26. غلام آزاد کرنے کا بیان

【1】

مکاتب کچھ بدل کتابت دے چکا اور مزید دینے پر وقار نہ ہو یا مرجائے تو کیا حکم ہے

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مکاتب ١ ؎ اس وقت تک غلام ہے جب تک اس کے بدل کتابت (آزادی کی قیمت) میں سے ایک درہم بھی اس کے ذمہ باقی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٧٠٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٣٥ (١٢٦٠) ، سنن ابن ماجہ/العتق ٣ (٢٥١٩) ، مسند احمد (٢/١٧٨، ٢٠٦، ٢٠٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جو اپنے مالک سے کسی مخصوص رقم کی ادائیگی کے بدلے اپنی آزادی کا معاہدہ کرلے۔

【2】

مکاتب کچھ بدل کتابت دے چکا اور مزید دینے پر وقار نہ ہو یا مرجائے تو کیا حکم ہے

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس غلام نے سو اوقیہ پر مکاتبت کی ہو پھر اس نے اسے ادا کردیا ہو سوائے دس اوقیہ کے تو وہ غلام ہی ہے (ایسا نہیں ہوگا کہ جتنا اس نے ادا کردیا اتنا وہ آزاد ہوجائے) اور جس غلام نے سو دینار پر مکاتبت کی ہو پھر وہ اسے ادا کر دے سوائے دس دینار کے تو وہ غلام ہی رہے گا (جب تک اسے پورا نہ ادا کر دے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٧٢٥) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری (٥٠٢٦) ، مسند احمد (٢/١٨٤) (حسن )

【3】

مکاتب کچھ بدل کتابت دے چکا اور مزید دینے پر وقار نہ ہو یا مرجائے تو کیا حکم ہے

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے مکاتب غلام نبھان کہتے ہیں کہ میں نے ام سلمہ (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : جب تم عورتوں میں سے کسی کا کوئی مکاتب ہو اور اس کے پاس اتنا مال ہو جس سے وہ اپنا بدل کتابت ادا کرلے جائے تو تمہیں اس سے پردہ کرنا چاہیئے (کیونکہ اب وہ آزاد کی طرح ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ البیوع ٣٥ (١٢٦١) ، سنن ابن ماجہ/العتق ٣ (٢٥٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٨٩، ٣٠٨، ٣١١) (ضعیف) (اس کے روای نبھان لین الحدیث ہیں اور ام المومنین عائشہ (رض) کی روایت کے مطابق امھات المؤمنین کا عمل اس کے برعکس تھا، ملاحظہ ہو : ارواء الغلیل : ١٧٦٩ )

【4】

جب معاہدہ کتابت منسوخ ہوجائے تو غلام کی فروخت کا کیا حکم ہے

عروہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے انہیں بتایا کہ بریرہ (رض) اپنے بدل کتابت کی ادائیگی میں تعاون کے لیے ان کے پاس آئیں ابھی اس میں سے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا، تو ام المؤمنین عائشہ (رض) نے ان سے کہا : اپنے آدمیوں سے جا کر پوچھ لو اگر انہیں یہ منظور ہو کہ تمہارا بدل کتابت ادا کر کے تمہاری ولاء ١ ؎ میں لے لوں تو میں یہ کرتی ہوں، بریرہ (رض) نے اپنے آدمیوں سے جا کر اس کا ذکر کیا تو انہوں نے ولاء دینے سے انکار کیا اور کہا : اگر وہ اسے ثواب کی نیت سے کرنا چاہتی ہیں تو کریں، تمہاری ولاء ہماری ہی ہوگی، ام المؤمنین عائشہ (رض) نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے ان سے فرمایا : تم خرید کر اسے آزاد کر دو ولاء تو اسی کی ہوگی جو آزاد کرے پھر آپ ﷺ (مسجد میں خطبہ کے لیے) کھڑے ہوئے اور فرمایا : لوگوں کا کیا حال ہے وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں، جو شخص بھی ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب میں نہ ہو تو اس کی شرط صحیح نہ ہوگی اگرچہ وہ سو بار شرط لگائے، اللہ ہی کی شرط سچی اور مضبوط شرط ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ المکاتب ٢ (٢٥٦١) ، الشروط ١١ (٢٧٢٧) ، صحیح مسلم/ العتق ٢ (١٥٠٤) ، سنن الترمذی/ الوصایا ٧١ (٢١٢٤) ، سنن النسائی/ البیوع ٨٣ (٤٦٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ولاء وہ ترکہ ہے جسے آزاد کیا ہوا غلام چھوڑ کر مرے۔

