25. نکاح سے متعلقہ احادیث

【1】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح سے متعلق فرمان اور ازواج مطہرات اور ان چیزوں کے بارے میں جو کہ اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حلال فرمائی لیکن لوگوں کے واسطے حلال نہیں کیا تاکہ یہ بات ظاہر ہو کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساری مخلوق پر بزرگی و فضیلت ہے۔

عطا کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن عباس (رض) کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے جنازے میں گئے، تو آپ نے کہا : یہ میمونہ رضی اللہ عنہا ہیں، تم ان کا جنازہ نہایت سہولت کے ساتھ اٹھانا، اسے ہلانا نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے پاس نو بیویاں تھیں۔ آپ ان میں سے آٹھ کے لیے باری مقرر کرتے تھے، اور ایک کے لیے نہیں کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٤ (٥٠٦٧) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٤ (١٤٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٩١٤) ، مسند احمد (١/٢٣١، ٣٤٨، ٣٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جن کے لیے باری مقرر نہیں کرتے تھے وہ سودہ رضی الله عنہا ہیں انہوں نے اپنی باری عائشہ رضی الله عنہا کو ہبہ کردی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3196

【2】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح سے متعلق فرمان اور ازواج مطہرات اور ان چیزوں کے بارے میں جو کہ اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حلال فرمائی لیکن لوگوں کے واسطے حلال نہیں کیا تاکہ یہ بات ظاہر ہو کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساری مخلوق پر بزرگی و فضیلت ہے۔

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اس حال میں کہ آپ کے پاس نو بیویاں تھیں، آپ ان کے پاس ان کی باری کے موافق جایا کرتے تھے سوائے سودہ کے کیونکہ انہوں نے اپنا دن اور رات عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے وقف کردیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٩٥٠) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3197

【3】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح سے متعلق فرمان اور ازواج مطہرات اور ان چیزوں کے بارے میں جو کہ اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حلال فرمائی لیکن لوگوں کے واسطے حلال نہیں کیا تاکہ یہ بات ظاہر ہو کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساری مخلوق پر بزرگی و فضیلت ہے۔

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی نو بیویاں تھیں، آپ ﷺ ان کے پاس ایک ہی رات میں جایا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ١٢ (٢٦٨) ، ٣٤ (٢٨٤) ، وانکاح ٤ (٥٠٦٨) ، ١٠٢ (٥٢١٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٩) ، سنن ابی داود/الطہارة ٨٥ (٢١٨) ، سنن الترمذی/الطہارة ١٠٦ (١٤٠) (کلہم کلہم إلی قولہ : غسل واحد) سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٠١ (٥٨٩) ، مسند احمد ٣/٩٩، ١٨٥، ٢٢٥، ٢٣٩ (کلہم إلی قولہ : غسل واحد وأحمد فی ٣/١٦٠، ١٦٦، ٢٥٢) بلفظ ” فی یوم واحد “ سنن الدارمی/الطہارة ٧٠ (٧٥٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ اس وقت کی بات ہے جب تقسیم واجب نہیں ہوئی تھی یا ایسا اس وقت ہوتا تھا جب آپ سفر سے واپس ہوتے، یہ بھی ممکن ہے کہ تقسیم کا دور ختم ہونے کے بعد دوسرا دور شروع ہونے سے قبل ایسا کرتے رہے ہوں یا جن کے یہاں باری رہتی تھی ان کی اجازت سے ایسا ہوتا رہا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3198

【4】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح سے متعلق فرمان اور ازواج مطہرات اور ان چیزوں کے بارے میں جو کہ اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حلال فرمائی لیکن لوگوں کے واسطے حلال نہیں کیا تاکہ یہ بات ظاہر ہو کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساری مخلوق پر بزرگی و فضیلت ہے۔

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں ان عورتوں سے شرم کرتی تھی ١ ؎ جو اپنی جان نبی اکرم ﷺ کو ہبہ کردیتی تھیں چناچہ میں کہتی تھی : کیا آزاد عورت اپنی جان (مفت میں) ہبہ کردیتی ہے ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء‏ ان میں سے جسے تو چاہے دور رکھ دے، اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے (الاحزاب : ٥١) اس وقت میں نے کہا : اللہ کی قسم ! آپ کا رب آپ کی خواہش کو جلد پورا کرتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیرسورة الأحزاب ٧ (٤٧٨٨) ، النکاح ٢٩ (٥١١٣) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٤ (١٤٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٩٩) ، مسند احمد (٦/١٥٨) ، ١٣٤، ٢٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان کیلئے باعث عیب سمجھتی تھی کہ وہ اپنے آپ کو ہبہ کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3199

【5】

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح سے متعلق فرمان اور ازواج مطہرات اور ان چیزوں کے بارے میں جو کہ اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حلال فرمائی لیکن لوگوں کے واسطے حلال نہیں کیا تاکہ یہ بات ظاہر ہو کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساری مخلوق پر بزرگی و فضیلت ہے۔

سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں قوم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک عورت نے کہا : اللہ کے رسول ! میں آپ کے لیے اپنے آپ کو ہبہ کرتی ہوں، میرے متعلق آپ کی جیسی رائے ہو کریں، تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا (اللہ کے رسول ! ) اس عورت سے میرا نکاح کرا دیجئیے۔ آپ نے فرمایا : جاؤ (بطور مہر) کوئی چیز ڈھونڈھ کرلے آؤ اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو ، تو وہ گیا لیکن کوئی چیز نہ پایا حتیٰ کہ (معمولی چیز) لوہے کی انگوٹھی بھی اسے نہ ملی، آپ ﷺ نے کہا : کیا تمہیں قرآن کی سورتوں میں سے کچھ یا د ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے اس کا نکاح اس عورت سے قرآن کی ان سورتوں کے عوض کرا دی جو اسے یاد تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ٩ (٢٣١٠) ، فضائل القرآن ٢١ (٥٠٢٩) ، ٢٢ (٥٠٣٠) ، النکاح ١٤ (٥٠٨٧) ، ٣٢ (٥١٢١) ، ٣٥ (٥١٢٦) ، ٣٧ (٥١٣٢) ، ٤٠ (٥١٣٥) ، ٤٤ (٥١٤١) ، ٥٠ (٥١٤٩) ، ٥١ (٥١٥٠) ، اللباس ٤٩ (٥٨٧١) ، صحیح مسلم/النکاح ١٣ (١٤٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٨٩) ، سنن ابی داود/النکاح ٣١ (٢١١١) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٣ (١١١٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٧ (١٨٨٩) ، موطا امام مالک/النکاح ٣ (٨) ، مسند احمد ٥/٣٣٠، ویأتی عند المؤلف برقم : ٣٢٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3200

【6】

جو کام خداوند قدوس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام بلند فرمانے کے واسطے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرض فرمائے اور عام لوگوں کے واسطے حرام فرمائے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ آپ اپنی ازواج کو (دو بات میں سے ایک کو اپنا لینے کا) اختیار دیں۔ اس کی ابتداء رسول اللہ ﷺ نے (سب سے پہلے) میرے پاس آ کر کی۔ آپ نے فرمایا : میں تم سے ایک بات کا ذکر کرتا ہوں لیکن جب تک تم اپنے والدین سے مشورہ نہ کرلو جواب دینے میں جلدی نہ کرنا ۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : حالانکہ آپ کو معلوم تھا کہ میرے والدین آپ ﷺ سے علیحدگی اختیار کرلینے کا مشورہ اور حکم (کبھی بھی) نہ دیں گے۔ پھر آپ نے فرمایا : (یعنی یہ آیت پڑھی ) يا أيها النبي قل لأزواجک إن کنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين أمتعکن اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیاوی زندگی، دنیاوی زیب و زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں، اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں (الاحزاب : ٢٨) میں نے کہا : اس سلسلہ میں اپنے والدین سے مشورہ کروں ؟ (مجھے کسی مشورہ کی ضرورت نہیں) کیونکہ میں اللہ کو، اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر (جنت) کو چاہتی ہوں (یہی میرا فیصلہ ہے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیرالأحزاب ٤ (٤٧٨٥) ، ٥ (٤٧٨٦) تعلیقًا، صحیح مسلم/الطلاق ٤ (١٤٧٥) ، سنن الترمذی/تفسیرالأحزاب (٣٢٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٠ (٢٠٥٣) ، مسند احمد (٦/٧٨، ١٠٣، ١٥٢، ٢١١) ، سنن الدارمی/الطلاق ٥ (٢٢٧٤) ، ویأتی عند المؤلف فی الطلاق ٢٦ (برقم ٣٤٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مگر کسی نے آپ سے علیحدگی قبول نہ کی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3201

【7】

جو کام خداوند قدوس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام بلند فرمانے کے واسطے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرض فرمائے اور عام لوگوں کے واسطے حرام فرمائے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا۔ کیا وہ طلاق تھا ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٥ (٥٢٦٢) ، صحیح مسلم/الطلاق ٤ (١٤٧٧) ، سنن ابی داود/الطلاق ١٢ (٢٢٠٣) ، سنن الترمذی/الطلاق ٤ (١١٧٩ م) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٢ (٢٠٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٤) ، مسند احمد (٦/٤٥، ٤٧، ١٧٣، ٢٣٩، ٢٤٠، ٢٦٤، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣٤٧٤، ٣٤٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نہیں، طلاق نہیں تھا گویا بیوی جب شوہر کو اختیار کرلے تو تخییر طلاق نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3202

【8】

جو کام خداوند قدوس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام بلند فرمانے کے واسطے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرض فرمائے اور عام لوگوں کے واسطے حرام فرمائے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں (انتخاب کا) اختیار دیا، تو ہم سب نے آپ ﷺ کو چن لیا تو یہ (اختیار) طلاق نہیں تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٥ (٥٢٦٣) ، صحیح مسلم/الطلاق ٤ (١٤٧٦) ، سنن الترمذی/الطلاق ٤ (١١٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦١٤) ، مسند احمد (٦/٩٧، ٢٠٢، ٢٠٥، سنن الدارمی/الطلاق ٥ (٢٣١٥) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣٤٧١، ٣٤٧٢، ٣٤٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3203

【9】

جو کام خداوند قدوس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام بلند فرمانے کے واسطے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرض فرمائے اور عام لوگوں کے واسطے حرام فرمائے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب تک رسول اللہ ﷺ باحیات تھے عورتیں آپ کے لیے حلال تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر سورة الأحزاب (٣٢١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٨٩، (حم (٦/٤١، ٢٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جن سے چاہتے شادی کرسکتے تھے آپ کے لیے تعداد متعین نہیں تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3204

【10】

جو کام خداوند قدوس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام بلند فرمانے کے واسطے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرض فرمائے اور عام لوگوں کے واسطے حرام فرمائے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ آپ کی وفات نہ ہوئی جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال نہ کردیا کہ آپ جتنی عورتوں سے چاہیں نکاح کرلیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٦٣٢٨) ، مسند احمد (٦/١٨٠، سنن الدارمی/النکاح ٤٤ (٢٢٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پہلے یہ آیت نازل ہوئی لا يحل لک النسآئ من بعد مگر یہ حکم بعد میں انا أحللنا لك أزواجک والی آیت سے منسوخ ہوگئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3205

【11】

نکاح کی ترغیب سے متعلق

علقمہ کہتے ہیں کہ میں ابن مسعود (رض) کے ساتھ تھا اور وہ عثمان (رض) عنہ کے پاس تھے تو عثمان (رض) عنہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نوجوانوں (کی ایک ٹولی) کے پاس پہنچے اور (ان سے) کہا : جو تم میں مالدار ہو ١ ؎ تو اسے چاہیئے کہ وہ شادی کرلے کیونکہ اس سے نگاہ نیچی رکھنے میں زیادہ مدد ملتی ہے ٢ ؎، اور نکاح کرلینے سے شرمگاہ کی زیادہ حفاظت ہوتی ہے ٣ ؎، اور جو مالدار نہ ہو بیوی کے کھانے پینے کا خرچہ نہ اٹھا سکتا ہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ اس کے لیے روزہ شہوت کا توڑ ہے ٤ ؎، (اس حدیث میں فتی ۃ کا لفظ آیا ہے، اس کے متعلق) ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : اس کا مفہوم جیسا میں سمجھنا چاہتا تھا سمجھ نہ سکا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٤٥ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مہر اور نان و نفقہ دینے کی طاقت رکھتا ہو۔ ٢ ؎: یعنی پرائی عورت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے کی حاجت نہیں رہتی۔ ٣ ؎: زنا و بدکاری میں مبتلا ہونے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ ٤ ؎: اس سے شہوانیت دبتی اور کمزور ہوجاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3206

【12】

نکاح کی ترغیب سے متعلق

علقمہ سے روایت ہے کہ عثمان (رض) عنہ نے ابن مسعود (رض) سے کہا : اگر تمہیں کسی نوجوان عورت سے شادی کی خواہش ہو تو میں تمہاری اس سے شادی کرا دوں ؟ تو عبداللہ بن مسعود (رض) نے علقمہ کو بلایا (اور ان کی موجودگی میں) حدیث بیان کی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص بیوی کو نان و نفقہ دے سکتا ہو اسے شادی کر لینی چاہیئے۔ کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو محفوظ کرنے کا ذریعہ ہے اور جو شخص نان و نفقہ دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے روزے رکھنا چاہیئے کیونکہ وہ اس کا توڑ ہے (اس سے نفس کمزور ہوتا ہے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٤١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گویا ابن مسعود رضی الله عنہ نے آپ کی اس پیشکش کا شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی شادی پر ابھارا ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے مگر وہ نوجوانوں کے لیے ہے، اور مجھے اب شادی کی خواہش نہ رہی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3207

【13】

نکاح کی ترغیب سے متعلق

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم (نوجوانوں) سے فرمایا : جو شخص بیوی کے نان و نفقہ کی طاقت رکھتا ہوا سے شادی کر لینی چاہیئے اور جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے روزے رکھنا چاہیئے، کیونکہ وہ اس کے لیے توڑ ہے، یعنی روزہ آدمی کی شہوت کو دبا اور کچل دیتا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : اس حدیث میں اسود راوی کا ذکر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3208

【14】

نکاح کی ترغیب سے متعلق

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم نوجوانوں سے کہا : اے نوجوانو ! تم میں سے جو بیوی کے نان و نفقہ کا بار اٹھا سکتا ہو، اسے شادی کر لینی چاہیئے، کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچی اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اور جو نکاح کی ذمہ داریاں نہ نبھا سکتا ہو تو اسے روزے رکھنا چاہیئے۔ کیونکہ روزہ اس کے لیے شہوت کا توڑ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3209

【15】

نکاح کی ترغیب سے متعلق

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم نوجوانوں سے فرمایا : اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھے اسے شادی کر لینی چاہیئے ، اور (اس سے آگے) اوپر گزری ہوئی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3210

【16】

نکاح کی ترغیب سے متعلق

علقمہ کہتے ہیں کہ میں منی میں عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ جا رہا تھا کہ ان سے عثمان (رض) عنہ کی ملاقات ہوگئی تو وہ ان سے کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔ اور کہا : ابوعبدالرحمٰن ! کیا میں آپ کی شادی ایک نوجوان لڑکی سے نہ کرا دوں ؟ توقع ہے وہ آپ کو آپ کے ماضی کی بہت سی باتیں یاد دلا دے گی، تو عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : آپ مجھ سے یہ بات آج کہہ رہے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ یہ بات ہم سے بہت پہلے اس طرح کہہ چکے ہیں : اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو بیوی کے نان و نفقہ ادا کرنے کی طاقت رکھے تو اس کو نکاح کرلینا چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3211

【17】

ترک نکاح کی ممانعت

سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون (رض) کو مجرد (غیر شادی شدہ) رہ کر زندگی گزارنے سے منع فرمایا، اور اگر آپ انہیں اس کی اجازت دیتے تو ہم خصی ہوجاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٨ (٥٠٧٣) ، صحیح مسلم/النکاح ١ (١٤٠٢) ، سنن الترمذی/النکاح ٢ (١٠٨٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢ (١٨٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٥٦) ، مسند احمد (١/١٧٥، ١٧٦، ١٨٣) ، سنن الدارمی/النکاح ٣ (٢٢١٣، ٥٠٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نکاح و شادی بیاہ کے مراسم سے علاحدہ ہو کر صرف عبادت الٰہی میں مشغول رہتے، اور ہم اپنے آپ کو ایسا کرلیتے کہ ہمیں عورتوں کی خواہش ہی نہ رہ جاتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3212

【18】

ترک نکاح کی ممانعت

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجرد (غیر شادی شدہ) رہ کر زندگی گزارنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٢١٦، ١٦١٠٠) ، مسند احمد (٦/١٢٥، ١٥٧، ٢٥٣) ، سنن الدارمی/النکاح ٣ (٢٢١٤) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٣٢١٨) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3213

【19】

ترک نکاح کی ممانعت

سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجرد (غیر شادی شدہ) رہ کر زندگی گزارنے سے منع فرمایا۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : قتادہ اشعث سے زیادہ ثقہ اور مضبوط حافظہ والے تھے لیکن اشعث کی حدیث صحت سے زیادہ قریب لگتی ہے ١ ؎ واللہ أعلم۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٢ (١٠٨٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢ (١٨٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٩٠) ، مسند احمد (٥/١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وجہ اس کی یہ ہے کہ اشعث کی روایت میں حسن اور ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے درمیان ایک واسطہ سعد بن ہشام کا ہے جب کہ قتادہ کی روایت میں حسن اور صحابی رسول سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کے درمیان کوئی دوسرا واسطہ نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3214

【20】

ترک نکاح کی ممانعت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں جوان آدمی ہوں اور اپنے بارے میں ہلاکت میں پڑجانے سے ڈرتا ہوں، اور عورتوں سے شادی کرلینے کی استطاعت بھی نہیں رکھتا، تو کیا میں خصی ہوجاؤں ؟ نبی اکرم ﷺ ان کی طرف متوجہ نہ ہوئے انہوں نے اپنی یہی بات تین بار کہی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ابوہریرہ ! جس سے تم کو دوچار ہونا ہے اس سے تو تم دوچار ہو کر رہو گے اسے لکھ کر قلم (بہت پہلے) خشک ہوچکا ہے، اب چاہو تو تم خصی ہوجاؤ یا نہ ہو ١ ؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : اوزاعی نے (ابن شہاب) زہری سے اس حدیث کو نہیں سنا ہے، لیکن یہ حدیث اپنی جگہ صحیح ہے کیونکہ اس حدیث کو یونس نے (ابن شہاب) زہری سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٢٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جو کچھ تمہاری قسمت میں لکھا جا چکا ہے اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہونی ہے لہٰذا تمہاری قسمت میں اگر اولاد لکھی جا چکی ہے تو ضرور ہوگی اب سوچ لو کہ خصی ہونے سے کیا فائدہ ہوگا ؟ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3215

【21】

ترک نکاح کی ممانعت

سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہا : میں مجرد (غیر شادی شدہ) رہنے کے سلسلے میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں تو انہوں نے کہا : ایسا ہرگز نہ کرنا، کیا تم نے نہیں سنا ہے ؟ اللہ عزوجل فرماتا ہے : ولقد أرسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لهم أزواجا وذرية ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا (الرعد : ٣٨) تو (اے سعد ! ) تم تبتل (اور رہبانیت) اختیار نہ کرو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢١٥ (صحیح) (اگر حسن بصری نے اس کو سعدبن ہشام سے سنا ہے تو یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: آیت میں أَزْوَاجًا سے رہبانیت اور ذُرِّيَّةًً سے خاندانی منصوبہ بندی کی تر دید ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح إن کان الحسن سمعه من سعد موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3216

【22】

ترک نکاح کی ممانعت

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت میں سے بعض نے کہا : میں نکاح (شادی بیاہ) نہیں کروں گا، بعض نے کہا : میں گوشت نہ کھاؤں گا، بعض نے کہا : میں بستر پر نہ سوؤں گا، بعض نے کہا : میں مسلسل روزے رکھوں گا، کھاؤں پیوں گا نہیں، یہ خبر رسول ﷺ کو پہنچی تو آپ نے (لوگوں کے سامنے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا : لوگوں کو کیا ہوگیا ہے، جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ (مجھے دیکھو) میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزہ رکھتا ہوں اور کھاتا پیتا بھی ہوں، اور عورتوں سے شادیاں بھی کرتا ہوں۔ (سن لو) جو شخص میری سنت سے اعراض کرے (میرے طریقے پر نہ چلے) سمجھ لو وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١ (٥٠٦٣) ، صحیح مسلم/النکاح ١ (١٤٠١) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٤) ، مسند احمد (٣/٢٤١، ٢٥٩، ٢٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3217

【23】

جو کوئی گناہ سے محفوظ رہنے کے واسطے نکاح کرتا ہے تو خداوند قدوس اس کی مدد فرماتے ہیں

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین (طرح کے لوگ) ہیں جن کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم و ضروری کرلیا ہے : (ایک) وہ مکاتب ١ ؎ جو مقررہ رقم ادا کر کے آزادی حاصل کرلینے کے لیے کوشاں ہو۔ (دوسرا) ایسا نکاح کرنے والا جو شادی کر کے عفت و پاکدامنی کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہو (تیسرا) وہ مجاہد جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے نکلا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٢٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مکاتب ایسا غلام ہے جو اپنی ذات کی آزادی کی خاطر مالک کیلئے کچھ قیمت متعین کر دے، قیمت کی ادائیگی کے بعد وہ آزاد ہوجائے گا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3218

【24】

کنواری لڑکیوں سے نکاح سے متعلق احادیث رسول ﷺ

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نکاح کیا، اور (اور بیوی کے ساتھ پہلی رات گزارنے کے بعد) نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے کہا : جابر ! کیا تم نے نکاح کیا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں ! آپ نے کہا : کنواری سے (شادی کی ہے) یا بیوہ سے ؟ میں نے کہا : بیوہ سے ، آپ نے فرمایا : کنواری سے کیوں نہ کی کہ تم اس سے کھیلتے وہ تم سے کھیلتی ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٤٣ (٢٠٩٧) ، الوکالة ٨ (٢٣٠٩) ، الجہاد ١١٣ (٢٩٦٧) ، المغازي ١٨ (٤٠٥٢) ، النکاح ١٠ (٥٠٧٩) ، ١٢١ (٥٢٤٥) ، ١٢٢ (٥٢٤٧) ، النفقات ١٢ (٥٣٦٧) ، الدعوات ٥٣ (٦٣٨٧) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٦ (٧١٥) ، سنن الترمذی/النکاح ١٣ (١١٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٥١٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/النکاح ٣ (٢٠٤٨) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٧ (١٨٦٠) ، مسند احمد (٣/٢٩٤، ٣٠٢، ٣١٤، ٣٦٢، ٣٧٤، ٣٧٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٢ (٢٢٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3219

【25】

کنواری لڑکیوں سے نکاح سے متعلق احادیث رسول ﷺ

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی مجھ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا : جابر ! کیا تم مجھ سے اس سے پہلے ملنے کے بعد بیوی والے ہوگئے ہو ؟ میں نے کہا : جی ہاں اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : کیا کسی کنواری سے یا بیوہ سے ؟ میں نے کہا : بیوہ سے، آپ نے فرمایا : کنواری سے شادی کیوں نہ کہ جو تمہیں کھیل کھلاتی ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٤٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3220

