32. فتنوں کا بیان

【1】

فتنوں کا بیان

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، پھر اس مقام پر آپ نے قیامت تک پیش آنے والی کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جسے بیان نہ فرما دیا ہو، تو جو اسے یاد رکھ سکا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا، اور وہ آپ کے ان اصحاب کو معلوم ہے، اور جب ان میں سے کوئی چیز ظہور پذیر ہوجاتی ہے تو مجھے یاد آجاتا ہے کہ آپ ﷺ نے ایسے ہی فرمایا تھا، جیسے کوئی کسی کے غائب ہوجانے پر اس کے چہرہ کو یاد رکھتا ہے اور دیکھتے ہی اسے پہچان لیتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ القدر ٤ (٦٦٠٤) ، صحیح مسلم/ الفتن ٦ (٢٨٩١) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٣، ٣٨٥، ٣٨٩، ٤٠١) (صحیح )

【2】

فتنوں کا بیان

حذیفہ بن یمان (رض) کہتے ہیں قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کہ میرے اصحاب بھول گئے ہیں ؟ یا ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ بھول گئے ہیں، قسم اللہ کی ایسا نہیں ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قیامت تک ہونے والے کسی ایسے فتنہ کے سردار کا ذکر چھوڑ دیا ہو جس کے ساتھ تین سویا اس سے زیادہ افراد ہوں، اور اس کا اور اس کے باپ اور اس کے قبیلہ کا نام لے کر آپ ﷺ نے بتا نہ دیا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٣٧٩) (ضعیف )

【3】

فتنوں کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس امت میں چار (بڑے بڑے) فتنے ہوں گے ان کا آخری فناء (قیامت) ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٦٣٩) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : نعیم بن حماد کی فتن اور طبرانی کی معجم کبیر کی عمران بن حصین (رض) کی ایک حدیث میں ہے کہ پہلے فتنہ میں خون حلال ہوگا، دوسرے میں خون اور مال، تیسرے میں خون (جان) مال اور شرمگاہ، اور چوتھے میں خروج دجال۔

【4】

فتنوں کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) ما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے آپ نے فتنوں کے تذکرہ میں بہت سے فتنوں کا تذکرہ کیا یہاں تک کہ فتنہ احلاس کا بھی ذکر فرمایا تو ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! فتنہ احلاس کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ ایسی نفرت و عداوت اور قتل و غارت گری ہے کہ انسان ایک دوسرے سے بھاگے گا، اور باہم برسر پیکار رہے گا، پھر اس کے بعد فتنہ سراء ہے جس کا فساد میرے اہل بیت کے ایک شخص کے پیروں کے نیچے سے رونما ہوگا، وہ گمان کرے گا کہ وہ مجھ سے ہے حالانکہ وہ مجھ سے نہ ہوگا، میرے اولیاء تو وہی ہیں جو متقی ہوں، پھر لوگ ایک شخص پر اتفاق کرلیں گے جیسے سرین ایک پسلی پر (یعنی ایسے شخص پر اتفاق ہوگا جس میں استقامت نہ ہوگی جیسے سرین پہلو کی ہڈی پر سیدھی نہیں ہوتی) ، پھر دھیماء (اندھیرے) کا فتنہ ہوگا جو اس امت کے ہر فرد کو پہنچ کر رہے گا، جب کہا جائے گا کہ فساد ختم ہوگیا تو وہ اور بھڑک اٹھے گا جس میں صبح کو آدمی مومن ہوگا، اور شام کو کافر ہوجائے گا، یہاں تک کہ لوگ دو خیموں میں بٹ جائیں گے، ایک خیمہ اہل ایمان کا ہوگا جس میں کوئی منافق نہ ہوگا، اور ایک خیمہ اہل نفاق کا جس میں کوئی ایماندار نہ ہوگا، تو جب ایسا فتنہ رونما ہو تو اسی روز، یا اس کے دو سرے روز سے دجال کا انتظار کرنے لگ جاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٧٣٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٣٣) (صحیح )

