29. راہ الہی میں وقف سے متعلقہ احادیث

【1】

مال غنیمت میں گھوڑوں کے حصہ کے بارے میں

عمرو بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں (رسول اللہ ﷺ انتقال فرما گئے) اور انتقال کے وقت رسول اللہ ﷺ نے سوائے اپنے سفید خچر کے جس پر سوار ہوا کرتے تھے اور اپنے ہتھیار کے اور زمین کے جسے اللہ کے راستہ میں دے دیا تھا کچھ نہ چھوڑا تھا نہ دینار نہ درہم نہ غلام نہ لونڈی، (مصنف) کہتے ہیں (میرے استاذ) قتیبہ نے دوسری بار یہ بتایا کہ زمین کو صدقہ کردیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١ (٢٧٣٩) ، الجہاد ٦١ (٢٨٧٣) ، ٨٦ (٢٩١٢) ، الخمس ٣ (٣٠٩٨) ، المغازي ٨٣ (٤٤٦١) ، سنن الترمذی/الشمائل ٥٤ (٣٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧١٣) ، مسند احمد (٤/٢٧٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3594

【2】

مال غنیمت میں گھوڑوں کے حصہ کے بارے میں

عمرو بن حارث کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سوائے اپنے سفید خچر، ہتھیار اور زمین کے جسے آپ صدقہ کر گئے تھے کچھ چھوڑ کر نہ گئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3595

【3】

مال غنیمت میں گھوڑوں کے حصہ کے بارے میں

عمرو بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا (آپ نے اپنے انتقال کے موقع پر) اپنے شہباء خچر، ہتھیار اور اپنی زمین کے علاوہ جسے آپ صدقہ کر گئے تھے کچھ نہ چھوڑ کر گئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٢٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3596

【4】

وقف کرنے کے طریقے اور زیر نظر حدیث میں راویوں کا اختلاف کا بیان

عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے خیبر میں (حصہ میں) ایک زمین ملی، میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے کہا : مجھے بہت اچھی زمین ملی ہے، مجھے اس سے زیادہ محبوب و پسندیدہ مال (کبھی) نہ ملا تھا، آپ نے فرمایا : اگر چاہو تو صدقہ کرسکتے ہو تو انہوں نے اسے بایں طور صدقہ کردیا کہ وہ زمین نہ تو بیچی جائے گی اور نہ ہی کسی کو ہبہ کی جائے گی اور اس کی پیداوار فقیروں، محتاجوں اور قرابت داروں میں، گردن چھڑانے (یعنی غلام آزاد کرانے میں) ، مہمانوں کو کھلانے پلانے اور مسافروں کی مدد و امداد میں صرف کی جائے گی اور کچھ حرج نہیں اگر اس کا ولی، نگراں، محافظ و مہتمم اس میں سے کھائے مگر شرط یہ ہے کہ وہ معروف طریقے (انصاف و اعتدال) سے کھائے (کھانے کے نام پر لے کر) مالدار بننے کا خواہشمند نہ ہو اور دوسروں (دوستوں) کو کھلائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الوصایا ٤ (١٦٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3597

