7. نکاح کا بیان

【1】

نکاح پر رغبت دلانے کا بیان

علقمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ منیٰ میں چل رہا تھا کہ اچانک ان کی ملاقات عثمان (رض) سے ہوگئی تو وہ ان کو لے کر خلوت میں گئے، جب عبداللہ بن مسعود (رض) نے محسوس کیا کہ انہیں (شادی کی) ضرورت نہیں ہے تو مجھ سے کہا : علقمہ ! آجاؤ ١ ؎ تو میں گیا تو عثمان (رض) عنہ ٢ ؎ نے ان سے کہا : ابوعبدالرحمٰن ! کیا ہم آپ کی شادی ایک کنواری لڑکی سے نہ کرا دیں، شاید آپ کی دیرینہ طاقت و نشاط واپس آجائے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : اگر آپ ایسی بات کہہ رہے ہیں تو میں تو اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سن چکا ہوں کہ تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کرلینا چاہیئے کیونکہ یہ نگاہ کو خوب پست رکھنے والی اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والی چیز ہے اور جو تم میں سے اس کے اخراجات کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس پر روزہ ہے، یہ اس کی شہوت کے لیے توڑ ہوگا ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٠ (١٩٠٥) ، النکاح ٢ (٥٠٦٥) ، ٣ (٥٠٦٦) ، صحیح مسلم/النکاح ١ (١٤٠٠) ، سنن الترمذی/النکاح ١ (١٠٨١ تعلیقًا) ، سنن النسائی/الصیام ٤٣ (٢٢٤١) ، والنکاح ٣ (٣٢٠٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١ (١٨٤٥) ، ( تحفة الأشراف : ٩٤١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٨، ٤٢٤، ٤٢٥، ٤٣٢، ٤٤٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٢ (٢٢١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اب خلوت کی ضرورت نہیں رہ گئی۔ ٢ ؎ : ہوسکتا ہے کہ ابن مسعود (رض) نے علقمہ سے وہ گفتگو بیان کی ہو جو عثمان نے خلوت میں ان سے کی تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ عثمان (رض) نے علقمہ (رض) کے آنے کے بعد اپنی بات پوری کرتے ہوئے علقمہ کی موجودگی میں اسے عبداللہ بن مسعود (رض) سے کہا ہو۔ ٣ ؎ : آدمی جب نان و نفقہ کی طاقت رکھے تو اس کے لئے نکاح کرنا مسنون ہے، اور بعض کے نزدیک اگر گناہ میں پڑجانے کا خطرہ ہو تو واجب یا فرض ہے، اس کے فوائد یہ ہیں کہ اس سے افزائش نسل کے علاوہ شہوانی جذبات کو تسکین ملتی ہے، اور زنا فسق و فجور سے آدمی کی حفاظت ہوتی ہے۔

【2】

دیندار عورت سے نکاح کرنا مقدم ہے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : عورتوں سے نکاح چار چیزوں کی بنا پر کیا جاتا ہے : ان کے مال کی وجہ سے، ان کے حسب و نسب کی وجہ سے، ان کی خوبصورتی کی بنا پر، اور ان کی دین داری کے سبب، تم دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیاب بن جاؤ، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٥ (٥٠٩٠) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٥ (١٤٦٦) ، سنن النسائی/النکاح ١٣ (٣٢٣٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٦ (١٨٥٨) ، مسند احمد (٢/٤٢٨) ، سنن الدارمی/النکاح ٤ (٢٢١٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٣٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی عام طور پر عورت سے نکاح انہیں چار چیزوں کے سبب کیا جاتا ہے، ایک دیندار مسلمان کو چاہیے کہ ان سب اسباب میں دین کو ترجیح دے۔

【3】

کنواری لڑکیوں سے نکاح کرنا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : کیا تم نے شادی کرلی ؟ میں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : کنواری سے یا غیر کنواری سے ؟ میں نے کہا غیر کنواری سے، آپ ﷺ نے فرمایا : کنواری سے کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٢٢٤٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٣٤ (٢٠٩٧) ، الوکالة ٨ (٢٣٠٩) ، الجہاد ١١٣ (٢٩٦٧) ، المغازي ١٨ (٤٠٥٢) ، النکاح ١٠ (٥٠٧٩) ، ١٢١ (٥٢٤٥) ، ١٢٢ (٥٢٤٧) ، النفقات ١٢ (٥٣٦٧) ، الدعوات ٥٣ (٦٣٨٧) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٦ (٧١٥) ، سنن الترمذی/النکاح ١٣ (١١٠٠) ، سنن النسائی/النکاح ٦ (٣٢٢١) ، ١٠ (٣٢٣٦) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٧ (١٨٦٠) ، مسند احمد (٣ /٢٩٤، ٣٠٢، ٣٠٨، ٣١٤، ٣٦٢، ٣٦٩، ٣٧٤، ٣٧٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٢ (٢٢٦٢) (صحیح )

【4】

کنواری لڑکیوں سے نکاح کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میری عورت کسی ہاتھ لگانے والے کو نہیں روکتی آپ ﷺ نے فرمایا : اسے اپنے سے جدا کر دو ، اس شخص نے کہا : مجھے ڈر ہے میرا دل اس میں لگا رہے گا، آپ ﷺ نے فرمایا : تو تم اس سے فائدہ اٹھاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/النکاح ١٢ (٣٢٣١) ، والطلاق ٣٤ (٣٤٩٤، ٣٤٩٥) ، ( تحفة الأشراف : ٦١٦١) (صحیح )

【5】

کنواری لڑکیوں سے نکاح کرنا

معقل بن یسار (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا : مجھے ایک عورت ملی ہے جو اچھے خاندان والی ہے، خوبصورت ہے لیکن اس سے اولاد نہیں ہوتی تو کیا میں اس سے شادی کرلوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ، پھر وہ آپ کے پاس دوسری بار آیا تو بھی آپ ﷺ نے اس کو منع فرمایا، پھر تیسری بار آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : خوب محبت کرنے والی اور خوب جننے والی عورت سے شادی کرو، کیونکہ (بروز قیامت) میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/النکاح ١١ (٣٢٢٩) ، ( تحفة الأشراف : ١١٤٧٧) (حسن صحیح )

【6】

بد کار عورت سے بد کار مرد ہی نکاح کرتا ہے

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) روایت کرتے ہیں کہ مرثد بن ابی مرثد غنوی (رض) قیدیوں کو مکہ سے اٹھا لایا کرتے تھے، مکہ میں عناق نامی ایک بدکار عورت تھی جو ان کی آشنا تھی، مرثد (رض) کا بیان ہے کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں عناق سے شادی کرلوں ؟ آپ ﷺ خاموش رہے تو آیت کریمہ والزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرک نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے مجھے بلایا اور اسے پڑھ کر سنایا اور فرمایا : تم اس سے شادی نہ کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر سورة النور (٣١٧٧) ، سنن النسائی/النکاح ١٢ (٣٢٣٠) ، ( تحفة الأشراف : ٨٧٥٣) (حسن صحیح )

【7】

بد کار عورت سے بد کار مرد ہی نکاح کرتا ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوڑے کھایا ہوا زناکار اپنی جیسی عورت ہی سے شادی کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٣٠٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢٤) (صحیح )

【8】

اپنی باندی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرنے کا بیان

ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنی لونڈی کو آزاد کر کے اس سے شادی کرلے تو اس کے لیے دوہرا ثواب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣١ (٩٧) ، العتق ١٤ (٢٥٤٤) ، ١٦ (٢٥٤٧) ، الجہاد ١٥٤ (٣٠١١) ، أحادیث الأنبیاء ٤٧ (٣٤٤٦) ، النکاح ١٣ (٥٠٨٣) ، صحیح مسلم/النکاح ١٤ (١٥٤) ، سنن النسائی/النکاح ٦٥ (٣٣٤٧) ، ( تحفة الأشراف : ٩١٠٨، ٩١٧٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/النکاح ٢٤ (١١١٦) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٢ (١٩٥٦) ، مسند احمد (٤/٣٩٥، ٣٩٨، ٤١٤، ٤١٥) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٦ (٢٢٩٠) ، (صحیح )

【9】

اپنی باندی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرنے کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ام المؤمنین صفیہ (رض) کو آزاد کیا اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧٦ (١٣٤٥) ، النکاح ١٤ (١٣٦٥) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٣ (١١١٥) ، والسیر ٣ (١٥٥٠) ، سنن النسائی/النکاح ٦٤ (٣٣٤٤، ٤٢٠٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٦٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٢ (٣٧١) ، صلاة الخوف ٦ (٩٤٧) ، البیوع ١٠٨ (٢٢٢٨) ، الجہاد ٧٤ (٢٨٩٣) ، المغازي ٣٨ (٤٢٠٠) ، النکاح ١٣ (٥٠٨٦) ، الأطعمة ٨ (٥٣٨٧) ، ٢٨ (٥٤٢٥) ، الدعوات ٣٦ (٦٣٦٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٢ (١٩٥٧) ، مسند احمد (٣/٩٩، ١٣٨، ١٦٥، ١٧٠، ١٨١، ١٨٦، ٢٠٣، ٢٣٩، ٢٤٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٥ (٢٢٨٨) (صحیح )

【10】

اپنی باندی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دودھ پلانے سے وہ سارے رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو پیدائش سے حرام ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الرضاع ٢ (١١٤٧) ، سنن النسائی/النکاح ٤٩ (٣٣٠٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٣٤٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الشہادات ٧ (٢٦٤٦) ، فرض الخمس ٤ (٣١٠٥) ، تفسیر سورة السجدة ٩ (٤٧٩٢) ، النکاح ٢٢ (٥١٠٣) ، ١١٧ (٥٢٣٩) ، الأدب ٩٣ (٦١٥٦) ، صحیح مسلم/الرضاع ٢ (١٤٤٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٤ (١٩٣٧) ، موطا امام مالک/الرضاع ٣ (١٥) ، مسند احمد (٦/٤٤، ٥١، ٦٦، ٧٢، ١٠٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٨ (٢٢٩٥) (صحیح )

【11】

اپنی باندی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرنے کا بیان

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ کو میری بہن (عزہ) میں رغبت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تو میں کیا کروں ، انہوں نے کہا : آپ ان سے نکاح کرلیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہاری بہن سے ؟ انہوں نے کہا، ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم یہ (سوکن) پسند کرو گی ؟ انہوں نے کہا : میں آپ کی اکیلی بیوی تو ہوں نہیں جتنی عورتیں میرے ساتھ خیر میں شریک ہیں ان سب میں اپنی بہن کا ہونا مجھے زیادہ پسند ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ میرے لیے حلال نہیں ہے کہا : اللہ کی قسم مجھے تو بتایا گیا ہے کہ آپ درہ یا ذرہ بنت ابی سلمہ (یہ شک زہیر کو ہوا ہے) کو پیغام دے رہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ام سلمہ کی بیٹی کو ؟ کہا : ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی قسم (وہ تو میری ربیبہ ہے) اگر ربیبہ نہ بھی ہوتی تو وہ میرے لیے حلال نہ ہوتی کیونکہ وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، مجھے اور اس کے باپ کو ثویبہ نے دودھ پلایا ہے لہٰذا تم اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مجھ پر (نکاح کے لیے) پیش نہ کیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٨٢٦٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٠ (٥١٠١) ، ٢٥ (٥١٠٦) ، ٢٦ (٥١٠٧) ، ٣٥ (٥١٢٣) ، النفقات ١٦ (٥٣٧٢) ، صحیح مسلم/الرضاع ٤ (١٤٤٩) ، سنن النسائی/النکاح ٤٤ (٣٣٨٦) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٤ (١٩٣٩) ، مسند احمد (٦/٢٩١، ٣٠٩، ٤٢٨) (صحیح )

【12】

رضاعت کا رشتہ مرد کی طرف سے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میرے پاس افلح بن ابوقعیس آئے تو میں نے پردہ کرلیا، انہوں نے کہا : مجھ سے پردہ کر رہی ہو، میں تو تمہارا چچا ہوں ؟ میں نے کہا : چچا کس طرح سے ؟ انہوں نے کہا کہ تمہیں میرے بھائی کی بیوی نے دودھ پلایا ہے، ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے نہ کہ مرد نے، پھر میرے یہاں جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے سارا واقعہ آپ سے بیان کردیا، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ تمہارے چچا ہیں، وہ تمہارے پاس آسکتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٦٣٧٣، ١٦٩١٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الشہادات ٧ (٢٦٤٤) ، صحیح مسلم/الرضاع ٢ (١٤٤٥) ، سنن النسائی/النکاح ٤٩ (٣٣٠٣) ، موطا امام مالک/ الرضاع ١(٣) ، مسند احمد (٦/١٩٤، ٢٧١) (صحیح )

【13】

بڑے ہو کر دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی

ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، ان کے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، (حفص کی روایت میں ہے) آپ ﷺ کو یہ بات ناگوار گزری، آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا (پھر حفص اور شعبہ دونوں کی روایتیں متفق ہیں) عائشہ (رض) نے کہا : اللہ کے رسول یہ تو میرا رضاعی بھائی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھی طرح دیکھ لو کون تمہارے بھائی ہیں ؟ کیونکہ رضاعت تو غذا سے ثابت ہوتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٧ (٢٦٤٧) ، والنکاح ٢٢ (٥١٠٢) ، صحیح مسلم/الرضاع ٨ (١٤٥٥) ، سنن النسائی/النکاح ٥١ (٣٣١٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٧ (١٩٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ٩٤، ١٣٨، ١٧٤، ٢٤١) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٢ (٢٣٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی حرمت اس رضاعت سے ثابت ہوتی ہے جو بچپن کی ہو اور دودھ ہی اس کی غذا ہو۔

【14】

بڑے ہو کر دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے، انہوں نے کہا رضاعت وہی ہے جو ہڈی کو مضبوط کرے اور گوشت بڑھائے، تو ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہا : اس عالم کی موجودگی میں تم لوگ ہم سے مسئلہ نہ پوچھا کرو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٩٦٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٣٢) (ضعیف) (اس کے رواة : ابوموسی ہلالی، ان کے والد مجہول اور ابن مسعود (رض) کے بیٹے مبہم ہیں )

【15】

بڑے ہو کر دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی

اس سند سے بھی ابن مسعود (رض) سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے لیکن اس میں : شد العظم کے بجائے أنشز العظم کا لفظ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٩٦٣٨) (ضعیف) (پچھلی روایت دیکھئے )

【16】

اس کا بیان کہ بڑے ہو کر بھی حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے

