70. جنگ کرنے کا بیان

【1】

جنگ کرنے والے کافر اور مرتد کا بیان ۔ اللہ تعالیٰ کا قول کہ اس کے سوا کوئی بات نہیں کہ ان لوگوں کی سزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں یہ ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا سولی دیے جائیں یاان کے ہاتھ پاؤں خلاف سے کاٹے جائیں یا جلاوطن کیے جائیں

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ جرمی نے بیان کیا، ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس قبیلہ عکل کے چند لوگ آئے اور اسلام قبول کیا لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی (ان کے پیٹ پھول گئے) تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ صدقہ کے اونٹوں کے ریوڑ میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ ملا کر پئیں۔ انہوں نے اس کے مطابق عمل کیا اور تندرست ہوگئے لیکن اس کے بعد وہ مرتد ہوگئے اور ان اونٹوں کے چرواہوں کو قتل کر کے اونٹ ہنکا لے گئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی تلاش میں سوار بھیجے اور انہیں پکڑ کے لایا گیا پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں (کیونکہ انہوں نے اسلامی چرواہے کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کیا تھا) اور ان کے زخموں پر داغ نہیں لگوایا گیا یہاں تک کہ وہ مرگئے۔

【2】

نبی ﷺ نے مرتد جنگ کرنے والے کے داغ نہیں لگوائے یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوگئے

ہم سے ابویعلیٰ محمد بن صلت نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، کہا مجھ سے اوزاعی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے عرینیوں کے (ہاتھ پاؤں) کٹوا دئیے لیکن ان پر داغ نہیں لگوایا، یہاں تک کہ وہ مرگئے۔

【3】

اس چیز کا بیان کہ آپ نے مرتد محاربین کو پانی نہیں پلایا یہاں تک کہ وہ لوگ مرگئے

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس سنہ ٦ ھ میں آئے اور یہ لوگ مسجد کے سائبان میں ٹھہرے۔ مدینہ منورہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی۔ انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ہمارے لیے دودھ کہیں سے مہیا کرا دیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو میرے پاس نہیں ہے۔ البتہ تم لوگ ہمارے اونٹوں میں چلے جاؤ۔ چناچہ وہ آئے اور ان کا دودھ اور پیشاب پیا اور صحت مند ہو کر موٹے تازے ہوگئے۔ پھر انہوں نے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو ہنکا لے گئے۔ اتنے میں نبی کریم ﷺ کے پاس فریادی پہنچا اور نبی کریم ﷺ نے ان کی تلاش میں سوار بھیجے۔ ابھی دھوپ زیادہ پھیلی بھی نہیں تھی کہ انہیں پکڑ کر لایا گیا پھر نبی کریم ﷺ کے حکم سے سلائیاں گرم کی گئیں اور ان کی آنکھوں میں پھیر دی گئیں اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کے (زخم سے خون کو روکنے کے لیے) انہیں داغا بھی نہیں گیا۔ اس کے بعد وہ حرہ (مدینہ کی پتھریلی زمین) میں ڈال دئیے گئے، وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ مرگئے۔ ابوقلابہ نے کہا کہ یہ اس وجہ سے کیا گیا تھا کہ انہوں نے چوری کی تھی، قتل کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول سے غدارانہ لڑائی لڑی تھی۔

【4】

نبی ﷺ کا جنگ کرنے والوں کی آنکھیں پھڑوانے کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ قبیلہ عکل یا عرینہ کے چند لوگ میں سمجھتا ہوں عکل کا لفظ کہا، مدینہ آئے اور نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے دودھ دینے والی اونٹنیوں کا انتظام کردیا اور فرمایا کہ وہ اونٹوں کے گلہ میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ پئیں۔ چناچہ انہوں نے پیا اور جب وہ تندرست ہوگئے تو چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو ہنکا لے گئے۔ نبی کریم ﷺ کے پاس یہ خبر صبح کے وقت پہنچی تو آپ نے ان کے پیچھے سوار دوڑائے۔ ابھی دھوپ زیادہ پھیلی بھی نہیں تھی کہ وہ پکڑ کر لائے گئے۔ چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کے بھی ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کی بھی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی اور انہیں حرہ میں ڈال دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے کہا کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے چوری کی تھی، قتل کیا تھا، ایمان کے بعد کفر اختیار کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول سے غدارانہ لڑائی لڑی تھی۔

【5】

اس شخص کی فضیلت کا بیان جس نے فواحش کو چھوڑ دیا ہو۔

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عمر عمری نے، انہیں خبیب بن عبدالرحمٰن نے، انہیں حفص بن عاصم نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کے نیچے سایہ دے گا جبکہ اس کے عرش کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ عادل حاکم، نوجوان جس نے اللہ کی عبادت میں جوانی پائی، ایسا شخص جس نے اللہ کو تنہائی میں یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، وہ آدمی جو اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں، وہ شخص جسے کسی بلند مرتبہ اور خوبصورت عورت نے اپنی طرف بلایا اور اس نے جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ شخص جس نے اتنا پوشیدہ صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ دائیں نے کتنا اور کیا صدقہ کیا ہے۔

【6】

اس شخص کی فضیلت کا بیان جس نے فواحش کو چھوڑ دیا ہو۔

ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا ہم سے عمر بن علی نے بیان کیا۔ (دوسری سند امام بخاری (رح) نے کہا) اور مجھ سے خلیفہ بن حیاط نے بیان کیا، ان سے عمر بن علی نے، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ساعدی نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے مجھے اپنے دونوں پاؤں کے درمیان یعنی (شرمگاہ) کی اور اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان (یعنی زبان) کی ضمانت دے دی تو میں اسے جنت میں جانے کا بھروسہ دلاتا ہوں۔

【7】

زنا کرنے والوں کے گناہ کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ وہ لوگ زنا نہیں کرتے ہیں اور زنا کے قریب نہ جاؤ اس لئے وہ فحش اور برا راستہ ہے۔

