35. سزاؤں کا بیان

【1】

مرتدین کا حکم

عکرمہ سے روایت ہے کہ علی (رض) نے کچھ لوگوں کو جو اسلام سے پھرگئے تھے آگ میں جلوا دیا، ابن عباس (رض) کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا : مجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ میں انہیں جلاؤں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : تم انہیں وہ عذاب نہ دو جو اللہ کے ساتھ مخصوص ہے میں تو رسول اللہ ﷺ کے قول کی رو سے انہیں قتل کردیتا کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے : جو اسلام چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کرلے اسے قتل کر دو پھر جب علی (رض) کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا : اللہ ابن عباس کی ماں پر رحم فرمائے انہوں نے بڑی اچھی بات کہی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٤٩ (٣٠١٧) ، المرتدین ٢ (٦٩٢٢) ، سنن الترمذی/الحدود ٢٥ (١٤٥٨) ، سنن النسائی/المحاربة ١١ (٤٠٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢ (٢٥٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ١/٢٨٢، ٢٨٣، ٣٢٣) (صحیح )

【2】

مرتدین کا حکم

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان آدمی کا جو صرف اللہ کے معبود ہونے، اور میرے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو خون حلال نہیں، سوائے تین صورتوں کے : یا تو وہ شادی شدہ زانی ہو، یا اس نے کسی کا قتل کیا ہو تو اس کو اس کے بدلہ قتل کیا جائے گا، یا اپنا دین چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہوگیا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدیات ٦ (٦٨٧٨) ، صحیح مسلم/القسامة ٦ (١٦٧٦) ، سنن الترمذی/الدیات ١٠ (١٤٠٢) ، سنن النسائی/المحاربة ٥ (٤٠٢١) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١ (٢٥٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ١/٣٨٢، ٤٢٨، ٤٤٤، ٤٦٥) ، دی/ الحدود ٢ (٢٣٤٤) (صحیح )

【3】

مرتدین کا حکم

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان شخص کا خون جو صرف اللہ کے معبود ہونے اور میرے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو حلال نہیں سوائے تین صورتوں کے ایک وہ شخص جو شادی شدہ ہو اور اس کے بعد زنا کا ارتکاب کرے تو وہ رجم کیا جائے گا، دوسرے وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے نکلا ہو تو وہ قتل کیا جائے گا، یا اسے سولی دے دی جائے گی، یا وہ جلا وطن کردیا جائے گا، تیسرے جس نے کسی کو قتل کیا ہو تو اس کے بدلے وہ قتل کیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المحاربة ٩ (٤٠٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٦/١٨١، ٢١٤) (صحیح )

【4】

مرتدین کا حکم

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو شخص تھے، ایک میرے دائیں طرف تھا دوسرا بائیں طرف، تو دونوں نے آپ سے عامل کا عہدہ طلب کیا، اور آپ ﷺ خاموش رہے، پھر فرمایا : ابوموسیٰ ! یا فرمایا : عبداللہ بن قیس ! تم کیا کہتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، ان دونوں نے مجھے اس چیز سے آگاہ نہیں کیا تھا جو ان کے دل میں تھا، اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ آپ سے عامل بنائے جانے کا مطالبہ کریں گے، گویا میں اس وقت آپ کی مسواک کو دیکھ رہا ہوں، وہ آپ ﷺ کے مسوڑھے کے نیچے تھی اور مسوڑھا اس کی وجہ سے اوپر اٹھا ہوا تھا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ہم اپنے کام پر اس شخص کو ہرگز عامل نہیں بنائیں گے یا عامل نہیں بناتے جو عامل بننے کی خواہش کرے، لیکن اے ابوموسیٰ ! یا آپ نے فرمایا : اے عبداللہ بن قیس ! اس کام کے لیے تم جاؤ چناچہ آپ ﷺ نے انہیں بھیج دیا، پھر ان کے پیچھے معاذ بن جبل (رض) کو بھیجا، جب معاذ بن جبل (رض) ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا : اترو، اور ایک گاؤ تکیہ ان کے لیے لگا دیا، تو اچانک وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی ان کے پاس بندھا ہوا ہے، معاذ (رض) نے پوچھا : یہ کیسا آدمی ہے ؟ ابوموسیٰ نے کہا : یہ ایک یہودی تھا جو اسلام لے آیا تھا، لیکن اب پھر وہ اپنے باطل دین کی طرف پھر گیا ہے، معاذ (رض) نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے مطابق جب تک یہ قتل نہ کردیا جائے میں نہیں بیٹھ سکتا، ابوموسیٰ نے کہا : اچھا بیٹھئیے، معاذ نے پھر کہا : اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کی رو سے جب تک وہ قتل نہ کردیا جائے میں نہیں بیٹھ سکتا، آپ نے تین بار ایسا کہا، چناچہ انہوں نے اس کے قتل کا حکم دیا، وہ قتل کردیا گیا، (پھر وہ بیٹھے) پھر ان دونوں نے آپس میں قیام اللیل (تہجد کی نماز) کا ذکر کیا تو ان دونوں میں سے ایک نے غالباً وہ معاذ بن جبل (رض) تھے کہا : رہا میں، تو میں سوتا بھی ہوں، اور قیام بھی کرتا ہوں، یا کہا قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور بحالت نیند بھی اسی ثواب کی امید رکھتا ہوں جو بحالت قیام رکھتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المرتدین ٢ (٦٩٢٣) ، صحیح مسلم/الامارة ٣ (١٧٣٣) ، سنن النسائی/الطہارة ٤ (٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٤/٤٠٩) (صحیح )

【5】

مرتدین کا حکم

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میرے پاس معاذ (رض) آئے، میں یمن میں تھا، ایک یہودی نے اسلام قبول کرلیا، پھر وہ اسلام سے مرتد ہوگیا، تو جب معاذ (رض) آئے کہنے تو لگے : میں اس وقت تک اپنی سواری سے نہیں اتر سکتا جب تک وہ قتل نہ کردیا جائے چناچہ وہ قتل کردیا گیا، اس سے پہلے اسے توبہ کے لیے کہا جا چکا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٠٧٣) (صحیح )

【6】

مرتدین کا حکم

اس سند سے بھی ابوبردہ (رض) سے یہی واقعہ مروی ہے، وہ کہتے ہیں ابوموسیٰ (رض) کے پاس ایک شخص کو لے کر آیا گیا جو اسلام سے مرتد گیا تھا، بیس دن تک یا اس کے لگ بھگ وہ اسے اسلام کی دعوت دیتے رہے کہ اسی دوران معاذ (رض) آگئے تو آپ نے بھی اسے اسلام کی دعوت دی لیکن اس نے انکار کردیا تو آپ نے اس کی گردن مار دی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے عبدالملک بن عمیر نے ابوبردہ سے روایت کیا ہے لیکن انہوں نے اس میں توبہ کرانے کا ذکر نہیں کیا ہے اور اسے ابن فضیل نے شیبانی سے شیبانی نے سعید بن ابی بردہ سے، ابوبردہ نے اپنے والد ابوبردہ سے اور ابوبردہ نے ابوموسیٰ اشعری سے روایت کیا ہے اور اس میں بھی انہوں نے توبہ کرانے کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : ٤٣٥٤، (تحفة الأشراف : ٩٠٩٦، ٩١١٣، ١٩١٩٥) (صحیح الإسناد )

【7】

مرتدین کا حکم

قاسم سے بھی یہی واقعہ مروی ہے اس میں ہے کہ جب تک اس کی گردن مار نہیں دی گئی وہ سواری سے نیچے نہیں اترے اور انہوں نے اس سے توبہ نہیں کرائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٤٣٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٩٦) (ضعیف الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : یہ اس سے پہلے والی روایت کے معارض ہے جس میں ذکر ہے کہ معاذ (رض) نے اسے اسلام کی دعوت دی لیکن اس نے اسے قبول نہیں کیا لیکن مسعودی کی یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔

【8】

مرتدین کا حکم

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ١ ؎ رسول اللہ ﷺ کا منشی تھا، پھر شیطان نے اس کو بہکا لیا، اور وہ کافروں سے جا ملا تو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن اس کے قتل کا حکم دیا، پھر عثمان بن عفان (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے لیے امان مانگی تو آپ نے اسے امان دی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المحاربة ١٢ (٤٠٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٥٢) (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : یہ عثمان (رض) کے رضاعی بھائی تھے، عثمان انہیں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے آئے اور اس کی معافی کے لئے بہت زیادہ شفارش کی تو ان کا قصور معاف ہوگیا۔

【9】

مرتدین کا حکم

سعد (رض) کہتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا تو عبداللہ بن سعد بن ابی سرح عثمان بن عفان (رض) کے پاس چھپ گیا، پھر آپ نے اسے نبی اکرم ﷺ کے پاس لا کھڑا کیا، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! عبداللہ سے بیعت لے لیجئے، آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی طرف تین بار دیکھا، ہر بار آپ انکار فرماتے رہے، پھر تین دفعہ کے بعد آپ نے اس سے بیعت لے لی پھر آپ ﷺ اپنے صحابہ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا : کیا تم میں کوئی ایسا نیک بخت انسان نہیں تھا کہ اس وقت اسے کھڑا ہوا پا کر قتل کردیتا، جب اس نے یہ دیکھ لیا تھا کہ میں اس سے بیعت کے لیے اپنا ہاتھ روکے ہوئے ہوں تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کا جو منشا تھا ہمیں معلوم نہ ہوسکا، آپ نے اپنی آنکھ سے ہمیں اشارہ کیوں نہیں کردیا ١ ؎، آپ ﷺ نے فرمایا : کسی نبی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ کنکھیوں سے پوشیدہ اشارے کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٦٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیوں کنکھیوں سے اشارہ کرنا یہ ایسے دنیاداروں کا طریقہ ہے جنہیں اللہ کا خوف نہیں ہوتا۔

【10】

مرتدین کا حکم

جریر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جب غلام دارالحرب بھاگ جائے تو اس کا خون مباح ہوگیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان (٦٨) ، سنن النسائی/المحاربة ١٠ (٤٠٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٢١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٤/٣٦٥) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ جب دارالحرب کی طرف بھاگ جانے سے اس کا خون مباح ہوگیا تو اس کے ساتھ اگر وہ مرتد بھی ہوگیا تو بدرجہ اولیٰ اس کا خون مباح ہوگا۔

【11】

گستاخ رسول کی سزا

عبداللہ بن عباس (رض) کا بیان ہے کہ ایک نابینا شخص کے پاس ایک ام ولد تھی جو نبی اکرم ﷺ کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، وہ نابینا اسے روکتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی، وہ اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی طرح باز نہیں آتی تھی حسب معمول ایک رات اس نے آپ ﷺ کی ہجو شروع کی، اور آپ کو گالیاں دینے لگی، تو اس (اندھے) نے ایک چھری لی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا کر اسے ہلاک کردیا، اس کے دونوں پاؤں کے درمیان اس کے پیٹ سے ایک بچہ گرا جس نے اس جگہ کو جہاں وہ تھی خون سے لت پت کردیا، جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ سے اس حادثہ کا ذکر کیا گیا، آپ نے لوگوں کو اکٹھا کیا، اور فرمایا : جس نے یہ کیا ہے میں اس سے اللہ کا اور اپنے حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہوجائے تو وہ اندھا کھڑا ہوگیا اور لوگوں کی گردنیں پھاندتے اور ہانپتے کانپتے آ کر آپ ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا، اور عرض کرنے لگا : اللہ کے رسول میں اس کا مولی ہوں، وہ آپ کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، میں اسے منع کرتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی، میں اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی صورت سے باز نہیں آتی تھی، میرے اس سے موتیوں کے مانند دو بچے ہیں، وہ مجھے بڑی محبوب تھی تو جب کل رات آئی حسب معمول وہ آپ کو گالیاں دینے لگی، اور ہجو کرنی شروع کی، میں نے ایک چھری اٹھائی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا دیا، وہ اس کے پیٹ میں گھس گئی یہاں تک کہ میں نے اسے مار ہی ڈالا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! سنو تم گواہ رہنا کہ اس کا خون لغو ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المحاربة ١٣ (٤٠٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٦١٥٥) (صحیح )

【12】

گستاخ رسول کی سزا

علی (رض) کہتے ہیں کہ ایک یہودی عورت نبی اکرم ﷺ کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، تو ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ وہ مرگئی تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا خون باطل ٹھہرا دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠١٥٠) (ضعیف الإسناد )

【13】

گستاخ رسول کی سزا

ابوبرزہ (رض) کہتے ہیں کہ میں ابوبکر (رض) کے پاس تھا، وہ ایک شخص پر ناراض ہوئے اور بہت سخت ناراض ہوئے تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول کے خلیفہ ! مجھے اجازت دیجئیے میں اس کی گردن مار دوں، میری اس بات نے ان کے غصہ کو ٹھنڈا کردیا، پھر وہ اٹھے اور اندر چلے گئے، پھر مجھ کو بلایا اور پوچھا : ابھی تم نے کیا کہا تھا ؟ میں نے کہا : میں نے کہا تھا : مجھے اجازت دیجئیے، میں اس کی گردن مار دوں، بولے : اگر میں تمہیں حکم دے دیتا تو تم اسے کر گزرتے ؟ میں نے عرض کیا : ہاں، ضرور، بولے : نہیں، قسم اللہ کی ! محمد ﷺ کے بعد کسی آدمی کو بھی یہ مرتبہ حاصل نہیں ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ یزید کے الفاظ ہیں، احمد بن حنبل کہتے ہیں : یعنی ابوبکر ایسا نہیں کرسکتے تھے کہ وہ کسی شخص کو بغیر ان تین باتوں میں سے کسی ایک کے جسے رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا ہے قتل کرنے کا حکم دے دیں : ایک ایمان کے بعد کافر ہوجانا دوسرے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرنا، تیسرے بغیر نفس کے کسی نفس کو قتل کرنا، البتہ نبی اکرم ﷺ قتل کرسکتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المحاربة ١٣ (٤٠٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٢١، ١٨٦٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی رسول اللہ ﷺ ہی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ جو کوئی آپ کو برا بھلا کہے یا گالی دے تو آپ اس کی گردن مارنے کا حکم دیں، دوسرے کسی کو یہ خصوصیت حاصل نہیں۔

【14】

اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ عکل، یا قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہ آئی، رسول اللہ ﷺ نے انہیں دودھ والی چند اونٹنیاں دلوائیں، اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان کے پیشاب اور دودھ پئیں، وہ (اونٹنیاں لے کر) چلے گئے جب وہ صحت یاب ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو قتل کر ڈالا، اور اونٹ ہانک لے گئے تو نبی اکرم ﷺ کو صبح ہی صبح اس کی خبر مل گئی، چناچہ آپ نے ان کے تعاقب میں لوگوں کو روانہ کیا، تو ابھی دن بھی اوپر نہیں چڑھنے پایا تھا کہ انہیں پکڑ کرلے آیا گیا، آپ ﷺ نے حکم دیا تو ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دئیے گئے، ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں، اور وہ گرم سیاہ پتھریلی زمین میں ڈال دیئے گئے، وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا، ابوقلابہ کہتے ہیں : ان لوگوں نے چوری کی تھی، قتل کیا تھا، ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے تھے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٦ (٢٢٣) ، الجہاد ١٥٢ (٣٠١٨) ، صحیح مسلم/القسامة ٢ (١٦٧١) ، الطب ٦ (٢٠٤٢) ، سنن النسائی/الطہارة ١٩١ (٣٠٦) ، المحاربة ٧ (٤٠٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ٥٥ (٧٢) ، الأطعمة ٣٨ (١٨٤٥) ، مسند احمد ( ٣ / ٠٧ ١، ١٧٧، ١٩٨، ٢٠٥، ٢٨٧) (صحیح )

【15】

اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کا بیان

اس سند سے بھی ایوب سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے آپ ﷺ نے سلائیوں کو گرم کرنے کا حکم دیا تو وہ گرم کی گئیں، پھر انہیں آپ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں پھیر دیں، ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ ڈالے، اور ان کو یکبارگی ہی نہیں مار ڈالا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٥) (صحیح )

【16】

اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کا بیان

انس بن مالک (رض) سے بھی یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے تعاقب میں کچھ مخبر بھیجے تو انہیں پکڑ کر لایا گیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں آیت کریمہ إنما جزاء الذين يحاربون الله ورسوله ويسعون في الأرض فسادا جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دئیے جائیں (سورۃ المائدہ : ٣٣) اتاری۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٣٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٥) (صحیح )

【17】

اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کا بیان

انس بن مالک (رض) سے بھی یہی حدیث مروی ہے اس میں انس کہتے ہیں کہ میں نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ پیاس کی وجہ سے زمین کو اپنے منہ سے کاٹتا تھا یہاں تک کہ وہ سب (پیاس سے تڑپ تڑپ کر) مرگئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الطہارة ٥٥ (٧٢) ، سنن النسائی/ المحاربة ٧ (٤٠٣٩) (تحفة الأشراف : ٣١٧، ١١٥٦) (صحیح )

