18. جنازوں کا بیان

【1】

وہ بیماریاں جو گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں

خضر کے تیر انداز بھائی عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے ملک میں تھا کہ یکایک ہمارے لیے جھنڈے اور پرچم لہرائے گئے تو میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا پرچم ہے، تو میں آپ کے پاس آیا، آپ ﷺ ایک درخت کے نیچے ایک کمبل پر جو آپ کے لیے بچھایا گیا تھا تشریف فرما تھے، اور آپ ﷺ کے اردگرد آپ کے اصحاب اکٹھا تھے، میں بھی جا کر انہیں میں بیٹھ گیا ١ ؎، پھر رسول اللہ ﷺ نے بیماریوں کا ذکر فرمایا : جب مومن بیمار پڑتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس کی بیماری سے عافیت بخشتا ہے تو وہ بیماری اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے اور آئندہ کے لیے نصیحت، اور جب منافق بیمار پڑتا ہے پھر اسے عافیت دے دی جاتی ہے تو وہ اس اونٹ کے مانند ہے جسے اس کے مالک نے باندھ رکھا ہو پھر اسے چھوڑ دیا ہو، اسے یہ نہیں معلوم کہ اسے کس لیے باندھا گیا اور کیوں چھوڑ دیا گیا ۔ آپ ﷺ کے اردگرد موجود لوگوں میں سے ایک شخص نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بیماریاں کیا ہیں ؟ اللہ کی قسم میں کبھی بیمار نہیں ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو اٹھ جا، تو ہم میں سے نہیں ہے ٢ ؎۔ عامر کہتے ہیں : ہم لوگ بیٹھے ہی تھے کہ ایک کمبل پوش شخص آیا جس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جس پر کمبل لپیٹے ہوئے تھا، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جب میں نے آپ کو دیکھا تو آپ کی طرف آ نکلا، راستے میں درختوں کا ایک جھنڈ دیکھا اور وہاں چڑیا کے بچوں کی آواز سنی تو انہیں پکڑ کر اپنے کمبل میں رکھ لیا، اتنے میں ان بچوں کی ماں آگئی، اور وہ میرے سر پر منڈلانے لگی، میں نے اس کے لیے ان بچوں سے کمبل ہٹا دیا تو وہ بھی ان بچوں پر آ گری، میں نے ان سب کو اپنے کمبل میں لپیٹ لیا، اور وہ سب میرے ساتھ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ان کو یہاں رکھو ، میں نے انہیں رکھ دیا، لیکن ماں نے اپنے بچوں کا ساتھ نہیں چھوڑا، تب رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کیا تم اس چڑیا کے اپنے بچوں کے ساتھ محبت کرنے پر تعجب کرتے ہو ؟ ، صحابہ نے عرض کیا : ہاں، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے سچا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے کہیں زیادہ محبت رکھتا ہے جتنی یہ چڑیا اپنے بچوں سے رکھتی ہے، تم انہیں ان کی ماں کے ساتھ لے جاؤ اور وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے انہیں لائے ہو ، تو وہ شخص انہیں واپس چھوڑ آیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٠٥٦) (ضعیف) (اس کے راوی ابو منظور شامی مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی میں بھی ان کے حلقے میں شریک ہوگیا، تاکہ آپ ﷺ کا وعظ اور آپ ﷺ کی نصیحت سنوں اور دیکھوں کہ آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں۔ ٢ ؎ : آپ ﷺ نے یہ تہدیدا فرمایا، یعنی مومن پر کوئی نہ کوئی مصیبت ضرور آتی ہے، تاکہ آخرت میں اس کے گناہوں کا کفارہ ہو، اس کے برخلاف کافروں کو اکثر دنیا میں راحت رہتی ہے، تاکہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ رہے، جو کچھ انہیں ملنا ہے دنیا ہی میں مل جائے۔

【2】

وہ بیماریاں جو گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں

خالد سلمی اپنے والد سے (جنہیں شرف صحبت حاصل ہے) روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیان کرتے ہوئے سنا : جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا رتبہ مل جاتا ہے جس تک وہ اپنے عمل کے ذریعہ نہیں پہنچ پاتا تو اللہ تعالیٰ اس کے جسم یا اس کے مال یا اس کی اولاد کے ذریعہ اسے آزماتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ بندہ اس مقام کو جا پہنچتا ہے جو اسے اللہ کی طرف سے ملا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٥٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٢) (صحیح) (شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے ورنہ اس کے اندر محمد بن خالد اور ان کے والد خالد سلمی دونوں مجہول ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحہ ، نمبر : ٢٥٩٩ )

【3】

اگر کوئی شخص پابندی کیساتھ کوئی نیک کام کرتا رہتا ہو اور پھر کسی وقت بیماری یا سفر کی بنا پر اس کو انجام نہ دے سکے تو اس کے باوجود بھی اس کو ثواب ملے گا

ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک یا دو بار ہی نہیں بلکہ متعدد بار یہ کہتے ہوئے سنا : جب بندہ کوئی نیک عمل (پابندی سے) کر رہا ہو، پھر کوئی مرض، یا سفر اسے مشغول کر دے جس کی وجہ سے اسے وہ نہ کرسکے، تو بھی اس کے لیے اتنا ہی ثواب لکھا جاتا ہے جتنا کہ اس کے تندرست اور مقیم ہونے کی صورت میں عمل کرنے پر اس کے لیے لکھا جاتا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٣٤(٢٩٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤١٠، ٤١٨) (حسن )

【4】

عورتوں کی مزاج پرسی کرنا

ام العلاء (رض) کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے جب میں بیمار تھی تو میری عیادت کی، آپ نے فرمایا : خوش ہوجاؤ، اے ام العلاء ! بیشک بیماری کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمان بندے کے گناہوں کو ایسے ہی دور کردیتا ہے جیسے آگ سونے اور چاندی کے میل کو دور کردیتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٣٣٩) (صحیح )

【5】

عورتوں کی مزاج پرسی کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں قرآن مجید کی سب سے سخت آیت کو جانتی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ کون سی آیت ہے اے عائشہ !، انہوں نے کہا : اللہ کا یہ فرمان من يعمل سوءا يجز به جو شخص کوئی بھی برائی کرے گا اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا (سورۃ النساء : ١٢٣) ، آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ تمہیں معلوم نہیں جب کسی مومن کو کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اس کے برے عمل کا بدلہ ہوجاتی ہے، البتہ جس سے محاسبہ ہو اس کو عذاب ہوگا ۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا ہے فسوف يحاسب حسابا يسيرا اس کا حساب تو بڑی آسانی سے لیا جائے گا (سورۃ الانشقاق : ٨) ، آپ ﷺ نے فرمایا : اس سے مراد صرف اعمال کی پیشی ہے، اے عائشہ ! حساب کے سلسلے میں جس سے جرح کرلیا گیا عذاب میں دھر لیا گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٢٤٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العلم ٣٦ (١٠٣) ، و تفسیر القرآن ١ (٤٩٣٩) ، صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمھا ١٨ (٢٨٧٦) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٥ (٢٤٢٦) ، و تفسیر القرآن ٧٥ (٣٣٣٧) ، مسند احمد (٤/٤٧) (صحیح )

【6】

بیمار کی مزاج پرسی (عیادت) کا بیان

اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ عبداللہ بن ابی کے مرض الموت میں اس کی عیادت کے لیے نکلے، جب آپ ﷺ اس کے پاس پہنچے تو اس کی موت کو بھانپ لیا، فرمایا : میں تجھے یہود کی دوستی سے منع کرتا تھا ، اس نے کہا : عبداللہ بن زرارہ نے ان سے بغض رکھا تو کیا پایا، جب عبداللہ بن ابی مرگیا تو اس کے لڑکے (عبداللہ) آپ کے پاس آئے اور آپ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! عبداللہ بن ابی مرگیا، آپ مجھے اپنی قمیص دے دیجئیے تاکہ اس میں میں اسے کفنا دوں، تو آپ ﷺ نے اسے اپنی قمیص اتار کر دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٠١) (حسن) (بیہقی نے دلائل النبوة (٥ ؍ ٢٨٥) میں ابن اسحاق کی زہری سے تحدیث نقل کی ہے، نیز قمیص کا جملہ صحیحین میں ابن عمر (رض) کی حدیث سے ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٨ ؍ ٤١٠ )

【7】

ذمی کافر کی عیادت کا بیان

انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا بیمار پڑا تو نبی اکرم ﷺ اس کے پاس عیادت کے لیے آئے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے پھر اس سے فرمایا : تم مسلمان ہوجاؤ ، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے سرہانے تھا تو اس سے اس کے باپ نے کہا : ابوالقاسم ١ ؎ کی اطاعت کرو ، تو وہ مسلمان ہوگیا، آپ ﷺ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے : تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے اس کو میری وجہ سے آگ سے نجات دی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٧٩ (١٣٥٦) ، والمرضی ١١ (٥٦٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٧٥، ٢٧٠، ٢٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابوالقاسم نبی اکرم ﷺ کی کنیت ہے۔ ٢ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ لڑکا جب باشعور ہو تو اس کا اسلام صحیح ہے۔

【8】

عیادت کے لئے پیدل جانا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ بغیر کسی خچر اور گھوڑے پر سوار ہوئے میری عیادت کو تشریف لاتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المرضی ١٦ (٥٦٦٤) ، سنن الترمذی/ المناقب ٥٣ (٣٨٥١) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٢١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الفرائض ٢ (١٦١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بلکہ پا پیادہ تشریف لاتے تھے، کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے۔

【9】

باوضو ہو کر عیادت کرنے کی فضیلت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اچھی طرح سے وضو کرے اور ثواب کی نیت سے اپنے مسلم بھائی کی عیادت کرے تو وہ دوزخ سے ستر خریف کی مسافت کی مقدار دور کردیا جاتا ہے ، میں نے کہا ! اے ابوحمزہ !خریف کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : سال۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اہل بصرہ جن چیزوں میں منفرد ہیں ان میں بحالت وضو عیادت کا مسئلہ بھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٦١) (ضعیف) (اس کے راوی فضل بن دلہم لین الحدیث ہیں )

【10】

باوضو ہو کر عیادت کرنے کی فضیلت

علی (رض) کہتے ہیں جو شخص کسی بیمار کی دن کے اخیر حصے میں عیادت کرتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں اور فجر تک اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوتا ہے، اور جو شخص دن کے ابتدائی حصے میں عیادت کے لیے نکلتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں اور شام تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں، اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر الحدیث الآتي، (تحفة الأشراف : ١٠٢١١) (صحیح )

【11】

باوضو ہو کر عیادت کرنے کی فضیلت

علی (رض) نبی اکرم ﷺ سے اسی معنی کی حدیث روایت کرتے ہیں لیکن انہوں نے اس میں خریف کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے منصور نے حکم سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے شعبہ نے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢ (١٤٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢١١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ٢ (٩٦٩) ، مسند احمد (١/٨١، ١٢٠) (صحیح )

【12】

بیمار کی بار بار عیادت کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں جب جنگ خندق کے دن سعد بن معاذ (رض) زخمی ہوئے ان کے بازو میں ایک شخص نے تیر مارا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ نصب کردیا تاکہ آپ ﷺ قریب سے ان کی عیادت کرسکیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧٧ (٤٦٣) ، والمغازي ٣٠ (٤١٢٢) ، صحیح مسلم/الجھاد ٢٢ (١٧٦٩) ، سنن النسائی/المساجد ١٨ (٧١١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٥٦، ١٣١، ٢٨٠) (صحیح ) ابوجعفر عبداللہ بن نافع سے روایت ہے، راوی کہتے ہیں اور نافع حسن بن علی کے غلام تھے وہ کہتے ہیں : ابوموسیٰ حسن بن علی (رض) کے پاس ان کی عیادت کے لیے آئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : راوی نے اس کے بعد شعبہ کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث بواسطہ علی (رض) نبی اکرم ﷺ سے ضعیف طریق سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢١١) (صحیح مرفوع )

【13】

None

جب جنگ خندق کے دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے ان کے بازو میں ایک شخص نے تیر مارا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ نصب کر دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریب سے ان کی عیادت کر سکیں۔

【14】

آنکھ دکھنے کی عیادت کرنا

زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے آنکھ کے درد میں میری عیادت کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٩٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٧٥) (حسن )

【15】

جہاں پر طاعون کی وباء پھیلی ہوئی ہو وہاں سے بھاگ نکلنا کیسا ہے؟

عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم کسی زمین کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون ١ ؎ پھیلا ہوا ہے تو تم وہاں نہ جاؤ ٢ ؎، اور جس سر زمین میں وہ پھیل جائے اور تم وہاں ہو تو طاعون سے بچنے کے خیال سے وہاں سے بھاگ کر (کہیں اور) نہ جاؤ ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٣٠ (٥٧٢٩) ، والحیل ١٣ (٦٩٧٣) ، صحیح مسلم/السلام ٣٢ (٢٢١٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٢١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجامع ٧ (٢٢) ، مسند احمد (١/١٩٢، ١٩٣، ١٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : طاعون ایک وبائی بیماری ہے (جلد میں پھوڑے کی طرح خطرناک ورم ہو کر انسان مرجاتا ہے) ، اکثر بغل میں یا پیٹھ میں نکلتا ہے۔ ٢ ؎ : کیونکہ طاعون زدہ علاقہ یا بستی میں جانا اپنے آپ کو موت کے سپرد کرنا اور ہلاکت میں ڈالنا ہے، جبکہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے : ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة (سورۃ البقرۃ : ١٩٥) اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو ، اور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ دشمن سے مدبھیڑ کی تمنا نہ کرو اور اس میں طاعون بھی داخل ہے۔ ٣ ؎ : طاعون زدہ زمین سے نہ نکلنے کا مقصد یہ ہے کہ پورا پورا توکل اللہ رب العزت پر ثابت ہوجائے، اور اللہ تعالیٰ کے قضاء و قدر کو پورے طور سے تسلیم کرلیا جائے، کیونکہ وہاں سے بھاگنا اللہ کی تقدیر سے بھاگنا ہے، یا یہ کہ اگر وہ اس سر زمین سے نکل جائے اور جہاں وہ پناہ لے وہاں کے لوگوں کو طاعون آپکڑے، پھر یہ لوگوں کی نظر میں طعن و تشنیع کا نشانہ بنے، حالانکہ اللہ رب العزت نے ان لوگوں کے حق میں بھی اس بیماری کا فیصلہ کرچکا ہوتا ہے، اس بناء پر اس شہر سے یا جگہ سے نکلنے سے منع کیا گیا ہے۔

【16】

عیادت کے وقت بیمار کے لئے دعائے صحت کرنا

سعد بن ابی وقاص (رض) نے کہا میں مکے میں بیمار ہوا تو نبی اکرم ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور اپنا ہاتھ آپ ﷺ نے میری پیشانی پر رکھا پھر میرے سینے اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا پھر دعا کی : اللهم اشف سعدا وأتمم له هجرته اے اللہ ! سعد کو شفاء دے اور ان کی ہجرت کو مکمل فرما ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ المرضی ١٣ (٥٦٥٩) ، سنن النسائی/ الوصایا ٣ (٣٦٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مکہ سے مدینہ پہنچا دے ایسا نہ ہو کہ مکہ ہی میں انتقال ہوجائے اور ہجرت ناقص رہ جائے۔