ہمیں داؤد بن شبیب نے خبر دی، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، کہا ہم کو انس (رض) نے خبر دی ہے کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کروں گا کہ میرے بعد کوئی اسے نہیں بیان کرے گا۔ میں نے یہ حدیث نبی کریم ﷺ سے سنی ہے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ کہتے سنا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یا یوں فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم دین دنیا سے اٹھ جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی، شراب بکثرت پی جانے لگے گی اور زنا پھیل جائے گا۔ مرد کم ہوجائیں گے اور عورتوں کی کثرت ہوگی۔ حالت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ پچاس عورتوں پر ایک ہی خبر لینے والا مرد رہ جائے گا۔

【8】

زنا کرنے والوں کے گناہ کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ وہ لوگ زنا نہیں کرتے ہیں اور زنا کے قریب نہ جاؤ اس لئے وہ فحش اور برا راستہ ہے۔

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو اسحاق بن یوسف نے خبر دی، کہا ہم کو فضیل بن غزوان نے خبر دی، انہیں عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بندہ جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ بندہ جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور بندہ جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور جب وہ قتل ناحق کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ عکرمہ نے کہا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ ایمان اس سے کس طرح نکال لیا جاتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس طرح اور اس وقت آپ ان نے اپنی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر پھر الگ کرلیا پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو ایمان اس کے پاس لوٹ آتا ہے، اس طرح اور آپ نے اپنی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالا۔

【9】

زنا کرنے والوں کے گناہ کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ وہ لوگ زنا نہیں کرتے ہیں اور زنا کے قریب نہ جاؤ اس لئے وہ فحش اور برا راستہ ہے۔

ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ذکوان نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا، وہ چور جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا، شرابی جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ پھر ان سب آدمیوں کے لیے توبہ کا دروازہ بہرحال کھلا ہوا ہے۔

【10】

زنا کرنے والوں کے گناہ کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ وہ لوگ زنا نہیں کرتے ہیں اور زنا کے قریب نہ جاؤ اس لئے وہ فحش اور برا راستہ ہے۔

ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے منصور اور سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابوائل نے، ان سے ابومیسرہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے۔ فرمایا یہ کہ تم اللہ کا کسی کو شریک بناؤ، حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے پوچھا : اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خطرے سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے کھانے میں تمہارے ساتھ شریک ہوگی۔ میں نے پوچھا : اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو، یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے واصل نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! پھر اسی حدیث کی طرح بیان کیا۔ عمرو نے کہا کہ پھر میں نے اس حدیث کا ذکر عبدالرحمٰن بن مہدی سے کیا اور انہوں نے ہم سے یہ حدیث سفیان ثوری سے بیان کی، ان سے اعمش، منصور اور واصل نے، ان سے ابوائل نے اور ان سے ابومیسرہ نے۔ عبدالرحمٰن بن مہدی نے کہا کہ تم اس سند کو جانے بھی دو ۔

【11】

شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے کا بیان، حسن نے کہا جس نے اپنی بہن سے زنا کیا اسے زنا کی ہی حد لگے گی

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، انہوں نے علی (رض) سے بیان کیا کہ جب انہوں نے جمعہ کے دن عورت کو رجم کیا تو کہا کہ میں نے اس کا رجم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کیا ہے۔

【12】

شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے کا بیان، حسن نے کہا جس نے اپنی بہن سے زنا کیا اسے زنا کی ہی حد لگے گی

مجھ سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد طحان نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے کہا میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ نے کسی کو رجم کیا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے پوچھا : سورة النور سے پہلے یا اس کے بعد کہا کہ یہ مجھے معلوم نہیں (امر نامعلوم کے لیے اظہار لاعلمی کردینا بھی امر محمود ہے) ۔

【13】

شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے کا بیان، حسن نے کہا جس نے اپنی بہن سے زنا کیا اسے زنا کی ہی حد لگے گی

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو یونس نے خبر دی، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) نے کہ قبیلہ اسلم کے ایک صاحب ماعز نامی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں نے زنا کیا ہے۔ پھر انہوں نے اپنے زنا کا چار مرتبہ اقرار کیا تو نبی کریم ﷺ نے ان کے رجم کا حکم دیا اور انہیں رجم کیا گیا، وہ شادی شدہ تھے۔

【14】

مجنون مرد اور مجنون عورت کو سنگسار نہیں کیا جائے گا۔ حضرت علی نے حضرت عمر سے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ دیوانے سے جب تک وہ ہوش میں نہ آئے اور بچے سے جب تک بالغ نہ ہوجائے اور سونے والے سے جب تک کہ بیدار نہ ہوجائے قلم اٹھا لیا گیا ہے

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ اور سعید بن المسیب نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک صاحب ماعز بن مالک اسلمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے، اس وقت نبی کریم ﷺ مسجد میں تھے، انہوں نے آپ کو آواز دی اور کہا کہ یا رسول اللہ ! میں نے زنا کرلیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی طرف سے منہ پھیرلیا۔ انہوں نے یہ بات چار دفعہ دہرائی جب چار دفعہ انہوں نے اس گناہ کی اپنے اوپر شہادت دی تو نبی کریم ﷺ نے انہیں بلایا اور دریافت فرمایا کیا تم دیوانے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ پھر کیا تم شادی شدہ ہو ؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہیں لے جاؤ اور رجم کر دو ۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر مجھے انہوں نے خبر دی، جنہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ رجم کرنے والوں میں، میں بھی تھا ہم نے انہیں آبادی سے باہر عیدگاہ کے پاس رجم کیا تھا جب ان پر پتھر پڑے تو وہ بھاگ پڑے لیکن ہم نے انہیں حرہ کے پاس پکڑا اور رجم کردیا۔

【15】

زانی کے لئے پتھر ہیں

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ (رض) نے آپس میں (ایک بچے عبدالرحمٰن نامی میں) اختلاف کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا عبد بن زمعہ ! بچہ تو لے لے بچہ اسی کو ملے گا جس کی جورو یا لونڈی کے پیٹ سے وہ پیدا ہوا اور سودہ ! تم اس سے پردہ کیا کرو۔ امام بخاری (رح) نے کہا کہ قتیبہ نے لیث سے اس زیادہ کے ساتھ بیان کیا کہ زانی کے حصہ میں پتھر کی سزا ہے۔

【16】

زنا کرنے والوں کے گناہ کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن زیاد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا لڑکا اسی کو ملتا ہے جس کی جورو یا لونڈی کے پیٹ سے ہوا ہو اور حرام کار کے لیے صرف پتھر ہیں۔