【5】

فتنوں کا بیان

سبیع بن خالد کہتے ہیں کہ تستر فتح کئے جانے کے وقت میں کوفہ آیا، وہاں سے میں خچر لا رہا تھا، میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ چند درمیانہ قد و قامت کے لوگ ہیں، اور ایک اور شخص بیٹھا ہے جسے دیکھ کر ہی تم پہچان لیتے کہ یہ اہل حجاز میں کا ہے، میں نے پوچھا : یہ کون ہیں ؟ تو لوگ میرے ساتھ ترش روئی سے پیش آئے، اور کہنے لگے : کیا تم انہیں نہیں جانتے ؟ یہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی حذیفہ بن یمان (رض) ہیں، پھر حذیفہ نے کہا : لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے متعلق پوچھتے تھے، اور میں آپ سے شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا، تو لوگ انہیں غور سے دیکھنے لگے، انہوں نے کہا : جس پر تمہیں تعجب ہو رہا ہے وہ میں سمجھ رہا ہوں، پھر وہ کہنے لگے : میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے بتائیے کہ اس خیر کے بعد جسے اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے کیا شر بھی ہوگا جیسے پہلے تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں میں نے عرض کیا : پھر اس سے بچاؤ کی کیا صورت ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تلوار ١ ؎ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! پھر اس کے بعد کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر اللہ کی طرف سے کوئی خلیفہ (حاکم) زمین پر ہو پھر وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے لگائے، اور تمہارا مال لوٹ لے جب بھی تم اس کی اطاعت کرو ورنہ تم درخت کی جڑ چبا چبا کر مرجاؤ ٢ ؎ میں نے عرض کیا : پھر کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر دجال ظاہر ہوگا، اس کے ساتھ نہر بھی ہوگی اور آگ بھی جو اس کی آگ میں داخل ہوگیا تو اس کا اجر ثابت ہوگیا، اور اس کے گناہ معاف ہوگئے، اور جو اس کی (اطاعت کر کے) نہر میں داخل ہوگیا تو اس کا گناہ واجب ہوگیا، اور اس کا اجر ختم ہوگیا میں نے عرض کیا : پھر کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر قیامت قائم ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٦٠٦) ، صحیح مسلم/الإمارة ١٣ (١٨٤٧) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٣ (٢٩٨١) ، مسند احمد (٥/٣٨٦، ٤٠٣، ٤٠٤، ٤٠٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایسے فتنہ پردازوں کو قتل کردینا ہی اس کا علاج ہوگا۔ ٢ ؎ : یعنی ایسے بےدینوں کی صحبت چھوڑ کر جنگل میں رہنا منظور کرلو اور فقر وفاقہ میں زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوجاؤ۔

【6】

فتنوں کا بیان

خالد بن خالد یشکری سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ ہے کہ حذیفہ (رض) نے کہا : میں نے عرض کیا : پھر تلوار کے بعد کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : باقی لوگ رہیں گے مگر دلوں میں ان کے فساد ہوگا، اور ظاہر میں صلح ہوگی پھر آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔ راوی کہتے ہیں : قتادہ اسے (تلوار کو) اس فتنہ ارتداد پر محمول کرتے تھے جو ابوبکر (رض) کے زمانہ میں ہوا، اور اقذاء کی تفسیر قذی سے یعنی غبار اور گندگی سے جو آنکھ یا پینے کی چیز میں پڑجاتی ہے، اور ھدنہ کی تفسیر صلح سے دخن کی تفسیر دلوں کے فساد اور کینوں سے کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٣٠٧) (حسن )

【7】

فتنوں کا بیان

نصر بن عاصم لیثی کہتے ہیں کہ ہم بنی لیث کے کچھ لوگوں کے ساتھ یشکری کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا : تم کون لوگ ہو ؟ ہم نے کہا : ہم بنی لیث کے لوگ ہیں ہم آپ کے پاس حذیفہ (رض) کی حدیث پوچھنے آئے ہیں ؟ تو انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اس میں ہے : میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا اس خیر کے بعد شر ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : فتنہ اور شر ہوگا میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس شر کے بعد پھر خیر ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : حذیفہ ! اللہ کی کتاب کو پڑھو اور جو کچھ اس میں ہے اس کی پیروی کرو آپ نے یہ تین بار فرمایا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : هدنة على الدخن ہوگا اور جماعت ہوگی جس کے دلوں میں کینہ و فساد ہوگا میں نے عرض کیا :هدنة على الدخن کا کیا مطلب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کے دل اس حالت پر نہیں واپس آئیں گے جس پر پہلے تھے ١ ؎ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ایک ایسا اندھا اور بہرا فتنہ ہوگا (اور اس کے قائد) جہنم کے دروازوں پر بلانے والے ہوں گے، تو اے حذیفہ ! تمہارا جنگل میں درخت کی جڑ چبا چبا کر مرجانا بہتر ہوگا اس بات سے کہ تم ان میں کسی کی پیروی کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٠٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی لوگوں کے دل پہلے کی طرح صاف نہیں ہوں گے ان کے دلوں میں بغض و کینہ باقی رہے گا۔

