22. علم کا بیان

【1】

علم کی فضیلت کیا بیان

کثیر بن قیس کہتے ہیں کہ میں ابو الدرداء (رض) کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور ان سے کہنے لگا : اے ابو الدرداء ! میں آپ کے پاس رسول اللہ ﷺ کے شہر سے اس حدیث کے لیے آیا ہوں جس کے متعلق مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں میں آپ کے پاس کسی اور غرض سے نہیں آیا ہوں، اس پر ابوالدرداء نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو شخص طلب علم کے لیے راستہ طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے جنت کی راہ چلاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی بخشش کی دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں دعائیں کرتی ہیں، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کی تمام ستاروں پر، اور علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور نبیوں نے اپنا وارث درہم و دینار کا نہیں بنایا بلکہ علم کا وارث بنایا تو جس نے علم حاصل کیا اس نے ایک وافر حصہ لیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/العلم ١٩ (٢٦٨٢) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٧ (٢٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٩٦) ، سنن الدارمی/المقدمة ٣٢ (٣٥٤) (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ داود اور کثیر دونوں ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : زہد وکیع نمبر : ٥١٩ ب تحقیق الفریوائی )

【2】

علم کی فضیلت کیا بیان

اس سند سے بھی ابو الدرداء (رض) سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٥١) (صحیح) (دیکھئے حدیث سابق )

【3】

علم کی فضیلت کیا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص حصول علم کے لیے کوئی راستہ طے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے، اور جس کو اس کے عمل نے پیچھے کردیا تو اسے اس کا نسب آگے نہیں کرسکے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٣٧٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الذکر والتوبة ١١ (٢٦٩٩) ، سنن الترمذی/العلم ٢ (٢٦٤٦) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٧ (٢٢٦) ، مسند احمد (٢/٢٥٢) ، سنن الدارمی/المقدمة ٣٢ (٣٥٦) (صحیح )

【4】

اہل کتاب سے حدیث روایت کرنے کا بیان

ابونملہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے پاس ایک یہودی بھی تھا کہ اتنے میں ایک جنازہ لے جایا گیا تو یہودی نے کہا : اے محمد ! کیا جنازہ بات کرتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ بہتر جانتا ہے یہودی نے کہا : جنازہ بات کرتا ہے (مگر دنیا کے لوگ نہیں سنتے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بات تم سے اہل کتاب بیان کریں نہ تو تم ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب، بلکہ یوں کہو : ہم ایمان لائے اللہ اور اس کے رسولوں پر، اگر وہ بات جھوٹ ہوگی تو تم نے اس کی تصدیق نہیں کی، اور اگر سچ ہوگی تو تم نے اس کی تکذیب نہیں کی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ، أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٢١٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٦) (ضعیف) (اس کے راوی ابن ابی نملہ لین الحدیث ہیں )

【5】

اہل کتاب سے حدیث روایت کرنے کا بیان

زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے حکم دیا تو میں نے آپ کی خاطر یہودیوں کی تحریر سیکھ لی، آپ ﷺ نے فرمایا : قسم اللہ کی میں اپنی خط و کتابت کے سلسلہ میں یہودیوں سے مامون نہیں ہوں تو میں اسے سیکھنے لگا، ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے اس میں مہارت حاصل کرلی، پھر جب آپ ﷺ کو کچھ لکھوانا ہوتا تو میں ہی لکھتا اور جب کہیں سے کوئی مکتوب آتا تو اسے میں ہی پڑھتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الأحکام ٤٠ (٧١٩٥ تعلیقًا) ، سنن الترمذی/الاستئذان ٢٢ (٢٧١٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٨٦) (حسن صحیح )

【6】

علم کی کتابت کا بیان

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں میں ہر اس حدیث کو جو رسول اللہ ﷺ سے سنتا یاد رکھنے کے لیے لکھ لیتا، تو قریش کے لوگوں نے مجھے لکھنے سے منع کردیا، اور کہا : کیا تم رسول اللہ ﷺ سے ہر سنی ہوئی بات کو لکھ لیتے ہو ؟ حالانکہ رسول اللہ ﷺ بشر ہیں، غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں، تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا، پھر رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٩٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٢، ١٩٢) ، سنن الدارمی/المقدمة ٤٣ (٥٠١) (صحیح )