【5】

جب معاہدہ کتابت منسوخ ہوجائے تو غلام کی فروخت کا کیا حکم ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ بریرہ (رض) اپنے بدل کتابت میں تعاون کے لیے ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں : میں نے اپنے لوگوں سے نو اوقیہ پر مکاتبت کرلی ہے، ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنا ہے، لہٰذا آپ میری مدد کیجئے، تو انہوں نے کہا : اگر تمہارے لوگ چاہیں تو میں ایک ہی دفعہ انہیں دے دوں، اور تمہیں آزاد کر دوں البتہ تمہاری ولاء میری ہوگی ؛ چناچہ وہ اپنے لوگوں کے پاس گئیں پھر راوی پوری حدیث زہری والی روایت کی طرح بیان کی، اور نبی اکرم ﷺ کے کلام کے آخر میں یہ اضافہ کیا کہ : لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ دوسروں سے کہتے ہیں : تم آزاد کر دو اور ولاء میں لوں گا (کیسی لغو بات ہے) ولاء تو اس کا حق ہے جو آزاد کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٢٢٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بریرہ (رض) کے واقعہ سے باب کی مطابقت اس طرح ہے کہ : مکاتب غلام کو بیچنا جائز نہیں، جب کہ آپ ﷺ نے بریرہ کی خریدو فروخت کو جائز قرار دیا : تو گویا مکاتبت کا معاملہ فسخ کردیا گیا تب ام المومنین عائشہ (رض) نے بریرہ کو خریدا اور یہی مطابقت اگلی حدیث میں بھی ہے۔

【6】

جب معاہدہ کتابت منسوخ ہوجائے تو غلام کی فروخت کا کیا حکم ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ام المؤمنین جویریہ بنت حارث بن مصطلق (رض) ثابت بن قیس بن شماس (رض) یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصہ میں آئیں تو جویریہ نے ان سے مکاتبت کرلی، اور وہ ایک خوبصورت عورت تھیں جسے ہر شخص دیکھنے لگتا تھا، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنے بدل کتابت میں تعاون مانگنے کے لیے آئیں، جب وہ دروازہ پر آ کر کھڑی ہوئیں تو میری نگاہ ان پر پڑی مجھے ان کا آنا اچھا نہ لگا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ عنقریب آپ بھی ان کی وہی ملاحت دیکھیں گے جو میں نے دیکھی ہے، اتنے میں وہ بولیں : اللہ کے رسول ! میں جویریہ بنت حارث ہوں، میرا جو حال تھا وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ١ ؎ ثابت بن قیس کے حصہ میں گئی ہوں، میں نے ان سے مکاتبت کرلی ہے، اور آپ کے پاس اپنے بدل کتابت میں تعاون مانگنے آئی ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اس سے بہتر کی رغبت رکھتی ہو ؟ وہ بولیں : وہ کیا ہے ؟ اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہارا بدل کتابت ادا کردیتا ہوں اور تم سے شادی کرلیتا ہوں وہ بولیں : میں کرچکی (یعنی مجھے یہ بخوشی منظور ہے) ۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : پھر جب لوگوں نے ایک دوسرے سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے جویریہ سے شادی کرلی ہے تو بنی مصطلق کے جتنے قیدی ان کے ہاتھوں میں تھے سب کو چھوڑ دیا انہیں آزاد کردیا، اور کہنے لگے کہ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے سسرال والے ہیں، ہم نے کوئی عورت اتنی برکت والی نہیں دیکھی جس کی وجہ سے اس کی قوم کو اتنا زبردست فائدہ ہوا ہو، ان کی وجہ سے بنی مصطلق کے سو قیدی آزاد ہوئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث دلیل ہے اس بات کی کہ ولی خود نکاح کرسکتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٦٣٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٧٧، ٦/٢٧٧) (حسن ) وضاحت : وضاحت ١ ؎ : یعنی آپ ﷺ کو معلوم ہے کہ میں ایک رئیس کی صاحبزادی ہوں۔