【17】

عیادت کے وقت بیمار کے لئے دعائے صحت کرنا

ابوموسی اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بھوکے کو کھانا کھلاؤ، مریض کی عیادت کرو اور (مسلمان) قیدی کو (کافروں کی) قید سے آزاد کراؤ ۔ سفیان کہتے ہیں : العاني سے مرا داسیر (قیدی) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٧١ (٣٠٤٦) ، النکاح ٧١ (٥١٧٤) ، الأطعمة ١ (٥٣٧٣) ، الطب ٤ (٥٦٤٩) ، الأحکام ٢٣ (٧١٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٤) ، سنن الدارمی/السیر ٢٧ (٢٥٠٨) (صحیح )

【18】

عیادت کے وقت مریض کے لئے دعا کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص کسی ایسے شخص کی عیادت کرے جس کی موت کا وقت ابھی قریب نہ آیا ہو اور اس کے پاس سات مرتبہ یہ دعا پڑھے : أسأل الله العظيم رب العرش العظيم میں عظمت والے اللہ جو عرش عظیم کا مالک ہے سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو شفاء دے تو اللہ اسے اس مرض سے شفاء دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطب ٣٢ (٢٠٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٩، ٢٤٣) (صحیح )

【19】

عیادت کے وقت مریض کے لئے دعا کرنا

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی بیمار کے پاس عیادت کے لیے جائے تو اسے چاہیئے کہ وہ کہے : اللهم اشف عبدک ينكأ لک عدوا أو يمشي لك إلى جنازة اے اللہ ! اپنے بندے کو شفاء دے تاکہ تیری راہ میں دشمن سے قتال و خوں ریزی کرے یا تیری خوشی کی خاطر جنازے کے ساتھ جائے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن سرح نے اپنی روایت میں إلى جنازة کے بجائے إلى صلاة کہا ہے یعنی نماز جنازہ پڑھنے جائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٨٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٢) (صحیح )

【20】

موت کی تمنا کرنے کی ممانعت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی کسی پریشانی سے دوچار ہوجانے کی وجہ سے (گھبرا کر) موت کی دعا ہرگز نہ کرے لیکن اگر کہے تو یہ کہے : اللهم أحيني ما کانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا کانت الوفاة خيرا لي اے اللہ ! تو مجھ کو زندہ رکھ جب تک کہ زندگی میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دیدے جب مرجانا ہی میرے حق میں بہتر ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٢ (١٨٢٢) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ٣١ (٤٢٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المرضی ١٩ (٥٦٧٢) ، والدعوات ٣٠ (٦٣٥١) ، صحیح مسلم/الذکر ٤ (٢٦٨٠) ، سنن الترمذی/الجنائز ٣ (٩٧١) ، مسند احمد (٣/١٠١، ١٠٤، ١٦٣، ١٧١، ١٩٥، ٢٠٨، ٢٤٧، ٢٨١) (صحیح )

【21】

موت کی تمنا کرنے کی ممانعت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی ہرگز موت کی تمنا نہ کرے ، پھر راوی نے اسی کے مثل ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٢٧٤) (صحیح )

【22】

ناگہانی موت کا بیان

صحابی رسول عبید بن خالد سلمی (رض) سے روایت ہے (راوی نے ایک بار نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً ، پھر ایک بار عبید سے موقوفاً روایت کیا) : اچانک موت افسوس کی پکڑ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٧٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٤، ٤/٢١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اللہ کے غضب کی علامت ہے، کیونکہ اس میں بندے کو مہلت نہیں ملتی کہ وہ اپنے سفر آخرت کا سامان درست کرسکے، یعنی توبہ و استغفار، وصیت یا کوئی عمل صالح کرسکے۔

【23】

جو شخص طاعون سے مرجائے اس کی فضیلت کا بیان

جابر بن عتیک (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ عبداللہ بن ثابت (رض) کے پاس بیمار پرسی کے لیے آئے تو ان کو بیہوش پایا، آپ ﷺ نے انہیں پکارا تو انہوں نے آپ کو جواب نہیں دیا، تو آپ ﷺ نے إنا لله وإنا إليه راجعون پڑھا، اور فرمایا : اے ابوربیع ! تمہارے معاملے میں قضاء ہمیں مغلوب کرگئی ، یہ سن کر عورتیں چیخ پڑیں، اور رونے لگیں تو ابن عتیک (رض) انہیں خاموش کرانے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چھوڑ دو (رونے دو انہیں) جب واجب ہوجائے تو کوئی رونے والی نہ روئے ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول : واجب ہونے سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : موت ، عبداللہ بن ثابت کی بیٹی کہنے لگیں : میں پوری امید رکھتی تھی کہ آپ شہید ہوں گے کیونکہ آپ نے جہاد میں حصہ لینے کی پوری تیاری کرلی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ انہیں ان کی نیت کے موافق اجر و ثواب دے چکا، تم لوگ شہادت کسے سمجھتے ہو ؟ لوگوں نے کہا : اللہ کی راہ میں قتل ہوجانا شہادت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قتل فی سبیل اللہ کے علاوہ بھی سات شہادتیں ہیں : طاعون میں مرجانے والا شہید ہے، ڈوب کر مرجانے والا شہید ہے، ذات الجنب (نمونیہ) سے مرجانے والا شہید ہے، پیٹ کی بیماری (دستوں وغیرہ) سے مرجانے والا شہید ہے، جل کر مرجانے والا شہید ہے، جو دیوار گرنے سے مرجائے شہید ہے، اور عورت جو حالت حمل میں ہو اور مرجائے تو وہ بھی شہید ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ١٤ (١٨٤٧) ، الجہاد ٤٨ (٣١٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٧ (٢٨٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٣١٧٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ١٢ (٣٦) ، مسند احمد (٥/٤٤٦) (صحیح )

【24】

موت کے قریب مریض کے ناخن اور زیر ناف کے بال کاٹنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے خبیب (رض) کو خریدا ١ ؎ اور خبیب ہی تھے جنہوں نے حارث بن عامر کو جنگ بدر میں قتل کیا تھا، تو خبیب ان کے پاس قید رہے (جب حرمت کے مہینے ختم ہوگئے) تو وہ سب ان کے قتل کے لیے جمع ہوئے، خبیب بن عدی نے حارث کی بیٹی سے استرہ طلب کیا جس سے وہ ناف کے نیچے کے بال کی صفائی کرلیں، اس نے انہیں استرہ دے دیا، اسی حالت میں اس کا ایک چھوٹا بچہ خبیب کے پاس جا پہنچا وہ بیخبر تھی یہاں تک کہ وہ ان کے پاس آئی تو دیکھا کہ وہ اکیلے ہیں، بچہ ان کی ران پر بیٹھا ہوا ہے، اور استرہ ان کے ہاتھ میں ہے، یہ دیکھ کر وہ سہم گئی اور ایسی گھبرائی کہ خبیب بھانپ گئے اور کہنے لگے : کیا تم ڈر رہی ہو کہ میں اسے قتل کر دوں گا، میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتا ٢ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس قصہ کو شعیب بن ابوحمزہ نے زہری سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھے عبیداللہ بن عیاض نے خبر دی ہے کہ حارث کی بیٹی نے انہیں بتایا کہ جب لوگوں نے خبیب کے قتل کا متفقہ فیصلہ کرلیا تو انہوں نے موئے زیر ناف صاف کرنے کے لیے اس سے استرہ مانگا تو اس نے انہیں دے دیا ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٦٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سو اونٹ کے بدلہ میں خریدا تاکہ انہیں قتل کر کے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لیں۔ ٢ ؎ : کیونکہ اسلام میں کسی بےگناہ بچے کا قتل جائز نہیں۔ ٣ ؎ : پھر ان کافروں نے خبیب (رض) کو تنعیم میں سولی دے دی، جو حدود حرم سے باہر ہے، خبیب نے اتنی مہلت مانگی کہ وہ دو رکعت ادا کرسکیں تو کافروں نے انہیں مہلت دے دی، آپ نے دو رکعت ادا کی پھر یہ شعر پڑھے : فلست أبالي حين أقتل مسلمًا على أي جنب کان في الله مصرعي وذلک في ذات الإله وإن يشأ يبارک على أوصال شلو ممزع (جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں مارا جاؤں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ کس پہلو پر ہوں۔ میرا یہ قتل اللہ کے لئے ہے، اگر اللہ چاہے تو پارہ پارہ عضو کے جوڑ جوڑ میں برکت دے دے۔ )

【25】

مرتے وقت اللہ سے نیک گمان رکھنا اچھا ہے (یعنی یہ گمان رکھنا کہ وہ میری مغفرت فرمائے گا)

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کی وفات سے تین دن پہلے فرماتے ہوئے سنا : تم میں سے ہر شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ سے اچھی امید رکھتا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمھا ١٩ (٢٨٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ١٤ (٤١٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٥، ٣٢٥، ٣٣٠، ٣٣٤، ٣٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کہ اللہ اس کی غلطیوں کو معاف کرے گا اور اسے اپنی رحمت سے نوازے گا۔

【26】

مرتے وقت صاف ستھرے کپڑے پہننا مستحب ہے

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے نئے کپڑے منگوا کر پہنے اور کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : مردہ اپنے انہیں کپڑوں میں (قیامت میں) اٹھایا جائے گا جن میں وہ مرے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٤٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مرتے وقت اس کے بدن پر جو کپڑے ہوتے ہیں، بعض لوگوں نے کہا کہ ثیاب سے اعمال مراد ہیں نہ کہ کپڑے۔

【27】

جب کوئی آدمی مرے لگے تو اس کے آس پاس والوں کو کیا کہنا چاہئے

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی مرنے والے شخص کے پاس جاؤ تو بھلی بات کہو ١ ؎ اس لیے کہ فرشتے تمہارے کہے پر آمین کہتے ہیں ، تو جب ابوسلمہ (رض) (ام سلمہ (رض) کے شوہر) انتقال کر گئے تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ میں کیا کہوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم کہو : اللهم اغفر له وأعقبنا عقبى صالحة اے اللہ ! ان کو بخش دے اور مجھے ان کا نعم البدل عطا فرما ۔ ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں : تو مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں محمد ﷺ کو عنایت فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣ (٩١٩) ، سنن الترمذی/الجنائز ٧ (٩٧٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٣ (١٨٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤ (١٤٤٧) ، ٥٥ (١٥٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٦٢، ١٨٢٤٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ١٤ (٤٢) ، مسند احمد (٦/٢٩١، ٣٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دعائے مغفرت وغیرہ کرو۔

【28】

مرتے وقت کلمہ توحید کی تلقین کرنا

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کا آخری کلام لا إله إلا الله ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٣٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٣٣، ٢٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس لئے مرتے وقت مرنے والے کے قریب لا إله إلا الله کہنا چاہیے تاکہ اس کی زبان پر بھی یہ کلمہ جاری ہوجائے۔

【29】

مرتے وقت کلمہ توحید کی تلقین کرنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے مرنے والے لوگوں کو کلمہ لا إله إلا الله کی تلقین کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١ (٩١٦) ، سنن الترمذی/الجنائز ٧ (٩٧٦) ، سنن النسائی/الجنائز ٤ (١٨٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣ (١٤٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کے پاس یہ کلمہ پڑھ کر اسے یاد دلاؤ کہ وہ بھی اپنی زبان پر اسے جاری کرلے اور دخول جنت کا مستحق بن جائے۔

【30】

میت کی آنکھیں بند کرنا

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ ابوسلمہ (رض) کے پاس آئے ان کی آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں آپ ﷺ نے انہیں بند کردیا (یہ دیکھ کر) ان کے خاندان کے کچھ لوگ رونے پیٹنے لگے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم سب اپنے حق میں صرف خیر کی دعا کرو کیونکہ جو کچھ تم کہتے ہو، فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا اللهم اغفر لأبي سلمة وارفع درجته في المهديين واخلفه في عقبه في الغابرين واغفر لنا وله رب العالمين اللهم افسح له في قبره ونور له فيه‏ اے اللہ ! ابوسلمہ کو بخش دے، انہیں ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرما کر ان کے درجات بلند فرما اور باقی ماندہ لوگوں میں ان کا اچھا جانشین بنا، اے سارے جہان کے پالنہار ! ہمیں اور انہیں (سبھی کو) بخش دے، ان کے لیے قبر میں کشادگی فرما اور ان کی قبر میں روشنی کر دے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : تغميض الميت (آنکھ بند کرنے کا عمل) روح نکلنے کے بعد ہوگا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے محمد بن محمد بن نعمان مقری سے سنا وہ کہتے ہیں : میں نے ابومیسرہ سے جو ایک عابد شخص تھے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے جعفر معلم کی آنکھ جو ایک عابد آدمی تھے مرتے وقت ڈھانپ دی تو ان کے انتقال والی رات میں خواب میں دیکھا وہ کہہ رہے تھے کہ تمہارا میرے مرنے سے پہلے میری آنکھ کو بند کردینا میرے لیے باعث مشقت و تکلیف رہی (یعنی آنکھ مرنے سے پہلے بند نہیں کرنی چاہیئے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الجنائز ٤ (٩٢٠) ، سنن ابن ماجہ/ الجنائز ٦ (١٤٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٠٥، ١٩٦٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٧) (صحیح )

【31】

انا للہ وانا الیہ راجعون کہنے کا بیان

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت پہنچے (تھوڑی ہو یا زیادہ) تو اسے چاہیئے کہ : إنا لله وإنا إليه راجعون ، اللهم عندک أحتسب مصيبتي فآجرني فيها وأبدل لي خيرا منها بیشک ہم اللہ کے ہیں اور لوٹ کر بھی اسی کے پاس جانے والے ہیں، اے اللہ ! میں تیرے ہی پاس اپنی مصیبت کو پیش کرتا ہوں تو مجھے اس مصیبت کے بدلے جو مجھے پہنچ چکی ہے ثواب عطا کر اور اس مصیبت کو خیر سے بدل دے، کہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٢٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣١٧) (ضعیف) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعيفة، للالبانی ٢٣٨٢ )

【32】

مرنے کے بعد میت پر کپڑا ڈال دینا

ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو (وفات کے بعد) یمنی کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ١٨(٥٨١٤) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٤ (٩٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨٩، ٢٦٩) (صحیح)

【33】

مرنے کے وقت سورت یٰسین پڑھنا

معقل بن یسار (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم اپنے مردوں پر سورۃ، يس، پڑھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤ (١٤٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٦، ٢٧) (ضعیف) (اس کے راوی ابو عثمان اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مرنے کے قریب لوگوں پر۔