ام المؤمنین عائشہ اور ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس نے سالم کو (جو کہ ایک انصاری عورت کے غلام تھے) منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا، جس طرح کہ نبی اکرم ﷺ نے زید (رض) کو بنایا تھا، اور اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے ان کا نکاح کرا دیا، زمانہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹے کو لوگ اپنی طرف منسوب کرتے تھے اور اسے ان کی میراث بھی دی جاتی تھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں آیت : ادعوهم لآبائهم سے فإخوانکم في الدين ومواليكم ١ ؎ تک نازل فرمائی تو وہ اپنے اصل باپ کی طرف منسوب ہونے لگے، اور جس کے باپ کا علم نہ ہوتا اسے مولیٰ اور دینی بھائی سمجھتے۔ پھر سہلہ بنت سہیل بن عمرو قرشی ثم عامری جو کہ ابوحذیفہ کی بیوی تھیں آئیں اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم سالم کو اپنا بیٹا سمجھتے تھے، وہ میرے اور ابوحذیفہ کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے، اور مجھے گھر کے کپڑوں میں کھلا دیکھتے تھے اب اللہ نے منہ بولے بیٹوں کے بارے میں جو حکم نازل فرما دیا ہے وہ آپ کو معلوم ہی ہے لہٰذا اب اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : انہیں دودھ پلا دو ، چناچہ انہوں نے انہیں پانچ گھونٹ دودھ پلا دیا، اور وہ ان کے رضاعی بیٹے ہوگئے، اسی کے پیش نظر ام المؤمنین عائشہ (رض) اپنی بھانجیوں اور بھتیجیوں کو حکم دیتیں کہ وہ اس شخص کو پانچ گھونٹ دودھ پلا دیں جسے دیکھنا یا اس کے سامنے آنا چاہتی ہوں گرچہ وہ بڑی عمر کا آدمی ہی کیوں نہ ہو پھر وہ ان کے پاس آتا جاتا، لیکن ام المؤمنین ام سلمہ (رض) اور دیگر ازواج مطہرات نے اس قسم کی رضاعت کا انکار کیا جب تک کہ دودھ پلانا بچپن میں نہ ہو اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے کہا : اللہ کی قسم ہمیں یہ معلوم نہیں شاید یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے صرف سالم کے لیے رخصت رہی ہو نہ کہ دیگر لوگوں کے لیے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/النکاح ٥٣ (٣٣٢١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٦ (١٩٤٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٧٤٠، ١٨١٩٧، ١٨٣٧٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المغازي ١٢ (٢٩٦٠) ، والنکاح ١٥ (٥٠٨٨) ، صحیح مسلم/الرضاع ٧ (١٤٥٣) ، موطا امام مالک/الرضاع ٢ (١٢) ، مسند احمد (٦/ ٢٥٥، ٢٧١) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٢ (٢٣٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سورة الأحزاب : ( ٥) ٢ ؎ : جمہور کی رائے یہی ہے کہ یہ سالم کے ساتھ خاص ہے، کچھ علماء یہ کہتے ہیں کہ خصوصیت کی کوئی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے اس حکم کو برقرار مانا جائے اگر واقعی سالم جیسا معاملہ پیش آجائے اور رضاعی ماں بننے کے لئے دودھ پلایا جائے تو رضاعت ثابت ہوجائے گی۔

【17】

پانچ مرتبہ سے کم دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں نازل کی ہیں ان میں عشر رضعات يحرمن والی آیت بھی تھی پھر یہ آیت خمس معلومات يحرمن والی آیت سے منسوخ ہوگئی، اس کے بعد نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوگئی اور یہ آیتیں پڑھی جا رہی تھیں (یعنی بعض لوگ پڑھتے تھے پھر وہ بھی متروک ہوگئیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٦ (١٤٥٢) ، سنن الترمذی/الرضاع ٣ (١١٥٠) ، سنن النسائی/النکاح ٥١ (٣٣٠٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٥ (١٩٤٤، ١٩٤٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٨٩٧، ١٧٩١١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الرضاع ٣ (١٧) ، مسند احمد (٦/٢٦٩) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٩ (٢٢٩٩) (صحیح )

【18】

پانچ مرتبہ سے کم دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک یا دو چوس حرمت ثابت نہیں کرتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٥ (١٤٥٠) ، سنن الترمذی/الرضاع ٣ (١١٥٠) ، سنن النسائی/النکاح ٥١ (٣٣١٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٥ (١٩٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣١، ٩٦، ٢١٦، ٢٤٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٩ (٢٢٩٧) (صحیح )

【19】

دودھ چھڑانے کے وقت دایہ کو کچھ دینا

حجاج (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! دودھ پلانے کا حق مجھ سے کس طرح ادا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : لونڈی یا غلام (دودھ پلانے والی کو خدمت کے لیے دے دینے) سے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الرضاع ٦ (١١٥٣) ، سنن النسائی/النکاح ٥٦ (٣٣٣١) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٥٠) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٠ (٢٣٠٠) (ضعیف) (اس کے راوی حجاج بن حجاج بن مالک لین الحدیث ہیں )

【20】

ان عورتوں کا بیان جن سے ایک ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پھوپھی کے نکاح میں رہتے ہوئے بھتیجی سے نکاح نہیں کیا جاسکتا، اور نہ بھتیجی کے نکاح میں رہتے ہوئے پھوپھی سے نکاح درست ہے، اسی طرح خالہ کے نکاح میں رہتے ہوئے بھانجی سے نکاح نہیں کیا جاسکتا ہے، اور نہ ہی بھانجی کے نکاح میں رہتے ہوئے خالہ سے نکاح درست ہے، غرض یہ کہ چھوٹی کے رہتے ہوئے بڑی سے اور بڑی کے رہتے ہوئے چھوٹی سے نکاح جائز نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٧ (٥١٠٩) ، سنن الترمذی/النکاح ٣١ (١١٢٦) ، سنن النسائی/النکاح ٤٨ (٣٢٩٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٥٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/النکاح ٤ (١٤٠٨) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣١ (١٩٣٠) ، ٣٠ (١١٢٦) موطا امام مالک/النکاح ٨ (٢٠) ، مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٥٥، ٣٩٤، ٤٠١، ٤٢٣، ٤٢٦، ٤٣٢، ٤٥٢، ٤٦٢، ٤٦٥، ٤٧٤، ٤٨٩، ٥٠٨، ٥١٦، ٥١٨، ٥٢٩، ٥٣٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٨ (٢٢٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ہاں اگر ایک مرجائے یا اس کو طلاق دیدے تو دوسری سے شادی کرسکتا ہے۔

【21】

ان عورتوں کا بیان جن سے ایک ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خالہ اور بھانجی اور اسی طرح پھوپھی اور بھتیجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ النکاح ٢٧ (٥١١٠، ٥١١١) ، صحیح مسلم/النکاح ٤ (١٤٠٨) ، سنن النسائی/ النکاح ٤٧ (٣٢٩١) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٢٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٠١، ٤٥٢، ٥١٨) (صحیح )

【22】

ان عورتوں کا بیان جن سے ایک ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے پھوپھی اور خالہ کو (نکاح میں) جمع کرنے، اسی طرح دو خالاؤں اور دو پھوپھیوں کو (نکاح میں) جمع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٠٧٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/النکاح ٣٠ (١١٢٥) ، مسند احمد (١/٢١٧) (ضعیف) (اس کے راوی خصیف حافظہ کے ضعیف ہیں )

【23】

ان عورتوں کا بیان جن سے ایک ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں

عروہ بن زبیر نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے اللہ تعالیٰ کے فرمان : وإن خفتم ألا تقسطوا في اليتامى فانکحواء ما طاب لکم من النساء سورة النساء ١ ؎ کے بارے میں دریافت کیا تو ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : بھانجے ! اس سے وہ یتیم لڑکی مراد ہے، جو اپنے ایسے ولی کی پرورش میں ہو جس کے مال میں وہ شریک ہو اور اس کی خوبصورتی اور اس کا مال اسے بھلا لگتا ہو اس کی وجہ سے وہ اس سے بغیر مناسب مہر ادا کئے نکاح کرنا چاہتا ہو (یعنی جتنا مہر اس کو اور کوئی دیتا اتنا بھی نہ دے رہا ہو) چناچہ انہیں ان سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا، اگر وہ انصاف سے کام لیں اور انہیں اونچے سے اونچا مہر ادا کریں تو نکاح کرسکتے ہیں ورنہ فرمان رسول ہے کہ ان کے علاوہ جو عورتیں انہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلیں۔ عروہ کا بیان ہے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کے نزول کے بعد یتیم لڑکیوں کے بارے میں حکم دریافت کیا تو یہ آیت نازل ہوئی : ويستفتونک في النساء قل الله يفتيكم فيهن وما يتلى عليكم في الکتاب في يتامى النساء اللاتي لا تؤتونهن ما کتب لهن وترغبون أن تنکحوهن ٢ ؎ ام المؤمنین عائشہ نے کہا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ وہ ان پر کتاب میں پڑھی جاتی ہیں اس سے مراد پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانکحواء ما طاب لکم من النساء اور اس دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کے قول : وترغبون أن تنکحوهن سے یہی غرض ہے کہ تم میں سے کسی کی پرورش میں کم مال والی کم حسن والی یتیم لڑکی ہو تو وہ اس کے ساتھ نکاح سے بےرغبتی نہ کرے چناچہ انہیں منع کیا گیا کہ مال اور حسن کی بنا پر یتیم لڑکیوں سے نکاح کی رغبت کریں، ہاں انصاف کی شرط کے ساتھ درست ہے۔ یونس نے کہا کہ ربیعہ نے اللہ کے فرمان : وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى کا مطلب یہ بتایا ہے کہ اگر تمہیں یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر پانے کا ڈر ہو تو انہیں چھوڑ دو (کسی اور عورت سے نکاح کرلو) میں نے تمہارے لیے چار عورتوں سے نکاح جائز کردیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ٧ (٢٤٩٤) ، الوصایا ٢١ (٢٧٦٣) ، تفسیر سورة النساء ١ (٤٥٧٦) ، النکاح ١ (٥٠٦٤) ، ١٦ (٥٠٩٢) ، ١٩ (٥٠٩٨) ، ٣٦ (٥١٢٨) ، ٣٧ (٥١٣١) ، ٤٣ (٥١٤٠) ، الحیل ٨ (٦٩٦٥) ، صحیح مسلم/التفسیر ١ (٣٠١٨) ، سنن النسائی/النکاح ٦٦ (٣٣٤٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٦٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اگر تمہیں یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر پانے کا ڈر ہو تو تم ان عورتوں سے نکاح کرلو جو تمہیں اچھی لگیں (سورۃ النساء : ٣) ٢ ؎ : لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ خود اللہ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے ، اور قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں ، جنہیں تم ان کا مقرر حق نہیں دیتے اور انہیں اپنے نکاح میں لانے کی رغبت رکھتے ہو (سورۃ النساء : ١٢٦ )

【24】

ان عورتوں کا بیان جن سے ایک ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں

علی بن حسین کا بیان ہے وہ لوگ حسین بن علی (رض) کی شہادت کے زمانے میں یزید بن معاویہ کے پاس سے مدینہ آئے تو ان سے مسور بن مخرمہ (رض) ملے اور کہا : اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے تو میں نے ان سے کہا : نہیں، انہوں نے کہا : کیا آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کی تلوار دے سکتے ہیں ؟ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ آپ سے اسے چھین لیں گے، اللہ کی قسم ! اگر آپ اسے مجھے دیدیں گے تو اس تک کوئی ہرگز نہیں پہنچ سکے گا جب تک کہ وہ میرے نفس تک نہ پہنچ جائے ١ ؎۔ علی بن ابوطالب (رض) نے فاطمہ (رض) کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی ٢ ؎ کو نکاح کا پیغام دیا تو میں نے اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کو اپنے اسی منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا، اس وقت میں جوان تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، مجھے ڈر ہے کہ وہ دین کے معاملہ میں کسی آزمائش سے دو چار نہ ہوجائے ، پھر آپ ﷺ نے بنی عبد شمس میں سے اپنے ایک داماد کا ذکر فرمایا، اور اس رشتہ دامادی کی خوب تعریف کی، اور فرمایا : جو بات بھی اس نے مجھ سے کی سچ کر دکھائی، اور جو بھی وعدہ کیا پورا کیا، میں کسی حلال کو حرام اور حرام کو حلال قطعاً نہیں کر رہا ہوں لیکن اللہ کی قسم، اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ہرگز ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢٩ (٩٢٦) ، فرض الخمس ٥ (٣١١٠) ، المناقب ١٢ (٣٧١٤) ، ١٦ (٣٧٢٩) ، النکاح ١٠٩ (٥٢٣٠) ، الطلاق ١٣ (٥٢٧٨) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٤ (٢٤٤٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٦ (١٩٩٩) ، سنن النسائی/ الکبری/ المناقب (٨٣٧٢) ، ( تحفة الأشراف : ١١٢٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/المناقب ٦١ (٣٨٦٧) ، مسند احمد (٤/٣٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جب تک میری جان میں جان رہے گی اسے کوئی مجھ سے نہیں لے سکتا۔ ٢ ؎ : امام ابن قیم کہتے ہیں کہ اس حدیث میں ہر طرح سے رسول اکرم ﷺ کو ایذاء پہنچانے کی حرمت ہے چاہے وہ کسی مباح کام کرنے سے ہو، اگر اس کام سے رسول اکرم ﷺ کو ایذاء پہنچے تو ناجائز ہوگا، ارشاد باری ہے : وما کان لکم أن تؤذوا رسول الله۔

【25】

ان عورتوں کا بیان جن سے ایک ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں

ابن ابی ملیکہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : تو علی (رض) نے اس نکاح سے خاموشی اختیار کرلی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١١٢٧٨) (صحیح )

【26】

ان عورتوں کا بیان جن سے ایک ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں

مسور بن مخرمہ (رض) کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا : ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے ١ ؎ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب سے کرانے کی اجازت مجھ سے مانگی ہے تو میں اجازت نہیں دیتا، میں اجازت نہیں دیتا، میں اجازت نہیں دیتا، ہاں اگر علی ان کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو میری بیٹی کو طلاق دے دیں، کیونکہ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جو اسے برا لگتا ہے وہ مجھے بھی برا لگتا ہے اور جس چیز سے اسے تکلیف ہوتی ہے مجھے بھی ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ١٢ (٣٧١٤) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٤ (٢٤٤٩) ، سنن الترمذی/المناقب ٦١ (٣٨٦٧) ، سنن النسائی/الکبری/ المناقب (٨٣٧٠، ٨٣٧١) ، ( تحفة الأشراف : ١١٢٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں سے مراد ابوالحکم عمرو بن ہشام جسے ابوجہل کہتے ہیں کے بھائی حارث بن ہشام اور سلمہ بن ہشام ہیں جو فتح مکہ کے سال اسلام لے آئے تھے اور اس میں ابوجہل کے بیٹے عکرمہ بھی داخل ہیں جو سچے مسلمان تھے۔

