37. سنت کا بیان

【1】

سنت کی تشریح

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے، نصاریٰ اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٠٢٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الإیمان ١٨ (٢٦٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٧ (٣٩٩١) ، مسند احمد (٢/٣٣٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں مذموم فرقوں سے فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے فرقے مراد نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ فرقے ہیں جن کا اختلاف اہل حق سے اصول دین و عقائد اسلام میں ہے، مثلا مسائل توحید، تقدیر، نبوت، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت و موالات وغیرہ میں، کیونکہ انہی مسائل میں اختلاف رکھنے والوں نے باہم اکفار و تکفیر کی ہے، فروعی مسائل میں اختلاف رکھنے والے باہم اکفار و تکفیر نہیں کرتے، (٧٣) واں فرقہ جو ناجی ہے یہ وہ فرقہ ہے جو سنت پر گامزن ہے، بدعت سے مجتنب اور صحابہ کرام سے محبت کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلتا ہے، حدیث سے یہ بھی پتا چلا کہ ان تمام گمراہ فرقوں کا شمار بھی نبی اکرم ﷺ نے امت میں کیا ہے وہ جہنم میں تو جائیں گے، مگر ہمیشہ کے لئے نہیں، سزا کاٹ کر اس سے نجات پاجائیں گے (٧٣) واں فرقہ ہی اول وہلہ میں ناجی ہوگا کیونکہ یہی سنت پر ہے، یہی باب سے مناسبت ہے۔

【2】

سنت کی تشریح

ابوعامر عبداللہ بن لحی حمصی ہوزنی کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر کہا : سنو ! رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا : سنو ! تم سے پہلے جو اہل کتاب تھے، بہتر (٧٢) فرقوں میں بٹ گئے، اور یہ امت تہتر (٧٣) فرقوں میں بٹ جائے گی، بہتر فرقے جہنم میں ہوں گے اور ایک جنت میں اور یہی الجماعة ہے ۔ ابن یحییٰ اور عمرو نے اپنی روایت میں اتنا مزید بیان کیا : اور عنقریب میری امت میں ایسے لوگ نکلیں گے جن میں گمراہیاں اسی طرح سمائی ہوں گی، جس طرح کتے کا اثر اس شخص پر چھا جاتا ہے جسے اس نے کاٹ لیا ہو ١ ؎۔ اور عمرو کی روایت میں لصاحبه کے بجائے بصاحبه ہے اس میں یہ بھی ہے : کوئی رگ اور کوئی جوڑ ایسا باقی نہیں رہتا جس میں اس کا اثر داخل نہ ہوا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٤٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٠٢) ، سنن الدارمی/السیر ٧٥ (٢٥٦٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : جس طرح کتے کا زہر رگ و ریشہ میں سرایت کرجاتا ہے، اسی طرح بدعتیں ان کے رگ و ریشہ میں سما جاتی ہیں۔

【3】

قرآن پاک میں جھگڑنے اور متشابہات کی اتباع کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت کریمہ هو الذي أنزل عليك الکتاب منه آيات محکمات سے لے کر أولو الألباب ١ ؎ تک تلاوت کی اور فرمایا : جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات کے پیچھے پڑتے ہوں تو جان لو کہ یہی لوگ ہیں جن کا اللہ نے نام لیا ہے تو ان سے بچو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر آل عمران ١ (٤٥٤٧) ، صحیح مسلم/العلم ١ (٢٦٦٥) ، سنن الترمذی/تفسیر آل عمران ٤ (٢٩٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٦٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٧ (٤٧) ، مسند احمد (٦/٤٨) ، سنن الدارمی/المقدمة ١٩ (١٤٧) (صحیح ) وضاحت : وضاحت ١ ؎ : پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے : اللہ ہی ہے جس نے تجھ پر وہ کتاب اتاری جس میں واضح و مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں، اور بعض متشابہ آیتیں ہیں، پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ محکم کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگ جاتے ہیں فتنہ پروری کی طلب میں اور اس کی حقیقی مراد معلوم کرنے کے لئے، حالانکہ اس کی حقیقی مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، پختہ علم والے تو یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لاچکے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل والے ہی حاصل کرتے ہیں (سورۃ آل عمران : ٧) ٢ ؎ : محکم آیات کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگنا تمام بدعتیوں کی عادت ہے، وہ قدیم ہوں یا جدید ان سے دور رہنے کا حکم ہے۔

【4】

خواہشات نفسانیہ والوں سے اجتناب اور بغض کا بیان

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے افضل عمل اللہ کے واسطے محبت کرنا اور اللہ ہی کے واسطے دشمنی رکھنا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٠٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٦) (ضعیف) ( اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے )

【5】

خواہشات نفسانیہ والوں سے اجتناب اور بغض کا بیان

عبداللہ بن کعب سے روایت ہے (جب کعب (رض) نابینا ہوگئے تو ان کے بیٹوں میں عبداللہ آپ کے قائد تھے) وہ کہتے ہیں : میں نے کعب بن مالک سے سنا (ابن السرح ان کے غزوہ تبوک میں نبی اکرم ﷺ سے پیچھے رہ جانے کا واقعہ ذکر کر کے کہتے ہیں کہ کعب نے کہا) رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ہم تینوں سے گفتگو کرنے سے منع فرما دیا یہاں تک کہ جب لمبا عرصہ ہوگیا تو میں ابوقتادہ (رض) کے باغ کی دیوار کود کر ان کے پاس گیا، وہ میرے چچا زاد بھائی تھے، میں نے انہیں سلام کیا تو قسم اللہ کی ! انہوں نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا، پھر راوی نے ان کی توبہ کے نازل ہونے کا قصہ بیان کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٢٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١١١٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے پتا چلا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رسول اللہ ﷺ جس سے بات چیت کرنے سے منع فرما دیتے اس سے وہ ہرگز بات چیت نہیں کرتے تھے چاہے وہ عزیز و قریب دوست و رفیق ہی کیوں نہ ہو، اہل بدعت و اہل ہوس سے دور رہنے اور ان سے بغض رکھنے کا حکم ہے، تمام مسلمانوں کو اس کا خیال کرنا چاہیے تاکہ ان کے فتنوں سے خود محفوظ رہیں، اور اپنے معاشرے کو محفوظ رک ہیں۔

【6】

خواہش نفس کی پیروی کرنے والوں سے سلام دعاترک کرنے کا بیان

عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا، میرے دونوں ہاتھ پھٹ گئے تھے، تو انہوں نے میرے (ہاتھوں پر) زعفران مل دیا، صبح کو میں نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا اور سلام کیا تو آپ نے مجھے جواب نہیں دیا اور فرمایا : جاؤ اسے دھو ڈالو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤١٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٧٢) (حسن) (متابعات اور شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں عطاء خراسانی حافظہ کے کمزور راوی ہیں )

【7】

خواہش نفس کی پیروی کرنے والوں سے سلام دعاترک کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ام المؤمنین صفیہ بنت حیی (رض) کا ایک اونٹ بیمار ہوگیا اور ام المؤمنین زینب (رض) کے پاس ایک فاضل سواری تھی تو رسول اللہ ﷺ نے زینب سے فرمایا : تم اسے ایک اونٹ دے دو وہ بولیں : میں اس یہودن کو دے دوں ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ ناراض ہوگئے اور ذی الحجہ، محرم اور صفر کے چند دنوں تک ان سے بات چیت ترک رکھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٧٨٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٢، ٢٦١، ٣٣٨) (ضعیف) (اس کی راویہ سمیہ لین الحدیث ہیں )

【8】

قرآن کریم میں جھگڑا کرنے کی ممانعت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قرآن کے بارے میں جھگڑنا کفر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥١١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٤، ٥٠٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد کیا ہے ؟ اس بارے میں متعدد اقوال ہیں : ( ١) قرآن کے قدیم یا محدث ہونے میں بحث کرنا مراد ہے، (٢) متشابہ آیات کے بارے میں حقیقت تک پہنچنے میں بحث و مناظرہ کرنا مراد ہے، (٣) قرآن کی مختلف قراءتوں کے بارے میں اختلاف کرنا، کسی حرف کو ثابت کرنا اور کسی کا انکار کرنا وغیرہ مراد ہے، (٤) تقدیر وغیرہ کے سلسلہ میں جو آیات وارد ہیں اس میں بحث کرنا مراد ہے، ان تمام صورتوں میں بحث اکثر اس حد تک پہنچتی ہے کہ اس سے قرآن کے الفاظ و معانی کا انکار لازم آتا ہے جو کفر ہے، أعاذنا اللہ منہ۔

【9】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

مقدام بن معد یکرب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو، مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی (یعنی سنت) ، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے کہے ١ ؎: اس قرآن کو لازم پکڑو، جو کچھ تم اس میں حلال پاؤ اسی کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام پاؤ، اسی کو حرام سمجھو، سنو ! تمہارے لیے پالتو گدھے کا گوشت حلال نہیں، اور نہ کسی نوکیلے دانت والے درندے کا، اور نہ تمہارے لیے کسی ذمی کی پڑی ہوئی چیز حلال ہے سوائے اس کے کہ اس کا مالک اس سے دستبردار ہوجائے، اور اگر کوئی کسی قوم میں قیام کرے تو ان پر اس کی ضیافت لازم ہے، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں تو اسے حق ہے کہ وہ ان سے مہمانی کے بقدر لے لے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٥٧٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/العلم ١٠ (٢٦٦٤) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٢) ، مسند احمد (٤/١٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ پیش گوئی منکرین حدیث کے سرغنہ عبداللہ چکڑالوی پر صادق آتی ہے، مولانا نورالدین کشمیری (صدر جمعیت اہل حدیث کشمیر) جب اس سے مناظرہ کرنے لاہور میں اس کے گھر پہنچے تو وہ مولانا سے انکار حدیث پر اس حال میں بحث کر رہا تھا کہ وہ اپنی چارپائی پر ٹیک لگائے ہوئے لیٹا تھا (مولانا مرحوم کا خود نوشت بیان، شائع شدہ اخبار تنظیم اہل حدیث کراچی) ۔ ٢ ؎ : ضیافت اسلامی معاشرہ میں ایک نہایت ہی نیک عمل ہے اگر میزبان مہمان کی مہمانی نہ کرے تو اس کو مہمانی کے بقدر وصول کرنا ابتداء اسلام میں تھا بعد میں اس پر عمل نہ رہا، گری پڑی چیز ذمی کی ہو یا مسلمان کی اگر اس کا مالک اس کو چھوڑ دے اور اس سے مستغنی ہوجائے تو دوسرے کو لے لینا جائز ہے، ورنہ نہیں، اس حدیث میں صاف طور پر موجود ہے کہ حدیث کو قرآن پر پیش کرنا ضروری نہیں بلکہ قرآن کی طرح حدیث بھی مستقل حجت ہے، حدیث کو قرآن پر پیش کرنے سے متعلق جو حدیث بیان کی جاتی ہے کذب محض ہے، زنادقہ نے اس کو گھڑا ہے۔

【10】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

ابورافع (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں تم میں سے کسی کو اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرے احکام اور فیصلوں میں سے کوئی حکم آئے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جن سے روکا ہے اور وہ یہ کہے : یہ ہم نہیں جانتے، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو کچھ پایا بس اسی کی پیروی کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/العلم ١٠ (٢٦٦١) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے معجزات میں سے ایک زندہ معجزہ ہے، اور حدیث کی صداقت کا زندہ ثبوت ہے آج بعض منکرین حدیث اہل قرآن کے نام سے وہی کچھ کر رہے ہیں جن کی خبر رسول اکرم ﷺ نے دی تھی (دیکھئے حاشیہ حدیث نمبر : ٤٦٠٤ )

【11】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔ ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کوئی ایسا کام کرے جو ہمارے طریقے کے خلاف ہو تو وہ مردود ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلح ٥ (٢٦٩٧) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٨ (١٧١٨) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٣، ١٤٦، ١٨٠، ٢٤٠، ٢٥٦، ٢٧٠) (صحیح )

【12】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

عبدالرحمٰن بن عمرو سلمی اور حجر بن حجر کہتے ہیں کہ ہم عرباض بن ساریہ (رض) کے پاس آئے، یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں آیت کریمہ ولا على الذين إذا ما أتوک لتحملهم قلت لا أجد ما أحملکم عليه ١ ؎ نازل ہوئی، تو ہم نے سلام کیا اور عرض کیا : ہم آپ کے پاس آپ سے ملنے، آپ کی عیادت کرنے، اور آپ سے علم حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں، اس پر عرباض (رض) نے کہا : ایک دن ہمیں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہوگئیں، اور دل کانپ گئے، پھر ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/العلم ١٦ (٢٦٧٦) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٦ (٤٣، ٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٦) ، سنن الدارمی/المقدمة ١٦ (٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور نہ ان پر کوئی حرج ہے کہ جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سوار کرائیں یعنی جہاد کے لئے سواری فراہم کریں تو آپ ان سے کہتے ہیں : میرے پاس تمہارے لئے سواری نہیں (سورۃ التوبۃ : ٩٢) ۔ ٢ ؎ : اس حدیث میں ہر اس نئی بات سے جس کی شرع سے کوئی اصل نہ ملے منع کیا گیا ہے، اصول شریعت چار ہیں : قرآن، حدیث، اجماع صحیح اور قیاس شرعی ، جو بات ان چار اصول میں نہ ہو وہ بدعت ہے، بدعت دو قسم کی ہوتی ہے : ایک بدعت شرعی دوسری بدعت لغوی، اس حدیث میں بدعت شرعی کا ہی بیان ہے، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے، بعض سلف سے جو بعض بدعات کے سلسہ میں تحسین منقول ہے وہ بدعت لغوی کے سلسلہ میں ہے ناکہ بدعت شرعی کے بارے میں؛ چناچہ عمر (رض) نے تراویح با جماعت کے لئے فرمایا : إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة یعنی اگر یہ نئی چیز ہے تو کتنی اچھی ہے، بدعت شرعیہ کی کوئی قسم بدعت حسنہ نہیں، البتہ سنت حسنہ ہی ہوتی ہے، سنة الخلفاء الراشدين سے درحقیقت رسول اللہ ﷺ ہی کی سنت مراد ہے جسے رسول اکرم ﷺ کے زمانہ میں کسی وجہ سے شہرت حاصل نہ ہوسکی ، اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں رواج پذیر اور مشہور ہوئی اس بنا پر ان کی طرف منسوب ہوئی (أشعة اللمعات، للدهلوي) نیز اگر خلفاء راشدین کسی بات پر متفق ہوں تو اس حدیث کے بموجب ان کی سنت ہمارے لئے سنت ہے۔

【13】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے تین بار فرمایا : سنو، بہت زیادہ بحث و تکرار کرنے اور جھگڑنے والے ہلاک ہوگئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العلم ٤ (٢٦٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٣١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : متنطعون سے مراد ایسے اشخاص ہیں جو حد سے تجاوز کر کے اہل کلام و فلسفہ کے طریقہ پر بےکار کی بحثوں میں پڑے رہتے ہیں اور ان مسائل میں بھی جو ماوراء عقل ہیں اپنی عقلیں دوڑاتے ہیں جس کی وجہ سے سلف کے طریقہ سے دور جا پڑتے ہیں، ان کے لئے اس میں سخت وعید ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ نصوص پر حکم ان کے ظاہر کے اعتبار ہی سے لگایا جائے گا اور جب تک ظاہری معنی مراد لینا ممکن ہو اس سے عدول نہیں کیا جائے گا۔

【14】

اتباع سنت کی طرف بلانے والے کی فضیلت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص دوسروں کو نیک عمل کی دعوت دیتا ہے تو اس کی دعوت سے جتنے لوگ ان نیک باتوں پر عمل کرتے ہیں ان سب کے برابر اس دعوت دینے والے کو بھی ثواب ملتا ہے، اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں کی جاتی، اور جو کسی گمراہی و ضلالت کی طرف بلاتا ہے تو جتنے لوگ اس کے بلانے سے اس پر عمل کرتے ہیں ان سب کے برابر اس کو گناہ ہوتا ہے اور ان کے گناہوں میں (بھی) کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العلم ٦ (٢٦٧٤) ، سنن الترمذی/العلم ١٥ (٢٦٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٩٧) ، سنن الدارمی/المقدمة ٤٤ (٥٣٠) (صحیح )

【15】

اتباع سنت کی طرف بلانے والے کی فضیلت

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جو ایسی چیز کے بارے میں سوال کرے جو حرام نہیں کی گئی تھی لیکن اس کے سوال کرنے کی وجہ سے مسلمانوں پر حرام کردی گئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتصام ٣ (٧٢٨٩) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣٧ (٢٣٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧٦، ١٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سوال دو طرح کا ہوتا ہے : ایک تو وہ جس کی ضرورت ہے اور معلوم نہیں تو آدمی کے جاننے کے لئے پوچھنا درست ہے، دوسرا وہ جس کی نہ حاجت ہے نہ ضرورت، آدمی بلا ضرورت یونہی خیالی و فرضی سوال کرے اور ناحق پریشان کرے، اور اس کے سوال کے سبب وہ حرام کردی جائے، اس حدیث میں اسی قسم کے سوال کو سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے، آج کل بعض لوگ علماء سے یونہی بلا ضرورت یا بطور امتحان سوال کیا کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے۔

【16】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

ابوادریس خولانی کہتے ہیں کہ یزید بن عمیرہ (جو معاذ بن جبل (رض) کے شاگردوں میں سے تھے) نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ جب بھی کسی مجلس میں وعظ کہنے کو بیٹھتے تو کہتے : اللہ بڑا حاکم اور عادل ہے، شک کرنے والے تباہ ہوگئے تو ایک روز معاذ بن جبل (رض) کہنے لگے : تمہارے بعد بڑے بڑے فتنے ہوں گے، ان (دنوں) میں مال کثرت سے ہوگا، قرآن آسان ہوجائے گا، یہاں تک کہ اسے مومن و منافق، مرد و عورت، چھوٹے بڑے، غلام اور آزاد سبھی حاصل کرلیں گے، تو قریب ہے کہ کہنے والا کہے : لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ میری پیروی نہیں کرتے، حالانکہ میں نے قرآن پڑھا ہے، وہ میری پیروی اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک کہ میں ان کے لیے اس کے علاوہ کوئی نئی چیز نہ نکالوں، لہٰذا جو نئی چیز نکالی جائے تم اس سے بچو ١ ؎ اس لیے کہ ہر وہ نئی چیز جو نکالی جائے گمراہی ہے، اور میں تمہیں حکیم و دانا کی گمراہی سے ڈراتا ہوں، اس لیے کہ بسا اوقات شیطان، حکیم و دانا شخص کی زبانی گمراہی کی بات کہتا ہے اور کبھی کبھی منافق بھی حق بات کہتا ہے۔ میں نے معاذ سے کہا : (اللہ آپ پر رحم کرے) مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ حکیم و دانا گمراہی کی بات کہتا ہے، اور منافق حق بات ؟ وہ بولے : کیوں نہیں، حکیم و عالم کی ان مشہور باتوں سے بچو، جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہو کہ وہ یوں نہیں ہے، لیکن یہ چیز تمہیں خود اس حکیم سے نہ پھیر دے، اس لیے کہ امکان ہے کہ وہ (اپنی پہلی بات سے) پھر جائے اور حق پر آجائے، اور جب تم حق بات سنو تو اسے لے لو، اس لیے کہ حق میں ایک نور ہوتا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس قصے میں معمر نے زہری سے ولا يثنينک ذلک عنه کے بجائے ولا ينئينک ذلک عنه روایت کی ہے اور صالح بن کیسان نے زہری سے اس میں المشتهرات کے بجائے المشبهات روایت کی ہے اور ولا يثنينك ہی روایت کی ہے جیسا کہ عقیل کی روایت میں ہے۔ ابن اسحاق نے زہری سے روایت کی ہے : کیوں نہیں، جب کسی حکیم و عالم کا قول تم پر مشتبہ ہوجائے یہاں تک کہ تم کہنے لگو کہ اس بات سے اس کا کیا مقصد ہے ؟ (تو سمجھ لو کہ یہ حکیم و عالم کی زبانی گمراہی کی بات ہے) ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٣٦٩) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : جب وہ دیکھے گا کہ لوگ قرآن و سنت کو چھوڑ بیٹھے ہیں اور شیطان اور بدعت کے پیرو ہو رہے ہیں تو میں کیوں نہ کوئی بدعت ایجاد کروں، تو خبردار اس کی نکالی ہوئی بدعت سے بچتے رہو کیونکہ وہ گمراہی ہے۔ ٢ ؎ : آدمی اگر منصف اور حق پرست ہو تو اس پر باطل کی تاریکی و ظلمت کبھی نہیں چھپتی، معاذ (رض) نے باطل کی نشانی یہ بیان کی کہ وہ قرآن وسنت میں نہ ہو، اور عقل سلیم بھی اس کو قبول نہ کرے، آپ نے عالم کے فتنے سے بھی ڈرایا کیونکہ عالم کا فتنہ بڑا سخت ہوتا ہے وہ جھوٹی باتوں، غلط استدلال اور چرب زبانی سے عوام کو فریفتہ کرلیتا ہے، آج یہی حال ہے، باطل پرست قرآن وسنت سے الگ ہٹ کر نئی نئی بدعتوں میں عوام کو پھنسائے ہوئے ہیں، اتفاق و اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے، اور لوگوں نے اپنے اپنے مولویوں کے ایجاد کئے ہوئے امور کو اسلام کا نام دے رکھا ہے، فتنے کے وقت میں طالب حق کو چاہیے کہ قرآن کو دیکھے اور صحیح احادیث میں تلاش کرے اور فرقہ بندی سے دور رہے۔

