33. امام مہدی کا بیان

【1】

قتل ہونے میں کیا امید کی جائے

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : یہ دین برابر قائم رہے گا یہاں تک کہ تم پر بارہ خلیفہ ہوں گے، ان میں سے ہر ایک پر امت اتفاق کرے گی پھر میں نے نبی اکرم ﷺ سے ایک ایسی بات سنی جسے میں سمجھ نہیں سکا میں نے اپنے والد سے پوچھا : آپ نے کیا فرمایا ؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے : یہ سارے خلفاء قریش میں سے ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢١٣٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأحکام ٥١ (٧٢٢٢) ، صحیح مسلم/الإمارة ١ (١٨٢١) ، سنن الترمذی/الفتن ٤٦ (٢٢٢٤) ، مسند احمد (٥/٨٦، ٨٨، ٩٦، ١٠٥) (صحیح) (اس میں : تجتمع علیہ الأمة کا ٹکڑا منکر ہے، صحیح نہیں ہے) ، (ابو خالد الاحمسی لین الحدیث ہیں، اور اس کی روایت میں متفرد ہیں، ملاحظہ ہو : الصحیحة : ٣٧٦، وتراجع الألباني : ٢٠٨ )

【2】

قتل ہونے میں کیا امید کی جائے

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : یہ دین بارہ خلفاء تک برابر غالب رہے گا لوگوں نے یہ سن کر اللہ اکبر کہا، اور ہنگامہ کرنے لگے پھر آپ نے ایک بات آہستہ سے فرمائی، میں نے اپنے والد سے پوچھا : ابا جان ! نبی اکرم ﷺ نے کیا فرمایا ؟ کہا : آپ ﷺ نے فرمایا ہے : یہ سب قریش میں سے ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الإمارة ١ (١٨٢١) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨٧، ٨٨، ٩٠، ٩٣، ٩٦، ١٠١، ١٠٦) (صحیح )

【3】

قتل ہونے میں کیا امید کی جائے

اس سند سے بھی جابر بن سمرہ (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے : پھر آپ ﷺ اپنے گھر واپس گئے تو قریش کے لوگ آپ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا : پھر کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : پھر قتل ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢١٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٩٢) (صحیح) (اس میں : فلما جمع کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے )

【4】

قتل ہونے میں کیا امید کی جائے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر دنیا کا ایک دن بھی رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو لمبا کر دے گا، یہاں تک کہ اس میں ایک شخص کو مجھ سے یا میرے اہل بیت میں سے اس طرح کا برپا کرے گا کہ اس کا نام میرے نام پر، اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہوگا، وہ عدل و انصاف سے زمین کو بھر دے گا، جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے ۔ سفیان کی روایت میں ہے : دنیا نہیں جائے گی یا ختم نہیں ہوگی تاآنکہ عربوں کا مالک ایک ایسا شخص ہوجائے جو میرے اہل بیت میں سے ہوگا اس کا نام میرے نام کے موافق ہوگا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عمر اور ابوبکر کے الفاظ سفیان کی روایت کے مفہوم کے مطابق ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٥٢ (٢٢٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٦، ٣٧٧، ٤٣٠، ٤٤٨) (حسن صحیح )

【5】

قتل ہونے میں کیا امید کی جائے

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر زمانہ سے ایک ہی دن باقی رہ جائے گا تو بھی اللہ تعالیٰ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کھڑا بھیجے گا وہ اسے عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جیسے یہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠١٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٩) (صحیح )

【6】

قتل ہونے میں کیا امید کی جائے

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : مہدی میری نسل سے فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٤ (٤٠٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٣) (حسن )

【7】

قتل ہونے میں کیا امید کی جائے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہدی میری اولاد میں سے کشادہ پیشانی، اونچی ناک والے ہوں گے، وہ روئے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، جیسے کہ وہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے، ان کی حکومت سات سال تک رہے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٣٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الفتن ٥٣ (٢٢٣٢) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٤ (٤٠٨٦) (حسن )