【18】

اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کا بیان

اس سند سے بھی انس بن مالک سے یہی حدیث انہیں جیسے الفاظ سے مروی ہے اس میں یہ اضافہ ہے پھر آپ نے مثلہ سے منع فرما دیا اور اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ ایک طرف کا ہاتھ کاٹا تو دوسرے طرف کا پیر۔ شعبہ نے قتادہ اور سلام بن مسکین سے انہوں نے ثابت سے، ثابت نے انس سے روایت کی ہے لیکن ان دونوں نے بھی یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ ایک طرف کا ہاتھ کاٹا، تو دوسری طرف کا پیر اور مجھے حماد بن سلمہ کے علاوہ کسی کی روایت میں یہ اضافہ نہیں ملا کہ ایک طرف کا ہاتھ کاٹا تو دوسری طرف کا پیر۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٤٣٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٧٧) (صحیح )

【19】

اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کے اونٹوں کو لوٹ کر انہیں ہنکا لے گئے، اسلام سے مرتد ہوگئے، اور آپ ﷺ کے مومن چرواہے کو قتل کردیا، تو آپ نے ان کے تعاقب میں کچھ لوگوں کو بھیجا، وہ پکڑے گئے، تو آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیئے گئے، اور ان کی آنکھوں پر گرم سلائیاں پھیر دیں، انہیں لوگوں کے متعلق آیت محاربہ نازل ہوئی، اور انہیں لوگوں کے متعلق انس بن مالک (رض) نے حجاج کو خبر دی تھی جس وقت اس نے آپ سے پوچھا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المحاربة ٧ (٤٠٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٧٥، ١٨٨٩٨) (حسن صحیح )

【20】

اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کا بیان

ابوالزناد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ان لوگوں کے (ہاتھ پاؤں) کاٹے جنہوں نے آپ کے اونٹ چرائے تھے اور ان کی آنکھوں میں آگ کی سلائیاں پھیریں تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر اس سلسلہ میں عتاب فرمایا : اور آیت محاربہ إنما جزاء الذين يحاربون الله ورسوله ويسعون في الأرض فسادا أن يقتلوا أو يصلبوا جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دئیے جائیں یا سولی پر چڑھا دئیے جائیں (سورۃ المائدہ : ٣٣) اخیر تک نازل فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المحاربة ٧ (٤٠٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٧٥، ١٨٨٩٨) (ضعیف )

【21】

اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کا بیان

محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ یہ حدود کے نازل کئے جانے سے پہلے کی ہے یعنی انس (رض) کی روایت۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الطب ٦ (٥٦٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٩١) (ضعیف )

【22】

اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آیت کریمہ إنما جزاء الذين يحاربون الله ورسوله ويسعون في الأرض فسادا أن يقتلوا أو يصلبوا أو تقطع أيديهم وأرجلهم من خلاف أو ينفوا من الأرض سے غفور رحيم تک مشرکین کے متعلق نازل ہوئی ہے تو جو اس پر قابو پائے جانے سے پہلے توبہ کرلے تو ایسا نہ ہوگا کہ اس کے ذمہ سے حد ساقط ہوجائے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المحاربة ٧ (٤٠٥١) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٥١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : سنن نسائی میں یہاں عبارت اس طرح ہے : فمن تاب منهم قبل أن يقدر عليه لم يكن عليه سبيل، وليست هذه الآية للرجل المسلم، فمن قتل وأفسد في الأرض وحارب الله ورسوله ثم لحق بالکفار قبل أن يقدر عليه لم يمنعه ذلك أن يقام فيه الحد الذي أصابه۔ ٢ ؎ : یہ صرف ابن عباس (رض) کا مذہب ہے، جمہور علماء کی رائے اس کے خلاف ہے، نیز اس کے راوی علی بن حسین کے بارے میں کلام ہے، ان کا حافظہ کمزور تھا اس لئے انہیں وہم ہوجاتا تھا۔

【23】

حدشرعی کے دفع کے لئے سفارش کا حکم

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ قریش کو ایک مخزومی عورت جس نے چوری کی تھی کے معاملہ نے فکرمند کردیا، وہ کہنے لگے : اس عورت کے سلسلہ میں کون رسول اللہ ﷺ سے بات کرے گا ؟ لوگوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے چہیتے اسامہ بن زید (رض) کے سوا اور کس کو اس کی جرات ہوسکتی ہے ؟ چناچہ اسامہ (رض) نے آپ سے اس سلسلہ میں گفتگو کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسامہ ! کیا تم اللہ کے حدود میں سے ایک حد کے سلسلہ میں مجھ سے سفارش کرتے ہو ! پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا، آپ نے اس خطبہ میں فرمایا : تم سے پہلے کے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کیونکہ ان میں جب کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کسی کمزور سے یہ جرم سرزد ہوجاتا تو اس پر حد قائم کرتے، قسم اللہ کی اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ ڈالوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٨ (٢٦٤٨) ، الأنبیاء ٥٤ (٣٤٧٥) ، فضائل الصحابة ١٨ (٣٧٣٢) ، المغازي ٥٣ (٤٣٠٤) ، الحدود ١١ (٦٧٨٧) ، ١٢ (٦٧٨٨) ، ١٤ (٦٨٠٠) ، صحیح مسلم/الحدود ٢ (١٦٨٨) ، سنن الترمذی/الحدود ٦ (١٤٣٠) ، سنن النسائی/قطع السارق ٥ (٤٩٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٦ (٢٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٦/١٦٢) ، سنن الدارمی/الحدود ٥ (٢٣٤٨) (صحیح )

【24】

حدشرعی کے دفع کے لئے سفارش کا حکم

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک مخزومی عورت سامان مانگ کرلے جایا کرتی اور واپسی کے وقت اس کا انکار کردیا کرتی تھی، تو نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ اس کا ہاتھ کاٹ لیا جائے۔ اور معمر نے لیث جیسی روایت بیان کی اس میں ہے تو نبی اکرم ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹ لیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن وہب نے اس حدیث کو یونس سے، یونس نے زہری سے روایت کیا، اور اس میں ویسے ہی ہے جیسے لیث نے کہا ہے کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ کے عہد میں فتح مکہ کے سال چوری کی۔ اور اسے لیث نے یونس سے، یونس نے ابن شہاب سے اسی سند سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ اس عورت نے (کوئی چیز) منگنی (مانگ کر) لی تھی (پھر وہ مکر گئی تھی) ۔ اور اسے مسعود بن اسود نے نبی اکرم ﷺ سے اسی حدیث کے مثل روایت کیا ہے اس میں یہ ہے کہ اس نے نبی اکرم ﷺ کے گھر سے ایک چادر چرائی تھی۔ اور ابوزبیر نے جابر سے اسے یوں روایت کیا ہے کہ ایک عورت نے چوری کی، پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی زینب کی پناہ لی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٢ (١٦٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٦٢) ، ویأتی برقم (٤٣٩٧) (صحیح)

【25】

حدشرعی کے دفع کے لئے سفارش کا حکم

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صاحب حیثیت اور محترم وبا وقار لوگوں کی لغزشوں کو معاف کردیا کرو سوائے حدود کے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٧٩١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٦/١٨١) (صحیح )

【26】

حاکم تک جرم کا مقدمہ پہنچنے سے پہلے پہلے اسے معاف کردیا جائے

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حدود کو آپس میں نظر انداز کرو، جب حد میں سے کوئی چیز میرے پاس پہنچ گئی تو وہ واجب ہوگئی (اسے معاف نہیں کیا جاسکتا) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قطع السارق ٥ (٤٨٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٤٧) (صحیح )

【27】

جن لوگوں پر حد واجب ہو ان کے جرم کو چھپانا چاہیے

نعیم بن ہزال اسلمی (رض) روایت کرتے ہیں کہ ماعز (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کے پاس چار دفعہ زنا کا اقرار کیا، تو آپ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا، اور ہزال (جس نے ان سے اقرار کے لیے کہا تھا) سے کہا : اگر تم اسے اپنے کپڑے ڈال کر چھپالیتے تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہوتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٦٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٥/٢١٧) (ضعیف )

【28】

جن لوگوں پر حد واجب ہو ان کے جرم کو چھپانا چاہیے

ابن المنکدر سے روایت ہے کہ ہزال (رض) نے ماعز (رض) سے کہا تھا کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس جائیں اور آپ کو بتادیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٢٩) (ضعیف) (ابن المنکدر تابعی ہیں، اس لئے ارسال کی وجہ سے حدیث ضعیف ہے )

【29】

جن لوگوں پر حد واجب ہو ان کے جرم کو چھپانا چاہیے

وائل (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں نماز پڑھنے کے ارادہ سے نکلی تو اس سے ایک مرد ملا اور اسے دبوچ لیا، اور اس سے اپنی خواہش پوری کی تو وہ چلائی، وہ جا چکا تھا، اتنے میں اس کے پاس سے ایک اور شخص گزرا تو وہ کہنے لگی کہ اس (فلاں) نے میرے ساتھ ایسا ایسا کیا ہے، اتنے میں مہاجرین کی ایک جماعت بھی آگئی ان سے بھی اس نے یہی کہا کہ اس نے اس کے ساتھ ایسا ایسا کیا ہے، تو وہ سب گئے اور اس شخص کو پکڑا جس کے متعلق اس نے کہا تھا کہ اس نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے، اور اسے لے کر آئے، تو اس نے کہا : ہاں اسی نے کیا ہے، چناچہ وہ لوگ اسے لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، تو آپ ﷺ نے اس کے سلسلہ میں حکم دیا (کہ اس پر حد جاری کی جائے) یہ دیکھ کر اصل شخص جس نے اس سے صحبت کی تھی کھڑا ہوگیا، اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! فی الواقع یہ کام میں نے کیا ہے، تو آپ ﷺ نے اس عورت سے فرمایا : تم جاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بخش دیا (کیونکہ یہ تیری رضا مندی سے نہیں ہوا تھا) اور اس آدمی سے بھلی بات کہی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مراد وہ آدمی ہے (ناحق) جو پکڑا گیا تھا، اور اس آدمی کے متعلق جس نے زنا کیا تھا فرمایا : اس کو رجم کر دو پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ سارے مدینہ کے لوگ ایسی توبہ کریں تو ان کی طرف سے وہ قبول ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحدود ٢٢ (١٤٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٦/٣٩٩) (حسن )

【30】

حد کے ساقط ہونے کے لئے حاکم کی تلقین

ابوامیہ مخزومی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک چور لایا گیا جس نے چوری کا اعتراف کرلیا تھا، لیکن اس کے پاس کوئی سامان نہیں پایا گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : میں نہیں سمجھتا کہ تم نے چوری کی ہے اس نے کہا : کیوں نہیں، ضرور چرایا ہے، اسی طرح اس نے آپ سے دو یا تین بار دہرایا، پھر آپ ﷺ نے اس پر حد جاری کرنے کا حکم فرمایا، تو اس کا ہاتھ کاٹ لیا گیا، اور اسے لایا گیا، تو آپ نے فرمایا : اللہ سے مغفرت طلب کرو، اور اس سے توبہ کرو اس نے کہا : میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں، اور اس سے توبہ کرتا ہوں، تو آپ نے تین بار فرمایا : اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عمرو بن عاصم نے اسے ہمام سے، ہمام نے اسحاق بن عبداللہ سے، اسحاق نے ابوامیہ انصاری سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قطع السارق ٣ (٤٨٨١) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٩ (٢٥٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٩٣) (ضعیف )

【31】

کوئی حد کا اعتراف کرے لیکن اس کا نام نہ بتائے

ابوامامہ (رض) کا بیان ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں حد کا مرتکب ہوگیا ہوں تو آپ مجھ پر حد جاری کر دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا جس وقت تم آئے تو وضو کیا ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : جس وقت ہم نے نماز پڑھی تم کیا تو نے بھی نماز پڑھی ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اللہ نے تمہیں معاف کردیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/التوبة ٧ (٢٧٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٥/٢٥١، ٢٦٢، ٢٦٥) (صحیح )

【32】

تفتیش کی غرض سے مجرم کو مارنا پیٹنا

ازہر بن عبداللہ حرازی کا بیان ہے کہ کلاع کے کچھ لوگوں کا مال چرایا گیا تو انہوں نے کچھ کپڑا بننے والوں پر الزام لگایا اور انہیں صحابی رسول نعمان بن بشیر (رض) کے پاس لے کر آئے، تو آپ نے انہیں چند دنوں تک قید میں رکھا پھر چھوڑ دیا، پھر وہ سب نعمان (رض) کے پاس آئے، اور کہا کہ آپ نے انہیں بغیر مارے اور بغیر پوچھ تاچھ کئے چھوڑ دیا، نعمان (رض) نے کہا : تم کیا چاہتے ہو اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو میں ان کی پٹائی کرتا ہوں، اگر تمہارا سامان ان کے پاس نکلا تو ٹھیک ہے ورنہ اتنا ہی تمہاری پٹائی ہوگی جتنا ان کو مارا تھا، تو انہوں نے پوچھا : یہ آپ کا فیصلہ ہے ؟ نعمان (رض) نے کہا : نہیں، بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس قول سے نعمان (رض) نے ڈرا دیا، مطلب یہ ہے کہ مارنا پیٹنا اعتراف کے بعد ہی واجب ہوتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قطع السارق ٢ (٤٨٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٦١١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجرم پر جب شبہ ہو تو اس کو پکڑنا صحیح ہے ، مگر ناحق مار پیٹ سے اس سے اقبال جرم کرانا صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ سراسر ظلم ہے ، جیسا کہ آج کل میں لوگ کرتے ہیں۔

【33】

کتنے مال کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ چوتھائی دینار یا اس سے زائد میں (چور کا ہاتھ) کاٹتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ١٣ (٦٧٨٩) ، صحیح مسلم/الحدود ١ (١٦٨٤) ، سنن الترمذی/الحدود ١٦ (١٤٤٥) ، سنن النسائی/قطع السارق ٧ (٤٩٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٢ (٢٥٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٢٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحدود ٧ (٢٣) ، مسند احمد (٦/٣٦، ٨٠، ٨١، ١٠٤، ١٦٣، ٢٤٩، ٢٥٢) ، سنن الدارمی/الحدود ٤ (٢٣٤٦) (صحیح )

【34】

کتنے مال کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چور کا ہاتھ چوتھائی دینار، یا اس سے زائد میں کاٹا جائے ۔ احمد بن صالح کہتے ہیں : چور کا ہاتھ چوتھائی دینار یا اس سے زائد میں کٹے گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الحدود ١٣ (٦٧٩٠) ، صحیح مسلم/ الحدود ١ (١٦٨٤) ، سنن النسائی/ قطع السارق ٧ (٤٦٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٩٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ الحدود ٧ (٢٤) ، دی/ الحدود ٤ (٢٣٤٦) (صحیح )

【35】

کتنے مال کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ڈھال میں جس کی قیمت تین درہم تھی (چور کا ہاتھ) کاٹا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ١٣ (٦٧٩٥) ، صحیح مسلم/الحدود ١ (١٦٨٦) ، سنن النسائی/قطع السارق ٧ (٤٩١٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٣٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحدود ١٦ (١٤٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٢ (٢٥٨٤) ، موطا امام مالک/الحدود ٧ (٢١) ، مسند احمد ( ٢/٦، ٥٤، ٦٤، ٨٠، ١٤٣) ، سنن الدارمی/الحدود ٤ (٢٣٤٧) (صحیح )

【36】

کتنے مال کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا

عبداللہ بن عمر (رض) نے لوگوں سے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کا ہاتھ کاٹا جس نے عورتوں کے چبوترہ سے ایک ڈھال چرائی تھی جس کی قیمت تین درہم تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الحدود ١ (١٦٨٦) ، سنن النسائی/ قطع السارق ٧ (٤٩١٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٤٥) ، دی/ الحدود ٤ (٢٣٤٧) (صحیح) (اس میں عورتوں کے چبوترہ کا ذکر صحیح نہیں ہے )

【37】

کتنے مال کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کا ہاتھ ایک ڈھال کے (چرانے پر) کاٹا جس کی قیمت ایک دینار یا دس درہم تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قطع السارق ٧ (٤٩٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٨٤) (شاذ )