【17】

ابن صیاد کا بیان

سفیان ثوری کہتے ہیں کہ ایک شخص نے خط لکھ کر عمر بن عبدالعزیز سے تقدیر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے (جواب میں) لکھا : امابعد ! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کے دین کے سلسلہ میں میانہ روی اختیار کرنے، اس کے نبی کی سنت کی پیروی کرنے کی اور بدعتیوں نے جو بدعتیں سنت کے جاری اور ضروریات کے لیے کافی ہوجانے کے بعد ایجاد کی ہیں ان کے چھوڑ دینے کی وصیت کرتا ہوں، لہٰذا تم پر سنت کا دامن تھامے رہنا لازم ہے، اللہ کے حکم سے یہی چیز تمہارے لیے گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہوگی۔ پھر یہ بھی جان لو کہ لوگوں نے کوئی بدعت ایسی نہیں نکالی ہے جس کے خلاف پہلے سے کوئی دلیل موجود نہ رہی ہو یا اس کے بدعت ہونے کے سلسلہ میں کوئی نصیحت آمیز بات نہ ہو، اس لیے کہ سنت کو جس نے جاری کیا ہے، (اللہ تعالیٰ یا نبی اکرم ﷺ ) وہ جانتا تھا کہ اس کی مخالفت میں کیا وبال ہے، کیا کیا غلطیاں، لغزشیں، حماقتیں اور انتہا پسندیاں ہیں (ابن کثیر کی روایت میں من قد علم کا لفظ نہیں ہے) لہٰذا تم اپنے آپ کو اسی چیز سے خوش رکھو جس سے قوم (سلف) نے اپنے آپ کو خوش رکھا ہے، اس لیے کہ وہ دین کے بڑے واقف کار تھے، جس بات سے انہوں نے روکا ہے گہری بصیرت سے روکا ہے، انہیں معاملات کے سمجھنے پر ہم سے زیادہ دسترس تھی، اور تمام خوبیوں میں وہ ہم سے فائق تھے، لہٰذا اگر ہدایت وہ ہوتی جس پر تم ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم ان سے آگے بڑھ گئے، اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ جن لوگوں نے بدعتیں نکالی ہیں وہ اگلے لوگوں کی راہ پر نہیں چلے اور ان سے اعراض کیا تو واقعہ بھی یہی ہے کہ اگلے لوگ ہی فائق و برتر تھے انہوں نے جتنا کچھ بیان کردیا ہے اور جو کچھ کہہ دیا ہے شافی و کافی ہے، لہٰذا اب دین میں نہ اس سے کم کی گنجائش ہے نہ زیادہ کی، اور حال یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اس میں کمی کر ڈالی تو وہ جفا کار ٹھہرے اور کچھ لوگوں نے زیادتی کی تو وہ غلو کا شکار ہوگئے، اور اگلے لوگ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ سیدھی راہ پر رہے، اور تم نے ایمان بالقدر کے اقرار کے بارے میں بھی پوچھا ہے تو باذن اللہ تم نے یہ سوال ایک ایسے شخص سے کیا ہے جو اس کو خوب جانتا ہے، ان لوگوں نے جتنی بھی بدعتیں ایجاد کی ہیں ان میں اثر کے اعتبار سے ایمان بالقدر کے اقرار سے زیادہ واضح اور ٹھوس کوئی نہیں ہے، اس کا تذکرہ تو جاہلیت میں جہلاء نے بھی کیا ہے، وہ اپنی گفتگو اور اپنے شعر میں اس کا تذکرہ کرتے تھے، اس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو کسی فوت ہوجانے والے کے غم میں تسلی دیتے ہیں۔ پھر اسلام نے اس خیال کو مزید پختگی بخشی، رسول اللہ ﷺ نے اس کا ذکر ایک یا دو حدیثوں میں نہیں بلکہ کئی حدیثوں میں کیا، اور اس کو مسلمانوں نے آپ ﷺ سے سنا، پھر آپ کی زندگی میں بھی اسے بیان کیا اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی، اس پر یقین کر کے، اس کو تسلیم کر کے اور اپنے کو اس سے کمزور سمجھ کے، کوئی چیز ایسی نہیں جس کو اللہ کا علم محیط نہ ہو، اور جو اس کے نوشتہ میں نہ آچکی ہو، اور اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہوچکی ہو، اس کے باوجود اس کا ذکر اس کی کتاب محکم میں ہے، اسی سے لوگوں نے اسے حاصل کیا، اسی سے اسے سیکھا۔ اور اگر تم یہ کہو : اللہ نے ایسی آیت کیوں نازل فرمائی ؟ اور ایسا کیوں کہا (جو آیات تقدیر کے خلاف ہیں) ؟ تو (جان لو) ان لوگوں نے بھی اس میں سے وہ سب پڑھا تھا جو تم نے پڑھا ہے لیکن انہیں اس کی تاویل و تفسیر کا علم تھا جس سے تم ناواقف ہو، اس کے بعد بھی وہ اسی بات کے قائل تھے : ہر بات اللہ کی تقدیر اور اس کے لکھے ہوئے کے مطابق ہے جو مقدر میں لکھا ہے وہ ہوگا، جو اللہ نے چاہا، وہی ہوا، جو نہیں چاہا، نہیں ہوا۔ اور ہم تو اپنے لیے نہ کسی ضرر کے مالک ہیں اور نہ ہی کسی نفع کے پھر اس اعتقاد کے بعد بھی اگلے لوگ اچھے کام کرتے رہے اور برے کاموں سے ڈرتے رہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩١٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عمر بن عبدالعزیز (رح) کے اس جواب سے بدعت اور سنت کی راہ بالکل واضح ہوگئی اور یہ بات بھی صاف ہوگئی کہ کسی بھی عمل سے پہلے قرآن و سنت کو دیکھنا چاہیے، اگر ان میں نہ ملے تو صحابہ کرام اور تابعین عظام کو دیکھنا چاہیے کہ ان کا عمل اس پر تھا یا نہیں، اگر ہم اس معیار کو اختیار کرلیں تو اللہ کے فضل سے سارے اختلافات دور ہوجائیں اور بیشمار بدعات ہمیشہ کے لئے دم توڑ جائیں، لیکن ہم نے بعد کے لوگوں کی روش کو اپنا رکھا ہے اور بدعات کی گرم بازاری میں مگن ہیں۔

【18】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) کا ایک شامی دوست تھا جو ان سے خط و کتابت رکھتا تھا، تو عبداللہ بن عمر نے اسے لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے تقدیر کے سلسلے میں (سلف کے قول کے خلاف) کوئی بات کہی ہے، لہٰذا اب تم مجھ سے خط و کتابت نہ رکھنا، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : میری امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو تقدیر کو جھٹلائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہذا المتن أبوداود، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/القدر ١٦ ( ٢١٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٩ (٤٠٦١) ، بسیاق نحوہ ولفظہ : في ہذہ الأمة خسف ومسخ أو قذف في أہل القدر (تحفة الأشراف : ٧٦٥١) ، و مسند احمد (٢/١٠٨، ١٣٦) (حسن )

【19】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

خالد الحذاء کہتے ہیں کہ میں نے حسن (حسن بصری) سے کہا : اے ابوسعید ! آدم کے سلسلہ میں مجھے بتائیے کہ وہ آسمان کے لیے پیدا کئے گئے، یا زمین کے لیے ؟ آپ نے کہا : نہیں، بلکہ زمین کے لیے، میں نے عرض کیا : آپ کا کیا خیال ہے ؟ اگر وہ نافرمانی سے بچ جاتے اور درخت کا پھل نہ کھاتے، انہوں نے کہا : یہ ان کے بس میں نہ تھا، میں نے کہا : مجھے اللہ کے فرمان ما أنتم عليه بفاتنين * إلا من هو صال الجحيم شیاطین تم میں سے کسی کو اس کے راستے سے گمراہ نہیں کرسکتے سوائے اس کے جو جہنم میں جانے والا ہو (الصافات : ١٦٣) کے بارے میں بتائیے، انہوں نے کہا : شیاطین اپنی گمراہی کا شکار صرف اسی کو بنا سکتے ہیں جس پر اللہ نے جہنم واجب کردی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٥١٧، ١٨٥١٨) (حسن الإسناد )

【20】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

حسن بصری سے اللہ تعالیٰ کے قول ولذلک خلقهم اور اسی کے لیے انہیں پیدا کیا (سورۃ ھود : ١١٩) کے بارے میں روایت ہے، انہوں نے کہا : انہیں پیدا کیا اس (جنت) کے لیے اور انہیں پیدا کیا اس (جہنم) کے لیے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٥١٦) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : انہیں جنت کے لئے اور انہیں جہنم کے لئے پیدا کیا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ : اگر اللہ نہ لکھتا تو جن کو جہنم کے لئے لکھا وہ اچھے اعمال کر کے جنت میں چلے جاتے وبالعکس، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو اس نے جہنم کے لئے پیدا کیا اگر ان کی تقدیر میں کچھ نہ لکھتا تو یہ ممکن نہ تھا کہ وہ جنت میں چلے جاتے، یہ لوگ چونکہ برے اعمال ہی کرنے والے تھے جو اللہ کو معلوم تھا (کیونکہ اس کا علم ماضی مستقبل حال کے لئے یکساں ہے) اس لئے اس نے اپنے علم کی بنیاد پر لکھا ایسا نہیں کہ لکھنے سے یہ لوگ مجبور ہوگئے۔

【21】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

خالد الخداء کہتے ہیں کہ میں نے حسن بصری سے کہا ما أنتم عليه بفاتنين * إلا من هو صال الجحيم تو انہوں نے کہا : إلا من هو صال الجحيم کا مطلب ہے : سوائے اس کے جس کے لیے اللہ نے واجب کردیا ہے کہ وہ جہنم میں جائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٥١٨) (صحیح الإسناد )

【22】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

حمید کہتے ہیں کہ حسن بصری کہتے تھے : آسمان سے زمین پر گرپڑنا اس بات سے مجھے زیادہ عزیز ہے کہ میں کہوں : معاملہ تو میرے ہاتھ میں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٥١٠) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : حسن بصری (رح) نے یہ بات صاف کردی کہ تمام امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں خیر و شر سب کا مالک و خالق وہی ہے۔

【23】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

حمید کہتے ہیں کہ حسن ہمارے پاس مکہ تشریف لائے تو اہل مکہ کے فقہاء نے مجھ سے کہا کہ میں ان سے درخواست کروں کہ وہ ان کے لیے ایک دن نشست رکھیں، اور وعظ فرمائیں، وہ اس کے لیے راضی ہوگئے تو لوگ اکٹھا ہوئے اور آپ نے انہیں خطاب کیا، میں نے ان سے بڑا خطیب کسی کو نہیں دیکھا، ایک شخص نے سوال کیا : اے ابوسعید ! شیطان کو کس نے پیدا کیا ؟ انہوں نے کہا : سبحان اللہ ! کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے ؟ اللہ نے شیطان کو پیدا کیا اور اسی نے خیر پیدا کیا، اور شر پیدا کیا، وہ شخص بولا : اللہ انہیں غارت کرے، کس طرح یہ لوگ اس بزرگ پر جھوٹ باندھتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٥٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ہمیشہ اہل بدعت کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ موحدین اور صحیح عقیدہ والوں پر افتراءات باندھتے رہتے ہیں، کچھ لوگوں نے حسن بصری کے متعلق بھی اسی طرح کے بہتان لگائے تھے اسی کی طرف اشارہ ہے۔

【24】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

حسن بصری آیت کریمہ : كذلک نسلکه في قلوب المجرمين اسی طرح سے ہم اسے مجرموں کے دل میں ڈالتے ہیں (سورۃ الحجر : ١١٢) کے سلسلہ میں کہتے ہیں : اس سے مراد شرک ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٥١١) (صحیح )

【25】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

حسن بصری آیت کریمہ : وحيل بينهم وبين ما يشتهون ان کے اور ان کی خواہشات کے درمیان حائل ہوگئی (سورۃ سبا : ٥٤) کی تفسیر میں کہتے ہیں : اس کا مطلب ہے ان کے اور ان کے ایمان کے درمیان حائل ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٥٢٤) (ضعیف الإسناد) (اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے )

【26】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

ابن عون کہتے ہیں کہ میں ملک شام میں چل رہا تھا تو ایک شخص نے پیچھے سے مجھے پکارا جب میں مڑا تو دیکھا رجاء بن حیوہ ہیں، انہوں نے کہا : اے ابوعون ! یہ کیا ہے جو لوگ حسن کے بارے میں ذکر کرتے ہیں ؟ میں نے کہا : لوگ حسن پر بہت زیادہ جھوٹ باندھتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٥٢٣، ١٨٦٣٩) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : حسن بصری (رح) سے متعلق خصوصا جھوٹے صوفیوں نے بہت سا کفر و شرک گھڑ رکھا ہے، اعاذنا اللہ۔

【27】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

ایوب کہتے ہیں حسن پر جھوٹ دو قسم کے لوگ باندھتے ہیں : ایک تو قدریہ، جو چاہتے ہیں کہ اس طرح سے ان کے خیال و نظریہ کا لوگ اعتبار کریں گے، اور دوسرے وہ لوگ جن کے دلوں میں ان کے خلاف عداوت اور بغض ہے، وہ کہتے ہیں : کیا یہ ان کا قول نہیں ؟ کیا یہ ان کا قول نہیں ؟۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٤٥٠) (صحیح )

【28】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

یحییٰ بن کثیر بن عنبری کہتے ہیں کہ قرہ بن خالد ہم سے کہا کرتے تھے : اے نوجوانو ! حسن کو قدریہ مت سمجھو، ان کی رائے سنت اور صواب تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٢٣٢) (صحیح )

【29】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

ابن عون کہتے ہیں کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ حسن کی بات (غلط معنی کے ساتھ شہرت کے) اس مقام کو پہنچ جائے گی جہاں وہ پہنچ گئی تو ہم لوگ ان کے اس قول کے بارے میں ان کے رجوع کی بابت ایک کتاب لکھتے اور اس پر لوگوں کو گواہ بناتے، لیکن ہم نے سوچا کہ ایک بات ہے جو نکل گئی ہے اور اس کے خلاف معنی پر محمول نہیں کی جائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داودع (تحفة الأشراف : ١٨٩٢٢) (صحیح مثلہ ) وضاحت : ١ ؎ : حسن بصری (رح) کے بہت سے اقوال کو لوگوں نے اپنی گمراہ کن بدعتوں کی موافقت میں ڈھال لیا جب کہ خود ان کا مقصد اس قول سے وہ نہیں تھا جو اہل بدعت نے گھڑ لیا، اسی کو ابن عون فرماتے ہیں کہ اگر یہ احساس ہوتا کہ آپ کی بات کو یہ لوگ غلط معنی پہنا کر لوگوں کو گمراہ کریں گے تو ہم حسن بصری سے اس کا غلط ہونا ثابت کرتے، ان سے پوچھتے، وہ جواب دیتے، اور ہم اس پر لوگوں کی گواہیاں بھی کراتے، مگر اس وقت اس کا احساس نہ تھا، اب ان کے بعد اہل بدعت نے سیکڑوں غلط باتیں ان سے منسوب کر رکھی ہیں جن سے وہ بری ہیں۔

【30】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

ایوب کہتے ہیں کہ مجھ سے حسن بصری نے کہا : میں اب دوبارہ کبھی اس میں سے کوئی بات نہیں کہوں گا، (جس سے تقدیر کی نفی کا گمان ہوتا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٥٠٢) (صحیح )

【31】

سنت کو لازم پکڑنے کا بیان

عثمان کہتے ہیں کہ حسن نے جب بھی کسی آیت کی تفسیر کی تو تقدیر کا اثبات کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٥٢٥، ١٩٠٠٤) (صحیح )

【32】

افضیلت صحابہ کا بیان

【33】

افضیلت صحابہ کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ کی امت میں آپ ﷺ کے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں، پھر عمر، پھر عثمان ہیں، رضی اللہ عنہم اجمعین۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٠١٦) (صحیح )

【34】

افضیلت صحابہ کا بیان

محمد بن حنفیہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد علی بن ابی طالب (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون تھا ؟ انہوں نے کہا : ابوبکر رضی اللہ عنہ، میں نے کہا : پھر کون ؟ پھر عمر رضی اللہ عنہ، پھر مجھے اس بات سے ڈر ہوا کہ میں کہوں پھر کون ؟ اور وہ کہیں عثمان (رض) عنہ، چناچہ میں نے کہا : پھر آپ ؟ اے ابا جان ! وہ بولے : میں تو مسلمانوں میں کا صرف ایک فرد ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٥ (٦٣٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٦٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ علی (رض) کی غایت درجہ تواضع و انکساری ہے ورنہ باجماع امت آپ عثمان غنی (رض) کے بعد سب سے افضل ہیں۔

【35】

افضیلت صحابہ کا بیان

سفیان کہتے تھے : جو یہ کہے کہ علی (رض) ان دونوں (ابوبکر (رض) اور عمر رضی اللہ عنہ) سے خلافت کے زیادہ حقدار تھے تو اس نے ابوبکر، عمر، مہاجرین اور انصار کو خطاکار ٹھہرایا، اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کے اس عقیدے کے ہوتے ہوئے اس کا کوئی عمل آسمان کو اٹھ کر جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٧٦٦) (صحیح الإسناد )

【36】

افضیلت صحابہ کا بیان

سفیان ثوری کہا کرتے تھے خلفاء پانچ ہیں : ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ، عثمان (رض) عنہ، علی (رض) اور عمر بن عبدالعزیز (رح)۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٧٦٧) (ضعيف الإسناد) ( اس کے راوی عباد السَّماک مجہول ہیں )

【37】

خلافت کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : میں نے رات کو بادل کا ایک ٹکڑا دیکھا، جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا، پھر میں نے لوگوں کو دیکھا وہ اپنے ہاتھوں کو پھیلائے اسے لے رہے ہیں، کسی نے زیادہ لیا کسی نے کم، اور میں نے دیکھا کہ ایک رسی آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، پھر میں نے آپ کو دیکھا اللہ کے رسول ! کہ آپ نے اسے پکڑ ا اور اس سے اوپر چلے گئے، پھر ایک اور شخص نے اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چلا گیا، پھر ایک اور شخص نے اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چلا گیا، پھر اسے ایک اور شخص نے پکڑا تو وہ ٹوٹ گئی پھر اسے جوڑا گیا، تو وہ بھی اوپر چلا گیا۔ ابوبکر (رض) نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں مجھے اس کی تعبیر بیان کرنے دیجئیے آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی تعبیر بیان کرو وہ بولے : بادل کے ٹکڑے سے مراد اسلام ہے، اور ٹپکنے والے گھی اور شہد سے قرآن کی حلاوت (شیرینی) اور نرمی مراد ہے، کم اور زیادہ لینے والوں سے مراد قرآن کو کم یا زیادہ حاصل کرنے والے لوگ ہیں، آسمان سے زمین تک پہنچی ہوئی رسی سے مراد حق ہے جس پر آپ ہیں، آپ اسے پکڑے ہوئے ہیں، اللہ آپ کو اٹھا لے گا، پھر آپ ﷺ کے بعد ایک اور شخص اسے پکڑے گا تو وہ بھی اٹھ جائے گا، پھر ایک اور شخص پکڑے گا تو وہ بھی اٹھ جائے گا، پھر اسے ایک اور شخص پکڑے گا، تو وہ ٹوٹ جائے گی تو اسے جوڑا جائے گا، پھر وہ بھی اٹھ جائے گا، اللہ کے رسول ! آپ مجھے بتائیے کہ میں نے صحیح کہا یا غلط، آپ ﷺ نے فرمایا : کچھ صحیح کہا اور کچھ غلط کہا : اللہ کے رسول ! میں آپ کو قسم دلاتا ہوں کہ آپ مجھے بتائیے کہ میں نے کیا غلطی کی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم نہ دلاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٢٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٧٥) (صحیح )

【38】

خلافت کا بیان

اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے یہی قصہ مرفوعاً مروی ہے لیکن اس میں یہ ہے کہ آپ نے ان کو بتانے سے انکار کردیا، (کہ انہوں نے کیا غلطی کی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٨) (ضعیف الإسناد) (سلیمان بن کثیر زہری سے روایت میں ضعیف ہیں، لیکن پچھلی سند سے یہ روایت صحیح ہے )

【39】

خلافت کا بیان

ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک دن فرمایا : تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے ؟ ایک شخص بولا : میں نے دیکھا : گویا ایک ترازو آسمان سے اترا، آپ ﷺ کو اور ابوبکر کو تولا گیا، تو آپ ابوبکر سے بھاری نکلے، پھر عمر اور ابوبکر کو تولا گیا تو ابوبکر بھاری نکلے، پھر عمر اور عثمان کو تولا گیا تو عمر بھاری نکلے، پھر ترازو اٹھا لیا گیا، تو ہم نے رسول اللہ ﷺ کے چہرے میں ناپسندیدگی دیکھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الرؤیا ١٠ (٢٢٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٤، ٥٠) (صحیح )

【40】

خلافت کا بیان

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک دن فرمایا : تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے ؟ پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی اور چہرے پر ناگواری دیکھنے کا ذکر نہیں کیا بلکہ یوں کہا : رسول اللہ ﷺ کو وہ (خواب) برا لگا، اور فرمایا : وہ نبوت کی خلافت ہے، پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا سلطنت عطا کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٦٨٧) (صحیح) (یہ روایت پچھلی روایت سے تقویت پاکر صحیح ہے، ورنہ اس کے اندر علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں )

【41】

خلافت کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آج کی رات ایک صالح شخص کو خواب میں دکھایا گیا کہ ابوبکر کو رسول اللہ ﷺ سے جوڑ دیا گیا ہے، اور عمر کو ابوبکر سے اور عثمان کو عمر سے ۔ جابر کہتے ہیں : جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سے اٹھ کر آئے تو ہم نے کہا : مرد صالح سے مراد تو رسول اللہ ﷺ ہیں، اور بعض کا بعض سے جوڑے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہی لوگ اس امر (دین) کے والی ہوں گے جس کے ساتھ اللہ نے اپنے نبی اکرم ﷺ کو مبعوث فرمایا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے یونس اور شعیب نے بھی روایت کیا ہے، لیکن ان دونوں نے عمرو بن ابان کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٥٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٥) (ضعیف) (اس کے راوی عمرو بن ابان لین الحدیث ہیں، نیز جابر (رض) سے ان کے سماع میں اختلاف ہے )

【42】

خلافت کا بیان

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے دیکھا گویا کہ آسمان سے ایک ڈول لٹکایا گیا پہلے ابوبکر آئے تو اس کی دونوں لکڑیاں پکڑ کر اس میں سے تھوڑا سا پیا، پھر عمر آئے تو اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں اور انہوں نے خوب سیر ہو کر پیا، پھر عثمان آئے اور اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں اور خوب سیر ہو کر پیا، پھر علی آئے اور اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں، تو وہ چھلک گیا اور اس میں سے کچھ ان کے اوپر بھی پڑگیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٦٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢١) (ضعیف) (اس کے راوی عبدالرحمن لین الحدیث ہیں )

【43】

خلافت کا بیان

مکحول نے کہا رومی شام میں چالیس دن تک لوٹ کھسوٹ کرتے رہیں گے اور سوائے دمشق اور عمان کے کوئی شہر بھی ان سے نہ بچے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٤٦٤) (صحیح الإسناد )

【44】

خلافت کا بیان

عبدالعزیز بن علاء کہتے ہیں کہ انہوں نے ابو الأ عیس عبدالرحمٰن بن سلمان کو کہتے سنا کہ عجم کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تمام شہروں پر غالب آجائے گا سوائے دمشق کے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٩٦٢) (صحیح الإسناد )

