26. عورتوں کے ساتھ حسن سلوک

【1】

عورتوں سے محبت کرنا

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا کی چیزوں میں سے عورتیں اور خوشبو میرے لیے محبوب بنادی گئی ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٤٣٥) ، مسند احمد (٣/١٢٨، ١٩٩، ٢٨٥) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3939

【2】

عورتوں سے محبت کرنا

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورتیں اور خوشبو میرے لیے محبوب بنادی گئی ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٧٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3940

【3】

عورتوں سے محبت کرنا

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عورتوں کے بعد گھوڑوں سے زیادہ کوئی چیز رسول اللہ ﷺ کو محبوب نہ تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ١٢٢١) ، وأعادہ فی الخیل ٢ (برقم ٣٥٩٤) (ضعیف) (اس کے راوی ” قتادہ “ مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3941

【4】

مرد کا اپنی ازواج میں سے کسی ایک زوجہ کی طرف قدرے مائل ہونا

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کے مقابلے دوسری طرف زیادہ میلان رکھے تو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٩ (٢١٣٣) ، سنن الترمذی/النکاح ٤١ (١١٤١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٧ (١٩٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢١٣) ، مسند احمد (٢/٢٩٥، ٣٤٧، ٤٧١) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٤ (٢٢٥٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3942

【5】

مرد کا اپنی ازواج میں سے کسی ایک زوجہ کی طرف قدرے مائل ہونا

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں کے درمیان کچھ تقسیم کرتے تو برابر برابر کرتے، پھر فرماتے : اللہ ! میرا یہ کام تو میرے دائرہ اختیار میں ہے، لہٰذا تو مجھے ملامت نہ کر ایسے کام کے سلسلے میں جو تیرے اختیار کا ہے اور مجھے اس میں کوئی اختیار نہیں۔ حماد بن زید نے یہ حدیث مرسل روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٩ (٢١٣٤) ، سنن الترمذی/النکاح ٤١ (١١٤٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٧ (١٩٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٩٠) ، مسند احمد (٦/١٤٤) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٥ (٢٢٥٣) (ضعیف) (پہلا جملہ حسن ہے، تراجع الالبانی ٣٤٦ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3943