【26】

کنواری لڑکیوں سے نکاح سے متعلق احادیث رسول ﷺ

بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر اور عمر (رض) نے (نبی اکرم ﷺ کو) فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے لیے پیغام دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ چھوٹی ہے ، پھر علی (رض) نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اپنے لیے نکاح کا پیغام دیا تو آپ نے ان کا نکاح علی (رض) سے کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩٧٢) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب العمر تھے جب کہ ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما کی عمر فاطمہ رضی الله عنہا کی بنسبت کہیں زیادہ تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3221

【27】

غلام کا آزاد عورت سے نکاح

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ مروان کے دور حکومت میں ایک نوجوان شخص عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے سعید بن زید کی بیٹی (جن کی ماں بنت قیس ہیں) کو طلاق بتہ دے دی ١ ؎، تو اس کی خالہ فاطمہ بنت قیس نے اسے یہ حکم دے کر کہلا بھیجا کہ تم عبداللہ بن عمرو کے گھر سے منتقل ہوجاؤ، یہ بات مروان نے سنی (کہ سعید کی بیٹی عبداللہ بن عمرو کے گھر سے چلی گئی ہے) ۔ تو اسے یہ حکم دے کر کہلا بھیجا کہ تم اپنے اس گھر کو واپس چلی جاؤ (جہاں سے نکل کر آئی ہو) اور اس سے وجہ بھی پوچھی کہ تم اپنے گھر میں عدت کے ایام پورا کئے بغیر وہاں سے نکل کیسے آئی ؟ تو اس نے انہیں (یعنی مروان کو) کہلا بھیجا کہ میں اپنی خالہ کے کہنے سے نکل آئی تھی۔ تو (اس کی خالہ) فاطمہ بنت قیس نے (اپنا پیش آمدہ واقعہ) بیان کیا کہ وہ ابوعمرو بن حفص کے نکاح میں تھیں، جب رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابوطالب (رض) کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا، تو وہ بھی ان کے ساتھ گئے اور (وہاں سے) انہوں نے ان کو (تین طلاقوں میں سے) باقی بچی ہوئی طلاق دے کر کہلا بھیجا کہ حارث بن ہشام اور عیاش بن ربیعہ سے اپنا نفقہ لے لیں۔ کہتی ہیں : تو انہوں نے حارث اور عیاش سے پچھوا بھیجا کہ ان کے لیے ان کے شوہر نے ان دونوں کو کیا حکم دیا ہے۔ ان دونوں نے کہا : قسم اللہ کی ! ان کے لیے ہمارے پاس کوئی نفقہ (خرچ) نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے گھر میں ہماری اجازت کے بغیر ان کا رہنا درست ہے۔ ہاں اگر وہ حاملہ ہوں (تو انہیں وضع حمل تک نفقہ و سکنی ملے گا) وہ (یعنی فاطمہ بنت قیس) کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور آپ سے ان سب باتوں کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ دونوں سچ کہتے ہیں ، فاطمہ نے کہا : اللہ کے رسول ! پھر میں کہاں چلی جاؤں ؟ آپ نے فرمایا : تم ابن ام مکتوم کے یہاں چلی جاؤ جو ایک نابینا شخص ہیں اور جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن پاک) میں کیا ہے ۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : تو میں نے ان کے یہاں جا کر عدت پوری کی۔ وہ ایسے آدمی تھے جن کی آنکھیں چلی گئی تھیں، میں ان کے یہاں اپنے کپڑے اتار دیتی تھی، پھر (وہ وقت آیا کہ) رسول اللہ ﷺ نے ان کی شادی اسامہ بن زید (رض) سے کرا دی ٢ ؎، ان کی اس بات کو مروان نے قبول نہیں کیا اور کہا : میں نے تم سے پہلے ایسی بات کسی سے نہیں سنی ہے۔ میں تو وہی فیصلہ نافذ رکھوں گا جس پر لوگوں کو عمل کرتا ہوا پایا ہے۔ (یہ حدیث) مختصر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٠) ، سنن ابی داود/الطلاق ٣٩ (٢٢٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٣١) ، مسند احمد (٦/٤١٤- ٤١٥، سنن الدارمی/النکاح ویأتي عند المؤلف برقم : ٣٥٨٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: طلاق بتہ ایسی طلاق ہے جس میں عورت کا شوہر سے کوئی علاقہ وتعلق باقی نہ رہ جائے۔ ٢ ؎: حدیث کا مقصود یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فاطمہ بنت قیس کا نکاح اسامہ بن زید رضی الله عنہما سے کردیا، باوجودیکہ وہ غلام زادے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3222

【28】

غلام کا آزاد عورت سے نکاح

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس ان صحابہ میں سے تھے جو جنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے ایک انصاری عورت کے غلام سالم کو اپنا بیٹا بنا لیا، اور ان کی شادی اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس سے کردی۔ جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے زید کو اپنا منہ بولا بیٹا قرار دے لیا تھا، اور زمانہ جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ متبنی کرنے والے کو اس لڑکے کا باپ کہا کرتے تھے اور وہ لڑکا اس کی میراث پاتا تھا اور یہ دستور اس وقت تک چلتا رہا جب تک اللہ پاک نے یہ آیت : ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند اللہ فإن لم تعلموا آباء هم فإخوانکم في الدين ومواليكم‏ لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ، اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے، پھر اگر تمہیں ان کے حقیقی باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں (الاحزاب : ٥) نازل نہ کی، پس جس کا باپ معلوم نہ ہو وہ دینی بھائی اور دوست ہے، (یہ حدیث) مختصر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٥ (٥٠٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٦٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/النکاح ١٠ (٢٠٦١) ، موطا امام مالک/الرضاع ٢ (١٢) ، مسند احمد (٦/٢٠١، ٢٧١) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٢ (٢٣٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3223

【29】

غلام کا آزاد عورت سے نکاح

امہات المؤمنین عائشہ اور ام سلمہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس ان لوگوں میں سے تھے جو جنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھے، انہوں نے ایک انصاری عورت کے غلام سالم کو اپنا لے پالک بنا لیا تھا۔ جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے زید بن حارثہ (رض) کو اپنا لے پالک بنایا تھا۔ ابوحذیفہ بن عتبہ نے سالم کا نکاح اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے کردیا تھا اور یہ ہند بنت ولید بن عتبہ شروع شروع کی مہاجرہ عورتوں میں سے تھیں، وہ قریش کی بیوہ عورتوں میں اس وقت سب سے افضل و برتر عورت تھیں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے زید بن حارثہ (غلام) کے تعلق سے آیت : ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند اللہ لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ، اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے نازل فرمائی تو ہر ایک لے پالک اپنے اصل باپ کے نام سے پکارا جانے لگا، اور جن کے باپ نہ جانے جاتے انہیں ان کے آقاؤں کی طرف منسوب کر کے پکارتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٦٦٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3224

【30】

حسب سے متعلق فرمان نبوی ﷺ

بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا داروں کا حسب ١ ؎ جس کی طرف وہ دوڑتے (اور لپکتے) ہیں مال ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩٧٠) ، مسند احمد (٥/٣٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حسب ایک خاندانی عزت و وجاہت اور اعلیٰ اخلاق و کردار ہے جو گھر اور خاندان میں نسلا بعد نسل چلا آ رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3225

【31】

عورت سے کس وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے۔

جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی پھر ان سے نبی اکرم ﷺ کی ملاقات ہوگئی تو آپ نے پوچھا : جابر ! کیا تم نے شادی کی ہے ؟ جابر کہتے ہیں کہ میں نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : کنواری سے یا بیوہ سے ؟ ١ ؎ میں نے کہا : بیوہ سے، آپ نے فرمایا : کنواری سے کیوں نہ کی ؟ جو تجھے (جوانی کے) کھیل کھلاتی ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میری چند بہنیں میرے ساتھ ہیں، مجھے (کنواری نکاح کر کے لانے میں) خوف ہوا کہ وہ کہیں میری اور ان کی محبت میں رکاوٹ (اور دوری کا باعث) نہ بن جائے۔ آپ نے فرمایا : پھر تو تم نے ٹھیک کیا، عورت سے شادی اس کا دین دیکھ کر، اس کا مال دیکھ کر اور اس کی خوبصورتی دیکھ کر کی جاتی ہے۔ تو تم کو دیندار عورت کو ترجیح دینی چاہیئے۔ تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ١٥ (٧١٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٧ (١٨٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٣٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/النکاح ٤ (١٠٨٦) ، مسند احمد (٣/٣٠٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٢ (٢٢١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جس کا نکاح پہلے کسی سے ہوچکا تھا پھر اس کی طلاق ہوگئی یا شوہر کا انتقال ہوگیا ہو۔ ٢ ؎: یعنی اگر ایسا نہ کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3226

【32】

عورت سے کس وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے۔

معقل بن یسار رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا کہ مجھے ایک عورت ملی ہے جو حسب اور مرتبہ والی ہے لیکن اس سے بچے نہیں ہوتے ١ ؎، کیا میں اس سے شادی کرلوں ؟ آپ نے اسے (اس سے شادی کرنے سے) منع فرما دیا۔ پھر دوبارہ آپ کے پاس پوچھنے آیا تو آپ نے پھر اسے روکا۔ پھر تیسری مرتبہ پوچھنے آیا، پھر بھی آپ نے منع کیا، پھر آپ نے فرمایا : زیادہ بچے جننے والی، اور زیادہ محبت کرنے والی عورت سے شادی کرو ٢ ؎ کیونکہ میں تمہارے ذریعہ کثرت تعداد میں (دیگر اقوام پر) غالب آنا چاہتا ہوں ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٤ (٢٠٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٧٧) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: انہیں اس کا علم بایں طور ہوا ہوگا کہ اسے یا تو حیض نہیں آتا تھا یا جس شوہر کے پاس تھی وہاں اس سے کوئی بچہ ہی پیدا نہیں ہوا۔ ٢ ؎: زیادہ بچہ جننے والی اور شوہر سے زیادہ محبت کرنے والی عورت کا اندازہ اس کی ماں، اور ماں کی ماں کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ اور یہ چیز جانوروں میں بھی دیکھی جاتی ہے۔ ٣ ؎: یعنی قیامت کے دن تعداد امت میں دیگر انبیاء سے بڑھ جانا چاہتا ہوں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3227

【33】

زانیہ سے نکاح

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مرثد بن ابی مرثد غنوی (رض) ایک سخت اور زور آور آدمی تھے، قیدیوں کو مکہ سے مدینہ منتقل کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں : میں نے ایک شخص کو بلایا کہ اسے سواری پر ساتھ لیتا جاؤں، مکہ میں عناق نامی ایک بدکار عورت تھی جو ان کی آشنا تھی، وہ (گھر سے باہر) نکلی، دیوار کی پرچھائیوں میں میرے وجود کو (یعنی مجھے) دیکھا، بولی کون ہے ؟ مرثد ! خوش آمدید اپنوں میں آگئے، مرثد ! آج رات چلو ہمارے ڈیرے پر ہمارے پاس رات کو سوؤ، میں نے کہا : عناق ! رسول اللہ ﷺ نے زنا کو حرام قرار دے دیا ہے، اس نے کہا : خیمہ والو ! یہ دلدل ہے ١ ؎ یہ وہ (پرندہ) ہے جو تمہارے قیدیوں کو مکہ سے مدینہ اٹھا لے جائے گا (یہ سن کر) میں خندمہ (پہاڑ) کی طرف بڑھا (مجھے پکڑنے کے لیے) میری طلب و تلاش میں آٹھ آدمی نکلے اور میرے سر پر آ کھڑے ہوئے، انہوں نے وہاں پیشاب کیا جس کے چھینٹے مجھ پر پڑے (اتنے قریب ہونے کے باوجود وہ مجھے دیکھ نہ سکے کیونکہ) میرے حق میں اللہ نے انہیں اندھا بنادیا۔ میں (وہاں سے بچ کر) اپنے (قیدی) ساتھی کے پاس آیا اور اسے سواری پر چڑھا کر چل پڑا۔ پھر جب میں اراک پہنچا تو میں نے اس کی بیڑی کھول دی، پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے کہا : اللہ کے رسول ! میں عناق سے شادی کرلوں ؟ تو آپ خاموش رہے پھر آیت : الزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرک زنا کار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور نکاح نہیں کرتی ۔ (النور : ٣) نازل ہوئی، پھر (اس کے نزول کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا، مذکورہ آیت پڑھی پھر فرمایا : اس سے شادی نہ کرو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٥ (٢٠٥١) مختصراً ، سنن الترمذی/تفسیرسورة النور (٣١٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٥٣) (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: دلدل سے تشبیہ اس لیے دی گئی کیونکہ یہ اکثر رات میں ظاہر ہوتا ہے، اور حتیٰ المقدور سر اپنے جسم میں چھپائے رکھتا ہے۔ ٢ ؎: زانی عورت سے نکاح اس وقت درست ہے جب وہ عمل زنا سے تائب ہوچکی ہو اور عدت بھی پوری ہوچکی ہو اور اگر وہ زنا سے حاملہ ہوچکی ہے تو اس کی مدت عدت وضع حمل ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3228

【34】

زانیہ سے نکاح

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا : میری ایک بیوی ہے جو مجھے سبھی لوگوں سے زیادہ محبوب ہے مگر خرابی یہ ہے کہ وہ کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی ١ ؎، آپ نے فرمایا : اسے طلاق دے دو ، اس نے کہا : میں اس کے بغیر رہ نہ پاؤں گا۔ تو آپ نے کہا : پھر تو تم اس سے فائدہ اٹھاؤ (اور وہ جو دوسروں کو تیرا مال لے لینے دیتی ہے، اسے نظر انداز کر دے) ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہ حدیث (صحیح) ثابت نہیں ہے، عبدالکریم (راوی) زیادہ قوی نہیں ہے اور ہارون بن رئاب (راوی) عبدالکریم سے زیادہ قوی راوی ہیں۔ انہوں نے اس حدیث کو مرسل بیان کیا ہے ہارون ثقہ راوی ہیں اور ان کی حدیث عبدالکریم کی حدیث کے مقابل میں زیادہ صحیح اور درست لگتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٨٠٧) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٣٤٩٥ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: اس کے دو مفہوم ہیں، ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ فسق و فجور میں مبتلا ہوجاتی ہے، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شوہر کا مال ہر مانگنے والے کو اس کی اجازت کے بغیر دے دیتی ہے، یہ مفہوم مناسب اور بہتر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل (رح) کا کہنا ہے : یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ کے نبی اکرم ﷺ کسی فاجرہ عورت کو روکے رکھنے کا مشورہ دیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3229

【35】

زنا کار عورتوں سے شادی کرنا مکروہ ہے

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عورتوں سے شادی چار چیزیں دیکھ کر کی جاتی ہے : اس کا مال دیکھ کر، اس کی خاندانی وجاہت (حسب) دیکھ کر، اس کی خوبصورتی دیکھ کر اور اس کا دین دیکھ کر، تو تم دیندار عورت کو پانے کی کوشش کرو ١ ؎، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٥ (٥٠٩٠) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٥ (١٤٦٦) ، سنن ابی داود/النکاح ٢ (٢٠٤٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٦ (١٨٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٠٥) ، مسند احمد (٢/٤٢٨) ، سنن الدارمی/النکاح ٤ (٢٢١١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ دیندار عورت مالدار بھی ہوسکتی ہے، حسب والی بھی ہوسکتی ہے اور خوبصورت بھی ہوسکتی ہے لیکن بدکار نہیں ہوسکتی، ورنہ پھر اسے دیندار نہ کہیں گے۔ لیکن دیندار نہیں ہے تو مالدار عورت بھی بدکار ہوسکتی ہے، حسب والی بھی زانیہ ہوسکتی ہے اور جمال والی بھی بدکار ہوسکتی ہے۔ اس لیے دیندار عورت کے مقابل میں گرچہ ان سے شادی جائز ہے مگر اس جواز کی حیثیت مکروہ کی ہوگی، اسی بنا پر صاحب کتاب نے کراہی ۃ تزویج الزنا ۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔ ٢ ؎: یعنی اگر ایسا نہ کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3230

【36】

(نکاح کے واسطے) بہترین خواتین کون سی ہیں؟

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا : عورتوں میں اچھی عورت کون سی ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ عورت جو اپنے شوہر کو جب وہ اسے دیکھے خوش کر دے ١ ؎، جب وہ کسی کام کا اسے حکم دے تو (خوش اسلوبی سے) اسے بجا لائے، اپنی ذات اور اپنے مال کے سلسلے میں شوہر کی مخالفت نہ کرے کہ اسے برا لگے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٣٠٥٨) ، مسند احمد (٢/٢٥١، ٤٣٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اپنے صاف ستھرے لباس اور خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرے۔ ٢ ؎: جب شوہر اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے بلائے تو فوراً تیار ہوجائے اور اپنے مال میں کھلے دل سے اسے تصرف کی اجازت دے رکھے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3231

【37】

نیک خاتون سے متعلق

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا ساری کی ساری پونجی ہے (برتنے کی چیز ہے) ١ ؎ لیکن ساری دنیا میں سب سے بہترین (قیمتی) چیز نیک و صالح عورت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ١٧ (١٤٦٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥ (١٨٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٤٩) ، مسند احمد (٢/١٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی دنیا مطلوب بالذات نہیں ہے، صرف فائدہ اٹھانے کی جگہ ہے، اس لیے اس سے صرف حسب ضرورت فائدہ اٹھایا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3232

【38】

زیادہ غیرت مند عورت

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں (یعنی مہاجرین) نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ انصار کی عورتوں سے شادی کیوں نہیں کرتے ؟ آپ نے فرمایا : ان میں غیرت بہت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3233

【39】

شادی سے قبل عورت کو دیکھنا کیسا ہے؟

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ایک انصاری عورت کو شادی کا پیغام دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : اسے دیکھ لو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٢ (١٤٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٤٦) ، مسند احمد (٣/٢٨٦، ٢٩٩) ویأتي عند المؤلف برقم ٣٢٤٨، ٣٢٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بغیر دیکھے نکاح کرنا اچھا نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3234

【40】

شادی سے قبل عورت کو دیکھنا کیسا ہے؟

مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک عورت کو شادی کا پیغام دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے ؟ میں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : دیکھ لو، کیونکہ دیکھ لینا دونوں میں محبت کے اضافہ کا باعث ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٥ (١٠٨٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٩ (١٨٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٨٩) ، مسند احمد (٤/٢٤٥، ٢٤٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٥ (٢٢١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گویا بغرض نکاح کسی اجنبیہ عورت کو دیکھنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3235

【41】

شوال میں نکاح کرنا

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے (عید کے مہینے) شوال میں شادی کی، اور میری رخصتی بھی شوال کے مہینے میں ہوئی۔ (عروہ کہتے ہیں) عائشہ رضی اللہ عنہا پسند کرتی تھیں کہ مسلمان بیویوں کے پاس (عید کے مہینے) شوال میں جایا جائے، آپ ﷺ کی بیویوں میں سے مجھ سے زیادہ آپ سے نزدیک اور فائدہ اٹھانے والی کوئی دوسری بیوی کون تھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١١ (١٤٢٣) ، سنن الترمذی/النکاح ٩ (١٠٩٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٣ (١٩٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٥٥) ، مسند احمد (٦/٥٤، ٦٠٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٨ (٢٢٥٧) ویأتی عند المؤلف برقم : ٣٣٧٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اپنے اس قول سے عائشہ رضی الله عنہا ان لوگوں کے قول کی تردید کرنا چاہتی ہیں جو یہ کہتے تھے کہ شوال میں شادی کرنا اور بیوی کے پاس جانا صحیح نہیں ہے جبکہ میری شادی شوال میں ہوئی، اور دوسروں کی دوسرے مہینوں میں، پھر بھی میں اوروں کی بنسبت آپ ﷺ سے زیادہ نزدیک اور زیادہ فائدہ اٹھانے والی تھی۔ شوال کے مہینے میں کبھی زبردست طاعون پھیلا تھا اسی لیے لوگ اس مہینے کو خیر و برکت سے خالی سمجھتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3236

【42】

نکاح کے لئے پیغام بھیجنا

عامر بن شراحیل شعبی کا بیان ہے کہ انہوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے (جو پہلے پہل ہجرت کرنے والی عورتوں میں سے تھیں) سنا ہے انہوں نے کہا : مجھے عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ آ کر شادی کا پیام دیا، اور رسول اللہ ﷺ نے بھی مجھے اپنے غلام اسامہ بن زید (رض) سے شادی کے لیے پیغام دیا، اور میں نے سن رکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جو کوئی مجھ سے محبت رکھتا ہے اسے اسامہ سے بھی محبت رکھنی چاہیئے ۔ چناچہ جب رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے (اس سلسلے میں) گفتگو کی تو میں نے کہا : میں اپنا معاملہ آپ کو سونپتی ہوں، آپ جس سے چاہیں میری شادی کردیں۔ آپ نے فرمایا : ام شریک کے پاس چلی جاؤ۔ (کہتی ہیں :) وہ انصار کی ایک مالدار اور فی سبیل اللہ بہت خرچ کرنے والی عورت تھیں ان کے پاس مہمان بکثرت آتے تھے۔ میں نے کہا : میں ایسا ہی کروں گی پھر آپ نے کہا : نہیں، ایسا مت کرو، کیونکہ ام شریک بہت مہمان نواز عورت ہیں اور مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ تم وہاں رہو، پھر کبھی تمہاری اوڑھنی تمہارے (سر) سے ڈھلک جائے یا تمہاری پنڈلیوں سے کپڑا ہٹ جائے تو تجھے لوگ کسی ایسی حالت میں عریاں دیکھ لیں جو تمہارے لیے ناگواری کا باعث ہو بلکہ (تمہارے لیے مناسب یہ ہے کہ) تم اپنے چچا زاد بھائی عبداللہ بن عمرو بن ام مکتوم کے پاس چلی جاؤ، وہ فہر (قبیلے) کی نسل سے ہیں، چناچہ میں ان کے یہاں چلی گئی۔ یہ حدیث مختصر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٠٢٨، ١٨٣٨٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الفتن ٢٤ (٢٩٤٢) ، مسند احمد ٦/٣٧٣، ٤١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3237

【43】

پیغام پر پیغام بھیجنے کی ممانعت کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی کسی دوسرے کے پیغام پر پیغام نہ دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٢) ، سنن الترمذی/البیوع ٥٧ (١٢٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٨٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/النکاح ٤٥ (٥١٤٢) ، سنن ابی داود/النکاح ١٨ (٢٠٨١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٠ (١٨٦٧) ، موطا امام مالک/النکاح ١ (٢) ، مسند احمد ٢/١٢٤) ، سنن الدارمی/النکاح ٧ (٢٢٢٢) ویأتي برقم : ٣٢٤٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر پیغام پر پیغام دینے والے کو پہلے پیغام سے متعلق علم ہے تو اس کا یہ پیغام دینا کسی صورت میں درست نہیں ہوگا، البتہ لاعلمی کی صورت میں معذور سمجھا جائے گا، چونکہ پیغام پر پیغام دینے سے مسلمانوں میں باہمی دشمنی اور عداوت پھیلے گی، اور اسلامی معاشرہ کو اسلام، ان عیوب سے صاف ستھرا رکھنا چاہتا ہے، اسی لیے پیغام پر پیغام دینا اسلام کی نظر میں حرام ٹھہرا تاکہ بغض و عداوت سے اسلامی معاشرہ پاک و صاف رہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3238