【38】

جن اشیاء کے چرانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا

محمد بن یحییٰ بن حبان سے روایت ہے کہ ایک غلام نے ایک کھجور کے باغ سے ایک شخص کے کھجور کا پودا چرا لیا اور اسے لے جا کر اپنے مالک کے باغ میں لگا دیا، پھر پودے کا مالک اپنا پودا ڈھونڈنے نکلا تو اسے (ایک باغ میں لگا) پایا تو اس نے مروان بن حکم سے جو اس وقت مدینہ کے حاکم تھے غلام کے خلاف شکایت کی مروان نے اس غلام کو قید کرلیا اور اس کا ہاتھ کاٹنا چاہا تو غلام کا مالک رافع بن خدیج (رض) کے پاس گیا، اور ان سے اس سلسلہ میں مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے اسے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : پھل اور جمار (کھجور کے درخت کے پیڑی کا گابھا) کی چوری میں ہاتھ نہیں کٹے گا تو اس شخص نے کہا : مروان نے میرے غلام کو پکڑ رکھا ہے وہ اس کا ہاتھ کاٹنا چاہتے ہیں میری خواہش ہے کہ آپ میرے ساتھ ان کے پاس چلیں اور اسے وہ بتائیں جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، تو رافع بن خدیج (رض) اس کے ساتھ چلے، اور مروان کے پاس آئے، اور ان سے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : پھل اور گابھا کے (چرانے میں) ہاتھ نہیں کٹے گا مروان نے یہ سنا تو اس غلام کو چھوڑ دینے کا حکم دے دیا، چناچہ اسے چھوڑ دیا گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : کثر کے معنیٰ جمار کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحدود ١٩ (١٤٤٩) ، سنن النسائی/قطع السارق ١٠ (٤٩٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٧ (٢٥٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٨١، ٣٥٨٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحدود ١١ (٣٢) ، مسند احمد ( ٣/٤٦٣، ٤٦٤، ٥/١٤٠، ١٤٢) ، سنن الدارمی/الحدود ٧ (٢٣٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جمار کھجور کے درخت کی پیڑی کے اندر سے نکلنے والا نرم جو چربی کے طرح سفید ہوتا ہے ، اور کھایا جاتا ہے۔

【39】

جن اشیاء کے چرانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا

اس سند سے بھی محمد بن یحییٰ بن حبان سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے مروان نے اسے کچھ کوڑے مار کر چھوڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٥٨١) (شاذ )

【40】

جن اشیاء کے چرانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے لٹکے ہوئے پھلوں کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا : جس ضرورت مند نے اسے کھالیا، اور جمع کر کے نہیں رکھا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، اور جو اس میں سے کچھ لے جائے تو اس پر اس کا دوگنا تاوان اور سزا ہوگی اور جو اسے کھلیان میں جمع کئے جانے کے بعد چرائے اور وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ رہا ہو تو پھر اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٥٤ (١٢٨٩) ، سنن النسائی/قطع السارق ٩ (٤٩٦١) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٨ (٢٥٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٢/١٨٦) (حسن )

【41】

کوئی چیز اچکنے اور امانت میں خیانت کرنے پر ہاتھ کاٹنے کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اعلانیہ زبردستی کسی کا مال لے کر بھاگ جانے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ١ ؎، اور جو اعلانیہ کسی کا مال لوٹ لے وہ ہم میں سے نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحدود ١٨ (١٤٤٨) ، سنن النسائی/قطع السارق ١٠ (٤٩٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٦ (٢٥٩١) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٨٠) ، سنن الدارمی/الحدود ٨ (٢٣٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : زبردستی کسی کا مال چھیننا اگرچہ چرانے سے زیادہ قبیح فعل ہے، لیکن اس پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، کیونکہ اس پر سرقہ (چرانے) کا اطلاق نہیں ہوتا۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے چور کا ہاتھ کاٹنا فرض کیا ہے، لیکن چھیننے جھپٹنے، اور غصب وغیرہ پر یہ حکم نہیں دیا اس لئے کہ چوری کے مقابلہ میں یہ چیزیں کم واقع ہوتی ہیں، اور ذمہ داروں سے شکایت کر کے اس طرح کی چیزوں کو لوٹایا جاسکتا ہے، اور ان کے خلاف دلائل دینا چوری کے برعکس آسان ہے، اس وجہ سے چوری کا معاملہ بڑا ہے، اور اس کی سزا سخت ہے، تاکہ اس سے باز آجانے میں یہ زیادہ موثر ہو۔ (ملاحظہ ہو : عون المعبود ١٢ ؍٣٩ ) اور اسی سند سے مروی ہے جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امانت میں خیانت کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٠) (صحیح )

【42】

None

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امانت میں خیانت کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔

【43】

کوئی چیز اچکنے اور امانت میں خیانت کرنے پر ہاتھ کاٹنے کا بیان

جابر (رض) نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں اس میں اتنا اضافہ ہے اور نہ اچکے کا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٣٩١) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٠) (صحیح )

【44】

جو شخص کسی محفوظ مقام سے چوری کرے

صفوان بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ میں مسجد میں سویا ہوا تھا، میرے اوپر میری ایک اونی چادر پڑی تھی جس کی قیمت تیس درہم تھی، اتنے میں ایک شخص آیا اور اسے مجھ سے چھین کرلے کر بھاگا، لیکن وہ پکڑ لیا گیا، اور اسے نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا، تو آپ ﷺ نے اس کے متعلق حکم دیا کہ اس کا ہاتھ کاٹ لیا جائے، تو میں آپ کے پاس آیا اور عرض کیا : کیا تیس درہم کی وجہ سے آپ اس کا ہاتھ کاٹ ڈالیں گے ؟ میں اسے اس کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں، اور اس کی قیمت اس پر ادھار چھوڑ دیتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس لانے سے پہلے ہی ایسے ایسے کیوں نہیں کرلیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے زائدہ نے سماک سے، سماک نے جعید بن حجیر سے روایت کیا ہے، اس میں ہے : صفوان سو گئے تھے اتنے میں چور آیا ۔ اور طاؤس و مجاہد نے اس کو یوں روایت کیا ہے کہ وہ سوئے تھے اتنے میں ایک چور آیا، اور ان کے سر کے نیچے سے چادر چرا لی۔ اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اسے یوں روایت کیا ہے کہ اس نے اسے ان کے سر کے نیچے سے کھینچا، تو وہ جاگ گئے، اور چلائے، اور وہ پکڑ لیا گیا۔ اور زہری نے صفوان بن عبداللہ سے اسے یوں روایت کیا ہے کہ وہ مسجد میں سوئے اور انہوں نے اپنی چادر کو تکیہ بنا لیا، اتنے میں ایک چور آیا، اور اس نے ان کی چادر چرا لی، تو اسے پکڑ لیا گیا، اور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قطع السارق ٤ (٤٨٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٨ (٢٥٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠١، ٦/٤٦٥، ٤٦٦) (صحیح )

【45】

عاریتاً چیز لے کر مکر جانے والے کا ہاتھ کاٹنے کا حکم

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت لوگوں سے چیزیں منگنی (مانگ کر) لے کر مکر جایا کرتی تھی، تو نبی اکرم ﷺ نے اس کے متعلق حکم دیا تو اس کا ہاتھ کاٹ لیا گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے جویریہ نے نافع سے، نافع نے ابن عمر سے یا صفیہ بنت ابی عبید سے روایت کیا ہے، اس میں یہ اضافہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے، اور آپ نے تین بار فرمایا : کیا کوئی عورت ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے سامنے توبہ کرے ؟ وہ وہاں موجود تھی لیکن وہ نہ کھڑی ہوئی اور نہ کچھ بولی ۔ اور اسے ابن غنج نے نافع سے، نافع نے صفیہ بنت ابی عبید سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ آپ نے اس کے خلاف گواہی دی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قطع السارق ٥ (٤٩٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٢/١٥١) (صحیح )

【46】

عاریتاً چیز لے کر مکر جانے والے کا ہاتھ کاٹنے کا حکم

ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عروہ بیان کرتے تھے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا ہے کہ ایک عورت نے جسے کوئی نہیں جانتا تھا چند معروف لوگوں کی شہادت اور ذمہ داری پر ایک زیور منگنی لی اور اسے بیچ کر کھا گئی تو اسے پکڑ کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں لایا گیا، تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، یہ وہی عورت ہے جس کے سلسلہ میں اسامہ بن زید (رض) نے سفارش کی تھی، اور اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کو جو فرمانا تھا فرمایا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : * تخريج : صحیح البخاری/الشہادات ٨ (٢٦٤٨) ، الحدود ١٥ (٦٨٠٠) ، صحیح مسلم/الحدود ٢ (١٦٨٨) ، سنن النسائی/قطع السارق ٥ (٤٩٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٦/١٦٢) (صحیح )

【47】

عاریتاً چیز لے کر مکر جانے والے کا ہاتھ کاٹنے کا حکم

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت سامان منگنی (مانگ کر) لیتی اور اس سے مکر جایا کرتی تھی، تو نبی اکرم ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ معمر نے اسی طرح کی روایت بیان کی جیسے قتیبہ نے لیث سے، لیث نے ابن شہاب سے بیان کی ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹ لیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٣٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٤٣) (صحیح )

【48】

مجنون چوری کرلے یا کوئی حد والا چوری کرلے

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین شخصوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے، سوئے ہوئے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے، دیوانہ سے یہاں تک کہ اسے عقل آجائے، اور بچہ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٢١ (٣٤٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٥ (٢٠٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٠٠، ١٠١، ١٤٤) ، دی/ الحدود ١٣ (٢٣٤٣) (صحیح )

【49】

مجنون چوری کرلے یا کوئی حد والا چوری کرلے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) کے پاس ایک پاگل عورت لائی گئی جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا، آپ نے اس کے سلسلہ میں کچھ لوگوں سے مشورہ کیا، پھر آپ نے اسے رجم کئے جانے کا حکم دے دیا، تو اسے لے کر لوگ علی بن ابی طالب (رض) کے پاس سے گزرے تو انہوں نے لوگوں سے پوچھا : کیا معاملہ ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ ایک پاگل عورت ہے جس نے زنا کا ارتکاب کیا ہے، عمر نے اسے رجم کئے جانے کا حکم دیا ہے، تو علی (رض) نے کہا : اسے واپس لے چلو، پھر وہ عمر (رض) کے پاس آئے اور کہا : امیر المؤمنین ! کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ قلم تین شخصوں سے اٹھا لیا گیا ہے : دیوانہ سے یہاں تک کہ اسے عقل آجائے، سوئے ہوئے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے، اور بچہ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے، کہا : کیوں نہیں ؟ ضرور معلوم ہے، تو بولے : پھر یہ کیوں رجم کی جا رہی ہے ؟ بولے : کوئی بات نہیں، تو علی (رض) نے کہا : پھر اسے چھوڑیئے، تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا، اور لگے اللہ اکبر کہنے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠١٩٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/ الحدود ١ (عقیب ١٤٢٣) ، مسند احمد (١/١٥٥، ١٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کہ اللہ نے انہیں اس غلطی سے بچا لیا۔

【50】

مجنون چوری کرلے یا کوئی حد والا چوری کرلے

اس سند سے اعمش سے اسی جیسی حدیث مروی ہے اس میں بھی حتى يعقل ہے اور عن المجنون حتى يبرأ کے بجائے حتى يفيق ہے، اور فجعل يكبر کے بجائے فجعل عمر يكبر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠١٩٦) (صحیح )

【51】

مجنون چوری کرلے یا کوئی حد والا چوری کرلے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اسے علی بن ابی طالب (رض) کے پاس سے گزارا گیا، آگے اسی طرح جیسے عثمان بن ابی شیبہ کی روایت کا مفہوم ہے، اس میں ہے : کیا آپ کو یاد نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : قلم تین آدمیوں سے اٹھا لیا گیا ہے : مجنون سے جس کی عقل جاتی رہے یہاں تک کہ صحت یاب ہوجائے، سوئے ہوئے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے، بچے سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے تو عمر (رض) بولے : تم نے سچ کہا، پھر انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٣٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٩٦) (صحیح )

【52】

مجنون چوری کرلے یا کوئی حد والا چوری کرلے

ابوظبیان جنی کہتے ہیں کہ عمر (رض) کے پاس ایک عورت لائی گئی جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا، تو انہوں نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، علی (رض) کا وہاں سے گزر ہوا، انہوں نے اسے پکڑا اور چھوڑ دیا، تو عمر کو اس کی خبر دی گئی تو انہوں نے کہا : علی (رض) کو میرے پاس بلاؤ، چناچہ علی (رض) آئے اور کہنے لگے : امیر المؤمنین ! آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : قلم تین شخصوں سے اٹھا لیا گیا ہے : بچہ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے، سوئے ہوئے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے، اور دیوانہ سے یہاں تک کہ وہ اچھا ہوجائے اور یہ تو دیوانی اور پاگل ہے، فلاں قوم کی ہے، ہوسکتا ہے اس کے پاس جو آیا ہو اس حالت میں آیا ہو کہ وہ دیوانگی کی شدت میں مبتلاء رہی ہو، تو عمر (رض) نے کہا : مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس وقت دیوانی تھی، اس پر علی (رض) نے کہا : مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ نہیں تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠١٩٦، ١٠٠٧٨) (صحیح) دون قولہ : لعل الذی سے آخر تک ثابت نہیں ہے

【53】

مجنون چوری کرلے یا کوئی حد والا چوری کرلے

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قلم تین آدمیوں سے اٹھا لیا گیا ہے : سوئے ہوئے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے، بچے سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے، اور دیوانے سے یہاں تک کہ اسے عقل آجائے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن جریج نے قاسم بن یزید سے انہوں نے علی (رض) سے، علی (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کیا ہے، اور اس میں کھوسٹ بوڑھے کا اضافہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٢٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ١/١١٦، ١٤٠) (صحیح )

【54】

نابالغ لڑکا اگر حد لگنے والا جرم کرے تو کیا حکم ہے؟

عطیہ قرظی کہتے ہیں کہ بنی قریظہ کے قیدیوں میں میں بھی تھا تو لوگ دیکھتے تھے جس کے زیر ناف کے بال اگے ہوتے انہیں قتل کردیتے تھے اور جن کے بال نہیں اگے تھے انہیں قتل نہیں کرتے، تو میں ان لوگوں میں سے تھا جن کے بال نہیں اگے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ٢٩ (١٥٨٤) ، سنن النسائی/الطلاق ٢٠ (٣٤٦٠) ، قطع السارق ١٤ (٤٩٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٤ (٢٥٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٤/٣١٠، ٣٨٣، ٥/٣١٢، ٣٨٣) (صحیح )

【55】

نابالغ لڑکا اگر حد لگنے والا جرم کرے تو کیا حکم ہے؟

عبدالملک بن عمیر سے بھی یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے انہوں نے میرے زیر ناف کا حصہ کھولا تو دیکھا کہ وہ اگا نہیں تھا تو مجھے قیدی بنا لیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٤) (صحیح )

【56】

نابالغ لڑکا اگر حد لگنے والا جرم کرے تو کیا حکم ہے؟

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے غزوہ احد کے دن پیش کئے گئے تو ان کی عمر چودہ سال کی تھی آپ نے انہیں جنگ میں شمولیت کی اجازت نہیں دی، اور غزوہ خندق میں پیش ہوئے تو پندرہ سال کے تھے تو آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٩٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٨١٥٣) (صحیح )

【57】

نابالغ لڑکا اگر حد لگنے والا جرم کرے تو کیا حکم ہے؟

نافع کہتے ہیں اس حدیث کو میں نے عمر بن عبدالعزیز سے بیان کیا تو انہوں نے کہا : یہی بالغ اور نابالغ کی حد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الإمارة ٢٣ (١٨٦٨) ، انظر حدیث رقم : (٢٩٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٢٣) (صحیح )

【58】

نابالغ لڑکا اگر حد لگنے والا جرم کرے تو کیا حکم ہے؟

جنادہ بن ابی امیہ کہتے ہیں کہ ہم بسر بن ارطاۃ کے ساتھ سمندری سفر پر تھے کہ ان کے پاس ایک چور لایا گیا جس کا نام مصدر تھا اس نے ایک اونٹ چرایا تھا تو آپ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : سفر میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اگر آپ کا یہ فرمان نہ ہوتا تو میں ضرور اسے کاٹ ڈالتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحدود ٢٠ (١٤٥٠) ، سنن النسائی/قطع السارق ١٣ (٤٩٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٠١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨١) (صحیح )

【59】

کفن چور کا ہاتھ کاٹنے کا بیان

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوذر ! میں نے کہا : حاضر ہوں، اور حکم بجا لانے کے لیے تیار ہوں، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب لوگوں کو موت پہنچے گی اور گھر یعنی قبر ایک خادم کے بدلہ میں خریدی جائیگی ؟ میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے، یا جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہو، آپ ﷺ نے فرمایا : صبر کو لازم پکڑنا یا فرمایا : اس دن صبر کرنا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حماد بن ابی سلیمان کہتے ہیں : کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ میت کے گھر میں گھسا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٢٦١) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٤٧) (صحیح )

【60】

مسلسل (بار بار) چوری کرنے والے کا حکم

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک چور لایا گیا، آپ نے فرمایا : اسے قتل کر دو لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس نے صرف چوری کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹ دو تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا، پھر اسی شخص کو دوسری بار لایا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے قتل کر دو لوگوں نے پھر یہی کہا : اللہ کے رسول ! اس نے صرف چوری ہی کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا اس کا ہاتھ کاٹ دو تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا، پھر وہی شخص تیسری بار لایا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو قتل کر دو لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس نے صرف چوری ہی تو کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا اس کا ایک پیر کاٹ دو پھر اسے پانچویں بار لایا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے قتل کر دو ۔ جابر (رض) کہتے ہیں : ہم اسے لے گئے اور ہم نے اسے قتل کردیا، اور گھسیٹ کر اسے ایک کنویں میں ڈال دیا، اور اس پر پتھر مارے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قطع السارق ١٢ (٤٩٨١) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٨٢) (ضعیف) (اس کی سند میں مصعب کی نسائی نے تضعیف کی ہے، اور حدیث کو منکر کہا ہے، ابن حجر کہتے ہیں کہ اس بارے میں مجھے کسی سے صحیح حدیث کا علم نہیں ہے، ملاحظہ ہو : التلخیص الحبیر : ٢٠٨٨، شیخ البانی نے اس کو حسن کہا ہے : صحیح ابی داود ٣ ؍ ٥٨ )

