61. لباس کا بیان

【1】

اللہ تعالیٰ کا قول، آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ کس نے اللہ کی زینت کو حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہے، اور نبی ﷺ نے فرمایا کھاؤ، پیو اور پہنو اور خیرات کرو لیکن اسراف اور تکبر نہ کرو، اور ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جو چاہو کھاؤ اور جو چاہو پیو، بشرطے کہ دوباتیں نہ ہوں (ایک) اسراف (دوسرا) تکبر

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے، انہوں نے نافع اور عبداللہ بن دینار اور زید بن اسلم سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نظر رحمت نہیں کرے گا جو اپنا کپڑا تکبر و غرور سے زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے۔

【2】

اس شخص کا بیان جو اپنا ازار گھسیٹ کر بغیر تکبر کے چلے

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص تکبر کی وجہ سے تہبند گھسیٹتا ہوا چلے گا تو اللہ پاک اس کی طرف قیامت کے دن نظر بھی نہیں کرے گا۔ ابوبکر (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے تہمد کا ایک حصہ کبھی لٹک جاتا ہے مگر یہ کہ خاص طور سے اس کا خیال رکھا کروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو ایسا تکبر سے کرتے ہیں۔

【3】

اس شخص کا بیان جو اپنا ازار گھسیٹ کر بغیر تکبر کے چلے

مجھ سے بیکندی محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالاعلیٰ نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں امام حسن بصری نے اور ان سے ابوبکرہ (رض) نے بیان کیا کہ سورج گرہن ہوا تو ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ جلدی میں کپڑا گھسیٹتے ہوئے مسجد میں تشریف لائے لوگ بھی جمع ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھائی، گرہن ختم ہوگیا، تب آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اس لیے جب تم ان نشانیوں میں سے کوئی نشانی دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو یہاں تک کہ وہ ختم ہوجائے۔

【4】

کپڑا سمیٹنے کا بیان

مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن شمیل نے خبر دی، کہا ہم کو عمر بن ابی زائدہ نے خبر دی، کہا ہم کو عون بن ابی جحیفہ نے خبر دی، ان سے ان کے والد ابوجحیفہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں نے دیکھا کہ بلال (رض) ایک نیزہ لے کر آئے اور اسے زمین میں گاڑ دیا پھر نماز کے لیے تکبیر کہی گئی۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ایک جوڑا پہنے ہوئے باہر تشریف لائے جسے آپ نے سمیٹ رکھا تھا۔ پھر آپ نے نیزہ کے سامنے کھڑے ہو کر دو رکعت نماز عید پڑھائی اور میں نے دیکھا کہ انسان اور جانور نبی کریم ﷺ کے سامنے نیزہ کے باہر کی طرف سے گزر رہے تھے۔

【5】

جو آدمی ٹخنے سے نیچے کپڑے پہنے تو وہ دوزخ میں ہوگا

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن ابی سعید مقبری نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہو وہ جہنم میں ہوگا۔

【6】

اس شخص کا بیان جو تکبر کے سبب سے کپڑے گھسیٹتا ہوا چلے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنا تہمد غرور کی وجہ سے گھسیٹتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا نہیں۔

【7】

اس شخص کا بیان جو تکبر کے سبب سے کپڑے گھسیٹتا ہوا چلے۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن زیاد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی یا (یہ بیان کیا کہ) ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا (بنی اسرائیل میں) ایک شخص ایک جوڑا پہن کر کبر و غرور میں سر مست، سر کے بالوں میں کنگھی کئے ہوئے اکڑ کر اتراتا جا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا اب وہ قیامت تک اس میں تڑپتا رہے گا یا دھنستا رہے گا۔

【8】

اس شخص کا بیان جو تکبر کے سبب سے کپڑے گھسیٹتا ہوا چلے۔

مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے والد نے خبر دی، ان سے ان کے چچا جریر بن زید نے بیان کیا کہ میں سالم بن عبداللہ بن عمر کے ساتھ ان کے گھر کے دروازے پر تھا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اسی حدیث کی طرح بیان کیا۔

【9】

اس شخص کا بیان جو تکبر کے سبب سے کپڑے گھسیٹتا ہوا چلے۔

ہم سے مطر بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم سے شبابہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے محارب بن دثار قاضی سے ملاقات کی، وہ گھوڑے پر سوار تھے اور مکان عدالت میں آ رہے تھے جس میں وہ فیصلہ کیا کرتے تھے۔ میں نے ان سے یہی حدیث پوچھی تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آپ اپنا کپڑا غرور کی وجہ سے گھسیٹتا ہوا چلے گا، قیامت کے دن اس کی طرف اللہ تعالیٰ نظر نہیں کرے گا۔ (شعبہ نے کہا کہ) میں نے محارب سے پوچھا کیا ابن عمر (رض) نے تہمد کا ذکر کیا تھا ؟ انہوں نے فرمایا کہ تہمد یا قمیص کسی کی انہوں نے تخصیص نہیں کی تھی۔ محارب کے ساتھ اس حدیث کو جبلہ بن سحیم اور زید بن اسلم اور زید بن عبداللہ نے بھی عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کیا، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔ اور لیث نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر (رض) سے ایسی ہی روایت کی اور نافع کے ساتھ اس کو موسیٰ بن عقبہ اور عمر بن محمد اور قدامہ بن موسیٰ نے بھی سالم سے، انہوں نے ابن عمر (رض) سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی اس میں یوں ہے کہ جو شخص اپنا کپڑا (ازراہ تکبر) لٹکائے۔

【10】

کناری دار تہہ بند کا بیان، زہری، ابوبکر بن محمد، حمزہ بن ابی اسید ومعاویہ بن عبداللہ بن جعفر سے منقول ہے کہ وہ لوگ کناری دار تہہ بند پہنتے تھے۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھ کو عروہ بن زبیر اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رفاعہ قرظی (رض) کی بیوی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں۔ میں بھی بیٹھی ہوئی تھی اور نبی کریم ﷺ کے پاس ابوبکر (رض) موجود تھے۔ انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! میں رفاعہ کے نکاح میں تھی لیکن انہوں نے مجھے تین طلاق دے دی ہیں۔ (مغلظہ) ۔ اس کے بعد میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر (رض) سے نکاح کرلیا اور اللہ کی قسم کہ ان کے ساتھ یا رسول اللہ ! صرف اس جھالر جیسا ہے۔ انہوں نے اپنی چادر کے جھالر کو اپنے ہاتھ میں لے کر اشارہ کیا۔ خالد بن سعید (رض) جو دروازے پر کھڑے تھے اور انہیں ابھی اندر آنے کی اجازت نہیں ہوئی تھی، اس نے بھی ان کی بات سنی۔ بیان کیا کہ خالد (رض) (وہیں سے) بولے۔ ابوبکر ! آپ اس عورت کو روکتے نہیں کہ کس طرح کی بات رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھول کر بیان کرتی ہے لیکن اللہ کی قسم اس بات پر نبی کریم ﷺ کا تبسم اور بڑھ گیا۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ غالباً تم دوبارہ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو ؟ لیکن ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ (تمہارے دوسرے شوہر عبدالرحمٰن بن زبیر) تمہارا مزا نہ چکھ لیں اور تم ان کا مزا نہ چکھ لو پھر بعد میں یہی قانون بن گیا۔

【11】

چادر کا بیان، انس (رض) نے بیان کیا کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ کی چادر کھینچی۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو یونس نے، انہیں زہری نے، انہیں علی بن حسین نے خبر دی، انہیں حسین بن علی (رض) نے خبر دی کہ علی (رض) نے بیان کیا (کہ حمزہ (رض) نے حرمت شراب سے پہلے شراب کے نشہ میں جب ان کی اونٹنی ذبح کردی اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے آ کر اس کی شکایت کی تو) نبی کریم ﷺ نے اپنی چادر منگوائی اور اسے اوڑھ کر تشریف لے چلنے لگے۔ میں اور زید بن حارثہ (رض) آپ کے پیچھے پیچھے تھے۔ آخر آپ اس گھر میں پہنچے جس میں حمزہ (رض) تھے، آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی اور انہوں نے آپ حضرات کو اجازت دی۔

【12】

قمیص پہننے کا بیان، اور اللہ تعالیٰ کا قول جو یوسف (علیہ السلام) کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میری قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے چہرے پہ ڈال دو تو ان کی بینائی لوٹ آئے گی۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن سلمہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ ایک صاحب نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! محرم کس طرح کا کپڑا پہنے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ محرم قمیص، پاجامہ، برنس (ٹوپی یا سر پر پہننے کی کوئی چیز) اور موزے نہیں پہنے گا البتہ اگر اسے چپل نہ ملیں تو موزوں ہی کو ٹخنوں تک کاٹ کر پہن لے وہ ہی جوتی کی طرح ہوجائیں گے۔

【13】

قمیص پہننے کا بیان، اور اللہ تعالیٰ کا قول جو یوسف (علیہ السلام) کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میری قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے چہرے پہ ڈال دو تو ان کی بینائی لوٹ آئے گی۔

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن عیینہ نے خبر دی، انہیں عمرو نے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ عبداللہ بن ابی (منافق ) کے پاس جب اسے قبر میں داخل کیا جا چکا تھا تشریف لائے پھر آپ کے حکم سے اس کی لاش نکالی گئی اور نبی کریم ﷺ کے گھٹنوں پر اسے رکھا گیا نبی کریم ﷺ نے اس پر دم کرتے ہوئے اپنی قمیص پہنائی اور اللہ ہی خوب جاننے والا ہے۔

【14】

قمیص پہننے کا بیان، اور اللہ تعالیٰ کا قول جو یوسف (علیہ السلام) کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میری قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے چہرے پہ ڈال دو تو ان کی بینائی لوٹ آئے گی

ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید نے خبر دی، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، کہا مجھ کو نافع نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی کی وفات ہوئی تو اس کے لڑکے (عبداللہ) جو مخلص اور اکابر صحابہ میں تھے رسول اللہ ﷺ ! کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! اپنی قمیص مجھے عطا فرمایئے تاکہ میں اپنے باپ کو اس کا کفن دوں اور آپ ان کی نماز جنازہ پڑھا دیں اور ان کے لیے دعائے مغفرت کریں چناچہ نبی کریم ﷺ نے اپنی قمیص انہیں عطا فرمائی اور فرمایا کہ نہلا دھلا کر مجھے اطلاع دینا۔ چناچہ جب نہلا دھلا لیا تو نبی کریم ﷺ کو اطلاع دی نبی کریم ﷺ تشریف لائے تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں لیکن عمر (رض) نے آپ کو پکڑ لیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین پر نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں فرمایا ہے ؟ اور فرمایا ہے استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم‏ کہ ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا مغفرت کی دعا نہ کرو اگر تم ستر مرتبہ بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی ولا تصل على أحد منهم مات أبدا‏ کہ اور ان میں سے کسی پر بھی جو مرگیا ہو ہرگز نماز نہ پڑھئیے۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھنی چھوڑ دی۔

【15】

قمیص وغیرہ میں سینے کے نزدیک جیب ہونے کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعامر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے، ان سے طاؤس نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال بیان کیا کہ دو آدمیوں جیسی ہے جو لوہے کے جبے ہاتھ، سینہ اور حلق تک پہنے ہوئے ہیں۔ صدقہ دینے والا جب بھی صدقہ کرتا ہے تو اس کے جبہ میں کشادگی ہوجاتی ہے اور وہ اس کی انگلیوں تک بڑھ جاتا ہے اور قدم کے نشانات کو ڈھک لیتا ہے اور بخیل جب بھی کبھی صدقہ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا جبہ اسے اور چمٹ جاتا ہے اور ہر حلقہ اپنی جگہ پر جم جاتا ہے۔ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ اس طرح اپنی مبارک انگلیوں سے اپنے گریبان کی طرف اشارہ کر کے بتا رہے تھے کہ تم دیکھو گے کہ وہ اس میں وسعت پیدا کرنا چاہے گا لیکن وسعت پیدا نہیں ہوگی۔ اس کی متابعت ابن طاؤس نے اپنے والد سے کی ہے اور ابوالزناد نے اعرج سے کی دو جبوں کے ذکر کے ساتھ اور حنظلہ نے بیان کیا کہ میں نے طاؤس سے سنا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، انہوں نے کہا جبتان‏.‏ اور جعفر نے اعرج کے واسطہ سے جبتان‏.‏ کا لفظ بیان کیا ہے۔

【16】

اس شخص کا بیان جو سفر میں تنگ آستینوں والاجبہ پہنے

ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوالضحیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے مسروق نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے مغیرہ بن شعبہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے پھر واپس آئے تو میں پانی لے کر حاضر تھا۔ آپ نے وضو کیا آپ شامی جبہ پہنے ہوئے تھے، آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنا چہرہ دھویا پھر اپنی آستینیں چڑھانے لگے لیکن وہ تنگ تھی اس لیے آپ نے اپنے ہاتھ جبہ کے نیچے سے نکالے اور انہیں دھویا اور سر پر اور موزوں پر مسح کیا۔

【17】

جنگ میں اون کا جبہ پہننے کا بیان

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا، ان سے عامر نے، ان سے عروہ بن مغیرہ نے اور ان سے ان کے والد مغیرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں ایک رات سفر میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا آپ نے دریافت فرمایا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ اپنی سواری سے اترے اور چلتے رہے یہاں تک کہ رات کی تاریکی میں آپ چھپ گئے پھر واپس تشریف لائے تو میں نے برتن کا پانی آپ کو استعمال کرایا نبی کریم ﷺ نے اپنا چہرہ دھویا، ہاتھ دھوئے آپ اون کا جبہ پہنے ہوئے تھے جس کی آستین چڑھانی آپ کے لیے دشوار تھی چناچہ آپ نے اپنے ہاتھ جبہ کے نیچے سے نکالے اور بازوؤں کو (کہنیوں تک) دھویا۔ پھر سر پر مسح کیا پھر میں بڑھا کہ نبی کریم ﷺ کے موزے اتار دوں لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ رہنے دو میں نے طہارت کے بعد انہیں پہنا تھا چناچہ آپ نے ان پر مسح کیا۔

【18】

قبا اور ریشمی فروج کا بیان، جس کو قباء بھی کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک اسے کہتے ہیں جس کے پیچھے سے کٹا ہوا ہو

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے مسور بن مخرمہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے چند ق بائیں تقسیم کیں اور مخرمہ (رض) کو کچھ نہیں دیا تو مخرمہ (رض) نے کہا بیٹے ہمیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لے چلو چناچہ میں اپنے والد کو ساتھ لے کر چلا، انہوں نے مجھ سے کہا کہ اندر جاؤ اور نبی کریم ﷺ سے میرا ذکر کر دو ۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے مخرمہ (رض) کا ذکر کیا تو آپ باہر تشریف لائے۔ نبی کریم ﷺ انہیں قباؤں میں سے ایک قباء لیے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ میں نے تمہارے ہی لیے رکھ چھوڑی تھی۔ مسور نے بیان کیا کہ مخرمہ (رض) نے نبی کریم ﷺ کی طرف دیکھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مخرمہ خوش ہوگئے۔

