1. پاکی کا بیان

【1】

قضائے حاجات کے لئے تنہائی کی جگہ جانا

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت (یعنی پیشاب اور پاخانہ) کے لیے جاتے تو دور تشریف لے جاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ١٦ (٢٠) ، سنن النسائی/الطھارة ١٦ (١٧) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٢٢ (٣٣١) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٤) ، سنن الدارمی/الطھارة ٤ (٦٨٦) (حسن صحیح )

【2】

قضائے حاجات کے لئے تنہائی کی جگہ جانا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کا ارادہ کرتے تو (اتنی دور) جاتے کہ کوئی آپ ﷺ کو دیکھ نہ پاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٢٢ (٣٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٥٩) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/المقدمة ٤ (١٧) (صحیح )

【3】

پیشاب کرنے کے لئے نرم جگہ تلاش کرنا

ابوالتیاح کہتے ہیں کہ ایک شیخ نے مجھ سے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس (رض) جب بصرہ آئے تو وہ ابوموسیٰ (رض) سے حدیثیں بیان کرتے تھے، ابن عباس (رض) نے ابوموسیٰ (رض) کو خط لکھا جس میں وہ ان سے کچھ چیزوں کے متعلق پوچھ رہے تھے، ابوموسیٰ (رض) نے جواب میں انہیں لکھا کہ ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، آپ ﷺ نے پیشاب کا ارادہ کیا تو ایک دیوار کی جڑ کے پاس نرم زمین میں آئے اور پیشاب کیا، پھر فرمایا جب تم میں سے کوئی پیشاب کرنا چاہے تو وہ اپنے پیشاب کے لیے نرم جگہ ڈھونڈھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩١٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٦، ٣٩٩، ٤١٤) (ضعیف) (سند میں واقع مبہم راوی شيخ کا حال نہ معلوم ہونے کے سبب یہ حدیث ضعیف ہے ) وضاحت : ١ ؎ : تاکہ جسم یا کپڑے پر پیشاب کے چھینٹے نہ پڑنے پائیں۔

【4】

بیت الخلاء میں جانے سے پہلے کی دعا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب پاخانہ جاتے (حماد کی روایت میں ہے) تو آپ ﷺ اللهم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہتے، اور عبدالوارث کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ أعوذ بالله من الخبث والخبائث میں ناپاک جن مردوں اور ناپاک جن عورتوں (کے شر) سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٣٢ (٣٧٥) ، سنن الترمذی/الطھارة ٤ (٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٢، ١٠٤٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٩ (١٤٢) ، الدعوات ١٥ (٦٣٢٢) ، سنن النسائی/الطھارة ١٨ (١٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٩ (٢٩٦) ، مسند احمد (٣/١٠١، ٢٨٢) ، سنن الدارمی/الطھارة ١٠ (٦٩٦) (صحیح )

【5】

بیت الخلاء میں جانے سے پہلے کی دعا

انس بن مالک (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں اللهم إني أعوذ بك ہے، یعنی اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ شعبہ کا بیان ہے کہ عبدالعزیز نے ایک بار أعوذ بالله میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کی بھی روایت کی ہے، اور وہیب نے عبدالعزیز بن صہیب سے جو روایت کی ہے اس میں فليتعوذ بالله چاہیئے کہ اللہ سے پناہ مانگے کے الفاظ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٩ (١٤٢) ، الدعوات ١٥ (٦٣٢٢) ، سنن الترمذی/الطہارة ٤ (٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٨٢) (شاذ) (یعنی وہیب کی قولی روایت شاذ ہے، باقی صحیح ہے )

【6】

بیت الخلاء میں جانے سے پہلے کی دعا

زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کی یہ جگہیں جن اور شیطان کے موجود رہنے کی جگہیں ہیں، جب تم میں سے کوئی شخص بیت الخلاء میں جائے تو یہ دعا پڑھے أعوذ بالله من الخبث والخبائث میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ناپاک جن مردوں اور ناپاک جن عورتوں سے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٩ (٢٩٦) ، سنن النسائی/الیوم واللیلة (٧٥، ٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦٩، ٣٧٣) (صحیح )

【7】

قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے کی ممانعت

سلمان (رض) کہتے ہیں کہ ان سے (بطور استہزاء) یہ کہا گیا کہ تمہارے نبی نے تو تمہیں سب چیزیں سکھا دی ہیں حتیٰ کہ پاخانہ کرنا بھی، تو انہوں نے (فخریہ انداز میں) کہا : ہاں، بیشک ہمارے نبی ﷺ نے ہم کو پاخانہ اور پیشاب کے وقت قبلہ رخ ہونے، داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے، استنجاء میں تین سے کم پتھر استعمال کرنے اور گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ١٧ (٢٦٢) ، سنن الترمذی/الطھارة ١٢ (١٦) ، سنن النسائی/الطھارة ٣٧ (٤١) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٦ (٣١٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٣٧، ٤٣٨، ٤٣٩) (صحیح )

【8】

قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے کی ممانعت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (لوگو ! ) میں تمہارے لیے والد کے درجے میں ہوں، تم کو (ہر چیز) سکھاتا ہوں، تو جب تم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے جائے تو قبلہ کی طرف منہ اور پیٹھ کر کے نہ بیٹھے، اور نہ (ہی) داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے آپ ﷺ (استنجاء کے لیے) تین پتھر لینے کا حکم فرماتے، اور گوبر اور ہڈی کے استعمال سے روکتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ٣٦ (٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٦ (٣١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٧، ٢٥٠) (حسن )

【9】

قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے کی ممانعت

ابوایوب انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم قضائے حاجت کے لیے آؤ تو پاخانہ اور پیشاب کرتے وقت قبلہ رو ہو کر نہ بیٹھو، بلکہ پورب یا پچھم کی طرف رخ کرلیا کرو ١ ؎، (ابوایوب (رض) کہتے ہیں) پھر ہم ملک شام آئے تو وہاں ہمیں بیت الخلاء قبلہ رخ بنے ہوئے ملے، تو ہم پاخانہ و پیشاب کرتے وقت قبلہ کی طرف سے رخ پھیر لیتے تھے، اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ١١ (١٤٤) ، الصلاة ٢٩ (٣٩٤) ، صحیح مسلم/الطھارة ١٧ (٢٦٤) ، سنن الترمذی/الطھارة ٦ (٨) ، سنن النسائی/الطھارة ٢٠ (٢١) ، ٢١ (٢٢) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٧ (٣١٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٧٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القبلة ١ (١) ، مسند احمد (٥/٤١٦، ٤١٧، ٤٢١) ، سنن الدارمی/الطھارة ٦ (٦٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اہل مدینہ کا قبلہ مدینہ سے جنوبی سمت میں واقع ہے ، اسی کا لحاظ کرتے ہوئے اہل مدینہ کو مشرق یا مغرب کی جانب منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور جن کا قبلہ مشرق یا مغرب کی طرف ہے ایسے لوگ قضائے حاجت کے وقت شمال یا جنوب کی طرف منہ اور پیٹھ کر کے بیٹھیں گے۔

【10】

قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے کی ممانعت

معقل بن ابی معقل اسدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشاب اور پاخانہ کے وقت دونوں قبلوں (بیت اللہ اور بیت المقدس) کی طرف منہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوزید بنی ثعلبہ کے غلام ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٧ (٣١٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢١٠) (منکر) (سند میں واقع راوی ابوزید مجہول ہے ، نیز اس نے قبلتین کہہ کر ثقات کی مخالفت کی ہے )

【11】

قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے کی ممانعت

مروان اصفر کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو دیکھا، انہوں نے قبلہ کی طرف اپنی سواری بٹھائی پھر بیٹھ کر اسی کی طرف رخ کر کے پیشاب کرنے لگے، میں نے پوچھا : ابوعبدالرحمٰن ! (عبداللہ بن عمر (رض) کی کنیت ہے) کیا اس سے منع نہیں کیا گیا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں، اس سے صرف میدان میں روکا گیا ہے لیکن جب تمہارے اور قبلہ کے بیچ میں کوئی ایسی چیز ہو جو تمہارے لیے آڑ ہو تو کوئی حرج نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود ، (تحفة الأشراف : ٧٤٥١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : گویا قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے وقت کھلی جگہ میں قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنا منع ہے البتہ ایسی جگہ جہاں قبلہ کی طرف سے کوئی چیز آڑ کا کام دے وہاں قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کرنے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن احتیاط کی بات یہی ہے کہ ہر جگہ قبلہ کا احترام ملحوظ رہے۔

【12】

قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے کی اجازت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ (ایک روز) میں (کسی ضرورت سے) گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے دو اینٹوں پر اس طرح بیٹھے دیکھا کہ آپ ﷺ کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ١٢ (١٤٥) ، ١٤ (١٤٩) ، صحیح مسلم/الطھارة ١٧ (٢٦٦) ، سنن الترمذی/الطھارة ٧ (١١) ، سنن النسائی/الطھارة ٢٢ (٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٨ (٣٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٥٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القبلة ٢ (٣) ، مسند احمد (٢/١٢، ١٣) ، سنن الدارمی/الطھارة ٨ (٦٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مدینہ منورہ سے بیت المقدس اتر کی طرف واقع ہے۔

【13】

قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے کی اجازت

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے سے منع فرمایا، (لیکن) میں نے وفات سے ایک سال پہلے آپ ﷺ کو (قضائے حاجت کی حالت میں) قبلہ رو دیکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٧ (٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٨ (٣٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٧٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : گویا جابر (رض) کو یہ وہم تھا کہ ممانعت عام تھی ، صحراء اور آباد علاقہ دونوں کو شامل تھی ، اسی وجہ سے آپ نے اسے نسخ پر محمول کیا کہ رسول اکرم ﷺ کے آخری فعل سے یہ نہی ( ممانعت) منسوخ ہوگئی۔

【14】

قضائے حاجت کے لئے ستر کس وقت کھولنا چائیے؟

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کا ارادہ فرماتے تو اپنا کپڑا (شرمگاہ سے اس وقت تک) نہ اٹھاتے جب تک کہ زمین سے قریب نہ ہوجاتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے عبدالسلام بن حرب نے اعمش سے، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے، مگر یہ ضعیف ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٩٢، ٨٥٩٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطھارة ١٠ (١٤) ، سنن الدارمی/الطھارة (٧/٦٩٣) (صحیح) (سنن بیہقی میں رجل مبہم کی صراحت ہے کہ وہ قاسم بن محمد ہیں، اور یہ ثقہ راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اعمش کا سماع انس بن مالک (رض) سے ثابت نہیں ہے۔

【15】

قضائے حاجت کے وقت باتیں کرنا مکروہ ہے

ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا دو آدمی قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے وقت شرمگاہ کھولے ہوئے آپس میں باتیں نہ کریں کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو عکرمہ بن عمار کے علاوہ کسی اور نے مسنداً (مرفوعاً ) روایت نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٢٤ (٣٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦) (صحیح لغیرہ) (الصحیحہ : ٣١٢٠، وتراجع الألباني : ٧، ) ( لیکن دوسرے طریق کی وجہ سے حدیث صحیح ہے )

【16】

پیشاب کرتے وقت سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ (ایک دن) پیشاب کر رہے تھے (کہ اسی حالت میں) ایک شخص آپ کے پاس سے گزرا اور اس نے آپ کو سلام کیا، تو آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن عمر وغیرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے تیمم کیا، پھر اس آدمی کے سلام کا جواب دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٨ (٣٧٠) ، سنن الترمذی/الطھارة ٦٧ (٩٠) ، الاستئذان ٢٧/(٢٧٢٠) ، سنن النسائی/الطھارة ٣٣ (٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٢٧ (٣٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٦٩٦) (حسن )

【17】

پیشاب کرتے وقت سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے

مہاجر بن قنفذ (رض) کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، آپ ﷺ پیشاب کر رہے تھے تو انہوں نے آپ کو سلام کیا، آپ ﷺ نے سلام کا جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ وضو کیا پھر (سلام کا جواب دیا اور) مجھ سے معذرت کی اور فرمایا مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ میں اللہ کا ذکر بغیر پاکی کے کروں ۔ راوی کو شک ہے على طهر کہا، یا على طهارة کہا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ٣٤ (٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٢٧ (٣٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨٠) ، سنن الدارمی/الاستئذان ١٣ (٦٢٨٣) (صحیح )

【18】

پاکی کے بغیر اللہ کا ذکر کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اللہ عزوجل کا ذکر ہر وقت کیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٩ (٦٣٣) تعلیقًا، صحیح مسلم/الحیض ٣٠ (٣٧٣) ، سنن الترمذی/الدعوات ٩ (٣٣٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١ (٣٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٠، ١٥٣) (صحیح )

【19】

جس انگوٹھی پر اللہ کا نام کندہ ہو اسے لے کر بیت الخلاء میں نہیں جانا چاہئیے

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب پاخانہ میں داخل ہوتے تو اپنی انگوٹھی نکال کر رکھ دیتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے، معروف وہ روایت ہے جسے ابن جریج نے زیاد بن سعد سے، زیاد نے زہری سے اور زہری نے انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی (اسے پہنا) پھر اسے نکال کر پھینک دیا۔ اس حدیث میں ہمام راوی سے وہم ہوا ہے، اسے صرف ہمام ہی نے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ اللباس ١٦ (١٧٤٦) ، الشمائل ١١ (٨٨) ، سنن النسائی/الزینة ٥١ (٥٢١٦) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١ (٣٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٩٩، ١٠١، ٢٨٢) (منکر) (مؤلف نے اس کی علت بیان کردی ہے )

【20】

پیشاب کی چھینٹوں سے بچنے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر دو قبروں پر ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا (قبر میں مدفون) ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں، ان میں سے یہ شخص تو پیشاب سے پاکی حاصل نہیں کرتا تھا، اور رہا یہ تو یہ چغل خوری میں لگا رہتا تھا پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تازہ ٹہنی منگوائی، اور اسے بیچ سے پھاڑ کر دونوں قبروں پر ایک ایک شاخ گاڑ دی پھر فرمایا جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں شاید ان کا عذاب کم رہے ۔ ھناد نے يستنزه کی جگہ يستتر (پردہ نہیں کرتا تھا) ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٥ (٢١٦) ، ٥٦ (٢١٨) ، الجنائز ٨١ (١٣٦١) ، ٨٨ (١٣٧٨) ، الأدب ٤٦ (٦٠٥٢) ، ٤٩ (٦٠٥٥) ، صحیح مسلم/الطھارة ٣٤ (٢٩٢) ، سنن الترمذی/الطھارة ٥٣ (٧٠) ، سنن النسائی/الطھارة ٢٧ (٣١) ، الجنائز ١١٦ (٢٠٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٢٦ (٣٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٤٧) ، مسند احمد (١/٢٢٥) ، سنن الدارمی/الطھارة ٦١ (٧٦٦) (صحیح )

【21】

پیشاب کی چھینٹوں سے بچنے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس میں جریر نے كان لا يستتر من بوله کہا ہے، اور ابومعاویہ نے يستتر کی جگہ يستنزه وہ پاکی حاصل نہیں کرتا تھا کا لفظ ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الطہارة ٥٥ (٢١٦) ، الادب ٤٩ (٦٠٥٥) ، سنن النسائی/ الجنائز ١١٦ (٢٠٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٢٤) (صحیح )

【22】

پیشاب کی چھینٹوں سے بچنے کا بیان

عبدالرحمٰن بن حسنہ کہتے ہیں : میں اور عمرو بن العاص (رض) دونوں نبی اکرم ﷺ کی طرف چلے تو (دیکھا کہ) آپ ﷺ (باہر) نکلے اور آپ کے ساتھ ایک ڈھال ہے، اس سے آپ ﷺ نے آڑ کی پھر پیشاب کیا، ہم نے کہا : آپ کو دیکھو عورتوں کی طرح (چھپ کر) پیشاب کر رہے ہیں، یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں اس چیز کا علم نہیں جس سے بنی اسرائیل کا ایک شخص دوچار ہوا ؟ ان میں سے جب کسی شخص کو (اس کے جسم کے کسی حصہ میں) پیشاب لگ جاتا تو وہ اس جگہ کو کاٹ ڈالتا جہاں پیشاب لگ جاتا، اس شخص نے انہیں اس سے روکا تو اسے اس کی قبر میں عذاب دیا گیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : منصور نے ابو وائل سے، انہوں نے ابوموسیٰ (رض) سے، ابوموسیٰ نے نبی اکرم ﷺ سے اس حدیث میں پیشاب لگ جانے پر اپنی کھال کاٹ ڈالنے کی روایت کی ہے، اور عاصم نے ابو وائل سے، انہوں نے ابوموسیٰ سے، اور ابوموسیٰ نے نبی اکرم ﷺ سے اپنا جسم کاٹ ڈالنے کا ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ٢٦ (٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٢٦ (٣٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٩٦) (صحیح )

【23】

کھڑے ہو کر پیشاب کرنا

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک قوم کے کوڑے خانہ (گھور) پر آئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا ١ ؎ پھر پانی منگوایا (اور وضو کیا) اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مسدد کا بیان ہے کہ حذیفہ (رض) نے کہا : میں پیچھے ہٹنے چلا تو آپ ﷺ نے مجھے (قریب) بلایا (میں آیا) یہاں تک کہ میں آپ ﷺ کی ایڑیوں کے پاس (کھڑا) تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٠ (٢٢٤) ، ٦١ (٢٢٥) ، ٦٢ (٢٢٦) ، المظالم ٢٧ (٢٤٧١) ، صحیح مسلم/الطھارة ٢٢ (٢٧٣) ، سنن الترمذی/الطھارة ٩ (١٣) ، سنن النسائی/الطھارة ١٧ (١٨) ، ٢٤ ( ٢٦، ٢٧، ٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٣ (٣٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٩٤) ، سنن الدارمی/الطھارة (٩/٦٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ نے یا تو یہ کام جواز کے بیان کے لئے کیا ، یا وہ جگہ ایسی تھی جہاں بیٹھنا مناسب نہیں تھا ، کیونکہ بیٹھنے میں وہاں موجود نجاست سے آپ ﷺ کے ملوث ہونے کا احتمال تھا ، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ آپ ﷺ کے گھٹنے میں کوئی بیماری تھی جس کے سبب آپ نے ایسا کیا ، واللہ اعلم۔

【24】

رات کے وقت کسی برتن میں پیشاب کر کے رکھ چھوڑنا

امیمہ بنت رقیقہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے لیے آپ کے تخت کے نیچے لکڑی کا ایک پیالہ (رہتا) تھا، جس میں آپ ﷺ رات کو پیشاب کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ٢٨ (٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٢) (حسن صحیح )

【25】

پیشاب کے ممنوعہ مقامات

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لعنت کے دو کاموں سے بچو ، لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! لعنت کے وہ دو کام کیا ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ یہ ہیں کہ آدمی لوگوں کے راستے یا ان کے سائے کی جگہ میں پاخانہ کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ٢٠ (٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٧٨) ، وقد أخرجہ : حم (٢/٣٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد وہ سایہ ہے جہاں لوگ آرام کرتے ہوں یا لوگوں کے عام راستہ میں ہو ، نہ کہ ہر سایہ مراد ہے۔

【26】

پیشاب کے ممنوعہ مقامات

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لعنت کی تین چیزوں سے بچو : مسافروں کے اترنے کی جگہ میں، عام راستے میں، اور سائے میں پاخانہ پیشاب کرنے سے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٢١ (٣٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٧٠) (حسن )

【27】

غسل خانہ میں پیشاب کرنا

عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ہرگز ایسا نہ کرے کہ اپنے غسل خانے (حمام) میں پیشاب کرے پھر اسی میں نہائے ۔ احمد کی روایت میں ہے : پھر اسی میں وضو کرے، کیونکہ اکثر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ١٧ (٢١) ، سنن النسائی/الطھارة ٣٢ (٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٢ (٣٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٤٨) ، وقد أخرجہ : حم (٥/٥٦) (صحیح )

【28】

غسل خانہ میں پیشاب کرنا

حمید بن عبدالرحمٰن حمیری کہتے ہیں کہ میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں اسی طرح رہا جیسے ابوہریرہ (رض) آپ ﷺ کی صحبت میں رہے، اس نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے منع کیا ہے کہ ہم میں سے کوئی ہر روز کنگھی کرے یا غسل خانہ میں پیشاب کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٤٧ (٢٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٠، ١١١، ٥/٣٦٩) (صحیح )

【29】

جانوروں کے بل میں پیشاب کرنے کی ممانعت

عبدللہ بن سرجس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہشام دستوائی کا بیان ہے کہ لوگوں نے قتادہ سے پوچھا : کس وجہ سے سوراخ میں پیشاب کرنا ناپسندیدہ ہے ؟ انہوں نے کہا : کہا جاتا تھا کہ وہ جنوں کی جائے سکونت (گھر) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ٣٠ (٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٢٢) ، مسند احمد (٥/٨٢) (ضعیف) (قتادة مدلس ہیں، اور انہوں نے ابن سرجس سے سنا نہیں ہے) (ضعيف أبي داود : 8، والإرواء : 55، وتراجع الألباني : 131 )

【30】

بیت الخلاء سے نکلنے کی دعائ

ابوبردہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب بیت الخلاء (پاخانہ) سے نکلتے تو فرماتے تھے : غفرانک اے اللہ ! میں تیری بخشش چاہتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٥ (٧) ، سنن النسائی/الکبری (٩٩٠٧) ، الیوم واللیلة (٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٠ (٣٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٩٤) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطھارة (١٧/٧٠٧) (صحیح )

【31】

استنجاء کے لئے داہنے ہاتھ کا استعمال مکروہ ہے

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی پیشاب کرے تو اپنے عضو تناسل کو داہنے ہاتھ سے نہ چھوئے، اور جب کوئی بیت الخلاء جائے تو داہنے ہاتھ سے استنجاء نہ کرے، اور جب پانی پیئے تو ایک سانس میں نہ پیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ١٨ (١٥٣) ، ١٩ (١٥٤) ، الأشربة ٢٥ (٥٦٣٠) ، صحیح مسلم/الطھارة ١٨ (٢٦٧) ، سنن الترمذی/الطھارة ١١ (١٥) ، سنن النسائی/الطھارة ٢٣ (٢٤ ، ٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٥ (٣١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٩٦، ٣٠٠، ٣١٠) ، سنن الدارمی/الطھارة (١٣/٧٠٠) (صحیح )

【32】

استنجاء کے لئے داہنے ہاتھ کا استعمال مکروہ ہے

حارثہ بن وہب خزاعی کہتے ہیں کہ ام المؤمنین حفصہ (رض) نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے دائیں ہاتھ کو کھانے، پینے اور کپڑا پہننے کے لیے استعمال کرتے تھے، اور اپنے بائیں ہاتھ کو ان کے علاوہ دوسرے کاموں کے لیے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٩٤) ، مسند احمد (٦/٢٨٨) (صحیح )

【33】

استنجاء کے لئے داہنے ہاتھ کا استعمال مکروہ ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا داہنا ہاتھ وضو اور کھانے کے لیے، اور بایاں ہاتھ پاخانہ اور ان چیزوں کے لیے ہوتا تھا جن میں گندگی ہوتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٩١٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء 31 (١٦٨) ، الصلاة ٤٧ (٤٢٦) ، الجنائز ١٠ (١٢٥٥) ، الأطمعة ٥ (٥٣٨٠) ، اللباس ٣٨ (٥٨٥٤) ، اللباس 77 (٥٩٢٦) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٩ (٢٦٨) ، سنن الترمذی/الجمعة ٧٥ (٦٠٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٩٠ (١١٢) ، وفي الزینة برقم : (٥٠٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٢ (٤٠١) ، مسند احمد (٦/١٧٠، ٢٦٥) (صحیح) (وأبو معشر هو زياد بن کليب )

【34】

استنجاء کے لئے داہنے ہاتھ کا استعمال مکروہ ہے

اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٩٤٣) ، مسند احمد (٦/٢٦٥) (صحیح )

【35】

قضائے حاجت کے وقت پردہ کرنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص سرمہ لگائے تو طاق لگائے، جس نے ایسا کیا اس نے اچھا کیا، اور جس نے ایسا نہیں کیا تو اس میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں، جو شخص (استنجاء کے لیے) پتھر یا ڈھیلا لے تو طاق لے، جس نے ایسا کیا اس نے اچھا کیا، اور جس نے ایسا نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں، اور جو شخص کھانا کھائے تو خلال کرنے سے جو کچھ نکلے اسے پھینک دے، اور جسے زبان سے نکالے اسے نگل جائے، جس نے ایسا کیا اس نے اچھا کیا، اور جس نے ایسا نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں، جو شخص قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے جائے تو پردہ کرے، اگر پردہ کے لیے کوئی چیز نہ پائے تو بالو یا ریت کا ایک ڈھیر لگا کر اس کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ جائے کیونکہ شیطان آدمی کی شرمگاہ سے کھیلتا ہے ١ ؎، جس نے ایسا کیا اس نے اچھا کیا، اور جس نے نہیں کیا تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابوعاصم نے ثور سے روایت کی ہے، اس میں (حصین حبرانی کی جگہ) حصین حمیری ہے، اور عبدالملک بن صباح نے بھی اسے ثور سے روایت کیا ہے، اس میں (ابوسعید کی جگہ) ابوسعید الخیر ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوسعید الخیر نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٢٣ (٣٣٨) ، الطب ٦ (٣٤٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٣٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضو ٢٦ (١٦٢) ، صحیح مسلم/الطہارة ٨ (٢٣٧) سنن النسائی/الطھارة ٧٢ (٨٨) ، موطا امام مالک/الطھارة ١(٢) ، مسند احمد (٢/٢٣٦، ٢٣٧، ٣٠٨، ٤٠١، ٣٧١) ، سنن الدارمی/الطھارة ٥ (٦٨٩) (ضعیف) (حصین اور ابوسعید الخیر الحبرانی مجہول راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : شیطان کے کھیلنے سے یہ مقصود ہے کہ اگر آڑ نہ ہوگی تو پیچھے سے آ کر کوئی جانور اسے ایذا پہنچا دے گا ، یا بےپردگی کی حالت میں دیکھ کر کوئی آدمی آ کر اس کا ٹھٹھا و مذاق اڑائے گا۔

【36】

استنجاء کے لئے ممنوعہ چیزیں

شیبان قتبانی کہتے ہیں کہ مسلمہ بن مخلد نے (جو امیر المؤمنین معاویہ (رض) کی جانب سے بلاد مصر کے گورنر تھے) رویفع بن ثابت (رض) کو (مصر کے) نشیبی علاقے کا عامل مقرر کیا، شیبان کہتے ہیں : تو ہم ان کے ساتھ کو م شریک ١ ؎ سے علقماء ١ ؎ کے لیے یا علقماء سے کو م شریک کے لیے روانہ ہوئے، علقماء سے ان کی مراد علقام ہی ہے، رویفع بن ثابت نے (راستے میں مجھ سے) کہا : رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کا اونٹ اس شرط پر لیتا کہ اس سے جو فائدہ حاصل ہوگا اس کا نصف (آدھا) تجھے دوں گا اور نصف (آدھا) میں لوں گا، تو ہم میں سے ایک کے حصہ میں پیکان اور پر ہوتا تو دوسرے کے حصہ میں تیر کی لکڑی۔ پھر رویفع نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : رویفع ! شاید کہ میرے بعد تمہاری زندگی لمبی ہو تو تم لوگوں کو خبر کردینا کہ جس شخص نے اپنی داڑھی میں گرہ لگائی ٢ ؎ یا جانور کے گلے میں تانت کا حلقہ ڈالا یا جانور کے گوبر، لید یا ہڈی سے استنجاء کیا محمد ﷺ اس سے بری ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ١٢ (٥٠٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٥١، ٣٦١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٠٨، ١٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” کو م شریک “ اور ” علقماء “ مصر میں دو جگہوں کے نام ہیں۔ ٢ ؎ : داڑھی کو گرہ دینا ، یا بالوں کو موڑ کر گھونگریالے بنانا ، یا نظر بد سے بچنے کے لئے جانوروں کے گلوں میں تانت کا گنڈا ڈالنا ، زمانہ جاہلیت میں رائج تھا ، اس لئے نبی اکرم ﷺ نے ان چیزوں سے منع فرمایا۔

【37】

استنجاء کے لئے ممنوعہ چیزیں

ابوسالم جیشانی نے اس حدیث کو عبداللہ بن عمرو (رض) سے اس وقت سنا جب وہ ان کے ساتھ (مصر میں) باب الیون کے قلعہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : الیون کا قلعہ فسطاط (مصر) میں ایک پہاڑ پر واقع ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٨٦٥١ ، ٣٦١٦) (صحیح )

【38】

استنجاء کے لئے ممنوعہ چیزیں

ابو الزبیر کا بیان ہے کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ہڈی یا مینگنی سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ١٧ (٢٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٤٣، ٣٨٤) (صحیح )

【39】

استنجاء کے لئے ممنوعہ چیزیں

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جنوں کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا : آپ اپنی امت کو ہڈی، لید (گوبر، مینگنی) ، اور کوئلے سے استنجاء کرنے سے منع فرما دیجئیے کیونکہ ان میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے روزی بنائی ہے، تو آپ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٣٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ہڈی جنوں کی اور لید ان کے جانوروں کی خوراک ہے ، اور کوئلے سے وہ روشنی کرتے ، یا اس پر کھانا پکاتے ہیں ، اسی واسطے اس کو بھی روزی میں داخل کیا۔

【40】

ڈھیلے سے استنجاء کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے جائے تو تین پتھر اپنے ساتھ لے جائے، انہی سے استنجاء کرے، یہ اس کے لیے کافی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ٤٠ (٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٠٨، ١٣٣) ، سنن الدارمی/الطھارة ١١ (٦٩٧) (حسن )

【41】

ڈھیلے سے استنجاء کرنے کا بیان

خزیمہ بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے استنجاء کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : استنجاء تین پتھروں سے کرو جن میں گوبر نہ ہو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابواسامہ اور ابن نمیر نے بھی ہشام بن عروہ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٦ (٣١٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢١٣، ٢١٤) (صحیح )

【42】

پانی سے پاکی حاصل کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشاب کیا، عمر (رض) پانی کا ایک کوزہ (کلھڑ) لے کر آپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے، آپ ﷺ نے پوچھا : عمر ! یہ کیا چیز ہے ؟ ، عمر (رض) نے جواب دیا : آپ کے وضو کا پانی، آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے ایسا حکم نہیں ہوا کہ جب بھی میں پیشاب کروں تو وضو کروں، اگر میں ایسا کروں تو یہ سنت (واجبہ) بن جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٢٠ (٣٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩٥) (ضعیف) (عبداللہ التوأم ضعیف ہیں، نیز سختیانی نے ان کی مخالفت کی ہے، سختیانی نے اس کو ابن عباس (رض) کی حدیث سے دوسرے سیاق میں روایت کی ہے (مؤلف : اطعمہ، باب : ١١) ، (ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود : ١/٢٦ )

【43】

پانی سے استنجاء کرنے کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک باغ کے اندر تشریف لے گئے، آپ ﷺ کے ہمراہ ایک لڑکا تھا جس کے ساتھ ایک لوٹا تھا، وہ ہم میں سب سے کم عمر تھا، اس نے اسے بیر کے درخت کے پاس رکھ دیا، آپ ﷺ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے تو پانی سے استنجاء کر کے ہمارے پاس آئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ١٥ (١٥٠) ، ١٦ (١٥١) ، ١٧ (١٥٢) ، ٥٦ (٢١٧) ، الصلاة ٩٣ (٥٠٠) ، صحیح مسلم/الطھارة ٢١ (٢٧٠، ٢٧١) ، سنن النسائی/الطھارة ٤١ (٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٧١) (صحیح )

【44】

پانی سے استنجاء کرنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فيه رجال يحبون أن يتطهروا ١ ؎ اہل قباء کی شان میں نازل ہوئی ہے، وہ لوگ پانی سے استنجاء کرتے تھے، انہیں کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/التفسیر ١٠ (٣١٠٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٢٨ (٣٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک صاف ہونے کو پسند کرتے ہیں “ (التوبہ : ١٠٨ )

【45】

استنجے کے بعد زمین پر رگڑ کر ہاتھ صاف کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب پاخانے کے لیے جاتے تو میں پیالے یا چھاگل میں پانی لے کر آپ کے پاس آتا تو آپ ﷺ پاکی حاصل کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : وکیع کی روایت میں ہے : پھر آپ ﷺ اپنا ہاتھ زمین پر رگڑتے، پھر میں پانی کا دوسرا برتن آپ کے پاس لاتا تو آپ ﷺ اس سے وضو کرتے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسود بن عامر کی حدیث زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٢٩ (٣٥٨) ، ٦١ (٤٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٨٦) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطھارة (١٥/٧٠٣) ، مسند احمد (٢/٣١١، ٤٥٤) (حسن )

【46】

مسواک کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میں مومنوں پر دشوار نہ سمجھتا تو ان کو نماز عشاء کو دیر سے پڑھنے، اور ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ١٥ (٢٥٢) ، سنن النسائی/الطھارة ٧ (٧) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٧ (٢٨٧) ، موطا امام مالک/الطھارة ٣٢ (١١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٧٣) ، وقد أخرجہ : خ/الجمعة ٨ (٨٨٧) ، التمني ٩ (٧٢٤٠) ، سنن الترمذی/الطہارة ١٨(٢٢) ، حم (٢/٢٤٥، ٢٥٠، ٣٩٩، ٤٠٠، ٤٦٠، ٥١٧، ٥٣١ ) ، سنن الدارمی/الطھارة ١٨ (٧١٠) (صحیح )

【47】

مسواک کا بیان

زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اگر میں اپنی امت پر دشواری محسوس نہ کرتا تو ہر نماز کے وقت انہیں مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔ ابوسلمہ (ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن) کہتے ہیں : میں نے زید بن خالد (رض) کو دیکھا کہ وہ نماز کے لیے مسجد میں بیٹھے رہتے اور مسواک ان کے کان پر ہوتی جیسے کاتب کے کان پر قلم لگا رہتا ہے، جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک کرلیتے (پھر کان کے اوپر رکھ لیتے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ١٨ (٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٦٦) ، مسند احمد (٤/١١٦) (صحیح )

【48】

مسواک کا بیان

محمد بن یحییٰ بن حبان نے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر سے کہا : آپ بتائیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) کے ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا سبب (خواہ وہ باوضو ہوں یا بےوضو) کیا تھا ؟ تو انہوں نے کہا : مجھ سے اسماء بنت زید بن خطاب نے بیان کیا کہ عبداللہ بن حنظلہ بن ابی عامر (رض) نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا حکم دیا گیا، خواہ آپ ﷺ وضو سے ہوں یا بےوضو، پھر جب آپ ﷺ پر یہ حکم دشوار ہوا، تو آپ کو ہر نماز کے لیے مسواک کا حکم دیا گیا۔ عبداللہ بن عمر (رض) کا خیال تھا کہ ان کے پاس (ہر نماز کے لیے وضو کرنے کی) قوت ہے، اس لیے وہ کسی بھی نماز کے لیے اسے چھوڑتے نہیں تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٢٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٢٥) ، سنن الدارمی/الطھارة ٣ (٦٨٤) (حسن )

【49】

مسواک کرنے کا طریقہ

ابوموسیٰ اشعری (عبداللہ بن قیس) (رض) کہتے ہیں : (مسدد کی روایت میں ہے کہ) ہم سواری طلب کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، دیکھا کہ آپ ﷺ اپنی زبان پر مسواک پھیر رہے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور سلیمان کی روایت میں ہے : میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ ﷺ مسواک کر رہے تھے، اور مسواک کو اپنی زبان کے کنارے پر رکھ کر فرماتے تھے اخ اخ جیسے آپ قے کر رہے ہوں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مسدد نے کہا : حدیث لمبی تھی مگر میں نے اس کو مختصر کردیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧٣ (٢٤٤) ، صحیح مسلم/الطھارة ١٥ (٢٥٤) ، سنن النسائی/الطھارة ٣ (٣) ، (تحفة الأشراف : ٩١٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤١٧) (صحیح )

【50】

ایک شخص دوسرے شخص کی مسواک استعمال کرسکتا ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسواک کر رہے تھے، آپ ﷺ کے پاس دو آدمی تھے، ان میں ایک دوسرے سے عمر میں بڑا تھا، اسی وقت اللہ نے مسواک کی فضیلت میں آپ ﷺ پر وحی نازل فرمائی اور حکم ہوا کہ آپ اپنی مسواک ان دونوں میں سے بڑے کو دے دیجئیے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧١٣٢) (صحیح )

【51】

مسواک دھونے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مسواک کر کے مجھے دھونے کے لیے دیتے تو میں خود اس سے مسواک شروع کردیتی پھر اسے دھو کر آپ کو دے دیتی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٥٧٠) (حسن )

【52】

مسواک کا تعلق دین فطرت سے ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دس چیزیں دین فطرت ہیں ١ ؎: ١۔ مونچھیں کاٹنا، ٢۔ داڑھی بڑھانا، ٣۔ مسواک کرنا، ٤۔ ناک میں پانی ڈالنا، ٥۔ ناخن کاٹنا، ٦۔ انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، ٧۔ بغل کے بال اکھیڑنا، ٨۔ ناف کے نیچے کے بال مونڈنا ٢ ؎، ٩ ۔ پانی سے استنجاء کرنا ۔ زکریا کہتے ہیں : مصعب نے کہا : میں دسویں چیز بھول گیا، شاید کلی کرنا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ١٦ (٢٦١) ، سنن الترمذی/الأدب ١٤ (٢٧٥٧) ، سنن النسائی/الزینة ١ (٥٠٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨ (٢٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اکثر علماء نے فطرت کی تفسیر سنت سے کی ہے ، گویا یہ خصلتیں انبیاء کی سنت ہیں جن کی اقتداء اور پیروی کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے قول : فبهداهم اقتده میں دیا ہے۔ ٢ ؎ : مسلم کی ایک روایت کے مطابق چالیس دن سے زیادہ کی تاخیر اس میں درست نہیں ہے۔ عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فطرت میں سے ہے ، پھر انہوں نے اسی جیسی حدیث ذکر کی، داڑھی چھوڑنے کا ذکر نہیں کیا، اس میں ختنہ کا اضافہ کیا ہے، نیز اس میں استنجاء کے بعد لنگی پر پانی چھڑکنے کا ذکر ہے، اور پانی سے استنجاء کرنے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح کی روایت ابن عباس (رض) سے بھی مروی ہے، جس میں پانچ چیزیں ہیں ان میں سب کا تعلق سر سے ہے، اس میں ابن عباس (رض) نے سر میں مانگ نکالنے کا ذکر کیا ہے، اور داڑھی چھوڑنے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حماد کی حدیث کی طرح طلق بن حبیب، مجاہد اور بکر بن عبداللہ المزنی سے ان سب کا اپنا قول مروی ہے، اس میں ان لوگوں نے بھی داڑھی چھوڑنے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور محمد بن عبداللہ بن مریم کی روایت جسے انہوں نے ابوسلمہ سے، ابوسلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے، ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، اس میں داڑھی چھوڑنے کا ذکر ہے۔ ابراہیم نخعی سے بھی اسی جیسی روایت مروی ہے اس میں انہوں نے داڑھی چھوڑنے اور ختنہ کرنے کا ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث محمد بن عبداللہ ابن مریم تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٠٠٣، ١٠٣٥٠) ، وحدیث موسیٰ بن إسماعیل قد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨ (٢٩٤) ، مسند احمد (٤/٢٦٤) (حسن) (ام المومنین عائشہ (رض) کی گذشتہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے ، ورنہ خود اس کے اندر دو علتیں ہیں : اس کا راوی علی بن جدعان ضعیف ہے اور سلمہ نے عمار بن یاسر (رض) سے حدیث نہیں سنی ہے، اور موسیٰ کی روایت کے مطابق تو اس کے اندر ارسال کی علت بھی ہے )

【53】

رات کو نیند سے بیدار ہو کر مسواک کرنے کا بیان

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو اٹھتے تو اپنا منہ مسواک سے صاف کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧٣ (٢٤٥) ، الجمعة ٨ (٨٨٩) ، التھجد ٩ (١١٣٦) ، صحیح مسلم/الطھارة ١٥ (٢٥٥) ، سنن النسائی/الطھارة ٢ (٢) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧ (٢٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٦) ، مسند احمد (٥/٣٨٢، ٣٩٠، ٣٩٧) ، سنن الدارمی/الطھارة ٢٠ (٧١٢) (صحیح )