【8】

فتنوں کا بیان

اس سند سے بھی حذیفہ (رض) سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے اس میں ہے کہ ان دنوں میں اگر مسلمانوں کا کوئی خلیفہ (حاکم) تمہیں نہ ملے تو بھاگ کر (جنگل میں) چلے جاؤ یہاں تک کہ وہیں مرجاؤ، اگر تم درخت کی جڑ چبا چبا کر مرجاؤ (تو بہتر ہے ایسے بےدینوں میں رہنے سے) اس روایت کے آخر میں یہ ہے کہ میں نے کہا : پھر اس کے بعد کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر کسی کی گھوڑی بچہ جننا چاہتی ہو تو وہ نہ جن سکے گی یہاں تک کہ قیامت آجائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٤٤، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کے بعد قیامت بہت قریب ہوگی۔

【9】

فتنوں کا بیان

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے کسی امام سے بیعت کی، اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا، اور اس سے عہد و اقرار کیا تو اسے چاہیئے کہ جہاں تک ہو سکے وہ اس کی اطاعت کرے، اور اگر کوئی دوسرا امام بن کر اس سے جھگڑنے آئے تو اس دوسرے کی گردن مار دے ۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں : میں نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے پوچھا : کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں اسے میرے دونوں کانوں نے سنا ہے، اور میرے دل نے یاد رکھا ہے، میں نے کہا : یہ آپ کے چچا کے لڑکے معاویہ (رض) ہم سے تاکیداً کہتے ہیں کہ ہم یہ یہ کریں تو انہوں نے کہا : ان کی اطاعت ان چیزوں میں کرو جس میں اللہ کی اطاعت ہو، اور جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اس میں ان کا کہنا نہ مانو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الإمارہ ١٠ (١٨٤٤) ، سنن النسائی/البیعة ٢٥ (٤١٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٩ (٣٩٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦١، ١٩١، ١٩٣) (صحیح )

【10】

None

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خرابی اور بربادی ہے عربوں کے لیے اس شر سے جو قریب آ چکا ہے، اس میں وہی شخص فلاح یاب رہے گا جو اپنا ہاتھ روکے رکھے ۔

【11】

فتنوں کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : خرابی اور بربادی ہے عربوں کے لیے اس شر سے جو قریب آچکا ہے، اس میں وہی شخص فلاح یاب رہے گا جو اپنا ہاتھ روکے رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٤١٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/ الفتن ١ (٢٨٨٠) ، سنن ابن ماجہ/ الفتن ٩ (٣٩٥٣) ، مسند احمد (٢/٣٩٠، ٣٩١، ٤٤١، ٥٣٦، ٥٤١) (صحیح ) عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قریب ہے کہ مسلمان مدینہ ہی میں محصور کر دئیے جائیں یہاں تک کہ ان کی عملداری صرف مقام سلاح تک رہ جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٨١٨) وأعادہ المؤلف فی الملاحم (٤٢٩٩) (صحیح )

【12】

فتنوں کا بیان

ابن شہاب زہری کہتے ہیں اور سلاح خیبر کے قریب ایک جگہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (صحیح الإسناد )

【13】

فتنوں کا بیان

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی یا فرمایا : میرے لیے میرے رب نے زمین سمیٹ دی، تو میں نے مشرق و مغرب کی ساری جگہیں دیکھ لیں، یقیناً میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹی گئی، مجھے سرخ و سفید دونوں خزانے دئیے گئے، میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو کسی عام قحط سے ہلاک نہ کرے، ان پر ان کے علاوہ باہر سے کوئی ایسا دشمن مسلط نہ کرے جو انہیں جڑ سے مٹا دے، اور ان کا نام باقی نہ رہنے پائے، تو میرے رب نے مجھ سے فرمایا : اے محمد ! جب میں کوئی فیصلہ کرلیتا ہوں تو وہ بدلتا نہیں میں تیری امت کے لوگوں کو عام قحط سے ہلاک نہیں کروں گا، اور نہ ہی ان پر کوئی ایسا دشمن مسلط کروں گا جو ان میں سے نہ ہو، اور ان کو جڑ سے مٹا دے گو ساری زمین کے کافر مل کر ان پر حملہ کریں، البتہ ایسا ہوگا کہ تیری امت کے لوگ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے، انہیں قید کریں گے، اور میں اپنی امت پر گمراہ کردینے والے ائمہ سے ڈرتا ہوں، اور جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو پھر وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی، اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ میری امت کے کچھ لوگ مشرکین سے مل نہ جائیں اور کچھ بتوں کو نہ پوجنے لگ جائیں، اور عنقریب میری امت میں تیس (٣٠) کذاب پیدا ہوں گے، ان میں ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا (ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے) وہ غالب رہے گا، ان کا مخالف ان کو ضرر نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٥٣ (١٩٢٠) ، والفتن ٥ (٢٨٨٩) ، سنن الترمذی/الفتن ١٤ (٢١٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٩ (٣٩٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٢١٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٨، ٢٨٤) سنن الدارمی/المقدمة ٢٢ (٢٠٥) (صحیح )

