30. کھیتی اور بٹائی کے متعلق

【1】

باب: کھیت بونے اور درخت لگانے کی فضیلت جس سے لوگ کھائیں۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، (دوسری سند) اور مجھ سے عبدالرحمٰن بن مبارک نے بیان کیا ان سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے مسلم نے بیان کیا کہ ہم سے ابان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، اور ان سے انس (رض) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے۔

【2】

باب: کھیتی کے سامان میں بہت زیادہ مصروف رہنا یا حد سے زیادہ اس میں لگ جانا، اس کا انجام برا ہے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن سالم حمصی نے بیان کیا، ان سے محمد بن زیاد الہانی نے بیان کیا، ان سے ابوامامہ باہلی (رض) نے بیان کیا آپ کی نظر پھالی اور کھیتی کے بعض دوسرے آلات پر پڑی۔ آپ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس قوم کے گھر میں یہ چیز داخل ہوتی ہے تو اپنے ساتھ ذلت بھی لاتی ہے۔

【3】

باب: کھیتی کے لیے کتا پالنا۔

ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جس شخص نے کوئی کتا رکھا، اس نے روزانہ اپنے عمل سے ایک قیراط کی کمی کرلی۔ البتہ کھیتی یا مویشی (کی حفاظت کے لیے) کتے اس سے الگ ہیں۔ ابن سیرین اور ابوصالح نے ابوہریرہ (رض) کے واسطے سے بیان کیا بحوالہ نبی کریم ﷺ کہ بکری کے ریوڑ، کھیتی اور شکار کے کتے الگ ہیں۔ ابوحازم نے کہا ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے کہ شکاری اور مویشی کے کتے (الگ ہیں) ۔

【4】

باب: کھیتی کے لیے کتا پالنا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یزید بن خصیفہ نے، ان سے سائب بن یزید نے بیان کیا کہ سفیان بن زہیر نے ازدشنوہ قبیلے کے ایک بزرگ سے سنا جو نبی کریم ﷺ کے صحابی تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا تھا کہ جس نے کتا پالا، جو نہ کھیتی کے لیے ہے اور نہ مویشی کے لیے، تو اس کی نیکیوں سے روزانہ ایک قیراط کم ہوجاتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سنا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ہاں ! اس مسجد کے رب کی قسم ! (میں نے ضرور آپ ﷺ سے یہ سنا ہے) ۔

【5】

باب: کھیتی کے لیے بیل سے کام لینا۔

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے انہوں نے ابوسلمہ سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (بنی اسرائیل میں سے) ایک شخص بیل پر سوار ہو کر جا رہا تھا کہ اس بیل نے اس کی طرف دیکھا اور اس سوار سے کہا کہ میں اس کے لیے نہیں پیدا ہوا ہوں۔ میری پیدائش تو کھیت جوتنے کے لیے ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس پر ایمان لایا اور ابوبکر اور عمر بھی ایمان لائے۔ اور ایک دفعہ ایک بھیڑئیے نے ایک بکری پکڑ لی تھی تو گڈریے نے اس کا پیچھا کیا۔ بھیڑیا بولا ! آج تو تو اسے بچاتا ہے۔ جس دن (مدینہ اجاڑ ہوگا) درندے ہی درندے رہ جائیں گے۔ اس دن میرے سوا کون بکریوں کا چرانے والا ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس پر ایمان لایا اور ابوبکر اور عمر بھی۔ ابوسلمہ نے کہا کہ ابوبکر اور عمر (رض) اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔

【6】

باب: باغ والا کسی سے کہے کہ تو سب درختوں وغیرہ کی دیکھ بھال کر، تو اور میں پھل میں شریک رہیں گے۔

ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ انصار نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ ہمارے باغات آپ ہم میں اور ہمارے (مہاجر) بھائیوں میں تقسیم فرما دیں۔ آپ ﷺ نے انکار کیا تو انصار نے (مہاجرین سے) کہا کہ آپ لوگ درختوں میں محنت کرو۔ ہم تم میوے میں شریک رہیں گے۔ انہوں نے کہا اچھا ہم نے سنا اور قبول کیا۔

