68. فرائض کی تعلیم کا بیان

【1】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر، پس اگر صرف لڑکیاں ہوں تو اگر دو سے زیادہ ہوں تو ان کو دوتہائی ملے گا اس مال سے جو کہ مورث چھوڑ کر مرا اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کو نصف ملے گا اور ماں باپ ہی اسکے وارث ہوں تو اس کی ماں کا ایک تہائی ہے اور اگر میت کے ایک سے زیادہ بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کوچھٹا حصہ ملے گا۔ ( اور باقی باپ کا) وصیت پوری کرنے کے بعد کہ میت اس کی وصیت کرجائے یا دین کے بعد تمہارے اصول وفروع جن کو تم پورے طور پر نہیں جانتے کہ ان میں سے کون سا تم کو نفع پہنچانے کے زیادہ قریب ہے یہ حکم منجانب اللہ مقرر کردیا گیا، بالقین اللہ تعالیٰ بڑے علم والے اور حکمت والے ہیں اور تمہیں آدھا ملے گا اس ترکہ کا جو تمہاری بیبیاں چھوڑ کرگئی اگر ان کے کچھ اولاد نہ ہو اور اگر ان کے کچھ اولاد ہو تو پھر تم کو ان کے ترکہ سے چوتھائی ملے گا (یہ میراث) وصیت (کے قدر مال) کے نکالنے کے بعد کہ وہ اس کی وصیت کرجائیں یا دین کے بعد ملے گی ان بیبیوں کوچوتھائی ملے گا اس ترکہ کا جو تم چھوڑ جاؤ اگر تمہارے کچھ اولاد نہ ہو، اور اگر تمہارے کچھ اولاد ہو تو پھر ان کو تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ملے گا، وصیت نکالنے کے بعد تم جو وصیت کرجاؤ یا دین کے بعد اور اگر میت جس کے میراث دوسروں کو ملے گی خواہ میت مرد ہو یا عورت ایسا ہو جس کے اصول وفروع نہ ہوں اور اس کے ایک بھائی یا بہن (اخیافی) ہوتوان میں سے ہر ایک چھٹا حصہ ملے گا، اور اگر زیادہ ہوں تو وہ سب تہائی میں شریک ہوں گے، وصیت پوری کرنے کے بعد جس کو وصیت کردی جائے یا دین کے بعد بشرطیکہ کسی کو ضرر نہ پہنچے یہ حکم کیا گیا ہے خدا کی طرف سے اور اللہ جاننے والے حکمت والے ہیں۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے، انہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) میری عیادت کے لیے تشریف لائے، دونوں حضرات پیدل چل کر آئے تھے۔ دونوں حضرات جب آئے تو مجھ پر غشی طاری تھی، نبی کریم ﷺ نے وضو کیا اور وضو کا پانی میرے اوپر چھڑکا مجھے ہوش ہوا تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اپنے مال کی (تقسیم) کس طرح کروں ؟ یا اپنے مال کا کس طرح فیصلہ کروں ؟ نبی کریم ﷺ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیتیں نازل ہوئیں۔

【2】

فرائض کی تعلیم کا بیان۔ اور عقبہ بن عامر نے کہا ظانین یعنی ان لوگوں سے پیسے لے کر علم حاصل کرو جو ظن سے گفتگو کرتے ہیں

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بدگمانی سے بچتے رہو، کیونکہ گمان (بدظنی) سب سے جھوٹی بات ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کی برائی کی تلاش میں نہ لگے رہو نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرو، بلکہ اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔

【3】

نبی ﷺ کا فرمانا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا۔ اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ فاطمہ اور عباس علیہما السلام، ابوبکر (رض) کے پاس نبی کریم ﷺ کی طرف سے اپنی میراث کا مطالبہ کرنے آئے، یہ فدک کی زمین کا مطالبہ کر رہے تھے اور خیبر میں بھی اپنے حصہ کا۔ ابوبکر (رض) نے ان سے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب صدقہ ہے، بلاشبہ آل محمد اسی مال میں سے اپنا خرچ پورا کرے گی۔ ابوبکر (رض) نے کہا : واللہ ! میں کوئی ایسی بات نہیں ہونے دوں گا، بلکہ جسے میں نے نبی کریم ﷺ کو کرتے دیکھا ہوگا وہ میں بھی کروں گا۔ بیان کیا کہ اس پر فاطمہ (رض) نے ان سے تعلق کاٹ لیا اور موت تک ان سے کلام نہیں کیا۔

【4】

نبی ﷺ کا فرمانا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا۔ اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے

ہم سے اسماعیل بن ابان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہماری وراثت نہیں ہوتی ہم جو کچھ بھی چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔

【5】

نبی ﷺ کا فرمانا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا۔ اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے مالک بن اوس کی اس حدیث کا ایک حصہ ذکر کیا تھا۔ پھر میں خود مالک بن اوس کے پاس گیا اور ان سے یہ حدیث پوچھی تو انہوں نے بیان کیا کہ میں عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا پھر ان کے حاجب یرفاء نے جا کر ان سے کہا کہ عثمان، عبدالرحمٰن بن زبیر اور سعد آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ اچھا آنے دو ۔ چناچہ انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔ پھر کہا، کیا آپ علی و عباس (رض) کو بھی آنے کی اجازت دیں گے ؟ کہا کہ ہاں آنے دو ۔ چناچہ عباس (رض) نے کہا کہ امیرالمؤمنین میرے اور علی (رض) کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے۔ عمر (رض) نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب راہ اللہ صدقہ ہے ؟ اس سے مراد نبی کریم ﷺ کی خود اپنی ہی ذات تھی۔ جملہ حاضرین بولے کہ جی ہاں، نبی کریم ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ پھر عمر، علی اور عباس (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ فرمایا تھا ؟ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ نبی کریم ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ عمر (رض) نے فرمایا پھر میں اب آپ لوگوں سے اس معاملہ میں گفتگو کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس فے کے معاملہ میں نبی کریم ﷺ کے لیے کچھ حصے مخصوص کر دئیے جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملتا تھا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ما أفاء الله على رسوله‏ سے ارشاد قدير‏ تک۔ یہ تو خاص نبی کریم ﷺ کا حصہ تھا۔ اللہ کی قسم ! نبی کریم ﷺ نے اسے تمہارے لیے ہی مخصوص کیا تھا اور تمہارے سوا کسی کو اس پر ترجیح نہیں دی تھی، تمہیں کو اس میں سے دیتے تھے اور تقسیم کرتے تھے۔ آخر اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا اور نبی کریم ﷺ اس میں سے اپنے گھر والوں کے لیے سال بھر کا خرچہ لیتے تھے، اس کے بعد جو کچھ باقی بچتا اسے ان مصارف میں خرچ کرتے جو اللہ کے مقرر کردہ ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا یہ طرز عمل آپ کی زندگی بھر رہا۔ میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں، کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں۔ پھر آپ نے علی اور عباس (رض) سے پوچھا، میں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ لوگوں کو یہ معلوم ہے ؟ انہوں نے بھی کہا کہ جی ہاں۔ پھر نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی اور ابوبکر (رض) نے کہا کہ اب میں نبی کریم ﷺ کا نائب ہوں چناچہ انہوں نے اس پر قبضہ میں رکھ کر اس طرز عمل کو جاری رکھا جو نبی کریم ﷺ کا اس میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کو بھی وفات دی تو میں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے نائب کا نائب ہوں۔ میں بھی دو سال سے اس پر قابض ہوں اور اس مال میں وہی کرتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) نے کیا۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہو۔ آپ دونوں کی بات ایک ہے اور معاملہ بھی ایک ہی ہے۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ) میرے پاس اپنے بھتیجے کی میراث سے اپنا حصہ لینے آئے ہو اور آپ (علی رضی اللہ عنہ) اپنی بیوی کا حصہ لینے آئے ہو جو ان کے والد کی طرف سے انہیں ملتا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ دونوں چاہتے ہیں تو میں اسے آپ کو دے سکتا ہوں لیکن آپ لوگ اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں تو اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، میں اس مال میں اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا، قیامت تک، اگر آپ اس کے مطابق عمل نہیں کرسکتے تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیجئیے میں اس کا بھی بندوبست کرلوں گا۔

【6】

نبی ﷺ کا فرمانا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا۔ اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرا ورثہ دینار کی شکل میں تقسیم نہیں ہوگا۔ میں نے اپنی بیویوں کے خرچہ اور اپنے عاملوں کی اجرت کے بعد جو کچھ چھوڑا ہے وہ سب صدقہ ہے۔

【7】

نبی ﷺ کا فرمانا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا۔ اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعبنی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عائشہ (رض) نے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی بیویوں نے چاہا کہ عثمان (رض) کو ابوبکر (رض) کے پاس بھیجیں، اپنی میراث طلب کرنے کے لیے۔ پھر عائشہ (رض) نے یاد دلایا۔ کیا نبی کریم ﷺ نے نہیں فرمایا تھا کہ ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہے ؟