【7】

مشروط آزادی کا بیان

سفینہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کا غلام تھا، وہ مجھ سے بولیں : میں تمہیں آزاد کرتی ہوں، اور شرط لگاتی ہوں کہ تم جب تک زندہ رہو گے رسول اللہ ﷺ کی خدمت کرتے رہو گے، تو میں نے ان سے کہا : اگر آپ مجھ سے یہ شرط نہ بھی لگاتیں تو بھی میں جیتے جی رسول اللہ ﷺ کی خدمت سے جدا نہ ہوتا، پھر انہوں نے مجھے اسی شرط پر آزاد کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/العتق ٦ (٢٥٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٢١) (حسن )

【8】

غلام کے کسی حصہ کو آزاد کرنے کا بیان

اسامہ بن عمیر الہذلی (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے غلام میں سے اپنے حصہ کو آزاد کردیا، نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ ابن کثیر نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے کہ پھر نبی اکرم ﷺ نے اس کی آزادی کو نافذ کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الکبری العتق ١٧ (٤٩٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧٤، ٧٥) (صحیح )

【9】

مشترک غلام میں سے کوئی اپنا حصہ آزاد کرے تو کیا حکم ہے؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں ایک شخص نے کسی غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا تو نبی اکرم ﷺ نے اس کی آزادی کو نافذ کردیا اور اس سے اس کے بقیہ قیمت کا تاوان دلایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ٥ (٢٤٩٢) ، ١٤ (٢٥٠٤) ، والعتق ٥ (٢٥٢٧) ، صحیح مسلم/العتق ١ (١٥٠٣) ، سنن الترمذی/الأحکام ١٤ (١٣٤٦) ، سنن ابن ماجہ/العتق ٧ (٢٥٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٥، ٣٤٧، ٤٢٦، ٤٦٨، ٤٧٢، ٥٣١) (صحیح )

【10】

مشترک غلام میں سے کوئی اپنا حصہ آزاد کرے تو کیا حکم ہے؟

قتادہ اس سند سے بھی نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جس نے کسی ایسے غلام کو جو اس کے اور کسی اور کے درمیان مشترک ہے آزاد کیا تو اس کے ذمہ اس کی مکمل خلاصی ہوگی ١ ؎، یہ ابن سوید کے الفاظ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دوسرے شریک کے حصہ کی قیمت بھی اسی کو ادا کرنی ہوگی۔

【11】

مشترک غلام میں سے کوئی اپنا حصہ آزاد کرے تو کیا حکم ہے؟

قتادہ اس سند سے بھی روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا تو وہ غلام اس کے مال سے پورا آزاد ہوگا اگر اس کے پاس مال ہے ۔ اور ابن مثنی نے نضر بن انس کا ذکر نہیں کیا ہے، اور یہ ابن سوید کے الفاظ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٩٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢١١) (صحیح )

【12】

جن لوگوں نے اس حدیث میں سعایہ کا بھی ذکر کیا ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اپنے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اگر اس کے پاس مال ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے مکمل خلاصی دلائے اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو اس غلام کی واجبی قیمت لگائی جائے گی پھر اور شریکوں کے حصوں کے بقدر اس سے محنت کرائی جائے گی، بغیر اسے مشقت میں ڈالے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٩٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢١١) (صحیح )

【13】

جن لوگوں نے اس حدیث میں سعایہ کا بھی ذکر کیا ہے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا تو اگر وہ مالدار ہے تو اس پر اس کی مکمل خلاصی لازم ہوگی اور اگر وہ مالدار نہیں ہے تو غلام کی واجبی قیمت لگائی جائے گی پھر اس قیمت میں دوسرے شریک کے حصہ کے بقدر اس سے اس طرح محنت کرائی جائے گی کہ وہ مشقت میں نہ پڑے (یہ علی کے الفاظ ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٩٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢١١) (صحیح )

【14】

جن لوگوں نے اس حدیث میں سعایہ کا بھی ذکر کیا ہے

اس سند سے سعید سے بھی اسی مفہوم کی حدیث اسی طریق سے مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسے روح بن عبادہ نے سعید بن ابی عروبہ سے روایت کیا ہے انہوں نے سعایہ کا ذکر نہیں کیا ہے، اور اسے جریر بن حازم اور موسیٰ بن خلف نے قتادہ سے یزید بن زریع کی سند سے اسی کے مفہوم کے ساتھ روایت کیا ہے اور ان دونوں نے اس میں سعایہ کا ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٩٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢١١) (صحیح )