【6】

مرد کا اپنی ازواج میں سے کسی ایک زوجہ کی طرف قدرے مائل ہونا

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی بیویوں نے فاطمہ بنت رسول ﷺ کو رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا، انہوں نے آپ سے اجازت طلب کی، آپ میرے ساتھ چادر میں لیٹے ہوئے تھے، آپ نے انہیں اجازت دی، وہ بولیں : اللہ کے رسول ! آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے وہ ابوقحافہ کی بیٹی (عائشہ) کے سلسلے میں آپ سے ١ ؎ عدل کا مطالبہ کر رہی ہیں، اور میں خاموش ہوں، تو رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : اے میری بیٹی ! کیا تم اس سے محبت نہیں کرتیں جس سے مجھے محبت ہے ؟ وہ بولیں : کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : تو تم بھی ان سے محبت کرو، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے جب یہ بات سنی تو اٹھیں اور نبی اکرم ﷺ کی بیویوں کے پاس واپس آ کر انہیں وہ ساری بات بتائی جو انہوں نے آپ ﷺ سے کہی اور جو آپ نے ان (فاطمہ) سے کہی۔ وہ سب بولیں : ہم نہیں سمجھتے کہ تم نے ہمارا کام کردیا، تم پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ اور آپ سے کہو : آپ کی بیویاں آپ سے ابوقحافہ کی بیٹی کے تعلق سے عدل کی اپیل کرتی ہیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : نہیں، اللہ کی قسم ! میں ان کے سلسلے میں آپ سے کبھی کوئی بات نہیں کروں گی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : اب نبی اکرم ﷺ کی ازواج نے رسول اللہ ﷺ کے پاس زینب بنت جحش کو بھیجا اور زینب ہی ایسی تھیں جو نبی اکرم ﷺ کی بیویوں میں رسول اللہ ﷺ کے نزدیک میرے برابر کا درجہ رکھتی تھیں۔ میں نے کبھی بھی دین کے معاملے میں بہتر، اللہ سے ڈرنے والی، سچ بات کہنے والی، صلہ رحمی کرنے والی، بڑے بڑے صدقات کرنے والی، صدقہ و خیرات اور قرب الٰہی کے کاموں میں خود کو سب سے زیادہ کمتر کرنے والی زینب سے بڑھ کر کوئی عورت نہیں دیکھی سوائے اس کے کہ وہ مزاج کی تیز طرار تھیں لیکن ان کا غصہ بہت جلد رفع ہوجاتا تھا۔ چناچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی، رسول اللہ ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ چادر میں اسی طرح تھے کہ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئی تھیں، رسول اللہ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی، وہ بولیں : اللہ کے رسول ! آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ وہ سب ابوقحافہ کی بیٹی کے تعلق سے آپ سے عدل و انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں اور وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں اور خوب زبان درازی کی، میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہی تھی اور آپ کی نگاہ دیکھ رہی تھی کہ آیا آپ مجھے بھی ان کا جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں، زینب رضی اللہ عنہا ابھی وہیں پر تھیں کہ میں نے اندازہ کرلیا کہ اگر میں انہیں جواب دوں تو رسول اللہ ﷺ کو برا نہیں لگے گا۔ چناچہ جب میں نے انہیں برا بھلا کہا تو میں نے انہیں ذرا بھی ٹکنے نہیں دیا یہاں تک کہ میں ان سے آگے نکل گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ ابوبکر کی بیٹی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ٨ (٢٥٨١) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٩٠) ، مسند احمد (٦/٨٨، ١٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی قلبی محبت میں تمام ازواج مطہرات برابر ہوں یا لوگ اپنے ہدایا بھیجنے میں ساری ازواج مطہرات کا خیال رکھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3944 اس سند سے بھی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر انہوں نے اسی طرح بیان کیا اور وہ اس میں (صرف اتنا) کہتی ہیں : نبی اکرم ﷺ کی بیویوں نے زینب کو بھیجا تو انہوں نے اجازت طلب کی، آپ نے انہیں اجازت دی، پھر وہ اسی طرح آگے کہتی ہیں، معمر نے اس کے برعکس عن الزہری، عن عروۃ، عن عائشہ کہہ کر روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٩٦ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3945

【7】

ایک بیوی کو دوسری بیوی سے زیادہ چاہنا

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی بیویاں اکٹھا ہوئیں اور انہوں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نبی اکرم ﷺ کے پاس بھیجا اور ان سے کہا : آپ کی بیویاں - اور ایسا کلمہ کہا جس کا مفہوم یہ ہے - ابوقحافہ کی بیٹی کے تعلق سے آپ سے مطالبہ کرتی ہیں کہ انصاف سے کام لیجئیے۔ چناچہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس گئیں، آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کی چادر میں تھے۔ انہوں نے آپ سے کہا : (اللہ کے رسول ! ) آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے وہ ابوقحافہ کی بیٹی (عائشہ) کے سلسلے میں آپ سے عدل کا مطالبہ کر رہی ہیں، نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے ؟ کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : تو تم بھی ان (عائشہ) سے محبت کرو ، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ کی بیویوں کے پاس واپس آ کر انہیں وہ ساری بات بتائی جو آپ نے (فاطمہ سے) کہی، وہ سب بولیں : تم نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں کیا، تم پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ۔ فاطمہ نے کہا : نہیں، اللہ کی قسم ! میں ان کے سلسلے میں آپ کے پاس کبھی نہیں جاؤں گی اور درحقیقت وہ اللہ کے رسول ﷺ کی بیٹی تھیں ١ ؎، اب نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات نے (رسول اللہ ﷺ کے پاس) زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو بھیجا۔ اور زینب ہی ایسی تھیں جو نبی اکرم ﷺ کی بیویوں میں (رسول اللہ ﷺ کے نزدیک) میرے برابر کا درجہ رکھتی تھیں۔ وہ بولیں : (اللہ کے رسول ! ) آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ وہ سب ابوقحافہ کی بیٹی کے تعلق سے آپ سے عدل و انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں اور وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں۔ میں نبی اکرم ﷺ کو دیکھ رہی تھی اور آپ کی نگاہ دیکھ رہی تھی کہ آیا آپ مجھے بھی ان کا جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں ؟ زینب رضی اللہ عنہا ابھی وہیں پر تھیں کہ میں نے اندازہ کرلیا کہ اگر میں انہیں جواب دوں تو رسول اللہ ﷺ کو برا نہیں لگے گا۔ چناچہ (جب) میں نے انہیں برا بھلا کہا (تو میں نے انہیں ذرا بھی ٹکنے نہیں دیا) یہاں تک کہ میں ان سے آگے نکل گئی، نبی اکرم ﷺ نے زینب رضی اللہ عنہا سے فرمایا : یہ ابوبکر کی بیٹی ہے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے کبھی بھی دین کے معاملے میں بہتر، اللہ سے ڈرنے والی، سچ بات کہنے والی اور صلہ رحمی کرنے والی، بڑے بڑے صدقات کرنے والی، صدقہ و خیرات اور قرب الٰہی کے کاموں میں خود کو سب سے زیادہ کمتر کرنے والی زینب رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی عورت نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ وہ مزاج کی تیز طرار تھیں لیکن ان کا غصہ بہت جلد رفع ہوجاتا تھا۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : اس (روایت) میں غلطی ہے صحیح وہی ہے جو اس سے پہلے گزری۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٦٧٤) ، مسند احمد (٦/١٥٠) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یعنی یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ آپ ﷺ کے فرمان کی خلاف ورزی کرتیں جب کی آپ نے ان سے فرمایا تھا تو بھی عائشہ رضی الله عنہا سے محبت کر۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3946