【7】

علم کی کتابت کا بیان

مطلب بن عبداللہ بن حنطب کہتے ہیں کہ زید بن ثابت (رض) معاویہ (رض) کے پاس آئے اور ان سے ایک حدیث کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے ایک شخص کو اس حدیث کے لکھنے کا حکم دیا، تو زید (رض) نے ان سے کہا : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ کی حدیثوں میں سے کچھ نہ لکھیں تو انہوں نے اسے مٹا دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٧٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٨٢) (ضعیف الإسناد) (اس کے راواة کثیر اور مطلب متکلم فیہ ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ممانعت پہلے تھی جب احادیث کے قرآن کے ساتھ خلط ملط ہوجانے کا اندیشہ تھا، بعد میں کتابت حدیث کی اجازت دے دی گئی جیسا کہ پہلی روایت سے واضح ہے۔

【8】

علم کی کتابت کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں ہم لوگ تشہد اور قرآن کے علاوہ کچھ نہیں لکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٢٥٨) (شاذ) (اس کے راوی ابو شہاب حَنَّاط حافظہ کے کمزور ہیں، اور ابو سعید خدری (رض) سے صحیح روایت تو یہ ہے کہ قرآن کے سوا اور کچھ مت لکھو )

【9】

علم کی کتابت کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں جب مکہ فتح ہوا تو نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے، پھر انہوں نے (ابوہریرہ (رض) نے) نبی اکرم ﷺ کے خطبہ کا ذکر کیا، پھر کہا کہ ایک یمنی شخص کھڑا ہوا جسے ابو شاہ کہا جاتا تھا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے لیے (یہ خطبہ) لکھ دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : ابو شاہ کے لیے لکھ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٠١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٨٣) (صحیح )

【10】

علم کی کتابت کا بیان

ولید (ولید بن مزید) کہتے ہیں میں نے ابوعمرو (اوزاعی) سے کہا : وہ لوگ لکھ دیں سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا : وہ خطبہ جسے آپ سے اس روز ابوشاہ نے سنا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٠١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٨٣) (صحیح )

【11】

حضوراقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹ باندھنے کی شدید وعید کا بیان

عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے زبیر (رض) سے پوچھا : آپ رسول اللہ ﷺ سے اور صحابہ کی طرح حدیثیں کیوں نہیں بیان کرتے ؟ تو انہوں نے کہا : اللہ کی قسم مجھ کو رسول اللہ ﷺ سے ایک طرح کی قربت و منزلت حاصل تھی لیکن میں نے آپ کو بیان فرماتے ہوئے سنا ہے : جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٨ (١٠٧) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٤ (٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦٥، ١٦٦) ، سنن الدارمی/المقدمة ٢٥ (٢٣٩) (صحیح )

【12】

اللہ کی کتاب میں بغیر علم کے گفتگو کرنے کا بیان

جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اپنی عقل سے کوئی بات کہی اور درستگی کو پہنچ گیا تو بھی اس نے غلطی کی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ١ (٢٩٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٦٢) (ضعیف) ( اس کے راوی سہیل ضعیف ہیں )

【13】

ایک بات کو بار بار دہرانے کا بیان

ابو سلام ایک شخص سے جس نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت کی ہے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب کوئی (اہم) بات بیان کرتے تو اسے تین مرتبہ دہراتے (تاکہ اچھی طرح سامع کی سمجھ میں آجائے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٧٦) (ضعیف الإسناد) ( اس کے راوی سابق لین الحدیث ہیں، مگر یہ حدیث انس (رض) سے صحیح بخاری میں مروی ہے )

【14】

تیز گفتگو کی صحیح نہیں

عروہ کہتے ہیں ابوہریرہ (رض) ام المؤمنین عائشہ (رض) کے حجرے کے بغل میں بیٹھے تھے اور وہ نماز پڑھ رہی تھیں تو وہ کہنے لگے : سن اے حجرے والی ! دو بار یہ جملہ کہا، جب ام المؤمنین عائشہ (رض) نماز سے فارغ ہوئیں تو کہنے لگیں : کیا تمہیں اس پر اور اس کی حدیث پر تعجب نہیں کہ وہ کیسے جلدی جلدی بیان کر رہا ہے، رسول اللہ ﷺ جب کلام کرتے تو اگر شمار کرنے والا اسے شمار کرنا چاہتا تو شمار کرلیتا (یعنی آپ ﷺ صاف صاف اور بالکل واضح انداز میں بات کرتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٤٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الزہد ٧١ (٢٤٩٣) (صحیح )