【5】

وقف کرنے کے طریقے اور زیر نظر حدیث میں راویوں کا اختلاف کا بیان

عمر رضی الله عنہ نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3598

【6】

وقف کرنے کے طریقے اور زیر نظر حدیث میں راویوں کا اختلاف کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عمر (رض) کو خیبر میں (بعد فتح خیبر تقسیم غنیمت میں) ایک زمین ملی تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے ایسی زمین ملی ہے جس سے بہتر مال میرے نزدیک مجھے کبھی نہیں ملا، تو آپ ہمیں بتائیں میں اسے کیا کروں، آپ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو اصل زمین کو اپنے پاس رکھو اور اس سے حاصل پیداوار کو تقسیم (خیرات) کر دو ، تو انہوں نے اس زمین کو بایں طور صدقہ کردیا کہ وہ نہ بیچی جائے گی نہ وہ بخشش میں دی جائے گی اور نہ وہ ورثہ میں دی جائے گی، اس کی آمدنی تقسیم ہوگی فقراء میں، جملہ رشتہ ناطہٰ والوں میں، غلام آزاد کرنے میں، اللہ کی راہ (جہاد) میں، مہمان نوازی میں، مسافروں کی امداد میں، اس زمین کے متولی (نگران و مہتمم) کے اس کی آمدنی میں سے معروف طریقے سے کھانے پینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور نہ ہی دوست و احباب کو کھلانے میں کوئی حرج ہے لیکن (اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر) مالدار بننے کی کوشش نہ کرے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشروط ١٩ (٢٧٣٧) ، الوصایا ٢٨ (٢٧٧٢) ، صحیح مسلم/الوصایا ٤ (١٦٣٣) ، سنن ابی داود/الوصایا ١٣ (٢٨٧٨) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٦ (١٣٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ٤ (٢٣٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٤٢) ، مسند احمد (٢/١٢، ٥٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3599

【7】

وقف کرنے کے طریقے اور زیر نظر حدیث میں راویوں کا اختلاف کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر کو خیبر میں ایک زمین ملی تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اس کے بارے میں صلاح و مشورہ کرنے کے لیے آئے اور کہا : مجھے ایک ایسی بڑی زمین ملی ہے جس سے میری نظروں میں زیادہ قیمتی مال مجھے کبھی نہیں ملا تو آپ مجھے اس زمین کے بارے میں کیا حکم و مشورہ دیتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر چاہو تو اصل زمین کو روک کر وقف کر دو اور اس کی آمدنی کو صدقہ کر دو ۔ تو انہوں نے اس طرح صدقہ کردیا کہ وہ بیچی نہ جاسکے گی اور نہ ھبہ کی جاسکے گی اور اس کی پیداوار اور آمدنی کو صدقہ کردیا فقراء، قرابت داروں، غلاموں کو آزاد کرنے، اللہ کی راہ، مسافروں (کی امداد) میں اور مہمانوں (کے تواضع) میں۔ اور اس کے ولی (نگراں و مہتمم) کے اس میں سے کھانے اور اپنے دوست کو کھلانے میں کوئی حرج و مضائقہ نہیں ہے لیکن (اس کے ذریعہ سے) مالدار بننے کی کوشش نہ ہو، حدیث کے الفاظ راوی حدیث اسماعیل مسعود کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٢٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3600

【8】

وقف کرنے کے طریقے اور زیر نظر حدیث میں راویوں کا اختلاف کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے، (وہ کہتے ہیں :) کہ عمر (رض) کو خیبر میں ایک زمین ملی تو وہ اس زمین کے بارے میں نبی اکرم ﷺ کے پاس مشورہ کرنے آئے، آپ نے فرمایا : اگر چاہو تو اصل کو روک کر وقف کر دو اور اس کی پیداوار کو صدقہ کر دو ۔ تو انہوں نے اس کی اصل کو اس طرح روک کر وقف کیا کہ یہ زمین نہ تو بیچی جاسکے گی اور نہ ہی کسی کو ہبہ کی جاسکے گی اور نہ ہی کسی کو وراثت میں دی جاسکے گی۔ اور اس کو صدقہ کیا اس طرح کہ اس سے فقراء، قرابت دار فائدہ اٹھائیں گے، اس کی آمدنی سے غلاموں کو آزاد کرانے میں مدد دی جائے گی اور مساکین پر خرچ کی جائے گی، مسافر کی مدد اور مہمان کی تواضع کی جائے گی اور جو اس زمین کا ولی (سرپرست و نگراں) ہوگا وہ بھی اس کی آمدنی سے معروف طریقے سے کھا سکے گا اور اپنے دوست کو کھلا سکے گا، لیکن (اپنے کھانے پینے کے نام پہ اس میں سے لے کر) مالدار اور سیٹھ نہ بن سکے گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٢٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3601