【8】

قتل ہونے میں کیا امید کی جائے

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک خلیفہ کی موت کے وقت اختلاف ہوگا تو اہل مدینہ میں سے ایک شخص مکہ کی طرف بھاگتے ہوئے نکلے گا، اہل مکہ میں سے کچھ لوگ اس کے پاس آئیں گے اور اس کو امامت کے لیے پیش کریں گے، اسے یہ پسند نہ ہوگا، پھر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان لوگ اس سے بیعت کریں گے، اور شام کی جانب سے ایک لشکر اس کی طرف بھیجا جائے گا تو مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام بیداء میں وہ سب کے سب دھنسا دئیے جائیں گے، جب لوگ اس صورت حال کو دیکھیں گے تو شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں اس کے پاس آئیں گی، حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اس سے بیعت کریں گی، اس کے بعد ایک شخص قریش میں سے اٹھے گا جس کا ننہال بنی کلب میں ہوگا جو ایک لشکر ان کی طرف بھیجے گا، وہ اس پر غالب آئیں گے، یہی کلب کا لشکر ہوگا، اور نامراد رہے گا وہ شخص جو کلب کے مال غنیمت میں حاضر نہ رہے، وہ مال غنیمت تقسیم کرے گا اور لوگوں میں ان کے نبی کی سنت کو جاری کرے گا، اور اسلام اپنی گردن زمین میں ڈال دے گا، وہ سات سال تک حکمرانی کرے گا، پھر وفات پا جائے گا، اور مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : بعض نے ہشام سے نو سال کی روایت کی ہے اور بعض نے سات کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٨١٧٠، ١٨٢٥٠ ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٥٩، ٣١٦) (ضعیف )

【9】

قتل ہونے میں کیا امید کی جائے

اس سند سے قتادہ سے بھی یہی حدیث مروی ہے اس میں نو سال ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : معاذ کے علاوہ نے ہشام سے نو سال کی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٨١٧٠) (ضعیف )

【10】

قتل ہونے میں کیا امید کی جائے

اس سند سے بھی ام المؤمنین ام سلمہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث روایت کرتی ہیں، معاذ کی حدیث زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٢٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٧٠) (ضعیف )

【11】

قتل ہونے میں کیا امید کی جائے

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے دھنسائے جانے والے لشکر کا واقعہ روایت کرتی ہیں اس میں ہے : میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس شخص کا کیا حال ہوگا جو نہ چاہتے ہوئے زبردستی لایا گیا ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ بھی ان کے ساتھ دھنسا دیا جائے گا البتہ قیامت کے دن وہ اپنی نیت پر اٹھایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الفتن ٢ (٢٨٨٢) ،(تحفة الأشراف : ١٨١٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٠) (صحیح )

【12】

قتل ہونے میں کیا امید کی جائے

ابواسحاق کہتے ہیں کہ علی (رض) نے اپنے بیٹے حسن (رض) کی طرف دیکھا، اور کہا : یہ میرا بیٹا سردار ہوگا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا نام رکھا ہے، اور عنقریب اس کی نسل سے ایک ایسا شخص پیدا ہوگا جس کا نام تمہارے نبی کے نام جیسا ہوگا، اور سیرت میں ان کے مشابہ ہوگا البتہ صورت میں مشابہ نہ ہوگا پھر انہوں نے سيملأ الأرض عدلاً کا واقعہ ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٢٥٣، ١٠٣٠٩) (ضعیف ) ہارون کہتے ہیں : ہم سے عمرو بن ابی قیس نے بیان کیا وہ مطرف بن طریف سے وہ ابوالحسن سے اور وہ ہلال بن عمرو سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں : میں نے علی (رض) کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نہر اس پار سے ایک شخص نکلے گا جس کا نام حارث بن حراث ہوگا اس کے آگے ایک شخص ہوگا اس کا نام منصور ہوگا، وہ آل محمد کو غالب کرے گا، جیسا کہ قریش نے رسول اللہ ﷺ کو غالب کیا تھا، اس کی مدد کرنا، یا کہا : اس کا حکم ماننا ہر مومن پر واجب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٢٥٣، ١٠٣٠٩) (ضعیف )