【34】

مصیبت کے وقت بیٹھ جانے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں جب زید بن حارثہ، جعفر بن ابوطالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم قتل کر دئیے گئے (اور آپ ﷺ کو اطلاع ملی) تو رسول ﷺ مسجد نبوی میں بیٹھ گئے، آپ کے چہرے سے غم ٹپک رہا تھا، اور واقعہ کی تفصیل بتائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤٠ (١٢٩٩) ، ٤٥ (١٣٠٥) ، والمغازي ٤٤ (٤٢٦٣) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٠ (٩٣٥) ، سنن النسائی/الجنائز ١٤ (١٨٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٥٩، ٢٧٧) (صحیح )

【35】

میت کے وارثوں سے تعزیت کرنا

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں ایک میت کو دفنایا، جب ہم تدفین سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ لوٹے، ہم بھی آپ کے ساتھ لوٹے، جب آپ ﷺ میت کے دروازے کے سامنے آئے تو رک گئے، اچانک ہم نے دیکھا کہ ایک عورت چلی آرہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے اس عورت کو پہچان لیا، جب وہ چلی گئیں تو معلوم ہوا کہ وہ فاطمہ (رض) ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا : فاطمہ ! تم اپنے گھر سے کیوں نکلی ؟ ، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں اس گھر والوں کے پاس آئی تھی تاکہ میں ان کی میت کے لیے اللہ سے رحم کی دعا کروں یا ان کی تعزیت کروں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : شاید تم ان کے ساتھ کدی (مکہ میں ایک جگہ ہے) گئی تھی ، انہوں نے کہا : معاذاللہ ! میں تو اس بارے میں آپ کا بیان سن چکی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم ان کے ساتھ کدی گئی ہوتی تو میں ایسا ایسا کرتا ، (اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ نے سخت رویے کا اظہار فرمایا) ۔ راوی کہتے ہیں : میں نے ربیعہ سے کدی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : جیسا کہ میں سمجھ رہا ہوں اس سے قبریں مراد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٢٧ (١٨٨١) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٩، ٢٢٣) (ضعیف) (اس کے راوی ربیعہ کی ثقاہت میں بہت کلام ہے )

【36】

مصیبت کے وقت صبر کرنا

انس (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ ایک ایسی عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بچے کی موت کے غم میں (بآواز) رو رہی تھی، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : اللہ سے ڈرو اور صبر کرو ١ ؎، اس عورت نے کہا : آپ کو میری مصیبت کا کیا پتا ٢ ؎؟ ، تو اس سے کہا گیا : یہ نبی اکرم ﷺ ہیں (جب اس کو اس بات کی خبر ہوئی) تو وہ آپ ﷺ کے پاس آئی، آپ کے دروازے پہ اسے کوئی دربان نہیں ملا، اس نے آپ ﷺ سے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : صبر وہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو یا فرمایا : صبر وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣١ (١٢٨٣) ، ٤٢ (١٣٠٢) ، الأحکام ١١ (٧١٥٤) ، صحیح مسلم/الجنائز ٨ (٩٢٦) ، سنن النسائی/الجنائز ٢٢ (١٨٧٠) ، سنن الترمذی/ الجنائز ١٣ (٩٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٥ (١٥٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٣٠، ١٤٣، ٢١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی نوحہ مت کر ورنہ اسے عذاب دیا جائے گا۔ ٢ ؎ : کہ یہ میرے لئے کتنی بڑی مصیبت ہے۔

【37】

میت پر رونے کا بیان

اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک بیٹی (زینب رضی اللہ عنہا) نے آپ کو یہ پیغام دے کر بلا بھیجا کہ میرے بیٹے یا بیٹی کے موت کا وقت قریب ہے، آپ ﷺ تشریف لے آئے، اس وقت میں اور سعد اور میرا خیال ہے کہ ابی بھی آپ کے ساتھ تھے، آپ ﷺ نے (جواباً ) سلام کہلا بھیجا، اور فرمایا : ان سے (جا کر) کہو کہ اللہ ہی کے لیے ہے جو چیز کہ وہ لے، اور اسی کی ہے جو چیز کہ وہ دے، ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے ۔ پھر زینب (رض) نے دوبارہ بلا بھیجا اور قسم دے کر کہلایا کہ آپ ضرور تشریف لائیں، چناچہ آپ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، بچہ آپ کی گود میں رکھا گیا، اس کی سانس تیز تیز چل رہی تھی تو رسول ﷺ کی دونوں آنکھیں بہ پڑیں، سعد نے آپ ﷺ سے کہا : یہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ رحمت ہے، اللہ جس کے دل میں چاہتا ہے اسے ڈال دیتا ہے، اور اللہ انہیں بندوں پر رحم کرتا ہے جو دوسروں کے لیے رحم دل ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٢ (١٢٨٤) ، والمرضی ٩ (٥٦٥٥) ، و القدر ٤ (٦٦٠٢) ، والأیمان والنذور ٩ (٦٦٥٥) ، والتوحید ٢ (٧٣٧٧) ، ٢٥ (٧٤٤٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ٦ (٩٢٣) ، سنن النسائی/الکبري الجنائز ٢٢ (١٩٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٣ (١٥٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٠٤، ٢٠٦، ٢٠٧) (صحیح )

【38】

میت پر رونے کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آج رات میرے یہاں بچہ پیدا ہوا، میں نے اس کا نام اپنے والد ابراہیم کے نام پر رکھا ، اس کے بعد راوی نے پوری حدیث بیان کی، انس (رض) کہتے ہیں : میں نے اس بچے کو رسول اللہ ﷺ کی گود میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا دیکھا، تو آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے، آپ نے فرمایا : آنکھ آنسو بہا رہی ہے، دل غمگین ہے ١ ؎، اور ہم وہی کہہ رہے ہیں جو ہمارے رب کو پسند آئے، اے ابراہیم ! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤٣ (١٣٠٣) ، صحیح مسلم/الفضائل ١٥ (٢٣١٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ آنکھ سے آنسو کا نکلنا اور غمزدہ ہونا صبر کے منافی نہیں بلکہ یہ رحم دلی کی نشانی ہے، البتہ نوحہ اور شکوہ کرنا صبر کے منافی اور حرام ہے۔ ٢ ؎ : ابراہیم ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔

【39】

نوحہ کرنے کا بیان

ام عطیہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نوحہ کرنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨١٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤٥ (١٣٠٦) ، والأحکام ٤٩ (٧٢١٥) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٠ (٩٣٦) ، سنن النسائی/البیعة ١٨ (٤١٥٨) ، مسند احمد (٦/٤٠٧، ٤٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : میت پر آواز کے ساتھ رونے کو نوحہ کہتے ہیں۔

【40】

نوحہ کرنے کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ (دلچسپی سے) سننے والی پر لعنت فرمائی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤١٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٦٥) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوة : محمد، ان کے والد اور دادا سب ضعیف ہیں )

【41】

نوحہ کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب دیا جاتا ہے ١ ؎، ابن عمر (رض) کی اس بات کا ذکر ام المؤمنین عائشہ (رض) سے کیا گیا تو انہوں نے کہا : ان سے یعنی ابن عمر (رض) سے بھول ہوئی ہے، سچ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک قبر کے پاس سے گزر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس قبر والے کو تو عذاب ہو رہا ہے اور اس کے گھر والے ہیں کہ اس پر رو رہے ہیں ، پھر ام المؤمنین عائشہ (رض) نے آیت ولا تزر وازرة وزر أخرى کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا (سورۃ الإسراء : ١٥) پڑھی۔ ابومعاویہ کی روایت میں على قبر کے بجائے على قبر يهودي ہے، یعنی ایک یہودی کے قبر کے پاس سے گزر ہوا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٣١) ، سنن النسائی/الجنائز ١٥ (١٨٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٢٤، ١٧٠٦٩، ١٧٢٢٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المغازي ٨ (٣٩٧٨) ، مسند احمد (٢/٣٨، ٦/٣٩، ٥٧، ٩٥، ٢٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب دیا جاتا ہے، حالاں کہ رونا یا نوحہ کرنا بذات خود میت کا عمل نہیں ہے، پھر غیر کے عمل پر اسے عذاب دیا جانا باعث تعجب ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ولا تزر وازرة وزر أخرى کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اس سلسلہ میں علماء کا کہنا ہے کہ مرنے والے کو اگر یہ معلوم ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے گھر والے مجھ پر نوحہ کریں گے اور اس نے قدرت رکھنے کے باوجود قبل از موت اس سے منع نہیں کیا تو نہ روکنا اس کے لئے باعث سزا ہوگا، اور اس کے گھر والے اگر آہ و بکا کئے بغیر آنسو بہا رہے ہیں تو یہ جائز ہے جیسا کہ ابراہیم اور ام کلثوم کے انتقال پر خود رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، پوچھے جانے پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو رحمت ہے اللہ نے جس کے دل میں چاہا رکھا۔

【42】

نوحہ کرنے کا بیان

یزید بن اوس کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ (رض) بیمار تھے میں ان کے پاس (عیادت کے لیے) گیا تو ان کی اہلیہ رونے لگیں یا رونا چاہا، تو ابوموسیٰ (رض) نے ان سے کہا : کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان نہیں سنا ہے ؟ وہ بولیں : کیوں نہیں، ضرور سنا ہے، تو وہ چپ ہوگئیں، یزید کہتے ہیں : جب ابوموسیٰ (رض) وفات پا گئے تو میں ان کی اہلیہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ ابوموسیٰ (رض) کے قول : کیا تم نے رسول ﷺ کا فرمان نہیں سنا ہے پھر آپ چپ ہوگئیں کا کیا مطلب تھا ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جو (میت کے غم میں) اپنا سر منڈوائے، جو چلا کر روئے پیٹے، اور جو کپڑے پھاڑے وہ ہم میں سے نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٢٠ (١٨٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٣٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٤ (١٠٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٢ (١٥٨٦) ، مسند احمد (٤/٣٩٦، ٤٠٤، ٤٠٥، ٤١١، ٤١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ کفر کی رسم تھی جب کوئی مرجاتا تو اس کے غم میں یہ سب کام کئے جاتے تھے، جس طرح ہندؤوں میں بال منڈوانے کی رسم ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مصیبت میں صبر کرنا لازم ہے۔

【43】

نوحہ کرنے کا بیان

رسول اللہ ﷺ سے بیعت کرنے والی عورتوں میں سے ایک عورت کہتی ہے رسول اللہ ﷺ نے جن بھلی باتوں کا ہم سے عہد لیا تھا کہ ان میں ہم آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے وہ یہ تھیں کہ ہم (کسی کے مرنے پر) نہ منہ نوچیں گے، نہ تباہی و بربادی کو پکاریں گے، نہ کپڑے پھاڑیں گے اور نہ بال بکھیریں گے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٣٦٦) (صحیح )

【44】

میت کے گھروالوں کے لئے کھاناپکا کر بھیجنا

عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان پر ایک ایسا امر (حادثہ و سانحہ) پیش آگیا ہے جس نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٢١ (٩٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٩ (١٦١٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٢١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ رشتہ داروں کو میت کے گھروالوں کے پاس کھانا پکوا کر بھجوانا چاہیے۔

【45】

شہید کو غسل دینے کا بیان

جابر (رض) کہتے ہیں ایک شخص سینے یا حلق میں تیر لگنے سے مرگیا تو اسی طرح اپنے کپڑوں میں لپیٹا گیا جیسے وہ تھا، اس وقت ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٦٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦٧) (حسن )

【46】

شہید کو غسل دینے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے احد کے مقتولین (شہداء) کے بارے میں حکم دیا کہ ان کی زرہیں اور پوستینیں ان سے اتار لی جائیں، اور انہیں ان کے خون اور کپڑوں سمیت دفن کردیا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٨ (١٥١٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٧) (ضعیف) (اس کے راوی علی بن عاصم اور عطاء بن السائب اخیر میں مختلط ہوگئے تھے )

【47】

شہید کو غسل دینے کا بیان

انس بن مالک (رض) کا بیان ہے کہ شہدائے احد کو غسل نہیں دیا گیا وہ اپنے خون سمیت دفن کئے گئے اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٧٨) (حسن )

【48】

شہید کو غسل دینے کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ (غزوہ احد میں) رسول اللہ ﷺ حمزہ (حمزہ بن عبدالمطلب) (رض) کی لاش کے قریب سے گزرے، ان کا مثلہ کردیا گیا تھا، آپ ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا : اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ صفیہ (حمزہ کی بہن) اپنے دل میں کچھ محسوس کریں گی تو میں انہیں یوں ہی چھوڑ دیتا، پرندے کھا جاتے، پھر وہ حشر کے دن ان کے پیٹوں سے نکلتے ۔ اس وقت کپڑوں کی قلت تھی اور شہیدوں کی کثرت، (حال یہ تھا) کہ ایک کپڑے میں ایک ایک، دو دو، تین تین شخص کفنائے جاتے تھے ١ ؎۔ قتیبہ نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ : پھر وہ ایک ہی قبر میں دفن کئے جاتے تھے، رسول اللہ ﷺ پوچھتے کہ ان میں قرآن کس کو زیادہ یاد ہے ؟ تو جسے زیادہ یاد ہوتا اسے قبلہ کی جانب آگے رکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الجنائز ٣١ (١٠١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت ایک کفن یا ایک قبر میں کئی آدمیوں کو دفنانا درست ہے۔

【49】

شہید کو غسل دینے کا بیان

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ حمزہ (رض) کے پاس سے گزرے، دیکھا کہ ان کا مثلہ کردیا گیا ہے، آپ ﷺ نے ان کے علاوہ کسی اور کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٧٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : چوں کہ نبی اکرم ﷺ نے شہداء احد کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، اس لئے بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ آپ نے ان کے لئے دعا کی۔

【50】

شہید کو غسل دینے کا بیان

عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ (رض) نے انہیں خبر دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ احد کے مقتولین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک ساتھ دفن کرتے تھے اور پوچھتے تھے کہ ان میں قرآن کس کو زیادہ یاد ہے ؟ تو جس کے بارے میں اشارہ کردیا جاتا آپ ﷺ اسے قبر میں (لٹانے میں) آگے کرتے اور فرماتے : میں ان سب پر قیامت کے دن گواہ رہوں گا اور آپ ﷺ نے انہیں ان کے خون سمیت دفنانے کا حکم دیا، اور انہیں غسل نہیں دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٧٢ (١٣٤٣) ، ٧٣ (١٣٤٥) ، ٧٥ (١٣٤٧) ، ٧٨ (١٣٥٣) ، المغازي ٢٦ (٤٠٧٩) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٦ (١٠٣٦) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٢ (١٩٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٨ (١٥١٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٨٢) (صحیح )

【51】

شہید کو غسل دینے کا بیان

اس سند سے بھی لیث سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے : آپ ﷺ احد کے مقتولین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک ساتھ ایک ہی کپڑے میں دفن کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٨٢) (صحیح )

【52】

غسل کے وقت میت کا ستر ڈھا نپنا

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم اپنی ران کو مت کھولو اور کسی زندہ و مردہ کی ران کو ہرگز نہ دیکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٨ (١٤٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٣٣) ، وقد أخرجہ : حم (١/١٤٦) (ضعیف جداً ) (سند میں دو جگہ انقطاع ہے : ابن جریج اور حبیب کے درمیان، اور حبیب و عاصم کے درمیان )