【7】

باب: میوہ دار درخت اور کھجور کے درخت کاٹنا۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہ ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے بنی نضیر کے کھجوروں کے باغ جلا دیئے اور کاٹ دیئے۔ ان ہی کے باغات کا نام بویرہ تھا۔ اور حسان (رض) کا یہ شعر اسی کے متعلق ہے۔ بنی لوی (قریش) کے سرداروں پر (غلبہ کو) بویرہ کی آگ نے آسان بنادیا جو ہر طرف پھیلتی ہی جا رہی تھی۔

【8】

ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید نے خبر دی، انہیں حنظلہ بن قیس انصاری نے، انہوں نے رافع بن خدیج (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مدینہ میں ہمارے پاس کھیت دوسروں سے زیادہ تھے۔ ہم کھیتوں کو اس شرط کے ساتھ دوسروں کو جوتنے اور بونے کے لیے دیا کرتے تھے کہ کھیت کے ایک مقررہ حصے (کی پیداوار) مالک زمین لے گا۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ خاص اسی حصے کی پیداوار ماری جاتی اور سارا کھیت سلامت رہتا۔ اور بعض دفعہ سارے کھیت کی پیداوار ماری جاتی اور یہ خاص حصہ بچ جاتا۔ اس لیے ہمیں اس طرح کے معاملہ کرنے سے روک دیا گیا اور سونا اور چاندی کے بدلہ ٹھیکہ دینے کا تو اس وقت رواج ہی نہ تھا۔

【9】

باب: آدھی یا کم و زیادہ پیداوار پر بٹائی کرنا۔

ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے، ان سے نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے (خیبر کے یہودیوں سے) وہاں (کی زمین میں) پھل کھیتی اور جو بھی پیداوار ہو اس کے آدھے حصے پر معاملہ کیا تھا۔ آپ ﷺ اس میں سے اپنی بیویوں کو سو وسق دیتے تھے۔ جس میں اسی وسق کھجور ہوتی اور بیس وسق جو۔ عمر (رض) نے ( اپنے عہد خلافت میں) جب خیبر کی زمین تقسیم کی تو ازواج مطہرات کو آپ نے اس کا اختیار دیا کہ (اگر وہ چاہیں تو) انہیں بھی وہاں کا پانی اور قطعہ زمین دے دیا جائے۔ یا وہی پہلی صورت باقی رکھی جائے۔ چناچہ بعض نے زمین لینا پسند کیا۔ اور بعض نے (پیداوار سے) وسق لینا پسند کیا۔ عائشہ (رض) نے زمین ہی لینا پسند کیا تھا۔

【10】

باب: اگر بٹائی میں سالوں کے تعداد مقرر نہ کرے؟

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے خیبر کے پھل اور اناج کی آدھی پیداوار پر وہاں کے رہنے والوں سے معاملہ کیا تھا۔

【11】

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہ عمرو بن دینار نے کہا کہ میں نے طاؤس سے عرض کیا، کاش ! آپ بٹائی کا معاملہ چھوڑ دیتے، کیونکہ ان لوگوں (رافع بن خدیج اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم وغیرہ) کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اس پر طاؤس نے کہا کہ میں تو لوگوں کو زمین دیتا ہوں اور ان کا فائدہ کرتا ہوں۔ اور صحابہ میں جو بڑے عالم تھے انہوں نے مجھے خبر دی ہے۔ آپ کی مراد ابن عباس (رض) سے تھی کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے نہیں روکا۔ بلکہ آپ نے صرف یہ فرمایا تھا کہ اگر کوئی شخص اپنے بھائی کو (اپنی زمین) مفت دیدے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کا محصول لے۔

【12】

باب: یہود کے ساتھ بٹائی کا معاملہ کرنا۔

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں عبیداللہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی زمین یہودیوں کو اس شرط پر سونپی تھی کہ اس میں محنت کریں اور جو تیں بوئیں اور اس کی پیداوار کا آدھا حصہ لیں۔