【54】

رات کو نیند سے بیدار ہو کر مسواک کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے لیے وضو کا پانی اور مسواک رکھ دی جاتی تھی، جب آپ ﷺ رات کو اٹھتے تو قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کرتے پھر مسواک کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦١١١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٨ (٧٤٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢٦٢ (١٣١٦) ، قیام اللیل ٢(١٦٠٢) ، ١٧(١٦٤٢) ، ١٨(١٦٥٢) ، ٤٢(١٧١٩) ، ٤٣ (١٧٢١، ١٧٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٣ (١١٩٠) ، مسند احمد (٦/٤٤) (صحیح )

【55】

رات کو نیند سے بیدار ہو کر مسواک کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب بھی رات کو یا دن کو سو کر اٹھتے تو وضو کرنے سے پہلے مسواک کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٨١٩) ، مسند احمد (٦/١٢١، ١٦٠) (حسن) دون قوله : ” ولا نهار “

【56】

رات کو نیند سے بیدار ہو کر مسواک کرنے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک رات نبی اکرم ﷺ کے ساتھ گزاری، جب آپ نیند سے بیدار ہوئے تو اپنے وضو کے پانی کے پاس آئے، اپنی مسواک لے کر مسواک کی، پھر آپ ﷺ نے آیت کریمہ إن في خلق السموات والأرض واختلاف الليل والنهار لآيات لأولي الألباب ١ ؎ کی تلاوت کی یہاں تک کہ سورة ختم کے قریب ہوگئی، یا ختم ہوگئی، اس کے بعد آپ ﷺ نے وضو کیا پھر اپنے مصلی پر آئے اور دو رکعت نماز پڑھی، پھر واپس اپنے بستر پر جب تک اللہ نے چاہا جا کر سوئے رہے، پھر نیند سے بیدار ہوئے اور اسی طرح کیا (یعنی مسواک کر کے وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑھی) پھر اپنے بستر پر جا کر سوئے رہے، پھر نیند سے بیدار ہوئے، اور اسی طرح کیا، پھر اپنے بستر پر جا کر سوئے رہے اس کے بعد نیند سے بیدار ہوئے اور اسی طرح کیا، ہر بار آپ ﷺ مسواک کرتے، دو رکعت نماز پڑھتے تھے، اس کے بعد آپ ﷺ نے وتر پڑھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن فضیل نے حصین سے روایت کی ہے، اس میں اس طرح ہے کہ آپ ﷺ نے مسواک کی اور وضو کیا، آپ ﷺ آیت کریمہ إن في خلق السموات والأرض پڑھ رہے تھے، یہاں تک کہ پوری سورة ختم کردی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤١ (١١٧) ، الأذان ٥٧ (٦٩٧) ، ٥٩ (٦٩٩) ، ٧٩ (٧٢٨) ، اللباس ٧١ (٥٩١٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٣) ، سنن النسائی/الإمامة ٢١ (٨٠٣) ، ٢٢ (٨٠٥) ، الغسل ٢٩ (٤٤١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٤٤ (٩٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٨٧) ، وراجع حدیث رقم : (١٣٥٣، ١٣٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥، ٢٥٢، ٢٨٥، ٢٨٧، ٣٤١، ٣٤٧، ٣٥٤، ٣٥٧، ٣٦٠، ٣٦٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ٣ (٦٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقل مندوں کے لئے نشانیاں ہیں “ (سورۃ آل عمران : ١٩٠ )

【57】

خالی ہے

شریح کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تو کس چیز سے ابتداء فرماتے ؟ فرمایا : مسواک سے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ١٥ (٢٥٣) ، سنن النسائی/الطھارة ٨ (٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧ (٢٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٢، ١١٠، ١٨٢، ١٨٨) (صحیح )

【58】

None

میں نے ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزاری، جب آپ نیند سے بیدار ہوئے تو اپنے وضو کے پانی کے پاس آئے، اپنی مسواک لے کر مسواک کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ «إن في خلق السموات والأرض واختلاف الليل والنهار لآيات لأولي الألباب» ۱؎ کی تلاوت کی یہاں تک کہ سورۃ ختم کے قریب ہو گئی، یا ختم ہو گئی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا پھر اپنے مصلی پر آئے اور دو رکعت نماز پڑھی، پھر واپس اپنے بستر پر جب تک اللہ نے چاہا جا کر سوئے رہے، پھر نیند سے بیدار ہوئے اور اسی طرح کیا ( یعنی مسواک کر کے وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑھی ) پھر اپنے بستر پر جا کر سوئے رہے، پھر نیند سے بیدار ہوئے، اور اسی طرح کیا، پھر اپنے بستر پر جا کر سوئے رہے اس کے بعد نیند سے بیدار ہوئے اور اسی طرح کیا، ہر بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے، دو رکعت نماز پڑھتے تھے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن فضیل نے حصین سے روایت کی ہے، اس میں اس طرح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی اور وضو کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیت کریمہ «إن في خلق السموات والأرض» پڑھ رہے تھے، یہاں تک کہ پوری سورۃ ختم کر دی۔

【59】

وضو کی فرضیت و اہمیت

ابوالملیح اپنے والد اسامہ بن عمیر (رض) سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ چوری کے مال سے کوئی صدقہ قبول نہیں کرتا، اور نہ ہی بغیر وضو کے کوئی نماز ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٠٤ (١٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٢ (٢٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢ (٢٢٤) ، مسند احمد (٥/٧٤، ٧٥) ، سنن الدارمی/الطھارة ٢١ (٧١٣) (صحیح )

【60】

وضو کی فرضیت و اہمیت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جب کوئی شخص بےوضو ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی نماز کو اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ وضو نہ کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢(١٣٥) ، الحیل ٢ (٦٩٥٤) ، صحیح مسلم/الطھارة ٢ (٢٢٥) ، سنن الترمذی/الطھارة ٥٦ (٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣١٨) (صحیح )

【61】

وضو کی فرضیت و اہمیت

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز کی کنجی طہارت، اس کی تحریم تکبیر کہنا، اور تحلیل سلام پھیرنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٣ (٣) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣ (٢٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٢٣) ، سنن الدارمی/الطھارة ٢٢ (٧١٤) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تحریم سے مراد ان سارے افعال کو حرام کرنا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے نماز میں حرام کیا ہے، اسی طرح تحلیل سے مراد ان سارے افعال کو حلال کرنا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے نماز سے باہر حلال کیا ہے، یہ حدیث جس طرح اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کا دروازہ بند ہے جسے انسان وضو کے بغیر کھول نہیں سکتا اسی طرح اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ اکبر کے علاوہ کسی اور دوسرے جملہ سے تکبیر تحریمہ نہیں ہوسکتی اور سلام کے علاوہ آدمی کسی اور چیز کے ذریعہ نماز سے نکل نہیں سکتا۔

【62】

وضو پر وضو کرنا

ابوغطیف ہذلی کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس تھا، جب ظہر کی اذان ہوئی تو آپ نے وضو کر کے نماز پڑھی، پھر عصر کی اذان ہوئی تو دوبارہ وضو کیا، میں نے ان سے پوچھا (اب نیا وضو کرنے کا کیا سبب ہے ؟ ) انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے : جو شخص وضو پر وضو کرے گا اللہ اس کے لیے دس نیکیاں لکھے گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ مسدد کی روایت ہے اور یہ زیادہ مکمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٤٤ (٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٣ (٥١٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٩٠) (ضعیف) (اس سند میں عبدالرحمن ضعیف ہیں اور ابوغطیف مجہول ہیں )

【63】

پانی کے احکام

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اس پانی کے بارے میں پوچھا گیا جس پر جانور اور درندے آتے جاتے ہوں (اس میں سے پیتے اور اس میں پیشاب کرتے ہوں) تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب پانی دو قلہ ہو تو وہ نجاست کو دفع کر دے گا (یعنی نجاست اس پر غالب نہیں آئے گی) ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ ابن العلاء کے الفاظ ہیں، عثمان اور حسن بن علی نے محمد بن جعفر کی جگہ محمد بن عباد بن جعفر کا ذکر کیا ہے، اور یہی درست ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ٤٣ (٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٧٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطھارة ٥٠ (٣٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٥ (٥١٧، ٥١٨) ، سنن الدارمی/الطھارة ٥٥ (٧٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جب پانی دو قلہ ہو تو وہ نجاست کے گرنے سے نجس نہیں ہوگا ، ( الایہ کہ اس کا رنگ ، بو ، اور مزہ بدل جائے) دو قلہ کی مقدار (٥٠٠) عراقی رطل ہے اور عراقی رطل (٩٠) مثقال کے برابر ہوتا ہے، انگریزی پیمانے سے دو قلہ کی مقدار تقریباً دو کو ئنٹل کے برابر ہے۔

【64】

پانی کے احکام

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جنگل و بیابان میں موجود پانی کے بارے میں سوال کیا گیا، پھر سابقہ معنی کی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الطہارة ٥٠ (٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٥ (٥١٧، ٥١٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٠٥) (حسن صحیح )

【65】

پانی کے احکام

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانی جب دو قلہ کے برابر ہوجائے تو وہ ناپاک نہیں ہوگا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حماد بن زید نے عاصم سے اس روایت کو موقوفاً بیان کیا ہے (اوپر سند میں حماد بن سلمہ ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٠٥) (صحیح )

【66】

بیئر بضاعہ کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا : کیا ہم بئر بضاعہ کے پانی سے وضو کرسکتے ہیں، جب کہ وہ ایسا کنواں ہے کہ اس میں حیض کے کپڑے، کتوں کے گوشت اور بدبودار چیزیں ڈالی جاتی ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانی پاک ہے، اس کو کوئی چیز نجس نہیں کرتی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : کچھ لوگوں نے عبداللہ بن رافع کی جگہ عبدالرحمٰن بن رافع کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٤٩ (٦٦) ، سنن النسائی/المیاہ ١ (٣٢٧، ٣٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٤١٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٥، ١٦، ٣١، ٨٦) (صحیح )

【67】

بیئر بضاعہ کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس وقت یہ فرماتے سنا جب کہ آپ سے پوچھا جا رہا تھا کہ بئر بضاعہ ١ ؎ سے آپ ﷺ کے لیے پانی لایا جاتا ہے، حالانکہ وہ ایسا کنواں ہے کہ اس میں کتوں کے گوشت، حیض کے کپڑے، اور لوگوں کے پاخانے ڈالے جاتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے قتیبہ بن سعید سے سنا وہ کہہ رہے تھے : میں نے بئر بضاعہ کے متولی سے اس کی گہرائی کے متعلق سوال کیا، تو انہوں نے جواب دیا : پانی جب زیادہ ہوتا ہے تو زیر ناف تک رہتا ہے، میں نے پوچھا : اور جب کم ہوتا ہے ؟ تو انہوں نے جواباً کہا : تو ستر یعنی گھٹنے سے نیچے رہتا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے بئر بضاعہ کو اپنی چادر سے ناپا، چادر کو اس پر پھیلا دیا، پھر اسے اپنے ہاتھ سے ناپا، تو اس کا عرض (٦) ہاتھ نکلا، میں نے باغ والے سے پوچھا، جس نے باغ کا دروازہ کھول کر مجھے اندر داخل کیا : کیا بئر بضاعہ کی بناوٹ و شکل میں پہلے کی نسبت کچھ تبدیلی ہوئی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے دیکھا کہ پانی کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤١٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بئر بضاعہ : مدینہ نبویہ میں مسجد نبوی سے جنوب مغرب میں واقع کنواں تھا، اس وقت یہ جگہ مسجد نبوی کی توسیع جدید میں مسجد کے اندر داخل ہوچکی ہے۔

【68】

جنبی کے استعمال سے پانی ناپاک نہیں ہوتا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کسی نے ایک لگن سے (چلو سے پانی لے لے کر) غسل جنابت کیا، اتنے میں رسول اللہ ﷺ اس برتن میں بچے ہوئے پانی سے وضو یا غسل کرنے کے لیے تشریف لائے تو ام المؤمنین نے آپ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں ناپاک تھی (اور یہ غسل جنابت کا بچا ہوا پانی ہے) ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانی ناپاک نہیں ہوتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٤٨ (٦٥) ، سنن النسائی/المیاہ (٣٢٦) بلفظ : ” لا ینجسہ شيء “ ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣٣ (٣٧٠، ٣٧١) ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٥، ٢٤٨، ٣٠٨، ٣٣٧) ، سنن الدارمی/الطھارة ٥٧ (٧٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی غسل جنابت کے بعد بچا ہوا پانی پاک ہوتا ہے اور اس میں چھینٹیں پڑنے سے اس کی پاکی متأثر نہیں ہوتی۔

【69】

ٹہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے پھر اس سے غسل کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٥٢٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٨ (٢٣٩) ، صحیح مسلم/الطھارة ٢٨ (٢٨١، ٢٨٢) ، سنن الترمذی/الطہارة ٥١ (٦٨) ، سنن النسائی/الطھارة ٤٦ (٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٢٥ (٣٤٣) ، مسند احمد (٢/٣١٦، ٣٤٦، ٣٦٢، ٤٦٤) ، سنن الدارمی/الطھارة ٥٤ (٧٥٧) (صحیح )

【70】

ٹہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے اور نہ ہی اس میں جنابت کا غسل کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٢٥ (٣٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٣٣) (حسن صحیح )

【71】

کتے کے جھوٹے کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اس برتن کی پاکی یہ ہے کہ اس کو سات بار دھویا جائے، پہلی بار مٹی سے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ایوب اور حبیب بن شہید نے بھی اسی طرح محمد سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٥٢٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٣ (١٧٢) ، صحیح مسلم/الطھارة ٢٧ (٢٧٩) ، سنن الترمذی/الطھارة ٦٨ (٩١) ، سنن النسائی/الطھارة ٥١ (٦٣) ، المیاہ ٦ (٣٣٤) ، ٧ (٣٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣١ (٣٦٣، ٣٦٤) ، موطا امام مالک/الطھارة ٦، (٣٥) ، مسند احمد (٢/٢٤٥، ٢٦٥، ٢٧١، ٣١٤، ٣٦٠، ٤٢٤، ٤٢٧، ٤٤٠، ٤٨٠، ٤٨٢، ٥٠٨) (صحیح )

【72】

کتے کے جھوٹے کا بیان

محمد (ابن سیرین) ابوہریرہ (رض) سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں، لیکن ان دونوں (حماد بن زید اور معتمر) نے اس حدیث کو مرفوعاً نقل نہیں کیا ہے، اور اس میں اتنا اضافہ ہے کہ : جب بلی کسی برتن میں منہ ڈال دے تو ایک بار دھویا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث محمد بن عبید تفرد بہ أبو داود، تحفة الأشراف (١٤٤٢٦) ، وحدیث مسدد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ٦٨ (٩١) ، تحفة الأشراف (١٤٤٢٦، ١٤٤٥١) ، وقد أخرجہ : حم (٢/٤٨٩) (صحیح )

【73】

کتے کے جھوٹے کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اس کو سات مرتبہ دھوؤ، ساتویں بار مٹی سے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوصالح، ابورزین، اعرج، ثابت احنف، ہمام بن منبہ اور ابوسدی عبدالرحمٰن نے بھی اسے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے لیکن ان لوگوں نے مٹی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المیاہ ٧ (٣٣٨) (تحفة الأشراف : ١٤٤٩٥) (صحیح) لکن قوله : السابعة بالتراب شاذ ( ساتویں بار مٹی کے الفاظ شاذ ہیں )

【74】

کتے کے جھوٹے کا بیان

عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا پھر فرمایا : لوگوں کو ان سے کیا سروکار ؟ ١ ؎، پھر آپ ﷺ نے شکاری کتوں اور بکریوں کے نگراں کتوں کے پالنے کی اجازت دی، اور فرمایا : جب کتا برتن میں منہ ڈال دے، تو اسے سات بار دھوؤ اور آٹھویں بار مٹی سے مانجھو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن مغفل نے ایسا ہی کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ٢٧ (٢٨٠) ، سنن النسائی/الطھارة ٥٣ (٦٧) المیاہ ٧ (٣٣٧، ٣٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣١ (٣٦٥) ، الصیدا (٣٢٠٠، ٣٢٠١) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٦٥) ، وقد أخرجہ : حم (٤/٨٦، ٥/٥٦) ، سنن الدارمی/الصید ٢ (٢٠٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس میں سابق حکم کی منسوخی اور کتوں کے قتل سے باز رہنے کی دلیل ہے۔

【75】

بلی کے جھوٹے کا بیان

کبشۃ بنت کعب بن مالک (رض) سے روایت ہے ۔ وہ ابن ابی قتادہ کے عقد میں تھیں۔ وہ کہتی ہیں : ابوقتادہ (رض) اندر داخل ہوئے، میں نے ان کے لیے وضو کا پانی رکھا، اتنے میں بلی آ کر اس میں سے پینے لگی، تو انہوں نے اس کے لیے پانی کا برتن ٹیڑھا کردیا یہاں تک کہ اس نے پی لیا، کبشۃ کہتی ہیں : پھر ابوقتادہ (رض) نے مجھ کو دیکھا کہ میں ان کی طرف (حیرت سے) دیکھ رہی ہوں تو آپ نے کہا : میری بھتیجی ! کیا تم تعجب کرتی ہو ؟ میں نے کہا : ہاں، ابوقتادہ (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : یہ نجس نہیں ہے، کیونکہ یہ تمہارے اردگرد گھومنے والوں اور گھومنے والیوں میں سے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٦٩ (٩٢) ، سنن النسائی/الطھارة ٥٤ (٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣٢ (٣٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٤١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٣(١٣) ، مسند احمد (٥/٢٩٦، ٣٠٣، ٣٠٩) ، سنن الدارمی/الطھارة ٥٨ (٧٦٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی رات دن گھر میں رہتی ہے اس لئے پاک کردی گئی ہے۔

【76】

بلی کے جھوٹے کا بیان

داود بن صالح بن دینار تمار اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی مالکن نے انہیں ہریسہ (ایک قسم کا کھانا) دے کر ام المؤمنین عائشہ (رض) کی خدمت میں بھیجا تو انہوں نے عائشہ کو نماز پڑھتے ہوئے پایا، عائشہ (رض) نے مجھے کھانا رکھ دینے کا اشارہ کیا (میں نے کھانا رکھ دیا) ، اتنے میں ایک بلی آ کر اس میں سے کچھ کھا گئی، جب ام المؤمنین عائشہ (رض) نماز سے فارغ ہوئیں تو بلی نے جہاں سے کھایا تھا وہیں سے کھانے لگیں اور بولیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : یہ ناپاک نہیں ہے، کیونکہ یہ تمہارے پاس آنے جانے والوں میں سے ہے ، اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو بلی کے جھوٹے سے وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، تحفة الأشراف (١٧٩٧٩) وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣٢ (٣٦٧) (صحیح )

【77】

عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں ایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے اور ہم دونوں جنبی ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٦ (٢٩٩) ، سنن النسائی/الغسل ٩ (٤١١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٨٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣٥ (٣٧٦) ، مسند احمد (٦/١٧١، ٢٦٥) ، سنن الدارمی/الطھارة ٦٨ (٧٧٦) (صحیح )

【78】

عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے کا بیان

ام صبیہ جہنیہ (خولہ بنت قیس) رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے اور رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ وضو کرتے وقت ایک ہی برتن میں باری باری پڑتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣٦ (٣٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦٦، ٣٦٧) (حسن صحیح )

【79】

عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مرد اور عورتیں ایک ہی برتن سے ایک ساتھ وضو کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث مسدد تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٥٨١) ، وحدیث عبداللہ بن مسلمة، آخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٣ (١٩٣) ، وليس فيه : ” من الإناء الواحد “ ، سنن النسائی/الطھارة ٥٧ (٧١) المیاہ ١٠ (٣٤١، ٣٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣٦ (٣٨١) ، موطا امام مالک/الطھارة ٣(١٥) ، مسند احمد (٢/٤، ١٠٣) ، تحفة الأشراف (٨٣٥٠) (صحیح )

【80】

عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم اور عورتیں مل کر ایک برتن سے وضو کرتے، اور ہم اپنے ہاتھ اس میں (باری باری) ڈالتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٢١١) (صحیح )

【81】

عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو اور غسل کی ممانعت

حمید حمیری کہتے ہیں کہ میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جنہیں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں اسی طرح چار سال تک رہنے کا موقع ملا تھا جیسے ابوہریرہ (رض) آپ ﷺ کی صحبت میں رہے تھے، وہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے عورت کو مرد کے بچے ہوئے پانی سے اور مرد کو عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنے سے منع فرمایا۔ مسدد نے اتنا اضافہ کیا ہے : چاہیئے کہ دونوں ایک ساتھ لپ سے پانی لیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٤٧ (٢٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٥٤، ١٥٥٥٥) (صحیح )

【82】

عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو اور غسل کی ممانعت

حکم بن عمرو یعنی اقرع سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مرد کو عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٤٧ (٦٤) ، سنن النسائی/المیاہ ١١ (٣٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣٤ (٣٧٣) ، (٣٧٤) ولفظه : ” عبدالله بن سرجس “ ، (تحفة الأشراف : ٣٤٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢١٣، ٥/٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مرد اور عورت کے بچے ہوئے پانی سے پاکی حاصل کرنے کی ممانعت اور جواز سے متعلق روایات میں تطبیق کی ایک صورت یہ ہے کہ ممانعت کی روایتوں کو اس پانی پر محمول کیا جائے جو اعضاء کو دھوتے وقت گرا ہو، اور جواز کی روایتوں کو اس پانی پر جو برتن میں بچا ہو، دوسری صورت یہ ہے کہ ممانعت کی روایتوں کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے۔

【83】

سمندر کے پانی سے وضو کرنے کا بیان

قبیلہ بنو عبدالدار کے ایک فرد مغیرہ بن ابی بردہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوہریرہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ (عبداللہ مدلجی نامی) ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا : اللہ کے رسول ! ہم سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں اگر ہم اس سے وضو کرلیں تو پیاسے رہ جائیں گے، کیا ایسی صورت میں ہم سمندر کے پانی سے وضو کرسکتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کا پانی بذات خود پاک اور دوسرے کو پاک کرنے والا ہے، اور اس کا مردار حلال ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٥٢ (٦٩) ، سنن النسائی/الطھارة ٤٧ (٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣٨ (٣٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦١٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطھارة ٣(١٢) ، مسند احمد (٢/٢٣٧، ٣٦١، ٣٧٨) ، سنن الدارمی/الطھارة ٥٣ (٧٥٥) (صحیح )

【84】

نبیذ سے وضو کرنے کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جنوں والی رات میں مجھ سے پوچھا : تمہاری چھاگل میں کیا ہے ؟ ، میں نے کہا : نبیذ، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ پاک کھجور اور پاک پانی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٦٥ (٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣٧ (٣٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٠٢) (ضعیف) (اس کے ایک راوی ابو زید مجہول ہیں )

【85】

نبیذ سے وضو کرنے کا بیان

علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے پوچھا : ليلة الجن (جنوں والی رات) میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ لوگوں میں سے کون تھا ؟ انہوں نے کہا : آپ ﷺ کے ساتھ ہم میں سے کوئی نہ تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٣ (٤٥٠) ، سنن الترمذی/تفسیرالقرآن ٤٦ (٣٢٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : رسول اللہ ﷺ کا جنوں کے پاس جانا چھ مرتبہ ثابت ہے ، پہلی بار کا واقعہ مکہ میں پیش آیا اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ ابن مسعود (رض) نہیں تھے جیسا کہ مسلم اور ترمذی کے اندر سورة احقاف کی تفسیر میں مذکور ہے ، دوسری مرتبہ کا واقعہ مکہ ہی میں جبل حجون پر پیش آیا، تیسرا واقعہ اعلی مکہ میں پیش آیا، جب کہ چوتھا مدینہ میں بقیع غرقد کا ہے، ان تینوں راتوں میں ابن مسعود (رض) آپ ﷺ کے ساتھ تھے ، پانچواں واقعہ مدنی زندگی میں مدینہ سے باہر پیش آیا اس موقع پر آپ ﷺ کے ہمراہ زبیر بن العوام (رض) تھے ، چھٹا واقعہ آپ ﷺ کے کسی سفر کا ہے اس وقت آپ ﷺ کے ہمراہ بلال بن الحارث (رض) تھے (ملاحظہ ہو : الکوکب الدری شرح الترمذی) ۔

【86】

نبیذ سے وضو کرنے کا بیان

عطاء سے روایت ہے کہ وہ دودھ اور نبیذ سے وضو کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے : اس سے تو مجھے تیمم ہی زیادہ پسند ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٠٦٢) (صحیح )

【87】

نبیذ سے وضو کرنے کا بیان

ابوخلدہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالعالیہ سے اس شخص کے متعلق پوچھا جسے جنابت لاحق ہوئی ہو اور اس کے پاس پانی نہ ہو، بلکہ نبیذ ہو تو کیا وہ اس سے غسل کرسکتا ہے ؟ آپ نے کہا : نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٦٤٠) (صحیح )

【88】

قضائے حاجت کا تقاضہ ہو تو نماز نہیں پڑھنی چاھیئے

عبداللہ بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ وہ حج یا عمرہ کے لیے نکلے، ان کے ساتھ اور لوگ بھی تھے، وہی ان کی امامت کرتے تھے، ایک دن انہوں نے فجر کی نماز کی اقامت کہی پھر لوگوں سے کہا : تم میں سے کوئی امامت کے لیے آگے بڑھے، وہ قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب تم میں سے کسی کو پاخانہ کی حاجت ہو اور اس وقت نماز کھڑی ہوچکی ہو تو وہ پہلے قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے جائے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : وہیب بن خالد، شعیب بن اسحاق اور ابوضمرۃ نے بھی اس حدیث کو ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے، ہشام نے اپنے والد عروہ سے، اور عروہ نے ایک مبہم شخص سے، اور اس نے اسے عبداللہ بن ارقم سے بیان کیا ہے، لیکن ہشام سے روایت کرنے والوں کی اکثریت نے اسے ویسے ہی روایت کیا ہے جیسے زہیر نے کیا ہے (یعنی عن رجل کا اضافہ نہیں کیا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ١٠٨ (١٤٢) ، سنن النسائی/الإمامة ٥١ (٨٥١) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١٤ (٦١٦) ، (تحفة الأشراف : ٥١٤١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ صلاة السفر ١٧ (٤٩) ، مسند احمد (٤/٣٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٧ (١٤٦٧) (صحیح )

【89】

قضائے حاجت کا تقاضہ ہو تو نماز نہیں پڑھنی چاھیئے

عبداللہ بن محمد بن ابی بکر کا بیان ہے کہ ہم لوگ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس تھے، اتنے میں آپ کا کھانا لایا گیا تو قاسم (قاسم بن محمد) کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، یہ دیکھ کر وہ بولیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : کھانا موجود ہو تو نماز نہ پڑھی جائے اور نہ اس حال میں پڑھی جائے جب دونوں ناپسندیدہ چیزیں (پاخانہ و پیشاب) اسے زور سے لگے ہوئے ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٦ (٥٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٦٩، ١٦٢٨٨) ، مسند احمد (٦/٤٣، ٥٤) (صحیح )

【90】

قضائے حاجت کا تقاضہ ہو تو نماز نہیں پڑھنی چاھیئے

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں کسی آدمی کے لیے جائز نہیں : ایک یہ کہ جو آدمی کسی قوم کا امام ہو وہ انہیں چھوڑ کر خاص اپنے لیے دعا کرے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے ان سے خیانت کی، دوسرا یہ کہ کوئی کسی کے گھر کے اندر اس سے اجازت لینے سے پہلے دیکھے، اگر اس نے ایسا کیا تو گویا وہ اس کے گھر میں گھس گیا، تیسرا یہ کہ کوئی پیشاب و پاخانہ روک کر نماز پڑھے، جب تک کہ وہ (اس سے فارغ ہو کر) ہلکا نہ ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٤٨ (٣٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣١ (٩٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٨٠) (ضعیف) (اس حدیث کا ایک راوی یزید ضعیف ہے ، نیز وہ سند میں مضطرب بھی ہوا ہے، ہاں اس کے دوسرے ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں )

【91】

قضائے حاجت کا تقاضہ ہو تو نماز نہیں پڑھنی چاھیئے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی آدمی کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں کہ وہ پیشاب و پاخانہ روک کر نماز پڑھے جب تک کہ (وہ فارغ ہو کر) ہلکا نہ ہوجائے ۔ پھر راوی نے اسی طرح ان الفاظ کے ساتھ آگے حدیث بیان کی ہے، اس میں ہے : کسی آدمی کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں کہ وہ کسی قوم کی امامت ان کی اجازت کے بغیر کرے اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ وہ انہیں چھوڑ کر صرف اپنے لیے دعا کرے، اگر اس نے ایسا کیا تو ان سے خیانت کی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ اہل شام کی حدیثوں میں سے ہے، اس میں ان کا کوئی شریک نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٨٧٩) (صحیح) (اس کے راوی یزید ضعیف ہے، ہاں شواہد کے سبب یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، البتہ دعاء والا ٹکڑا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا کوئی شاہد نہیں ہے )

【92】

وضو کے لئے کتنا پانی کافی ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک صاع سے غسل فرماتے تھے اور ایک مد سے وضو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المیاہ ١٣ (٣٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١ (٢٦٨) ، تحفة الأشراف (١٧٨٥٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٨ (٢٠١) ، صحیح مسلم/الحیض ١٠ (٣٢٦) ، سنن الترمذی/الطہارة ٤٢ (٥٦) ، مسند احمد (٦/١٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک صاع چار مد کا ہوتا ہے اور ایک مد تقریباً چھ سو پچیس (٦٢٥) گرام کا، اس اعتبار سے صاع تقریباً دو کلو پانچ سو گرام ہوا۔

【93】

وضو کے لئے کتنا پانی کافی ہے

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک صاع سے غسل فرماتے اور ایک مد سے وضو کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٢٤٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ٣ (٢٥٢) ، سنن النسائی/الطھارة ١٤٤ (٢٣١) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١ (٢٦٩) ، مسند احمد (٣/٢٧٠) (صحیح )

【94】

وضو کے لئے کتنا پانی کافی ہے

عباد بن تمیم کی دادی ام عمارہ (ام عمارہ بنت کعب) (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کا ارادہ کیا تو آپ کے پاس پانی کا ایک برتن لایا گیا جس میں دو تہائی مد کے بقدر پانی تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ٥٩ (٧٤) (تحفة الأشراف : ١٨٣٣٦) (صحیح )

【95】

وضو کے لئے کتنا پانی کافی ہے

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایسے برتن سے وضو کرتے تھے جس میں دو رطل پانی آتا تھا، اور ایک صاع پانی سے غسل کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یحییٰ بن آدم نے اسے شریک سے روایت کیا ہے مگر اس روایت میں (عبداللہ بن جبر کے بجائے) ابن جبر بن عتیک ہے، نیز سفیان نے بھی اسے عبداللہ بن عیسیٰ سے روایت کیا ہے اس میں حدثني جبر بن عبد الله‏.‏ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسے شعبہ نے بھی روایت کیا ہے، اس میں حدثني عبد الله بن عبد الله بن جبر سمعت أنسا ہے، مگر فرق یہ ہے کہ انہوں نے يتوضأ بإناء يسع رطلين کے بجائے : يتوضأ بمكوك کہا ہے اور رطلين کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا ہے کہ ایک صاع پانچ رطل کا ہوتا ہے، یہی ابن ابی ذئب کا صاع تھا اور یہی نبی اکرم ﷺ کا بھی صاع تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہذا اللفظ أبوداود و سنن الترمذی/الصلاة ٦٠٩ ولفظہ : یجزیٔ في الوضوء رطلان من ماء (تحفة الأشراف : ٩٦٢) (ضعیف) (سند میں شریک القاضی سیٔ الحفظ راوی ہیں انہوں نے کبھی اس کو رسول اکرم ﷺ کے قول کی حیثیت سے روایت کیا ہے ، اور کبھی فعل کی حیثیت سے جب کہ اصل حدیث یتوضأ بمکوک ویغتسل بخمسة مکالي یا یتوضأ بالمد و یغتسل بالصاع کے لفظ سے صحیح ہے ، ملاحظہ ہو : صحیح البخاری/الوضوء ٤٧ (٢٠١) ، صحیح مسلم/الحیض ١٠ (٣٢٥) ، سنن النسائی/الطھارة ٥٩ (٧٣) ، ١٤٤ (٢٣٠) ، والمیاہ ١٣ (٣٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٢) وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ١١٢، ١١٦، ١٧٩، ٢٥٩، ٢٨٢، ٢٩٠ )

【96】

وضو میں اسراف جائز نہیں

ابونعامہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل (رض) نے اپنے بیٹے کو کہتے سنا : اے اللہ ! میں جب جنت میں داخل ہوں تو مجھے جنت کے دائیں طرف کا سفید محل عطا فرما، آپ نے کہا : میرے بیٹے ! تم اللہ سے جنت طلب کرو اور جہنم سے پناہ مانگو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اس امت میں عنقریب ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو طہارت اور دعا میں حد سے تجاوز کریں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٢ (٣٨٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : طہارت میں حد سے تجاوز کا مطلب یہ ہے کہ وضو، غسل یا آب دست میں رسول اللہ ﷺ سے منقول ” تحدید “ سے زیادہ بلا ضرورت پانی بہایا جائے، اور دعا میں حد سے تجاوز کا مطلب ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی دعائیں چھوڑ کر دوسروں کی تکلفات سے بھری، مقفی اور مسجّع دعائیں پڑھی جائیں، یا حد ادب سے تجاوز ہو، یا صلہ رحمی کے خلاف ہو، یا غیر شرعی خواہش ہو۔

【97】

اچھی طرح وضو کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک قوم کو اس حال میں دیکھا کہ وضو کرنے میں ان کی ایڑیاں (پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے) خشک تھیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : ایڑیوں کو بھگونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے جہنم کی آگ سے تباہی ہے وضو پوری طرح سے کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ٩ (٢٤١) ، سنن النسائی/الطھارة ٨٩ (١١١) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٥٥ (٤٥٠) ، مسند احمد (٢/١٩٣، ٢٠١، ٢٠٥، ٢١١، ٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٣٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العلم ٣ (٦٠) ، ٣٠ (٩٦) ، بدون : أسبغوا ... ، (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایڑیاں اگر وضو میں خشک رہ جائیں گی تو جہنم میں جلائی جائیں گی۔

【98】

کانسی یا پیتل کے برتن سے وضو کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں پیتل کے ایک ہی برتن میں غسل کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٣٤٤) (ضعیف) ( حماد کے استاذ مجہول ہیں، نیز ہشام اور ام المؤمنین عائشہ (رض) کے درمیان انقطاع ہے، البتہ متن ثابت ہے )

【99】

کانسی یا پیتل کے برتن سے وضو کرنے کا بیان

اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے اسی طرح مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٧٣٤٤) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی مبہم، البتہ متن ثابت ہے )

【100】

کانسی یا پیتل کے برتن سے وضو کرنے کا بیان

عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے ایک پیتل کے پیالے میں آپ کے لیے پانی نکالا اور آپ ﷺ نے وضو کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٥ (١٩٧) ، صحیح مسلم/الطہارة ٧ (٢٣٥) ، سنن الترمذی/الطہارة ٢٤ (٣٢) ، سنن النسائی/الطہارة ٨٠ (٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٦١ (٤٧١) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٨، ٣٩) (صحیح )

【101】

وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کی نماز نہیں جس کا وضو نہیں، اور اس شخص کا وضو نہیں جس نے وضو کے شروع میں بسم الله نہیں کہا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٤١ (٣٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٧٦) ، ت الطہارة ٢٠ (٢٥) ، سنن النسائی/الطہارة ٦٢ (٧٨) ، مسند احمد (٢/٤١٨) (صحیح )

【102】

وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کا بیان

عبدالعزیز دراوردی کہتے ہیں کہ ربیعہ نے ذکر کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی حدیث : لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه کی تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو وضو اور غسل کرے لیکن نماز کے وضو اور جنابت کے غسل کی نیت نہ کرے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٦٣٥) (صحیح )

【103】

ہاتھوں کو دھوئے بغیر پانی کے برتن میں ڈالنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی رات کو سو کر اٹھے تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے تین بار دھو نہ لے، کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ رات میں اس کا ہاتھ کہاں کہاں رہا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ٢٦ (٢٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٠٩، ١٢٥١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٦ (١٦٢) ، سنن الترمذی/الطھارة ١٩ (٢٤) ، سنن النسائی/الطھارة ١ (١) ، الغسل ٢٩ (٤٤٠) سنن ابن ماجہ/الطھارة ٤٠ (٣٩٣) ، موطا امام مالک/الطھارة ٢(٩) ، مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٥٣) ، سنن الدارمی/الطھارة ٧٨ (٧٩٣) (صحیح )

【104】

ہاتھوں کو دھوئے بغیر پانی کے برتن میں ڈالنا

اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے اس میں ثلاث مرات (تین مرتبہ) کے بجائے مرتين أو ثلاثا (دو مرتبہ یا تین مرتبہ) (شک کے ساتھ) آیا ہے اور (سند میں) ابورزین کا ذکر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٤٥٣) ، مسند احمد (٢/٢٥٣) (صحیح )

【105】

ہاتھوں کو دھوئے بغیر پانی کے برتن میں ڈالنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے تین بار دھو نہ لے اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں رہا ؟ یا کدھر پھرتا رہا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٤٥٨) (صحیح )

【106】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

عثمان بن عفان (رض) کے غلام حمران بن ابان کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان (رض) کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا تو پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر تین بار پانی ڈالا ان کو دھویا، پھر کلی کی، اور ناک جھاڑی، پھر اپنا چہرہ تین بار دھویا، اور اپنا دایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا، اور پھر اسی طرح بایاں ہاتھ، پھر سر پر مسح کیا، پھر اپنا داہنا پاؤں تین بار دھویا، پھر بایاں پاؤں اسی طرح، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے میرے اسی وضو کی طرح وضو کیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : جو شخص میرے اس وضو کی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز پڑھے اس میں دنیا کا خیال و وسوسہ اسے نہ آئے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے پچھلے گناہ کو معاف فرما دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٤ (١٥٩) ، ٢٨ (١٦٤) ، الصوم ٤٧ (١٩٣٤) ، صحیح مسلم/الطھارة ٣ (٢٢٦) ، سنن النسائی/الطھارة ٦٨ (٨٤) ، موطا امام مالک/الطھارة ٦(٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٩٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٦ (٢٨٥) ، مسند احمد (١/٧٢) ، سنن الدارمی/الطھارة ٢٧ (٧٢٠) (صحیح )

【107】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

حمران کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان (رض) کو وضو کرتے دیکھا، پھر اس حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی، مگر کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا تذکرہ نہیں کیا، حمران نے کہا : عثمان (رض) نے اپنے سر کا تین بار مسح کیا پھر دونوں پاؤں تین بار دھوئے، اس کے بعد آپ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا، اور آپ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اس سے کم وضو کرے گا (یعنی ایک ایک یا دو دو بار اعضاء دھوئے گا) تو بھی کافی ہے ، یہاں پر نماز کے معاملہ کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٧٩٩) (حسن صحیح) (سر کے تین بار مسح کی روایت شاذ ہے، جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے )

【108】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

عثمان بن عبدالرحمٰن تیمی کہتے ہیں کہ ابن ابی ملیکہ سے وضو کے متعلق پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا : میں نے عثمان بن عفان (رض) کو دیکھا کہ آپ سے وضو کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ نے پانی منگایا، پانی کا لوٹا لایا گیا، آپ نے اسے اپنے داہنے ہاتھ پر انڈیلا (اور اس سے اپنا ہاتھ دھویا) پھر ہاتھ کو پانی میں داخل کیا، تین بار کلی کی، تین بار ناک میں پانی ڈالا، تین بار منہ دھویا، پھر اپنا داہنا ہاتھ تین بار دھویا، تین بار اپنا بایاں ہاتھ دھویا، پھر پانی میں اپنا ہاتھ داخل کیا اور پانی لے کر اپنے سر کا اور اپنے دونوں کانوں کے اندر اور باہر کا ایک ایک بار مسح کیا، پھر اپنے دونوں پیر دھوئے پھر کہا : وضو سے متعلق سوال کرنے والے کہاں ہیں ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عثمان بن عفان (رض) سے وضو کے باب میں جو صحیح حدیثیں مروی ہیں، وہ سب اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک ہی بار ہے کیونکہ ناقلین حدیث نے ہر عضو کو تین بار دھونے کا ذکر کیا ہے اور سر کے مسح کا ذکر مطلقاً کیا ہے اس کی کوئی تعداد ذکر نہیں کی جیسا کہ ان لوگوں نے اور چیزوں میں ذکر کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٨٢٠) (حسن صحیح )