【15】

ان لوگوں کا بیان جو مال نہ ہونے کی صورت میں عدم استسعاء کے قائل ہیں

عبداللہ بن عمر (رض) سے رویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص (مشترک) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس غلام کی واجبی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو اس کے حصہ کے مطابق ادا کرے گا اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہوجائے گا اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو جتنا آزاد ہوا ہے اتنا ہی حصہ آزاد رہے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ٥ (٢٤٩١) ، ١٤ (٢٥٠٣) ، العتق ٤ (٢٥٢٢) ، صحیح مسلم/العتق ١ (١٥٠١) ، الأیمان ١٢ (١٥٠١) ، سنن النسائی/البیوع ١٠٤ (٤٧٠٣) ، سنن ابن ماجہ/العتق ٧ (٢٥٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العتق ١ (١) ، مسند احمد (١/٥٦) (صحیح )

【16】

ان لوگوں کا بیان جو مال نہ ہونے کی صورت میں عدم استسعاء کے قائل ہیں

اس سند سے بھی اسی مفہوم کی روایت ابن عمر (رض) سے مرفوعاً مروی ہے۔ راوی کہتے ہیں : نافع نے کبھی فقد عتق منه ما عتق کی روایت کی ہے اور کبھی نہیں کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الشرکة ٥ (٢٤٩١) ، العتق ٤ (٢٥٢٤) ، صحیح مسلم/ العتق ١ (١٥٠١) ، سنن الترمذی/ الأحکام ١٤ (١٣٤٦) ، سنن النسائی/ البیوع ١٠٤ (٤٧٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٥١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٥) (صحیح )

【17】

ان لوگوں کا بیان جو مال نہ ہونے کی صورت میں عدم استسعاء کے قائل ہیں

اس سند سے بھی ابن عمر (رض) سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے ایوب کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ وإلا عتق منه ما عتق نبی اکرم ﷺ کی حدیث کا حصہ ہے یا نافع کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٧٥١١) (صحیح الإسناد )

【18】

ان لوگوں کا بیان جو مال نہ ہونے کی صورت میں عدم استسعاء کے قائل ہیں

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص (مشترک) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس پر اس کی مکمل آزادی لازم ہے اگر اس کے پاس اتنا مال ہو کہ اس کی قیمت کو پہنچ سکے، اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو صرف اس کا حصہ آزاد ہوگا (اور باقی شرکاء کو اختیار ہوگا چاہیں تو آزاد کریں اور چاہیں تو غلام رہنے دیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٠٨٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العتق ٤ (٢٥٢٣) ، صحیح مسلم/الأیمان والنذور ١٢ (١٥٠١) ، سنن الترمذی/الأحکام ١٤ (١٣٤٦) ، سنن النسائی/البیوع ١٠٤ (٤٧٠٣) (صحیح )

【19】

ان لوگوں کا بیان جو مال نہ ہونے کی صورت میں عدم استسعاء کے قائل ہیں

اس سند سے بھی ابن عمر (رض) سے ابراہیم بن موسیٰ کی روایت کے ہم معنی روایت مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العتق ٤ (٢٥٢٥ تعلیقًا) صحیح مسلم/ العتق ١ (١٥٠١) ، سنن النسائی/ الکبری (٤٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٢١) (صحیح )

【20】

ان لوگوں کا بیان جو مال نہ ہونے کی صورت میں عدم استسعاء کے قائل ہیں

اس سند سے بھی ابن عمر (رض) سے مالک کی روایت کے ہم معنی روایت مرفوعاً مروی ہے مگر اس میں : وإلا فقد عتق منه ما عتق کا ٹکڑا مذکور نہیں اور وأعتق عليه العبد کے ٹکڑے ہی پر روایت ختم ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الشرکة ١٤ (٢٥٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٦١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابوہریرہ اور ابن عمر (رض) کی جملہ روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کرنے والا اگر مالدار ہے تو بقیہ حصہ کی قیمت اپنے شریک کو ادا کرے گا اور غلام آزاد ہوجائے گا ، ورنہ غلام سے بقیہ رقم کے لیے بغیر دباؤ کے محنت کرائی جائے گی ، اور جب یہ بھی ممکن نہ ہو تو بقیہ حصہ غلام ہی باقی رہے گا ، اور اسی کے بقدر وہ اپنے دوسرے مالک کی خدمت کرتا رہے گا۔ اس مفہوم کے اعتبار سے روایات میں کوئی اختلاف نہیں ہے ( فتح الباری ) ۔