【45】

خلافت کا بیان

مکحول کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کا خیمہ لڑائیوں کے وقت ایک ایسی سر زمین میں ہوگا جسے غوطہٰ ١ ؎ کہا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٤٥٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دمشق کے پاس ملک شام میں ایک جگہ ہے۔

【46】

خلافت کا بیان

عوف الا عرابی کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو خطبہ میں یہ کہتے سنا : عثمان کی مثال اللہ کے نزدیک عیسیٰ بن مریم کی طرح ہے، پھر انہوں نے آیت کریمہ إذ قال الله يا عيسى إني متوفيك ورافعک إلى ومطهرک من الذين کفروا جب اللہ نے کہا کہ : اے عیسیٰ ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں، اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں، اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں (سورۃ آل عمران : ٥٥) پڑھی اور اپنے ہاتھ سے ہماری اور اہل شام کی طرف اشارہ کر رہے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩١٨٣) (ضعیف) (عوف بن ابی جمیلة اعرابی اور حجاج کے درمیان انقطاع ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یہ تفسیر بالرائے کی بدترین قسم ہے حجاج نے اس آیت کریمہ کو اپنے اور اپنے مخالفوں پر منطبق کر ڈالا جب کہ حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں، آج بھی بعض اہل بدعت آیات قرآنیہ کی من مانی تفسیر کرتے رہتے ہیں، اور اہل حق کو اہل باطل اور باطل پرستوں کو اہل حق باور کراتے ہیں۔

【47】

خلافت کا بیان

ربیع بن خالد ضبی کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو خطبہ دیتے سنا، اس نے اپنے خطبے میں کہا : تم میں سے کسی کا پیغام بر جو اس کی ضرورت سے (پیغام لے جا رہا) ہو زیادہ درجے والا ہے، یا وہ جو اس کے گھربار میں اس کا قائم مقام اور خلیفہ ہو ؟ تو میں نے اپنے دل میں کہا : اللہ کا میرے اوپر حق ہے کہ میں تیرے پیچھے کبھی نماز نہ پڑھوں، اور اگر مجھے ایسے لوگ ملے جو تجھ سے جہاد کریں تو میں ضرور ان کے ساتھ تجھ سے جہاد کروں گا۔ اسحاق نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے : چناچہ انہوں نے جماجم میں جنگ کی یہاں تک کہ مارے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٦٣٢) (صحیح الإسناد )

【48】

خلافت کا بیان

عاصم کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو منبر پر کہتے سنا : جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرو، اس میں کوئی شرط یا استثناء نہیں ہے، امیر المؤمنین عبدالملک کی بات سنو اور مانو، اس میں بھی کوئی شرط اور استثناء نہیں ہے، اللہ کی قسم، اگر میں نے لوگوں کو مسجد کے ایک دروازے سے نکلنے کا حکم دیا پھر وہ لوگ کسی دوسرے دروازے سے نکلے تو ان کے خون اور ان کے مال میرے لیے حلال ہوجائیں گے، اللہ کی قسم ! اگر مضر کے قصور پر میں ربیعہ کو پکڑ لوں، تو یہ میرے لیے اللہ کی جانب سے حلال ہے، اور کون مجھے عبدہذیل (عبداللہ بن مسعود ہذلی) کے سلسلہ میں معذور سمجھے گا جو کہتے ہیں کہ ان کی قرآت اللہ کی طرف سے ہے قسم اللہ کی، وہ سوائے اعرابیوں کے رجز کے کچھ نہیں، اللہ نے اس قرآت کو اپنے نبی (علیہ السلام) پر نہیں نازل فرمایا، اور کون ان عجمیوں کے سلسلہ میں مجھے معذور سمجھے گا جن میں سے کوئی کہتا ہے کہ وہ پتھر پھینک رہا ہے، پھر کہتا ہے، دیکھو پتھر کہاں گرتا ہے ؟ (فساد کی بات کہہ کر دیکھتا ہے کہ دیکھوں اس کا کہاں اثر ہوتا ہے) اور کچھ نئی بات پیش آئی ہے، اللہ کی قسم، میں انہیں اسی طرح نیست و نابود کر دوں گا، جیسے گزشتہ کل ختم ہوگیا (جو اب کبھی نہیں آنے والا) ۔ عاصم کہتے ہیں : میں نے اس کا تذکرہ اعمش سے کیا تو وہ بولے : اللہ کی قسم میں نے بھی اسے، اس سے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٨٥١) (صحیح) (یہ حجاج بن یوسف کا کلام ہے )

【49】

خلافت کا بیان

اعمش کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو منبر پر کہتے سنا : یہ گورے (عجمی) قیمہ بنائے جانے کے قابل ہیں قیمہ، موالی (غلامو) سنو، اللہ کی قسم، اگر میں لکڑی پر لکڑی ماروں تو انہیں اسی طرح برباد کر کے رکھ دوں جس طرح گزرا ہوا کل ختم ہوگیا، یعنی عجمیوں کو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٧٨٤) (صحیح )

【50】

خلافت کا بیان

سلیمان الاعمش کہتے ہیں میں نے حجاج کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھی، اس نے خطبہ دیا، پھر راوی ابوبکر بن عیاش والی روایت (٤٦٤٣) ذکر کی، اس میں ہے کہ اس نے کہا : سنو اور اللہ کے خلیفہ اور اس کے منتخب عبدالملک بن مروان کی اطاعت کرو، اس کے بعد آگے کی حدیث بیان کی اور کہا : اگر میں مضر کے جرم میں ربیعہ کو پکڑوں (تو یہ غلط نہ ہوگا) اور عجمیوں والی بات کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم : (٤٦٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٨٥١) (صحیح إلی الحجاج )

【51】

خلفاء کا بیان

سفینہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خلافت علی منہاج النبوۃ (نبوت کی خلافت) تیس سال رہے گی ١ ؎، پھر اللہ تعالیٰ سلطنت یا اپنی سلطنت جسے چاہے گا دے گا سعید کہتے ہیں : سفینہ نے مجھ سے کہا : اب تم شمار کرلو : ابوبکر (رض) دو سال، عمر (رض) دس سال، عثمان (رض) بارہ سال، اور علی (رض) اتنے سال۔ سعید کہتے ہیں : میں نے سفینہ (رض) سے کہا : یہ لوگ (مروانی) کہتے ہیں کہ علی (رض) خلیفہ نہیں تھے، انہوں نے کہا : بنی زرقاء یعنی بنی مروان کے ٢ ؎ چوتڑ جھوٹ بولتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٤٨ (٢٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٢١) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابوبکر (رض) کی مدت خلافت : دو سال، تین ماہ، دس دن، عمر (رض) کی : دس سال ، چھ ماہ، آٹھ دن، عثمان (رض) کی : گیارہ سال، گیارہ ماہ، نو دن، علی (رض) کی : چار سال، نو ماہ ، سات دن، حسن (رض) کی : سات ماہ، کل مجموعہ : تیس سال ایک ماہ۔ ٢ ؎ : زرقاء بنی امیہ کی امّہات میں سے ایک خاتون کا نام ہے۔

【52】

خلفاء کا بیان

سفینہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خلافت علی منہاج النبوۃ (نبوت کی خلافت) تیس سال ہے، پھر اللہ تعالیٰ سلطنت جسے چاہے گا یا اپنی سلطنت جسے چاہے گا، دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ٤٤٨٠) (حسن صحیح )

【53】

خلفاء کا بیان

عبداللہ بن ظالم مازنی کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (رض) کو کہتے سنا : جب فلاں شخص کوفہ میں آیا تو فلاں شخص خطبہ کے لیے کھڑا ہوا ١ ؎، سعید بن زید نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا : ٢ ؎ کیا تم اس ظالم ٣ ؎ کو نہیں دیکھتے ٤ ؎ پھر انہوں نے نو آدمیوں کے بارے میں گواہی دی کہ وہ جنت میں ہیں، اور کہا : اگر میں دسویں شخص (کے جنت میں داخل ہونے) کی گواہی دوں تو گنہگار نہ ہوں گا، (ابن ادریس کہتے ہیں : عرب لوگ ( إیثم کے بجائے) آثم کہتے ہیں) ، میں نے پوچھا : اور وہ نو کون ہیں ؟ کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اس وقت آپ حراء (پہاڑی) پر تھے : حراء ٹھہر جا (مت ہل) اس لیے کہ تیرے اوپر نبی ہے یا صدیق ہے یا پھر شہید میں نے عرض کیا : اور نو کون ہیں ؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم، میں نے عرض کیا : اور دسواں آدمی کون ہے ؟ تو تھوڑا ہچکچائے پھر کہا : میں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے اشجعی نے سفیان سے، سفیان نے منصور سے، منصور نے ہلال بن یساف سے، ہلال نے ابن حیان سے اور ابن حیان نے عبداللہ بن ظالم سے اسی سند سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٢٨ (٣٧٥٧) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٨٨، ١٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” فلاں شخص کوفہ میں آیا “ اس سے کنایہ معاویہ (رض) کی طرف ہے، اور ” فلاں شخص خطبہ کے لئے کھڑا ہوا “ اس سے کنایہ مغیرہ بن شعبہ (رض) کی طرف ہے، اس جیسے مقام کے لئے کنایہ ہی بہتر تھا تاکہ شرف صحابیت مجروح نہ ہو۔ ٢ ؎ : یہ عبداللہ بن ظالم مازنی کا قول ہے۔ ٣ ؎ : اس سے مراد خطیب ہے۔ ٤ ؎ : جو علی (رض) کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔

【54】

خلفاء کا بیان

عبدالرحمٰن بن اخنس سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں تھے، ایک شخص نے علی (رض) کا (برائی کے ساتھ) تذکرہ کیا، تو سعید بن زید (رض) کھڑے ہوگئے اور فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں رسول اللہ ﷺ پر کہ میں نے آپ کو فرماتے سنا : دس لوگ جنتی ہیں : ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر بن عوام جنتی ہیں، سعد بن مالک جنتی ہیں اور عبدالرحمٰن بن عوف جنتی ہیں اور اگر میں چاہتا تو دسویں کا نام لیتا، وہ کہتے ہیں : لوگوں نے عرض کیا : وہ کون ہیں ؟ تو وہ خاموش رہے، لوگوں نے پھر پوچھا : وہ کون ہیں ؟ تو کہا : وہ سعید بن زید ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٤٥٩) (صحیح )

【55】

خلفاء کا بیان

ریاح بن حارث کہتے ہیں میں کوفہ کی مسجد میں فلاں شخص ١ ؎ کے پاس بیٹھا تھا، ان کے پاس کوفہ کے لوگ جمع تھے، اتنے میں سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (رض) آئے، تو انہوں نے انہیں خوش آمدید کہا، اور دعا دی، اور اپنے پاؤں کے پاس انہیں تخت پر بٹھایا، پھر اہل کوفہ میں سے قیس بن علقمہ نامی ایک شخص آیا، تو انہوں نے اس کا استقبال کیا، لیکن اس نے برا بھلا کہا اور سب وشتم کیا، سعید بولے : یہ شخص کسے برا بھلا کہہ رہا ہے ؟ انہوں نے کہا : علی (رض) کو کہہ رہا ہے، وہ بولے : کیا میں دیکھ نہیں رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کو تمہارے پاس برا بھلا کہا جا رہا ہے لیکن تم نہ منع کرتے ہو نہ اس سے روکتے ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے اور مجھے کیا پڑی ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ایسی بات کہوں جو آپ نے نہ فرمائی ہو کہ کل جب میں آپ سے ملوں تو آپ مجھ سے اس کے بارے میں سوال کریں : ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں پھر اوپر جیسی حدیث بیان فرمایا، پھر ان (صحابہ) میں سے کسی کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی جنگ میں شرکت جس میں اس چہرہ غبار آلود ہوجائے یہ زیادہ بہتر ہے اس سے کہ تم میں کا کوئی شخص اپنی عمر بھر عمل کرے اگرچہ اس کی عمر نوح کی عمر ہو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ المقدمة ١١ (١٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد مغیرہ بن شعبہ (رض) ہیں۔ ٢ ؎ : ایک شخص کا ایمان کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ میں شریک ہونا اور اس کا گرد و غبار برداشت کرنا غیر صحابی کی ساری زندگی کے عمل سے بہتر ہے چاہے اس کی زندگی کتنی ہی طویل اور نوح (علیہ السلام) کی زندگی کے برابر ہو جن کی صرف دعوتی زندگی ساڑھے نو سو سال تھی، اس سے صحابہ کرام کا احترام اور ان کی فضیلت واضح ہوتی ہے اسی لئے امت کا عقیدہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا ولی کسی ادنیٰ صحابی کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا، رضی اللہ عنہم اجمعین۔

【56】

خلفاء کا بیان

انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ احد پہاڑ پر چڑھے پھر آپ کے پیچھے ابوبکر، عمر، عثمان (رض) عنہم بھی چڑھے، تو وہ ان کے ساتھ ہلنے لگا، نبی اکرم ﷺ نے اسے اپنے پاؤں سے مارا اور فرمایا : ٹھہر جا اے احد ! (تیرے اوپر) ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٥ (٣٦٧٥) ، ٦ (٣٦٨٦) ، ٧ (٣٦٩٧) ، سنن الترمذی/المناقب ١٩ (٣٦٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٢) وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تیرے اوپر ایک نبی یعنی خود نبی اکرم ﷺ ، ایک صدیق یعنی ابوبکر، اور دو شہید یعنی عمر اور عثمان (رض) عنہم ہیں، یہ تیرے لئے باعث فخر ہے۔

【57】

خلفاء کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جبرائیل آئے، انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا، اور مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امت داخل ہوگی ابوبکر (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! میری خواہش ہے کہ آپ کے ساتھ میں بھی ہوتا تاکہ میں اسے دیکھتا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو اے ابوبکر ! میری امت میں سے تم ہی سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٨٨٠) (ضعیف) (اس کے راوی ابوخالد مولی آل جعدہ مجہول ہیں )

【58】

خلفاء کا بیان

جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنم میں ان لوگوں میں سے کوئی بھی داخل نہیں ہوگا، جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی (یعنی صلح حدیبیہ کے وقت بیعت رضوان میں شریک رہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٥٨ (٣٨٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٩١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٠) (صحیح )

【59】

خلفاء کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (موسیٰ کی روایت میں فلعل الله کا لفظ ہے، اور ابن سنان کی روایت میں اطلع الله ہے) اللہ تعالیٰ بدر والوں کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں نظر رحمت و مغفرت سے دیکھا تو فرمایا : جو عمل چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کردیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : ٢٦٥٠، (تحفة الأشراف : ١٢٨٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان اصحاب بدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کے بعد کوئی عمل اللہ کی منشاء کے خلاف بھی ہوجائے تو وہ ان سے باز پرس نہ فرمائے گا کیونکہ ان کو معاف کرچکا ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کو بداعمالیوں کی اجازت دی جا رہی ہے یا یہ کہ ان سے دنیا میں بھی باز پرس نہ ہوگی بلکہ اگر خدانخواستہ وہ دنیا میں کوئی عمل قابل حد کر بیٹھے تو حد جاری کی جائے گی۔

【60】

خلفاء کا بیان

مسور بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ حدیبیہ کے زمانے میں نکلے، پھر راوی نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس وہ یعنی عروہ بن مسعود آیا اور نبی اکرم ﷺ سے گفتگو کرنے لگا، جب وہ آپ سے بات کرتا، تو آپ کی ڈاڑھی پر ہاتھ لگاتا، مغیرہ بن شعبہ (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس کھڑے تھے، ان کے پاس تلوار تھی اور سر پر خود، انہوں نے تلوار کے پر تلے کے نچلے حصہ سے اس کے ہاتھ پر مارا اور کہا : اپنا ہاتھ ان کی ڈاڑھی سے دور رکھ، عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور بولا : یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : مغیرہ بن شعبہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٧٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٧٠) (صحیح )

【61】

خلفاء کا بیان

عمر بن خطاب (رض) کے مؤذن اقرع کہتے ہیں مجھے عمر نے ایک پادری کے پاس بلانے کے لیے بھیجا، میں اسے بلا لایا، تو عمر نے اس سے کہا : کیا تم کتاب میں مجھے (میرا حال) پاتے ہو ؟ وہ بولا : ہاں، انہوں نے کہا : کیسا پاتے ہو ؟ وہ بولا : میں آپ کو قرن پاتا ہوں، تو انہوں نے اس پر درہ اٹھایا اور کہا : قرن کیا ہے ؟ وہ بولا : لوہے کی طرح مضبوط اور سخت امانت دار، انہوں نے کہا : جو میرے بعد آئے گا تم اسے کیسے پاتے ہو ؟ وہ بولا : میں اسے نیک خلیفہ پاتا ہوں، سوائے اس کے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دے گا، عمر نے کہا : اللہ عثمان پر رحم کرے، (تین مرتبہ) پھر کہا : ان کے بعد والے کو تم کیسے پاتے ہو ؟ وہ بولا : وہ تو لوہے کا میل ہے (یعنی برابر تلوار سے کام رہنے کی وجہ سے ان کا بدن اور ہاتھ گویا دونوں ہی زنگ آلود ہوجائیں گے) عمر نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا، اور فرمایا : اے گندے ! بدبودار (تو یہ کیا کہتا ہے) اس نے کہا : اے امیر المؤمنین ! وہ ایک نیک خلیفہ ہوگا لیکن جب وہ خلیفہ بنایا جائے گا تو حال یہ ہوگا کہ تلوار بےنیام ہوگی، خون بہہ رہا ہوگا، (یعنی اس کی خلافت فتنہ کے وقت ہوگی) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : الدفر کے معنی نتن یعنی بدبو کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٤٠٨) (ضعیف الإسناد) (عیسائی پادری کے قول کا کیا اعتبار ؟ )

【62】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کے فضائل کے بارے میں

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جن میں مجھے مبعوث کیا گیا، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ آپ ﷺ نے تیسرے کا ذکر کیا یا نہیں، پھر کچھ لوگ رونما ہوں گے جو بلا گواہی طلب کئے گواہی دیتے پھریں گے، نذر مانیں گے لیکن پوری نہ کریں گے، خیانت کرنے لگیں گے جس سے ان پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا، اور ان میں موٹاپا عام ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٢ (٢٥٣٥) ، سنن الترمذی/الفتن ٤٥ (٢٢٢٢) ، الشھادات ٤، (٢٣٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٢٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الشہادات ٩ (٢٦٥١) ، فضائل الصحابة ١ (٣٦٥٠) ، الرقاق ٧ (٦٤٢٨) ، الأیمان ٧ (٦٦٩٥) ، سنن النسائی/الأیمان والنذور ٢٨ (٣٨٤٠) ، مسند احمد (٤/٤٢٦، ٤٢٧، ٤٣٦، ٤٤٠) (صحیح ) وضاحت : وضاحت ١ ؎ : کیونکہ جواب دہی کا خوف ان کے دلوں سے جاتا رہے گا، عیش و آرام کے عادی ہوجائیں گے اور دین و ایمان کی فکر جاتی رہے گی جو ان کے مٹاپے کا سبب ہوگی۔

【63】

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں زبان طعن دراز کرنے کی ممانعت

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو، اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی احد (پہاڑ) کے برابر سونا خرچ کر دے تو وہ ان کے ایک مد یا نصف مد کے برابر بھی نہ ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٥ (٣٦٧٣) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٤ (٢٥٤١) ، سنن الترمذی/المناقب ٥٩ (٣٨٦١) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢٠ (١٦١) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٠١، ١٢٥٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١، ٥٤، ٥٥، ٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کا شان ورود یہ ہے کہ ایک بار عبدالرحمن بن عوف (رض) اور خالد بن ولید (رض) کے درمیان کچھ کہا سنی ہوگئی جس پر خالد نے عبدالرحمن کو کچھ نامناسب الفاظ کہہ دیئے، جس پر رسول اکرم ﷺ نے یہ فرمایا، اس سے پتہ چلا کہ مخصوص اصحاب کے مقابلہ میں دیگر صحابہ کرام کا یہ حال ہے تو غیر صحابی کا کیا ذکر، غیر صحابی کا احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنا صحابی کے ایک مُد غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا، اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقام عالی کا پتہ چلتا ہے، اور یہیں سے ان بدبختوں کی بدبختی اور بدنصیبی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جن کے مذہب کی بنیاد صحابہ کرام کو سب وشتم کا نشانہ بنانا اور تبرا بازی کو دین سمجھنا ہے۔

【64】

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں زبان طعن دراز کرنے کی ممانعت

عمرو بن ابی قرہ کہتے ہیں کہ حذیفہ (رض) مدائن میں تھے اور وہ ان باتوں کا ذکر کیا کرتے تھے، جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب میں سے بعض لوگوں سے غصہ کی حالت میں فرمائی تھیں، پھر ان میں سے کچھ لوگ جو حذیفہ سے باتیں سنتے چل کر سلمان (رض) کے پاس آتے اور ان سے حذیفہ (رض) کی باتوں کا تذکرہ کرتے تو سلمان (رض) کہتے : حذیفہ ہی اپنی کہی باتوں کو بہتر جانتے ہیں، تو وہ لوگ حذیفہ کے پاس لوٹ کر آتے اور ان سے کہتے : ہم نے آپ کی باتوں کا تذکرہ سلمان سے کیا تو انہوں نے نہ آپ کی تصدیق کی اور نہ تکذیب، یہ سن کر حذیفہ سلمان کے پاس آئے، وہ اپنی ترکاری کے کھیت میں تھے کہنے لگے : اے سلمان ! ان باتوں میں میری تصدیق کرنے سے آپ کو کون سی چیز روک رہی ہے جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہیں ؟ تو سلمان نے کہا : رسول اللہ ﷺ بلاشبہ کبھی غصے میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے اور کبھی خوش ہوتے تو خوشی میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے، تو کیا آپ اس وقت تک باز نہ آئیں گے جب تک کہ بعض لوگوں کے دلوں میں بعض لوگوں کی محبت اور بعض دوسروں کے دلوں میں بعض کی دشمنی نہ ڈال دیں اور ان کو اختلاف میں مبتلا نہ کردیں، حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا : میں نے اپنی امت کے کسی فرد کو غصے کی حالت میں اگر برا بھلا کہا یا اسے لعن طعن کی تو میں بھی تو آدم کی اولاد میں سے ہوں، مجھے بھی غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے، لیکن اللہ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے تو (اے اللہ) میرے برا بھلا کہنے اور لعن طعن کو ان لوگوں کے لیے قیامت کے روز رحمت بنا دے اللہ کی قسم یا تو آپ اپنی اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ میں عمر بن الخطاب (امیر المؤمنین) کو لکھ بھیجوں گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٥٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٣٧، ٤٣٩) (صحیح )