【109】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

ابوعلقمہ کہتے ہیں کہ عثمان (رض) نے پانی منگوایا اور وضو کیا، پہلے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا پھر دونوں ہاتھوں کو پہونچوں تک دھویا، پھر تین بار کلی کی، اور تین بار ناک میں پانی ڈالا، اور اسی طرح وضو کے اندر بقیہ تمام اعضاء کو تین بار دھونے کا ذکر کیا، پھر کہا : اور آپ (عثمان رضی اللہ عنہ) نے اپنے سر کا مسح کیا پھر اپنے دونوں پیر دھوئے اور کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے جیسے تم لوگوں نے مجھے وضو کرتے دیکھا، پھر زہری کی حدیث (نمبر ١٠٦) کی طرح اپنی حدیث بیان کی اور ان کی حدیث سے کامل بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٩٨٤٧) (حسن صحیح )

【110】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے وضو میں اپنے دونوں ہاتھ تین تین بار دھوئے اور تین بار سر کا مسح کیا پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : وکیع (وکیع بن جراح) نے اسے اسرائیل سے روایت کیا ہے اس میں صرف توضأ ثلاثا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٩٨١٠) (منکر) (کیونکہ اس کا راوی عامر ضعیف ہے، نیز اس نے سر کے تین بار مسح کے الفاظ میں ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے )

【111】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

عبد خیر کہتے ہیں کہ علی (رض) ہمارے پاس آئے آپ نماز پڑھ چکے تھے، پانی منگوایا، ہم لوگوں نے (آپس میں) کہا آپ پانی منگوا کر کیا کریں گے، آپ تو نماز پڑھ چکے ہیں ؟ شاید (پانی منگوا کر) آپ ہمیں وضو کا طریقہ ہی سکھانا چاہتے ہوں گے، خیر ایک برتن جس میں پانی تھا اور ایک طشت لایا گیا، آپ نے برتن سے اپنے داہنے ہاتھ پر پانی ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو (کلائی تک) تین بار دھویا پھر کلی کی اور تین بار ناک جھاڑی، آپ کلی کرتے پھر اسی چلو سے آدھا پانی ناک میں ڈال کر اسے جھاڑتے، پھر آپ نے اپنا چہرہ تین بار دھویا پھر دایاں اور بایاں ہاتھ تین تین بار دھویا، پھر اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا اور (پانی نکال کر) اپنے سر کا ایک بار مسح کیا، اس کے بعد اپنا دایاں پیر پھر بایاں پیر تین تین بار دھویا پھر فرمایا : جو شخص اس بات سے خوش ہو کہ اسے رسول اللہ ﷺ کے وضو کا طریقہ معلوم ہوجائے تو (جان لے کہ) وہ یہی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ٧٤ (٩١) ، ٧٥ (٩٢) ، ٧٦ (٩٣) ، ٧٧ (٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطھارة ٣٧ (٤٨) ، مسند احمد (١/١٢٢) ، سنن الدارمی/الطھارة ٣١ (٧٢٨) (صحیح )

【112】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

عبد خیر کہتے ہیں کہ علی (رض) نے صبح کی نماز پڑھی پھر رحبہ (کوفہ میں ایک جگہ کا نام ہے) آئے اور پانی منگوایا تو لڑکا ایک برتن جس میں پانی تھا اور ایک طشت لے کر آپ کے پاس آیا، آپ نے پانی کا برتن اپنے داہنے ہاتھ میں لیا پھر اپنے بائیں ہاتھ پر انڈیلا اور دونوں ہتھیلیوں کو تین بار دھویا پھر اپنا داہنا ہاتھ برتن کے اندر ڈال کر پانی لیا اور تین بار کلی کی اور تین بار ناک میں پانی ڈالا۔ پھر راوی نے ابو عوانہ جیسی حدیث بیان کی، اس میں ذکر کیا کہ پھر علی (رض) نے اپنے سر کے اگلے اور پچھلے حصے کا ایک بار مسح کیا پھر راوی نے پوری حدیث اسی جیسی بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٣) (صحیح )

【113】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

عبد خیر کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو دیکھا (ان کے پاس) ایک کرسی لائی گئی، وہ اس پر بیٹھے پھر پانی کا ایک کوزہ (برتن) لایا گیا تو (اس سے) آپ نے تین بار اپنا ہاتھ دھویا پھر ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٣) (صحیح )

【114】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

زر بن حبیش کہتے ہیں کہ انہوں نے علی (رض) سے سنا جب ان سے رسول اللہ ﷺ کے وضو کے بارے میں پوچھا گیا تھا، پھر زر بن حبیش نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا : انہوں نے اپنے سر کا مسح کیا حتیٰ کہ پانی سر سے ٹپکنے کو تھا، پھر اپنے دونوں پیر تین تین بار دھوئے، پھر کہا : رسول اللہ ﷺ کا وضو اسی طرح تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٠٩٤) (صحیح )

【115】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا تو اپنا چہرہ تین بار دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ تین بار دھوئے، اور اپنے سر کا ایک بار مسح کیا، پھر آپ نے کہا : اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٢) (صحیح )

【116】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

ابوحیہ (ابن قیس) کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا، پھر ابوحیہ نے آپ کے پورے (اعضاء) وضو کے تین تین بار دھونے کا ذکر کیا، وہ کہتے ہیں : پھر آپ نے اپنے سر کا مسح کیا، اور اپنے دونوں پیر ٹخنوں تک دھوئے، پھر کہا : میری خواہش ہوئی کہ میں تم لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کا وضو دکھلاؤں (کہ آپ کس طرح وضو کرتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٣٧ (٤٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٧٩ (٩٦) ، ٩٣ (١١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٢٠، ١٢٥، ١٢٧، ١٤٢، ١٤٨) (صحیح )

【117】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب (رض) استنجاء کر کے میرے پاس آئے، اور وضو کے لیے پانی مانگا، ہم ایک پیالہ لے کر ان کے پاس آئے جس میں پانی تھا یہاں تک کہ ہم نے انہیں ان کے سامنے رکھا تو انہوں نے مجھ سے کہا : اے ابن عباس ! کیا میں تمہیں دکھاؤں کہ رسول اللہ ﷺ کس طرح وضو کرتے تھے ؟ میں نے کہا : ہاں، ضرور دکھائیے، تو آپ نے برتن جھکا کر ہاتھ پر پانی ڈالا پھر اسے دھویا پھر اپنا داہنا ہاتھ (برتن میں) داخل کیا (اور پانی لے کر) اسے دوسرے پر ڈالا پھر اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دھویا، پھر کلی کی اور ناک جھاڑی، پھر اپنے دونوں ہاتھ (ملا کر) ایک ساتھ برتن میں ڈالے اور لپ بھر پانی لیا اور اسے اپنے منہ پر مارا پھر دونوں انگوٹھوں کو کانوں کے اندر یعنی سامنے کے رخ پر پھیرا، پھر دوسری اور تیسری بار (بھی) ایسا ہی کیا، پھر اپنی داہنی ہتھیلی میں ایک چلو پانی لے کر اپنی پیشانی پر ڈالا اور اسے چھوڑ دیا، وہ آپ کے چہرے پر بہہ رہا تھا، پھر دونوں ہاتھ تین تین بار کہنیوں تک دھوئے، اس کے بعد سر اور دونوں کانوں کے اوپری حصہ کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں ہاتھ پانی میں ڈال کر ایک لپ بھر پانی لیا اور اسے (دائیں) پیر پر ڈالا، اس وقت وہ پیر میں جوتا پہنے ہوئے تھے اور اس سے پیر دھویا پھر دوسرے پیر پر بھی اسی طرح پانی ڈال کر اسے دھویا ١ ؎۔ عبیداللہ خولانی کہتے ہیں کہ میں نے (عبداللہ بن عباس (رض) سے) پوچھا : علی (رض) نے دونوں پیر میں جوتا پہنے پہنے ایسا کیا ؟ آپ نے کہا : ہاں، جوتا پہنے پہنے کیا، میں نے کہا : جوتا پہنے پہنے ؟ آپ نے کہا : ہاں، جوتا پہنے پہنے، پھر میں نے کہا : جوتا پہنے پہنے ؟ آپ نے کہا : ہاں چپل پہنے پہنے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن جریج کی حدیث جسے انہوں نے شیبہ سے روایت کیا ہے علی (رض) کی حدیث کے مشابہ ہے اس لیے کہ اس میں حجاج بن محمد نے ابن جریج سے مسح برأسه مرة واحدة کہا ہے اور ابن وہب نے اس میں ابن جریج سے ومسح برأسه ثلاثا روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، تحفة الأشراف (١٠١٩٨) ، وحدیث ابن جریج عن شیبة أخرجہ : سنن النسائی/الطہارة ٧٨ (٩٥) ، تحفة الأشراف (١٠٠٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٢) (ضعیف) (بتصریح امام ترمذی : امام بخاری نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ) وضاحت : ١ ؎ : متن حدیث میں ففتلها کا لفظ وارد ہوا ہے جس کے معنی ” بہت تھوڑی چیز کے ہیں “ یعنی ” بہت ہلکا دھویا “ شیعہ اس حدیث سے ننگے اور کھلے پاؤں پر مسح کی دلیل پکڑتے ہیں ، حالانکہ ایک نسخہ میں ففتلها کی جگہ فغسلها وارد ہوا ہے ، نیز یہ حدیث بتصریح امام بخاری ” ضعيف “ ہے اس میں کوئی علت خفیہ ہے ، بفرض صحت امام خطابی اور ابن القیم نے چند تاویلات کی ہیں۔

【118】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

یحییٰ مازنی کہتے ہیں کہ انہوں نے عبداللہ بن زید بن عاصم (جو عمرو بن یحییٰ مازنی کے نانا ہیں) سے کہا : کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کس طرح وضو فرماتے تھے ؟ تو عبداللہ بن زید (رض) نے کہا : ہاں، پس آپ نے وضو کے لیے پانی منگایا، اور اپنے دونوں ہاتھوں پر ڈالا اور اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر تین بار کلی کی، اور تین بار ناک جھاڑی، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو دو بار دھوئے، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا، ان دونوں کو آگے لے آئے اور پیچھے لے گئے اس طرح کہ اس کی ابتداء اپنے سر کے اگلے حصے سے کی، پھر انہیں اپنی گدی تک لے گئے پھر انہیں اسی جگہ واپس لے آئے جہاں سے شروع کیا تھا، پھر اپنے دونوں پیر دھوئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٨ (١٨٥) ، ٣٩ (١٨٦) ، ٤١ (١٩١) ، ٤٢ (١٩٢) ، ٤٥ (١٩٧) ، صحیح مسلم/الطھارة ٧ (٢٣٥) ، سنن الترمذی/الطھارة ٢٢ (٢٨) ، ٢٤ (٣٢) ، ٣٦ (٤٧) ، سنن النسائی/الطھارة ٨٠ (٩٧) ، ٨١ (٩٨) ، ٨٢ (٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٠٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطھارة ١ (١) ، مسند احمد (٤/٣٨ ، ٣٩، سنن الدارمی/الطھارة ٢٨ (٧٢١) (صحیح )

【119】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

اس سند سے بھی عبداللہ بن زید بن عاصم (رض) سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ انہوں نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین بار ایسا ہی کیا، پھر انہوں نے اسی طرح ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٥٣٠٨) (صحیح )

【120】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

عبداللہ بن زید بن عاصم ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو (وضو کرتے ہوئے) دیکھا، پھر آپ کے وضو کا ذکر کیا اور کہا : آپ ﷺ نے اپنے سر کا مسح اپنے ہاتھ کے بچے ہوئے پانی کے علاوہ نئے پانی سے کیا اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے یہاں تک کہ انہیں صاف کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٧(٢٣٦) ، سنن الترمذی/الطہارة ٢٧ (٣٥) مختصراً (تحفة الأشراف : ٥٣٠٧) (صحیح )

【121】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

عبدالرحمٰن بن میسرہ حضرمی کہتے ہیں کہ میں نے مقدام بن معد یکرب کندی (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس وضو کا پانی لایا گیا تو آپ نے وضو کیا، اپنے دونوں پہونچے تین بار دھلے، پھر کلی کی اور تین بار ناک میں پانی ڈالا اور اپنا چہرہ تین بار دھویا، پھر دونوں ہاتھ (کہنیوں تک) تین تین بار دھلے، پھر اپنے سر کا اور اپنے دونوں کانوں کے باہر اور اندر کا مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود : (تحفة الأشراف : ١١٥٧٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٥٢ (٤٤٢) (صحیح )

【122】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

مقدام بن معد یکرب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ نے وضو کیا، جب آپ ﷺ اپنے سر کے مسح پر پہنچے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے سر کے اگلے حصہ پر رکھا، پھر انہیں پھیرتے ہوئے گدی تک پہنچے، پھر اپنے دونوں ہاتھ اسی جگہ واپس لے آئے جہاں سے مسح شروع کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٥٢ (٤٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٧٢) (صحیح )

【123】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

اس طریق سے بھی ولید (ولید بن مسلم) سے اسی سند سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے دونوں کان کی پشت اور ان کے اندرونی حصے کا مسح کیا، اور ہشام نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو اپنے دونوں کان کے سوراخ میں داخل کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١١٥٧٢) (صحیح )

【124】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

عبداللہ بن علاء کہتے ہیں کہ ابوالازہر مغیرہ بن فروہ اور یزید بن ابی مالک نے ہم سے بیان کیا ہے کہ معاویہ (رض) نے لوگوں کو دکھانے کے لیے اسی طرح وضو کیا جس طرح انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تھا، جب وہ اپنے سر (کے مسح) تک پہنچے تو بائیں ہاتھ سے ایک چلو پانی لیا اور اسے بیچ سر پر ڈالا یہاں تک کہ پانی ٹپکنے لگایا ٹپکنے کے قریب ہوا، پھر اپنے (سر کے) اگلے حصہ سے پچھلے حصہ تک اور پچھلے حصہ سے اگلے حصہ تک مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٤٤٢) (صحیح )

【125】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

محمود بن خالد کہتے ہیں کہ ہم سے ولید نے اسی سند سے بیان کیا ہے، اس میں ہے کہ انہوں معاویہ (رض) نے تین تین بار وضو کیا اور اپنے پاؤں دھوئے اس میں عدد کا ذکر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٤٤٣) (صحیح )

【126】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

ربیع بنت معوذ بن عفراء (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس (اکثر) تشریف لایا کرتے تھے تو ایک بار آپ ﷺ نے فرمایا : میرے لیے وضو کا پانی لاؤ ، پھر ربیع نے رسول اللہ ﷺ کے وضو کا ذکر کیا اور کہا کہ (پہلے) آپ ﷺ نے اپنے دونوں پہونچے تین بار دھوئے، اور چہرے کو تین بار دھویا، کلی کی، ایک بار ناک میں پانی ڈالا اور دونوں ہاتھ تین تین بار دھوئے، دو بار سر کا مسح کیا، پہلے سر کے پچھلے حصے سے شروع کیا، پھر اگلے حصہ سے، پھر اپنے دونوں کانوں کی پشت اور ان کے اندرونی حصہ کا مسح کیا اور دونوں پیر تین تین بار دھوئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مسدد کی حدیث کے یہی معنی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٣٣ (٤٣) (بقولہ في الباب) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣٩ (٣٩٠) ، ٥٢ (٤٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦٠) (حسن )

【127】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

ابن عقیل سے بھی یہی حدیث اسی سند سے مروی ہے، اس میں (سفیان نے) بشر کی حدیث کے بعض مفاہیم کو بدل دیا ہے اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے کلی کی اور تین مرتبہ ناک جھاڑی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٥٨٣٧) (شاذ) (سفیان کی اس روایت میں تین بار ناک جھاڑنے کا ٹکڑا شاذ ہے )

【128】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

ربیع بنت معوذ بن عفراء (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے پاس وضو کیا، تو پورے سر کا مسح کیا، اوپر سے سر کا مسح شروع کرتے تھے اور ہر کونے میں نیچے تک بالوں کی روش پر ان کی اصل ہیئت کو حرکت دیے بغیر لے جاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ١٥٨٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٥٩، ٣٦٠) (حسن )

【129】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

ربیع بنت معوذ بن عفراء (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، آپ نے اپنے سر کے اگلے اور پچھلے حصے کا اور اپنی دونوں کنپٹیوں اور دونوں کانوں کا ایک بار مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٢٦ (٣٤) (تحفة الأشراف : ١٥٨٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٥٩) (حسن )

【130】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

ربیع بنت معوذ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے ہاتھ کے بچے ہوئے پانی سے اپنے سر کا مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (١٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٤١) (حسن )

【131】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

ربیع بنت معوذ (ربیع بنت معوذ بن عفراء) رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا تو آپ نے اپنی دونوں انگلیاں (مسح کے لیے) اپنے دونوں کانوں کے سوراخ میں داخل کیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (١٢٦) وراجع : سنن الترمذی/ الطہارة ٥٢ (٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٥٢ (٤٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٣٩) (حسن )

【132】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

طلحہ کے دادا کعب بن عمرو یامی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے سر کا ایک بار مسح کرتے دیکھا یہاں تک کہ یہ قذال (گردن کے سرے) تک پہنچا۔ مسدد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے اگلے حصہ سے پچھلے حصہ تک اپنے سر کا مسح کیا یہاں تک کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں کے نیچے سے نکالا۔ مسدد کہتے ہیں : تو میں نے اسے یحییٰ (یحییٰ بن سعید القطان) سے بیان کیا تو آپ نے اسے منکر کہا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد (احمد بن حنبل) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ (سفیان) ابن عیینہ (بھی) اس حدیث کو منکر گردانتے تھے اور کہتے تھے کہ طلحة عن أبيه عن جده کیا چیز ہے ؟ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ١١١٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٨١) (ضعیف) (اس کا راوی مصرف مجہول ہے اور لیث بن أبی سلیم ضعیف ہے )

【133】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اور (اعضاء وضو کو) تین تین بار دھونے کا ذکر کیا اور کہا : آپ ﷺ نے اپنے سر اور دونوں کانوں کا ایک بار مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ٥٥٧٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطھارة ٢٨ (٣٦) ، ٣٢ (٤٢) ، سنن النسائی/الطھارة ٨٤ (١٠١) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٤٣ (٤٠٤) ، ٥٢ (٤٣٩) (ضعیف جداً ) (اس کا ایک راوی عباد اخیر عمر میں مختلط ہوگیا تھا )

【134】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضو کی کیفیت کا بیان

ابوامامہ (رض) سے روایت ہے، آپ نے نبی اکرم ﷺ کے وضو (کی کیفیت) کا ذکر کیا اور فرمایا : آپ ﷺ ناک کے قریب دونوں آنکھوں کے کناروں کا مسح فرماتے تھے، ابوامامہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : دونوں کان سر میں داخل ہیں ۔ سلیمان بن حرب کہتے ہیں : ابوامامہ بھی یہ کہا کرتے تھے (کہ دونوں کان سر میں داخل ہیں) ۔ قتیبہ کہتے ہیں کہ حماد نے کہا : میں نہیں جانتا کہ یہ قول یعنی دونوں کانوں کا ذکر نبی اکرم ﷺ کا قول ہے، یا ابوامامہ کا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٢٩ (٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٥٣ (٤٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٨٧) ، وقد أخرجہ : حم (٥/٢٥٨، ٢٦٤) (ضعیف) (اس کے دو راوی سنان اور شہر ضعیف ہیں، البتہ اس کا ایک ٹکڑا الأذنان من الرأس دیگر احادیث سے ثابت ہے )

【135】

اعضائے وضو کا تین تین مرتبہ دھونا

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! وضو کس طرح کیا جائے ؟ آپ ﷺ نے ایک برتن میں پانی منگوایا اور اپنے دونوں پہونچوں کو تین بار دھویا، پھر چہرہ تین بار دھویا، پھر دونوں ہاتھ تین بار دھلے، پھر سر کا مسح کیا، اور شہادت کی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں میں داخل کیا، اور اپنے دونوں انگوٹھوں سے اپنے دونوں کانوں کے اوپری حصہ کا مسح کیا اور شہادت کی دونوں انگلیوں سے اپنے دونوں کانوں کے اندرونی حصہ کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں تین تین بار دھلے، پھر فرمایا : وضو (کا طریقہ) اسی طرح ہے جس شخص نے اس پر زیادتی یا کمی کی اس نے برا کیا، اور ظلم کیا ، یا فرمایا : ظلم کیا اور برا کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٠٥ (١٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٤٨ (٤٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٠) (حسن صحیح) ( مگر أو نَقَصَ کا جملہ شاذ ہے )

【136】

اعضائے وضو کا دو دو مرتبہ دھونا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو میں اعضاء دو دو بار دھلے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٣٣ (٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٨، ٣٦٤) (حسن صحیح )

【137】

اعضائے وضو کا دو دو مرتبہ دھونا

عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے ہم سے کہا : کیا تم پسند کرتے ہو کہ میں تمہیں دکھاؤں کہ رسول اللہ ﷺ کس طرح وضو کرتے تھے ؟ پھر انہوں نے ایک برتن منگوایا جس میں پانی تھا اور داہنے ہاتھ سے ایک چلو پانی لے کر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر ایک اور چلو پانی لے کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ دھویا، پھر ایک چلو اور پانی لیا اس سے اپنا داہنا ہاتھ دھویا، پھر ایک چلو اور لے کر بایاں ہاتھ دھویا، پھر تھوڑا سا پانی لے کر اپنا ہاتھ جھاڑا، اور اس سے اپنے سر اور دونوں کانوں کا مسح کیا، پھر ایک مٹھی پانی لے کر داہنے پاؤں پر ڈالا جس میں جوتا پہنے ہوئے تھے، پھر اس پر اپنے دونوں ہاتھوں کو اس طرح سے پھیرا کہ ایک ہاتھ پاؤں کے اوپر اور ایک ہاتھ نعل (جوتا) کے نیچے تھا، پھر بائیں پاؤں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧ (١٤٠) ، سنن الترمذی/الطھارة ٣٢ (٤٢) ، سنن النسائی/الطھارة ٦٤ (٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٤٣ (٤٠٣) ، ٤٥ (٤١١) ، مسند احمد (١/٣٣٣، ٣٣٢، ٣٣٦) سنن الدارمی/الطھارة ٢٩ (٧٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٧٨) (حسن) (پاؤں پر مسح کرنے کا ذکر شاذ ہے، مؤلف کے سوا اس کا ذکر کسی اور کے یہاں نہیں ہے، بلکہ بخاری میں دھویا کا لفظ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یہ روایت باب کے مطابق نہیں کیونکہ اس میں اعضاء وضو کو دو دو بار دھونے کا ذکر نہیں ہے ، (ناسخ کی غلطی سے آئندہ باب کی بجائے یہاں درج ہوگئی ہے ، یہ وہی حدیث ہے جو نمبر (١٣٨) پر اگلے باب کے تحت آرہی ہے) ۔

【138】

اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھونا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کیا میں تم کو رسول اللہ ﷺ کے وضو کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ پھر انہوں نے وضو کیا، اور اعضاء کو ایک ایک بار دھلا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضو ٢٢ (١٥٧) ، سنن الترمذی/الطہارة ٣٢ (٤٢) ، سنن النسائی/الطہارة ٦٤ (٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٥ (٤١١) (تحفة الأشراف : ٥٩٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٣، ٣٣٢، ٣٣٦) (صحیح )

【139】

کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے لئے الگ الگ پانی لینا

طلحہ کے دادا کعب بن عمرو یامی (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا، اس وقت آپ وضو کر رہے تھے، پانی چہرے اور داڑھی سے آپ کے سینے پر بہہ رہا تھا، میں نے دیکھا کہ آپ کلی، اور ناک میں پانی الگ الگ ڈال رہے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١١٢٨) (ضعیف) (اس کے راوی طلحہ کے والد مصرف مجہول اور لیث ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مضمضة منہ کی کلی اور استنشاق‏. ناک میں پانی ڈالنے ، دونوں کے لئے الگ الگ پانی لے رہے تھے۔

【140】

ناک میں پانی ڈال کر جھڑ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اپنی ناک میں پانی ڈالے، پھر جھاڑے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٦ (١٦٢) ، صحیح مسلم/الطھارة ٨ (٢٣٧) ، سنن النسائی/الطھارة ٧٠ (٨٦) ، موطا امام مالک/الطھارة ١(٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٢٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٤٤ (٤٠٦) ، مسند احمد (٢/٢٤٢، ٢٧٨) ، سنن الدارمی/الطھارة ٣٢ (٧٣٠) (صحیح )

【141】

ناک میں پانی ڈال کر جھڑ

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ناک میں پانی ڈال کر اسے دو یا تین بار اچھی طرح سے جھاڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٤٤ (٤٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٨) (صحیح )

【142】

ناک میں پانی ڈال کر جھڑ

لقیط بن صبرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں بنی منتفق کے وفد کا سردار بن کر یا بنی منتفق کے وفد میں شریک ہو کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا، جب ہم آپ ﷺ کے پاس آئے تو آپ گھر میں نہیں ملے، ہمیں صرف ام المؤمنین عائشہ (رض) ملیں، انہوں نے ہمارے لیے خزیرہ ١ ؎ تیار کرنے کا حکم کیا، وہ تیار کیا گیا، ہمارے سامنے تھالی لائی گئی۔ (قتیبہ نے اپنی روایت میں قناع کا لفظ نہیں کہا ہے، قناع کھجور کی لکڑی کی اس تھالی و طبق کو کہتے ہیں جس میں کھجور رکھی جاتی ہے) ۔ پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور پوچھا : تم لوگوں نے کچھ کھایا ؟ یا تمہارے کھانے کے لیے کوئی حکم دیا گیا ؟ ، ہم نے جواب دیا : ہاں، اے اللہ کے رسول ! ہم لوگ آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک چرواہا اپنی بکریاں باڑے کی طرف لے کر چلا، اس کے ساتھ ایک بکری کا بچہ تھا جو ممیا رہا تھا، آپ ﷺ نے (اس سے) پوچھا : اے فلاں ! کیا پیدا ہوا (نر یا مادہ) ؟ ، اس نے جواب دیا : مادہ، آپ ﷺ نے فرمایا : تو اس کے جگہ پر ہمارے لیے ایک بکری ذبح کرو ۔ پھر (لقیط سے) فرمایا : یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے اسے تمہارے لیے ذبح کیا ہے، بلکہ (بات یہ ہے کہ) ہمارے پاس سو بکریاں ہیں جسے ہم بڑھانا نہیں چاہتے، اس لیے جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو ہم اس کی جگہ ایک بکری ذبح کر ڈالتے ہیں۔ لقیط کہتے ہیں : میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میری ایک بیوی ہے جو زبان دراز ہے (میں کیا کروں) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تب تو تم اسے طلاق دے دو ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ایک مدت تک میرا اس کا ساتھ رہا، اس سے میری اولاد بھی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تو اسے تم نصیحت کرو، اگر اس میں بھلائی ہے تو تمہاری اطاعت کرے گی، اور تم اپنی عورت کو اس طرح نہ مارو جس طرح اپنی لونڈی کو مارتے ہو ۔ پھر میں نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : وضو مکمل کیا کرو، انگلیوں میں خلال کرو، اور ناک میں پانی اچھی طرح پہنچاؤ الا یہ کہ تم صائم ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٣٠ (٣٨) ، الصوصحیح مسلم/ ٦٩ (٧٨٨) ، سنن النسائی/الطھارة ٧١ (٨٧) ، ٩٢ (١١٤) ، سنن ابن ماجہ/ ٤٤ (٤٠٧) ، ٥٤ (٤٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١١١٧٢) ، ویأتی عند المؤلف برقم (٢٣٦٦) و (٣٩٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٣) ، سنن الدارمی/الطھارة ٣٤ (٧٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : خزیرہ ایک قسم کا کھانا ہے ، اس کے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کو کافی مقدار میں پانی میں ابالا جاتا ہے جب گوشت پک جاتا ہے تو اس میں آٹا ڈال کر اسے مزید پکایا جاتا ہے۔

【143】

ناک میں پانی ڈال کر جھڑ

بنی منتفق کے وفد میں شریک لقیط بن صبرہ کہتے ہیں کہ وہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس آئے، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی، اس میں یہ ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں رسول اللہ ﷺ آگے کو جھکتے ہوئے یعنی تیز چال چلتے ہوئے تشریف لائے، اس روایت میں لفظ خزيرة کی جگہ عصيدة (ایک قسم کا کھانا) کا ذکر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١١١٧٢) (صحیح )

【144】

ناک میں پانی ڈال کر جھڑ

اس طریق سے بھی ابن جریج سے یہی حدیث مروی ہے، جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم وضو کرو تو کلی کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١١١٧٢) (صحیح )

【145】

ڈاڑھی میں خلال کرنے کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب وضو کرتے تو ایک چلو پانی لے کر اسے اپنی ٹھوڑی کے نیچے لے جاتے تھے، پھر اس سے اپنی داڑھی کا خلال کرتے اور فرماتے : میرے رب عزوجل نے مجھے ایسا ہی حکم دیا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ولید بن زور ان سے حجاج بن حجاج اور ابوالملیح الرقی نے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ١٦٤٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٥٠ (٤٣١) (صحیح )

【146】

عمامہ پر مسح کرنے کا بیان

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ (چھوٹا لشکر) بھیجا تو اسے ٹھنڈ لگ گئی، جب وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں (وضو کرتے وقت) عماموں (پگڑیوں) اور موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٠٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٧) (صحیح )

【147】

عمامہ پر مسح کرنے کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے دیکھا، آپ کے سر مبارک پر قطری (یعنی قطر بستی کا بنا ہوا) عمامہ تھا، آپ ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ عمامہ (پگڑی) کے نیچے داخل کیا اور عمامہ (پگڑی) کھولے بغیر اپنے سر کے اگلے حصہ کا مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨٩ (٥٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٥) (ضعیف) (اس کے راوی ابومعقل مجہول ہیں )

【148】

پاؤں دھونے کا بیان

مستورد بن شداد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، جب آپ وضو کرتے تو اپنے پاؤں کی انگلیوں کو چھنگلیا (ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی) سے ملتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٣٠ (٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٥٤ (٤٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢٩) (صحیح )

【149】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک میں فجر سے پہلے مڑے، میں آپ کے ساتھ تھا، میں بھی مڑا، پھر آپ ﷺ نے اونٹ بٹھایا اور قضائے حاجت کی، پھر آئے تو میں نے چھوٹے برتن (لوٹے) سے آپ کے ہاتھ پر پانی ڈالا، آپ ﷺ نے دونوں پہونچے دھوئے، پھر اپنا چہرہ دھویا، پھر آستین سے دونوں ہاتھ نکالنا چاہا مگر جبے کی آستین تنگ تھی اس لیے آپ نے ہاتھ اندر کی طرف کھینچ لیا، اور انہیں جبے کے نیچے سے نکالا، پھر دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا، اور اپنے سر کا مسح کیا، پھر دونوں موزوں پر مسح کیا، پھر سوار ہوگئے، پھر ہم چل پڑے، یہاں تک کہ ہم نے لوگوں کو نماز کی حالت میں پایا، ان لوگوں نے عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کو (امامت کے لیے) آگے بڑھا رکھا تھا، انہوں نے حسب معمول وقت پر لوگوں کو نماز پڑھائی، جب ہم پہنچے تو عبدالرحمٰن بن عوف فجر کی ایک رکعت پڑھا چکے تھے، رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کے ساتھ صف میں شریک ہوگئے، آپ ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف کے پیچھے دوسری رکعت پڑھی، پھر جب عبدالرحمٰن نے سلام پھیرا تو آپ ﷺ اپنی نماز پوری کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، یہ دیکھ کر مسلمان گھبرا گئے، اور لوگ سبحان اللہ کہنے لگے، کیونکہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے پہلے نماز شروع کردی تھی، جب رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو ان سے فرمایا : تم لوگوں نے ٹھیک کیا ، یا فرمایا : تم لوگوں نے اچھا کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٥(١٨٢) ، ٤٨ (٢٠٣) ، ٤٩ (٢٠٦) ، المغازي ٨١ (٤٤٢١) ، اللباس ١١ (٥٧٩٩) ، صحیح مسلم/الطھارة ٢٣ (٢٧٤) ، سنن النسائی/الطھارة ٦٣ (٧٩) ، ٦٦ (٨٢) ، ٩٦ (١٢٤) ، ٩٧ (١٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨٤ (٥٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٥١٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطھارة ٨ (٤١) ، مسند احمد (٤/ ٢٤٩، ٢٥١، ٢٥٤، ٢٥٥) ، سنن الدارمی/الطھارة ٤١ (٧٤٠) (صحیح )

【150】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، اپنی پیشانی پر مسح کیا، مغیرہ نے عمامہ (پگڑی) کے اوپر مسح کا بھی ذکر کیا۔ ایک دوسری روایت میں مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دونوں موزوں پر اور اپنی پیشانی اور اپنے عمامہ (پگڑی) پر مسح کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٣ (٢٧٤) ، سنن الترمذی/الطہارة ٧٤ (١٠٠) ، سنن النسائی/الطہارة ٨٧ (١٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٥) (صحیح )

【151】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چند سواروں میں تھے اور میرے ساتھ ایک چھاگل (چھوٹا برتن) تھی، آپ ﷺ قضائے حاجت کے لیے نکلے پھر واپس آئے تو میں چھاگل لے کر آپ کے پاس پہنچا، میں نے آپ (کے ہاتھ) پر پانی ڈالا، آپ ﷺ نے اپنے دونوں پہونچے اور چہرہ مبارک دھویا، پھر دونوں ہاتھ آستین سے نکالنا چاہا، آپ ﷺ ملک روم کے بنے ہوئے جبوں میں سے ایک جبہ زیب تن کئے ہوئے تھے، جس کی آستین تنگ و چست تھی، اس کی وجہ سے ہاتھ نہ نکل سکے تو آپ ﷺ نے انہیں اندر ہی سے نکال لیا، پھر میں آپ کے پاؤں سے موزے نکالنے کے لیے جھکا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : موزوں کو رہنے دو ، میں نے یہ پاکی کی حالت میں پہنے ہیں ، پھر آپ ﷺ نے ان پر مسح کیا۔ شعبی کہتے ہیں : یقیناً میرے سامنے عروہ بن مغیرہ نے اپنے والد سے اسے روایت کیا ہے اور یقیناً ان کے والد نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظرحدیث رقم : ١٤٩ ، (تحفة الأشراف : ١١٥١٤) (صحیح )

【152】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (سفر میں لوگوں کی جماعت سے) پیچھے رہ گئے، پھر انہوں نے اسی واقعہ کا ذکر کیا۔ مغیرہ کہتے ہیں : جب ہم لوگوں کے پاس آئے تو عبدالرحمٰن بن عوف (رض) انہیں صبح کی نماز پڑھا رہے تھے، جب انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا، تو پیچھے ہٹنا چاہا، آپ ﷺ نے انہیں نماز جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔ مغیرہ کہتے ہیں : تو میں نے اور نبی اکرم ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف کے پیچھے ایک رکعت پڑھی، اور جب انہوں نے سلام پھیرا تو آپ ﷺ نے اٹھ کر وہ رکعت ادا کی جو رہ گئی تھی، اس سے زیادہ کچھ نہیں پڑھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابو سعید خدری، ابن زبیر، اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں : جو شخص امام کے ساتھ نماز کی طاق رکعت پائے، تو اس پر سہو کے دو سجدے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١١٤٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : علامہ البانی نے اس اثر کو ضعیف کہا ہے، اس لئے اس سے استدلال درست نہیں ہے، جمہور نے اس کو رد کردیا ہے۔

【153】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ وہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے پاس اس وقت موجود تھے جب وہ بلال (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے وضو کے بارے میں پوچھ رہے تھے، بلال نے کہا : آپ ﷺ قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے تشریف لے جاتے، پھر میں آپ کے پاس پانی لاتا، آپ ﷺ وضو کرتے اور اپنے عمامہ (پگڑی) اور دونوں موق (جسے موزوں کے اوپر پہنا جاتا ہے) پر مسح کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ٢٠٤٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطھارة ٢٣ (٢٧٥) ، سنن الترمذی/الطھارة ٧٥ (١٠٠) ، سنن النسائی/الطھارة ٨٦ (١٠٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨٩ (٥٦١) ، مسند احمد (٦/١٢، ١٣، ١٤، ١٥) (صحیح )

【154】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

ابوزرعہ بن عمرو بن جریر کہتے ہیں کہ جریر (رض) نے پیشاب کیا پھر وضو کیا تو دونوں موزوں پر مسح کیا اور کہا کہ مجھے مسح کرنے سے کیا چیز روک سکتی ہے جب کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (موزوں پر) مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے، اس پر لوگوں نے کہا : آپ ﷺ کا یہ فعل سورة المائدہ کے نزول سے پہلے کا ہوگا ؟ تو انہوں نے جواب دیا : میں نے سورة المائدہ کے نزول کے بعد ہی اسلام قبول کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود (تحفة الأشراف : ٣٢٤٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٥ (٣٨٧) ، صحیح مسلم/الطھارة ٢٢ (٢٧٢) ، سنن الترمذی/الطھارة ٧٠ (٩٤) ، سنن النسائی/الطھارة ٩٦ (١١٨) ، القبلة ٢٣ (٧٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨٤ (٥٤٣) ، مسند احمد (٤/٣٥٨، ٣٦٣، ٣٦٤) (حسن) (مؤلف کی سند سے حسن ہے، ورنہ اصل حدیث صحیحین میں بھی ہے )

【155】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نجاشی (اصحمہ بن بحر) نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دو سادہ سیاہ موزے ہدیے میں بھیجے، تو آپ ﷺ نے انہیں پہنا، پھر وضو کیا اور ان پر مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٥٥ (٢٨٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨٤ (٥٤٩) ، مسند احمد (٥/٣٥٢، (تحفة الأشراف : ١٩٥٦) (حسن )

【156】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے موزوں پر مسح کیا تو میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ بھول گئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : بلکہ تم بھول گئے ہو، میرے رب نے مجھے اسی کا حکم دیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ١١٥٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٦، ٢٥٣) (ضعیف) (اس کے راوی بکیر ضعیف ہیں )

【157】

مسح کی مدت کا بیان

خزیمہ بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : موزوں پر مسح کرنے کی مدت مسافر کے لیے تین دن، اور مقیم کے لیے ایک دن ایک رات ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : منصور بن معتمر نے اسے ابراہیم تیمی سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ اگر ہم آپ ﷺ سے (اس مدت کو) بڑھانے کے لیے کہتے تو آپ اسے ہمارے لیے بڑھا دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٧١ (٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨٦ (٥٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢١٣) (صحیح )

【158】

مسح کی مدت کا بیان

ابی بن عمارہ (رض) سے روایت ہے، یحییٰ بن ایوب کا بیان ہے کہ ابی بن عمارہ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دونوں قبلوں (بیت المقدس اور بیت اللہ) کی طرف نماز پڑھی ہے ۔ آپ نے کہا کہ اللہ کے رسول ! کیا میں موزوں پر مسح کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، ابی نے کہا : ایک دن تک ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ایک دن تک ، ابی نے کہا : اور دو دن تک ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : دو دن تک ، ابی نے کہا : اور تین دن تک ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اور اسے تم جتنا چاہو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن ابی مریم مصری نے اسے یحییٰ بن ایوب سے یحییٰ نے عبدالرحمٰن بن رزین سے، عبدالرحمٰن نے محمد بن یزید بن ابی زیاد سے، محمد نے عبادہ بن نسی سے، عبادہ نے ابی بن عمارہ سے روایت کیا ہے مگر اس میں ہے : یہاں تک کہ (پوچھتے پوچھتے) سات تک پہنچ گئے اور رسول اللہ ﷺ فرماتے گئے : ہاں، جتنا تم چاہو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس کی سند میں اختلاف ہے، یہ قوی نہیں ہے، اسے ابن ابی مریم اور یحییٰ بن اسحاق سیلحینی نے یحییٰ بن ایوب سے روایت کیا ہے مگر اس کی سند میں بھی اختلاف ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨٧ (٥٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٦) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن یزید مجہول ہیں، اس میں ثقات کی مخالفت بھی ہے اس لئے یہ حدیث منکر بھی ہے )

【159】

جراب پر مسح کرنے کا بیان

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور دونوں جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن مہدی نہیں بیان کرتے تھے کیونکہ مغیرہ (رض) سے معروف و مشہور روایت یہی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث ابوموسیٰ اشعری (رض) سے بھی مروی ہے، اور ابوموسیٰ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے جرابوں پر مسح کیا، مگر اس کی سند نہ متصل ہے اور نہ قوی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : علی بن ابی طالب، ابن مسعود، براء بن عازب، انس بن مالک، ابوامامہ، سہل بن سعد اور عمرو بن حریث رضی اللہ عنہم نے جرابوں پر مسح کیا ہے، اور یہ عمر بن خطاب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٧٤ (٩٩) ، سنن النسائی/الطھارة ٩٦ (١٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨٨ (٥٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٢) (صحیح )