【21】

ان لوگوں کا بیان جو مال نہ ہونے کی صورت میں عدم استسعاء کے قائل ہیں

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص (مشترک) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو جتنا حصہ باقی بچا ہے وہ بھی اسی کے مال سے آزاد ہوگا بشرطیکہ اس کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ غلام کی قیمت کو پہنچ سکے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ العتق ١ (١٥٠١) ، سنن الترمذی/ الأحکام ١٤ (١٣٤٧) ، سنن النسائی/ الکبری (٤٩٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤) (صحیح )

【22】

ان لوگوں کا بیان جو مال نہ ہونے کی صورت میں عدم استسعاء کے قائل ہیں

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب غلام دو آدمیوں کے درمیان مشترک ہو پھر ان میں سے ایک شخص اپنا حصہ آزاد کر دے تو اگر آزاد کرنے والا مالدار ہو تو اس غلام کی واجبی قیمت ٹھہرائی جائے گی نہ کم نہ زیادہ پھر وہ غلام آزاد کردیا جائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ العتق ٤ (٢٥٢١) ، صحیح مسلم/ العتق ١ (١٥٠١) ، سنن النسائی/ الکبری (١٥٤١) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور اپنا حصہ آزاد کرنے والا اس واجبی قیمت میں سے جتنا حصہ دوسرے شریک کا ہوگا اسے ادا کرے گا۔

【23】

ان لوگوں کا بیان جو مال نہ ہونے کی صورت میں عدم استسعاء کے قائل ہیں

تلب بن ثعلبہ تمیمی عنبری (رض) روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا تو نبی اکرم ﷺ نے اسے باقی قیمت کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ احمد کہتے ہیں : (صحابی کا نام) تلب تائے فوقانیہ سے ہے نہ کہ ثلب ثائے مثلثہ سے اور راوی حدیث شعبہ ہکلے تھے یعنی ان کی زبان سے تاء ادا نہیں ہوتی تھی وہ تاء کو ثاء کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : 050 ٢) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ملقام بن تلب مجہول الحال ہیں، اور ان کی یہ روایت سابقہ صحیح روایات کے مخالف ہے )

【24】

کوئی شخص ذی محرم کا مالک ہو تو کیا حکم ہے

سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کسی قرابت دار محرم کا مالک ہوجائے تو وہ (ملکیت میں آتے ہی) آزاد ہوجائے گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : محمد بن بکر برسانی نے حماد بن سلمہ سے، حماد نے قتادہ اور عاصم سے، انہوں نے حسن سے، حسن نے سمرہ سے، سمرہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی حدیث کے ہم مثل روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اس حدیث کو حماد بن سلمہ کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا ہے اور انہیں اس میں شک ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٢٨ (١٣٦٥) ، سنن ابن ماجہ/العتق ٥ (٢٥٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٥٣٤، ١٨٤٦٩، ١٨٥٤٦٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری (٤٨٩٨، ٤٨٩٩) ، مسند احمد (٥/١٥، ١٨، ٢٠) (صحیح) (متابعات سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ ثقات نے مرفوعاً روایت کرنے میں حماد کی مخالفت کی ہے )

【25】

کوئی شخص ذی محرم کا مالک ہو تو کیا حکم ہے

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں جو کسی قرابت دار محرم کا مالک ہوجائے تو وہ (ملکیت میں آتے ہی) آزاد ہوجائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٥، ١٨٤٦٩، ١٨٥٣٤) (ضعیف) (سند میں قتادہ و عمر کے درمیان انقطاع ہے ، لیکن پچھلی مرفوع سند سے یہ روایت صحیح ہے )

【26】

کوئی شخص ذی محرم کا مالک ہو تو کیا حکم ہے

حسن کہتے ہیں جو کسی قرابت دار محرم کا مالک ہوجائے تو (وہ ملکیت میں آتے ہی) آزاد ہوجائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٨٥٣٤، ١٨٤٦٩، ٤٥٨٥) (صحیح )