【65】

حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت کا بیان

حارث بن ہشام عبداللہ بن زمعہ (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری سخت ہوئی اور میں آپ ہی کے پاس مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ تھا تو بلال (رض) نے آپ کو نماز کے لیے بلایا، آپ ﷺ نے فرمایا : کسی سے کہو جو لوگوں کو نماز پڑھائے عبداللہ بن زمعہ نکلے تو دیکھا کہ لوگوں میں عمر (رض) موجود ہیں، ابوبکر (رض) موقع پر موجود نہ تھے، میں نے کہا : اے عمر ! اٹھیے نماز پڑھائیے، تو وہ بڑھے اور انہوں نے اللہ اکبر کہا، وہ بلند آواز شخص تھے، رسول اللہ ﷺ نے جب ان کی آواز سنی تو فرمایا : ابوبکر کہاں ہیں ؟ اللہ کو یہ پسند نہیں اور مسلمانوں کو بھی، اللہ کو یہ پسند نہیں اور مسلمانوں کو بھی تو ابوبکر (رض) کو بلا بھیجا، وہ عمر کے نماز پڑھا چکنے کے بعد آئے تو انہوں نے لوگوں کو (پھر سے) نماز پڑھائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٢٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے خلافت صدیقی کا صاف اشارہ ملتا ہے کیونکہ امامت صغریٰ امامت کبریٰ کا پیش خیمہ ہے۔

【66】

حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت کا بیان

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زمعہ (رض) نے انہیں یہی بات بتائی اور کہا : جب نبی اکرم ﷺ نے عمر (رض) کی آواز سنی تو آپ نکلے یہاں تک کہ حجرے سے اپنا سر نکالا، پھر فرمایا : نہیں، نہیں، نہیں، ابن ابی قحافہ (یعنی ابوبکر) کو چاہیئے کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں آپ ﷺ یہ غصے میں فرما رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٥) (صحیح )

【67】

فتنہ کے وقت لوگوں سے (غیر ضروری) گفتگو چھوڑ دینا چاہیے

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن بن علی (رض) کو فرمایا : میرا یہ بیٹا سردار ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے میری امت کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا ۔ حماد کی روایت میں ہے : شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلح ٩ (٢٧٠٠٤) ، المناقب ٢٥ (٣٦٢٩) ، فضائل الصحابة ٢٢ (٣٧٤٦) ، الفتن ٢٠ (٧١٠٩) ، سنن الترمذی/المناقب ٣١ (٣٧٧٣) ، سنن النسائی/الجمعة ٢٧ (١٤١١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥ /٣٧، ٤٤، ٤٩، ٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ پیشین گوئی رسول اللہ ﷺ کی اس طرح سچ ثابت ہوئی کہ حسن (رض) نے معاویہ (رض) سے صلح کرلی اور ایک عظیم فتنہ کو ختم کردیا یہ سال اتحاد ملت کا سال تھا۔

【68】

فتنہ کے وقت لوگوں سے (غیر ضروری) گفتگو چھوڑ دینا چاہیے

محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ حذیفہ (رض) نے کہا : لوگوں میں کوئی ایسا نہیں جس کو فتنہ پہنچے اور مجھے اس کے فتنے میں پڑنے کا خوف نہ ہو، سوائے محمد بن مسلمہ کے کیونکہ ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہیں کوئی فتنہ ضرر نہ پہنچائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٣٨١) (صحیح )

【69】

فتنہ کے وقت لوگوں سے (غیر ضروری) گفتگو چھوڑ دینا چاہیے

ثعلبہ بن ضبیعہ کہتے ہیں کہ ہم حذیفہ (رض) کے پاس گئے تو آپ نے کہا : میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جسے فتنے کچھ بھی ضرر نہ پہنچا سکیں گے، ہم نکلے تو دیکھا کہ ایک خیمہ نصب ہے، ہم اندر گئے تو اس میں محمد بن مسلمہ (رض) ملے، ہم نے ان سے پوچھا (کہ آبادی چھوڑ کر خیمہ میں کیوں ہیں ؟ ) تو فرمایا : میں نہیں چاہتا کہ تمہارے شہروں کی کوئی برائی مجھ سے چمٹے، اس لیے جب تک فتنہ فرو نہ ہوجائے اور معاملہ واضح اور صاف نہ ہوجائے شہر کو نہیں جاؤں گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٣٨١) (صحیح) (اس کے راوی ثعلبہ یا ضبیعہ مجہول ہیں لیکن سابقہ حدیث کی تقویت سے صحیح ہے )

【70】

فتنہ کے وقت لوگوں سے (غیر ضروری) گفتگو چھوڑ دینا چاہیے

ضبیعہ بن حصین ثعلبی سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٣٨١) (صحیح) ( ثعلبہ بن ضبیعہ اور ضبیعہ بن حصین ایک ہی ہیں جو مجہول ہیں اور سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے )

【71】

فتنہ کے وقت لوگوں سے (غیر ضروری) گفتگو چھوڑ دینا چاہیے

قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) سے کہا : ہمیں آپ (معاویہ (رض) سے جنگ کے لیے) اپنی اس روانگی کے متعلق بتائیے کہ آیا رسول اللہ ﷺ کا کوئی حکم ہے جو انہوں نے آپ کو دیا ہے یا آپ کا اپنا خیال ہے جسے آپ درست سمجھتے ہیں، وہ بولے : مجھے رسول اللہ ﷺ نے کوئی حکم نہیں دیا بلکہ یہ میری رائے ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٢٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٤٢، ١٤٨) (صحیح الإسناد )

【72】

فتنہ کے وقت لوگوں سے (غیر ضروری) گفتگو چھوڑ دینا چاہیے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں میں اختلاف کے وقت ایک فرقہ نکلے گا جسے دونوں گروہوں میں سے جو حق سے قریب تر ہوگا قتل کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٤٧ (١٠٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٣٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢، ٩٧) (صحیح )

【73】

انبیاء میں بعض کو بعض پر فضیلت دینے کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نبیوں کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخصومات ٤ (٢٤١٢) ، الأنبیاء ٢٥ (٣٣٩٨) ، الدیات ٣٢ (٦٩١٧) ، صحیح مسلم/الفضائل (٢٣٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١، ٣٣، ٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کے یہ معنی نہیں کہ انبیاء فضیلت میں برابر ہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اپنی طرف سے ایسا مت کرو ، یا مطلب یہ ہے کہ ایک کو دوسرے پر ایسی فضیلت نہ دو کہ دوسرے کی تنقیص لازم آئے، یا یہ ہے کہ نفس نبوت میں سب برابر ہیں، خصائص اور فضائل میں ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں ، جیسا کہ اللہ نے فرمایا : تلک الرسل فضلنا بعضهم على بعض۔

【74】

انبیاء میں بعض کو بعض پر فضیلت دینے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی بندے کے لیے درست نہیں کہ وہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٢٤ (٣٣٩٥) ، و تفسیر القرآن ٤ (٤٦٣٠) ، صحیح مسلم/الفضائل ٤٣ (٢٣٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٢، ٢٥٤، ٣٤٢، ٣٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس میں اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اپنے کو یونس (علیہ السلام) سے افضل کہے، کیونکہ غیر نبی کبھی کسی بھی نبی سے افضل نہیں ہوسکتا، یا یہ کہ یونس (علیہ السلام) پر نبی اکرم ﷺ کو فضیلت دے اس صورت میں آپ کا یہ فرمانا بطور تواضع ہوگا۔

【75】

انبیاء میں بعض کو بعض پر فضیلت دینے کا بیان

عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : کسی نبی کے لیے یہ کہنا مناسب نہیں کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٢٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠٥) (صحیح لغیرہ) (اس میں محمد بن اسحاق صدوق ہیں ، لیکن سابقہ شاہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے )

【76】

انبیاء میں بعض کو بعض پر فضیلت دینے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ یہود کے ایک شخص نے کہا : قسم اس ذات کی جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو چن لیا، یہ سن کر مسلمان نے یہودی کے چہرہ پر طمانچہ رسید کردیا، یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا : مجھے موسیٰ (علیہ السلام) پر فضیلت نہ دو ، (پہلا صور پھونکنے سے) سب لوگ بیہوش ہوجائیں گے تو سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا، اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) عرش کا ایک کنارا مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہوں گے، تو مجھے نہیں معلوم کہ آیا وہ ان لوگوں میں سے تھے جو بیہوش ہوگئے تھے اور مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے، یا ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے بیہوش ہونے سے محفوظ رکھا ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن یحییٰ کی حدیث زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخصومات ١ (٢٤١٢) ، الأنبیاء ٣٢ (٢٣٩٨) ، التفسیر ٤ (٤٦٣٨) ، والرقاق ٤٣ (٦٥١٧) ، التوحید ٣١ (٧٤٧٢) ، صحیح مسلم/الفضائل ٤٢ (٢٣٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٥٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٤٠ (٣٢٤٥) ، مسند احمد (٢/٢٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ اس یہودی نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تمام عالم سے افضل قرار دیا تھا اس لئے مسلمان نے اسے طمانچہ رسید کردیا، رسول اکرم ﷺ نے جس چیز سے منع کیا وہ انبیاء کرام (علیہم السلام) کو ایک دوسرے پر حمیت و عصبیت کی بنا پر فضیلت دینا ہے، ورنہ اس میں شک نہیں کہ نبی اکرم ﷺ موسیٰ (علیہ السلام) سے افضل ہیں، آپ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بےہوش نہ ہونے وغیرہ کی بات صرف اس لئے فرمائی کہ ہر نبی کو اللہ نے کچھ خصوصیات عنایت فرمائی ہیں، لیکن ان کی بنیاد پر دوسرے انبیاء کی کسر شان درست نہیں، ہمارے لئے سارے انبیاء (علیہ السلام) قابل احترام ہیں۔

【77】

انبیاء میں بعض کو بعض پر فضیلت دینے کا بیان

انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو کہا : اے مخلوق میں سے سب سے بہتر ! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ شان تو ابراہیم (علیہ السلام) کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٤١ (٢٣٦٩) ، سنن الترمذی/تفسیر البینة ٨٦ (٣٣٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٧٨، ١٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ممکن ہے خیرالبریۃ ابراہیم (علیہ السلام) کا لقب ہو، وہ اپنے زمانہ کے سب سے بہتر تھے، آپ نے ازراہ انکسار ایسا فرمایا ورنہ آپ یقینا خیرالبریۃ ہیں۔

【78】

انبیاء میں بعض کو بعض پر فضیلت دینے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اولاد آدم کا سردار ہوں، اور میں سب سے پہلا شخص ہوں جو اپنی قبر سے باہر آئے گا، سب سے پہلے سفارش کرنے والا ہوں اور میری ہی سفارش سب سے پہلے قبول ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الفضائل ٢ (٢٢٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٩٥، ٢٨١) (صحیح )

【79】

انبیاء میں بعض کو بعض پر فضیلت دینے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے نہیں معلوم کہ تبع قابل ملامت ہے یا نہیں، اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ عزیر نبی ہیں یا نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٠٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تبع کے بارے میں یہ فرمان آپ ﷺ کا اس وقت کا ہے جب آپ کو اس کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا، بعد میں آپ کو بتادیا گیا کہ وہ ایک مرد صالح تھے۔

【80】

انبیاء میں بعض کو بعض پر فضیلت دینے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : میں ابن مریم سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ہوں، انبیاء (علیہم السلام) علاتی بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٤٠ (٢٣٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٢٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٤٨ (٣٤٤٢) ، مسند احمد (٢/٤٨٢، ٥٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : انبیاء (علیہم السلام) علاتی بھائی ہیں، علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کی مائیں مختلف ہوں اور باپ ایک ہو، انبیاء کی شریعتیں مختلف اور دین ایک تھا ، یا یہ مراد ہے کہ زمانے مختلف ہیں اور دین ایک ہے۔

【81】

مرحبہ کی تردید

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں، ان میں سب سے افضل لا إله إلا الله کہنا، اور سب سے کم تر راستے سے ہڈی ہٹانا ہے ٢ ؎، اور حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣ (٩) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٢ (٣٥) ، سنن الترمذی/الإیمان ٦ (٢٦١٤) ، سنن النسائی/الإیمان ١٦ (٥٠٠٧، ٥٠٠٨، ٥٠٠٩) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤١٤، ٤٤٢، ٤٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ارجاء کے معنی تاخیر کے ہیں اسی سے فرقہ مرجئہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ کوئی معصیت نقصان دہ نہیں، اور کفر کے ساتھ کوئی نیکی نفع بخش نہیں، یہ قدیم گمراہ فرقوں میں سے ایک ہے، اس کی تردید میں محدثین کرام نے مستقل کتابیں لکھی ہیں، اس کتاب میں بھی ان کا رد و ابطال مقصود ہے، ان کے نزدیک اعمال ایمان کا جزء نہیں، بلکہ ایمان محض تصدیق اور اقرار کا نام ہے، جب کہ اہل سنت و اہل حدیث کے یہاں ایمان کے ارکان تین ہیں ، دل سے تصدیق، زبان سے اقرار، اور اعضاء وجوارح سے عملی ثبوت فراہم کرنا۔ ٢ ؎ : بعض نسخوں میں عظم کے بجائے اذی کا لفظ ہے گویا کوئی بھی تکلیف دہ چیز۔ ٣ ؎ : حدیث سے ظاہر ہے کہ اعمال صالحہ سے مومن کو فائدہ اور اعمال بد سے نقصان اور ضرر ہوتا ہے، جب کہ مرجئہ کہتے ہیں کہ اعمال ایمان میں داخل نہیں۔

【82】

مرحبہ کی تردید

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عبدالقیس کا وفد جب رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے انہیں ایمان باللہ کا حکم دیا اور پوچھا : کیا تم جانتے ہو : ایمان باللہ کیا ہے ؟ وہ بولے : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اس بات کی شہادت دینی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز کی اقامت، زکاۃ کی ادائیگی، رمضان کے روزے رکھنا، اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٤٠ (٥٣) ، العلم ٢٥ (٨٧) ، المواقیت ٢ (٥٢٣) ، الزکاة ١ (١٣٩٨) ، فرض الخمس ٢ (٣٠٩٥) ، المناقب ٥ (٣٥١٠) ، المغازي ٦٩ (٤٣٦٨) ، الأدب ٩٨ (٦١٧٦) ، خبر الواحد ٥ (٧٢٦٦) ، التوحید ٥٦ (٧٥٥٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦ (١٧) ، الأشربة ٦ (١٩٩٥) ، سنن الترمذی/السیر ٣٩ (١٥٩٩) ، الإیمان ٥ (٢٦١١) ، سنن النسائی/الإیمان ٢٥ (٥٠٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١ /١٢٨، ٢٧٤، ٢٩١، ٣٠٤، ٣٣٤، ٣٤٠، ٣٥٢، ٣٦١) ، وقد مضی ہذا الحدیث برقم : (٣٦٩٢) (صحیح )

【83】

مرحبہ کی تردید

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندے اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز کا ترک کرنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الإیمان ٩ (٢٦٢٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٧٧ (١٠٧٨) ، مسند احمد (٣/٣٧٠، ٣٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٤٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٥ (٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کفر اور بندے میں نماز حد فاصل ہے، اگر نماز ادا کرتا ہے تو صاحب ایمان ہے، نہیں ادا کرتا ہے تو کافر ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی عمل کے ترک کو کفر نہیں خیال کرتے تھے سوائے نماز کے، عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں : ” نماز کا ترک کرنا کفر ہے “ ، عمر (رض) کہتے ہیں : اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں جو نماز چھوڑ دے، امام شافعی (رح) کہتے ہیں : تارک نماز مرتد ہے اگرچہ دین سے خارج نہیں ہوتا، اصحاب الرای کا مذہب ہے کہ اس کو قید کیا جائے تاوقتیکہ نماز پڑھنے لگے، امام احمد بن حنبل، اور امام اسحاق بن راہویہ، اور ائمہ کی ایک بڑی جماعت تارک نماز کو کافر کہتی ہے، اس لئے ہر مسلمان کو اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے نماز کا سخت اہتمام کرنا چاہیے، اور عام لوگوں میں اس عظیم عبادت، اور اسلامی رکن کی اہمیت کی تبلیغ کرنی چاہیے۔

【84】

مرحبہ کی تردید

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عقل اور دین میں ناقص ہوتے ہوئے عقل والے پر غلبہ پانے والا میں نے تم عورتوں سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا (ایک عورت) نے کہا : عقل اور دین میں کیا نقص ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عقل کا نقص تو یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے، اور دین کا نقص یہ ہے کہ (حیض و نفاس میں) تم میں کوئی نہ روزے رکھتی ہے اور نہ نماز پڑھتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٤ (٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٩ (٤٠٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اس مدت میں نماز و روزے کے ترک سے ایمان میں نقص ثابت ہوا۔

【85】

مرحبہ کی تردید

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب (نماز میں) نبی اکرم ﷺ نے کعبہ کی طرف رخ کرنا شروع کیا تو لوگ کہنے لگے : اللہ کے رسول ! ان لوگوں کا کیا ہوگا جو مرگئے، اور وہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وما کان الله ليضيع إيمانکم ایسا نہیں ہے کہ اللہ تمہارے ایمان یعنی نماز ضائع فرما دے (البقرہ : ١٤٣) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیرالقرآن ٣ (٢٩٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٩٥، ٣٠٤، ٣٤٧) (صحیح) (صحیح بخاری کی براء (رض) کی حدیث سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ عکرمہ سے سماک کی روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس آیت میں نماز کو اللہ تعالیٰ نے ایمان قرار دیا ہے، کیونکہ سوال ان صلاتوں کے بارے میں تھا جو بیت اللہ کی طرف رخ کرنے سے پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے ادا کی گئی تھیں، اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انتقال بھی کرچکے تھے تو اللہ نے فرمایا : بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پڑھی گئی نمازیں ضائع نہیں کرے گا، پس ایمان سے مراد نماز ہے۔

【86】

مرحبہ کی تردید

ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ ہی کے رضا کے لیے محبت کی، اللہ ہی کے رضا کے لیے دشمنی کی، اللہ ہی کے رضا کے لیے دیا، اللہ ہی کے رضا کے لیے منع کردیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٩٠٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں اعمال کو ایمان کی تکمیل کا سبب قرار دیا گویا ان اعمال کی کمی ایمان کی کمی ٹھہری، پتہ چلا ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔

【87】

ایمان میں کمی اور زیادتی کے دلائل

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جو ان میں سب سے بہتر اخلاق والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥١٠٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الرضاع ١١ (١١٦٢) ، مسند احمد (٢/٤٧٢، ٥٢٧) (حسن صحیح )

【88】

ایمان میں کمی اور زیادتی کے دلائل

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا تو سعد نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے فلاں اور فلاں کو دیا لیکن فلاں کو کچھ بھی نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یا مسلم ہے سعد نے تین بار یہی عرض کیا اور نبی اکرم ﷺ کہتے رہے : یا مسلم ہے پھر آپ نے فرمایا : میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور ان میں تجھے جو زیادہ محبوب ہے اسے چھوڑ دیتا ہوں، میں اسے کچھ بھی نہیں دیتا، ایسا اس اندیشے سے کہ کہیں وہ جہنم میں اوندھے منہ نہ ڈال دیئے جائیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١٩(٢٧) ، الزکاة ٥٣ (١٤٧٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦٧ (١٥٠) ، الزکاة ٤٥ (١٥٠) ، سنن النسائی/الإیمان وشرائعہ ٧ (٤٩٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٩١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ یہ شخص پکا سچا مومن ہے اگر میں اس کو نہ دوں گا تو بھی اس کے ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن یہ لوگ جن کو دیتا ہوں ناقص ایمان والے ہیں نہ دوں گا تو ان کے ایمان میں فرق پڑے گا کہ ان کا ایمان ابھی پختہ نہیں، لہٰذا مصلحتا میں ایسا کرتا ہوں، پتہ چلا ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔

【89】

ایمان میں کمی اور زیادتی کے دلائل

ابن شہاب زہری آیت کریمہ قل لم تؤمنوا ولکن قولوا أسلمنا آپ کہہ دیجئیے تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ مسلمان ہوئے (سورۃ الحجرات : ١٤) کی تفسیر میں کہتے ہیں : ہم سمجھتے ہیں کہ (اس آیت میں) اسلام سے مراد زبان سے کلمے کی ادائیگی اور ایمان سے مراد عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٣٧٧) (صحیح الإسناد)

【90】

ایمان میں کمی اور زیادتی کے دلائل

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں میں کچھ تقسیم فرمایا تو میں نے عرض کیا : فلاں کو بھی دیجئیے، وہ بھی مومن ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : یا مسلم ہے، میں ایک شخص کو کچھ عطا کرتا ہوں حالانکہ اس کے علاوہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے (جس کو نہیں دیتا) اس اندیشے سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اس کو نہ دوں تو وہ اوندھے منہ (جہنم میں) ڈال دیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٦٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٩١) (صحیح)

【91】

ایمان میں کمی اور زیادتی کے دلائل

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : * تخريج : صحیح البخاری/المغازي ٧٧ (٤٤٠٢) ، الأدب ٩٥ (٦١٦٦) ، الحدود ٩ (٦٧٨٥) ، الدیات ٢ (٦٨٦٨) ، الفتن ٨ (٧٠٧٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٩ (٦٦) ، سنن النسائی/المحاربة ٢٥ (٤١٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٥ (٢٩٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٤١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨٥، ٨٧، ١٠٤، ١٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں ایک دوسرے کی گردن مارنے کو ایمان کے منافی قرار دیا، حدیث کا معنی یہ ہے کہ : میرے بعد فرقہ بندی میں پڑ کر ایک دوسرے کی گردن مت مارنے لگ جانا کہ یہ کام کافروں کے مشابہ ہے کیونکہ کافر آپس میں دشمن اور مومن آپس میں بھائی ہیں۔

【92】

ایمان میں کمی اور زیادتی کے دلائل

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان کسی مسلمان کو کافر قرار دے تو اگر وہ کافر ہے (تو کوئی بات نہیں) ورنہ وہ (قائل) خود کافر ہوجائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٢٥٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ٧٣ (٦١٠٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٦ (١١١) ، سنن الترمذی/الإیمان ١٦ (١٢٣٧) ، مسند احمد (٢/٢٣، ٦٠) (صحیح )