【160】

بلا ترجمہ

اوس بن ابی اوس ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور اپنے جوتوں اور دونوں پاؤں پر مسح کیا۔ عباد کی روایت میں ہے : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ ایک قوم کے کظامة یعنی وضو کی جگہ پر تشریف لائے۔ مسدد کی روایت میں ميضأة اور کظامة کا ذکر نہیں ہے، پھر آگے مسدد اور عباد دونوں کی روایتیں متفق ہیں کہ آپ ﷺ نے وضو کیا اور اپنے دونوں جوتوں اور دونوں پاؤں پر مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨) (صحیح )

【161】

موزوں پر مسح کا طریقہ

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ موزوں پر مسح کرتے تھے۔ اور محمد بن صباح کے علاوہ دوسرے لوگوں سے على ظهر الخفين‏.‏ (موزوں کی پشت پر) مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٩، سنن الترمذی/الطہارة ٧٣ (٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٥١٢) (حسن صحیح )

【162】

موزوں پر مسح کا طریقہ

علی (رض) کہتے ہیں اگر دین ( کا معاملہ) رائے اور قیاس پر ہوتا، تو موزے کے نچلے حصے پر مسح کرنا اوپری حصے پر مسح کرنے سے بہتر ہوتا، حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے دونوں موزوں کے اوپری حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٥، سنن الدارمی/ الطھارة ٤٣ (٧٤٢) (صحیح )

【163】

موزوں پر مسح کا طریقہ

اعمش سے یہی حدیث اس سند سے مروی ہے، اس میں ہے کہ علی (رض) نے کہا : میں دونوں پیروں کے تلوؤں کو دھونا ہی زیادہ مناسب سمجھتا رہا، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے دونوں موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٤) (صحیح )

【164】

موزوں پر مسح کا طریقہ

اس سند سے بھی اعمش سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ علی (رض) نے کہا : اگر دین (کا معاملہ) قیاس پر ہوتا تو دونوں قدموں کے نچلے حصے کا مسح ان کے اوپری حصے کے مسح سے زیادہ بہتر ہوتا، حالانکہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے دونوں موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کیا ہے۔ اور اسے وکیع نے بھی اعمش سے اسی سند سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ علی (رض) نے کہا : میں دونوں پیروں کے نچلے حصے کا مسح ان کے اوپری حصے کے مسح سے بہتر جانتا تھا، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان کے اوپری حصے پر مسح کرتے دیکھا۔ وکیع کا بیان ہے کہ لفظ قدمين سے مراد خفين ہے، وکیع ہی کی طرح اسے عیسیٰ بن یونس نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے، نیز اسے ابوالسوداء نے ابن عبد خیر سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے علی کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا تو اپنے دونوں پاؤں کے اوپری حصہ پر مسح کیا ١ ؎ اور کہا : اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے نہ دیکھا ہوتا، پھر ابوالسوداء نے پوری روایت آخر تک بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابوالسوداء کی روایت میں فغسل ظاهر قدميه کے الفاظ آئے ہیں، بظاہر یہاں ” غسل “ : ” مسح “ کے معنی میں ہے، واللہ اعلم۔

【165】

موزوں پر مسح کا طریقہ

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو غزوہ تبوک میں وضو کرایا، تو آپ نے دونوں موزوں کے اوپر اور ان کے نیچے مسح کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ثور نے یہ حدیث رجاء بن حیوۃ سے نہیں سنی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٧٢ (٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨٥ (٥٥٠) ، موطا امام مالک/الطھارة ٨ (٤١) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٣٧) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطھارة ٤١ (٧٤٠) (ضعیف) (سند میں انقطاع ہے جس کو مؤلف نے واضح کردیا ہے، اور دارمی کی روایت میں عموم ہے، اعلی واسفل کا ذکر نہیں ہے )

【166】

شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے دینے کا بیان

سفیان بن حکم ثقفی یا حکم بن سفیان ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب پیشاب کرتے تو وضو کرتے، اور (وضو کے بعد) شرمگاہ پر (تھوڑا) پانی چھڑک لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٠٢ (١٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٥٨ (٤٦١) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٧٩) (صحیح )

【167】

شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے دینے کا بیان

ثقیف کے ایک شخص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، ان کے والد کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے پیشاب کیا، پھر اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑکا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٣٤٢٠) (صحیح )

【168】

شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے دینے کا بیان

حکم یا ابن حکم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا، اور اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑکا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٣٤٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : وضو کے بعد تھوڑا سا پانی پاجامہ کی میانی پر چھڑک لے، تاکہ وہاں پیشاب کا قطرہ ہونے کا وسوسہ ختم ہوجائے، یہ وسوسہ دور کرنے کی عمدہ تدبیر ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو سکھلائی ہے۔

【169】

وضو کے بعد کی دعا

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنا کام خود کرتے تھے، باری باری اپنے اونٹوں کو چراتے تھے، ایک دن اونٹ چرانے کی میری باری آئی، میں انہیں شام کے وقت لے کر چلا، تو رسول اللہ ﷺ کو اس حال میں پایا کہ آپ لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے، میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تم میں سے جو شخص بھی وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے، پھر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پوری توجہ اور حضور قلب (دل جمعی) کے ساتھ ادا کرے تو اس نے (اپنے اوپر جنت) واجب کرلی ، میں نے کہا : واہ واہ یہ کیا ہی اچھی (بشارت) ہے، اس پر میرے سامنے موجود شخص نے عرض کیا : عقبہ ! جو بات رسول اللہ ﷺ نے اس سے پہلے فرمائی، وہ اس سے بھی زیادہ عمدہ تھی، میں نے دیکھا تو وہ عمر بن خطاب (رض) تھے، عرض کیا : ابوحفص ! وہ کیا تھی ؟ آپ نے کہا : تمہارے آنے سے پہلے ابھی رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرے، پھر وضو سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھے : أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جائیں گے، وہ جس دروازے سے چاہے داخل ہو ۔ معاویہ کہتے ہیں : مجھ سے ربیعہ بن یزید نے بیان کیا ہے، انہوں نے ابوادریس سے اور ابوادریس نے عقبہ بن عامر (رض) سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ٦ (٢٣٤) ، سنن النسائی/الطھارة ١١١ (١٥١) ، سنن الترمذی/الطھارة ٤١ (٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٦٠ (٤٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٩١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٦، ١٥١، ١٥٣) ، سنن الدارمی/الطھارة ٤٤ (٧٤٣) (صحیح )

【170】

وضو کے بعد کی دعا

اس سند سے بھی عقبہ بن عامر جہنی (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے ابوعقیل یا ان سے اوپر یا نیچے کے راوی نے اونٹوں کے چرانے کا ذکر نہیں کیا ہے، نیز آپ ﷺ کے قول : فأحسن الوضوء کے بعد یہ جملہ کہا ہے : پھر اس نے (یعنی وضو کرنے والے نے) اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور یہ دعا پڑھی ١ ؎۔ پھر ابوعقیل راوی نے معاویہ بن صالح کی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٩٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥٠) (ضعیف) (سند کے ایک راوی ابن عم ابوعقیل مبہم ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ ابوعقیل نے اپنی روایت میں اونٹ چرانے کے واقعے کا ذکر نہیں کیا ہے اور حدیث کی روایت ان الفاظ میں کی ہے : ما منکم من أحد يتوضأ فاحسن الوضوء ثم رفع بصره إلى السماء فقال أشهد أن لا إله إلا الله إلى آخر الحديث كما قال معاوية واللہ اعلم ، رہی آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے کی حکمت تو یہ شارع کو معلوم ہے۔

【171】

ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنے کا بیان

عمرو بن عامر بجلی (محمد بن عیسیٰ کہتے ہیں : عمرو بن عامر بجلی ابواسد بن عمرو ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے وضو کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : نبی اکرم ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، اور ہم لوگ ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطھارة ٥٤ (٢١٤) ، سنن الترمذی/الطھارة ٤٤ (٦٠) ، سنن النسائی/الطھارة ١٠١ (١٣١) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٢ (٥٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١١١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٣٢، ١٩٤، ٢٦٠، سنن الدارمی/الطھارة ٤٦ (٧٤٧) (صحیح )

【172】

ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنے کا بیان

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن ایک ہی وضو سے پانچ نمازیں ادا کیں، اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا، اس پر عمر (رض) نے آپ ﷺ سے کہا : میں نے آج آپ کو وہ کام کرتے دیکھا ہے جو آپ کبھی نہیں کرتے تھے ١ ؎ آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ٢٥ (٢٧٧) ، سنن الترمذی/الطھارة ٤٥ (٦١) ، سنن النسائی/الطھارة ١٠١ (١٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٢ (٥١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٠، ٣٥١، ٣٥٨) ، سنن الدارمی/الطھارة ٣ (٦٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایک ہی وضو سے کئی نماز پڑھنے کا کام۔

【173】

وضو میں کسی عضو کا خشک رہ جانا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس وضو کر کے آیا، اس نے اپنے پاؤں میں ناخن کے برابر جگہ (خشک) چھوڑ دی تھی، تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : تم واپس جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جریر بن حازم سے مروی یہ حدیث معروف نہیں ہے، اسے صرف ابن وہب نے روایت کیا ہے، اس جیسی حدیث معقل بن عبیداللہ جزری سے بھی مروی ہے، معقل ابوزبیر سے، ابوزبیر جابر سے، جابر عمر سے، اور عمر (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، اس میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا : تم واپس جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٣٩ (٦٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٤٦) ، وحدیث عمر أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٠ (٢٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٣٩ (٦٦٦) (صحیح )

【174】

وضو میں کسی عضو کا خشک رہ جانا

اس سند سے حسن (حسن بصری) نے نبی اکرم ﷺ سے قتادہ (قتادہ ابن دعامۃ) کی حدیث کے ہم معنی (مرسلاً ) روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٨٥١٢، ١٨٥٦٣) (صحیح )

【175】

وضو میں کسی عضو کا خشک رہ جانا

ایک صحابی رسول (رض) کا ارشاد ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا، اس کے پاؤں کے اوپری حصہ میں ایک درہم کے برابر حصہ خشک رہ گیا تھا، وہاں پانی نہیں پہنچا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے اسے وضو، اور نماز دونوں کے لوٹانے کا حکم دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبواداود، (تحفة الأشراف : ١٥٥٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : باب کی دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے صرف خشک جگہ دھونے کا حکم نہیں دیا ، بلکہ پورا وضو کرنے کا حکم دیا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کے اعضاء پے در پے مسلسل دھونے چاہئیں، اور ان کے درمیان فاصلہ نہیں ہونا چاہیے ، یعنی اعضاء وضو کے دھونے میں فصل جائز نہیں ، اس مسئلہ میں دونوں طرح کے اقوال ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ اگر زیادہ تاخیر نہ ہوئی ہو تو جائز ہے ورنہ نہیں۔

【176】

جب وضو ٹوٹنے میں شک ہو تو کیا کرے؟

عباد بن تمیم کے چچا (عبداللہ بن زید بن عاصم الانصاری رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے یہ شکایت کی گئی کہ آدمی کو کبھی نماز میں شبہ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ اسے خیال ہونے لگتا ہے (کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا) ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تک کہ وہ آواز نہ سن لے، یا بو نہ سونگھ لے، نماز نہ توڑے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤ (١٣٧) ، ٣٤ (١٧٧) ، البیوع ٥ (٢٠٥٦) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٦ (٣٦١) ، سنن النسائی/الطھارة ١١٥ (١٦٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٤ (٥١٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩، ٤٠) (صحیح )

【177】

جب وضو ٹوٹنے میں شک ہو تو کیا کرے؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز میں ہو پھر وہ اپنی سرین میں کچھ حرکت محسوس کرے، اور اسے شبہ ہوجائے کہ وضو ٹوٹا یا نہیں، تو جب تک کہ وہ آواز نہ سن لے، یا بو نہ سونگھ لے، نماز نہ توڑے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، تحفة (١٢٦٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٢٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٦ (٣٦٢) ، سنن الترمذی/الطھارة ٥٦ (٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٤ (٥١٦) ، مسند احمد (٤/٤١٤) ، سنن الدارمی/الطھارة ٤٧ (٧٤٨) (صحیح )

【178】

کیا عورت کا بوسہ لینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کا بوسہ لیا اور وضو نہیں کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے فریابی وغیرہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ مرسل ہے، ابراہیم تیمی کا ام المؤمنین عائشہ (رض) سے سماع ثابت نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابراہیم تیمی ابھی چالیس برس کے نہیں ہوئے تھے کہ ان کا انتقال ہوگیا تھا، ان کی کنیت ابواسماء تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٢١ (١٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩١٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطھارة ٦٣ (٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٦٩ (٥٠٢) ، مسند احمد (٦/٢١٠) (صحیح) (اگلی حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے ورنہ خود یہ سند منقطع ہے جیسا کہ مؤلف نے بیان کیا ہے )

【179】

کیا عورت کا بوسہ لینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی ایک بیوی کا بوسہ لیا، پھر نماز کے لیے نکلے اور (پھر سے) وضو نہیں کیا۔ عروہ کہتے ہیں : میں نے ان سے کہا : وہ بیوی آپ کے علاوہ اور کون ہوسکتی ہیں ؟ یہ سن کر وہ ہنسنے لگیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٧٣٧١) (صحیح )

【180】

کیا عورت کا بوسہ لینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے یہی حدیث مروی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یحییٰ بن سعید قطان نے ایک شخص سے کہا : میرے حوالہ سے بیان کرو کہ یہ دونوں حدیثیں یعنی ایک تو یہی اعمش کی حدیث جو حبیب سے مروی ہے، دوسری وہ جو اسی سند سے مستحاضہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے وضو کرے گی لا شىء کے مشابہ ہے (یعنی یہ دونوں حدیثیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ثوری سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم سے حبیب نے صرف عروہ مزنی کے طریق سے بیان کیا، یعنی ان لوگوں سے حبیب نے عروہ بن زبیر کے واسطہ سے کچھ نہیں بیان کیا ہے (یعنی : عروہ بن زبیر سے حبیب کی روایت ثابت نہیں) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : لیکن حمزہ زیات نے حبیب سے، حبیب نے عروہ بن زبیر سے، عروہ نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے ایک صحیح حدیث روایت کی ہے (یعنی : عروہ بن زبیر سے حبیب کی روایت صحیح ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٨٧٦٨، ١٧٣٧١) (صحیح )

【181】

شرمگاہ کو چھونے سے وضو کے ٹوٹ جانے کا بیان

عبداللہ بن ابی بکر کہتے ہیں کہ انہوں نے عروہ کو کہتے سنا : میں مروان بن حکم کے پاس گیا اور ان چیزوں کا تذکرہ کیا جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، تو مروان نے کہا : اور عضو تناسل چھونے سے بھی (وضو ہے) ، اس پر عروہ نے کہا : مجھے یہ معلوم نہیں، تو مروان نے کہا : مجھے بسرہ بنت صفوان (رض) نے خبر دی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو اپنا عضو تناسل چھوئے وہ وضو کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٦١ (٨٢) ، سنن النسائی/الطھارة ١١٨ (١٦٣) ، الغسل ٣٠ (٤٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٦٣ (٤٧٩) ، موطا امام مالک/الطھارة ١٥(٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٠٦، ٤٠٧) ، سنن الدارمی/الطھارة ٥٠ (٧٥١) (صحیح )

【182】

شرمگاہ کو چھونے سے وضو کے نہ ٹوٹنے کا بیان

طلق بن علی (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اتنے میں ایک شخص آیا وہ دیہاتی لگ رہا تھا، اس نے کہا : اللہ کے نبی ! وضو کرلینے کے بعد آدمی کے اپنے عضو تناسل چھونے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ تو اسی کا ایک لوتھڑا ہے ، یا کہا : ٹکڑا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٦٢ (٨٥) ، سنن النسائی/الطھارة ١١٩ (١٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٦٤ (٤٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢، ٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : طلق بن علی (رض) کی حدیث میں عضو تناسل کے چھونے سے وضو نہ ٹوٹنے کی دلیل ہے ، جب کہ بسرہ بنت صفوان (رض) کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عضو تناسل کے مس (چھونے) کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، دونوں حدیثیں صحیح ہیں ، اس لئے علماء نے ان دونوں کے درمیان تطبیق و توفیق کی صورت یہ نکالی ہے کہ عضو تناسل پر پردہ ہو تو وضو نہیں ٹوٹے گا، اور پردہ نہ ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ طلق بن علی کی حدیث کے الفاظ الرجل يمس ذكره في الصلاة سے یہی مفہوم نکلتا ہے، دوسری صورت تطبیق کی یہ ہے کہ اگر شہوت کے ساتھ ہے تو ناقض وضو ہے بصورت دیگر نہیں ، واللہ اعلم بالصواب۔

【183】

شرمگاہ کو چھونے سے وضو کے نہ ٹوٹنے کا بیان

مسدد کا بیان ہے کہ ہم سے محمد بن جابر نے بیان کیا ہے، محمد بن جابر نے قیس بن طلق سے، قیس نے اپنے والد طلق سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے، اور اس میں في الصلاة کا اضافہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٥٠٢٣) (صحیح )

【184】

اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو لازم ہونے کا بیان

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کے متعلق سوال کیا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس سے وضو کرو ، اور بکری کے گوشت کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس سے وضو نہ کرو ، آپ سے اونٹ کے باڑے (بیٹھنے کی جگہ) میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم اونٹ کے بیٹھنے کی جگہ میں نماز نہ پڑھو کیونکہ وہ شیاطین میں سے ہے ، اور آپ سے بکریوں کے باڑے (رہنے کی جگہ) میں نماز پڑھنے کے سلسلہ میں پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس میں نماز پڑھو کیونکہ وہ برکت والی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٦٠ (٨١) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٦٧ (٤٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٨) ، ویأتی المؤلف برقم : (٤٩٣) (صحیح )

【185】

کچا گوشت چھونے سے وضو کرنے یا ہاتھ دھونے کا بیان

ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر ایک لڑکے کے پاس سے ہوا، وہ ایک بکری کی کھال اتار رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : تم ہٹ جاؤ، میں تمہیں (عملی طور پر کھال اتار کر) دکھاتا ہوں ، چناچہ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ کھال اور گوشت کے درمیان داخل کیا، اور اسے دبایا یہاں تک کہ آپ کا ہاتھ بغل تک چھپ گیا، پھر آپ ﷺ تشریف لے گئے، اور لوگوں کو نماز پڑھائی اور (پھر سے) وضو نہیں کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عمرو نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ آپ ﷺ نے پانی چھوا تک نہیں، نیز عمرو نے اپنی روایت میں أخبرنا هلال بن ميمون الجهني کے بجائے عن هلال بن ميمون الرملي (بصیغہ عنعنہ) کہا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسے عبدالواحد بن زیاد اور ابومعاویہ نے ہلال سے، ہلال نے عطاء سے، عطاء نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے، اور ابوسعید (صحابی) کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الذبائح ٦ (٣١٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥٨) (صحیح )

【186】

مردہ کو چھونے سے وضو لازم نہیں ہوتا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ کے قریب کی بستیوں میں سے ایک بستی کی طرف سے داخل ہوتے ہوئے بازار سے گزرے، اور لوگ آپ ﷺ کے ساتھ آپ کے دائیں بائیں جانب ہو کر چل رہے تھے، آپ چھوٹے کان والی بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے گزرے، آپ ﷺ نے اس کا کان پکڑ کر اٹھایا، پھر فرمایا : تم میں سے کون شخص اس کو لینا چاہے گا ؟ ، اور راوی نے پوری حدیث بیان کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزھد ١ (٢٩٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦٥) ، والبخاری فی الأدب المفرد (٩٦٢) من حدیث جعفر (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ حلال جانوروں کے مردار کا چھونا جائز ہے، اور اس کے چھونے سے دوبارہ وضو کی حاجت نہیں۔

【187】

آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو لازم نہ ہونے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بکری کے دست کا گوشت کھایا، پھر نماز پڑھی، اور وضو نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٤ (٣٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ١٥ (٢٠٧) ، سنن النسائی/الطھارة ١٢٣ (١٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٦٦ (٤٨٨) ، موطا امام مالک/الطھارة ٥(١٩) ، مسند احمد (١/٢٢٦) (صحیح )

【188】

آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو لازم نہ ہونے کا بیان

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک رات نبی اکرم ﷺ کا مہمان ہوا تو آپ نے بکری کی ران بھوننے کا حکم دیا، وہ بھونی گئی، آپ ﷺ نے چھری لی، اور میرے لیے اس میں سے گوشت کاٹنے لگے، اتنے میں بلال (رض) آئے، اور آپ ﷺ کو نماز کی خبر دی، تو آپ نے چھری رکھ دی، اور فرمایا : اسے کیا ہوگیا ؟ اس کے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں ؟ ، اور اٹھ کر نماز پڑھنے کھڑے ہوئے۔ انباری کی روایت میں اتنا اضافہ ہے : میری موچھیں بڑھ گئی تھیں، تو آپ ﷺ نے مونچھوں کے تلے ایک مسواک رکھ کر ان کو کتر دیا ، یا فرمایا : میں ایک مسواک رکھ کر تمہارے یہ بال کتر دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : * تخريج : تفرد بہ أبو داود، سنن الترمذی/الشمائل (١٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اسے اتنی جلدی پڑی تھی کہ میرے کھانے سے فارغ ہوجانے کا انتظار تک نہیں کیا۔

【189】

آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو لازم نہ ہونے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بکری کا شانہ کھایا پھر اپنا ہاتھ اس ٹاٹ سے پوچھا جو آپ کے نیچے بچھا ہوا تھا، پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٦٦ (٤٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٦١١٠) (صحیح )

【190】

آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو لازم نہ ہونے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بکری کے دست کا گوشت نوچ کر کھایا پھر نماز پڑھی اور (دوبارہ) وضو نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ٦٥٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٧٩، ٣٦١) (صحیح )

【191】

آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو لازم نہ ہونے کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو روٹی اور گوشت پیش کیا، تو آپ نے کھایا، پھر وضو کے لیے پانی منگایا، اور اس سے وضو کیا، پھر ظہر کی نماز ادا کی، پھر اپنا بچا ہوا کھانا منگایا اور کھایا، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور (دوبارہ) وضو نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٠٦٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٥٣ (٥٤٥٧) ، سنن الترمذی/الطھارة ٥٩ (٨٠) ، سنن النسائی/الطھارة ١٢٣ (١٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٦٦ (٤٨٩) ، مسند احمد (٣/٣٢٢) (صحیح )

【192】

آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو لازم نہ ہونے کا بیان

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا آخری فعل یہی تھا کہ آپ آگ کی پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضو نہیں کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ پہلی حدیث کا اختصار ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الطہارة ١٢٣ (١٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٤٧) (صحیح )

【193】

آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو لازم نہ ہونے کا بیان

عبید بن ثمامہ مرادی کا بیان ہے کہ صحابی رسول عبداللہ بن حارث بن جزء (رض) مصر میں ہمارے پاس آئے، تو میں نے ان کو مصر کی مسجد میں حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا : ایک آدمی کے گھر میں مجھ سمیت سات یا چھ اشخاص رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ موجود تھے کہ اتنے میں بلال (رض) گزرے اور آپ کو نماز کے لیے آواز دی، ہم نکلے اور راستے میں ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جس کی ہانڈی آگ پر چڑھی ہوئی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے اس آدمی سے پوچھا : کیا تمہاری ہانڈی پک گئی ؟ ، اس نے جواب دیا : ہاں، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، پھر آپ ﷺ نے اس ہانڈی سے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اس کو چباتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے نماز کے لیے تکبیر (تحریمہ) کہی اور میں آپ کو دیکھ رہا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٢٣٣) (ضعیف) (اس کا راوی عبید بن ثمامہ لَیِّن الحدیث ہے )

【194】

آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو لازم ہونے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آگ پر پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضو ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٤٧٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٣ (٣٥٢) ، سنن الترمذی/الطھارة ٥٨ (٧٩) ، سنن النسائی/الطھارة ١٢٢ (١٧١، ١٧٢، ١٧٣، ١٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٦٥ (٤٨٥) ، مسند احمد (٢/٤٥٨، ٥٠٣، ٥٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حکم پہلے تھا بعد میں منسوخ ہوگیا ، ناسخ احادیث پہلے گزر چکی ہیں۔

【195】

آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو لازم ہونے کا بیان

ابوسفیان بن سعید بن مغیرہ کا بیان ہے کہ وہ ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) کے پاس آئے، تو ام حبیبہ (رض) نے انہیں ایک پیالہ ستو پلایا، پھر (ابوسفیان) نے پانی منگا کر کلی کی، ام حبیبہ (رض) نے کہا : میرے بھانجے ! تم وضو کیوں نہیں کرتے ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے : جنہیں آگ نے بدل ڈالا ہو ، یا فرمایا : جنہیں آگ نے چھوا ہو، ان چیزوں سے وضو کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : زہری کی حدیث میں لفظ : يا ابن أخي اے میرے بھتیجے ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٢٢ (١٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٢٦، ٣٢٧) (صحیح )

【196】

دودھ پی کلی کرنے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دودھ پیا، پھر پانی منگا کر کلی کی اور فرمایا : اس میں چکنائی ہوتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٢ (٢١١) ، والأشربة ١٢ (٥٦٠٩) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٤ (٣٥٨) ، سنن الترمذی/الطھارة ٦٦ (٨٩) ، سنن النسائی/الطھارة ١٢٥ (١٨٧) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٦٨ (٤٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٣، ٢٢٧، ٣٢٩، ٣٣٧، ٣٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : لیکن ایسا کرنا مستحب ہے واجب نہیں ہے ، جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔

【197】

دودھ پی کر کلی نہ کرنے کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دودھ پیا پھر نہ کلی کی اور نہ (دوبارہ) وضو کیا اور نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٥٨) (حسن )

【198】

خون نکلنے سے وضو ٹوٹنے کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں نکلے، تو ایک مسلمان نے کسی مشرک کی عورت کو قتل کردیا، اس مشرک نے قسم کھائی کہ جب تک میں محمد ﷺ کے اصحاب میں سے کسی کا خون نہ بہا دوں باز نہیں آسکتا، چناچہ وہ (اسی تلاش میں) نکلا اور نبی اکرم ﷺ کے نقش قدم ڈھونڈتے ہوئے آپ کے پیچھے پیچھے چلا، نبی اکرم ﷺ ایک منزل میں اترے، اور فرمایا : ہماری حفاظت کون کرے گا ؟ ، تو ایک مہاجر اور ایک انصاری اس مہم کے لیے مستعد ہوئے، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : تم دونوں گھاٹی کے سرے پر رہو ، جب دونوں گھاٹی کے سرے کی طرف چلے (اور وہاں پہنچے) تو مہاجر (صحابی) لیٹ گئے، اور انصاری کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، وہ مشرک آیا، جب اس نے (دور سے) اس انصاری کے جسم کو دیکھا تو پہچان لیا کہ یہی قوم کا محافظ و نگہبان ہے، اس کافر نے آپ پر تیر چلایا، جو آپ کو لگا، تو آپ نے اسے نکالا، یہاں تک کہ اس نے آپ کو تین تیر مارے، پھر آپ نے رکوع اور سجدہ کیا، پھر اپنے مہاجر ساتھی کو جگایا، جب اسے معلوم ہوا کہ یہ لوگ ہوشیار اور چوکنا ہوگئے ہیں، تو بھاگ گیا، جب مہاجر نے انصاری کا خون دیکھا تو کہا : سبحان اللہ ! آپ نے پہلے ہی تیر میں مجھے کیوں نہیں بیدار کیا ؟ تو انصاری نے کہا : میں (نماز میں قرآن کی) ایک سورة پڑھ رہا تھا، مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میں اسے بند کروں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٤٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٤٣، ٣٥٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث واضح طور سے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ پیشاب اور پاخانہ کے مقام کے علاوہ جسم کے کسی اور مقام سے خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، خواہ خون اپنے نکلنے کی جگہ تک رہ جائے یا وہاں سے بہہ نکلے، یہی اکثر علماء کا قول ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ زخم کا خون زخمیوں کے لئے پاک ہے، یہ مالکیہ کا مذہب ہے اور یہی صحیح ہے۔

【199】

کیا سونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نے لشکر کی تیاری میں مصروفیت کی بناء پر عشاء کی نماز میں دیر کردی، یہاں تک کہ ہم مسجد میں سو گئے، پھر جاگے پھر سو گئے، پھر جاگے پھر سو گئے، پھر آپ ﷺ نکلے اور فرمایا : (اس وقت) تمہارے علاوہ کوئی اور نماز کا انتظار نہیں کر رہا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مواقیت الصلاة ٢٤ (٥٧٠) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨٨، ١٢٦) (صحیح )

【200】

کیا سونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب عشاء کی نماز کا انتظار کرتے تھے، یہاں تک کہ ان کے سر (نیند کے غلبہ سے) جھک جھک جاتے تھے، پھر وہ نماز ادا کرتے اور (دوبارہ) وضو نہیں کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس میں شعبہ نے قتادہ سے یہ اضافہ کیا ہے کہ : ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نماز کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے نیند کے غلبہ کی وجہ سے جھک جھک جاتے تھے، اور اسے ابن ابی عروبہ نے قتادہ سے دوسرے الفاظ میں روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود (تحفة الأشراف : ١٣٨٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٣٣ (٣٧٦) ، سنن الترمذی/الطھارة ٥٧ (٧٨) (صحیح )

【201】

کیا سونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں عشاء کی نماز کی اقامت کہی گئی، اتنے میں ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے، اور کھڑے ہو کر آپ سے سرگوشی کرنے لگا یہاں تک کہ لوگوں کو یا بعض لوگوں کو نیند آگئی، پھر آپ ﷺ نے انہیں نماز پڑھائی۔ ثابت بنانی نے وضو کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٣٣(٣٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦٠، ٢٦٨) (صحیح )

【202】

کیا سونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سجدہ کرتے اور (سجدہ میں) سو جاتے، اور خراٹے لینے لگتے تھے، پھر اٹھتے اور نماز پڑھتے، اور وضو نہیں کرتے تھے، (ایک بار) میں نے آپ ﷺ سے کہا : آپ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا، حالانکہ آپ سو گئے تھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وضو تو اس شخص پر (لازم آتا) ہے جو لیٹ کر سوئے ۔ عثمان اور ہناد نے فإنه إذا اضطجع استرخت مفاصله (کیونکہ جب کوئی چت لیٹ کر سوتا ہے تو اس کے اعضاء اور جوڑ ڈھیلے ہوجاتے ہیں) کا اضافہ کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ حدیث کا یہ ٹکڑا : وضو اس شخص پر لازم ہے جو چت لیٹ کر سوئے منکر ہے، اسے صرف یزید ابوخالد دالانی نے قتادہ سے روایت کیا ہے، اور حدیث کے ابتدائی حصہ کو ایک جماعت نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے، ان لوگوں نے اس میں سے کچھ ذکر نہیں کیا ہے۔ نیز ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اس طرح (غفلت) کی نیند سے محفوظ تھے۔ اور ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں، لیکن میرا دل نہیں سوتا ۔ اور شعبہ کہتے ہیں کہ قتادہ نے ابوالعالیہ سے صرف چار حدیثیں سنی ہیں : ایک یونس بن متی کی، دوسری ابن عمر (رض) کی جو نماز کے باب میں مروی ہے، تیسری حدیث القضاة ثلاثة ہے، اور چوتھی ابن عباس (رض) کی حدیث : حدثني رجال مرضيون منهم عمر وأرضاهم عندي عمر ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے یزید دالانی کی روایت کا احمد بن حنبل سے ذکر کیا، تو انہوں نے مجھے اسے بڑی بات سمجھتے ہوئے ڈانٹا : اور کہا یزید دالانی کو کیا ہے ؟ وہ قتادہ کے شاگردوں کی طرف ایسی باتیں منسوب کردیتے ہیں جنہیں ان لوگوں نے روایت نہیں کی ہیں، امام احمد نے (دالانی کے ضعیف ہونے کی وجہ سے) اس حدیث کی پرواہ نہیں کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٥٧ (٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥٦) (ضعیف) (مؤلف نے سبب ضعف بیان کردیا ہے )

【203】

کیا سونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سرین کا بندھن دونوں آنکھیں (بیداری) ہیں، پس جو سو جائے وہ وضو کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٦٢ (٤٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١١١، ٤/٩٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : جمہور علماء کے نزدیک گہری نیند وضو کی ناقض یعنی توڑ دینے والی ہے ، اور ہلکی نیند وضو نہیں توڑتی ، کتب احکام میں قلیل و کثیر ( ہلکی اور گہری نیند) کی تحدید میں قدرے تفصیل بھی مذکور ہے ، صفوان بن عسال (رض) کی حدیث سے ثابت ہے کہ نیند پاخانہ اور پیشاب کی طرح ناقض وضو ہے ، جبکہ انس (رض) کی حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عشاء کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے سو جاتے ، پھر بلاوضو جدید نماز ادا کرتے تھے ، اس سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ ہلکی نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا۔

【204】

کیا نجاست پر چلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم راستہ میں چل کر پاؤں نہیں دھلتے تھے، اور نہ ہی ہم بالوں اور کپڑوں کو سمیٹتے تھے (یعنی اسی طرح نماز پڑھ لیتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث ابراہیم بن أبی معاویة عن أبی معاویة تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٥٦٤) ، وحدیث ہناد عن أبی معاویة و عثمان عن شریک وجریر و عبداللہ بن ادریس، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٠٩ (١٤٣) تعلیقًا : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٧ (١٠٤١) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٦٨) (صحیح )

【205】

نماز کے درمیان وضو ٹوٹ جانے کا بیان

علی بن طلق (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو نماز میں ہوا خارج ہوجائے تو وہ نماز چھوڑ کر چلا جائے، پھر وضو کرے، اور نماز کا اعادہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الرضاع ١٢ (١١٦٤) ، سنن النسائی/الکبری، عشرة النساء (٩٠٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٤٤) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطھارة ١١٤ (١١٨١) ، مسند احمد (١/٨٦) ویأتي عند المؤلف برقم : ١٠٠٥ (ضعیف) (اس کے دو راوی عیسیٰ اور مسلم لَیِّن الحدیث ہیں )

【206】

مذی کا بیان

علی (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا آدمی تھا جسے مذی ١ ؎ بہت نکلا کرتی تھی، تو میں باربار غسل کرتا تھا، یہاں تک کہ میری پیٹھ پھٹ گئی ٢ ؎ تو میں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا، یا آپ سے اس کا ذکر کیا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم ایسا نہ کرو، جب تم مذی دیکھو تو صرف اپنے عضو مخصوص کو دھو ڈالو اور وضو کرلو، جیسے نماز کے لیے وضو کرتے ہو، البتہ جب پانی ٣ ؎ اچھلتے ہوئے نکلے تو غسل کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١١١ (١٥٢) ، والغسل ٢٨ (٤٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ١٣(٢٦٩) ، سنن الترمذی/الطھارة ٨٣ (١١٤) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٠ (٥٠٤) ، مسند احمد (١/١٠٩، ١٢٥، ١٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مذی ایسی رطوبت کو کہتے ہیں جو عورت سے بوس وکنار کے وقت مرد کے ذکر سے بغیر اچھلے نکلتی ہے۔ ٢ ؎ : یعنی ٹھنڈے پانی سے غسل کرتے کرتے پیٹھ کی کھال پھٹ گئی، جیسے سردی میں ہاتھ پاؤں پھٹ جاتے ہیں۔ ٣ ؎ : اس سے مراد منی ہے یعنی وہ رطوبت جو شہوت کے وقت اچھل کر نکلتی ہے۔

【207】

مذی کا بیان

مقداد بن اسود (رض) کہتے ہیں کہ علی (رض) نے انہیں رسول اللہ ﷺ سے (اپنے لیے) یہ مسئلہ پوچھنے کا حکم دیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جائے اور مذی نکل آئے تو کیا کرے ؟ (انہوں نے کہا) چونکہ میرے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) ہیں، اس لیے مجھے آپ سے یہ مسئلہ پوچھنے میں شرم آتی ہے۔ مقداد (رض) کہتے ہیں : تو میں نے جا کر پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اسے پائے تو اپنی شرمگاہ کو دھو ڈالے اور وضو کرے جیسے نماز کے لیے وضو کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ١١٢ (١٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٠ (٥٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٤٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ٨٣ (١٥٦) ، موطا امام مالک/الطہارة ١٣ (٥٣) ، مسند احمد (٦/٤، ٥) (صحیح )

【208】

مذی کا بیان

عروہ سے روایت ہے کہ علی بن ابی طالب (رض) نے مقداد (رض) سے کہا، پھر راوی نے آگے اسی طرح کی روایت ذکر کی، اس میں ہے کہ مقداد نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چاہیئے کہ وہ شرمگاہ (عضو مخصوص) اور فوطوں کو دھو ڈالے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ثوری اور ایک جماعت نے ہشام سے، ہشام نے اپنے والد عروہ سے، عروہ نے مقداد (رض) سے، مقداد (رض) نے علی (رض) سے، اور علی (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ١١٢ (١٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٢٤) (صحیح )

【209】

مذی کا بیان

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے مقداد (رض) سے کہا، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسے مفضل بن فضالہ، ایک جماعت، ثوری اور ابن عیینہ نے ہشام سے، ہشام نے اپنے والد عروہ سے، عروہ نے علی بن ابی طالب سے روایت کیا ہے، نیز اسے ابن اسحاق نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد عروہ سے، عروہ نے مقداد (رض) سے اور مقداد نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، مگر اس میں لفظ أنثييه دونوں فوطوں کا ذکر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٠٢٤١) (صحیح )

【210】

مذی کا بیان

سہل بن حنیف (رض) کہتے ہیں کہ مجھے مذی سے بڑی تکلیف ہوتی تھی، باربار غسل کرتا تھا، لہٰذا میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا : اس میں صرف وضو کافی ہے ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! کپڑے میں جو لگ جائے اس کا کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ایک چلو پانی لے کر کپڑے پر جہاں تم سمجھو کہ مذی لگ گئی ہے چھڑک لو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٨٤ (١١٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٠ (٥٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٨٥، سنن الدارمی/الطھارة ٤٩ (٧٥٠) (حسن )

【211】

مذی کا بیان

عبداللہ بن سعد انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس چیز کے بارے میں پوچھا جو غسل کو واجب کرتی ہے، اور اس پانی کے بارے میں پوچھا جو غسل کے بعد عضو مخصوص سے نکل آئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہی مذی ہے، اور ہر مرد کو مذی نکلتی ہے، لہٰذا تم اپنی شرمگاہ اور اپنے دونوں فوطوں کو دھو ڈالو، اور وضو کرو جیسے نماز کے لیے وضو کرتے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٣٢٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطھارة ١٠٠ (١٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٣٠ (٦٥١) ، مسند احمد (٤/٣٤٢، ٥/٢٩٣) (صحیح )

【212】

حائضہ عورت کے ساتھ کھانے پینے اور مباشرت کا حکم

عبداللہ بن سعد انصاری (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : جب میری بیوی حائضہ ہو تو اس کی کیا چیز میرے لیے حلال ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے لنگی (تہبند) کے اوپر والے حصہ (سے لطف اندوز ہونا) درست ہے ، نیز اس کے ساتھ حائضہ کے ساتھ کھانے کھلانے کا بھی ذکر کیا، پھر راوی نے (سابقہ) پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ١٠٠(١٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٣٠ (٦٥١) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٢٦) (صحیح )

【213】

حائضہ عورت کے ساتھ کھانے پینے اور مباشرت کا حکم

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : مرد کے لیے اس کی حائضہ بیوی کی کیا چیز حلال ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : لنگی (تہبند) کے اوپر کا حصہ (اس سے لطف اندوز ہونا) جائز ہے، لیکن اس سے بھی بچنا افضل ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث قوی نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٣٣٢) (ضعیف) (سعدالأغطش لین الحدیث اور بقیہ مدلس ہیں )

【214】

غسل دخول سے واجب ہوتا ہے یا انزال سے

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو یہ رخصت ابتدائے اسلام میں کپڑوں کی کمی کی وجہ سے دی تھی (کہ اگر کوئی دخول کرے اور انزال نہ ہو تو غسل واجب نہ ہوگا) پھر آپ ﷺ نے صرف دخول کرنے اور انزال نہ ہونے کی صورت میں غسل کرنے کا حکم فرما دیا، اور غسل نہ کرنے کو منع فرما دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نهى عن ذلك یعنی ممانعت سے مراد الماء من الماء (غسل منی نکلنے کی صورت میں واجب ہے) والی حدیث پر عمل کرنے سے منع کردیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٨١ (١١٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١١ (٦٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ١٢ (٢٦٧) ، صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٩) ، سنن النسائی/الطہارة ١٧٠ (٢٦٤ ، ٢٦٥) ، مسند احمد (٥/١١٥، ١١٦) ، سنن الدارمی/الطھارة ٧٤ (٧٨٦) (صحیح) (اگلی سند نیز دیگر اسانید سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ مؤلف کی سند میں ایک مبہم راوی ہیں، علماء کی تصریح کے مطابق یہ مبہم راوی ابوحازم ہیں، نیز زہری خود سہل سے بھی براہ راست روایت کرتے ہیں) ، (دیکھئے حاشیہ ترمذی از علامہ احمد محمد شاکر) ۔