【44】

محرم کو پچھنے لگانا

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (دھوکہ دینے کیلئے) چیزوں کی قیمت نہ بڑھاؤ ١ ؎، کوئی شہری دیہاتی کا مال نہ بیچے ٢ ؎، اور کوئی اپنے بھائی کے بیع پر بیع نہ کرے، اور نہ کوئی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام دے، کوئی عورت اپنی بہن (سوکن) کے طلاق کی طلب گار نہ بنے کہ اس کے برتن میں جو کچھ ہے پلٹ کر خود لے لے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٨ (٢١٤٠) ، الشروط ٨ (٢٧٢٣) ، النکاح ٤٥ (٥١٤٤) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٣) ، سنن ابی داود/النکاح ١٨ (٢٠٨٠) مختصراً ، سنن الترمذی/النکاح ٣٨ (١١٣٤) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٠ (١٨٦٧) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٣) ، مسند احمد (٢/٢٣٨، ٢٧٤) ، سنن الدارمی/النکاح ٧ (٢٢٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نجش اس بیع کو کہتے ہیں کہ جس میں سامان کی تشہیر اور قیمت میں اضافہ کی غرض سے سامان کی خوب خوب تعریف کی جائے، یا سامان کا بھاؤ اس کی خریداری کی نیت کئے بغیر بڑھایا جائے۔ ٢ ؎: یعنی اس کے سامان کی فروخت کے لیے دلالی نہ کرے، کیونکہ دلالی کی صورت میں دیگر شہریوں کو ضرر لاحق ہوگا، جب کہ دیہاتی اگر خود سے بیچے تو سستی قیمت میں بیچے گا۔ ٣ ؎: یعنی یہ خیال نہ کرے کہ جب سوکن مطلقہ ہوجائے گی، اور شوہر سے محروم ہوجائے گی تو اس کا حصہ خود اسے مل جائے گا، کیونکہ جس کے نصیب میں جو لکھا جا چکا ہے وہی ملے گا، پھر سوکن کے حق میں ناحق طلاق کی درخواست کا کیا فائدہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3239

【45】

پیغام پر پیغام بھیجنے کی ممانعت کا بیان

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٣٩٦٨) ، موطا امام مالک/النکاح ١ (١) ، مسند احمد (٢/٤٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3240

【46】

پیغام پر پیغام بھیجنے کی ممانعت کا بیان

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی بھائی کہیں نکاح کا پیغام دے چکا ہے، تو کوئی دوسرا مسلمان بھائی اس جگہ جب تک کہ نکاح ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہ ہوجائے (نیا) پیغام نہ دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٣٣٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی انتظار کرے، اگر وہ نکاح کرلیتا ہے تو یہ پیغام نکاح ترک کر دے، اور اگر وہ ترک کردیتا ہے تو پیغام بھیجے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3241

【47】

پیغام پر پیغام بھیجنے کی ممانعت کا بیان

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر کوئی دوسرا پیغام نکاح نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٤٥٤٥) ، مسند احمد (٢/٤٨٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3242

【48】

رشتہ بھیجنے والے کی اجازت سے یا اس کے چھوڑنے کے بعد رشتہ بھیجنا

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ تم میں سے بعض بعض کی بیع پر بیع کرے ١ ؎ اور نہ ہی کوئی آدمی دوسرے آدمی کے شادی کے پیغام پر اپنا پیغام دے۔ جب تک (پہلا) پیغام دینے والا چھوڑ نہ دے ٢ ؎ یا وہ دوسرے کو پیغام دینے کی اجازت نہ دیدے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٤٥ (٥١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کسی دکاندار کا سودا طے ہو رہا ہو تو پڑوسی دکاندار خریدار کو یہ کہہ کر نہ بلائے کہ میں تمہیں اس سے کم قیمت پر سامان دوں گا۔ ٢ ؎: یعنی دوسری جانب سے انکار ہوگیا یا وہ خود ہی دستبردار ہوگیا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3243

【49】

رشتہ بھیجنے والے کی اجازت سے یا اس کے چھوڑنے کے بعد رشتہ بھیجنا

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے ان کے معاملہ کے متعلق پوچھا (کہ کیسے کیا ہوا ؟ ) تو انہوں نے کہا : میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دے دیں اور کھانے کے لیے مجھے جو خوراک دینے لگے اس میں کچھ خرابی تھی (اچھا نہ تھا) تو میں نے کہا : اگر نفقہ اور سکنی میرا حق ہے تو اسے لے کر رہوں گی لیکن میں یہ (ردی سدی گھٹیا کھانے کی چیز) نہ لوں گی، (میرے شوہر کے) وکیل نے کہا : نفقہ و سکنی کا تمہارا حق نہیں بنتا۔ (یہ سن کر) میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور آپ سے اس (بات چیت) کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : (وہ سچ کہتا ہے) تیرے لیے نفقہ و سکنی (کا حق) نہیں ہے ١ ؎، تم فلاں عورت کے پاس جا کر اپنی عدت پوری کرلو ٢ ؎ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : ان کے پاس آپ ﷺ کے صحابہ آتے جاتے رہتے تھے۔ (پھر کچھ سوچ کر کہ وہاں رہنے سے بےپردگی اور شرمندگی نہ ہو) آپ ﷺ نے فرمایا : ابن ام مکتوم (رض) کے یہاں رہ کر اپنی عدت پوری کرلو کیونکہ وہ نابینا ہیں ٣ ؎، پھر جب (عدت پوری ہوجائے اور) تو دوسروں کے لیے حلال ہوجاؤ تو مجھے آگاہ کرو ، چناچہ جب میں حلال ہوگئی (اور کسی بھی شخص سے شادی کرنے کے قابل ہوگئی) تو میں نے آپ ﷺ کو باخبر کردیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں کس نے شادی کا پیغام دیا ہے ؟ میں نے کہا : معاویہ نے، اور ایک دوسرے قریشی شخص نے ٤ ؎، آپ ﷺ نے فرمایا : رہا معاویہ تو وہ قریشی لڑکوں میں سے ایک لڑکا ہے، اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، رہا دوسرا شخص تو وہ صاحب شر اور لاخیرا ہے (اس سے کسی بھلائی کی توقع نہیں ہے) ٥ ؎، ایسا کرو تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو فاطمہ کہتی ہیں : (آپ ﷺ نے کہا تو لیکن وہ مجھے جچے نہیں) میں نے انہیں پسند نہ کیا، لیکن جب آپ نے مجھے اسامہ بن زید سے تین بار شادی کرلینے کے لیے کہا تو میں نے (آپ کی بات رکھ لی اور) ان سے شادی کرلی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٠) ، سنن ابی داود/الطلاق ٣٩ (٢٢٨٤، ٢٢٨٥، ٢٢٨٦، ٢٢٨٧، ٢٢٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٣٦، ١٨٠٣٨) ، موطا امام مالک/الطلاق ٢٣ (٦٧) ، مسند احمد (٦/٤١٢، ٤١٣، ٤١٦) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام ٣٤٣٤، ٣٥٧٦ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: نفقہ وسکنی ( اخراجات اور رہائش ) کا حق ان کے لیے ہے جن سے شوہر کو رجوع کا حق و اختیار رہتا ہے، بلکہ شوہر کے گھر میں اس کی رہائش اسی لیے رکھی جاتی ہے تاکہ اس کی مجبوری و بےقراری دیکھ کر اسے رحم آئے، اور رجوع کرے اور دونوں اعتدال و توازن اور اخلاص و محبت کی زندگی گزارنے لگیں۔ ٢ ؎: فلانہ سے مراد ام شریک رضی الله عنہا ہیں وہ ایک مہمان نواز خاتون تھیں۔ ٣ ؎: ان کے گھر میں رہتے وقت اگر دوپٹہ سر سے کھسک جائے یا سونے میں جسم کا کوئی حصہ کھل جائے تو رسوائی اور شرمندگی نہ ہوگی۔ ٤ ؎: اس سے مراد ابوالجہم رضی الله عنہ ہیں۔ ٥ ؎: یعنی عورتوں کے حقوق کی بابت وہ لاخیرا ہے، ایک روایت میں ان کے متعلق تو ضرّاب للنّسائ ( عورتوں کی بڑی پٹائی کرنے والا ) اور لا يَضَعُ عصاه عن عاتقه ( اپنے کندھے سے لاٹھی نہ اتارنے والا ) جیسے الفاظ وارد ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی ضرورت کے تحت اس طرح کے اوصاف بیان کرنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3244

【50】

اگر کوئی خاتون کسی مرد سے نکاح کا رشتہ بھیجنے والے کے بارے میں دریافت کرے تو اس کو بتلا دیا جائے

فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابوعمرو بن حفص (رض) نے انہیں طلاق بتہ دے دی اور وہ موجود نہ تھے۔ (شہر سے باہر سفر پر تھے) پھر ان کے پاس اپنے وکیل کو کچھ جو دے کر بھیجا تو وہ ان پر غصہ اور ناراض ہوئیں، تو وکیل نے کہا : اللہ کی قسم ! آپ کا تو ہم پر کوئی حق ہی نہیں بنتا (یوں سمجھئے کہ یہ جو تو تمہاری دلداری کے لیے ہے) ۔ تو فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے بھی فرمایا : تمہارے لیے نفقہ نہیں ہے اور انہیں حکم دیا کہ ام شریک رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہ کر عدت پوری کرو، پھر کہا : ام شریک کو ہمارے صحابہ گھیرے رہتے ہیں (ان کے گھر نہیں بلکہ) ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہا کے یہاں اپنی عدت کے دن پوری کرو، وہ اندھے آدمی ہیں، تم وہاں اپنے کپڑے بھی اتار سکو گی، پھر جب تم (عدت پوری کر کے) حلال ہوجاؤ تو مجھے خبر دو ، فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : جب میں حلال ہوگئی تو آپ کو اطلاع دی کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم دونوں نے مجھے شادی کا پیغام دیا ہے۔ آپ نے فرمایا : ابوجہم تو اپنے کندھے سے اپنی لاٹھی اتار کر نہیں رکھتے ١ ؎ اور معاویہ تو مفلس آدمی ہیں، ان کے پاس کچھ بھی مال نہیں ہے، تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو تو میں نے انہیں پسند نہ کیا، لیکن آپ نے دوبارہ پھر کہا کہ تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو تو میں نے ان کے ساتھ شادی کرلی، اور اللہ تعالیٰ نے اس شادی میں ہمیں بڑی برکت دی اور میں ان کے ذریعہ قابل رشک بن گئی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٤٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عورتوں سے ہر وقت مار پیٹ کرتے رہتے ہیں یا اکثر حالت سفر میں رہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3245

【51】

اگر کوئی آدمی کسی دوسرے سے عورت کے متعلق مشورہ کرے؟

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : میں نے ایک عورت سے شادی کرلی ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا تو نے اسے دیکھ لیا ہے ؟ (دیکھ لیے ہوتے تو اچھا ہوتا) کیونکہ انصار کی عورتوں کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے (بعد میں اس کی وجہ سے کوئی بدمزگی نہ پیدا ہو) ١ ؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہی حدیث مجھے ایک دوسری جگہ عن یزید بن کیسان عن ابی حازم عن ابی ہریرہ کے بجائے عن یزید بن کیسان أن جابر بن عبداللہ حدث کے ساتھ ملی۔ لیکن صحیح ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٣٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں انہوں نے اپنی شادی کی خبر آپ ﷺ کو دی۔ لیکن آپ نے اس عورت کے تعلق سے ایک بات انہیں بےپوچھے بتائی تو جب کسی عورت کے متعلق نکاح کی غرض سے کسی سے مشورہ طلب کیا جائے تو اس شخص کو اس عورت کے متعلق جو کچھ جانے بدرجہ اولیٰ بتادینا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3246

【52】

اگر کوئی آدمی کسی دوسرے سے عورت کے متعلق مشورہ کرے؟

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک (انصاری) عورت سے شادی کا ارادہ کیا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (پہلے) اسے دیکھ لو کیونکہ انصاری عورتوں کی آنکھوں میں کچھ (نقص) ہوتا ہے (شادی بعد تم نے دیکھا اور وہ تیرے لیے قابل قبول نہ ہوئی تو ازدواجی زندگی تباہ ہوجائے گی) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٣٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3247

【53】

اپنے پسندیدہ آدمی کے واسطے اپنی لڑکی کو نکاح کے واسطے پیش کرنا

عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بیوہ ہوگئیں، وہ خنیس بن حذافہ کے نکاح میں تھیں، وہ رسول اللہ ﷺ کے ان صحابہ میں سے تھے جو جنگ بدر میں موجود تھے، اور انتقال مدینہ میں فرمایا تھا) ۔ میں عثمان بن عفان (رض) سے ملا، میں نے ان کے سامنے حفصہ کا تذکرہ کیا، اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی شادی حفصہ سے کر دوں، انہوں نے کہا : میں اس پر غور کروں گا۔ چند راتیں گزرنے کے بعد میں ان سے ملا تو انہوں نے کہا : میں ان دنوں شادی کرنا نہیں چاہتا۔ عمر (رض) کہتے ہیں : پھر میں ابوبکر صدیق (رض) سے ملا، اور ان سے کہا : اگر آپ پسند کریں تو حفصہ کو آپ کے نکاح میں دے دوں تو انہوں نے مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ مجھے ان کے اس رویے سے عثمان (رض) عنہ کے جواب سے بھی زیادہ غصہ آیا، پھر چند ہی دن گزرے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے میرے پاس اپنا پیغام بھیجا تو میں نے ان کا نکاح آپ ﷺ کے ساتھ کردیا۔ (اس نکاح کے بعد) ابوبکر (رض) مجھ سے ملے اور کہا : جب آپ نے مجھے حفصہ سے نکاح کا پیغام دیا اور میں نے آپ کو کوئی جواب نہ دیا، تو اس وقت آپ کو مجھ پر بڑا غصہ آیا ہوگا ؟ میں نے کہا : ہاں، انہوں نے کہا : جب آپ نے مجھ پر حفصہ کا معاملہ پیش کیا تو میں نے آپ کو محض اس وجہ سے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ میں رسول اللہ ﷺ سے ان کا تذکرہ سن چکا تھا اور میں آپ کا راز افشاء کرنا نہیں چاہتا تھا، ہاں، اگر آپ ﷺ ان سے شادی نہ کرتے تو میں ضرور ان سے شادی کرلیتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ١٢ (٤٠٠٥) ، والنکاح ٣٣ (٥١٢٢) ، ٣٦ (٥١٢٩) مختصرا، ٤٦ (٥١٤٥) مختصرا، مسند احمد (١/١٢ و ٢/٢٧) (تحفة الأشراف : ١٠٥٢٣) ، ویأتی عند المؤلف برقم ٣٢٦١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3248

【54】

کوئی خاتون جس سے شادی کرنا چاہے تو وہ خود اس سے (ہونے والے شوہر سے) کہہ سکتی ہے

ثابت بنانی کہتے ہیں کہ میں انس بن مالک (رض) کے پاس تھا، وہاں ان کی ایک بیٹی بھی موجود تھی، انس (رض) نے کہا : ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی، اور اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کردیا، اور کہا : اللہ کے رسول ! کیا آپ کو میری ضرورت ہے ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٣٢ (٥١٢٠) مطولا، والأدب ٧٩ (٦١٢٣) مطولا، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٧ (٢٠٠١) (تحفة الأشراف : ٤٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر آپ مجھے نکاح کے لیے قبول فرمائیں تو میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھوں گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3249

【55】

کوئی خاتون جس سے شادی کرنا چاہے تو وہ خود اس سے (ہونے والے شوہر سے) کہہ سکتی ہے

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے اپنے آپ کو (نکاح کے لیے) رسول اللہ ﷺ کو پیش کیا، تو (یہ سن کر) انس (رض) کی صاحبزادی ہنس پڑیں، اور کہا : کتنی کم حیاء عورت ہے ! انس (رض) نے کہا : (بیٹی ! ) یہ عورت تجھ سے اچھی ہے (ذرا اس کی طلب تو دیکھ) اس نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ پر پیش کیا ہے، (اور آپ کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٥١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3250

【56】

اگر کسی خاتون کو پیغام نکاح دیا جائے تو وہ نماز پڑھے اور استخارہ کرے

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب زینب رضی اللہ عنہا کی عدت پوری ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے زید رضی اللہ عنہا کو ان کے پاس بھیجا کہ جا کر انہیں میرے لیے رشتہ کا پیغام دو ۔ زید (رض) کہتے ہیں : میں گیا اور میں نے کہا : زینب خوش ہوجاؤ! رسول اللہ ﷺ نے مجھے تمہارے پاس نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا : میں کچھ نہیں کرنے کی جب تک میں اپنے رب سے مشورہ نہ کرلوں (یہ کہہ کر) وہ اپنے مصلی پر (صلاۃ استخارہ پڑھنے) کھڑی ہوگئیں، (ادھر اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کا نکاح ان سے آسمان پر ہی کردیا) ، اور قرآن نازل ہوگیا : فلما قضى زيد منها وطرا زوجناکها (اس آیت کے نزول کے بعد) رسول اللہ ﷺ ان کے پاس کسی حکم و اجازت (یعنی رسمی ایجاب و قبول کے بغیر تشریف لائے، اور) ان سے خلوت میں ملے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٥ (١٤٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٤١٠) ، مسند احمد (٣/١٩٥، ٢٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3251

【57】

اگر کسی خاتون کو پیغام نکاح دیا جائے تو وہ نماز پڑھے اور استخارہ کرے

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی دوسری بیویوں پر اس بات کا فخر کرتی تھیں کہ اللہ عزوجل نے (رسول اللہ ﷺ سے) میرا نکاح آسمان ہی پر فرما دیا۔ اور انہیں کے سلسلے سے پردے کی آیت نازل ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التوحید ٢٢ (٧٤٢١) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر سورة الأحزاب ٣٤ (٣٢١٣) ، مسند احمد (٣/٢٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3252

【58】

استخارہ کا مسنون طریقہ

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تمام امور (و معاملات) میں استخارہ کرنے کی تعلیم دیتے تھے، جیسا کہ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے، فرماتے : جب تم میں سے کوئی کسی (اچھے) کام کا ارادہ کرے تو فرض (اور اس کے توابع) کے علاوہ دو رکعتیں پڑھے پھر (دعا کرتے ہوئے) کہے : اللہم إني أستخيرک بعلمک وأستعينک بقدرتک وأسألک من فضلک العظيم فإنک تقدر ولا أقدر و تعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللہم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري - أو قال في عاجل أمري وآجله - فاقدره لي ويسره لي ثم بارک لي فيه وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري - أو قال في عاجل أمري وآجله - فاصرفه عني واصرفني عنه واقدر لي الخير حيث کان ثم أرضني به اے اللہ ! میں تیرے علم کی برکت سے تجھ سے بھلائی اور خیر کا طالب ہوں اور تیری قدرت کا واسطہ دے کر تیری مدد کا چاہتا ہوں اور تیرے عظیم فضل کا طالب ہوں کیونکہ تو قدرت والا ہے، میں قدرت والا نہیں، تو (اچھا و برا سب) جانتا ہے، میں نہیں جانتا، تو ہی غیب کی باتوں کو جانتا ہے، اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ معاملہ، (پھر متعلق کام یا چیز کا نام لے) میرے لیے میرے دین، دنیا اور کے اعتبار سے، یا یہ کہا : اس دار فانی اور اخروی زندگی کے اعتبار سے بہتر ہے تو اس کام کو میرے لیے مقدر کر دے اور اس کا حصول میرے لیے آسان کر دے اور مجھے اس میں برکت دے۔ اور اگر تو جانتا اور سمجھتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے، میرے دین، دنیا اور انجام کار کے لحاظ سے یا اس دار فانی اور اخروی زندگی کے لحاظ سے تو اس کام کو مجھ سے دور رکھ اور مجھے اس سے بچا لے۔ اور بھلائی جہاں بھی ہو اسے میرے لیے مقدر فرما دے اور مجھے اس پر راضی و خوش رکھ ۔ آپ نے فرمایا : (دعا کرتے وقت) اپنی ضرورت کا نام لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٢٥ (١١٦٢) ، والدعوات ٤٨ (٦٣٨٢) ، والتوحید ١٠ (٧٣٩٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٦ (١٥٣٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٧ (٤٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٨ (١٣٨٣) ، مسند احمد ٣/٣٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3253

【59】

بیٹے کا والدہ کو کسی کے نکاح میں دینا

ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ جب ان کی عدت پوری ہوگئی تو ابوبکر (رض) نے انہیں اپنی شادی کا پیغام بھیجا۔ جسے انہوں نے قبول نہ کیا پھر رسول اللہ ﷺ نے عمر بن خطاب (رض) کو اپنی شادی کا پیغام دے کر ان کے پاس بھیجا، انہوں نے (عمر (رض) سے) کہا : رسول اللہ ﷺ تک یہ خبر پہنچا دو کہ میں ایک غیرت مند عورت ہوں (دوسری بیویوں کے ساتھ رہ نہ پاؤں گی) بچوں والی ہوں (ان کا کیا بنے گا) اور میرا کوئی ولی اور سرپرست بھی موجود نہیں ہے۔ (جب کہ نکاح کرنے کے لیے ولی بھی ہونا چاہیئے) عمر (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، آپ کو یہ سب باتیں بتائیں، آپ نے ان سے کہا : (دوبارہ) ان کے پاس (لوٹ) جاؤ اور ان سے کہو : تمہاری یہ بات کہ میں ایک غیرت مند عورت ہوں (اس کا جواب یہ ہے کہ) میں اللہ تعالیٰ سے تمہارے لیے دعا کروں گا، اللہ تمہاری غیرت (اور سوکنوں کی جلن) دور کر دے گا، اور اب رہی تمہاری (دوسری) بات کہ میں بچوں والی عورت ہوں تو تم (شادی کے بعد) اپنے بچوں کی کفایت (و کفالت) کرتی رہو گی اور اب رہی تمہاری (تیسری) بات کہ میرا کوئی ولی موجود نہیں ہے (تو میری شادی کون کرائے گا) تو ایسا ہے کہ تمہارا کوئی ولی موجود ہو یا غیر موجود میرے ساتھ تمہارے رشتہ نکاح کو ناپسند نہ کرے گا (جب عمر (رض) نے جا کر آپ ﷺ کا یہ جواب ان کے سامنے رکھا) تو انہوں نے اپنے بیٹے عمر بن ابی سلمہ سے کہا : اٹھو اور رسول اللہ ﷺ سے (میرا) نکاح کر دو ، تو انہوں نے (اپنی ماں کا) نکاح رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کردیا، یہ حدیث مختصر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٢٠٤) ، مسند احمد (٦/٢٩٥، ٣١٣، ٣١٧، ٣٢٠، ٣٢١) (ضعیف) یعنی بہذا السند والمتن وقد ورد بعضہ عندم فی الجنائز ٢ (٩١٨ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3254

【60】

لڑکی کا چھوٹی عمر میں نکاح سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب وہ چھ سال کی بچی تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے شادی کی، اور جب نو برس کی ہوئیں تو آپ نے ان سے خلوت کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٠ (١٤٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٠٣) وقد أخرجہ : صحیح البخاری/النکاح ٣٨ (٥١٣٣) ، ٣٩ (٥١٣٤) ، ٥٩ (٥١٥٨) ، سنن ابی داود/النکاح ٣٤ (٢١٢١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٣ (١٨٧٦) ، مسند احمد (٦/١١٨، ٢٨٠) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٦ (٢٣٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3255

【61】

لڑکی کا چھوٹی عمر میں نکاح سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میں سات سال کی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے شادی کی، اور جب میں نو برس کی ہوئی تو مجھ سے خلوت فرمائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٦٧٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی شادی قبل بلوغت اور صحبت بعد بلوغت ہوئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ باپ اپنی جھوٹی بچی کی شادی کرسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3256