【19】

قبا اور ریشمی فروج کا بیان، جس کو قباء بھی کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک اسے کہتے ہیں جس کے پیچھے سے کٹا ہوا ہو

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ کو ریشم کی فروج (قباء) ہدیہ میں دی گئی۔ نبی کریم ﷺ نے اسے پہنا (ریشم کا مردوں کے لیے حرمت کے حکم سے پہلے) اور اسی کو پہنے ہوئے نماز پڑھی۔ پھر آپ ﷺ نے اسے بڑی تیزی کے ساتھ اتار ڈالا جیسے آپ اس سے ناگواری محسوس کرتے ہوں پھر فرمایا کہ یہ متقیوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اس روایت کی متابعت عبداللہ بن یوسف نے کی ان سے لیث نے اور عبداللہ بن یوسف کے علاوہ دوسروں نے کہا کہ فروج حرير‏.‏۔

【20】

None

میں نے انس رضی اللہ عنہ پر ریشمی زرد ٹوپی کو دیکھا۔

【21】

ٹوپی کا بیان اور مجھ سے مسدد نے معتمر سے انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا کہ میں نے انس (رض) کو زرد رنگ کی ریشم کی ٹوپی پہنے ہوئے دیکھا

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! محرم کس طرح کا کپڑا پہنے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (محرم کے لیے) کہ قمیص نہ پہنو، نہ عمامے، نہ پاجامے، نہ برنس اور نہ موزے البتہ اگر کسی کو چپل نہ ملے تو وہ (چمڑے کے) موزوں کو ٹخنہ سے نیچے تک کاٹ کر انہیں پہن سکتا ہے اور نہ کوئی ایسا کپڑا پہنو جس میں زعفران یا ورس لگایا گیا ہو۔

【22】

پائجاموں کا بیان

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے جابر بن زید نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (محرم کے بارے میں) فرمایا جسے تہمد نہ ملے وہ پاجامہ پہنے اور جسے چپل نہ ملیں وہ موزے پہنیں۔

【23】

پائجاموں کا بیان

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ نے بیان کیا کہ ایک صاحب نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! احرام باندھنے کے بعد ہمیں کس چیز کے پہننے کا حکم ہے ؟ فرمایا کہ قمیص نہ پہنو، نہ پاجامے، نہ عمامے، نہ برنس اور نہ موزے پہنو۔ البتہ اگر کسی کے پاس چپل نہ ہوں تو وہ چمڑے کے ایسے موزے پہنے جو ٹخنوں سے نیچے ہوں اور کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس میں زعفران اور ورس لگا ہوا ہو۔

【24】

پائجاموں کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی، انہیں ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ محرم قمیص نہ پہنے ، نہ عمامہ پہنے ، نہ پاجامہ ، نہ برنس اور نہ کوئی ایسا کپڑا پہنے جس میں زعفران اور ورس لگا ہو اور نہ موزے پہنے البتہ اگر کسی کو چپل نہ ملیں تو موزوں کو ٹخنوں کے نیچے تک کاٹ دے (پھر پہنے) ۔

【25】

منہ اور سر کو چادر سے ڈھکنے کا بیان اور ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ پر سیاہ پٹی باندھی ہوئی تھی اور انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے اپنے سر پر چادر کا کنارہ باندھ رکھا تھا

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ بہت سے مسلمان حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے اور ابوبکر (رض) بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابھی ٹھہر جاؤ کیونکہ مجھے بھی امید ہے کہ مجھے (ہجرت کی) اجازت دی جائے گی۔ ابوبکر (رض) نے عرض کیا : کیا آپ کو بھی امید ہے ؟ میرا باپ آپ پر قربان۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ چناچہ ابوبکر (رض) نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہنے کے خیال سے رک گئے اور اپنی دو اونٹنیوں کو ببول کے پتے کھلا کر چار مہینے تک انہیں خوب تیار کرتے رہے۔ عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) نے کہا ہم ایک دن دوپہر کے وقت اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے ابوبکر (رض) سے کہا رسول اللہ ﷺ سر ڈھکے ہوئے تشریف لا رہے ہیں۔ اس وقت عموماً نبی کریم ﷺ ہمارے یہاں تشریف نہیں لاتے تھے۔ ابوبکر (رض) نے کہا میرے ماں باپ نبی کریم ﷺ پر قربان ہوں، نبی کریم ﷺ ایسے وقت کسی وجہ ہی سے تشریف لاسکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے مکان پر پہنچ کر اجازت چاہی اور ابوبکر صدیق (رض) نے انہیں اجازت دی۔ نبی کریم ﷺ اندر تشریف لائے اور اندر داخل ہوتے ہی ابوبکر (رض) سے فرمایا کہ جو لوگ تمہارے پاس اس وقت ہیں انہیں اٹھا دو ۔ ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کی میرا باپ آپ پر قربان ہو یا رسول اللہ ! یہ سب آپ کے گھر ہی کے افراد ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کی پھر یا رسول اللہ ! مجھے رفاقت کا شرف حاصل رہے گا ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ عرض کی یا رسول اللہ ! میرے باپ آپ پر قربان ہوں ان دو اونٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا لیکن قیمت سے۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر ہم نے بہت جلدی جلدی سامان سفر تیار کیا اور سفر کا ناشتہ ایک تھیلے میں رکھا۔ اسماء بنت ابی بکر (رض) نے اپنے پٹکے کے ایک ٹکڑے سے تھیلہ کے منہ کو باندھا۔ اسی وجہ سے انہیں ذات النطاق (پٹکے والی) کہنے لگے۔ پھر نبی کریم ﷺ اور ابوبکر (رض) ثور نامی پہاڑ کی ایک غار میں جا کر چھپ گئے اور تین دن تک اسی میں ٹھہرے رہے۔ عبداللہ بن ابی بکر (رض) رات آپ حضرات کے پاس ہی گزارتے تھے۔ وہ نوجوان ذہین اور سمجھدار تھے۔ صبح تڑکے میں وہاں سے چل دیتے تھے اور صبح ہوتے ہوتے مکہ کے قریش میں پہنچ جاتے تھے۔ جیسے رات میں مکہ ہی میں رہے ہوں۔ مکہ مکرمہ میں جو بات بھی ان حضرات کے خلاف ہوتی اسے محفوظ رکھتے اور جوں ہی رات کا اندھیرا چھا جاتا غار ثور میں ان حضرات کے پاس پہنچ کر تمام تفصیلات کی اطلاع دیتے۔ ابوبکر (رض) کے مولیٰ عامر بن فہیرہ (رض) دودھ دینے والی بکریاں چراتے تھے اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو ان بکریوں کو غار ثور کی طرف ہانک لاتے تھے۔ آپ حضرات بکریوں کے دودھ پر رات گزارتے اور صبح کی پو پھٹتے ہی عامر بن فہیرہ (رض) وہاں سے روانہ ہوجاتے۔ ان تین راتوں میں انہوں نے ہر رات ایسا ہی کیا۔

【26】

خود پہننے کا بیان

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زہری نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ فتح مکہ کے سال (مکہ مکرمہ میں) داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھی۔

【27】

دھاری دار کناری دار چادروں اور شملہ کا بیان، خ نے بیان کیا کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں مرض کی شکایت کے لئے گئے تو آپ ایک دھاری دار چادر کا تکیہ لگائے ہوئے تھے

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا۔ نبی کریم ﷺ کے جسم مبارک پر (یمن کے) نجران کی بنی ہوئی موٹے حاشیے کی ایک چادر تھی۔ اتنے میں ایک دیہاتی آگیا اور اس نے نبی کریم ﷺ کی چادر کو پکڑ کر اتنی زور سے کھینچا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے مونڈھے پر دیکھا کہ اس کے زور سے کھینچنے کی وجہ سے نشان پڑگیا تھا۔ پھر اس نے کہا : اے محمد ! مجھے اس مال میں سے دیئے جانے کا حکم کیجیئے جو اللہ کا مال آپ کے پاس ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرائے اور آپ نے اسے دیئے جانے کا حکم فرمایا۔

【28】

دھاری دار کناری دار چادروں اور شملہ کا بیان، خ نے بیان کیا کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں مرض کی شکایت کے لئے گئے تو آپ ایک دھاری دار چادر کا تکیہ لگائے ہوئے تھے

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ ایک عورت ایک چادر لے کر آئیں (جو اس نے خود بنی تھی) سہل (رض) نے کہا تمہیں معلوم ہے وہ پردہ کیا تھا پھر بتلایا کہ یہ ایک اونی چادر تھی جس کے کناروں پر حاشیہ ہوتا ہے۔ ان خاتون نے حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ چادر میں نے خاص آپ کے اوڑھنے کے لیے بنی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے وہ چادر ان سے اس طرح لی گویا آپ کو اس کی ضرورت ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ اسے تہمد کے طور پر پہن کر ہمارے پاس تشریف لائے۔ جماعت صحابہ میں سے ایک صاحب (عبدالرحمٰن بن عوف) نے اس چادر کو چھوا اور عرض کی یا رسول اللہ ! یہ مجھے عنایت فرما دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اچھا۔ جتنی دیر اللہ نے چاہا آپ مجلس میں بیٹھے رہے پھر تشریف لے گئے اور اس چادر کو لپیٹ کر ان صاحب کے پاس بھجوا دیا۔ صحابہ نے اس پر ان سے کہا تم نے اچھی بات نہیں کی کہ نبی کریم ﷺ سے وہ چادر مانگ لی۔ تمہیں معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ کبھی سائل کو محروم نہیں فرماتے۔ ان صاحب نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے تو صرف نبی کریم ﷺ سے یہ اس لیے مانگی ہے کہ جب میں مروں تو یہ میرا کفن ہو۔ سہل (رض) نے بیان کیا چناچہ وہ چادر اس صحابی کے کفن ہی میں استعمال ہوئی۔

【29】

دھاری دار کناری دار چادروں اور شملہ کا بیان، خ نے بیان کیا کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں مرض کی شکایت کے لئے گئے تو آپ ایک دھاری دار چادر کا تکیہ لگائے ہوئے تھے

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں سے جنت میں ستر ہزار کی ایک جماعت داخل ہوگی ان کے چہرے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے۔ عکاشہ بن محصن اسدی (رض) اپنی دھاری دار چادر سنبھالتے ہوئے اٹھے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے لیے بھی دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے انہیں میں سے بنا دے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ ! عکاشہ کو بھی انہیں میں سے بنا دے۔ اس کے بعد قبیلہ انصار کے ایک صحابی سعد بن عبادہ (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے بنا دے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے عکاشہ دعا کرا چکا۔

【30】

دھاری دار کناری دار چادروں اور شملہ کا بیان، خ نے بیان کیا کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں مرض کی شکایت کے لئے گئے تو آپ ایک دھاری دار چادر کا تکیہ لگائے ہوئے تھے

ہم سے عمرو بن عاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا، قتادہ نے بیان کیا کہ میں نے انس (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کو کس طرح کا کپڑا زیادہ پسند تھا بیان کیا کہ حبرۃ کی سبز یمنی چادر۔

【31】

دھاری دار کناری دار چادروں اور شملہ کا بیان، خ نے بیان کیا کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں مرض کی شکایت کے لئے گئے تو آپ ایک دھاری دار چادر کا تکیہ لگائے ہوئے تھے

مجھ سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معاذ دستوائی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کو تمام کپڑوں میں یمنی سبز چادر پہننا بہت پسند تھی۔

【32】

دھاری دار کناری دار چادروں اور شملہ کا بیان، خ نے بیان کیا کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں مرض کی شکایت کے لئے گئے تو آپ ایک دھاری دار چادر کا تکیہ لگائے ہوئے تھے

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے انہیں خبر دی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی نعش مبارک پر ایک سبز یمنی چادر ڈال دی گئی تھی۔

【33】

چادروں اور کمبلوں کے اوڑھنے کا بیان

مجھ سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، ان سے عائشہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب آخری مرض طاری ہوا تو آپ اپنی کملی چہرہ مبارک پر ڈالتے تھے اور جب سانس گھٹنے لگتا تو چہرہ کھول لیتے اور اسی حالت میں فرماتے یہود و نصاریٰ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوگئے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے عمل بد سے (مسلمانوں کو) ڈرا رہے تھے۔

【34】

چادروں اور کمبلوں کے اوڑھنے کا بیان

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ایک نقشی چادر میں نماز پڑھی اور اس کے نقش و نگار پر نماز ہی میں ایک نظر ڈالی۔ پھر سلام پھیر کر فرمایا کہ میری یہ چادر ابوجہم کو واپس دے دو ۔ اس نے ابھی مجھے میری نماز سے غافل کردیا تھا اور ابوجہم کی سادی چادر لیتے آؤ۔ یہ ابوجہم بن حذیفہ بن غانم بنی عدی بن کعب قبیلے میں سے تھے۔

【35】

چادروں اور کمبلوں کے اوڑھنے کا بیان

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے ابوبردہ نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) نے ہمیں ایک موٹی کملی ( کساء ) اور ایک موٹی ازار نکال کر دکھائی اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی روح ان ہی دو کپڑوں میں قبض ہوئی تھی۔

【36】

گھوٹ مار کر بیٹھنے کا بیان

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب بن عبدالمجید ثقفی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے بیع ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا اور دو وقت نمازوں سے بھی آپ نے منع فرمایا، نماز فجر کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک اور اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص صرف ایک کپڑا جسم پر لپیٹ کر گھٹنے اوپر اٹھا کر اس طرح بیٹھ جائے کہ اس کی شرمگاہ پر آسمان و زمین کے درمیان کوئی چیز نہ ہو اور اشتمال صماء سے منع فرمایا۔

【37】

گھوٹ مار کر بیٹھنے کا بیان

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عامر بن سعد نے خبر دی، اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو طرح کے پہناوے اور دو طرح کی خریدو فروخت سے منع فرمایا۔ خریدو فروخت میں ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا۔ ملامسہ کی صورت یہ تھی کہ ایک شخص (خریدار) دوسرے (بیچنے والے) کے کپڑے کو رات یا دن میں کسی بھی وقت بس چھو دیتا (اور دیکھے بغیر صرف چھونے سے بیع ہوجاتی) صرف چھونا ہی کافی تھا کھول کر دیکھا نہیں جاتا تھا۔ منابذہ کی صورت یہ تھی کہ ایک شخص اپنی ملکیت کا کپڑا دوسرے کی طرف پھینکتا اور دوسرا اپنا کپڑا پھینکتا اور بغیر دیکھے اور بغیر باہمی رضا مندی کے صرف اسی سے بیع منعقد ہوجاتی اور دو کپڑے (جن سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا انہیں میں سے ایک) اشتمال صماء ہے۔ صماء کی صورت یہ تھی کہ اپنا کپڑا (ایک چادر) اپنے ایک شانے پر اس طرح ڈالا جاتا کہ ایک کنارہ سے (شرمگاہ) کھل جاتی اور کوئی دوسرا کپڑا وہاں نہیں ہوتا تھا۔ دوسرے پہناوے کا طریقہ یہ تھا کہ بیٹھ کر اپنے ایک کپڑے سے کمر اور پنڈلی باندھ لیتے تھے اور شرمگاہ پر کوئی کپڑا نہیں ہوتا تھا۔