【215】

غسل دخول سے واجب ہوتا ہے یا انزال سے

سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ ابی بن کعب (رض) نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو یہ فتوی دیا کرتے تھے کہ منی کے انزال ہونے پر ہی غسل واجب ہوتا ہے، یہ رخصت رسول اللہ ﷺ نے ابتدائے اسلام میں دی تھی پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے غسل کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٢٧) (صحیح )

【216】

غسل دخول سے واجب ہوتا ہے یا انزال سے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب مرد عورت کی چاروں شاخوں (دونوں پنڈلیوں اور دونوں رانوں یا دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں) کے درمیان بیٹھے اور مرد کا ختنہ عورت کے ختنہ سے مل جائے (یعنی مرد کے عضو تناسل کی سپاری عورت کی شرمگاہ کے اندر داخل ہوجائے) تو غسل واجب ہوگیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٢٨ (٢٩١) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٢ (٣٤٨) ، سنن النسائی/الطھارة ١٢٩ (١٩١) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١١ (٦١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٤، ٢٤٧، ٣٩٣، ٤٧١، ٥٢٠) ، سنن الدارمی/الطھارة ٧٥ (٧٨٨) (صحیح )

【217】

غسل دخول سے واجب ہوتا ہے یا انزال سے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانی پانی سے ہے (یعنی منی نکلنے سے غسل واجب ہوتا ہے) اور ابوسلمہ ایسا ہی کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢١ (٣٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩، ٣٦، ٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ وہ اسے منسوخ نہیں مانتے تھے۔

【218】

کیا جنبی غسل سے پہلے دوسرا جماع کرسکتا ہے؟

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن ایک ہی غسل سے اپنی تمام بیویوں کے پاس گئے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسی طرح اسے ہشام بن زید نے انس سے اور معمر نے قتادہ سے، اور قتادہ نے انس سے اور صالح بن ابی الاخضر نے زہری سے اور ان سب نے انس (رض) سے اور انس نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٧٠ (١٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٣، ٥٦٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ١٢ (٢٦٨) ، ١٧ (٢٧٥) ، والنکاح ٤ (٥٠٦٨) ، ١٠٢ (٥٢١٥) ، صحیح مسلم/الطہارة ٦ (٣٠٩) ، سنن الترمذی/الطھارة ١٠٦ (١٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٠١ (١٤٠) ، مسند احمد (٣/٢٢٥، سنن الدارمی/الطھارة ٧١ (٧٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی سب سے صحبت کی، اور پھر آخر میں غسل کیا۔

【219】

جنبی دوبارہ جماع کرنا چاہے تو وضو کرے

ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک دن اپنی بیویوں کے پاس گئے، ہر ایک کے پاس غسل کرتے تھے ١ ؎۔ ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے کہا : اللہ کے رسول ! ایک ہی بار غسل کیوں نہیں کرلیتے ؟ آپ نے فرمایا : یہ زیادہ پاکیزہ، عمدہ اور اچھا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : انس (رض) کی روایت اس سے زیادہ صحیح ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٠٢ (٥٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨، ٩، ٣٩١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہر ایک سے جماع کر کے غسل کرتے تھے۔ ٢ ؎ : یعنی اس سے پہلے والی حدیث (٢١٨) ۔

【220】

جنبی دوبارہ جماع کرنا چاہے تو وضو کرے

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جائے ١ ؎ پھر دوبارہ صحبت کرنا چاہے، تو ان دونوں کے درمیان وضو کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٦ (٣٠٨) ، سنن الترمذی/الطھارة ١٠٧ (١٤١) ، سنن النسائی/الطھارة ١٦٩ (٢٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٠٠ (٥٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٧، ٢١، ٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی صحبت کرے۔

【221】

جنابت کے بعد غسل سے پہلے سونا جائز ہے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا کہ مجھے رات کو جنابت لاحق ہوجاتی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : وضو کرلو، اور اپنا عضو تناسل دھو کر سو جاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٢٧ (٢٩٠) ، صحیح مسلم/الطہارة ٦ (٣٠٦) ، سنن النسائی/الطھارة ١٦٧، (٢٦١) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٢٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٩٩ (٥٨٥) ، موطا امام مالک/الطہارة ١٩(٧٦) ، مسند احمد (٢/٦٤) ، سنن الدارمی/الطھارة ٧٣ (٧٨٣) (صحیح )

【222】

جنابت کی حالت میں کھانا پینا جائز ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ حالت جنابت میں جب سونے کا ارادہ کرتے تو وضو کرلیتے، جیسے نماز کے لیے وضو کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٦ (٣٠٥) ، سنن النسائی/الطھارة ١٦٤ (٢٥٦) ، ١٦٥ (٢٥٧) ، ١٦٦ (٢٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٩٩ (٥٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ٢٥ (٢٨٦) ، مسند احمد (٦/٨٥) ، سنن الدارمی/الطھارة ٧٣ (٧٨٤) (صحیح )

【223】

جنابت کی حالت میں کھانا پینا جائز ہے

اس سند سے بھی زہری سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ جب آپ ﷺ کھانے کا ارادہ کرتے اور جنبی ہوتے، تو اپنے ہاتھ دھوتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن وہب نے بھی یونس سے روایت کیا ہے، اور کھانے کے تذکرہ کو ام المؤمنین عائشہ (رض) کا قول قرار دیا ہے، نیز اسے صالح بن ابی الاخضر نے بھی زہری سے روایت کیا ہے، جیسے ابن مبارک نے کیا ہے، مگر اس میں عن عروة أو أبي سلمة (شک کے ساتھ) ہے نیز اسے اوزاعی نے بھی یونس سے، یونس نے زہری سے، اور زہری نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے، جیسے ابن مبارک نے کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٩) (صحیح )

【224】

جنبی کھانا کھائے یا سوئے تو پہلے وضو کرلے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب کھانے یا سونے کا ارادہ کرتے اور آپ حالت جنابت میں ہوتے، تو وضو کرلیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٦(٣٠٥) ، سنن النسائی/الطہارة ١٦٣ (٢٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٠٣ (٥٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢٦، ١٩١، ١٩٢) (صحیح )

【225】

جنبی کھانا کھائے یا سوئے تو پہلے وضو کرلے

عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جنبی کو رخصت دی ہے کہ جب وہ کھانے پینے یا سونے کا ارادہ کرے تو وضو کرلے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یحییٰ بن یعمر اور عمار بن یاسر (رض) کے درمیان اس حدیث میں ایک اور شخص ہے، علی بن ابی طالب، ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم نے کہا ہے کہ جنبی جب کھانے کا ارادہ کرے تو وضو کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجمعة ٧٨ (٦١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢٠) (ضعیف) (اس میں دو علتیں ہیں : سند میں انقطاع ہے اور عطاء خراسانی ضعیف ہیں )

【226】

جنبی غسل کرنے میں تاخیر کرسکتا ہے

غضیف بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے کہا : آپ نے رسول اللہ ﷺ کو رات کے پہلے حصہ میں غسل جنابت کرتے ہوئے دیکھا ہے یا آخری حصہ میں ؟ کہا : کبھی آپ رات کے پہلے حصہ میں غسل فرماتے، کبھی آخری حصہ میں، میں نے کہا : اللہ اکبر ! شکر ہے اس اللہ کا جس نے اس معاملہ میں وسعت رکھی ہے۔ پھر میں نے کہا : آپ نے رسول اللہ ﷺ کو رات کے پہلے حصہ میں وتر پڑھتے دیکھا ہے یا آخری حصہ میں ؟ کہا : کبھی آپ ﷺ رات کے پہلے حصہ میں پڑھتے تھے اور کبھی آخری حصہ میں، میں نے کہا : اللہ اکبر ! اس اللہ کا شکر ہے جس نے اس معاملے میں وسعت رکھی ہے۔ پھر میں نے پوچھا : آپ نے رسول اللہ ﷺ کو قرآن زور سے پڑھتے دیکھا ہے یا آہستہ سے ؟ کہا : کبھی آپ ﷺ زور سے پڑھتے اور کبھی آہستہ سے، میں نے کہا : اللہ اکبر ! اس اللہ کا شکر ہے جس نے اس امر میں وسعت رکھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٤١ (٢٢٣) ، والغسل ٦ (٤٠٤) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٧٩(١٣٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٢٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٧) (صحیح )

【227】

جنبی غسل کرنے میں تاخیر کرسکتا ہے

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو، یا کتا ہو، یا جنبی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٦٨ (٢٦٢) ، والصید ١١ (٤٢٨٦) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٤٤ (٣٦٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٣، ١٠٤) ، سنن الدارمی/ الاستئذان ٣٤ (٢٧٠٥) ، ویأتي عند المؤلف فی اللباس برقم (٤١٥٢) (ضعیف) (نجی راوی لین الحدیث ہیں )

【228】

جنبی غسل کرنے میں تاخیر کرسکتا ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جنابت کی حالت میں بغیر غسل فرمائے سو جاتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ہم سے حسن بن علی واسطی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں : میں نے یزید بن ہارون کو کہتے سنا کہ یہ حدیث یعنی ابواسحاق کی حدیث وہم ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٨٧ (١١٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٩٨ (٥٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : امام ابن العربی کی تصریح کے مطابق یہ وہم ایک طویل حدیث کے اختصار میں واقع ہوا ہے، ورنہ اصل معنی صحیح ہے، یعنی کبھی کبھی بیان جواز کے لئے آپ ﷺ نے نہ غسل کیا نہ ہی وضو، یا یہ مطلب ہے کہ آپ ﷺ نے پانی نہیں چھوا ، یعنی غسل نہیں کیا، ہاں وضو کیا۔

【229】

جنبی کے لئے تلاوت کلام پاک جائز نہیں

عبداللہ بن سلمہ کہتے ہیں میں اور میرے ساتھ دو آدمی جن میں سے ایک کا تعلق میرے قبیلہ سے تھا اور میرا گمان ہے کہ دوسرا قبیلہ بنو اسد سے تھا، علی (رض) کے پاس آئے، تو آپ نے ان دونوں کو (عامل بنا کر) ایک علاقہ میں بھیجا، اور فرمایا : تم دونوں مضبوط لوگ ہو، لہٰذا اپنے دین کی خاطر جدوجہد کرنا، پھر آپ اٹھے اور پاخانہ میں گئے، پھر نکلے اور پانی منگوایا، اور ایک لپ لے کر اس سے (ہاتھ) دھویا، پھر قرآن پڑھنے لگے، تو لوگوں کو یہ ناگوار لگا، تو آپ نے کہا : رسول اللہ ﷺ بیت الخلاء سے نکل کر ہم کو قرآن پڑھاتے، اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر گوشت کھاتے، آپ ﷺ کو قرآن (پڑھنے پڑھانے) سے جنابت کے علاوہ کوئی چیز نہ روکتی یا مانع نہ ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ١١١ (١٤٦) ، سنن النسائی/الطھارة ١٧١ (٢٦٦، ٢٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٠٥ (٥٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٤، ١٢٤) (ضعیف) (اس کے راوی عبداللہ بن سلمہ کا حافظہ اخیر عمر میں کمزور ہوگیا تھا ، اور یہ روایت اسی دور کی ہے )

【230】

جنبی مصافحہ کرسکتا ہے

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ان سے ملے تو آپ (مصافحہ کے لیے) ہاتھ پھیلاتے ہوئے ان کی طرف بڑھے، حذیفہ نے کہا : میں جنبی ہوں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : مسلمان نجس نہیں ہوتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٩ (٣٧٢) ، سنن النسائی/الطھارة ١٧٢ (٢٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨٠ (٥٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٤، ٤٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جنابت نجاست حکمی ہے اس سے آدمی کا بدن یا پسینہ نجس نہیں ہوتا، اسی واسطے جنبی کے ساتھ ملنا بیٹھنا اور کھانا پینا درست ہے۔

【231】

جنبی مصافحہ کرسکتا ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ مدینہ کے ایک راستے میں مجھ سے رسول اللہ ﷺ کی ملاقات ہوگئی، میں اس وقت جنبی تھا، اس لیے پیچھے ہٹ گیا اور (وہاں سے) چلا گیا، پھر غسل کر کے واپس آیا تو آپ ﷺ نے پوچھا : ابوہریرہ ! تم کہاں (چلے گئے) تھے ؟ ، میں نے عرض کیا : میں جنبی تھا، اس لیے ناپاکی کی حالت میں آپ کے پاس بیٹھنا مجھے نامناسب معلوم ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا : سبحان اللہ ! مسلمان نجس نہیں ہوتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٢٣ (٢٨٣) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٩ (٣٧١) ، سنن الترمذی/الطھارة ٨٩ (١٢١) ، سنن النسائی/الطھارة ١٧٢ (٢٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨٠ (٥٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٥، ٢٨٢، ٤٧١) (صحیح )

【232】

جنبی کے لئے مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور حال یہ تھا کہ بعض صحابہ کے گھروں کے دروازے مسجد سے لگتے ہوئے کھل رہے تھے ١ ؎ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان گھروں کے رخ مسجد کی طرف سے پھیر کر دوسری جانب کرلو ، پھر نبی اکرم ﷺ (مسجد میں یا صحابہ کرام کے گھروں میں) داخل ہوئے اور لوگوں نے ابھی کوئی تبدیلی نہیں کی تھی، اس امید پر کہ شاید ان کے متعلق کوئی رخصت نازل ہو، پھر جب آپ ﷺ دوبارہ ان کے پاس آئے تو فرمایا : ان گھروں کے رخ مسجد کی طرف سے پھیر لو، کیونکہ میں حائضہ اور جنبی کے لیے مسجد کو حلال نہیں سمجھتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٨٢٨) (ضعیف) (اس کی سند میں جسرہ بنت دجاجہ لین الحدیث ہیں، لیکن حدیث کا معنی دیگر احادیث سے ثابت ہے ) وضاحت : ١ ؎ : ان مکانات میں آنے جانے کے لئے لوگ مسجد سے ہو کر آیا جایا کرتے تھے۔

【233】

جنبی ہو اور نماز کے لئے کھڑا ہوجائے تو کیا کرے؟

ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ نے فجر پڑھانی شروع کردی، پھر ہاتھ سے اشارہ کیا کہ تم سب لوگ اپنی جگہ پر رہو، (پھر آپ ﷺ وہاں سے گھر تشریف لے گئے، غسل فرما کر) واپس آئے، تو آپ ﷺ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اس کے بعد آپ نے انہیں نماز پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٦٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤١، ٤٥) (صحیح )

【234】

جنبی ہو اور نماز کے لئے کھڑا ہوجائے تو کیا کرے؟

اس طریق سے بھی حماد بن سلمہ نے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس کے شروع میں ہے : تو آپ ﷺ نے تکبیر تحریمہ کہی ، اور آخر میں یہ ہے کہ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا : میں بھی انسان ہی ہوں، میں جنبی تھا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے زہری نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے، اس میں ہے : جب آپ مصلیٰ پر کھڑے ہوگئے اور ہم آپ کی تکبیر (تحریمہ) کا انتظار کرنے لگے، تو آپ (وہاں سے) یہ فرماتے ہوئے پلٹے کہ تم جیسے ہو اسی حالت میں رہو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ایوب بن عون اور ہشام نے اسے محمد سے، محمد بن سیرین نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے، اس میں ہے : آپ ﷺ نے تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہی، پھر اپنے ہاتھ سے لوگوں کو اشارہ کیا کہ تم لوگ بیٹھ جاؤ، پھر آپ ﷺ چلے گئے اور غسل فرمایا۔ اور اسی طرح اسے مالک نے اسماعیل بن ابوحکیم سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے (مرسلاً ) روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسی طرح اسے ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ : ہم سے ابان نے بیان کیا ہے، ابان یحییٰ سے، اور یحییٰ ربیع بن محمد سے اور ربیع بن محمد نبی اکرم ﷺ سے (مرسلاً ) روایت کرتے ہیں کہ آپ نے تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٨٦٣٤، ١١٦٦٥) (صحیح )

【235】

جنبی ہو اور نماز کے لئے کھڑا ہوجائے تو کیا کرے؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) نماز کے لیے اقامت ہوگئی اور لوگوں نے صفیں باندھیں تو رسول اللہ ﷺ نکلے، یہاں تک کہ جب اپنی جگہ پر (آ کر) کھڑے ہوگئے، تو آپ کو یاد آیا کہ آپ نے غسل نہیں کیا ہے، آپ نے لوگوں سے کہا : تم سب اپنی جگہ پر رہو ، پھر آپ گھر واپس گئے اور ہمارے پاس (واپس) آئے، تو آپ کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا اور حال یہ تھا کہ آپ نے غسل کر رکھا تھا اور ہم صف باندھے کھڑے تھے۔ یہ ابن حرب کے الفاظ ہیں، عیاش نے اپنی روایت میں کہا ہے : ہم لوگ اسی طرح (صف باندھے) کھڑے آپ ﷺ کا انتظار کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائے، آپ غسل کئے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ١٧ (٢٧٥) ، والأذان ٢٥ (٦٣٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٩ (٦٠٥) ، سنن النسائی/الإمامة ١٤ (٧٩٣) ، ٢٤ (٨١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٠٠، ١٥٢٦٤، ١٥١٩٣، ١٥٢٧٥، ١٥٣٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٧، ٢٥٩، ٢٨٣، ٣٣٨، ٣٣٩) ، ویأتي مختصراً برقم : (٥٤١) (صحیح )

【236】

سو کر اٹھنے کے بعد کپڑے پر تری دیکھے تو کیا کرے؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص (کپڑے پر) تری دیکھے اور اسے احتلام یاد نہ ہو تو کیا کرے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ غسل کرے ۔ پھر آپ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص کو ایسا محسوس ہو رہا ہو کہ اسے احتلام ہوا ہے، مگر وہ تری نہ دیکھے، تو کیا کرے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس پر غسل نہیں ہے ۔ یہ سن کر ام سلیم (رض) نے کہا : اگر عورت (خواب میں) یہی دیکھے تو کیا اس پر بھی غسل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، کیونکہ عورتیں (اصل خلقت اور طبیعت میں) مردوں ہی کی طرح ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٨٢ (١١٣) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١٢ (٦١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٥٦) ، سنن الدارمی/الطھارة (٧٦/٧٩٠) (حسن) إلا قول أم سليم : المرأة ترى ... (ام سلیم کا کلام صحیح نہیں جو عبداللہ العمری کی روایت میں ہے اور یہ ضعیف راوی ہیں، بقیہ ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں )

【237】

عورت مرد کی طرح خواب یا تری دیکھے تو کیا کرے؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ام سلیم انصاریہ انس بن مالک (رض) کی والدہ نے کہا : اللہ کے رسول ! اللہ عزوجل حق سے نہیں شرماتا، آپ ہمیں بتائیے اگر عورت سوتے میں وہ چیز دیکھے جو مرد دیکھتا ہے تو کیا وہ غسل کرے یا نہیں ؟ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہاں جب وہ تری دیکھے تو ضرور غسل کرے ۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : میں ام سلیم کی طرف متوجہ ہوئی اور میں نے ان سے کہا : تجھ پر افسوس ! کیا عورت بھی ایسا دیکھتی ہے ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : عائشہ ! تیرا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو ١ ؎ (والدین اور ان کی اولاد میں) مشابہت کہاں سے ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٦٠٧(الف) ، ١٦٧٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٧ (٣١١، ٣١٣، ٣١٤) ، سنن الترمذی/الطہارة ٩٠ (١٢٢) ، سنن النسائی/الطہارة ١٣١ (١٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة (٦٠١) ، موطا امام مالک/الطھارة ٢١ (٨٥) ، مسند احمد (٦/٩٢) ، سنن الدارمی/الطھارة ٧٥ (٧٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حیرت و استعجاب کے موقع پر اس طرح کا جملہ بولا جاتا ہے جس کا مقصد بددعا نہیں۔

【238】

غسل کیلئے پانی کی مقدار

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غسل جنابت ایک ایسے برتن سے کرتے تھے جس کا نام فرق ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن عیینہ نے بھی مالک کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : معمر نے اس حدیث میں زہری سے روایت کی ہے کہ عائشہ (رض) کہتی ہیں : میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے، جس میں ایک فرق (پیمانہ) کی مقدار پانی ہوتا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا کہ فرق سولہ رطل کا ہوتا ہے، میں نے انہیں یہ بھی کہتے سنا کہ ابن ابی ذئب کا صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : کس نے کہا ہے کہ صاع آٹھ رطل کا ہوتا ہے ؟ فرمایا : اس کا یہ (قول) محفوظ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا ہے : جس شخص نے صدقہ فطر ہمارے اس رطل سے پانچ رطل اور تہائی رطل دیا اس نے پورا دیا، ان سے کہا گیا : صیحانی ١ ؎ وزنی ہوتی ہے، ابوداؤد نے کہا : صیحانی عمدہ کھجور ہے، آپ نے فرمایا : مجھے نہیں معلوم۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٢ (٢٥٠) ، ١٥ (٢٧٢) ، صحیح مسلم/الحیض ١٠ (٣٢١) ، سنن النسائی/الطھارة ٥٨ (٧٢) ، والغسل ٩ (٤٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣٥ (٣٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٧، ١٧٣، ٢٣٠، ٢٦٥، سنن الدارمی/الطھارة ٦٨ (٧٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مدینہ میں ایک قسم کی کھجور کا نام ہے۔

【239】

غسل جنابت کا طریقہ

جبیر بن مطعم (رض) سے روایت ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس غسل جنابت کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں تو تین چلو اپنے سر پر ڈالتا ہوں ، پھر آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چلو بنا کر اشارہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٤ (٢٥٤) ، صحیح مسلم/الحیض ١١ (٣٢٧) ، سنن النسائی/الطھارة ١٥٨ (٢٥١) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٩٥ (٥٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٦) (صحیح )

【240】

غسل جنابت کا طریقہ

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب غسل جنابت کرتے تو ایک برتن منگواتے جیسے دودھ دوہنے کا برتن ہوتا ہے، پھر اپنے دونوں ہاتھ سے پانی لے کر سر کی داہنی جانب ڈالتے، پھر بائیں جانب ڈالتے، پھر دونوں ہاتھوں سے پانی لے کر (بیچ) سر پر ڈالتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٦ (٢٥٨) ، صحیح مسلم/الحیض ٩ (٣١٨) ، ١٠ (٣٢٠) ، سنن النسائی/الطھارة ١٥٣ (٢٤٥) ، ١٥٦ (٢٤٨) ، ١٥٧ (٢٤٩) ، والغسل ١٦ (٤٢٠) ، ١٩ (٤٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٤٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطھارة ٧٦ (١٠٤) ، موطا امام مالک/الطھارة ١٧(٦٧) ، مسند احمد (٦/٩٤، ١١٥، ١٤٣، ١٦١، ١٧٣) ، سنن الدارمی/الطھارة ٦٦ (٧٧٥) (صحیح )

【241】

غسل جنابت کا طریقہ

قبیلہ بنو تیم اللہ بن ثعلبہ کے ایک شخص جمیع بن عمیر کہتے ہیں میں اپنی والدہ اور خالہ کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس آیا، تو ان میں سے ایک نے آپ سے پوچھا : آپ لوگ غسل جنابت کس طرح کرتی تھیں ؟ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ (پہلے) وضو کرتے تھے جیسے نماز کے لیے وضو کرتے ہیں، پھر اپنے سر پر تین بار پانی ڈالتے اور ہم اپنے سروں پر چوٹیوں کی وجہ سے پانچ بار پانی ڈالتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٩٤ (٥٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٥٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطھارة ١٧(٦٧) ، مسند احمد (٦/١٨٨) ، سنن الدارمی/الطھارة ٦٦ (٧٧٥) (ضعیف جداً ) (اس کے راوی صدقہ بن سعید اور جمیع دونوں ضعیف ہیں )

【242】

غسل جنابت کا طریقہ

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب غسل جنابت کرتے (سلیمان کی روایت میں ہے : تو آپ ﷺ پہلے اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے، اور مسدد کی روایت میں ہے : برتن کو اپنے داہنے ہاتھ پر انڈیل کر دونوں ہاتھ دھوتے، پھر دونوں سیاق حدیث کے ذکر میں متفق ہیں کہ) تو آپ ﷺ (اس کے بعد) اپنی شرمگاہ دھوتے (اور مسدد کی روایت میں ہے : آپ ﷺ اپنے بائیں ہاتھ پر پانی بہاتے، کبھی ام المؤمنین عائشہ نے فرج (شرمگاہ) کو کنایۃً بیان کیا ہے) پھر آپ ﷺ نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے، پھر اپنے دونوں ہاتھ برتن میں داخل کرتے اور (پانی لے کر) اپنے بالوں کا خلال کرتے، یہاں تک کہ جب آپ ﷺ یہ جان لیتے کہ پانی پوری کھال کو پہنچ گیا ہے یا کھال کو صاف کرلیا ہے، تو اپنے سر پر تین بار پانی ڈالتے، پھر جو پانی بچ جاتا اسے اپنے اوپر بہا لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٩ (٢٦٢) ، صحیح مسلم/الحیض ٩ (٣١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٧٣، ١٦٨٦٠) (صحیح )

【243】

غسل جنابت کا طریقہ

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب غسل جنابت کا ارادہ کرتے تو پہلے اپنے دونوں پہونچوں کو، پھر اپنے جوڑوں کو دھوتے (مثلاً کہنی بغل وغیرہ جہاں میل جم جاتا ہے) اور ان پر پانی بہاتے، جب دونوں ہاتھ صاف ہوجاتے تو انہیں (مٹی سے) دیوار پر ملتے، (تاکہ مکمل صاف ہوجائے) پھر وضو شروع کرتے اور اپنے سر پر پانی ڈالتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٩٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٧١) (صحیح )

【244】

غسل جنابت کا طریقہ

شعبی کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں تم کو رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ کا نشان دیوار پر دکھاؤں جہاں آپ ﷺ غسل جنابت کیا کرتے تھے (اور دیوار پر اپنا ہاتھ ملتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦١٦٨) (ضعیف) (شعبی کا سماع عائشہ رضی+اللہ+عنہا سے ثابت نہیں ہے )

【245】

غسل جنابت کا طریقہ

ام المؤمنین میمونہ (رض) کہتی ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کے لیے غسل جنابت کا پانی رکھا، تاکہ آپ غسل کرلیں، آپ ﷺ نے برتن کو اپنے داہنے ہاتھ پر جھکایا اور اسے دو بار یا تین بار دھویا، پھر اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالا، اور بائیں ہاتھ سے اسے دھویا، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر مارا اور اسے دھویا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے، پھر اپنے سر اور جسم پر پانی ڈالا، پھر کچھ ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، میں نے بدن پونچھنے کے لیے رومال دیا، تو آپ ﷺ نے اسے نہیں لیا، اور پانی اپنے بدن سے جھاڑنے لگے۔ اعمش کہتے ہیں : میں نے اس کا ذکر ابراہیم سے کیا، تو انہوں نے کہا : رومال سے بدن پونچھنے میں لوگ کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، لیکن اسے عادت بنا لینا برا جانتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مسدد نے کہا : اس پر عبداللہ بن داود سے میں نے پوچھا العادة یا للعادة ؟ تو انہوں نے جواب دیا للعادة ہی صحیح ہے، لیکن میں نے اپنی کتاب میں اسی طرح پایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : * تخريج : صحیح البخاری/الغسل ١ (٢٤٩) ، ٥ (٢٥٧) ، ٧ (٢٥٩) ، ٨ (٢٦٠) ، ١٠ (٢٦٥) ، ١١ (٢٦٦) ، ١٦ (٢٧٤) ، ١٨ (٢٧٦) ، ٢١ (٢٨١) ، صحیح مسلم/الحیض ٩ (٣١٧) ، سنن الترمذی/الطھارة ٧٦ (١٠٣) ، سنن النسائی/الطھارة ١٦١ (٢٥٤) ، الغسل ٧ (٤٠٨) ، ١٤ (٤١٨) ، ١٥(٤١٩) ، ٢٢ (٤٢٨) ، سنن ابن ماجہ/ الطہارة ٩٤ (٥٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣٠، ٣٣٥، ٣٣٦) ، سنن الدارمی/الطھارة ٣٩ (٧٣٨) ، ٦٦ (٧٧٤) (صحیح )

【246】

غسل جنابت کا طریقہ

شعبہ کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) جب غسل جنابت کرتے تو اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر سات مرتبہ پانی ڈالتے، پھر اپنی شرمگاہ دھوتے، ایک بار وہ بھول گئے کہ کتنی بار پانی ڈالا، تو آپ نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے کتنی بار پانی ڈالا ؟ میں نے جواب دیا : مجھے یاد نہیں ہے، آپ نے کہا : تیری ماں نہ ہو ١ ؎ تمہیں یہ یاد رکھنے میں کون سی چیز مانع ہوئی ؟ پھر آپ وضو کرتے جیسے نماز کے لیے وضو کرتے ہیں، پھر اپنے پورے جسم پر پانی بہاتے، پھر کہتے : اسی طرح رسول اللہ ﷺ طہارت حاصل کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٦٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٠٧) (ضعیف) (اس کے راوی شعبہ بن دینار ابوعبد اللہ مدنی ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ جملہ اہل عرب تعجب کے وقت بولتے ہیں ، اس سے بددعا مقصود نہیں ہوتی۔

【247】

غسل جنابت کا طریقہ

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں پہلے پچاس (وقت کی) نماز (فرض ہوئی) تھیں، اور غسل جنابت سات بار کرنے کا حکم تھا، اسی طرح پیشاب کپڑے میں لگ جائے تو سات بار دھونے کا حکم تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ (اپنی امت پر برابر اللہ تعالیٰ سے تخفیف کا) سوال کرتے رہے، یہاں تک کہ نماز پانچ کردی گئیں، جنابت کا غسل ایک بار رہ گیا، اور پیشاب کپڑے میں لگ جائے تو اسے بھی ایک بار دھونا رہ گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٢٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٠٩) (ضعیف) (اس کے دو راوی ایوب اور عبد اللہ بن عصم ضعیف ہیں )

【248】

غسل جنابت کا طریقہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر بال کے نیچے جنابت ہے، لہٰذا تم (غسل کرتے وقت) بالوں کو اچھی طرح دھوو، اور کھال کو خوب صاف کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حارث بن وجیہ کی حدیث منکر ہے، اور وہ ضعیف ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٧٨ (١٠٦) سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٠٦(٥٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٠٢) (ضعیف) (حارث ضعیف ہے جیسا کہ مؤلف نے تصریح کی ہے ) وضاحت : ١ ؎ : صرف پہلا ٹکڑا منکر ہے۔

【249】

غسل جنابت کا طریقہ

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے غسل جنابت میں ایک بال برابر جگہ دھوئے بغیر چھوڑ دی، تو اسے آگ کا ایسا ایسا عذاب ہوگا ۔ علی (رض) کہتے ہیں : اسی وجہ سے میں نے اپنے سر (کے بالوں) سے دشمنی کر رکھی ہے، اس جملے کو انہوں نے تین مرتبہ کہا، وہ اپنے بال کاٹ ڈالتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٠٦ (٥٩٩) مسند احمد (١/١٠١، سنن الدارمی/الطھارة ٦٩(٧٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٩٠) (ضعیف) (عطاء بن سائب اخیر عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے، اور حماد بن سلمہ نے ان سے دونوں حالتوں میں روایت کی ہے، اب پتہ نہیں یہ روایت اختلاط سے پہلے کی ہے یا بعد کی ؟ )

【250】

غسل کے بعد وضو کی ضرورت نہیں

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غسل (جنابت) کرتے تھے، اور دو رکعتیں اور فجر کی نماز ادا کرتے، میں آپ ﷺ کو غسل جنابت کے بعد تازہ وضو کرتے نہ دیکھتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ١٦٠٢١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطھارة ٧٩ (١٠٧) ، سنن النسائی/الطھارة ١٦٠ (٢٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٩٦ (٥٧٩) ، مسند احمد (٦/٦٨، ١١٩، ١٥٤، ١٩٢، ٢٥٣، ٢٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ غسل جنابت کے وقت رسول اللہ ﷺ وضو کرلیا کرتے تھے۔

【251】

غسل جنابت کے وقت عورت کے لئے چٹیا کھولنا ضروری نہیں ہے

ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک مسلمان عورت نے کہا (اور زہیر کی روایت میں ہے خود ام سلمہ نے ہی کہا) : اللہ کے رسول ! میں اپنے سر کی چوٹی مضبوطی سے باندھتی ہوں، کیا غسل جنابت کے وقت اسے کھولوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے تین لپ پانی اپنے سر پر ڈال لینا کافی ہے ، اور زہیر کی روایت میں ہے : تم اس پر تین لپ پانی ڈال لو، پھر سارے بدن پر پانی بہا لو اس طرح تم نے پاکی حاصل کرلی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٢ (٣٣٠) ، سنن الترمذی/الطھارة ٧٧ (١٠٥) ، سنن النسائی/الطھارة ١٥٠ (٢٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٠٨ (٦٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٨٩، ٣١٤) ، سنن الدارمی/الطھارة ١١٥ (١١٩٦) (صحیح )

【252】

غسل جنابت کے وقت عورت کے لئے چٹیا کھولنا ضروری نہیں ہے

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ ان کے پاس ایک عورت آئی، پھر آگے یہی حدیث بیان ہوئی، ام سلمہ کہتی ہیں : تو میں نے اس کے لیے اسی طرح کی بات نبی اکرم ﷺ سے پوچھی، اس روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے اس کے بدلے میں فرمایا : ہر لپ کے وقت تم اپنی لٹیں نچوڑ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨١٥١) (حسن )

【253】

غسل جنابت کے وقت عورت کے لئے چٹیا کھولنا ضروری نہیں ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں ہم (ازواج مطہرات) میں سے جب کسی کو غسل جنابت کی ضرورت ہوتی تو وہ تین لپ پانی اس طرح لیتی یعنی اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ایک ساتھ کر کے، پھر اسے اپنے سر پر ڈالتی اور ایک ہاتھ سے پانی لیتی تو ایک جانب ڈالتی اور دوسرے سے لے کر دوسری جانب ڈالتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ١٩ (٢٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٥٠) (صحیح )

【254】

غسل جنابت کے وقت عورت کے لئے چٹیا کھولنا ضروری نہیں ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں ہم غسل کرتے تھے اور ہمارے سروں پر لیپ لگا ہوتا تھا خواہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حالت احرام میں ہوتے یا حلال (احرام سے باہر) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوادود، (تحفة الأشراف : ١٧٨٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٩، ١٣٨) (صحیح )

【255】

غسل جنابت کے وقت عورت کے لئے چٹیا کھولنا ضروری نہیں ہے

شریح بن عبید کہتے ہیں : جبیر بن نفیر نے مجھے غسل جنابت کے متعلق مسئلہ بتایا کہ ثوبان (رض) نے ان سے حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے غسل جنابت کے متعلق مسئلہ پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : مرد تو اپنا سر بالوں کو کھول کر دھوئے یہاں تک کہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے، اور عورت اگر اپنے بال نہ کھولے تو کوئی مضائقہ نہیں، اسے چاہیئے کہ وہ اپنی دونوں ہتھیلیوں سے تین لپ پانی لے کر اپنے سر پر ڈال لے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٠٧٨) (صحیح )

【256】

جنبی اپنا سر خطمی پانی سے دہو سکتا ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ حالت جنابت میں اپنا سر خطمی ١ ؎ سے دھوتے اور اسی پر اکتفا کرتے، اور اس پر (دوسرا) پانی نہیں ڈالتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٨١١) (ضعیف) (اس کے اندر واقع ایک راوی رجل مبہم ہے ) وضاحت : ١ ؎ : خطمی ایک گھاس ہے جو سر دھلنے میں استعمال ہوتی ہے۔

【257】

عورت اور مرد کے درمیان بہنے والے پانی (مزی منی کا بیان)

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے وہ مرد اور عورت کے ملاپ سے نکلنے والی منی کے متعلق کہتی ہیں : (اگر وہ کپڑے یا جسم پر لگ جاتی تو) رسول اللہ ﷺ ایک چلو پانی لے کر لگی ہوئی منی پر ڈالتے، پھر ایک اور چلو پانی لیتے، اور اسے بھی اس پر ڈال لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٨١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٥٣) (ضعیف) ( اوپر مذکور سبب سے یہ حدیث بھی ضعیف ہے، ملاحظہ ہو حدیث نمبر : ٢٥٦ )

【258】

حائضہ عورت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ یہود کی عورتوں میں جب کسی کو حیض آتا تو وہ اسے گھر سے نکال دیتے تھے، نہ اس کو ساتھ کھلاتے پلاتے، نہ اس کے ساتھ ایک گھر میں رہتے تھے، اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ويسألونک عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض اے محمد ! لوگ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تو کہہ دیجئیے کہ وہ گندگی ہے، لہٰذا حالت حیض میں تم عورتوں سے الگ رہو ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم ان کے ساتھ گھروں میں رہو اور سارے کام کرو سوائے جماع کے ، یہ سن کر یہودیوں نے کہا : یہ شخص کوئی بھی ایسی چیز نہیں چھوڑنا چاہتا ہے جس میں وہ ہماری مخالفت نہ کرے، چناچہ اسید بن حضیر اور عباد بن بشر (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہود ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں، پھر ہم کیوں نہ ان سے حالت حیض میں جماع کریں ؟ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ ﷺ ان دونوں پر خفا ہوگئے ہیں، وہ دونوں ابھی نکلے ہی تھے کہ اتنے میں آپ کے پاس دودھ کا ہدیہ آگیا، آپ ﷺ نے ان دونوں کو بلا بھیجا اور (جب وہ آئے تو) انہیں دودھ پلایا، تب جا کر ہم کو یہ پتہ چلا کہ آپ ﷺ ان دونوں سے ناراض نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٣ (٣٠٢) ، سنن الترمذی/تفسیر البقرة ٣ (٢٩٧٧) ، سنن النسائی/الطھارة ١٨١ (٢٨٩) ، والحیض ٨ (٣٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٢٥ (٦٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٤٦، دی/الطھارة ١٠٦ (١٠٩٣) ، ویأتي برقم (٢١٦٥) (صحیح )

【259】

حائضہ عورت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں حالت حیض میں ہڈی سے گوشت نوچتی، پھر اسے رسول اللہ ﷺ کو دیتی، آپ ﷺ اپنا منہ اسی جگہ پر رکھتے جہاں میں رکھتی تھی اور میں پانی پی کر رسول اللہ ﷺ کو دیتی تو آپ اپنا منہ اسی جگہ پر رکھ کر پیتے جہاں سے میں پیتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٣ (٣٠٠) ، سنن النسائی/الطھارة ٥٦ (٧٠) ، ١٧٧ (٢٨٠) ، ١٨٧ (٢٨١) ، والمیاہ ٩ (٣٤٢) ، والحیض ١٤ (٣٧٧) ، ١٥ (٣٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٢٥ (٦٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٢، ٦٤، ١٢٧، ١٩٢، ٢١٠، ٢١٤) دی/الطہارة ١٠٨(١١٠١) (صحیح )

【260】

حائضہ عورت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنا سر مبارک میری گود میں رکھ کر قرآن پڑھتے اور میں حائضہ ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٣ (٢٩٧) ، والتوحید ٥٢ (٧٥٤٩) ، صحیح مسلم/الحیض ٣ (٣٠١) ، سنن النسائی/الطھارة ١٧٥ (٢٧٥) ، والحیض ١٦ (٣٨١) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٢٠ (٦٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١١٧، ١٣٥، ١٩٠) (صحیح )

【261】

حائضہ کا مسجد سے کوئی چیز اٹھانے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : مسجد سے چٹائی اٹھا کر مجھے دو ، تو میں نے عرض کیا : میں حائضہ ہوں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢ (٢٩٨) ، سنن الترمذی/الطھارة ١٠١ (١٣٤) ، سنن النسائی/الطھارة ١٧٣ (٢٧٢) ، والحیض ١٨ (٣٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٢٠ (٦٣٢) ، مسند احمد (٦/٤٥ ، ١٠١، ١١٢، ١١٤، ١٧٣، ٢١٤، ٢٢٩، ٢٤٥) سنن الدارمی/الطھارة ٨١ (٧٩٨) (صحیح )