【62】

لڑکی کا چھوٹی عمر میں نکاح سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میں نو برس کی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے شادی کی، اور نو ہی برس میں آپ کی صحبت میں رہی (پھر آپ رحلت فرما گئے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٧٩٦) (صحیح) (کثرت طرق کی وجہ سے یہ بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3257

【63】

لڑکی کا چھوٹی عمر میں نکاح سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ جب میں نو برس کی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے شادی کی، اور جب آپ نے انہیں چھوڑ کر انتقال فرمایا تو اس وقت وہ اٹھارہ برس کی ہوچکی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٠ (١٤٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٥٦) ، مسند احمد (٦/٤٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3258

【64】

بالغ لڑکی کے نکاح سے متعلق

عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صحابی رسول خنیس بن حذافہ سہمی (رض) کا مدینہ میں انتقال ہوگیا، ان کے انتقال سے حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بیوہ ہوگئیں، عمر (رض) کہتے ہیں : میں عثمان بن عفان (رض) کے پاس آیا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ ان کے سامنے پیش کیا، اور کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کی شادی حفصہ سے کردیتا ہوں، انہوں نے کہا : میں اپنے بارے میں غور کر کے بتاؤں گا، میں کئی دن ٹھہرا (انتظار کرتا) رہا، پھر وہ مجھ سے ملے اور کہا : میرے غور و فکر میں یہی آیا ہے کہ میں ان دنوں شادی نہ کروں۔ عمر (رض) کہتے ہیں : پھر میں ابوبکر (رض) سے ملا اور کہا : اگر آپ پسند کریں تو حفصہ سے آپ کی شادی کر دوں، (یہ سن کر) ابوبکر (رض) خاموش رہے، اور مجھے کچھ بھی جواب نہ دیا۔ مجھے ان پر عثمان (رض) عنہ کے مقابل میں زیادہ ہی غصہ آیا، پھر چند ہی راتیں گزری تھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے اپنے لیے نکاح کا پیغام دیا تو میں نے ان کا نکاح آپ ﷺ کے ساتھ کردیا۔ پھر مجھے ابوبکر (رض) ملے اور کہا : غالباً آپ کو اس وقت بڑا غصہ آیا ہوگا جب آپ نے مجھے حفصہ سے نکاح کی پیشکش کی تھی اور (میری جانب سے) آپ کو کوئی جواب نہ ملا، عمر (رض) کہتے ہیں : میں نے کہا : ہاں، ابوبکر (رض) نے بتلایا کہ آپ کی پیش کش کا جواب نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ مجھے معلوم تھا کہ نبی اکرم ﷺ حفصہ کا ذکر فرما چکے تھے اور میں آپ کا راز فاش کرنے والا نہیں تھا۔ اگر رسول اللہ ﷺ ان سے شادی نہ کرتے تو میں انہیں قبول کرلیتا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3259

【65】

کنواری سے اس کے نکاح کی اجازت لینا

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیوہ عورت اپنے ولی (سرپرست) کے بالمقابل اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا زیادہ حق رکھتی ہے ١ ؎ اور کنواری (لڑکی) سے اس کی شادی کی اجازت لی جائے گی۔ اور اس کی اجازت (اس سے پوچھے جانے پر) اس کا خاموش رہنا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٩ (٤١٢١) ، سنن ابی داود/النکاح ٢٦ (٢٠٩٨، ٢٠٩٩، ٢١١٠) ، سنن الترمذی/النکاح ١٨ (١١٠٨) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١١ (١٨٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٥١٧) ، موطا امام مالک/النکاح ٢ (٤) ، مسند احمد (١/٢٤١، ٢٦١، ٢٧٤، ٣٣٤، ٣٤٥، ٣٥٥، ٣٦٢) ، سنن الدارمی/النکاح ١٣، (٢٢٣٤، ٢٢٣٥، ٢٢٣٦) وانظرالأرقام التالیة (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: أَحَقُّ کا صیغہ مشارکت کا متقاضی ہے، گویا ایم ( بیوہ ) اپنے نکاح کے سلسلہ میں جس طرح حقدار ہے اسی طرح اس کا ولی بھی حقدار ہے، یہ اور بات ہے کہ ولی کی بنسبت اسے زیادہ حق حاصل ہے کیونکہ ولی کی وجہ سے اس پر جبر نہیں کیا جاسکتا جب کہ اس کی وجہ سے ولی پر جبر کیا جاسکتا ہے چناچہ ولی اگر شادی سے ناخوش ہے اور اس کا منکر ہے تو بواسطہ قاضی اس کا نکاح ہوگا، اس توضیح سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہ حدیث لا نکاح إلا بولي کے منافی نہیں ہے۔ ٢ ؎: لیکن اگر منظور نہ ہو تو کھل کر بتادینا چاہیئے کہ مجھے یہ رشتہ پسند نہیں ہے تاکہ ماں باپ اس کے لیے دوسرا رشتہ منتخب کریں یا اسے مطمئن کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3260

【66】

کنواری سے اس کے نکاح کی اجازت لینا

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیوہ اپنے ولی (سرپرست) کے بالمقابل اپنے (رشتہ کے) بارے میں فیصلہ کرنے کا زیادہ حق رکھتی ہے۔ اور یتیمہ یعنی کنواری لڑکی سے (اس کی شادی کے لیے) اس کی منظوری لی جائے گی اور اس کی منظوری (پوچھے جانے پر) اس کی خاموشی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٦٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح م وهو أصح من اللفظ الأول تستأذن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3261

【67】

کنواری سے اس کے نکاح کی اجازت لینا

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیوہ عورت اپنے نفس کی خود مالک ہے۔ (شادی کرے گی) اور یتیمہ یعنی کنواری لڑکی سے (اس کی شادی کے لیے) اس کی منظوری لی جائے گی اور اس کی منظوری (پوچھے جانے پر) اس کی خاموشی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٦٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3262

【68】

کنواری سے اس کے نکاح کی اجازت لینا

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیوہ (غیر کنواری) عورت پر ولی کا کچھ اختیار نہیں ہے، اور یتیمہ کنواری لڑکی سے اس کی ذات کے بارے میں مشورہ (و اجازت) لی جائے گی، اور (جواباً ) اس کی خاموشی اس کی اجازت مانی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٦٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3263

【69】

والد کا لڑکی سے اس کے نکاح سے متعلق رائے لینا

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیوہ (غیر کنواری) عورت اپنے آپ کے بارے میں فیصلہ کرنے کا زیادہ حق رکھتی ہے (کہ شادی کرے تو کس سے کرے یا نہ کرے) اور کنواری لڑکی کی شادی باپ اس کی اجازت لے کر کرے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٦٢ (صحیح) (لکن قولہ ” أبوہا “ غیر محفوظ وانظر ما قبلہ، والأجل الکلمة غیر المحفوظہ جعلہ فی الضعیف (٢٠٧) أیضا ٣٠٦٢ ) قال الشيخ الألباني : صحيح م لکن قوله أبوها غير محفوظ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3264

【70】

غیر کنواری عورت سے اس کے نکاح سے متعلق اجازت حاصل کرنا

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیوہ عورت کی شادی اس کی اجازت کے بغیر نہ کی جائے اور نہ ہی کنواری کی شادی اس کی مرضی جانے بغیر کی جائے ، لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس کی اجازت کیسے جانی جائے ؟ ١ ؎ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی اجازت یہ ہے کہ وہ چپ رہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٤٣٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١١ (١٨٧١) ، مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٥٠، ٢٧٩، ٤٢٥، ٤٣٤) ، سنن الدارمی/النکاح ١٣ (٢٢٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وہ تو ایسے مواقع پر بہت شرماتی ہے بول نہیں پاتی ہے۔ ٢ ؎: یعنی وہ چپ رہتی ہے تو سمجھ لو کہ وہ اس رشتہ پر راضی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3265

【71】

غیر کنواری عورت سے اس کے نکاح سے متعلق اجازت حاصل کرنا

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عورتوں سے ان کی شادی کے بارے میں مشورہ کیا کرو ، کہا گیا : کنواری لڑکی تو شرم کرتی ہے، اور چپ رہتی ہے (بول نہیں پاتی) ؟ آپ نے فرمایا : اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٤١ (٥١٣٧) ، والإکراہ ٣ (٦٩٤٦) ، والحیل ١١ (٦٩٧١) ، صحیح مسلم/النکاح ٩ (١٤٢٠) ، مسند احمد (٦/٤٥، ١٦٥، ٢٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3266

【72】

غیر کنواری عورت سے اس کے نکاح سے متعلق اجازت حاصل کرنا

ابوہریرہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیوہ کی شادی نہ کی جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لے لیا جائے اور کنواری لڑکی کی شادی نہ کی جائے جب تک کہ اس کی اجازت نہ لے لی جائے ، لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس کی اجازت کیسے جانی جائے ؟ آپ نے فرمایا : اس کا خاموش رہنا (ہی اس کی اجازت ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٤١ (٥١٣٦) ، الإکراہ ٣ (٦٩٤٦) ، الحیل ١١ (٦٩٦٨) ، صحیح مسلم/النکاح ٩ (١٤١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٢٥) ، مسند احمد (٢/ ٤٣٤) ، سنن الدارمی/النکاح ١٣ (٢٢٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3267

【73】

اگر والد اپنی ثیبہ لڑکی کا اس کی اجازت کے بغیر نکاح کر دے تو کیا حکم ہے؟

خنساء بنت خذام رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کردیا اور یہ بیوہ تھیں، یہ شادی انہیں پسند نہ آئی تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، تو آپ نے ان کا نکاح رد کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٤٢ (٥١٣٨) ، الإکراہ (٦٩٤٠) ، الحیل ١١ (٦٩٦٩) ، سنن ابی داود/النکاح ٢٦ (٢١٠١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٢ (١٨٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢٤) ، موطا امام مالک/النکاح ١١ (٥١٣٩) ، مسند احمد (٦/٣٢٨) ، سنن الدارمی/النکاح ١٤ (٢٢٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3268

【74】

اگر والد اپنی کنواری لڑکی کا نکاح اس کے منظوری کے بغیر کر دے

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک نوجوان لڑکی ان کے پاس آئی، اور اس نے کہا : میرے باپ نے میری شادی اپنے بھتیجے سے اس کی خست اور کمینگی پر پردہ ڈالنے کے لیے کردی ہے، حالانکہ میں اس شادی سے خوش نہیں ہوں، انہوں نے اس سے کہا : بیٹھ جاؤ، نبی اکرم ﷺ کو آ لینے دو (پھر اپنا قضیہ آپ کے سامنے پیش کرو) ، چناچہ رسول اللہ ﷺ جب تشریف لے آئے تو اس نے آپ کو اپنے معاملے سے آگاہ کیا۔ آپ ﷺ نے اس کے باپ کو بلا بھیجا (اور جب وہ آگیا) تو آپ ﷺ نے فیصلہ اس (لڑکی) کے اختیار میں دے دیا اس (لڑکی) نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے والد نے جو کچھ کردیا ہے، میں نے اسے قبول کرلیا (ان کے کئے ہوئے نکاح کو رد نہیں کرتی) لیکن میں نے (اس معاملہ کو آپ کے سامنے پیش کر کے) یہ جاننا چاہا ہے کہ کیا عورتوں کو بھی کچھ حق و اختیار حاصل ہے (سو میں نے جان لیا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ السنائي (تحفة الأشراف : ١٦١٨٦) ، وأخرجہ سنن ابن ماجہ/النکاح ١٢ (١٨٧٤) من حدیث عائشة (ضعیف شاذ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3269

【75】

اگر والد اپنی کنواری لڑکی کا نکاح اس کے منظوری کے بغیر کر دے

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یتیمہ کنواری لڑکی کی شادی کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا اگر وہ چپ رہے تو یہی (اس کا چپ رہنا ہی) اس کی جانب سے اجازت ہے، اور اگر وہ انکار کر دے تو اس پر کوئی زور (زور و دباؤ) نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥١١٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/النکاح ٢٤ (٢٠٩٣) ، سنن الترمذی/النکاح ١٩ (١١٠٩) ، مسند احمد (٢/٢٥٩، ٤٧٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اگر وہ راضی نہیں ہوئی تو کوئی اور رشتہ دیکھو اور اگر وہ اس وقت شادی کرنا نہیں چاہتی تو اس وقت کا انتظار کرو جب وہ اس کے لیے آمادہ ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3270

【76】

احرام کی حالت میں نکاح کی اجازت

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے اس وقت شادی کی جب کہ آپ احرام باندھے ہوئے تھے ١ ؎، اور یعلیٰ (راوی) کی حدیث میں سرف کا بھی ذکر ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٢٠٠) ، مسند احمد (١/٣٣٦) (شاذ ) وضاحت : ١ ؎: حالت احرام میں نکاح حرام ہے، محرم نہ تو اپنا نکاح کرسکتا ہے، نہ ہی کسی دوسرے کا نکاح کرا سکتا ہے، اس حدیث میں آپ ﷺ کے متعلق جو یہ خبر دی جا رہی ہے کہ آپ نے میمونہ رضی الله عنہا سے حالت احرام میں شادی کی ہے درحقیقت اس سلسلہ میں راوی ابن عباس رضی الله عنہما کو وہم ہوگیا ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ کا میمونہ رضی الله عنہا سے بحالت حلال نکاح کرنے کی روایت متعدد طرق سے مختلف راویوں سے مروی ہے، جب کہ حالت احرام والی روایت تنہا ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے، اور کسی تنہا آدمی کا وہم میں مبتلا ہوجانا پوری ایک جماعت کے بالمقابل زیادہ آسان ہے۔ ( واللہ اعلم ) ٢ ؎: سرف ایک جگہ کا نام ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے میمونہ رضی الله عنہا سے شادی کی تھی۔ قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3271

【77】

احرام کی حالت میں نکاح کی اجازت

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالت احرام میں شادی کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٤٠ (شاذ ) قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3272

【78】

احرام کی حالت میں نکاح کی اجازت

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی، اور آپ اس وقت احرام میں تھے، میمونہ رضی اللہ عنہا نے اپنا معاملہ عباس (رض) کے سپرد کر رکھا تھا تو انہوں نے ان کی شادی آپ ﷺ کے ساتھ کردی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٩٢٩) (شاذ ) قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3273

【79】

احرام کی حالت میں نکاح کی اجازت

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حالت احرام میں ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (شاذ ) قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3274

【80】

احرام کی حالت میں نکاح کرنے کی ممانعت

عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : محرم نہ خود اپنا نکاح کرے نہ کسی اور کا کرائے، اور نہ (ہی) نکاح کا پیغام دے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3275

【81】

احرام کی حالت میں نکاح کرنے کی ممانعت

عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : محرم نہ اپنا نکاح کرے، نہ کسی کا کرائے، اور نہ ہی کہیں نکاح کا پیغام دے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3276

【82】

بووقت نکاح کونسی دعا پڑھنا مستحب ہے

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حاجت و ضرورت میں تشہد پڑھنے کی تعلیم دی ہے۔ اور تشہد فی الحاج ۃ یہ ہے کہ ہم (پہلے) پڑھیں : أن الحمد لله نستعينه ونستغفره ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا من يهده اللہ فلا مضل له ومن يضلل اللہ فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله (اور پھر) تین آیات پڑھے (اور ایجاب و قبول کرائے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٣ (٢١١٨) ، سنن الترمذی/النکاح ١٧ (١١٠٥) مطولا، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٩ (١٨٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٠٦) ، مسند احمد (١/٣٩٣، ٤٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وہ تینوں آیات یہ ہیں : يا أيها الناس اتقوا ربکم الذي خلقکم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا کثيرا ونساء واتقوا الله الذي تسائلون به والأرحام إن الله کان عليكم رقيبا لوگو ! اپنے اس رب سے ڈرو کہ جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کر کے ان دونوں سے مرد اور عورت کثرت سے پھیلا دیے، لوگو ! اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو، بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے ۔ ( النساء : ١ ) يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مسلمان ہی رہ کر مرو ۔ ( آل عمران : ١٠٢ ) يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وقولوا قولا سديدا يصلح لکم أعمالکم ويغفر لکم ذنوبکم ومن يطع الله ورسوله فقد فاز فوزا عظيما اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور نپی تلی بات کہو اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی ۔ ( الاحزاب : ٧٠ ، ٧١ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3277

【83】

بووقت نکاح کونسی دعا پڑھنا مستحب ہے

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے کسی چیز کے متعلق کچھ بات چیت کی تو نبی اکرم ﷺ نے (یہ خطبہ) ارشاد فرمایا : إن الحمد لله نحمده ونستعينه من يهده اللہ فلا مضل له ومن يضلل اللہ فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله أما بعد ١ ؎ (اور بات آگے بڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعہ ١٣ (٨٦٨) مطولا، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٩ (١٨٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٨٦) ، مسند احمد (١/٣٠٢، ٣٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اسی کے ہم ثناء خواں اور اسی کی مدد کے طلبگار ہیں، جسے اللہ تعالیٰ ہدایت بخشے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، اور جسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تنہا حقیقی معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گوائی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3278

【84】

خطبہ میں کیا پڑھنا مکروہ ہے

عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے نبی اکرم ﷺ کے سامنے (خطبہ) تشہد پڑھا، ان میں سے ایک نے کہا : من يطع اللہ ورسوله فقد رشد ومن يعصهما فقد غوى تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم بہت برے خطیب ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعہ ١٣ (٨٧٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٩ (١٠٩٩) ، والأدب ٨٥ (٤٩٨١) ، مسند احمد (٤/٢٥٦، ٣٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ تم نے من يعصهما کہہ کر اللہ و رسول کو ایک ہی درجہ میں کردیا۔ بہتر تھا کہ جس طرح من يطع الله و رسوله کہا ایسے ہی من يعص الله و رسوله کہتے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ ہدایت یاب ہوا اور جس نے اللہ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوا۔ بعض احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود ومن یعصہما کہا ہے تو اس سلسلہ میں صحیح اور درست بات یہ ہے کہ ایسا کرنا آپ کے علاوہ کے لیے منع ہے، کیونکہ آپ ﷺ کا اللہ و رسول کو ایک ہی ضمیر میں جمع کرنا اس سے دونوں کو برابری کا درجہ دینے کا وہم نہیں ہوسکتا اس لیے کہ آپ جس منصب و مقام پر فائز ہیں وہاں اس طرح کے وہم کی گنجائش ہی نہیں۔ جب کہ دوسرے اس وہم سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3279

【85】

وہ کلام جس سے نکاح درست ہوجاتا ہے

سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں لوگوں کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت نے کھڑے ہو کر کہا : اللہ کے رسول ! اس (بندی) نے اپنے آپ کو آپ کے حوالے کردیا، آپ جیسا چاہیں کریں۔ آپ خاموش رہے اور اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ عورت پھر کھڑی ہوئی اور کہا : اللہ کے رسول ! اس نے اپنے آپ کو آپ کی سپردگی میں دے دیا ہے۔ تو اس کے بارے میں آپ کی جو رائے ہو ویسا کریں۔ (اتنے میں) ایک شخص کھڑا ہو اور اس نے کہا : اللہ کے رسول ! میری اس (عورت) سے شادی کرا دیجئیے، آپ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے ؟ اس نے کہا نہیں ، آپ نے فرمایا : جا کچھ ڈھونڈ کر لا اگر لوہے کی انگوٹھی ہی ملے تو وہی لے آؤ، وہ گیا، اس نے تلاش کیا پھر آ کر کہا : مجھے تو کچھ نہیں ملا، لوہے کی انگوٹھی بھی نہ ملی۔ آپ نے فرمایا : تمہیں کچھ قرآن یاد ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے اس قرآن کے عوض جو تمہیں یاد ہے تمہارا نکاح اس عورت سے کردیا (تم اسے بھی انہیں یاد کرا دو ) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٠٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3280

【86】

نکاح درست ہونے کے لئے شرط

عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (نکاح کی) شرطوں میں سب سے پہلے پوری کی جانے والی شرط وہ ہے جس کے ذریعہ تم عورتوں کی شرمگاہیں اپنے لیے حلال کرتے ہو (یعنی مہر کی ادائیگی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشروط ٦ (٢٧٢١) ، النکاح ٥٣ (٥١٥١) ، صحیح مسلم/النکاح ٨ (١٤١٨) ، سنن ابی داود/النکاح ٤٠ (٢١٣٩) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٢ (١١٢٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤١ (١٩٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٣) ، مسند احمد (٤/١١٤، ١٥٠، ١٥١، ١٥٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٢١ (٢٢٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3281

【87】

نکاح درست ہونے کے لئے شرط

عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (نکاح کی) شرطوں میں سے پہلے پوری کی جانے والی شرط وہ ہے جس کے ذریعہ تم عورتوں کی شرمگاہیں اپنے لیے حلال کرتے ہو (یعنی مہر کی ادائیگی) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٨٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3282

【88】

اس نکاح سے متعلق کہ جس سے تین طلاق دی ہوئی عورت طلاق دینے والے شخص کے واسطے حلال ہوجاتی ہے

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ کی بیوی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا کہ رفاعہ نے مجھے طلاق بتہ (یعنی بالکل قطع تعلق کردینے والی آخری طلاق) دے دی ہے، اور میں نے ان کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کرلی جن کے پاس بس کپڑے کی جھالر جیسا ہے، (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے اور فرمایا : شاید تم رفاعہ کے پاس دوبارہ واپس جانا چاہتی ہو (تو سن لو) یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ تمہارا شہد اور تم اس کا شہد نہ چکھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٣ (٢٦٣٩) ، الطلاق ٤ (٥٢٦٠) ، ٧ (٥٢٦٥) ، ٣٧ (٥٣١٧) ، اللباس ٦ (٥٧٩٢) ، الأدب ٦٨ (٦٠٨٤) ، صحیح مسلم/النکاح ١٧ (١٤٣٣) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٧ (١١١٨) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٢ (١٩٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٦) ، مسند احمد (٦/٣٤، ٣٧، ١٩٢، ٢٢٦، ٢٢٩) ، سنن الدارمی/الطلاق ٤ (٢٣١٣) ، ویأتی عند المؤلف ٣٤٤٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مقصد یہ ہے کہ جب عورت اور مرد ہمبستری کرلیں اور پھر شوہر اس عورت کو طلاق دیدے تو یہ مطلقہ عورت اپنے پہلے شوہر کے پاس جس نے اس کو تین طلاق دے کر اپنے سے جدا کردیا تھا، نئے نکاح سے واپس ہوسکتی ہے، یہاں پر ہمبستری کی لذت کو ایک دوسرے کے شہد چکھنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3283

【89】

جس کسی نے دوسرے کے پاس پرورش حاصل کی تو وہ اس پر حرام ہے

ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ میری بہن بنت ابی سفیان سے شادی کرلیجئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اسے پسند کرلو گی ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! میں آپ کی اکیلی بیوی تو ہوں نہیں اور مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ بھلائی اور اچھائی میں میری جو ساجھی دار بنے وہ میری بہن ہو۔ آپ نے فرمایا : تمہاری بہن (تمہاری موجودگی میں) میرے لیے حلال نہیں ہے ، میں نے کہا : اللہ کے رسول، قسم اللہ کی ! ہم آپس میں بات چیت کر رہے تھے کہ آپ ابوسلمہ کی بیٹی درہ سے نکاح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم ام سلمہ کی بیٹی کی بات کر رہی ہو ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : قسم اللہ کی اگر وہ میری ربیبہ نہ ہوتی اور میری گود میں نہ پلی ہوتی تو بھی وہ میرے لیے حلال نہ ہوتی، اس لیے کہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے (اور رضاعت سے ہر وہ چیز حرام ہوجاتی ہے جو قرابت داری (رحم) سے حرام ہوتی ہے) مجھے اور ابوسلمہ دونوں کو ثویبہ نے دودھ پلایا ہے۔ تو تم (آئندہ) اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو (رشتہ کے لیے) مجھ پر پیش نہ کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٠ (٥١٠١) ، ٢٥ (٥١٠٦) ، ٢٦ (٥١٠٧) ، ٣٣ (٥١٢٣) ، النفقات ١٦ (٥٣٧٢) ، صحیح مسلم/الرضاع ٤ (١٤٤٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٤ (١٩٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٧٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/النکاح ٧ (٢٠٥٦) ، مسند احمد (٦/٢٩١، ٣٠٩، ٤٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3284