【27】

متعہ کا بیان

ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ہم عمر بن عبدالعزیز کے پاس تھے تو عورتوں سے نکاح متعہ ١ ؎ کا ذکر ہم میں چل پڑا، تو ان میں سے ایک آدمی نے جس کا نام ربیعہ بن سبرہ تھا کہا : میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میرے والد نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر متعہ سے منع کردیا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٣ (١٤٠٦) ، سنن النسائی/النکاح ٧١ (٣٣٧٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٤ (١٩٦٢) ، ( تحفة الأشراف : ٣٨٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠٤، ٤٠٥) ، سنن الدارمی/النکاح ١٦ (٢٢٤٢) (حجة الوداع کا لفظ شاذ ہے صحیح مسلم میں فتح مکہ ہے ، اور یہی صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : متعین مدت کے لئے نکاح کرنے کو نکاح متعہ کہتے ہیں۔ ٢ ؎ : یہ نکاح کئی بار حلال ہوا پھر آخر میں حرام ہوگیا، اور اب اس کی حرمت قیامت تک کے لئے ہے، ائمہ اسلام اور علماء سنت کا یہی مذہب ہے۔

【28】

متعہ کا بیان

سبرہ بن معبد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عورتوں سے نکاح متعہ کو حرام قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٣٨٠٩) (صحیح )

【29】

شغار کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح شغار سے منع فرمایا۔ مسدد نے اپنی حدیث میں اتنا اضافہ کیا ہے : میں نے نافع سے پوچھا : شغار ١ ؎ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا آدمی کسی کی بیٹی سے نکاح (بغیر مہر کے) کرے، اور اپنی بیٹی کا نکاح اس سے بغیر مہر کے کر دے اسی طرح کسی کی بہن سے (بغیر مہر کے) نکاح کرے اور اپنی بہن کا نکاح اس سے بغیر مہر کے کر دے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٨ (٥١٠٩) ، والحیل ٤ (٦٩٦٠) ، صحیح مسلم/النکاح ٧ (١٤١٥) ، سنن الترمذی/النکاح ٣٠ (١١٢٤) ، سنن النسائی/النکاح ٦٠ (٣٣٣٦) ، ٦١ (٣٣٣٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٦ (١٨٨٣) ، ( تحفة الأشراف : ٨١٤١، ٨٣٢٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النکاح ١١(٢٤) ، مسند احمد (٢/٧، ١٩، ٦٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٩ (٢٢٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نکاح شغار ایک قسم کا نکاح تھا، جو جاہلیت میں رائج تھا، جس میں آدمی اپنی بیٹی یا بہن کی اس شرط پر دوسرے سے شادی کردیتا کہ وہ بھی اپنی بیٹی یا بہن کی اس سے شادی کر دے، گویا اس کو مہر سمجھتے تھے، اسلام نے اس طرح کے نکاح سے منع کردیا، ہاں اگر شرط نہ ہو، اور الگ الگ مہر ہو تو جائز ہے۔ وضاحت ٢ ؎ : یعنی ہر ایک اپنی بیٹی یا بہن ہی کو اپنی بیوی کا مہر قرار دے۔

【30】

شغار کا بیان

ابن اسحاق سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن ہرمزاعرج نے مجھ سے بیان کیا کہ عباس بن عبداللہ بن عباس نے اپنی بیٹی کا نکاح عبدالرحمٰن بن حکم سے کردیا اور عبدالرحمٰن نے اپنی بیٹی کا نکاح عباس سے کردیا اور ان دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے سے اپنی بیٹی کے شادی کرنے کو اپنی بیوی کا مہر قرار دیا تو معاویہ نے مروان کو ان کے درمیان جدائی کا حکم لکھ کر بھیجا اور اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ یہی وہ نکاح شغار ہے جس سے اللہ کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، مسند احمد (٤/٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ١١٤٢٩) (حسن )

【31】

حلالہ کا بیان

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حلالہ کرنے والے اور کرانے والے دونوں پر اللہ نے لعنت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٢٧ (١١١٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٣ (١٩٣٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٠٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٧، ١٠٧، ١٢١، ١٥٠، ١٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح بہ نیت حلالہ باطل ہے اور ایسا کرنے والا اللہ کے غضب کا مستحق ہے۔

【32】

حلالہ کا بیان

حارث الاعور (رض) ایک صحابی رسول سے روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ وہ علی (رض) ہیں جنہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے آگے راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١٠٠٣٤) (صحیح) (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے ، ورنہ اس کی سند میں حارث اعور ضعیف راوی ہیں )

【33】

غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرے

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے وہ زانی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٢٠ (١١١١) ، ( تحفة الأشراف : ٢٣٦٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٣ (١٩٥٩) ، مسند احمد (٣/٣٠١، ٣٧٧، ٣٨٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٠ (٢٢٧٩) (حسن )

【34】

غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث ضعیف، اور موقوف ہے، یہ ابن عمر (رض) کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٧٧٢٨) (ضعیف) (اس کے راوی عبد اللہ بن عمر عمری ضعیف ہیں ، انہوں نے موقوف کو مرفوع بنا ڈالا ہے )

【35】

رشتہ پر رشتہ بھیجنا جائز نہیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ بھیجے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٨ (٢١٤٠) ، الشروط ٨ (٢٧٢٣) ، النکاح ٤٥ (٥١٤٤) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٢) ، سنن الترمذی/النکاح ٣٨ (١١٣٤) ، سنن النسائی/النکاح ٢٠ (٣٢٤١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٠ (١٨٦٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٣١٢٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النکاح ١(١) ، مسند احمد (٢/٢٣٨، ٢٧٤، ٣١١، ٣١٨، ٣٩٤، ٤١١، ٤٢٧، ٤٥٧، ٤٦٢، ٤٦٣، ٤٨٧، ٤٨٩، ٥٥٨) ، سنن الدارمی/النکاح ٧ (٢٢٢١) (صحیح )

【36】

رشتہ پر رشتہ بھیجنا جائز نہیں

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی نہ تو اپنے بھائی کے نکاح کے پیغام پر پیغام دے اور نہ اس کے سودے پر سودا کرے البتہ اس کی اجازت سے درست ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٨٠٠٩، ٨١٨٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٨ (٢١٤٠) ، النکاح ٤٥ (٥١٤٢) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٢) ، البیوع ٨ (١٤١٢) ، سنن الترمذی/البیوع ٥٧ (١١٣٤) ، سنن النسائی/النکاح ٢٠ (٣٢٤٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٠ (١٨٦٨) ، موطا امام مالک/النکاح ١(٢) ، والبیوع ٤٥(٩٥) ، مسند احمد (٢/١٢٢، ١٢٤، ١٢٦، ١٣٠، ١٤٢، ١٥٣) ، سنن الدارمی/النکاح ٧ (٢٢٢٢) ، البیوع ٣٣ (٢٦٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جب ایک مسلمان کی کسی جگہ شادی طے ہو، تو دوسرے کے لئے وہاں پیغام دینا جائز نہیں، کیونکہ اس میں دوسرے مسلمان کی حق تلفی ہوتی ہے، اور اگر ابھی نسبت طے نہیں ہے، تو پیغام دینے میں کوئی مضائقہ و حرج نہیں۔

【37】

جس سے نکاح کا ارادہ ہے اس کو ایک نظر دیکھ لینا جائز ہے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی عورت کو پیغام نکاح دے تو ہو سکے تو وہ اس چیز کو دیکھ لے جو اسے اس سے نکاح کی طرف راغب کر رہی ہے ١ ؎۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایک لڑکی کو پیغام دیا تو میں اسے چھپ چھپ کر دیکھتا تھا یہاں تک کہ میں نے وہ بات دیکھ ہی لی جس نے مجھے اس کے نکاح کی طرف راغب کیا تھا، میں نے اس سے شادی کرلی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣١٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٣٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت سے آدمی نکاح کرنا چاہے وہ اسے دیکھ سکتا ہے، یہ مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔

【38】

ولی کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ، آپ ﷺ نے اسے تین بار فرمایا، (پھر فرمایا) اگر اس مرد نے ایسی عورت سے جماع کرلیا تو اس جماع کے عوض عورت کے لیے اس کا مہر ہے اور اگر ولی اختلاف کریں ١ ؎ تو بادشاہ اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ١٤ (١١٠٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٥ (١٨٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٦٢) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری/ النکاح (٥٣٩٤) ، مسند احمد (٦/٦٦، ١٦٦، ٢٦٠) ، سنن الدارمی/النکاح ١١ (٢٢٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مثلاً ایک عورت کے دو بھائی ہوں ایک کسی کے ساتھ اس کا نکاح کرنا چاہے دوسرا کسی دوسرے کے ساتھ اور عورت نابالغ ہو اور یہ اختلاف نکاح ہونے میں آڑے آئے اور نکاح نہ ہونے دے تو ایسی صورت میں یہ فرض کر کے کہ گویا اس کا کوئی ولی ہی نہیں ہے سلطان اس کا ولی ہوگا ورنہ ولی کی موجودگی میں سلطان کو ولایت کا حق حاصل نہیں۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے ، خواہ عورت بالغ ہو یا نابالغ، یہی ائمہ حدیث کا مذہب ہے۔

【39】

ولی کا بیان

اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١٦٤٦٢) (صحیح )

【40】

ولی کا بیان

ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ١٤ (١١٠١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٥ (١٨٨١) ، ( تحفة الأشراف : ٩١١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٤، ٤١٣، ٤١٨) ، سنن الدارمی/النکاح ١١ (٢٢٢٩) (صحیح )

【41】

ولی کا بیان

ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ ابن حجش کے نکاح میں تھیں، ان کا انتقال ہوگیا اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سر زمین حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی تو نجاشی (شاہ حبش) نے ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کردیا، اور وہ انہیں لوگوں کے پاس (ملک حبش ہی میں) تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/النکاح ٦٦ (٣٣٥٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٨٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٢٧) (صحیح )

【42】

عورتوں کو دوبارہ نکاح سے مت روکو

معقل بن یسار کہتے ہیں کہ میری ایک بہن تھی جس کے نکاح کا پیغام میرے پاس آیا، اتنے میں میرے چچا زاد بھائی آگئے تو میں نے اس کا نکاح ان سے کردیا، پھر انہوں نے اسے ایک طلاق رجعی دے دی اور اسے چھوڑے رکھا یہاں تک کہ اس کی عدت پوری ہوگئی، پھر جب اس کے لیے میرے پاس ایک اور نکاح کا پیغام آگیا تو وہی پھر پیغام دینے آگئے، میں نے کہا : اللہ کی قسم میں کبھی بھی ان سے اس کا نکاح نہیں کروں گا، تو میرے ہی متعلق یہ آیت نازل ہوئی : وإذا طلقتم النساء فبلغن أجلهن فلا تعضلوهن أن ينكحن أزواجهن اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو تم انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو (سورۃ البقرہ : ٢٣٢) راوی کا بیان ہے کہ میں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کردیا، اور ان سے اس کا نکاح کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التفسیر ٤٠ (٤٥٢٩) ، النکاح ٦٠ (٥١٣٠) ، الطلاق ٤٤ (٥٣٣٠، ٥٣٣١) ، سنن الترمذی/التفسیر ٣ (٢٩٨١) ، ( تحفة الأشراف : ١١٤٦٥) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ النکاح (١١٠٤١) (صحیح )

【43】

جب دو ولی عورت کا نکاح کر دیں

سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس عورت کا نکاح دو ولی کردیں تو وہ اس کی ہوگی جس سے پہلے نکاح ہوا ہے اور جس شخص نے ایک ہی چیز کو دو آدمیوں سے فروخت کردیا تو وہ اس کی ہے جس سے پہلے بیچی گئی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٢٠ (١١١٠) ، سنن النسائی/البیوع ٩٤ (٤٦٨٦) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢١ (٢١٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ٤٥٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨، ١١، ١٢، ١٨، ٢٢) ، سنن الدارمی/النکاح ١٥ (٢٢٣٩) (ضعیف) ( حسن+بصری مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت ہے )

【44】

اس آیت کریمہ کی تفسیر جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث نہ بن بیٹھو اور نہ ان کو نکاح سے روکو

عبداللہ بن عباس (رض) سے آیت کریمہ : لا يحل لکم أن ترثوا النساء کر ها ولا تعضلوهن تمہارے لیے حلال نہیں کہ تم عورتوں کے بھی زبردستی وارث بن بیٹھو اور نہ ہی تم انہیں نکاح سے اس لیے روک رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں کچھ لے لو (سورۃ البقرہ : ١٩) کی تفسیر کے سلسلہ میں مروی ہے کہ جب آدمی کا انتقال ہوجاتا تو اس (آدمی) کے اولیا یہ سمجھتے تھے کہ اس عورت کے ہم زیادہ حقدار ہیں بہ نسبت اس کے ولی کے، اگر وہ چاہتے تو اس کا نکاح کردیتے اور اگر نہ چاہتے تو نہیں کرتے، چناچہ اسی سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر النساء ٦ (٤٥٧٩) ، الإکراہ ٦ (٦٩٤٨) ، سنن النسائی/ الکبری/ التفسیر (١١٠٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ٦١٠٠، ٦٢٥٦ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی مرجائے تو اس کی عورت کو اپنے نکاح کا اختیار ہے، میت کے رشتہ داروں کو اسے زبردستی اپنے نکاح میں لینا جائز نہیں، اور نہ انہیں یہ حق ہے کہ وہ اسے نکاح سے روکیں۔

【45】

اس آیت کریمہ کی تفسیر جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث نہ بن بیٹھو اور نہ ان کو نکاح سے روکو

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آیت کریمہ : لا يحل لکم أن ترثوا النساء کر ها ولا تعضلوهن لتذهبوا ببعض ما آتيتموهن إلا أن يأتين بفاحشة مبينة اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو تم انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو (سورۃ البقرہ : ٢٣٢) کے متعلق مروی ہے کہ ایسا ہوتا تھا کہ آدمی اپنی کسی قرابت دار عورت کا وارث ہوتا تو اسے دوسرے سے نکاح سے روکے رکھتا یہاں تک کہ وہ یا تو مرجاتی یا اسے اپنا مہر دے دیتی تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں حکم نازل فرما کر ایسا کرنے سے منع کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٦٢٥٦) (حسن صحیح )

【46】

اس آیت کریمہ کی تفسیر جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث نہ بن بیٹھو اور نہ ان کو نکاح سے روکو

ضحاک سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے : تو اللہ تعالیٰ نے اس کی نصیحت فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (صحیح )