【262】

حائضہ عورتیں پاکی کے بعد نمازوں کی قضاء نہیں کرے گی

معاذہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : کیا حائضہ نماز کی قضاء کرے گی ؟ تو اس پر آپ نے کہا : کیا تو حروریہ ہے ١ ؎؟ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں ہمیں حیض آتا تھا تو ہم نماز کی قضاء نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ہمیں قضاء کا حکم دیا جاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٠ (٣٢١) ، صحیح مسلم/الحیض ١٥ (٣٣٥) ، سنن الترمذی/الطھارة ٩٧ (١٣٠) ، سنن النسائی/الحیض ١٧ (٣٨٢) ، والصوم ٦٤ (٢٣٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١٩ (٦٣١) ، تحفة الأشراف (١٧٩٦٤) وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٢، ٩٧، ١٢٠، ١٨٥، ٢٣١، سنن الدارمی/الطھارة ١٠١ (١٠٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حروراء کوفہ سے دو میل کی دوری پر ایک گاؤں کا نام ہے، خوارج کا پہلا اجتماع اسی گاؤں میں ہوا تھا، اسی گاؤں کی نسبت سے وہ حروری کہلاتے ہیں، ان کے بہت سے فرقے ہیں لیکن ان سب کا متفقہ اصول یہ ہے کہ جس مسئلہ پر قرآن دلالت کرے اسے اختیار کیا جائے اور اس پر حدیث سے ثابت زیادتی کو یکسر رد کردیا جائے، اسی وجہ سے ام المومنین عائشہ (رض) نے اس عورت سے پوچھا : تو حروریہ یعنی خارجی عورت تو نہیں جو ایسا کہہ رہی ہے ؟

【263】

حائضہ عورتیں پاکی کے بعد نمازوں کی قضاء نہیں کرے گی

اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے یہی حدیث مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں : اس میں یہ اضافہ ہے کہ ہمیں روزے کی قضاء کا حکم دیا جاتا تھا، نماز کی قضاء کا نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٧٩٦٤) (صحیح )

【264】

حالت حیض میں جماع کرنے پر کفارہ لازم آتا ہے

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس شخص کے بارے میں جو اپنی عورت سے حالت حیض میں جماع کرلے، فرمایا : (بطور کفارہ) وہ ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ کرے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : صحیح روایت اسی طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے ، اور کبھی کبھی شعبہ نے اسے مرفوعاً نہیں بیان کیا ہے، (یعنی ابن عباس (رض) کے قول کی حیثیت سے روایت کی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٨٢ (٢٩٠) ، والحیض ٩ (٣٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٢٣ (٦٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٩٠) ، ویأتي ہذا الحدیث فی النکاح (٢١٦٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطھارة ١٠٣ (١٣٦ و ١٣٧) ، مسند احمد (١/٢٣٧، ٢٧٢، ٢٨٦، ٣١٢، ٣٢٥، ٣٦٣، ٣٦٧) سنن الدارمی/الطھارة ١١١ (١١٤٥) (صحیح )

【265】

حالت حیض میں جماع کرنے پر کفارہ لازم آتا ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب وہ بیوی سے شروع حیض میں جماع کرے، تو ایک دینار صدقہ کرے، اور جب خون بند ہوجانے پر اس سے جماع کرے، تو آدھا دینار صدقہ کرے۔ تخریج دارالدعوہ : تفردہ بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٤٩٨) ، ویأتي ہذا الحدیث فی النکاح (٢١٦٩) (صحیح )

【266】

حالت حیض میں جماع کرنے پر کفارہ لازم آتا ہے

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب آدمی اپنی بیوی سے حالت حیض میں جماع کرے تو آدھا دینار صدقہ کرے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسی طرح علی بن بذیمہ نے مقسم سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، اور اوزاعی نے یزید ابن ابی مالک سے، یزید نے عبدالحمید بن عبدالرحمٰن سے، عبدالحمید نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے انہیں دو خمس دینار صدقہ کرنے کا حکم فرمایا، اور یہ روایت معضل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ١٠٣ (١٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٨٦) (ضعیف) (شریک اور خصیف ضعیف ہیں اور حدیث مرسل ہے، ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود : ١/١١٠ )

【267】

حائضہ کے ساتھ جماع کے علاوہ باقی امور مباح ہیں

ام المؤمنین میمونہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں سے حیض کی حالت میں مباشرت (اختلاط و مساس) کرتے تھے جب ان کے اوپر نصف رانوں تک یا دونوں گھٹنوں تک تہبند ہوتا جس سے وہ آڑ کئے ہوتیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٨٠ (٢٨٨) ، والحیض ١٣ (٣٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٨٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٥ (٢٩٨) ، صحیح مسلم/الحیض ١ (٢٩٤) ، مسند احمد (٦/٣٣٥) ، سنن الدارمی/الطھارة ١٠٧ (١٠٩٧) (صحیح )

【268】

حائضہ کے ساتھ جماع کے علاوہ باقی امور مباح ہیں

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم میں سے کسی کو جب وہ حائضہ ہوتی ازار (تہبند) باندھنے کا حکم دیتے، پھر اس کا شوہر ١ ؎ اس کے ساتھ سوتا، ایک بار راوی نے يضاجعها کے بجائے يباشرها کے الفاظ نقل کئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٥ (٢٩٩) ، صحیح مسلم/الحیض ١ (٢٩٣) ، سنن الترمذی/الطھارة ٩٩ (١٣٢) ، سنن النسائی/الطھارة ١٨٠ (٢٨٧) ، والحیض ١٢ (٣٧٣) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٢١ (٦٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : إحدانا کے لفظ سے مراد یا تو ازواج مطہرات ہیں، ایسی صورت میں زوجها سے مراد خود نبی اکرم ﷺ ہوں گے، یا إحدانا سے عام مسلمان عورتیں مراد ہیں، تو اس صورت میں زوجها سے اس مسلمان عورت کا شوہر مراد ہوگا، مؤلف کے سوا اور کسی کے یہاں یہ لفظ نہیں ہے۔

【269】

حائضہ کے ساتھ جماع کے علاوہ باقی امور مباح ہیں

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں رات میں ایک کپڑے میں سوتے اور میں پورے طور سے حائضہ ہوتی، اگر میرے حیض کا کچھ خون آپ ﷺ (کے بدن) کو لگ جاتا تو آپ ﷺ صرف اسی مقام کو دھو ڈالتے، اس سے زیادہ نہیں دھوتے، پھر اسی میں نماز پڑھتے، اور اگر اس میں سے کچھ آپ ﷺ کے کپڑے کو لگ جاتا، تو آپ صرف اسی جگہ کو دھو لیتے، اس سے زیادہ نہیں دھوتے، پھر اسی میں نماز پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٧٩ (٢٨٥) ، والحیض ١١ (٣٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٦٧) ، مسند احمد (٦/٤٤، سنن الدارمی/الطھارة ١٠٤ (١٠٥٣) ، ویأتی عند المؤلف فی النکاح برقم (٢١٦٦) (صحیح )

【270】

حائضہ کے ساتھ جماع کے علاوہ باقی امور مباح ہیں

عمارہ بن غراب کہتے ہیں : ان کی پھوپھی نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا کہ ہم میں سے ایک عورت کو حیض آتا ہے، اور اس کے اور اس کے شوہر کے پاس صرف ایک ہی بچھونا ہے (ایسی صورت میں وہ حائضہ عورت کیا کرے ؟ ) ، ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کا عمل بتاتی ہوں، آپ ﷺ گھر میں تشریف لائے اور اپنی نماز پڑھنے کی جگہ میں چلے گئے (ابوداؤد کہتے ہیں : مسجد سے مراد گھر کے اندر نماز کی جگہ مصلی ہے) آپ ﷺ کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے پہلے مجھے نیند آگئی، ادھر آپ کو سردی نے ستایا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم میرے قریب آجاؤ ، تو میں نے کہا : میں حائضہ ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنی ران کھولو ، میں نے اپنی رانیں کھول دیں، آپ ﷺ نے اپنا رخسار اور سینہ میری ران پر رکھ دیا، میں اوپر سے آپ ﷺ پر جھک گئی، یہاں تک کہ آپ کو گرمی پہنچ گئی، اور سو گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٩٩٣) (ضعیف) (اس کے تین رواة ابن غانم، عبدالرحمن افریقی اور عمارہ ضعیف ہیں اور عمارہ کی پھوپھی مبہم ہیں )

【271】

حائضہ کے ساتھ جماع کے علاوہ باقی امور مباح ہیں

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں جب حائضہ ہوتی تو بچھونے سے چٹائی پر چلی آتی، اور ہم رسول اللہ ﷺ سے قریب نہ ہوتے، جب تک کہ ہم پاک نہ ہوجاتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٧٩٨٠) (ضعیف) (اس کے اندر أم ذرہ راویہ لین الحدیث ہیں )

【272】

حائضہ کے ساتھ جماع کے علاوہ باقی امور مباح ہیں

عکرمہ بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ حائضہ سے جب کچھ کرنا چاہتے تو ان کی شرمگاہ پر ایک کپڑا ڈال دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٨٣٧٩) (صحیح )

【273】

حائضہ کے ساتھ جماع کے علاوہ باقی امور مباح ہیں

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے حیض کی شدت میں ہمیں ازار (تہبند) باندھنے کا حکم فرماتے تھے پھر ہم سے مباشرت کرتے تھے، اور تم میں سے کون اپنی خواہش پر قابو پاسکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنی خواہش پر قابو تھا ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٦ (٣٠٢) ، صحیح مسلم/الحیض ١ (٢٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٢١ (٦٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣، ١٤٣، ٢٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو مرد اپنے نفس پر قابو نہ رکھ پاتا ہو اس کا حائضہ سے مباشرت کرنا بہتر نہیں، کیوں کہ خدشہ ہے کہ وہ اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکے اور جماع کر بیٹھے۔

【274】

مستحاضہ عورت کا بیان اور اس بات کا بیان کہ مستحاضہ عورت اپنے ایام حیض کے بقدر نماز چھوڑ دے

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت کو استحاضہ کا خون آتا تھا، تو ام سلمہ (رض) نے اس کے لیے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا : اس عورت کو چاہیئے کہ اس بیماری کے لاحق ہونے سے پہلے مہینے کی ان راتوں اور دنوں کی تعداد کو جن میں اسے حیض آتا تھا ذہن میں رکھ لے اور (ہر) ماہ اسی کے بقدر نماز چھوڑ دے، پھر جب یہ دن گزر جائیں تو غسل کرے، پھر کپڑے کا لنگوٹ باندھ لے پھر اس میں نماز پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٣٤ (٢٠٩) ، والحیض ٣ (٣٥٤، ٣٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١٥ (٦٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطھارة ٢٩ (١٠٥) ، سنن الدارمی/الطھارة ٨٣ (٨٠٧) (صحیح )

【275】

مستحاضہ عورت کا بیان اور اس بات کا بیان کہ مستحاضہ عورت اپنے ایام حیض کے بقدر نماز چھوڑ دے

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک عورت کو (استحاضہ کا) خون آتا تھا، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی، اس میں ہے کہ : پھر جب یہ ایام گزر جائیں اور نماز کا وقت آجائے تو غسل کرے .... الخ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٨) (صحیح) (گزری ہوئی حدیثِ سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے، اس کی سند میں واقع راوی کا مبہم ہونا مضر نہیں ہے، کیوں کہ خود سلیمان ، ام سلمہ سے براہ راست بھی روایت کرتے ہیں، نیز ممکن ہے یہ رجل مبہم انصاری صحابی ہوں جن کا تذکرہ بعد والی حدیث میں ہے )

【276】

مستحاضہ عورت کا بیان اور اس بات کا بیان کہ مستحاضہ عورت اپنے ایام حیض کے بقدر نماز چھوڑ دے

سلیمان بن یسار ایک انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت کو (استحاضہ) کا خون آتا تھا۔ پھر انہوں نے لیث کی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی، اس میں ہے کہ : جب وہ انہیں گزار لے (حیض کے ایام) ، اور نماز کا وقت آجائے، تو چاہیئے کہ وہ غسل کرے ، پھر راوی نے اسی کے ہم معنی پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٨) (صحیح) (سند میں واقع رجل صحابی ہیں )

【277】

مستحاضہ عورت کا بیان اور اس بات کا بیان کہ مستحاضہ عورت اپنے ایام حیض کے بقدر نماز چھوڑ دے

اس طریق سے بھی لیث والی سند سے اسی کے ہم معنی حدیث مروی ہے، اس میں ہے پھر چاہیئے کہ وہ اس کے بقدر نماز چھوڑ دے، پھر جب نماز کا وقت آجائے تو غسل کرے، اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ لے، پھر نماز پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٨) (صحیح )

【278】

مستحاضہ عورت کا بیان اور اس بات کا بیان کہ مستحاضہ عورت اپنے ایام حیض کے بقدر نماز چھوڑ دے

اس سند سے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے بھی یہی واقعہ مروی ہے، اس میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا : وہ نماز چھوڑ دے گی، اور اس کے علاوہ میں (یعنی حیض کے خون کے بند ہوجانے کے بعد) غسل کرے گی، اور کپڑا باندھ کر نماز پڑھے گی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حماد بن زید نے ایوب سے اس حدیث میں اس مستحاضہ عورت کا نام فاطمہ بنت ابی حبیش بتایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٨) (صحیح )

【279】

مستحاضہ عورت کا بیان اور اس بات کا بیان کہ مستحاضہ عورت اپنے ایام حیض کے بقدر نماز چھوڑ دے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے (استحاضہ) کے خون کے بارے میں سوال کیا، عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے ان کے لگن کو خون سے بھرا دیکھا، تو ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جتنے دنوں تک تمہیں تمہارا حیض پہلے روکتا تھا اسی کے بقدر رکی رہو، پھر غسل کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسے قتیبہ نے جعفر بن ربیعہ کی حدیث کے آخر میں بین السطور یا حاشیہ میں روایت کیا ہے نیز اسے علی بن عیاش، اور یونس بن محمد نے لیث سے روایت کیا ہے، اور دونوں نے (جعفر کے بجائے) جعفر بن ربیعہ کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٤ (٣٣٤) ، سنن النسائی/الطھارة ١٣٤ (٢٠٧) ، والحیض ٣ (٣٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٧٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١٦ (٦٢٦) ، مسند احمد (٦/٨٣، ١٤١، ١٨٧، سنن الدارمی/الطھارة ٨٣ (٨٠٥) (صحیح )

【280】

مستحاضہ عورت کا بیان اور اس بات کا بیان کہ مستحاضہ عورت اپنے ایام حیض کے بقدر نماز چھوڑ دے

عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش (رض) نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے (استحاضہ کے) خون آنے کی شکایت کی اور مسئلہ پوچھا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : یہ تو صرف ایک رگ ہے، پس تم دیکھتی رہو، جب تمہیں حیض آجائے تو نماز نہ پڑھو، پھر جب حیض ختم ہوجائے تو غسل کرو، پھر دوسرا حیض آنے تک نماز پڑھتی رہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٣٤ (٢٠١) ، والحیض ٢ (٣٥٠) ، ٤ (٣٥٨) ، ٦ (٣٦٢) ، والطلاق ٧٤ (٣٥٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١٥ (٦٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠١٩) ، موطا امام مالک/الطھارة ٢٩(١٠٤) ، مسند احمد (٦/٤٢٠، ٤٦٣) ، سنن الدارمی/الطھارة ٨٣ (٨٠١) (صحیح )

【281】

مستحاضہ عورت کا بیان اور اس بات کا بیان کہ مستحاضہ عورت اپنے ایام حیض کے بقدر نماز چھوڑ دے

عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھ سے فاطمہ بنت ابی حبیش (رض) نے بیان کیا کہ انہوں نے اسماء (رض) کو حکم دیا، یا اسماء نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کو فاطمہ بنت ابی حبیش نے حکم دیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے (استحاضہ کے خون کے بارے میں) دریافت کریں، تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ جتنے دن وہ (حیض کے لیے) بیٹھتی تھیں بیٹھی رہیں، پھر غسل کرلیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسے قتادہ نے عروہ بن زبیر سے، عروہ نے زینب بنت ام سلمہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ ام حبیبہ بنت جحش (رض) کو استحاضہ کا خون آیا، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے ایام حیض میں نماز چھوڑ دیں، پھر غسل کریں، اور نماز پڑھیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : قتادہ نے عروہ سے کچھ نہیں سنا ہے، اور ابن عیینہ نے زہری کی حدیث میں (جسے انہوں نے عمرہ سے اور عمرہ نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے) اضافہ کیا ہے کہ ام حبیبہ (رض) کو استحاضہ کی شکایت تھی، تو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا، تو آپ ﷺ نے انہیں ایام حیض میں نماز چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ ابن عیینہ کا وہم ہے، کیونکہ زہری سے روایت کرنے والے حفاظ کی روایتوں میں یہ نہیں ہے، اس میں صرف وہی ہے جس کا ذکر سہیل بن ابی صالح نے کیا ہے، حمیدی نے بھی اس حدیث کو ابن عیینہ سے روایت کیا ہے، اس میں ایام حیض میں نماز چھوڑ دینے کا ذکر نہیں ہے۔ مسروق کی بیوی قمیر (قمیر بنت عمرو) نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ مستحاضہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے گی، پھر غسل کرے گی۔ عبدالرحمٰن بن قاسم نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں ان کے حیض کے بقدر نماز چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ ابوبشر جعفر بن ابی وحشیہ نے عکرمہ (رض) سے عکرمہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ ام حبیبہ بنت حجش (رض) کو استحاضہ کا خون آیا، پھر راوی نے پوری حدیث اسی کے ہم مثل بیان کی۔ شریک نے ابوالیقظان سے، انہوں نے عدی بن ثابت سے، عدی نے اپنے والد ثابت سے، ثابت نے اپنے دادا سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ مستحاضہ اپنے حیض کے ایام میں نماز چھوڑ دے، پھر غسل کرے اور نماز پڑھے۔ اور علاء بن مسیب نے حکم سے انہوں نے ابو جعفر سے روایت کی ہے کہ سودہ (رض) کو استحاضہ کا خون آیا تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ جب ان کے ایام حیض گزر جائیں تو وہ غسل کریں اور نماز پڑھیں۔ نیز سعید بن جبیر نے علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے کہ مستحاضہ اپنے ایام حیض میں بیٹھی رہے گی (نماز نہ پڑھے گی) ، اور اسی طرح اسے عمار مولی بنی ہاشم اور طلق بن حبیب نے ابن عباس سے روایت کیا ہے، اور اسی طرح معقل خثعمی نے علی سے، اور اسی طرح شعبی نے مسروق کی بیوی قمیر سے، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حسن، سعید بن مسیب، عطاء، مکحول، ابراہیم، سالم اور قاسم کا بھی یہی قول ہے کہ مستحاضہ اپنے ایام حیض میں نماز چھوڑ دے گی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : قتادہ نے عروہ سے کچھ نہیں سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٨٠١٩) (صحیح )

【282】

مستحاضہ ایام حیض میں نماز نہ پڑھے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا : میں ایک ایسی عورت ہوں جس کو برابر استحاضہ کا خون آتا ہے، کبھی پاک نہیں رہتی، کیا میں نماز چھوڑ دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ی ہ تو صرف ایک رگ ہے، حیض نہیں ہے، تم کو حیض آئے تو نماز چھوڑ دو ، اور جب وہ ختم ہوجائے تو خون دھو لو، پھر (غسل کر کے) نماز پڑھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٣ (٢٢٨) ، والحیض ٨ (٣٠٦) ، ١٩ (٣٢٠) ، ٢٤ (٣٢٥) ، ٢٦ (٣٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٩٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ١٤ (٣٣٣) ، سنن الترمذی/الطھارة ٩٣ (١٢٥) ، سنن النسائی/الطھارة ١٣٤ (٢٠١) ، ١٣٥ (٢١٢) ، والحیض ٤ (٣٥٨) ، ٦ (٣٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١٥ (٦٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨٣، ١٤١، ١٨٧، سنن الدارمی/الطھارة ٨٣ (٨٠١) (صحیح )

【283】

مستحاضہ ایام حیض میں نماز نہ پڑھے

اس طریق سے بھی ہشام نے زہیر کی سند سے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی ہے، اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دو ، پھر جب اس کے بقدر (دن) گزر جائیں تو اپنے سے خون دھو ڈالو، اور (غسل کر کے) نماز پڑھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٨(٣٠٦) ، سنن النسائی/الطہارة (١٣٨ (٢١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٤٩) (صحیح )

【284】

مستحاضہ ایام حیض میں نماز نہ پڑھے

بہیہ کہتی ہیں کہ میں نے ایک عورت کو ام المؤمنین عائشہ (رض) سے ایک عورت کے بارے میں جس کا حیض بگڑ گیا تھا اور خون برابر آ رہا تھا (مسئلہ) پوچھتے ہوئے سنا (ام المؤمنین عائشہ کہتی ہیں) : تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں اسے بتاؤں کہ وہ دیکھ لے کہ جب اس کا حیض صحیح تھا تو اسے ہر مہینے کتنے دن حیض آتا تھا ؟ پھر اسی کے بقدر ایام شمار کر کے ان میں یا انہیں کے بقدر ایام میں نماز چھوڑ دے، غسل کرے، کپڑے کا لنگوٹ باندھے پھر نماز پڑھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٨٢٦) (ضعیف) (اس کی سند میں واقع بہیَّہ مجہول ہیں )

【285】

مستحاضہ ایام حیض میں نماز نہ پڑھے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی سالی اور عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کی بیوی ام حبیبہ بنت حجش (رض) کو سات سال تک استحاضہ کا خون آتا رہا، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا، تو آپ نے فرمایا : یہ حیض نہیں ہے بلکہ یہ رگ (کا خون) ہے، لہٰذا غسل کر کے نماز پڑھتی رہو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث میں اوزاعی نے زہری سے، زہری نے عروہ اور عمرہ سے اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے یوں اضافہ کیا ہے کہ : ام حبیبہ بنت حجش (رض) کو سات سال تک استحاضہ کا خون آتا رہا، اور وہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے عقد میں تھیں، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ جب حیض آجائے تو نماز چھوڑ دو ، اور جب ختم ہوجائے تو غسل کر کے نماز پڑھو۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ اوزاعی کے علاوہ زہری کے کسی اور شاگرد نے یہ بات ذکر نہیں کی ہے، اسے زہری سے عمرو بن حارث، لیث، یونس، ابن ابی ذئب، معمر، ابراہیم بن سعد، سلیمان بن کثیر، ابن اسحاق اور سفیان بن عیینہ نے روایت کیا ہے اور ان لوگوں نے یہ بات ذکر نہیں کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ یہ صرف ہشام بن عروہ کی حدیث کے الفاظ ہیں جسے انہوں نے اپنے والد سے اور عروہ نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ ابن عیینہ نے اس میں یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دینے کا حکم دیا، یہ ابن عیینہ کا وہم ہے ١ ؎، البتہ محمد بن عمرو کی حدیث میں جسے انہوں نے زہری سے نقل کیا ہے کچھ ایسی چیز ہے، جو اوزاعی کے اضافہ کے قریب قریب ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٧ (٣٢٧) ، صحیح مسلم/الحیض ١٤(٣٣٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٣٥ (٢١١) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١٥ (٦٢٦) (تحفة الأشراف : ١٧٩٢٢، ١٦٥٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابوداؤد کا یہ قول حدیث نمبر ٢٨١ میں گزر چکا ہے۔ ٢ ؎ : اس حدیث کو مختلف رواۃ نے متعدد طریقے اور الفاظ سے روایت کیا ہے اس سے اصل مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مستحاضہ حیض کے دنوں میں نماز نہیں پڑھے گی اور ان مخصوص ایام کے گزر جانے کے بعد وہ غسل کر کے ہر نماز کے لئے نیا وضو کرے اور شرمگاہ پر لنگوٹ کس کر نماز پڑھا کرے گی، یا پھر دو دو نماز کے لئے ایک بار وضو کرے گی۔

【286】

مستحاضہ ایام حیض میں نماز نہ پڑھے

فاطمہ بنت ابی حبیش (رض) کہتی ہیں کہ انہیں استحاضہ کا خون آتا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : حیض کا خون سیاہ ہوتا ہے جو پہچان لیا جاتا ہے، جب یہ خون آئے تو نماز سے رک جاؤ، اور جب اس کے علاوہ خون ہو تو وضو کرو اور نماز پڑھو، کیونکہ یہ رگ (کا خون) ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن مثنی کا بیان ہے کہ ابن ابی عدی نے اسے ہم سے اپنی کتاب سے اسی طرح بیان کی ہے پھر اس کے بعد انہوں نے ہم سے اسے زبانی بھی بیان کیا، وہ کہتے ہیں : ہم سے محمد بن عمرو نے بیان کیا ہے، انہوں نے زہری سے، زہری نے عروہ سے اور عروہ نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ فاطمہ (رض) کو استحاضہ کا خون آتا تھا، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : انس بن سیرین نے مستحاضہ کے سلسلے میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب وہ گاڑھا کالا خون دیکھے تو نماز نہ پڑھے اور جب پاکی دیکھے (یعنی کالا خون کا آنا بند ہوجائے) خواہ تھوڑی ہی دیر سہی، تو غسل کرے اور نماز پڑھے۔ اور مکحول نے کہا ہے کہ عورتوں سے حیض کا خون پوشیدہ نہیں ہوتا، اس کا خون کالا اور گاڑھا ہوتا ہے، جب یہ ختم ہوجائے اور زرد اور پتلا ہوجائے، تو وہ (عورت) مستحاضہ ہے، اب اسے غسل کر کے نماز پڑھنی چاہیئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مستحاضہ کے بارے میں حماد بن زید نے یحییٰ بن سعید سے، یحییٰ نے قعقاع بن حکیم سے، قعقاع نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ جب حیض آئے تو نماز ترک کر دے، اور جب حیض آنا بند ہوجائے تو غسل کر کے نماز پڑھے۔ سمیّ وغیرہ نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ وہ ایام حیض میں بیٹھی رہے (یعنی نماز سے رکی رہے) ۔ ایسے ہی اسے حماد بن سلمہ نے یحییٰ بن سعید سے اور یحییٰ نے سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور یونس نے حسن سے روایت کی ہے کہ حائضہ عورت کا خون جب زیادہ دن تک جاری رہے تو وہ اپنے حیض کے بعد ایک یا دو دن نماز سے رکی رہے، پھر وہ مستحاضہ ہوگی۔ تیمی، قتادہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب اس کے حیض کے دنوں سے پانچ دن زیادہ گزر جائیں، تو اب وہ نماز پڑھے۔ تیمی کا بیان ہے کہ میں اس میں سے کم کرتے کرتے دو دن تک آگیا : جب دو دن زیادہ ہوں تو وہ حیض کے ہی ہیں۔ ابن سیرین سے جب اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا : عورتیں اسے زیادہ جانتی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ١٣٥ (٢١١) (تحفة الأشراف : ١٨٠١٩، ١٦٦٢٦) (حسن )

【287】

مستحاضہ ایام حیض میں نماز نہ پڑھے

حمنہ بنت حجش (رض) کہتی ہیں کہ مجھے استحاضہ کا خون کثرت سے آتا تھا، تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ سے مسئلہ پوچھنے، اور آپ کو اس کی خبر دینے آئی، میں نے آپ ﷺ کو اپنی بہن زینب بنت حجش (رض) کے گھر پایا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے بہت زیادہ خون آتا ہے، اس سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ اس نے مجھے نماز اور روزے سے روک دیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں (شرمگاہ پر) روئی رکھنے کا مشورہ دیتا ہوں، کیونکہ اس سے خون بند ہوجائے گا ، حمنہ نے کہا : وہ اس سے بھی زیادہ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : لنگوٹ باندھ کر اس کے نیچے کپڑا رکھ لو ، انہوں نے کہا : وہ اس سے بھی زیادہ ہے، بہت تیزی سے نکلتا ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں، ان دونوں میں سے جس کو بھی تم اختیار کرلو وہ تمہارے لیے کافی ہے، اور اگر تمہارے اندر دونوں پر عمل کرنے کی طاقت ہو تو تم اسے زیادہ جانتی ہو ، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : یہ تو شیطان کی لات ہے، لہٰذا تم (ہر ماہ) اپنے آپ کو چھ یا سات دن تک حائضہ سمجھو، پھر غسل کرو، اور جب تم اپنے آپ کو پاک و صاف سمجھ لو تو تیئس یا چوبیس روز نماز ادا کرو اور روزے رکھو، یہ تمہارے لیے کافی ہے، اور جس طرح عورتیں حیض و طہر کے اوقات میں کرتی ہیں اسی طرح ہر ماہ تم بھی کرلیا کرو، اور اگر تم ظہر کی نماز مؤخر کرنے اور عصر کی نماز جلدی پڑھنے پر قادر ہو تو غسل کر کے ظہر اور عصر کو جمع کرلو اور مغرب کو مؤخر کرو، اور عشاء میں جلدی کرو اور غسل کر کے دونوں نماز کو ایک ساتھ ادا کرو، اور ایک نماز فجر کے لیے غسل کرلیا کرو، تو اسی طرح کرو، اور روزہ رکھو، اگر تم اس پر قادر ہو ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان دونوں باتوں میں سے یہ دوسری بات مجھے زیادہ پسند ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے عمرو بن ثابت نے ابن عقیل سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ حمنہ (رض) نے کہا : یہ دوسری بات مجھے زیادہ پسند ہے، انہوں نے اسے نبی اکرم ﷺ کا قول نہیں بلکہ حمنہ (رض) کا قول قرار دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عمرو بن ثابت رافضی برا آدمی ہے، لیکن حدیث میں صدوق ہے۔ اور ثابت بن مقدام ثقہ آدمی ہیں۔ ١ ؎، اس کا ذکر انہوں نے یحییٰ بن معین کے واسطے سے کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا : ابن عقیل کی حدیث کے بارے میں میرے دل میں بےاطمینانی ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٩٥ (١٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١٥ (٦٢٢، ٦٢٧) (تحفة الأشراف : ١٥٨٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣٩، سنن الدارمی/الطھارة ٨٣ (٨١٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : ثابت بن مقدام کا تذکرہ مؤلف نے برسبیل تذکرہ عمرو بن ثابت بن ابی المقدام کی وجہ سے کردیا ہے، ورنہ یہاں کسی سند میں ان کا نام نہیں آیا ہے، عمرو بن ثابت کو حافظ ابن حجر نے ” ضعیف “ قرار دیا ہے۔ ٢ ؎ : لیکن بتصریح ترمذی امام بخاری نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے حتی کہ امام احمد نے بھی اس کی تحسین کی ہے، حافظ ابن القیم نے اس پر مفصل بحث کی ہے، اس کی تائید حدیث نمبر : (٣٩٤) سے بھی ہو رہی ہے۔

【288】

مستحاضہ کو ہر نماز کے لئے غسل کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی سالی اور عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کی بیوی ام حبیبہ بنت جحش (رض) کو سات سال تک استحاضہ کی شکایت رہی، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں مسئلہ دریافت کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ حیض نہیں ہے، بلکہ یہ رگ (کا خون) ہے، لہٰذا غسل کرو اور نماز پڑھو ۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : تو وہ اپنی بہن زینب بنت حجش (رض) کے حجرے میں ایک بڑے لگن میں غسل کرتی تھیں، یہاں تک کہ خون کی سرخی پانی پر غالب آجاتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٥، (تحفة الأشراف : ١٧٩٢٢، ١٦٥٧٢) (صحیح )

【289】

مستحاضہ کو ہر نماز کے لئے غسل کرنے کا بیان

اس سند سے ام حبیبہ (رض) سے بھی یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : تو وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣٤) (صحیح )

【290】

مستحاضہ کو ہر نماز کے لئے غسل کرنے کا بیان

اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے وہ (ام حبیبہ رضی اللہ عنہا) ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے قاسم بن مبرور نے یونس سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عمرہ سے، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے، اور انہوں نے ام حبیبہ بنت جحش (رض) سے روایت کی ہے، اور اسی طرح اسے معمر نے زہری سے، انہوں نے عمرہ سے، اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ سے روایت کی ہے، اور کبھی کبھی معمر نے عمرہ سے، انہوں نے ام حبیبہ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے، اور اسی طرح اسے ابراہیم بن سعد اور ابن عیینہ نے زہری سے، انہوں نے عمرہ سے، انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے، اور ابن عیینہ نے اپنی روایت میں کہا ہے کہ انہوں (زہری) نے یہ نہیں کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں (ام حبیبہ کو) غسل کرنے کا حکم دیا، نیز اسی طرح اسے اوزاعی نے بھی روایت کی ہے اس میں ہے کہ عائشہ نے کہا : وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٤ (٣٣٤) ، سنن الترمذی/الطہارة ٩٦ (١٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨٣) (صحیح )

【291】

مستحاضہ کو ہر نماز کے لئے غسل کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا (حمنہ) کو سات سال تک استحاضہ کی شکایت رہی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں غسل کرنے کا حکم دیا، چناچہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٧ (٣٢٧) (تحفة الأشراف : ١٧٩١٠، ١٦٦١٩) (صحیح )

【292】

مستحاضہ کو ہر نماز کے لئے غسل کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ام حبیبہ بنت حجش (رض) کو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں استحاضہ کی شکایت ہوئی، تو آپ ﷺ نے انہیں ہر نماز کے لیے غسل کرنے کا حکم دیا، اور پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابوالولید طیالسی نے روایت کیا ہے لیکن اسے میں نے ان سے نہیں سنا ہے، انہوں نے سلیمان بن کثیر سے، سلیمان نے زہری سے، زہری نے عروہ سے اور عروہ نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کی ہے، وہ کہتی ہیں : ام المؤمنین زینب بنت حجش (رض) کو استحاضہ ہوا تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : تم ہر نماز کے لیے غسل کرلیا کرو ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نیز اسے عبدالصمد نے سلیمان بن کثیر سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : تم ہر نماز کے لیے وضو کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ عبدالصمد کا وہم ہے اور اس سلسلے میں ابوالولید کا قول ہی صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ١٦٦١٠، ١٦٤٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٣٧) (صحیح )

【293】

مستحاضہ کو ہر نماز کے لئے غسل کرنے کا بیان

ابوسلمہ کہتے ہیں کہ زینب بنت ابی سلمہ (رض) نے مجھے خبر دی کہ ایک عورت کو استحاضہ کی شکایت تھی اور وہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے عقد میں تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں ہر نماز کے لیے غسل کرنے اور نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ (یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن) نے مجھے خبر دی کہ ام بکر نے انہیں خبر دی ہے کہ عائشہ (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کے متعلق جو طہر کے بعد ایسی چیز دیکھے جو اسے شک میں ڈال دے، فرمایا : یہ تو بس ایک رگ ہے ، یا فرمایا : یہ تو بس رگیں ہیں ، راوی کو شک ہے کہ إنما هي عرق کہا یا إنما هو عروق کہا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن عقیل کی حدیث میں دونوں امر ایک ساتھ ہیں، اس میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا : اگر ہو سکے تو تم ہر نماز کے لیے غسل کرو، ورنہ دو دو نماز کو جمع کرلو ، جیسا کہ قاسم نے اپنی حدیث میں کہا ہے، نیز یہ قول سعید بن جبیر سے بھی مروی ہے، وہ علی اور ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٩٧٦، ١٥٨٨٦) (صحیح )

【294】

مستحاضہ دو نمازوں کے لئے ایک غسل کرے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت کو استحاضہ ہوا تو اسے حکم دیا گیا کہ عصر جلدی پڑھے اور ظہر میں دیر کرے، اور دونوں کے لیے ایک غسل کرے، اور مغرب کو مؤخر کرے، اور عشاء میں جلدی کرے اور دونوں کے لیے ایک غسل کرے، اور فجر کے لیے ایک غسل کرے۔ شعبہ کہتے ہیں : تو میں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے پوچھا : کیا یہ نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے ؟ اس پر انہوں نے کہا : میں جو کچھ تم سے بیان کرتا ہوں وہ نبی اکرم ﷺ ہی سے مروی ہوتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٣٦ (٢١٤) ، والحیض ٥ (٣٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٩٥) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطھارة ٨٢ (٧٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اصل میں عبارت یوں ہے : لا أحدثک إلا عن النبي ﷺ شيء جو معنوی اعتبار سے یوں ہے :لاأحدثک بشيء إلا عن النبي ﷺ ، ترجمہ اسی اعتبار سے کیا گیا ہے، اور بعض نسخوں میں عبارت یوں ہے :لاأحدثک عن النبي ﷺ بشيء ، یعنی غصہ سے کہا کہ :” اب میں تم کو نبی اکرم ﷺ سے کچھ روایت نہیں کیا کروں گا “۔

【295】

مستحاضہ دو نمازوں کے لئے ایک غسل کرے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل (رض) کو استحاضہ ہوا، چناچہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں، تو آپ ﷺ نے انہیں ہر نماز کے وقت غسل کرنے کا حکم دیا، جب ان پر یہ شاق گزرا تو آپ ﷺ نے انہیں ایک غسل سے ظہر اور عصر پڑھنے، اور ایک غسل سے مغرب و عشاء پڑھنے اور ایک غسل سے فجر پڑھنے کا حکم دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسے ابن عیینہ نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت کو استحاضہ ہوا تو اس نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے اسے حکم دیا، پھر اس راوی نے اوپر والی روایت کے ہم معنی روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٥٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١١٩، ١٣٩) (ضعیف) (اس کے راوی ابن اسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے لیکن متن دوسری روایتوں سے ثابت ہے) ۔

【296】

مستحاضہ دو نمازوں کے لئے ایک غسل کرے

اسماء بنت عمیس (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! فاطمہ بنت ابی حبیش کو اتنے اتنے دنوں سے (خون) استحاضہ آ رہا ہے تو وہ نماز نہیں پڑھ سکی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : سبحان اللہ ! یہ تو شیطان کی طرف سے ہے، وہ ایک لگن میں بیٹھ جائیں، جب پانی پر زردی دیکھیں تو ظہر و عصر کے لیے ایک غسل، مغرب و عشاء کے لیے ایک غسل، اور فجر کے لیے ایک غسل کریں، اور اس کے درمیان میں وضو کرتی رہیں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے مجاہد نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ جب ان پر غسل کرنا دشوار ہوگیا تو آپ ﷺ نے انہیں ایک غسل سے دو نمازیں جمع کرنے کا حکم دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نیز اسے ابراہیم نے بھی ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے اور یہی قول ابراہیم نخعی اور عبداللہ بن شداد کا بھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٦٠) (صحیح )

【297】

مستحاضہ جب حیض سے فارغ ہو تو غسل کرے۔

عدی بن ثابت کے دادا ١ ؎ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا : وہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑے رہے، پھر غسل کرے اور نماز پڑھے، اور ہر نماز کے وقت وضو کرے ٢ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عثمان نے یہ اضافہ کیا ہے کہ اور روزے رکھے، اور نماز پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٩٤ (١٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١٥ (٦٢٥) ، سنن الدارمی/الطھارة ٨٣ (٨٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٢) (صحیح) (اس سند میں ابوالیقظان ضعیف ہیں، دوسری سندوں اور حدیثوں سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہوئی ہے ) وضاحت : ١ ؎ : امام مزی نے دینار ، جدعدی بن ثابت انصاری کی مسند میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے ، اور ابوداؤد کا یہ قول نقل کیا ہے :ھو حدیث ضعیف ( یہ حدیث ضعیف ہے) اور حافظ ابن حجر نے النکت الظراف میں لکھا ہے کہ عدی کے دادا کا نام راجح یہ ہے کہ ثابت بن قیس ابن الخطیم ہے ( تحفۃ الأشراف : ٣٥٤٢) ٢ ؎ : جمہور کا یہی مذہب ہے ، اور دلیل سے یہی قوی ہے ، اور ہر نماز کے وقت غسل والی روایتیں استحباب پر محمول ہیں۔

【298】

مستحاضہ جب حیض سے فارغ ہو تو غسل کرے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش (رض) نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئیں۔ پھر راوی نے ان کا واقعہ بیان کیا، اس میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تم غسل کرو اور ہر نماز کے لیے وضو کرو اور نماز پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١٥ (٦٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٧٢) (صحیح )

【299】

مستحاضہ جب حیض سے فارغ ہو تو غسل کرے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) مستحاضہ کے بارے میں کہتی ہیں کہ وہ غسل کرے گی، یعنی ایک مرتبہ (غسل کرے گی) پھر اپنے حیض آنے تک وضو کرتی رہے گی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، سنن الدارمی/الطھارة ٨٤ (٨١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٥٨ و ١٧٩٨٩) (صحیح) (اس سند میں ایوب ضعیف ہیں، دوسری سندوں اور حدیثوں سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہوئی ہے )