【8】

ایک بیوی کو دوسری بیوی سے زیادہ چاہنا

ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عورتوں پر عائشہ کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے ثرید کی تمام کھانوں پر ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٣٢ (٣٤١١) مطولا، ٤٦ (٣٤٣٣) مطولا، فضائل الصحابة ٣٠ (٣٧٦٩) مطولا، الأطعمة ٢٥ (٥٤١٨) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٣١) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٣١ (١٨٣٤) مطولا، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ١٤ (٣٢٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٢٩) ، مسند احمد (٤/٣٩٤، ٣٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ثرید : عربوں کا سب سے اعلیٰ درجے کا کھانا ہے یہ گوشت کا ہوتا ہے، اس میں لذت اور ذائقہ بھی ہے اور قوت و غذائیت بھی۔ کھانے میں بہت آسان ہوتا ہے اور اسے چبانے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ یہ خوبصورتی بڑھانے اور آواز میں حسن پیدا کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3947

【9】

ایک بیوی کو دوسری بیوی سے زیادہ چاہنا

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عورتوں پر عائشہ کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے ثرید کی سارے کھانوں پر ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٧٠٥) ، مسند احمد (٦/١٥٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3948

【10】

ایک بیوی کو دوسری بیوی سے زیادہ چاہنا

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے ام سلمہ ! مجھے عائشہ کے تعلق سے ایذا نہ دو ، اس لیے کہ اللہ کی قسم ! اس کے علاوہ کوئی عورت تم میں سے ایسی نہیں ہے جس کے لحاف میں میرے پاس وحی آئی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٦٨٧٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الہبة ٨ (٢٥٨١) ، و فضائل الصحابة ٣٠ (٣٧٧٥) ، سنن الترمذی/المناقب ٦٣ (٣٨٧٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3949

【11】

ایک بیوی کو دوسری بیوی سے زیادہ چاہنا

ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی بیویوں نے ان سے بات کی کہ وہ نبی اکرم ﷺ سے بات کریں کہ لوگ عائشہ کی باری کے دن ہدیے اور تحفے بھیجتے ہیں اور آپ سے کہیں کہ ہمیں بھی خیر سے اسی طرح محبت ہے جیسے آپ کو عائشہ سے ہے، چناچہ انہوں نے آپ سے گفتگو کی لیکن آپ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا، جب ان کی باری کا دن آیا تو انہوں نے پھر بات کی، آپ نے انہیں جواب نہیں دیا۔ انہوں (بیویوں) نے کہا : آپ ﷺ نے تمہیں کوئی جواب دیا ؟ وہ بولیں : کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہا : تم چھوڑنا مت، جب تک کوئی جواب نہ دے دیں۔ (یا یوں کہا :) جب تک تم دیکھ نہ لو کہ آپ کیا جواب دیتے ہیں۔ جب پھر ان کی باری آئی تو انہوں نے آپ سے گفتگو کی، آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ کے تعلق سے مجھے اذیت نہ دو ، اس لیے کہ عائشہ کے لحاف کے علاوہ تم میں سے کسی عورت کے لحاف میں ہوتے ہوئے میرے پاس وحی نہیں آئی ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : عبدہ سے مروی یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٢٥٨) ، مسند احمد (٦/٢٩٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3950