【53】

غسل کے وقت میت کا ستر ڈھا نپنا

عباد بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کو کہتے سنا کہ جب لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو کہنے لگے : قسم اللہ کی ! ہمیں نہیں معلوم کہ ہم جس طرح اپنے مردوں کے کپڑے اتارتے ہیں آپ کے بھی اتار دیں، یا اسے آپ کے بدن پر رہنے دیں اور اوپر سے غسل دے دیں، تو جب لوگوں میں اختلاف ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند طاری کردی یہاں تک کہ ان میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں تھا جس کی ٹھڈی اس کے سینہ سے نہ لگ گئی ہو، اس وقت گھر کے ایک گوشے سے کسی آواز دینے والے کی آواز آئی کہ نبی اکرم ﷺ کو ان کے اپنے پہنے ہوئے کپڑوں ہی میں غسل دو ، آواز دینے والا کون تھا کوئی بھی نہ جان سکا، (یہ سن کر) لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس اٹھ کر آئے اور آپ کو کرتے کے اوپر سے غسل دیا لوگ قمیص کے اوپر سے پانی ڈالتے تھے اور قمیص سمیت آپ ﷺ کا جسم مبارک ملتے تھے نہ کہ اپنے ہاتھوں سے۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی تھیں : اگر مجھے پہلے یاد آجاتا جو بعد میں یاد آیا، تو آپ کی بیویاں ہی آپ کو غسل دیتیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٩ (١٤٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٦٧) (حسن )

【54】

میت کو غسل دینے کا طریقہ

ام عطیہ (رض) کہتی ہیں جس وقت رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی (زینب رضی اللہ عنہا) کا انتقال ہوا آپ ہمارے پاس آئے اور فرمایا : تم انہیں تین بار، یا پانچ بار پانی اور بیر کی پتی سے غسل دینا، یا اس سے زیادہ بار اگر ضرورت سمجھنا اور آخری بار کافور ملا لینا، اور جب غسل دے کر فارغ ہونا، مجھے اطلاع دینا، تو جب ہم غسل دے کر فارغ ہوئے تو ہم نے آپ کو خبر دی، آپ نے ہمیں اپنا تہہ بند دیا اور فرمایا : اسے ان کے بدن پر لپیٹ دو ۔ قعنبی کی روایت میں خالک سے مروی ہے یعنی آپ ﷺ کے ازار کو۔ مسدد کی روایت میں رسول اللہ ﷺ کے ہمارے پاس آنے کا ذکر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣١ (١٦٧) ، والجنائز ٨ (١٢٥٣) ، ٩ (١٢٥٤) ، ١٠ (١٢٥٥) ، ١١ (١٢٥٦) ، ١٢ (١٢٥٧) ، ١٣ (١٢٥٨) ، ١٤ (١٢٦٠) ، ١٥ (١٢٦١) ، ١٦ (١٢٦٢) ، ١٧ (١٢٦٣) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٢ (٩٣٩) ، سنن الترمذی/الجنائز ١٥ (٩٩٠) ، سنن النسائی/الجنائز ٢٨ (١٨٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٨ (١٤٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ١ (٢) ، مسند احمد (٦/٤٠٧، ٤٠٨) (صحیح )

【55】

میت کو غسل دینے کا طریقہ

ام عطیہ (رض) کہتی ہیں ہم نے ان کے سر کے بالوں کی تین لٹیں کردیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الجنائز ١٢ (٩٣٩) ، سنن النسائی/ الجنائز ٣٥ (١٨٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٠٧) (صحیح )

【56】

میت کو غسل دینے کا طریقہ

ام عطیہ (رض) کہتی ہیں ہم نے ان کے سر کے بالوں کی تین لٹیں گوندھ دیں اور انہیں سر کے پیچھے ڈال دیں، ایک لٹ آگے کے بالوں کی اور دو لٹیں ادھر ادھر کے بالوں کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الجنائز ١٦ (١٢٦٢) ، وانظر حدیث رقم : (٣١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٣٨) (صحیح )

【57】

میت کو غسل دینے کا طریقہ

ام عطیہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان عورتوں سے اپنی بیٹی (زینب رضی اللہ عنہا) کے غسل کے متعلق فرمایا : ان کی داہنی جانب سے اور وضو کے مقامات سے غسل کی ابتداء کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٢٤) (صحیح )

【58】

میت کو غسل دینے کا طریقہ

اس سند سے بھی ام عطیہ (رض) سے مالک کی روایت کے ہم معنی حدیث مروی ہے اور حفصہ (رض) کی حدیث میں جسے انہوں نے ام عطیہ (رض) سے روایت کیا ہے اسی طرح کا اضافہ ہے اور اس میں انہوں نے یہ اضافہ بھی کیا ہے : یا سات بار غسل دینا، یا اس سے زیادہ اگر تم اس کی ضرورت سمجھنا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٤) (صحیح )

【59】

میت کو غسل دینے کا طریقہ

قتادہ محمد بن سیرین سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ام عطیہ (رض) سے میت کو غسل دینے کا طریقہ سیکھا تھا، وہ دو بار بیری کے پانی سے غسل دیتے اور تیسری بار کافور ملے ہوئے پانی سے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨١٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨٥) (صحیح )

【60】

کفن کا بیان

ابوالزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے سنا کہ ایک دن آپ ﷺ نے خطبہ دیا جس میں اپنے اصحاب میں سے ایک شخص کا ذکر کیا جن کا انتقال ہوگیا تھا، انہیں ناقص کفن دیا گیا، اور رات میں دفن کیا گیا تھا، آپ ﷺ نے لوگوں کو ڈانٹا کہ رات میں کسی کو جب تک اس پر نماز جنازہ نہ پڑھ لی جائے مت دفناؤ، إلا یہ کہ انسان کو انتہائی مجبوری ہو اور نبی اکرم ﷺ نے (یہ بھی) فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اچھا کفن دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١٥ (٩٤٣) ، سنن النسائی/الجنائز ٣٧ (١٨٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٥) (صحیح )

【61】

کفن کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ یمنی دھاری دار چادر میں لپیٹے گئے، پھر وہ چادر نکال لی گئی (اور سفید چادر رکھی گئی) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٣١٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٥٢) (صحیح )

【62】

کفن کا بیان

جابر (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جب تم میں سے کسی شخص کا انتقال ہوجائے اور ورثاء صاحب حیثیت (مالدار) ہوں تو وہ اسے یمنی کپڑے (یعنی اچھے کپڑے میں) دفنائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود : (تحفة الأشراف : ٣١٣٦) ، وقد أخرجہ : حم (٣/٣١) (صحیح لغیرہ) (صحیح الجامع الصغیر ٦٥٨٥ )

【63】

کفن کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تین سفید یمنی کپڑوں میں دفنائے گئے، ان میں نہ قمیص تھی نہ عمامہ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ١٨ (١٢٦٤) ، ٢٣ (١٢٧١) ، ٢٤ (١٢٧٢) ، ٩٤ (١٣٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٠٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ٢ (٥) ، مسند احمد (٦/٤٠، ٩٣، ١١٨، ١٣٢، ١٦٥، ٢٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ سفید کپڑا کفن کے لئے بہتر ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ تین کپڑوں سے زیادہ کپڑا مکروہ ہے، بالخصوص عمامہ (پگڑی) جسے متاخرین حنفیہ اور مالکیہ نے رواج دیا ہے، یہ سراسر بدعت ہے۔

【64】

کفن کا بیان

اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے اسی کے ہم مثل مروی ہے البتہ اتنا زیادہ ہے کہ وہ کپڑے روئی کے تھے۔ پھر ام المؤمنین عائشہ (رض) سے یہ بات ذکر کی گئی کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ ﷺ کے کفن میں دو سفید کپڑے اور دھاری دار یمنی چادر تھی، تو انہوں نے کہا : چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے لوٹا دیا تھا، اس میں آپ کو کفنایا نہیں تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الجنائز ١٣ (٩٤١) ، سنن الترمذی/ الجنائز ٢٠ (٩٩٦) ، سنن النسائی/ الجنائز ٣٩ (١٩٠٠) ، سنن ابن ماجہ/ الجنائز ١١ (١٤٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٨٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ٢ (٥) ، مسند احمد (٦/٤٠، ٩٣، ١١٨، ١٣٢، ١٦٥) (صحیح )

【65】

کفن کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نجران کے بنے ہوئے تین کپڑوں میں کفن دئیے گئے، دو کپڑے (چادر اور تہہ بند) اور ایک وہ قمیص جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی تھی ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عثمان بن ابی شیبہ کی روایت میں ہے : تین کپڑوں میں کفن دیے گئے، سرخ جوڑا (یعنی چادر و تہہ بند) اور ایک وہ قمیص تھی جس میں آپ ﷺ نے انتقال فرمایا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ١١ (١٤٧١) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٢) (ضعیف الإسناد منکر) (اس کے راوی یزید ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ روایت ضعیف ہے، ثقات کی روایت کے بھی خلاف ہے۔

【66】

زیادہ قیمتی کفن دینا مکروہ ہے

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ کفن میں میرے لیے قیمتی کپڑا استعمال نہ کرنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ فرما رہے تھے : کفن میں غلو نہ کرو کیونکہ جلد ہی وہ اس سے چھین لیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠١٤٩) (ضعیف) (اس کے راوی عمرو بن ہاشم لین الحدیث ہیں )

【67】

زیادہ قیمتی کفن دینا مکروہ ہے

خباب (رض) کہتے ہیں کہ مصعب بن عمیر (رض) جنگ احد میں قتل ہوگئے تو انہیں کفن دینے کے لیے ایک کملی کے سوا اور کچھ میسر نہ آیا، اور وہ کملی بھی ایسی چھوٹی تھی کہ جب ہم اس سے ان کا سر ڈھانپتے تو پیر کھل جاتے تھے، اور اگر ان کے دونوں پیر ڈھانپتے تو سر کھل جاتا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کملی سے ان کا سر ڈھانپ دو اور پیروں پر کچھ اذخر (گھاس) ڈال دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢٧ (١٢٧٦) ، ومناقب الأنصار ٤٥ (٣٩١٣) ، والمغازي ١٧ (٤٠٤٧) ، ٢٦ (٤٠٨٢) ، والرقاق ٧ (٦٤٣٢) ، ١٦ (٦٤٤٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٣ (٩٤٠) ، سنن الترمذی/المناقب ٥٤ (٣٨٥٣) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٠ (١٩٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٥١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠٩، ١١٢، ٦/٣٩٥) (صحیح )

【68】

زیادہ قیمتی کفن دینا مکروہ ہے

عبادہ بن صامت (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بہترین کفن جوڑا (تہبند اور چادر) ہے، اور بہترین قربانی سینگ دار دنبہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٢ (١٤٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٥١١٧) (ضعیف) (اس کے راوی نسی مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مقصود یہ ہے کہ ایک کپڑے سے تو دو کپڑے بہتر ہیں، ورنہ مسنون تو تین کپڑے ہی ہیں، اور سینگ دار اس لئے بہتر ہے کہ وہ عام طور سے فربہ ہوتا ہے۔

【69】

عورت کے کفن کا بیان

بنی عروہ بن مسعود کے ایک فرد سے روایت ہے (جنہیں داود کہا جاتا تھا، اور جن کی پرورش ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان (رض) نے کی تھی) کہ لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ (رض) کہتی ہیں : میں ان عورتوں میں شامل تھی جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی ام کلثوم (رض) کو ان کے انتقال پر غسل دیا تھا، کفن کے کپڑوں میں سے سب سے پہلے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ازار دیا، پھر کرتہ دیا، پھر اوڑھنی دی، پھر چادر دی، پھر ایک اور کپڑا دیا، جسے اوپر لپیٹ دیا گیا ١ ؎۔ لیلیٰ کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ ان کے کفن کے کپڑے لیے ہوئے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ہمیں ان میں سے ایک ایک کپڑا دے رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٨٠٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٨٠) (ضعیف) (اس کے راوی نوح مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے لئے کفن کے پانچ کپڑے مسنون ہیں۔

【70】

میت کو مشک لگانا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے خوشبوؤوں میں مشک عمدہ خوشبو ہے (لہٰذا مردے کو یا کفن میں بھی اسے لگانا بہتر ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٤٢ (١٩٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٨١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الأدب ٥ (٢٢٥٢) ، سنن الترمذی/الجنائز ١٦ (٩٩١) ، مسند احمد (٣/٣٦، ٤٠، ٤٦، ٦٢) (صحیح)

【71】

جنازہ کی تیاری میں جلدی کرنا

حصین بن وحوح (رض) کہتے ہیں کہ طلحہ بن براء (رض) بیمار ہوئے تو نبی اکرم ﷺ ان کی عیادت کے لیے آئے، اور فرمایا : میں یہی سمجھتا ہوں کہ اب طلحہ مرنے ہی والے ہیں، تو تم لوگ مجھے ان کے انتقال کی خبر دینا اور تجہیز و تکفین میں جلدی کرنا، کیونکہ کسی مسلمان کی لاش اس کے گھر والوں میں روکے رکھنا مناسب نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٤١٨) (ضعیف) (اس کے راوی سعید بن عثمان لین الحدیث اور عروة مجہول ہیں )

【72】

میت کو غسل دینے کے بعد غسل کرنا

عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے ان سے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ چار چیزوں کی وجہ سے غسل کرتے تھے : جنابت سے، جمعہ کے دن، پچھنا لگوانے سے اور میت کو غسل دینے سے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٩٣) (ضعیف) (اس کے راوی مصعب ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : ان میں جنابت کے علاوہ کوئی اور غسل فرض نہیں ہوگا۔

【73】

میت کو غسل دینے کے بعد غسل کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو میت کو نہلائے اسے چاہیئے کہ خود بھی نہائے، جو جنازہ کو اٹھائے اسے چاہیئے کہ وضو کرلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٢٧٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ١٧ (٩٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٨ (١٤٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ دونوں حکم مستحب ہیں۔

【74】

میت کو غسل دینے کے بعد غسل کرنا

اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) (نبی اکرم ﷺ سے) اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث منسوخ ہے، میں نے احمد بن حنبل سے سنا ہے : جب ان سے میت کو غسل دینے والے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : اسے وضو کرلینا کافی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوصالح نے اس حدیث میں اپنے اور ابوہریرہ (رض) کے درمیان زائدہ کے غلام اسحاق کو داخل کردیا ہے، نیز مصعب کی روایت ضعیف ہے اس میں کچھ چیزیں ہیں جن پر عمل نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢١٨٤) (صحیح )

【75】

میت کو بوسہ دینے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو عثمان بن مظعون ١ ؎ (رض) کو بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے، ان کا انتقال ہوچکا تھا، میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ١٤ (٩٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٧ (١٤٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣، ٥٥، ٢٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عثمان بن مظعون (رض) رسول اللہ ﷺ کے رضاعی بھائی تھے، مدینہ میں مہاجرین میں سب سے پہلے انہیں کا انتقال ہوا۔