【8】

نبی ﷺ کا فرمانا کہ جو شخص مال چھوڑے تو وہ اس کے گھر والوں کا ہے۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو یونس بن یزید ایلی نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، کہا مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں مومنوں کا خود ان سے زیادہ حقدار ہوں۔ پس ان میں سے جو کوئی قرض دار مرے گا اور ادائیگی کے لیے کچھ نہ چھوڑے گا تو ہم پر اس کی ادائیگی کی ذمہ داری ہے اور جس نے کوئی مال چھوڑا ہوگا وہ اس کے وارثوں کا حصہ ہے۔

【9】

باپ اور ماں کی طرف سے اولاد کی میراث کا بیان۔ اور زیاد بن ثابت نے کہا کہ اگر کوئی مرد یا عورت بیٹی چھوڑے تو اس کو نصف ملے گا اور ان کے ساتھ کوئی بیٹا بھی ہوگا تو پہلے شرکاء کو دے کر باقی سے مرد کو دو حصہ کو اور عورت کو ایک حصہ دیا جائے گا۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میراث اس کے حق داروں تک پہنچا دو اور جو کچھ باقی بچے وہ سب سے زیادہ قریبی مرد عزیز کا حصہ ہے۔

【10】

لڑکیوں کی میراث کا بیان

ہم سے امام حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے خبر دی اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں مکہ مکرمہ میں (حجۃ الوداع میں) بیمار پڑگیا اور موت کے قریب پہنچ گیا۔ پھر نبی کریم ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے پاس بہت زیادہ مال ہے اور ایک لڑکی کے سوا اس کا کوئی وارث نہیں تو کیا مجھے اپنے مال کے دو تہائی حصہ کا صدقہ کردینا چاہیے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا پھر آدھے کا کر دوں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا ایک تہائی کا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ گو تہائی بھی بہت ہے، اگر تم اپنے بچوں کو مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں تنگدست چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم جو بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں ثواب ملے گا یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔ پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا میں اپنی ہجرت میں پیچھے رہ جاؤں گا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد تم پیچھے رہ بھی گئے تب بھی جو عمل تم کرو گے اور اس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہوگی تو اس کے ذریعہ درجہ و مرتبہ بلند ہوگا اور غالباً تم میرے بعد زندہ رہو گے اور تم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہوگا اور بہتوں کو نقصان پہنچے گا۔ قابل افسوس تو سعد ابن خولہ ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے بارے میں اس لیے افسوس کا اظہار کیا کہ (ہجرت کے بعد اتفاق سے) ان کی وفات مکہ مکرمہ میں ہی ہوگئی۔ سفیان نے بیان کیا کہ سعد ابن خولہ (رض) بنی عامر بن لوی کے ایک آدمی تھے۔

【11】

لڑکیوں کی میراث کا بیان

مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالنضر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ شیبان نے بیان کیا، ان سے اشعث بن ابی الشعثاء نے، ان سے اسود بن یزید نے بیان کیا کہ معاذ بن جبل (رض) ہمارے یہاں یمن میں معلم و امیر بن کر تشریف لائے۔ ہم نے ان سے ایک ایسے شخص کے ترکہ کے بارے میں پوچھا جس کی وفات ہوئی ہو اور اس نے ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑی ہو اور اس نے اپنی بیٹی کو آدھا اور بہن کو بھی آدھا دیا ہو۔

【12】

پوتے کی میراث کا بیان جبکہ بیٹا نہ ہو۔ اور زید نے کہا کہ بیٹوں کی اولاد بمنزلہ اولاد کے ہے اگر ان کے علاوہ کوئی بیٹا نہ ہو پوتے بیٹوں کی طرح اور پوتیاں بیٹیوں کی طرح ہیں اور وہ اسی طرح ترکہ پاتے ہیں جس طرح بیٹے اوروں کو محروم کرتے ہیں اسی طرح یہ بھی محروم کرتے ہیں اور بیٹے کی اولاد بیٹے کی موجودگی میں ترکہ کی مستحق نہ ہوگی۔

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پہلے میراث ان کے وارثوں تک پہنچا دو اور جو باقی رہ جائے وہ اس کو ملے گا جو مرد میت کا بہت نزدیکی رشتہ دار ہو۔