【93】

ایمان میں کمی اور زیادتی کے دلائل

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چار خصلتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، معاہدہ کرے تو اس کو نہ نبھائے، اگر کسی سے جھگڑا کرے تو گالی گلوچ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٤ (٣٤) ، المظالم ١٧ (٢٤٥٩) ، الجزیة ١٧ (٣١٧٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٥ (٥٨) ، سنن الترمذی/الإیمان ١٤ (٢٦٣٢) ، سنن النسائی/الإیمان وشرائعہ ٢٠ (٥٠٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٩، ١٩٨، ٢٠٠) (صحیح )

【94】

ایمان میں کمی اور زیادتی کے دلائل

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زانی زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، چور چوری کے وقت مومن نہیں رہتا، شرابی شراب پیتے وقت مومن نہیں رہتا (یعنی ایمان اس سے جدا ہوجاتا ہے پھر بعد میں واپس آجاتا ہے) توبہ کا دروازہ اس کے بعد بھی کھلا ہوا ہے (یعنی اگر توبہ کرلے تو توبہ قبول ہوجائے گی اللہ بخشنے والا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٣٠ (٢٤٧٥) ، الأشربة ١ (٥٥٧٨) ، الحدود ١ (٦٧٧٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٣ (٥٧) ، سنن الترمذی/الإیمان ١١ (٢٦٢٥) ، سنن النسائی/قطع السارق ١ (٤٨٧٤) ، الأشربة ٤٢ (٥٦٦٢، ٥٦٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦٣، ١٢٤٨٩) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الأشربة ١١ (٢١٥٢) ، الأضاحی ٢٣ (٢٠٣٧) (صحیح )

【95】

ایمان میں کمی اور زیادتی کے دلائل

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب آدمی زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے اور بادل کے ٹکڑے کی طرح اس کے اوپر لٹکا رہتا ہے، پھر جب زنا سے الگ ہوتا ہے تو دوبارہ ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٠٧٩) (صحیح )

【96】

تقدیر کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قدریہ (منکرین تقدیر) اس امت (محمدیہ) کے مجوس ہیں، اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر وہ مرجائیں تو ان کے جنازے میں شریک مت ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٧٠٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨٦) (حسن) (شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ ابو حازم کا سماع ابن عمر سے نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : قدریہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو تقدیر کا منکر ہے، اس کا عقیدہ ہے کہ انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے، اس فرقہ کو مجوس سے اس لئے تشبیہ دی کہ مجوس دو خالق کے قائل ہیں، یعنی خالق شر و خالق خیر : خالق شر کو اہرمن اور خالق خیر کو یزداں کہتے ہیں، جبکہ اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ خالق صرف ایک ہے چناچہ هل من خالق غير الله فرما کر قرآن نے دوسرے کسی خالق کی تردید فرما دی، انسان جو کچھ کرتا ہے اس کو اس کا اختیار اللہ ہی نے دیا ہے، اگر نیک عمل کرے گا تو ثواب پائے گا، بد کرے گا تو عذاب پائے گا، ہر فعل کا خالق اللہ ہی ہے، دوسرا کوئی نہیں، یہ مسئلہ نہایت معرکۃ الآراء ہے، عام آدمی کو اس کی ٹوہ میں نہیں پڑنا چاہیے، سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ مسلمان تقدیر پر ایمان رکھے اور شیطان کے وسوسہ سے بچے، تقدیر کے منکروں سے ہمیشہ دور رہنا چاہیے ان سے میل جول بھی درست نہیں۔

【97】

تقدیر کا بیان

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر امت کے مجوس ہوتے ہیں، اس امت کے مجوس وہ لوگ ہیں جو تقدیر کے منکر ہیں، ان میں کوئی مرجائے تو تم اس کے جنازے میں شرکت نہ کرو، اور اگر کوئی بیمار پڑے، تو اس کی عیادت نہ کرو، یہ دجال کی جماعت کے لوگ ہیں، اللہ ان کو دجال کے زمانے تک باقی رکھے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٣٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٠٦) (ضعیف) (اس کے راوی عمر مولی غفرہ ضعیف ہیں، نیز اس کی سند میں ایک راوی انصاری مبہم ہے )

【98】

تقدیر کا بیان

ابوموسی اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا جس کو اس نے ساری زمین سے لیا تھا، چناچہ آدم کی اولاد اپنی مٹی کی مناسبت سے مختلف رنگ کی ہے، کوئی سفید، کوئی سرخ، کوئی کالا اور کوئی ان کے درمیان، کوئی نرم خو، تو کوئی درشت خو، سخت گیر، کوئی خبیث تو کوئی پاک باز ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیرالقرآن ٣ (٢٩٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠٠، ٤٠٦) (صحیح )

【99】

تقدیر کا بیان

علی (رض) کہتے ہیں کہ ہم مدینہ کے قبرستان بقیع غرقد میں ایک جنازے میں شریک تھے، جس میں رسول اللہ ﷺ بھی تھے، آپ آئے اور بیٹھ گئے، آپ کے پاس ایک چھڑی تھی، چھڑی سے زمین کریدنے لگے، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ہر ایک متنفس کا ٹھکانہ جنت یا دوزخ میں لکھ دیا ہے، اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! پھر ہم کیوں نہ اپنے لکھے پر اعتماد کر کے بیٹھ رہیں اور عمل ترک کردیں کیونکہ جو نیک بختوں میں سے ہوگا وہ لازماً نیک بختی کی طرف جائے گا اور جو بدبختوں میں سے ہوگا وہ ضرور بدبختی کی طرف جائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عمل کرو، ہر ایک کے لیے اس کا عمل آسان ہے، اہل سعادت کے لیے سعادت کی راہیں آسان کردی جاتی ہیں اور بدبختوں کے لیے بدبختی کی راہیں آسان کردی جاتی ہیں پھر نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا : جو شخص اللہ کے راستے میں خرچ کرے، اللہ سے ڈرے، اور کلمہ توحید کی تصدیق کرے تو ہم اس کے لیے آسانی اور خوشی کی راہ آسان کردیں گے، اور جو شخص بخل کرے، دنیوی شہوات میں پڑ کر جنت کی نعمتوں سے بےپروائی برتے اور کلمہ توحید کو جھٹلائے تو ہم اس کے لیے سختی اور بدبختی کی راہ آسان کردیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٢ (١٣٦٢) ، تفسیر سورة اللیل ٣ (٤٩٤٥) ، الأدب ١٢٠ (٦٢١٧) ، القدر ٤ (٦٦٠٥) ، التوحید ٥٤ (٧٥٥٢) ، صحیح مسلم/القدر ١ (٢٦٤٧) ، سنن الترمذی/القدر ٣ (٢١٣٦) ، والتفسیر ٨٠ (٣٣٤٤) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٠ (٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ١/٨٢، ١٢٩، ١٣٢، ١٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں اس شیطانی وسوسہ کا جواب رسول اللہ ﷺ نے دیا، جو اکثر لوگوں کے ذہن میں آتا ہے، اور ان کو بدعملی پر ابھارتا ہے، جب جنتی اور جہنمی کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے تو عمل کیوں کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کسی کو معلوم نہیں کہ اس کے مقدر میں کیا لکھا ہے ، لہٰذا ہر شخص کو نیک عمل کرنا چاہیے کہ یہی نیکی کی راہ ، اور یہی جنت میں جانے کا سبب ہے، بندے کو اس بحث میں پڑے بغیر کہ وہ کہاں جائے گا نیک عمل کرتے رہنا چاہیے، تاکہ وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہو، اور نتیجے میں جنت نصیب ہو، آمین۔

【100】

تقدیر کا بیان

یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلے معبد جہنی نے تقدیر کا انکار کیا، ہم اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری حج یا عمرے کے لیے چلے، تو ہم نے دل میں کہا : اگر ہماری ملاقات رسول اللہ ﷺ کے کسی صحابی سے ہوئی تو ہم ان سے تقدیر کے متعلق لوگ جو باتیں کہتے ہیں اس کے بارے میں دریافت کریں گے، تو اللہ نے ہماری ملاقات عبداللہ بن عمر (رض) سے کرا دی، وہ ہمیں مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے، چناچہ میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں گھیر لیا، میرا خیال تھا کہ میرے ساتھی گفتگو کا موقع مجھے ہی دیں گے اس لیے میں نے کہا : ابوعبدالرحمٰن ! ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے ہیں جو قرآن پڑھتے اور اس میں علمی باریکیاں نکالتے ہیں، کہتے ہیں : تقدیر کوئی چیز نہیں ١ ؎، سارے کام یوں ہی ہوتے ہیں، تو آپ نے عرض کیا : جب تم ان سے ملنا تو انہیں بتادینا کہ میں ان سے بری ہوں، اور وہ مجھ سے بری ہیں (میرا ان سے کوئی تعلق نہیں) ، اس ہستی کی قسم، جس کی قسم عبداللہ بن عمر کھایا کرتا ہے، اگر ان میں ایک شخص کے پاس احد کے برابر سونا ہو اور وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تو بھی اللہ اس کے کسی عمل کو قبول نہ فرمائے گا، جب تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہ لے آئے، پھر آپ نے کہا : مجھ سے عمر بن خطاب (رض) نے بیان کیا کہ ایک بار ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا جس کا لباس نہایت سفید اور بال انتہائی کالے تھے، اس پر نہ تو سفر کے آثار دکھائی دے رہے تھے، اور نہ ہی ہم اسے پہچانتے تھے، یہاں تک کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس جا کر بیٹھ گیا، اس نے اپنے گھٹنے نبی اکرم ﷺ کے گھٹنوں سے ملا دئیے، اور اپنی ہتھیلیوں کو آپ کی رانوں پر رکھ لیا اور عرض کیا : محمد ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکاۃ دو ، رمضان کے روزے رکھو، اور اگر پہنچنے کی قدرت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو وہ بولا : آپ نے سچ کہا، عمر بن خطاب کہتے ہیں : ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ وہ آپ سے سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے۔ اس نے کہا : مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور تقدیر ٢ ؎ کے بھلے یا برے ہونے پر ایمان لاؤ اس نے کہا : آپ نے سچ کہا۔ پھر پوچھا : مجھے احسان کے بارے میں بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو سکے تو (یہ تصور رکھو کہ) وہ تو تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے اس نے کہا : مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : جس سے پوچھا جا رہا ہے، وہ اس بارے میں پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ٣ ؎۔ اس نے کہا : تو مجھے اس کی علامتیں ہی بتا دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ٤ ؎، اور یہ کہ تم ننگے پیر اور ننگے بدن، محتاج، بکریوں کے چرواہوں کو دیکھو گے کہ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں فخر و مباہات کریں گے پھر وہ چلا گیا، پھر میں تین ٥ ؎ (ساعت) تک ٹھہرا رہا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اے عمر ! کیا تم جانتے ہو کہ پوچھنے والا کون تھا ؟ میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ جبرائیل تھے، تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ١ (٨) ، سنن الترمذی/الإیمان ٤ (٢٦١٠) ، سنن النسائی/الإیمان ٥ (٤٩٩٣) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٧٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٧ (٥٠) ، تفسیر سورة لقمان 2 (7774) ، مسند احمد (١/٢٧، ٢٨، ٥١، ٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بندہ اپنے افعال میں خود مختار ہے اور وہی ان کا خالق ہے۔ ٢ ؎ : یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر فرما دیا ہے اب ہر شیٔ اسی اندازے کے مطابق اس کے پیدا کرنے سے ہو رہی ہے کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر نہیں ہوتی۔ ٣ ؎ : مطلب یہاں یہ ہے کہ قیامت کے وقوع کا علم چونکہ اللہ نے کسی کو نہیں دیا اس لئے نہ تم جانتے ہو اور نہ میں، بلکہ ہر سائل اور مسئول قیامت کے بارے میں ایسا ہی ہے یعنی نہیں جانتا، ہاں قیامت علامات بتلائی گئی ہیں جس سے عبرت حاصل کر کے نیک عمل کرنا چاہیے۔ ٤ ؎ : اس کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے گا، اولاد اپنے والدین کے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ کرنے لگے گی۔ ٥ ؎ : تین ساعت یا تین رات یا چند لمحے۔

【101】

تقدیر کا بیان

یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر (رض) سے ملے تو ہم نے آپ سے تقدیر کے بارے میں جو کچھ لوگ کہتے ہیں اس کا ذکر کیا۔ پھر راوی نے اسی طرح کی روایت ذکر کی اور اس میں یہ اضافہ کیا کہ آپ سے مزینہ یا جہینہ ١ ؎ کے ایک شخص نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! پھر ہم کیا جان کر عمل کریں ؟ کیا یہ جان کر کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ سب پہلے ہی تقدیر میں لکھا جا چکا ہے، یا یہ جان کر کہ (پہلے سے نہیں لکھا گیا ہے) نئے سرے سے ہونا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ جان کر کہ جو کچھ ہونا ہے سب تقدیر میں لکھا جا چکا ہے پھر اس شخص نے یا کسی دوسرے نے کہا : تو آخر یہ عمل کس لیے ہے ؟ ٢ ؎، آپ ﷺ نے فرمایا : اہل جنت کے لیے اہل جنت والے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کو اہل جہنم کے اعمال آسان کردیئے جاتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دو قبیلوں کے نام ہیں۔ ٢ ؎ : یعنی جب جنت و جہنم کا فیصلہ ہوچکا ہے تو عمل کیوں کریں، یہی سوچ گمراہی کی ابتداء تھی۔

【102】

تقدیر کا بیان

یحییٰ بن یعمر سے یہی حدیث کچھ الفاظ کی کمی اور بیشی کے ساتھ مروی ہے اس نے پوچھا : اسلام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نماز کی اقامت، زکاۃ کی ادائیگی، بیت اللہ کا حج، ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور جنابت لاحق ہونے پر غسل کرنا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : علقمہ مرجئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٧٢) (صحیح )

【103】

تقدیر کا بیان

ابوذر اور ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کے بیچ میں اس طرح بیٹھتے تھے کہ جب کوئی اجنبی شخص آتا تو وہ بغیر پوچھے آپ کو پہچان نہیں پاتا تھا، تو ہم نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ ہم آپ کے لیے ایک ایسی جائے نشست بنادیں کہ جب بھی کوئی اجنبی آئے تو وہ آپ کو پہچان لے، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : چناچہ ہم نے آپ کے لیے ایک مٹی کا چبوترا بنادیا، تو آپ ﷺ اس پر بیٹھتے اور ہم آپ کے اردگرد بیٹھتے، آگے ابوہریرہ (رض) نے اسی جیسی روایت ذکر کی، اس میں ہے کہ ایک شخص آیا، پھر انہوں نے اس کی ہیئت ذکر کی، یہاں تک کہ اس نے بیٹھے ہوئے لوگوں کے کنارے سے ہی آپ کو یوں سلام کیا : السلام علیک یا محمد ! تو نبی اکرم ﷺ نے اسے سلام کا جواب دیا۔ تخریج دارالدعوہ : وحدیث أبی ذر قد أخرجہ : سنن النسائی/ الإیمان ٦ (٤٩٩٤) ، مختصراً ، وحدیث أبی ہریرة قد أخرجہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٨ (٥٠) ، تفسیر سورة لقمان ٢ (٤٧٧٧) ، صحیح مسلم/ الأیمان ١ (٩) ، سنن ابن ماجہ/ المقدمة ٩ (٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٦) (صحیح )

【104】

تقدیر کا بیان

ابن دیلمی ١ ؎ کہتے ہیں کہ میں ابی بن کعب (رض) کے پاس آیا اور ان سے کہا : میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہ پیدا ہوگیا ہے، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے یہ امید ہو کہ اللہ اس شبہ کو میرے دل سے نکال دے گا، فرمایا : اگر اللہ تعالیٰ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور عذاب دینے میں وہ ظالم نہیں ہوگا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے لیے ان کے اعمال سے بہت بہتر ہے، اگر تم احد کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تو اللہ اس کو تمہاری طرف سے قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ اور یہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں پہنچا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ نہ پہنچتا، اور جو کچھ تمہیں نہیں پہنچا وہ ایسا نہیں کہ تمہیں پہنچ جاتا، اور اگر تم اس عقیدے کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مرگئے تو ضرور جہنم میں داخل ہو گے۔ ابن دیلمی کہتے ہیں : پھر میں عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کی بات کہی، پھر میں حذیفہ بن یمان (رض) کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کی بات کہی، پھر میں زید بن ثابت (رض) کے پاس آیا تو انہوں نے مجھ سے اسی کے مثل نبی اکرم ﷺ کی ایک مرفوع روایت بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٠ (٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٨٢، ١٨٥، ١٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ابوالبسر عبداللہ بن فیروز الدیلمی۔

【105】

تقدیر کا بیان

ابوحفصہ کہتے ہیں کہ عبادہ بن صامت (رض) نے اپنے بیٹے سے کہا : اے میرے بیٹے ! تم ایمان کی حقیقت کا مزہ ہرگز نہیں پاسکتے جب تک کہ تم یہ نہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے وہ ایسا نہیں کہ نہ ملتا اور جو کچھ نہیں ملا ہے ایسا نہیں کہ وہ تمہیں مل جاتا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : سب سے پہلی چیز جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا، قلم ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا : لکھ، قلم نے کہا : اے میرے رب ! میں کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے کہا : قیامت تک ہونے والی ساری چیزوں کی تقدیریں لکھ اے میرے بیٹے ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو اس کے علاوہ (کسی اور عقیدے) پر مرا تو وہ مجھ سے نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٠٨٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/القدر ١٧ (٢١٥٥) ، تفسیر سورة النون ٦٦ (٣٣١٩) (صحیح )

【106】

تقدیر کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آدم اور موسیٰ نے بحث کی تو موسیٰ نے کہا : اے آدم ! آپ ہمارے باپ ہیں، آپ ہی نے ہمیں محرومی سے دو چار کیا، اور ہمیں جنت سے نکلوایا، آدم نے کہا : تم موسیٰ ہو تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی گفتگو کے لیے چن لیا، اور تمہارے لیے تورات کو اپنے ہاتھ سے لکھا، تم مجھے ایسی بات پر ملامت کرتے ہو جسے اس نے میرے لیے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے ہی لکھ دیا تھا، پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٣١ (٣٤٠٩) ، القدر ١١ (٦٦١٤) ، صحیح مسلم/القدر ٢ (٢٦٥٢) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٠(٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٢٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/القدر ٢ (٢١٣٤) ، موطا امام مالک/القدر ١ (١) ، مسند احمد (٢/٢٤٨، ٢٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ بحث و تکرار اللہ کے سامنے ہوئی جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔

【107】

تقدیر کا بیان

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اے میرے رب ! ہمیں آدم (علیہ السلام) کو دکھا جنہوں نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوایا، تو اللہ نے انہیں آدم (علیہ السلام) کو دکھایا، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : آپ ہمارے باپ آدم ہیں ؟ تو آدم (علیہ السلام) نے ان سے کہا : ہاں، انہوں نے کہا : آپ ہی ہیں جس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی، جسے تمام نام سکھائے اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا ؟ انہوں نے کہا : ہاں، انہوں نے کہا : تو پھر کس چیز نے آپ کو اس پر آمادہ کیا کہ آپ نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوا دیا ؟ تو آدم نے ان سے کہا : اور تم کون ہو ؟ وہ بولے : میں موسیٰ ہوں، انہوں نے کہا : تم بنی اسرائیل کے وہی نبی ہو جس سے اللہ نے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی اور تمہارے اور اپنے درمیان اپنی مخلوق میں سے کوئی قاصد مقرر نہیں کیا ؟ کہا : ہاں، آدم (علیہ السلام) نے کہا : تو کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ وہ (جنت سے نکالا جانا) میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی کتاب میں لکھا ہوا تھا ؟ کہا : ہاں معلوم ہے، انہوں نے کہا : پھر ایک چیز کے بارے میں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی مقدر ہوچکا تھا کیوں مجھے ملامت کرتے ہو ؟ یہاں پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو آدم، موسیٰ پر غالب آگئے، تو آدم موسیٰ پر غالب آگئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٣٩٧) (حسن )

【108】

تقدیر کا بیان

مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) سے اس آیت وإذ أخذ ربک من بني آدم من ظهورهم کے متعلق پوچھا گیا ١ ؎۔ (حدیث بیان کرتے وقت) قعنبی نے آیت پڑھی تو آپ نے کہا : جب نبی اکرم ﷺ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، پھر ان کی پیٹھ پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرا، اس سے اولاد نکالی اور کہا : میں نے انہیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے، اور یہ جنتیوں کے کام کریں گے، پھر ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے بھی اولاد نکالی اور کہا : میں نے انہیں جہنمیوں کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اہل جہنم کے کام کریں گے تو ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! پھر عمل سے کیا فائدہ ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جب بندے کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جنتیوں کے کام کراتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنتیوں کے اعمال میں سے کسی عمل پر مرجاتا ہے، تو اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کردیتا ہے، اور جب کسی بندے کو جہنم کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جہنمیوں کے کام کراتا ہے یہاں تک کہ وہ جہنمیوں کے اعمال میں سے کسی عمل پر مرجاتا ہے تو اس کی وجہ سے اسے جہنم میں داخل کردیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر سورة الأعراف (٣٠٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٥٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القدر ١ (٢) ، مسند احمد (١/٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور یاد کرو اس وقت کو جب تمہارے رب نے آدم کی اولاد کو ان کی پشتوں سے نکالا۔

【109】

تقدیر کا بیان

نعیم بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب (رض) کے پاس تھا، پھر انہوں نے یہی حدیث روایت کی، مالک کی روایت زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٥٤) (صحیح )

【110】

تقدیر کا بیان

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ لڑکا جسے خضر (علیہ السلام) نے قتل کردیا تھا طبعی طور پر کافر تھا اگر وہ زندہ رہتا تو اپنے ماں باپ کو سرکشی اور کفر میں مبتلا کردیتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القدر ٦ ( ٢٦٦١) ، سنن الترمذی/التفسیر ١٩ (٣١٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العلم ٤٤ (١٢٢) ، مسند احمد (٥/١٢١) (صحیح )

【111】

تقدیر کا بیان

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے فرمان وأما الغلام فکان أبواه مؤمنين اور رہا لڑکا تو اس کے ماں باپ مومن تھے (سورۃ الکہف : ٨٠) کے بارے میں فرماتے سنا کہ وہ پیدائش کے دن ہی کافر پیدا ہوا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٠) (صحیح )

【112】

تقدیر کا بیان

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خضر (علیہ السلام) نے ایک لڑکے کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو اس کا سر پکڑا، اور اسے اکھاڑ لیا، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : کیا تم نے بےگناہ نفس کو مار ڈالا ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٤٧٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٥) (صحیح )