【13】

باب: بٹائی میں کون سی شرطیں لگانا مکروہ ہے۔

ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید انصاری نے، انہوں نے حنظلہ زرقی سے سنا کہ رافع بن خدیج (رض) نے کہا کہ ہمارے پاس مدینہ کے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زمین زیادہ تھی۔ ہمارے یہاں طریقہ یہ تھا کہ جب زمین بصورت جنس کرایہ پر دیتے تو یہ شرط لگا دیتے کہ اس حصہ کی پیداوار تو میری رہے گی اور اس حصہ کی تمہاری رہے گی۔ پھر کبھی ایسا ہوتا کہ ایک حصہ کی پیداوار خوب ہوتی اور دوسرے کی نہ ہوتی۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو اس طرح معاملہ کرنے سے منع فرما دیا۔

【14】

باب: جب کسی کے مال سے ان کی اجازت کے بغیر ہی کاشت کی اور اس میں ان کا ہی فائدہ رہا ہو۔

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، ان سے ابوضمرہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، تین آدمی کہیں چلے جا رہے تھے کہ بارش نے ان کو آلیا۔ تینوں نے ایک پہاڑ کی غار میں پناہ لے لی، اچانک اوپر سے ایک چٹان غار کے سامنے آ گری، اور انہیں (غار کے اندر) بالکل بند کردیا۔ اب ان میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ تم لوگ اب اپنے ایسے کاموں کو یاد کرو۔ جنہیں تم نے خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کیا ہو اور اسی کام کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ ممکن ہے اس طرح اللہ تعالیٰ تمہاری اس مصیبت کو ٹال دے، چناچہ ایک شخص نے دعا شروع کی۔ اے اللہ ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ میں ان کے لیے (جانور) چرایا کرتا تھا۔ پھر جب واپس ہوتا تو دودھ دوہتا۔ سب سے پہلے، اپنی اولاد سے بھی پہلے، میں والدین ہی کو دودھ پلاتا تھا۔ ایک دن دیر ہوگئی اور رات گئے گھر واپس آیا، اس وقت میرے ماں باپ سو چکے تھے۔ میں نے معمول کے مطابق دودھ دوہا اور (اس کا پیالہ لے کر) میں ان کے سرہانے کھڑا ہوگیا۔ میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں۔ لیکن اپنے بچوں کو بھی (والدین سے پہلے) پلانا مجھے پسند نہیں تھا۔ بچے صبح تک میرے قدموں پر پڑے تڑپتے رہے۔ پس اگر تیرے نزدیک بھی میرا یہ عمل صرف تیری رضا کے لیے تھا تو (غار سے اس چٹان کو ہٹا کر) ہمارے لیے اتنا راستہ بنا دے کہ آسمان نظر آسکے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے راستہ بنادیا اور انہیں آسمان نظر آنے لگا۔ دوسرے نے کہا اے اللہ ! میری ایک چچازاد بہن تھی۔ مرد عورتوں سے جس طرح کی انتہائی محبت کرسکتے ہیں، مجھے اس سے اتنی ہی محبت تھی۔ میں نے اسے اپنے پاس بلانا چاہا لیکن وہ سو دینار دینے کی صورت راضی ہوئی۔ میں نے کوشش کی اور وہ رقم جمع کی۔ پھر جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ گیا، تو اس نے مجھ سے کہا، اے اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر اور اس کی مہر کو حق کے بغیر نہ توڑ۔ میں یہ سنتے ہی دور ہوگیا، اگر میرا یہ عمل تیرے علم میں بھی تیری رضا ہی کے لیے تھا تو (اس غار سے) پتھر کو ہٹا دے۔ پس غار کا منہ کچھ اور کھلا۔ اب تیسرا بولا کہ اے اللہ ! میں نے ایک مزدور تین فرق چاول کی مزدوری پر مقرر کیا تھا جب اس نے اپنا کام پورا کرلیا تو مجھ سے کہا کہ اب میری مزدوری مجھے دیدے۔ میں نے پیش کردی لیکن اس وقت وہ انکار کر بیٹھا۔ پھر میں برابر اس کی اجرت سے کاشت کرتا رہا اور اس کے نتیجہ میں بڑھنے سے بیل اور چرواہے میرے پاس جمع ہوگئے۔ اب وہ شخص آیا اور کہنے لگا کہ اللہ سے ڈر ! میں نے کہا کہ بیل اور اس کے چرواہے کے پاس جا اور اسے لے لے۔ اس نے کہا اللہ سے ڈر ! اور مجھ سے مذاق نہ کر، میں نے کہا کہ مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ (یہ سب تیرا ہی ہے) اب تم اسے لے جاؤ۔ پس اس نے ان سب پر قبضہ کرلیا۔ الہٰی ! اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری خوشنودی ہی کے لیے کیا تھا تو تو اس غار کو کھول دے۔ اب وہ غار پورا کھل چکا تھا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ ابن عقبہ نے نافع سے (اپنی روایت میں فبغيت‏ کے بجائے) فسعيت‏ نقل کیا ہے۔