【13】

بیٹی کی موجودگی میں نواسی کی میراث کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے ابوقیس عبدالرحمٰن بن ثروان نے، انہوں نے ہزیل بن شرحبیل سے سنا، بیان کیا کہ ابوموسیٰ (رض) سے بیٹی، پوتی اور بہن کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا اور بہن کو آدھا ملے گا اور تو ابن مسعود (رض) کے یہاں جا، شاید وہ بھی یہی بتائیں گے۔ پھر ابن مسعود (رض) سے پوچھا گیا اور ابوموسیٰ (رض) کی بات بھی پہنچائی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں اگر ایسا فتویٰ دوں تو گمراہ ہوچکا اور ٹھیک راستے سے بھٹک گیا۔ میں تو اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا، اس طرح دو تہائی پوری ہوجائے گی اور پھر جو باقی بچے گا وہ بہن کو ملے گا۔ پھر ابوموسیٰ (رض) کے پاس آئے اور ابن مسعود (رض) کی بات ان تک پہنچائی تو انہوں نے کہا کہ جب تک یہ عالم تم میں موجود ہیں مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو۔

【14】

باپ اور بھائی کی موجودگی میں دادا کی میراث کا بیان اور ابوبکر وابن عباس وابن زبیر نے کہا کہ دادا باپ کی طرح ہے اور ابن عباس نے پڑھا یابنی آدم (اے آدم کے بیٹو!) اور واتبعت ملة ابراہیم واسحق ویعقوب (اور میں نے اپنے باپوں ابراہیم، اسحق و یعقوب کی ملت کی پیروی کی) اور کسی نے بھی نہیں بیان کیا کہ حضرت ابوبکر کے زمانہ میں کسی نے ان کی مخالفت کی ہو حالانکہ اس زمانہ میں صحابہ کثیر تعداد میں موجود تھے اور ابن عباس نے کہا کہ میرا پوتا میرا وارث ہوگا، بھائی نہ ہوگا، اور میں اپنے پوتے کا وارث نہ ہوں گا اور حضرت عمرو، علی وابن مسعود وزید سے مختلف اقوال منقول ہیں۔

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میراث اس کے حقدار تک پہنچا دو اور جو باقی رہ جائے وہ سب سے قریب والے مرد کو دے دو ۔

【15】

باپ اور بھائی کی موجودگی میں دادا کی میراث کا بیان اور ابوبکر وابن عباس وابن زبیر نے کہا کہ دادا باپ کی طرح ہے اور ابن عباس نے پڑھا یابنی آدم (اے آدم کے بیٹو!) اور واتبعت ملة ابراہیم واسحق ویعقوب (اور میں نے اپنے باپوں ابراہیم، اسحق و یعقوب کی ملت کی پیروی کی) اور کسی نے بھی نہیں بیان کیا کہ حضرت ابوبکر کے زمانہ میں کسی نے ان کی مخالفت کی ہو حالانکہ اس زمانہ میں صحابہ کثیر تعداد میں موجود تھے اور ابن عباس نے کہا کہ میرا پوتا میرا وارث ہوگا، بھائی نہ ہوگا، اور میں اپنے پوتے کا وارث نہ ہوں گا اور حضرت عمرو، علی وابن مسعود وزید سے مختلف اقوال منقول ہیں۔

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ اگر میں اس امت کے کسی آدمی کو خلیل بناتا تو ان کو (ابوبکر (رض) کو) کو خلیل بناتا، لیکن اسلام کا تعلق ہی سب سے بہتر ہے تو اس میں نبی کریم ﷺ نے دادا کو باپ کے درجہ میں رکھا ہے۔

【16】

اولاد وغیرہ کی موجودگی میں شوہر اور بیوی کی میراث کا بیان

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ورقاء نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے بیان کیا، ان سے عطاء نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ پہلے مال کی اولاد مستحق تھی اور والدین کو وصیت کا حق تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں سے جو چاہا منسوخ کردیا اور لڑکوں کو لڑکیوں کے دگنا حق دیا اور والدین کو اور ان میں سے ہر ایک کو چھٹے حصہ کا مستحق قرار دیا اور بیوی کو آٹھویں اور چوتھے حصہ کا حق دار قرار دیا اور شوہر کو آدھے یا چوتھائی کا حقدار قرار دیا۔

【17】

اولاد وغیرہ کی موجودگی میں شوہر اور بیوی کی میراث کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابن المسیب نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی لحیان کی ایک عورت ملیا بنت عویمر کے بچے کے بارے میں جو ایک عورت کی مار سے مردہ پیدا ہوا تھا کہ مارنے والی عورت کو خون بہا کے طور پر ایک غلام یا لونڈی ادا کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ پھر وہ عورت بچہ گرانے والی جس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فیصلہ دیا تھا مرگئی تو نبی کریم ﷺ نے فیصلہ کیا کہ اس کی میراث اس کے لڑکوں اور شوہر کو دے دی جائے اور یہ دیت ادا کرنے کا حکم اس کے کنبہ والوں کو دیا تھا۔