【17】

بلاط میں سنگسار کرنے کا بیان

ہم سے محمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو لایا گیا، جنہوں نے زنا کیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تمہاری کتاب تورات میں اس کی سزا کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے علماء نے (اس کی سزا) چہرہ کو سیاہ کرنا اور گدھے پر الٹا سوار کرنا تجویز کی ہوئی ہے۔ اس پر عبداللہ بن سلام (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! ان سے توریت منگوائیے۔ جب توریت لائی گئی تو ان میں سے ایک نے رجم والی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ لیا اور اس سے آگے اور پیچھے کی آیتیں پڑھنے لگا۔ عبداللہ بن سلام (رض) نے اس سے کہا کہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ (اور جب اس نے اپنا ہاتھ ہٹایا تو) آیت رجم اس کے ہاتھ کے نیچے تھی۔ نبی کریم ﷺ نے ان دونوں کے متعلق حکم دیا اور انہیں رجم کردیا گیا۔ ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ انہیں بلاط (مسجد نبوی کے قریب ایک جگہ) میں رجم کیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ یہودی عورت کو مرد بچانے کے لیے اس پر جھک جھک پڑتا تھا۔

【18】

عید گاہ میں سنگسار کرنے کا بیان

مجھ سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں جابر بن عبداللہ (رض) نے کہ قبیلہ اسلم کے ایک صاحب (ماعز بن مالک) نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور زنا کا اقرار کیا۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے ان کی طرف سے اپنا منہ پھیرلیا۔ پھر جب انہوں نے چار مرتبہ اپنے لیے گواہی دی تو نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا کیا تم دیوانے ہوگئے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا کیا تمہارا نکاح ہوچکا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ چناچہ آپ کے حکم سے انہیں عیدگاہ میں رجم کیا گیا۔ جب ان پر پتھر پڑے تو وہ بھاگ پڑے لیکن انہیں پکڑ لیا گیا اور رجم کیا گیا یہاں تک کہ وہ مرگئے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ان کے حق میں کلمہ خیر فرمایا اور ان کا جنازہ ادا کیا اور ان کی تعریف کی جس کے وہ مستحق تھے۔

【19】

جو شخص کسی ایسے گناہ کا مرتکب ہوا جس میں حد نہیں۔ اور امام کو اس کی خبر کی تو توبہ کرنے کے بعد اس پر کوئی حد نہیں ہے جبکہ وہ حکم دریافت کرنے آئے۔ عطاء کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے اس کو سزا نہیں دی۔ اور ابن جریج نے کہا کہ آپ نے اس شخص کو سزا نہیں دی جس نے رمضان میں (اپنی بیوی سے) جماع کرلیا تھا اور حضرت عمر نے بحالت احرام ہر نی شکار کرنے والے کو سزا نہیں دی۔ اور اس میں بواسطہ ابو عثمان ابن مسعود نبی ﷺ سے منقول ہے۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ ایک صاحب نے رمضان میں اپنی بیوی سے ہمبستری کرلی اور پھر رسول اللہ ﷺ سے اس کا حکم پوچھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا دو مہینے روزے رکھنے کی تم میں طاقت نہیں ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر کہا کہ پھر ساٹھ محتاجوں کو کھانا کھلاؤ۔ اور لیث نے بیان کیا، ان سے عمرو بن الحارث نے، ان سے عبدالرحمٰن بن القاسم نے، ان سے محمد بن جعفر بن زبیر نے، ان سے عباد بن عبداللہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ ایک صاحب نبی کریم ﷺ کے پاس مسجد میں آئے اور عرض کیا میں تو دوزخ کا مستحق ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا کیا بات ہوئی ؟ کہا کہ میں نے اپنی بیوی سے رمضان میں جماع کرلیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے کہا کہ پھر صدقہ کر۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ پھر وہ بیٹھ گیا اور اس کے بعد ایک صاحب گدھا ہانکتے لائے جس پر کھانے کی چیز رکھی تھی۔ عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیا چیز تھی۔ (دوسری روایت میں یوں ہے کہ کھجور لدی ہوئی تھی) اسے نبی کریم ﷺ کے پاس لایا جا رہا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ آگ میں جلنے والے صاحب کہاں ہیں ؟ وہ صاحب بولے کہ میں حاضر ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے لے اور صدقہ کر دے۔ انہوں نے پوچھا کیا اپنے سے زیادہ محتاج کو دوں ؟ میرے گھر والوں کے لیے تو خود کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم ہی کھالو۔ عبداللہ امام بخاری (رح) نے کہا کہ پہلی حدیث زیادہ واضح ہے جس میں أطعم أهلك کے الفاظ ہیں۔

【20】

اگر کوئی شخص حد کا اقرار کرے اور اسے ظاہر نہ کرے۔ تو کہا کہ امام کو اختیار ہے اس کی پردہ پوشی کرے۔

مجھ سے عبدالقدوس بن محمد نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عاصم کلابی نے بیان کیا، ان سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس تھا کہ ایک صاحب کعب بن عمرو آئے اور کہا : یا رسول اللہ ! مجھ پر حد واجب ہوگئی ہے۔ آپ مجھ پر حد جاری کیجئے۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ بیان کیا کہ پھر نماز کا وقت ہوگیا اور ان صاحب نے بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ ﷺ نماز پڑھ چکے تو وہ پھر نبی کریم ﷺ کے پاس آ کر کھڑے ہوگئے اور کہا : یا رسول اللہ ! مجھ پر حد واجب ہوگئی ہے آپ کتاب اللہ کے حکم کے مطابق مجھ پر حد جاری کیجئے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ کیا تم نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ نے تیرا گناہ معاف کردیا یا فرمایا کہ تیری غلطی یا حد (معاف کردی) ۔

【21】

کیا امام اقرار کرنے والے سے یہ کہہ سکتا ہے کہ شاید تو نے چھوا ہوگا۔

مجھ سے عبداللہ بن محمد الجعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے کہا کہ میں نے یعلیٰ بن حکیم سے سنا، انہوں نے عکرمہ سے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب ماعز بن مالک نبی کریم ﷺ کے پاس آئے تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ غالباً تو نے بوسہ دیا ہوگا یا اشارہ کیا ہوگا یا دیکھا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ ! نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کیا پھر تو نے ہمبستری ہی کرلی ہے ؟ اس مرتبہ آپ نے کنایہ سے کام نہیں لیا۔ بیان کیا کہ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے انہیں رجم کا حکم دیا۔