【27】

کوئی شخص ذی محرم کا مالک ہو تو کیا حکم ہے

جابر بن زید اور حسن سے بھی اسی کے ہم مثل مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں : سعید حماد (حماد بن سلمہ) سے زیادہ یاد رکھنے والے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٨٥٣٤، ١٨٤٦٩، ٤٥٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف کا مقصد یہ ہے کہ : حماد نے قتادہ کے واسطے سے اس کو مرفوعاً روایت کیا ہے (جیسا کہ حدیث نمبر : ٣٩٤٩ میں ہے) مگر سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ کے واسطے سے یا تو عمر (رض) کے قول سے یا حسن کے قول سے روایت کیا ہے، اور ابن ابی عروبہ حماد کے بالمقابل زیادہ یاد رکھنے والے ہیں۔

【28】

ام ولد (باندی) کی آزادی کا بیان

بنی خارجہ قیس عیلان کی ایک خاتون سلامہ بنت معقل کہتی ہیں کہ جاہلیت میں مجھے میرے چچا لے کر آئے اور ابوالیسر بن عمرو کے بھائی حباب بن عمرو کے ہاتھ بیچ دیا، ان سے عبدالرحمٰن بن حباب پیدا ہوئے، پھر وہ مرگئے تو ان کی بیوی کہنے لگی : قسم اللہ کی اب تو ان کے قرضہ میں بیچی جائے گی، یہ سن کر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں بنی خارجہ قیس عیلان کی ایک خاتون ہوں، جاہلیت میں میرے چچا مدینہ لے کر آئے اور ابوالیسر بن عمرو کے بھائی حباب بن عمرو کے ہاتھ مجھے بیچ دیا ان سے میرے بطن سے عبدالرحمٰن بن حباب پیدا ہوئے، اب ان کی بیوی کہتی ہے : قسم اللہ کی تو ان کے قرض میں بیچی جائے گی، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : حباب کا وارث کون ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : ان کے بھائی ابوالیسر بن عمرو ہیں، آپ ﷺ نے انہیں کہلا بھیجا کہ اسے (سلامہ کو) آزاد کر دو ، اور جب تم سنو کہ میرے پاس غلام اور لونڈی آئے ہیں تو میرے پاس آنا، میں تمہیں اس کا عوض دوں گا، سلامہ کہتی ہیں : یہ سنا تو ان لوگوں نے مجھے آزاد کردیا، پھر جب رسول اللہ ﷺ کے پاس غلام اور لونڈی آئے تو آپ نے میرے عوض میں انہیں ایک غلام دے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٨٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦٠) (ضعیف الإسناد) (اس کی راویہ ام خطاب مجہول ہیں )

【29】

ام ولد (باندی) کی آزادی کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں ہم رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) کے عہد میں ام ولد ١ ؎ کو بیچا کرتے تھے، پھر جب عمر (رض) کا زمانہ آیا تو انہوں نے ہمیں اس کے بیچنے سے روک دیا چناچہ ہم رک گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٨٣٥، ٢٤٧٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/العتق ٢ (٢٥١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ام ولد : اس لونڈی کو کہتے ہیں جو مالک کے نطفہ سے بچہ جنے۔

【30】

جو شخص اپنے غلاموں کو جو ثلث سے زائد ہوں آزاد کردے تو کیا حکم ہے؟

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزاد کردیا اور اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال نہ تھا، نبی اکرم ﷺ نے اس کے بیچنے کا حکم دیا تو وہ سات سویا نو سو میں بیچا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٩ (٢١٤١) ، الاستقراض ١٦ (٢٤٠٣) ، الخصومات ٣ (٢٤١٥) ، العتق ٩ (٢٥٣٤) ، کفارات الأیمان ٧ (٦٧١٦) ، الإکراہ ٤ (٦٩٤٧) ، الأحکام ٣٢ (٧١٨٦) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٠ (٢٥٤٧) ، سنن ابن ماجہ/العتق ١ (٢٥١٢) ، مسند احمد (٣/٣٠٥، ٣٦٨، ٣٦٩، ٣٧٠، ٣٧١، ٣٩٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٧ (٢٦١٥) (تحفة الأشراف : ٢٤١٦، ٢٤٤٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الزکاة ١٣ (٩٩٧) ، الأیمان ١٣ (٩٩٧) ، سنن الترمذی/البیوع ١١(١٢١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مدبر : اس غلام کو کہتے ہیں جس کا مالک اس سے یہ کہہ دے کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو۔