【14】

فتنوں کا بیان

ابو مالک اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے تمہیں تین آفتوں سے بچا لیا ہے : ایک یہ کہ تمہارا نبی تم پر ایسی بدعا نہیں کرے گا کہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، دوسری یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آئیں گے، تیسری یہ کہ تم سب گمراہی پر متفق نہیں ہو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢١٥٥) (ضعیف) حدیث کا آخری جملہ ( وأن لا تجتمعوا الخ) صحیح ہے

【15】

فتنوں کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسلام کی چکی پینتیس یا چھتیس یا سینتیس سال تک گردش میں رہے گی، پھر اگر وہ ہلاک ہوئے تو ان کی راہ وہی ہوگی جو ان لوگوں کی راہ رہی جو ہلاک ہوئے اور اگر ان کا دین قائم رہا تو ستر سال تک قائم رہے گا میں نے عرض کیا : کیا اس زمانہ سے جو باقی ہے یا اس سے جو گزر گیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس زمانہ سے جو گزر گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩١٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩٠، ٣٩٣، ٣٩٥) (صحیح )

【16】

فتنوں کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زمانہ سمٹ جائے گا، علم کم ہوجائے گا، فتنے رونما ہوں گے، لوگوں پر بخیلی ڈال دی جائے گی، اور هرج کثرت سے ہوگا آپ سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! وہ کیا چیز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : قتل، قتل ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢٤ (٨٥) ، والفتنة ٢٥ (٧٠٦١) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٨ (١٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٨٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٥ (٤٠٤٥) ، ٢٦ (٤٠٥١) ، مسند احمد (٢/٢٣٣، ٤١٧، ٥٢٥) (صحیح )

【17】

فساد فتنہ کے وقت اس میں کوشش کرنا جائز نہیں

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عنقریب ایک ایسا فتنہ رونما ہوگا کہ اس میں لیٹا ہوا شخص بیٹھے ہوئے سے بہتر ہوگا، بیٹھا کھڑے سے بہتر ہوگا، کھڑا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس وقت کے لیے آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس اونٹ ہو وہ اپنے اونٹ سے جا ملے، جس کے پاس بکری ہو وہ اپنی بکری سے جا ملے، اور جس کے پاس زمین ہو تو وہ اپنی زمین ہی میں جا بیٹھے عرض کیا : جس کے پاس اس میں سے کچھ نہ ہو وہ کیا کرے ؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس اس میں سے کچھ نہ ہو تو اسے چاہیئے کہ اپنی تلوار لے کر اس کی دھار ایک پتھر سے مار کر کند کر دے (اسے لڑنے کے لائق نہ رہنے دے) پھر چاہیئے کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے وہ (فتنوں سے) گلو خلاصی حاصل کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ٣ (٢٨٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٩، ٤٨) (صحیح )

【18】

فساد فتنہ کے وقت اس میں کوشش کرنا جائز نہیں

سعد بن ابی وقاص (رض) اس حدیث میں کہتے ہیں میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! (اس فتنہ و فساد کے زمانہ میں) اگر کوئی میرے گھر میں گھس آئے، اور اپنا ہاتھ مجھے قتل کرنے کے لیے بڑھائے تو میں کیا کروں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم آدم کے نیک بیٹے (ہابیل) کی طرح ہوجاؤ ، پھر یزید نے یہ آیت پڑھی لئن بسطت إلى يدك ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٨٤٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الفتن ٢٩ (٢١٩٤) (صحیح) (متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی حسین لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : ” اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھائے “ ( سورة المائدۃ : ٢٨ )