【47】

نکاح کے وقت عورت سے اجازت حاصل کی جائے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غیر کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک اس سے پوچھ نہ لیا جائے، اور نہ ہی کنواری عورت کا نکاح بغیر اس کی اجازت کے کیا جائے ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس کی اجازت کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : (اس کی اجازت یہ ہے کہ) وہ خاموش رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود، ( تحفة الأشراف : ١٥٣٥٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/النکاح ٤١ (٥١٣٦) ، والحیل ١١ (٦٩٧٠) ، صحیح مسلم/النکاح ٩ (١٤١٩) ، سنن الترمذی/النکاح ١٨ (١١٠٧، ١١٠٨) ، سنن النسائی/النکاح ٣٤ (٣٢٦٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١١ (١٨٧١) ، مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٥٠، ٤٢٥، ٤٣٤) ، سنن الدارمی/النکاح ١٣ (٢٢٣٢) (صحیح )

【48】

نکاح کے وقت عورت سے اجازت حاصل کی جائے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یتیم لڑکی سے اس کے نکاح کے لیے اجازت لی جائے گی، اگر وہ خاموشی اختیار کرے تو یہی اس کی اجازت ہے اور اگر انکار کر دے تو اس پر زبردستی نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٠١٤، ١٥١١٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/النکاح ١٩ (١١٠٩) ، سنن النسائی/النکاح ٣٦ (٣٢٧٢) ، مسند احمد (٢/٢٥٩، ٣٨٤) (حسن صحیح )

【49】

نکاح کے وقت عورت سے اجازت حاصل کی جائے

اس سند سے بھی محمد بن عمرو سے اسی طریق سے یہی حدیث یوں مروی ہے اس میں فإن بکت أو سکتت اگر وہ رو پڑے یا چپ رہے یعنی بكت (رو پڑے) کا اضافہ ہے، ابوداؤد کہتے ہیں بكت (رو پڑے) کی زیادتی محفوظ نہیں ہے یہ حدیث میں وہم ہے اور یہ وہم ابن ادریس کی طرف سے ہے یا محمد بن علاء کی طرف سے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابوعمرو ذکوان نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے اس میں ہے انہوں نے کہا اللہ کے رسول ! باکرہ تو بولنے سے شرمائے گی، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی خاموشی ہی اس کی رضا مندی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث محمد بن العلاء قد تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٥٠٣٥) ، وحدیث أبو عمر وذکوان عن عائشة، قد رواہ صحیح البخاری/النکاح ٤١ (٥١٣٧) ، صحیح مسلم/النکاح ٩(١٤٢٠) ، سنن النسائی/ النکاح ٣٤ (٣٢٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٥، ١٦٥، ٢٠٣) (صحیح) (مگر بکت کا لفظ شاذ ہے )

【50】

نکاح کے وقت عورت سے اجازت حاصل کی جائے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورتوں سے ان کی بیٹیوں کے بارے میں مشورہ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٨٥٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی الثقة مبہم ہے )

【51】

اگر باپ کنواری لڑکی کا نکاح اس سے پوچھے بغیر کردے تو کیسا ہوگا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر کردیا ہے، نبی اکرم ﷺ نے اسے اختیار دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ١٢ (١٨٧٥) ، ( تحفة الأشراف : ٦٠٠١، ١٩١٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کہ چاہے تو نکاح باقی رکھے اور چاہے تو فسخ کرلے۔

【52】

اگر باپ کنواری لڑکی کا نکاح اس سے پوچھے بغیر کردے تو کیسا ہوگا

اس سند سے عکرمہ سے یہ حدیث مرسلاً مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں : اس روایت میں ابن عباس (رض) کا ذکر نہیں ہے، اس روایت کا اسی طرح لوگوں کا مرسلاً روایت کرنا ہی معروف ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٦٠٠١، ١٩١٠٣) (صحیح )

【53】

ثیبہ کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ثیبہ ١ ؎ اپنے نفس کا اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے اور کنواری لڑکی سے اس کے بارے میں اجازت لی جائے گی اور اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٩ (١٤٢١) ، سنن الترمذی/النکاح ١٧ (١١٠٨) ، سنن النسائی/النکاح ٣١ (٣٢٦٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١١ (١٨٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٥١٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النکاح ٢ (٤) ، مسند احمد (١/٢١٩، ٢٤٣، ٢٧٤، ٣٥٤، ٣٥٥، ٣٦٢) ، سنن الدارمی/النکاح ١٣ (٢٢٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایّم سے مراد ثیبہ عورت ہے اس کی تائید صحیح مسلم کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے، ترجمۃ الباب سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے لیکن اس کے برخلاف بعض لوگوں نے ایّم سے مراد بیوہ عورت لیا ہے۔

【54】

ثیبہ کا بیان

عبداللہ بن فضل سے بھی اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا : ثیبہ اپنے نفس کا اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے اور کنواری لڑکی سے اس کا باپ پوچھے گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : أبوها کا لفظ محفوظ نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٦٥١٧) (صحیح) ( تستأمر کے لفظ سے صحیح ہے ، اس روایت کا لفظ شاذ ہے )

【55】

ثیبہ کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ولی کا ثیبہ عورت پر کچھ اختیار نہیں، اور یتیم لڑکی سے پوچھا جائے گا اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٠٩٨) ، ( تحفة الأشراف : ٦٥١٧) (صحیح )

【56】

ثیبہ کا بیان

خنسا بنت خذام انصاریہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کردیا اور وہ ثیبہ تھیں تو انہوں نے اسے ناپسند کیا چناچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے ان کا نکاح رد کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٤٢ (٥١٣٨) ، الإکراہ ٣ (٦٩٤٥) ، الحیل ١١ (٦٩٦٩) ، سنن النسائی/النکاح ٣٥ (٣٢٧٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٢ (١٨٧٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٨٢٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النکاح ١٤(٢٥) ، مسند احمد (٦/٣٢٨) ، سنن الدارمی/النکاح ١٤ (٢٢٣٨) (صحیح )

【57】

کفائت (کفو) کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوہند نے نبی اکرم ﷺ کی چندیا میں پچھنا لگایا تو آپ نے فرمایا : بنی بیاضہ کے لوگو ! ابوہند سے تم (اپنی بچیوں کی) شادی کرو اور (ان کی بچیوں سے شادی کرنے کے لیے) تم انہیں نکاح کا پیغام دو ١ ؎، اور فرمایا : تین چیزوں سے تم علاج کرتے ہو اگر ان میں کسی چیز میں خیر ہے تو وہ پچھنا لگانا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٥٠١٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطب ٢٠ (٣٤٧٦) ، مسند احمد (٢/٣٤٢، ٤٢٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفو میں اعتبار دین کا ہوگا نہ کہ نسب اور پیشہ وغیرہ کا۔

【58】

بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کا نکاح کر دینا

سارہ بنت مقسم نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے میمونہ بنت کردم (رض) کو کہتے سنا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے حج میں اپنے والد کے ساتھ نکلی، میرے والد آپ ﷺ کے قریب پہنچے، آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے تو وہ آپ کے پاس کھڑے ہوگئے، اور آپ کی باتیں سننے لگے، آپ ﷺ کے پاس معلموں کے درے کی طرح ایک درہ تھا، میں نے بدوؤں نیز دیگر لوگوں کو کہتے ہوئے سنا کہ تھپتھپانے سے بچو، تھپتھپانے سے بچو تھپتھپانے سے بچو ١ ؎۔ میرے والد نے آپ ﷺ سے قریب جا کر آپ کا پیر پکڑ لیا اور آپ کے رسول ہونے کا اقرار کیا، اور آپ ﷺ کے پاس ٹھہرے رہے اور آپ کی بات کو غور سے سنا، پھر کہا کہ میں لشکر عثران (یہ جاہلیت کی جنگ ہے) میں حاضر تھا، (ابن مثنی کی روایت میں جیش عثران کے بجائے جیش غثران ہے) تو طارق بن مرقع نے کہا : مجھے اس کے عوض میں نیزہ کون دیتا ہے ؟ میں نے پوچھا : اس کا عوض کیا ہوگا ؟ کہا : میری جو پہلی بیٹی ہوگی اس کے ساتھ اس کا نکاح کر دوں گا، چناچہ میں نے اپنا نیزہ اسے دے دیا اور غائب ہوگیا، جب مجھے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی ہوگئی اور جوان ہوگئی ہے تو میں اس کے پاس پہنچ گیا اور اس سے کہا کہ میری بیوی کو میرے ساتھ رخصت کرو تو وہ قسم کھا کر کہنے لگا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا، جب تک کہ میں اسے مہر جدید ادا نہ کر دوں اس عہد و پیمان کے علاوہ جو میرے اور اس کے درمیان ہوا تھا، میں نے بھی قسم کھالی کہ جو میں اسے دے چکا ہوں اس کے علاوہ کوئی اور مہر نہیں دے سکتا، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : اب وہ کن عورتوں کی عمر میں ہے (یعنی اس کی عمر اس وقت کیا ہے) ، اس نے کہا : وہ بڑھاپے کو پہنچ گئی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : میری رائے ہے کہ تم اسے جانے دو ، تو آپ ﷺ کی اس بات نے مجھے گھبرا دیا میں آپ کی جانب دیکھنے لگا، آپ ﷺ نے میری جب یہ حالت دیکھی تو فرمایا : (گھبراؤ مت) نہ تم گنہگار ہو گے اور نہ ہی تمہارا ساتھی ٢ ؎ گنہگار ہوگا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : روایت میں وارد لفظ قتیر کا مطلب بڑھاپا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٠٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦٦) ، ویأتی ہذا الحدیث فی الأیمان (٣٣١٤) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اپنے پیروں کو زمین پر تھپتھپانے سے بچو یا تھپتھپانے سے کنایہ درہ مارنے کی طرف ہے یعنی درے مارنے سے بچو۔ ٢ ؎: ساتھی سے مراد طارق بن مرقع ہیں یعنی قسم کھانے کی وجہ سے تم دونوں گنہگار نہیں ہو گے۔

【59】

بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کا نکاح کر دینا

ابراہیم بن میسرہ کی روایت ہے کہ ایک عورت جو نہایت سچی تھی، کہتی ہے : میرے والد زمانہ جاہلیت میں ایک غزوہ میں تھے کہ (تپتی زمین سے) لوگوں کے پیر جلنے لگے، ایک شخص بولا : کوئی ہے جو مجھے اپنی جوتیاں دیدے ؟ اس کے عوض میں پہلی لڑکی جو میرے یہاں ہوگی اس سے اس کا نکاح کر دوں گا، میرے والد نے جوتیاں نکالیں اور اس کے سامنے ڈال دیں، اس کے یہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی اور پھر وہ بالغ ہوگئی، پھر اسی جیسا قصہ بیان کیا لیکن اس میں قتیر کا واقعہ مذکور نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١٨٠٩١) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک مجہول راویہ ہے )

【60】

مہر کا بیان

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف الزہری کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے نبی اکرم ﷺ (کی ازواج مطہرات) کے مہر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا ١ ؎، میں نے کہا : نش کیا ہے ؟ فرمایا : آدھا اوقیہ ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٣ (١٤٢٦) ، سنن النسائی/النکاح ٦٦ (٣٣٤٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٧ (١٨٨٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٧٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦ /٩٤) ، سنن الدارمی/النکاح ١٨ (٢٢٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بارہ اوقیہ کے (٤٨٠) درہم اور نش کے (٢٠) درہم، کل پانچ سو درہم ہوئے، جو وزن سے تیرہ سو پچھتر گرام (١٣٧٥) کے مساوی ہے (یعنی ایک کیلو تین سو پچھتر گرام چاندی) ۔ ٢ ؎ : ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اس حساب سے ساڑھے بارہ اوقیہ کے کل پانچ سو درہم ہوئے۔

【61】

مہر کا بیان

ابوعجفاء سلمی کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے، اللہ ان پر رحم کرے، ہمیں خطاب فرمایا اور کہا : خبردار ! عورتوں کے مہر بڑھا چڑھا کر مت باندھو اس لیے کہ اگر یہ (مہر کی زیادتی) دنیا میں باعث شرف اور اللہ کے یہاں تقویٰ اور پرہیزگاری کا ذریعہ ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اس کے زیادہ حقدار تھے، آپ نے تو اپنی کسی بھی بیوی اور بیٹی کا بارہ اوقیہ (چار سو اسی درہم) سے زیادہ مہر نہیں رکھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٢٣ (١١١٤) ، سنن النسائی/النکاح ٦٦ (٣٣٥١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٧ (١٨٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤١، ٤٨) ، سنن الدارمی/النکاح ١٨ (٢٢٤٦) (حسن صحیح )

【62】

مہر کا بیان

ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ عبیداللہ بن حجش کے نکاح میں تھیں، حبشہ میں ان کا انتقال ہوگیا تو نجاشی (شاہ حبشہ) نے ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کردیا، اور آپ کی جانب سے انہیں چار ہزار (درہم) مہر دے کر شرحبیل بن حسنہ (رض) کے ہمراہ انہیں آپ ﷺ کے پاس روانہ کردیا ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حسنہ شرحبیل کی والدہ ٢ ؎ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٥٨٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سب سے زیادہ انہیں کا مہر تھا، باقی ازاواج مطہرات اور صاحبزادیوں کا مہر حد سے حد پانچ سو درہم تک تھا، جیسا کہ حدیث نمبر (٢١٠٥) میں گزرا۔ ٢ ؎ : یہ والد کے بجائے اپنی والدہ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں۔

【63】

مہر کا بیان

ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ نجاشی (شاہ حبشہ) نے ام حبیبہ بنت ابی سفیان (رض) کا نکاح رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چار ہزار درہم کے عوض کردیا اور یہ بات آپ کو لکھ بھیجی تو آپ نے قبول فرما لیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١٥٨٥٥، ١٩٤٠٠) (ضعیف )