【31】

جو شخص اپنے غلاموں کو جو ثلث سے زائد ہوں آزاد کردے تو کیا حکم ہے؟

عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ مجھ سے جابر بن عبداللہ (رض) نے یہی روایت بیان کی ہے اور اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ نے یعنی نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس غلام کی قیمت کے زیادہ حقدار تم ہو اور اللہ اس سے بےپرواہ ہے (یعنی اگر آزاد ہوتا تو اللہ زیادہ خوش ہوتا پر وہ بےنیاز ہے، اور بندہ محتاج ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٤٢٥) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری (٥٠٠١) (صحیح )

【32】

جو شخص اپنے غلاموں کو جو ثلث سے زائد ہوں آزاد کردے تو کیا حکم ہے؟

جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک ابومذکور نامی انصاری نے اپنے یعقوب نامی ایک غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزاد کردیا، اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال نہیں تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا : اسے کون خریدتا ہے ؟ چناچہ نعیم بن عبداللہ بن نحام نے آٹھ سو درہم میں اسے خرید لیا تو آپ نے اسے انصاری کو دے دیا اور فرمایا : جب تم میں سے کوئی محتاج ہو تو اسے اپنی ذات سے شروع کرنا چاہیئے، پھر جو اپنے سے بچ رہے تو اسے اپنے بال بچوں پر صرف کرے پھر اگر ان سے بچ رہے تو اپنے قرابت داروں پر خرچ کرے یا فرمایا : اپنے ذی رحم رشتہ داروں پر خرچ کرے اور اگر ان سے بھی بچ رہے تو یہاں وہاں خرچ کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الزکاة ١٣ (٩٩٧) ، سنن النسائی/ الزکاة ٦٠ (٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠١، ٣٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اپنے دوستوں پر اور اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔

【33】

جو شخص اپنے غلاموں کو جو ثلث سے زائد ہوں آزاد کردے تو کیا حکم ہے؟

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کردیا ان کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور مال نہ تھا، یہ خبر نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ نے اس اسے سخت سست کہا پھر انہیں بلایا اور ان کے تین حصے کئے : پھر ان میں قرعہ اندازی کی پھر ان میں سے دو کو (جن کے نام قرعہ میں نکلے) آزاد کردیا اور چار کو غلام ہی رہنے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ١٢ (١٦٦٨) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٧ (١٣٦٤) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٥ (١٩٦٠) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٠ (٢٣٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٢٦، ٤٣١، ٤٣٨، ٤٤٠) (صحیح )

【34】

جو شخص اپنے غلاموں کو جو ثلث سے زائد ہوں آزاد کردے تو کیا حکم ہے؟

اس سند سے بھی ابوقلابہ سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اور اس میں یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے سخت سست کہا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٠) (صحیح )

【35】

جو شخص اپنے غلاموں کو جو ثلث سے زائد ہوں آزاد کردے تو کیا حکم ہے؟

ابوزید (رض) کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے ... آگے انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی اس میں یہ ہے کہ آپ نے یعنی نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر میں اس کے دفن کئے جانے سے پہلے موجود ہوتا تو وہ مسلمانوں کے قبرستان میں نہ دفنایا جاتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٦٩٥) (صحیح )

【36】

جو شخص اپنے غلاموں کو جو ثلث سے زائد ہوں آزاد کردے تو کیا حکم ہے؟

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ کے چھ غلاموں کو آزاد کردیا ان کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور مال نہ تھا پھر یہ خبر نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی پھر دو کو آزاد کردیا اور چار کو غلام ہی باقی رکھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٣٩) (صحیح )

【37】

مالدار غلام کو آزاد کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی غلام کو آزاد کرے اور اس کے پاس مال ہو تو غلام کا مال آزاد کرنے والے کا ہے الا یہ کہ مالک اس کو غلام کو دیدے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/العتق ٨ (٢٥٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٦٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی آزاد کرتے وقت یہ کہہ دے کہ یہ مال بھی تیرا ہے تجھے ہی دیدوں گا تو اس صورت میں یہ مال غلام کا ہوگا، یعنی يشترطه بمعنی يعطيه ہے، اس کا ایک ترجمہ یوں بھی ہے پس غلام کا مال اسی کا ہوگا الا یہ کہ مالک شرط کرلے (کہ مال میرا ہوگا) ۔