【22】

اقرار کرنے والے سے امام کا دریافت کرنا کہ کیا توشادی شدہ ہے

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن خالد نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابن المسیب اور ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک صاحب آئے۔ نبی کریم ﷺ اس وقت مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے آواز دی یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا ہے۔ خود اپنے متعلق وہ کہہ رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے اپنا منہ پھیرلیا۔ لیکن وہ صاحب بھی ہٹ کر اسی طرف کھڑے ہوگئے جدھر آپ ﷺ نے اپنا منہ پھیرا تھا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے پھر اپنا منہ پھیرلیا اور وہ بھی دوبارہ اس طرف آگئے جدھر نبی کریم ﷺ نے اپنا منہ پھیرا تھا اور اس طرح جب اس نے چار مرتبہ اپنے گناہ کا اقرار کرلیا تو نبی کریم ﷺ نے اس کو بلایا اور پوچھا کیا تم پاگل ہو ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ ! نبی کریم ﷺ نے پوچھا کیا تم شادی شدہ ہو ؟ انہوں نے کہا : جی یا رسول اللہ ! نبی کریم ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ انہیں لے جاؤ اور رجم کر دو ۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ جنہوں نے جابر (رض) سے حدیث سنی تھی انہوں نے مجھے خبر دی کہ جابر (رض) نے بیان کیا کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے انہیں رجم کیا تھا جب ان پر پتھر پڑے تو وہ بھاگنے لگے۔ لیکن ہم نے انہیں حرہ (حرہ مدینہ کی پتھریلی زمین) میں جا لیا اور انہیں رجم کردیا۔

【23】

زنا کا اقرار کرنے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم نے اسے زہری سے (سن کر) یاد کیا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ نے خبر دی، انہوں نے ابوہریرہ اور زید بن خالد (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس تھے تو ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ کریں۔ اس پر اس کا مقابل بھی کھڑا ہوگیا اور وہ پہلے سے زیادہ سمجھدار تھا، پھر اس نے کہا کہ واقعی آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے ہی فیصلہ کیجئے اور مجھے بھی گفتگو کی اجازت دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کہو، اس شخص نے کہا کہ میرا بیٹا اس شخص کے یہاں مزدوری پر کام کرتا تھا پھر اس نے اس کی عورت سے زنا کرلیا، میں نے اس کے فدیہ میں اسے سو بکری اور ایک خادم دیا، پھر میں نے بعض علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے لڑکے پر سو کوڑے اور ایک سال شہر بدر ہونے کی حد واجب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس ہوں گے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے اسے جلا وطن کیا جائے گا اور اے انیس ! صبح کو اس کی عورت کے پاس جانا اگر وہ (زنا کا) اقرار کرلے تو اسے رجم کر دو ۔ چناچہ وہ صبح کو اس کے پاس گئے اور اس نے اقرار کرلیا اور انہوں نے رجم کردیا۔ علی بن عبداللہ مدینی کہتے ہیں میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا جس شخص کا بیٹا تھا اس نے یوں نہیں کہا کہ ان عالموں نے مجھ سے بیان کیا کہ تیرے بیٹے پر رجم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ کو اس میں شک ہے کہ زہری سے میں نے سنا ہے یا نہیں، اس لیے میں نے اس کو کبھی بیان کیا کبھی نہیں بیان کیا بلکہ سکوت کیا۔

【24】

زنا کا اقرار کرنے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ عمر (رض) نے کہا میں ڈرتا ہوں کہ کہیں زیادہ وقت گزر جائے اور کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ کتاب اللہ میں تو رجم کا حکم ہمیں کہیں نہیں ملتا اور اس طرح وہ اللہ کے ایک فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ آگاہ ہوجاؤ کہ رجم کا حکم اس شخص کے لیے فرض ہے جس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو بشرطیکہ صحیح شرعی گواہیوں سے ثابت ہوجائے یا حمل ہو یا کوئی خود اقرار کرے۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے اسی طرح یاد کیا تھا آگاہ ہوجاؤ کہ رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا تھا اور آپ کے بعد ہم نے رجم کیا تھا۔