【64】

کم سے کم مہر کا بیان

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے جسم پر زعفران کا اثر دیکھا تو پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے ایک عورت سے شادی کرلی ہے، پوچھا : اسے کتنا مہر دیا ہے ؟ جواب دیا : گٹھلی (نواۃ ١ ؎ ) کے برابر سونا، آپ ﷺ نے فرمایا : ولیمہ کرو چاہے ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ١ (٢٠٤٩) ، مناقب الأنصار ٣ (٣٧٨١) ، ٥٠ (٣٩٣٧) ، النکاح ٧ (٥٠٧٢) ، ٤٩ (٥١٣٨) ، ٥٤ (٥١٥٣) ، ٥٦ (٥١٥٥) ، ٦٨ (٥١٦٧) ، الأدب ٦٧ (٦٠٨٢) ، الدعوات ٥٣ (٦٣٨٣) ، صحیح مسلم/النکاح ١٣ (١٤٧٢) ، سنن الترمذی/النکاح ١٠ (١٠٩٤) البر والصلة ٢٢ (١٩٣٣) ، سنن النسائی/النکاح ٧٥ (٣٣٧٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٤ (١٩٠٧) ، موطا امام مالک/النکاح ٢١(٤٧) ، مسند احمد (٣/١٦٥، ١٩٠، ٢٠٥) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢٨ (٢١٠٨) ، النکاح ٢٢ (٢٢٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نواۃ پانچ سو درہم کو کہتے ہیں، یعنی پانچ درہم (لگ بھگ پندرہ گرام) کے برابر سونا مہر مقرر کیا اور بعضوں نے کہا ہے کہ نواۃ سے کھجور کی گٹھلی مراد ہے۔ ٢ ؎ : یہ بات آپ ﷺ نے عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مالی حیثیت دیکھ کر کہی تھی کہ ولیمہ میں کم سے کم ایک بکری ضرور ہو اس سے اس بات پر استدلال درست نہیں کہ ولیمہ میں گوشت ضروری ہے کیونکہ آپ ﷺ نے صفیہ (رض) کے ولیمہ میں ستو اور کھجور ہی پر اکتفا کیا تھا۔

【65】

کم سے کم مہر کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی عورت کو مہر میں مٹھی بھر ستو یا کھجور دیا تو اس نے (اس عورت کو اپنے لیے) حلال کرلیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے عبدالرحمٰن بن مہدی نے صالح بن رومان سے انہوں نے ابوزبیر سے انہوں نے جابر (رض) سے موقوفاً روایت کیا ہے اور اسے ابوعاصم نے صالح بن رومان سے، صالح نے ابو الزبیر سے، ابو الزبیر نے جابر (رض) سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک مٹھی اناج دے کر متعہ کرتے تھے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن جریج نے ابو الزبیر سے انہوں نے جابر سے ابوعاصم کی روایت کے ہم معنی روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، ( تحفة الأشراف : ٢٩٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٥) (ضعیف) (ابو زبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اور ابن رومان مجہول ہیں، نیز حدیث کے موقوف و مرفوع ہونے میں اضطراب ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یہ بات متعہ کی حرمت سے پہلے کی ہے ، جیسا کہ مؤلف کے ذکر کردہ کلام سے ظاہر ہو رہا ہے۔

【66】

کسی کام یا محنت کے اوپر نکاح کرنے کا بیان

سہل بن سعد ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کردیا ہے، پھر وہ کافی دیر کھڑی رہی (اور آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا) تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! اگر آپ کو حاجت نہیں تو اس سے میرا نکاح کرا دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس اسے مہر میں ادا کرنے کے لیے کچھ ہے ؟ وہ بولا : میرے اس تہبند کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم اپنا ازار اسے (مہر میں) دے دو گے تو تمہارے پاس تو ازار بھی نہیں رہے گا، لہٰذا کوئی اور چیز تلاش کرو ، وہ بولا : اور تو کچھ بھی نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تلاش کرو چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو ، تو اس نے تلاش کیا لیکن اسے کچھ نہ ملا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا : کیا تجھے کچھ قرآن یاد ہے ؟ کہنے لگا : ہاں فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں، ان کا نام لے کر اس نے بتایا تو آپ ﷺ نے اس سے کہا : جو کچھ تجھے قرآن یاد ہے اسی کے (یاد کرانے کے) بدلے میں نے اس کے ساتھ تیرا نکاح کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ٩ (٢٣١٠) ، و فضائل القرآن ٢١ (٥٠٢٩) ، ٢٢ (٥٠٣٠) ، والنکاح ١٤(٥٠٨٧) ، ٣٢ (٥١٢١) ، ٣٥ (٥١٢٦) ، ٣٧ (٥١٣٢) ، ٤٠ (٥١٣٥) ، ٤٤ (٥١٤١) ، ٥٠ (٥١٤٩) ، ٥١ (٥١٥٠) ، واللباس ٤٩(٧١١٧) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٣ (١١١٤) ، سنن النسائی/النکاح ٦٩ (٣٣٦١) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٤٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/النکاح ١٣(١٤٢٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٧(١٨٨٩) ، موطا امام مالک/النکاح ٣ (٨) ، مسند احمد (٥/٣٣٦) ، سنن الدارمی/النکاح ١٩ (٢٢٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مہر میں مال کی کوئی تحدید نہیں، خواہ قلیل ہو یا کثیر اس طرح محنت مزدوری یا تعلیم قرآن پر بھی نکاح درست ہے، جمہور علما کی یہی رائے ہے، اور بعض نے دس درہم کی تحدید کی ہے، ان کے نزدیک اس سے کم میں مہر درست نہیں، لیکن ان کے دلائل اس قابل نہیں کہ ان صحیح احادیث کا معارضہ کرسکیں۔

【67】

کسی کام یا محنت کے اوپر نکاح کرنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے بھی اسی واقعہ کی طرح مروی ہے لیکن اس میں تہبند اور انگوٹھی کا ذکر نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تجھے قرآن میں سے کیا یاد ہے ؟ جواب دیا : سورة البقرہ یا اس کے بعد والی سورت تو آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اسے بیس آیتیں سکھا دو اور وہ تمہاری بیوی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤١٩٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری/ النکاح (٥٥٠٦) (ضعیف) (اس کے راوی عسل ضعیف ہیں )

【68】

کسی کام یا محنت کے اوپر نکاح کرنے کا بیان

مکحول سے بھی سہل کی روایت کی طرح مروی ہے، مکحول کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے لیے یہ درست نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٩٤٧٨) (ضعیف) (یہ روایت مرسل ہے ، مکحول صحابی نہیں تابعی ہیں )

【69】

جو شخص مہر کی تعیین کے بغیر نکاح کرے اور پھر مر جائے تو اس کا مہر کیا ہوگا

عبداللہ بن مسعود (رض) سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جس نے کسی عورت سے نکاح کیا اور پھر اس سے ہمبستری کرنے سے پہلے اور اس کا مہر متعین کرنے سے پہلے وہ انتقال کر گیا تو انہوں نے کہا : اس عورت کو پورا مہر ملے گا اور اس پر عدت لازم ہوگی اور اسے میراث سے حصہ ملے گا۔ اس پر معقل بن سنان (رض) نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ نے بروع بنت واشق کے سلسلے میں اسی کا فیصلہ فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٤٤(١١٤٥) ، سنن النسائی/النکاح ٦٨(٣٣٥٨) ، والطلاق ٥٧(٣٥٥٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٨ (١٨٩١) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٨٠، ٤/٢٨٠) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٧ (٢٢٩٢) (صحیح )

【70】

جو شخص مہر کی تعیین کے بغیر نکاح کرے اور پھر مر جائے تو اس کا مہر کیا ہوگا

اس سند سے بھی عبداللہ سے مروی ہے عثمان نے اسی کے مثل روایت بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١١٤٦١) (صحیح )

【71】

جو شخص مہر کی تعیین کے بغیر نکاح کرے اور پھر مر جائے تو اس کا مہر کیا ہوگا

حدیث نمبر : 2116 عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس ایک شخص کا یہی مسئلہ پیش کیا گیا، راوی کا بیان ہے کہ لوگوں کی اس سلسلہ میں مہینہ بھر یا کہا کئی بار آپ کے پاس آمدورفت رہی، انہوں نے کہا : اس سلسلے میں میرا فیصلہ یہی ہے کہ بلا کم وکاست اسے اپنی قوم کی عورتوں کی طرح مہر ملے گا، وہ میراث کی حقدار ہوگی اور اس پر عدت بھی ہوگی، اگر میرا فیصلہ درست ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، اگر غلط ہے تو میری جانب سے اور شیطان کی طرف سے ہے، اللہ اور اللہ کے رسول اس سے بری ہیں، چناچہ قبیلہ اشجع کے کچھ لوگ جن میں جراح و ابوسنان بھی تھے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : ابن مسعود ! ہم گواہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم میں بروع بنت واشق ۔ جن کے شوہر ہلال بن مرہ اشجعی ہیں، کے سلسلہ میں ایسا ہی فیصلہ کیا تھا جو آپ نے کیا ہے، عبداللہ بن مسعود (رض) کو جب ان کا فیصلہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے موافق ہوگیا تو بڑی خوشی ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣٢٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٣٠، ٤٣١، ٤٤٧، ٤٤٨) (صحیح )

【72】

جو شخص مہر کی تعیین کے بغیر نکاح کرے اور پھر مر جائے تو اس کا مہر کیا ہوگا

عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا : کیا تم اس بات سے راضی ہو کہ میں تمہارا نکاح فلاں عورت سے کر دوں ؟ اس نے جواب دیا : ہاں، پھر عورت سے کہا : کیا تم اس بات سے راضی ہو کہ فلاں مرد سے تمہارا نکاح کر دوں ؟ اس نے بھی جواب دیا : ہاں، چناچہ آپ ﷺ نے ان دونوں کا نکاح کردیا، اور آدمی نے اس سے صحبت کرلی لیکن نہ تو اس نے مہر متعین کیا اور نہ ہی اسے کوئی چیز دی، یہ شخص غزوہ حدیبیہ میں شریک تھا اور اسی بنا پر اسے خیبر سے حصہ ملتا تھا، جب اس کی وفات کا وقت ہوا تو کہنے لگا کہ رسول اللہ ﷺ نے فلاں عورت سے میرا نکاح کرایا تھا، لیکن میں نے نہ تو اس کا مہر مقرر کیا اور نہ اسے کچھ دیا، لہٰذا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنا خیبر سے ملنے والا حصہ اس کے مہر میں دے دیا، چناچہ اس عورت نے وہ حصہ لے کر ایک لاکھ میں فروخت کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عمر بن خطاب (رض) نے حدیث کے شروع میں ان الفاظ کا اضافہ کیا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہتر نکاح وہ ہے جو سب سے آسان ہو اور ان کی حدیث سب سے زیادہ کامل ہے اور اس میں إن رسول الله ﷺ قال للرجل کے بجائے قال رسول الله ﷺ للرجل ہے پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اندیشہ ہے کہ یہ حدیث الحاقی ہو کیونکہ معاملہ اس کے برعکس ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٩٩٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ درحقیقت مرض الموت میں اس شخص نے مہر سے زائد کی بابت ایسا کہا تھا۔

【73】

خطبہ نکاح کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ حاجت اس طرح سکھایا : إن الحمد لله نستعينه ونستغفره ونعوذ به من شرور أنفسنا من يهد الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله الذي تساءلون به والأرحام إن الله کان عليكم رقيبا اے ایمان والو ! اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے (سورۃ النساء : ١) يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مسلمان ہی رہ کر مرو (سورۃ آل عمران : ١٠٢) ۔ يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وقولوا قولا سديدا * يصلح لکم أعمالکم ويغفر لکم ذنوبکم ومن يطع الله ورسوله فقد فاز فوزا عظيما اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور نپی تلی بات کہو اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی (سورۃ الاحزاب : ٧١، ٧٠) ، محمد بن سلیمان کی روایت میں إن نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ١٧ (١١٠٥) ، سنن النسائی/الجمعة ٢٤ (١٤٠٥) ، والنکاح ٣٩ (٣٢٧٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٩ (١٨٩٢) ، مسند احمد (١/٣٩٢، ٤٠٨، ٤١٣، ٤١٨، ٤٢٣، ٤٣٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٠ (٢٢٤٨) ، ( تحفة الأشراف : ٩٥٠٦، ٩٦١٨) (صحیح )

【74】

خطبہ نکاح کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب خطبہ پڑھتے، پھر راوی نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی لیکن اس میں ورسوله کے بعد یہ الفاظ زائد ہیں : أرسله بالحق بشيرا ونذيرا بين يدى الساعة من يطع الله ورسوله فقد رشد ومن يعصهما فإنه لا يضر إلا نفسه ولا يضر الله شيئا اللہ نے آپ کو حق کے ساتھ قیامت سے پہلے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمابرداری کرے گا، وہ ہدایت پا چکا، اور جو ان کی نافرمانی کرے گا تو وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا بلکہ اپنے آپ ہی کو نقصان پہنچائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، ( تحفة الأشراف : ٩٦٣٦) (ضعیف )

【75】

خطبہ نکاح کا بیان

بنی سلیم کے ایک شخص کہتے ہیں میں نے امامہ بنت عبدالمطلب سے نکاح کے لیے نبی اکرم ﷺ کے پاس پیغام بھیجا تو آپ نے بغیر خطبہ پڑھے ان سے میرا نکاح کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٥٥٣٠) (ضعیف) (اس کے راوی العلاء لین الحدیث ، اور اسماعیل مجہول ہیں )

【76】

نا بالغ لڑکی کا نکاح جائز ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول ﷺ نے مجھ سے شادی کی، اس وقت سات سال کی تھی (سلیمان کی روایت میں ہے : چھ سال کی تھی) اور آپ ﷺ میرے پاس آئے (شب زفاف منائی) اس وقت میں نو برس کی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٧١٠٦، ١٦٨٧١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/النکاح ٣٨ (٥١٣٣) ، ٣٩ (٥١٣٤) ، ٥٩ (٥١٥٨) ، صحیح مسلم/النکاح ١٠ (١٤٢٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٣ (١٨٧٦) ، سنن النسائی/النکاح ٢٩ (٣٢٥٧) ، مسند احمد (٦/١١٨) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٦ (٢٣٠٧) (صحیح )

【77】

باکرہ عورت سے نکاح کرے تو اس کے پاس کتنے دن رہے

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ان سے نکاح کیا تو ان کے پاس تین رات رہے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : تم اسے اپنے خاندان کے لیے بےعزتی مت تصور کرنا، اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس سات رات رہ سکتا ہوں لیکن پھر اپنی اور بیویوں کے پاس بھی سات سات رات رہوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ١٢ (١٤٦٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٦ (١٩١٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٢٢٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری/ عشرة النساء (٨٩٢٥) ، موطا امام مالک/النکاح ٥(١٤) ، مسند احمد (٦/٢٩٢، ٢٩٦، ٣٠٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٧ (٢٢٥٦) (صحیح )

【78】

باکرہ عورت سے نکاح کرے تو اس کے پاس کتنے دن رہے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے صفیہ (رض) سے نکاح کیا تو ان کے پاس تین رات گزاری، اور وہ ثیبہ تھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٧٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عثمان بن ابی شیبہ کے الفاظ ہیں کانت ثیباً ثیبہ وہ عورت ہے جس کی شادی پہلے ہوچکی ہو۔