【61】

چور کا ہاتھ کاٹ کر اس کے گلے میں لٹکا دیا جائے گا

عبدالرحمٰن بن محیریز کہتے ہیں کہ میں نے فضالہ بن عبید سے چور کا ہاتھ کاٹ کر اس کے گلے میں لٹکانے کے متعلق پوچھا کہ کیا یہ مسنون ہے ؟ تو آپ نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چور لایا گیا تو اس کا ہاتھ کاٹا گیا پھر آپ نے اس کے متعلق حکم دیا تو اسے اس کے گلے میں لٹکا دیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحدود ١٧ (١٤٤٧) ، سنن النسائی/قطع السارق ١٥ (٤٩٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٣ (٢٥٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٦/١٩) (ضعیف) (سند میں حجاج بن ارطاة ضعیف اور عبدالرحمن بن محیریز مجہول ہیں )

【62】

چور کا ہاتھ کاٹ کر اس کے گلے میں لٹکا دیا جائے گا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب غلام چوری کرے تو اسے بیچ ڈالو اگرچہ ایک نش ١ ؎ میں ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قطع السارق ١٣ (٤٩٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٥ (٢٥٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٧٩) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : نش کہتے ہیں نصف کو یعنی نصف اوقیہ میں یا جو غلام کی قیمت ہو اس کے نصف میں۔

【63】

سنگسار کرنے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : واللاتي يأتين الفاحشة من نسائكم فاستشهدوا عليهن أربعة منکم فإن شهدوا فأمسكوهن في البيوت حتى يتوفاهن الموت أو يجعل الله لهن سبيلا تمہاری عورتوں میں سے جو بےحیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو، اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کر دے یا اللہ ان کے لیے کوئی اور راستہ نکال دے (سورۃ النساء : ١٥) اور مرد کا ذکر عورت کے بعد کیا، پھر ان دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیا فرمایا : واللذان يأتيانها منکم فآذوهما فإن تابا وأصلحا فأعرضوا عنهما تم میں دونوں جو ایسا کرلیں انہیں ایذا دو اور اگر وہ توبہ اور اصلاح کرلیں تو ان سے منہ پھیر لو (سورۃ النساء : ١٦) ، پھر یہ جَلْد والی آیت الزانية والزاني فاجلدوا کل واحد منهما مائة جلدة زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد دونوں کو سو سو کوڑے مارو (سورۃ النور : ٢) منسوخ کردی گئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٢٦٧) (حسن الإسناد )

【64】

سنگسار کرنے کا بیان

مجاہد کہتے ہیں کہ سبیل سے مراد حد ہے۔ سفیان کہتے ہیں : فآذوهما سے مراد کنوارا مرد اور کنواری عورت ہے، اور فأمسكوهن في البيوت سے مراد غیر کنواری عورتیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٢٦٧) (حسن )

【65】

سنگسار کرنے کا بیان

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھ سے سیکھ لو، مجھ سے سیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے راہ نکال دی ہے غیر کنوارہ مرد غیر کنواری عورت کے ساتھ زنا کرے تو سو کوڑے اور رجم ہے اور کنوارا مرد کنواری عورت کے ساتھ زنا کرے تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٣ (١٦٩٠) ، سنن الترمذی/الحدود ٨ (١٤٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٧ (٢٥٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٣/٤٧٥، ٥/٣١٣، ٣١٧، ٣١٨، ٣٢٠) ، سنن الدارمی/الحدود ١٩ (٢٣٧٢) (صحیح )

【66】

سنگسار کرنے کا بیان

اس طریق سے بھی حسن سے یحییٰ والی سند ہی سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے (جب غیر کنوارا مرد غیر کنواری عورت کے ساتھ زنا کرے تو) سو کوڑے اور رجم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٨٣) (صحیح ) عبادہ بن صامت (رض) نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں اس میں ہے کہ کچھ لوگوں نے سعد بن عبادہ سے کہا : اے ابوثابت ! حدود نازل ہوچکے ہیں اگر آپ اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائیں تو کیا کریں، انہوں نے کہا : ان دونوں کا کام تلوار سے تمام کر دوں گا، کیا میں چار گواہ جمع کرنے جاؤں گا تب تک تو وہ اپنا کام پورا کرچکے گا، چناچہ وہ چلے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے اور ان لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ نے ابوثابت کو نہیں سنا وہ ایسا ایسا کہہ رہے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ازروئے گواہ تلوار ہی کافی ہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، نہیں، اسے قتل مت کرنا کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ غصہ ور، اور غیرت مند پیچھے پڑ کر (بغیر اس کی تحقیق کئے کہ اس سے زنا سرزد ہوا ہے یا نہیں محض گمان ہی پر) اسے قتل نہ کر ڈالیں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کا ابتدائی حصہ وکیع نے فضل بن دلہم سے، فضل نے حسن سے، حسن نے قبیصہ بن حریث سے، قبیصہ نے سلمہ بن محبق سے سلمہ نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کیا ہے، یہ سند جس کا ذکر وکیع نے کیا ہے ابن محبق والی روایت کی سند ہے جس میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی سے مجامعت کرلی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : فضل بن دلہم حافظ حدیث نہیں تھے، وہ واسط میں ایک قصاب تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٠٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٣/٤٧٦) (ضعیف )

【67】

None

کچھ لوگوں نے سعد بن عبادہ سے کہا: اے ابوثابت! حدود نازل ہو چکے ہیں اگر آپ اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائیں تو کیا کریں، انہوں نے کہا: ان دونوں کا کام تلوار سے تمام کر دوں گا، کیا میں چار گواہ جمع کرنے جاؤں گا تب تک تو وہ اپنا کام پورا کر چکے گا، چنانچہ وہ چلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور ان لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے ابوثابت کو نہیں سنا وہ ایسا ایسا کہہ رہے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ازروئے گواہ تلوار ہی کافی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، نہیں، اسے قتل مت کرنا کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ غصہ ور، اور غیرت مند پیچھے پڑ کر ( بغیر اس کی تحقیق کئے کہ اس سے زنا سرزد ہوا ہے یا نہیں محض گمان ہی پر ) اسے قتل نہ کر ڈالیں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کا ابتدائی حصہ وکیع نے فضل بن دلہم سے، فضل نے حسن سے، حسن نے قبیصہ بن حریث سے، قبیصہ نے سلمہ بن محبق سے سلمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے، یہ سند جس کا ذکر وکیع نے کیا ہے ابن محبق والی روایت کی سند ہے جس میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی سے مجامعت کر لی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: فضل بن دلہم حافظ حدیث نہیں تھے، وہ واسط میں ایک قصاب تھے۔

【68】

سنگسار کرنے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے خطبہ دیا اس میں آپ نے کہا : اللہ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی، تو جو آیتیں آپ پر نازل ہوئیں ان میں آیت رجم بھی ہے، ہم نے اسے پڑھا، اور یاد رکھا، خود رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا، آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا، اور مجھے اندیشہ ہے کہ اگر زیادہ عرصہ گزر جائے تو کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ ہم اللہ کی کتاب میں آیت رجم نہیں پاتے، تو وہ اس فریضہ کو جسے اللہ نے نازل فرمایا ہے چھوڑ کر گمراہ ہوجائے، لہٰذا مردوں اور عورتوں میں سے جو زنا کرے اسے رجم (سنگسار) کرنا برحق ہے، جب وہ شادی شدہ ہو اور دلیل قائم ہوچکی ہو، یا حمل ہوجائے یا اعتراف کرے، اور قسم اللہ کی اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں زیادتی کی ہے تو میں اسے یعنی آیت رجم کو مصحف میں لکھ دیتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٣٠ (٦٨٢٩) ، صحیح مسلم/الحدود ٤ (١٦٩١) ، سنن الترمذی/الحدود ٧ (١٤٣٢) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٩ (٢٥٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٠٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحدود ١ (٨) ، مسند احمد (١/٢٣، ٢٤، ٤٠، ٤٧، ٥٥) ، سنن الدارمی/الحدود ١٦ (٢٣٦٨) (صحیح )

【69】

سنگسار کرنے کا بیان

نعیم بن ہزال بن یزید اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ میرے والد کی گود میں ماعز بن مالک یتیم تھے محلہ کی ایک لڑکی سے انہوں نے زنا کیا، ان سے میرے والد نے کہا : جاؤ جو تم نے کیا ہے رسول اللہ ﷺ کو بتادو ، ہوسکتا ہے وہ تمہارے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کریں، اس سے وہ یہ چاہتے تھے کہ ان کے لیے کوئی سبیل نکلے چناچہ وہ آپ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے زنا کرلیا ہے مجھ پر اللہ کی کتاب کو قائم کیجئے، آپ ﷺ نے ان سے اپنا چہرہ پھیرلیا، پھر وہ دوبارہ آئے اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے زنا کرلیا ہے، مجھ پر اللہ کی کتاب کو قائم کیجئے، یہاں تک کہ ایسے ہی چار بار انہوں نے کہا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : تم چار بار کہہ چکے کہ میں نے زنا کرلیا ہے تو یہ بتاؤ کہ کس سے کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : فلاں عورت سے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اس کے ساتھ سوئے تھے ؟ ماعز نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تم اس سے چمٹے تھے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، پھر آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تم نے اس سے جماع کیا تھا ؟ انہوں نے کہا : ہاں، تو آپ ﷺ نے انہیں رجم (سنگسار) کئے جانے کا حکم دیا، انہیں حرہ ١ ؎ میں لے جایا گیا، جب لوگ انہیں پتھر مارنے لگے تو وہ پتھروں کی اذیت سے گھبرا کے بھاگے، تو وہ عبداللہ بن انیس کے سامنے آگئے، ان کے ساتھی تھک چکے تھے، تو انہوں نے اونٹ کا کھر نکال کر انہیں مارا تو انہیں مار ہی ڈالا، پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور ان سے اسے بیان کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا ٢ ؎، شاید وہ توبہ کرتا اور اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبودواد، (تحفة الأشراف : ١١٦٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٥/٢١٧) (صحیح) آخری ٹکڑا : لعله أن يتوب ... صحیح نہیں ہے وضاحت : ١ ؎ : مدینہ کے قریب ایک سیاہ پتھریلی جگہ ہے اس وقت شہر میں داخل ہے۔ ط ٢ ؎ : کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اقرار سے مکر جاتا اور اس سزا سے بچ جاتا نیز آپ ﷺ کا قول هلا ترکتموه اس بات کی دلیل ہے کہ اقرار کرنے والا اگر بھاگنے لگ جائے تو اسے مارنا بند کردیا جائے گا، پھر اگر وہ بصراحت اپنے اقرار سے پھر جائے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا ورنہ رجم کردیا جائے گا یہی قول امام شافعی اور امام احمد کا ہے۔

【70】

سنگسار کرنے کا بیان

محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے ماعز بن مالک (رض) کے واقعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھ سے حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب نے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں : مجھے قبیلہ اسلم کے کچھ لوگوں نے جو تمہیں محبوب ہیں اور جنہیں میں متہم نہیں قرار دیتا بتایا ہے کہ فهلا ترکتموه رسول اللہ ﷺ کا قول ہے، حسن کہتے ہیں : میں نے یہ حدیث سمجھی نہ تھی، تو میں جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس آیا، اور ان سے کہا کہ قبیلہ اسلم کے کچھ لوگ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے پتھر پڑنے سے ماعز کی گھبراہٹ کا جب رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے ان سے فرمایا : تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا یہ بات میرے سمجھ میں نہیں آئی، تو جابر (رض) نے کہا : بھتیجے ! میں اس حدیث کا سب سے زیادہ جانکار ہوں، میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے انہیں رجم کیا جب ہم انہیں لے کر نکلے اور رجم کرنے لگے اور پتھر ان پر پڑنے لگا تو وہ چلائے اور کہنے لگے : لوگو ! مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس لے چلو، میری قوم نے مجھے مار ڈالا، ان لوگوں نے مجھے دھوکہ دیا ہے، انہوں نے مجھے یہ بتایا تھا کہ رسول اللہ ﷺ مجھے مار نہیں ڈالیں گے، لیکن ہم لوگوں نے انہیں جب تک مار نہیں ڈالا چھوڑا نہیں، پھر جب ہم لوٹ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا، میرے پاس لے آتے یہ آپ ﷺ نے اس لیے فرمایا تاکہ آپ ان سے مزید تحقیق کرلیتے، نہ اس لیے کہ آپ انہیں چھوڑ دیتے، اور حد قائم نہ کرتے، وہ کہتے ہیں : تو میں اس وقت حدیث کا مطلب سمجھ سکا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٢٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٣/٣٨١) (حسن )

【71】

سنگسار کرنے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ماعز بن مالک (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور انہوں نے عرض کیا کہ میں نے زنا کرلیا ہے، آپ نے ان سے منہ پھیرلیا، پھر انہوں نے کئی بار یہی بات دہرائی، ہر بار آپ ﷺ اپنا منہ پھیر لیتے تھے، پھر آپ نے ان کی قوم کے لوگوں سے پوچھا : کیا یہ دیوانہ تو نہیں ؟ لوگوں نے کہا : نہیں ایسی کوئی بات نہیں، پھر آپ ﷺ نے پوچھا : کیا واقعی تم نے ایسا کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : ہاں واقعی، تو آپ ﷺ نے انہیں سنگسار کئے جانے کا حکم دیا، تو انہیں لا کر سنگسار کردیا گیا، اور آپ نے ان پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٠٦٥) (صحیح )

【72】

سنگسار کرنے کا بیان

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ ماعز بن مالک کو جس وقت نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا، میں نے انہیں دیکھا کہ وہ ایک پست قد فربہ آدمی تھے، ان کے جسم پر چادر نہ تھی، انہوں نے اپنے خلاف خود ہی چار مرتبہ گواہیاں دیں کہ انہوں نے زنا کیا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہوسکتا ہے تم نے بوسہ لیا ہو ؟ انہوں نے کہا : نہیں، قسم اللہ کی اس رذیل ترین نے زنا کیا ہے، پھر آپ ﷺ نے انہیں رجم کیا، پھر خطبہ دیا، اور فرمایا : آگاہ رہو جب ہم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے چلے جاتے ہیں، اور ان میں سے کوئی ان خاندانوں باقی رہ جاتا ہے تو وہ ویسے ہی پھنکارتا ہے جیسے بکرا جفتی کے وقت بکری پر پھنکارتا ہے، پھر وہ ان عورتوں میں سے کسی کو تھوڑا سامان (جیسے دودھ اور کھجور وغیرہ دے کر اس سے زنا کر بیٹھتا ہے) تو سن لو ! اگر اللہ ایسے کسی آدمی پر ہمیں قدرت بخشے گا تو میں اسے ان سے روکوں گا (یعنی سزا دوں گا رجم کی یا کوڑے کی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٢١٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٥/٨٦، ٨٧) (صحیح )

【73】

سنگسار کرنے کا بیان

سماک کہتے ہیں میں نے جابر بن سمرہ (رض) سے یہی حدیث سنی ہے، اور پہلی روایت زیادہ کامل ہے، اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے ماعز کے اقرار کو دو بار رد کیا، سماک کہتے ہیں : میں نے اسے سعید بن جبیر سے بیان کیا تو انہوں نے کہا : آپ نے ان کے اقرار کو چار بار رد کیا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٢١٨١) (صحیح )

【74】

سنگسار کرنے کا بیان

شعبہ کہتے ہیں میں نے سماک سے کثبہ کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیا ہے تو انہوں نے کہا : کثبہ تھوڑے دودھ کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٢٢٢) (صحیح )

【75】

سنگسار کرنے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ماعز بن مالک (رض) سے فرمایا : کیا تمہارے متعلق جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے صحیح ہے ؟ وہ بولے : میرے متعلق آپ کو کون سی بات معلوم ہوئی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم نے بنی فلاں کی باندی سے زنا کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، پھر چار بار اس کی گواہی دی، تو آپ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا، چناچہ وہ رجم کردیئے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٣) ، سنن الترمذی/الحدود ٤ (١٤٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٥١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ١/٢٤٥، ٣١٤، ٣٢٨) (صحیح )

【76】

سنگسار کرنے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ماعز بن مالک (رض) نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے، اور انہوں نے زنا کا دو بار اقرار کیا، تو آپ ﷺ نے انہیں بھگا دیا، وہ پھر آئے اور انہوں نے پھر دو بار زنا کا اقرار کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے اپنے خلاف چار بار گواہی دے دی، لے جاؤ اسے سنگسار کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٥٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣١٤) (صحیح )