【90】

ماں اور بیٹی کو ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنا حرام ہے

زینب بنت ابی سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ میرے باپ کی بیٹی یعنی میری بہن سے نکاح کرلیجئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم (واقعی) اسے پسند کرتی ہو ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! میں آپ کی تنہا بیوی تو ہوں نہیں مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ خیر میں جو عورت میری شریک بنے وہ میری بہن ہو، (اس بات چیت کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ حلال نہیں ہے ، ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اللہ کے رسول، قسم اللہ کی ! ہم نے تو سنا ہے کہ آپ ابوسلمہ کی بیٹی درہ سے نکاح کرنے والے ہیں ؟ آپ نے (استفہامیہ انداز میں) کہا : ام سلمہ کی بیٹی ؟ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا : جی ہاں (ام سلمہ کی بیٹی) ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم اللہ کی اگر وہ میری آغوش کی پروردہ (ربیبہ) نہ بھی ہوتی، تب بھی وہ میرے لیے حلال نہ ہوتی، وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔ مجھے اور ابوسلمہ کو تو ثویبہ (نامی عورت) نے دودھ پلایا ہے۔ تو ( سنو ! آئندہ) اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو نکاح کے لیے میرے اوپر پیش نہ کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3285

【91】

ماں اور بیٹی کو ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنا حرام ہے

زینب بنت ام سلمہ رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : ہماری آپس کی بات چیت میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ آپ ابوسلمہ کی بیٹی درہ سے نکاح کرنے والے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا ام سلمہ کے (میرے نکاح میں) ہوتے ہوئے ؟ ١ ؎ اگر میں نے ام سلمہ سے نکاح نہ بھی کیا ہوتا تو بھی وہ (درہ) میرے لیے حلال نہ ہوتی، کیونکہ (وہ میری بھتیجی ہے اور) اس کا باپ میرا رضاعی بھائی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٨٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ ایک لڑکی کی ماں اگر کسی کی نکاح میں ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی بیٹی بھی اس شخص کے نکاح میں نہیں آسکتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3286

【92】

دو بہنوں کو ایک (شخص کے) نکاح میں جمع کرنے سے متعلق

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا آپ کو میری بہن میں کچھ رغبت (دلچسپی) ہے ؟ آپ نے فرمایا : (اگر دلچسپی ہو) تو میں کیا کروں ؟ انہوں نے کہا : آپ اس سے شادی کرلیں، آپ نے کہا : یہ اس لیے کہہ رہی ہو کہ تمہیں یہ زیادہ پسند ہے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! میں آپ کی تنہا بیوی نہیں ہوں اور مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ خیر میں جو میری ساجھی دار بنے وہ میری اپنی سگی بہن ہو، آپ نے فرمایا : وہ میرے لیے حلال نہیں ہے ، انہوں نے کہا : مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ درہ بنت ام سلمہ سے شادی کرنے والے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : (تم) ام سلمہ کی بیٹی سے (کہہ رہی ہو) ؟ انہوں نے کہا : ہاں (میں انہی کا نام لے رہی ہوں) ، آپ نے فرمایا : قسم اللہ کی ! اگر وہ میری ربیبہ میری گود کی پروردہ نہ ہوتی تب بھی وہ میرے لیے حلال نہ ہوتی (وہ تو دو حیثیتوں سے میرے لیے حرام ہے ایک تو اس کی حیثیت میری بیٹی کی ہے اور دوسرے) وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے (یعنی میری بھتیجی ہے) ، تو (آئندہ) اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو میرے اوپر (شادی کے لیے) پیش نہ کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3287

【93】

پھوپھی اور بھتیجی کو ایک نکاح میں جمع کرنا

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (نکاح میں) عورت اور اس کی پھوپھی کو نہ جمع کیا جائے گا، اور نہ ہی عورت اور اس کی خالہ کو اکٹھا کیا جائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٧ (٥١٠٩) ، صحیح مسلم/النکاح ٤ (١٤٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨١٢) موطا امام مالک/النکاح ٨ (٢٠) ، مسند احمد (٢/٤٦٥، ٥١٦، ٥٢٩، ٥٣٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٨ (٢٢٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کسی شخص کی زوجیت میں بھتیجی اور پھوپھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں، اور نہ ہی بھانجی اور اس کی خالہ ایک ساتھ رہ سکتی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3288

【94】

پھوپھی اور بھتیجی کو ایک نکاح میں جمع کرنا

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ (کسی کی زوجیت میں) عورت اور اس کی پھوپھی کو، عورت اور اس کی خالہ کو اکٹھا کیا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٧ (٥١١٠، ٥١١١) ، صحیح مسلم/النکاح ٤ (١٤٠٨) ، سنن ابی داود/النکاح ١٣ (٢٠٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٨٨) ، مسند احمد (٢/٤٠١، ٤٥٢، ٥١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر ایک عورت سے شادی کرچکا ہے تو دوسری شادی وہ اس کی خالہ یا اس کی پھوپھی سے نہیں کرسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3289

【95】

پھوپھی اور بھتیجی کو ایک نکاح میں جمع کرنا

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ عورت کو اس کی پھوپھی، یا اس کی خالہ کے ساتھ نکاح میں جمع کیا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٤ (١٤٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کسی عورت کی پھوپھی یا اس کی خالہ نکاح میں ہو تو اس عورت سے شادی نہ کی جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3290

【96】

پھوپھی اور بھتیجی کو ایک نکاح میں جمع کرنا

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عورتوں کو نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا ہے، عورت اور اس کی پھوپھی کو، عورت اور اس کی خالہ کو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بھتیجی اور اس کی پھوپھی کو، بھانجی اور اس کی خالہ کو نکاح میں جمع نہیں کیا جاسکتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3291

【97】

پھوپھی اور بھتیجی کو ایک نکاح میں جمع کرنا

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسی عورت سے شادی نہ کی جائے جس کی پھوپھی پہلے سے اس کی نکاح میں موجود ہو ١ ؎ اور نہ ہی ایسی عورت سے شادی کی جائے جس کی خالہ پہلے سے اس کے نکاح میں ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٤١٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی منکوحہ کی بھتیجی اور بھانجی سے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3292

【98】

پھوپھی اور بھتیجی کو ایک نکاح میں جمع کرنا

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کسی عورت سے (نکاح میں) اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کی موجودگی میں شادی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٤ (١٤٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٩٠) ، مسند احمد (٢/٢٢٩، ٣٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3293

【99】

پھوپھی اور بھتیجی کو ایک نکاح میں جمع کرنا

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی عورت سے اس کی پھوپھی کی موجودگی میں شادی نہ کی جائے، اور نہ ہی اس کی خالہ کی موجودگی میں اس سے شادی کی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٤٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3294

【100】

بھانجی اور خالہ کو ایک وقت میں نکاح میں رکھنا حرام ہے

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی عورت سے اس کی پھوپھی کی موجودگی میں اور اسی طرح اس کی خالہ کی موجودگی میں شادی نہ کی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٤٥٥٢) ، مسند احمد (٢/٤٣٢، ٤٧٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3295

【101】

بھانجی اور خالہ کو ایک وقت میں نکاح میں رکھنا حرام ہے

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ کسی عورت سے اس کی پھوپھی کی موجودگی میں، اور پھوپھی سے اس کی بھتیجی کی موجودگی میں شادی کی جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٧ (٥١٠٨) تعلیقًا، سنن ابی داود/النکاح ١٣ (٢٠٦٥) مطولا، سنن الترمذی/النکاح ٣١ (١١٢٦) مطولا، (تحفة الأشراف : ١٣٥٣٩) ، مسند احمد (٢/٤٢٦، سنن الدارمی/النکاح ٨ (٢٢٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3296

【102】

بھانجی اور خالہ کو ایک وقت میں نکاح میں رکھنا حرام ہے

شعبہ کہتے ہیں کہ مجھے عاصم نے بتایا کہ میں نے شعبی کے سامنے ایک کتاب پڑھی جس میں جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی عورت سے اس کی پھوپھی کی موجودگی میں، اور اسی طرح اس کی خالہ کی موجودگی میں شادی نہیں کی جاسکتی تو شعبی نے کہا : میں نے یہ حدیث جابر (رض) سے سنی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٧ (٥١٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٤٥) ، مسند احمد (٣/٣٣٨، ٣٨٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3297

【103】

بھانجی اور خالہ کو ایک وقت میں نکاح میں رکھنا حرام ہے

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ کسی عورت سے اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کے نکاح میں ہوتے ہوئے شادی کی جائے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3298

【104】

بھانجی اور خالہ کو ایک وقت میں نکاح میں رکھنا حرام ہے

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ کسی عورت سے اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کی موجودگی میں شادی کی جائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٨٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3299

【105】

دودھ کی وجہ سے کون کون سے رشتے حرام ہوجاتے ہیں

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو رشتے (ماں کے پیٹ سے) پیدا ہونے سے حرام ہوتے ہیں وہی رشتے (عورت کا) دودھ پینے سے بھی حرام ہوتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٧ (٢٠٥٥) ، سنن الترمذی/الرضاع ١ (١١٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٤٤) ، موطا امام مالک/الرضاع ٣ (١٥) ، مسند احمد (٦/٤٤، ٥١، ٦٦، ٦٦، ٧٢، ١٠٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٨ (٢٢٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نکاح کے حرام ہونے میں رضاعت اور ولادت کا ایک ہی حکم ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3300

【106】

دودھ کی وجہ سے کون کون سے رشتے حرام ہوجاتے ہیں

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ان کے رضاعی چچا افلح نے ان کے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے ان سے پردہ کیا، اس کی اطلاع رسول اللہ ﷺ کو دی گئی تو آپ ﷺ نے (عائشہ سے) فرمایا : ان سے پردہ مت کرو، کیونکہ نسب سے جو رشتے حرام ہوتے ہیں، وہی رشتے رضاعت سے بھی حرام ہوتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٧ (٢٦٤٤) ، تفسیر سورة السجدة ٩ (٤٧٩٦) ، النکاح ٢٢ (٥١٠٣) ، ١١٧ (٥٢٣٩) ، الأدب ٩٣ (٦١٥٦) ، صحیح مسلم/الرضاع ٢ (١٤٤٥) ، موطا امام مالک/الرضاع ١ (١) ، مسند احمد (٦/٢١٧) ، ویأتي عند المؤلف ٣٣٢٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ جب حقیقی چچا سے پردہ نہیں ہے تو رضاعی چچا سے بھی پردہ نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3301

【107】

دودھ کی وجہ سے کون کون سے رشتے حرام ہوجاتے ہیں

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رضاعت سے وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ١ (١٤٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٠٢) ، موطا امام مالک/الرضاع ١ (١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3302

【108】

دودھ کی وجہ سے کون کون سے رشتے حرام ہوجاتے ہیں

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رضاعت سے وہ رشتے حرام ہوتے ہیں جو ولادت سے حرام ہوتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٩٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نسلی حقیقی رشتے سے جو لوگ حرام ہوتے ہیں وہی لوگ رضاعت سے بھی حرام ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3303

【109】

دودھ کی وجہ سے کون کون سے رشتے حرام ہوجاتے ہیں

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا بات ہے آپ کی مہربانیاں و دلچسپیاں قریش میں بڑھ رہی ہیں اور (ہم جو آپ کے خاص الخاص ہیں) آپ ہمیں چھوڑ رہے (اور نظر انداز فرما رہے) ہیں ؟ آپ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کوئی (شادی کے لائق) ہے ؟ میں نے کہا : ہاں ! حمزہ (رض) کی بیٹی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ تو میرے لیے حلال نہیں ہے، کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٣ (١٤٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٧١) ، مسند احمد (١/٨٢، ١١٤، ١٢٦، ١٣٢، ١٥٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3304

【110】

دودھ کی وجہ سے کون کون سے رشتے حرام ہوجاتے ہیں

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے حمزہ (رض) کی بیٹی (سے شادی) کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے ١ ؎۔ شعبہ کہتے ہیں : اس روایت کو قتادہ نے جابر بن زید سے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٧ (٢٦٤٥) ، والنکاح ٣٥ (٥١٠٠) ، صحیح مسلم/الرضاع ٣ (١٤٤٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٤ (١٩٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٧٨) ، مسند احمد (١/٢٢٣، ٢٧٥، ٢٩٠، ٣٢٩، ٣٣٩، ٣٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور دودھ بھائی کی بیٹی سے شادی حرام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3305

【111】

دودھ کی وجہ سے کون کون سے رشتے حرام ہوجاتے ہیں

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو حمزہ (رض) کی بیٹی سے شادی کرلینے کی ترغیب دی گئی، تو آپ نے فرمایا : وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے اور رضاعت (دودھ پینے) سے ہر وہ رشتہ، ناطہٰ حرام ہوجاتا ہے جو رشتہ، ناطہٰ نسب سے حرام ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٠٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3306

【112】

کتنا دودھ پی لینے سے حرمت ہوتی ہے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں اللہ عزوجل نے جو نازل فرمایا اس میں یہ (حارث کی روایت میں قرآن میں جو نازل ہوا اس میں تھا) عشر رضعات معلومات يحرمن (دس (واضح) معلوم گھونٹ نکاح کو حرام کردیں گے) ، پھر یہ دس گھونٹ منسوخ کر کے پانچ معلوم گھونٹ کردیا گیا (یعنی خمس رضعات معلومات) ۔ پھر رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوگیا، اور یہ آیت قرآن میں پڑھی جاتی رہی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٦ (١٤٥٢) ، سنن ابی داود/النکاح ١١ (٢٠٦٢) ، سنن الترمذی/الرضاع ٣ (١١٥٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٥ (١٩٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٩٧) ، موطا امام مالک/الرضاع ١ (١) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٩ (٢٢٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آپ کے انتقال کے قریبی زمانہ میں پانچ گھونٹ کی بھی آیت منسوخ ہوگئی، لیکن جنہیں بروقت اس کے منسوخ ہونے کا پتہ نہ چل سکا، انہوں نے اس کے پڑھے جانے کا ہی ذکر کردیا ہے۔ پھر جب انہیں منسوخ ہونے کا علم ہوگیا تو انہوں نے بھی اس کا پڑھنا ( و لکھنا ) ترک کردیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3307

【113】

کتنا دودھ پی لینے سے حرمت ہوتی ہے؟

ام الفضل رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے رضاعت (یعنی دودھ پلانے) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : ایک بار اور دو بار کا پلانا (نکاح کو) حرام نہیں کرتا ۔ قتادہ اپنی روایت میں الإملاجة ولا الإملاجتان‏ کی جگہ المصة والمصتان کہتے ہیں، یعنی ایک بار یا دو بار چھاتی کا چوسنا نکاح کو حرام نہ کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٥ (١٤٥١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٥ (١٩٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٥١) ، مسند احمد (٦/٣٣٩، ٣٤٠) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٩ (٢٢٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3308

【114】

کتنا دودھ پی لینے سے حرمت ہوتی ہے؟

عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک بار اور دو بار چھاتی کا چوسنا حرمت کو ثابت نہیں کرتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٢٨١) ، مسند احمد (٤/٤، ٥) (صحیح، انظر ما بعدہ ٣١٠٢ ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3309

【115】

کتنا دودھ پی لینے سے حرمت ہوتی ہے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک بار اور دو بار چھاتی کا چوسنا (نکاح کو) حرام نہیں کرتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٥ (١٤٥٠) ، سنن ابی داود/النکاح ١١ (٢٠٦٣) ، سنن الترمذی/الرضاع ٣ (١١٥٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٥ (١٩٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٨٩) ، مسند احمد ٦/٣١، ٩٥، ٢١٦، ٢٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایک گھونٹ یا دو گھونٹ دودھ پی لینے سے اس سے نکاح کی حرمت کا حکم لاگو نہیں ہوتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3310

【116】

کتنا دودھ پی لینے سے حرمت ہوتی ہے؟

قتادہ کہتے ہیں کہ ہم نے ابراہیم بن یزید نخعی کے پاس (خط) لکھ کر رضاعت کا مسئلہ پوچھا تو انہوں نے (جواب میں) لکھا کہ مجھ سے شریح نے بیان کیا ہے کہ علی اور ابن مسعود (رض) دونوں کہتے تھے کہ دودھ تھوڑا پئے یا زیادہ رضاعت سے حرمت (نکاح) ثابت ہوجائے گی، اور ان کی کتاب (تحریر) میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ ابوالشعثاء محاربی نے مجھ سے بیان کیا کہ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے : ایک بار یا دو بار اچک لینے (یعنی ایک یا دو گھونٹ پی لینے) سے نکاح کی حرمت قائم نہیں ہوتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠١٢٤، ١٦١٣٣) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: اس لیے یہاں قول صحابہ پر نہیں قول رسول پر عمل ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3311

【117】

کتنا دودھ پی لینے سے حرمت ہوتی ہے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے (اس وقت) میرے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا یہ آپ پر بڑا گراں گزرا، میں نے آپ کے چہرہ مبارک پر ناراضگی دیکھی تو کہا : اللہ کے رسول ! یہ شخص میرا رضاعی بھائی ہے، آپ نے فرمایا : اچھی طرح دیکھ بھال لیا کرو کہ تمہارے رضاعی بھائی کون ہیں، کیونکہ دودھ پینے کا اعتبار بھوک میں (جبکہ دودھ ہی غذا ہو) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٧ (٢٦٤٧) ، النکاح ٢٢ (٥١٠٢) ، صحیح مسلم/الرضاع ٨ (١٤٥٥) ، سنن ابی داود/النکاح ٩ (٢٠٥٨) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٥ (١٩٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٨) ، مسند احمد (٦/٩٤، ١٣٨، ١٧٤، ٢٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3312

【118】

عورت کے دودھ پلانے سے مرد (شوہر) سے بھی رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف فرما تھے تو انہوں نے سنا کہ ایک آدمی حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کر رہا ہے، تو میں نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ شخص آپ کے گھر میں اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں نے اسے پہچان لیا ہے، وہ حفصہ کا رضاعی چچا ہے ، میں نے کہا : اگر فلاں میرے رضاعی چچا زندہ ہوتے تو میرے یہاں بھی آیا کرتے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رضاعت (دودھ کا رشتہ) ویسے ہی (نکاح کو) حرام کرتا ہے جیسے ولادت (نسل) میں ہونے سے حرمت ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٧ (٢٦٤٦) ، الخمس ٤ (٣١٠٥) ، النکاح ٢٠ (٥٠٩٩) ، صحیح مسلم/الرضاع ١ (١٤٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٠٠) ، موطا امام مالک/الرضاع ١ (١) ، مسند احمد (٦/٤٤، ٥١، ١٧٨، سنن الدارمی/النکاح ٤٩ (٢٢٩٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3313

【119】

عورت کے دودھ پلانے سے مرد (شوہر) سے بھی رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا ابوالجعد میرے پاس آئے، تو میں نے انہیں واپس لوٹا دیا (ہشام کہتے ہیں کہ وہ ابوالقعیس تھے) ، پھر جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ کو یہ بات بتائی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں (گھر میں) آنے کی اجازت دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٢ (١٤٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٧٥) ، مسند احمد (٦/٢٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3314

【120】

عورت کے دودھ پلانے سے مرد (شوہر) سے بھی رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ پردہ کی آیت کے نازل ہونے کے بعد ابوالقعیس کے بھائی نے میرے پاس آنے کی اجازت مانگی تو میں نے اجازت دینے سے انکار کردیا، اس کا تذکرہ نبی اکرم ﷺ سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا : انہیں اجازت دے دو وہ تمہارے چچا ہیں ، میں نے کہا : مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں۔ آپ نے فرمایا : وہ تمہارے چچا ہیں وہ تمہارے پاس آسکتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٣٤٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3315

【121】

عورت کے دودھ پلانے سے مرد (شوہر) سے بھی رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ابوالقعیس کے بھائی افلح جو میرے رضاعی چچا ہوتے تھے میرے پاس آنے کی اجازت مانگ رہے تھے تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کردیا، جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ کو یہ بات بتائی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم انہیں اجازت دے دو کیونکہ وہ تمہارے چچا ہیں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : یہ واقعہ پردہ کی آیت کے نزول کے بعد کا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٢ (٥١٠٣) ، صحیح مسلم/الرضاع ٢ (١٤٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٩٧) ، موطا امام مالک/الرضاع ١ (٣) ، مسند احمد (٦/١٧٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3316

【122】

عورت کے دودھ پلانے سے مرد (شوہر) سے بھی رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے چچا افلح نے پردہ کی آیت کے اترنے کے بعد میرے پاس آنے کی اجازت طلب کی، تو میں نے انہیں اجازت نہیں دی، پھر نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے، تو میں نے آپ سے اس بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا : انہیں اجازت دو کیونکہ وہ تمہارے چچا ہیں ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھے تو عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں پلایا ہے (وہ میرے محرم کیسے ہوگئے) ، آپ نے فرمایا : تم انہیں (اندر) آنے کی اجازت دو ، تمہارے ہاتھ میں مٹی لگے (تمہیں نہیں معلوم ؟ ) وہ تمہارے چچا ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٢ (١٤٤٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٨ (١٩٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٤٣، ١٦٩٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3317

【123】

عورت کے دودھ پلانے سے مرد (شوہر) سے بھی رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ابوالقعیس کے بھائی افلح (میرے پاس گھر میں آنے کی) اجازت مانگنے آئے، میں نے کہا : میں جب تک خود نبی اکرم ﷺ سے اجازت نہ لے لوں انہیں اجازت نہ دوں گی، تو جب نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے بتایا کہ ابوالقعیس کے بھائی افلح آئے تھے اور اندر آنے کی اجازت مانگ رہے تھے، تو میں نے انہیں اجازت نہیں دی، آپ نے فرمایا : (نہیں) انہیں اجازت دے دو کیونکہ وہ تمہارے چچا ہیں ، میں نے کہا : مجھے تو ابوالقعیس کی بیوی نے دودھ پلایا ہے، مرد نے نہیں پلایا ہے۔ آپ نے فرمایا : (بھلے سے مرد نے نہیں پلایا ہے) تم انہیں آنے دو ، وہ تمہارے چچا ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٠٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3318