【113】

تقدیر کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں ہم سے رسول اللہ ﷺ نے (آپ صادق اور آپ کی صداقت مسلم ہے) بیان فرمایا : تم میں سے ہر شخص کا تخلیقی نطفہ چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع رکھا جاتا ہے، پھر اتنے ہی دن وہ خون کا جما ہوا ٹکڑا رہتا ہے، پھر وہ اتنے ہی دن گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے، پھر اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے : تو وہ اس کا رزق، اس کی عمر، اس کا عمل لکھتا ہے، پھر لکھتا ہے : آیا وہ بدبخت ہے یا نیک بخت، پھر وہ اس میں روح پھونکتا ہے، اب اگر تم میں سے کوئی جنتیوں کے عمل کرتا ہے، یہاں تک کہ اس (شخص) کے اور اس (جنت) کے درمیان صرف ایک ہاتھ یا ایک ہاتھ کے برابر فاصلہ رہ جاتا ہے کہ کتاب (تقدیر) اس پر سبقت کر جاتی ہے اور وہ جہنمیوں کے کام کر بیٹھتا ہے تو وہ داخل جہنم ہوجاتا ہے، اور تم میں سے کوئی شخص جہنمیوں کے کام کرتا ہے یہاں تک کہ اس (شخص) کے اور اس (جہنم) کے درمیان صرف ایک ہاتھ یا ایک ہاتھ کے برابر کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ کتاب (تقدیر) اس پر سبقت کر جاتی ہے، اب وہ جنتیوں کے کام کرنے لگتا ہے تو داخل جنت ہوجاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٦ (٣٢٠٨) ، الأنبیاء ١ (٣٣٩٣) ، القدر ١ (٦٥٩٤) ، صحیح مسلم/القدر ١(٢٦٤٣) ، سنن الترمذی/القدر ٤ (٢١٣٧) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٠ (٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٢، ٤١٤، ٤٣٠) (صحیح )

【114】

تقدیر کا بیان

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کیا جنتی اور جہنمی پہلے ہی معلوم ہوچکے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں اس نے کہا : پھر عمل کرنے والے کس بنا پر عمل کریں ؟ آپ نے فرمایا : ہر ایک کو توفیق اسی بات کی دی جاتی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/القدر ٢ (٦٥٩٦) ، والتوحید ٥٣ (٧٥٥١) ، صحیح مسلم/القدر ١ (٢٦٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٢٧، ٤٣١) (صحیح )

【115】

تقدیر کا بیان

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم منکرین تقدیر کے پاس نہ بیٹھو اور نہ ہی ان سے سلام و کلام کی ابتداء کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، مسند احمد (١/٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٦٩) (ضعیف) (اس کے راوی حکیم بن شریک ھذلی مجہول ہیں )

【116】

مشرکوں کی نابالغ اولاد کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا : اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ زندہ رہتے تو کیا عمل کرتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٩٢ (١٣٨٣) ، و القدر ٣ (٦٥٩٧) ، صحیح مسلم/القدر ٦ (٢٦٦٠) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٠ (١٩٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥، ٣٢٨، ٣٤٠، ٣٥٨) (صحیح )

【117】

مشرکوں کی نابالغ اولاد کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مومنوں کے بچوں کا کیا حال ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بغیر کسی عمل کے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اور مشرکین کے بچے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے میں نے عرض یا بغیر کسی عمل کے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٢٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨٤) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : ام المومنین عائشہ (رض) کا سوال ان بچوں کے متعلق تھا جو قبل بلوغت انتقال کر گئے تھے، رسول اکرم ﷺ کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ہی رہیں گے، اگرچہ ان سے کوئی کفر یا نیک عمل صادر نہ ہوا، لیکن اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اگر زندہ رہتے تو کیا کرتے۔

【118】

مشرکوں کی نابالغ اولاد کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس انصار کا ایک بچہ نماز پڑھنے کے لیے لایا گیا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! زندگی کے مزے تو اس بچے کے لیے ہیں، اس نے نہ کوئی گناہ کیا اور نہ ہی وہ اسے (گناہ کو) سمجھتا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! کیا تم ایسا سمجھتی ہو حالانکہ ایسا نہیں ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا کیا اور اس کے لیے لوگ بھی پیدا کئے اور جنت کو ان لوگوں کے لیے جب بنایا جب وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے، اور جہنم کو پیدا کیا اور اس کے لیے لوگ بھی پیدا کئے گئے اور جہنم کو ان لوگوں کے لیے پیدا کیا جب کہ وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القدر ٦ (٢٦٦٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٨ (١٩٤٩) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٠ (٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤١، ٢٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ام المومنین عائشہ (رض) کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ اس بچے نے کوئی گناہ نہ کیا اس لئے یہ تو یقینا جنتی ہے، رسول اکرم ﷺ نے اس یقین کی تردید فرمائی کہ بلا دلیل کسی کو جنتی کہنا درست نہیں، جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ تو اللہ نے انسان کے دنیا میں آنے سے قبل ہی کردیا ہے، اور وہ ہمیں معلوم نہیں تو ہم کسی کو حتمی اور یقینی طور پر جنتی یا جہنمی کیسے کہہ سکتے ہیں، یہ حدیث مندرجہ بالا حدیث سے معارض معلوم ہوتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان بچے جو بچپن ہی میں مرجائیں گے اپنے والدین کے ساتھ ہوں گے، نیز علماء کا اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے بچے جنتی ہیں، اس حدیث کا یہ جواب دیا گیا کہ عائشہ (رض) کو جنتی یا جہنمی کا فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے روکنا مقصود تھا اور بس، بعض نے کہا : یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اکرم ﷺ کو بتایا نہیں گیا تھا کہ مسلم بچے جنتی ہیں۔

【119】

مشرکوں کی نابالغ اولاد کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنا ڈالتے ہیں، جیسے اونٹ صحیح و سالم جانور سے پیدا ہوتا ہے تو کیا تمہیں اس میں کوئی کنکٹا نظر آتا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے جو بچپنے میں مرجائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٩٢ (١٣٨٣) ، و القدر ٣ (٦٥٩٢) ، صحیح مسلم/القدر ٦ (٢٦٥٨) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٠ (١٩٥١) ، سنن الترمذی/القدر ٥ (٢١٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٥٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٥٢) ، مسند احمد (٢/٢٤٤، ٢٥٣، ٢٥٩، ٢٦٨، ٣١٥، ٣٤٧، ٣٩٣، ٤٧١، ٤٨٨، ٥١٨) (صحیح )

【120】

مشرکوں کی نابالغ اولاد کا بیان

ابن وہب کہتے ہیں کہ میں نے مالک کو کہتے سنا، ان سے پوچھا گیا : اہل بدعت (قدریہ) اس حدیث سے ہمارے خلاف استدلال کرتے ہیں ؟ مالک نے کہا : تم حدیث کے آخری ٹکڑے سے ان کے خلاف استدلال کرو، اس لیے کہ اس میں ہے : صحابہ نے پوچھا کہ بچپن میں مرنے والے کا کیا حکم ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٢٥٣) (صحیح الإسناد )

【121】

مشرکوں کی نابالغ اولاد کا بیان

حجاج بن منہال کہتے کہ میں نے حماد بن سلمہ کو كل مولود يولد على الفطرة ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے ١ ؎ کی تفسیر کرتے سنا، آپ نے کہا : ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ نے ان سے اسی وقت لے لیا تھا، جب وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے، اللہ نے ان سے پوچھا تھا : ألست بربکم قالوا بلى کیا میں تمہارا رب (معبود) نہیں ہوں ؟ تو انہوں نے کہا تھا : کیوں نہیں، ضرور ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٥٩١) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : فطرت اسلام پر پیدا ہونے کی تاویل اس طرح بیان فرمائی کہ چونکہ میثاق الٰہی کے مطابق ہر ایک نے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا تھا، لہٰذا اسی اقرار پر وہ پیدا ہوتا ہے، بعد میں لوگ اس کو یہودی، نصرانی ، مجوسی یا مشرک بنا لیتے ہیں۔

【122】

مشرکوں کی نابالغ اولاد کا بیان

عامر شعبی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وائدہ (زندہ درگور کرنے والی) اور مؤودہ (زندہ درگور کی گئی دونوں) جہنم میں ہیں ١ ؎۔ یحییٰ بن زکریا کہتے ہیں : میرے والد نے کہا : مجھ سے ابواسحاق نے بیان کیا ہے کہ عامر شعبی نے ان سے اسے بیان کیا ہے، وہ علقمہ سے اور علقمہ، ابن مسعود (رض) سے اور ابن مسعود نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٤٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : وائدہ اور مؤودہ سے کیا مراد ہے ؟ بعض محدثین نے وائدہ سے زندہ درگور کرنے والی عورت، اور مؤودہ سے زندہ درگور کی گئی بچی مراد لی ہے، اس صورت میں ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ ایک خاص بچی کے بارے میں فرمایا، یہ حکم عام نہیں ہے، بعض محدثین کے نزدیک وائدہ سے مراد زندہ درگور کرنے والی عورت، اور مؤودہ سے مراد وہ عورت ہے جو اپنی بچی کو زندہ درگور کرنے پر راضی ہو، اس صورت میں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔

【123】

مشرکوں کی نابالغ اولاد کا بیان

انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے والد کہاں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے والد جہنم میں ہیں جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا تو آپ ﷺ نے فرمایا : میرے والد اور تیرے والد دونوں جہنم میں ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨٨ (٢٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٩، ٢٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : امام نووی فرماتے ہیں کہ اس سے صاف ظاہر ہے اہل فترہ (عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اور نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے کے لوگ) اگر مشرک ہیں تو جہنمی ہیں، کیونکہ ان کو دعوت ابراہیمی پہنچی تھی، نبی اکرم ﷺ کے والد کے بارے میں یہ حدیث نص صریح ہے، علامہ سیوطی وغیرہ نے جو لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دوبارہ زندہ فرمایا، یا وہ ایمان لائے اور پھر مرگئے ، تو یہ محض موضوع من گھڑت روایات پر مبنی ہے، ائمہ حدیث مثلا دارقطنی، جورقانی، ابن شاہین، ابن عساکر، ابن ناصر، ابن الجوزی، سہیلی، قرطبی، محب الطبری، ابن سیدالناس، ابراہیم الحلبی وغیرہم نے ان احادیث کو مکذوب مفتری اور موضوع قرار دیا ہے، علامہ ابراہیم حلبی نے اس بارے میں مستقل کتاب لکھی ہے، اسی طرح ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں اور ایک مستقل کتاب میں یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے والدین کے ایمان کی بات غلط محض ہے، علی کل حال اس مسئلہ میں زیادہ نہیں پڑنا چاہیئے بلکہ اپنی نجات کی فکر کرنی چاہیئے۔

【124】

مشرکوں کی نابالغ اولاد کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شیطان ابن آدم (انسان) کے بدن میں اسی طرح دوڑتا ہے جس طرح خون رگوں میں گردش کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٩ (٢١٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢٥، ١٥٦، ٢٨٥) (صحیح )

【125】

مشرکوں کی نابالغ اولاد کا بیان

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : منکرین تقدیر کے پاس نہ بیٹھو اور نہ ہی ان سے بات چیت میں پہل کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٧١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٦٩) (ضعیف) (اس کے راوی حکیم بن شریک ہذلی مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : جہمیہ : اہل بدعت کا ایک مشہور فرقہ ہے جو اللہ کی صفات کا منکر ہے اور قرآن کو مخلوق کہتا ہے ، ائمہ دین کی بہت بڑی تعداد نے ان کی تکفیر کی ہے۔

【126】

جہمیہ کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ ایک دوسرے سے برابر سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا، اللہ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ لہٰذا تم میں سے کسی کو اس سلسلے میں اگر کوئی شبہ گزرے تو وہ یوں کہے : میں اللہ پر ایمان لایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١١ (٣٢٧٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦٠ (١٣٤) ، سنن النسائی/ الیوم واللیلة (٦٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اگر آدمی کو کوئی اس طرح کا شیطانی وسوسہ لاحق ہو تو اس کو دور کرنے اور ذہن سے جھٹکنے کی پوری کوشش کرے اور یوں کہے : میں اللہ پر ایمان لا چکا ہوں، صحیحین کی روایت میں ہے : میں اللہ و رسول پر ایمان لا چکا ہوں۔

【127】

جہمیہ کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا، پھر اس جیسی روایت ذکر کی، البتہ اس میں ہے، آپ نے فرمایا : جب لوگ ایسا کہیں تو تم کہو : الله أحد * الله الصمد * لم يلد ولم يولد * ولم يكن له کفوا أحد اللہ ایک ہے وہ بےنیاز ہے ١ ؎، اس نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے پھر وہ اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوکے اور شیطان سے پناہ مانگے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، سنن النسائی/ عمل الیوم واللیة (٦٦١) ، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٧٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : احد وہ ہے جس کا کوئی مثیل و نظیر نہ ہو ، صمد وہ کہ سب اس کے محتاج ہوں وہ بےنیاز ہے، کسی کا محتاج نہیں۔

【128】

جہمیہ کا بیان

عباس بن عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں کہ میں بطحاء میں ایک جماعت کے ساتھ تھا، جس میں رسول اللہ ﷺ بھی موجود تھے، اتنے میں بادل کا ایک ٹکڑا ان کے پاس سے گزرا تو آپ نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا : تم اسے کیا نام دیتے ہو ؟ لوگوں نے عرض کیا : سحاب (بادل) ، آپ ﷺ نے فرمایا : اور مزن بھی لوگوں نے کہا : ہاں مزن بھی، آپ ﷺ نے فرمایا : اور عنان بھی لوگوں نے عرض کیا : اور عنان بھی، (ابوداؤد کہتے ہیں : عنان کو میں اچھی طرح ضبط نہ کرسکا) آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنی دوری ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : ہمیں نہیں معلوم، آپ ﷺ نے فرمایا : ان دونوں کے درمیان اکہتر یا بہتر یا تہتر سال کی مسافت ہے، پھر اسی طرح اس کے اوپر آسمان ہے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے سات آسمان گنائے پھر ساتویں کے اوپر ایک سمندر ہے جس کی سطح اور تہہ میں اتنی دوری ہے جتنی کہ ایک آسمان اور دوسرے آسمان کے درمیان ہے، پھر اس کے اوپر آٹھ جنگلی بکرے ہیں جن کے کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی لمبائی ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کی دوری ہے، پھر ان کی پشتوں پر عرش ہے، جس کے نچلے حصہ اور اوپری حصہ کے درمیان کی مسافت اتنی ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی، پھر اس کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر الحاقة ٦٧ (٣٣٢٠) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٥١٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠٦، ٢٠٧) (ضعیف) ( اس کے راوی عبداللہ بن عمیرہ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی فرشتے ان کی شکل میں ہیں۔

【129】

جہمیہ کا بیان

اس سند سے بھی سماک سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥١٢٤) (ضعیف )

【130】

جہمیہ کا بیان

اس سند سے بھی سماک سے اسی لمبی حدیث کا مفہوم مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٧٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٥١٢٤) (ضعیف )

【131】

جہمیہ کا بیان

جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہا : اللہ کے رسول ! لوگ مصیبت میں پڑگئے، گھربار تباہ ہوگئے، مال گھٹ گئے، جانور ہلاک ہوگئے، لہٰذا آپ ہمارے لیے بارش کی دعا کیجئے، ہم آپ کو سفارشی بناتے ہیں اللہ کے دربار میں، اور اللہ کو سفارشی بناتے ہیں آپ کے دربار میں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارا برا ہو، سمجھتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو ؟ پھر رسول اللہ ﷺ سبحان اللہ کہنے لگے، اور برابر کہتے رہے یہاں تک کہ اس کا اثر آپ ﷺ کے اصحاب کے چہروں پر دیکھا گیا، پھر فرمایا : تمہارا برا ہو اللہ کو اس کی مخلوق میں سے کسی کے دربار میں سفارشی نہیں بنایا جاسکتا، اللہ کی شان اس سے بہت بڑی ہے، تمہارا برا ہو ! کیا تم جانتے ہو اللہ کیا ہے، اس کا عرش اس کے آسمانوں پر اس طرح ہے (آپ نے انگلیوں سے گنبد کے طور پر اشارہ کیا) اور وہ چرچراتا ہے جیسے پالان سوار کے بیٹھنے سے چرچراتا ہے، (ابن بشار کی حدیث میں ہے) اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے اوپر ہے، اور اس کا عرش اس کے آسمانوں کے اوپر ہے اور پھر پوری حدیث ذکر کی۔ عبدالاعلی، ابن مثنی اور ابن بشار تینوں نے یعقوب بن عتبہ اور جبیر بن محمد بن جبیر سے ان دونوں نے محمد بن جبیر سے اور محمد بن جبیر نے جبیر بن مطعم سے روایت کی ہے۔ البتہ احمد بن سعید کی سند والی حدیث ہی صحیح ہے، اس پر ان کی موافقت ایک جماعت نے کی ہے، جس میں یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی بھی شامل ہیں اور اسے ایک جماعت نے ابن اسحاق سے روایت کیا ہے جیسا کہ احمد بن سعید نے بھی کہا ہے، اور عبدالاعلی، ابن مثنی اور ابن بشار کا سماع جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے، ایک ہی نسخے سے ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣١٩٦) (ضعیف) (ابن اسحاق مدلس ہیں، نیز سند میں اختلاف ہے )

【132】

جہمیہ کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اس کے کان کی لو سے اس کے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٠٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عمدہ گھوڑے کی چال سے جیسا کہ دوسری حدیث میں مروی ہے، اس حدیث کا مقصود حاملین عرش کا طول و عرض اور عظمت و جثہ بتانا ہے، اور ستر کا عدد بطور تحدید نہیں ہے بلکہ اس سے کثرت مراد ہے۔

【133】

جہمیہ کا بیان

ابوہریرہ (رض) کے غلام ابو یونس سلیم بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو آیت کریمہ إن الله يأمرکم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها *** إلى قوله تعالى *** سميعا بصيرا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتوں کو ان کے مالکوں تک پہنچا دو ۔۔۔ اللہ سننے اور دیکھنے والا ہے (سورۃ النساء : ٥٨) تک پڑھتے سنا، وہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنے انگوٹھے کو اپنے کان پر اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کو آنکھ پر رکھتے، (یعنی شہادت کی انگلی کو) ، ابوہریرہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے پڑھتے اور اپنی دونوں انگلیوں کو رکھتے دیکھا۔ ابن یونس کہتے ہیں : عبداللہ بن یزید مقری نے کہا : یعنی إن الله سميع بصير‏ پر انگلی رکھتے تھے، مطلب یہ ہے کہ اللہ کے کان اور آنکھ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ جہمیہ کا رد ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٤٦٧) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں جہمیہ کا رد بلیغ ہے، جہمیہ اللہ کے لئے صفت سمع و بصر کی نفی کرتے ہیں، رسول اکرم ﷺ نے انگوٹھا اور انگلی رکھ کر ان کی تردید فرما دی، جہمیہ تشبیہ سے بچنے کے لئے ایسا کہتے ہیں، جب کہ اس میں تشبیہ ہے ہی نہیں، مقصود صفت سمع (سننا) صفت بصر (دیکھنا) کا اثبات ہے، یہ مقصود نہیں کہ اس کی آنکھ وکان ہماری آنکھ اور کان جیسے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی آنکھ کان اس کی عظمت و جلال کے لائق ہیں، بلا کسی کیفیت تشبیہ، و تمثیل اور تعطیل کے سبحانہ تعالیٰ ۔

【134】

دیدار باری تعالیٰ کا بیان

جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے چودہویں شب کے چاند کی طرف دیکھا، اور فرمایا : تم لوگ عنقریب اپنے رب کو دیکھو گے، جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو، تمہیں اس کے دیکھنے میں کوئی زحمت نہ ہوگی، لہٰذا اگر تم قدرت رکھتے ہو کہ تم فجر اور عصر کی نماز میں مغلوب نہ ہو تو ایسا کرو پھر آپ نے یہ آیت فسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل غروبها اور اپنے رب کی تسبیح کرو، سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے (سورۃ طہٰ : ١٣٠) پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٦ (٥٥٤) ، التوحید ٢٤ (٧٤٣٥) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٧ (٦٣٣) ، سنن الترمذی/صفة الجنة ١٦ (٢٥٥١) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤ /٣٦٠، ٣٦٢، ٣٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قیامت میں موحدین کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا، اہل سنت والجماعت اور صحابہ و تابعین کا یہی مسلک ہے، جہمیہ و معتزلہ اور بعض مرجئہ اس کے خلاف ہیں، ان کے پاس کوئی دلیل قرآن و سنت سے موجود نہیں ہے، محض تاویل اور بعض بےبنیاد شبہات کے بل بوتے پر انکار کرتے ہیں، اس باب میں ان کی تردید مقصود ہے۔

【135】

دیدار باری تعالیٰ کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں دوپہر کے وقت سورج کو دیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے جب کہ وہ بدلی میں نہ ہو ؟ لوگوں نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم چودہویں رات کے چاند کو دیکھنے میں دقت محسوس کرتے ہو، جب کہ وہ بدلی میں نہ ہو ؟ لوگوں نے عرض کیا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تمہیں اللہ کے دیدار میں کوئی دقت نہ ہوگی مگر اتنی ہی جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کے دیکھنے میں ہوتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٦٦٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٩ (٨٠٦) ، والرقاق ٥٢ (٦٥٧٣) ، والتوحید ٢٤ (٧٤٣٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨١ (١٨٢) والزھد ١ (٢٩٦٦) ، سنن الترمذی/صفة الجنة ١٧ (٢٥٥٤) ، سنن الدارمی/الرقاق ٨١ (٢٨٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور چونکہ ان کے دیکھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی اسی طرح اللہ کے دیدار میں بھی دقت نہ ہوگی۔

【136】

دیدار باری تعالیٰ کا بیان

ابورزین عقیلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم میں سے ہر ایک اپنے رب کو (قیامت کے دن) بلا رکاوٹ دیکھے گا ؟ اور اس کی مخلوق میں اس کی مثال کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابورزین ! کیا تم سب چودہویں کا چاند بلا رکاوٹ نہیں دیکھتے ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو اللہ تو اور بھی بڑا ہے ابن معاذ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تو اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے، اللہ تو اس سے بہت بڑا اور عظیم ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١١١٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١، ١٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ جب اس کی مخلوق کو ہر ایک بلا روک ٹوک دیکھ لیتا ہے تو اللہ کو جو اس سے بہت ہی بڑا ہے کیوں نہیں دیکھ سکتا ؟۔