【38】

ایک ہی کپڑا لپیٹنے کا بیان ( اس طرح کہ اس کی شرم گاہ پر کچھ نہ ہو)

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا یہ کہ کوئی شخص ایک ہی کپڑے سے اپنی کمر اور پنڈلی کو ملا کر باندھ لے اور شرمگاہ پر کوئی دوسرا کپڑا نہ ہو اور یہ کہ کوئی شخص ایک کپڑے کو اس طرح جسم پر لپیٹے کہ ایک طرف کپڑے کا کوئی حصہ نہ ہو اور آپ نے ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا۔

【39】

ایک ہی کپڑا لپیٹنے کا بیان ( اس طرح کہ اس کی شرم گاہ پر کچھ نہ ہو)

مجھ سے محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مخلد نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ابن جریح نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے ابن شہاب نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور انہیں ابو سعید خدری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے اشتمال صماء سے منع فرمایا اور اس سے بھی کہ کوئی شخص ایک کپڑے سے پنڈلی اور کمر کو ملا لے اور شرمگاہ پر کوئی دوسرا کپڑا نہ ہو۔

【40】

خمیصہ (کالی کملی) کا بیان

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق بن سعید نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے سعید بن فلاں یعنی عمرو بن سعید بن عاص نے اور ان سے ام خالد بنت خالد (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں کچھ کپڑے لائے گئے جس میں ایک چھوٹی کالی کملی بھی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے یہ چادر کسے دی جائے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش رہے پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ام خالد کو میرے پاس بلا لاؤ۔ انہیں گود میں اٹھا کر لایا گیا (کیونکہ بچی تھیں) اور نبی کریم ﷺ نے وہ چادر اپنے ہاتھ میں لی اور انہیں پہنایا اور دعا دی کہ جیتی رہو۔ اس چادر میں ہرے اور زرد نقش و نگار تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ام خالد ! یہ نقش و نگار سناہ ہیں۔ سناہ حبشی زبان میں خوب اچھے کے معنی میں آتا ہے۔

【41】

خمیصہ (کالی کملی) کا بیان

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے، ان سے محمد نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ جب ام سلیم (رض) کے یہاں بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ انس اس بچہ کو دیکھتے رہو کوئی چیز اس کے پیٹ میں نہ جائے اور جا کر نبی کریم ﷺ کو اپنے ساتھ لاؤ تاکہ نبی کریم ﷺ اپنا جو ٹھا اس کے منہ میں ڈالیں۔ چناچہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا نبی کریم ﷺ اس وقت ایک باغ میں تھے اور آپ کے جسم پر قبیلہ بنی حریث کی بنی ہوئی چادر ( خميصة حريثية ) تھی اور آپ اس سواری پر نشان لگا رہے تھے جس پر آپ فتح مکہ کے موقع پر سوار تھے۔

【42】

سبز کپڑوں کا بیان

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب بن عبدالمجید ثقفی نے، کہا ہم کو ایوب سختیانی نے خبر دی، انہیں عکرمہ نے اور انہیں رفاعہ (رض) نے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ پھر ان سے عبدالرحمٰن بن زبیر قرظی (رض) نے نکاح کرلیا تھا۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ وہ خاتون سبز اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھیں، انہوں نے عائشہ (رض) سے (اپنے شوہر کی) شکایت کی اور اپنے جسم پر سبز نشانات (چوٹ کے) دکھائے پھر جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو (جیسا کہ عادت ہے) عکرمہ نے بیان کیا کہ عورتیں آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔ عائشہ (رض) نے (نبی کریم ﷺ سے) کہا کہ کسی ایمان والی عورت کا میں نے اس سے زیادہ برا حال نہیں دیکھا ان کا جسم ان کے کپڑے سے بھی زیادہ برا ہوگیا ہے۔ بیان کیا کہ ان کے شوہر نے بھی سن لیا تھا کہ (ان کی) بیوی نبی کریم ﷺ کے پاس گئی ہے چناچہ وہ بھی آگئے اور ان کے ساتھ ان کے دو بچے ان سے پہلی بیوی کے تھے۔ ان کی بیوی نے کہا : اللہ کی قسم ! مجھے ان سے کوئی اور شکایت نہیں البتہ ان کے ساتھ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں جس سے میرا کچھ نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنے کپڑے کا پلو پکڑ کر اشارہ کیا (یعنی ان کے شوہر کمزور ہیں) اس پر ان کے شوہر نے کہا : یا رسول اللہ ! واللہ یہ جھوٹ بولتی ہے میں تو اس کو (جماع کے وقت) چمڑے کی طرح ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں مگر یہ شریر ہے، یہ مجھے پسند نہیں کرتی اور رفاعہ کے یہاں دوبارہ جانا چاہتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو تمہارے لیے وہ (رفاعہ) اس وقت تک حلال نہیں ہوگا جب تک یہ (عبدالرحمٰن دوسرے شوہر) تمہارا مزا نہ چکھ لیں۔ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عبدالرحمٰن کے ساتھ دو بچے بھی دیکھے تو دریافت فرمایا کیا یہ تمہارے بچے ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اچھا، اس وجہ سے تم یہ باتیں سوچتی ہو۔ اللہ کی قسم یہ بچے ان سے اتنے ہی مشابہ ہیں جتنا کہ کوا کوے سے مشابہ ہوتا ہے۔

【43】

سفید کپڑوں کا بیان

ہم سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن بشر نے خبر دی، کہا ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابی وقاص (رض) نے بیان کیا کہ جنگ احد کے موقع پر میں نے نبی کریم ﷺ کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو (جو فرشتے تھے) دیکھا وہ سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے میں نے انہیں نہ اس سے پہلے دیکھا اور نہ اس کے بعد کبھی دیکھا۔

【44】

سفید کپڑوں کا بیان

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے حسین نے، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے، ان سے یحییٰ بن یعمر نے بیان کیا، ان سے ابو اسود دیلی نے بیان کیا اور ان سے ابوذر (رض) نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے جسم مبارک پر سفید کپڑا تھا اور آپ سو رہے تھے پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہوچکے تھے پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس بندہ نے بھی کلمہ لا إله إلا الله اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں کو مان لیا اور پھر اسی پر وہ مرا تو جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، آپ ﷺ نے فرمایا کہ چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، میں نے پھر عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ فرمایا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ میں نے (حیرت کی وجہ سے پھر) عرض کیا چاہے اس زنا کیا ہو یا اس نے چوری کی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو۔ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ ابوذر (رض) بعد میں جب بھی یہ حدیث بیان کرتے تو نبی کریم ﷺ کے الفاظ ابوذر کے على رغم ( وإن رغم أنف أبي ذر‏.‏ ) ضرور بیان کرتے۔ ابوعبداللہ امام بخاری (رح) نے کہا یہ صورت کہ (صرف کلمہ سے جنت میں داخل ہوگا) یہ اس وقت ہوگی جب موت کے وقت یا اس سے پہلے (گناہوں سے) توبہ کی اور کہا کہ لا إله إلا الله اس کی مغفرت ہوجائے گی۔

【45】

ریشم کا پہننا اور مردوں کے لئے اس کا بچھانا اور وہ مقدار جو جائز ہے

ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے قتادہ نے، کہا کہ میں نے ابوعثمان نہدی سے سنا کہ ہمارے پاس عمر (رض) کا مکتوب (خط) آیا ہم اس وقت عتبہ بن فرقد (رض) کے ساتھ آذر بائیجان میں تھے ( اس میں لکھا تھا) کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم کے استعمال سے (مردوں کو) منع کیا ہے سوا اتنے کے اور نبی کریم ﷺ نے انگوٹھے کے قریب کی اپنی دونوں انگلیوں کے اشارے سے اس کی مقدار بتائی۔ ابوعثمان نہدی نے بیان کیا کہ ہماری سمجھ میں نبی کریم ﷺ کی مراد اس سے (کپڑے وغیرہ ریشم کے) پھول بوٹے بنانے سے تھی۔

【46】

ریشم کا پہننا اور مردوں کے لئے اس کا بچھانا اور وہ مقدار جو جائز ہے

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے عاصم نے بیان، ان سے ابوعثمان نے بیان کیا کہ ہمیں عمر (رض) نے لکھا اس وقت ہم آذر بائیجان میں تھے کہ نبی کریم ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا تھا سوا اتنے کے اور اس کی وضاحت نبی کریم ﷺ نے دو انگلیوں کے اشارے سے کی تھی۔ زہیر (راوی حدیث) نے بیچ کی اور شہادت کی انگلیاں اٹھا کر بتایا۔

【47】

ریشم کا پہننا اور مردوں کے لئے اس کا بچھانا اور وہ مقدار جو جائز ہے

ہم سے حسن بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر نے، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نے بیان کیا اور ابوعثمان نے اپنی دو انگلیوں، شہادت اور درمیانی انگلیوں سے اشارہ کیا۔

【48】

ریشم کا پہننا اور مردوں کے لئے اس کا بچھانا اور وہ مقدار جو جائز ہے

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے، ان سے ابن ابی لیلیٰ نے بیان کیا کہ حذیفہ (رض) مدائن میں تھے۔ انہوں نے پانی مانگا۔ ایک دیہاتی چاندی کے برتن میں پانی لایا۔ انہوں نے اسے پھینک دیا اور کہا کہ میں نے صرف اسے اس لیے پھینکا ہے کہ میں اس شخص کو منع کرچکا ہوں (کہ چاندی کے برتن میں مجھے کھانا اور پانی نہ دیا کرو) لیکن وہ نہیں مانا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ سونا، چاندی، ریشم اور دیبا ان (کفار) کے لیے دنیا میں ہے اور تمہارے (مسلمانوں) کے لیے آخرت میں۔

【49】

ریشم کا پہننا اور مردوں کے لئے اس کا بچھانا اور وہ مقدار جو جائز ہے

ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، شعبہ نے بیان کیا کہ اس پر میں نے پوچھا کیا یہ روایت نبی کریم ﷺ سے ہے ؟ عبدالعزیز نے بیان کیا کہ قطعاً نبی کریم ﷺ سے مروی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو مرد ریشمی لباس دنیا میں پہنے گا وہ آخرت میں اسے ہرگز نہیں پہن سکے گا۔

【50】

ریشم کا پہننا اور مردوں کے لئے اس کا بچھانا اور وہ مقدار جو جائز ہے

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے بیان کیا کہ میں نے ابن زبیر (رض) سے سنا، انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس مرد نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں اسے نہیں پہن سکے گا۔

【51】

ریشم کا پہننا اور مردوں کے لئے اس کا بچھانا اور وہ مقدار جو جائز ہے

ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں ابوذہبان خلیفہ بن کعب نے، کہا کہ میں نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے سنا، کہا کہ میں نے عمر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس مرد نے دنیا میں ریشم پہنا وہ اسے آخرت میں نہیں پہن سکے گا۔ اور ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے یزید نے کہ معاذ نے بیان کیا کہ مجھے ام عمرو بنت عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے سنا، انہوں نے عمر (رض) سے سنا اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا۔

【52】

ریشم کا پہننا اور مردوں کے لئے اس کا بچھانا اور وہ مقدار جو جائز ہے

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے علی مبارک نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عمران بن حطان نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ (رض) سے ریشم کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ عبداللہ بن عباس (رض) کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو۔ بیان کی کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ابوحفص یعنی عمر بن خطاب (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دنیا میں ریشم تو وہی مرد پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ میں نے اس پر کہا کہ سچ کہا اور ابوحفص رسول اللہ ﷺ کی طرف کوئی جھوٹی بات نسبت نہیں کرسکتے اور عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے اور ان سے عمران نے اور پوری حدیث بیان کی۔

【53】

ریشم کا بغیر پہنے ہوئے چھونا اور اس میں زبیدی، حضرت انس (رض) نبی ﷺ سے مروی ہے

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا اور ان سے براء (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کو ریشم کا ایک کپڑا ہدیہ میں پیش ہوا تو ہم اسے چھونے لگے اور اس کی (نرمی و ملائمت پر) حیرت زدہ ہوگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں اس پر حیرت ہے۔ ہم نے عرض کیا جی ہاں فرمایا، جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے بھی اچھے ہیں۔

【54】

ریشم بچھانے کا بیان، اور عبیدہ نے کہا کہ وہ پہننے کی طرح ہے

ہم سے علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ان کے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن ابی نجیح سے سنا، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے ابن ابی لیلیٰ سے اور ان سے حذیفہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں سونے اور چاندی کے برتن میں پینے اور کھانے سے منع فرمایا تھا اور ریشم اور دیباج پہننے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا تھا۔

【55】

قسی پہننے کا بیان اور عاصم نے ابوہریرہ کا قول نقل کیا کہ میں نے علی سے پوچھا قسیہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا ایک قسم کا کپڑا ہے جو ہمارے پاس شام یا مصر سے آتا ہے اس میں اترنج کی طرح ریشم کی دھاریاں بنی ہوتی ہیں۔ اور میثرہ وہ کپڑا ہے جو عورتیں اپنے شوہروں کے لئے چادروں کی طرح زرد رنگ کا بناتی تھیں اور جریر نے زید سے اپنی حدیث میں بیان کیا کہ قسیہ وہ دھاری دار کپڑے ہیں، جو مصر سے آتے تھے، ان میں ریشم ہوتا تھا اور میثرہ درندوں کی طرح کھالوں کو کہتے ہیں، ابوعبداللہ (بخاری) نے کہا کہ عاصم کا قول میثرہ کے متعلق اکثر لوگوں کا اور زیادہ صحیح ہے۔

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی، انہیں اشعث بن ابی شعثاء نے، ان سے معاویہ بن سوید بن مقرن نے بیان کیا اور ان سے ابن عازب (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں سرخ ميثرة اور قسي کے پہننے سے منع فرمایا ہے۔

【56】

خارش کی وجہ سے مردوں کے لئے ریشمی کپڑا پہننا جائز ہے

ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے زبیر اور عبدالرحمٰن (رض) کو کیونکہ انہیں خارش ہوگئی تھی، ریشم پہننے کی اجازت دی تھی۔

【57】

عورتوں کے لئے ریشمی کپڑے پہننے کا بیان

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا (دوسری سند) اور امام بخاری (رح) نے کہا کہ مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن میسرہ نے اور ان سے زید بن وہب نے کہ علی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے ریشمی دھاریوں والا ایک جوڑا، حلہ عنایت فرمایا۔ میں اسے پہن کر نکلا تو میں نے نبی کریم ﷺ کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار دیکھے۔ چناچہ میں نے اس کے ٹکڑے کر کے اپنی عزیز عورتوں میں بانٹ دیئے۔