【25】

شادی شدہ عورت کو زناء سے حاملہ ہونے پر سنگسار کرنے کا بیان

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ میں کئی مہاجرین کو (قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا۔ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) بھی ان میں سے ایک تھے۔ ابھی میں منیٰ میں ان کے مکان پر تھا اور وہ عمر (رض) کے آخری حج میں (سنہ 23 ھ) ان کے ساتھ تھے کہ وہ میرے پاس لوٹ کر آئے اور کہا کہ کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین ! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ گچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہوگیا تو میں صلاح صاحب طلحہ بن عبیداللہ سے بیعت کروں گا کیونکہ واللہ ابوبکر (رض) کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہوگئی اور پھر وہ مکمل ہوگئی تھی۔ اس پر عمر (رض) بہت غصہ ہوئے اور کہا میں انشاء اللہ شام کے وقت لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی سے دخل درمعقولات کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے کہا کہ اس پر میں نے عرض کیا : یا امیرالمؤمنین ! ایسا نہ کیجئے۔ حج کے موسم میں کم سمجھی اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہو کر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے، لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا انتظار کرلیجئے کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرما سکیں گے اور علم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ عمر (رض) نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوں گا۔ ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ پھر ہم ذی الحجہ کے مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے۔ جمعہ کے دن سورج ڈھلتے ہی ہم نے (مسجد نبوی) پہنچنے میں جلدی کی اور میں نے دیکھا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ممبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میرا ٹخنہ ان کے ٹخنے سے لگا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں عمر (رض) بھی باہر نکلے، جب میں نے انہیں آتے دیکھا تو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (رض) سے میں نے کہا کہ آج عمر (رض) ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے اس سے پہلے خلیفہ بنائے جانے کے بعد کبھی نہیں کہی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کو نہ مانا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ آپ کوئی ایسی بات کہیں گے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی۔ پھر عمر (رض) ممبر پر بیٹھے اور جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کرنے کے بعد فرمایا : امابعد ! آج میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جس کا کہنا میری تقدیر میں لکھا ہوا تھا، مجھ کو نہیں معلوم کہ شاید میری یہ گفتگو موت کے قریب کی آخری گفتگو ہو۔ پس جو کوئی اسے سمجھے اور محفوظ رکھے اسے چاہیے کہ اس بات کو اس جگہ تک پہنچا دے جہاں تک اس کی سواری اسے لے جاسکتی ہے اور جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ میری طرف غلط بات منسوب کرے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی، کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود (اپنے زمانہ میں) رجم کرایا۔ پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یوں ہی آگے بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ نہ دعویٰ کر بیٹھے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ یقیناً رجم کا حکم کتاب اللہ سے اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی ہونے کے بعد زنا کیا ہو۔ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بشرطیکہ گواہی مکمل ہوجائے یا حمل ظاہر ہو یا وہ خود اقرار کرلے پھر کتاب اللہ کی آیتوں میں ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے حقیقی باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہ کرو۔ کیونکہ یہ تمہارا کفر اور انکار ہے کہ تم اپنے اصل باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنی نسبت کرو۔ ہاں اور سن لو کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میری تعریف حد سے بڑھا کر نہ کرنا جس طرح عیسیٰ ابن مریم عیلہما السلام کی حد سے بڑھا کر تعریفیں کی گئیں (ان کو اللہ کو بیٹا بنادیا گیا) بلکہ (میرے لیے صرف یہ کہو کہ) میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے کہ واللہ اگر عمر کا انتقال ہوگیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گا دیکھو تم میں سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ ابوبکر (رض) کی بیعت ناگاہ ہوئی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوئی ہے اس سے تم کو بچائے رکھا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں کوئی شخص ایسا نہیں جو ابوبکر (رض) جیسا متقی، خدا ترس ہو۔ تم میں کون ہے جس سے ملنے کے لیے اونٹ چلائے جاتے ہوں۔ دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے صلاح مشورہ اور اتفاق اور غلبہ آراء کے بغیر بیعت نہ کرے جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوا دیں گے اور سن لو بلاشبہ جس وقت نبی کریم ﷺ کی وفات ہوی تو ابوبکر (رض) ہم سب سے بہتر تھے البتہ انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہوگئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر (رض) اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر (رض) کے پاس جمع ہوگئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر (رض) سے کہا : اے ابوبکر ! ہمیں اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس لے چلئے۔ چناچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری، انہیں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ (سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کر ڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔ چناچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب (سردار خزرج) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ (رض) ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہوگیا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آ رہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا : امابعد ! ہم اللہ کے دین کے مددگار (انصار) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین ! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آ رہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کرچکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ ابوبکر (رض) کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں اور انصار کی تقریر سے جو ابوبکر (رض) کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر (رض) نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔ آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور اللہ کی قسم ! وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہوگئے۔ ابوبکر (رض) کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو ! تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزاوار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کرلو۔ ابوبکر (رض) نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کردیا جاتا اور بےگناہ میری گردن مار دی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر (رض) خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکا دے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذر یوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے اردگرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈر گیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑجائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر ! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کرلی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کرلی (چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا : بھائیو ! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ عمر (رض) نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو ابوبکر (رض) کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو ڈر پیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کر بیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کرلیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑجاتی) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کرلے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔

【26】

غیر شادی شدہ مرد و عورت کے درے لگائے جائیں گے۔ اور جلا وطن کیے جائیں گے زانی عورت اور زانی مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور اللہ کے دین میں تم کو ان پر رحم نہ آئے اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور چاہیے کہ مومنین کی ایک جماعت ان دونوں کی سزا کے موقع پر حاضر رہے اور زانی سوائے زانیہ یا مشرکہ کے اور کسی عورت سے نکاح نہ کرے اور زانیہ عورت سے سوائے زانی یا مشرک کے اور کوئی مرد نکاح نہ کرے اور یہ مسلمانوں پر حرام کردیا گیا ہے ابن عیینہ نے کہا رافہ سے مراد ہے کہ حدود قائم کرنے میں تم کو رحم نہ آئے۔

ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن سلمہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور ان سے زید بن خالد جہنی نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ ان لوگوں کے بارے میں حکم دے رہے تھے جو غیر شادی شدہ ہوں اور زنا کیا ہو کہ سو کوڑے مارے جائیں اور سال بھر کے لیے جلا وطن کردیا جائے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ عمر بن خطاب (رض) نے جلا وطن کیا تھا پھر یہی طریقہ قائم ہوگیا۔

【27】

غیر شادی شدہ مرد و عورت کے درے لگائے جائیں گے۔ اور جلا وطن کیے جائیں گے زانی عورت اور زانی مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور اللہ کے دین میں تم کو ان پر رحم نہ آئے اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور چاہیے کہ مومنین کی ایک جماعت ان دونوں کی سزا کے موقع پر حاضر رہے اور زانی سوائے زانیہ یا مشرکہ کے اور کسی عورت سے نکاح نہ کرے اور زانیہ عورت سے سوائے زانی یا مشرک کے اور کوئی مرد نکاح نہ کرے اور یہ مسلمانوں پر حرام کردیا گیا ہے ابن عیینہ نے کہا رافہ سے مراد ہے کہ حدود قائم کرنے میں تم کو رحم نہ آئے۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کے بارے میں جس نے زنا کیا تھا اور وہ غیر شادی شدہ تھا، حد قائم کرنے کے ساتھ ایک سال تک شہر باہر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

【28】

گناہ گاروں اور ہیجڑوں کو شہر بدر کرنے کا بیان

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو مخنث بنتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مرد بنیں اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں اپنے گھروں سے نکال دو ۔ اور نبی کریم ﷺ نے فلاں کو گھر سے نکالا تھا اور عمر (رض) نے فلاں کو نکالا تھا۔