【300】

مستحاضہ جب حیض سے فارغ ہو تو غسل کرے۔

اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں عدی بن ثابت اور اعمش کی حدیث جو انہوں نے حبیب سے روایت کیا ہے، اور ایوب ابوالعلاء کی حدیث یہ سب کی سب ضعیف ہیں، صحیح نہیں ہیں، اور اعمش کی حدیث جسے انہوں نے حبیب سے روایت کیا ہے، اس کے ضعف پر یہی حدیث دلیل ہے، جسے حفص بن غیاث نے اعمش سے موقوفاً روایت کیا ہے، اور حفص بن غیاث نے حبیب کی حدیث کے مرفوعاً ہونے کا انکار کیا ہے، نیز اسے اسباط نے بھی اعمش سے، اور اعمش نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے موقوفاً روایت کیا ہے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس کے ابتدائی حصہ کو ابن داود نے اعمش سے مرفوعاً روایت کیا ہے اور اس میں ہر نماز کے وقت وضو کے ہونے کا انکار کیا ہے۔ حبیب کی حدیث کے ضعف کی دلیل یہ بھی ہے کہ زہری کی روایت بواسطہ عروہ، عائشہ (رض) سے مستحاضہ کے متعلق مروی ہے، اس میں یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔ ابوالیقظان نے عدی بن ثابت سے، عدی نے اپنے والد ثابت سے، ثابت نے علی (رض) سے، اور بنو ہاشم کے غلام عمار نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، اور عبدالملک بن میسرہ، بیان، مغیرہ، فراس اور مجالد نے شعبی سے اور شعبی نے قمیر کی حدیث عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ : تم ہر نماز کے لیے وضو کرو ۔ اور داود اور عاصم کی روایت میں جسے انہوں نے شعبی سے، شعبی نے قمیر سے، اور قمیر نے عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ وہ روزانہ ایک بار غسل کرے۔ ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ : مستحاضہ عورت ہر نماز کے لیے وضو کرے ۔ یہ ساری حدیثیں ضعیف ہیں سوائے تین حدیثوں کے : ایک قمیر کی حدیث (جو عائشہ (رض) سے مروی ہے) ، دوسری عمار مولی بنی ہاشم کی حدیث (جو ابن عباس (رض) سے مروی ہے) ، اور تیسری ہشام بن عروہ کی حدیث جو ان کے والد سے مروی ہے، ابن عباس سے مشہور ہر نماز کے لیے غسل ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٧٩٥٨ و ١٧٩٨٩) (صحیح) (اس کے راوی ایوب ضعیف ہیں ، دوسری حدیثوں سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اعمش کی حدیث جسے انہوں نے حبیب کے طریق سے روایت کیا ہے دو وجہوں سے ضعیف ہے ایک یہ کہ حفص بن غیاث نے بھی اسے اعمش سے روایت کیا ہے ؛ لیکن انہوں نے اسے ام المومنین عائشہ (رض) پر موقوف قرار دیا ہے اور اس کے مرفوع ہونے کا انکار کیا ہے، اور اسباط بن محمد نے بھی اسے اعمش سے موقوفاً ہی روایت کیا ہے اور خود اعمش نے بھی صرف اس کے ابتدائی حصہ کو مرفوعاً روایت کیا ہے اور اس میں ہر نماز کے وقت وضو کے ذکر کا انکار کیا ہے، دوسری یہ کہ حبیب بن ثابت نے زہری کی مخالفت کی ہے کیونکہ زہری نے اپنی روایت میں (جسے انہوں نے بواسطہ عروہ ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے) ہر نماز کے وقت غسل کرنے کا ذکر کیا ہے اور حبیب کی روایت میں ہر نماز کے لئے وضو کا ذکر ہے۔ وضاحت : خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مؤلف نے اس باب میں نو روایتیں ذکر کی ہیں جن میں سے تین مرفوع ، چھ موقوف ہیں ، یہ ساری روایتیں ضعیف ہیں سوائے ان تین آثار کے جن کا ذکر انہوں نے آخر میں کیا ہے (تینوں مرفوع روایات بھی متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر معناً صحیح ہیں) ۔

【301】

مستحاضہ ایک ظہر سے دوسرے ظہر تک کے لئے غسل کرے

ابوبکر کے غلام سمیّ کہتے ہیں کہ قعقاع اور زید بن اسلم دونوں نے انہیں سعید بن مسیب کے پاس یہ مسئلہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا کہ مستحاضہ عورت کس طرح غسل کرے ؟ تو انہوں نے کہا : وہ ایک ظہر سے دوسرے ظہر تک ایک غسل کرے، اور ہر نماز کے لیے وضو کرے، اور اگر استحاضہ کا خون زیادہ آئے تو کپڑے کا لنگوٹ باندھ لے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن عمر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے کہ وہ ظہر سے ظہر تک ایک غسل کرے، اور اسی طرح داود اور عاصم نے شعبی سے، شعبی نے اپنی بیوی سے، انہوں نے قمیر سے، اور قمیر نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کی ہے، مگر داود کی روایت میں لفظ كل يوم کا (اضافہ) ہے یعنی ہر روز غسل کرے، اور عاصم کی روایت میں عند الظهر کا لفظ ہے اور یہی قول سالم بن عبداللہ، حسن اور عطاء کا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مالک نے کہا : میں سمجھتا ہوں کہ ابن مسیب کی حدیث : من ظهرٍ إلى ظهرٍ کے بجائے من طهرٍ إلى طهرٍ ہے، لیکن اس میں وہم داخل ہوگیا اور لوگوں نے اسے بدل کر من ظهرٍ إلى ظهرٍ کردیا، نیز اسے مسور بن عبدالملک بن سعید بن عبدالرحمٰن بن یربوع نے روایت کیا ہے، اس میں انہوں نے من طهر إلى طهر کہا ہے، پھر لوگوں نے اسے من ظهرٍ إلى ظهرٍ میں بدل دیا۔ تخریج دارالدعوہ : موطا امام مالک/الطہارة ٢٩ (١٠٧) ، أخرجہ : سنن الدارمی/الطھارة ٨٤ (٨٣٧) (صحیح) (انس، عائشہ اور حسن کے اقوال بھی سنداً صحیح ہیں )

【302】

مستحاضہ ہر روز غسل کیا کرے

علی (رض) کہتے ہیں کہ جب مستحاضہ کا حیض آنا بند ہوجائے تو ہر روز (وقت کی تخصیص کے بغیر) غسل کرے اور گھی یا روغن زیتون لگا ہوا روئی کا ٹکڑا شرمگاہ میں رکھ لے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٢٨٢) (صحیح )

【303】

مستحاضہ ایام طہر میں غسل کیا کرے

محمد بن عثمان سے روایت ہے کہ انہوں نے قاسم بن محمد سے مستحاضہ کے بارے میں پوچھا تو قاسم بن محمد نے کہا : وہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے گی، پھر غسل کرے گی اور نماز پڑھے گی، پھر باقی ایام میں غسل کرتی رہے گی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٢٠٥) (صحیح )

【304】

مستحاضہ ہر نماز کے لئے وضو کرے

فاطمہ بنت ابی حبیش (رض) کہتی ہیں کہ انہیں استحاضہ کی شکایت تھی تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : جب حیض کا خون ہو (جو کہ بالکل سیاہ ہوتا ہے اور پہچان لیا جاتا ہے) تو تم نماز سے رک جاؤ اور جب دوسری طرح کا خون آنے لگے تو وضو کرو اور نماز پڑھو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ ابن مثنی نے کہا ہے کہ ابن ابی عدی نے اسے ہم سے زبانی بیان کیا تو اس میں انہوں نے عن عروة عن عائشة أن فاطمة کہا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نیز یہ حدیث علاء بن مسیب اور شعبہ سے مروی ہے انہوں نے حکم سے اور حکم نے ابو جعفر سے روایت کیا ہے مگر علاء نے اسے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً اور شعبہ نے ابو جعفر سے موقوفاً بیان کیا ہے، اس میں یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے وضو کرے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨١، (تحفة الأشراف : ١٨٠١٩) (حسن )

【305】

مستحاضہ کو ہر نماز کے وقت وضو کرنا ضروری نہیں مگر یہ کہ جب کوئی حدث لاحق ہو

عکرمہ کہتے ہیں کہ ام حبیبہ بنت جحش (رض) کو استحاضہ ہوگیا تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے ایام حیض (کے ختم ہونے) کا انتظار کریں پھر غسل کریں اور نماز پڑھیں، پھر اگر اس میں سے کچھ ١ ؎ انہیں محسوس ہو تو وضو کرلیں اور نماز پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٧، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد حدث ہے نہ کہ مستحاضہ سے خارج ہونے والا خون ، اس لئے کہ استحاضہ کے خون سے وضو واجب نہیں ہوتا کیونکہ یہ خون بند ہی نہیں ہوتا ہے برابر جاری رہتا ہے اور اگر اس سے خون مراد لیا جائے تو جملہ شرطیہ کا کوئی مفہوم ہی نہیں رہ جاتا ہے کیونکہ مستحاضہ تو برابر خون دیکھتی ہے یہ اس سے بند ہی نہیں ہوتا ہے اسی وضاحت سے یہ حدیث باب کے مطابق ہوسکتی ہے۔

【306】

مستحاضہ کو ہر نماز کے وقت وضو کرنا ضروری نہیں مگر یہ کہ جب کوئی حدث لاحق ہو

ربیعہ سے روایت ہے کہ وہ مستحاضہ کے لیے ہر نماز کے وقت وضو ضروری نہیں سمجھتے تھے سوائے اس کے کہ اسے خون کے علاوہ کوئی اور حدث لاحق ہو تو وہ وضو کرے گی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہی مالک بن انس کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٦٣٦) (صحیح )

【307】

حیض سے پاک ہونے کے بعد زردی یا تیرگی کا اعتبار نہیں

ام عطیہ (رض) (انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے بیعت کی تھی) کہتی ہیں ہم حیض سے پاک ہوجانے کے بعد زردی اور گدلے پن کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨١٣٢) وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٥ (٣٢٥) ، سنن النسائی/الحیض ٧ (٣٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٢٧ (٦٤٧) ، سنن الدارمی/الطھارة ٩٣ (٩٠٠) (صحیح )

【308】

حیض سے پاک ہونے کے بعد زردی یا تیرگی کا اعتبار نہیں

اس سند سے بھی ام عطیہ (رض) سے اسی کے مثل مروی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ام ہذیل حفصہ بنت سیرین ہیں، ان کے لڑکے کا نام ہذیل اور شوہر کا نام عبدالرحمٰن ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٦(٣٢٦) ، سنن النسائی/الحیض ٧(٣٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٢٧(٦٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مؤلف نے یہاں اس بات کا تذکرہ اس مناسبت سے کیا ہے کہ ام ہذیل محمد بن سیرین کی بہن ہیں، ان کی ام عطیہ سے اور بھی دیگر روایات ہیں۔

【309】

مستحاضہ سے اسکا شوہر جماع کرسکتا ہے

عکرمہ کہتے ہیں کہ ام حبیبہ (رض) کو استحاضہ کا خون آتا تھا اور ان کے شوہر ان سے صحبت کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ یحییٰ بن معین نے کہا ہے کہ معلی ثقہ ہیں اور احمد بن حنبل ان سے اس لیے روایت نہیں کرتے تھے کہ وہ قیاس و رائے میں دخل رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم (٣٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢١) (صحیح )

【310】

مستحاضہ سے اسکا شوہر جماع کرسکتا ہے

حمنہ بنت جحش (رض) کہتی ہیں کہ وہ مستحاضہ ہوتی تھیں اور ان کے شوہر ان سے جماع کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٣٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢١) (حسن )

【311】

نفاس کی مدت کا بیان

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نفاس والی عورتیں زچگی کے بعد چالیس دن یا چالیس رات تک بیٹھی رہتی تھیں ١ ؎، ہم اپنے چہروں پر ورس ٢ ؎ ملا کرتے تھے یعنی جھائیوں کی وجہ سے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ١٠٥ (١٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٢٨ (٦٤٨) (تحفة الأشراف : ١٨٢٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٠٠، ٣٠٣، ٣٠٤، ٣١٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی نماز اور روزے سے رکی رہتی تھیں۔ ٢ ؎ : ایک خوشبودار گھاس ہے جسے رنگنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔

【312】

نفاس کی مدت کا بیان

مسہازدیہ (ام بسہ) سے روایت ہے کہ میں حج کو گئی تو ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے ہاں حاضر ہوئی، میں نے ان سے کہا : اے ام المؤمنین ! سمرہ بن جندب عورتوں کو حیض کی نمازیں قضاء کرنے کا حکم دیتے ہیں، اس پر انہوں نے کہا : وہ قضاء نہ کریں (کیونکہ) عورت جو نبی اکرم ﷺ کی بیویوں میں سے ہوتی ١ ؎ حالت نفاس میں چالیس دن تک بیٹھی رہتی تھی اور نبی اکرم ﷺ اسے نفاس کی نماز قضاء کرنے کا حکم نہیں دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٢٨٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اس سے صرف ازواج مطہرات ہی مراد نہیں ہیں بلکہ یہ عام ہے اس میں بیٹیاں، لونڈیاں اور خاندان اور رشتہ کی عورتیں بھی داخل ہیں۔

【313】

خون حیض کو دھو نے یا غسل حیض کا طریقہ

ایک غفاری عورت (رض) کہتی ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے اپنے پیچھے اپنے کجاوے کے حقیبہ ١ ؎ پر بٹھایا پھر اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ صبح تک مسلسل چلتے رہے، پھر آپ ﷺ نے اونٹ بٹھا دیا، میں کجاوے کے حقیبہ پر سے اتری تو اس میں حیض کے خون کا نشان پایا، یہ میرا پہلا حیض تھا جو مجھے آیا، وہ کہتی ہیں : میں شرم کی وجہ سے اونٹنی کے پاس سمٹ گئی، جب رسول اللہ ﷺ نے یہ حال دیکھا اور خون بھی دیکھا تو فرمایا : تمہیں کیا ہوا ؟ شاید حیض آگیا ہے ، میں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے آپ کو ٹھیک کرلو (کچھ باندھ لو تاکہ خون باہر نہ نکلے) پھر پانی کا ایک برتن لے کر اس میں نمک ڈال لو اور حقیبہ میں لگے ہوئے خون کو دھو ڈالو، پھر اپنی سواری پر واپس آ کر بیٹھ جاؤ ۔ وہ کہتی ہیں : جب رسول اللہ ﷺ نے خیبر کو فتح کیا تو مال فی میں سے ہمیں بھی ایک حصہ دیا۔ وہ کہتی ہیں : پھر وہ جب بھی حیض سے پاکی حاصل کرتیں تو اپنے پاکی کے پانی میں نمک ضرور ڈالتیں، اور جب ان کی وفات کا وقت آیا تو اپنے غسل کے پانی میں بھی نمک ڈالنے کی وصیت کر گئیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٣٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٨٠) (ضعیف) (اس کی راویہ امیہ بنت ابی الصلت مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎: ہر وہ چیز جو اونٹ کے پیچھے کجاوہ کے آخر میں باندھ دی جائے حقیبہ کہلاتی ہے۔

【314】

خون حیض کو دھو نے یا غسل حیض کا طریقہ

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اسماء (اسماء بنت شکل انصاریہ) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! جب ہم میں سے کوئی حیض سے پاک ہو تو وہ کس طرح غسل کرے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : بیر کی پتی ملا ہوا پانی لے کر وضو کرے، پھر اپنا سر دھوئے، اور اسے ملے یہاں تک کہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے، پھر اپنے سارے جسم پر پانی بہائے، پھر روئی کا پھاہا لے کر اس سے طہارت حاصل کرے ۔ اسماء نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں اس (پھا ہے) سے طہارت کس طرح حاصل کروں ؟ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ نے جو بات کنایۃً کہی وہ میں سمجھ گئی، چناچہ میں نے ان سے کہا : تم اسے خون کے نشانات پر پھیرو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٣ (٣٣٢) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٢٤ (٦٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٤٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ١٣ (٣١٤) ، سنن النسائی/الطھارة ١٥٩ (٢٥٢) ، مسند احمد (٦/١٤٧، سنن الدارمی/الطھارة ٨٣ (٨٠٠) (حسن صحیح )

【315】

خون حیض کو دھو نے یا غسل حیض کا طریقہ

ام المؤمنین عائشہ (رض) نے انصار کی عورتوں کا ذکر کیا تو ان کی تعریف کی اور ان کے حق میں بھلی بات کہی اور بولیں : ان میں سے ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی ، پھر راوی نے سابقہ مفہوم کی حدیث بیان کی، مگر اس میں انہوں نے فرصة ممسکة (مشک میں بسا ہوا پھاہا) کہا۔ مسدد کا بیان ہے کہ ابوعوانہ فرصة (پھاہا) کہتے تھے اور ابوالاحوص قرصة (روئی کا ٹکڑا) کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٧٨٤٧) (حسن صحیح )

【316】

خون حیض کو دھو نے یا غسل حیض کا طریقہ

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اسماء (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا، پھر آگے اسی مفہوم کی حدیث ہے، اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : مشک لگا ہوا روئی کا پھاہا (لے کر اس سے پاکی حاصل کرو) ، اسماء نے کہا : اس سے میں کیسے پاکی حاصل کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : سبحان اللہ ! اس سے پاکی حاصل کرو ، اور آپ ﷺ نے کپڑے سے (اپنا چہرہ) چھپالیا۔ اس حدیث میں اتنا اضافہ ہے کہ اسماء (رض) نے غسل جنابت کے بارے میں بھی دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم پانی لے لو، پھر اس سے خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرو، پھر اپنے سر پر پانی ڈالو، پھر اسے اتنا ملو کہ پانی بالوں کی جڑوں میں پہنچ جائے، پھر اپنے اوپر پانی بہاؤ ۔ راوی کہتے ہیں : عائشہ (رض) نے کہا : انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں انہیں دین کا مسئلہ دریافت کرنے اور اس کو سمجھنے میں حیاء مانع نہیں ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٧٨٤٧) (حسن )

【317】

تیمم کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسید بن حضیر (رض) اور ان کے ساتھ کچھ لوگوں کو وہ ہار ڈھونڈنے کے لیے بھیجا جسے عائشہ نے کھو دیا تھا، وہاں نماز کا وقت ہوگیا تو لوگوں نے بغیر وضو نماز پڑھ لی، پھر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو تیمم کی آیت اتاری گئی۔ ابن نفیل نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ اسید بن حضیر (رض) نے عائشہ (رض) سے کہا : اللہ آپ پر رحم کرے ! آپ کو جب بھی کوئی ایسا معاملہ پیش آیا جسے آپ ناگوار سمجھتی رہیں تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اور آپ کے لیے اس میں ضرور کشادگی پیدا کردی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٥٨ (٥٨٨٢) ، التفسیر ٣ (٤٥٨٣) ،(تحفة الأشراف : ١٧٦٠، ١٧٢٠٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التیمم ٢ (٣٣٤) ، صحیح مسلم/التیمم ٢٨ (٣٦٧) ، سنن النسائی/الطھارة ١٩٤ (٣١١) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٩٠ (٦٥٨) ، موطا امام مالک/الطھارة ٢٣(٨٩) ، مسند احمد (٦/٥٧، ١٧٩) ، سنن الدارمی/الطھارة ٦٥ (٧٧٣) (صحیح )

【318】

تیمم کا بیان

عمار بن یاسر (رض) بیان کرتے تھے کہ لوگوں نے فجر کی نماز کے لیے پاک مٹی سے تیمم کیا، یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، تو انہوں نے مٹی پر اپنا ہاتھ مارا اور منہ پر ایک دفعہ پھیرلیا، پھر دوبارہ مٹی پر ہاتھ مارا اور اپنے پورے ہاتھوں پر پھیرلیا یعنی اپنی ہتھیلیوں سے لے کر کندھوں اور بغلوں تک ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٩٠ (٥٦٥) ، ٩٢ (٥٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطھارة ١١٠ (١٤٤) ، سنن النسائی/الطھارة ١٩٦ (٣١٣) ، ١٩٩ (٣١٧) ، ٢٠٠ (٣١٨) ، ٢٠١ (٣١٩) ، ٢٠٢ (٣٢٠) ، مسند احمد (٤/٢٦٣، ٢٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تیمم کا طریقہ آگے حدیث نمبر (٣٢٠) میں آ رہا ہے، جس میں ہاتھ کو صرف ایک بار مٹی پر مار کر منہ اور ہتھیلی پر مسح کرنے کا بیان ہے اس حدیث کے سلسلہ میں علامہ محمد اسحاق دہلوی فرماتے ہیں کہ ابتداء میں صحابہ کرام (رض) نے اپنی سمجھ اور قیاس سے ایسا کیا ، لیکن جب نبی اکرم ﷺ نے تیمم کا طریقہ بتایا تو وہ اس کو سیکھ گئے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ امام شافعی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ عمار (رض) نے فرمایا : ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مونڈھے تک تیمم کیا ، اور آپ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے تیمم کے لئے چہرہ اور دونوں ہتھیلی تک مسح کا حکم دیا ، تو گویا زیر نظر واقعہ میں مذکور تیمم نبی اکرم ﷺ کے حکم سے نہیں تھا (ملاحظہ ہو : عون المعبود ١ ؍ ٣٥٠ و ٣٥١ )

【319】

تیمم کا بیان

اس سند سے ابن وہب سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ مسلمان کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی ہتھیلیوں کو مٹی پر مارا اور مٹی بالکل نہیں لی ، پھر راوی نے اسی جیسی حدیث ذکر کی، اس میں انہوں نے المناکب والآباط (کندھوں اور بغلوں) کا ذکر نہیں کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٠٣٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الطھارة ١٩٧ (٣١٤) ، مسند احمد (٤/٢٦٣، ٢٦٤) (صحیح )

【320】

تیمم کا بیان

عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اولات الجیش ١ ؎ میں رات گزارنے کے لیے ٹھہرے، آپ ﷺ کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ (رض) بھی تھیں، ان کا ہار جو ظفار کے مونگوں سے بنا تھا ٹوٹ کر گرگیا ، چناچہ ہار کی تلاش کے سبب لوگ روک لیے گئے یہاں تک کہ صبح روشن ہوگئی اور لوگوں کے پاس پانی موجود نہیں تھا، چناچہ ابوبکر (رض) عائشہ (رض) پر ناراض ہوگئے اور کہا : تم نے لوگوں کو روک رکھا ہے، حالانکہ ان کے پاس پانی نہیں ہے ، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر پاک مٹی سے طہارت حاصل کرنے کی رخصت نازل فرمائی، مسلمان رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہوئے، اپنے ہاتھ زمین پر مار کر اسے اس طرح اٹھا لیا کہ مٹی بالکل نہیں لگی، پھر اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مونڈھوں تک اور ہتھیلیوں سے بغلوں تک مسح کیا۔ ابن یحییٰ نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ ابن شہاب نے اپنی روایت میں کہا : لوگوں کے نزدیک اس فعل کا اعتبار نہیں ہے ٢ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نیز اسی طرح ابن اسحاق نے روایت کی ہے اس میں انہوں نے ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہوئے دو ضربہ ٣ ؎ کا ذکر کیا ہے جس طرح یونس نے ذکر کیا ہے، نیز معمر نے بھی زہری سے دو ضربہ کی روایت کی ہے۔ مالک نے زہری سے، زہری نے عبیداللہ بن عبداللہ سے، عبیداللہ نے اپنے والد عبداللہ سے، عبداللہ نے عمار (رض) سے روایت کی ہے، اور اسی طرح ابواویس نے زہری سے روایت کی ہے، اور ابن عیینہ نے اس میں شک کیا ہے : کبھی انہوں نے عن عبيد الله عن أبيه کہا، اور کبھی عن عبيد الله عن ابن عباس یعنی کبھی عن أبيه اور کبھی عن ابن عباس ذکر کیا۔ ابن عیینہ اس میں ٤ ؎ اور زہری سے اپنے سماع میں ٥ ؎ مضطرب ہیں نیز زہری کے رواۃ میں سے کسی نے دو ضربہ کا ذکر نہیں کیا ہے سوائے ان لوگوں کے جن کا میں نے نام لیا ہے ٦ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ١٩٧ (٣١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے ، اسے ذات الجیش بھی کہا جاتا ہے۔ وضاحت : کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم سے پہلے اپنی رائے و قیاس سے انہوں نے ایسا کیا تھا۔ ٢ ؎: ابن حجر کے قول کے مطابق صفت تیمم کے سلسلہ میں ابوجہیم اور عمار (رض) کی حدیث کو چھوڑ کر باقی ساری روایات یا تو ضعیف ہیں یا ان کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے ، یہی وجہ ہے کہ امام بخاری (رح) نے اپنی صحیح میں التيمم للوجه والکفين کے ساتھ باب باندھا ہے ( ملاحظہ ہو : فتح الباری ) ۔ ٣ ؎ علامہ البانی دو ضربہ والی روایات کو واہی اور معلول کہتے ہیں ، اس لئے دو ضربہ کی ضرورت ہی نہیں صرف ایک ضربہ کافی ہے (ارواء الغلیل) ۔ ٤ ؎ : یعنی کبھی تو انہوں نے عن أبيه کہا اور کبھی اسے ساقط کرکے اس کی جگہ عن ابن عباس کہا۔ ٥ ؎ : کبھی انہوں نے اسے زہری سے بلاواسطہ روایت کیا ہے اور کبھی اپنے اور زہری کے درمیان عمرو بن دینار کا واسطہ بڑھا دیا۔ ٦ ؎ : وہ نام یہ ہیں : یونس ، ابن اسحاق اور معمر، زہری کے رواۃ میں صرف انہیں تینوں نے ضربتین کے لفظ کا ذکر کیا ہے، رہے زہری سے روایت کرنے والے باقی لوگ جیسے صالح بن کیسان ، لیث بن سعد، عمرو بن دینار، مالک ، ابن ابی ذئب وغیرہم تو ان میں سے کسی نے ضربتین کا ذکر نہیں کیا ہے۔

【321】

تیمم کا بیان

ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری (رض) کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کہ ابوموسیٰ (رض) نے کہا : ابوعبدالرحمٰن ! (یہ عبداللہ بن مسعود کی کنیت ہے) اس مسئلے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص جنبی ہوجائے اور ایک مہینے تک پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کرتا رہے ؟ عبداللہ بن مسعود نے کہا : تیمم نہ کرے، اگرچہ ایک مہینہ تک پانی نہ ملے۔ ابوموسیٰ (رض) نے کہا : پھر آپ سورة المائدہ کی اس آیت : فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا : اگر تیمم کی رخصت دی جائے تو قریب ہے کہ جب پانی ٹھنڈا ہو تو لوگ مٹی سے تیمم کرنے لگیں۔ اس پر ابوموسیٰ (رض) نے ان سے کہا : آپ نے اسی وجہ سے اسے ناپسند کیا ہے ؟ ابن مسعود (رض) نے کہا : ہاں، تو ابوموسیٰ (رض) نے ان سے کہا : کیا آپ نے عمار (رض) کی بات (جو انہوں نے عمر (رض) سے کہی) نہیں سنی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے کسی ضرورت کے لیے بھیجا تو میں جنبی ہوگیا اور مجھے پانی نہیں ملا تو میں مٹی (زمین) پر لوٹا جیسے جانور لوٹتا ہے، پھر میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں تو بس اس طرح کرلینا کافی تھا ، اور آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، پھر اسے جھاڑا، پھر اپنے بائیں سے اپنی دائیں ہتھیلی پر اور دائیں سے بائیں ہتھیلی پر مارا، پھر اپنے چہرے کا مسح کیا، تو عبداللہ (رض) نے ان سے کہا : کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ عمر رضی اللہ عنہ، عمار (رض) کی اس بات سے مطمئن نہیں ہوئے ؟ !۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التیمم ٧ (٣٤٥، ٣٤٦) ، ٨ (٣٤٧) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٨ (٣٦٨) ، سنن الترمذی/الطہارة ١١٠ (١٤٤ مختصراً ) ، سنن النسائی/الطھارة ٢٠٣ (٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٦٤) (صحیح )

【322】

تیمم کا بیان

عبدالرحمٰن بن ابزیٰ کہتے ہیں کہ میں عمر (رض) کے پاس تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا : بسا اوقات ہم کسی جگہ ماہ دو ماہ ٹھہرے رہتے ہیں (جہاں پانی موجود نہیں ہوتا اور ہم جنبی ہوجاتے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے ؟ ) عمر (رض) نے کہا : جہاں تک میرا معاملہ ہے تو جب تک مجھے پانی نہ ملے میں نماز نہیں پڑھ سکتا، وہ کہتے ہیں : اس پر عمار (رض) نے کہا : امیر المؤمنین ! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ اونٹوں میں تھے (اونٹ چراتے تھے) اور ہمیں جنابت لاحق ہوگئی، بہرحال میں تو مٹی (زمین) پر لوٹا، پھر ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں بس اس طرح کرلینا کافی تھا اور آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان پر پھونک ماری اور اپنے چہرے اور اپنے دونوں ہاتھوں پر نصف ذراع تک پھیرلیا، اس پر عمر (رض) نے کہا : عمار ! اللہ سے ڈرو ١ ؎، انہوں نے کہا : امیر المؤمنین ! اگر آپ چاہیں تو قسم اللہ کی میں اسے کبھی ذکر نہ کروں، عمر (رض) نے کہا : ہرگز نہیں، قسم اللہ کی ہم تمہاری بات کا تمہیں اختیار دیتے ہیں، یعنی معاملہ تم پر چھوڑتے ہیں تم اسے بیان کرنا چاہو تو کرو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف :: ١٠٣٦٢) (صحیح) (مگر إلى نصف الذراعين کا لفظ صحیح نہیں ہے ، یہ شاذ ہے اور صحیحین میں ہے بھی نہیں ) وضاحت : ١ ؎: اس بےاطمینانی کی وجہ یہ تھی کہ عمر (رض) خود اس قضیہ میں عمار (رض) کے ساتھ موجود تھے لیکن انہیں اس طرح کا کوئی واقعہ سرے سے یاد ہی نہیں آ رہا تھا۔

【323】

تیمم کا بیان

ابن ابزی عمار بن یاسر (رض) سے اس حدیث میں یہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اے عمار ! تمہیں اس طرح کرلینا کافی تھا ، پھر آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر ایک بار مارا پھر ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا پھر اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں پر دونوں کلائیوں کے نصف تک پھیرا اور کہنیوں تک نہیں پہنچے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے وکیع نے اعمش سے، انہوں نے سلمہ بن کہیل سے اور سلمہ نے عبدالرحمٰن بن ابزی سے روایت کیا ہے، نیز اسے جریر نے اعمش سے، اعمش نے سلمہ بن کہیل سے، سلمہ نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزی سے اور سعید نے اپنے والد سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٠٣٦٢) (صحیح) (” الذراعين ...“ کا جملہ صحیح نہیں ہے )

【324】

تیمم کا بیان

اس سند سے بھی عبدالرحمٰن بن ابزی سے عمار بن یاسر (رض) کے واسطہ سے یہی قصہ مروی ہے، اس میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں بس اتنا کرلینا کافی تھا ، اور پھر نبی اکرم ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، پھر اس میں پھونک مار کر اپنے چہرے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں پر پھیرلیا، سلمہ کو شک ہے، وہ کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ اس میں إلى المرفقين ہے یا إلى الكفين‏. (یعنی آپ ﷺ نے کہنیوں تک پھیرا، یا پہونچوں تک) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٣١٣٨ ، ١٠٣٦٢ ) (صحیح) (شک والا جملہ صحیح نہیں ہے، ملاحظہ ہو حدیث نمبر : ٣٢٦)

【325】

تیمم کا بیان

حجاج اعور کہتے ہیں کہ شعبہ نے اسی سند سے یہی حدیث بیان کی ہے، اس میں ہے پھر آپ ﷺ نے اس میں پھونک ماری اور اپنے چہرے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں پر کہنیوں یا ذراعین ١ ؎ تک پھیرا۔ شعبہ کا بیان ہے کہ سلمہ کہتے تھے : دونوں ہتھیلیوں، چہرے اور ذراعین پر پھیرا، تو ایک دن منصور نے ان سے کہا : جو کہہ رہے ہو خوب دیکھ بھال کر کہو، کیونکہ تمہارے علاوہ ذراعین کو اور کوئی ذکر نہیں کرتا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٠٣٦٢) (صحیح) ( المرفقين والذراعين والا جملہ صحیح نہیں ہے، ملاحظہ ہو حدیث نمبر : ٣٢٦ ) وضاحت : ١ ؎ : ذراع کا اطلاق بیچ کی انگلی کے سرے سے لے کر کہنی تک کے حصہ پر ہوتا ہے ، یعنی مرفق اور ذراع دونوں ” کہنی “ کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔

【326】

تیمم کا بیان

اس طریق سے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے بواسطہ عمار (رض) اس حدیث میں مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ آپ نے یعنی نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صرف اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مار کر انہیں اپنے چہرے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں پر پھیرلینا تمہارے لیے کافی تھا ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے شعبہ نے حصین سے، حصین نے ابو مالک سے روایت کیا ہے، اس میں ہے : میں نے عمار (رض) کو اسی طرح خطبہ میں بیان کرتے ہوئے سنا ہے مگر اس میں انہوں نے کہا : پھونک نہیں ماری ، اور حسین بن محمد نے شعبہ سے اور انہوں نے حکم سے روایت کی ہے، اس میں انہوں نے کہا ہے : آپ ﷺ نے زمین پر اپنی دونوں ہتھیلیوں کو مارا اور اس میں پھونک ماری۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٠٣٦٢) (صحیح )

【327】

تیمم کا بیان

عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے تیمم کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے مجھے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے لیے ایک ضربہ ١ ؎ کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٠٣٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایک بار مٹی پر ہاتھ مار کر چہرہ اور دونوں ہتھیلی پر پھیرا جائے۔

【328】

تیمم کا بیان

موسیٰ بن اسماعیل کہتے ہیں : ہم سے ابان نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں قتادہ سے سفر میں تیمم کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : مجھ سے ایک محدث نے بیان کیا ہے، اس نے شعبی سے شعبی نے عبدالرحمٰن بن ابزی سے ابزی نے عمار بن یاسر (رض) سے روایت کی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہنیوں تک (مسح کرے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٠٣٦٢) (منکر) (اس کی سند میں محدث ایک مبہم راوی ہے )

【329】

حضر میں تیمم کرنے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کے غلام عمیر کہتے ہیں کہ میں اور ام المؤمنین میمونہ (رض) کے غلام عبداللہ بن یسار دونوں ابوجہیم بن حارث بن صمہ انصاری (رض) کے پاس آئے تو ابوجہیم نے کہا : رسول اللہ ﷺ بئرجمل (مدینے کے قریب ایک جگہ کا نام) کی طرف سے تشریف لائے تو ایک شخص آپ ﷺ سے ملا اور اس نے آپ کو سلام کیا، تو آپ ﷺ نے اسے سلام کا جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ آپ ایک دیوار کے پاس آئے اور آپ نے (دونوں ہاتھوں کو دیوار پر مار کر) اپنے منہ اور دونوں ہاتھوں کا مسح کیا، پھر آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التیمم ٣ (٣٣٧) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٨ (تعلیقاً ) (٣٦٩) ، سنن النسائی/الطھارة ١٩٥ (٣١٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٩) (صحیح )

【330】

حضر میں تیمم کرنے کا بیان

نافع کہتے ہیں : میں ابن عمر (رض) کے ساتھ کسی ضرورت کے تحت ابن عباس (رض) کے پاس گیا، ابن عمر (رض) نے اپنی ضرورت پوری کی اور اس دن ان کی گفتگو میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ایک آدمی ایک گلی میں رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ہو کر گزرا اور آپ (ابھی) پاخانہ یا پیشاب سے فارغ ہو کر نکلے تھے کہ اس آدمی نے سلام کیا تو آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ جب وہ شخص گلی میں آپ کی نظروں سے اوجھل ہوجانے کے قریب ہوا تو آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ دیوار پر مارے اور انہیں اپنے چہرے پر پھیرا، پھر دوسری بار اپنے دونوں ہاتھ دیوار پر مارے اور اس سے دونوں ہاتھوں کا مسح کیا پھر اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا : مجھے تیرے سلام کا جواب دینے میں کوئی چیز مانع نہیں تھی سوائے اس کے کہ میں پاکی کی حالت میں نہیں تھا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا کہ محمد بن ثابت نے تیمم کے باب میں ایک منکر حدیث روایت کی ہے۔ ابن داسہ کہتے ہیں کہ ابوداؤد نے کہا ہے کہ اس قصے میں نبی اکرم ﷺ سے دو ضربہ پر محمد بن ثابت کی متابعت (موافقت) نہیں کی گئی ہے، صرف انہوں نے ہی دو ضربہ کو رسول اللہ ﷺ کا فعل قرار دیا ہے، ان کے علاوہ دیگر حضرات نے اسے ابن عمر (رض) کا فعل روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٤٢٠) (ضعیف) (محمد بن ثابت لین الحدیث ہیں ایک ضربہ والی اگلی حدیث صحیح ہے )

【331】

حضر میں تیمم کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پاخانہ سے فارغ ہو کر آئے تو بئر جمل کے پاس ایک آدمی کی ملاقات آپ سے ہوگئی، اس نے آپ کو سلام کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ ایک دیوار کے پاس آئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دیوار پر مارا پھر اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کا مسح کیا، اس کے بعد آپ ﷺ نے اس آدمی کے سلام کا جواب دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٥٣٣) (صحیح )

【332】

جنبی تیمم کرسکتا ہے

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ بکریاں جمع ہوگئیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : ابوذر ! تم ان بکریوں کو جنگل میں لے جاؤ ، چناچہ میں انہیں ہانک کر مقام ربذہ کی طرف لے گیا، وہاں مجھے جنابت لاحق ہوجایا کرتی تھی اور میں پانچ پانچ چھ چھ روز یوں ہی رہا کرتا، پھر میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ نے فرمایا : ابوذر !، میں خاموش رہا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہاری ماں تم پر روئے، ابوذر ! تمہاری ماں کے لیے بربادی ہو ١ ؎، پھر آپ ﷺ نے میرے لیے ایک کالی لونڈی بلائی، وہ ایک بڑے پیالے میں پانی لے کر آئی، اس نے میرے لیے ایک کپڑے کی آڑ کی اور (دوسری طرف سے) میں نے اونٹ کی آڑ کی اور غسل کیا، (غسل کر کے مجھے ایسا لگا) گویا کہ میں نے اپنے اوپر سے کوئی پہاڑ ہٹا دیا ہو، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : پاک مٹی مسلمان کے لیے وضو (کے پانی کے حکم میں) ہے، اگرچہ دس برس تک پانی نہ پائے، جب تم پانی پا جاؤ تو اس کو اپنے بدن پر بہا لو، اس لیے کہ یہ بہتر ہے ۔ مسدد کی روایت میں غنيمة من الصدقة کے الفاظ ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عمرو کی روایت زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٩٢ (١٢٤) ، سنن النسائی/الطھارة ٢٠٥ (٣٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥٥، ١٨٠) (صحیح) (بزار وغیرہ کی روایت کردہ ابوہریرہ (رض) کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے ایک راوی عمرو بن بجدان مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎: اس طرح کے الفاظ زبان پر یوں ہی بطور تعجب جاری ہوجاتے ہیں ان سے بددعا مقصود نہیں ہوتی۔