【77】

سنگسار کرنے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ماعز بن مالک (رض) سے فرمایا : شاید تو نے بوسہ لیا ہوگا، یا ہاتھ سے چھوا ہوگا، یا دیکھا ہوگا ؟ انہوں نے کہا : نہیں، ایسا نہیں ہوا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر کیا تم نے اس سے جماع کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں، تو اس اقرار کے بعد آپ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : خ /الحدود ٢٨ (٦٨٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٧٦، ١٩١٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ١/٢٣٨، ٢٧٠) (صحیح )

【78】

سنگسار کرنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے اپنے خلاف چار بار گواہی دی کہ اس نے ایک عورت سے جو اس کے لیے حرام تھی زنا کرلیا ہے، ہر بار آپ ﷺ اپنا منہ اس کی طرف سے پھیر لیتے تھے، پانچویں بار آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : کیا تم نے اس سے جماع کیا ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : تیرا عضو اس کے عضو میں غائب ہوگیا بولا : جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : ایسے ہی جیسے سلائی سرمہ دانی میں، اور رسی کنویں میں داخل ہوجاتی ہے اس نے کہا : ہاں ایسے ہی، آپ ﷺ نے فرمایا : تجھے معلوم ہے زنا کیا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، میں نے اس سے حرام طور پر وہ کام کیا ہے، جو آدمی اپنی بیوی سے حلال طور پر کرتا ہے، آپ ﷺ نے کہا : اچھا، اب تیرا اس سے کیا مطلب ہے ؟ اس نے کہا : میں چاہتا ہوں آپ مجھے گناہ سے پاک کر دیجئیے، پھر آپ نے حکم دیا تو وہ رجم کردیا گیا، پھر آپ نے اس کے ساتھیوں میں سے دو شخصوں کو یہ کہتے سنا کہ اس شخص کو دیکھو، اللہ نے اس کی ستر پوشی کی، لیکن یہ خود اپنے آپ کو نہیں بچا سکا یہاں تک کہ پتھروں سے اسی طرح مارا گیا جیسے کتا مارا جاتا ہے، آپ ﷺ یہ سن کر خاموش رہے، اور تھوڑی دیر چلتے رہے، یہاں تک کہ ایک مرے ہوئے گدھے کی لاش پر سے گزرے جس کے پاؤں اٹھے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : فلاں اور فلاں کہاں ہیں ؟ وہ دونوں بولے : ہم حاضر ہیں اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : اترو اور اس گدھے کا گوشت کھاؤ ان دونوں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس کا گوشت کون کھائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے ابھی جو اپنے بھائی کی عیب جوئی کی ہے وہ اس کے کھانے سے زیادہ سخت ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ اس وقت جنت کی نہروں میں غوطے کھا رہا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٥٩٩) (ضعیف ) اس سند سے بھی ابوہریرہ سے ایسی ہی حدیث مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے کہ لوگوں میں اختلاف ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے ایک درخت سے باندھ دیا گیا تھا اور کچھ کا کہنا ہے کہ اسے (میدان میں) کھڑا کردیا گیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٥٩٩) (ضعیف )

【79】

None

اس میں اتنا اضافہ ہے کہ لوگوں میں اختلاف ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے ایک درخت سے باندھ دیا گیا تھا اور کچھ کا کہنا ہے کہ اسے ( میدان میں ) کھڑا کر دیا گیا تھا۔

【80】

سنگسار کرنے کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے زنا کا اقرار کیا، آپ ﷺ نے اس سے اپنا منہ پھیرلیا، پھر اس نے آ کر اعتراف کیا، آپ ﷺ نے پھر اس سے اپنا منہ پھیرلیا، یہاں تک کہ اس نے اپنے خلاف چار بار گواہیاں دیں، تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا : کیا تجھے جنون ہے ؟ اس نے کہا : ایسی کوئی بات نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تو شادی شدہ ہے اس نے کہا : ہاں، اس پر نبی اکرم ﷺ نے ان کے متعلق حکم دیا، تو انہیں عید گاہ میں رجم کردیا گیا، جب ان پر پتھروں کی بارش ہونے لگی تو وہ بھاگے، پھر پکڑ لیے گئے، اور پتھروں سے مارے گئے، یہاں تک کہ ان کی موت ہوگئی، پھر نبی اکرم ﷺ نے ان کی تعریف فرمائی اور ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : خ /الطلاق ١١ (٥٢٧٠) ، الحدود ٢١ (٦٨١٤) ، ٢٥ (٦٨٢٠) ، صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩١) ، سنن الترمذی/الحدود ٥ (١٤٢٩) ، ن /الجنائز ٦٣ (١٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٣١٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٣/٣٢٣) ، دي /الحدود ١٢ (٢٣٦١) (صحیح) إلا أن (خ) قال : وصلي علیہ وھي شاذة

【81】

سنگسار کرنے کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ نے ماعز بن مالک (رض) کے رجم کا حکم دیا تو ہم انہیں لے کر بقیع کی طرف چلے، قسم اللہ کی ! نہ ہم نے انہیں باندھا، نہ ہم نے ان کے لیے گڑھا کھودا، لیکن وہ خود کھڑے ہوگئے، ہم نے انہیں ہڈیوں، ڈھیلوں اور مٹی کے برتن کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں سے مار ا، تو وہ ادھر ادھر دوڑنے لگے، ہم بھی ان کے پیچھے دوڑے یہاں تک کہ وہ حرہ پتھریلی جگہ کی طرف آئے تو وہ کھڑے ہوگئے ہم نے انہیں حرہ کے بڑے بڑے پتھروں سے مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈے ہوگئے، تو نہ تو آپ نے ان کی مغفرت کے لیے دعا کی، اور نہ ہی انہیں برا کہا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٣١٣) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الحدود ١٤ (٢٣٦٥) (صحیح )

【82】

سنگسار کرنے کا بیان

ابونضرہ سے روایت ہے ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آگے اسی جیسی روایت ہے، اور پوری نہیں ہے اس میں ہے : لوگ اسے برا بھلا کہنے لگے، تو آپ نے انہیں منع فرمایا، پھر لوگ اس کی مغفرت کی دعا کرنے لگے تو آپ ﷺ نے انہیں روک دیا، اور فرمایا : وہ ایک شخص تھا جس نے گناہ کیا، اب اللہ اس سے سمجھ لے گا (چاہے گا تو معاف کر دے ورنہ اسے سزا دے گا تم کیوں دخل دیتے ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٣١) (ضعیف) (ابو نضرة منذر بن مالک بن قطعة تابعی ہیں، اور انہوں نے واسطہ ذکر نہیں کیا ہے، اس لئے حدیث مرسل و ضعیف ہے )

【83】

سنگسار کرنے کا بیان

بریدہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ماعز کا منہ سونگھا (اس خیال سے کہ کہیں اس نے شراب نہ پی ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٩٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٥/٣٤٧، ٣٤٨) ، سنن الدارمی/الحدود ١٤ (٢٣٦٦) (صحیح )

【84】

سنگسار کرنے کا بیان

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کا ذکر کیا کرتے تھے کہ غامدیہ ١ ؎ اور ماعز بن مالک (رض) دونوں اگر اقرار سے پھرجاتے، یا اقرار کے بعد پھر اقرار نہ کرتے تو آپ ان دونوں کو سزا نہ دیتے، آپ ﷺ نے ان دونوں کو اس وقت رجم کیا جب وہ چار چار بار اقرار کرچکے تھے (اور ان کے اقرار میں کسی طرح کا کوئی شک باقی نہیں رہ گیا تھا) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٩٤٨) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : قبیلہ غامد کی ایک عورت جسے زنا کی وجہ سے رجم کیا گیا تھا۔

【85】

سنگسار کرنے کا بیان

خالد بن لجلاج کا بیان ہے کہ ان کے والد الجلاج نے انہیں بتایا کہ وہ بیٹھے بازار میں کام کر رہے تھے اتنے میں ایک عورت ایک لڑکے کو لیے گزری تو لوگ اس کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے ان اٹھنے والوں میں میں بھی تھا، اور میں نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچا آپ اس سے پوچھ رہے تھے : اس بچہ کا باپ کون ہے ؟ وہ عورت چپ تھی، ایک نوجوان جو اس کے برابر میں تھا بولا : اللہ کے رسول ! میں اس کا باپ ہوں، آپ ﷺ پھر اس عورت کی طرف متوجہ ہوئے، اور پوچھا : اس بچے کا باپ کون ہے ؟ تو نوجوان نے پھر کہا : اللہ کے رسول ! میں اس کا باپ ہوں، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے اپنے اردگرد جو لوگ بیٹھے تھے ان میں سے کسی کی طرف دیکھا، آپ ان سے اس نوجوان کے متعلق دریافت فرما رہے تھے ؟ تو لوگوں نے کہا : ہم تو اسے نیک ہی جانتے ہیں، پھر نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا : کیا تم شادی شدہ ہو ؟ اس نے کہا : جی ہاں، تو آپ ﷺ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، چناچہ وہ رجم کردیا گیا، اس میں ہے کہ ہم اس کو لے کر نکلے اور ایک گڑھے میں اسے گاڑا پھر پتھروں سے اسے مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہوگیا، اتنے میں ایک شخص آیا، اور اس رجم کئے گئے شخص کے متعلق پوچھنے لگا، تو اسے لے کر ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور ہم نے کہا : یہ اس خبیث کے متعلق پوچھ رہا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے پھر پتا چلا کہ وہ اس کا باپ تھا ہم نے اس کے غسل اور کفن دفن میں اس کی مدد کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے اور اس پر نماز پڑھنے میں بھی (مدد کی) کہا یا نہیں یہ عبدہ کی روایت ہے، اور زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١١٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٣/٤٧٩) (حسن الإسناد )

【86】

ابن صیاد کا بیان

اس سند سے بھی الجلاج سے یہی روایت مرفوعاً آئی ہے اس میں اس حدیث کا کچھ حصہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١١٧١) (حسن الإسناد ) سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر اقرار کیا کہ اس نے ایک عورت سے جس کا اس نے آپ سے نام لیا، زنا کیا ہے، تو آپ ﷺ نے اس عورت کو بلوایا، اور اس کے بارے میں اس سے پوچھا تو اس نے اس بات سے انکار کیا کہ اس نے زنا کیا ہے، تو آپ نے اس مرد پر حد نافذ کی، اسے سو کوڑے لگائے اور عورت کو چھوڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٧٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٥/٣٣٩، ٣٤٠) ، ویأتی برقم (٤٤٦٦) (صحیح )

【87】

None

ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اقرار کیا کہ اس نے ایک عورت سے جس کا اس نے آپ سے نام لیا، زنا کیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بلوایا، اور اس کے بارے میں اس سے پوچھا تو اس نے اس بات سے انکار کیا کہ اس نے زنا کیا ہے، تو آپ نے اس مرد پر حد نافذ کی، اسے سو کوڑے لگائے اور عورت کو چھوڑ دیا۔

【88】

سنگسار کرنے کا بیان

جابر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت سے زنا کیا تو نبی اکرم ﷺ نے اس کے متعلق حکم دیا تو اسے حد میں کوڑے لگائے گئے پھر آپ کو بتایا گیا کہ وہ تو شادی شدہ تھا تو آپ نے حکم دیا کہ اسے رجم کردیا جائے چناچہ وہ رجم کردیا گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو محمد بن بکر برسانی نے ابن جریج سے جابر پر موقوفاً روایت کیا ہے، اور ابوعاصم نے ابن جریج سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے ابن وہب نے کیا ہے، اس میں انہوں نے نبی اکرم ﷺ کا ذکر نہیں کیا ہے اس میں ہے کہ ایک شخص نے زنا کیا، اس کے شادی شدہ ہونے کا علم نہیں تھا، تو اسے کوڑے مارے گئے، پھر پتہ چلا کہ وہ شادی شدہ ہے تو اسے رجم کردیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٨٣٢) (ضعیف )

【89】

ابن صیاد کا بیان

جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک عورت سے زنا کیا لیکن یہ پتہ نہیں چلا کہ وہ شادی شدہ ہے تو اسے کوڑے لگائے گئے، پھر معلوم ہوا کہ وہ شادی شدہ ہے تو اسے رجم کردیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٨٣٢) (ضعیف )

【90】

بنی جہینہ کی اس عورت کا بیان جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کا حکم دیا تھا

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی، اور اس نے عرض کیا کہ اس نے زنا کیا ہے، اور وہ حاملہ ہے تو نبی اکرم ﷺ نے اس کے ولی کو بلوایا، اور اس سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا، اور جب یہ حمل وضع کرچکے تو اسے لے کر آنا چناچہ جب وہ حمل وضع کرچکی تو وہ اسے لے کر آیا، نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا تو اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے، پھر آپ ﷺ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا تو اسے رجم کردیا گیا، پھر آپ نے لوگوں کو حکم دیا تو لوگوں نے اس کے جنازہ کی نماز پڑھی، عمر (رض) کہنے لگے : اللہ کے رسول ! ہم اس کی نماز جنازہ پڑھیں حالانکہ اس نے زنا کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ اہل مدینہ کے ستر آدمیوں میں تقسیم کردی جائے تو انہیں کافی ہوگی، کیا تم اس سے بہتر کوئی بات پاؤ گے کہ اس نے اپنی جان قربان کردی ؟ ۔ ابان کی روایت میں اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے تھے کے الفاظ نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٦) ، سنن الترمذی/الحدود ٩ (١٤٣٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٤ (١٩٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٩ (٢٥٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٧٩، ١٠٨٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤ /٤٢٠، ٤٣٥، ٤٣٧، ٤٤٠) ، دي /الحدود ١٨ (٢٣٧٠) (صحیح )

【91】

بنی جہینہ کی اس عورت کا بیان جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کا حکم دیا تھا

اوزاعی سے مروی ہے اس میں ہے فشکت عليها ثيابها کے معنی یہ ہیں کہ اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے تھے (تاکہ پتھر مارنے میں وہ نہ کھلیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨١) (صحیح )

【92】

بنی جہینہ کی اس عورت کا بیان جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کا حکم دیا تھا

بریدہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ غامد کی ایک عورت نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئی اور عرض کیا : میں نے زنا کرلیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : واپس جاؤ ، چناچہ وہ واپس چلی گئی، دوسرے دن وہ پھر آئی، اور کہنے لگی : شاید جیسے آپ نے ماعز بن مالک کو لوٹایا تھا، اسی طرح مجھے بھی لوٹا رہے ہیں، قسم اللہ کی میں تو حاملہ ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ واپس جاؤ چناچہ وہ پھر واپس چلی گئی، پھر تیسرے دن آئی تو آپ نے اس سے فرمایا : جاؤ واپس جاؤ بچہ پیدا ہوجائے پھر آنا چناچہ وہ چلی گئی، جب اس نے بچہ جن دیا تو بچہ کو لے کر پھر آئی، اور کہا : اسے میں جن چکی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ واپس جاؤ اور اسے دودھ پلاؤ یہاں تک کہ اس کا دودھ چھڑا دو دودھ چھڑا کر پھر وہ لڑکے کو لے کر آئی، اور بچہ کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جسے وہ کھا رہا تھا، تو بچہ کے متعلق آپ نے حکم دیا کہ اسے مسلمانوں میں سے کسی شخص کو دے دیا جائے، اور اس کے متعلق حکم دیا کہ اس کے لیے گڈھا کھودا جائے، اور حکم دیا کہ اسے رجم کردیا جائے، تو وہ رجم کردی گئی۔ خالد (رض) اسے رجم کرنے والوں میں سے تھے انہوں نے اسے ایک پتھر مارا تو اس کے خون کا ایک قطرہ ان کے رخسار پر آ کر گرا تو اسے برا بھلا کہنے لگے، ان سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : خالد ! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ ٹیکس اور چنگی وصول کرنے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو اس کی بھی بخشش ہوجاتی ، پھر آپ نے حکم دیا تو اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی اور اسے دفن کیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٩٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٥٤٧، ٣٤٨) ، سنن الدارمی/الحدود ١٤ (٢٣٦٦) (صحیح )

【93】

بنی جہینہ کی اس عورت کا بیان جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کا حکم دیا تھا

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک عورت کو رجم کرنا چاہا تو اس کے لیے ایک گڈھا سینے تک کھودا گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : غسانی کا کہنا ہے کہ جہینہ، غامد اور بارق تینوں ایک ہی قبیلہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٦٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٥/٣٦، ٤٢، ٤٣) (صحیح ) ابوداؤد کہتے ہیں مجھ سے یہ حدیث عبدالصمد بن عبدالوارث کے واسطہ سے بیان کی گئی ہے، زکریا بن سلیم نے اسی سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ ﷺ نے اسے چنے کے برابر ایک کنکری سے مارا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : مارو لیکن چہرے کو بچا کر مارنا پھر جب وہ مرگئی تو آپ نے اسے نکالا، پھر اس پر نماز پڑھی، اور توبہ کے سلسلہ میں ویسے ہی فرمایا جیسے بریدہ کی روایت میں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٦٨٤) (ضعیف )