【19】

فساد فتنہ کے وقت اس میں کوشش کرنا جائز نہیں

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا پھر انہوں نے ابی بکرہ (رض) کی روایت کی بعض باتیں ذکر کیں اس میں یہ اضافہ ہے : اس فتنہ میں جو لوگ قتل کئے جائیں گے وہ جہنم میں جائیں گے اور اس میں مزید یہ ہے کہ میں نے پوچھا : ابن مسعود ! یہ فتنہ کب ہوگا ؟ کہا : یہ وہ زمانہ ہوگا جب قتل شروع ہوچکا ہوگا، اس طرح سے کہ آدمی اپنے ساتھی سے بھی مامون نہ رہے گا، میں نے عرض کیا : اگر میں یہ زمانہ پاؤں تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم اپنی زبان اور ہاتھ روکے رکھنا، اور اپنے گھر کے کمبلوں میں کا ایک کمبل بن جانا ١ ؎، پھر جب عثمان (رض) قتل کئے گئے تو میرے دل میں یکایک خیال گزرا کہ شاید یہ وہی فتنہ ہو جس کا ذکر ابن مسعود نے کیا تھا، چناچہ میں سواری پر بیٹھا اور دمشق آگیا، وہاں خریم بن فاتک سے ملا اور ان سے بیان کیا تو انہوں نے اس اللہ کی قسم کھا کر کہا جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہ اسے انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح سنا ہے جیسے ابن مسعود نے اسے مجھ سے بیان کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٥٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٤٨، ٤٤٩) (ضعف الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : اپنے گھر میں پڑے رہنا۔

【20】

فساد فتنہ کے وقت اس میں کوشش کرنا جائز نہیں

ابوموسی اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت سے پہلے کچھ فتنے ہیں جیسے تاریک رات کی گھڑیاں (کہ ہر گھڑی پہلی سے زیادہ تاریک ہوتی ہے) ان فتنوں میں صبح کو آدمی مومن رہے گا، اور شام کو کافر ہوجائے گا، اور شام کو مومن رہے گا، اور صبح کو کافر ہوجائے گا، اس میں بیٹھا شخص کھڑے شخص سے بہتر ہوگا، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا، تو تم ایسے فتنے کے وقت میں اپنی کمانیں توڑ دینا، ان کے تانت کاٹ ڈالنا، اور اپنی تلواروں کی دھار کو پتھروں سے مار کر ختم کردینا ١ ؎، پھر اگر اس پر بھی کوئی تم میں سے کسی پر چڑھ آئے، تو اسے چاہیئے کہ وہ آدم کے نیک بیٹے (ہابیل) کے مانند ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٣٣ (٢٢٠٤) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٠ (٣٩٦١) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠٨، ٤١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان فتنوں سے بالکل کنارہ کش رہنا۔

【21】

فساد فتنہ کے وقت اس میں کوشش کرنا جائز نہیں

عبدالرحمٰن بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ کے راستوں میں سے ایک راستہ میں ابن عمر (رض) کا ہاتھ پکڑے چل رہا تھا کہ وہ اچانک ایک لٹکے ہوئے سر کے پاس آئے اور کہنے لگے : بدبخت ہے جس نے اسے قتل کیا، پھر جب کچھ اور آگے بڑھے تو کہا : میں تو اسے بدبخت ہی سمجھ رہا ہوں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو شخص میری امت میں سے کسی شخص کی طرف چلا تاکہ وہ اسے (ناحق) قتل کرے، پھر وہ اسے قتل کر دے تو قتل کرنے والا جہنم میں ہوگا، اور جسے قتل کیا گیا ہے وہ جنت میں ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٧٢٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩٦، ١٠٠) (ضعیف )