【9】

وقف کرنے کے طریقے اور زیر نظر حدیث میں راویوں کا اختلاف کا بیان

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون تم بِر (بھلائی) کو حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ تم اس میں سے خرچ نہ کرو جسے تم پسند کرتے ہو (آل عمران : ٩٢) نازل ہوئی تو ابوطلحہ نے کہا : اللہ تعالیٰ ہم سے ہمارے اچھے مال میں سے مانگتا ہے، تو اللہ کے رسول ! میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنی زمین اللہ کی راہ میں وقف کی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس وقف کو اپنے قرابت داروں : حسان بن ثابت اور ابی بن کعب کے لیے کر دو (کہ وہ لوگ اس زمین کو اپنے تصرف میں لائیں اور فائدہ اٹھائیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ١٤ (٩٩٨) ، سنن ابی داود/الزکاة ٤٥ (١٦٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٣١٥) ، موطا امام مالک/الصدقة ١ (٢) ، مسند احمد ٣/٢٨٥، سنن الدارمی/الزکاة ٢٣ (١٦٩٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3602

【10】

مشترک جائیداد کا وقف

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے کہا : میرے پاس خیبر میں جو سو حصے ہیں اس سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ مال مجھے کبھی بھی نہیں ملا، میں نے اسے صدقہ کردینے کا ارادہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا : اصل روک لو اور اس کا پھل (پیداوار) تقسیم کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصدقات ٤ (٢٣٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3603

【11】

مشترک جائیداد کا وقف

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا : اللہ کے رسول ! مجھے ایسا اچھا مال ہاتھ لگا ہے کہ اس جیسا مال مجھے کبھی نہیں ملا تھا۔ میرے پاس سو راس (جانور) تھے تو میں نے انہیں خیبر والوں کو دے کر سو حصے خرید لیے اور میرا ارادہ ہے کہ انہیں اللہ عزوجل کی راہ میں دے کر اس کی قرابت حاصل کرلوں۔ آپ نے فرمایا : (اگر تمہارا ایسا ارادہ ہے تو) اصل (یعنی زمین) کو روک لو اور پھل تقسیم کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3604

【12】

مشترک جائیداد کا وقف

عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری ایک زمین ثمغ (مدینہ) میں تھی، میں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : اصل (زمین) کو روک لو اور اس کے پھل (پیداوار و فوائد) کو تقسیم کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3605