【76】

رات میں دفن کرنے کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کچھ لوگوں نے قبرستان میں (رات میں) روشنی دیکھی تو وہاں گئے، دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ قبر کے اندر کھڑے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں : تم اپنے ساتھی کو (یعنی نعش کو) مجھے تھماؤ ، تو دیکھا کہ (مرنے والا) وہ آدمی تھا جو بلند آواز سے ذکر الٰہی کیا کرتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٥٦٤) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن مسلم طائفی حافظہ کے ضعیف ہیں )

【77】

میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں غزوہ احد کے روز ہم نے مقتولین کو کسی اور جگہ لے جا کر دفن کرنے کے لیے اٹھایا ہی تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے منادی نے آ کر اعلان کیا کہ رسول اللہ ﷺ حکم فرماتے ہیں کہ مقتولین کو ان کی مضاجع شہادت گاہوں میں دفن کرو، تو ہم نے ان کو انہیں کی جگہوں پر لوٹا دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجھاد ٣٧ (١٧١٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٨٣ (٢٠٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٨ (١٥١٦) ، (تحفة الأشراف : ٣١١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٧، ٣٠٣، ٣٠٨، ٣٩٧) ، سنن الدارمی/المقدمة ٧ (٤٦) (صحیح) (متابعات و شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی نبی ح لین الحدیث ہیں )

【78】

جنازے کی نماز میں کتنی صفیں ہونی چاہیئں؟

مالک بن ہبیرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بھی مسلمان مرجائے اور اس کے جنازے میں مسلمان نمازیوں کی تین صفیں ہوں تو اللہ اس کے لیے جنت کو واجب کر دے گا ۔ راوی کہتے ہیں : نماز (جنازہ) میں جب لوگ تھوڑے ہوتے تو مالک اس حدیث کے پیش نظر ان کی تین صفیں بنا دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٤٠ (١٠٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٩ (١٤٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٧٩) (ضعیف) (اس کا مرفوع حصہ ابن اسحاق کی وجہ سے ضعیف ہے وہ مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں البتہ موقوف حصہ (مالک بن ہبیرہ کا فعل ہے) متابعات و شواہد سے تقویت پا کر صحیح ہے )

【79】

عورتوں کا جنازہ کے ساتھ جانا ممنوع ہے

ام عطیہ (رض) کہتی ہیں ہمیں جنازہ کے پیچھے پیچھے جانے سے روکا گیا ہے لیکن (روکنے میں) ہم پر سختی نہیں برتی گئی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨١٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢٩ (١٢٧٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ١١ (٩٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٠ (١٥٧٧) ، مسند احمد (٦/٤٠٨) (صحیح )

【80】

جنازے کے ساتھ جانے اور اس پر نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جو شخص جنازہ کے ساتھ جائے اور نماز جنازہ پڑھے تو اسے ایک قیراط (کا ثواب) ملے گا، اور جو جنازہ کے ساتھ جائے اور اس کے دفنانے تک ٹھہرا رہے تو اسے دو قیراط (کا ثواب) ملے گا، ان میں سے چھوٹا قیراط یا ان میں سے ایک قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٥٥٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٥ (٤٧) ، الجنائز ٥٨ (١٣٢٥) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٧ (٩٤٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٩ (١٩٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٤ (١٥٣٩) ، مسند احمد (٢/٢، ٢٣٣، ٢٤٦، ٢٨٠، ٣٢١، ٣٨٧، ٤٠١، ٤٣٠، ٤٥٨، ٤٧٥، ٤٨٠، ٤٩٣، ٤٩٨، ٥٠٣، ٥٢١) (صحیح )

【81】

جنازے کے ساتھ جانے اور اس پر نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان

عامر بن سعد سے روایت ہے کہ وہ عبداللہ بن عمر بن خطاب (رض) کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک صاحب مقصورہ ١ ؎ خباب (رض) برآمد ہوئے اور کہنے لگے : عبداللہ بن عمر ! کیا جو ابوہریرہ (رض) کہہ رہے ہیں آپ اسے نہیں سن رہے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص جنازے کے ساتھ اس کے گھر سے نکلے اور اس کی نماز جنازہ پڑھے۔ آگے راوی نے وہی مفہوم ذکر کیا ہے جو سفیان کی حدیث کا ہے (یہ سنا تو) ابن عمر (رض) نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھنے کے لیے آدمی بھیجا تو انہوں نے کہا : ابوہریرہ (رض) نے صحیح کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الجنائز ١٧ (٩٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٠١، ١٦١٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چھوٹا گھر جسے دیواروں سے گھیر کر محفوظ کردیا گیا ہو۔

【82】

جنازے کے ساتھ جانے اور اس پر نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : کوئی مسلمان ایسا نہیں جو مرجائے اور اس کی نماز جنازہ ایسے چالیس لوگ پڑھیں جو اللہ کے ساتھ کسی طرح کا بھی شرک نہ کرتے ہوں اور ان کی سفارش اس کے حق میں قبول نہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١٨ (٩٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٩ (١٤٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٥٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ٤٠ (١٠٢٩) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٨ (١٩٩٣) ، مسند احمد (٦/٣٢، ٤٠، ٩٧، ٢٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چالیس موحدین کا نماز جنازہ پڑھنا میت کی مغفرت کا سبب ہے، عبد اللہ بن عباس (رض) تلاش کر کے جنازے میں چالیس مسلمان جمع کرتے تھے، ام المومنین عائشہ (رض) کی روایت میں سو مسلمانوں کا ذکر ہے، تو جب چالیس کی سفارش مقبول ہے تو سو کی بدرجہ اولی مقبول ہوگی، بإذن اللہ۔

【83】

جنازہ کے پیچھے آگ لے کر چلنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنازہ چیختے چلاتے (روتے پیٹتے) نہ لے جایا جائے، نہ اس کے پیچھے آگ لے جائی جائے ۔ ہارون کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ اس کے آگے آگے نہ چلا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٥١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٧، ٥٢٨، ٥٣١) (ضعیف) ( اس کی سند میں دو راوی مبہم ہیں )

【84】

جنازہ کو آتے دیکھ کر کھڑے ہوجا نا

عامر بن ربیعہ (رض) سے روایت ہے وہ اسے نبی اکرم ﷺ تک پہنچاتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب تم جنازے کو دیکھو تو (اس کے احترام میں) کھڑے ہوجاؤ یہاں تک کہ وہ تم سے آگے گزر جائے یا (زمین پر) رکھ دیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤٦ (١٣٠٧) ، ٤٧ (١٣٠٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٤ (٩٥٨) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥١ (١٠٤٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٥ (١٩١٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٥ (١٥٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤٥، ٤٤٦، ٤٤٧) (صحیح )

【85】

جنازہ کو آتے دیکھ کر کھڑے ہوجا نا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم جنازے کے پیچھے چلو تو جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے نہ بیٹھو ابوداؤد کہتے ہیں : ثوری نے اس حدیث کو سہیل سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے اس میں ہے : یہاں تک کہ جنازہ زمین پر رکھ دیا جائے اور اسے ابومعاویہ نے سہیل سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ جب تک جنازہ قبر میں نہ رکھ دیا جائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : سفیان ثوری ابومعاویہ سے زیادہ حافظہ والے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤١٢٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤٨ (١٣١٠) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٤ (٩٥٩) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥١ (١٠٤٣) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٤ (١٩١٥) ، ٤٥ (١٩١٨) ، ٨٠ (٢٠٠٠) ، مسند احمد (٣/٢٥، ٤١، ٥١، ٨٥، ٩٧) (صحیح )

【86】

جنازہ کو آتے دیکھ کر کھڑے ہوجا نا

جابر (رض) کہتے ہیں ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے اچانک ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ اس کے لیے کھڑے ہوگئے، پھر جب ہم اسے اٹھانے کے لیے بڑھے تو معلوم ہوا کہ یہ کسی یہودی کا جنازہ ہے، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو کسی یہودی کا جنازہ ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : موت ڈرنے کی چیز ہے، لہٰذا جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤٩ (١٣١١) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٤ (٩٦٠) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٦ (١٩٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٩، ٣٥٤) (صحیح )

【87】

جنازہ کو آتے دیکھ کر کھڑے ہوجا نا

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ پہلے جنازوں میں (دیکھ کر) کھڑے ہوجایا کرتے تھے پھر اس کے بعد بیٹھے رہنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٥ (٩٦٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٨١ (٢٠٠١) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥٢ (١٠٤٤) ، سنن ابن ماجہ/ الجنائز ٣٥ (١٥٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٧٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ الجنائز ١١ (٣٣) ، مسند احمد (١/٨٢، ٨٣، ١٣١، ١٣٨) (صحیح )

【88】

جنازہ کو آتے دیکھ کر کھڑے ہوجا نا

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جنازہ کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے، اور جب تک جنازہ قبر میں اتار نہ دیا جاتا، بیٹھتے نہ تھے، پھر آپ کے پاس سے ایک یہودی عالم کا گزر ہوا تو اس نے کہا : ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں (اس کے بعد سے) رسول اللہ ﷺ بیٹھے رہنے لگے، اور فرمایا : (مسلمانو ! ) تم (بھی) بیٹھے رہو، ان کے خلاف کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٣٥ (١٠٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٥ (١٥٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٧٦) (حسن )

【89】

جنازہ کے ساتھ سوار ہو کر چلنا

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ کو ایک سواری پیش کی گئی اور آپ جنازہ کے ساتھ تھے تو آپ ﷺ نے سوار ہونے سے انکار کیا (پیدل ہی گئے) جب جنازے سے فارغ ہو کر لوٹنے لگے تو سواری پیش کی گئی تو آپ سوار ہوگئے، آپ ﷺ سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا : جنازے کے ساتھ فرشتے پیدل چل رہے تھے تو میں نے مناسب نہ سمجھا کہ وہ پیدل چل رہے ہوں اور میں سواری پر چلوں، پھر جب وہ چلے گئے تو میں سوار ہوگیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢١٢١) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٥ (١٤٨٠) (صحیح )

【90】

جنازہ کے ساتھ سوار ہو کر چلنا

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ابن دحداح کی نماز جنازہ پڑھی، اور ہم موجود تھے، پھر (آپ ﷺ کی سواری کے لیے) ایک گھوڑا لایا گیا اسے باندھ کر رکھا گیا یہاں تک کہ آپ سوار ہوئے، وہ اکڑ کر ٹاپ رکھنے لگا، اور ہم سب آپ ﷺ کے اردگرد ہو کر تیز چلنے لگے (تاکہ آپ کا ساتھ نہ چھوٹے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٨ (٩٦٥) ، سنن الترمذی/الجنائز ٢٩ (١٠١٣) ، (تحفة الأشراف : ٢١٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٩٠، ٩٥، ٩٨) (صحیح )

【91】

جنازہ کے آگے چلنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر اور عمر (رض) کو جنازے کے آگے چلتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٢٦ (١٠٠٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٦ (١٩٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٦ (١٤٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٢٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ٣ (٨) ، مسند احمد (٢/٨، ١٢٢) (صحیح )

【92】

جنازہ کے آگے چلنے کا بیان

مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سوار جنازے کے پیچھے چلے، اور پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے دائیں بائیں کسی بھی جانب جنازے کے قریب ہو کر چل سکتا ہے، اور کچے بچوں ١ ؎ کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور ان کے والدین کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٤٢ (١٠٣١) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٥ (١٩٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٥ (١٤٨١) ، ٢٦ (١٥٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٧، ٢٤٨، ٢٤٩، ٢٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایسے ببچے جو مدت حمل پوری ہونے سے پہلے پیدا ہوجائیں اور زندہ رہ کر مرجائیں۔

【93】

جنازہ کو جلدی لے چلنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنازہ لے جانے میں جلدی کیا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے نیکی کی طرف پہنچانے میں جلدی کرو گے اور اگر نیک نہیں ہے تو تم شر کو جلد اپنی گر دنوں سے اتار پھینکو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٥١ (١٣١٥) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٦ (٩٤٤) ، سنن الترمذی/الجنائز ٣٠ (١٠١٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٤ (١٩٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٥ (١٤٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٥٦) ، مسند احمد (٢/٢٤٠) (صحیح )

【94】

جنازہ کو جلدی لے چلنے کا بیان

عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ وہ عثمان بن ابوالعاص کے جنازے میں تھے اور ہم دھیرے دھیرے چل رہے تھے، اتنے میں ہم سے ابوبکرہ (رض) آ ملے اور انہوں نے اپنا کوڑا لہرایا (ڈرانے کے لیے) اور کہا : ہم نے اپنے آپ کو دیکھا ہے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ ہم (جنازے لے کر) تیز چلا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٤٤ (١٩١٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٦، ٣٧، ٣٨) (صحیح) (اس واقعہ میں عثمان بن ابی العاص کا نام وہم ہے، صحیح نام عبدالرحمن بن سمرہ ہے جیسا کہ اگلی روایت میں ہے )

【95】

جنازہ کو جلدی لے چلنے کا بیان

اس سند سے بھی عیینہ سے یہی حدیث مروی ہے مگر اس میں خالد بن حارث اور عیسیٰ بن یوسف دونوں نے کہا ہے کہ یہ واقعہ عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کے جنازہ کا ہے نیز اس میں یہ بھی ہے کہ ابوبکرہ (رض) نے ان پر اپنا خچر دوڑایا اور کوڑے سے (جلدی) چلنے کا اشارہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٦٩٥) (صحیح) وهذا هو المحفوظ

【96】

جنازہ کو جلدی لے چلنے کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں ہم نے اپنی نبی اکرم ﷺ سے جنازے کے ساتھ چلنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : خبب ١ ؎ سے کچھ کم، اگر جنازہ نیک ہے تو وہ نیکی سے جلدی جا ملے گا، اور اگر نیک نہیں ہے تو اہل جہنم کا دور ہوجانا ہی بہتر ہے، جنازہ کی پیروی کی جائے گی (یعنی جنازہ آگے رہے گا اور لوگ اس کے پیچھے رہیں گے) اسے پیچھے نہیں رکھا جاسکتا، جو آگے رہے گا وہ جنازہ کے ساتھ نہیں سمجھا جائے گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یحییٰ المجبر ضعیف ہیں اور یہی یحییٰ بن عبداللہ ہیں اور یہی یحییٰ الجابر ہیں، یہ کوفی ہیں اور ابوماجدہ بصریٰ ہیں، نیز ابوماجدہ غیر معروف شخص ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٢٧ (١٠١١) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٦ (١٤٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٨، ٣٩٤، ٤١٥، ٤١٩، ٤٣٢) (ضعیف) (اس کے راوی یحییٰ الجابر لین الحدیث، اور ابوماجدة مجہول ہیں، واضح رہے کہ ابوماجد ، کو ابوماجدہ نیز ابن ماجدہ کہا جاتا ہے ) وضاحت : ١ ؎ : چال کی ایک قسم ہے۔

