گئی اور فضل (رض) کا قول چھوڑ دیا گیا۔

【90】

باب: پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک (رح) نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے محمد بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے، اور پانچ مہار اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ اور چاندی کے پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔

【91】

باب: کھجور کے پھل توڑنے کے وقت زکوٰۃ لی جائے اور زکوٰۃ کی کھجور کو بچے کا ہاتھ لگانا یا اس میں سے کچھ کھا لینا۔

ہم سے عمر بن محمد بن حسن اسدی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن زیاد نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس توڑنے کے وقت زکوٰۃ کی کھجور لائی جاتی، ہر شخص اپنی زکوٰۃ لاتا اور نوبت یہاں تک پہنچتی کہ کھجور کا ایک ڈھیر لگ جاتا۔ (ایک مرتبہ) حسن اور حسین (رض) ایسی ہی کھجوروں سے کھیل رہے تھے کہ ایک نے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جونہی دیکھا تو ان کے منہ سے وہ کھجور نکال لی۔ اور فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ محمد ﷺ کی اولاد زکوٰۃ کا مال نہیں کھا سکتی۔

【92】

باب: جو شخص اپنا میوہ یا کھجور کا درخت یا کھیت بیچ ڈالے حالانکہ اس میں دسواں حصہ یا زکوٰۃ واجب ہو چکی ہو اب وہ اپنے دوسرے مال سے یہ زکوٰۃ ادا کرے تو یہ درست ہے یا وہ میوہ بیچے جس میں صدقہ واجب ہی نہ ہوا ہو۔

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے عبداللہ بن دینار نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے ابن عمر (رض) سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے کھجور کو (درخت پر) اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک اس کی پختگی ظاہر نہ ہو۔ اور ابن عمر (رض) سے جب پوچھتے کہ اس کی پختگی کیا ہے، وہ کہتے کہ جب یہ معلوم ہوجائے کہ اب یہ پھل آفت سے بچ رہے گا۔

【93】

باب: جو شخص اپنا میوہ یا کھجور کا درخت یا کھیت بیچ ڈالے حالانکہ اس میں دسواں حصہ یا زکوٰۃ واجب ہو چکی ہو اب وہ اپنے دوسرے مال سے یہ زکوٰۃ ادا کرے تو یہ درست ہے یا وہ میوہ بیچے جس میں صدقہ واجب ہی نہ ہوا ہو۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے خالد بن یزید نے بیان کیا ‘ ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے پھل کو اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا جب تک ان کی پختگی کھل نہ جائے۔

【94】

باب: جو شخص اپنا میوہ یا کھجور کا درخت یا کھیت بیچ ڈالے حالانکہ اس میں دسواں حصہ یا زکوٰۃ واجب ہو چکی ہو اب وہ اپنے دوسرے مال سے یہ زکوٰۃ ادا کرے تو یہ درست ہے یا وہ میوہ بیچے جس میں صدقہ واجب ہی نہ ہوا ہو۔

ہم سے قتیبہ نے امام مالک سے بیان کیا ‘ ان سے حمید نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب تک پھل پر سرخی نہ آجائے ‘ انہیں بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ مراد یہ ہے کہ جب تک وہ پک کر سرخ نہ ہوجائیں۔

【95】

باب: کیا آدمی اپنی چیز کو جو صدقہ میں دی ہو پھر خرید سکتا ہے؟

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے سالم نے کہ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے تھے کہ عمر بن خطاب (رض) نے ایک گھوڑا اللہ کے راستہ میں صدقہ کیا۔ پھر اسے آپ نے دیکھا کہ وہ بازار میں فروخت ہو رہا ہے۔ اس لیے ان کی خواہش ہوئی کہ اسے وہ خود ہی خرید لیں۔ اور اجازت لینے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنا صدقہ واپس نہ لو۔ اسی وجہ سے اگر ابن عمر (رض) اپنا دیا ہوا کوئی صدقہ خرید لیتے ‘ تو پھر اسے صدقہ کردیتے تھے۔ (اپنے استعمال میں نہ رکھتے تھے۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے) ۔