【58】

عورتوں کے لئے ریشمی کپڑے پہننے کا بیان

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ عمر (رض) نے ریشمی دھاریوں والا ایک جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! بہتر ہے کہ آپ اسے خرید لیں اور وفود سے ملاقات کے وقت اور جمعہ کے دن اسے زیب تن کیا کریں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے وہ پہنتا ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے خود عمر (رض) کے پاس ریشم کی دھاریوں والا ایک جوڑا حلہ بھیجا، ہدیہ کے طور پر۔ عمر (رض) نے عرض کیا آپ نے مجھے یہ جوڑا حلہ عنایت فرمایا ہے حالانکہ میں خود آپ سے اس کے بارے میں وہ بات سن چکا ہوں جو آپ نے فرمائی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں یہ کپڑا اس لیے دیا ہے کہ اسے بیچ دو یا (عورتوں وغیرہ میں سے) کسی کو پہنا دو ۔

【59】

عورتوں کے لئے ریشمی کپڑے پہننے کا بیان

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں انس بن مالک (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی ام کلثوم (رض) کو زرد دھاری دار ریشمی جوڑا پہنے دیکھا۔

【60】

نبی ﷺ کس قدر لباس اور فرش پر اکتفاء کرتے تھے

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے عبید بن حنین نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ میں عمر (رض) سے ان عورتوں کے بارے میں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے معاملہ میں اتفاق کرلیا تھا، پوچھنے کا ارادہ کرتا رہا لیکن ان کا رعب سامنے آجاتا تھا۔ ایک دن (مکہ کے راستہ میں) ایک منزل پر قیام کیا اور پیلو کے درختوں میں (وہ قضائے حاجت کے لیے) تشریف لے گئے۔ جب قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس تشریف لائے تو میں نے پوچھا انہوں نے بتلایا کہ عائشہ اور حفصہ (رض) ہیں پھر کہا کہ جاہلیت میں ہم عورتوں کو کوئی حیثیت نہیں دیتے تھے۔ جب اسلام آیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر کیا (اور ان کے حقوق) مردوں پر بتائے تب ہم نے جانا کہ ان کے بھی ہم پر کچھ حقوق ہیں لیکن اب بھی ہم اپنے معاملات میں ان کا دخیل بننا پسند نہیں کرتے تھے۔ میرے اور میری بیوی میں کچھ گفتگو ہوگئی اور اس نے تیز و تند جواب مجھے دیا تو میں نے اس سے کہا اچھا اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی۔ اس نے کہا تم مجھے یہ کہتے ہو اور تمہاری بیٹی نبی کریم ﷺ کو بھی تکلیف پہنچاتی ہے۔ میں (اپنی بیٹی ام المؤمنین) حفصہ کے پاس آیا اور اس سے کہا میں تجھے تنبیہ کرتا ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے۔ نبی کریم ﷺ کو تکلیف پہنچانے کے معاملہ میں سب سے پہلے میں ہی حفصہ کے یہاں گیا پھر میں ام سلمہ کے پاس آیا اور ان سے بھی یہی بات کہی لیکن انہوں نے کہا کہ حیرت ہے تم پر عمر ! تم ہمارے معاملات میں دخیل ہوگئے ہو۔ صرف رسول اللہ ﷺ اور آپ کی ازواج کے معاملات میں دخل دینا باقی تھا۔ (سو اب وہ بھی شروع کردیا) انہوں نے میری بات رد کردی۔ قبیلہ انصار کے ایک صحابی تھے جب وہ نبی کریم ﷺ کی صحبت میں موجود نہ ہوتے اور میں حاضر ہوتا تو تمام خبریں ان سے آ کر بیان کرتا تھا اور جب میں نبی کریم ﷺ کی صحبت سے غیر حاضر ہوتا اور وہ موجود ہوتے تو وہ نبی کریم ﷺ کے متعلق تمام خبریں مجھے آ کر سناتے تھے۔ آپ کے چاروں طرف جتنے (بادشاہ وغیرہ) تھے ان سب سے آپ کے تعلقات ٹھیک تھے۔ صرف شام کے ملک غسان کا ہمیں خوف رہتا تھا کہ وہ کہیں ہم پر حملہ نہ کر دے۔ میں نے جو ہوش و حواس درست کئے تو وہی انصاری صحابی تھے اور کہہ رہے تھے کہ ایک حادثہ ہوگیا۔ میں نے کہا کیا بات ہوئی۔ کیا غسان چڑھ آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بھی بڑا حادثہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی۔ میں جب (مدینہ) حاضر ہوا تو تمام ازواج کے حجروں سے رونے کی آواز آرہی تھی۔ نبی کریم ﷺ اپنے بالا خانہ پر چلے گئے تھے اور بالا خانہ کے دروازہ پر ایک نوجوان پہرے دار موجود تھا میں نے اس کے پاس پہنچ کر اس سے کہا کہ میرے لیے نبی کریم ﷺ سے اندر حاضر ہونے کی اجازت مانگ لو پھر میں اندر گیا تو آپ ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے جس کے نشانات آپ کے پہلو پر پڑے ہوئے تھے اور آپ کے سر کے نیچے ایک چھوٹا سا چمڑے کا تکیہ تھا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ چند کچی کھالیں لٹک رہی تھیں اور ببول کے پتے تھے۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے اپنی ان باتوں کا ذکر کیا جو میں نے حفصہ اور ام سلمہ سے کہی تھیں اور وہ بھی جو ام سلمہ نے میری بات رد کرتے ہوئے کہا تھا۔ نبی کریم ﷺ اس پر مسکرا دیئے۔ آپ نے اس بالا خانہ میں انتیس دن تک قیام کیا پھر آپ وہاں سے نیچے اتر آئے۔

【61】

نبی ﷺ کس قدر لباس اور فرش پر اکتفاء کرتے تھے

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف صنعانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر بن راشد نے خبر دی، انہیں زہری نے خبر دی، انہیں ہندہ بنت حارث نے خبر دی اور ان سے ام سلمہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ رات کے وقت بیدار ہوئے اور کہا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، کیسی کیسی بلائیں اس رات میں نازل ہو رہی ہیں اور کیا کیا رحمتیں اس کے خزانوں سے اتر رہی ہیں۔ کوئی ہے جو ان حجرہ والیوں کو بیدار کر دے۔ دیکھو بہت سی دنیا میں پہننے اوڑھنے والیاں آخرت میں ننگی ہوں گی۔ زہری نے بیان کیا کہ ہندہ اپنی آستینوں میں انگلیوں کے درمیان گھنڈیاں لگاتی تھیں، تاکہ صرف انگلیاں کھلیں اس سے آگے نہ کھلے۔

【62】

نئے کپڑے پہننے کے وقت کونسی دعا کرنی چاہئیے

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ام خالد بنت خالد (رض) نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ کپڑے آئے جن میں ایک کالی چادر بھی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، کسے یہ چادر دی جائے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش رہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ام خالد کو بلا لاؤ۔ چناچہ مجھے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لایا گیا اور مجھے وہ چادر نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے عنایت فرمائی اور فرمایا دیر تک جیتی رہو، دو مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ پھر آپ اس چادر کے نقش و نگار کو دیکھنے لگے اور اپنے ہاتھ سے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا ام خالد ! سنا ‏‏‏.‏ والسنا یہ حبشی زبان کا لفظ ہے یعنی واہ کیا زیب دیتی ہے۔ اسحاق بن سعید نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے گھر کی ایک عورت نے بیان کیا کہا کہ انہوں نے وہ چادر ام خالد (رض) کے پاس دیکھی تھی۔

【63】

مردوں کے لئے زعفرانی رنگ کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی مرد زعفران کے رنگ کا استعمال کرے۔

【64】

زعفرانی رنگ کے کپڑوں کا بیان

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے منع کیا تھا کہ کوئی محرم ورس یا زعفران سے رنگا ہوا کپڑا پہنے۔

【65】

سرخ کپڑوں کا بیان

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے اور انہوں نے براء (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ میانہ قد تھے اور میں نے آپ ﷺ کو سرخ جوڑے میں دیکھا آپ سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی۔

【66】

سرخ میثرہ (گدے) کا بیان

ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے اشعث نے، ان سے معاویہ بن سوید بن مقرن نے اور ان سے براء (رض) نے بیان کیا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے سات چیزوں کا حکم دیا تھا۔ بیمار کی عیادت کا، جنازہ کے پیچھے چلنے کا، چھینکنے والے کا جواب (یرحمک اللہ سے) دینے کا اور نبی کریم ﷺ نے ہمیں ریشم، دیبا، قسی، استبرق اور سرخ زین پوشوں کے استعمال سے بھی منع فرمایا تھا۔

【67】

صاف کی ہوئی اور بغیر صاف کی ہوئی کھال کے جوتوں کا بیان

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی مسلمہ نے، انہوں نے کہا میں نے انس (رض) سے پوچھا کیا نبی کریم ﷺ جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں۔

【68】

صاف کی ہوئی اور بغیر صاف کی ہوئی کھال کے جوتوں کا بیان

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے مقبری نے، ان سے عبید بن جریج نے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے عرض کیا کہ میں آپ کو چار ایسی چیزیں کرتے دیکھتا ہوں جو میں نے آپ کے کسی ساتھی کو کرتے نہیں دیکھا۔ ابن عمر (رض) نے کہا : ابن جریج ! وہ کیا چیزیں ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ (خانہ کعبہ کے) کسی کونے کو طواف میں ہاتھ نہیں لگاتے صرف دو ارکان یمانی (یعنی صرف رکن یمانی اور حجر اسود) کو چھوتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ صاف زین کے چمڑے کا جوتا پہنتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنا کپڑا زرد رنگ سے رنگتے ہیں یا زرد خضاب لگاتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا کہ جب مکہ میں ہوتے ہیں تو سب لوگ تو ذی الحجہ کا چاند دیکھ کر احرام باندھ لیتے ہیں لیکن آپ احرام نہیں باندھتے بلکہ ترویہ کے دن (8 ذی الحجہ کو) کو احرام باندھتے ہیں۔ ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ خانہ کعبہ کے ارکان کے متعلق جو تم نے کہا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ صرف حجر اسود اور رکن یمانی کو چھوتے دیکھا۔ صاف تری کے چمڑے کے جوتوں کے متعلق جو تم نے پوچھا تو میں نے دیکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ اسی چمڑے کا جوتا پہنتے تھے جس میں بال نہیں ہوتے تھے اور آپ اس کو پہنے ہوئے وضو کرتے تھے اس لیے میں بھی پسند کرتا ہوں کہ ایسا ہی جوتا استعمال کروں۔ زرد رنگ کے متعلق تم نے جو کہا ہے تو میں نے نبی کریم ﷺ کو اس سے خضاب کرتے یا کپڑے رنگتے دیکھا ہے اس لیے میں بھی اس زرد رنگ کو پسند کرتا ہوں اور رہا احرام باندھنے کا مسئلہ تو میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ اسی وقت احرام باندھتے جب اونٹ پر سوار ہو کر جانے لگتے۔

【69】

صاف کی ہوئی اور بغیر صاف کی ہوئی کھال کے جوتوں کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے محرم کو زعفران یا ورس سے رنگا ہوا کپڑا پہننے سے منع فرمایا تھا اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جسے جوتے نہ ملیں وہ موزے ہی پہن لیں لیکن ان کو ٹخنے کے نیچے تک کاٹ دیں۔

【70】

صاف کی ہوئی اور بغیر صاف کی ہوئی کھال کے جوتوں کا بیان

ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے جابر بن زید نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس کے پاس احرام باندھنے کے لیے تہبند نہ ہو وہ پاجامہ پہن لے (اس کا کاٹنا ضروری نہیں ہے) اور جس کے پاس جوتے نہ ہوں وہ موزے ہی پہن لے لیکن ٹخنوں کے نیچے تک ان کو کاٹ ڈالے (جیسا کہ پچھلی حدیث میں ہے) ۔

【71】

پہلے داہنی جوتی پہنے

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے اشعث بن سلیم نے خبر دی کہ میں نے اپنے والد سے سنا، وہ مسروق سے بیان کرتے تھے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ طہارت میں کنگھا کرنے میں اور جوتا پہننے میں داہنی طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے۔

【72】

پہلے بائیں پاؤں سے جوتی اتارے

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص جوتا پہنے تو دائیں طرف سے شروع کرے اور جب اتارے تو بائیں طرف سے اتارے تاکہ داہنی جانب پہننے میں اول ہو اور اتارنے میں آخر ہو۔

【73】

ایک جوتی پہن کر نہ چلے

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں کوئی شخص صرف ایک پاؤں میں جوتا پہن کر نہ چلے یا دونوں پاؤں ننگا رکھے یا دونوں میں جوتا پہنے۔

【74】

جوتی میں دو تسموں کے ہونے کا بیان بعض لوگوں نے ایک تسمہ کو بھی جائز قرار دیا ہے۔

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے چپل میں دو تسمے تھے۔

【75】

جوتی میں دو تسموں کے ہونے کا بیان بعض لوگوں نے ایک تسمہ کو بھی جائز قرار دیا ہے۔

مجھ سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں عیسیٰ بن طہمان نے خبر دی، بیان کیا کہ انس بن مالک (رض) دو جوتے لے کر ہمارے پاس باہر آئے جس میں دو تسمے لگے ہوئے تھے۔ ثابت بنانی نے کہا کہ یہ نبی کریم ﷺ کے جوتے ہیں۔

【76】

سرخ چرمی قبہ کا بیان

ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن ابی زائدہ نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی جحیفہ نے اور ان سے ان کے والد وہب بن عبداللہ سوائی (رض) نے بیان کیا کہ میں (حجۃ الوداع کے موقع پر) خدمت نبوی میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ چمڑے کے ایک سرخ خیمہ میں تشریف رکھے ہوئے تھے اور میں نے بلال (رض) کو دیکھا کہ نبی کریم ﷺ کے وضو کا پانی لیے ہوئے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم ﷺ کے وضو کے پانی کو لے لینے میں ایک دوسرے کے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر کسی کو کچھ پانی مل جاتا ہے تو وہ اسے اپنے بدن پر لگا لیتا ہے اور جسے کچھ نہیں ملتا وہ اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری ہی کو لگانے کی کوشش کرتا ہے۔

【77】

سرخ چرمی قبہ کا بیان

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے اور انہیں انس بن مالک (رض) نے خبر دی (دوسری سند) اور لیث بن سعد نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے انس بن مالک (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ نے انصار کو بلوایا اور انہیں لال چمڑے کے ایک خیمہ میں جمع کیا۔

【78】

بوریا وغیرہ پر بیٹھنے کا بیان

مجھ سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ رات میں چٹائی کا گھیرا بنا لیتے تھے اور ان گھیرے میں نماز پڑھتے تھے اور اسی چٹائی کو دن میں بچھاتے تھے اور اس پر بیٹھتے تھے پھر لوگ (رات کی نماز کے وقت) نبی کریم ﷺ کے پاس جمع ہونے لگے اور نبی کریم ﷺ کی نماز کی اقتداء کرنے لگے جب مجمع زیادہ بڑھ گیا تو نبی کریم ﷺ متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ لوگو ! عمل اتنے ہی کیا کرو جتنی کہ تم میں طاقت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ (اجر دینے سے) نہیں تھکتا مگر تم (عمل سے) تھک جاتے ہو اور اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسند وہ عمل ہے جسے پابندی سے ہمیشہ کیا جائے، خواہ وہ کم ہی ہو۔