【94】

بنی جہینہ کی اس عورت کا بیان جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کا حکم دیا تھا

ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی (رض) روایت کرتے ہیں کہ دو آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس جھگڑا لے گئے، ان میں سے ایک نے کہا : اللہ کے رسول ! ہمارے مابین اللہ کی کتاب کی روشنی میں فیصلہ فرما دیجئیے، اور دوسرے نے جو ان دونوں میں زیادہ سمجھ دار تھا کہا : ہاں، اللہ کے رسول ! ہمارے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ فرمائیے، لیکن پہلے مجھے کچھ کہنے کی اجازت دیجئیے، آپ نے فرمایا : اچھا کہو اس نے کہنا شروع کیا : میرا بیٹا اس کے یہاں عسیف یعنی مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کرلیا تو ان لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر رجم ہے، تو میں نے اسے اپنی سو بکریاں اور ایک لونڈی فدیئے میں دے دی، پھر میں نے اہل علم سے مسئلہ پوچھا، تو ان لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے، اور رجم اس کی بیوی پر ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو ! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں ضرور بالضرور تم دونوں کے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا، رہی تمہاری بکریاں اور تمہاری لونڈی تو یہ تمہیں واپس ملیں گی اور اس کے بیٹے کو آپ نے سو کوڑے لگوائے، اور اسے ایک سال کے لیے جلا وطن کردیا، اور انیس اسلمی کو حکم دیا کہ وہ اس دوسرے شخص کی بیوی کے پاس جائیں، اور اس سے پوچھیں اگر وہ اقرار کرے تو اسے رجم کردیں، چناچہ اس نے اقرار کرلیا، تو انہوں نے اسے رجم کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ١٣ (٢٣١٤) ، الصلح ٥ (٢٦٥٥) ، الشروط ٩ (٢٧٢٤) ، الأیمان ٣ (٦٦٣٣) ، الحدود ٣٠ (٦٨٢٧) ، ٣٤ (٦٨٣٥) ، ٣٨ (٦٨٥٩) ، ٤٦ (٦٨٦٠) ، الأحکام ٤٣ (٧١٩٣) ، الأحاد ١ (٧٢٥٨) ، صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٧) ، سنن الترمذی/الحدود ٨ (١٤٣٣) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٢١ (٥٤١٢) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٧ (٢٥٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٥٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحدود ١ (٦) ، مسند احمد ( ٤/١١٥، ١١٦) ، سنن الدارمی/الحدود ١٢ (٢٣٦٣) (صحیح )

【95】

None

دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے، ان میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے مابین اللہ کی کتاب کی روشنی میں فیصلہ فرما دیجئیے، اور دوسرے نے جو ان دونوں میں زیادہ سمجھ دار تھا کہا: ہاں، اللہ کے رسول! ہمارے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ فرمائیے، لیکن پہلے مجھے کچھ کہنے کی اجازت دیجئیے، آپ نے فرمایا: اچھا کہو اس نے کہنا شروع کیا: میرا بیٹا اس کے یہاں «عسیف» یعنی مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کر لیا تو ان لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر رجم ہے، تو میں نے اسے اپنی سو بکریاں اور ایک لونڈی فدیئے میں دے دی، پھر میں نے اہل علم سے مسئلہ پوچھا، تو ان لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے، اور رجم اس کی بیوی پر ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں ضرور بالضرور تم دونوں کے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا، رہی تمہاری بکریاں اور تمہاری لونڈی تو یہ تمہیں واپس ملیں گی اور اس کے بیٹے کو آپ نے سو کوڑے لگوائے، اور اسے ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا، اور انیس اسلمی کو حکم دیا کہ وہ اس دوسرے شخص کی بیوی کے پاس جائیں، اور اس سے پوچھیں اگر وہ اقرار کرے تو اسے رجم کر دیں، چنانچہ اس نے اقرار کر لیا، تو انہوں نے اسے رجم کر دیا۔

【96】

یہودیوں کو رجم کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ یہود نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ سے ذکر کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کرلیا ہے، تو ان سے رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : تم تورات میں زنا کے معاملہ میں کیا حکم پاتے ہو ؟ تو ان لوگوں نے کہا : ہم انہیں رسوا کرتے اور کوڑے لگاتے ہیں، تو عبداللہ بن سلام (رض) نے کہا : تم لوگ جھوٹ کہتے ہو، اس میں تو رجم کا حکم ہے، چناچہ وہ لوگ تورات لے کر آئے، اور اسے کھولا تو ان میں سے ایک نے آیت رجم پر اپنا ہاتھ رکھ لیا، پھر وہ اس کے پہلے اور بعد کی آیتیں پڑھنے لگا، تو عبداللہ بن سلام نے اس سے کہا : اپنا ہاتھ اٹھاؤ، اس نے اٹھایا تو وہیں آیت رجم ملی، تو وہ کہنے لگے : صحیح ہے اے محمد ! اس میں رجم کی آیت موجود ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کے رجم کا حکم دے دیا، چناچہ وہ دونوں رجم کردیے گئے۔ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں : میں نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ عورت کو پتھر سے بچانے کے لیے اس پر جھک جھک جایا کرتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦٠ (١٣٢٩) ، المناقب ٢٦ (٣٦٣٥) ، الحدود ٢٤ (٦٤٨) ، صحیح مسلم/الحدود ٦ (١٦٩٩) ، سنن الترمذی/الحدود ١٠ (١٤٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٠ (٢٥٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٠١٤، ٨٣٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٧/ ٦٣، ٧٦) ، موطا امام مالک/الحدود ١(١) ، سنن الدارمی/الحدود ١٥ (٢٣٦٧) (صحیح )

【97】

یہودیوں کو رجم کرنے کا بیان

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے لوگ ایک یہودی کو لے کر گزرے جس کو ہاتھ منہ کالا کر کے گھمایا جا رہا تھا، تو آپ ﷺ نے ان سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ ان کی کتاب میں زانی کی حد کیا ہے ؟ ان لوگوں نے آپ کو اپنے میں سے ایک شخص کی طرف اشارہ کر کے پوچھنے کے لیے کہا تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ تمہاری کتاب میں زانی کی حد کیا ہے ؟ تو اس نے کہا : رجم ہے، لیکن زنا کا جرم ہمارے معزز لوگوں میں عام ہوگیا، تو ہم نے یہ پسند نہیں کیا کہ معزز اور شریف آدمی کو چھوڑ دیا جائے اور جو ایسے نہ ہوں ان پر حد جاری کی جائے، تو ہم نے اس حکم ہی کو اپنے اوپر سے اٹھا لیا، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے رجم کا حکم دیا تو وہ رجم کردیا گیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے تیری کتاب میں سے اس حکم کو زندہ کیا ہے جس پر لوگوں نے عمل چھوڑ دیا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٦ (١٧٠٠) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١٠ (٢٣٢٧) ، الحدود ١٠ (٢٥٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٦، ٢٩٠، ٣٠٠) (صحیح )

【98】

یہودیوں کو رجم کرنے کا بیان

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے ایک یہودی گزارا گیا جس کے منہ پر سیاہی ملی گئی تھی، اسے کوڑے مارے گئے تھے تو آپ نے انہیں بلایا اور پوچھا : کیا تورات میں تم زانی کی یہی حد پاتے ہو ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں، پھر آپ نے ان کے علماء میں سے ایک شخص کو بلایا اور اس سے فرمایا : ہم تم سے اس اللہ کا جس نے تورات نازل کی ہے واسطہ دے کر پوچھتے ہیں، بتاؤ کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی حد پاتے ہو ؟ اس نے اللہ کا نام لے کر کہا : نہیں، اور اگر آپ مجھے اتنی بڑی قسم نہ دیتے تو میں آپ کو ہرگز نہ بتاتا، ہماری کتاب میں زانی کی حد رجم ہے، لیکن جب ہمارے معزز اور شریف لوگوں میں اس کا کثرت سے رواج ہوگیا تو جب ہم کسی معزز شخص کو اس جرم میں پکڑتے تھے تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور اگر کسی کمزور کو پکڑتے تو اس پر حد قائم کرتے تھے، پھر ہم نے کہا : آؤ ہم تم اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اسے شریف اور کم حیثیت دونوں پر جاری کریں گے، تو ہم نے منہ کالا کرنے اور کوڑے لگانے پر اتفاق کرلیا، اور رجم کو چھوڑ دیا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا ہے، جبکہ ان لوگوں نے اسے ختم کردیا تھا پھر آپ نے اسے رجم کا حکم دیا، چناچہ وہ رجم کردیا گیا، اس پر اللہ نے یہ آیت يا أيها الرسول لا يحزنک الذين يسارعون في الکفر سے يقولون إن أوتيتم هذا فخذوه وإن لم تؤتوه فاحذروا اے رسول ! آپ ان لوگوں کے پیچھے نہ کڑھئیے جو کفر میں سبقت کر رہے ہیں، خواہ وہ ان (منافقوں) میں سے ہوں جو زبانی تو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن حقیقتاً ان کے دل میں ایمان نہیں، اور یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو غلط باتیں سننے کے عادی ہیں، اور ان لوگوں کے جاسوس ہیں جو اب تک آپ کے پاس نہیں آئے، وہ کلمات کے اصلی موقع کو چھوڑ کر انہیں متغیر کردیا کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اگر تم یہی حکم دیئے جاؤ تو قبول کرنا، اور یہ حکم دیئے جاؤ تو الگ تھلگ رہنا (سورۃ المائدہ : ٤١) تک، اور ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الظالمون ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت و نور ہے، یہودیوں میں اس تورات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے انبیاء (علیہم السلام) اور اہل اللہ، اور علماء فیصلہ کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا۔ اور اس پر اقراری گواہ تھے اب چاہیئے کہ لوگوں سے نہ ڈرو، اور صرف میرا ڈر رکھو، میری آیتوں کو تھوڑے تھوڑے مول پر نہ بیچو، جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ (پورے اور پختہ) کافر ہیں (سورۃ المائدہ : ٤٤) تک، اور ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الظالمون اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کردی تھی کہ جان کے بدلے جان، اور آنکھ کے بدلے آنکھ، اور ناک کے بدلے ناک، اور کان کے بدلے کان، اور دانت کے بدلے دانت، اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے، پھر جو شخص اس کو معاف کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے، اور جو اللہ کے نازل کئے ہوئے مطابق حکم نہ کریں، وہی لوگ ظالم ہیں (سورۃ المائدہ : ٤٥) تک یہود کے متعلق اتاری، نیز ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الفاسقون اور انجیل والوں کو بھی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ انجیل میں نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق حکم کریں، اور جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ سے ہی حکم نہ کریں وہ (بدکار) فاسق ہیں (سورۃ المائدہ : ٤٧) تک اتاری۔ یہ ساری آیتیں کافروں کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٧٧١) (صحیح )

【99】

یہودیوں کو رجم کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ یہود کے کچھ لوگ آئے اور رسول اللہ ﷺ کو بلا کر قف ١ ؎ لے گئے آپ ان کے پاس بیت المدارس (مدرسہ) میں آئے تو وہ کہنے لگے : ابوالقاسم ! ہم میں سے ایک شخص نے ایک عورت سے زنا کرلیا ہے، آپ ان کا فیصلہ کر دیجئیے، ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے ایک گاؤ تکیہ لگایا، آپ اس پر ٹیک لگا کر بیٹھے، پھر آپ نے فرمایا : میرے پاس تورات لاؤ چناچہ وہ لائی گئی، آپ نے اپنے نیچے سے گاؤ تکیہ نکالا، اور تورات کو اس پر رکھا اور فرمایا : میں تجھ پر ایمان لایا اور اس نبی پر جس پر اللہ نے تجھے نازل کیا ہے پھر آپ نے فرمایا : جو تم میں سب سے بڑا عالم ہو اسے بلاؤ چناچہ ایک نوجوان کو بلا کر لایا گیا آگے واقعہ رجم کا اسی طرح ذکر ہے جیسے مالک کی روایت میں ہے جسے انہوں نے نافع سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦٧٣٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : مدینہ میں ایک وادی کا نام ہے۔

【100】

یہودیوں کو رجم کرنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ یہود کے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا تو ان میں سے بعض بعض سے کہنے لگے : ہم سب اس نبی کے پاس چلیں کیونکہ وہ تخفیف و آسانی کے لیے بھیجا گیا ہے، اگر اس نے رجم کے علاوہ کوئی اور فتویٰ دیا تو ہم اسے مان لیں گے، اور اسے اللہ کے سامنے دلیل بنائیں گے، ہم کہیں گے کہ یہ تیرے نبیوں میں سے ایک نبی کا فتویٰ ہے، چناچہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، آپ مسجد نبوی میں اپنے صحابہ میں بیٹھے ہوئے تھے، اور پوچھنے لگے : آپ اس مرد اور عورت کے متعلق کیا کہتے ہیں جس نے زنا کیا ہو ؟ آپ ﷺ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا جب تک کہ آپ ان کے مدرسہ میں نہیں آگئے، پھر مدرسہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ ﷺ نے فرمایا : میں تم سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس نے موسیٰ پر تورات نازل کی ہے بتاؤ تم تورات میں اس شخص کا کیا حکم پاتے ہو جو شادی شدہ ہو کر زنا کرے ؟ لوگوں نے کہا : اس کا منہ کالا کیا جائے گا، اسے گدھے پر بٹھا کر پھرایا جائے گا، اور کوڑے لگائے جائیں گے ( تَجبیہ یہ ہے کہ مرد اور عورت کو گدھے پر اس طرح سوار کیا جائے کہ ان کی گدی ایک دوسرے کے مقابل میں ہو، اور انہیں پھرایا جائے) ان میں کا ایک نوجوان چپ رہا، تو جب نبی اکرم ﷺ نے اس کو خاموش دیکھا تو اس سے سخت قسم دلا کر پوچھا، تو اس نے اللہ کا نام لے کر کہا : جب آپ نے ہمیں قسم دلائی ہے تو صحیح یہی ہے کہ تورات میں ایسے شخص کا حکم رجم ہے، یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پھر کب سے تم لوگوں نے اللہ کے اس حکم کو چھوڑ رکھا ہے ؟ تو اس نے بتایا : ہمارے بادشاہوں میں ایک بادشاہ کے کسی رشتہ دار نے زنا کیا تو اس نے اسے رجم نہیں کیا، پھر ایک عام شخص نے زنا کیا، تو بادشاہ نے اسے رجم کرنا چاہا تو اس کی قوم کے لوگ آڑے آگئے، اور کہنے لگے : ہمارے آدمی کو اس وقت تک رجم نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ آپ اپنے آدمی کو لا کر رجم نہ کردیں، چناچہ اس سزا پر لوگوں نے آپس میں مصالحت کرلی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں تو وہی فیصلہ کروں گا جو تورات میں ہے چناچہ آپ ﷺ نے ان دونوں کو رجم کرنے کا حکم دیا تو انہیں رجم کردیا گیا۔ زہری کہتے ہیں : ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آیت کریمہ إنا أنزلنا التوراة فيها هدى ونور يحكم بها النبيون الذين أسلموا ہم نے تورات نازل کیا جس میں ہدایت اور نور ہے اللہ کے ماننے والے انبیاء کرام اسی سے فیصلہ کرتے تھے (المائدہ : ٤٤) انہیں کے بارے میں اتری ہے، اور نبی اکرم ﷺ بھی انہیں میں سے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، انظر حدیث (٤٨٨) (تحفة الأشراف : ١٥٤٩٢) (ضعیف) (سند میں مبہم راوی ہے )

【101】

ابن صیاد کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ یہود کے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا وہ دونوں شادی شدہ تھے، جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ آئے تو تورات میں رجم کا حکم تحریر تھا، لیکن انہوں نے اسے چھوڑے رکھا تھا اور اس کے بدلہ تَجبیہ کو اختیار کرلیا تھا، تارکول ملی ہوئی رسی سے اسے سو بار مارا جاتا، اسے گدھے پر سوار کیا جاتا اور اس کا چہرہ گدھے کے پچھاڑی کی طرف ہوتا، تو ان کے علماء میں سے کچھ عالم اکٹھا ہوئے ان لوگوں نے کچھ لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا اور کہا جا کر ان سے زنا کی حد کے متعلق پوچھو، پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے : چونکہ وہ آپ ﷺ کے دین پر نہیں تھے کہ آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں اسی لیے آپ کو اس سلسلہ میں اختیار دیا گیا اور فرمایا گیا فإن جاءوک فاحکم بينهم أو أعرض عنهم اگر وہ تمہارے پاس آئیں تو تمہیں اختیار ہے چاہو تو ان کے درمیان فیصلہ کر دو اور چاہو تو ٹال دو (سورۃ المائدہ : ٤٢) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، انظر حدیث (٤٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٩٢) (ضعیف )