【15】

تیز گفتگو کی صحیح نہیں

عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : کیا تمہیں ابوہریرہ (رض) پر تعجب نہیں کہ وہ آئے اور میرے حجرے کے ایک جانب بیٹھے اور مجھے سنانے کے لیے رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرنے لگے، میں نفل نماز پڑھ رہی تھی، تو وہ قبل اس کے کہ میں اپنی نماز سے فارغ ہوتی اٹھے (اور چلے گئے) اور اگر میں انہیں پاتی تو ان سے کہتی کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح جلدی جلدی باتیں نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الناقب ٢٣ (٣٥٦٨ تعلیقًا) ، م فضائل الصحابة ٣٥ (٢٤٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٩٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/ المناقب ٩ (٢٦٤٣) ، مسند احمد (٦/ ١١٨، ١٥٧) (صحیح )

【16】

فتوی میں احتیاط سے کام لینے کا بیان

معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسی باتوں سے منع فرمایا ہے جس میں بکثرت غلطی واقع ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٤٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٣٥) (ضعیف) ( اس کے راوی عبداللہ بن سعد البجلی لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایسے مسائل پوچھنا جس کا مقصد حصول علم نہ ہو، بلکہ دوسروں کا امتحان لینا اور انہیں ذلیل کرنا۔

【17】

فتوی میں احتیاط سے کام لینے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے فتوی دیا اور سلیمان بن داود مہری کی روایت میں ہے جس کو بغیر علم کے فتوی دیا گیا۔ تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہوگا ۔ سلیمان مہری نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ جس نے اپنے بھائی کو کسی ایسے امر کا مشورہ دیا جس کے متعلق وہ یہ جانتا ہو کہ بھلائی اس کے علاوہ دوسرے میں ہے تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٨ (٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢١، ٣٦٥) ، سنن الدارمی/المقدمة ٢٠ (١٦١) (حسن )

【18】

فتوی میں احتیاط سے کام لینے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے فتوی دیا اور سلیمان بن داود مہری کی روایت میں ہے جس کو بغیر علم کے فتوی دیا گیا۔ تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہوگا ۔ سلیمان مہری نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ جس نے اپنے بھائی کو کسی ایسے امر کا مشورہ دیا جس کے متعلق وہ یہ جانتا ہو کہ بھلائی اس کے علاوہ دوسرے میں ہے تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٨ (٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢١، ٣٦٥) ، سنن الدارمی/المقدمة ٢٠ (١٦١) (حسن ) ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس سے کوئی دین کا مسئلہ پوچھا گیا اور اس نے اسے چھپالیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/العلم ٣ (٢٦٤٩) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢٤ (٢٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦٣، ٣٠٥، ٣٤٤، ٣٥٣، ٤٩٥، ٤٩٦، ٤٩٩، ٥٠٨) (حسن صحیح )

【19】

علم کی نشرواشاعت کی فضیلت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ (علم دین) مجھ سے سنتے ہو اور لوگ تم سے سنیں گے اور پھر جن لوگوں نے تم سے سنا ہے لوگ ان سے سنیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، مسند احمد (١/٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٣٢) (صحیح )

【20】

علم کی نشرواشاعت کی فضیلت

زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچا دیا کیونکہ بہت سے حاملین فقہ ایسے ہیں جو فقہ کو اپنے سے زیادہ فقہ و بصیرت والے کو پہنچا دیتے ہیں، اور بہت سے فقہ کے حاملین خود فقیہ نہیں ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/العلم ٧ (٢٦٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٩٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٨ (١٢٣٠) ، مسند احمد (١/٤٣٧، ٥/١٨٣) ، سنن الدارمی/المقدمة ٢٤(٢٣٥) (صحیح )

【21】

علم کی نشرواشاعت کی فضیلت

سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم اللہ کی، اگر تیری رہنمائی سے اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو بھی ہدایت دیدے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹ سے (جو بہت قیمتی اور عزیز ہوتے ہیں) بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٧٣٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٠٢(٢٩٤٢) ، ١٤٣ (٣٠٠٩) ، المناقب ١ (٣٧٠١) ، المغازي ٣٨ (٤٢١٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤ (٢٤٠٦) ، مسند احمد (١/١٨٥) (صحیح )

【22】

بنی اسرائیل سے روایت کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بنی اسرائیل سے روایت کرو، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٠٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٧٤، ٥٠٢، ٣/٤٦، ٥٦) (صحیح )