【79】

باکرہ عورت سے نکاح کرے تو اس کے پاس کتنے دن رہے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب کوئی ثیبہ کے رہتے ہوئے کنواری سے شادی کرے تو اس کے ساتھ سات رات رہے، اور جب ثیبہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین رات رہے۔ راوی کا بیان ہے کہ اگر میں یہ کہوں کہ انس (رض) نے اسے مرفوعاً بیان کیا ہے تو سچ ہے لیکن انہوں نے کہا کہ سنت اسی طرح ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٠٠ (٥٢١٣) ، ١٠١ (٥٢١٤) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٢ (١٤٦١) ، سنن الترمذی/النکاح ٤٠ (١١٣٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٦ (١٩١٦) ، ( تحفة الأشراف : ٩٤٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النکاح ٥(١٥) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٧ (٢٢٥٥) (صحیح )

【80】

جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے تو صحبت کرنے سے پہلے اس کو کچھ نہ کچھ ضرور دے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب علی (رض) نے فاطمہ (رض) سے شادی کی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا : اسے کچھ دے دو ، انہوں نے کہا : میرے پاس تو کچھ بھی نہیں، آپ ﷺ نے پوچھا : تمہاری حطمی زرہ ١ ؎ کہاں ہے ؟ ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/النکاح ٧٦ (٣٣٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ٦٠٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” حطمي “: زرہ ہے جو تلوار کو توڑ دے، یا حطمہ کوئی قبیلہ تھا جو زرہ بنایا کرتا تھا۔ ٢ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ شب زفاف (سہاگ رات) میں پہلی ملاقات کے وقت بیوی کو کچھ ہدیہ تحفہ دینا مستحب ہے۔

【81】

جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے تو صحبت کرنے سے پہلے اس کو کچھ نہ کچھ ضرور دے

محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان سے روایت ہے وہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ جب علی (رض) نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ (رض) سے شادی کی اور ان کے پاس جانے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں منع فرما دیا جب تک کہ وہ انہیں کچھ دے نہ دیں تو انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے پاس کچھ نہیں ہے، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے اپنی زرہ ہی دے دو ، چناچہ انہیں زرہ دے دی، پھر وہ ان کے پاس گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٥٦٦٨) (ضعيف )

【82】

جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے تو صحبت کرنے سے پہلے اس کو کچھ نہ کچھ ضرور دے

اس سند سے ابن عباس (رض) سے بھی اسی کے مثل مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦١٨٤) (ضعيف )

【83】

جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے تو صحبت کرنے سے پہلے اس کو کچھ نہ کچھ ضرور دے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک عورت کو اس کے شوہر کے پاس پہنچا دینے کا حکم دیا قبل اس کے کہ وہ اسے کچھ دے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : خیثمہ کا سماع ام المؤمنین عائشہ (رض) سے نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٤ (١٦٠٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٦٩) (ضعیف) (سند میں انقطاع ہے جیسا کہ مؤلف نے بیان کردیا ہے )

【84】

جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے تو صحبت کرنے سے پہلے اس کو کچھ نہ کچھ ضرور دے

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس عورت نے مہر یا عطیہ یا وعدے پر نکاح کیا تو نکاح سے قبل ملنے والی چیز عورت کی ہوگی اور جو کچھ نکاح کے بعد ملے گا وہ اسی کا ہے جس کو دیا گیا (انعام وغیرہ) ، مرد جس چیز کے سبب اپنے اکرام کا مستحق ہے وہ اس کی بیٹی یا بہن ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/النکاح ٦٧ (٣٣٥٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤١ (١٩٥٥) ، ( تحفة الأشراف : ٨٧٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨٢) (ضعیف) (اس کے راوی ابن جریج مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعيفة، للالبانی ١٠٠٧ )

【85】

دولھا کو مبارک باد کس طرح دینی چاہیے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب کسی شخص کو شادی کی مبارکباد دیتے تو فرماتے : بارک الله لک و بارک عليك وجمع بينكما في خير اللہ تعالیٰ تم کو برکت دے اور اس برکت کو قائم و دائم رکھے، اور تم دونوں کو خیر پر جمع کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٧ (١٠٩١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٣ (١٩٠٥) ، سنن النسائی/ الیوم واللیلة (٢٥٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٦٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٨١) ، سنن الدارمی/النکاح ٦ (٢٢١٩) (صحیح )

【86】

اگر کوئی شخص نکاح کے بعد عورت کو حاملہ پائے تو کیا کرے؟

بصرہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک کنواری پردہ نشین عورت سے نکاح کیا، میں اس کے پاس گیا، تو اسے حاملہ پایا تو اس کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : اس کی شرمگاہ کو حلال کرنے کے عوض تمہیں مہر ادا کرنا پڑے گا، اور (پیدا ہونے والا) بچہ تمہارا غلام ہوگا، اور جب وہ بچہ جن دے - (حسن کی روایت میں) تو تو اسے کوڑے لگا (واحد کے صیغہ کے ساتھ) اور ابن السری کی روایت میں تو تم اسے کوڑے لگاؤ (جمع کے صیغہ کے ساتھ) ، یا آپ ﷺ نے فرمایا : اس پر حد جاری کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو قتادہ نے سعید بن زید سے انہوں نے ابن مسیب سے روایت کیا ہے نیز اسے یحییٰ ابن ابی کثیر نے یزید بن نعیم سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور عطاء خراسانی نے سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے سبھی لوگوں نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے۔ اور یحییٰ ابن ابی کثیر کی روایت میں ہے کہ بصرہ بن اکثم نے ایک عورت سے نکاح کیا اور سبھی لوگوں کی روایت میں ہے : آپ نے لڑکے کو ان کا غلام بنادیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٢٠٢٤ و ١٨٧٥٦) (ضعیف) (اس کے راوی ابن جریج مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )

【87】

اگر کوئی شخص نکاح کے بعد عورت کو حاملہ پائے تو کیا کرے؟

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ بصرہ بن اکثم نامی ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا پھر راوی نے اسی مفہوم کی روایت نقل کی لیکن اس میں اتنا زیادہ ہے کہ آپ ﷺ نے ان کے درمیان جدائی کرا دی اور ابن جریج والی روایت زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٢١٢٤، ١٨٧٥٦) (ضعیف) (اس کے راوی یزید بن نعیم لین الحدیث ہیں )

【88】

عورتوں میں برابری کرنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس دو بیویاں ہوں اور اس کا میلان ایک کی جانب ہو تو وہ بروز قیامت اس حال میں آئے گا، کہ اس کا ایک دھڑا جھکا ہوا ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٤١ (١١٤١) ، سنن النسائی/عشرة النساء ٢ (٣٩٩٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٧ (١٩٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٥، ٣٤٧، ٤٧١) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٤ (٢٢٥٢) (صحیح )

【89】

عورتوں میں برابری کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (اپنی بیویوں کی) باری مقرر فرماتے تھے اور اس میں انصاف سے کام لیتے تھے، پھر یہ دعا فرماتے تھے : اے اللہ ! یہ میری تقسیم ان چیزوں میں ہے جو میرے بس میں ہے، رہی وہ بات جو میرے بس سے باہر ہے اور تیرے بس میں ہے (یعنی دل کا میلان) تو تو مجھے اس کی وجہ سے ملامت نہ فرمانا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٤١ (١١٤٠) ، سنن النسائی/عشرة النساء ٢ (٣٣٩٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٧ (١٩٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٤) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٥ (٢٢٥٣) (ضعیف) (حماد بن زید اور دوسرے زیادہ ثقہ رواة نے اس کو عن ابی قلابة عن النبی ﷺ مرسلا روایت کیا ہے )

【90】

عورتوں میں برابری کرنے کا بیان

عروہ کہتے ہیں ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : میرے بھانجے ! رسول اللہ ﷺ ہم ازواج مطہرات کے پاس رہنے کی باری میں بعض کو بعض پر فضیلت نہیں دیتے تھے اور ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ آپ ﷺ ہم سب کے پاس نہ آتے ہوں، اور بغیر محبت کے آپ ﷺ سب کے قریب ہوتے، اس طرح آپ اپنی اس بیوی کے پاس پہنچ جاتے جس کی باری ہوتی اور اس کے ساتھ رات گزارتے، اور سودہ بنت زمعہ (رض) عمر رسیدہ ہوگئیں اور انہیں اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ انہیں الگ کردیں گے تو کہنے لگیں : اللہ کے رسول ! میری باری عائشہ (رض) کے لیے رہے گی، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی یہ بات قبول فرما لی، عائشہ (رض) کہتی تھیں کہ ہم کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلہ میں یا اور اسی جیسی چیزوں کے سلسلے میں آیت کریمہ : وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا (سورۃ النساء : ١٢٨) نازل کی : اگر عورت کو اپنے خاوند کی بدمزاجی کا خوف ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٠٢٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/النکاح ٩٩ (٥٢١٢) ، صحیح مسلم/التفسیر ١ (٣٠٢٢) ، مسند احمد (٦/١٠٧) (حسن صحیح )

【91】

عورتوں میں برابری کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آیت کریمہ : ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء آپ ان میں سے جسے آپ چاہیں دور رکھیں اور جسے آپ چاہیں اپنے پاس رکھیں (سورۃ الاحزاب : ٥١) نازل ہوئی تو ہم میں سے جس کسی کی باری ہوتی تھی اس سے اللہ کے رسول ﷺ اجازت لیتے تھے۔ معاذہ کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا : آپ ایسے موقع پر کیا کہتی تھیں ؟ کہنے لگیں : میں تو یہ ہی کہتی تھی کہ اگر میرا بس چلے تو میں اپنے اوپر کسی کو ترجیح نہ دوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن ٧ (٤٧٨٩) ، صحیح مسلم/الطلاق ٤ (١٤٧٦) ، سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (٨٩٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٦، ١٥٨، ٢٦١) (صحیح )

【92】

عورتوں میں برابری کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت کے موقع پر سب بیویوں کو بلا بھیجا، وہ جمع ہوئیں تو فرمایا : اب تم سب کے پاس آنے جانے کی میرے اندر طاقت نہیں، اگر تم اجازت دے دو تو میں عائشہ کے پاس رہوں ، چناچہ ان سب نے آپ ﷺ کو اس کی اجازت دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٧٦٨٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٦٤ (١٦١٨) ، مسند احمد (٦/٣١ ١٨٧، ٢٩١) (صحیح )

【93】

عورتوں میں برابری کرنے کا بیان

ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ عروہ بن زبیر (رض) نے ان سے بیان کیا کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے تو جس کا نام نکلتا اس کو لے کر سفر کرتے، آپ ﷺ نے ہر بیوی کے لیے ایک دن رات کی باری بنا رکھی تھی، سوائے سودہ بنت زمعہ (رض) کے انہوں نے اپنی باری عائشہ (رض) کو دے رکھی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الھبة ١٥ (٢٥٩٣) ، والنکاح ١٧ (٥٠٩٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٧٠٣، ١٦٦٧٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٤٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٧ (١٩٧٠) ، سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (٨٩٢٣) ، مسند احمد (٦/ ١١٧، ١٥١، ١٩٧، ٢٦٩) ، سنن الدارمی/الجہاد ٣١ (٢٤٦٧) (صحیح )

【94】

شوہر عورت کو دوسرے ملک میں نہ لے جانے شرط کرے

عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پورا کئے جانے کی سب سے زیادہ مستحق شرطیں وہ ہیں جن کے ذریعہ تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشروط ٦ (٢٧٢١) ، والنکاح ٥٣ (٥١٥١) ، صحیح مسلم/النکاح ٨ (١٤١٨) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٢ (١١٢٧) ، سنن النسائی/النکاح ٤٢ (٣٢٨٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤١ (١٩٥٤) ، ( تحفة الأشراف : ٩٩٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٤، ١٥٠، ١٥٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٢١ (٢٢٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی نکاح کے وقت یہ طے ہو کہ بیوی اپنے میکے ہی میں رہے گی اور شوہر اس شرط کو قبول کرلے تو ظاہر حدیث کے مطابق اب اس کو اس کے میکے سے نکالنے کا حق نہیں ہے۔

【95】

عورت پر شوہر کا حق کیا ہے

قیس بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں حیرہ آیا، تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا : رسول اللہ ﷺ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے، میں جب آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ میں حیرہ شہر آیا تو میں نے وہاں لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اللہ کے رسول ! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں، آپ ﷺ نے فرمایا : بتاؤ کیا اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے، تو اسے بھی سجدہ کرو گے ؟ وہ کہتے ہیں : میں نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم ایسا نہ کرنا، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اس وجہ سے کہ شوہروں کا حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١١٠٩٠) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصلاة ١٥٩ (١٥٠٤) (صحیح) (قبر پر سجدہ کرنے والا جملہ صحیح نہیں ہے )

【96】

عورت پر شوہر کا حق کیا ہے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کرے اور اس کے پاس نہ آئے جس کی وجہ سے شوہر رات بھر ناراض رہے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٧ (٣٢٣٧) ، والنکاح ٨٥ (٥١٩٤) ، صحیح مسلم/النکاح ٢٠ (١٤٣٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٤٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٣٩، ٤٨٠) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٨ (٢٢٧٤) (صحیح )

【97】

شوہر پر عورت کا کیا حق ہے

معاویہ بن حیدہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے اوپر ہماری بیوی کا کیا حق ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کہ جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، جب پہنو یا کماؤ تو اسے بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو، برا بھلا نہ کہو، اور گھر کے علاوہ اس سے جدائی ١ ؎ اختیار نہ کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ولا تقبح کا مطلب یہ ہے کہ تم اسے قبحک الله نہ کہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٣(١٨٥٠) ، ( تحفة الأشراف : ١١٣٩٦) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (٩١٧١) ، مسند احمد (٤/٤٤٧، ٥/٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کسی بات پر ناراض ہو تو اسے گھر سے دوسری جگہ نہ بھگاؤ گھر ہی میں رکھو بطور سرزنش صرف بستر الگ کر دو ۔

【98】

شوہر پر عورت کا کیا حق ہے

حدیث نمبر : 2143 معاویہ بن حیدہ قشیری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم اپنی عورتوں کے پاس کدھر سے آئیں، اور کدھر سے نہ آئیں ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا : اپنی کھیتی ١ ؎ میں جدھر سے بھی چاہو آؤ، جب خود کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، اور جب خود پہنو تو اسے بھی پہناؤ، اس کے چہرہ کی برائی نہ کرو، اور نہ ہی اس کو مارو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : شعبہ نے أطعمها إذا طعمت واکسها إذا اکتسيت کے بجائے تطعمها إذا طعمت وتکسوها إذا اکتسيت روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١١٣٨٥) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (٩١٦٠) ، مسند احمد ( ٥/٣، ٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی قبل (شرمگاہ) میں جس طرف سے بھی چاہو آؤ، نہ کہ دبر (پاخانہ کے راستہ) میں کیونکہ دبر حرث ” کھیتی “ نہیں ہے۔