【29】

باب

باب : اللہ تعالیٰ کا فرمان اور تم میں سے جو کوئی طاقت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں میں سے نکاح کرسکے تو وہ تمہاری آپس کی مسلمان لونڈیوں میں سے جو تمہاری شرعی ملکیت میں ہوں نکاح کرے اور اللہ تمہارے ایمان سے خوب واقف ہے۔ تم سب آپس میں ایک ہو۔ سو ان لونڈیوں کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کرلیا کرو اور ان کے مہر انہیں دے دیا کرو دستور کے موافق اس طرح کہ وہ قید نکاح میں لائی جائیں نہ کہ مستی نکالنے والیاں ہوں اور نہ چوری چھپے آشنائی کرنے والیاں ہوں۔ پھر جب وہ لونڈی قید میں آجائیں اور پھر اگر وہ بےحیائی کا کام کریں تو ان کے لیے اس سزا کا نصف ہے جو آزاد عورتوں کے لیے ہے۔ یہ اجازت اس لیے ہے جو تم میں سے بدکاری کا ڈر رکھتا ہو اور اگر تم صبر سے کام لو تو تمہارے حق میں کہیں بہتر ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے۔

【30】

None

ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کر دیں۔ اس پر دوسرے نے کھڑے ہو کر کہا کہ انہوں نے صحیح کہا یا رسول اللہ! ان کا کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کریں، میرا لڑکا ان کے یہاں مزدور تھا اور پھر اس نے ان کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا۔ لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے لڑکے کو رجم کیا جائے گا۔ چنانچہ میں نے سو بکریوں اور ایک کنیز کا فدیہ دیا۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو ان کا خیال ہے کہ میرے لڑکے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی لازمی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تم دونوں کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ بکریاں اور کنیز تمہیں واپس ملیں گی اور تمہارے لڑکے کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ملے گی اور انیس! صبح اس عورت کے پاس جاؤ ( اور اگر وہ اقرار کرے تو ) اسے رجم کر دو۔ چنانچہ انہوں نے اسے رجم کیا۔ ( وہ عورت کہیں اور جگہ تھی ) آپ نے اسے رجم کرنے کے لیے انیس کو بھیجا اسی سے باب کا مطلب نکلا۔ قسطلانی نے کہا کہ آپ نے جو انیس کو فریق ثانی کی جورو کے پاس بھیجا وہ زنا کی حد مارنے کے لیے نہیں بھیجا کیونکہ زنا کی حد لگانے کے لیے تجسس کرنا یا ڈھونڈنا بھی درست نہیں ہے اگر کوئی خود آ کر بھی زنا کا اقرار کرے اس کے لیے بھی تفتیش کرنا مستحب ہے یعنی یوں کہنا کہ شاید تو نے بوسہ دیا ہو گا یا مساس کیا ہو گا بلکہ آپ نے انیس کو صرف اس لیے بھیجا کہ اس عورت کو خبر کر دیں کہ فلاں شخص نے تجھ پر زنا کی تہمت لگائی ہے۔ اب وہ حد قذف کا مطالبہ کرتی ہے یا معاف کرتی ہے۔ جب انیس اس کے پاس پہنچے تو اس عورت نے صاف طور پر زنا کا اقبال کیا۔ اس اقبال پر انیس رضی اللہ عنہ نے اس کو حد لگائی اور رجم کیا۔

【31】

لونڈی کے زنا کرنے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور انہیں ابوہریرہ اور زید بن خالد (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس کنیز کے متعلق پوچھا گیا جو غیر شادی شدہ ہو اور زنا کرا لیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ زنا کرائے تو اسے کوڑے مارو، اگر پھر زنا کرائے تو پھر کوڑے مارو، اگر پھر زنا کرائے تو پھر کوڑے مارو اور اسے بیچ ڈالو خواہ ایک رسی ہی قیمت میں ملے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے یقین نہیں کہ تیسری مرتبہ (کوڑے لگانے کے حکم) کے بعد یہ فرمایا یا چوتھی مرتبہ کے بعد۔

【32】

اگر لونڈی زناء کرے تو اس کو ملامت نہ کیا جائے اور نہ اس کو جلاوطن کیا جائے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر کنیز زنا کرائے اور اس کا زنا کھل جائے تو اسے کوڑے مارنے چاہئیں لیکن لعنت ملامت نہ کرنی چاہیے پھر اگر وہ دوبارہ زنا کرے تو پھر چاہیے کہ کوڑے مارے لیکن ملامت نہ کرے پھر اگر تیسری مرتبہ زنا کرائے تو بیچ دے خواہ بالوں کی ایک رسی ہی قیمت پر ہو۔ اس روایت کی متابعت اسماعیل بن امیہ نے سعید سے کی، ان سے ابوہریرہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے۔

【33】

ذمیوں کے احکام اور شادی کے بعد ان سے زناء کرنے اور امام کے پاس لائے جانے کا بیان۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبانی نے بیان کیا میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے رجم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ نے رجم کیا تھا، میں نے پوچھا سورة النور سے پہلے یا اس کے بعد، انہوں نے بتلایا کہ مجھے معلوم نہیں۔ اس روایت کی متابعت علی بن مسہر، خالد بن عبداللہ المحاربی اور عبیدہ بن حمید نے شیبانی سے کی ہے اور بعض نے (سورۃ النور کے بجائے) سورة المائدہ کا ذکر کیا ہے لیکن پہلی روایت صحیح ہے۔

【34】

ذمیوں کے احکام اور شادی کے بعد ان سے زناء کرنے اور امام کے پاس لائے جانے کا بیان۔

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زناکاری کی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تورات میں رجم کے متعلق کیا حکم ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم انہیں رسوا کرتے ہیں اور کوڑے لگاتے ہیں۔ عبداللہ بن سلام (رض) نے اس پر کہا کہ تم جھوٹے ہو اس میں رجم کا حکم موجود ہے۔ چناچہ وہ تورات لائے اور کھولا۔ لیکن ان کے ایک شخص نے اپنا ہاتھ آیت رجم پر رکھ دیا اور اس سے پہلے اور بعد کا حصہ پڑھ دیا۔ عبداللہ بن سلام (رض) نے اس سے کہا کہ اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو اس کے نیچے رجم کی آیت موجود تھی۔ پھر انہوں نے کہا : اے محمد ! آپ نے سچ فرمایا کہ اس میں رجم کی آیت موجود ہے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا اور دونوں رجم کئے گئے۔ میں نے دیکھا کہ مرد عورت کو پتھروں سے بچانے کی کوشش میں اس پر جھکا رہا تھا۔