【79】

باب

باب : اگر کسی کپڑے میں سونے کی گھنڈی یا تکمہ لگا ہو اور لیث بن سعد نے کہا کہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا، ان سے مسور بن مخرمہ (رض) نے کہ ان سے ان کے والد مخرمہ (رض) نے کہا بیٹے مجھے معلوم ہوا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس کچھ ق بائیں آئی ہیں اور آپ انہیں تقسیم فرما رہے ہیں۔ ہمیں بھی نبی کریم ﷺ کے پاس لے چلو۔ چناچہ ہم گئے اور نبی کریم ﷺ کو آپ کے گھر ہی میں پایا۔ والد نے مجھ سے کہا بیٹے میرا نام لے کر نبی کریم ﷺ کو بلاؤ۔ میں نے اسے بہت بڑی توہین آمیز بات سمجھا (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے والد کے لیے بلا کر تکلیف دوں) چناچہ میں نے والد صاحب سے کہا کہ میں آپ کے لیے نبی کریم ﷺ کو بلاؤں ! انہوں نے کہا کہ بیٹے ہاں۔ آپ کوئی جابر صفت انسان نہیں ہیں۔ چناچہ میں نے بلایا تو نبی کریم ﷺ باہر تشریف لے آئے۔ آپ ﷺ کے اوپر دیبا کی ایک قباء تھی جس میں سونے کی گھنڈیاں لگی ہوئی تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مخرمہ اسے میں نے تمہارے لیے چھپا کے رکھا ہوا تھا۔ چناچہ آپ ﷺ نے وہ قباء انہیں عنایت فرما دی۔

【80】

سونے کی انگوٹھیوں کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم کو اشعث بن سلیم نے کہا کہ میں نے معاویہ بن سوید بن مقرن سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں سات چیزوں سے روکا تھا۔ آپ ﷺ نے ہمیں سونے کی انگوٹھی سے یا راوی نے کہا کہ سونے کے چھلے سے، ریشم سے، استبرق سے، دیبا سے، سرخ میثرہ سے، قسی سے اور چاندی کے برتن سے منع فرمایا تھا اور ہمیں آپ ﷺ نے سات چیزوں یعنی بیمار کی مزاج پرسی کرنے، جنازہ کے پیچھے چلنے، چھینکنے والے کا جواب دینے، سلام کے جواب دینے، دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کرنے، (کسی بات پر) قسم کھا لینے والے قسم پوری کرانے اور مظلوم کی مدد کرنے کا حکم فرمایا تھا۔

【81】

سونے کی انگوٹھیوں کا بیان

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے نضر بن انس نے، ان سے بشیر بن نہیک نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے سونے کی انگوٹھی کے پہننے سے مردوں کو منع فرمایا تھا۔ اور عمرو نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں قتادہ نے، انہوں نے نضر سے سنا اور انہوں نے بشیر سے سنا، آگے اسی طرح روایت بیان کی۔

【82】

سونے کی انگوٹھیوں کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھا پھر کچھ دوسرے لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ آخر نبی کریم ﷺ نے اسے پھینک دیا اور چاندی کی انگوٹھی بنوا لی۔

【83】

چاندی کی انگوٹھی پہننے کا بیان

ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے یا چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا اور اس پر محمد رسول الله‏.‏ کے الفاظ کھدوائے پھر دوسرے لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ جب نبی کریم ﷺ نے دیکھا کہ کچھ دوسرے لوگوں نے بھی اس طرح کی انگوٹھیاں بنوا لی تو آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔ پھر آپ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور دوسرے لوگوں نے بھی چاندی کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے بعد اس انگوٹھی کو ابوبکر (رض) نے پہنا پھر عمر (رض) اور پھر عثمان نے پہنا۔ آخر عثمان (رض) کے عہد خلافت میں وہ انگوٹھی اریس کے کنویں میں گرگئی۔

【84】

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ (حرمت سے پہلے) سونے کی انگوٹھی پہنتے تھے پھر حرمت کا حکم آنے پر آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ میں اب سے کبھی نہیں پہنوں گا اور لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔

【85】

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے انہوں نے کہا کہ مجھ سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ہاتھ میں ایک دن چاندی کی انگوٹھی دیکھی پھر دوسرے لوگوں نے بھی چاندی کی انگوٹھیاں بنوانی شروع کردیں اور پہننے لگے تو نبی کریم ﷺ نے اپنی انگوٹھی پھینک دی اور دوسرے لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دی۔ اس روایت کی متابعت ابراہیم بن سعد، زیاد اور شعیب نے زہری سے کی ہے اور ابن مسافر نے زہری سے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ خاتما من ورق‏. بیان کیا۔

【86】

انگوٹھی کے نگینہ کا بیان

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید بن زریع نے خبر دی، کہا ہم کو حمید نے خبر دی، کہا انہوں نے کہ انس (رض) سے پوچھا گیا کیا نبی کریم ﷺ نے انگوٹھی بنوائی تھی ؟ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک رات عشاء کی نماز آدھی رات میں پڑھائی۔ پھر چہرہ مبارک ہماری طرف کیا، جیسے اب بھی میں نبی کریم ﷺ کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ فرمایا کہ بہت سے لوگ نماز پڑھ کر سو چکے ہوں گے لیکن تم اس وقت بھی نماز میں ہو جب تک تم نماز کا انتظار کرتے رہے ہو۔

【87】

انگوٹھی کے نگینہ کا بیان

ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معتمر نے خبر دی، کہا کہ میں نے حمید سے سنا، وہ انس (رض) سے بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی اسی کا تھا اور یحییٰ بن ایوب نے بیان کیا کہ مجھ سے حمید نے بیان کیا، انہوں نے انس (رض) سے سنا، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح بیان کیا۔

【88】

لوہے کی انگوٹھی کا بیان

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور انہوں نے سہل (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ میں اپنے آپ کو ہبہ کرنے آئی ہوں، دیر تک وہ عورت کھڑی رہی۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں دیکھا اور پھر سر جھکا لیا جب دیر تک وہ وہیں کھڑی رہیں تو ایک صاحب نے اٹھ کر عرض کیا : اگر نبی کریم ﷺ کو ان کی ضرورت نہیں ہے تو ان کا نکاح مجھ سے کردیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، تمہارے پاس کوئی چیز ہے جو مہر میں انہیں دے سکو، انہوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دیکھ لو۔ وہ گئے اور واپس آ کر عرض کیا کہ واللہ ! مجھے کچھ نہیں ملا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ تلاش کرو، لوہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی۔ وہ گئے اور واپس آ کر عرض کیا کہ وہ مجھے لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں ملی۔ وہ ایک تہمد پہنے ہوئے تھے اور ان کے جسم پر (کرتے کی جگہ) چادر بھی نہیں تھی۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں انہیں اپنا تہمد مہر میں دے دوں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہارا تہمد یہ پہن لیں گی تو تمہارے لیے کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اور اگر تم اسے پہن لو گے تو ان کے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ وہ صاحب اس کے بعد ایک طرف بیٹھ گئے پھر جب نبی کریم ﷺ نے انہیں جاتے دیکھا تو آپ ﷺ نے انہیں بلوایا اور فرمایا تمہیں قرآن کتنا یاد ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں۔ انہوں نے سورتوں کو شمار کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جا میں نے اس عورت کو تمہارے نکاح میں اس قرآن کے عوض میں دے دیا جو تمہیں یاد ہے۔

【89】

انگوٹھی پر نقش کرنے کا بیان

ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے عجم کے کچھ لوگوں (شاہان عجم) کے پاس خط لکھنا چاہا تو آپ سے کہا گیا کہ عجم کے لوگ کوئی خط اس وقت تک نہیں قبول کرتے جب تک اس پر مہر لگی ہوئی نہ ہو۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی۔ جس پر یہ کندہ تھا محمد رسول الله۔ گویا اس وقت نبی کریم ﷺ کی انگلی یا آپ کی ہتھیلی میں اس کی چمک دیکھ رہا ہوں۔

【90】

انگوٹھی پر نقش کرنے کا بیان

ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن نمیر نے خبر دی، انہیں عبیداللہ عمری نے، انہیں نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی۔ وہ انگوٹھی آپ کے ہاتھ میں، اس کے بعد عمر (رض) کے ہاتھ میں، اس کے بعد عثمان (رض) کے ہاتھ میں رہتی تھی لیکن ان کے زمانہ میں وہ اریس کے کنویں میں گرگئی اس کا نقش محمد رسول الله تھا۔

【91】

چھنگلیا میں انگوٹھی پہننے کا بیان

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا، ان سے انس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک انگوٹھی بنوائی اور فرمایا کہ ہم نے ایک انگوٹھی بنوائی ہے اس پر لفظ ( محمد رسول الله ) کندہ کرایا ہے اس لیے انگوٹھی پر کوئی شخص یہ نقش نہ کندہ کرائے۔ انس نے بیان کیا کہ جیسے اس انگوٹھی کی چمک نبی کریم ﷺ کی چھنگلیاں میں اب بھی میں دیکھ رہا ہوں۔

【92】

کسی چیز پر مہر لگانے یا اہل کتاب وغیرہ کے پاس خط لکھنے کے لئے انگوٹھی بنوانے کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ نے روم (کے بادشاہ کو) خط لکھانا چاہا تو آپ سے کہا گیا کہ اگر آپ کے خط پر مہر نہ ہوئی تو وہ خط نہیں پڑھتے۔ چناچہ آپ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اس پر لفظ محمد رسول الله کندہ کرایا۔ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس کی سفیدی اب بھی میں دیکھ رہا ہوں۔

【93】

اس شخص کا بیان جو انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی طرف کرے

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے پہلے ایک سونے کی انگوٹھی بنوائی اور پہننے میں آپ اس کا رنگ اندر کی طرف رکھتے تھے۔ آپ کی دیکھا دیکھی لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنالیں تو نبی کریم ﷺ منبر پر تشریف لائے اور اللہ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا میں نے بھی سونے کی انگوٹھی بنوائی تھی۔ (حرمت نازل ہونے کے بعد) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب میں اسے نہیں پہنوں گا۔ پھر آپ نے وہ انگوٹھی پھینک دی اور لوگوں نے بھی اپنی سونے کی انگوٹھیوں کو پھینک دیا۔ جویریہ نے بیان کیا کہ مجھے یہی یاد ہے کہ نافع نے داہنے ہاتھ میں بیان کیا۔

【94】

نبی ﷺ کا فرمانا کہ کوئی شخص اپنی انگوٹھی پر نقش نہ کنندہ کروائے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس میں یہ نقش کھدوایا محمد رسول الله اور لوگوں سے کہہ دیا کہ میں نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوا کر اس پر محمد رسول الله نقش کروایا ہے۔ اس لیے اب کوئی شخص یہ نقش اپنی انگوٹھی پر نہ کھدوائے۔

【95】

کیا انگوٹھی پر تین سطروں میں نقش کنند کرایا جائے

مجھ سے عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد عبداللہ بن مثنیٰ نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے اور ان سے انس (رض) نے کہ ابوبکر (رض) جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھ کو زکوٰۃ کے مسائل لکھوا دیئے اور انگوٹھی (مہر) کا نقش تین سطروں میں تھا ایک سطر میں محمد دوسری سطر میں رسول اور تیسری سطر میں اللہ ۔ امام بخاری (رح) نے کہا کہ مجھ سے امام احمد بن حنبل نے اتنا اور روایت کیا، کہا مجھ سے محمد بن عبداللہ انصاری نے، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے، ان سے ثمامہ بن عبداللہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی انگوٹھی وفات تک آپ کے ہاتھ میں رہی۔ آپ کے بعد ابوبکر (رض) کے ہاتھ میں اور ابوبکر (رض) کے بعد عمر (رض) کے ہاتھ میں رہی پھر جب عثمان (رض) کی خلافت کا زمانہ آیا تو وہ اریس کے کنویں پر ایک مرتبہ بیٹھے، بیان کیا کہ پھر انگوٹھی نکالی اور اسے الٹنے پلٹنے لگے کہ اتنے میں وہ (کنویں میں) گرگئی۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ پھر عثمان (رض) کے ساتھ ہم تین دن تک اسے ڈھونڈتے رہے اور کنویں کا سارا پانی بھی کھینچ ڈالا لیکن وہ انگوٹھی نہیں ملی۔

【96】

عورتوں کے انگوٹھی پہننے کا بیان اور حضرت عائشہ (رض) کے پاس سونے کی انگوٹھیاں تھیں

ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو حسن بن مسلم نے خبر دی، انہیں طاؤس نے اور انہیں ابن عباس (رض) نے کہ میں عیدالفطر کی نماز میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھا۔ نبی کریم ﷺ نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی اور ابن وہب نے جریج سے یہ لفظ بڑھائے کہ پھر نبی کریم ﷺ عورتوں کے مجمع کی طرف گئے (اور صدقہ کی ترغیب دلائی) تو عورتیں بلال (رض) کے کپڑے میں چھلے دار انگوٹھیاں ڈالنے لگیں۔

【97】

عورتوں کے ہار پہننے اور کڑے پہننے کا بیان

ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ عیدالفطر کے دن (آبادی سے باہر) گئے اور دو رکعت نماز پڑھائی آپ نے اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی دوسری نفل نماز نہیں پڑھی پھر آپ عورتوں کے مجمع کی طرف آئے اور انہیں صدقہ کا حکم فرمایا۔ چناچہ عورتیں اپنی بالیاں اور خوشبو اور مشک کے ہار صدقہ میں دینے لگیں۔

【98】

ہار عاریت لینے کا بیان

ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ اسماء (رض) کا ہار (جو ام المؤمنین عائشہ (رض) نے عاریت پر لیا تھا) گم ہوگیا تو نبی کریم ﷺ نے اسے تلاش کرنے کے لیے چند صحابہ کو بھیجا اسی دوران میں نماز کا وقت ہوگیا اور لوگ بلا وضو (وضو کے بغیر) تھے چونکہ پانی بھی موجود نہیں تھا، اس لیے سب نے بلا وضو نماز پڑھی پھر نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو تیمم کی آیت نازل ہوئی۔ ابن نمیر نے یہ اضافہ کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ وہ ہار انہوں نے اسماء سے عاریتاً لیا تھا۔

【99】

بالیوں کے پہننے کا بیان، ابن عباس (رض) کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے عورتوں کو صدقہ کا حکم دیا، تو میں نے دیکھا کہ وہ عورتیں اپنے کانوں اور گلے کی طرف ہاتھ بڑھارہی ہیں