【99】

شوہر پر عورت کا کیا حق ہے

معاویہ قشیری (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا : ہماری عورتوں کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو تم خود کھاتے ہو وہی ان کو بھی کھلاؤ، اور جیسا تم پہنتے ہو ویسا ہی ان کو بھی پہناؤ، اور نہ انہیں مارو، اور نہ برا کہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١١٣٩٥) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری/ عشرة النساء (٩١٥١) (صحیح )

【100】

عورتوں کو مارنے کا بیان

ابوحرہ رقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر تم ان کی نافرمانی سے ڈرو تو انہیں بستروں میں (تنہا) چھوڑ دو ۔ حماد کہتے ہیں : یعنی ان سے صحبت نہ کرو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، ( تحفة الأشراف : ١٥٥٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧٢) (حسن )

【101】

عورتوں کو مارنے کا بیان

ایاس بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی بندیوں کو نہ مارو ، چناچہ عمر (رض) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : (آپ کے اس فرمان کے بعد) عورتیں اپنے شوہروں پر دلیر ہوگئی ہیں، چناچہ آپ ﷺ نے انہیں مارنے اور تادیب کی رخصت دے دی، پھر عورتیں اپنے شوہروں کی شکایتیں لے کر ازواج مطہرات کے پاس پہنچنے لگیں، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بہت سی عورتیں اپنے شوہروں کی شکایتیں لے کر محمد کے گھر والوں کے پاس پہنچ رہی ہیں، یہ (مار پیٹ کرنے والے) لوگ تم میں بہترین لوگ نہیں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٥١ (١٩٨٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (٩١٦٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٤ (٢٦٦٥) (صحیح )

【102】

عورتوں کو مارنے کا بیان

عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آدمی سے اپنی بیوی کو مارنے کے تعلق سے پوچھ تاچھ نہ ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٥١ (١٩٨٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٤٠٧) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (٩١٦٧) ، مسند احمد (١/٢٠) (ضعیف )

【103】

نگاہ نیچی رکھنے کا بیان

جریر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے (اجنبی عورت پر) اچانک نظر پڑجانے کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنی نظر پھیر لو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الآداب ١٠ (٢١٥٩) ، سنن الترمذی/الأدب ٢٨ (٢٧٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٨، ٣٦١) ، سنن الدارمی/الاستئذان ١٥ (٢٦٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اگر قصداً شہوت کی نظر سے اسے دیکھے تو گنہگار ہوگا کیوں کہ اگلی حدیث میں ہے : ” آنکھ کا زنا غیر محرم عورت کا دیکھنا ہے “۔

【104】

نگاہ نیچی رکھنے کا بیان

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے علی (رض) سے کہا : علی ! (اجنبی عورت پر) نگاہ پڑنے کے بعد دوبارہ نگاہ نہ ڈالو کیونکہ پہلی نظر تو تمہارے لیے جائز ہے، دوسری جائز نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٢٨ (٢٧٧٧) ، ( تحفة الأشراف : ٢٠٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٥٩، ٥/٣٥١، ٣٥٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : کیوں کہ پہلی نظر بغیر قصد و اختیار کے پڑی ہے اس لئے اس پر کوئی گناہ نہیں، اور دوسری نظر چونکہ قصداً ہوگی اس لئے اس پر گناہ ہوگا۔

【105】

نگاہ نیچی رکھنے کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت عورت سے بدن نہ چپکائے وہ اپنے شوہر سے اس کے بارے میں اس طرح بیان کرے گویا اس کا شوہر اسے دیکھ رہا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١١٨ (٥٢٤١) ، سنن الترمذی/الأدب ٣٨ (٢٧٩٢) ، ( تحفة الأشراف : ٩٢٥٢) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری/ عشرة النساء (٩٢٣١) ، مسند احمد (١/٣٨٧، ٤٤٠، ٤٤٣، ٤٦٢، ٤٦٤) (صحیح )

【106】

نگاہ نیچی رکھنے کا بیان

جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کو دیکھا تو (اپنی بیوی) زینب بنت حجش (رض) کے پاس آئے اور ان سے اپنی ضرورت پوری کی، پھر صحابہ کرام کے پاس گئے اور ان سے عرض کیا : عورت شیطان کی شکل میں نمودار ہوتی ہے ١ ؎، تو جس کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آئے وہ اپنی بیوی کے پاس آجائے، کیونکہ یہ اس کے دل میں آنے والے احساسات کو ختم کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٢ (١٤٠٣) ، سنن الترمذی/الرضاع ٩ (١١٥٨) ، ( تحفة الأشراف : ٢٩٧٥) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (٩١٢١) ، مسند احمد (٣/٣٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عورت کو شیطان کی شکل میں اس وجہ سے فرمایا کہ جیسے شیطان آدمی کو بہکاتا ہے ویسے بےپردہ عورت بھی بہکاتی ہے۔

【107】

نگاہ نیچی رکھنے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے (قرآن میں وارد لفظ) لمم (چھوٹے گناہ) کے مشابہ ان اعمال سے زیادہ کسی چیز کو نہیں پایا جو ابوہریرہ (رض) سے حدیث میں مذکور ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے زنا کا جتنا حصہ ہر شخص کے لیے لکھ دیا ہے وہ اسے لازمی طور پر پا کر رہے گا، چناچہ آنکھوں کا زنا (غیر محرم کو بنظر شہوت) دیکھنا ہے زبان کا زنا (غیر محرم سے شہوت کی) بات کرنی ہے، (انسان کا) نفس آرزو اور خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ١٢ (٤٢٤٣) ، و القدر ٩ (٢٦١٢) ، صحیح مسلم/القدر ٥ (٢٦٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٧٦) (صحیح )

【108】

نگاہ نیچی رکھنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر انسان کے لیے زنا کا حصہ متعین ہے، ہاتھ زنا کرتے ہیں، ان کا زنا پکڑنا ہے، پیر زنا کرتے ہیں ان کا زنا چلنا ہے، اور منہ زنا کرتا ہے اس کا زنا بوسہ لینا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٢٦٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤٣، ٥٣٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : چوں کہ یہ امور زنا کے ذرائع ہیں، اس لئے تشدیداً انہیں بھی زنا سے تعبیر کیا گیا ہے، گو ان کا گناہ زنا کے گناہ کے برابر نہیں۔

【109】

نگاہ نیچی رکھنے کا بیان

اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے یہ قصہ روایت کرتے ہیں اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا : اور کانوں کا زنا سننا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٢٨٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٧٩) (حسن صحیح )

【110】

کیا جنگ میں پکڑی ہوئی کافر قیدی عورتوں سے جماع جائز ہے

ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ حنین کے دن مقام اوطاس کی طرف ایک لشکر روانہ کیا تو وہ لشکر اپنے دشمنوں سے ملے، ان سے جنگ کی، اور جنگ میں ان پر غالب رہے، اور انہیں قیدی عورتیں ہاتھ لگیں، تو ان کے شوہروں کے مشرک ہونے کی وجہ سے بعض صحابہ کرام نے ان سے جماع کرنے میں حرج جانا، تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں یہ آیت نازل فرمائی : والمحصنات من النساء إلا ما ملکت أيمانکم اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آجائیں (سورۃ النساء : ٢٤) تو وہ ان کے لیے حلال ہیں جب ان کی عدت ختم ہوجائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٩ (١٤٥٦) ، سنن الترمذی/ النکاح ٣٦ (١١٣٢) ، تفسیر سورة النساء (٣٠١٦) ، سنن النسائی/النکاح ٥٩ (٣٣٣٥) ، ( تحفة الأشراف : ٤٤٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٧٢، ٨٤) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٧ (٢٣٤٠) (صحیح )

【111】

کیا جنگ میں پکڑی ہوئی کافر قیدی عورتوں سے جماع جائز ہے

ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی غزوہ میں تھے کہ آپ کی نظر ایک حاملہ عورت پر پڑی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے مالک نے شاید اس سے جماع کیا ہے ، لوگوں نے کہا : ہاں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے ارادہ کیا کہ میں اس پر ایسی لعنت کروں کہ وہ اس کی قبر میں اس کے ساتھ داخل ہوجائے، بھلا کیونکر وہ اپنے لڑکے کو اپنا وارث بنائے گا حالانکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں، وہ کیسے اس سے خدمت لے گا حالانکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٢٣ (١٤٤١) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٩٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٩٥، ٦/٤٤٦) ، سنن الدارمی/السیر ٣٨ (٢٥٢١) (صحیح )

【112】

کیا جنگ میں پکڑی ہوئی کافر قیدی عورتوں سے جماع جائز ہے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ اوطاس کی قیدی عورتوں کے متعلق فرمایا : کسی بھی حاملہ سے وضع حمل سے قبل جماع نہ کیا جائے اسی طرح کسی بھی غیر حاملہ سے جماع نہ کیا جائے، یہاں تک کہ اسے ایک حیض آجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣٩٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٨، ٦٢، ٨٧) (صحیح )

【113】

کیا جنگ میں پکڑی ہوئی کافر قیدی عورتوں سے جماع جائز ہے

حنش صنعانی کہتے ہیں کہ رویفع بن ثابت انصاری ہم میں بحیثیت خطیب کھڑے ہوئے اور کہا : سنو ! میں تم سے وہی کہوں گا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ جنگ حنین کے دن فرما رہے تھے : اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے کسی بھی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کی کھیتی کو سیراب کرے ، (آپ ﷺ کا مطلب حاملہ لونڈی سے جماع کرنا تھا) اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی قیدی لونڈی سے جماع کرے یہاں تک کہ وہ استبراء رحم کرلے، (یعنی یہ جان لے کہ یہ عورت حاملہ نہیں ہے) اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے شخص کے لیے حلال نہیں کہ مال غنیمت کے سامان کو بیچے یہاں تک کہ وہ تقسیم کردیا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٣٤ (١١٣١) ، ( تحفة الأشراف : ٣٦١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٠٨، سنن الدارمی/السیر ٣٧ (٢٥٢٠) ، ویأتی ہذا الحدیث فی الجہاد (حسن )

【114】

کیا جنگ میں پکڑی ہوئی کافر قیدی عورتوں سے جماع جائز ہے

اس سند سے بھی ابن اسحاق سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : یہاں تک کہ وہ ایک حیض کے ذریعہ استبراء رحم کرلے ، اس میں بحيضة کا اضافہ ہے، اور یہ ابومعاویہ کا وہم ہے اور یہ ابوسعید (رض) کی حدیث میں صحیح ہے، اور اس روایت میں یہ بھی اضافہ ہے : اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ مسلمانوں کے مال فیٔ کے جانور پر سواری نہ کرے کہ اسے دبلا کر کے واپس دے ، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ مسلمانوں کے مال فیٔ کا کپڑا نہ پہنے کہ پرانا کر کے لوٹا دے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ حیض کا لفظ محفوظ نہیں ہے یہ ابومعاویہ کا وہم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٣٦١٥) (حسن )

【115】

نکاح کے مختلف مسائل کا بیان

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی جب کسی عورت سے نکاح کرے یا کوئی خادم خریدے تو یہ دعا پڑھے : اللهم إني أسألک خيرها وخير ما جبلتها عليه وأعوذ بک من شرها ومن شر ما جبلتها عليه اے اللہ ! میں تجھ سے اس کی بھلائی اور اس کی جبلت اور اس کی طبیعت کا خواستگار ہوں، جو خیر و بھلائی تو نے ودیعت کی ہے، اس کے شر اور اس کی جبلت اور طبیعت میں تیری طرف سے ودیعت شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور جب کوئی اونٹ خریدے تو اس کے کوہان کی چوٹی پکڑ کر یہی دعا پڑھے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبداللہ سعید نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ پھر اس کی پیشانی پکڑے اور عورت یا خادم میں برکت کی دعا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٧ (١٩١٨) ، ( تحفة الأشراف : ٨٧٩٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الیوم واللیلة (٢٤٠) (حسن )

【116】

نکاح کے مختلف مسائل کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے اور یہ دعا پڑھے : بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اے اللہ ہم کو شیطان سے بچا اور اس مباشرت سے جو اولاد ہو اس کو شیطان کے گزند سے محفوظ رکھ پھر اگر اس مباشرت سے بچہ ہونا قرار پا جائے تو اللہ تعالیٰ اس بچے پر شیطان کا زور نہ چلنے دے گا یا شیطان اسے کبھی نقصان نہ پہنچ اس کے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٨ (١٤١) ، بدء الخلق ١ (٣٢٨٣) ، النکاح ٦٦ (٥١٦١) ، الدعوات ٥٥ (٦٣٨٨) ، التوحید ١٣ (٧٣٩٦) ، صحیح مسلم/النکاح ١٨ (١٤٣٤) ، سنن الترمذی/النکاح ٨ (١٠٩٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٧ (١٩١٩) ، ( تحفة الأشراف : ٦٣٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٧، ٢٢٠، ٢٤٣، ٢٨٣، ٢٨٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٩ (٢٢٥٨) (صحیح )

【117】

نکاح کے مختلف مسائل کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنی بیوی کی دبر (پاخانہ کے مقام) میں صحبت کرے اس پر لعنت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٩ (١٩٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٢٣٧) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (٩٠١٥) ، مسند احمد (٢/٢٧٢، ٣٤٤، ٤٤٤، ٤٧٩) ، سنن الدارمی/الطہارة ١١٤(١١٧٦) (حسن )

【118】

نکاح کے مختلف مسائل کا بیان

محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں نے جابر (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ یہود کہتے تھے کہ اگر آدمی اپنی بیوی کی شرمگاہ میں پیچھے سے صحبت کرے تو لڑکا بھینگا ہوگا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی نساؤكم حرث لکم فأتوا حرثکم أنى شئتم (سورۃ البقرہ : ٢٢٣) تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں تو تم اپنی کھیتیوں میں جدھر سے چاہو آؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة البقرة ٣٩ (٤٥٢٨) ، صحیح مسلم/النکاح ١٩(١٤٣٥) ، ( تحفة الأشراف : ٣٠٢٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/التفسیر ٣ (٢٩٧٨) ، سنن ابن ماجہ/ النکاح ٢٩ (١٩٢٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ١١٣ (١١٧٢) ، النکاح ٣٠ (٢٦٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کھڑے اور بیٹھے ، آگے سے اور پیچھے سے، چت لٹا کر یا کروٹ بشرطیکہ دخول فرج میں ہو نہ کہ دبر میں۔