【97】

خودکشی کرنے والے پر امام نماز نہ پڑھے

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں ایک شخص بیمار ہوا پھر اس کی موت کی خبر پھیلی تو اس کا پڑوسی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے عرض کیا کہ وہ مرگیا ہے، آپ ﷺ نے پوچھا : تمہیں کیسے معلوم ہوا ؟ ، وہ بولا : میں اسے دیکھ کر آیا ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ نہیں مرا ہے ، وہ پھر لوٹ گیا، پھر اس کے مرنے کی خبر پھیلی، پھر وہی شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : وہ مرگیا ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وہ نہیں مرا ہے ، تو وہ پھر لوٹ گیا، اس کے بعد پھر اس کے مرنے کی خبر مشہور ہوئی، تو اس کی بیوی نے کہا : تم رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ اور اس کے مرنے کی آپ کو خبر دو ، اس نے کہا : اللہ کی لعنت ہو اس پر۔ پھر وہ شخص مریض کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس نے تیر کے پیکان سے اپنا گلا کاٹ ڈالا ہے، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا اور اس نے آپ کو بتایا کہ وہ مرگیا ہے، آپ ﷺ نے پوچھا : تمہیں کیسے پتا لگا ؟ ، اس نے کہا : میں نے دیکھا ہے اس نے تیر کی پیکان سے اپنا گلا کاٹ لیا ہے، آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تم نے خود دیکھا ہے ؟ ، اس نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : تب تو میں اس کی نماز (جنازہ) نہیں پڑھوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢١٦٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٨) ، سنن الترمذی/الجنائز ٦٨ (١٠٦٦) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٨ (١٩٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣١ (١٥٢٦) ، مسند احمد (٥/٨٧، ٩٢، ٩٤، ٩٦، ٩٧) (صحیح )

【98】

جو شخص کسی حد شرعی میں مارا جائے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان

ابوبرزہ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ماعز بن مالک (رض) کی نماز (جنازہ) نہیں پڑھی اور نہ ہی اوروں کو ان کی نماز پڑھنے سے روکا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٦١٠) (حسن صحیح) (اس کی سند میں نفر من أهل البصرة مبہم رواة ہیں، لیکن یہ جماعت تابعین کثرت کی وجہ سے قابل استناد ہیں، نیز جابر کی صحیح حدیث (ابو داود حدیث نمبر (٤٤٣٠) سے اس کو تقویت ہے ) وضاحت : ١ ؎ : ماعز (رض) کو رجم کیا گیا تھا، صحیح بخاری میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، نیز آپ نے غامدیہ (رض) پر بھی پڑھی، ان کو بھی سنگسار کیا گیا تھا )

【99】

بچہ کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا اس وقت وہ اٹھارہ مہینے کے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٧٩٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٦٧) (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : دیگر بہت سی روایات سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے ان کی صلاۃِ جنازہ پڑھی۔

【100】

بچہ کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان

وائل بن داود کہتے ہیں : میں نے بہی سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ جب نبی اکرم ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی نشست گاہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے سعید بن یعقوب طالقانی پر پڑھا کہ آپ سے حدیث بیان کی ابن مبارک نے انہوں نے یعقوب بن قعقاع سے اور انہوں نے عطاء سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی نماز جنازہ پڑھی اس وقت وہ ستر دن کے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٩٤٧، ١٩٨٤) (ضعیف منکر) (دونوں روایتیں مرسل ہیں )

【101】

بچہ کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں قسم اللہ کی رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضاء (رض) کی نماز جنازہ مسجد ہی میں پڑھی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٩ (١٥١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٧٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٤ (٩٧٣) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٤ (١٠٣٣) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٠ (١٩٦٩) ، موطا امام مالک/الجنائز ٨ (٢٢) ، مسند احمد (٦/٧٩، ١٣٣، ١٦٩) (صحیح )

【102】

بچہ کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ نے بیضاء کے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٤ (٩٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧١٣) (صحیح )

【103】

بچہ کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز جنازہ مسجد میں پڑھی تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٩ (١٥١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٤٤، ٤٥٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : دوسری روایت میں ہے اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا، اور زیادہ صحیح روایت یہی ہے، اور یہ عام حالات کے لئے ہے اور مسجد میں صرف جواز ہے فضیلت نہیں )

【104】

سورج کے طلوع وغروب کے وقت میت کو دفن کر نہیں کرنا چاہئے

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ تین اوقات ایسے ہیں جن میں رسول ﷺ ہمیں نماز پڑھنے اور اپنے مردوں کو دفن کرنے سے روکتے تھے : ایک تو جب سورج چمکتا ہوا نکلے یہاں تک کہ وہ بلند ہوجائے، دوسرے جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہو یہاں تک کہ ڈھل جائے اور تیسرے جب سورج ڈوبنے لگے یہاں تک کہ ڈوب جائے یا اسی طرح کچھ فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٥١ (٨٣١) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤١ (١٠٣٠) ، سنن النسائی/المواقیت ٣٠ (٥٦١) ، ٣٣ (٥٦٦) ، الجنائز ٨٩ (٢٠١٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٠ (١٥١٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٢ (١٤٧٢) (صحیح )

【105】

جب مرد اور عورت دونوں کے جنازے آجائیں تو امام کے آگے کس کو رکھیں؟

حارث بن نوفل کے غلام عمار کا بیان ہے کہ وہ ام کلثوم اور ان کے بیٹے کے جنازے میں شریک ہوئے تو لڑکا امام کے قریب رکھا گیا تو میں نے اسے ناپسند کیا اس وقت لوگوں میں ابن عباس، ابو سعید خدری، ابوقتادہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم موجود تھے اس پر ان لوگوں نے کہا : سنت یہی ہے (یعنی پہلے لڑکے کو رکھنا پھر عورت کو) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٧٤ (١٩٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٦١) (صحیح )

【106】

جب امام جنازہ کی نماز پڑھائے تو اس کو میت کے کسی حصہ جسم کو مقابل کھڑ ہونا چاہئے

نافع ابوغالب کہتے ہیں کہ میں سکۃ المربد (ایک جگہ کا نام ہے) میں تھا اتنے میں ایک جنازہ گزرا، اس کے ساتھ بہت سارے لوگ تھے، لوگوں نے بتایا کہ یہ عبداللہ بن عمیر کا جنازہ ہے، یہ سن کر میں بھی جنازہ کے ساتھ ہو لیا، تو میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ باریک شال اوڑھے ہوئے چھوٹی گھوڑی پر سوار ہے، دھوپ سے بچنے کے لیے سر پر ایک کپڑے کا ٹکڑا ڈالے ہوئے ہے، میں نے لوگوں سے پوچھا : یہ چودھری صاحب کون ہیں ؟ لوگوں نے بتایا : یہ انس بن مالک ١ ؎ (رض) ہیں، پھر جب جنازہ رکھا گیا تو انس (رض) کھڑے ہوئے اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی، میں ان کے پیچھے تھا، میرے اور ان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی تو وہ اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے، چار تکبیریں کہیں (اور تکبیریں کہنے میں) نہ بہت دیر لگائی اور نہ بہت جلدی کی، پھر بیٹھنے لگے تو لوگوں نے کہا : ابوحمزہ ! (انس (رض) کی کنیت ہے) یہ انصاری عورت کا بھی جنازہ ہے (اس کی بھی نماز پڑھا دیجئیے) یہ کہہ کر اسے قریب لائے، وہ ایک سبز تابوت میں تھی، وہ اس کے کو ل ہے کے سامنے کھڑے ہوئے، اور ویسی ہی نماز پڑھی جیسی نماز مرد کی پڑھی تھی، پھر اس کے بعد بیٹھے، تو علاء بن زیاد نے کہا : اے ابوحمزہ ! کیا رسول اللہ ﷺ اسی طرح جنازے کی نماز پڑھا کرتے تھے جس طرح آپ نے پڑھی ہے ؟ چار تکبیریں کہتے تھے، مرد کے سر کے سامنے اور عورت کے کو لھے کے سامنے کھڑے ہوتے تھے، انہوں نے کہا : ہاں۔ علاء بن زیاد نے (پھر) کہا : ابوحمزہ ! کیا آپ نے رسول ﷺ کے ساتھ جہاد کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، میں جنگ حنین ٢ ؎ میں آپ ﷺ کے ساتھ تھا، مشرکین نکلے انہوں نے ہم پر حملہ کیا یہاں تک کہ ہم نے اپنے گھوڑوں کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے دیکھا ٣ ؎ اور قوم (کافروں) میں ایک حملہ آور شخص تھا جو ہمیں مار کاٹ رہا تھا (پھر جنگ کا رخ پلٹا) اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست دی اور انہیں (اسلام کی چوکھٹ پر) لانا شروع کردیا، وہ آ کر رسول اللہ ﷺ سے اسلام پر بیعت کرنے لگے، تو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا کہ میں نے نذر مانی ہے اگر اللہ اس شخص کو لایا جو اس دن ہمیں مار کاٹ رہا تھا تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ چپ رہے، پھر وہ (قیدی) رسول ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو کہا : اللہ کے رسول ! میں نے اللہ سے توبہ کی، تو آپ ﷺ نے اس سے بیعت کرنے میں توقف کیا تاکہ دوسرا بندہ (یعنی نذر ماننے والا صحابی) اپنی نذر پوری کرلے (یعنی آپ ﷺ کے بیعت لینے سے پہلے ہی اس کی گردن اڑا دے) لیکن وہ شخص رسول ﷺ کا انتظار کرنے لگا کہ آپ اسے اس کے قتل کا حکم فرمائیں اور ڈر رہا تھا کہ ایسا نہ ہو میں اسے قتل کر ڈالوں اور آپ ﷺ خفا ہوں، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ وہ کچھ نہیں کرتا ہے تو آپ ﷺ نے اس سے بیعت کرلی، تب اس صحابی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری نذر تو رہ گئی، آپ ﷺ نے فرمایا : میں جو اب تک رکا رہا اور اس سے بیعت نہیں کی تھی تو اسی وجہ سے کہ اس دوران تم اپنی نذر پوری کرلو ، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ نے ہمیں اس کا اشارہ کیوں نہ فرما دیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کسی نبی کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ رمز سے اشارہ کرے ۔ ابوغالب کہتے ہیں : میں نے انس (رض) کے عورت کے کو ل ہے کے سامنے کھڑے ہونے کے بارے میں پوچھا کہ (وہ وہاں کیوں کھڑے ہوئے) تو لوگوں نے بتایا کہ پہلے تابوت نہ ہوتا تھا تو امام عورت کے کو ل ہے کے پاس کھڑا ہوتا تھا تاکہ مقتدیوں سے اس کی نعش چھپی رہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کی حدیث : أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله سے اس کے قتل کی نذر پوری کرنے کو منسوخ کردیا گیا ہے کیونکہ اس نے آ کر یہ کہا تھا کہ میں نے توبہ کرلی ہے، اور اسلام لے آیا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٤٥ (١٠٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢١ (١٤٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٨، ١٥١، ٢٠٤) (صحیح) (مگر قال ابو غالب سے اخیر تک کا جملہ صحیح نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : جنہوں نے دس برس تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی، ٩٢ ہجری یا ٩٣ ہجری میں انتقال ہوا۔ ٢ ؎ : غزوہ حنین ٩ ہجری میں ہوا، حنین ایک جگہ کا نام ہے جو طائف کے نواح میں واقع ہے۔ ٣ ؎ : یعنی شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

【107】

جب امام جنازہ کی نماز پڑھائے تو اس کو میت کے کسی حصہ جسم کو مقابل کھڑ ہونا چاہئے

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کے پیچھے ایک ایسی عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو حالت نفاس میں مرگئی تھی تو آپ ﷺ نماز کے لیے اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٩ (٣٣٢) ، والجنائز ٦٢ (١٣٣١) ، ٦٣ (١٣٣٢) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٧ (٩٦٤) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٥ (١٠٣٥) ، سنن النسائی/الحیض والاستحاضة ٢٥ (٣٩٣) ، الجنائز ٧٣ (١٩٧٨) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢١ (١٤٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤، ١٩) (صحیح )

【108】

نماز جنازہ کی تکبیرات کا بیان

شعبی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک نئی قبر پر سے ہوا، تو لوگوں نے اس پر صف بندی کی آپ نے (نماز پڑھائی اور) چار تکبیریں کہیں۔ ابواسحاق کہتے ہیں : میں نے شعبی سے پوچھا : آپ سے یہ حدیث کس نے بیان کی ؟ انہوں نے کہا : ایک معتبر آدمی نے جو اس وقت موجود تھے، یعنی عبداللہ بن عباس (رض) نے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦١ (٨٥٧) ، والجنائز ٥ (١٢٤٧) ، ٥٤ (١٣١٩) ، ٥٥ (١٣٢٢) ، ٥٩ (١٣٢٦) ، ٦٦ (١٣٣٦) ، ٦٩ (١٣٤٠) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٣ (٩٥٤) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٧ (١٠٣٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٩٤ (٢٠٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٢ (١٥٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٤، ٢٨٣، ٣٣٨) (صحیح )

【109】

نماز جنازہ کی تکبیرات کا بیان

ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید یعنی ابن ارقم (رض) ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہا کرتے تھے اور ایک بار ایک جنازہ پر انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو ہم نے ان سے پوچھا (آپ ہمیشہ چار تکبیریں کہا کرتے تھے آج پانچ کیسے کہیں ؟ ) تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ایسا (بھی) کہتے تھے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے ابن مثنیٰ کی حدیث زیادہ یاد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٣ (٩٦١) ، سنن الترمذی/الجنائز ٣٧ (١٠٢٣) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٦ (١٩٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٥ (١٥٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦٨، ٣٧٠، ٣٧١، ٣٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جب پانچ تکبیریں کہی جائیں تو پہلی تکبیر کے بعد دعاء ثنا پڑھے، دوسری کے بعد سورة فاتحہ، تیسری کے بعد درود، چوتھی کے بعد دعاء اور پانچویں کے بعد سلام پھیرے۔

【110】

جنازہ کی نماز میں کیا پڑھا جائے

طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کے ساتھ ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو انہوں نے سورة فاتحہ پڑھی اور کہا : یہ سنت میں سے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦٥ (١٣٣٥) ، سنن الترمذی/الجنائز ٣٩ (١٠٢٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٧ (١٩٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٦٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٢ (١٤٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہی محققین علماء کا مذہب ہے، یعنی چار تکبیریں کہے اور تکبیر اولی کے بعد سورة فاتحہ اور سورة اخلاص پڑھے۔

【111】

میت کے لئے دعا کرنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب تم میت کی نماز جنازہ پڑھو تو خلوص دل سے اس کے لیے دعا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٣ (١٤٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٩٣) (حسن )

【112】

میت کے لئے دعا کرنے کا بیان

علی بن شماخ کہتے ہیں میں مروان کے پاس موجود تھا، مروان نے ابوہریرہ (رض) سے پوچھا : آپ نے رسول اللہ ﷺ کو جنازے کے نماز میں کیسی دعا پڑھتے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : کیا تم ان باتوں کے باوجود مجھ سے پوچھتے ہو جو پہلے کہہ چکے ہو ؟ مروان نے کہا : ہاں۔ راوی کہتے ہیں : ان دونوں میں اس سے پہلے کچھ کہا سنی (سخت کلامی) ہوگئی تھی۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا : آپ ﷺ یہ دعا پڑھتے تھے : اللهم أنت ربها وأنت خلقتها وأنت هديتها للإسلام وأنت قبضت روحها وأنت أعلم بسرها وعلانيتها جئناک شفعاء فاغفر له اے اللہ ! تو ہی اس کا رب ہے، تو نے ہی اس کو پیدا کیا ہے، تو نے ہی اسے اسلام کی راہ دکھائی ہے، تو نے ہی اس کی روح قبض کی ہے، تو اس کے ظاہر و باطن کو زیادہ جاننے والا ہے، ہم اس کی سفارش کرنے آئے ہیں تو اسے بخش دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة (١٠٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٦، ٣٤٥، ٣٦٣، ٤٥٨) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی علی بن شماخ لین الحدیث ہیں )