【18】

بیٹیوں کی موجودگی میں بہنیں جو عصبہ ہیں ان کی میراث کا بیان

ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے، ان سے سلیمان اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے اسود بن یزید نے بیان کیا کہ معاذ بن جبل (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہمارے درمیان یہ فیصلہ کیا تھا کہ آدھا بیٹی کو ملے گا اور آدھا بہن کو۔ پھر سلیمان نے جو اس حدیث کو روایت کیا تو اتنا ہی کہا کہ معاذ نے ہم کنبہ والوں کو یہ حکم دیا تھا یہ نہیں کہا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں۔

【19】

بیٹیوں کی موجودگی میں بہنیں جو عصبہ ہیں ان کی میراث کا بیان

ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابوقیس (عبدالرحمٰن بن عزوان) نے، ان سے ہزیل بن شرحبیل نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے فیصلہ کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا، لڑکی کو آدھا، پوتی کو چھٹا اور جو باقی بچے بہن کا حصہ ہے۔

【20】

چند بہنوں اور ایک بہن کی میراث کا بیان

ہم سے عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو شعبہ بن حجاج نے خبر دی، ان سے محمد بن منکدر نے بیان کیا، انہوں نے جابر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ میرے گھر تشریف لائے اور میں بیمار تھا۔ نبی کریم ﷺ نے پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر اپنے وضو کے پانی سے مجھ پر چھینٹا ڈالا تو مجھے ہوش آگیا۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میری بہنیں ہیں ؟ اس پر میراث کی آیت نازل ہوئی۔

【21】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ اے ﷺ وہ تم سے فتوی پوچھتے ہیں تم کہہ دو کہ اللہ تمہیں کلالہ کے متعلق حکم دیتا ہے۔ کہ اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو بہن کے لئے نصف ہے جو وہ چھوڑے اور وہ اس بہن کا وارث ہوگا، اگر اس کی اولاد نہ ہو، اگر وہ دو بہنیں ہوں تو ان کے لئے دو ثلث ہے اس کا جو وہ چھوڑے اور اگر چند بھائی بہن ہو تو مرد کے لئے عورت کادو چند ہے، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان کرتا ہے تاکہ گمراہ نہ ہوجاؤ اور اللہ ہر چیز کو جاننے والاہے۔

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے براء (رض) نے بیان کیا کہ آخری آیت (میراث کی) سورة نساء کے آخر کی آیتیں نازل ہوئیں يستفتونک قل الله يفتيكم في الکلالة‏ کہ آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔

【22】

عورت کے دو چچازاد بھائیوں کا بیان کہ ان میں سے ایک ماں شریک بھائی ہو۔ اور دوسرا شوہر ہو اور حضرت علی نے کہا شوہر کو نصف اور ماں شریک بھائی کو چھٹا حصہ ملے گا اور باقی ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسم ہوگا

ہم سے محمود نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو اسرائیل نے خبر دی، انہیں ابوحصین نے، انہیں ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں مسلمانوں کا خود ان کی ذات سے بھی زیادہ ولی ہوں۔ پس جو شخص مرجائے اور مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا حق ہے اور جس نے بیوی بچے چھوڑے ہوں یا قرض ہو، تو میں ان کا ولی ہوں، ان کے لیے مجھ سے مانگا جائے۔

【23】

عورت کے دو چچازاد بھائیوں کا بیان کہ ان میں سے ایک ماں شریک بھائی ہو۔ اور دوسرا شوہر ہو اور حضرت علی نے کہا شوہر کو نصف اور ماں شریک بھائی کو چھٹا حصہ ملے گا اور باقی ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسم ہوگا

ہم سے امیہ بن بسطام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے روح نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن طاؤس نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میراث اس کے وارثوں تک پہنچا دو اور جو کچھ اس میں سے بچ رہے وہ قریبی عزیز مرد کا حق ہے۔

【24】

ذوی الارحام کا بیان۔

مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابواسامہ سے پوچھا کیا آپ سے ادریس نے بیان کیا تھا، ان سے طلحہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے ولکل جعلنا موالي‏ اور والذين عقدت أيمانکم‏ کے متعلق بتلایا کہ مہاجرین جب مدینہ آئے تو ذوی الارحام کے علاوہ انصار و مہاجرین بھی ایک دوسرے کی وراثت پاتے تھے۔ اس بھائی چارگی کی وجہ سے جو نبی کریم ﷺ نے ان کے درمیان کرائی تھی، پھر جب آیت جعلنا موالي‏ نازل ہوئی تو فرمایا کہ اس نے والذين عقدت أيمانکم‏ کو منسوخ کردیا۔