【102】

یہودیوں کو رجم کرنے کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ یہود اپنے میں سے ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر آئے ان دونوں نے زنا کیا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : دو ایسے شخصوں کو جو تمہارے سب سے بڑے عالم ہوں لے کر میرے پاس آؤ تو وہ لوگ صوریا کے دونوں لڑکوں کو لے کر آئے، آپ ﷺ نے اللہ کا واسطہ دے کر ان دونوں سے پوچھا : تم تورات میں ان دونوں کا حکم کیا پاتے ہو ؟ ان دونوں نے کہا : ہم تورات میں یہی پاتے ہیں کہ جب چار گواہ گواہی دیدیں کہ انہوں نے مرد کے ذکر کو عورت کے فرج میں ایسے ہی دیکھا ہے جیسے سلائی سرمہ دانی میں تو وہ رجم کر دئیے جائیں گے، آپ ﷺ نے پوچھا : تو پھر انہیں رجم کرنے سے کون سی چیز روک رہی ہے ؟ انہوں نے کہا : ہماری سلطنت تو رہی نہیں اس لیے اب ہمیں قتل اچھا نہیں لگتا، پھر رسول اللہ ﷺ نے گواہوں کو بلایا، وہ چار گواہ لے کر آئے، انہوں نے گواہی دی کہ انہوں نے مرد کے ذکر کو عورت کی فرج میں ایسے ہی دیکھا ہے جیسے سلائی سرمہ دانی میں، چناچہ نبی اکرم ﷺ نے ان دونوں کو رجم کرنے کا حکم دے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ الأحکام (٢٣٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٣/٣٨٧) ، صحیح مسلم/الحدود ٦ (٢٣٧٤) (صحیح )

【103】

ابن صیاد کا بیان

ابراہیم اور شعبی سے روایت ہے وہ دونوں نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کرتے ہیں لیکن اس میں راوی نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ آپ نے گواہوں کو بلایا، اور انہوں نے گواہی دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٤٦، ١٨٤٠٢، ١٨٨٧١) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے ورنہ یہ مرسل ہے اور مرسل ضعیف کی اقسام سے ہے ، اس لئے کہ ابراہیم نخعی اور عامر بن شراحیل شعبی تابعی ہیں )

【104】

یہودیوں کو رجم کرنے کا بیان

اس سند سے بھی شعبی سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٤٦، ١٨٨٧١، ١٨٤٠٢ ) جابر بن عبداللہ (رض) کو کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے یہود کے ایک مرد اور ایک عورت کو جنہوں نے زنا کیا تھا رجم کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الحدود ٦ (١٧٠١) ، (تحفة الأشراف : ٢٨١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢١، ٣٨٦) (صحیح )

【105】

محارم سے زنا کرنے کا بیان

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے ایک گمشدہ اونٹ کو ڈھونڈ رہا تھا کہ اسی دوران کچھ سوار آئے، ان کے ساتھ ایک جھنڈا تھا، تو دیہاتی لوگ نبی اکرم ﷺ سے میری قربت کی وجہ سے میرے اردگرد گھومنے لگے، اتنے میں وہ ایک قبہ کے پاس آئے، اور اس میں سے ایک شخص کو نکالا اور اس کی گردن مار دی، تو میں نے اس کے متعلق ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کر رکھی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٢٥ (١٣٦٢) ، سنن النسائی/النکاح ٥٨ (٣٣٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٣٥ (٢٦٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٣٤، ١٧٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٤/٢٩٢، ٢٩٥، ٢٩٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٣ (٢٢٨٥) (صحیح )

【106】

None

میں اپنے ایک گمشدہ اونٹ کو ڈھونڈ رہا تھا کہ اسی دوران کچھ سوار آئے، ان کے ساتھ ایک جھنڈا تھا، تو دیہاتی لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری قربت کی وجہ سے میرے اردگرد گھومنے لگے، اتنے میں وہ ایک قبہ کے پاس آئے، اور اس میں سے ایک شخص کو نکالا اور اس کی گردن مار دی، تو میں نے اس کے متعلق ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کر رکھی تھی۔

【107】

محارم سے زنا کرنے کا بیان

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا سے ملا ان کے ساتھ ایک جھنڈا تھا میں نے ان سے پوچھا : کہاں کا ارادہ ہے ؟ کہا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے اس آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کر رکھی ہے، اور حکم دیا ہے کہ میں اس کی گردن مار دوں اور اس کا مال لے لوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٣٤) (صحیح )

【108】

مرد اپنی بیوی کی باندی سے زنا کرے تو کیا حکم ہے؟

حبیب بن سالم سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن حنین نامی ایک شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی سے صحبت کرلی، معاملہ کوفہ کے امیر نعمان بن بشیر (رض) کے پاس لایا گیا، تو انہوں نے کہا : میں بالکل رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے مطابق تمہارا فیصلہ کروں گا، اگر تمہاری بیوی نے اسے تمہارے لیے حلال کردیا تھا تو تمہیں سو کوڑے ماروں گا، اور اگر اسے تمہارے لیے حلال نہیں کیا تھا تو میں تمہیں رجم کروں گا، پھر پتا چلا کہ اس کی بیوی نے اس کے لیے اس لونڈی کو حلال کردیا تھا تو آپ نے اسے سو کوڑے مارے۔ قتادہ کہتے ہیں : میں نے حبیب بن سالم کو لکھا تو انہوں نے یہ حدیث مجھے لکھ بھیجی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحدود ٢١ (١٤٥١) ، سنن النسائی/النکاح ٧٠ (٣٣٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٨ (٢٥٥١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٦ /٢٧٢، ٢٧٦، ٢٧٧) ، دي /الحدود ٢٠ (٢٣٧٤) (ضعیف) (حبیب بن سالم کے بارے میں بہت کلام ہے ، اور ان کا نعمان بن بشیر سے سماع ثابت نہیں ہے )

【109】

مرد اپنی بیوی کی باندی سے زنا کرے تو کیا حکم ہے؟

نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جو اپنی بیوی کی لونڈی سے جماع کرتا ہو : اگر اس کی بیوی نے اس کے لیے لونڈی کو حلال کردیا ہو تو اسے سو کوڑے مارے جائیں، اور اگر حلال نہ کیا ہو تو میں اسے رجم کروں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٦١٣) (ضعیف )

【110】

مرد اپنی بیوی کی باندی سے زنا کرے تو کیا حکم ہے؟

سلمہ بن محبق (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے متعلق جس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے صحبت کرلی تھی فیصلہ کیا کہ اگر اس نے جبراً جماع کیا ہے تو لونڈی آزاد ہے، اور اس کی مالکہ کو اسے ویسی ہی لونڈی دینی ہوگی، اور اگر لونڈی نے خوشی سے اس کی مان لی ہے تو وہ اس کی ہو جائیگی، اور اسے لونڈی کی مالکہ کو ویسی ہی لونڈی دینی ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/النکاح ٧٠ (٣٣٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٨ (٢٥٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٣/٤٧٦، ٥/٦) (ضعیف) (قتادہ اور حسن بصری مدلس راوی ہیں ، اور روایت عنعنہ سے ہے ) وضاحت : ١ ؎ : خطابی (رح) کہتے ہیں : میں نے کسی فقیہ کو نہ پایا جس نے اس حدیث کے مطابق فتویٰ دیا ہو، شاید یہ حدیث منسوخ ہو۔

【111】

مرد اپنی بیوی کی باندی سے زنا کرے تو کیا حکم ہے؟

سلمہ بن محبق (رض) نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کرتے ہیں مگر اس میں ہے کہ اگر اس نے اس کی بات بخوشی مان لی ہو، تو وہ لونڈی اور اسی جیسی ایک اور لونڈی خاوند کے مال سے اس کی مالکن کو دلائی جائے گی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٥٩) (ضعیف )

【112】

قوم لوط کا عمل کرنے والے کی سزا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) کرتے ہوئے پاؤ تو کرنے والے اور جس کے ساتھ کیا گیا ہے دونوں کو قتل کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحدود ٢٤ (١٤٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٢ (٢٥٦١) ، (تحفة الأشراف : ٦١٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٦٩، ٣٠٠) (حسن صحیح )

【113】

قوم لوط کا عمل کرنے والے کی سزا

عبداللہ بن عباس (رض) سے کنوارے کے بارے میں جو اغلام بازی میں پکڑا جائے مروی ہے کہ اسے سنگسار کردیا جائے گا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عاصم والی روایت عمرو بن ابی عمرو والی روایت کی تضعیف کرتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اوپر کی حدیث (٤٤٦٢) ابوداود کا یہ قول غالباً غلطی سے یہاں درج ہوگیا ہے، حدیث نمبر : (٤٤٦٥) کے بعد بھی یہ قول درج ہے اور وہی اس کی اصل جگہ ہے۔

【114】

جو جانور سے بدکاری کرے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی جانور سے جماع کرے اسے قتل کر دو ، اور اس کے ساتھ اس جانور کو بھی قتل کر دو ۔ عکرمہ کہتے ہیں : میں نے ابن عباس سے پوچھا : اس چوپایہ کا کیا جرم ہے ؟ تو انہوں نے کہا : میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ نے یہ صرف اس وجہ سے فرمایا کہ ایسے جانور کے گوشت کھانے کو آپ نے برا جانا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث قوی نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٤٤٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٦١٧٦) (حسن صحیح )

【115】

جو جانور سے بدکاری کرے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جو چوپائے سے جماع کرے اس پر حد نہیں ہے، ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح عطاء نے کہا ہے۔ اور حکم کہتے ہیں : میری رائے یہ ہے کہ اسے کوڑے مارے جائیں، لیکن اتنے کوڑے جو حد سے کم ہوں۔ اور حسن کہتے ہیں : وہ زانی ہی کے درجہ میں ہے یعنی اس کی وہی سزا ہوگی جو زانی کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عاصم کی حدیث عمرو بن ابی عمرو کی حدیث کی تضعیف کر رہی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحدود ٢٣ (١٤٥٥) ، انظر حدیث رقم (٤٤٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٦١٧٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : ملاحظہ ہو حدیث نمبر (٤٤٦٢ )

【116】

جو جانور سے بدکاری کرے

سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر یہ اعتراف کیا کہ اس نے ایک عورت سے جس کا اس نے نام لیا زنا کیا ہے، تو آپ نے اس عورت کو بلوایا، اور اس سے اس بارے میں پوچھا، اس نے انکار کیا، تو آپ نے حد میں صرف مرد کو کوڑے مارے، اور عورت کو چھوڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٤٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٠٥) (صحیح )

【117】

جو جانور سے بدکاری کرے

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ بکر بن لیث کے ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر چار بار اقرار کیا کہ اس نے ایک عورت سے زنا کیا ہے تو آپ نے اسے سو کوڑے لگائے، وہ کنوارا تھا، پھر اس سے عورت کے خلاف گواہی طلب کی تو عورت نے کہا : قسم اللہ کی وہ جھوٹا ہے، اللہ کے رسول ! تو اس پر آپ نے بہتان کے بھی اسی (٨٠) کوڑے لگائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٦٦٤) (منکر )

【118】

کوئی شخص کسی عورت سے جماع کے علاوہ سارے کام کرے پھر گرفتاری سے قبل توبہ کرلے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا : مدینہ کے آخری کنارے کی ایک عورت سے میں لطف اندوز ہوا، لیکن جماع نہیں کیا، تو اب میں حاضر ہوں میرے اوپر جو چاہیئے حد قائم کیجئے، عمر (رض) نے کہا : اللہ نے تیری پردہ پوشی کی تھی تو تو خود بھی پردہ پوشی کرتا تو بہتر ہوتا، رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، تو وہ شخص چلا گیا، پھر اس کے پیچھے نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو بھیجا، وہ اسے بلا کر لایا تو آپ نے اس پر یہ آیت تلاوت فرمائی وأقم الصلاة طرفى النهار وزلفا من الليل دن کے دونوں سروں میں نماز قائم کرو اور رات کی کچھ ساعتوں میں بھی ۔ (ھود : ١١٤) ١ ؎ تو ان میں سے ایک شخص نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا یہ اسی کے لیے خاص ہے، یا سارے لوگوں کے لیے ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : سارے لوگوں کے لیے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/التوبة ٧ (٢٧٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٩١٦٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/مواقیت الصلاة ٤ (٥٢٦) ، التفسیر ٤ (٤٦٨٧) ، سنن الترمذی/التفسیر ١٢ (٣١١٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٩٣ (١٣٩٨) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دن کے دونوں سرے مراد فجر، ظہر اور عصر کی نمازیں ہیں، اور رات کی ساعتوں سے مراد مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں۔

【119】

غیر شادی شدہ لونڈی اگر زنا کرے تو کیا حکم ہے؟

ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ لونڈی جب زنا کرے اور وہ شادی شدہ نہ ہو (تو اس کا کیا حکم ہے) تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر وہ زنا کرے تو اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگر وہ زنا کرے تو اسے پھر کوڑے لگاؤ، پھر اگر وہ زنا کرے تو اسے پھر کوڑے لگاؤ، پھر اگر وہ زنا کرے تو اسے بیچ دو ، گو ایک رسی ہی کے عوض میں ہو ۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں : مجھے اچھی طرح معلوم نہیں کہ یہ آپ نے تیسری بار میں فرمایا : یا چوتھی بار میں اور ضفیر کے معنی رسی کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : خ /الحدود ٢٢ (٦٨٣٧ و ٦٨٣٨) ، صحیح مسلم/الحدود ٦ (١٧٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٤ (٢٥٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٥٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحدود ١٣ (١٤٣٣) ، موطا امام مالک/الحدود ٣ (١٤) ، دي الحدود ١٨ (٢٣٧١) (صحیح )

【120】

غیر شادی شدہ لونڈی اگر زنا کرے تو کیا حکم ہے؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے تو اس پر حد قائم کرنا چاہیئے، یہ نہیں کہ اسے ڈانٹ ڈپٹ کر چھوڑ دے، ایسا وہ تین بار کرے، پھر اگر وہ چوتھی بار بھی زنا کرے تو چاہیئے کہ ایک رسی کے عوض یا بال کی رسی کے عوض اسے بیچ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الحدود ٦ (١٧٠٣) ، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٧٦) (صحیح )

【121】

غیر شادی شدہ لونڈی اگر زنا کرے تو کیا حکم ہے؟

اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے، اس میں ہے کہ ہر بار اسے اللہ کی کتاب کے موافق یعنی پچاس کوڑے مارے ١ ؎ اور صرف ڈانٹ ڈپٹ کر نہ چھوڑ دے، یا حد لگانے کے بعد پھر نہ ڈانٹے، اور چوتھی بار میں فرمایا : اگر وہ پھر زنا کرے تو پھر اسے اللہ کی کتاب کے موافق حد لگائے، پھر چاہیئے کہ اسے بیچ دے، گو بال کی ایک رسی ہی کے بدلے کیوں نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٤٦٩، (تحفة الأشراف : ١٤٣١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ لونڈی کی حد آزاد عورت کے نصف ہے۔

【122】

مریض پر حد جاری کرنے کا بیان

ابوامامہ اسعد بن سہل بن حنیف انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کچھ انصاری صحابہ نے انہیں بتایا کہ انصاریوں میں کا ایک آدمی بیمار ہوا وہ اتنا کمزور ہوگیا کہ صرف ہڈی اور چمڑا باقی رہ گیا، اس کے پاس انہیں میں سے کسی کی ایک لونڈی آئی تو وہ اسے پسند آگئی اور وہ اس سے جماع کر بیٹھا، پھر جب اس کی قوم کے لوگ اس کی عیادت کرنے آئے تو انہیں اس کی خبر دی، اور کہا میرے متعلق رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھو، کیونکہ میں نے ایک لونڈی سے صحبت کرلی ہے، جو میرے پاس آئی تھی، چناچہ انہوں نے یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا، اور کہا : ہم نے تو اتنا بیمار اور ناتواں کسی کو نہیں دیکھا جتنا وہ ہے، اگر ہم اسے لے کر آپ کے پاس آئیں تو اس کی ہڈیاں جدا ہوجائیں، وہ صرف ہڈی اور چمڑے کا ڈھانچہ ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ درخت کی سو ٹہنیاں لیں، اور اس سے اسے ایک بار مار دیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٥٢٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الحدود ١٨ (٢٥٧٤) (صحیح )

【123】

مریض پر حد جاری کرنے کا بیان

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت میں سے کسی کی لونڈی نے حرام کاری کرلی تو آپ نے فرمایا : علی ! جاؤ اور اس پر حد قائم کرو میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کا خون بہے چلا جا رہا ہے، رکتا ہی نہیں، یہ دیکھ کر میں آپ کے پاس واپس آگیا، تو آپ ﷺ نے پوچھا : علی ! کیا حد لگا کر آگئے ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں اس کے پاس آیا دیکھا تو اس کا خون بہ رہا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا بند ہونے تک رکے رہو، جب بند ہوجائے تو اسے ضرور حد لگاؤ، اور حدوں کو اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر بھی قائم کیا کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح ابوالاحوص نے عبدالاعلیٰ سے روایت کیا ہے، اور اسے شعبہ نے بھی عبدالاعلی سے روایت کیا ہے، اس میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا : اسے حد نہ لگانا جب تک وہ بچہ جن نہ دے لیکن پہلی روایت زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٢٨٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحدود ٧ (١٧٠٥) ، سنن الترمذی/الحدود ١٣ (١٤٤١) ، مسند احمد (١/٨٩، ٩٥، ١٣٥، ١٣٦، ١٤٥) (صحیح )