【113】

میت کے لئے دعا کرنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو یوں دعا کی : اللهم اغفر لحينا وميتنا وصغيرنا وكبيرنا وذکرنا وأنثانا وشاهدنا وغائبنا اللهم من أحييته منا فأحيه على الإيمان ومن توفيته منا فتوفه على الإسلام اللهم لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده اے اللہ ! تو بخش دے، ہمارے زندوں اور ہمارے مردوں کو، ہمارے چھوٹوں اور ہمارے بڑوں کو، ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں کو، ہمارے حاضر اور ہمارے غائب کو، اے اللہ ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے ایمان پر زندہ رکھ، اور ہم میں سے جس کو موت دے اسے اسلام پر موت دے، اے اللہ ! ہم کو تو اس کے ثواب سے محروم نہ رکھنا، اور اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٣٨ (١٠٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٨٥) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الجنائز ٧٧ (١٩٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٣ (١٤٩٩) ، مسند احمد (٢/٣٦٨) (صحیح )

【114】

میت کے لئے دعا کرنے کا بیان

واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مسلمانوں میں سے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھائی تو میں نے سنا آپ کہہ رہے تھے : اللهم إن فلان بن فلان في ذمتک فقه فتنة القبر اے اللہ ! فلاں کا بیٹا فلاں تیری امان و پناہ میں ہے تو اسے قبر کے فتنہ (عذاب) سے بچا لے ۔ عبدالرحمٰن کی روایت میں : في ذمتک کے بعد عبارت اس طرح ہے : وحبل جو ارک فقه من فتنة القبر و عذاب النار وأنت أهل الوفاء والحمد اللهم فاغفر له وارحمه إنك أنت الغفور الرحيم اے اللہ ! وہ تیری امان میں ہے، اور تیری حفاظت میں ہے، تو اسے قبر کے فتنہ اور جہنم کے عذاب سے بچا لے، تو وعدہ وفا کرنے والا اور لائق ستائش ہے، اے اللہ ! تو اسے بخش دے، اس پر رحم فرما، تو بہت بخشنے والا، اور رحم فرمانے والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٣ (١٤٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩١) (صحیح )

【115】

قبر پر نماز جنازہ پڑھنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک کالی عورت یا ایک مرد مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا، نبی اکرم ﷺ نے اسے موجود نہ پایا تو لوگوں سے اس کے متعلق پوچھا، لوگوں نے بتایا کہ وہ تو مرگیا ہے، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگوں نے مجھے اس کی خبر کیوں نہیں دی ؟ آپ نے فرمایا : مجھے اس کی قبر بتاؤ ، لوگوں نے بتائی تو آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧٤ (٤٥٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٣ (٩٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٢ (١٥٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٣، ٣٨٨، ٤٠٦) (صحیح )

【116】

جو مسلمان کافروں کے ملک میں مر جائے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ (حبشہ کا بادشاہ) نجاشی ١ ؎ جس دن انتقال ہوا اسی دن رسول اللہ ﷺ نے ان کی موت کی اطلاع مسلمانوں کو دی، آپ ﷺ مسلمانوں کو لے کر عید گاہ کی طرف نکلے، ان کی صفیں بنائیں اور چار تکبیروں کے ساتھ نماز (جنازہ) پڑھی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦٠ (١٣٣٤) ، ومناقب الأنصار ٣٨ (٣٨٨٠) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٢ (٩٥١) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٢ (١٩٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٣٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ الجنائز ٥ (١٤) ، مسند احمد (٢/٤٣٨، ٤٣٩) (صحیح ) وضاحت : وضاحت ١ ؎ : نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب ہے، ان کا نام اصحمہ تھا، یہ پہلے نصاری کے دین پر تھے، پھر نبی اکرم ﷺ پر ایمان لائے اور جو صحابہ کرام ہجرت کر کے حبشہ گئے ان کی خوب خدمت کی جب وہ فوت ہوئے تو نبی اکرم ﷺ نے عیدگاہ جا کر صحابہ کرام کے ساتھ ان کی نماز جنازہ پڑھی چونکہ ان کا انتقال حبشہ میں ہوا تھا، اور آپ ﷺ نے مدینہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھی تھی اس سے بعض لوگوں نے نماز جنازہ غائبانہ کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ ٢ ؎ : نماز جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگر میت کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اور اگر پڑھی جا چکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہوگیا، الا یہ کہ کوئی محترم اور صالح شخصیت ہو تو پڑھنا بہتر ہے یہی قول ابن تیمیہ، ابن قیم اور امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ کا ہے، عام مسلمانوں کا غائبانہ جنازہ آپ ﷺ سے ثابت نہیں، اور نہ ہی تعامل امت سے۔

【117】

جو مسلمان کافروں کے ملک میں مر جائے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (جب کفار نے سخت ایذائیں پہنچائیں تو) ہمیں نجاشی کے ملک میں چلے جانے کا حکم دیا، نجاشی نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ (محمد ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں اور وہ وہی شخص ہیں جن کے آنے کی بشارت عیسیٰ بن مریم نے دی ہے اور اگر میں سلطنت کے انتظام اور اس کی ذمہ داریوں میں پھنسا ہوا نہ ہوتا تو ان کے پاس آتا یہاں تک کہ میں ان کی جوتیاں اٹھاتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩١١٧) (صحیح الإسناد )

【118】

ایک قبر میں ایک ساتھ کئی مُردوں کو دفن کرنا اور کوئی علامت مقرر کرنا

مطلب کہتے ہیں جب عثمان بن مظعون (رض) کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ لے جایا گیا اور وہ دفن کئے گئے تو نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو ایک پتھر اٹھا کر لانے کا حکم دیا (تاکہ اسے علامت کے طور پر رکھا جائے) وہ اٹھا نہ سکا تو آپ ﷺ اس کی طرف اٹھ کر گئے اور اپنی دونوں آستینیں چڑھائیں۔ کثیر (راوی) کہتے ہیں : مطلب نے کہا : جس نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث مجھ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : گویا میں آپ ﷺ کے دونوں ہاتھوں کی سفیدی جس وقت کہ آپ نے اسے کھولا دیکھ رہا ہوں، پھر آپ ﷺ نے اس کو اٹھا کر ان کے سر کے قریب رکھا اور فرمایا : میں اسے اپنے بھائی کی قبر کی پہچان کے لیے لگا رہا ہوں، میرے خاندان کا جو مرے گا میں اسے انہیں کے آس پاس میں دفن کروں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٧٢) (حسن) (متابعات و شواہد سے تقویت پا کر یہ صحیح بھی حسن ہے، ورنہ کثیر بن زید سے روایت میں غلطیاں ہوجایا کرتی تھی) ۔ وضاحت : ١ ؎ : عثمان بن مظعون (رض) کو آپ ﷺ نے اپنا بھائی فرمایا کہ وہ آپ کے رضاعی بھائی تھے، انہوں نے ساری عمر کبھی شراب نہیں پی، اور مہاجرین میں سب سے پہلے مدینہ میں انتقال ہوا اور بقیع میں تدفین ہوئی، اس سے معلوم ہوا کہ قبر کی شناخت کے لئے قبر کے پاس کوئی پتھر رکھنا یا کوئی تختی نصب کرنا درست ہے۔

【119】

قبر کھودنے والا اگر مُردے کی ہڈی دیکھے تو اس کو توڑے نہیں بلکہ چھوڑ دے اور دوسری جگہ کھودے

ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مردے کی ہڈی توڑنا زندے کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٦٣ (١٦١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٥٨، ١٠٠، ١٠٥، ١٦٨، ٢٠٠، ٢٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : گویا قبر کھودتے وقت اگر پہلے سے کسی میت کی ہڈی موجود ہے تو اسے چھیڑے بغیر دوسری جگہ قبر تیار کی جائے۔

【120】

بغلی قبر بنانے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لحد (بغلی قبر) ہمارے لیے ہے، اور شق (صندوقی قبر) دوسروں کے لیے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٥٣ (١٠٤٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٨٥ (٢٠١١) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٩ (١٥٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٤٢) (صحیح )

【121】

میت کو رکھنے کے لئے کتنے آدمی قبر میں جائیں؟

عامر شعبی کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کو علی، فضل اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم نے غسل دیا، اور انہیں لوگوں نے آپ ﷺ کو قبر میں اتارا۔ شعبی کہتے ہیں : مجھ سے مرحب یا ابومرحب نے بیان کیا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے ساتھ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کو بھی داخل کرلیا تھا، پھر علی (رض) نے (دفن سے) فارغ ہونے کے بعد کہا کہ آدمی (مردے) کے قریب اس کے خاندان والے ہی ہوا کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٢٤٦) (صحیح) (متابعات و شواہد سے تقویت پا کر یہ دونوں مرسل روایات صحیح ہیں )

【122】

میت کو رکھنے کے لئے کتنے آدمی قبر میں جائیں؟

ابومرحب سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نبی اکرم ﷺ کی قبر میں اترے تھے وہ کہتے ہیں : مجھے ایسا لگ رہا ہے گویا کہ میں ان چاروں (علی، فضل بن عباس، اسامہ، اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم) کو دیکھ رہا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٢٤٦) (صحیح )

【123】

مردہ کو قبر میں کس طرح داخل کریں

ابواسحاق کہتے ہیں کہ حارث نے وصیت کی کہ ان کی نماز (نماز جنازہ) عبداللہ بن یزید (رض) پڑھائیں، تو انہوں نے ان کی نماز پڑھائی اور انہیں قبر میں پاؤں کی طرف سے داخل کیا اور کہا : یہ مسنون طریقہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٦٧٥) (صحیح )

【124】

قبر کے پاس کس طرح بیٹھنا چاہئے

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں نکلے، قبر پر پہنچے تو ابھی قبر کی بغل کھدی ہوئی نہ تھی، تو نبی اکرم ﷺ قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ بیٹھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٨١ (٢٠٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٧ (١٥٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٧، ٢٩٥، ٢٩٧، ٢٩٦) ویأتی ہذا الحدیث فی السنة (٤٧٥٣، ٤٧٥٤) (صحیح )

【125】

میت کو جب قبر میں رکھنے لگیں تو کیا دعا پڑھیں

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب میت کو قبر میں رکھتے تو : بسم الله وعلى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم کہتے تھے، یہ الفاظ مسلم بن ابراہیم کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٦٦٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ٥٤ (١٠٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٨ (١٥٥٠) ، مسند احمد (٢/٢٧، ٤٠، ٥٩، ٦٩، ١٢٧) (صحیح )

【126】

اگر کسی مسلمان کا کوئی کافر و مشرک رشتہ دار مرجائے تو کیا کرنا چاہئے

علی (رض) کہتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ کا بوڑھا گمراہ چچا مرگیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اور اپنے باپ کو گاڑ کر آؤ، اور میرے پاس واپس آنے تک بیچ میں اور کچھ نہ کرنا ، تو میں گیا، اور انہیں مٹی میں دفنا کر آپ کے پاس آگیا، آپ ﷺ نے مجھے غسل کرنے کا حکم دیا تو میں نے غسل کیا، آپ ﷺ نے میرے لیے دعا فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٨٤ (٢٠٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٧، ١٣١) (صحیح )

【127】

قبر کو گہراکھودنا

ہشام بن عامر (رض) کہتے ہیں غزوہ احد کے دن انصار رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم زخمی اور تھکے ہوئے ہیں آپ ہمیں کیسی قبر کھودنے کا حکم دیتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : کشادہ قبر کھودو اور ایک قبر میں دو دو تین تین آدمی رکھو ، پوچھا گیا : آگے کسے رکھیں ؟ فرمایا : جسے قرآن زیادہ یاد ہو ۔ ہشام (رض) کہتے ہیں : میرے والد عامر (رض) بھی اسی دن شہید ہوئے اور دو یا ایک آدمی کے ساتھ دفن ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجھاد ٣٣ (١٧١٣) ، سنن النسائی/الجنائز ٨٦ (٢٠١٢) ، ٨٧ (٢٠١٣) ، ٩٠ (٢٠١٧) ، ٩١ (٢٠٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤١ (١٥٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣١، ١٨٦٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٩، ٢٠) (صحیح )

【128】

قبر کو گہراکھودنا

اس سند سے بھی حمید بن ہلال سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں اتنا زیادہ ہے کہ : خوب گہری کھودو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣١، ١٨٦٧٦) (صحیح )

【129】

قبر کو گہراکھودنا

سعد بن ہشام بن عامر سے یہی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٢١٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣١، ١٨٦٧٦) (صحیح )

【130】

قبر کو برابر کرنا

ابوہیاج حیان بن حصین اسدی کہتے ہیں مجھے علی (رض) نے بھیجا اور کہا کہ میں تمہیں اس کام پر بھیجتا ہوں جس پر مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے بھیجا تھا، وہ یہ کہ میں کسی اونچی قبر کو برابر کئے بغیر نہ چھوڑوں، اور کسی مجسمے کو ڈھائے بغیر نہ رہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣١ (٩٦٩) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥٦ (١٠٤٩) ، سنن النسائی/الجنائز ٩٩ (٢٠٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٣) وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٦، ٨٩، ١١١، ١٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مراد کسی ذی روح کا مجسمہ ہے، اس روایت سے قبر کو اونچا کرنے یا اس پر عمارت بنانے کی ممانعت نکلتی ہے۔

【131】

قبر کو برابر کرنا

ابوعلی ہمدانی کہتے ہیں ہم سر زمین روم میں رودس ١ ؎ میں فضالہ بن عبید (رض) کے ساتھ تھے، وہاں ہمارا ایک ساتھی انتقال کر گیا تو فضالہ (رض) نے ہمیں اس کی قبر کھودنے کا حکم دیا، پھر وہ (دفن کے بعد) برابر کردی گئی، پھر انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ اسے برابر کردینے کا حکم دیتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : رودس سمندر کے اندر ایک جزیرہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣١ (٩٦٨) ، سنن النسائی/الجنائز ٩٩ (٢٠٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٨، ٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اسکندریہ کے سامنے ایک جزیرہ ہے۔