【12】

ایک بیوی کو دوسری بیوی سے زیادہ چاہنا

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ لوگ ہدیے اور تحفے بھیجتے جس دن عائشہ کی باری ہوتی، وہ اس طرح رسول اللہ ﷺ کی خوشی چاہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ٧ (٢٥٧٤) ، ٨ (٢٥٨٠) ، و فضائل الصحابة ٣٠ (٣٧٧٥) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٤٤) ، وحم (٦/٢٩٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3951

【13】

ایک بیوی کو دوسری بیوی سے زیادہ چاہنا

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ پر وحی نازل کی، میں آپ کے ساتھ تھی، میں اٹھی اور اپنے اور آپ کے درمیان دروازہ بند کردیا، جب وحی ختم ہوگئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا : عائشہ ! جبرائیل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٦١٥٦) (ضعیف الإسناد ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3952

【14】

ایک بیوی کو دوسری بیوی سے زیادہ چاہنا

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : جبرائیل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں ، انہوں نے کہا :وعلیکم السلام ورحم ۃ اللہ وبرکاتہ (جبرائیل کو عائشہ نے سلام کا جواب دیا اور کہا :) آپ تو وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٦٦٧١) ، مسند احمد (٦/١٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ جبرائیل کو دیکھ رہے ہیں اور ان کی باتیں سن رہے ہیں حالانکہ ہم نہیں دیکھ رہے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3953

【15】

ایک بیوی کو دوسری بیوی سے زیادہ چاہنا

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! یہ جبرائیل ہیں، تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔ اور آگے ویسے ہی ہے جیسے اوپر گزرا ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہ روایت ٹھیک ہے، پہلی والی غلط ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٦ (٣٢١٧) ، فضائل الصحابة ٣٠ (٣٧٦٨) ، الأدب ١١١ (٦٢٠١) ، الإستئذان ١٦ (٦٢٤٩) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٤٧) ، سنن الترمذی/المناقب ٦٣ (٣٨٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٦) ، مسند احمد (٦/٨٨، ١١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی شعیب عن الزہری عن أبی سلم ۃ عن عائش ۃ کی سند ٹھیک ہے جب کہ معمر عن الزہری عن عرو ۃ عن عائش ۃ کی سند میں غلطی ہے، کیونکہ عن عرو ۃ عن عائش ۃ کی جگہ عن أبی سلم ۃ عن عائش ۃ ہونا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3954

【16】

رشک اور حسد

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ امہات المؤمنین میں سے ایک کے پاس تھے، آپ کی کسی دوسری بیوی نے ایک پیالہ کھانا بھیجا، پہلی بیوی نے (غصہ سے کھانا لانے والے) کے ہاتھ پر مارا اور پیالہ گر کر ٹوٹ گیا۔ نبی اکرم ﷺ نے برتن کے دونوں ٹکڑوں کو اٹھا کر ایک کو دوسرے سے جوڑا اور اس میں کھانا اکٹھا کرنے لگے اور فرماتے جاتے تھے : تمہاری ماں کو غیرت آگئی ہے (کہ میرے گھر اس نے کھانا کیوں بھیجا) ، تم لوگ کھانا کھاؤ۔ لوگوں نے کھایا، پھر قاصد کو آپ نے روکے رکھا یہاں تک کہ جن کے گھر میں آپ تھے اپنا پیالہ لائیں تو آپ نے یہ صحیح سالم پیالہ قاصد کو عنایت کردیا ١ ؎ اور ٹوٹا ہوا پیالہ اس بیوی کے گھر میں رکھ چھوڑا جس نے اسے توڑا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٩١ (٣٥٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١٤ (٢٣٣٤) وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المظالم ٣٤ (٢٤٨١) ، النکاح ١٠٧ (٥٢٢٥) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٣ (١٣٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٣) ، مسند احمد (٣/١٠٥، ٢٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں پیالے آپ کی ذاتی ملکیت تھے، ورنہ کسی ضائع اور برباد چیز کا بدلہ اسی کے مثل قیمت ہوا کرتا ہے، یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں پیالے قیمت میں برابر رہے ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3955