【15】

باب: صحابہ کرام کے اوقاف، خراجی زمین اور اس کی بٹائی کا بیان۔

ہم سے صدقہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدالرحمٰن بن مہدی نے خبر دی، انہیں امام مالک نے، انہیں زید بن اسلم نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ عمر (رض) نے فرمایا، اگر مجھے بعد میں آنے والے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو جتنے شہر بھی فتح کرتا، انہیں فتح کرنے والوں میں تقسیم کرتا جاتا، بالکل اسی طرح جس طرح نبی کریم ﷺ نے خیبر کی زمین تقسیم فرما دی تھی۔

【16】

باب: اس شخص کا بیان جس نے بنجر زمین کو آباد کیا۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن ابی جعفر نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمٰن نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے کوئی ایسی زمین آباد کی، جس پر کسی کا حق نہیں تھا تو اس زمین کا وہی حقدار ہے۔ عروہ نے بیان کیا کہ عمر (رض) نے اپنے عہد خلافت میں یہی فیصلہ کیا تھا۔

【17】

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر (رض) نے اور ان سے ان کے باپ نے کہ نبی کریم ﷺ نے (مکہ کے لیے تشریف لے جاتے ہوئے) جب ذوالحلیفہ میں نالہ کے نشیب میں رات کے آخری حصہ میں پڑاؤ کیا تو آپ ﷺ سے خواب میں کہا گیا کہ آپ اس وقت ایک مبارک وادی میں ہیں۔ موسیٰ بن عقبہ (راوی حدیث) نے بیان کیا کہ سالم (سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) نے بھی ہمارے ساتھ وہیں اونٹ بٹھایا۔ جہاں عبداللہ بن عمر (رض) بٹھایا کرتے تھے، تاکہ اس جگہ قیام کرسکیں، جہاں نبی کریم ﷺ نے قیام فرمایا تھا۔ یہ جگہ وادی عقیق کی مسجد سے نالہ کے نشیب میں ہے۔ وادی عقیق اور راستے کے درمیان میں۔

【18】

ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب بن اسحاق نے خبر دی، ان سے امام اوزاعی نے بیان کیا کہ مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس (رض) نے، اور ان سے عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا فرشتہ آیا۔ آپ ﷺ اس وقت وادی عقیق میں قیام کئے ہوئے تھے۔ (اور اس نے یہ پیغام پہنچایا کہ) اس مبارک وادی میں نماز پڑھ اور کہا کہ کہہ دیجئیے ! عمرہ حج میں شریک ہوگیا۔

【19】

باب: اگر زمین کا مالک کاشتکار سے یوں کہے میں تجھ کو اس وقت تک رکھوں گا جب تک اللہ تجھ کو رکھے اور کوئی مدت مقرر نہ کرے تو معاملہ ان کی خوشی پر رہے گا (جب چاہیں فسخ کر دیں)۔