【132】

قبر کو برابر کرنا

قاسم کہتے ہیں میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس آیا اور عرض کیا : اے اماں ! نبی اکرم ﷺ اور آپ کے دونوں ساتھیوں کی قبریں میرے لیے کھول دیجئیے (میں ان کا دیدار کروں گا) تو انہوں نے میرے لیے تینوں قبریں کھول دیں، وہ قبریں نہ بہت بلند تھیں اور نہ ہی بالکل پست، زمین سے ملی ہوئی (بالشت بالشت بھر بلند تھیں) اور مدینہ کے اردگرد کے میدان کی سرخ کنکریاں ان پر بچھی ہوئی تھیں۔ ابوعلی کہتے ہیں : کہا جاتا ہے رسول اللہ ﷺ آگے ہیں، اور ابوبکر (رض) آپ کے سر مبارک کے پاس ہیں، اور عمر (رض) آپ کے قدموں کے پاس، عمر (رض) کا سر رسول اللہ ﷺ کے مبارک قدموں کے پاس ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٥٤٦) (ضعیف) (اس کے راوی عمرو بن عثمان مجہول الحال ہیں )

【133】

جب دفن کر کے فارغ ہوں اور لوٹنے کا قصد ہو تو میت کے لئے مغفرت طلب کریں

عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے : اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : بحیر سے بحیر بن ریسان مراد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٩٤٠) (صحیح )

【134】

قبر کے پاس ذبح کرنے کی ممانعت

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام میں عقر نہیں ہے ۔ عبدالرزاق کہتے ہیں : لوگ زمانہ جاہلیت میں قبر کے پاس جا کر گائے بکری وغیرہ ذبح کیا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قبر کے پاس گائے بکری وغیرہ ذبح کرنا یہی عقر ہے، اسلام میں اس سے ممانعت ہوگئی۔

【135】

ایک مدت گزرنے کے بعد قبر پر جنازہ کی نماز پڑھنا

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مدینہ سے نکلے اور اہل احد پر اپنے جنازے کی نماز کی طرح نماز پڑھی، پھر لوٹے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٧٢(١٣٤٤) ، والمناقب ٢٥ (٣٥٩٦) ، والمغازی ١٧ (٤٠٤٢) ، ٢٧ (٤٠٨٥) ، والرقاق ٧ (٦٤٢٦) ، ٥٣ (٦٥٩٠) ، صحیح مسلم/الفضائل ٩ (٢٢٩٦) ، سنن النسائی/الجنائز ٦١ (١٩٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٩، ١٥٣، ١٥٤) (صحیح )

【136】

ایک مدت گزرنے کے بعد قبر پر جنازہ کی نماز پڑھنا

اس سند سے بھی یزید بن حبیب سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے شہداء احد پر آٹھ سال بعد نماز جنازہ پڑھی، یہ ایسی نماز تھی جیسے کوئی زندوں اور مردوں کو وداع کرتے ہوئے پڑھے (درد و سوز میں ڈوبی ہوئی) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : گویا یہ آخر دعاء تھی اس لئے کہ غزوہ احد ٣ ہجری میں ہوا، اور اس کے آٹھ برس بعد آپ ﷺ کی وفات ہوئی ہے۔

【137】

قبر پر عمارت بنانے کی ممانعت

جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو قبر پر بیٹھنے ١ ؎، اسے پختہ بنانے، اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرماتے سنا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٢ (٩٧٠) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥٨ (١٠٥٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٩٦ (٢٠٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٧٤، ٢٧٩٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٣ (١٥٦٢) ، مسند احمد (٣/٢٩٥، ٣٣٢، ٣٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قبر پر بیٹھنے سے مراد حاجت کے لئے بیٹھنا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مطلق بیٹھنا مراد ہے کیونکہ اس میں صاحب قبر کا استخفاف ہے۔ ٢ ؎ : قبر پر بیٹھنے سے صاحب قبر کی توہین ہوتی ہے اور قبر کو مزین کرنے اور اس پر عمارت بنانے سے اگر ایک طرف فضول خرچی ہے تو دوسری جانب اس سے لوگوں کا شرک میں مبتلا ہونے کا خوف ہے، کیونکہ قبروں پر بنائے گئے قبے اور مشاہد شرک کے مظاہر و علامات میں سے ہیں۔

【138】

قبر پر عمارت بنانے کی ممانعت

اس سند سے بھی جابر (رض) سے یہی حدیث مروی ہے، ابوداؤد کہتے ہیں : عثمان کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اس میں کوئی زیادتی کرنے سے (بھی منع فرماتے تھے) ۔ سلیمان بن موسیٰ کی روایت میں ہے : یا اس پر کچھ لکھنے سے ١ ؎ مسدد نے اپنی روایت میں : أو يزاد عليه کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مسدد کی روایت میں مجھے حرف وأن کا پتہ نہ لگا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٧٤، ٢٧٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قبر پر لکھنے سے مراد وہ کتبہ ہے، جو بعض لوگ قبر پر لگاتے ہیں، اور جس میں میت کے اوصاف اور تاریخ وفات درج کئے جاتے ہیں، اور بعض لوگوں نے کہا کہ مراد اللہ یا رسول اللہ ﷺ کا نام لکھنا ہے یا قرآن مجید کی آیتیں وغیرہ لکھنا ہے، کیونکہ بسا اوقات کوئی جانور اس پر پاخانہ یا پیشاب وغیرہ کردیتے ہیں جس سے ان چیزوں کا استخفاف لازم آتا ہے۔

【139】

قبر پر عمارت بنانے کی ممانعت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ یہود کو غارت کرے انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٥٤ (٤٣٧) ، صحیح مسلم/المساجد ٣ (٥٣٠) ، سنن النسائی/الجنائز ١٠٦ (٢٠٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٦، ٢٦٠، ٢٨٤، ٢٨٥، ٣٦٦، ٣٩٦) (صحیح )

【140】

قبر پر بیٹھنے کی ممانعت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسی شخص کا آگ کے شعلہ پر بیٹھنا، اور اس سے کپڑے کو جلا کر آگ کا اس کے جسم کی کھال تک پہنچ جانا اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ قبر پر بیٹھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٦٣٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٣ (٩٧١) ، سنن النسائی/الجنائز ١٠٥ (٢٠٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٥ (١٥٦٦) ، مسند احمد (٢/٣١١، ٣٨٩، ٤٤٤، ٥٢٨) (صحیح )

【141】

قبر پر بیٹھنے کی ممانعت

واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ابومرثد غنوی (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قبروں پر نہ بیٹھو، اور نہ ان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٣ (٩٧٢) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥٧ (١٠٥٠) ، سنن النسائی/القبلة ١١ (٧٦١) ، (تحفة الأشراف : ١١١٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٥) (صحیح )

【142】

قبر ستان میں جوتا پہن کر جانا

رسول اللہ ﷺ کے غلام بشیر (رض) (جن کا نام زمانہ جاہلیت میں زحم بن معبد تھا وہ ہجرت کر کے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا : تمہارا کیا نام ہے ؟ ، انہوں نے کہا : زحم، آپ ﷺ نے فرمایا : زحم نہیں بلکہ تم بشیر ہو کہتے ہیں : اسی اثناء میں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا کہ آپ کا گزر مشرکین کی قبروں پر سے ہوا، آپ ﷺ نے تین بار فرمایا : یہ لوگ خیر کثیر (دین اسلام) سے پہلے گزر (مر) گئے ، پھر آپ ﷺ مسلمانوں کی قبروں پر سے گزرے تو آپ نے فرمایا : ان لوگوں نے خیر کثیر (بہت زیادہ بھلائی) حاصل کی اچانک آپ ﷺ کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو جوتے پہنے قبروں کے درمیان چل رہا تھا آپ ﷺ نے فرمایا : اے جوتیوں والے ! تجھ پر افسوس ہے، اپنی جوتیاں اتار دے اس آدمی نے (نظر اٹھا کر) دیکھا اور رسول اللہ ﷺ کو پہچانتے ہی انہیں اتار پھینکا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ١٠٧ (٢٠٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٦ (١٥٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨٣، ٨٤، ٢٢٤) (حسن )

【143】

قبر ستان میں جوتا پہن کر جانا

انس (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : جب بندہ اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی لوٹنے لگتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦٧ (١٣٣٨) ، ٨٦ (١٣٧٣) ، صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٧٠) ، سنن النسائی/الجنائز ١٠٨ (٢٠٥١) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢٦، ٢٣٣) ، ویأتی ہذا الحدیث فی السنة (٤٧٥١، ٥٧٥٢) (صحیح )

【144】

کسی ضرورت کی بنا پر میت کو قبر سے نکالا جا سکتا ہے

جابر (رض) کہتے ہیں میرے والد کے ساتھ ایک اور شخص کو دفن کیا گیا تھا تو میری یہ دلی تمنا تھی کہ میں ان کو الگ دفن کروں گا تو میں نے چھ مہینے بعد ان کو نکالا تو ان کی داڑھی کے چند بالوں کے سوا جو زمین سے لگے ہوئے تھے میں نے ان میں کوئی تبدیلی نہیں پائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣١١٠) (صحیح الإسناد )

【145】

میت کی تعریف بیان کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس سے لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو لوگوں نے اس کی خوبیاں بیان کیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : وجبت جنت اس کا حق بن گئی پھر لوگ ایک دوسرا جنازہ لے کر گزرے تو لوگوں نے اس کی برائیاں بیان کیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : وجبت دوزخ اس کے گلے پڑگئی پھر فرمایا : تم میں سے ہر ایک دوسرے پر گواہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٥٠ (١٩٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٣٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٠ (١٤٩١) ، مسند احمد (٢/٢٦١، ٤٦٦، ٤٧٠، ٤٩٩، ٥٢٨) (صحیح )

【146】

قبروں کی زیارت کرنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ اپنی والدہ کی قبر پر آئے تو رو پڑے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو (بھی) رلا دیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کی مغفرت طلب کرنے کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت نہیں دی گئی، پھر میں نے ان کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت چاہی تو مجھے اس کی اجازت دے دی گئی، تو تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ موت کو یاد دلاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٦) ، سنن النسائی/الجنائز ١٠١ (٢٠٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٨ (١٥٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٤١) (صحیح )

【147】

قبروں کی زیارت کرنے کا بیان

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روکا تھا سو اب زیارت کرو کیونکہ ان کی زیارت میں موت کی یاددہانی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٧) ، والأضاحي ٥ (١٩٧٧) ، والأشربة ٦ (١٩٩٩) ، سنن النسائی/الجنائز ١٠٠ (٢٠٣٤) ، الأضاحي ٣٦ (٤٤٤١) ، الأشربة ٤٠ (٥٦٥٤، ٥٦٥٥، ٥٦٥٦، ٥٥٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٠، ٣٥٥، ٣٥٦، ٣٥٧، ٣٦١) (صحیح )

【148】

عورتوں کا قبروں کی زیارت کرنا ممنوع ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں پر مسجدیں بنانے والوں اور اس پر چراغاں کرنے والوں پر لعنت بھیجی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٢٢ (٣٢٠) ، سنن النسائی/الجنائز ١٠٤ (٢٠٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٩ (١٥٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٩، ٢٨٧، ٣٢٤، ٣٣٧) (ضعیف) (اس کے راوی ابو صالح باذام ضعیف ہیں لیکن اس میں صرف چراغ جلانے والی بات ضعیف ہے، بقیہ دو باتوں کے صحیح شواہد موجود ہیں )

【149】

جب قبروں پر سے گذرے تو کیا کہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قبرستان گئے تو فرمایا : ‏‏‏‏السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله بکم لاحقون سلامتی ہو تم پر اے مومن قوم کی بستی والو ! ہم بھی انشاء اللہ آ کر آپ لوگوں سے ملنے والے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ١٢ (٢٤٩) ، سنن النسائی/الطھارة ١١٠ (١٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ٣٦ (٤٣٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٨٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطھارة ٦ (٢٨) ، مسند احمد (٢/٣٠٠، ٤٠٨) (صحیح )

【150】

جو شخص حالت احرام میں انتقال کر جائے اس کی تجہیز وتکفین کس طرح ہوگی

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک ایسا شخص لایا گیا جسے اس کی سواری نے گردن توڑ کر ہلاک کردیا تھا، وہ حالت احرام میں تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے اس کے دونوں کپڑوں (تہبند اور چادر) ہی میں دفناؤ، اور پانی اور بیری کے پتے سے اسے غسل دو ، اس کا سر مت ڈھانپو، کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے لبیک پکارتے ہوئے اٹھائے گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا ہے، وہ کہتے تھے کہ اس حدیث میں پانچ سنتیں ہیں : ١۔ ایک یہ کہ اسے اس کے دونوں کپڑوں میں کفناؤ یعنی احرام کی حالت میں جو مرے اسے دو کپڑوں میں کفنایا جائے گا۔ ٢۔ دوسرے یہ کہ اسے پانی اور بیری کے پتے سے غسل دو یعنی ہر غسل میں بیری کا پتہ رہے۔ ٣۔ تیسرے یہ کہ اس (محرم) کا سر نہ ڈھانپو۔ ٤۔ چوتھے یہ کہ اسے کوئی خوشبو نہ لگاؤ۔ ٥۔ پانچویں یہ کہ پورا کفن میت کے مال سے ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ١٩ (١٢٦٥) ، ٢١ (١٢٦٧) ، جزاء الصید ٢٠ (١٨٤٩) ، ٢١ (١٨٥٠) ، صحیح مسلم/الحج ١٤ (١٢٠٦) ، سنن الترمذی/الحج ١٠٥ (٩٥١) ، سنن النسائی/الجنائز ٤١ (١٩٠٥) ، المناسک ٤٧ (٢٧١٤) ، ٩٧ (٢٨٥٦) ، ١٠١ (٢٨٦١) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٨٩ (٣٠٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥، ٢٦٦، ٢٨٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٥ (١٨٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی قرض کی ادائیگی ثلث وصیت کی تنفیذ، اور وراثت کی تقسیم کفن دفن کے بعد بچے ہوئے مال سے ہوگی۔

【151】

جو شخص حالت احرام میں انتقال کر جائے اس کی تجہیز وتکفین کس طرح ہوگی

اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ اسے دو کپڑوں میں کفناؤ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : سلیمان نے کہا ہے کہ ایوب کی روایت میں ثوبين کے بجائے ثوبيه (اسی کے دونوں کپڑے میں) ہے اور عمرو نے ثوبين کا لفظ نقل کیا ہے۔ ابو عبید نے کہا کہ ایوب نے في ثوبين اور عمرو نے في ثوبيه کہا ہے، اور تنہا سلیمان نے ولا تحنطوه (اسے خوشبو نہ لگاؤ) کا اضافہ کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٤٣٧، ٥٥٨٢) (صحیح )

【152】

جو شخص حالت احرام میں انتقال کر جائے اس کی تجہیز وتکفین کس طرح ہوگی

اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے سلیمان کی حدیث کے ہم معنی حدیث مروی ہے اس میں في ثوبين ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٢٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٨٢) (صحیح )

【153】

جو شخص حالت احرام میں انتقال کر جائے اس کی تجہیز وتکفین کس طرح ہوگی

اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں ایک محرم کو اس کی اونٹنی نے گردن توڑ کر ہلاک کردیا، اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ نے فرمایا : اسے غسل دو اور کفن پہناؤ (لیکن) اس کا سر نہ ڈھانپو اور اسے خوشبو سے دور رکھو کیونکہ وہ لبیک پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٢٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٩٧) (صحیح )