【13】

مسجد کے واسطے وقف سے متعلق

معتمر بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حصین بن عبدالرحمٰن کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے اور وہ عمرو بن جاوان سے، جو ایک تمیمی شخص ہیں، روایت کرتے ہیں، اور یہ بات اس طرح ہوئی کہ میں (حصین بن عبدالرحمٰن) نے ان سے (یعنی عمرو بن جاوان سے) کہا : کیا تم نے احنف بن قیس کا اعتزال دیکھا ہے، کیسے ہوا ؟ وہ کہتے ہیں : میں نے احنف کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں مدینہ آیا (اس وقت) میں حج پر نکلا ہوا تھا، اسی اثناء میں ہم اپنی قیام گاہوں میں اپنے کجاوے اتار اتار کر رکھ رہے تھے کہ اچانک ایک آنے والے شخص نے آ کر بتایا کہ لوگ مسجد میں اکٹھا ہو رہے ہیں۔ میں وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ اکٹھا ہیں اور انہیں کے درمیان کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ان میں علی بن ابی طالب، زبیر، طلحہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم موجود ہیں۔ میں وہاں کھڑا ہوگیا، اسی دوران یہ آواز آئی : یہ لو عثمان بن عفان بھی آگئے، وہ آئے ان کے جسم پر ایک زرد رنگ کی چادر تھی ١ ؎، میں نے اپنے پاس والے سے کہا : جیسے تم ہو ویسے رہو مجھے دیکھ لینے دو وہ (عثمان) کیا کہتے ہیں، عثمان نے کہا : کیا یہاں علی ہیں، کیا یہاں زبیر ہیں، کیا یہاں طلحہ ہیں، کیا یہاں سعد ہیں ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں (موجود ہیں) انہوں نے کہا : میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ! کیا تمہیں معلوم ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : جو شخص خرید لے گا فلاں کا مربد (کھلیان، کھجور سکھانے کی جگہ) اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا ، تو میں نے اسے خرید لیا تھا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر آپ کو بتایا تھا کہ میں نے عقلان کا مربد (کھلیان) خرید لیا ہے تو آپ نے فرمایا تھا : اسے ہماری مسجد (مسجد نبوی) میں شامل کر دو ، اس کا تمہیں اجر ملے گا ، لوگوں نے کہا : ہاں، (ایسا ہی ہوا تھا) (پھر) کہا : میں تم سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ! کیا تم جانتے ہو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : جو شخص رومہ کا کنواں خرید لے گا (رومہ مدینہ کی ایک جگہ کا نام ہے) اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا ۔ میں (بئررومہ خرید کر) رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا اور (آپ سے) کہا : میں نے بئررومہ خرید لیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے مسلمانوں کے پینے کے لیے وقف کر دو ، اس کا تمہیں اجر ملے گا ، لوگوں نے کہا : ہاں (ایسا ہی ہوا تھا) انہوں نے (پھر) کہا : میں تم سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ! کیا تمہیں معلوم ہے رسول اللہ ﷺ نے (جنگ تبوک کے موقع پر) فرمایا تھا : جو شخص جیش عسرۃ (تہی دست لشکر) کو (سواریوں اور سامان حرب و ضرب سے) آراستہ کرے گا اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا ، تو میں نے ان لشکریوں کو ساز و سامان کے ساتھ تیار کردیا یہاں تک کہ انہیں عقال (اونٹوں کے پاؤں باندھنے کی رسی) اور خطام (مہار بنانے کی رسی) کی بھی ضرورت باقی نہ رہ گئی۔ لوگوں نے کہا : ہاں (آپ درست فرماتے ہیں ایسا ہی ہوا تھا) یہ سن کر انہوں نے کہا : اے اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو گواہ رہ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٨٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب خوارج نے عثمان رضی الله عنہ کے خلاف باغیانہ کارروائیاں شروع کردی تھیں اور ان سے خلافت سے دستبرداری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3606