ہم سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ انہیں نافع نے خبر دی، اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (جب خیبر پر) فتح حاصل کی تھی (دوسری سند) اور عبدالرزاق نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر (رض) نے کہ عمر بن خطاب (رض) نے یہودیوں اور عیسائیوں کو سر زمین حجاز سے نکال دیا تھا اور جب نبی کریم ﷺ نے خیبر پر فتح پائی تو آپ نے بھی یہودیوں کو وہاں سے نکالنا چاہا تھا۔ جب آپ کو وہاں فتح حاصل ہوئی تو اس کی زمین اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور مسلمانوں کی ہوگئی تھی۔ آپ کا ارادہ یہودیوں کو وہاں سے باہر کرنے کا تھا، لیکن یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ہمیں یہیں رہنے دیں۔ ہم (خیبر کی اراضی کا) سارا کام خود کریں گے اور اس کی پیداوار کا نصف حصہ لے لیں گے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا جب تک ہم چاہیں تمہیں اس شرط پر یہاں رہنے دیں گے۔ چناچہ وہ لوگ وہیں رہے اور پھر عمر (رض) نے انہیں تیماء اور اریحاء کی طرف جلا وطن کردیا۔

【20】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کھیتی باڑی میں ایک دوسرے کی مدد کس طرح کرتے تھے۔

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں امام اوزاعی نے خبر دی، انہیں رافع بن خدیج (رض) کے غلام ابونجاشی نے، انہوں نے رافع بن خدیج بن رافع (رض) سے سنا، اور انہوں نے اپنے چچا ظہیر بن رافع (رض) سے، ظہیر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں ایک ایسے کام سے منع کیا تھا جس میں ہمارا (بظاہر ذاتی) فائدہ تھا۔ اس پر میں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ بھی فرمایا وہ حق ہے۔ ظہیر (رض) نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے بلایا اور دریافت فرمایا کہ تم لوگ اپنے کھیتوں کا معاملہ کس طرح کرتے ہو ؟ میں نے کہا کہ ہم اپنے کھیتوں کو (بونے کے لیے) نہر کے قریب کی زمین کی شرط پردے دیتے ہیں۔ اسی طرح کھجور اور جَو کے چند وسق پر۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ یا خود اس میں کھیتی کیا کرو یا دوسروں سے کراؤ۔ ورنہ اسے یوں خالی ہی چھوڑ دو ۔ رافع (رض) نے بیان کیا کہ میں نے کہا (آپ ﷺ کا یہ فرمان) میں نے سنا اور مان لیا۔

【21】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کھیتی باڑی میں ایک دوسرے کی مدد کس طرح کرتے تھے۔

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام اوزاعی نے خبر دی، اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ صحابہ تہائی، چوتھائی یا نصف پر بٹائی کا معاملہ کیا کرتے تھے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس کے پاس زمین ہو تو اسے خود بوئے ورنہ دوسروں کو بخش دے۔ اگر یہ بھی نہیں کرسکتا تو اسے یوں ہی خالی چھوڑ دے۔ اور ربیع بن نافع ابوتوبہ نے کہا کہ ہم سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جس کے پاس زمین ہو تو وہ خود بوئے ورنہ اپنے کسی (مسلمان) بھائی کو بخش دے، اور اگر یہ نہیں کرسکتا تو اسے یوں ہی خالی چھوڑ دے۔

【22】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کھیتی باڑی میں ایک دوسرے کی مدد کس طرح کرتے تھے۔

ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے اس کا (یعنی رافع بن خدیج (رض) کی مذکورہ حدیث کا) ذکر طاؤس سے کیا تو انہوں نے کہا کہ (بٹائی وغیرہ پر) کاشت کرا سکتا ہے ابن عباس (رض) نے فرمایا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع نہیں کیا تھا۔ البتہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ اپنے کسی بھائی کو زمین بخشش کے طور پردے دینا اس سے بہتر ہے کہ اس پر کوئی محصول لے۔ (یہ اس صورت میں کہ زمیندار کے پاس فالتو زمین بیکار پڑی ہو) ۔