【124】

بڑے کو دودھ پلانے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! سالم جب میرے پاس آتے ہیں تو میں (اپنے شوہر) ابوحذیفہ (رض) کے چہرے پر (ناگواری) دیکھتی ہوں (اور ان کا آنا ناگزیر ہے) ١ ؎ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم انہیں دودھ پلا دو ، میں نے کہا : وہ تو ڈاڑھی والے ہیں، (بچہ تھوڑے ہیں) ، آپ نے فرمایا : (پھر بھی) دودھ پلا دو ، دودھ پلا دو گی تو ابوحذیفہ (رض) کے چہرے پر جو تم (ناگواری) دیکھتی ہو وہ ختم ہوجائے گی ، سہلہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : اللہ کی قسم ! دودھ پلا دینے کے بعد پھر میں نے ابوحذیفہ (رض) کے چہرے پر کبھی کوئی ناگواری نہیں محسوس کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٧ (١٤٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٤١) ، مسند احمد (٦/١٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوحذیفہ سہلہ رضی الله عنہا کے شوہر تھے، انہوں نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب متبنی کے سلسلہ میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی تھی، پھر جب تبنی حرام قرار پایا تو ابوحذیفہ رضی الله عنہ کو یہ چیز ناپسند آئی کہ سالم ان کے گھر میں پہلے کی طرح آئیں، یہی وہ مشکل تھی جسے حل کرنے کے لیے سہلہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پہنچیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3319

【125】

بڑے کو دودھ پلانے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، اور کہا : میں سالم کے اپنے پاس آنے جانے سے (اپنے شوہر) ابوحذیفہ کے چہرے میں کچھ (تبدیلی و ناگواری) دیکھتی ہوں، آپ نے فرمایا : تم انہیں اپنا دودھ پلا دو ، انہوں نے کہا : میں انہیں کیسے دودھ پلا دوں وہ تو بڑے (عمر والے) آدمی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : کیا مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ بڑی عمر کے ہیں ، اس کے بعد وہ (دودھ پلا کر پھر ایک دن) آئیں اور کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو نبی بنا کر حق کے ساتھ بھیجا ہے ! میں نے اس کے بعد ابوحذیفہ کے چہرے پر کوئی ناگواری کی چیز نہیں دیکھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٧ (١٤٥٣) ، سنن النسائی/النکاح ٣٦ (١٩٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٨٤) ، مسند احمد (٦/٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3320

【126】

بڑے کو دودھ پلانے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ابوحذیفہ کی بیوی کو حکم دیا کہ تم ابوحذیفہ کے غلام سالم کو دودھ پلا دو تاکہ ابوحذیفہ کی غیرت (ناگواری) ختم ہوجائے۔ تو انہوں نے انہیں دودھ پلا دیا اور وہ (بچے نہیں) پورے مرد تھے۔ ربیعہ (اس حدیث کے راوی) کہتے ہیں : یہ رخصت صرف سالم کے لیے تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٤٥٢) ، مسند احمد (٦/٢٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کسی دوسرے بڑے شخص کو دودھ پلانے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی، جمہور کی رائے یہی ہے کہ یہ سالم کے ساتھ خاص تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3321

【127】

بڑے کو دودھ پلانے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سہلہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور آپ سے کہا : اللہ کے رسول ! سالم ہمارے پاس آتا جاتا ہے (اب وہ بڑا ہوگیا ہے) جو باتیں لوگ سمجھتے ہیں وہ بھی سمجھتا ہے اور جو باتیں لوگ جانتے ہیں وہ بھی جان گیا ہے (اور اس کا آنا جانا بھی ضروری ہے) آپ نے فرمایا : تو اسے اپنا دودھ پلا دے تو اپنے اس عمل سے اس کے لیے حرام ہوجائے گی ۔ ابن ابی ملیکہ (اس حدیث کے راوی) کہتے ہیں : میں نے اس حدیث کو سال بھر کسی سے بیان نہیں کیا، پھر میری ملاقات قاسم بن محمد سے ہوئی (اور اس کا ذکر آیا) تو انہوں نے کہا : اس حدیث کو بیان کرو اور اس کے بیان کرنے میں (شرماؤ) اور ڈرو نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٧ (١٤٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٦٤) ، مسند احمد (٦/٢٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3322

【128】

بڑے کو دودھ پلانے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ کے غلام سالم ابوحذیفہ اور ان کی بیوی (بچوں) کے ساتھ ان کے گھر میں رہتے تھے۔ تو سہیل کی بیٹی (سہلہ ابوحذیفہ کی بیوی) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں، اور کہا کہ سالم لوگوں کی طرح جوان ہوگیا ہے اور اسے لوگوں کی طرح ہر چیز کی سمجھ آگئی ہے اور وہ ہمارے پاس آتا جاتا ہے اور میں اس کی وجہ سے ابوحذیفہ کے دل میں کچھ (کھٹک) محسوس کرتی ہوں، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم اسے دودھ پلا دو ، تو تم اس پر حرام ہوجاؤ گی تو انہوں نے اسے دودھ پلا دیا، چناچہ ابوحذیفہ کے دل میں جو (خدشہ) تھا وہ دور ہوگیا، پھر وہ لوٹ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس (دوبارہ) آئیں اور (آپ سے) کہا : میں نے (آپ کے مشورہ کے مطابق) اسے دودھ پلا دیا، اور میرے دودھ پلا دینے سے ابوحذیفہ کے دل میں جو چیز تھی یعنی کبیدگی اور ناگواری وہ ختم ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3323

【129】

بڑے کو دودھ پلانے سے متعلق

زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سبھی ازواج مطہرات ١ ؎ نے اس بات سے انکار کیا کہ کوئی ان کے پاس اس رضاعت کا سہارا لے کر (گھر کے اندر) آئے، مراد اس سے بڑے کی رضاعت ہے اور سب نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا : قسم اللہ کی ! ہم سمجھتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے سہلہ بنت سہیل کو (سالم کو دودھ پلانے کا) جو حکم دیا ہے وہ حکم رسول اللہ ﷺ کی جانب سے سالم کی رضاعت کے سلسلہ میں خاص تھا۔ قسم اللہ کی ! اس رضاعت کے ذریعہ کوئی شخص ہمارے پاس آ نہیں سکتا اور نہ ہمیں دیکھ سکتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : النکاح ١٠ (٢٠٦١) مطولا، (تحفة الأشراف : ١٨٣٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عائشہ رضی الله عنہا کے علاوہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3324

【130】

بڑے کو دودھ پلانے سے متعلق

ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی تھیں کہ سبھی ازواج مطہرات نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس رضاعت (یعنی بڑے کی رضاعت) کو دلیل بنا کر ان کے پاس (یعنی کسی بھی عورت کے پاس) جایا جائے، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا : قسم اللہ کی ! ہم اس رخصت کو عام رخصت نہیں سمجھتے، یہ رخصت رسول اللہ ﷺ نے خاص سالم کے لیے دی تھی، اس رضاعت کو دلیل بنا کر ہم عورتوں کے پاس کوئی آ جا نہیں سکتا اور نہ ہی ہم عورتوں کو دیکھ سکتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٧ (١٤٥٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٧ (١٩٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٧٤) ، مسند احمد (٦/٣١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3325

【131】

بچے کو دودھ پلانے کے دوران بیوی سے صحبت کرنا

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ جدامہ بنت وہب نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا ارادہ ہوا کہ غیلہ سے روک دوں پھر مجھے خیال ہوا کہ روم و فارس کے لوگ بھی غیلہ کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ اسحاق (راوی) کی روایت میں یصنعہ کی جگہ یصنعونہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٢٤ (١٤٤٢) ، سنن ابی داود/الطب ١٦ (٣٨٨٢) ، سنن الترمذی/الطب ٢٧ (٢٠٧٦) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٦ (٢٠١١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٦) ، موطا امام مالک/الرضاع ٣ (١٦) ، مسند احمد (٦/٣٦١، ٤٣٤) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٣ (٢٢٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: غیلہ یعنی دودھ پلانے والی عورت سے جماع کرنا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3326

【132】

عزل کے بارے میں

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس کا یعنی عزل کا ذکر ہوا، تو آپ نے فرمایا : یہ کیا ہے ؟ (ذرا تفصیل بتاؤ) ہم نے کہا : آدمی کے پاس بیوی ہوتی ہے، اور وہ اس سے صحبت کرتا ہے اور حمل کو ناپسند کرتا ہے، (ایسے ہی) آدمی کے پاس لونڈی ہوتی ہے وہ اس سے صحبت کرتا ہے، اور نہیں چاہتا کہ اس کو اس سے حمل رہ جائے ٢ ؎، آپ نے فرمایا : اگر تم ایسا نہ کرو تو تمہیں نقصان نہیں ہے، یہ تو صرف تقدیر کا معاملہ ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٢٢ (١٤٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٤١١٣) ، مسند احمد (٣/١١) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٦ (٢٢٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عزل جماع کے دوران شرمگاہ سے باہر منی خارج کرنا۔ ٢ ؎: اس لیے جماع کے دوران جب انزال کا وقت آتا ہے تو وہ شرمگاہ سے باہر انزال کرتا ہے تاکہ اس کی منی بچہ دانی میں داخل نہ ہو سکے کہ جس سے وہ حاملہ ہوجائے یہ کام کیسا ہے ؟۔ ٣ ؎: بچے کی پیدائش یا عدم پیدائش میں عزل یا غیر عزل کا دخل نہیں بلکہ یہ تقدیر کا معاملہ ہے۔ اگر کسی بچے کی پیدائش لکھی جا چکی ہے تو تم اس کے وجود کے لیے موثر نطفے کو باہر ڈال ہی نہ سکو گے، اس کا انزال شرمگاہ کے اندر ہی ہوگا، اور وہ حمل بن کر ہی رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3327

【133】

عزل کے بارے میں

ابوسعید زرقی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عزل کے بارے میں پوچھا، اس نے کہا : میری بیوی دودھ پلاتی ہے، اور میں ناپسند کرتا ہوں کہ وہ حاملہ ہو تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رحم میں جس کا آنا مقدر ہوچکا ہے وہ ہو کر رہے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٢٠٤٥) ، مسند احمد (٣/٤٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چاہے تم عزل کرو یا نہ کرو اس لیے عزل کر کے بےمزہ ہونا اچھا نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3328

【134】

رضاعت کا حق اور اس کی حرمت سے متعلق حدیث

حجاج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : رضاعت کے حق کی ادائیگی کی ذمہ داری سے مجھے کیا چیز عہدہ بر آ کرسکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : شریف غلام یا شریف لونڈی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ١٢ (٢٠٦٤) ، سنن الترمذی/الرضاع ٦ (١١٥٣) ، مسند احمد (٣/٤٥٠) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٠ (٢٣٠٠) (ضعیف) (اس کے راوی ” حجاج بن حجاج “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یعنی شریف ولائق غلام یا شریف ولائق لونڈی دے دو تاکہ وہ اس کی خدمت کرے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3329

【135】

رضاعت میں گواہی کے متعلق

عقبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے نکاح کیا تو ہمارے پاس ایک حبشی عورت آئی اور اس نے کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو بتایا کہ میں نے فلان بنت فلاں سے شادی کی ہے پھر میرے پاس ایک حبشی عورت آئی، اس نے کہا : میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، (یہ سن کر) آپ نے اپنا چہرہ مجھ سے پھیرلیا ١ ؎ تو میں پھر آپ کے چہرے کی طرف سے سامنے آیا اور میں نے کہا : وہ جھوٹی ہے، آپ نے فرمایا : تم اسے کیسے جھوٹی کہہ سکتے ہو، جب کہ وہ بیان کرتی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، تو اس کو چھوڑ کر اپنے سے الگ کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢٦ (٨٨) ، البیوع ٣ (٢٠٥٢) ، الشہادات ٤ (٢٦٤٠) ، ١٣ (٢٦٥٩) ، ١٤ (٢٦٦٠) ، والنکاح ٢٣ (٥١٠٤) ، سنن ابی داود/الأقضیة ١٨ (٣٦٠٤) ، سنن الترمذی/الرضاع ٤ (١١٥١) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٥) ، مسند احمد (٤/٧، ٨، ٣٨٤، سنن الدارمی/النکاح ٥١ (٢٣٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آپ نے ایسا اس لیے کیا تاکہ یہ شخص اس بات سے آگاہ ہوجائے کہ ایسی صورت میں کسی عقلمند کے لیے مناسب نہیں کہ اس عورت کو اپنی زوجیت میں رکھے چہ جائیکہ اس کے متعلق کوئی سوال کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3330

【136】

والد کی منکوحہ عورت سے نکاح کرنے والے شخص سے متعلق حدیث

براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ماموں سے ملا، تو ان کے پاس جھنڈا تھا۔ تو میں نے ان سے کہا : کہاں کا ارادہ ہے ؟ کہا : رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک ایسے شخص کی گردن اڑا دینے یا اسے قتل کردینے کے لیے بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کے انتقال کے بعد اس کی بیوی سے شادی کرلی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٢٧ (٤٤٥٦) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٥ (١٣٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٣٥ (٢٦٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٣٤) ، مسند احمد (٤/٢٩٢، ٢٩٥، ٢٩٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٣ (٢٢٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: راوی ( براء ) کو شک ہوگیا ہے کہ ماموں نے أن أضرب عنقہ میں اس کی گردن مار دوں کہا یا أقتلہ میں اسے قتل کر دوں کہا، مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3331

【137】

والد کی منکوحہ عورت سے نکاح کرنے والے شخص سے متعلق حدیث

براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا سے ملا، ان کے پاس ایک جھنڈا تھا میں نے ان سے کہا : آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے شخص کے پاس بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کرلی ہے۔ مجھے آپ نے حکم دیا ہے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں اور اس کا مال اپنے قبضہ میں کرلوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٣٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ اگر کسی نے مرتد کو قتل کیا ہے تو اس مرتد کا مال بشکل فئی قاتل کو ملے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3332

【138】

آیت کریمہ|"والمحصنت من النساء الا ماملکت ایمانکم|" کی تفسیر کا بیان

ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک لشکر اوطاس کی طرف بھیجا ١ ؎ وہاں ان کی دشمن سے مڈبھیڑ ہوگئی، اور انہوں نے دشمن کا بڑا خون خرابہ کیا، اور ان پر غالب آگئے، انہیں ایسی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے شوہر مشرکین میں رہ گئے تھے، چناچہ مسلمانوں نے ان قیدی باندیوں سے صحبت کرنا مناسب نہ سمجھا، تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی : والمحصنات من النساء إلا ما ملکت أيمانکم اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آجائیں (النساء : ٢٤) یعنی یہ عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں جب ان کی عدت پوری ہوجائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٩ (١٤٥٦) ، سنن ابی داود/النکاح ٤٥ (٢١٥٥) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة النسائ ٥ (٣٠١٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اوطاس طائف میں ایک جگہ کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3333

【139】

لڑکی یا بہن کے مہر کے بغیر نکاح کرنے کی ممانعت سے متعلق

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٨ (٥١١٢) ، الحیل ٤ (٦٩٦٠) مطولا، صحیح مسلم/النکاح ٧ (١٤١٥) ، سنن ابی داود/النکاح ١٥ (٢٠٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٨١٤١) ، مسند احمد (٢/٧، ١٩، ٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نکاح شغار یعنی کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن کو دوسرے کی نکاح میں اس کی بہن یا بیٹی سے اپنے ساتھ نکاح کرنے کے عوض میں بلا مہر دیدے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3334

【140】

لڑکی یا بہن کے مہر کے بغیر نکاح کرنے کی ممانعت سے متعلق

عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : اسلام میں نہ جلب ہے نہ جنب ہے اور نہ ہی شغار ہے، اور جس کسی نے کسی طرح کا لوٹ کھسوٹ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٧٠ (٢٥٨١) ، سنن الترمذی/النکاح ٣٠ (١١٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٣ (٣٩٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٩٣) مسند احمد (٤/٤٣٨، ٤٣٩، ٤٤٣، ٤٤٥) ویأتي بأرقام ٣٦٢٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جلب زکاۃ اور گھوڑ دوڑ دونوں میں ہوتا ہے، جلب گھوڑوں میں یہ ہے کہ مقابلہ کے وقت کسی کو اپنے گھوڑے کے پیچھے لگالے کہ وہ گھوڑے کو ڈانٹتا رہے تاکہ وہ آگے بڑھ جائے، جب کہ زکاۃ میں جلب یہ ہے کہ زکاۃ وصول کرنے والا کسی جگہ بیٹھ جائے اور زکاۃ دینے والوں سے کہے کہ مال میرے پاس لاؤ تاکہ زکاۃ لی جاسکے، چونکہ اس میں زکاۃ دینے والوں کو مشقت و پریشانی لاحق ہوگی اس لیے اس سے منع کیا گیا۔ اور جنب یہ ہے کہ مقابلہ کے وقت اپنے گھوڑے کے پہلو میں ایک اور گھوڑا رکھے کہ جب سواری کا گھوڑا تھک جائے تو اس گھوڑے پر سوار ہوجائے، جب کہ زکاۃ میں جنب یہ ہے کہ صاحب مال اپنا مال لے کر دور چلا جائے تاکہ زکاۃ وصول کرنے والا زکاۃ کی طلب میں تکلیف و مشقت میں پڑجائے۔ نکاح شغار یعنی کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن کو دوسرے کی نکاح میں اس کی بہن یا بیٹی سے اپنے ساتھ نکاح کرنے کے عوض میں بلا مہر دیدے۔۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3335

【141】

لڑکی یا بہن کے مہر کے بغیر نکاح کرنے کی ممانعت سے متعلق

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام میں نہ جلب ہے، نہ جنب ہے، اور نہ شغار ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی فرماتے ہیں : اس روایت میں صریح غلطی موجود ہے اور بشر کی روایت صحیح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٦٦٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ١٦ (١٨٨٥) ، مسند احمد (٣/١٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت میں حمید راوی انس رضی الله عنہ سے روایت کرتے، اس اعتبار سے حمید تابعی بن جاتے ہیں جبکہ یہ صحیح نہیں ہے، بشر کی روایت میں یہی حمید اپنے استاد حسن ( بصریٰ ) سے روایت کرتے ہیں اور وہ ( حسن بصری ) عمران بن حصین صحابی سے۔ اس اعتبار سے حمید تبع تابعی ٹھہرتے ہیں۔ امام نسائی کہتے ہیں : یہی صحیح ہے کیونکہ حمید تابعی نہیں بلکہ تبع تابعی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3336

【142】

شغار کی تفسیر

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے، اور شغار یہ ہے کہ آدمی دوسرے شخص سے اپنی بیٹی کی شادی اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اس شخص کے ساتھ کرے۔ اور دونوں ہی بیٹیوں کا کوئی مہر مقرر نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٨ (٥١١٢) ، صحیح مسلم/النکاح ٧ (١٤١٥) ، سنن ابی داود/النکاح ١٥ (٢٠٧٤) ، سنن الترمذی/النکاح ٣٠ (١١٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٣٠) ، موطا امام مالک/النکاح ١١ (٢٤) ، مسند احمد (٢/٧، ٦٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٩ (٢٢٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3337

【143】

شغار کی تفسیر

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شغار سے منع فرمایا ہے عبیداللہ (جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں) کہتے ہیں : شغار یہ تھا کہ آدمی اپنی بیٹی کی شادی دوسرے سے اس شرط پر کرتا تھا کہ دوسرا اپنی بہن کی شادی اس کے ساتھ کر دے (بغیر کسی مہر کے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٧ (١٤١٦) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٦ (١٨٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٩٦) ، مسند احمد (٢/٢٨٦، ٤٣٩، ٤٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3338

【144】

قرآن کریم کی سورتوں کی تعلیم پر نکاح سے متعلق

سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں آئی ہوں کہ اپنے آپ کو آپ کے حوالے کر دوں، (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا اور نیچے سے اوپر تک دھیان سے دیکھا۔ پھر آپ نے اپنا سر جھکا لیا (غور فرمانے لگے کہ کیا کریں) ، عورت نے جب دیکھا کہ آپ نے اس کے متعلق (بروقت) کچھ نہیں فیصلہ فرمایا تو وہ (انتظار میں) بیٹھ گئی، اتنے میں آپ کے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر آپ اپنے لیے اس عورت کی ضرورت نہیں پاتے تو آپ اس عورت سے میری شادی کر دیجئیے۔ آپ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس (بطور مہر دینے کے لیے) کوئی چیز ہے ؟ اس نے کہا نہیں، قسم اللہ کی ! میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا : دیکھو (تلاش کرو) لوہے کی انگوٹھی ١ ؎ ہی مل جائے تو لے کر آؤ، تو وہ آدمی (تلاش میں) نکلا، پھر لوٹ کر آیا اور کہا : اللہ کے رسول ! قسم اللہ کی ! کوئی چیز نہیں ملی حتیٰ کہ لوہے کہ انگوٹھی بھی نہیں ملی، میرے پاس بس میرا یہی تہبند ہے، میں آدھی تہبند اس کو دے سکتا ہوں، سہل (جو اس حدیث کے راوی ہیں) کہتے ہیں : اس کے پاس چادر نہیں تھی) ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے تہبند سے کیا کرسکتے ہو ؟ تم پہنو گے تو وہ نہیں پہن سکتی اور وہ پہنے گی تو تم نہیں پہن سکتے ، وہ آدمی بیٹھ گیا اور دیر تک بیٹھا رہا، پھر (مایوس ہو کر) اٹھ کر چلا، رسول اللہ ﷺ نے اسے پیٹھ پھیر کر جاتے ہوئے دیکھا تو اسے حکم دے کر بلا لیا، جب وہ آیا تو آپ نے اس سے پوچھا : تمہیں قرآن کتنا یاد ہے ؟ انہوں نے کہا : فلاں فلاں سورت، اس نے گن کر بتایا۔ آپ نے کہا : کیا تم اسے زبانی (روانی سے) پڑھ سکتے ہو ، اس نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : (جاؤ) جو تمہیں قرآن یاد ہے اسے یاد کرا دو اس کے عوض میں نے تمہیں اس کا مالک بنادیا (یعنی میں نے اس سے تمہاری شادی کردی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٢٢ (٥٠٣٠) ، صحیح مسلم/النکاح ١٣ (١٤٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مہر کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3339

【145】

اسلام قبول کرنے کی شرط رکھ کر نکاح کرنا

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ (رض) نے ام سلیم رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، تو ان کے درمیان مہر (ابوطلحہ کا) اسلام قبول کرلینا طے پایا تھا، ام سلیم ابوطلحہ سے پہلے ایمان لائیں، ابوطلحہ نے انہیں شادی کا پیغام دیا، تو انہوں نے کہا : میں اسلام لے آئی ہوں (میں غیر مسلم سے شادی نہیں کرسکتی) ، آپ اگر اسلام قبول کرلیں تو میں آپ سے شادی کرسکتی ہوں، تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا، اور یہی اسلام ان دونوں کے درمیان مہر قرار پایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٦٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3340

【146】

اسلام قبول کرنے کی شرط رکھ کر نکاح کرنا

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ (رض) نے (ان کی والدہ) ام سلیم رضی اللہ عنہا کو شادی کا پیغام دیا تو انہوں نے انہیں جواب دیا : قسم اللہ کی، ابوطلحہ ! آپ جیسوں کا پیغام لوٹایا نہیں جاسکتا، لیکن آپ ایک کافر شخص ہیں اور میں ایک مسلمان عورت ہوں، میرے لیے حلال نہیں کہ میں آپ سے شادی کروں، لیکن اگر آپ اسلام قبول کرلیں، تو یہی آپ کا اسلام قبول کرلینا ہی میرا مہر ہوگا اس کے سوا مجھے کچھ اور نہیں چاہیئے ١ ؎ تو وہ اسلام لے آئے اور یہی چیز ان کی مہر قرار پائی۔ ثابت کہتے ہیں : میں نے کسی عورت کے متعلق کبھی نہیں سنا جس کی مہر ام سلیم رضی اللہ عنہا کی مہر اسلام سے بڑھ کر اور باعزت رہی ہو۔ ابوطلحہ (رض) نے ان سے صحبت و قربت اختیار کی اور انہوں نے ان سے بچے جنے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اسلام لانے کے بعد مہر معجل کا مطالبہ نہیں کروں گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3341