【96】

باب: کیا آدمی اپنی چیز کو جو صدقہ میں دی ہو پھر خرید سکتا ہے؟

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں امام مالک بن انس نے خبر دی ‘ انہیں زید بن اسلم نے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا ‘ کہ میں نے عمر (رض) کو یہ کہتے سنا کہ انہوں نے ایک گھوڑا اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ایک شخص کو سواری کے لیے دے دیا۔ لیکن اس شخص نے گھوڑے کو خراب کردیا۔ اس لیے میں نے چاہا کہ اسے خرید لوں۔ میرا یہ بھی خیال تھا کہ وہ اسے سستے داموں بیچ ڈالے گا۔ چناچہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنا صدقہ واپس نہ لو۔ خواہ وہ تمہیں ایک درہم ہی میں کیوں نہ دے کیونکہ دیا ہوا صدقہ واپس لینے والے کی مثال قے کر کے چاٹنے والے کی سی ہے۔

【97】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر صدقہ کا حرام ہونا۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن زیاد نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ حسن بن علی (رض) نے زکوٰۃ کی کھجوروں کے ڈھیر سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ چھی چھی ! نکالو اسے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگ صدقہ کا مال نہیں کھاتے۔

【98】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی لونڈیوں اور غلاموں کو صدقہ دینا درست ہے۔

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ‘ ان سے یونس نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے میمونہ (رض) کی باندی کو جو بکری صدقہ میں کسی نے دی تھی وہ مری ہوئی دیکھی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ اس کے چمڑے کو کیوں نہیں کام میں لائے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو مردہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ حرام تو صرف اس کا کھانا ہے۔

【99】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی لونڈیوں اور غلاموں کو صدقہ دینا درست ہے۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے حکم بن عتبہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابراہیم نخعی نے ‘ ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ ان کا ارادہ ہوا کہ بریرہ (رض) کو (جو باندی تھیں) آزاد کردینے کے لیے خرید لیں۔ لیکن اس کے اصل مالک یہ چاہتے تھے کہ ولاء انہیں کے لیے رہے۔ اس کا ذکر عائشہ (رض) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم خرید کر آزاد کر دو ‘ ولاء تو اسی کی ہوتی ہے ‘ جو آزاد کرے۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا۔ میں نے کہا کہ یہ بریرہ (رض) کو کسی نے صدقہ کے طور پر دیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے صدقہ تھا۔ لیکن اب ہمارے لیے یہ ہدیہ ہے۔

【100】

باب: جب صدقہ محتاج کی ملکیت ہو جائے۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا ‘ ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ انصاریہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) کے یہاں تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس کچھ ہے ؟ عائشہ (رض) نے جواب دیا کہ نہیں کوئی چیز نہیں۔ ہاں نسیبہ (رض) کا بھیجا ہوا اس بکری کا گوشت ہے جو انہیں صدقہ کے طور پر ملی ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا لاؤ خیرات تو اپنے ٹھکانے پہنچ گئی۔

【101】

باب: جب صدقہ محتاج کی ملکیت ہو جائے۔

ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے وکیع نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ قتادہ سے اور وہ انس (رض) سے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں وہ گوشت پیش کیا گیا جو بریرہ (رض) کو صدقہ کے طور پر ملا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کو یہ گوشت ان پر صدقہ تھا۔ لیکن ہمارے لیے یہ ہدیہ ہے۔ ابوداؤد نے کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی۔ انہیں قتادہ نے کہ انہوں نے انس (رض) سے سنا وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے تھے۔

【102】

باب: مالداروں سے زکوٰۃ وصول کی جائے اور فقراء پر خرچ کر دی جائے خواہ وہ کہیں بھی ہوں۔

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں زکریا ابن اسحاق نے خبر دی ‘ انہیں یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی نے ‘ انہیں ابن عباس (رض) کے غلام ابومعبد نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ (رض) کو جب یمن بھیجا ‘ تو ان سے فرمایا کہ تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں۔ اس لیے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( ﷺ ) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ وہ اس بات میں جب تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ دینا ضروری قرار دیا ہے ‘ یہ ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔ پھر جب وہ اس میں بھی تمہاری بات مان لیں تو ان کے اچھے مال لینے سے بچو اور مظلوم کی آہ سے ڈرو کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔

【103】

باب: امام (حاکم) کی طرف سے زکوٰۃ دینے والے کے حق میں دعائے خیر و برکت کرنا۔

ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے عمرو بن مرہ سے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) نے بیان کیا کہ جب کوئی قوم اپنی زکوٰۃ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتی تو آپ ﷺ ان کے لیے دعا فرماتے اللهم صل على آل فلان اے اللہ ! آل فلاں کو خیر و برکت عطا فرما ‘ میرے والد بھی اپنی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللهم صل على آل أبي أوفى اے اللہ ! آل ابی اوفی کو خیر و برکت عطا فرما۔

【104】

باب: جو مال سمندر سے نکالا جائے۔

باب : جو مال سمندر سے نکالا جائے اور عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا کہ عنبر کو رکاز نہیں کہہ سکتے۔ عنبر تو ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے۔ اور امام حسن بصری (رح) نے کہا عنبر اور موتی میں پانچواں حصہ لازم ہے۔ حالانکہ نبی کریم ﷺ نے رکاز میں پانچواں حصہ مقرر فرمایا ہے۔ تو رکاز اس کو نہیں کہتے جو پانی میں ملے۔ اور لیث نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عبدالرحمٰن بن ہرمز سے ‘ انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے ‘ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے دوسرے بنی اسرائیل کے شخص سے ہزار اشرفیاں قرض مانگیں۔ اس نے اللہ کے بھروسے پر اس کو دے دیں۔ اب جس نے قرض لیا تھا وہ سمندر پر گیا کہ سوار ہوجائے اور قرض خواہ کا قرض ادا کرے لیکن سواری نہ ملی۔ آخر اس نے قرض خواہ تک پہنچنے سے ناامید ہو کر ایک لکڑی لی اس کو کریدا اور ہزار اشرفیاں اس میں بھر کر وہ لکڑی سمندر میں پھینک دی۔ اتفاق سے قرض خواہ کام کاج کو باہر نکلا ‘ سمندر پر پہنچا تو ایک لکڑی دیکھی اور اس کو گھر میں جلانے کے خیال سے لے آیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔ جب لکڑی کو چیرا تو اس میں اشرفیاں پائیں۔

【105】

باب: رکاز میں پانچواں حصہ واجب ہے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے ‘ ان سے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جانور سے جو نقصان پہنچے اس کا کچھ بدلہ نہیں اور کنویں کا بھی یہی حال ہے اور کان کا بھی یہی حکم ہے اور رکاز میں سے پانچواں حصہ لیا جائے۔

【106】

باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ میں فرمایا زکوٰۃ کے تحصیلداروں کو بھی زکوٰۃ سے دیا جائے گا۔

ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ (عروہ بن زبیر) نے بیان کیا ‘ ان سے ابو حمید ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی اسد کے ایک شخص عبداللہ بن لتبیہ کو بنی سلیم کی زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر فرمایا۔ جب وہ آئے تو آپ ﷺ نے ان سے حساب لیا۔

【107】

باب: زکوٰۃ کے اونٹوں سے مسافر لوگ کام لے سکتے ہیں اور ان کا دودھ پی سکتے ہیں۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے انس (رض) نے کہ عرینہ کے کچھ لوگوں کو مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس کی اجازت دے دی کہ وہ زکوٰۃ کے اونٹوں میں جا کر ان کا دودھ اور پیشاب استعمال کریں (کیونکہ وہ ایسے مرض میں مبتلا تھے جس کی دوا یہی تھی) لیکن انہوں نے (ان اونٹوں کے) چرواہے کو مار ڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ نکلے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے آخر وہ لوگ پکڑ لائے گئے۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کٹوا دئیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا دیں پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا (جس کی شدت کی وجہ سے) وہ پتھر چبانے لگے تھے۔ اس روایت کی متابعت ابوقلابہ ثابت اور حمید نے انس (رض) کے واسطہ سے کی ہے۔

【108】

باب: زکوٰۃ کے اونٹوں پر حاکم کا اپنے ہاتھ سے داغ دینا۔

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ولید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوعمرو اوزاعی نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن ابی طلحہ کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ آپ ﷺ ان کی تحنیک کردیں۔ (یعنی اپنے منہ سے کوئی چیز چبا کر ان کے منہ میں ڈال دیں) میں نے اس وقت دیکھا کہ آپ ﷺ کے ہاتھ میں داغ لگانے کا آلہ تھا اور آپ ﷺ زکوٰۃ کے اونٹوں پر داغ لگا رہے تھے۔