【137】

دیدار باری تعالیٰ کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے روز اللہ آسمانوں کو لپیٹ دے گا، پھر انہیں اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا، اور کہے گا : میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں ظلم و قہر کرنے والے ؟ کہاں ہیں تکبر اور گھمنڈ کرنے والے ؟ پھر زمینوں کو لپیٹے گا، پھر انہیں اپنے دوسرے ہاتھ میں لے لے گا، پھر کہے گا : میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں ظلم و قہر کرنے والے ؟ کہاں ہیں اترانے والے ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التوحید ١٩ (٧٤١٤ تعلیقًا) ، صحیح مسلم/صفة القیامة (٢٧٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٧٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٤ (١٩٨) (صحیح) ( شمال (بایاں ہاتھ) کے ذکر میں عمر بن حمزة متفرد ہیں، جبکہ صحیح احادیث میں رب کے دونوں ہاتھ کو دایاں ہاتھ کہا گیا ہے، ملاحظہ ہو : الصحيحة 3136 تراجع الألباني 124 )

【138】

دیدار باری تعالیٰ کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمارا رب ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے، جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور کہتا ہے : کون ہے جو مجھے پکارے، میں اس کی پکار کو قبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے دوں ؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے میں اسے معاف کر دوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٣١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٦٣، ١٥٢٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دونوں احادیث میں اللہ کی صفات کا ذکر ہے جن کا جہمیہ انکار کرتے ہیں، علماء سلف کا مسلک اس بارے میں یہ ہے کہ صفات باری تعالیٰ جس طرح قرآن وسنت میں وارد ہیں ان کو جوں کا توں باقی رکھا جائے نہ ان کا انکار کیا جائے، اور نہ ان کی تاویل کی جائے، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کی کتاب شرح حدیث النزول دیکھیے جو اس بارے میں دلائل سے پُر اور اپنے باب میں عدیم النظیر ہے۔

【139】

وہ احادیث جن کے اندر قرآن کریم کا تذکرہ ہے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خود کو موقف (عرفات میں ٹھہرنے کی جگہ) میں لوگوں پر پیش کرتے تھے اور فرماتے : کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے چلے، قریش نے مجھے میرے رب کا کلام پہنچانے سے روک دیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل القرآن ٢٤ (٢٩٢٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (٢٠١) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٩٠) ، دی/فضائل ٥ (٣٣٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : رسول اکرم ﷺ موسم حج میں مختلف قبائل کے پاس جاتے اور ان میں دین اسلام کی تبلیغ کرتے تھے، اسی کی طرف اشارہ ہے، اس حدیث میں قرآن کو کلام اللہ فرمایا گیا ہے جس سے معتزلہ وغیرہ کی تردید ہوتی ہے جو کلام اللہ کو اللہ کی صفت نہ مان کر اس کو مخلوق کہتے تھے، سلف صالحین نے قرآن کو مخلوق کہنے والے گروہ کی تکفیر کی ہے، جب کہ قرآنی نصوص ، احادیث شریفہ اور آثار سلف سے قرآن کا کلام اللہ ہونا ، اور کلام اللہ کا صفت باری تعالیٰ ہونا ثابت ہے، اور اس پر سلف کا اجماع ہے۔

【140】

وہ احادیث جن کے اندر قرآن کریم کا تذکرہ ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں میرے جی میں میرا معاملہ اس سے کمتر تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی گفتگو فرمائے گا کہ وہ ہمیشہ تلاوت کی جائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشھادت ١٥ (٢٦٦١) ، المغازي ١٢ (٤٠٢٥) ، ٣٤ (٤١٤١) ، صحیح مسلم/التوبة ١٠ (٢٧٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٢٦، ١٦١٢٨، ١٦٣١١، ١٦٥٧٦، ١٧٤٠٩، ١٧٤١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں کلام کرے، اور قرآن میں اس کو نازل فرما دے جو ہمیشہ تلاوت کیا جائے، ان کا اشارہ واقعہ افک کی طرف تھا۔

【141】

وہ احادیث جن کے اندر قرآن کریم کا تذکرہ ہے

عامر بن شہر (رض) کہتے ہیں کہ میں نجاشی کے پاس تھا کہ ان کے ایک لڑکے نے انجیل کی ایک آیت پڑھی، تو میں ہنس پڑا انہوں نے کہا : کیا تم اللہ کے کلام پر ہنستے ہو ؟ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٠٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٨، ٤٢٩، ٤/٢٦٠) (صحیح )

【142】

وہ احادیث جن کے اندر قرآن کریم کا تذکرہ ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ حسن اور حسین (رض) کے لیے (ان الفاظ میں) اللہ تعالیٰ پناہ مانگتے تھے أعيذكما بکلمات الله التامة من کل شيطان وهامة ومن کل عين لامة میں تم دونوں کے لیے پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلمات کے ذریعہ، ہر شیطان سے، ہر زہریلے کیڑے (سانپ بچھو وغیرہ) سے اور ہر نظر بد والی آنکھ سے پھر فرماتے : تمہارے باپ (ابراہیم) اسماعیل و اسحاق کے لیے بھی انہی کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتے تھے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١٠ (٣٣٧١) ، سنن الترمذی/الطب ١٨ (٢٠٦٠) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٣٦ (٣٥٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٦، ٢٧٠) (صحیح )

【143】

وہ احادیث جن کے اندر قرآن کریم کا تذکرہ ہے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ وحی کے لیے کلام کرتا ہے تو سبھی آسمان والے آواز سنتے ہیں جیسے کسی چکنے پتھر پر زنجیر کھینچی جا رہی ہو، پھر وہ بیہوش کر دئیے جاتے ہیں اور اسی حال میں رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کے پاس جبرائیل آتے ہیں، جب جبرائیل ان کے پاس آتے ہیں تو ان کی غشی جاتی رہتی ہے، پھر وہ کہتے ہیں : اے جبرائیل ! تمہارے رب نے کیا کہا ؟ وہ کہتے ہیں : حق (فرمایا) تو وہ سب کہتے ہیں حق (فرمایا) حق (فرمایا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٥٨٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التوحید ٣١ (عقیب ٧٤٨٠ تعلیقًا) (صحیح )

【144】

شفاعت کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری شفاعت ١ ؎ میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ باب خوارج اور بعض معتزلہ کے رد میں ہے جو شفاعت رسول ﷺ کے منکر ہیں، اہل حدیث و اہل سنت شفاعت کے قائل ہیں۔ ٢ ؎ : یعنی جن لوگوں کے کبیرہ گناہ ان کے جنت میں جانے سے مانع ہوں گے جبکہ وہ موحد تھے تو ان کے لئے میری شفاعت جنت میں جانے کا ذریعہ ہوگی، لیکن یہ شفاعت اللہ کے حکم اور اس کے اِذْن سے ہوگی جیسا کہ آیت الکرسی میں نیز اس آیت میں ہے يومئذ لا تنفع الشفاعة إلا من أذن له الرحمن ورضي له قولا (سورۃ طہ : ١٠٩) کسی مشرک کو شفاعت نصیب نہ ہوگی، اس لئے ہر آدمی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ شرک و بدعت کو سمجھے، اور اس بات کی پوری کوشش کرے کہ وہ ان سب سے دور رہے، اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے بچائے، تاکہ رسول اکرم ﷺ کی شفاعت کا مستحق ہو۔

【145】

شفاعت کا بیان

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کچھ لوگ جہنم سے محمد ( ﷺ ) کی سفارش پر نکالے جائیں گے، وہ جنت میں داخل ہوں گے، اور وہ جهنميين جہنمی کہہ کر پکارے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٥١ (٦٥٦٦) ، سنن الترمذی/صفة جہنم ١٠ (٢٦٠٠) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ٣٧ (٤٣١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٣٤) (صحیح )

【146】

شفاعت کا بیان

جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : جنت والے اس میں کھائیں گے پیئیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمھا ٧ (٢٨٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٦، ٣٦٤) سنن الدارمی/الرقاق ١٠٧ (٢٨٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث کا باب سے کوئی تعلق نہیں لیکن وہ اس کے متعلقات سے ہے جنت کی نعمتوں سے جنتی کھائیں گے پیئیں گے لیکن وہ کبھی ختم نہ ہوں گی۔

【147】

قیامت میں اٹھائے جانے اور صور کا بیان

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صور ایک سنکھ ہے، جس میں پھونک ماری جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٨ (٢٤٣٠) ، تفسیر القرآن ٤٠ (٣٢٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٢، ١٩٢) ، سنن الدارمی/الرقاق ٧٩ (٢٨٤٠) (صحیح ) عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صور ایک سنکھ ہے، جس میں پھونک ماری جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٨ (٢٤٣٠) ، تفسیر القرآن ٤٠ (٣٢٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٢، ١٩٢) ، سنن الدارمی/الرقاق ٧٩ (٢٨٤٠) (صحیح )

【148】

قیامت میں اٹھائے جانے اور صور کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زمین ابن آدم (انسان) کے تمام اعضاء (جسم) کو بجز ریڑھ کی نچلی ہڈی کے کھا جاتی ہے اس لیے کہ وہ اسی سے پیدا ہوا ہے ١ ؎، اور اسی سے اسے دوبارہ جوڑ کر اٹھایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ١١٧ (٢٠٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٣٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تفسیر الزمر ٤ (٤٨١٤) ، تفسیر النبأ ١ (٤٩٣٥) ، صحیح مسلم/الفتن ٢٨ (٢٩٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ٣٢ (٤٢٦٦) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٤٨) ، مسند احمد (٢ /٣١٥، ٣٢٢، ٤٢٨، ٤٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تخلیق انسان کی ابتداء اسی سے ہوتی ہے، اور شاید وہ بہت چھوٹی ہوتی ہے جو لوگوں کو محسوس نہیں ہوتی، اس حدیث کے حکم سے انبیاء کرام مستثنیٰ ہیں کیونکہ إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء ان کے بارے میں وارد ہے، اللہ نے زمین پر حرام قرار دے دیا ہے کہ وہ انبیاء (علیہم السلام) کے اجسام کو کھائے۔

【149】

جنت اور جہنم کی تخلیق کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ نے جنت کو پیدا کیا تو جبرائیل سے فرمایا : جاؤ اور اسے دیکھو، وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر واپس آئے، اور کہنے لگے : اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم، اس کے متعلق جو کوئی بھی سنے گا وہ اس میں ضرور داخل ہوگا، پھر (اللہ نے) اسے مکروہات (ناپسندیدہ) (چیزوں) سے گھیر دیا، پھر فرمایا : اے جبرائیل ! جاؤ اور اسے دیکھو، وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر لوٹ کر آئے تو بولے : اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ! مجھے ڈر ہے کہ اس میں کوئی داخل نہ ہو سکے گا، جب اللہ نے جہنم کو پیدا کیا تو فرمایا : اے جبرائیل ! جاؤ اور اسے دیکھو، وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر واپس آئے اور کہنے لگے : اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ! جو اس کے متعلق سنے گا اس میں داخل نہ ہوگا، تو اللہ نے اسے مرغوب اور پسندیدہ چیزوں سے گھیر دیا، پھر فرمایا : جبرائیل ! جاؤ اور اسے دیکھو، وہ گئے، جہنم کو دیکھا پھر واپس آئے اور عرض کیا : اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ! مجھے ڈر ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں بچے گا جو اس میں داخل نہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٠١٥) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الأیمان والنذور ٢ (٣٧٩٤) ، مسند احمد (٢/٢٥٤، ٣٣٢، ٣٧٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ باب معتزلہ وغیرہ گمراہ فرقوں کے رد و ابطال میں ہے، جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جنت و جہنم ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں جب کہ اہل حدیث و سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ دونوں پیدا کی جا چکی ہیں۔

【150】

جنت اور جہنم کی تخلیق کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے سامنے (قیامت کے دن) ایک حوض ہوگا، جس کے دونوں کناروں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا جرباء اور اذرح ١ ؎ کے درمیان ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٩ (٢٢٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٣٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الرقاق ٥٣ (٦٥٧٧) ، مسند احمد (٢/٢١، ٦/١٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جرباء اور اذرح نام ہیں شام میں دو گاؤں کے ان کے درمیان تین دن کی مسافت کا فاصلہ ہے۔ ٢ ؎ : حوض کے حدود کے بارے میں مختلف بیانات وارد ہیں، ان سے تحدید مقصود نہیں بلکہ مسافت کا طول مراد ہے۔

【151】

جنت اور جہنم کی تخلیق کا بیان

زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو آپ نے فرمایا : تم لوگ ان لوگوں کے ایک لاکھ حصوں میں کا ایک حصہ بھی نہیں ہو جو لوگ حشر میں حوض کوثر پر آئیں گے ۔ راوی (ابوحمزہ) کہتے ہیں : میں نے زید بن ارقم (رض) سے کہا : اس دن آپ لوگ کتنے تھے ؟ کہا : سات سویا آٹھ سو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٦٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦٧، ٣٦٩، ٣٧١) (صحیح )

【152】

جنت اور جہنم کی تخلیق کا بیان

مختار بن فلفل کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) کو کہتے سنا : (ایک بار) رسول اللہ ﷺ پر ہلکی اونگھ طاری ہوئی، پھر آپ ﷺ نے مسکراتے ہوئے سر اٹھایا، تو یا تو آپ نے لوگوں سے کہا، یا لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ کے رسول ! آپ کو ہنسی کیوں آئی ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ابھی میرے اوپر ایک سورت نازل ہوئی پھر آپ ﷺ نے پڑھا : بسم الله الرحمن الرحيم إنا أعطيناک الکوثر یہاں تک کہ سورت ختم کرلی، جب آپ ﷺ اسے پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کوثر کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ جنت کی ایک نہر ہے جس کا وعدہ مجھ سے میرے رب نے کیا ہے اور اس پر بڑا خیر ہے، اس پر ایک حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت (پینے) آئے گی، اس کے برتن ستاروں کی تعداد میں ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٧٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٥) (صحیح )

【153】

جنت اور جہنم کی تخلیق کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں جب اللہ کے نبی اکرم ﷺ کو معراج میں جنت میں لے جایا گیا تو آپ کے سامنے ایک نہر لائی گئی، جس کے دونوں کنارے مجیّب یا کہا مجوّف (خول دار) یاقوت کے تھے، آپ ﷺ کے ساتھ جو فرشتہ تھا اس نے اپنا ہاتھ مارا اور اندر سے مشک نکالی، تو محمد ﷺ نے اپنے ساتھ والے فرشتے سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا : یہی کوثر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٣٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الرقاق ٥٣ (٦٥٨١) ، التوحید ٣٧ (٧٥١٦) (صحیح )

【154】

جنت اور جہنم کی تخلیق کا بیان

عبدالسلام بن ابی حازم ابوطالوت بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوبرزہ (رض) کو دیکھا وہ عبیداللہ بن زیاد کے ہاں گئے، پھر مجھ سے فلاں شخص نے بیان کیا جو ان کی جماعت میں شریک تھا، (مسلم نے اس کا نام ذکر کیا ہے) جب انہیں عبیداللہ نے دیکھا تو بولا : دیکھو تمہارا یہ محمدی موٹا ٹھگنا ہے، تو شیخ (ابوبرزہ) اس کے اس طعنہ اور توہین کو سمجھ گئے اور بولے : مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میں ایسے لوگوں میں باقی رہ جاؤں گا جو محمد ﷺ کی صحبت کا مجھے طعنہ دیں گے، تو عبیداللہ نے ان سے کہا : محمد ﷺ کی صحبت تو آپ کے لیے فخر کی بات ہے، نہ کہ عیب کی، پھر کہنے لگا : میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ میں آپ سے حوض کوثر کے بارے میں معلوم کروں، کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کچھ ذکر فرماتے سنا ہے ؟ تو ابوبرزہ (رض) نے کہا : ہاں ایک بار نہیں، دو بار نہیں، تین بار نہیں، چار بار نہیں، پانچ بار نہیں (یعنی بہت بار سنا ہے) تو جو شخص اسے جھٹلائے اللہ اسے اس حوض میں سے نہ پلائے، پھر غصے میں وہ نکل کر چلے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٦٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤١٩، ٤٢١، ٤٢٤، ٤٢٦) (صحیح )

【155】

قبر میں سوال وجواب اور عذاب قبر کا بیان

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان سے جب قبر میں سوال ہوتا ہے اور وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔ تو یہی مراد ہے اللہ کے قول يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت اللہ ایمان والوں کو پکی بات کے ساتھ مضبوط کرتا ہے (سورۃ ابراہیم : ٢٧) سے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٦ (٣١٢٠) ، و تفسیر سورة إبراہیم ٢ (٤٦٩٩) ، صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٧١) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة إبراہیم ١٥ (٣١٢٠) ، سنن النسائی/الجنائز ١١٤ (٢٠٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ٣٢ (٤٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٢، ٢٩١) (صحیح )

【156】

قبر میں سوال وجواب اور عذاب قبر کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی اکرم ﷺ بنی نجار کے کھجور کے ایک باغ میں داخل ہوئے، تو ایک آواز سنی، آپ ﷺ گھبرا اٹھے، فرمایا : یہ قبریں کس کی ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا : زمانہ جاہلیت میں مرنے والوں کی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ جہنم کے عذاب سے اور دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو لوگوں نے عرض کیا : ایسا کیوں ؟ اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : مومن جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے، اور اس سے کہتا ہے : تم کس کی عبادت کرتے تھے ؟ تو اگر اللہ اسے ہدایت دیئے ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے : میں اللہ کی عبادت کرتا تھا ؟ پھر اس سے کہا جاتا ہے، تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے تھے ؟ ١ ؎ تو وہ کہتا ہے : وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، پھر اس کے علاوہ اور کچھ نہیں پوچھا جاتا، پھر اسے ایک گھر کی طرف لے جایا جاتا ہے، جو اس کے لیے جہنم میں تھا اور اس سے کہا جاتا ہے : یہ تمہارا گھر ہے جو تمہارے لیے جہنم میں تھا، لیکن اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، تم پر رحم کیا اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ایک گھر دیا، تو وہ کہتا ہے : مجھے چھوڑ دو کہ میں جا کر اپنے گھر والوں کو بشارت دے دوں، لیکن اس سے کہا جاتا ہے، ٹھہرا رہ، اور جب کافر قبر میں رکھا جاتا ہے، تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے اور اس سے ڈانٹ کر کہتا ہے : تو کس کی عبادت کرتا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : میں نہیں جانتا، تو اس سے کہا جاتا ہے : نہ تو نے جانا اور نہ کتاب پڑھی (یعنی قرآن) ، پھر اس سے کہا جاتا ہے : تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے، تو وہ اسے لوہے کے ایک گرز سے اس کے دونوں کانوں کے درمیان مارتا ہے، تو وہ اس طرح چلاتا ہے کہ اس کی آواز آدمی اور جن کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٢٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض لوگوں نے في هذا الرجل سے یہ خیال کیا ہے کہ میت کو نبی اکرم ﷺ کی شبیہ دکھائی جاتی ہے، یا پردہ ہٹا دیا جاتا ہے، مگر یہ محض خیال ہے، اس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں وارد نہیں ، مردہ نور ایمانی سے ان سوالوں کے جواب دے گا نا کہ دیکھنے اور جاننے کی بنیاد پر، ابوجہل نے آپ ﷺ کو دیکھا تھا منکر نکیر کے سوال پر وہ آپ کو نہیں پہچان سکتا ، اور آج کا مومن موحد باوجود یہ کہ اس نے آپ کو دیکھا نہیں مگر جواب درست دے گا کیونکہ اس کا نور ایمان اس کو جواب سمجھائے گا، اگرچہ لفظ هذا محسوس قریب کے لئے آتا ہے مگر ذلك جو بعید کے لئے وضع کیا گیا ہے، اس کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے وبالعکس، وقد ذكره البخاري عن معمر بن المثنى عن أبي عبيدة پھر جواب میں هو کا لفظ موجود ہے جو ضمیر غائب ہے جو اس کے حقیقی معنی مراد لینے سے مانع ہے، فافهم۔

【157】

قبر میں سوال وجواب اور عذاب قبر کا بیان

عبدالوہاب سے اسی جیسی سند سے اس طرح کی حدیث مروی ہے اس میں ہے : جب بندہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے، اور اس کے رشتہ دار واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے، اتنے میں اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اور اس سے کہتے ہیں پھر انہوں نے پہلی حدیث کے قریب قریب بیان کیا، اور اس میں اس طرح ہے : رہے کافر اور منافق تو وہ دونوں اس سے کہتے ہیں راوی نے منافق کا اضافہ کیا ہے اور اس میں ہے : اسے ہر وہ شخص سنتا ہے جو اس کے قریب ہوتا ہے، سوائے آدمی اور جن کے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٢٣١) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مردہ واپس لوٹنے والوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے کیونکہ وہ نیچے زمین میں ہے اور چلنے والے اوپر چل رہے ہوتے ہیں، ان کی بات چیت نہیں سنتا کیونکہ قبر پر آواز جانے کا کوئی ذریعہ نہیں، اس سے سماع موتیٰ پر استدلال کرنا محض غلط ہے، کیونکہ لوٹنے والوں کی بات سننے کا ذکر اس حدیث میں نہیں ہے، لہذا جوتیوں کی دھمک سننے سے بات چیت کے سننے کا اثبات غلط ہے، نیز حدیث میں اس خاص موقع پر مردوں کے سننے کی یہ بات آئی ہے، جیسے غزوہ بدر میں قریش کے مقتولین جو بدر کے کنویں میں ڈال دئیے گئے تھے، اور رسول اکرم ﷺ نے ان کو مخاطب کیا تھا یہ بھی مخصوص صورت حال تھی، اس طرح کے واقعات سے مردوں کے عمومی طور پر سننے پر استدلال صحیح نہیں ہے، دلائل کی روشنی میں صحیح بات یہی ہے کہ مردے سنتے نہیں ہیں، (ملاحظہ ہو علامہ آلوسی کی کتاب : ” کیا مردے سنتے ہیں ؟ “ نیز مولانا عبداللہ بھاولپوری کا رسالہ ” سماع موتی “ ) ۔