【124】

جھوٹی تہمت لگانے والے کی حد کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب میری برات کی آیتیں نازل ہوئیں تو نبی اکرم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے، آپ نے اس کا ذکر کیا، اور قرآن کی ان آیتوں کی تلاوت کی، پھر جب منبر پر سے اترے تو آپ ﷺ نے دو مردوں اور ایک عورت کے سلسلے میں حکم دیا تو ان پر حد جاری کیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر النور ٢٥ (٣١٨١) ، سنن ابن ماجہ/الحدود (٢٥٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٦، ٦/٣٥، ٦١) (حسن )

【125】

جھوٹی تہمت لگانے والے کی حد کا بیان

اس سند سے بھی محمد بن اسحاق سے یہی حدیث مروی ہے اس میں انہوں نے عائشہ (رض) کا ذکر نہیں کیا ہے اس میں ہے : آپ نے دو مردوں اور ایک عورت کو جنہوں نے بری بات منہ سے نکالی تھی (کوڑے لگانے کا) حکم دیا، وہ حسان بن ثابت (رض) اور مسطح بن اثاثہ (رض) تھے نفیل کہتے ہیں : اور لوگ کہتے ہیں کہ عورت حمنہ بنت جحش (رض) تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٩٨) (حسن) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے )

【126】

شراب پینے کی حد کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شراب کے حد کی تعیین نہیں فرمائی، ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے شراب پی اور بدمست ہو کر جھومتے ہوئے راستے میں لوگوں کو چلتے ملا تو اسے پکڑ کر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس لے کر آئے جب وہ عباس (رض) کے گھر کے سامنے ہوا تو چھڑا کر بھاگا اور عباس (رض) کے مکان میں جا گھسا، اور ان سے چمٹ گیا، پھر یہ قصہ نبی اکرم ﷺ سے ذکر کیا گیا تو آپ ہنسے، اور صرف اتنا فرمایا : کیا اس نے ایسا کیا ہے ؟ آپ نے اس کے بارے میں کوئی اور حکم نہیں دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حسن بن علی کی اس حدیث کی روایت میں اہل مدینہ منفرد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦٢١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ١/٣٢٢) (ضعیف )

【127】

شراب پینے کی حد کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا جس نے شراب پی رکھی تھی، تو آپ نے فرمایا : اسے مارو ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : تو ہم میں سے کسی نے ہاتھ سے، کسی نے جوتے سے، اور کسی نے کپڑے سے، اسے مارا، پھر جب فارغ ہوئے تو کسی نے کہا : اللہ تجھے رسوا کرے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسا نہ کہو اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٤ (٦٧٧٧) ، ٥ (٦٧٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٢/٢٩٩، ٣٠٠) (صحیح )

【128】

شراب پینے کی حد کا بیان

ابن الہاد سے اسی سند سے اسی مفہوم کی روایت آئی ہے اس میں ہے کہ اسے مار چکنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا : تم لوگ اسے زبانی عار دلاؤ ، تو لوگ اس کی طرف یہ کہتے ہوئے متوجہ ہوئے : نہ تو تو اللہ سے ڈرا، نہ اس سے خوف کھایا نہ رسول اللہ ﷺ سے شرمایا پھر لوگوں نے اسے چھوڑ دیا، اور اس کے آخر میں ہے : لیکن یوں کہو : اے اللہ اس کو بخش دے، اس پر رحم فرما کچھ لوگوں نے اس سیاق میں کچھ کمی بیشی کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٩٩) (صحیح )

【129】

شراب پینے کی حد کا بیان

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے شراب پینے پر کھجور کی ٹہنیوں اور جوتوں سے مارا، اور ابوبکر (رض) نے چالیس کوڑے لگائے، پھر جب عمر (رض) خلیفہ ہوئے تو آپ نے لوگوں کو بلایا، اور ان سے کہا : لوگ گاؤں سے قریب ہوگئے ہیں (اور مسدد کی روایت میں ہے) بستیوں اور گاؤں سے قریب ہوگئے ہیں (یعنی شراب زیادہ پینے لگے ہیں) تو اب شراب کی حد کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ تو عبدالرحمٰن بن عوف نے ان سے کہا : ہماری رائے یہ ہے کہ سب سے ہلکی جو حد ہے وہی آپ اس میں مقرر کردیں، چناچہ اسی (٨٠) کوڑے مارنے کا حکم ہوا (کیونکہ سب سے ہلکی حد یہی حدقذف تھی) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن ابی عروبہ نے قتادہ سے، قتادہ نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے کھجور کی ٹہنیوں اور جوتوں سے چالیس مار ماریں۔ اور اسے شعبہ نے قتادہ سے، قتادہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے کھجور کی دو ٹہنیوں سے چالیس کے قریب مار ماریں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٢ (٦٧٧٣) ، صحیح مسلم/الحدود ٨ (١٧٠٦) ، سنن الترمذی/الحدود ١٤ (١٤٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٦ (٢٥٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٥، ١٨٠) ، سنن الدارمی/الحدود ٩ (٢٣٥٧) (صحیح )

【130】

شراب پینے کی حد کا بیان

حضین بن منذر رقاشی ابوساسان کہتے ہیں کہ میں عثمان بن عفان (رض) کے پاس موجود تھا کہ ولید بن عقبہ کو ان کے پاس لایا گیا، اور حمران اور ایک اور شخص نے اس کے خلاف گواہی دی، ان میں سے ایک نے گواہی دی کہ اس نے شراب پی ہے، اور دوسرے نے گواہی دی کہ میں نے اسے (شراب) قے کرتے دیکھا ہے، تو عثمان نے کہا : جب تک پیئے گا نہیں قے نہیں کرسکتا، پھر انہوں نے علی (رض) سے کہا : تم اس پر حد قائم کرو، تو علی نے حسن (رض) سے کہا : تم اس پر حد قائم کرو، تو حسن نے کہا : جو خلافت کی آسانیوں اور خیرات کا ذمہ دار رہا ہے وہی اس کی سختیوں اور برائیوں کا بھی ذمہ دار ہے، پھر علی (رض) نے عبداللہ بن جعفر سے کہا : تم اس پر حد قائم کرو، تو انہوں نے کوڑا لے کر اسے مارنا شروع کیا، اور علی (رض) گننے لگے، تو جب چالیس کوڑے ہوئے تو علی (رض) نے کہا : بس کافی ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے چالیس کوڑے ہی مارے ہیں، اور میرا خیال ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابوبکر (رض) نے بھی چالیس کوڑے مارے ہیں، اور عمر (رض) نے اسی، اور سب سنت ہے، اور یہ چالیس کوڑے مجھے زیادہ پسند ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٨ (١٧٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٦ (٢٥٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٢، ١٠٠٨٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحدود ٤ (٦٧٧٣) ، مسند احمد (١/٨٢، ١٤٠، ١٤٤) ، سنن الدارمی/الحدود ٩ (٢٣٥٨) (صحیح )

【131】

شراب پینے کی حد کا بیان

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) نے شراب میں چالیس کوڑے ہی مارے، اور عمر (رض) نے اسی کوڑے پورے کئے، اور یہ سب سنت ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اصمعی کہتے ہیں : من تولى قارها ول شديدها من تولى هينها کے معنی یہ ہیں جو خلافت کی آسانیوں کا ذمہ دار رہا ہے اسی کو اس کی دشواریوں کا ذمہ دار رہنا چاہیئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ اپنی قوم کے سردار تھے یعنی حضین بن منذر ابوساسان۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٠) (صحیح )

【132】

پے درپے شراب پینے والا کا حکم

معاویہ بن ابی سفیان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب وہ شراب پئیں تو انہیں کوڑے لگاؤ، پھر پئیں تو پھر کوڑے لگاؤ، پھر پئیں تو پھر کوڑے لگاؤ، پھر پئیں تو انہیں قتل کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحدود ١٥ (١٤٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٧ (٢٥٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٤١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٤/٩٥، ٩٦، ١٠٠) (حسن صحیح )

【133】

پے درپے شراب پینے والا کا حکم

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے ہی فرمایا ہے، اس میں یہ ہے کہ میرا خیال ہے کہ پانچویں بار میں فرمایا : پھر اگر وہ پئے تو اسے قتل کر دو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح ابوغطیف کی روایت میں پانچویں بار کا ذکر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٦٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٣٦) (ضعیف الإسناد )

【134】

پے درپے شراب پینے والا کا حکم

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شرابی جب نشہ سے مست ہوجائے تو اسے کوڑے مارو، پھر اگر نشہ سے مست ہوجائے تو اسے پھر کوڑے مارو، پھر اگر نشہ سے مست ہوجائے تو اسے پھر کوڑے مارو، اور اگر چوتھی بار پھر ایسا ہی کرے تو اسے قتل کر دو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح عمر بن ابی سلمہ کی روایت ہے جسے وہ اپنے والد سے اور ابوسلمہ ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ کوئی شراب پئے تو اسے کوڑے لگاؤ، اور اگر چوتھی بار پھر ویسے ہی کرے تو اسے قتل کر دو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح سہیل کی حدیث ہے جسے وہ ابوصالح سے اور ابوصالح ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اگر وہ چوتھی دفعہ پئے تو اسے قتل کر دو ۔ اور اسی طرح ابن ابی نعم کی روایت بھی ہے جسے وہ ابن عمر (رض) سے اور ابن عمر نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ اور اسی طرح عبداللہ بن عمرو (رض) اور شرید (رض) کی مرفوع روایت بھی ہے، اور جدلی کی روایت میں ہے جسے وہ معاویہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر وہ تیسری یا چوتھی بار پھر کرے تو اسے قتل کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأشربة ٤٣ (٥٧٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٧ (٢٥٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٠، ٢٩١، ٥٠٤، ٥١٩) (حسن صحیح )

【135】

پے درپے شراب پینے والا کا حکم

قبیصہ بن ذؤیب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شراب پئے تو اسے کوڑے لگاؤ، اگر پھر پئے تو پھر کوڑے لگاؤ، اگر پھر پئے تو پھر کوڑے لگاؤ، پھر اگر وہ تیسری یا چوتھی دفعہ پئے تو اسے قتل کر دو تو ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی رکھی تھی، تو آپ نے اسے کوڑے لگائے، پھر اسے لایا گیا، آپ نے پھر اسے کوڑے لگائے، پھر اسے لایا گیا، تو آپ نے اسے کوڑے لگائے، پھر لایا گیا تو پھر آپ نے کوڑے ہی لگائے، اور قتل کا حکم اٹھا دیا اور رخصت ہوگئی۔ سفیان کہتے ہیں : زہری نے اس حدیث کو بیان کیا اور ان کے پاس منصور بن معتمر اور مخول بن راشد موجود تھے تو انہوں نے ان دونوں سے کہا : تم دونوں اہل عراق کے لیے یہ حدیث یہاں سے تحفے میں لیتے جانا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو شرید بن سوید، شرحبیل بن اوس، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن عمر، ابوغطیف کندی اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ابوہریرہ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩١١) (ضعیف )

【136】

پے درپے شراب پینے والا کا حکم

علی (رض) کہتے ہیں کہ میں جس پر حد قائم کروں اور وہ مرجائے تو میں اس کی دیت نہیں دوں گا، یا میں اس کی دیت دینے والا نہیں سوائے شراب پینے والے کے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے شراب پینے والے کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے، یہ تو ایک ایسی چیز ہے جسے ہم نے خود مقرر کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الحدود ٥ (٦٧٧٨) ، صحیح مسلم/ الحدود ٨ (١٧٠٧) ، سنن ابن ماجہ/ الحدود ١٦ (٢٥٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٢٥، ١٣٠) (صحیح )

【137】

پے درپے شراب پینے والا کا حکم

عبدالرحمٰن بن ازہر (رض) کہتے ہیں کہ گویا میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں آپ کجاؤں کے درمیان میں کھڑے تھے، خالد بن ولید (رض) کا کجاوہ ڈھونڈ رہے تھے، آپ اسی حالت میں تھے کہ اتنے میں ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی رکھی تھی، تو آپ ﷺ نے لوگوں سے کہا : اسے مارو ، تو کسی نے جوتے سے، کسی نے چھڑی سے، اور کسی نے کھجور کی ٹہنی سے اسے مارا (ابن وہب کہتے ہیں) ميتخة کے معنی کھجور کی تر ٹہنی کے ہیں پھر رسول اللہ ﷺ نے زمین سے مٹی لی اور اس کے چہرے پر ڈال دی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٦٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٤/٨٧، ٨٨، ٣٥٠، ٣٥١) (حسن صحیح )

【138】

پے درپے شراب پینے والا کا حکم

عبدالرحمٰن بن ازہر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شرابی لایا گیا، اور آپ حنین میں تھے، آپ نے اس کے منہ پر خاک ڈال دی، پھر اپنے اصحاب کو حکم دیا تو انہوں نے اسے اپنے جوتوں سے، اور جو چیزیں ان کے ہاتھوں میں تھیں ان سے مارا، یہاں تک کہ آپ فرمانے لگے : بس کرو، بس کرو تب لوگوں نے اسے چھوڑا، پھر رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے تو آپ کے بعد ابوبکر (رض) بھی شراب کی حد میں چالیس کوڑے مارتے رہے، پھر عمر (رض) نے بھی اپنی خلافت کے شروع میں چالیس کوڑے ہی مارے، پھر خلافت کے اخیر میں انہوں نے اسی کوڑے مارے، پھر عثمان (رض) نے کبھی اسی کوڑے اور کبھی چالیس کوڑے مارے، پھر معاویہ (رض) نے اسی کوڑوں کی تعیین کردی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٦٨٥) (صحیح )

【139】

پے درپے شراب پینے والا کا حکم

عبدالرحمٰن بن ازہر کہتے ہیں کہ میں نے فتح مکہ کے دوسرے دن صبح کو رسول اللہ ﷺ کو دیکھا میں ایک کمسن لڑکا تھا، لوگوں میں گھس کر آیا جایا کرتا تھا، آپ خالد بن ولید (رض) کی قیام گاہ ڈھونڈ رہے تھے کہ اتنے میں ایک شرابی لایا گیا، آپ نے اسے مارنے کا حکم دیا، تو لوگوں کے ہاتھوں میں جو چیز بھی تھی اسی سے انہوں نے اس کی پٹائی کی، کسی نے اسے کوڑے سے، کسی نے لاٹھی سے، کسی نے جوتے سے پیٹا، اور رسول اللہ ﷺ نے اس کے منہ پر مٹی ڈال دی، پھر جب ابوبکر (رض) کا زمانہ آیا تو ان کے پاس ایک شرابی لایا گیا تو انہوں نے لوگوں سے نبی اکرم ﷺ کی اس مار کے متعلق دریافت کیا جسے آپ نے مارا تھا تو لوگوں نے اس کا اندازہ لگایا کہ یہ چالیس کوڑے رہے ہوں گے، تو ابوبکر (رض) نے اس کی حد چالیس کوڑے مقرر کردی، پھر جب عمر (رض) کا زمانہ آیا تو خالد بن ولید نے انہیں لکھا کہ لوگ کثرت سے شراب پینے لگے ہیں اور اس کی حد اور سزا کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور لکھا کہ لوگ آپ کے پاس ہیں ان سے پوچھ لیں، اس وقت ان کے پاس مہاجرین اولین موجود تھے، آپ نے ان سے پوچھا تو سب کا اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ اسی کوڑے مارے جائیں، علی (رض) نے کہا : آدمی جب شراب پیتا ہے تو بہتان باندھتا ہے اس لیے میری رائے یہ ہے کہ اس کی حد بہتان کی حد کردی جائے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٤٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٨٥) (حسن )

【140】

مسجد میں حد جاری کرنے کا بیان

حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں قصاص لینے، اشعار پڑھنے اور حد قائم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٤٤٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٤) (حسن ) وضاحت : W

【141】

حد میں چہرہ پر مارنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی کسی کو مارے تو چہرے پر مارنے سے بچے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٤٩٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٢/٢٤٤، ٢٥١، ٤٣٤) (صحیح)

【142】

تعزیر کا بیان

ابوبردہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوڑے دس سے زیادہ نہ مارے جائیں سوائے اللہ کی حدود میں سے کسی حد میں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٤٢ (٦٨٤٨) ، صحیح مسلم/الحدود ٩ (١٧٠٨) ، سنن الترمذی/الحدود ٣٠ (١٤٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٣٢ (٢٦٠١) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٣/٤٦٦، ٤/٤٥) ، سنن الدارمی/الحدود ١١ (٢٣٦٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : تعزیر ایسی سزا کو کہتے ہیں جو حد سے کم ہو۔ جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوبردہ انصاری سے سنا ہے وہ کہہ رہے تھے : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٢٠) (صحیح)

【143】

تعزیر کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی کسی کو مارے تو چہرے پر مارنے سے بچے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٤٩٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٢/٢٤٤، ٢٥١، ٤٣٤) (صحیح )