【147】

آزاد کرنے کو مہر مقرر کر کے نکاح کرنے سے متعلق

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ صلاة الخوف ٦ (٩٤٧) مطولا، المغازي ٣٨ (٤٢٠٠) ، النکاح ١٣ (٥٠٨٦) ، ٦٨ (٥١٦٩) ، صحیح مسلم/النکاح ١٤ (١٣٦٥) ، سنن ابی داود/النکاح ٦ (٢٠٥٤) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٤ (١١١٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٢ (١٩٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٩١، ١٠٦٧) ، مسند احمد (٣/٩٩، ١٣٨، ١٦٥، ١٧٠، ١٨١، ١٨٦، ٢٠٣، ٢٣٩، ٢٤٢، ٢٨٠، ٢٨٢، ٢٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3342

【148】

آزاد کرنے کو مہر مقرر کر کے نکاح کرنے سے متعلق

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (غزوہ خیبر کے موقع پر قید ہو کر آنے والی یہودی سردار حي بن اخطب کی بیٹی) صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا، اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا، حدیث کے الفاظ راوی حدیث محمد کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٦٨ (٥١٦٩) ، صحیح مسلم/النکاح ١٤ (١٣٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٩١٢) ، مسند احمد (٣/١٨١، ٢٨٠) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٥ (٢٢٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3343

【149】

باندی کو آزاد کرنا اور پھر اس سے شادی کرنے میں کس قدر ثواب ہے؟

ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین لوگ ایسے ہیں جنہیں دوہرا اجر و ثواب ملے گا ١ ؎، ایک وہ آدمی جس کے پاس لونڈی تھی اس نے اسے ادب وتمیز سکھائی اور بہترین طور و طریقہ بتایا، اسے تعلیم دی اور اچھی تعلیم دی پھر اسے آزاد کردیا، اور اس سے شادی کرلی۔ دوسرا وہ غلام جو اپنے آقاؤں کا صحیح صحیح حق الخدمت ادا کرے، اور تیسرا وہ جو اہل کتاب میں سے ہو اور ایمان لے آئے (ایسے لوگوں کو دوگنا ثواب ملے گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣١ (٩٧) ، العتق ١٤ (٢٥٤٤) ، ١٦ (٢٥٤٧) ، الجہاد ١٤٥ (٣٠١١) ، أحادیث الأنبیاء ٤٧ (٣٤٤٦) ، والنکاح ١٣ (٥٠٨٣) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧٠ (١٥٤) ، سنن ابی داود/النکاح ٦ (٢٠٥٣) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٥ (١١١٦) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٢ (١٩٥٦) ، مسند احمد ٤/٣٩٥، ٣٩٨، ٤٠٢، ٤٠٥، ٤١٤، ٤١٥) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٦ (٢٢٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان کی زندگی کے ہر عمل کا انہیں دوہرا اجر ملے گا یا ان حالات میں جو بھی عمل ان سے صادر ہوگا اس کا انہیں دوہرا اجر ملے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3344

【150】

باندی کو آزاد کرنا اور پھر اس سے شادی کرنے میں کس قدر ثواب ہے؟

ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنی باندی کو آزاد کیا اور پھر اس سے شادی کرلی، اسے دوہرا اجر ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العتق ٤ (٢٥٤٤) ، صحیح مسلم/النکاح ١٤ (١٥٤) ، سنن ابی داود/النکاح ٦ (٢٠٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٩١٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3345

【151】

مَہروں میں انصاف کرنا

عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے (ام المؤمنین) عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے فرمان : وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانکحواء ما طاب لکم من النساء اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے، تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو (النساء : ٣) کے بارے میں سوال کیا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : بھانجے ! اس سے وہ یتیم لڑکی مراد ہے جو اپنے ایسے ولی کی پرورش میں ہو جس کے مال میں وہ ساجھی ہو اور اس کی خوبصورتی اور اس کا مال اسے بھلا لگتا ہو، اس کی وجہ سے وہ اس سے بغیر مناسب مہر ادا کیے نکاح کرنا چاہتا ہو یعنی جتنا مہر اس کو اور کوئی دیتا اتنا بھی نہ دے رہا ہو، چناچہ انہیں ان سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا۔ اگر وہ انصاف سے کام لیں اور انہیں اونچے سے اونچا مہر ادا کریں تو نکاح کرسکتے ہیں ورنہ فرمان رسول ہے کہ ان کے علاوہ جو عورتیں انہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلیں۔ عروہ کہتے ہیں : عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے ان یتیم بچیوں کے متعلق مسئلہ پوچھا تو اللہ نے آیت ويستفتونک في النساء قل اللہ يفتيكم فيهن سے لے کر وترغبون أن تنکحوهن آپ سے عورتوں کے بارے میں حکم پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئیے کہ خود اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے، اور قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں جنہیں ان کا مقرر حق تم نہیں دیتے، اور انہیں اپنے نکاح میں لانے کی رغبت رکھتے ہو (النساء : ١٢٧) تک نازل فرمائی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے وما يتلى عليك في الکتاب جو فرمایا ہے اس سے پہلی آیت : وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانکحواء ما طاب لکم من النساء مراد ہے۔ اور دوسری آیت میں فرمایا : وترغبون أن تنکحوهن تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو یتیم لڑکی تمہاری نگہداشت و پرورش میں ہوتی ہے اور کم مال والی اور کم خوبصورتی والی ہوتی ہے اسے تو تم نہیں چاہتے تو اس کی بنا پر تمہیں ان یتیم لڑکیوں سے بھی شادی کرنے سے روک دیا گیا ہے جن کا مال پانے کی خاطر تم ان سے شادی کرنے کی خواہش رکھتے ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ٧ (٢٤٩٤) ، والوصایا ٢١ (٢٧٦٣) ، و تفسیر سورة النساء ١ (٤٥٧٦) ، والنکاح ١ (٥٠٦٤) ، ١٦ (٥٠٩٢) ، ١٩ (٥٠٩٨) ، ٣٦ (٥١٢٨) ، ٣٧ (٥١٣١) ، ٤٣ (٥١٤٠) ، والحیل ٨ (٦٩٦٥) ، صحیح مسلم/التفسیر ١ (٣٠١٨) ، سنن ابی داود/النکاح ١٣ (٢٠٦٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3346

【152】

مَہروں میں انصاف کرنا

ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس (یعنی مہر) کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے بارہ اوقیہ اور ایک نش ١ ؎ کا مہر باندھا جس کے پانچ سو درہم ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٣ (١٤٢٦) ، سنن ابی داود/النکاح ٢٩ (٢١٠٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٧ (١٨٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٣٩) ، مسند احمد (٦/٩٣، ٩٤) ، سنن الدارمی/النکاح ١٨ (٢٢٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک نش بیس درہم کا ہوتا ہے، یا اس سے ہر چیز کا نصف مراد ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3347

【153】

مَہروں میں انصاف کرنا

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ ہم میں باحیات تھے اس وقت مہر دس اوقیہ ١ ؎ ہوتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٤٦٣٠) ، مسند احمد (٢/٣٦٧) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3348

【154】

مَہروں میں انصاف کرنا

ابوالعجفاء کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : لوگو سن لو عورتوں کے مہروں میں غلو نہ کرو کیونکہ اگر یہ زیادتی دنیا میں عزت کا باعث اور اللہ کے نزدیک پرہیزگاری کا سبب ہوتی تو نبی اکرم ﷺ اس کے سب سے زیادہ حقدار تھے، رسول اللہ ﷺ نے نہ اپنی کسی بیوی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ رکھا اور نہ ہی آپ کی کسی بیٹی کا اس سے زیادہ رکھا گیا، آدمی اپنی بیوی کا مہر زیادہ ادا کرتا ہے جس سے اس کے دل میں نفرت و عداوت پیدا ہوجاتی ہے یہاں تک کہ وہ کہنے لگتا ہے کہ میں تو تمہاری وجہ سے مصیبت میں پھنس گیا۔ ابوالعجفاء کہتے ہیں میں خالص عربی النسل لڑکا نہ تھا اس لیے میں عرق القربہ کا محاورہ سمجھ نہ سکا۔ عمر (رض) نے دوسری بات یہ بتائی کہ جب کوئی شخص تمہاری لڑائیوں میں مارا جاتا ہے یا مرجاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں : وہ شہید کی حیثیت سے قتل ہوا یا شہادت کی موت مرا، جب کہ اس کا امکان موجود ہے کہ اس نے اپنی سواری کے پیچھے یا پہلو میں سونا چاندی لاد رکھا ہے اور مجاہدین کے ساتھ نکلنے سے اس کا مقصود تجارت ہو۔ تو تم ایسا نہ کہو بلکہ اس طرح کہو جس طرح کہ نبی کریم ﷺ نے کہا ہے : جو شخص اللہ کی راہ میں مارا جائے یا مرجائے تو وہ جنت میں جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٢٩ (٢١٠٦) مختصرا، سنن الترمذی/النکاح ٢٣ (١١١٤) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٧ (١٨٨٧) مختصراً ، مسند احمد (١/٤٠، ٤١، ٤٨، سنن الدارمی/النکاح ١٨ (٢٢٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3349

【155】

مَہروں میں انصاف کرنا

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے اس وقت نکاح کیا جب وہ سر زمین حبشہ میں تھیں، ان کی شادی نجاشی بادشاہ نے کرائی اور ان کا مہر چار ہزار (درہم) مقرر کیا۔ اور اپنے پاس سے تیار کر کے انہیں شرحبیل بن حسنہ (رض) کے ساتھ (رسول اللہ ﷺ کے پاس) بھیج دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے پاس (حبشہ میں) کوئی چیز نہ بھیجی، رسول اللہ ﷺ کی (دوسری) بیویوں کا مہر چار سو درہم تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٢٠ (٢٠٨٦) ، ٢٩ (٢١٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٥٤) ، مسند احمد (٦/٤٢٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3350

【156】

سونے کی ایک کھجور کی گٹھلی کے وزن کے برابر کے بقدر نکاح کرنا

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تو ان پر زردی کا اثر تھا، رسول اللہ ﷺ نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے آپ کو بتایا کہ انہوں نے ایک انصاری عورت سے شادی کرلی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کتنا مہر دیا ہے اسے ؟ انہوں نے کہا : ایک نوا ۃ (کھجور کی گٹھلی) برابر سونا ١ ؎ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ولیمہ ٢ ؎ کرو چاہے ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١ (٢٠٤٩) ، ومناقب الأنصار ٣ (٣٧٨١) ، ٥٠ والنکاح ٧ (٥٠٧٢) ، ٤٩ (٥١٣٨) ، ٥٤ (٥١٥٣) ، ٥٦ (٥١٥٥) ، ٦٨ (٥١٦٧) ، الأدب ٦٧ (٦٠٨٢) ، الدعوات ٥٣ (٦٣٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/النکاح ١٣ (١٤٢٧) ، سنن ابی داود/النکاح ٣٠ (٢١٩٠) ، سنن الترمذی/النکاح ١٠ (١٠٩٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٤ (١٩٠٧) ، مسند احمد (٣/١٦٥، ١٩٠، ١٩٠، ٢٠٥، ٢٧١) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢٨ (٢١٠٨) ، النکاح ٢٢ (٢٢٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اہل حساب کی اصطلاح میں نوا ۃ پانچ درہم کے وزن کو کہتے ہیں۔ ٢ ؎: یہ بات آپ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کی مالی حیثیت دیکھ کر کہی تھی کہ ولیمہ میں کم سے کم ایک بکری ضرور ہو اس سے اس بات پر استدلال درست نہیں کہ ولیمہ میں گوشت ضروری ہے کیونکہ آپ ﷺ نے صفیہ رضی الله عنہا کے ولیمہ میں ستو اور کھجور ہی پر اکتفا کیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3351

【157】

سونے کی ایک کھجور کی گٹھلی کے وزن کے برابر کے بقدر نکاح کرنا

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھا اس وقت میرے چہرے سے شادی کی بشاشت و خوشی ظاہر تھی، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے، آپ نے پوچھا : اسے تم نے کتنا مہر دیا ہے ؟ میں نے کہا نوا ۃ (کھجور کی گٹھلی) کے وزن برابر سونا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٣ (١٤٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٧١٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3352

【158】

سونے کی ایک کھجور کی گٹھلی کے وزن کے برابر کے بقدر نکاح کرنا

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس عورت سے نکاح مہر پر کیا گیا ہو یا (مہر کے علاوہ) اسے عطیہ دیا گیا ہو یا نکاح سے پہلے عورت کو کسی چیز کے دینے کا وعدہ کیا گیا ہو تو یہ سب چیزیں عورت کا حق ہوں گی (اور وہ پائے گی) ۔ اور جو چیزیں نکاح منعقد ہوجانے کے بعد ہوں گی تو وہ جسے دے گا چیز اس کی ہوگی۔ اور آدمی اپنی بیٹی اور بہن کے سبب عزت و اکرام کا مستحق ہے ، (حدیث کے) الفاظ (راوی حدیث) عبداللہ بن محمد بن تمیم کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٦ (٢١٢٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤١ (١٩٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٤٥) ، مسند احمد (٢/١٨٢) حسن) (البانی نے ابن جریج کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے، حالاں کہ نسائی کی ایک سند میں ابن جریج کی ” تحدیث “ موجود ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3353

【159】

مہر کے بغیر نکاح کا جائز ہونا

علقمہ اور اسود کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کے سامنے ایک ایسے شخص کا معاملہ پیش کیا گیا جس نے ایک عورت سے شادی تو کی لیکن اس کا مہر متعین نہ کیا اور اس سے خلوت سے پہلے مرگیا ؟ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : لوگوں سے پوچھو کہ کیا تم لوگوں کے سامنے (رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں) ایسا کوئی معاملہ پیش آیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : عبداللہ ! ہم کوئی ایسی نظیر نہیں پاتے۔ تو انہوں نے کہا : میں اپنی عقل و رائے سے کہتا ہوں اگر درست ہو تو سمجھو کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے۔ اسے مہر مثل دیا جائے گا ١ ؎، نہ کم اور نہ زیادہ، اسے میراث میں اس کا حق و حصہ دیا جائے گا اور اسے عدت بھی گزارنی ہوگی۔ (یہ سن کر) اشجع (قبیلے کا) ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا : ہمارے یہاں کی ایک عورت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے معاملے میں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی فیصلہ دیا تھا، اس عورت نے ایک شخص سے نکاح کیا، وہ شخص اس کے پاس (خلوت میں) جانے سے پہلے مرگیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے خاندان کی عورتوں کی مہر کے مطابق اس کی مہر کا فیصلہ کیا اور (بتایا کہ) اسے میراث بھی ملے گی اور عدت بھی گزارے گی۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن مسعود نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دیئے (اور خوش ہو کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان کا فیصلہ صحیح ہوا) اور اللہ اکبر کہا (یعنی اللہ کی بڑائی بیان کی) ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں اسود کا ذکر زائدہ کے سوا کسی نے نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٢ (٢١١٤، ٢١١٥) مختصراً ، سنن الترمذی/النکاح ٤٣ (١١٤٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٨ (١٨٩١) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٦١) ، مسند احمد (٣/٤٨٠، ٤/٢٨٠، ٤٧٩) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٧ (٢٢٩٢) ، ویأتی عند المؤلف فیما بعد : ٣٣٥٧-٣٣٦٠ و فی الطلاق ٥٧ (برقم ٣٥٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کے کنبے اور قبیلے کی عورتوں کا جو مہر ہوتا ہے اسی اعتبار سے اس کا مہر بھی مقرر کر کے دیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3354

【160】

مہر کے بغیر نکاح کا جائز ہونا

علقمہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے سامنے ایک ایسی عورت کا معاملہ پیش کیا گیا جس سے ایک شخص نے شادی کی اور اس سے خلوت سے پہلے مرگیا، اور اس کی مہر بھی متعین نہ کی تھی (تو اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہوگا ؟ ) لوگ ان کے پاس اس مسئلہ کو پوچھنے کے لیے تقریباً مہینہ بھر سے آتے جاتے رہے، مگر وہ انہیں فتویٰ نہ دیتے۔ پھر ایک دن فرمایا : میری سمجھ میں آتا ہے کہ اس عورت کا مہر اسی کے گھر و خاندان کی عورتوں جیسا ہوگا، نہ کم ہوگا، اور نہ ہی زیادہ، اسے میراث بھی ملے گی اور اسے عدت میں بھی بیٹھنا ہوگا، (یہ سن کر) معقل بن سنان اشجعی (رض) نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے معاملے میں ایسا ہی فیصلہ دیا تھا جیسا آپ نے دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انطر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3355

【161】

مہر کے بغیر نکاح کا جائز ہونا

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے ایک عورت سے شادی کی پھر مرگیا نہ اس سے خلوت کی تھی اور نہ ہی اس کا مہر مقرر کیا تھا۔ تو اس کے بارے میں انہوں نے فرمایا : اس عورت کا مہر (مہر مثل) ہوگا۔ اسے عدت گزارنی ہوگی اور اسے میراث ملے گی۔ (یہ سن کر) معقل بن سنان نے کہا : میں نے نبی اکرم ﷺ کو بروع بنت واشق کے معاملہ میں ایسا ہی فیصلہ کرتے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3356

【162】

مہر کے بغیر نکاح کا جائز ہونا

علقمہ نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٥٦ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3357

【163】

مہر کے بغیر نکاح کا جائز ہونا

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس کچھ لوگ آئے اور انہوں نے کہا : ہم میں سے ایک شخص نے ایک عورت سے شادی کی، نہ اس کا مہر مقرر کیا، نہ اس سے خلوت کی اور مرگیا (اس معاملے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟ ) ، عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کا ساتھ چھوڑا ہے (یعنی آپ کے انتقال کے بعد) اس سے زیادہ ٹیڑھا اور مشکل سوال مجھ سے نہیں کیا گیا ہے۔ تو تم لوگ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ (اور اس سے فتویٰ پوچھ لو) ، لیکن وہ لوگ اس مسئلہ کے سلسلے میں مہینہ بھر ان کا پیچھا کرتے رہے بالآخر انہوں نے ان سے کہا : اگر آپ سے نہ پوچھیں تو پھر کس سے پوچھیں ! آپ اس شہر میں محمد ﷺ کے بڑے اور جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں، آپ کے سوا ہم کسی اور کو نہیں پاتے۔ انہوں نے کہا : (جب ایسی بات ہے) تو میں اپنی عقل و رائے سے اس بارے میں بتاتا ہوں، اگر میری بات درست ہو تو سمجھو یہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کی جانب سے ہے اور اگر غلط ہو تو سمجھو کہ وہ میری اور شیطان کی جانب سے ہے، اللہ اور اس کے رسول اس سے بری ہیں، میں اس کے لیے مہر مثل کا فتویٰ دیتا ہوں نہ کم اور نہ زیادہ، اسے میراث ملے گی اور وہ چار مہینہ دس دن کی عدت گزارے گی۔ یہ مسئلہ اشجع قبیلہ کے چند لوگوں نے سنا تو کھڑے ہو کر کہنے لگے : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے ویسا ہی فیصلہ کیا ہے جیسا رسول اللہ ﷺ نے ہماری قوم کی ایک عورت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے معاملے میں کیا تھا۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن مسعود (رض) (اپنا فیصلہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے موافق ہوجانے کے باعث) اتنا زیادہ خوش ہوئے کہ اسلام لانے کے وقت کی خوشی کے سوا اس سے زیادہ خوش کبھی نہ دیکھے گئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3358

【164】

ایسی خاتون کا بیان کہ جس نے کسی مرد کو بغیر مہر کے خود پر ہبہ اور بخشش کیا

سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور آپ سے کہنے لگی : اللہ کے رسول ! میں نے اپنی ذات کو آپ کے لیے ہبہ کردیا ہے (یہ کہہ کر) وہ کافی دیر کھڑی رہی تو ایک شخص اٹھا اور آپ سے عرض کیا (اللہ کے رسول ! ) اگر آپ کو اسے رکھنے کی ضرورت نہ ہو تو آپ میری شادی اس سے کرا دیجئیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تیرے پاس (بطور مہر دینے کے لیے) کچھ ہے ؟ اس نے کہا : میرے پاس کچھ نہیں ہے، آپ نے فرمایا : جاؤ ڈھونڈو اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو (پاؤ تو اسے لے آؤ) ، اس نے (جا کر) ڈھونڈا، اسے کچھ بھی نہ ملا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا : کیا تمہارے پاس قرآن کا بھی کچھ علم ہے ؟ اس نے کہا : مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں، اس نے ان سورتوں کا نام لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (جاؤ) میں نے تمہارا نکاح اس عورت کے ساتھ اس قرآن کے عوض کردیا جو تمہیں یاد ہے (تم اسے قرآن پڑھا دو اور یاد کرا دو ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ٩ (٢٣١٠) ، النکاح ٤٠ (٥١٣٥) ، سنن ابی داود/النکاح ٣١ (٢١١١) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٣ (١١١٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٤٢) ، موطا امام مالک/النکاح ٣ (٨) ، مسند احمد (٥/٣٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3359

【165】

کسی کے واسطے شرم گاہ حلال کرنا

نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کے متعلق جس نے اپنی بیوی کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا فرمایا : اگر اس کی بیوی نے لونڈی کو اس کے لیے حلال کیا تھا تو میں اسے (آدمی کو) سو کوڑے ماروں گا ١ ؎، اور اگر اس (کی بیوی) نے حلال نہیں کیا تھا تو میں اسے سنگسار کر دوں گا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٢٨ (٤٤٥٨) ، سنن الترمذی/الحدود ٢١ (١٤٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٨ (٢٥٥١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦١٣) ، مسند احمد (٤/٢٧٢، ٢٧٣، ٢٧٥، ٢٧٦، ٢٧٧) ، سنن الدارمی/الحدود ٢٠ (٢٣٧٥) (ضعیف) (اس کے راوی ” حبیب بن سالم “ میں بہت کلام ہے، نیز خطابی کے بقول : نعمان رضی الله عنہ سے ان کا سماع نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ بغیر جائز صورت کے کسی کے لیے کسی کی شرمگاہ حلال نہیں ہوتی، اس لیے بطور تأدیب اسے سو کوڑے لگیں گے۔ ٢ ؎: اس لیے کہ اس نے شادی شدہ ہوتے ہوئے جرم زنا کا ارتکاب کیا۔ اکثر اہل علم کا عمل اس کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ آدمی بیوی کی لونڈی سے اگر جماع کرے تو اس پر حد نہیں پڑے گی۔ ان کا خیال ہے کہ نعمان بن بشیر کو اس مسئلہ میں دھوکا ہوگیا ہے، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3360

【166】

کسی کے واسطے شرم گاہ حلال کرنا

حبیب بن سالم کہتے ہیں کہ نعمان بن بشیر (رض) کے سامنے ایک ایسے شخص کا مقدمہ پیش ہوا جس کا نام عبدالرحمٰن بن حنین تھا اور لوگ اسے (برے لقب) قرقور ١ ؎ کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ اپنی بیوی کی لونڈی سے صحبت (زنا) کر بیٹھا، یہ معاملہ نعمان بن بشیر (رض) کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا : میں اس معاملے میں ویسا ہی فیصلہ دوں گا جیسا رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ دیا تھا، اگر بیوی نے اپنی باندی کو تیرے لیے حلال کردیا تھا تب تو (تعزیراً ) تجھے کوڑے ماروں گا اور اگر اس نے اسے تیرے لیے حلال نہیں کیا تھا تو تجھے سنگسار کر دوں گا۔ (پوچھنے پر پتہ لگا کہ) بیوی نے وہ لونڈی اس کے لیے حلال کردی تھی تو اسے سو کوڑے مارے گئے۔ قتادہ کہتے ہیں : میں نے حبیب بن سالم کو (خط) لکھا تو انہوں نے مجھے یہی حدیث لکھ کر بھیجی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎: قرقور لمبی کشتی کو کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3361