【14】

مسجد کے واسطے وقف سے متعلق

احنف بن قیس کہتے ہیں کہ ہم اپنے گھر سے حج کے ارادے سے نکلے۔ مدینہ پہنچ کر ہم اپنے پڑاؤ کی جگہوں (خیموں) میں اپنی سواریوں سے سامان اتار اتار کر رکھ ہی رہے تھے کہ ایک آنے والے نے آ کر خبر دی کہ لوگ مسجد میں اکٹھا ہیں اور گھبرائے ہوئے ہیں تو ہم بھی (وہاں) چلے گئے، کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ مسجد کے بیچ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور لوگ انہیں (چاروں طرف سے) گھیرے ہوئے ہیں، ان میں علی، زبیر، طلحہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے۔ ہم یہ دیکھ ہی رہے تھے کہ اتنے میں عثمان بن عفان آگئے، وہ اپنے اوپر ایک پیلی چادر ڈالے ہوئے تھے اور اس سے اپنا سر ڈھانپے ہوئے تھے۔ (آ کر) کہنے لگے : کیا یہاں علی ہیں، کیا یہاں طلحہ ہیں، کیا یہاں زبیر ہیں، کیا یہاں سعد ہیں ؟ لوگوں نے کہا : ہاں (ہیں) انہوں نے کہا : میں تم لوگوں کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کیا تم لوگ جانتے ہو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : جو شخص بنی فلاں کا مربد (کھجوریں خشک کرنے کا میدان، کھلیان) خرید لے گا اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا ، تو میں نے اسے بیس ہزار یا پچیس ہزار میں خرید لیا تھا، اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ کو بتایا۔ آپ نے فرمایا : اسے (وقف کر کے ہماری) مسجد میں شامل کر دو ، اس کا تمہیں اجر ملے گا ۔ ان لوگوں نے اللہ کا نام لے کر کہا : ہاں (ہمیں معلوم ہے) (پھر) انہوں نے کہا : میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کیا تم جانتے ہو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : جو شخص رومہ کا کنواں خریدے گا اللہ اس کی مغفرت فرمائے گا ، تو میں نے اسے اتنے اتنے میں خریدا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ کو بتایا کہ میں نے اسے اتنے داموں میں خرید لیا ہے۔ آپ نے فرمایا : اس کو عام مسلمانوں کے پانی پینے کے لیے وقف کر دو ، اس کا تمہیں اجر ملے گا ۔ انہوں نے اللہ کا نام لے کر کہا : ہاں، (پھر) انہوں نے کہا : میں قسم دیتا ہوں تم کو اس اللہ کی جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ! کیا تم جانتے ہو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے چہروں پر نظر ڈالتے ہوئے کہا تھا جو شخص ان لوگوں کو تیار کر دے گا اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا ۔ هؤلاء سے مراد جیش عسرت ہے (ساز و سامان سے تہی دست لشکر) تو میں نے انہیں مسلح کردیا اور اس طرح تیار کردیا کہ انہیں اونٹوں کے پیر باندھنے کی رسی اور نکیل کی رسی کی بھی ضرورت باقی نہ رہ گئی تو ان لوگوں نے اللہ کا نام لے کر کہا ہاں (ایسا ہی ہوا ہے) تب عثمان نے کہا : اے اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو گواہ رہ۔ (میں نے یہ تیری رضا کے لیے کیا ہے اور ایسا کرنے والا مجرم نہیں ہوسکتا) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3607

【15】

مسجد کے واسطے وقف سے متعلق

ثمامہ بن حزن قشیری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں اس وقت عثمان (رض) عنہ کے گھر موجود تھا جب انہوں نے اوپر سے جھانک کر لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا : میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے جب رسول اللہ ﷺ مدینہ آئے تو وہاں بئررومہ کے سوا کہیں بھی پینے کا میٹھا پانی نہ تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : ہے کوئی جو رومہ کا کنواں خرید کر (وقف کر کے) اپنے اور تمام مسلمانوں کے ڈولوں کو یکساں کر دے اس کے عوض اسے جنت میں اس سے بہتر ملے گا ۔ میں نے (آپ کے اس ارشاد کے بعد) اسے اپنے ذاتی مال سے خرید کر اپنا ڈول عام مسلمانوں کے ڈول کے ساتھ کردیا (یعنی وقف کردیا اور اپنے لیے کوئی تخصیص نہ کی) اور آج یہ حال ہے کہ تم لوگ مجھے اس کا پانی پینے نہیں دے رہے ہو، حال یہ ہے کہ میں سمندر کا ( کھارا) پانی پی رہا ہوں۔ لوگوں نے کہا : ہاں، (اسی طرح ہے) (پھر) انہوں نے کہا : میں تم سے اسلام اور اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو جیش عسرہ (ضرورت مند لشکر) کو میں نے اپنا مال صرف کر کے جنگ میں شریک ہونے کے قابل بنایا تھا۔ ان لوگوں نے کہا : ہاں، (ایسا ہی ہے) انہوں نے (پھر) کہا : میں تم سے اللہ اور اسلام کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے مسجد اپنے نمازیوں پر تنگ ہوگئی تھی، آپ نے فرمایا تھا : کون ہے جو فلاں خاندان کی زمین کو خرید کر جنت میں اس سے بہتر پانے کے لیے اسے مسجد میں شامل کر کے مسجد کو مزید وسعت دیدے ۔ تو میں نے اس زمین کے کئی ٹکڑے کو اپنا ذاتی مال صرف کر کے خرید لیا تھا اور مسجد میں اس کا اضافہ کردیا تھا اور تمہارا حال آج یہ ہے کہ تم لوگ مجھے اس میں دو رکعت نماز پڑھنے تک نہیں دے رہے ہو۔ لوگوں نے کہا : ہاں (بجا فرما رہے ہیں آپ) ۔ انہوں نے (پھر) کہا : میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تم لوگ جانتے ہو رسول اللہ ﷺ مکہ کی پہاڑیوں میں سے ایک پہاڑی پر تھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر و عمر بھی تھے اور میں بھی تھا، اس وقت وہ پہاڑ ہلنے لگا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اسے ٹھوکر لگائی اور فرمایا : ثبیر ! سکون سے رہ، کیونکہ (یہاں) تیرے اوپر نبی، صدیق اور دو شہید موجود ہیں ۔ لوگوں نے کہا : اللہ گواہ ہے، ہاں (آپ ٹھیک کہتے ہیں) انہوں نے کہا : اللہ اکبر، اللہ بہت بڑا ہے۔ ان لوگوں نے (میرے شہید ہونے کی) گواہی دی۔ رب کعبہ کی قسم میں شہید ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ١٩ (٣٧٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٨٥) ، مسند احمد (١/٧٤) (صحیح) (لیکن ” ثبر “ کا واقعہ صحیح نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح دون قصة ثبير صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3608