【38】

زنا کی اولاد کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زنا کا بچہ تینوں میں سب سے برا ہے ۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : اللہ کی راہ میں ایک کوڑا دینا میرے نزدیک ولد الزنا کو آزاد کرنے سے بہتر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٢٦٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣١١) (صحیح )

【39】

غلام آزاد کرنے کا ثواب

غریف بن دیلمی کہتے ہیں ہم واثلہ بن اسقع (رض) کے پاس آئے اور ہم نے ان سے کہا : آپ ہم سے کوئی حدیث بیان کیجئے جس میں کوئی زیادتی و کمی نہ ہو، تو وہ ناراض ہوگئے اور بولے : تم میں سے کوئی قرآن پڑھتا ہے اور اس کے گھر میں مصحف لٹک رہا ہے تو وہ اس میں کمی و زیادتی کرتا ہے، ہم نے کہا : ہمارا مقصد یہ ہے کہ آپ ہم سے ایسی حدیث بیان کریں جسے آپ نے (براہ راست) نبی اکرم ﷺ سے سنی ہو، تو انہوں نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنے ایک ساتھی کا مسئلہ لے کر آئے جس نے قتل کا ارتکاب کر کے اپنے اوپر جہنم کو واجب کرلیا تھا، آپ نے فرمایا : اس کی طرف سے غلام آزاد کرو، اللہ تعالیٰ اس کے ہر ہر جوڑ کے بدلہ اس کا ہر جوڑ جہنم سے آزاد کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٧٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩٠، ٤/١٠٧) (ضعیف) (اس کے راوی غریف لین الحدیث ہیں )

【40】

کون سا غلام زیادہ افضل ہے آزاد کرنے میں

ابونجیح سلمی (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ طائف کے محل کا محاصرہ کیا۔ معاذ کہتے ہیں : میں نے اپنے والد کو طائف کا محل اور طائف کا قلعہ دونوں کہتے سنا ہے۔ تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے اللہ کی راہ میں تیر مارا تو اس کے لیے ایک درجہ ہے پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی، اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ : جس مسلمان مرد نے کسی مسلمان مرد کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر ہڈی کے لیے اس کے آزاد کردہ شخص کی ہر ہڈی کو جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ بنا دے گا، اور جس عورت نے کسی مسلمان عورت کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر ہڈی کے لیے اس کے آزاد کردہ عورت کی ہر ہڈی کو جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ بنا دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجھاد ١١ (١٦٣٨) ، سنن النسائی/الجھاد ٢٦ (٣١٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٣، ٣٨٤، ٣٨٦) (صحیح )

【41】

کون سا غلام زیادہ افضل ہے آزاد کرنے میں

شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ انہوں نے عمرو بن عبسہ (رض) سے کہا : آپ ہم سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے (براہ راست) رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے کسی مسلمان گردن کو آزاد کیا تو وہ دوزخ سے اس کا فدیہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجھاد ٩ (١٦٣٤) ، سنن النسائی/الجھاد ٢٦ (٣١٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٢، ٣٨٦) (صحیح )

【42】

کون سا غلام زیادہ افضل ہے آزاد کرنے میں

شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ انہوں نے کعب بن مرہ یا مرہ بن کعب (رض) سے کہا کہ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو، پھر راوی نے آپ کے فرمان : وأيما امرئ أعتق مسلما وأيما امرأة أعتقت امرأة مسلمة تک معاذ جیسی روایت بیان کی، اور یہ اضافہ کیا : جو مرد کسی دو مسلمان عورت کو آزاد کرے تو وہ دونوں اسے جہنم سے چھڑا دیں گی، ان دونوں کی دو ہڈیاں اس کی ایک ایک ہڈی کے قائم مقام ہوں گی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : سالم نے شرحبیل سے نہیں سنا ہے (اس لیے یہ حدیث منقطع ہے) شرحبیل کی وفات صفین میں ہوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ الأحکام (٢٥٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١١١٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣٤، ٢٣٥، ٣٢١) (صحیح )

【43】

حالت صحت میں غلام آزاد کرنے کی فضیلت

ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مرتے وقت غلام آزاد کرے تو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی آسودہ ہوجانے کے بعد ہدیہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الوصایا ٧ (٢١٢٣) ، سنن النسائی/الوصایا ١ (٣٦٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٩٧، ٦/٤٤٧) (ضعیف) (اس کے راوی ابو حبیبہ لین الحدیث ہیں )