52. طلاق کا بیان

【1】

باب

باب : جب کسی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے تمہیں جدا کیا یا میں نے رخصت کیا، یا یوں کہے کہ اب تو خالی ہے یا الگ ہے کہ آؤ میں تم کو اچھی طرح سے رخصت کر دوں۔ اسی طرح سورة البقرہ میں فرمایا اسی طرح کا کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جس سے طلاق بھی مراد لی جاسکتی ہے تو اس کی نیت کے مطابق طلاق ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا سورة الاحزاب میں ارشاد ہے وسرحوهن سراحا جميلا‏ انہیں خوبی کے ساتھ رخصت کر دو اور اسی سورت میں فرمایا فإمساک بمعروف أو تسريح بإحسان‏ا‏ اس کے بعد یا تو رکھ لینا ہے قاعدہ کے مطابق یا خوش اخلاقی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور عائشہ (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کو خوب معلوم تھا کہ میرے والدین (نبی کریم ﷺ سے) فراق کا مشورہ دے ہی نہیں سکتے (یہاں فراق سے طلاق مراد ہے) ۔

【2】

لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَکَ کا شان نزول

مجھ سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد اعور نے، ان سے ابن جریج نے کہ عطاء بن ابی رباح نے یقین کے ساتھ کہا کہ انہوں نے عبید بن عمیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ام المؤمنین زینب بنت جحش (رض) کے یہاں ٹھہرتے تھے اور ان کے یہاں شہد پیا کرتے تھے۔ چناچہ میں نے اور حفصہ (رض) نے مل کر صلاح کی کہ نبی کریم ﷺ ہم میں سے جس کے یہاں بھی تشریف لائیں تو آپ سے یہ کہا جائے کہ آپ کے منہ سے مغافیر (ایک خاص قسم کے بدبودار گوند) کی مہک آتی ہے، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ نبی کریم ﷺ اس کے بعد ہم میں سے ایک کے یہاں تشریف لائے تو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے یہی بات کہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں نے زینب بنت جحش کے ہاں شہد پیا ہے، اب دوبارہ نہیں پیوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك‏ کہ اے نبی ! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے۔ سے ‏‏‏‏إن تتوبا إلى الله‏ تک۔ یہ عائشہ (رض) اور حفصہ (رض) کی طرف خطاب ہے وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه‏۔ حدیث سے آپ کا یہی فرمانا مراد ہے کہ میں نے مغافیر نہیں کھایا بلکہ شہد پیا ہے۔