【22】

فساد فتنہ کے وقت اس میں کوشش کرنا جائز نہیں

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوذر ! میں نے عرض کیا : تعمیل حکم کے لیے حاضر ہوں، اللہ کے رسول ! پھر انہوں نے حدیث ذکر کی اس میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا : ابوذر ! اس دن تمہارا کیا حال ہوگا ؟ جب مدینہ میں اتنی موتیں ہوں گی کہ گھر یعنی قبر ایک غلام کے بدلہ میں ملے گا ؟ ١ ؎ میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول کو خوب معلوم ہے، یا کہا : اللہ اور اس کے رسول میرے لیے ایسے موقع پر کیا پسند فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : صبر کو لازم پکڑنا یا فرمایا : صبر کرنا ، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اے ابوذر ! میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ارشاد فرمائیں تعمیل حکم کے لیے حاضر ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا کیا حال ہوگا جب تم احجار الزیت ٢ ؎ کو خون میں ڈوبا ہوا دیکھو گے میں نے عرض کیا : جو اللہ اور اس کے رسول میرے لیے پسند فرمائیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا : اس جگہ کو لازم پکڑنا جہاں کے تم ہو ٣ ؎، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں اپنی تلوار لے کر اسے اپنے کندھے پر نہ رکھ لوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تب تو تم ان کے شریک بن جاؤ گے میں نے عرض کیا : پھر آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے گھر کو لازم پکڑنا میں نے عرض کیا : اگر کوئی میرے گھر میں گھس آئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تلواروں کی چمک تمہاری نگاہیں خیرہ کر دے گی تو تم اپنا کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لینا (اور قتل ہوجانا) وہ تمہارا اور اپنا دونوں کا گناہ سمیٹ لے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٠ (٣٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٩، ١٦٣) ، وأعادہ المؤلف فی الحدود (٤٤٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایک قبر کی جگہ کے لئے ایک غلام دینا پڑے گا یا ایک قبر کھودنے کے لئے ایک غلام کی قیمت ادا کرنی پڑے گی یا گھر اتنے خالی ہوجائیں گے کہ ہر ہر غلام کو ایک ایک گھر مل جائے گا۔ ٢ ؎ : مدینہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔ ٣ ؎ : یعنی اپنے گھر میں بیٹھے رہنا۔

【23】

فساد فتنہ کے وقت اس میں کوشش کرنا جائز نہیں

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے سامنے فتنے ہوں گے اندھیری رات کی گھڑیوں کی طرح ١ ؎ ان میں صبح کو آدمی مومن رہے گا اور شام کو کافر، اور شام کو مومن رہے گا اور صبح کو کافر، اس میں بیٹھا ہوا کھڑے شخص سے بہتر ہوگا، اور کھڑا چلنے والے سے بہتر ہوگا، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا ، لوگوں نے عرض کیا : تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے گھر کا ٹاٹ بن جانا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظرحدیث رقم : (٤٢٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٩١٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہر فتنہ پہلے فتنہ سے زیادہ بڑا ہوگا جیسے اندھیری رات کی ہر گھڑی پہلی سے زیادہ تاریک ہوتی ہے۔ ٢ ؎ : یعنی گھر میں پڑے رہنا۔

【24】

فساد فتنہ کے وقت اس میں کوشش کرنا جائز نہیں

مقداد بن اسود (رض) کہتے ہیں کہ قسم اللہ کی میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : نیک بخت وہ ہے جو فتنوں سے دور رہا، نیک بخت وہ ہے جو فتنوں سے دور رہا، اور جو اس میں پھنس گیا پھر اس نے صبر کیا تو پھر اس کا کیا کہنا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٥٤٢) (صحیح )

【25】

فتنہ کے دروان زبان بند رکھنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عنقریب ایک بہرا گونگا اور اندھا فتنہ ہوگا ١ ؎ جو اس میں جھانکے گا اسے وہ اپنی لپیٹ میں لے لے گا، اور زبان چلانا اس میں ایسے ہوگا جیسے تلوار چلانا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٩٤٤) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : فتنہ کے بہرے ہونے سے مراد یہ ہے کہ آدمی حق بات سننے والا نہیں ہوگا، اور اس کے گونگے ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس میں حق بات بولنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

【26】

فتنہ کے دروان زبان بند رکھنا

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عنقریب ایک ایسا فتنہ ہوگا جو پورے عرب کو گھیر لے گا جو اس میں مارے جائیں گے جہنم میں جائیں گے، اس میں زبان کا چلانا تلوار چلانے سے بھی زیادہ سخت ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ١٦ (٢١٧٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢١ (٣٩٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢١١، ٢١٢) (ضعیف )

【27】

فتنہ کے دروان زبان بند رکھنا

عبداللہ بن عبدالقدوس نے عن رجل يقال له زياد کے بجائے زیاد سیمین کوش کہا ہے جس کے معنی سفید کان والا کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣١ )

【28】

فتنہ کے دوران بادریہ نشین ہونے کی اجازت ہے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قریب ہے کہ مسلمان کا بہتر مال بکریاں ہوں، جنہیں لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر پھرتا اور اپنا دین لے کر وہ فساد اور فتنوں سے بھاگتا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١٢ (١٩) ، بدء الخلق ١٥ (٣٣٠٠) ، المناقب ٢٥ (٣٦٠٠) ، الرقاق ٣٤ (٦٤٩٥) ، سنن النسائی/الإیمان ٣٠ (٥٠٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٣ (٣٩٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٤١٠٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الاستئذان ٦ (١٦) ، مسند احمد (٣/٦، ٣٠، ٤٣، ٥٧) (صحیح )