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عدی بن ثابت نے خبر دی، کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا اور انہوں نے ابن عباس (رض) سے کہ نبی کریم ﷺ نے عید کے دن دو رکعتیں پڑھائیں نہ اس کے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد پھر آپ عورتوں کی طرف تشریف لائے، آپ کے ساتھ بلال (رض) تھے۔ آپ نے عورتوں کو صدقہ کا حکم فرمایا تو وہ اپنی بالیاں بلال (رض) کی جھولی میں ڈالنے لگیں۔

【100】

بچوں کے لئے سخاب ( ایک قسم کا ہار) پہننے کا بیان

مجھ سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن آدم نے خبر دی، کہا ہم سے ورقاء بن عمر نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن ابی یزید نے، ان سے نافع بن جبیر نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں مدینہ کے بازاروں میں سے ایک بازار میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔ نبی کریم ﷺ واپس ہوئے تو میں پھر آپ کے ساتھ واپس ہوا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا بچہ کہاں ہے۔ یہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا۔ حسن بن علی کو بلاؤ۔ حسن بن علی (رض) آ رہے تھے اور ان کی گردن میں (خوشبودار لونگ وغیرہ کا) ہار پڑا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنا ہاتھ اس طرح پھیلایا کہ (آپ حسن (رض) کو گلے سے لگانے کے لیے) اور حسن (رض) نے بھی اپنا ہاتھ پھیلایا اور وہ نبی کریم ﷺ سے لپٹ گئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا، اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور ان سے بھی محبت کر جو اس سے محبت رکھیں۔ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کے بعد کوئی شخص بھی حسن بن علی (رض) سے زیادہ مجھے پیارا نہیں تھا۔

【101】

مردوں کا عورتوں کی سی صورت اور عورتوں کا مردوں کی سی صورت اختیار کرنے کا بیان

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں جیسا چال چلن اختیار کریں اور ان عورتوں پر لعنت بھیجی جو مردوں جیسا چال چلن اختیار کریں۔ غندر کے ساتھ اس حدیث کو عمرو بن مرزوق نے بھی شعبہ سے روایت کیا۔

【102】

عورتوں کی صورت اختیار کرنے والے کو گھر سے نکال دینا

ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مخنث مردوں پر اور مردوں کی چال چلن اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی اور فرمایا کہ ان زنانہ بننے والے مردوں کو اپنے گھروں سے باہر نکال دو ۔ ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں ہیجڑے کو نکالا تھا اور عمر (رض) نے فلاں ہیجڑے کو نکالا تھا۔

【103】

عورتوں کی صورت اختیار کرنے والے کو گھر سے نکال دینا

ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی، انہیں زینب بنت ابی سلمہ (رض) نے خبر دی اور انہیں ام سلمہ (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف رکھتے تھے۔ گھر میں ایک مخنث بھی تھا، اس نے ام سلمہ (رض) کے بھائی عبداللہ (رض) سے کہا عبداللہ ! اگر کل تمہیں طائف پر فتح حاصل ہوجائے تو میں تمہیں بنت غیلان (بادیہ نامی) کو دکھلاؤں گا وہ جب سامنے آتی ہے تو (اس کے موٹاپے کی وجہ سے) چار سلوٹیں دکھائی دیتی ہیں اور جب پیٹھ پھیرتی ہے تو آٹھ سلوٹیں دکھائی دیتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اب یہ شخص تم لوگوں کے پاس نہ آیا کرے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ سامنے سے چار سلوٹوں کا مطلب یہ ہے کہ (موٹے ہونے کی وجہ سے) اس کے پیٹ میں چار سلوٹیں پڑی ہوئی ہیں اور جب وہ سامنے آتی ہے تو وہ دکھائی دیتی ہیں اور آٹھ سلوٹوں سے پیچھے پھرتی ہے کا مفہوم ہے (آگے کی) ان چاروں سلوٹوں کے کنارے کیونکہ یہ دونوں پہلوؤں کو گھیرے ہوئے ہوتے ہیں اور پھر وہ مل جاتی ہیں اور حدیث میں بثمان‏ کا لفظ ہے حالانکہ از روئے قائدہ نحو کے بثمانية‏.‏ ہونا تھا کیونکہ مراد آٹھ اطراف یعنی کنارے ہیں اور لأطراف ، طرف کی جمع ہے اور طرف کا لفظ مذکر ہے۔ مگر چونکہ لأطراف کا لفظ مذکور نہ تھا اس لیے بثمان‏ بھی کہنا درست ہوا۔

【104】

مونچھیں کتروانے کا بیان، اور حضرت عمر (رض) اپنی مونچھیں اس قدر کترواتے تھے کہ کھال دکھائی دینے لگتی تھی، اور داڑھی اور مونچھ کے درمیان کے بالولوں کو کترواتے تھے

ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے حنظلہ بن ابی ہانی نے، ان سے نافع نے بیان کیا، (امام بخاری (رح) نے) کہا کہ اس حدیث کو ہمارے اصحاب نے مکی سے روایت کیا، انہوں نے بحوالہ ابن عمر (رض) کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مونچھ کے بال کتروانا پیدائشی سنت ہے۔

【105】

مونچھیں کتروانے کا بیان، اور حضرت عمر (رض) اپنی مونچھیں اس قدر کترواتے تھے کہ کھال دکھائی دینے لگتی تھی، اور داڑھی اور مونچھ کے درمیان کے بالولوں کو کترواتے تھے

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ زہری نے ہم سے بیان کیا (سفیان نے کہا) ہم سے زہری نے سعید بن مسیب سے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے (نبی کریم ﷺ سے) روایت کیا کہ پانچ چیزیں (فرمایا کہ) پانچ چیزیں ختنہ کرانا، موئے زیر ناف مونڈنا، بغل کے بال نوچنا، ناخن ترشوانا اور مونچھ کم کرانا پیدائشی سنتوں میں سے ہیں۔

【106】

ناخن کٹوانے کا بیان

ہم سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسحاق بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے حنظلہ سے سنا، انہوں نے نافع سے بیان کیا اور انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا موئے زیر ناف مونڈنا، ناخن ترشوانا اور مونچھ کترانا پیدائشی سنتیں ہیں۔

【107】

ناخن کٹوانے کا بیان

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا پانچ چیزیں ختنہ کرانا، زیر ناف مونڈنا، مونچھ کترانا، ناخن ترشوانا اور بغل کے بال نوچنا پیدائشی سنتیں ہیں۔

【108】

ناخن کٹوانے کا بیان

ہم سے محمد بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے، انہوں نے کہا ہم سے عمر بن محمد بن زید نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم مشرکین کے خلاف کرو، داڑھی چھوڑ دو اور مونچھیں کترواؤ۔ عبداللہ بن عمر (رض) جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی (ہاتھ سے) پکڑ لیتے اور (مٹھی) سے جو بال زیادہ ہوتے انہیں کتروا دیتے۔

【109】

داڑھی بڑھانے کا بیان

مجھ سے محمد نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا ہمیں عبدہ نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عمر نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مونچھیں خوب کتروایا لیا کرو اور داڑھی کو بڑھاؤ۔

【110】

بڑھاپے کے متعلق جو روایتیں منقول ہیں

ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میں نے انس (رض) سے پوچھا کیا نبی کریم ﷺ نے خضاب استعمال کیا تھا ؟ بولے کہ نبی کریم ﷺ کے بال ہی بہت کم سفید ہوئے تھے۔

【111】

بڑھاپے کے متعلق جو روایتیں منقول ہیں

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے بیان کیا کہ انس (رض) سے نبی کریم ﷺ کے خضاب کے متعلق سوال کیا گیا تو احول نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کو خضاب کی نوبت ہی نہیں آئی تھی اگر میں آپ کی داڑھی کے سفید بال گننا چاہتا تو گن سکتا تھا۔

【112】

بڑھاپے کے متعلق جو روایتیں منقول ہیں

ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے عثمان بن عبداللہ بن وہب نے بیان کیا کہ میرے گھر والوں نے ام سلمہ (رض) کے پاس پانی کا ایک پیالہ لے کر بھیجا (راوی حدیث) اسرائیل راوی نے تین انگلیاں بند کرلیں یعنی وہ اتنی چھوٹی پیالی تھی اس پیالی میں بالوں کا ایک گچھا تھا جس میں نبی کریم ﷺ کے بالوں میں سے کچھ بال تھے۔ عثمان نے کہا جب کسی شخص کو نظر لگ جاتی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو وہ اپنا پانی کا برتن بی بی ام سلمہ (رض) کے پاس بھیج دیتا۔ (وہ اس میں نبی کریم ﷺ کے بال ڈبو دیتیں) عثمان نے کہا کہ میں نے نلکی کو دیکھا (جس میں موئے مبارک رکھے ہوئے تھے) تو سرخ سرخ بال دکھائی دیئے۔

【113】

بڑھاپے کے متعلق جو روایتیں منقول ہیں

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلام بن ابی مطیع نے بیان کیا، ان سے عثمان بن عبداللہ بن موہب نے کہ میں ام سلمہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمیں نبی کریم ﷺ کے چند بال نکال کر دکھائے جن پر خضاب لگا ہوا تھا۔ اور ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے نصیر بن ابی الاشعث نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن موہب نے کہ ام سلمہ (رض) نے انہیں نبی کریم ﷺ کا بال دکھایا جو سرخ تھا۔

【114】

خضاب کرنے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا ان سے ابوسلمہ اور سلیمان بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ یہود و نصاریٰ خضاب نہیں لگاتے تم ان کے خلاف کرو یعنی خضاب لگایا کرو۔

【115】

گھونگریالے بالوں کا بیان

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک بن انس نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے، انہوں نے ان سے سنا کہ وہ بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ بہت لمبے نہیں تھے اور نہ آپ چھوٹے قد کے ہی تھے (بلکہ آپ کا بیچ والا قد تھا) نہ آپ بالکل سفید بھورے تھے اور نہ گندم گوں ہی تھے، آپ کے بال گھونگھریالے الجھے ہوئے نہیں تھے اور نہ بالکل سیدھے لٹکے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیس سال کی عمر میں رسول بنایا دس سال آپ نے (نبوت کے بعد) مکہ مکرمہ میں قیام کیا اور دس سال مدینہ منورہ میں اور تقریباً ساٹھ سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی۔ وفات کے وقت آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہیں تھے۔

【116】

گھونگریالے بالوں کا بیان

ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے، کہا میں براء (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کہا کہ میں نے سرخ حلہ میں نبی کریم ﷺ سے زیادہ کسی کو خوبصورت نہیں دیکھا (امام بخاری (رح) نے کہا کہ) مجھ سے میرے بعض اصحاب نے امام مالک (رح) سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے سر کے بال شانہ مبارک کے قریب تک تھے۔ ابواسحاق نے بیان کیا کہ میں نے براء (رض) کو ایک مرتبہ سے زیادہ یہ حدیث بیان کرتے سنا جب بھی وہ یہ حدیث بیان کرتے تو مسکراتے۔ اس روایت کی متابعت شعبہ نے کی کہ نبی کریم ﷺ کے بال آپ کے کانوں کی لو تک تھے۔

【117】

گھونگریالے بالوں کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رات کعبہ کے پاس مجھے دیکھایا گیا، میں نے دیکھا کہ ایک صاحب ہیں گندمی رنگ، گندمی رنگ کے لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت، ان کے شانوں تک لمبے لمبے بال ہیں ایسے بال والے لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت، انہوں نے بالوں میں کنگھا کر رکھا ہے اور اس کی وجہ سے سر سے پانی ٹپک رہا ہے۔ دو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے ہیں یا دو آدمیوں کے شانوں کا سہارا لیے ہوئے ہیں اور خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں، میں نے پوچھا کہ یہ کون بزرگ ہیں تو مجھے بتایا گیا کہ یہ عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) ہیں پھر اچانک میں نے ایک الجھے ہوئے گھونگھریالے بال والے شخص کو دیکھا، دائیں آنکھ سے کانا تھا گویا انگور ہے جو ابھرا ہوا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کانا کون ہے ؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ مسیح دجال ہے۔

【118】

گھونگریالے بالوں کا بیان

ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو حبان نے خبر دی، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم کے بال مونڈھوں تک پہنچتے تھے۔

【119】

گھونگریالے بالوں کا بیان

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے (سر کے ) بال مونڈھوں تک پہنچتے تھے۔

【120】

گھونگریالے بالوں کا بیان

مجھ سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے بالوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ کے بال درمیانہ تھے، نہ بالکل سیدھے لٹکے ہوئے اور نہ گھونگھریالے اور وہ کانوں اور مونڈھوں کے بیچ تک تھے۔

【121】

گھونگریالے بالوں کا بیان

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے ہاتھ بھرے ہوئے تھے میں نے نبی کریم ﷺ کے بعد آپ جیسا (خوبصورت کوئی آدمی) نہیں دیکھا آپ کے سر کے بال میانہ تھے نہ گھونگھریالے اور نہ بالکل سیدھے لٹکے ہوئے۔

【122】

گھونگریالے بالوں کا بیان

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کی، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے ہاتھ اور پاؤں بھرے ہوئے تھے۔ چہرہ حسین و جمیل تھا، میں نے آپ جیسا خوبصورت کوئی نہ پہلے دیکھا اور نہ بعد میں، آپ کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں۔

【123】

گھونگریالے بالوں کا بیان

ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ بن ہانی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے یا ایک آدمی نے ابوہریرہ (رض) سے کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ بھرے ہوئے قدموں والے تھے، نہایت ہی حسین و جمیل، آپ جیسا خوبصورت میں نے آپ کے بعد کسی کو نہیں دیکھا۔ اور ہشام نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کے قدم اور ہتھیلیاں بھری ہوئی اور گداز تھیں۔ اور ابوہلال نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) یا جابر بن عبداللہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی ہتھیلیاں اور قدم بھرے ہوئے تھے، آپ جیسا پھر میں نے کوئی خوبصورت آدمی نہیں دیکھا۔

【124】

None

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم اور ہتھیلیاں بھری ہوئی اور گداز تھیں۔

【125】

None

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیاں اور قدم بھرے ہوئے تھے، آپ جیسا پھر میں نے کوئی خوبصورت آدمی نہیں دیکھا۔

【126】

None

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیاں اور قدم بھرے ہوئے تھے، آپ جیسا پھر میں نے کوئی خوبصورت آدمی نہیں دیکھا۔

【127】

گھونگریالے بالوں کا بیان

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے اور ان سے مجاہد نے بیان کیا کہ ہم ابن عباس (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگوں نے دجال کا ذکر کیا اور کسی نے کہا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ کافر لکھا ہوگا۔ اس پر ابن عباس (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے میں نے تو نہیں سنا البتہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ اگر تمہیں ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھنا ہو تو اپنے صاحب (خود نبی کریم ﷺ ) کو دیکھو (کہ آپ بالکل ان کے ہم شکل ہیں) اور موسیٰ (علیہ السلام) گندمی رنگ کے ہیں بال گھونگھریالے جیسے اس وقت بھی میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس نالے وادی ازرق نامی میں لبیک کہتے ہوئے اتر رہے ہیں ان کے سرخ اونٹ کی نکیل کی رسی کھجور کی چھال کی ہے۔