【35】

جب کوئی شخص اپنی یا دوسرے کی بیوی پر حاکم یا لوگوں کے نزدیک زناء کی تہمت لگائے۔ تو کیا حاکم اس عورت کے پاس کسی شخص کو بھیج سکتا ہے تاکہ اس سے تہمت کے متعلق دریافت کرے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور انہیں ابوہریرہ اور زید بن خالد (رض) نے خبر دی کہ دو آدمی اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لائے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیجئیے اور دوسرے نے جو زیادہ سمجھدار تھے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہ ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیجئیے اور مجھے عرض کرنے کی اجازت دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کہو، انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا ان صاحب کے یہاں مزدور تھا۔ مالک نے بیان کیا کہ عسيف مزدور کو کہتے ہیں اور اس نے ان کی بیوی کے ساتھ زنا کرلیا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ میرے بیٹے کی سزا رجم ہے۔ چناچہ میں نے اس کے فدیہ میں سو بکریاں اور ایک لونڈی دے دی پھر جب میں نے علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میرے لڑکے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کے لیے ملک بدر کرنا ہے۔ رجم تو صرف اس عورت کو کیا جائے گا اس لیے کہ وہ شادی شدہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تمہارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ تمہاری بکریاں اور تمہاری لونڈی تمہیں واپس ہیں پھر ان کے بیٹے کو سو کوڑے لگوائے اور ایک سال کے لیے شہر بدر کیا اور انیس اسلمی (رض) کو حکم فرمایا کہ اس مذکورہ عورت کے پاس جائیں اگر وہ اقرار کرلے تو اسے رجم کردیں چناچہ اس نے اقرار کیا اور وہ رجم کردی گئی۔

【36】

سلطان کے علاوہ کوئی شخص اپنے گھر والوں کو یا دوسروں کو ادب سکھائے۔ ابوسعید نے نبی ﷺ سے نقل کیا کہ جب کوئی شخص نماز پڑھے اور اس کے سامنے سے کوئی گزرنا چاہے تو اس کو دفع کرے اور نہ مانے تو اس سے لڑے اور ابوسعید نے اس طرح کیا بھی ہے

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن القاسم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد (قاسم بن محمد) نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ابوبکر (رض) نے کہا تمہاری وجہ سے نبی کریم ﷺ اور سب لوگوں کو رکنا پڑا جبکہ یہاں پانی بھی نہیں ہے۔ چناچہ وہ مجھ پر سخت ناراض ہوئے اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں مکا مارنے لگے مگر میں نے اپنے جسم میں کسی قسم کی حرکت اس لیے نہیں ہونے دی کہ نبی کریم ﷺ آرام فرما رہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل کی۔

【37】

سلطان کے علاوہ کوئی شخص اپنے گھر والوں کو یا دوسروں کو ادب سکھائے۔ ابوسعید نے نبی ﷺ سے نقل کیا کہ جب کوئی شخص نماز پڑھے اور اس کے سامنے سے کوئی گزرنا چاہے تو اس کو دفع کرے اور نہ مانے تو اس سے لڑے اور ابوسعید نے اس طرح کیا بھی ہے

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ابوبکر (رض) آئے اور زور سے میرے ایک سخت گھونسا لگایا اور کہا تو نے ایک ہار کے لیے سب لوگوں کو روک دیا۔ میں اس سے مرنے کے قریب ہوگئی اس قدر مجھ کو درد ہوا لیکن کیا کرسکتی تھی کیونکہ نبی کریم ﷺ کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ لكز اور وكز کے ایک ہی معنی ہیں۔

【38】

اس شخص کا بیان جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی آدمی کو دیکھے اور اس کو قتل کردے۔

ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک نے بیان کیا، ان سے مغیرہ کے کاتب وراد نے، ان سے مغیرہ (رض) نے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ (رض) نے کہا کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو سیدھی تلوار کی دھار سے اسے مار ڈالوں۔ یہ بات نبی کریم ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں سعد کی غیرت پر حیرت ہے۔ میں ان سے بھی بڑھ کر غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔

【39】

تعریض کے متعلق جو منقول ہے

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! میری بیوی نے کالا لڑکا جنا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا، تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ آپ ﷺ نے پوچھا ان کے رنگ کیسے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ سرخ۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا پھر یہ کہاں سے آگیا ؟ انہوں نے کہا میرا خیال ہے کہ کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا جس کی وجہ سے ایسا اونٹ پیدا ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔

【40】

تعزیر اور ادب کی مقدار کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، ان سے بکیر بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن یسار نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن جابر بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا حدود اللہ میں کسی مقررہ حد کے سوا کسی اور سزا میں دس کوڑے سے زیادہ بطور تعزیر و سزا نہ مارے جائیں۔

【41】

تعزیر اور ادب کی مقدار کا بیان

ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مسلم بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن جابر نے ان صحابی سے بیان کیا جنہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا تھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کسی حد کے سوا مجرم کو دس کوڑے سے زیادہ کی سزا نہ دی جائے۔

【42】

تعزیر اور ادب کی مقدار کا بیان

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو عمرو نے خبر دی، ان سے بکیر نے بیان کیا کہ میں سلیمان بن یسار کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ عبدالرحمٰن بن جابر آئے اور سلیمان بن یسار سے بیان کیا پھر سلیمان بن یسار ہماری طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن جابر نے بیان کیا ہے کہ ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور انہوں نے ابوبردہ انصاری (رض) سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حدود اللہ میں سے کسی حد کے سوا کسی سزا میں دس کوڑے سے زیادہ کی سزا نہ دو ۔

【43】

تعزیر اور ادب کی مقدار کا بیان

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے وصال (مسلسل افطار کے بغیر کئی دن کے روزے رکھنے) سے منع فرمایا تو بعض صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ خود تو وصال کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کون مجھ جیسا ہے ؟ میرا تو حال یہ ہے کہ مجھے میرا رب کھلاتا ہے اور پلاتا ہے لیکن وصال کرنے سے صحابہ نہیں رکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ایک دن کے بعد دوسرے دن کا وصال کیا پھر اس کے بعد لوگوں نے چاند دیکھ لیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر (عید کا) چاند نہ دکھائی دیتا تو میں اور وصال کرتا۔ یہ آپ نے تنبیہاً فرمایا تھا کیونکہ وہ وصال کرنے پر مصر تھے۔ اس روایت کی متابعت شعیب، یحییٰ بن سعید اور یونس نے زہری سے کی ہے اور عبدالرحمٰن بن خالد فہمی نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا۔