【25】

لعان کرنے والوں کی میراث کا بیان

مجھ سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں لعان کیا اور اس کے بچہ کو اپنا بچہ ماننے سے انکار کردیا تو نبی کریم ﷺ نے دونوں کے درمیان جدائی کرا دی اور بچہ عورت کو دے دیا۔

【26】

بچہ عورت کو ملے گا، خواہ وہ آزاد ہو یا لونڈی۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ عتبہ اپنے بھائی سعد (رض) کو وصیت کر گیا تھا کہ زمعہ کی کنیز کا لڑکا میرا ہے اور اسے اپنی پرورش میں لے لینا۔ فتح مکہ کے سال سعد (رض) نے اسے لینا چاہا اور کہا کہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور اس نے مجھے اس کے بارے میں وصیت کی تھی۔ اس پر عبد بن زمعہ (رض) کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا لڑکا ہے، اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ آخر یہ دونوں یہ معاملہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو سعد (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! ، یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اس نے اس کے بارے میں مجھے وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے کہا کہ یہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی باندی کا لڑکا اور باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، عبد بن زمعہ ! یہ تمہارے پاس رہے گا، لڑکا بستر کا حق ہے اور زانی کے حصہ میں پتھر ہیں۔ پھر سودہ بنت زمعہ (رض) سے کہا کہ اس لڑکے سے پردہ کیا کر کیونکہ عتبہ کے ساتھ اس کی شباہت آپ ﷺ نے دیکھ لی تھی۔ چناچہ پھر اس لڑکے نے ام المؤمنین کو اپنی وفات تک نہیں دیکھا۔

【27】

بچہ عورت کو ملے گا، خواہ وہ آزاد ہو یا لونڈی۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن زیاد نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا لڑکا بستر والے کا حق ہوتا ہے۔

【28】

ولاء اس کے لئے ہے جو آزاد کرے۔ اور لقیط کی میراث کا بیان حضرت عمر نے کہا لقیط آزاد ہے

ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے بریرہ (رض) کو خریدنا چاہا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں خرید لے، ولاء تو اس کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو آزاد کر دے اور بریرہ (رض) کو ایک بکری ملی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے صدقہ تھی لیکن ہمارے لیے ہدیہ ہے۔ حکم نے بیان کیا کہ ان کے شوہر آزاد تھے۔ حکم کا قول مرسل منقول ہے۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ میں نے انہیں غلام دیکھا تھا۔

【29】

ولاء اس کے لئے ہے جو آزاد کرے۔ اور لقیط کی میراث کا بیان حضرت عمر نے کہا لقیط آزاد ہے

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ولاء اسی کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو آزاد کر دے۔

【30】

سائبہ کی میراث کا بیان

ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابوقیس نے، ان سے ہزیل نے انہوں نے عبداللہ سے نقل کیا، انہوں نے فرمایا کہ عبداللہ (رض) نے فرمایا مسلمان سائبہ نہیں بناتے اور دور جاہلیت میں مشرکین سائبہ بناتے تھے۔

【31】

سائبہ کی میراث کا بیان

ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ بریرہ کو انہوں نے آزاد کرنے کے لیے خریدنا چاہا لیکن ان کے نائکوں نے اپنے ولاء کی شرط لگا دی عائشہ (رض) نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے آزاد کرنے کے لیے بریرہ کو خریدنا چاہا لیکن ان کے مالکوں نے اپنے لیے ان کی ولاء کی شرط لگا دی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہیں آزاد کر دے، ولاء تو آزاد کرنے والے کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ بیان کیا کہ پھر میں نے انہیں خریدا اور آزاد کردیا اور میں نے بریرہ کو اختیار دیا (کہ چاہیں تو شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہیں ورنہ علیحدہ بھی ہوسکتی ہیں) تو انہوں نے شوہر سے علیحدگی کو پسند کیا اور کہا کہ مجھے اتنا اتنا مال بھی دیا جائے تو میں پہلے شوہر کے ساتھ نہیں رہوں گی۔ اسود نے بیان کیا کہ ان کے شوہر آزاد تھے۔ اسود کا قول منقطع ہے اور ابن عباس (رض) کا قول صحیح ہے کہ میں نے انہیں غلام دیکھا۔