【29】

دوران فتنہ لڑائی سے ممانعت

احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں لڑائی کے ارادہ سے نکلا (تاکہ علی (رض) کے ساتھ معاویہ (رض) کے خلاف لڑوں) تو مجھے (راستہ میں) ابوبکرہ (رض) مل گئے، انہوں نے کہا : تم لوٹ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جب دو مسلمان اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کو مارنے اٹھیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! قاتل (کا جہنم میں جانا) تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کا حال ایسا کیوں ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس نے بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٢، (٣١) ، والدیات ٢ (٦٨٧٥) ، والفتن ١٠ (٧٠٨٢) ، صحیح مسلم/الفتن ٤ (٢٨٨٨) ، سنن النسائی/المحاربة ٢٥ (٤١٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٣، ٤٧، ٥١) (صحیح )

【30】

دوران فتنہ لڑائی سے ممانعت

اس سند سے بھی حسن سے اسی مفہوم کی حدیث مختصراً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ، (تحفة الأشراف : ١١٦٥٥ )

【31】

مومن کا قتل عظیم ترین گناہ ہے

خالد بن دہقان کہتے ہیں کہ جنگ قسطنطنیہ میں ہم ذلقیہ ١ ؎ میں تھے، اتنے میں فلسطین کے اشراف و عمائدین میں سے ایک شخص آیا، اس کی اس حیثیت کو لوگ جانتے تھے، اسے ہانی بن کلثوم بن شریک کنانی کہا جاتا تھا، اس نے آ کر عبداللہ بن ابی زکریا کو سلام کیا، وہ ان کے مقام و مرتبہ سے واقف تھا، ہم سے خالد نے کہا : تو ہم سے عبداللہ بن زکریا نے حدیث بیان کی عبداللہ بن زکریا نے کہا میں نے ام الدرداء (رض) سے سنا ہے وہ کہہ رہی تھیں کہ میں نے ابوالدرداء (رض) سے سنا ہے، وہ کہہ رہے تھے : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرما رہے تھے : ہر گناہ کو اللہ بخش سکتا ہے سوائے اس کے جو مشرک ہو کر مرے یا مومن ہو کر کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے ، تو ہانی بن کلثوم نے کہا : میں نے محمود بن ربیع کو بیان کرتے سنا وہ عبادہ بن صامت (رض) سے، اور عبادہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کر رہے تھے کہ آپ نے فرمایا : جو کسی مومن کو ناحق قتل کرے، پھر اس پر خوش بھی ہو، تو اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا نہ نفل اور نہ فرض ۔ خالد نے ہم سے کہا : پھر ابن ابی زکریا نے مجھ سے بیان کیا وہ ام الدرداء سے روایت کر رہے تھے، اور وہ ابوالدرداء سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : برابر مومن ہلکا پھلکا اور صالح رہتا ہے، جب تک وہ ناحق خون نہ کرے، اور جب وہ ناحق کسی کو قتل کردیتا ہے تو تھک جاتا اور عاجز ہوجاتا ہے ۔ ہانی بن کلثوم نے بیان کیا، وہ محمود بن ربیع سے، محمود عبادہ بن صامت سے، عبادہ نبی اکرم ﷺ سے، اسی کے ہم مثل روایت کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥١٠٥، ٥١١٢، ١٠٩٨٩، ١٠٩٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ذُلُقْیَ ۃ َ : ذال اور لام کے ضمہ ، قاف کے سکون اور یاء کے فتحہ کے ساتھ روم کے ایک شہر کا نام ہے۔

【32】

مومن کا قتل عظیم ترین گناہ ہے

خالد بن دہقان کہتے ہیں میں نے یحییٰ بن یحییٰ غسانی سے قول نبوی اعتبط بقتلہ کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے کہا : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو فتنے میں یہ سمجھ کر قتل کرتے ہیں کہ ہم ہدایت پر ہیں، پھر وہ اللہ سے توبہ و استغفار نہیں کرتے یعنی اس (قتل) سے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اعتبط اعتبط کے معنی (ناحق) خون بہانے کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٥٤٤) (صحیح )