【158】

قبر میں سوال وجواب اور عذاب قبر کا بیان

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ انصار کے ایک شخص کے جنازے میں نکلے، ہم قبر کے پاس پہنچے، وہ ابھی تک تیار نہ تھی، تو رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہیں، آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، جس سے آپ زمین کرید رہے تھے، پھر آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور فرمایا : قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو اسے دو بار یا تین بار فرمایا، یہاں جریر کی روایت میں اتنا اضافہ ہے : اور فرمایا : اور وہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہا ہوتا ہے جب وہ پیٹھ پھیر کر لوٹتے ہیں، اسی وقت اس سے پوچھا جاتا ہے، اے جی ! تمہارا رب کون ہے ؟ تمہارا دین کیا ہے ؟ اور تمہارا نبی کون ہے ؟ ہناد کی روایت کے الفاظ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : تمہارا رب (معبود) کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے، میرا رب (معبود) اللہ ہے، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں : تمہارا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے، پھر پوچھتے ہیں : یہ کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا ؟ وہ کہتا ہے : وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں، پھر وہ دونوں اس سے کہتے ہیں : تمہیں یہ کہاں سے معلوم ہوا ؟ وہ کہتا ہے : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ سمجھا جریر کی روایت میں یہاں پر یہ اضافہ ہے : اللہ تعالیٰ کے قول يثبت الله الذين آمنوا سے یہی مراد ہے (پھر دونوں کی روایتوں کے الفاظ ایک جیسے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا : پھر ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے : میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا تم اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو ، اور اس کے لیے جنت کی طرف کا ایک دروازہ کھول دو ، اور اسے جنت کا لباس پہنا دو آپ ﷺ فرماتے ہیں : پھر جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آنے لگتی ہے، اور تا حد نگاہ اس کے لیے قبر کشادہ کردی جاتی ہے ۔ اور رہا کافر تو آپ ﷺ نے اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا : اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے اٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں : تمہارا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے : ہا ہا ! مجھے نہیں معلوم، وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں : یہ آدمی کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا ؟ وہ کہتا ہے : ہا ہا ! مجھے نہیں معلوم، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں : تمہارا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : ہا ہا ! مجھے نہیں معلوم، تو پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے : اس نے جھوٹ کہا، اس کے لیے جہنم کا بچھونا بچھا دو اور جہنم کا لباس پہنا دو ، اور اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دو ، تو اس کی تپش اور اس کی زہریلی ہوا (لو) آنے لگتی ہے اور اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر سے ادھر ہوجاتی ہیں جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہے : پھر اس پر ایک اندھا گونگا (فرشتہ) مقرر کردیا جاتا ہے، اس کے ساتھ لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے اگر وہ اسے کسی پہاڑ پر بھی مارے تو وہ بھی خاک ہوجائے، چناچہ وہ اسے اس کی ایک ضرب لگاتا ہے جس کو مشرق و مغرب کے درمیان کی ساری مخلوق سوائے آدمی و جن کے سنتی ہے اور وہ مٹی ہوجاتا ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں : پھر اس میں روح لوٹا دی جاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٣٢١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٨) (صحیح) حدیث کا پہلا ٹکڑا گزر چکا ہے ملاحظہ ہو حدیث نمبر (٣٢١٢ )

【159】

قبر میں سوال وجواب اور عذاب قبر کا بیان

ابوعمر زاذان کہتے ہیں کہ میں نے براء (رض) کو نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے سنا، پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٨) (صحیح )

【160】

وزن اعمال کی ترازو کا بیان

حسن بصری کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے جہنم کا ذکر کیا تو رونے لگیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم کیوں روتی ہو ؟ ، وہ بولیں : مجھے جہنم یاد آگئی تو رونے لگی، کیا آپ قیامت کے دن اپنے گھر والوں کو یاد کریں گے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین جگہوں پر تو وہاں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا : ایک میزان کے پاس یہاں تک کہ یہ معلوم ہوجائے کہ اس کا میزان ہلکا ہے یا بھاری ہے، دوسرے کتاب کے وقت جب کہا جائے گا : آؤ پڑھو اپنی اپنی کتاب یہاں تک کہ یہ معلوم ہوجائے کہ اس کی کتاب کس میں دی جائے گی آیا دائیں ہاتھ میں یا بائیں ہاتھ میں، یا پھر پیٹھ کے پیچھے سے اور تیسرے پل صراط کے پاس جب وہ جہنم پر رکھا جائے گا ۔ یعقوب نے عن يونس کے الفاظ سے روایت کی اور یہ حدیث اسی کے الفاظ میں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفردبہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٦٠٥٨) ، وقد أخرجہ : حم (٦/١٠١) (ضعیف) (اس کے راوی حسن بصری مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہیں )

【161】

دجال کا ذکر

ابوعبیدہ بن جراح (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : نوح کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہوا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو اور میں بھی تمہیں اس سے ڈراتا ہوں پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے اس کی صفت بیان کی اور فرمایا : شاید اسے وہ شخص پائے جس نے مجھے دیکھا اور میری بات سنی لوگوں نے عرض کیا : اس دن ہمارے دل کیسے ہوں گے ؟ کیا اسی طرح جیسے آج ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس سے بھی بہتر (کیونکہ فتنہ و فساد کے باوجود ایمان پر قائم رہنا زیادہ مشکل ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٥٥ (٢٢٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٤٦) (ضعیف) (اس کے راوی عبداللہ بن سراقہ ازدی کا سماع ابوعبیدہ بن جراح سے نہیں ہے )

【162】

دجال کا ذکر

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ کی لائق شان حمد و ثنا بیان فرمائی، پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا : میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں، کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا نہ ہو، نوح (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا، لیکن میں تمہیں اس کے بارے میں ایسی بات بتارہا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی : وہ کانا ہوگا اور اللہ کانا نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٢٦ (٧١٢٧) ، صحیح مسلم/الفتن ١٩ (٢٩٣١) ، سنن الترمذی/الفتن ٥٦ (٢٢٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٣٥، ١٤٩) (صحیح )

【163】

خوارج کے قتل کا بیان

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جماعت ٢ ؎ سے ایک بالشت بھی علیحدگی اختیار کی تو اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ، أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٩٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : خوارج جمع ہے خارجی کی، یہ ایک گمراہ فرقہ ہے، یہ لوگ علی (رض) کے ساتھ تھے پھر ان کے لشکر سے نکل کر فاسد عقیدے اختیار کئے اور آپ کے خلاف قتال کیا، ان کا عقیدہ ہے : کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے، یہ لوگ علی ، عثمان، معاویہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم وغیرہم کی تکفیر کرتے ہیں، علی اور معاویہ نے ان لوگوں سے قتال کیا اور ان کے فتنہ کا سد باب کیا۔ ٢ ؎ : امام جماعت سے یا مسلمانوں کے اجتماعی معاملہ سے علیحدگی اختیار کی وہ گمراہی و ہلاکت کا شکار ہوا۔

【164】

خوارج کے قتل کا بیان

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارا کیا حال ہوگا ١ ؎ جب میرے بعد حکمراں اس مال فے کو اپنے لیے مخصوص کرلیں گے میں نے عرض کیا : تب تو اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھوں گا، پھر اس سے ان کے ساتھ لڑوں گا یہاں تک کہ میں آپ سے ملاقات کروں یا آ ملوں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں ؟ تم صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھ سے آ ملو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٩٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٧٩، ١٨٠) (ضعیف) (اس کے راوی خالد بن وھبان مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : تم کیا کرو گے ؟ صبر کرو گے یا قتال۔

【165】

خوارج کے قتل کا بیان

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عنقریب تم پر ایسے حاکم ہوں گے جن سے تم معروف (نیک اعمال) ہوتے بھی دیکھو گے اور منکر (خلاف شرع امور) بھی دیکھو گے، تو جس نے منکر کا انکار کیا، (ابوداؤد کہتے ہیں : ہشام کی روایت میں بلسانہ کا لفظ بھی ہے (جس نے منکر کا) اپنی زبان سے انکار کیا) تو وہ بری ہوگیا اور جس نے دل سے برا جانا وہ بھی بچ گیا، البتہ جس نے اس کام کو پسند کیا اور اس کی پیروی کی تو وہ بچ نہ سکے گا عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم انہیں قتل نہ کردیں ؟ (سلیمان ابن داود طیالسی) کی روایت میں ہے : کیا ہم ان سے قتال نہ کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ١٦ (١٨٥٤) ، سنن الترمذی/الفتن ٧٨ (٢٢٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٥، ٣٠٢، ٣٠٥، ٣٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : منکر اور خلاف شرع کام کا انکار کرنا زبان سے نفاق سے براءت دلاتا ہے، اور جو شخص دل سے برا جانتا اور اس میں شریک نہیں ہوتا وہ گناہ سے بچ جاتا ہے، لیکن جو پسند کرے اور اس میں شریک ہو تو وہ انہی جیسا ہے۔

【166】

خوارج کے قتل کا بیان

اس سند سے بھی ام سلمہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے، البتہ اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے ناپسند کیا تو وہ بری ہوگیا اور جس نے کھل کر انکار کردیا تو وہ محفوظ ہوگیا قتادہ کہتے ہیں : مطلب یہ ہے کہ جس نے دل سے اس کا انکار کیا اور جس نے دل سے اسے ناپسند کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٨١٦٦) (صحیح )

【167】

خوارج کے قتل کا بیان

عرفجہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : میری امت میں کئی بار شر و فساد ہوں گے، تو متحد مسلمانوں کے شرازہ کو منتشر کرنے والے کی گردن تلوار سے اڑا دو خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ١٤ (١٨٥٢) ، سنن النسائی/المحاربة ٦ (٤٠٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤) (صحیح )

【168】

خوارج کے قتل کا بیان

عبیدہ سے روایت ہے کہ علی (رض) نے اہل نہروان ١ ؎ کا ذکر کیا اور کہا : ان میں چھوٹے ہاتھ کا ایک آدمی ہے، اگر مجھے تمہارے اترانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تمہیں بتاتا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی زبان سے کس چیز کا وعدہ کیا ہے ان لوگوں کے لیے جو ان سے جنگ کریں گے، راوی کہتے ہیں : میں نے کہا : کیا آپ نے اسے اللہ کے رسول ﷺ سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں رب کعبہ کی قسم۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٤٨ (١٠٦٦) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٢ (١٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٣، ٩٥، ١٤٤، ١٥٥، ١١٣، ١٢١، ١٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بغداد اور واسط کے درمیان تین گاؤں ہیں جن میں ایک اونچائی پر ہے دوسرا درمیان میں اور تیسرا نشیب میں ، اسی جگہ امیر المومنین علی (رض) نے خوارج کے ساتھ جنگ کی۔

【169】

خوارج کے قتل کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں علی (رض) نے نبی اکرم ﷺ کے پاس مٹی سے آلودہ سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا ١ ؎، آپ ﷺ نے اسے چار لوگوں : اقرع بن حابس حنظلی مجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید الخیل طائی جو بنی نبہان کے ایک فرد ہیں اور علقمہ بن علاثہ عامری جو بنی کلاب سے ہیں کے درمیان تقسیم کردیا، اس پر قریش اور انصار کے لوگ ناراض ہوگئے اور کہنے لگے : آپ اہل نجد کے رئیسوں کو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : میں ان کی تالیف قلب کرتا ہوں اتنے میں ایک شخص آیا (جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی، رخسار ابھرے ہوئے اور پیشانی بلند، داڑھی گھنی اور سر منڈا ہوا تھا) اور کہنے لگا : اے محمد ! اللہ سے ڈرو، آپ ﷺ نے فرمایا : جب میں ہی اس کی نافرمانی کرنے لگوں گا تو کون اس کی فرمانبرداری کرے گا، اللہ تو زمین والوں میں مجھے امانت دار سمجھتا ہے اور تم مجھے امانت دار نہیں سمجھتے ؟ تو ایک شخص نے اس کے قتل کی اجازت چاہی، میرا خیال ہے وہ خالد بن ولید (رض) تھے، تو آپ ﷺ نے منع فرمایا، اور جب وہ لوٹ گیا تو آپ نے فرمایا : اس کی نسل میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے، وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے تیر اس شکار کے جسم سے نکل جاتا ہے جسے تیر مارا جاتا ہے، وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پوجنے والوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میں نے انہیں پایا تو میں انہیں قوم عاد کی طرح قتل کروں گا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٦ (٤٦٦٧) ، المغازي ٦١ (٤٣٥١) ، تفسیرالتوبة ١٠ (٣٣٤٤) ، التوحید ٢٣ (٧٤٣٢) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٧ (١٠٦٣) ، سنن النسائی/الزکاة ٧٩ (٢٥٧٩) ، التحریم ٢٢ (٤١٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٤١٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤، ٣١، ٦٨، ٧٢، ٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جس طرح زمین سے نکلا ویسے ہی مٹی سمیت بھیج دیا۔ ٢ ؎ : یہ حدیث خوارج کے سلسلہ میں ہے، اعتراض کرنے والا خارجیوں کا سردار ہوا، ایک بات اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوئی کہ نبی کریم ﷺ نے جن لوگوں کو مال دیا تھا وہ نجدی تھے، اور یہ شخص نجدی نہیں تھا، اسی نے یا محمد کہا جو آج اہل بدعت نے اپنا شعار بنا رکھا ہے، ان لوگوں کو علی (رض) نے مقام نہروان میں قتل کیا ، آپ ﷺ کے فرمان کہ میں قوم عاد کی طرح قتل کروں گا کا مطلب یہ ہے کہ ان کو نیست ون ابود کر دوں گا، جیسے قوم عاد نیست و نابود ہوگئی، قوم عاد سے مشابہت صرف کلی ہلاکت میں ہے۔

【170】

خوارج کے قتل کا بیان

ابو سعید خدری اور انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں اختلاف اور تفرقہ ہوگا، کچھ ایسے لوگ ہوں گے، جو باتیں اچھی کریں گے لیکن کام برے کریں گے، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ (اپنی روش سے) باز نہیں آئیں گے جب تک تیر سوفار (اپنی ابتدائی جگہ) پر الٹا نہ آجائے، وہ سب لوگوں اور مخلوقات میں بدترین لوگ ہیں، بشارت ہے اس کے لیے جو انہیں قتل کرے یا جسے وہ قتل کریں، وہ کتاب اللہ کی طرف بلائیں گے، حالانکہ وہ اس کی کسی چیز سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتے ہوں گے، جو ان سے قتال کرے گا، وہ لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ سے قریب ہوگا لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ان کی نشانی کیا ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : سر منڈانا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ ومابعدہ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢) (صحیح) (قتادة کا ابوسعید خدری سے سماع نہیں ہے، ہاں، انس سے ثابت ہے )

【171】

خوارج کے قتل کا بیان

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح فرمایا، البتہ اس میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا : ان کی علامت سر منڈانا اور بالوں کو جڑ سے ختم کرنا ہے، لہٰذا جب تم انہیں دیکھو تو انہیں قتل کر دو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : تسبید : بال کو جڑ سے ختم کرنے کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٢ (١٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٩٧) (صحیح )

【172】

خوارج کے قتل کا بیان

سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ علی (رض) نے کہا : جب میں رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث تم سے بیان کروں تو آسمان سے میرا گر جانا مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں آپ پر جھوٹ بولوں، اور جب میں تم سے اس کے متعلق کوئی بات کروں جو ہمارے اور تمہارے درمیان ہے تو جنگ چالاکی و فریب دہی ہوتی ہی ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : آخری زمانے میں کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو کم عمر اور کم عقل ہوں گے، جو تمام مخلوقات میں بہتر شخص کی طرح باتیں کریں گے، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ان کا ایمان ان کی گردنوں سے نیچے نہ اترے گا، لہٰذا جہاں کہیں تم ان سے ملو تم انہیں قتل کر دو ، اس لیے کہ ان کا قتل کرنا، قیامت کے روز اس شخص کے لیے اجر و ثواب کا باعث ہوگا جو انہیں قتل کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٦١١) ، و فضائل القرآن ٣٦ (٥٠٥٧) ، والمرتدین ٦ (٦٩٣٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٨ (١٠٦٦) ، سنن النسائی/المحاربة ٢٢ (٤١٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨١، ١١٣، ١٣١) (صحیح )

【173】

خوارج کے قتل کا بیان

زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس فوج میں شامل تھے جو علی (رض) کے ساتھ تھی، اور جو خوارج کی طرف گئی تھی، علی نے کہا : اے لوگو ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : میری امت میں کچھ لوگ ایسے نکلیں گے کہ وہ قرآن پڑھیں گے، تمہارا پڑھنا ان کے پڑھنے کے مقابلے کچھ نہ ہوگا، نہ تمہاری نماز ان کی نماز کے مقابلے کچھ ہوگی، اور نہ ہی تمہارا روزہ ان کے روزے کے مقابلے کچھ ہوگا، وہ قرآن پڑھیں گے، اور سمجھیں گے کہ وہ ان کے لیے (ثواب) ہے حالانکہ وہ ان پر (عذاب) ہوگا، ان کی صلاۃ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی، وہ اسلام سے نکل جائیں گے، جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، اگر ان لوگوں کو جو انہیں قتل کریں گے، یہ معلوم ہوجائے کہ ان کے لیے ان کے نبی اکرم ﷺ کی زبانی کس چیز کا فیصلہ کیا گیا ہے، تو وہ ضرور اسی عمل پر بھروسہ کرلیں گے (اور دوسرے نیک اعمال چھوڑ بیٹھیں گے) ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہوگا جس کے بازو ہوگا، لیکن ہاتھ نہ ہوگا، اس کے بازو پر پستان کی گھنڈی کی طرح ایک گھنڈی ہوگی، اس کے اوپر کچھ سفید بال ہوں گے تو کیا تم لوگ معاویہ اور اہل شام سے لڑنے جاؤ گے، اور انہیں اپنی اولاد اور اسباب پر چھوڑ دو گے (کہ وہ ان پر قبضہ کریں اور انہیں برباد کریں) اللہ کی قسم مجھے امید ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں (جن کے بارے میں نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے) اس لیے کہ انہوں نے ناحق خون بہایا ہے، لوگوں کی چراگاہوں پر شب خون مارا ہے، چلو اللہ کے نام پر۔ سلمہ بن کہیل کہتے ہیں : پھر زید بن وہب نے مجھے ایک ایک مقام بتایا (جہاں سے ہو کر وہ خارجیوں سے لڑنے گئے تھے) یہاں تک کہ وہ ہمیں لے کر ایک پل سے گزرے۔ وہ کہتے ہیں : جب ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو خارجیوں کا سردار عبداللہ بن وہب راسبی تھا اس نے ان سے کہا : نیزے پھینک دو اور تلواروں کو میان سے کھینچ لو، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ تم سے اسی طرح صلح کا مطالبہ نہ کریں جس طرح انہوں نے تم سے حروراء کے دن کیا تھا، چناچہ انہوں نے اپنے نیزے پھینک دئیے، تلواریں کھینچ لیں، لوگوں (مسلمانوں) نے انہیں اپنے نیزوں سے روکا اور انہوں نے انہیں ایک پر ایک کر کے قتل کیا اور (مسلمانوں میں سے) اس دن صرف دو آدمی شہید ہوئے، علی (رض) نے کہا : ان میں مخدج یعنی لنجے کو تلاش کرو، لیکن وہ نہ پا سکے، تو آپ خود اٹھے اور ان لوگوں کے پاس آئے جو ایک پر ایک کر کے مارے گئے تھے، آپ نے کہا : انہیں نکالو، تو انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ سب سے نیچے زمین پر پڑا ہے، آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور بولے : اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول نے ساری باتیں پہنچا دیں۔ پھر عبیدہ سلمانی آپ کی طرف اٹھ کر آئے کہنے لگے : اے امیر المؤمنین ! قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ وہ بولے : ہاں، اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، یہاں تک کہ انہوں نے انہیں تین بار قسم دلائی اور وہ (تینوں بار) قسم کھاتے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الزکاة ٤٨ (١٠٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٠) (صحیح )

【174】

خوارج کے قتل کا بیان

ابوالوضی کہتے ہیں کہ علی (رض) نے کہا : مخدج (لنجے) کو تلاش کرو، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے : لوگوں نے اسے مٹی میں پڑے ہوئے مقتولین کے نیچے سے ڈھونڈ نکالا، گویا میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں، وہ ایک حبشی ہے چھوٹا سا کرتا پہنے ہوئے ہے، اس کا ایک ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہے، جس پر ایسے چھوٹے چھوٹے بال ہیں، جیسے جنگلی چوہے کی دم پر ہوتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠١٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٣٩، ١٤٠، ١٤١) (صحیح الإسناد )

【175】

خوارج کے قتل کا بیان

ابومریم کہتے ہیں کہ یہ مخدج (لنجا) مسجد میں اس دن ہمارے ساتھ تھا ہم اس کے ساتھ رات دن بیٹھا کرتے تھے، وہ فقیر تھا، میں نے اسے دیکھا کہ وہ مسکینوں کے ساتھ آ کر علی (رض) کے کھانے پر لوگوں کے ساتھ شریک ہوتا تھا اور میں نے اسے اپنا ایک کپڑا دیا تھا۔ ابومریم کہتے ہیں : لوگ مخدج (لنجے) کو نافعا ذا الثدية (پستان والا) کا نام دیتے تھے، اس کے ہاتھ میں عورت کے پستان کی طرح گوشت ابھرا ہوا تھا، اس کے سرے پر ایک گھنڈی تھی جیسے پستان میں ہوتی ہے اس پر بلی کی مونچھوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بال تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : لوگوں کے نزدیک اس کا نام حرقوس تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٣٣٣) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی نعیم حافظہ کے کمزور راوی ہیں )

【176】

چوروں سے لڑائی کا بیان

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کا مال لینے کا ناحق ارادہ کیا جائے اور وہ (اپنے مال کے بچانے کے لیے) لڑے اور مارا جائے تو وہ شہید ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ٢٢ (١٤٢٠) ، سنن النسائی/المحاربة ١٨ (٤٠٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢١ (٢٥٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٠٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المظالم ٣٣ (٢٤٨٠) ، صحیح مسلم/الایمان ٦٢ (٢٢٥) ، مسند احمد (٢ /١٦٣، ١٩٣، ١٩٤، ٢٠٥، ٢٠٦، ٢١٠، ٢١٥، ٢١٧، ٢٢١، ٢٢٤) (صحیح )

【177】

چوروں سے لڑائی کا بیان

سعید بن زید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو اپنا مال بچانے میں مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنے بال بچوں کو بچانے یا اپنی جان بچانے یا اپنے دین کو بچانے میں مارا جائے وہ بھی شہید ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ٢٢ (١٤٢١) ، سنن النسائی/المحاربة ١٨ (٤٠٩٥، ٤٠٩٦، ٤٠٩٩) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢١ (٢٥٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٨٧، ١٨٨، ١٨٩، ١٩٠) (صحیح )