【333】

جنبی تیمم کرسکتا ہے

قبیلہ بنی عامر کے ایک آدمی کہتے ہیں کہ میں اسلام میں داخل ہوا تو مجھے اپنا دین سیکھنے کی فکر لاحق ہوئی لہٰذا میں ابوذر (رض) کے پاس آیا، انہوں نے کہا : مجھے مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے کچھ اونٹ اور بکریاں دینے کا حکم دیا اور مجھ سے فرمایا : تم ان کا دودھ پیو ، (حماد کا بیان ہے کہ مجھے شک ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں پیشاب بھی پینے کے لیے کہا یا نہیں، یہ حماد کا قول ہے) ، پھر ابوذر (رض) نے کہا : میں پانی سے (اکثر) دور رہا کرتا تھا اور میرے ساتھ میری بیوی بھی تھی، مجھے جنابت لاحق ہوتی تو میں بغیر طہارت کے نماز پڑھ لیتا تھا، تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس دوپہر کے وقت آیا، آپ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد کے سائے میں (بیٹھے) تھے، آپ نے فرمایا : ابوذر ؟ ، میں نے کہا : جی، اللہ کے رسول ! میں تو ہلاک و برباد ہوگیا، آپ ﷺ نے فرمایا : کس چیز نے تمہیں ہلاک و برباد کیا ؟ ، میں نے کہا : میں پانی سے دور رہا کرتا تھا اور میرے ساتھ میری بیوی تھی، مجھے جنابت لاحق ہوتی تو میں بغیر طہارت کے نماز پڑھ لیتا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے پانی لانے کا حکم دیا، چناچہ ایک کالی لونڈی بڑے برتن میں پانی لے کر آئی جو برتن میں ہل رہا تھا، برتن بھرا ہوا نہیں تھا، پھر میں نے اپنے اونٹ کی آڑ کی اور غسل کیا، پھر آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے ابوذر ! پاک مٹی پاک کرنے والی ہے، اگرچہ تم دس سال تک پانی نہ پاؤ، لیکن جب تمہیں پانی مل جائے تو اسے اپنی کھال پر بہاؤ (غسل کرو) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے حماد بن زید نے ایوب سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے پیشاب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ صحیح نہیں ہے اور پیشاب کا ذکر صرف انس بن مالک (رض) کی حدیث میں ہے، جس میں اہل بصرہ منفرد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٠٠٨) (صحیح) (ابوہریرہ (رض) کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ خود اس کی سند میں ایک راوی رجل من بنی عامر مبہم راوی ہیں اور یہ وہی عمرو بن بجدان ہیں )

【334】

کیا سردی کے خوف سے جنبی تیمم کرسکتا ہے؟

عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ ذات السلاسل کی ایک ٹھنڈی رات میں مجھے احتلام ہوگیا اور مجھے یہ ڈر لگا کہ اگر میں نے غسل کرلیا تو مرجاؤں گا، چناچہ میں نے تیمم کر کے اپنے ساتھیوں کو فجر پڑھائی، تو لوگوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : عمرو ! تم نے جنابت کی حالت میں اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی ؟ ، چناچہ میں نے آپ ﷺ کو غسل نہ کرنے کا سبب بتایا اور کہا : میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا کہ ولا تقتلوا أنفسکم إن الله کان بکم رحيما (سورۃ النساء : ٢٩) تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بیشک اللہ تم پر رحم کرنے والا ہے یہ سن کر رسول اللہ ﷺ ہنسے اور آپ نے کچھ نہیں کہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٧٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٠٣) (صحیح )

【335】

کیا سردی کے خوف سے جنبی تیمم کرسکتا ہے؟

عمرو بن العاص (رض) کے غلام ابو قیس سے روایت ہے کہ عمرو بن العاص ایک سریہ کے سردار تھے، پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی، اس میں ہے : تو انہوں نے اپنی شرمگاہ کے آس پاس کا حصہ دھویا، پھر وضو کیا جس طرح نماز کے لیے وضو کرتے ہیں پھر لوگوں کو نماز پڑھائی، آگے راوی نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی مگر اس میں تیمم کا ذکر نہیں کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ واقعہ اوزاعی نے حسان بن عطیہ سے روایت کیا ہے، اس میں فتيمم کے الفاظ ہیں (یعنی انہوں نے تیمم کیا) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٠٧٥٠) (صحیح )

【336】

زخمی یا معذور تیمم کرسکتا ہے؟

جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نکلے، تو ہم میں سے ایک شخص کو ایک پتھر لگا، جس سے اس کا سر پھٹ گیا، پھر اسے احتلام ہوگیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا : کیا تم لوگ میرے لیے تیمم کی رخصت پاتے ہو ؟ ان لوگوں نے کہا : ہم تمہارے لیے تیمم کی رخصت نہیں پاتے، اس لیے کہ تم پانی پر قادر ہو، چناچہ اس نے غسل کیا تو وہ مرگیا، پھر جب ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ ان کو مارے، جب ان کو مسئلہ معلوم نہیں تھا تو انہوں نے کیوں نہیں پوچھ لیا ؟ نہ جاننے کا علاج پوچھنا ہی ہے، اسے بس اتنا کافی تھا کہ تیمم کرلیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا (یہ شک موسیٰ کو ہوا ہے) ، پھر اس پر مسح کرلیتا اور اپنے باقی جسم کو دھو ڈالتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٤١٣) (حسن) ( إنما کان يكفيه یہ جملہ ثابت نہیں ہے )

【337】

زخمی یا معذور تیمم کرسکتا ہے؟

عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک آدمی کو زخم لگا، پھر اسے احتلام ہوگیا، تو اسے غسل کرنے کا حکم دیا گیا، اس نے غسل کیا تو وہ مرگیا، یہ بات رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا : ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ انہیں مارے، کیا لاعلمی کا علاج مسئلہ پوچھ لینا نہیں تھا ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : أخرجہ ابن ماجہ موصولاً برقم (٥٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٧٢) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطھارة ٦٩ (٧٧٩) (حسن )

【338】

تیمم کر کے نماز پڑھ لینے کے بعد پانی حاصل ہوجائے تو کیا کرنا چاہیئے؟

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ دو شخص ایک سفر میں نکلے تو نماز کا وقت آگیا اور ان کے پاس پانی نہیں تھا، چناچہ انہوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی، پھر وقت کے اندر ہی انہیں پانی مل گیا تو ان میں سے ایک نے نماز اور وضو دونوں کو دوہرایا، اور دوسرے نے نہیں دوہرایا، پھر دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو ان دونوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے اس شخص سے فرمایا جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی : تم نے سنت کو پا لیا اور تمہاری نماز تمہیں کافی ہوگئی ، اور جس شخص نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی تھی اس سے فرمایا : تمہارے لیے دوگنا ثواب ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن نافع کے علاوہ دوسرے لوگ اس حدیث کو لیث سے، وہ عمیر بن ابی ناجیہ سے، وہ بکر بن سوادہ سے، وہ عطاء بن یسار سے، وہ نبی اکرم ﷺ سے (مرسلاً ) روایت کرتے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث میں ابو سعید خدری (رض) کا ذکر محفوظ نہیں ہے، یہ مرسل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الغسل والتیمم ٢٧ (٤٣٣) (تحفة الأشراف : ٤١٧٦، ١٩٠٨٩، ١٦٥٩٩) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطھارة ٦٤ (٧٧١) (صحیح) (اس کا مرسل ہونا زیادہ صحیح ہے کیونکہ عبداللہ بن نافع کے حفظ میں تھوڑی سی کمزوری ہے اور دیگر لوگوں نے اس کو مرسلاً ہی روایت کیا ہے )

【339】

تیمم کر کے نماز پڑھ لینے کے بعد پانی حاصل ہوجائے تو کیا کرنا چاہیئے؟

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ دو صحابی رسول ﷺ (سفر میں تھے) ، پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٤١٧٦، ١٩٠٨٩) (صحیح )

【340】

جمعہ کے غسل کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک آدمی ١ ؎ داخل ہوا تو آپ نے کہا : کیا تم لوگ نماز (میں اول وقت آنے) سے رکے رہتے ہو ؟ اس شخص نے کہا : جوں ہی میں نے اذان سنی ہے وضو کر کے آگیا ہوں، اس پر عمر (رض) نے کہا : اچھا صرف وضو ہی ؟ کیا تم لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے نہیں سنا ہے : جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے آئے تو چاہیئے کہ غسل کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢ (٨٧٨) ، ٥ (٨٨٢) ، صحیح مسلم/الجمعة ١ (٨٤٥) ، موطا امام مالک/النداء للصلاة ١(٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٦٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجمعة ٣ (٤٩٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٠ (١٥٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد عثمان بن عفان (رض) ہیں۔

【341】

جمعہ کے غسل کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ (مسلمان) پر واجب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦١ (٨٥٨) ، والجمعة ٢ (٨٧٩) ، ١٢ (٨٩٥) ، والشہادات ١٨ (٢٦٦٥) ، صحیح مسلم/الجمعة ١ (٨٤٦) ، سنن النسائی/الجمعة ٨ (١٣٧٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٠ (١٠٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٤١٦١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجمعة ١(٤) ، مسند احمد (٣/٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٠ (١٥٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جمہور علماء حتی کہ ائمہ اربعہ کا کہنا ہے کہ جمعہ کے دن غسل واجب نہیں بلکہ مستحب ہے ، حدیث میں وجوب سے مراد وجوب اختیاری ہے نہ کہ وجوب لازمی ، اگر غسل واجب ہوتا تو عمر (رض) اس آدمی کو واپس جا کر غسل کر کے آنے کے لئے حکم دیتے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) کا کہنا ہے کہ جمعہ کے دن غسل مستحب ہے البتہ ایسے لوگ جن کے بدن سے تکلیف دہ پسینہ یا بو آتی ہو تو ان پر غسل واجب ہے ، واللہ اعلم۔

【342】

جمعہ کے غسل کا بیان

ام المؤمنین حفصہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر بالغ پر جمعہ کی حاضری اور جمعہ کے لیے ہر آنے والے پر غسل ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جب آدمی طلوع فجر کے بعد غسل کرلے تو یہ غسل جمعہ کے لیے کافی ہے اگرچہ وہ جنبی رہا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجمعة ٢ (١٣٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٠٦) (صحیح )

【343】

جمعہ کے غسل کا بیان

ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے، اپنے کپڑوں میں سے اچھے کپڑے پہنے، اور اگر اس کے پاس ہو تو خوشبو لگائے، پھر جمعہ کے لیے آئے اور لوگوں کی گردنیں نہ پھاندے، پھر اللہ نے جو نماز اس کے لیے مقدر کر رکھی ہے پڑھے، پھر امام کے (خطبہ کے لیے) نکلنے سے لے کر نماز سے فارغ ہونے تک خاموش رہے، تو یہ ساری چیزیں اس کے ان گناہوں کا کفارہ ہوں گی جو اس جمعہ اور اس کے پہلے والے جمعہ کے درمیان اس سے سرزد ہوئے ہیں ، راوی کہتے ہیں : ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : اور مزید تین دن کے گناہوں کا بھی، اس لیے کہ ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : محمد بن سلمہ کی حدیث زیادہ کامل ہے اور حماد نے ابوہریرہ (رض) کا کلام ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ٤٤٣٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجمعة ٨ (٨٥٨) من حديث أبي هريرة مختصرًا ومن غير هذا السند، وأدرج قوله : ” وثلاثة أيام “ في قوله ﷺ (حسن )

【344】

جمعہ کے غسل کا بیان

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر بالغ پر جمعہ کے دن غسل کرنا، مسواک کرنا اور خوشبو لگانا جو اسے نصیب ہو لازم ہے ، مگر بکیر نے (عمرو بن سلیم اور ابو سعید خدری کے درمیان) عبدالرحمٰن بن ابی سعید کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، اور خوشبو کے بارے میں انہوں نے کہا : اگرچہ عورت ہی کی خوشبو سے ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣ (٨٨٠) (نحوہ) ، صحیح مسلم/الجمعة ٢ (٨٤٦) ، سنن النسائی/الجمعة ٦ (١٣٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٤١١٦، ٤٢٦٧) ، وقد أخرجہ : (٣/٣٠، ٦٥، ٦٦، ٦٩) (صحیح )

【345】

جمعہ کے غسل کا بیان

اوس بن اوس ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو شخص جمعہ کے دن نہلائے اور خود بھی نہائے ١ ؎ پھر صبح سویرے اول وقت میں (مسجد) جائے، شروع سے خطبہ میں رہے، پیدل جائے، سوار نہ ہو اور امام سے قریب ہو کر غور سے خطبہ سنے، اور لغو بات نہ کہے تو اس کو ہر قدم پر ایک سال کے روزے اور شب بیداری کا ثواب ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٩ (٤٩٦) ، سنن النسائی/الجمعة ١٠ (١٣٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٠ (١٠٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٥) وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨، ٩، ١٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٤ (١٥٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اپنی بیوی سے صحبت کرنے کے بعد اسے نہلائے اور خود بھی نہائے۔

【346】

جمعہ کے غسل کا بیان

اس سند سے بھی اوس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جمعہ کے دن اپنا سر دھویا اور غسل کیا ، پھر راوی نے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٧٣٥) (صحیح )

【347】

جمعہ کے غسل کا بیان

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے، اپنی عورت کی خوشبو میں سے اگر اس کے پاس ہو لگائے، اپنے اچھے کپڑے زیب تن کرے، پھر لوگوں کی گردنیں نہ پھاندے اور خطبہ کے وقت بیکار کام نہ کرے، تو یہ اس جمعہ سے اس (یعنی پچھلے) جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہوگا، اور جو بلا ضرورت (بیہودہ) باتیں بکے، اور لوگوں کی گردنیں پھاندے، تو وہ جمعہ اس کے لیے ظہر ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٦٥٩) (حسن )

【348】

جمعہ کے غسل کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ چار چیزوں کی وجہ سے غسل کرتے تھے : (ا) جنابت کی وجہ سے، (٢) جمعہ کے دن (٣) پچھنے لگانے سے، (٤) اور میت کو نہلانے سے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦١٩٣) ، ویأتی عند المؤلف فی الجنازة برقم (٣١٦٠) (ضعیف) (اس کے راوی مصعب بن شیبہ ضعیف ہیں )

【349】

جمعہ کے غسل کا بیان

علی بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے مکحول سے اس قول غسل واغتسل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنا سر اور بدن دھوئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٤٧١) (صحیح )

【350】

جمعہ کے غسل کا بیان

سعید بن عبدالعزیز سے غسل واغتسل کے بارے میں مروی ہے، ابومسہر کہتے ہیں کہ سعید کا کہنا ہے کہ غسل واغتسل کے معنی ہیں : وہ اپنا سر اور اپنا بدن خوب دھلے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٨٦٩١) (صحیح )

【351】

جمعہ کے غسل کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے جمعہ کے دن غسل جنابت کی ط رح غسل کیا پھر (پہلی گھڑی میں) جمعہ کے لیے (مسجد) گیا تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں پیش کیا، جو دوسری گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک گائے اللہ کی راہ میں پیش کی، اور جو تیسری گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک سینگ دار مینڈھا اللہ کی راہ میں پیش کیا، جو چوتھی گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک مرغی اللہ کی راہ میں پیش کی، اور جو پانچویں گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک انڈا اللہ کی راہ میں پیش کیا، پھر جب امام (خطبہ کے لیے) نکل آتا ہے تو فرشتے بھی آجاتے ہیں اور ذکر (خطبہ) سننے لگتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٤ (٨٨١) ، وبدء الخلق ٦ (٣٢١١) ، صحیح مسلم/الجمعة ٧ (٨٥٠) ، سنن الترمذی/الجمعة ٦ (٤٩٩) ، سنن النسائی/١٧٠٨، من الکبریٰ ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٦٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الإمامة ٥٩ (٨٦٥) ، والجمعة ١٣ (١٣٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٢ (١٠٩٢) ، موطا امام مالک/الجمعة ١(١) ، مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٥٩، ٢٨٠، ٥٠٥، ٥١٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٣ (١٥٨٥) (صحیح )

【352】

جمعہ کے دن غسل نہ کرنے کی اجازت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ لوگ اپنے کام خود کرتے تھے، اور جمعہ کے لیے اسی حالت میں چلے جاتے تھے (ان کی بو سے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی، جب اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے ہوا) تو ان لوگوں سے کہا گیا : کاش تم لوگ غسل کر کے آتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٦ (٩٠٣) ، والبیوع ١٥ (٢٠٧١) ، صحیح مسلم/الجمعة ١ (٨٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٣٥) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الجمعة ٩ (١٣٨٠) ، مسند احمد (٦/٦٢) (صحیح )

【353】

جمعہ کے دن غسل نہ کرنے کی اجازت

عکرمہ کہتے ہیں کہ عراق کے کچھ لوگ آئے اور کہنے لگے : اے ابن عباس ! کیا جمعہ کے روز غسل کو آپ واجب سمجھتے ہیں ؟ آپ نے کہا : نہیں، لیکن جو غسل کرے اس کے لیے یہ بہتر اور پاکیزگی کا باعث ہے، اور جو غسل نہ کرے اس پر واجب نہیں ہے، اور میں تم کو بتاتا ہوں کہ غسل کی ابتداء کیسے ہوئی : لوگ پریشان حال تھے، اون پہنا کرتے تھے، اپنی پیٹھوں پر بوجھ ڈھوتے تھے، ان کی مسجد بھی تنگ تھی، اس کی چھت نیچی تھی بس کھجور کی شاخوں کا ایک چھپر تھا، (ایک بار) ایسا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ سخت گرمی کے دن نکلے، لوگوں کو کمبل پہننے کی وجہ سے بےحد پسینہ آیا یہاں تک کہ ان کی بدبو پھیلی اور اس سے ایک دوسرے کو تکلیف ہوئی، تو جب یہ بو رسول اللہ ﷺ کو محسوس ہوئی تو آپ نے فرمایا : لوگو ! جب یہ دن ہوا کرے تو تم غسل کرلیا کرو، اور اچھے سے اچھا جو تیل اور خوشبو میسر ہو لگایا کرو ، ابن عباس کہتے ہیں : پھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو وسعت دی، وہ لوگ اون کے علاوہ کپڑے پہننے لگے، خود محنت کرنے کی ضرورت نہیں رہی، ان کی مسجد بھی کشادہ ہوگئی، اور پسینے کی بو سے ایک دوسرے کو جو تکلیف ہوتی تھی ختم ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦١٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٦ (٨٨٣) ، مسند احمد (٦/٢٧٦) (حسن )

【354】

جمعہ کے دن غسل نہ کرنے کی اجازت

سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جمعہ کے دن وضو کیا، تو اس نے سنت پر عمل کیا اور یہ اچھی بات ہے، اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجمعة ٥ (٤٩٧) ، سنن النسائی/الجمعة ٩ (١٣٨١) ، مسند احمد (٥/١٥، ١٦، ٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٧) (حسن) (یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے اور سب کی سندیں ضعیف ہیں، یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری (رح) کا سمرہ (رض) سے حدیث عقیقہ کے سوا سماع ثابت نہیں، ہاں تمام طرق سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، متن کی تائید صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ جمعہ کے لئے وضو کافی ہے اور غسل افضل ہے فرض نہیں۔

【355】

قبول اسلام کے وقت غسل کرنا مستحب ہے

قیس بن عاصم (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں اسلام لانے کے ارادے سے حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے مجھے پانی اور بیر کی پتی سے غسل کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٣٠٣ (٦٠٥) ، سنن النسائی/الطھارة ١٢٦ (١٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١١١٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٦١) (صحیح )

【356】

قبول اسلام کے وقت غسل کرنا مستحب ہے

کلیب کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور بولے : میں اسلام لے آیا ہوں، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : تم اپنے (بدن) سے کفر کے بال صاف کراؤ ، آپ ﷺ فرما رہے تھے : بال منڈوا لو ، عثیم کے والد کا بیان ہے کہ ایک دوسرے شخص نے مجھے یہ خبر دی کہ نبی اکرم ﷺ نے دوسرے شخص سے جو ان کے ساتھ تھا فرمایا : تم اپنے (بدن) سے کفر کے بال صاف کرو اور ختنہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١١٦٨، ١٥٦٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٥) (حسن) ( اس کی سند میں ضعف ہے : ابن جریج اور عثیم کے درمیان ایک راوی مجہول ہے، نیز خود عثیم اور ان کے والد کثیر بن کلیب بھی مجہول ہیں، اس کو تقویت قتادہ اور ابو ہشام کی حدیث سے ہے جو طبرانی میں ہے ١٩ ؍ ١٤) (صحیح ابی داود : ٣٨٣) ۔

【357】

حالت حیض میں پہنے ہوئے لباس کو دھونے کا مسئلہ

معاذہ کہتی ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے اس حائضہ کے بارے میں دریافت کیا جس کے کپڑے پر (حیض کا) خون لگ جائے، تو انہوں نے کہا : وہ اسے دھو ڈالے اور اگر اس کا اثر زائل نہ ہو تو اسے کسی زرد چیز سے (رنگ کر) بدل دے ، عائشہ (رض) کہتی ہیں : مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس تین تین حیض اکٹھے لگاتار آتے تھے، میں (ایام حیض میں پہنا ہوا) اپنا کپڑا نہیں دھوتی تھی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٩٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٥٠) ، سنن الدارمی/الطھارة ١٠٤ (١٠٥٢) (صحیح )

【358】

حالت حیض میں پہنے ہوئے لباس کو دھونے کا مسئلہ

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم میں سے کسی کے پاس سوائے ایک کپڑے کے کوئی اور کپڑا نہیں ہوتا تھا، اسی کپڑے میں اسے حیض (بھی) آتا تھا، اگر اس میں (حیض کا) کچھ خون لگ جاتا تو وہ اپنے تھوک سے اسے تر کرتی پھر اسے تھوک کے ذریعہ ناخن سے کھرچ دیتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ١١ (٣١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٧٥) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطھارة ١٠٤ (١٠٥٥) (صحیح )

【359】

حالت حیض میں پہنے ہوئے لباس کو دھونے کا مسئلہ

بکار بن یحییٰ کی دادی سے روایت ہے کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے پاس گئی تو قریش کی ایک عورت نے ان سے حیض کے کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا، تو ام سلمہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہمیں حیض آتا تو ہم میں سے (جسے حیض آتا) وہ اپنے حیض کے دنوں میں ٹھہری رہتی، پھر وہ حیض سے پاک ہوجاتی تو ان کپڑوں کو جن میں وہ حیض سے ہوتی تھی دیکھتی، اگر ان میں کہیں خون لگا ہوتا تو ہم اسے دھو ڈالتے، پھر اس میں نماز پڑھتے، اور اگر ان میں کوئی چیز نہ لگی ہوتی تو ہم انہیں چھوڑ دیتے اور ہمیں ان میں نماز پڑھنے سے یہ چیز مانع نہ ہوتی، رہی ہم میں سے وہ عورت جس کے بال گندھے ہوتے تو وہ جب غسل کرتی تو اپنی چوٹی نہیں کھولتی، البتہ تین لپ پانی لے کر اپنے سر پر ڈالتی، جب وہ بال کی جڑوں تک تری دیکھ لیتی تو ان کو ملتی، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہاتی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٢٩٨) (ضعیف) (اس کے راوی بکار بن یحییٰ اور ان کی دادی مجہول ہیں )

【360】

حالت حیض میں پہنے ہوئے لباس کو دھونے کا مسئلہ

اسماء بنت ابی بکر (رض) کہتی ہیں کہ میں نے ایک عورت کو رسول اللہ ﷺ سے پوچھتے سنا : جب ہم میں سے کوئی عورت پاکی دیکھ لے تو ایام حیض میں پہنے ہوئے کپڑوں کو وہ کیا کرے ؟ کیا اس میں نماز پڑھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ اسے دیکھے اگر اس کپڑے میں خون لگا ہوا نظر آئے تو تھوڑے سے پانی سے اسے کھرچ دے اور دھو لے یہاں تک کہ وہ چھوٹ جائے، اور اس میں نماز پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤٢) (حسن صحیح) (اس سند میں ابن اسحاق مدلس راوی ہیں اور عنعنہ سے روایت کی ہے، مگر اگلی سند اور صحیحین کی سندوں میں ثقہ رواة ہیں )

【361】

حالت حیض میں پہنے ہوئے لباس کو دھونے کا مسئلہ

اسماء بنت ابی بکر (رض) کہتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! بتائیے اگر ہم میں سے کسی کے کپڑے میں حیض کا خون لگ جائے تو وہ کیا کرے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے کپڑے میں حیض کا خون لگ جائے تو اسے چٹکیوں سے مل دے، پھر اسے پانی سے دھو ڈالے پھر (اس میں) نماز پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٣ (٢٢٧) ، والحیض ٩ (٣٠٧) ، صحیح مسلم/الطھارة ٣٣ (٢٩١) ، سنن الترمذی/الطھارة ١٠٤ (١٣٨) ، سنن النسائی/الطھارة ١٨٥ (٢٩٤) ، والحیض ٢ (٣٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١٨ (٦٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطھارة (٢٨/١٠٣) ، مسند احمد (٦/٣٤٥، ٣٤٦، ٣٥٣) ، سنن الدارمی/الطھارة ٨٢ (٧٩٩) (صحیح )

【362】

حالت حیض میں پہنے ہوئے لباس کو دھونے کا مسئلہ

اس سند سے بھی ہشام سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اسے رگڑو پھر پانی سے کھرچ دو اور پھر اسے دھو ڈالو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤٣) (صحیح )

【363】

حالت حیض میں پہنے ہوئے لباس کو دھونے کا مسئلہ

ام قیس بنت محصن (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے حیض کے خون کے بارے میں جو کپڑے میں لگ جائے پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے کسی لکڑی سے رگڑ کر چھڑا دو ، اور پانی اور بیر کی پتی سے اسے دھو ڈالو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٨٥ (٢٩٣) ، والحیض ٢٦ (٣٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١٨ (٦٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٥٥، ٣٥٦) ، سنن الدارمی/الطھارة ١٠٤ (١٠٥٩) (صحیح )

【364】

حالت حیض میں پہنے ہوئے لباس کو دھونے کا مسئلہ

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم میں سے ایک کے پاس ایک قمیص ہوتی، اسی میں اسے حیض بھی آتا اور اسی میں اسے جنابت بھی لاحق ہوتی، پھر اس میں خون کا کوئی قطرہ اسے نظر آتا تو وہ اسے اپنے تھوک سے مل کر کھرچ ڈالتی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ١٧٣٨٠) (صحیح )

【365】

حالت حیض میں پہنے ہوئے لباس کو دھونے کا مسئلہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ خولہ بنت یسار (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے پاس سوائے ایک کپڑے کے کوئی اور کپڑا نہیں، اسی میں مجھے حیض آتا ہے، میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم پاک ہوجاؤ (حیض رک جائے) تو اسے دھو ڈالو، پھر اس میں نماز پڑھو ، اس پر خولہ نے کہا : اگر خون زائل نہ ہو تو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : خون کو دھو لینا تمہارے لیے کافی ہے، اس کا اثر (دھبہ) تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٤٢٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٦٤، ٣٨٠) (صحیح) (مذکورہ احادیث سے تقویت پاکر یہ حدیث معنی صحیح ہے، ورنہ خود یہ سند ابن لہیعہ کے سبب ضعیف ہے کیونکہ یہاں ان سے روایت کرنے والے عبادلہ اربعہ بھی نہیں ہیں )

【366】

جماع کی حالت میں پہنے ہوئے کپڑوں میں نماز پڑھنا

معاویہ بن ابی سفیان (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بہن ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ اس کپڑے میں نماز پڑھتے تھے جس میں آپ جماع کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں، جب آپ ﷺ اس میں کوئی گندگی نہ دیکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٨٦ (٢٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨٣ (٥٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٢٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٢ (١٤١٥) (صحیح )

【367】

عورتوں کے کپڑوں پر نماز نہ پڑھنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے شعار یا لحافوں میں نماز نہیں پڑھتے تھے ١ ؎۔ عبیداللہ کہتے ہیں کہ شک میرے والد (معاذ) کو ہوا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجمعة ٦٧ (٦٠٠) ، سنن النسائی/الزینة ٦١ (٥٣٦٨) ، وأعاده المؤلف برقم : ٦٤٥، (تحفة الأشراف : ١٦٢٢١ و ١٧٥٨٩ و ١٩٢٩٦) ، ویأتی ہذا الحدیث عند المؤلف برقم (٦٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شعار وہ کپڑا ہے جو عورت کے بدن سے لگا رہے اور لحاف اوڑھنے کی چادر کو کہتے ہیں، آپ ﷺ ان کپڑوں میں نماز اس وجہ سے نہیں پڑھتے تھے کہ کہیں ان میں حیض کا خون نہ لگ گیا ہو۔

【368】

عورتوں کے کپڑوں پر نماز نہ پڑھنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہماری چادروں میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٣) (صحیح )

【369】

عورتوں کے کپڑوں پر نماز پڑھنے کی اجازت

ام المؤمنین میمونہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز پڑھی اور آپ کے جسم پر ایک چادر تھی جس کا کچھ حصہ آپ ﷺ کی ایک بیوی پر پڑا ہوا تھا، وہ حائضہ تھیں اور آپ اسے اوڑھ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٣١ (٦٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٣٠ (٣٣٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ٥٢ (٥١٩) ، مسند احمد (٦/٢٠٤) (صحیح )

【370】

عورتوں کے کپڑوں پر نماز پڑھنے کی اجازت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات میں نماز پڑھتے، میں حالت حیض میں آپ کے پہلو میں ہوتی، اور میرے اوپر میری ایک چادر ہوتی جس کا کچھ حصہ آپ پر ہوتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥٢ (٥١٤) ، سنن النسائی/القبلة ١٧ (٢٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٣١ (٦٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٠٤) (صحیح )

【371】

منی کپڑے میں لگ جائے تو کیا کرنا چاہیئے؟

ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ وہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس تھے، ہمام کو احتلام ہوگیا، تو عائشہ (رض) کی ایک لونڈی نے انہیں دیکھ لیا کہ وہ اپنے کپڑے سے جنابت کے اثر کو یا اپنے کپڑے کو دھو رہے ہیں، اس نے عائشہ (رض) کو بتایا تو انہوں نے کہا : میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی کھرچتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ٣٢ (٢٨٨) ، سنن الترمذی/الطھارة ٨٥ (١١٦) ، سنن النسائی/الطھارة ١٨٨ (٢٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨٢ (٥٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٧، ١٢٥، ١٣٥، ٢١٣، ٢٣٩، ٢٦٣، ٢٨٠) (صحیح )

【372】

منی کپڑے میں لگ جائے تو کیا کرنا چاہیئے؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی کھرچ ڈالتی تھی، پھر آپ اسی میں نماز پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٩٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢٥، ١٣٢، ٢١٣) (صحیح )

【373】

منی کپڑے میں لگ جائے تو کیا کرنا چاہیئے؟

سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کو کہتے سنا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی دھوتی تھیں، کہتی ہیں کہ پھر میں اس میں ایک یا کئی دھبے اور نشان دیکھتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٤ (٢٢٩) ، ٦٥ (٢٣٢) ، صحیح مسلم/الطھارة ٣٢ (٢٨٩) ، سنن الترمذی/الطھارة ٨٦ (١١٧) ، سنن النسائی/الطھارة ١٨٧ (٢٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨١ (٥٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٢، ٢٣٥) (صحیح )

【374】

لڑکے کا پیشاب کپڑے پر لگ جائے تو کیا کرنا چاہئیے؟

ام قیس بنت محصن (رض) کہتی ہیں کہ وہ اپنے ایک چھوٹے اور شیر خوار بچے کو لے کر جو ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ ﷺ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا، اور اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کردیا، تو آپ ﷺ نے پانی منگوا کر اس پر چھینٹا مار لیا اور اسے دھویا نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٩ (٢٢٣) ، والطب ١٠ (٥٦٩٣) ، صحیح مسلم/الطھارة ٣١ (٢٨٧) ، سنن الترمذی/الطھارة ٥٤ (٧١) ، سنن النسائی/الطھارة ١٨٩ (٣٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٧ (٥٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٤٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطھارة ٣٠(١١٠) ، مسند احمد (٦/٣٥٥، ٣٥٦) ، سنن الدارمی/الطھارة ٦٢ (٧٦٧) (صحیح )

【375】

لڑکے کا پیشاب کپڑے پر لگ جائے تو کیا کرنا چاہئیے؟

لبابہ بنت حارث (رض) کہتی ہیں کہ حسین بن علی (رض) رسول اللہ ﷺ کی گود میں تھے، انہوں نے آپ ﷺ پر پیشاب کردیا تو میں نے عرض کیا کہ آپ کوئی دوسرا کپڑ ا پہن لیجئے اور اپنا تہہ بند مجھے دے دیجئیے تاکہ میں اسے دھو دوں، آپ ﷺ نے فرمایا : صرف لڑکی کے پیشاب کو دھویا جاتا ہے اور لڑکے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٧ (٥٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣٩) (حسن صحیح )

【376】

لڑکے کا پیشاب کپڑے پر لگ جائے تو کیا کرنا چاہئیے؟

ابو سمح (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت کرتا تھا، جب آپ غسل کرنا چاہتے تو مجھ سے فرماتے : تم اپنی پیٹھ میری جانب کرلو ، چناچہ میں چہرہ پھیر کر اپنی پیٹھ آپ ﷺ کی جانب کر کے آپ پر آڑ کئے رہتا، (ایک مرتبہ) حسن یا حسین (رض) کو آپ کی خدمت میں لایا گیا تو انہوں نے آپ ﷺ کے سینے پر پیشاب کردیا، میں اسے دھونے کے لیے بڑھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور لڑکے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جاتا ہے ۔ حسن بصری کہتے ہیں : (بچوں اور بچیوں کے) پیشاب سب برابر ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٩٠ (٣٠٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٧ (٥٢٦) ، ١١٣(٦١٣) (تحفة الأشراف : ١٢٠٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ہوسکتا ہے کہ حسن بصری کو اس بارے میں مرفوع حدیث نہ پہنچی ہو۔

【377】

لڑکے کا پیشاب کپڑے پر لگ جائے تو کیا کرنا چاہئیے؟

علی (رض) کہتے ہیں کہ لڑکی کا پیشاب دھویا جائے گا، اور لڑکے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جائے گا جب تک وہ کھانا نہ کھانے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٣١٣ (٦١٠) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٧ (٥٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٧) ، (صحیح )

【378】

لڑکے کا پیشاب کپڑے پر لگ جائے تو کیا کرنا چاہئیے؟

اس سند سے علی (رض) نے یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے نقل کی ہے، پھر ہشام نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی اور اس میں انہوں نے ما لم يطعم (جب تک کھانا نہ کھائے) کا ذکر نہیں کیا، اس میں انہوں نے اضافہ کیا ہے کہ قتادہ نے کہا : یہ حکم اس وقت کا ہے جب وہ دونوں کھانا نہ کھاتے ہوں، اور جب کھانا کھانے لگیں تو دونوں کا پیشاب دھویا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٠١٣١) (صحیح )

【379】

لڑکے کا پیشاب کپڑے پر لگ جائے تو کیا کرنا چاہئیے؟

حسن (حسن بصری) اپنی والدہ (خیرہ جو ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کی لونڈی تھیں) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ام سلمہ (رض) کو دیکھا کہ وہ لڑکے کے پیشاب پر پانی بہا دیتی تھیں جب تک وہ کھانا نہ کھاتا اور جب کھانا کھانے لگتا تو اسے دھوتیں، اور لڑکی کے پیشاب کو (دونوں صورتوں میں) دھوتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٢٥٦) (صحیح )

【380】

ناپاک زمین کو پاک کرنے کا طریقہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی مسجد میں آیا، اس وقت رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے، اس نے نماز پڑھی (ابن عبدہ نے اپنی روایت میں کہا : اس نے دو رکعت نماز پڑھی) ، پھر کہا : اے اللہ ! مجھ پر اور محمد ﷺ پر رحم کر اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کرنا ، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم نے اللہ کی وسیع رحمت کو تنگ اور محدود کردیا ، پھر زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ مسجد کے ایک کونے میں وہ پیشاب کرنے لگا تو لوگ اس کی طرف دوڑے، نبی اکرم ﷺ نے انہیں اعرابی کو ڈانٹنے سے منع کیا اور فرمایا : تم لوگ لوگوں پر آسانی کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو، سختی کرنے کے لیے نہیں، اس پر ایک ڈول پانی ڈال دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ١١٢ (١٤٧) ، سنن النسائی/الطھارة ٤٥ (٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٨ (٥٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٨ (٢٢٠) ، صحیح مسلم/الطھارة (٢٧٤، ٢٧٥) ، مسند احمد (٢/٢٣٩، ٥٠٣) (صحیح )

【381】

ناپاک زمین کو پاک کرنے کا طریقہ

عبداللہ بن معقل بن مقرن کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر انہوں نے اعرابی کے پیشاب کرنے کے اسی قصہ کو بیان کیا اس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس مٹی پر اس نے پیشاب کیا ہے وہ اٹھا کر پھینک دو اور اس کی جگہ پر پانی بہا دو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ روایت مرسل ہے اس لیے کہ ابن معقل نے نبی اکرم ﷺ کو نہیں پایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٩٤٤) (صحیح )

【382】

زمین خشک ہوجانے کے بعد پاک ہوجاتی ہے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں رات کو مسجد میں سوتا تھا، میں ایک نوجوان کنوارا (غیر شادی شدہ) تھا، اور کتے مسجد میں آتے جاتے اور پیشاب کرتے، کوئی اس پر پانی نہ بہاتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٣ (١٧٤) ، تعلیقًا (تحفة الأشراف : ٦٧٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمین میں اگر پیشاب وغیرہ پڑجائے پھر وہ زمین خشک ہوجائے تو وہ پاک ہوجاتی ہے ، نیز مسجد میں سونا درست اور جائز ہے۔

【383】

دامن میں نجاست لگ جانے کا بیان

ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف کی ام ولد (حمیدہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے پوچھا کہ میں اپنا دامن لمبا رکھتی ہوں (جو زمین پر گھسٹتا ہے) اور میں نجس جگہ میں بھی چلتی ہوں ؟ تو ام سلمہ (رض) نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : اس کے بعد کی زمین (جس پر وہ گھسٹتا ہے) اس کو پاک کردیتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ١٠٩ (١٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٩ (٥٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٩٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطھارة ٤(١٦) ، سنن الدارمی/الطھارة ٦٣ (٧٦٩) (صحیح )

【384】

دامن میں نجاست لگ جانے کا بیان

قبیلہ بنو عبدالاشھل کی ایک عورت کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارا مسجد تک جانے کا راستہ غلیظ اور گندگیوں والا ہے تو جب بارش ہوجائے تو ہم کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا اس کے آگے پھر کوئی اس سے بہتر اور پاک راستہ نہیں ہے ؟ ، میں نے کہا : ہاں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تو یہ اس کا جواب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٩ (٥٣٣) ،(تحفة الأشراف : ١٨٣٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی پاک و صاف راستے میں چلنے سے کپڑا پاک ہوجائے گا جیسے پہلے گندے راستہ سے ناپاک ہوگیا تھا۔

【385】

جوتہ میں نجاست لگ جانے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص اپنے جوتے سے نجاست روندے تو (اس کے بعد کی) مٹی اس کو پاک کر دے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٣٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جوتوں میں گندگی لگ جانے کی صورت میں اس کو زمین پر رگڑ دینے سے وہ پاک ہوجاتے ہیں، ان کو پہن کر نماز ادا کرنا صحیح ہے۔

【386】

جوتہ میں نجاست لگ جانے کا بیان

اس طریق سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنے خف (موزوں) سے نجاست کو روندے تو ان کی پاکی مٹی ہے (یعنی بعد والی زمین جس پر وہ چلے گا وہ اسے پاک کر دے گی) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٣٢٩) (صحیح )

【387】

جوتہ میں نجاست لگ جانے کا بیان

اس طریق سے ام المؤمنین عائشہ (رض) اسی مفہوم کی حدیث رسول اللہ ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود (تحفة الأشراف : ١٧٥٦٨) (صحیح )

【388】

نجاست لگے کپڑے سے نماز پڑھ لینے بیان

ام یونس بنت شداد کہتی ہیں کہ میری ساس ام جحدر عامریہ نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے کپڑے میں لگ جانے والے حیض کے خون کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھی اور ہم اپنا شعار (اندر کا کپڑا) پہنے ہوئے تھے، اس کے اوپر سے ہم نے ایک کمبل ڈال لیا تھا، جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کمبل کو اوڑھ کر (نماز کے لیے) چلے گئے اور صبح کی نماز پڑھی، پھر آپ ﷺ بیٹھے تو ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ خون کا نشان ہے، آپ ﷺ نے اس کے آس پاس کے حصہ کو مٹھی سے پکڑ کر غلام کے ہاتھ میں دے کر اسی طرح میرے پاس بھیجا اور فرمایا : اسے دھو کر اور سکھا کر میرے پاس بھیج دو ، چناچہ میں نے پانی کا اپنا پیالہ منگا کر اس کو دھویا پھر سکھایا، اس کے بعد آپ کے پاس واپس بھجوا دیا، پھر رسول اللہ ﷺ دوپہر کے وقت وہی کمبل اوڑھے تشریف لائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٩٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٥٠) (ضعیف) (اس کی دو راویہ ام جحدر اور ام یونس مجہول ہیں )

【389】

کپڑے میں تھوک لگ جانے کا بیان

ابونضرہ (منذر بن مالک) (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے کپڑے میں تھوکا اور اسی میں مل لیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ٦١٨، ١٩٤٩٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٣ (٤٠٥) ، ٣٩ (٤١٧) ، سنن النسائی/الطھارة ١٩٣ (٣٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٦١ (١٠٢٤) (صحیح )

【390】

کپڑے میں تھوک لگ جانے کا بیان

انس (رض) نے اسی طرح نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦١٨) (صحیح )