【17】

رشک اور حسد

ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ وہ ایک پیالے میں کھانا لے کر رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کے پاس آئیں۔ اتنے میں عائشہ رضی اللہ عنہا ایک چادر پہنے ہوئے آئیں، ان کے پاس ایک پتھر تھا، جس سے انہوں نے وہ پیالا مار کر دو ٹکرے کردیا۔ نبی اکرم ﷺ پیالے کے دونوں ٹکڑے جوڑنے لگے اور کہہ رہے تھے : تم لوگ کھاؤ، تمہاری ماں کو غیرت آگئی، آپ نے دو بار کہا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا پیالا لیا اور وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بھجوا دیا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا پیالا عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٢٤٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3956

【18】

رشک اور حسد

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کے جیسی کھانا بنانے والی کوئی عورت نہیں دیکھی، انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک برتن بھیجا جس میں کھانا تھا، میں اپنے کو قابو میں نہ رکھ سکی اور میں نے برتن توڑ دیا پھر میں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کے کفارے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : برتن کے جیسا برتن اور کھانے کے جیسا کھانا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٩١ (٣٥٦٨) ، مسند احمد ٦/١٤٨، ٢٧٧ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3957

【19】

رشک اور حسد

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے اور ان کے ہاں شہد پی رہے تھے، میں نے اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے باہم مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس نبی اکرم ﷺ آئیں تو وہ کہے : مجھے آپ سے مغافیر ١ ؎ کی بو آرہی ہے، آپ نے مغافیر کھایا ہے۔ آپ ان میں سے ایک کے پاس گئے تو اس نے یہی کہا، آپ نے فرمایا : نہیں، میں نے تو زینب بنت جحش کے پاس شہد پیا ہے اور اب آئندہ نہیں پیوں گا ۔ تو عائشہ اور حفصہ (رضی اللہ عنہما) کی وجہ سے یہ آیت يا أيها النبي لم تحرم ما أحل اللہ لك اے نبی ! جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال کردیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں ۔ (التحریم : ١) اور إن تتوبا إلى اللہ (اے نبی کی دونوں بیویو ! ) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو (تو بہت بہتر ہے) ۔ (التحریم : ٤) نازل ہوئی اور آپ ﷺ کے اس قول : میں نے تو شہد پیا ہے کی وجہ سے یہ آیت : وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا اور یاد کر جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی (التحریم : ٣) نازل ہوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة التحریم ١ (٤٩١٢) مختصراً ، الطلاق ٨ (٥٢٦٧) ، والأیمان والنذور ٢٥ (٦٦٩١) ، الحیل ١٢ (٦٩٧٢) ، صحیح مسلم/الطلاق ٣ (١٤٧٤) ، سنن ابی داود/الأشربة ١١ (٣٧١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٢٢) ، مسند احمد (٦/٢٢١) ، ویأتي عند المؤلف في الطلاق ١٧ (برقم : ٣٤٥٠) وفي الأیمان والنذور ٢٠ برقم : ٣٨٢٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک قسم کا گوند ہے جو بعض درختوں سے نکلتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3958

【20】

رشک اور حسد

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک لونڈی تھی، آپ اس سے مجامعت فرماتے تھے۔ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا ایک دن آپ کے پاس بیٹھی رہیں یہاں تک کہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کرلی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت : يا أيها النبي لم تحرم ما أحل اللہ لك إِلَى آخِرِ الآيَةِ اے نبی ! آپ اس چیز کو اپنے لیے کیوں حرام قرار دے رہے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال رکھا ہے ۔ (التحریم : ١) مکمل آیت نازل فرمائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٨٢) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: اس سے پہلے والی حدیث میں ہے کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہے کہ آپ نے اپنے اوپر شہد کو حرام کرلیا تھا۔ اس سلسلہ میں حافظ ابن حجر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے یہ دونوں واقعے آیت کے نزول کا سبب بنے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3959