【167】

کسی کے واسطے شرم گاہ حلال کرنا

حبیب بن سالم سے روایت ہے کہ نعمان بن بشیر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کیا تھا فرمایا : اگر اس کی بیوی نے اسے اس کی اجازت دے دی تھی تو میں اسے سو کوڑے لگاؤں گا اور اگر اس نے اس کے لیے اسے حلال نہ کیا ہوگا تو میں اسے (یعنی شوہر کو) سنگسار کر دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٦٢ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3362

【168】

کسی کے واسطے شرم گاہ حلال کرنا

سلمہ بن محبق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس شخص کا فیصلہ جس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کیا تھا (اس طرح) فرمایا : اگر اس نے اس کے ساتھ زبردستی زنا کی ہے تو وہ لونڈی آزاد ہوجائے گی اور اس شخص کو اس لونڈی کی مالکہ کو اس جیسی لونڈی دینی ہوگی اور اگر (مرد نے زبردستی نہیں کی بلکہ) لونڈی کی رضا مندی سے یہ کام ہوا تو یہ لونڈی اس (مرد) کی ہوجائے گی اور اس مرد کو لونڈی کی مالکہ کو اس جیسی لونڈی دینی ہوگی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٢٨ (٤٤٦٠) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٨ (٢٥٥٢) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٤٥٥٩) ، مسند احمد (٣/٤٧٦ و ٥/٦) (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3363

【169】

کسی کے واسطے شرم گاہ حلال کرنا

سلمہ بن محبق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کیا، یہ قضیہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جایا گیا تو آپ نے فرمایا : اگر اس نے اس لونڈی کے ساتھ زنا بالجبر (زبردستی زنا) کیا ہے تو یہ لونڈی اس کے مال سے آزاد ہوگی اور اسے اس جیسی دوسری لونڈی اس کی مالکہ کو دینی ہوگی اور اگر لونڈی نے اس کام میں مرد کا ساتھ دیا ہے (اور اس کی خوشی و رضا مندی سے یہ کام ہوا ہے) تو یہ لونڈی اپنی مالکہ (یعنی بیوی) ہی کی رہے گی اور اس (شوہر) کے مال سے اس جیسی دوسری لونڈی (خرید کر) اس کی مالکہ کو ملے گی (گویا یہ پرائی عورت سے جماع کرنے کا جرمانہ ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3364

【170】

نکاح کے متعہ حرام ہونے سے متعلق

علی رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان کو اطلاع ملی کہ ایک شخص ١ ؎ ہے جو متعہ میں کچھ حرج اور قباحت نہیں سمجھتا۔ علی (رض) نے (اس سے) کہا تم گمراہ ہو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن متعہ اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٤٢١٦) ، النکاح ٣١ (٥١١٥) ، الذبائح ٢٨ (٥٥٢٣) ، الحیل ٤ (٦٩٦١) ، صحیح مسلم/النکاح ٣ (١٤٠٧) ، الصید والذبائح ٥ (١٤٠٧) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٩ (١١٢١) ، الأطعمة ٦ (١٧٩٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٤ (١٩٦١) ، موطا امام مالک/النکاح ١٨ (٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٦٣) ، مسند احمد (١/٧٩، ١٤٢) ، سنن الدارمی/النکاح ١٦ (٢٠٣٣) ، ویأتي عند المؤلف في الصید ٣١ برقم : ٤٣٤٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک شخص سے مراد ابن عباس رضی الله عنہما ہیں، ممکن ہے متعہ سے متعلق ممانعت کی انہوں نے کوئی تأویل کی ہو یا اس ممانعت سے وہ باخبر نہ رہے ہوں کیونکہ ابن قدامہ نے اپنی کتاب مغنی ( ٧ ؍ ٥٧٢ ) میں لکھا ہے : بیان کیا جاتا ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما نے اپنے قول سے رجوع کرلیا تھا۔ ( واللہ اعلم ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3365

【171】

نکاح کے متعہ حرام ہونے سے متعلق

علی ابن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن متعہ اور گھریلو گدھوں کے گوشت کھانے سے روک دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٦٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3366

【172】

نکاح کے متعہ حرام ہونے سے متعلق

علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن عورتوں سے متعہ کرنے سے روک دیا ہے، ابن المثنی کہتے ہیں : حنین کے دن منع کیا ہے اور کہتے ہیں : عبدالوہاب نے اپنی کتاب سے ایسا ہی مجھ سے بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٦٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3367

【173】

نکاح کے متعہ حرام ہونے سے متعلق

سبرہ جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے متعہ کرنے کی اجازت دی تو میں اور ایک اور شخص (دونوں) بنی عامر قبیلے کی ایک عورت کے پاس گئے اور ہم اپنے آپ کو اس پر پیش کیا اس نے کہا : تم مجھے کیا دو گے ؟ میں نے کہا : میں تم کو اپنی چادر دے دوں گا، میرے ساتھی نے بھی یہی کہا اور میرے ساتھی کی چادر میری چادر سے اچھی تھی، (لیکن) میں اس سے زیادہ جوان (تگڑا) تھا، وہ جب میرے ساتھی کی چادر دیکھتی تو وہ اسے بڑی اچھی لگتی (اس کی طرف لپکتی) اور جب مجھے دیکھتی تو میں اسے بہت پسند آتا تھا۔ پھر اس نے (مجھ سے) کہا : تم اور تمہاری چادر میرے لیے کافی ہے۔ تو میں اس کے ساتھ تین دن رہا، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس متعہ والی عورتوں میں سے کوئی عورت ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اسے چھوڑ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٣ (١٤٠٦) ، سنن ابی داود/النکاح ١٤ (٢٠٧٢) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٤ (١٩٦٢) مطولا، (تحفة الأشراف : ٣٨٠٩) ، مسند احمد (٣/٤٠٤، ٤٠٥) ، سنن الدارمی/النکاح ١٦ (٢٢٤٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3368

【174】

نکاح کی شہرت آواز اور ڈھول بجانے سے متعلق

محمد بن حاطب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حلال اور حرام میں فرق یہ ہے کہ نکاح میں دف بجایا جائے اور اس کا اعلان کیا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٦ (١٠٨٨) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٠ (١٨٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٢١) ، مسند احمد (٣/٤١٨ و ٤/٢٥٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی زنا چوری چھپے ہوتا ہے اور نکاح لوگوں کو بتا کر اور اعلان کر کے کیا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3369

【175】

نکاح کی شہرت آواز اور ڈھول بجانے سے متعلق

محمد بن حاطب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حلال و حرام (نکاح) میں تمیز پیدا کرنے والی چیز آواز ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٧١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نکاح لوگوں کو بتا کر اور اعلان کر کے کیا جاتا ہے اور حرام ( زنا ) چھپا کر اور چوری کے ساتھ کیا جاتا ہے تاکہ لوگ جان نہ پائیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3370

【176】

دولہا کو (نکاح کے موقع پر) کیا دعا دی جائے؟

حسن رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عقیل بن ابی طالب نے بنو جثم کی ایک عورت سے شادی کی تو انہیں بالرفاء والبنين میل ملاپ سے رہنے اور صاحب اولاد ہونے کی دعا دی گئی۔ تو انہوں نے کہا : جس طرح رسول اللہ ﷺ نے (اس موقع پر) کہا ہے اسی طرح تم بھی کہو، (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :) بارک اللہ فيكم و بارک لكم اللہ تعالیٰ تمہاری ہر چیز میں برکت دے اور تمہیں برکت والا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٣ (١٩٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠١٤) ، مسند احمد (١/٢٠١ و ٣/٤٥١) ، سنن الدارمی/النکاح ٦ (٢٢١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3371

【177】

جو شخص نکاح کے وقت موجود نہ ہو تو اس کو اس کی دعا دینے سے متعلق

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمٰن (عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) کے کپڑے پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : کھجور کی گٹھلی کے وزن برابر سونا دے کر میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے۔ آپ نے فرمایا : بارک اللہ لك اللہ تمہیں اس نکاح میں برکت دے ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٥٦ (٥١٥٥) ، الدعوات ٥٣ (٦٣٨٦) ، صحیح مسلم/النکاح ١٣ (١٤٢٧) ، سنن الترمذی/النکاح ١٠ (١٠٩٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٤ (١٩٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٨) ، مسند احمد (٣/٢٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3372

【178】

شادی میں زرد رنگ لگانے کی اجازت سے متعلق

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) آئے اور ان پر زعفران کے رنگ کا اثر تھا تو رسول اللہ ﷺ نے کہا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے (یہ اسی کا اثر و نشان ہے) ۔ آپ نے پوچھا ؟ مہر کتنا دیا ؟ کہا : کھجور کی گٹھلی کے وزن کے برابر سونا، آپ نے فرمایا : ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٠ (٢١٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3373

【179】

شادی میں زرد رنگ لگانے کی اجازت سے متعلق

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ پر زردی کا اثر دیکھا (مجھ سے مراد عبدالرحمٰن بن عوف ہیں) پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے (یہ اسی کا نشان ہے) ، آپ نے فرمایا : ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٩٨) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٣٣٩٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3374

【180】

سہاگ رات میں اہلیہ کو تحفہ دینا

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ علی (رض) نے کہا : میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : مجھے ملنے کا موقع عنایت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا : اسے کچھ (تحفہ) دو ، میں نے کہا : میرے پاس تو کچھ ہے نہیں، آپ نے فرمایا : تیری حطمی زرہ کہاں ہے ؟ میں نے کہا : یہ تو میرے پاس ہے، آپ نے فرمایا : وہی اسے دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠١٩٩) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3375

【181】

سہاگ رات میں اہلیہ کو تحفہ دینا

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب علی (رض) نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا کہ اسے (عطیہ) دو ، انہوں نے کہا : میرے پاس نہیں ہے، آپ نے فرمایا : تمہاری حطمی زرہ کہاں ہے (وہی دے دو ) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٦ (٢١٢٥، ٢١٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3376

【182】

ماہ شوال میں (دلہن کو سہاگ رات کے لیے) دولہا کے پاس بھیجنا

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے شوال کے مہینے میں شادی کی اور شوال کے مہینے ہی میں میری رخصتی ہوئی، (لوگ اس مہینے میں شادی بیاہ کو برا سمجھتے ہیں) لیکن میں پوچھتی ہوں کہ آپ ﷺ کی بیویوں میں مجھ سے زیادہ کون بیوی آپ کو محبوب اور پسندیدہ تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٣٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3377

【183】

نوسالہ لڑکی کو شوہر کے مکان پر رخصت کرنے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے شادی کی اس وقت میں چھ برس کی تھی اور جب میری رخصتی ہوئی تو اس وقت میں نو برس کی ہوچکی تھی اور بچیوں (گڑیوں) کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٠ (١٤٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3378

【184】

نوسالہ لڑکی کو شوہر کے مکان پر رخصت کرنے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چھ سال کی عمر میں مجھ سے شادی کی اور رسول اللہ ﷺ کے یہاں ان کی رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٧٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3379

【185】

حالت سفر میں دلہن کے پاس (سہاگ رات کے لیے) جانے سے متعلق

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خیبر فتح کرنے کے ارادے سے نکلے، ہم نے نماز فجر خیبر کے قریب اندھیرے ہی میں پڑھی پھر نبی اکرم ﷺ سوار ہوئے اور ابوطلحہ (رض) بھی سوار ہوئے اور میں ابوطلحہ کی سواری پر ان کے پیچھے بیٹھا، جب نبی اکرم ﷺ خیبر کے تنگ راستے سے گزرنے لگے تو میرا گھٹنا آپ ﷺ کی ران سے چھونے اور ٹکرانے لگا، (اور یہ واقعہ میری نظروں میں اس طرح تازہ ہے گویا کہ) میں آپ ﷺ کی ران کی سفیدی (و چمک) دیکھ رہا ہوں، جب آپ بستی میں داخل ہوئے تو تین بار کہا : اللہ أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين اللہ بہت بڑا ہے، خیبر کی بربادی آئی، جب ہم کسی قوم کی آبادی (و حدود) میں داخل ہوجاتے ہیں تو اس پر ڈرائی گئی قوم کی بدبختی کی صبح نمودار ہوجاتی ہے ١ ؎۔ انس (رض) کہتے ہیں : (جب ہم خیبر میں داخل ہوئے) لوگ اپنے کاموں پر جانے کے لیے نکل رہے تھے۔ (عبدالعزیز بن صہیب کہتے ہیں :) لوگ کہنے لگے : محمد (آگئے) ہیں (اور بعض کی روایت میں الخمیس ٢ ؎ کا لفظ آیا ہے) یعنی لشکر آگیا ہے۔ (بہرحال) ہم نے خیبر طاقت کے زور پر فتح کرلیا، قیدی اکٹھا کئے گئے، دحیہ کلبی نے آ کر کہا : اللہ کے نبی ! ایک قیدی لونڈی مجھے دے دیجئیے ؟ آپ نے فرمایا : جاؤ ایک لونڈی لے لو، تو انہوں نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو لے لیا۔ (ان کے لے لینے کے بعد) ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : اللہ کے نبی ! آپ نے دحیہ کو صفیہ بنت حیی کو دے دیا، وہ بنو قریظہ اور بنو نضیر گھرانے کی سیدہ (شہزادی) ہے، وہ تو صرف آپ کے لیے موزوں و مناسب ہے۔ آپ نے فرمایا : اسے (دحیہ کو) بلاؤ، اسے (صفیہ کو) لے کر آئیں ، جب وہ انہیں لے کر آئے اور نبی اکرم ﷺ نے انہیں ایک نظر دیکھا تو فرمایا : تم انہیں چھوڑ کر کوئی دوسری باندی لے لو ۔ انس (رض) کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے انہیں آزاد کر کے ان سے شادی کرلی، ثابت نے ان سے (یعنی انس سے) پوچھا : اے ابوحمزہ ! آپ ﷺ نے انہیں کتنا مہر دیا تھا ؟ انہوں نے کہا : آپ نے انہیں آزاد کردیا اور ان سے شادی کرلی (یہی آزادی ان کا مہر تھا) ۔ انس (رض) کہتے ہیں : آپ راستے ہی میں تھے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے صفیہ کو آراستہ و پیراستہ کر کے رات میں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا دیا۔ آپ نے صبح ایک دول ہے کی حیثیت سے کی اور فرمایا : جس کے پاس جو کچھ (کھانے کی چیز) ہو وہ لے آئے ، چمڑا (دستر خوان) بچھا یا گیا۔ کوئی پنیر لایا، کوئی کھجور اور کوئی گھی لایا اور لوگوں نے سب کو ملا کر ایک کردیا (اور سب نے مل کر کھایا) یہی رسول اللہ ﷺ کا ولیمہ تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٢ ال صلاة ١٢ (٣١٧) ، صحیح مسلم/النکاح ١٤ (١٣٦٥) ، الجہاد ٤٣ (١٣٦٥) (مختصر) ، سنن ابی داود/الخراج ٢٤ (٣٠٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠) ، مسند احمد (٣/١٠١، ١٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وہ اپنی پہلی حالت پر برقرار نہیں رہ سکتی وہاں اسلامی انقلاب آ کر رہے گا اور ہم محمد اور محمد کے شیدائی جیسا چاہیں گے ویسا ہی ہوگا۔ ٢ ؎: چونکہ لشکر کے پانچ حصے مقدمہ، ساقہ، میمنہ، میسرہ، قلب ہوتے ہیں اس لیے اسے الخمیس کہا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3380

【186】

حالت سفر میں دلہن کے پاس (سہاگ رات کے لیے) جانے سے متعلق

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا کے ساتھ خیبر کے راستے میں تین دن گزارے، پھر ان کا شمار ان عورتوں میں ہوگیا جن پر پردہ فرض ہوگیا یعنی صفیہ آپ کی ازواج مطہرات میں ہوگئیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٤٢١٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3381

【187】

حالت سفر میں دلہن کے پاس (سہاگ رات کے لیے) جانے سے متعلق

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خیبر اور مدینہ طیبہ کے درمیان صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا کے ساتھ تین (عروسی) دن گزارے، میں نے لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کے ولیمے کے لیے بلایا، اس ولیمے میں روٹی گوشت نہیں تھا، آپ نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا اور اس (چمڑے کے) دستر خوان پر کھجوریں، پنیر اور گھی ڈالے گئے (اور انہیں ملا کر پیش کردیا گیا) یہی آپ کا ولیمہ تھا۔ لوگوں نے کہا : صفیہ امہات المؤمنین میں سے ایک ہوگئیں یا ابھی آپ کی لونڈی ہی رہیں ؟ پھر لوگ کہنے لگے : اگر آپ نے انہیں پردے میں رکھا تو سمجھو کہ یہ امہات المؤمنین میں سے ہیں اور اگر آپ نے انہیں پردے میں نہ بٹھایا تو سمجھو کہ یہ آپ کی باندی ہیں۔ پھر جب آپ نے کوچ فرمایا تو ان کے لیے کجاوے پر آپ کے پیچھے بچھونا بچھایا گیا اور ان کے اور لوگوں کے درمیان پردہ تان دیا گیا (کہ دوسرے لوگ انہیں نہ دیکھ سکیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٣ (٥٠٨٥) ، ٦٠ (١٥٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٧) ، مسند احمد (٣/٢٦٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3382

【188】

شادی میں کھیلنا اور گانا کیسا ہے؟

عامر بن سعد ابی وقاص کہتے ہیں کہ میں ایک شادی میں قرظہ بن کعب اور ابومسعود انصاری (رض) کے پاس پہنچا، اتفاق سے وہاں لڑکیاں گا رہی تھیں۔ میں نے ان سے کہا : آپ دونوں رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں اور بدری بھی ہیں، آپ کے سامنے یہ سب کیا جا رہا ہے (اور آپ لوگ روکتے نہیں ہیں) ؟ انہوں نے (جواب میں) کہا : آپ چاہیں تو بیٹھیں جیسے ہم سن رہے ہیں آپ بھی سنیں اور چاہیں تو یہاں سے ڈول جائیں، شادی کے موقع پر ہمیں گانے بجانے کی اجازت دی گئی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٩٩٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ شادی خوشی کا موقع ہے اور گانا اگر حرام چیزوں سے خالی ہو تو منع نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3383

【189】

اپنی لڑکی کو جہیز دینے سے متعلق

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں روئیں دار چادر، مشک، اذخر (گھاس) بھری ہوئی تکیہ دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ١١ (٤١٥٢) مطولا، (تحفة الأشراف : ١٠١٠٤) ، مسند احمد (١/٧٩، ٨٤، ٩٣، ١٠٤، ١٠٦، ١٠٨) (ضعیف الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث ضعیف الاسناد ہے، اس لیے قابل عمل نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3384

【190】

بستروں کے بارے میں

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک بچھونا مرد کے لیے ہو، ایک بیوی کے لیے ہو اور تیسرا مہمان کے لیے اور (اگر چوتھا ہوگا تو) چوتھا شیطان کے لیے ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٨ (٢٠٨٤) ، سنن ابی داود/اللباس ٤٥ (٤١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٧٧) ، مسند احمد (٣/٢٩٣، ٣٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گویا ضرورت سے زائد بسترے رکھنا اسراف ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3385

【191】

حاشیہ اور چادر رکھنے سے متعلق

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا : کیا تم نے شادی کی ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : کیا تم نے گدے و غالیچے بھی بنائے ہیں ؟ میں نے کہا : ہمیں کہاں یہ گدے اور غالیچے میسر ہیں ؟ آپ نے فرمایا : عنقریب تمہارے پاس یہ ہوں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٦٣١) ، النکاح ٦٢ (٥١٦١) ، صحیح مسلم/اللباس ٧ (٢٠٨٣) ، سنن ابی داود/اللباس ٤٥ (٤١٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٢٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأدب ٢٦ (٢٧٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مسلمان مالدار ہوجائیں گے اور عیش و عشرت کی ساری چیزیں انہیں میسر ہوں گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3386

【192】

دولہا کو ہدیہ اور تحفہ دینا

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح کیا اور اپنی بیوی کے پاس گئے اور میری ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حیس بنایا، میں اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ سے عرض کیا : میری والدہ ماجدہ آپ کو سلام پیش کرتی ہیں اور کہتی ہیں : یہ ہماری طرف سے آپ کے لیے تھوڑا سا تحفہ ہے، آپ نے فرمایا : اسے رکھ دو اور جاؤ فلاں فلاں کو بلا لاؤ، آپ نے ان کے نام لیے اور (راستے میں) جو بھی ملے اسے بھی بلا لو ۔ راوی جعد کہتے ہیں : میں نے انس (رض) سے پوچھا : وہ لوگ کتنے رہے ہوں گے ؟ کہا : تقریباً تین سو۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دس آدمیوں کا حلقہ (دائرہ) بنا کر کھاؤ، اور ہر شخص اپنے قریب (یعنی سامنے) سے کھائے ، تو ان لوگوں نے (ایسے ہی کر کے) کھایا اور سب آسودہ ہوگئے، (دس آدمیوں کی) ایک جماعت کھا کر نکلی تو (دس آدمیوں کی) دوسری جماعت آئی (اور اس نے کھایا اور وہ آسودہ ہوئی، اس طرح لوگ آتے گئے اور پیٹ بھر کر کھاتے اور نکلتے گئے، جب سب کھاچکے تو) مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انس ! اٹھا لو (وہ کھانا جو لائے تھے) تو میں نے اٹھا لیا۔ مگر میں کہہ نہیں سکتا کہ جب میں نے لا کر رکھا تھا تب زیادہ تھا یا جب اٹھایا تب (زیادہ تھا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٦٤ (٥١٦٣) تعلیقًامطولا، صحیح مسلم/النکاح ١٥ (١٤٢٨) ، سنن الترمذی/تفسیرسورة الأحزاب ٣٤ (٣٢١٨) ، (تحفة الأشراف : ٥١٣) ، مسند احمد (٣/١٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حیس یعنی مالیدہ، حیس گھی، پنیر اور کھجور سے بنایا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3387

【193】

دولہا کو ہدیہ اور تحفہ دینا

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قریش اور انصار کے درمیان مواخات یعنی بھائی چارہ قائم کردیا، تو سعد بن ربیع اور عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کو ایک دوسرے کا بھائی بنادیا۔ سعد (انصاری) (رض) نے ان سے کہا : میرے پاس مال ہے اس کا آدھا تمہارا ہے اور آدھا میرا اور میری دو بیویاں ہیں تو دیکھو ان میں سے جو تمہیں زیادہ اچھی لگے اسے میں طلاق دے دیتا ہوں، جب وہ عدت گزار کر پاک و صاف ہوجائے تو تم اس سے شادی کرلو۔ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے جواب دیا : اللہ تمہاری بیویوں اور تمہارے مال میں تمہیں برکت عطا کرے۔ مجھے تو تم بازار کی راہ دکھا دو ، (پھر وہ بازار گئے) اور گھی اور پنیر نفع میں کما کر لائے بغیر نہ لوٹے۔ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مجھ پر زردی کا نشان دیکھا تو کہا : یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا : میں نے ایک انصاری لڑکی سے شادی کی ہے تو آپ نے فرمایا : ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کا سہی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٧٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3388