【128】

بالوں کو گوند سے جمانے کا بیان

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عمر (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ جو شخص سر کے بالوں کو گوند لے (وہ حج یا عمرے سے فارغ ہو کر سر منڈائے) اور جیسے احرام میں بالوں کو جما لیتے ہیں غیر احرام میں نہ جماؤ اور ابن عمر (رض) کہتے تھے میں نے تو نبی کریم ﷺ کو بال جماتے دیکھا۔

【129】

بالوں کو گوند سے جمانے کا بیان

مجھ سے حبان بن موسیٰ اور احمد بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے اپنے بال جما لیے تھے اور احرام کے وقت یوں آپ لبیک کہہ رہے تھے لبيك اللهم لبيك،‏‏‏‏ لبيك لا شريك لک لبيك،‏‏‏‏ إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك ان کلمات کے اوپر اور کچھ آپ نہیں بڑھاتے تھے۔

【130】

بالوں کو گوند سے جمانے کا بیان

مجھ سے اسماعیل بن ابن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حفصہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا بات ہے کہ لوگ عمرہ کر کے احرام کھول چکے ہیں حالانکہ آپ نے احرام نہیں کھولا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیونکہ میں نے اپنے سر کے بال جما لیے ہیں اور اپنی ہدی (قربانی کے جانور) کے گلے میں قلادہ ڈال دیا ہے۔ اس لیے جب تک میری قربانی کا نحر نہ ہو لے میں احرام نہیں کھول سکتا۔

【131】

مانگ نکالنے کا بیان

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کو اگر کسی مسئلہ میں کوئی حکم معلوم نہ ہوتا تو آپ اس میں اہل کتاب کے عمل کو اپناتے تھے۔ اہل کتاب اپنے سر کے بال لٹکائے رکھتے اور مشرکین مانگ نکالتے تھے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ بھی (اہل کتاب کی موافقت میں) پہلے سر کے بال پیشانی کی طرف لٹکاتے لیکن بعد میں آپ بیچ میں سے مانگ نکالنے لگے۔

【132】

مانگ نکالنے کا بیان

ہم سے ابوالولید اور عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتیبہ نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا جیسے میں اب بھی نبی کریم ﷺ کی مانگ میں احرام کی حالت میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں۔ عبداللہ بن رجاء نے (اپنی روایت میں) مفرق النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ (واحد کے صیغہ کے ساتھ) بیان کیا یعنی مانگوں کی جگہ صرف لفظ مانگ استعمال کیا۔

【133】

گیسوؤں کا بیان

ہم سے عمرو بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوبشر نے خبر دی، پھر یہی حدیث نقل کی اس میں یوں ہے کہ میری چوٹی پکڑ کر یا میرا سر پکڑ کر آپ نے مجھے اپنے داہنے جانب کردیا۔

【134】

قزع ( کچھ بال کاٹنے اور کچھ چھوڑنے) کا بیان

مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ مجھے مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن حفص نے خبر دی، انہیں عمرو بن نافع نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عمر (رض) کے غلام نافع نے کہ انہوں نے ابن عمر (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ نے قزع‏.‏ سے منع فرمایا، عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے نافع سے پوچھا کہ قزع‏.‏ کیا ہے ؟ پھر عبیداللہ نے ہمیں اشارہ سے بتایا کہ نافع نے کہا کہ بچہ کا سر منڈاتے وقت کچھ یہاں چھوڑ دے اور کچھ بال وہاں چھوڑ دے۔ (تو اسے قزع‏.‏ کہتے ہیں) اسے عبیداللہ نے پیشانی اور سر کے دونوں کناروں کی طرف اشارہ کر کے ہمیں اس کی صورت بتائی۔ عبیداللہ نے اس کی تفسیر یوں بیان کی یعنی پیشانی پر کچھ بال چھوڑ دیئے جائیں اور سر کے دونوں کونوں پر کچھ بال چھوڑ دیئے جائیں۔ پھر عبیداللہ سے پوچھا گیا کہ اس میں لڑکا اور لڑکی دونوں کا ایک ہی حکم ہے ؟ فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔ نافع نے صرف لڑکے کا لفظ کہا تھا۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ میں نے عمرو بن نافع سے دوبارہ اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ لڑکے کی کنپٹی یا گدی پر چوٹی کے بال اگر چھوڑ دیئے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن قزع‏.‏ یہ ہے کہ پیشانی پر بال چھوڑ دیئے جائیں اور باقی سب منڈوائے جائیں اسی طرح سر کے اس جانب میں اور اس جانب میں۔

【135】

قزع ( کچھ بال کاٹنے اور کچھ چھوڑنے) کا بیان

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن مثنیٰ بن عبداللہ بن انس بن مالک نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے قزع‏.‏ سے منع فرمایا تھا۔

【136】

عورت کا شوہر کو اپنے ہاتھ سے خوشبو لگانے کا بیان

مجھ سے احمد بن محمد مروزی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید انصاری نے خبر دی، انہیں عبدالرحمٰن بن قاسم نے خبر دی، انہیں ان کے والد قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے احرام میں رہنے کے لیے اپنے ہاتھ سے خوشبو لگائی میں نے اسی طرح (دسویں تاریخ کو) منیٰ میں طواف زیارت کرنے سے پہلے اپنے ہاتھ سے آپ کو خوشبو لگائی۔

【137】

سر اور داڑھی میں خوشبو لگانے کا بیان

ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، انہیں عبدالرحمٰن بن اسود نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کو سب سے عمدہ خوشبو لگایا کرتی تھی، یہاں تک کہ خوشبو کی چمک میں آپ کے سر اور آپ کی داڑھی میں دیکھتی تھی۔

【138】

کنگھی کرنے کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سہل بن سعد (رض) نے کہ ایک صاحب نے نبی کریم ﷺ کے دیوار کے ایک سوراخ سے گھر کے اندر دیکھا نبی کریم ﷺ اس وقت اپنا سر کنگھے سے کھجلا رہے تھے پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم جھانک رہے ہو تو میں تمہاری آنکھ پھوڑ دیتا ارے اذن (اجازت) لینا تو اس کے لیے ہے کہ آدمی کی نظر (کسی کے) ستر پر نہ پڑے۔

【139】

حائضہ کا اپنے شوہر کے سر میں کنگھی کرنے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے اسی طرح یہ حدیث بیان کی۔

【140】

بالوں میں کنگھی کرنے کا بیان

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اشعث بن سلیم نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ ہر کام میں جہاں تک ممکن ہوتا داہنی طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے، کنگھا کرنے اور وضو کرنے میں بھی۔

【141】

مشک کا بیان

مجھ سے عبداللہ بن محمد ہمدانی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف صنعانی نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن المسیب نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا) ابن آدم کا ہر عمل اس کا ہے سوا روزہ کے کہ یہ میرا ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ دار کے منہ کے خوشبو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بڑھ کر ہے۔

【142】

بہترین خوشبو لگانے کا بیان

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے عثمان بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے احرام کے وقت عمدہ سے عمدہ خوشبو جو مل سکتی تھی، وہ لگاتی۔

【143】

خوشبو رد نہ کرنے کا بیان

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عروہ بن ثابت انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ثمامہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے کہ (جب ان کو) خوشبو (ہدیہ کی جاتی تو) آپ وہ واپس نہیں کیا کرتے تھے اور کہتے کہ نبی کریم ﷺ بھی خوشبو کو واپس نہیں فرمایا کرتے تھے۔

【144】

ذریرہ کا بیان

ہم سے عثمان بن ہشیم نے بیان کیا یا محمد بن یحییٰ دیلی نے، انہیں عثمان بن ہشیم نے (امام بخاری (رح) کو شک ہے) ان سے ابن جریج نے انہوں نے کہا مجھ کو عمر بن عبداللہ بن عروہ بن شہر نے خبر دی، انہوں نے عروہ اور قاسم دونوں سے سنا، وہ دونوں ام المؤمنین عائشہ (رض) سے نقل کرتے تھے کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع کے موقع پر احرام کھولنے اور احرام باندھنے کے وقت اپنے ہاتھ سے ذریرہ (ایک قسم کی مرکب) خوشبو لگائی تھی۔

【145】

خوبصورتی کے لئے دانتوں کو کشادہ کرنے کا بیان

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن کے لیے گودنے والیوں، گدوانے والیوں پر اور چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں پر اور دانتوں کے درمیان کشادگی پیدا کرنے والیوں پر، جو اللہ کی خلقت کو بدلیں ان سب پر لعنت بھیجی ہے، میں بھی کیوں نہ ان لوگوں پر لعنت کروں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور اس کی دلیل کہ نبی کریم ﷺ کی لعنت خود قرآن مجید میں موجود ہے۔ آیت وما آتاکم الرسول فخذوه‏ ہے۔

【146】

بالوں میں جوڑ لگانے کا بیان

ہم سے اسماعیل بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف اور انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان (رض) سے حج کے سال میں سنا وہ مدینہ منورہ میں منبر پر یہ فرما رہے تھے انہوں نے بالوں کی ایک چوٹی جو ان کے چوکیدار کے ہاتھ میں تھی لے کر کہا کہاں ہیں تمہارے علماء میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ اس طرح بال بنانے سے منع فرما رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ بنی اسرائیل اس وقت تباہ ہوگئے جب ان کی عورتوں نے اس طرح اپنے بال سنوارنے شروع کردیئے۔ اور ابن ابی شیبہ نے بیان کیا، ان سے یونس بن محمد نے بیان کیا، ان سے فلیح نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سر کے قدرتی بالوں میں مصنوعی بال لگانے والیوں پر اور لگوانے والیوں پر اور گودنے والیوں پر اور گدوانے والیوں پر اللہ نے لعنت بھیجی ہے۔

【147】

بالوں میں جوڑ لگانے کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا کہ میں نے حسن بن مسلم بن نیاق سے سنا، وہ صفیہ بنت شیبہ سے بیان کرتے تھے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ انصار کی ایک لڑکی نے شادی کی۔ اس کے بعد وہ بیمار ہوگئی اور اس کے سر کے بال جھڑ گئے، اس کے گھر والوں نے چاہا کہ اس کے بالوں میں مصنوعی بال لگا دیں۔ اس لیے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مصنوعی بال جوڑنے والی اور جڑوانے والی دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔ شعبہ کے ساتھ اس حدیث کو محمد بن اسحاق نے بھی ابان بن صالح سے، انہوں نے حسن بن مسلم سے، انہوں نے صفیہ سے، انہوں نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے۔

【148】

بالوں میں جوڑ لگانے کا بیان

مجھ سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، کہا ہم سے فضل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے منصور بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میری والدہ صفیہ بنت شیبہ نے بیان کیا، ان سے اسماء بنت ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ ایک خاتون نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ میں نے اپنی لڑکی کی شادی کی ہے اس کے بعد وہ بیمار ہوگئی اور اس کے سر کے بال جھڑ گئے اور اس کا شوہر مجھ پر اس کے معاملہ میں زور دیتا ہے۔ کیا میں اس کے سر میں مصنوعی بال لگا دوں ؟ اس پر نبی کریم ﷺ نے مصنوعی بال جوڑنے والیوں اور جڑوانے والیوں کو برا کہا، ان پر لعنت بھیجی۔

【149】

بالوں میں جوڑ لگانے کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کی بیوی فاطمہ نے، ان سے اسماء بنت ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مصنوعی بال لگانے والی اور لگوانے والی پر لعنت بھیجی ہے۔

【150】

بالوں میں جوڑ لگانے کا بیان

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو عبیداللہ عمری نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ نے مصنوعی بال جوڑنے والیوں پر، جڑوانے والیوں پر، گودنے والیوں پر اور گدوانے والیوں پر لعنت بھیجی ہے۔ نافع نے کہا کہ گودنا کبھی مسوڑے پر بھی گودا جاتا ہے۔

【151】

بالوں میں جوڑ لگانے کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ معاویہ (رض) آخری مرتبہ مدینہ منورہ تشریف لائے اور ہمیں خطبہ دیا۔ آپ نے بالوں کا ایک گچھا نکال کے کہا کہ یہ یہودیوں کے سوا اور کوئی نہیں کرتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے زور‏.‏ یعنی فریبی فرمایا یعنی جو بالوں میں جوڑ لگائے تو ایسا آدمی مرد ہو یا عورت وہ مکار ہے جو اپنے مکر و فریب پر اس طور پر پردہ ڈالتا ہے۔

【152】

عورتوں کا چہرے کے بالوں کو صاف رکھنے کا بیان

ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو جریر نے خبر دی، انہیں منصور نے، انہیں ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ نے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے خوبصورتی کے لیے گودنے والیوں، چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں اور سامنے کے دانتوں کے درمیان کشادگی پیدا کرنے والیوں جو اللہ کی پیدائش میں تبدیلی کرتی ہیں، ان سب پر لعنت بھیجی تو ام یعقوب نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا آخر میں کیوں نہ ان پر لعنت بھیجوں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت بھیجی ہے اور کتاب اللہ میں اس پر لعنت موجود ہے۔ ام یعقوب نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں نے پورا قرآن مجید پڑھ ڈالا اور کہیں بھی ایسی کوئی آیت مجھے نہیں ملی۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر تم نے پڑھا ہوتا تو تمہیں ضرور مل جاتا کیا تم کو یہ آیت معلوم نہیں وما آتاکم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا‏ یعنی اور جو کچھ رسول تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے بھی تمہیں منع کریں اس سے رک جاؤ۔

【153】

بال جڑوانے والی عورت کا بیان

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، ان سے عبدہ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مصنوعی بال جوڑنے والی اور جڑوانے والی، گودنے والی اور گدوانے والی پر لعنت بھیجی ہے۔

【154】

بال جڑوانے والی عورت کا بیان

ہم سے امام حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہوں نے فاطمہ بنت منذر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اسماء بنت ابوبکر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ایک عورت نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! میری لڑکی کو خسرے کا بخار ہوگیا اور اس سے اس کے بال جھڑ گئے۔ میں اس کی شادی بھی کرچکی ہوں تو کیا اس کے مصنوعی بال لگا دوں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے مصنوعی بال لگانے والی اور جس کے لگایا جائے، دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔

【155】

بال جڑوانے والی عورت کا بیان

مجھ سے یونس بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے صخر بن جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، یا (راوی نے اس طرح بیان کیا کہ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا گودنے والی، گدوانے والی، مصنوعی بال جوڑنے والی اور جڑوانے والی یعنی نبی کریم ﷺ نے ان سب پر لعنت بھیجی ہے۔

【156】

بال جڑوانے والی عورت کا بیان

مجھ سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، انہیں منصور نے، انہیں ابراہیم نخعی نے، انہیں علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے گودنے والیوں پر اور گدوانے والیوں پر اور چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں پر اور خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے سامنے کے دانتوں کے درمیان کشادگی کرنے والیوں پر جو اللہ کی پیدائش میں تبدیلی کرتی ہیں، لعنت بھیجی ہے پھر میں کیوں نہ ان پر لعنت بھیجوں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت بھیجی ہے اور وہ اللہ کی کتاب میں موجود ہے۔