【23】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کھیتی باڑی میں ایک دوسرے کی مدد کس طرح کرتے تھے۔

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) اپنے کھیتوں کو نبی کریم ﷺ ، ابوبکر، عمر، عثمان (رض) عنہم کے عہد میں اور معاویہ (رض) کے ابتدائی عہد خلافت میں کرایہ پر دیتے تھے۔ پھر رافع بن خدیج (رض) کے واسطہ سے بیان کیا گیا کہ نبی کریم ﷺ نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع کیا تھا۔ (یہ سن کر) ابن عمر (رض) رافع بن خدیج (رض) کے پاس گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ ابن عمر (رض) نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا۔ اس پر ابن عمر (رض) نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے نبی کریم ﷺ کے عہد میں ہم اپنے کھیتوں کو اس پیداوار کے بدل جو نالیوں پر ہو اور تھوڑی گھاس کے بدل دیا کرتے تھے۔

【24】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کھیتی باڑی میں ایک دوسرے کی مدد کس طرح کرتے تھے۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں سالم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مجھے معلوم تھا کہ زمین کو بٹائی پر دیا جاتا تھا۔ پھر انہیں ڈر ہوا کہ ممکن ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سلسلے میں کوئی نئی ہدایت فرمائی ہو جس کا علم انہیں نہ ہوا ہو۔ چناچہ انہوں نے (احتیاطاً ) زمین کو بٹائی پر دینا چھوڑ دیا۔

【25】

باب: نقدی لگان پر سونا چاندی کے بدل زمین دینا۔

ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے حنظلہ بن قیس نے بیان کیا، ان سے رافع بن خدیج (رض) نے بیان کیا کہ میرے چچا (ظہیر اور مہیر رضی اللہ عنہما) نے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں زمین کو بٹائی پر نہر (کے قریب کی پیداوار) کی شرط پر دیا کرتے۔ یا کوئی بھی ایسا خطہ ہوتا جسے مالک زمین (اپنے لیے) چھانٹ لیتا۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔ حنظلہ نے کہا کہ اس پر میں نے رافع بن خدیج (رض) سے پوچھا، اگر درہم و دینار کے بدلے یہ معاملہ کیا جائے تو کیا حکم ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر دینار و درہم کے بدلے میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور لیث نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے جس طرح کی بٹائی سے منع فرمایا تھا، وہ ایسی صورت ہے کہ حلال و حرام کی تمیز رکھنے والا کوئی بھی شخص اسے جائز نہیں قرار دے سکتا۔ کیونکہ اس میں کھلا دھوکہ ہے۔

【26】

ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا، (دوسری سند) اور ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعامر نے بیان کیا، ان سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ ایک دن بیان فرما رہے تھے ایک دیہاتی بھی مجلس میں حاضر تھا کہ اہل جنت میں سے ایک شخص اپنے رب سے کھیتی کرنے کی اجازت چاہے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا اپنی موجودہ حالت پر تو راضی نہیں ہے ؟ وہ کہے گا کیوں نہیں ! لیکن میرا جی کھیتی کرنے کو چاہتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر اس نے بیج ڈالا۔ پلک جھپکنے میں وہ اگ بھی آیا۔ پک بھی گیا اور کاٹ بھی لیا گیا۔ اور اس کے دانے پہاڑوں کی طرح ہوئے۔ اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم ! اسے رکھ لے، تجھے کوئی چیز آسودہ نہیں کرسکتی۔ یہ سن کر دیہاتی نے کہا کہ قسم اللہ کی وہ تو کوئی قریشی یا انصاری ہی ہوگا۔ کیونکہ یہی لوگ کھیتی کرنے والے ہیں۔ ہم تو کھیتی ہی نہیں کرتے۔ اس بات پر رسول اللہ ﷺ کو ہنسی آگئی۔