【21】

رشک اور حسد

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی تفتیش کر رہی تھی چناچہ میں نے اپنا ہاتھ آپ کے بالوں میں داخل کیا تو آپ نے فرمایا : تمہارے پاس تمہارا شیطان آگیا ہے ۔ میں نے عرض کیا : کیا آپ کا شیطان نہیں ہے ؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں، اللہ کی قسم، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے محفوظ رکھا ہے لہٰذا میں اس سے محفوظ رہتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٦١٨٤) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3960

【22】

رشک اور حسد

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کو غائب پایا، مجھے گمان ہوا کہ آپ کسی بیوی کے پاس گئے ہوں گے۔ میں آپ کو تلاش کرنے لگی، دیکھا کہ آپ رکوع یا سجدہ میں ہیں اور کہہ رہے ہیں : سبحانک وبحمدک لا إله إلا أنت پاک ہے تیری ذات، تیری ہی تعریف ہے اور تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ۔ میں نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کچھ کر رہے ہیں اور میں کچھ اور ہی گمان کر رہی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3961

【23】

رشک اور حسد

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کو غائب پایا، مجھے گمان ہوا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے پاس گئے ہوں گے، میں آپ کو تلاش کرنے لگی پھر میں لوٹی تو دیکھا کہ آپ رکوع یا سجدے میں ہیں، آپ کہہ رہے ہیں : سبحانک وبحمدک لا إله إلا أنت میں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کچھ کر رہے ہیں اور میں کچھ اور ہی گمان کر رہی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٩، ١١٣١، ١١٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3962

【24】

رشک اور حسد

محمد بن قیس سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا کہ کیا میں تم سے نبی اکرم ﷺ کا اور اپنا ایک واقعہ نہ بیان کروں ؟ ہم نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ وہ بولیں : جس رات میری باری تھی، آپ عشاء سے لوٹے اور جوتے اپنے پیروں کے پاس رکھ لیے، اپنی چادر رکھی اور بستر پر اپنا تہبند بچھایا، ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی، جب آپ کو اندازہ ہوا کہ میں سو چکی ہوں، تو آپ نے آہستہ سے جوتے پہنے اور آہستہ سے چادر لی پھر دھیرے سے دروازہ کھولا اور باہر نکل کر دھیرے سے بند کردیا۔ میں نے بھی اوڑھنی اپنے سر پر ڈالی، چادر اوڑھی اور پھر تہبند پہن کر آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، تو آپ نے اپنے ہاتھ تین بار اٹھائے، قیام کو طویل کیا پھر پلٹے تو میں بھی پلٹی، اور تیزی سے چلے، میں بھی تیزی سے چلی، پھر آپ نے رفتار کچھ اور تیز کردی تو میں نے بھی تیز کردی پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی، میں آپ سے آگے نکل گئی اور اندر داخل ہوگئی اور اب میں لیٹی ہی تھی کہ آپ اندر آگئے اور فرمایا : کیا بات ہے عائشہ ! سانس کیوں پھولی ہے ؟ (سلیمان بن داود نے کہا : میرا خیال ہے کہ میرے شیخ نے یوں فرمایا : حشیا، یعنی) تمہاری سانسیں کیوں پھول رہی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : بتاؤ ورنہ مجھے لطیف وخبیر یعنی اللہ بتادے گا ۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، پھر انہوں نے آپ کو پورا واقعہ بتایا، آپ نے فرمایا : تو تمہارا ہی سایہ تھا جو میں نے اپنے آگے دیکھا ؟ میں نے کہا : ہاں، پھر آپ نے میرے سینے پر ایک ایسی تھپکی ماری کہ مجھے تکلیف ہوئی اور فرمایا : کیا تم سمجھتی ہو کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا ؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : کوئی بات چاہے لوگوں سے کتنی ہی مخفی رہے، لیکن اللہ تعالیٰ تو اسے بخوبی جانتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، پھر فرمایا : جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آئے جب تم نے مجھے دیکھا، لیکن وہ اندر تمہارے سامنے نہیں آسکتے تھے کہ تم اپنے کپڑے اتار چکی تھیں، انہوں نے مجھے پکارا اور تم سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا اور میں نے اسے تم سے چھپایا (یعنی دھیرے سے کہا) اور میں سمجھا کہ تم سو چکی ہو، تو میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ تمہیں جگاؤں۔ اور مجھے ڈر تھا کہ تم تنہائی میں وحشت نہ کھاؤ، تو انہوں (جبرائیل) نے مجھے حکم دیا کہ میں اہل بقیع کے پاس جاؤں اور ان کے لیے استغفار کروں ۔ حجاج بن محمد نے سند اس کے برعکس یوں بیان کی عن ابن جریج، عن ابن ابی ملیک ۃ ، عن محمد بن قیس۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠٣٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3963