【32】

اس شخص کا گناہ جو اپنے مالکوں کی مرضی کے خلاف کام کرے

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ علی (رض) نے بتلایا کہ ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں ہے جسے ہم پڑھیں، سوا اللہ کی کتاب قرآن کے اور اس کے علاوہ یہ صحیفہ بھی ہے۔ بیان کیا کہ پھر وہ صحیفہ نکالا تو اس میں زخموں (کے قصاص) اور اونٹوں کی زکوٰۃ کے مسائل تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ اس میں یہ بھی تھا کے عیر سے ثور تک مدینہ حرم ہے جس نے اس دین میں کوئی نئی بات پیدا کی یا نئی بات کرنے والے کو پناہ دی تو اس پر اللہ اور فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے اور قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل مقبول نہ ہوگا اور جس نے اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر دوسرے لوگوں سے مولات قائم کرلی تو اس پر فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے، قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل مقبول نہ ہوگا اور مسلمانوں کا ذمہ (قول و قرار، کسی کو پناہ دینا وغیرہ) ایک ہے۔ ایک ادنی مسلمان کے پناہ دینے کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ پس جس نے کسی مسلمان کی دی ہوئی پناہ کو توڑا، اس پر اللہ کی، فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل قبول نہیں کیا جائے گا۔

【33】

اس شخص کا گناہ جو اپنے مالکوں کی مرضی کے خلاف کام کرے

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ولاء کے تعلق کو بیچنے، اس کو ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔

【34】

جب کوئی (کافر) کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام لائے۔ توحسن اس کے لیے ولاء نہیں سمجھتے تھے اور نبی ﷺ نے فرمایا کہ ولاء اس کے لئے ہے جو آزاد کرے اور تمیم داری سے بطریقہ رفع منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ وہ اور لوگوں کے اعتبار سے اس میں موت اور زندگانی میں زیادہ قریب ہے اور لوگوں نے اس خبر کی صحت میں اختلاف کیا ہے

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک (رح) نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر (رض) نے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے ایک کنیز کو آزاد کرنے کے لیے خریدنا چاہا تو کنیز کے مالکوں نے کہا کہ ہم بیچ سکتے ہیں لیکن ولاء ہمارے ساتھ ہوگی۔ ام المؤمنین نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس شرط کو مانع نہ بننے دو ، ولاء ہمیشہ اسی کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو آزاد کرے۔

【35】

جب کوئی (کافر) کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام لائے۔ توحسن اس کے لیے ولاء نہیں سمجھتے تھے اور نبی ﷺ نے فرمایا کہ ولاء اس کے لئے ہے جو آزاد کرے اور تمیم داری سے بطریقہ رفع منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ وہ اور لوگوں کے اعتبار سے اس میں موت اور زندگانی میں زیادہ قریب ہے اور لوگوں نے اس خبر کی صحت میں اختلاف کیا ہے

ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو جریر نے خبر دی، انہیں منصور نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے بریرہ کو خریدنا چاہا تو ان کے مالکوں نے شرط لگائی کہ ولاء ان کے ساتھ قائم ہوگی۔ میں نے اس کا تذکرہ نبی کریم ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں آزاد کر دو ، ولاء قیمت ادا کرنے والے ہی کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ بیان کیا کہ پھر میں نے آزاد کردیا۔ پھر انہیں نبی کریم ﷺ نے بلایا اور ان کے شوہر کے معاملہ میں اختیار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر مجھے یہ یہ چیزیں بھی وہ دیدے تو میں اس کے ساتھ رات گزارنے کے لیے تیار نہیں۔ چناچہ اس نے شوہر سے علیحدگی کو پسند کیا۔

【36】

اس امر کا بیان کہ عورت ولاء کی مستحق ہوگی۔

ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) نے بریرہ (رض) کو خریدنا چاہا اور رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ یہ لوگ ولاء کی شرط لگاتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خرید لو، ولاء تو اسی کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو آزاد کرے (آزاد کرائے) ۔

【37】

اس امر کا بیان کہ عورت ولاء کی مستحق ہوگی۔

ہم سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر دی، انہیں سفیان نے، انہیں منصور نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں اسود نے، اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ولاء اس کے ساتھ قائم ہوگی جو قیمت دے اور احسان کرے (آزاد کر کے) ۔

【38】

کسی قوم کا آزاد کردہ ان ہی میں سے ہے۔ اور بہن بیٹا بھی انہی میں سے ہے

ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن قرہ اور قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کسی گھرانے کا غلام اسی کا ایک فرد ہوتا ہے أو كما قال‏.‏۔

【39】

کسی قوم کا آزاد کردہ ان ہی میں سے ہے۔ اور بہن بیٹا بھی انہی میں سے ہے

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی گھرانے کا بھانجا اس کا ایک فرد ہے۔ ( منهم‏‏‏.‏ یا من أنفسهم کے الفاظ فرمائے) ۔