【27】

باب: درخت بونے کا بیان۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے، ان سے سہل بن سعد (رض) نے کہ جمعہ کے دن ہمیں بہت خوشی (اس بات کی) ہوتی تھی کہ ہماری ایک بوڑھی عورت تھیں جو اس چقندر کو اکھاڑ لاتیں جسے ہم اپنے باغ کی مینڈوں پر بو دیا کرتے تھے۔ وہ ان کو اپنی ہانڈی میں پکاتیں اور اس میں تھوڑے سے جَو بھی ڈال دیتیں۔ ابوحازم نے کہا میں نہیں جانتا کہ سہل نے یوں کہا نہ اس میں چربی ہوتی نہ چکنائی۔ پھر جب ہم جمعہ کی نماز پڑھ لیتے تو ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ وہ اپنا پکوان ہمارے سامنے کر دیتیں۔ اور اس لیے ہمیں جمعہ کے دن کی خوشی ہوتی تھی۔ اور ہم دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کے بعد کیا کرتے تھے۔

【28】

باب: درخت بونے کا بیان۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے، آپ نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں ابوہریرہ بہت حدیث بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ مجھے بھی اللہ سے ملنا ہے (میں غلط بیانی کیسے کرسکتا ہوں) یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار آخر اس کی طرح کیوں احادیث بیان نہیں کرتے ؟ بات یہ ہے کہ میرے بھائی مہاجرین بازاروں میں خریدو فروخت میں مشغول رہا کرتے اور میرے بھائی انصار کو ان کی جائیداد (کھیت اور باغات وغیرہ) مشغول رکھا کرتی تھی۔ صرف میں ایک مسکین آدمی تھا۔ پیٹ بھر لینے کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت ہی میں برابر حاضر رہا کرتا۔ جب یہ سب حضرات غیر حاضر رہتے تو میں حاضر ہوتا۔ اس لیے جن احادیث کو یہ یاد نہیں کرسکتے تھے، میں انہیں یاد رکھتا تھا، اور ایک دن نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ تم میں سے جو شخص بھی اپنے کپڑے کو میری اس تقریر کے ختم ہونے تک پھیلائے رکھے پھر (تقریر ختم ہونے پر) اسے اپنے سینے سے لگالے تو وہ میری احادیث کو کبھی نہیں بھولے گا۔ میں نے اپنی کملی کو پھیلا دیا۔ جس کے سوا میرا بدن پر اور کوئی کپڑا نہیں تھا۔ جب نبی کریم ﷺ نے اپنی تقریر ختم فرمائی تو میں نے وہ چادر اپنے سینے سے لگا لی۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر مبعوث کیا، پھر آج تک میں آپ ﷺ کے اسی ارشاد کی وجہ سے (آپ ﷺ کی کوئی حدیث نہیں بھولا) اللہ گواہ ہے کہ اگر قرآن کی دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں تم سے کوئی حدیث کبھی بیان نہ کرتا آیت إن الذين يکتمون ما أنزلنا من البينات‏ سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد الرحيم‏ تک۔ (جس میں) اس دین کے چھپانے والے پر، جسے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے ذریعہ دنیا میں بھیجا ہے، سخت لعنت کی گئی ہے۔

【29】

باب: پانی کی تقسیم اور جو کہتا ہے پانی کا حصہ خیرات کرنا اور ہبہ کرنا اور اس کی وصیت کرنا جائز ہے وہ پانی بٹا ہوا ہو یا بن بٹا ہوا۔

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں دودھ اور پانی کا ایک پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ ﷺ نے اس کو پیا۔ آپ ﷺ کی دائیں طرف ایک نوعمر لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اور کچھ بڑے بوڑھے لوگ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا لڑکے ! کیا تو اجازت دے گا کہ میں پہلے یہ پیالہ بڑوں کو دے دوں۔ اس پر اس نے کہا، یا رسول اللہ ! میں تو آپ کے جھوٹے میں سے اپنے حصہ کو اپنے سوا کسی کو نہیں دے سکتا۔ چناچہ آپ ﷺ نے وہ پیالہ پہلے اسی کو دے دیا۔