28. کفالہ کا بیان

【1】

باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ نساء میں) یہ ارشاد کہ ”جن لوگوں سے تم نے قسم کھا کر عہد کیا ہے، ان کا حصہ ان کو ادا کرو“۔

ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ادریس نے، ان سے طلحہ بن مصرف نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) کہ (قرآن مجید کی آیت ولکل جعلنا موالي‏ ) کے متعلق ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ( موالي‏ کے معنی) ورثہ کے ہیں۔ اور والذين عقدت أيمانکم‏ (کا قصہ یہ ہے کہ) مہاجرین جب مدینہ آئے تو مہاجر انصار کا ترکہ پاتے تھے اور انصاری کے ناتہ داروں کو کچھ نہ ملتا۔ اس بھائی پنے کی وجہ سے جو نبی کریم ﷺ کی قائم کی ہوئی تھی۔ پھر جب آیت ولکل جعلنا موالي‏ ہوئی تو پہلی آیت والذين عقدت أيمانکم‏ منسوخ ہوگئی۔ سوا امداد، تعاون اور خیر خواہی کے۔ البتہ میراث کا حکم (جو انصار و مہاجرین کے درمیان مواخاۃ کی وجہ سے تھا) وہ منسوخ ہوگیا اور وصیت جتنی چاہے کی جاسکتی ہے۔ (جیسی اور شخصوں کے لیے بھی ہوسکتی ہے تہائی ترکہ میں سے وصیت کی جاسکتی ہے جس کا نفاذ کیا جائے گا۔ )

【2】

باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ نساء میں) یہ ارشاد کہ ”جن لوگوں سے تم نے قسم کھا کر عہد کیا ہے، ان کا حصہ ان کو ادا کرو“۔

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس (رض) نے کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف (رض) ہمارے یہاں آئے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کا بھائی چارہ سعد بن ربیع (رض) سے کرایا تھا۔

【3】

باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ نساء میں) یہ ارشاد کہ ”جن لوگوں سے تم نے قسم کھا کر عہد کیا ہے، ان کا حصہ ان کو ادا کرو“۔

ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن زکریا نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس (رض) سے پوچھا کیا آپ کو یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا، اسلام میں جاہلیت والے (غلط قسم کے) عہد و پیمان نہیں ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے تو خود انصار اور قریش کے درمیان میرے گھر میں عہد و پیمان کرایا تھا۔

【4】

باب: جو شخص کسی میت کے قرض کا ضامن بن جائے تو اس کے بعد اس سے رجوع نہیں کر سکتا۔

ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے، ان سے سلمہ بن اکوع (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کے یہاں نماز پڑھنے کے لیے کسی کا جنازہ آیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا۔ کیا اس میت پر کسی کا قرض تھا ؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھا دی۔ پھر ایک اور جنازہ آیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، میت پر کسی کا قرض تھا ؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تھا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا، کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی نماز پڑھ لو۔ ابوقتادہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ان کا قرض میں ادا کر دوں گا۔ تب آپ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔

【5】

باب: جو شخص کسی میت کے قرض کا ضامن بن جائے تو اس کے بعد اس سے رجوع نہیں کر سکتا۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن علی باقر سے سنا، اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر بحرین سے (جزیہ کا) مال آیا تو میں تمہیں اس طرح دونوں لپ بھربھر کر دوں گا لیکن بحرین سے مال نبی کریم ﷺ کی وفات تک نہیں آیا پھر جب اس کے بعد وہاں سے مال آیا تو ابوبکر (رض) نے اعلان کرا دیا کہ جس سے بھی نبی کریم ﷺ کا کوئی وعدہ ہو یا آپ پر کسی کا قرض ہو وہ ہمارے یہاں آجائے۔ چناچہ میں حاضر ہوا۔ اور میں نے عرض کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے یہ وہ باتیں فرمائی تھیں۔ جسے سن کر ابوبکر (رض) نے مجھے ایک لپ بھر کردیا۔ میں نے اسے شمار کیا تو وہ پانچ سو کی رقم تھی۔ پھر فرمایا کہ اس کے دو گنا اور لے لو۔