【25】

رشک اور حسد

محمد بن قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا : کیا میں تم سے نبی اکرم ﷺ کا اور اپنا ایک واقعہ نہ بیان کروں ؟ ہم نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ وہ بولیں : جس رات میری باری تھی، نبی اکرم ﷺ میرے یہاں تھے، آپ عشاء سے لوٹے اور جوتے اپنے پیروں کے پاس رکھ لیے، اپنی چادر رکھی اور بستر پر تہبند بچھایا، ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی جب آپ کو اندازہ ہوا کہ میں سو چکی ہوں، آپ نے آہستہ سے جوتے پہنے اور آہستہ سے چادر لی پھر دھیرے سے دروازہ کھولا اور باہر نکل کر دھیرے سے بھیڑ دیا، میں نے بھی اوڑھنی اپنے سر پر ڈالی، چادر اوڑھی، پھر تہبند پہن کر آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، تو آپ نے اپنے ہاتھ تین بار اٹھائے، قیام کو طویل کیا پھر پلٹے تو میں بھی پلٹی، اور تیزی سے چلے، میں بھی تیزی سے چلی، پھر آپ نے رفتار کچھ اور تیز کردی تو میں نے بھی رفتار تیز کردی پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی اور میں آپ سے آگے نکل گئی اور اندر داخل ہوگئی اور اب میں لیٹی ہی تھی کہ آپ اندر آگئے اور فرمایا : کیا بات ہے عائشہ ! پیٹ کیسا پھولا ہے، تمہاری سانسیں کیوں پھول رہی ہیں ؟ بتاؤ ورنہ مجھے لطیف وخبیر یعنی اللہ تعالیٰ بتادے گا ۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، پھر انہوں نے آپ کو پورا واقعہ بتایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو تمہارا ہی سایہ تھا جو میں نے اپنے آگے دیکھا ؟ میں نے کہا : ہاں، پھر آپ نے میرے سینے پر ایک ایسی تھپکی ماری کہ مجھے تکلیف ہوئی اور فرمایا : کیا تم سمجھتی ہو کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا ؟ انہوں نے کہا : کوئی بات چاہے لوگوں سے کتنی ہی مخفی رہے، لیکن اللہ تعالیٰ تو اسے جان ہی لے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، (اور) کہا : جبرائیل میرے پاس آئے جب تم نے مجھے دیکھا، لیکن وہ اندر تمہارے سامنے نہیں آسکتے تھے کہ تم اپنے کپڑے اتار چکی تھیں۔ انہوں نے مجھے پکارا اور تم سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا اور میں نے اسے تم سے چھپایا (یعنی دھیرے سے کہا) اور میں سمجھا کہ تم سو چکی ہو، اور مجھے ڈر تھا کہ تم تنہائی میں وحشت نہ کھاؤ، تو انہوں (جبرائیل) نے مجھے حکم دیا کہ میں اہل بقیع کے پاس جاؤں اور ان کے لیے استغفار کروں۔ عاصم نے یہ حدیث دوسرے الفاظ کے ساتھ عبداللہ بن عامر سے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠٣٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3964 اس سند سے بھی عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رات کو آپ ﷺ نے مجھے غائب پایا اور پھر پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٦ (١٥٤٦) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٢٦) ، مسند احمد (٦/٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3965