【33】

مومن کا قتل عظیم ترین گناہ ہے۔

خارجہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے زید بن ثابت (رض) سے اسی جگہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ آیت کریمہ ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم خالدا فيها اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قصداً قتل کر ڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا (النساء : ٩٣) (سورۃ الفرقان کی آیت) والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ نے حرام کردیا ہے بجز حق کے قتل نہیں کرتے (الفرقان : ٦٨) کے چھ مہینے کے بعد نازل ہوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المحاربة ٢ (٤٠١١) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٠٦) (منکر )

【34】

مومن کا قتل عظیم ترین گناہ ہے۔

سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے پوچھا تو آپ نے کہا : جب سورة الفرقان کی آیت والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق نازل ہوئی تو اہل مکہ کے مشرک کہنے لگے : ہم نے بہت سی ایسی جانیں قتل کی ہیں جنہیں اللہ نے حرام کیا ہے اور ہم نے اللہ کے علاوہ دوسرے معبودوں کو پکارا ہے، اور برے کام کئے ہیں تو اللہ نے إلا من تاب وآمن وعمل عملا صالحا فأولئك يبدل الله سيئاتهم حسنات سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے (الفرقان : ٧٠) نازل فرمائی تو یہ ان لوگوں کے لیے ہے۔ انہوں نے مزید کہا : اور سورة نساء کی آیت ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم الآیۃ، ایسے وقت کے لیے ہے جب آدمی مسلمان ہوجائے اور شرعی احکام کو جان لے پھر جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کر دے تو ایسے شخص کی سزا جہنم ہوگی، اور اس کی توبہ بھی قبول نہ ہوگی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں : میں نے ابن عباس کے اس قول کو مجاہد سے بیان کیا تو انہوں نے اس میں یہ اضافہ کیا سوائے اس شخص کے جو شرمندہ ہو (یعنی دل سے توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہوگی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٢٩ (٣٨٥٥) ، التفسیر ١٦ (٤٥٩٠) ، تفسیر سورة الفرقان ٢ (٤٧٦٤) ، صحیح مسلم/التفسیر ح ١٦ (٣٠٢٣) ، سنن النسائی/المحاربة ٢ (٤٠٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٢٤) (صحیح )

【35】

مومن کا قتل عظیم ترین گناہ ہے۔

عبداللہ بن عباس (رض) سے اسی قصہ میں مروی ہے کہ والذين لا يدعون مع الله إلها آخر سے مراد اہل شرک ہیں اور آیت کریمہ يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہوجاؤ (الزمر : ٥٣) نازل ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ التفسیر (زمر) ١ (٤٨٨٠) ، صحیح مسلم/ الإیمان ٥٤ (١٢٢) ، سنن النسائی/ المحاربة ٢ (٤٠٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٥٢) (صحیح )

【36】

مومن کا قتل عظیم ترین گناہ ہے۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آیت کریمہ ومن يقتل مؤمنا متعمدا (کا حکم باقی ہے) اسے کسی اور آیت نے منسوخ نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ التفسیر (سورة النساء) صحیح البخاری/ التفسیر ١٦ (٤٥٩٠) ، و تفسیر سورة الفرقان ٢ (٤٧٦٣) ، صحیح مسلم/ التفسیر ١٦ (٣٠٢٣) ، سنن النسائی/ المحاربة ٢ (٤٠٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٢١) (صحیح )

【37】

مومن کا قتل عظیم ترین گناہ ہے۔

ابومجلز سے اللہ تعالیٰ کے قول ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم کے متعلق مروی ہے کہ ایسے شخص کا بدلہ تو یہی ہے لیکن اگر اللہ اسے معاف کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٥٢٧) (حسن )

【38】

قتل ہونے میں کیا امید کی جائے

سعید بن زید (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے آپ نے ایک فتنہ اور اس کی ہولناکی کا ذکر کیا تو ہم نے یا لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر اس فتنہ نے ہم کو پا لیا تو ہم کو تو تباہ کر ڈالے گا ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہرگز نہیں، بس تمہارا قتل ہوجانا ہی کافی ہوگا ۔ سعید کہتے ہیں : میں نے اپنے بھائیوں کو (جمل و صفین میں) قتل ہوتے دیکھ لیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٤٦٩) (صحیح )

【39】

قتل ہونے میں کیا امید کی جائے

ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری اس امت پر اللہ کی رحمت ہے آخرت میں اسے عذاب (دائمی) نہیں ہوگا اور دنیا میں اس کا عذاب : فتنوں، زلزلوں اور قتل کی شکل میں ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٠٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤١٠، ٤١٨) (صحیح )