【40】

باب

باب : مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا اور نہ کافر مسلمان کا اور اگر میراث کی تقسیم سے پہلے اسلام لایا تب بھی میراث میں اس کا حق نہیں ہوگا

【41】

باب

باب : عیسائی غلام یا مکاتب عیسائی کی وراثت کا بیان اور جو اپنے بیٹے کی نفی کر دے اس کے گناہ کا بیان

【42】

اس شخص کا بیان جو کسی کے بھائی اور بھتیجا ہونے کا دعوی کرے

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ (رض) کا ایک لڑکے کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ سعد (رض) نے کہا کہ یا رسول اللہ ! یہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا لڑکا ہے، اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ یہ اس کا لڑکا ہے آپ اس کی مشابہت اس میں دیکھئیے اور عبد بن زمعہ نے کہا کہ میرا بھائی ہے یا رسول اللہ ! میرے والد کے بستر پر ان کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے لڑکے کی صورت دیکھی تو اس کی عتبہ کے ساتھ صاف مشابہت واضح تھی، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا، عبد ! لڑکا بستر والے کا ہوتا ہے اور زانی کے حصہ میں پتھر ہیں اور اے سودہ بنت زمعہ ! (ام المؤمنین رضی اللہ عنہا) اس لڑکے سے پردہ کیا کر چناچہ پھر اس لڑکے نے ام المؤمنین کو نہیں دیکھا۔

【43】

اس شخص کا بیان جو غیر کو اپنا باپ بنائے

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا یہ ابن عبداللہ ہیں، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے سعد (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کے بیٹے ہونے کا دعویٰ کیا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔ پھر میں نے اس کا تذکرہ ابوبکر (رض) سے کیا تو انہوں نے کہا کہ اس حدیث کو نبی کریم ﷺ سے میرے دونوں کانوں نے بھی سنا ہے اور میرے دل نے اس کو محفوظ رکھا ہے۔

【44】

اس شخص کا بیان جو غیر کو اپنا باپ بتائے

ہم سے اصبغ بن الفرج نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ کو عمرو نے خبر دی، انہیں جعفر بن ربیعہ نے، انہیں عراک نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنے باپ کا کوئی انکار نہ کرے کیونکہ جو اپنے باپ سے منہ موڑتا ہے (اور اپنے کو دوسرے کا بیٹا ظاہر کرتا ہے تو) یہ کفر ہے۔

【45】

جب عورت کسی بیٹے کا دعوی کرے

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو عورتیں تھیں اور ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے، پھر بھیڑیا آیا اور ایک بچے کو اٹھا کرلے گیا اس نے اپنی ساتھی عورت سے کہا کہ بھیڑیا تیرے بچے کو لے گیا ہے، دوسری عورت نے کہا کہ وہ تو تیرا بچہ لے گیا ہے۔ وہ دونوں عورتیں اپنا مقدمہ داؤد (علیہ السلام) کے پاس لائیں تو آپ نے فیصلہ بڑی کے حق میں کردیا۔ وہ دونوں نکل کر سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) کے پاس گئیں اور انہیں واقعہ کی اطلاع دی۔ سلیمان (علیہ السلام) نے کہا کہ چھری لاؤ میں لڑکے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کو ایک ایک دوں گا۔ اس پر چھوٹی عورت بول اٹھی کہ ایسا نہ کیجئے آپ پر اللہ رحم کرے، یہ بڑی ہی کا لڑکا ہے لیکن آپ (علیہ السلام) نے فیصلہ چھوٹی عورت کے حق میں کیا۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ واللہ ! میں نے سكين چھری کا لفظ سب سے پہلی مرتبہ (نبی کریم ﷺ کی زبان سے) اس دن سنا تھا اور ہم اس کے لیے (اپنے قبیلہ میں) مدية‏.‏ کا لفظ بولتے تھے۔

【46】

قیافہ شناسی کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ میرے یہاں ایک مرتبہ بہت خوش خوش تشریف لائے۔ آپ ﷺ کا چہرہ چمک رہا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم نے نہیں دیکھا، مجزز (ایک قیافہ شناس) نے ابھی ابھی زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید (رض) کے (صرف پاؤں دیکھے) اور کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔

【47】

قیافہ شناسی کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے یہاں تشریف لائے، آپ ﷺ بہت خوش تھے اور فرمایا عائشہ ! تم نے دیکھا نہیں، مجزز مدلجی آیا اور اس نے اسامہ اور زید (رضی اللہ عنہما) کو دیکھا، دونوں کے جسم پر ایک چادر تھی، جس نے دونوں کے سروں کو ڈھک لیا تھا اور ان کے صرف پاؤں کھلے ہوئے تھے تو اس نے کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