【6】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا (ایک مشرک کو) امان دینا اور اس کے ساتھ آپ کا عہد کرنا۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا، اور انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو اسی دین اسلام کا پیروکار پایا۔ اور ابوصالح سلیمان نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا۔ ان سے یونس نے، اور ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کا پیروکار پایا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب رسول اللہ ﷺ ہمارے یہاں صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیف ہونے لگی تو ابوبکر (رض) نے بھی ہجرت حبشہ کا ارادہ کیا۔ جب آپ برک غماد پہنچے تو وہاں آپ کی ملاقات قارہ کے سردار مالک ابن الدغنہ سے ہوئی۔ اس نے پوچھا، ابوبکر ! کہاں کا ارادہ ہے ؟ ابوبکر (رض) نے اس کا جواب یہ دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے۔ اور اب تو یہی ارادہ ہے کہ اللہ کی زمین میں سیر کروں اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہوں۔ اس پر مالک بن الدغنہ نے کہا کہ آپ جیسا انسان (اپنے وطن سے) نہیں نکل سکتا اور نہ اسے نکالا جاسکتا ہے۔ کہ آپ تو محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں۔ مجبوروں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اور حادثوں میں حق بات کی مدد کرتے ہیں۔ آپ کو میں امان دیتا ہوں۔ آپ چلئے اور اپنے ہی شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجئے۔ چناچہ ابن الدغنہ اپنے ساتھ ابوبکر (رض) کو لے کر آیا اور مکہ پہنچ کر کفار قریش کے تمام اشراف کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ ابوبکر جیسا نیک آدمی (اپنے وطن سے) نہیں نکل سکتا۔ اور نہ اسے نکالا جاسکتا ہے۔ کیا تم ایسے شخص کو بھی نکال دو گے جو محتاجوں کے لیے کماتا ہے اور جو صلہ رحمی کرتا ہے اور جو مجبوروں اور کمزوروں کا بوجھ اپنے سر پر لیتا ہے۔ اور جو مہمان نوازی کرتا ہے اور جو حادثوں میں حق بات کی مدد کرتا ہے۔ چناچہ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو مان لیا۔ اور ابوبکر (رض) کو امان دے دی۔ پھر ابن الدغنہ سے کہا کہ ابوبکر کو اس کی تاکید کردینا کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر ہی میں کرلیا کریں۔ وہاں جس طرح چاہیں نماز پڑھیں، اور قرآن کی تلاوت کریں، لیکن ہمیں ان چیزوں کی وجہ سے کوئی ایذا نہ دیں اور نہ اس کا اظہار کریں، کیونکہ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہمارے بچے اور ہماری عورتیں فتنہ میں نہ پڑجائیں۔ ابن الدغنہ نے یہ باتیں جب ابوبکر (رض) کو سنائیں تو آپ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کرنے لگے۔ نہ نماز میں کسی قسم کا اظہار کرتے اور نہ اپنے گھر کے سوا کسی دوسری جگہ تلاوت کرتے۔ پھر ابوبکر صدیق (رض) نے کچھ دنوں بعد ایسا کیا کہ آپ نے اپنے گھر کے سامنے نماز کے لیے ایک جگہ بنا لی۔ اب آپ ظاہر ہو کر وہاں نماز پڑھنے لگے۔ اور اسی پر تلاوت قرآن کرنے لگے۔ پس پھر کیا تھا مشرکین کے بچوں اور ان کی عورتوں کا مجمع لگنے لگا۔ سب حیرت اور تعجب کی نگاہوں سے انہیں دیکھتے۔ ابوبکر (رض) بڑے ہی رونے والے تھے۔ جب قرآن پڑھنے لگتے تو آنسوؤں پر قابو نہ رہتا۔ اس صورت حال سے اکابر مشرکین قریش گھبرائے اور سب نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا۔ ابن الدغنہ ان کے پاس آیا تو ان سب نے کہا کہ ہم نے تو ابوبکر کو اس لیے امان دی تھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کریں گے، لیکن وہ تو زیادتی پر اتر آئے اور گھر کے سامنے نماز پڑھنے کی ایک جگہ بنا لی ہے۔ نماز بھی سب کے سامنے ہی پڑھنے لگے ہیں اور تلاوت بھی سب کے سامنے کرنے لگے ہیں۔ ڈر ہمیں اپنی اولاد اور عورتوں کا ہے کہ کہیں وہ فتنہ میں نہ پڑجائیں۔ اس لیے اب تم ان کے پاس جاؤ۔ اگر وہ اس پر تیار ہوجائیں کہ اپنے رب کی عبادت صرف اپنے گھر کے اندر ہی کریں، پھر تو کوئی بات نہیں، لیکن اگر انہیں اس سے انکار ہو تو تم ان سے کہو کہ وہ تمہاری امان تمہیں واپس کردیں۔ کیونکہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری امان کو ہم توڑ دیں۔ لیکن اس طرح انہیں اظہار اور اعلان بھی کرنے نہیں دیں گے۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ اس کے بعد ابن الدغنہ ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو معلوم ہے وہ شرط جس پر میرا آپ سے عہد ہوا تھا۔ اب یا تو آپ اس شرط کی حدود میں رہیں یا میری امان مجھے واپس کردیں۔ کیونکہ یہ میں پسند نہیں کرتا کہ عرب کے کانوں تک یہ بات پہنچے کہ میں نے ایک شخص کو امان دی تھی لیکن وہ امان توڑ دی گئی۔ ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ میں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں میں تو بس اپنے اللہ کی امان سے خوش ہوں۔ رسول اللہ ﷺ ان دنوں مکہ ہی میں موجود تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے تمہاری ہجرت کا مقام دکھلایا گیا ہے۔ میں نے ایک کھاری نمکین زمین دیکھی ہے۔ جہاں کھجور کے باغات ہیں اور وہ پتھریلے میدانوں کے درمیان میں ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اس کا اظہار فرما دیا تو جن مسلمانوں نے ہجرت کرنی چاہی وہ پہلے ہی مدینہ ہجرت کر کے چلے گئے۔ بلکہ بعض وہ صحابہ بھی جو حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ آگئے۔ ابوبکر صدیق (رض) بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا، جلدی نہ کرو، امید ہے کہ مجھے بھی جلد ہی اجازت مل جائے گی۔ ابوبکر (رض) نے پوچھا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ! کیا آپ کو اس کی امید ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ضرور ! چناچہ ابوبکر صدیق (رض) رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرنے لگے، تاکہ آپ ﷺ کے ساتھ ہجرت کریں۔ ان کے پاس دو اونٹ تھے، انہیں چار مہینے تک وہ ببول کے پتے کھلاتے رہے۔