【44】

تعزیر اور ادب کی مقدار کا بیان

مجھ سے عیاش بن الولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سالم نے، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اس پر مار پڑتی کہ جب غلہ کے ڈھیر یوں ہی خریدیں، بن ناپے اور تولے اس کو اسی جگہ دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالیں ہاں وہ غلہ اٹھا کر اپنے ٹھکانے لے جائیں پھر بیچیں تو کچھ سزا نہ ہوتی۔

【45】

تعزیر اور ادب کی مقدار کا بیان

ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے خبر دی اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ذاتی معاملہ میں کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا ہاں جب اللہ کی قائم کی ہوئی حد کو توڑا جاتا تو آپ پھر بدلہ لیتے تھے۔

【46】

اس شخص کا بیان جس نے بے حیائی کے کام اور آلودگی اور تہمت کو بغیر گواہ کے بیان کیا

ہم سے علی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ میں نے دو لعان کرنے والے میاں بیوی کو دیکھا تھا۔ اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی۔ نبی کریم ﷺ نے دونوں کے درمیان جدائی کرا دی تھی۔ شوہر نے کہا تھا کہ اگر اب بھی میں (اپنی بیوی کو) اپنے ساتھ رکھوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جھوٹا ہوں۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے زہری سے یہ روایت محفوظ رکھی ہے کہ اگر اس عورت کے ایسا بچہ پیدا ہوا تو شوہر سچا ہے اور اگر اس کے ایسا ایسا بچہ پیدا ہوا جیسے چھپکلی ہوتی ہے تو شوہر جھوٹا ہے۔ اور میں نے زہری سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ اس عورت نے اس آدمی کے ہم شکل بچہ جنا جو میری طرح کا تھا۔

【47】

اس شخص کا بیان جس نے بے حیائی کے کام اور آلودگی اور تہمت کو بغیر گواہ کے بیان کیا

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے قائم بن محمد نے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) نے دو لعان کرنے والوں کا ذکر کیا تو عبداللہ بن شداد (رض) نے کہا کہ یہ وہی تھی جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی عورت کو بلا گواہی رجم کرسکتا (تو اسے ضرور کرتا) ابن عباس (رض) نے کہا کہ نہیں یہ وہ عورت تھی جو (فسق و فجور) ظاہر کیا کرتی تھی۔

【48】

اس شخص کا بیان جس نے بے حیائی کے کام اور آلودگی اور تہمت کو بغیر گواہ کے بیان کیا

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی مجلس میں لعان کا ذکر آیا تو عاصم بن عدی (رض) نے اس پر ایک بات کہی پھر وہ واپس آئے۔ اس کے بعد ان کی قوم کے ایک صاحب یہ شکایت لے کر ان کے پاس آئے کہ انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو دیکھا ہے۔ عاصم (رض) نے اس پر کہا کہ میں اپنی اس بات کی وجہ سے آزمائش میں ڈالا گیا ہوں۔ پھر آپ ان صاحب کو لے کر نبی کریم ﷺ کی مجلس میں تشریف لائے اور نبی کریم ﷺ کو اس کی اطلاع دی جس حالت میں انہوں نے اپنی بیوی کو پایا۔ وہ صاحب زرد رنگ، کم گوشت، سیدھے بالوں والے تھے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ ! اس معاملہ کو ظاہر کر دے۔ چناچہ اس عورت کے یہاں اسی شخص کی شکل کا بچہ پیدا ہوا جس کے متعلق شوہر نے کہا تھا کہ اسے انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ دیکھا ہے پھر نبی کریم ﷺ نے دونوں کے درمیان لعان کرایا۔ ابن عباس (رض) سے مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ یہ وہی تھا جس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی کو بلا گواہی کے رجم کرسکتا تو اسے رجم کرتا۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ نہیں یہ تو وہ عورت تھی جو اسلام لانے کے بعد برائیاں اعلانیہ کرتی تھی۔

【49】

شادی شدہ عورت کو زناء کے ساتھ متہم کرنے کا بیان اور جو لوگ شادی شدہ عورت پر تہمت لگاتے ہیں کہ چار گواہ نہیں لاتے تو ان کو اسی (80) کوڑے مارو اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو۔ اور ایسے لوگ فاسق ہیں مگر جنہوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اصلاح کی تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے بے شک جو پاک دامن غافل عورتوں پر زناء کی تہمت لگاتے ہیں اور آخرت میں ان پر لعنت ہوگی اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ثور بن زید نے بیان کیا، ان سے ابوالغیث سالم نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سات مہلک گناہوں سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! وہ کیا کیا ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، ناحق کسی کی جان لینا جو اللہ نے حرام کیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ پھیرنا اور پاک دامن غافل مومن عورتوں کو تہمت لگانا۔

【50】

غلاموں پر تہمت لگانے کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے فضیل بن غزوان نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی نعم نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے ابوالقاسم ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا کہ جس نے اپنے غلام پر تہمت لگائی حالانکہ غلام اس تہمت سے بَری تھا تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے، سوا اس کے کہ اس کی بات صحیح ہو۔

【51】

کیا امام کسی شخص کو حکم دے سکتا ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں کسی پر حد لگائے اور حضرت عمر نے ایسا کیا ہے

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی (رض) نے بیان کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کردیں۔ اس پر فریق مخالف کھڑا ہوا، یہ زیادہ سمجھدار تھا اور کہا کہ انہوں نے سچ کہا۔ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کیجئے اور یا رسول اللہ ! مجھے (گفتگو کی) اجازت دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہئے۔ انہوں نے کہا کہ میرا لڑکا ان کے یہاں مزدوری کرتا تھا پھر اس نے ان کی بیوی کے ساتھ زنا کرلیا۔ میں نے اس کے فدیہ میں ایک سو بکریاں اور ایک خادم دیا پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ملنی چاہیے اور اس کی بیوی کو رجم کیا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق ہی کروں گا۔ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس ملیں گے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا دی جائے گی اور اے انیس اس عورت کے پاس صبح جانا اور اس سے پوچھنا اگر وہ زنا کا اقرار کرلے تو اسے رجم کرنا، اس عورت نے اقرار کرلیا اور وہ رجم کردی گئی۔