【23】

بنی اسرائیل سے روایت کا بیان

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہم سے بنی اسرائیل کی باتیں اس قدر بیان کرتے کہ صبح ہوجاتی اور صرف فرض نماز ہی کے لیے اٹھتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٩٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٣٧) (صحیح الإسناد )

【24】

غیر اللہ کے لئے علم طلب کرنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے ایسا علم صرف دنیاوی مقصد کے لیے سیکھا جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢٣ (٢٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٣٨) (صحیح )

【25】

قصے وغیرہ کا بیان

عوف بن مالک اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : وعظ و نصیحت وہی کرتا ہے جو امیر ہو یا مامور ہو یا فریبی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٩١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٣، ٢٧، ٢٩) (حسن صحیح )

【26】

قصے وغیرہ کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں میں غریب و خستہ حال مہاجرین کی جماعت میں جا بیٹھا، ان میں بعض بعض کی آڑ میں برہنگی کے سبب چھپتا تھا اور ایک قاری ہم میں قرآن پڑھ رہا تھا، اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور ہمارے درمیان آ کر کھڑے ہوگئے، جب آپ ﷺ کھڑے ہوگئے تو قاری خاموش ہوگیا، آپ نے ہمیں سلام کیا پھر فرمایا : تم لوگ کیا کر رہے تھے ؟ ہم نے عرض کیا : ہمارے یہ قاری ہیں ہمیں قرآن پڑھ کر سنا رہے تھے اور ہم اللہ کی کتاب سن رہے تھے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سبھی تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگوں کو پیدا کیا کہ مجھے حکم دیا گیا کہ میں اپنے آپ کو ان کے ساتھ روکے رکھوں ۔ پھر آپ ﷺ ہمارے درمیان میں آ کر بیٹھ گئے تاکہ اپنے آپ کو ہمارے برابر کرلیں، آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے حلقہ بنا کر بیٹھنے کا اشارہ کیا، تو سبھی لوگ حلقہ بنا کر بیٹھ گئے اور ان سب کا رخ آپ کی طرف ہوگیا۔ ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں : تو میرے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کو نہیں پہچانا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اے فقرائے مہاجرین کی جماعت ! تمہارے لیے قیامت کے دن نور کامل کی بشارت ہے، تم لوگ جنت میں مالداروں سے آدھے دن پہلے داخل ہو گے، اور یہ پانچ سو برس ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٩٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/ الزہد ٦ (١٤٢٢) ، (قولہ : فقراء المہاجرون یدخلون الجنة قبل أغنیاء الناس ۔۔۔ ) مسند احمد (٣/٦٣، ٩٦) (ضعیف) ( اس کے راوی العلاء مجہول ہیں، لیکن آخری ٹکڑا متابعات کے سبب حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ ایسے فقراء و مساکین کا مقام و مرتبہ اغنیاء اور مالداروں سے بڑھ کر ہوگا، اور قیامت کے دن کے طویل ہونے میں جو اختلاف آیات و احادیث میں مذکور ہے تو یہ لوگوں کے اختلاف حال پر محمول ہے، یعنی جس پر جتنی سختی ہوگی اسے قیامت کا دن اتنا ہی لمبا معلوم ہوگا، اور اس پر جس قدر تکلیف کم ہوگی اسے اتنا ہی کم معلوم ہوگا۔

【27】

قصے وغیرہ کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا ایسی قوم کے ساتھ بیٹھنا جو فجر سے لے کر طلوع شمس تک اللہ کا ذکر کرتی ہو میرے نزدیک اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ امر ہے، اور میرا ایسی قوم کے ساتھ بیٹھنا جو نماز عصر سے غروب آفتاب تک اللہ کے ذکرو اذکار میں منہمک رہتی ہو میرے نزدیک چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ محبوب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٥١) (حسن )

【28】

قصے وغیرہ کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم مجھ پر سورة نساء پڑھو میں نے عرض کیا : کیا میں آپ کو پڑھ کے سناؤں ؟ جب کہ وہ آپ پر اتاری گئی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں چاہتا ہوں کہ میں اوروں سے سنوں پھر میں نے آپ کو فكيف إذا جئنا من کل أمة بشهيد اس وقت کیا ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے (سورة النساء : ٤١) تک پڑھ کر سنایا، اور اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن ٩ (٤٥٨٢) ، فضائل القرآن ٣٢ (٥٠٤٩) ، ٣٣ (٥٠٥٠) ، ٣٥ (٥٠٥٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٠ (٨٠٠) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة النساء ٥ (٣٠٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٠، ٤٣٢) (صحیح )