【109】

باب: صدقہ فطر کا فرض ہونا۔

ہم سے یحییٰ بن محمد بن سکن نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جھضم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا ‘ ان سے عمر بن نافع نے ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فطر کی زکوٰۃ (صدقہ فطر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دی تھی۔ غلام ‘ آزاد ‘ مرد ‘ عورت ‘ چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ ﷺ کا حکم یہ تھا کہ نماز (عید) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کردیا جائے۔

【110】

باب: صدقہ فطر کا مسلمانوں پر یہاں تک کہ غلام لونڈی پر بھی فرض ہونا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں نافع نے ‘ اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فطر کی زکوٰۃ آزاد یا غلام ‘ مرد یا عورت تمام مسلمانوں پر ایک صاع کھجور یا جَو فرض کی تھی۔

【111】

باب: صدقہ فطر میں اگر جَو دے تو ایک صاع ادا کرے۔

ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے زید بن اسلم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عیاض بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ ہم ایک صاع جَو کا صدقہ دیا کرتے تھے۔

【112】

باب: گیہوں یا دوسرا اناج بھی صدقہ فطر میں ایک صاع ہونا چاہیے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا ‘ ان سے عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح عامری نے بیان کیا ‘ کہ انہوں نے ابو سعید خدری (رض) سے سنا۔ آپ فرماتے تھے کہ ہم فطرہ کی زکوٰۃ ایک صاع اناج یا گیہوں یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا انجیر) نکالا کرتے تھے۔

【113】

باب: صدقہ فطر میں کھجور بھی ایک صاع نکالی جائے۔

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو کی زکوٰۃ فطر دینے کا حکم فرمایا تھا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ پھر لوگوں نے اسی کے برابر دو مد (آدھا صاع) گیہوں کرلیا تھا۔

【114】

باب: صدقہ فطر میں منقیٰ بھی ایک صاع دینا چاہیے۔

ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے یزید بن ابی حکیم عدنی سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا خشک انجیر) نکالتے تھے۔ پھر جب معاویہ (رض) مدینہ میں آئے اور گیہوں کی آمدنی ہوئی تو کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مد دوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے۔

【115】

باب: صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا کرنا۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے حفص بن میسرہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے صدقہ فطر نماز (عید) کے لیے جانے سے پہلے پہلے نکالنے کا حکم دیا تھا۔

【116】

باب: صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا کرنا۔

ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعمر حفص بن میسرہ نے بیان کیا ‘ ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا ‘ ان سے عیاض بن عبداللہ بن سعد نے ‘ ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں عیدالفطر کے دن (کھانے کے غلہ سے) ایک صاع نکالتے تھے۔ ابوسعید (رض) نے بیان کیا کہ ہمارا کھانا (ان دنوں) جَو، زبیب، پنیر اور کھجور تھا۔

【117】

باب: صدقہ فطر آزاد اور غلام پر واجب ہونا۔

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے صدقہ فطر یا یہ کہا کہ صدقہ رمضان مرد، عورت، آزاد اور غلام (سب پر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دیا تھا۔ پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں اس کے برابر قرار دے لیا۔ لیکن ابن عمر (رض) کھجور دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مدینہ میں کھجور کا قحط پڑا تو آپ نے جو صدقہ میں نکالا۔ ابن عمر (رض) چھوٹے بڑے سب کی طرف سے یہاں تک کہ میرے بیٹوں کی طرف سے بھی صدقہ فطر نکالتے تھے۔ ابن عمر (رض) صدقہ فطر ہر فقیر کو جو اسے قبول کرتا، دے دیا کرتے تھے۔ اور لوگ صدقہ فطر ایک یا دو دن پہلے ہی دے دیا کرتے تھے۔ امام بخاری (رح) نے کہا میرے بیٹوں سے نافع کے بیٹے مراد ہیں۔ امام بخاری (رح) نے کہا وہ عید سے پہلے جو صدقہ دے دیتے تھے تو اکٹھا ہونے کے لیے نہ فقیروں کے لیے (پھر وہ جمع کر کے فقراء میں تقسیم کردیا جاتا) ۔

【118】

باب: صدقہ فطر بڑوں اور چھوٹوں پر واجب ہے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ قطان نے عبیداللہ عمری کے واسطے سے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور کا صدقہ فطر، چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام سب پر فرض قرار دیا۔