【157】

گودھنے والے کا بیان

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن عابس سے منصور کی حدیث ذکر کی جو وہ ابراہیم سے بیان کرتے تھے کہ ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا تو عبدالرحمٰن نے کہا کہ میں نے بھی منصور کی حدیث کی طرح ام یعقوب سے سنا ہے وہ عبداللہ بن مسعود (رض) سے بیان کرتی تھیں۔

【158】

گودھنے والے کا بیان

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی حجیفہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد (ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ) کو دیکھا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے خون کی قیمت، کتے کی قیمت کھانے سے منع فرمایا اور سود لینے والے اور دینے والے، گودنے والی اور گودانے والی (پر لعنت بھیجی) ۔

【159】

گدوانے والی کا بیان

ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے عمارہ نے، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ عمر (رض) کے پاس ایک عورت لائی گئی جو گودنے کا کام کرتی تھی۔ عمر (رض) کھڑے ہوگئے (اور اس وقت موجود صحابہ سے) کہا میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کسی نے کچھ نبی کریم ﷺ سے گودنے کے متعلق سنا ہے۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ میں نے کھڑے ہو کر عرض کیا : امیرالمؤمنین ! میں نے سنا ہے۔ عمر (رض) نے پوچھا کیا سنا ہے ؟ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے کہ گودنے کا کام نہ کرو اور نہ گدواؤ۔

【160】

گدوانے والی کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ نے خبر دی، کہا مجھ کو خبر دی نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مصنوعی بال لگانے والی اور لگوانے والی اور گودنے والی اور گدوانے والی پر لعنت بھیجی ہے۔

【161】

گدوانے والی کا بیان

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ گودنے والیوں پر اور گدوانے والیوں پر، بال اکھاڑنے والیوں پر اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان کشادگی کرنے والیوں پر جو اللہ کی پیدائش میں تبدیلی کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے پھر میں بھی کیوں نہ ان پر لعنت بھیجوں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت بھیجی ہے اور وہ کتاب اللہ میں بھی موجود ہے۔

【162】

تصویروں کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، ان سے ابن عباس (رض) نے اور ان سے ابوطلحہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا مورتیں ہوں۔ اور لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے کہا کہ مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، انہوں نے ابن عباس (رض) سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابوطلحہ (رض) سے سنا، پھر انہوں نے نبی کریم ﷺ سے یہی حدیث نقل کی ہے۔

【163】

قیامت کے دن تصویر بنانے والے کے عذاب کا بیان

ہم سے حمیدی عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا اور ان سے مسلم بن صبیحہ نے بیان کیا کہ ہم مسروق بن اجدع کے ساتھ یسار بن نمیر کے گھر میں تھے۔ مسروق نے ان کے گھر کے سائبان میں تصویریں دیکھیں تو کہا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے سنا ہے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کے پاس قیامت کے دن تصویر بنانے والوں کو سخت سے سخت تر عذاب ہوگا۔

【164】

قیامت کے دن تصویر بنانے والے کے عذاب کا بیان

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو لوگ یہ مورتیں بناتے ہیں انہیں قیامت کے دن عذاب کیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جس کو تم نے بنایا ہے اب اس میں جان بھی ڈالو۔

【165】

تصویریں توڑ دینے کا بیان

ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے عمران بن حطان نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے گھر میں جب بھی کوئی چیز ایسی ملتی جس پر صلیب کی مورت بنی ہو (جیسے نصاریٰ رکھتے ہیں) تو اس کو توڑ ڈالتے۔

【166】

تصویریں توڑ دینے کا بیان

ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے، کہا ہم سے عمارہ نے، کہا ہم سے ابوزرعہ نے، کہا کہ میں ابوہریرہ (رض) کے ساتھ مدینہ منورہ میں (مروان بن حکم کے گھر میں) گیا تو انہوں نے چھت پر ایک مصور کو دیکھا جو تصویر بنا رہا تھا، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ (اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے) اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو میری مخلوق کی طرح پیدا کرنے چلا ہے اگر اسے یہی گھمنڈ ہے تو اسے چاہیئے کہ ایک دانہ پیدا کرے، ایک چیونٹی پیدا کرے۔ پھر انہوں نے پانی کا ایک طشت منگوایا اور اپنے ہاتھ اس میں دھوئے۔ جب بغل دھونے لگے تو میں نے عرض کیا ابوہریرہ ! کیا (بغل تک دھونے کے بارے میں) تم نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ سنا ہے انہوں نے کہا میں نے جہاں تک زیور پہنا جاسکتا ہے وہاں تک دھویا ہے۔

【167】

تصویروں کے بچھانے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے سنا، ان دنوں مدینہ منورہ میں ان سے بڑھ کر عالم فاضل نیک کوئی آدمی نہیں تھا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد (قاسم بن ابی بکر) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ سفر (غزوہ تبوک) سے تشریف لائے تو میں نے اپنے گھر کے سائبان پر ایک پردہ لٹکا دیا تھا، اس پر تصویریں تھیں جب آپ ﷺ نے دیکھا تو اسے کھینچ کر پھینک دیا اور فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب میں وہ لوگ گرفتار ہوں گے جو اللہ کی مخلوق کی طرح خود بھی بناتے ہیں۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں نے پھاڑ کر اس پردہ کی ایک یا دو تو شک بنالیں۔

【168】

تصویروں کے بچھانے کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن داؤد نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سفر سے آئے اور میں نے پردہ لٹکا رکھا تھا جس میں تصویریں تھیں، نبی کریم ﷺ نے مجھے اس کے اتار لینے کا حکم دیا تو میں نے اسے اتار لیا۔ اور میں اور نبی کریم ﷺ ایک ہی برتن میں غسل جنابت کیا کرتے تھے۔

【169】

تصویروں پر بیٹھنے کی کراہت کا بیان

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ انہوں نے ایک گدا خریدا جس پر تصویریں تھیں۔ رسول اللہ ﷺ (اسے دیکھ کر) دروازے پر کھڑے ہوگئے اور اندر تشریف نہیں لائے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے جو غلطی کی ہے اس سے میں اللہ سے معافی مانگتی ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ گدا کس لیے ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کے بیٹھنے اور اس پر ٹیک لگانے کے لیے ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ان مورت کے بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے پیدا کیا ہے اسے زندہ بھی کر کے دکھاؤ اور فرشتے اس گھر میں نہیں داخل ہوتے جس میں مورت ہو۔

【170】

تصویروں پر بیٹھنے کی کراہت کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے بکیر بن عبداللہ نے، ان سے بسر بن سعید نے اور ان سے زید بن خالد (رض) نے اور ان سے رسول اللہ ﷺ کے صحابی ابوطلحہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فرشتے اس گھر میں نہیں داخل ہوتے جس میں تصویریں ہوں۔ بسر نے بیان کیا کہ (اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد) پھر زید (رض) بیمار پڑے تو ہم ان کی مزاج پرسی کے لیے گئے۔ ہم نے دیکھا کہ ان کے دروازہ پر ایک پردہ پڑا ہوا ہے جس پر تصویر ہے۔ میں نے ام المؤمنین میمونہ (رض) کے ربیب عبیداللہ بن اسود سے کہا کہ زید بن خالد (رض) نے ہمیں اس سے پہلے ایک مرتبہ تصویروں کے متعلق حدیث سنائی تھی۔ عبیداللہ نے کہا کہ کیا تم نے سنا نہیں تھا، حدیث بیان کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جو مورت کپڑے میں ہو وہ جائز ہے (بشرطیکہ غیر ذی روح کی ہو) ۔ اور عبداللہ بن وہب نے کہا، انہیں عمرو نے خبر دی وہ ابن حارث ہیں، ان سے بکیر نے بیان کیا، ان سے بسر نے بیان کیا، ان سے زید نے بیان کیا، ان سے ابوطلحہ (رض) نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔

【171】

تصویر والے کپڑوں میں نماز پڑھنے کی کراہت کا بیان

ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) کے پاس ایک پردہ تھا۔ اسے انہوں نے گھر کے ایک کنارے پر لٹکا دیا تھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ پردہ نکال ڈال، اس کی مورت اس نماز میں میرے سامنے آتی ہیں اور دل اچاٹ ہوتا ہے۔

【172】

فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویریں ہوں

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد نے بیان کیا، ان سے سالم نے اور ان سے ان کے والد (ابن عمر رضی اللہ عنہما) نے بیان کیا کہ ایک وقت پر جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی کریم ﷺ کے یہاں آنے کا وعدہ کیا لیکن آنے میں دیر ہوئی۔ اس وقت پر نہیں آئے تو نبی کریم ﷺ سخت پریشان ہوئے پھر آپ باہر نکلے تو جبرائیل (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے شکایت کی تو انہوں نے کہا کہ ہم (فرشتے) کسی ایسے گھر میں نہیں جاتے جس میں مورت یا کتا ہو۔

【173】

تصویر والے گھر میں داخل نہ ہونے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے نافع نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے ایک گدا خریدا جس میں مورتیں تھیں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو آپ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور اندر نہیں آئے۔ میں آپ کے چہرے سے ناراضگی پہچان گئی۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں اللہ سے اس کے رسول کے سامنے توبہ کرتی ہوں، میں نے کیا غلطی کی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ گدا کیسا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے ہی اسے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور ٹیک لگائیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ان مورتوں کے بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے پیدا کیا ہے اب ان میں جان بھی ڈالو اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس گھر میں مورت ہوتی ہے اس میں (رحمت کے) فرشتے نہیں داخل ہوتے۔

【174】

تصویر بنانے والے پر لعنت کرنے کا بیان

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی جحیفہ نے اور ان سے ان کے والد (وہب بن عبداللہ) نے کہ انہوں نے ایک غلام خریدا جو پچھنا لگاتا تھا پھر فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے خون نکالنے کی اجرت، کتے کی قیمت اور رنڈی کی کمائی کھانے سے منع فرمایا ہے اور آپ نے سود لینے والے، دینے والے، گودنے والی، گدوانے والی اور مورت بنانے والے پر لعنت بھیجی ہے۔

【175】

جو شخص کسی چیز کی تصویر بنائے گا تو اسے قیامت کے دن تکلیف دی جائے گی کہ اس میں روح پھونکے اور وہ نہیں پھونک سکے گا

ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے نضر بن مالک سے سنا، وہ قتادہ سے بیان کرتے تھے کہ میں ابن عباس (رض) کے پاس تھا لوگ ان سے مختلف مسائل پوچھ رہے تھے۔ جب تک ان سے خاص طور سے پوچھا نہ جاتا وہ نبی کریم ﷺ کا حوالہ نہیں دیتے تھے پھر انہوں نے کہا کہ میں نے محمد ﷺ سے سنا ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص دنیا میں مورت بنائے گا قیامت کے دن اس پر زور ڈالا جائے گا کہ اسے وہ زندہ بھی کرے حالانکہ وہ اسے زندہ نہیں کرسکتا۔

【176】

سواری پر کسی کے پیچھے بیٹھنے کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوصفوان نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید ایلی نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے اسامہ بن زید (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر فدک کی بنی ہوئی کملی پڑی ہوئی تھی۔ آپ نے اسامہ (رض) کو اسی پر اپنے پیچھے بٹھا لیا۔

【177】

سواری پر تین آدمیوں کے بیٹھنے کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ مکہ مکرمہ تشریف لائے (فتح کے موقع پر) تو عبدالمطلب کی اولاد نے (جو مکہ میں تھی) آپ کا استقبال کیا۔ (یہ سب بچے ہی تھے) آپ نے از راہ محبت ایک بچے کو اپنے سامنے اور ایک کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔

【178】

سواری کے مالک کا کسی کو اپنے آگے بٹھانا بعض نے کہا کہ سواری کا مالک آگے بیٹھنے کا زیادہ مستحق ہے مگر یہ کہ وہ اس کی اجازت کسی کو دے

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے کہ عکرمہ کے سامنے یہ ذکر آیا کہ تین آدمی جو ایک جانور پر چڑھیں اس میں کون بہت برا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ (مکہ مکرمہ) تشریف لائے تو آپ قثم بن عباس کو اپنی سواری پر آگے اور فضل بن عباس کو پیچھے بٹھائے ہوئے تھے۔ یا قثم پیچھے تھے اور فضل آگے تھے (رضی اللہ عنہم) اب تم ان میں سے کسے برا کہو گے اور کسے اچھا۔

【179】

آدمی کا کسی دوسرے کو اپنے پیچھے بٹھانے کا بیان

ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا، ان سے معاذ بن جبل نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور میرے اور نبی کریم ﷺ کے درمیان کجاوہ کی پچھلی لکڑی کے سوا اور کوئی چیز حائل نہیں تھی اسی حالت میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا : یامعاذ ! میں بولا یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں، آپ کی اطاعت اور فرمابرداری کے لیے تیار ہوں۔ پھر آپ نے تھوڑی دیر تک چلتے رہے۔ اس کے بعد فرمایا : یا معاذ ! میں بولا، یا رسول اللہ ! حاضر ہوں آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوں۔ پھر آپ تھوڑی دیر چلتے رہے اس کے بعد فرمایا : یا معاذ ! میں نے عرض کیا حاضر ہوں، یا رسول اللہ ! آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمہیں معلوم ہے اللہ کے اپنے بندوں پر کیا حق ہیں ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر حق یہ ہیں کہ بندے خاص اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں پھر آپ تھوڑی دیر چلتے رہے۔ اس کے بعد فرمایا : معاذ ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ ! آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے۔ جب کہ وہ یہ کام کرلیں۔ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا کہ پھر بندوں کا اللہ پر حق ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ کرے۔

【180】

سواری پر عورت کا مرد کے پیچھے بیٹھنا

ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن عباد نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں یحییٰ بن ابی اسحاق نے خبر دی، کہا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر سے واپس آ رہے تھے اور میں ابوطلحہ (رض) کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور چل رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ کی بعض بیوی صفیہ (رض) نبی کریم ﷺ کی سواری پر آپ کے پیچھے تھیں کہ اچانک اونٹنی نے ٹھوکر کھائی، میں نے کہا عورت کی خبرگیری کرو پھر میں اتر پڑا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ تمہاری ماں ہیں پھر میں نے کجاوہ مضبوط باندھا اور نبی کریم ﷺ سوار ہوگئے پھر جب مدینہ منورہ کے قریب ہوئے یا (راوی نے بیان کیا کہ) مدینہ منورہ دیکھا تو فرمایا ہم واپس ہونے والے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونے والے ہیں، اسی کو پوجنے والے ہیں، اپنے مالک کی تعریف کرنے والے ہیں۔

【181】

چت لیٹنے اور ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر رکھنے کا بیان

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبادہ بن تمیم نے، ان سے ان کے چچا (عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ) نے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں (چت) لیٹے ہوئے دیکھا کہ آپ ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر اٹھا کر رکھے ہوئے تھے۔