【119】

نکاح کے مختلف مسائل کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ ابن عمر (رض) کو بخشے ان کو أنى شئتم کے لفظ سے وہم ہوگیا تھا، اصل واقعہ یوں ہے کہ انصار کے اس بت پرست قبیلے کا یہود (جو کہ اہل کتاب ہیں کے) ایک قبیلے کے ساتھ میل جول تھا اور انصار علم میں یہود کو اپنے سے برتر مانتے تھے، اور بہت سے معاملات میں ان کی پیروی کرتے تھے، اہل کتاب کا حال یہ تھا کہ وہ عورتوں سے ایک ہی آسن سے صحبت کرتے تھے، اس میں عورت کے لیے پردہ داری بھی زیادہ رہتی تھی، چناچہ انصار نے بھی یہودیوں سے یہی طریقہ لے لیا اور قریش کے اس قبیلہ کا حال یہ تھا کہ وہ عورتوں کو طرح طرح سے ننگا کردیتے تھے اور آگے سے، پیچھے سے، اور چت لٹا کر ہر طرح سے لطف اندوز ہوتے تھے، مہاجرین کی جب مدینہ میں آمد ہوئی تو ان میں سے ایک شخص نے انصار کی ایک عورت سے شادی کی اور اس کے ساتھ وہی طریقہ اختیار کرنے لگا اس پر عورت نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں تو ایک ہی (مشہور) آسن رائج ہے، لہٰذا یا تو اس طرح کرو، ورنہ مجھ سے دور رہو، جب اس بات کا چرچا ہوا تو رسول اللہ ﷺ کو بھی اس کی خبر لگ گئی چناچہ اللہ عزوجل نے یہ آیت نساؤكم حرث لکم فأتوا حرثکم أنى شئتم نازل فرمائی یعنی آگے سے پیچھے سے، اور چت لٹا کر اس سے مراد لڑکا پیدا ہونے کی جگہ ہے یعنی شرمگاہ میں جماع ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٣٧٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : کیوں کہ کھیتی اس مقام کو کہیں گے جہاں سے ولادت ہوتی ہے نہ کہ دبر کو جو نجاست کی جگہ ہے۔

【120】

حائضہ عورت سے مباشرت کا بیان

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ یہودیوں میں جب کوئی عورت حائضہ ہوجاتی تو اسے گھر سے نکال دیتے نہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے اور نہ ہی اسے گھر میں رکھتے، رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلہ میں دریافت کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی يسألونک عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض لوگ آپ سے حیض کے متعلق سوال کرتے ہیں تو کہہ دیجئیے کہ وہ گندگی ہے لہٰذا تم حیض کی حالت میں عورتوں سے علیحدہ رہو (سورۃ البقرہ : ٢٢٢) ، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : انہیں گھروں میں رکھو اور جماع کے علاوہ ہر کام کرو ، اس پر یہودیوں نے کہا کہ : یہ شخص تو ہمارے ہر کام کی مخالفت کرتا ہے، چناچہ اسید بن حضیر اور عباد بن بشر (رض) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : اللہ کے رسول ! یہودی ایسا ایسا کہہ رہے ہیں، تو کیا ہم (ان کی مخالفت میں) عورتوں سے حالت حیض میں جماع نہ کرنے لگیں ؟ یہ سن کر اللہ کے رسول ﷺ کا چہرہ متغیر ہوگیا، یہاں تک کہ ہمیں اپنے اوپر آپ کی ناراضگی کا گمان ہونے لگا چناچہ دونوں آپ ﷺ کے پاس سے نکل آئے، اسی اثناء میں آپ کے پاس دودھ کا ہدیہ آگیا، تو آپ ﷺ نے انہیں بلوا بھیجا جس سے ہمیں لگا کہ آپ ان سے ناراض نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظرحدیث رقم (٢٥٨) ، ( تحفة الأشراف : ٣٠٨) (صحیح )

【121】

حائضہ عورت سے مباشرت کا بیان

خلاس بن عمرو ہجری کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا : میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں ایک ہی کپڑے میں رات گزارتے اور میں حالت حیض میں ہوتی، اگر کہیں آپ ﷺ کو کچھ لگ جاتا تو صرف اس جگہ کو دھو لیتے اس سے آگے نہ بڑھتے، اور کہیں کپڑے میں لگ جاتا تو صرف اتنی ہی جگہ دھو لیتے، اس سے آگے نہ بڑھتے اور اسی کپڑے میں نماز پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٦٧) (صحیح )

【122】

حائضہ عورت سے مباشرت کا بیان

عبداللہ بن شداد اپنی خالہ میمونہ بنت حارث (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی کسی بیوی سے حالت حیض میں مباشرت کرنے کا ارادہ فرماتے تو اسے تہبند باندھنے کا حکم دیتے پھر اس کے ساتھ لیٹ جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض (٣٠٣) ، صحیح مسلم/الحیض ١ (٢٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٠٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣٥، ٣٣٦) (صحیح )

【123】

اگر حالت حیض میں جماع کر بیٹھے تو اس کا کفارہ کیا دے؟

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس شخص کے بارے میں جو اپنی بیوی سے حالت حیض میں صحبت کر بیٹھتا ہے فرمایا : وہ ایک یا آدھا دینار (بطور کفارہ) صدقہ ادا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظرحدیث رقم : ٢٦٤، ( تحفة الأشراف : ٦٤٩٠) (صحیح )

【124】

اگر حالت حیض میں جماع کر بیٹھے تو اس کا کفارہ کیا دے؟

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اگر دوران خون صحبت کی تو ایک دینار، اور خون بند ہوجانے پر صحبت کی تو آدھا دینار (کفارہ) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٦٥) ، ( تحفة الأشراف : ٦٤٩٨) (صحیح )

【125】

عزل کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے عزل ١ ؎ کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتا ہے ؟ (یہ آپ ﷺ نے نہیں فرمایا کہ وہ ایسا نہ کرے) ، کیونکہ اللہ تعالیٰ جس نفس کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے پیدا کر کے ہی رہے گا ٢ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : قزعہ، زیاد کے غلام ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ والتوحید ١٨ (٧٤٠٩) تعلیقًا، صحیح مسلم/النکاح ٢٢ (١٤٣٨) ، سنن الترمذی/النکاح ٤٠ (١١٣٨) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٠ (١٩٢٦) ، ( تحفة الأشراف : ٤١٤١، ٤٢٨٠) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/النکاح ٥٥ (٣٣٢٩) ، موطا امام مالک/الطلاق ٣٤ (٩٥) ، مسند احمد (٣/٢٢، ٢٦، ٤٧، ٤٩، ٥١، ٥٣، ٥٩، ٦٨) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٦ (٢٢٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عضو تناسل کو عورت کی شرمگاہ سے باہر نکال کر منی گرانے کا نام عزل ہے۔ ٢ ؎ : اس سے مطلقاً عزل کی کراہت ثابت ہوتی ہے اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آزاد عورت سے بغیر اس کے اذن کے مکروہ ہے اور لونڈیوں سے بغیر اذن کے بھی درست ہے۔

【126】

عزل کا بیان

ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! میری ایک لونڈی ہے جس سے میں عزل کرتا ہوں، کیونکہ اس کا حاملہ ہونا مجھے پسند نہیں اور مرد ہونے کے ناطے مجھے شہوت ہوتی ہے، حالانکہ یہود کہتے ہیں کہ عزل زندہ درگور کرنے کی چھوٹی شکل ہے، یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا : یہود جھوٹ کہتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کو پیدا کرنا منظور ہوگا، تو تم اسے پھیر نہیں سکتے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٤٠٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٣، ٥١، ٥٣) (صحیح )

【127】

عزل کا بیان

عبداللہ بن محیریز کہتے ہیں کہ مسجد میں داخل ہوا تو میں نے ابو سعید خدری (رض) کو دیکھا اور ان کے پاس بیٹھ گیا، ان سے عزل کے متعلق سوال کیا، تو آپ نے جواب دیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہم راہ غزوہ بنی مصطلق میں نکلے تو ہمیں کچھ عربی لونڈیاں ہاتھ لگیں، ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور عورتوں سے الگ رہنا ہم پر گراں گزرنے لگا ہم ان لونڈیوں کو فدیہ میں لینا چاہ رہے تھے اس لیے حمل کے ڈر سے ہم ان سے عزل کرنا چاہ رہے تھے، پھر ہم نے اپنے (جی میں) کہا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان موجود ہیں تو آپ سے اس بارے میں پوچھنے سے پہلے ہم عزل کریں (تو یہ کیونکر درست ہوگا) چناچہ ہم نے آپ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ نہ کرو تو تمہارا کیا نقصان ہے ؟ قیامت تک جو جانیں پیدا ہونے والی ہیں وہ تو ہو کر رہیں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٠٩ (٢٢٢٩) ، العتق ١٣ (٢٥٤٢) ، المغازی ٣٢ (٤١٣٨) ، النکاح ٩٦ (٥٢١٠) ، القدیر ٦ (٦٦٠٣) ، التوحید ١٨ (٧٤٠٩) ، صحیح مسلم/النکاح ٢٢ (١٤٣٨) ، ( تحفة الأشراف : ٤١١١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری/العتق (٥٠٤٤) ، مسند احمد (٣/٦٣، ٦٨، ٧٢، ٨٨) (صحیح )

【128】

عزل کا بیان

جابر (رض) کہتے ہیں کہ انصار کا ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ : میری ایک لونڈی ہے جس سے میں صحبت کرتا ہوں اور اس کا حاملہ ہونا مجھے پسند نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : چاہو تو عزل کرلو، جو اس کے مقدر میں ہے وہ تو ہو کر رہے گا ، ایک مدت کے بعد وہ شخص آ کر کہنے لگا، کہ لونڈی حاملہ ہوگئی، آپ ﷺ نے فرمایا کہ : میں نے تو کہا ہی تھا کہ جو اس کے مقدر میں ہے وہ ہو کر رہے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٢٢ (١٤٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٧١٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٠ (٨٩) ، مسند احمد (٣/٣١٢، ٣٨٦) (صحیح )

【129】

دوسروں کے سامنے جماع کا حال بیان کرنا جائز نہیں

ابونضرہ کہتے ہیں : مجھ سے قبیلہ طفاوہ کے ایک شیخ نے بیان کیا کہ مدینہ میں میں ایک بار ابوہریرہ (رض) کا مہمان ہوا میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کسی کو بھی مہمانوں کے معاملے میں ان سے زیادہ چاق و چوبند اور ان کی خاطر مدارات کرنے والا نہیں دیکھا، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ میں ان کے پاس تھا، وہ اپنے تخت پر بیٹھے تھے ان کے ساتھ ایک تھیلی تھی جس میں کنکریاں یا گٹھلیاں تھیں، نیچے ایک کالی کلوٹی لونڈی تھی، آپ (رض) ان کنکریوں پر تسبیح پڑھ رہے تھے، جب (پڑھتے پڑھتے) تھیلی ختم ہوجاتی تو انہیں لونڈی کی طرف ڈال دیتے، اور وہ انہیں دوبارہ تھیلی میں بھر کردیتی ابوہریرہ (رض) کہنے لگے : کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنا ایک واقعہ نہ بتاؤں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور بتائیے، انہوں نے کہا : میں مسجد میں تھا اور بخار میں مبتلا تھا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہوئے اور کہنے لگے : کس نے دوسی جوان (ابوہریرہ) کو دیکھا ہے ؟ یہ جملہ آپ نے تین بار فرمایا، تو ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! وہ یہاں مسجد کے کونے میں ہیں، انہیں بخار ہے، چناچہ آپ ﷺ تشریف لائے اور اپنا دست مبارک میرے اوپر رکھا، اور مجھ سے بھلی بات کی تو میں اٹھ گیا، اور آپ چل کر اسی جگہ واپس آگئے، جہاں نماز پڑھاتے تھے، اور لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے، آپ ﷺ کے ساتھ دو صف مردوں اور ایک صف عورتوں کی تھی یا دو صف عورتوں کی اور ایک صف مردوں کی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر نماز میں شیطان مجھے کچھ بھلا دے تو مرد سبحان اللہ کہیں، اور عورتیں تالی بجائیں ، رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی اور نماز میں کوئی چیز بھولے نہیں اور فرمایا : اپنی جگہوں پر بیٹھے رہو، اپنی جگہوں پر بیٹھے رہو ، پھر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر امابعد کہا اور پہلے مردوں کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا : کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو اپنی بیوی کے پاس آ کر، دروازہ بند کرلیتا ہے اور پردہ ڈال لیتا ہے اور اللہ کے پردے میں چھپ جاتا ہے ؟ ، لوگوں نے جواب دیا : ہاں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے بعد وہ لوگوں میں بیٹھتا ہے اور کہتا ہے : میں نے ایسا کیا میں نے ایسا کیا ، یہ سن کر لوگ خاموش رہے، مردوں کے بعد آپ ﷺ عورتوں کی جانب متوجہ ہوئے اور ان سے بھی پوچھا کہ : کیا کوئی تم میں ایسی ہے، جو ایسی باتیں کرتی ہے ؟ ، تو وہ بھی خاموش رہیں، لیکن ایک نوجوان عورت اپنے ایک گھٹنے کے بل کھڑی ہو کر اونچی ہوگئی تاکہ آپ ﷺ اسے دیکھ سکیں اور اس کی باتیں سن سکیں، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! اس قسم کی گفتگو مرد بھی کرتے ہیں اور عورتیں بھی کرتی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جانتے ہو ایسے شخص کی مثال کیسی ہے ؟ ، پھر خود ہی فرمایا : اس کی مثال اس شیطان عورت کی سی ہے جو گلی میں کسی شیطان مرد سے ملے، اور اس سے اپنی خواہش پوری کرے، اور لوگ اسے دیکھ رہے ہوں۔ خبردار ! مردوں کی خوشبو وہ ہے جس کی بو ظاہر ہو رنگ ظاہر نہ ہو اور خبردار ! عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ظاہر ہو بو ظاہر نہ ہو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے موسیٰ اور مومل کے یہ الفاظ یاد ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : خبردار ! کوئی مرد کسی مرد اور کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ ایک بستر میں نہ لیٹے مگر اپنے باپ یا بیٹے کے ساتھ لیٹا جاسکتا ہے ۔ راوی کا بیان ہے کہ بیٹے اور باپ کے علاوہ ایک تیسرے آدمی کا بھی ذکر آپ ﷺ نے کیا جو میں بھول گیا وہ مسدد والی روایت میں ہے، لیکن جیسا یاد رہنا چاہیئے وہ مجھے یاد نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٣٦ (٢٧٨٧) ، سنن النسائی/الزینة ٣٢ (٥١٢٠، ٥١٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٨٦) ویأتی ہذا الحدیث فی الحمام (٤٠١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٤١) (حسن لغیرہ) (اس کا ایک راوی شیخ طفاوة مبہم ہے، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح الترغیب ٤٠٢٤ )