【16】

مسجد کے واسطے وقف سے متعلق

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، (وہ کہتے ہیں :) کہ جب لوگوں نے عثمان (رض) عنہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا تو عثمان نے مکان کے اوپر سے نیچے کی طرف جھانکتے ہوئے لوگوں سے کہا : میں اللہ کا واسطہ دے کر اس شخص سے پوچھتا ہوں جس نے پہاڑ کے ہلنے والے دن رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا۔ جب پہاڑ ہلا تھا رسول اللہ ﷺ نے اسے ٹھوکر لگا کر کہا تھا : ٹھہرا رہ (سکون سے رہ) تیرے اوپر ایک نبی، صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں ، (کوئی اور نہیں) اس وقت میں آپ کے ساتھ تھا (یہ سن کر) بہت سے لوگوں نے ان کی بات کی تصدیق کی، انہوں نے (پھر) کہا : میں اللہ کا واسطہ دے کر اسی شخص سے پوچھتا ہوں جو بیعت رضوان کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا، رسول اللہ ﷺ نے (اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر) فرمایا تھا : یہ اللہ کا ہاتھ ہے اور یہ ہاتھ عثمان کا ١ ؎، تو بہت سے لوگوں نے اس کی تصدیق کی۔ پھر انہوں نے کہا : میں اللہ کا واسطہ دے کر اسی شخص سے پوچھتا ہوں جس نے جیش عسرہ (تنگ حالی سے دوچار لشکر) کے دن رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ کون ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا ایسا خرچ جس کی (بارگاہ الٰہی میں) قبولیت یقینی ہے ۔ اس وقت میں نے اپنے ذاتی مال کو خرچ کر کے آدھے لشکر کی ضروریات کو پورا کر کے میدان جنگ میں شریک ہونے کے قابل بنایا تھا تو بیشمار لوگوں نے ان کی اس بات کی تصدیق کی۔ انہوں نے (پھر) کہا : میں اس شخص سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کون ہے جو جنت میں ایک گھر کے عوض اس مسجد (نبوی) میں توسیع کرتا ہے ۔ میں نے (یہ سن کر مسجد سے ملی ہوئی زمین) اپنے پیسوں سے خرید کر مسجد کو کشادہ کردیا، تو لوگوں نے ان کی اس بات کی بھی تصدیق کی۔ انہوں نے پھر کہا : میں اللہ کو گواہ بنا کر اس شخص سے پوچھتا ہوں جو بئررومہ کی فروختگی کے وقت موجود تھا میں نے اسے اپنا مال دے کر خریدا تھا اور میں نے اسے مسافروں کے لیے عام کردیا تھا (جو بھی گزرنے والا اس کا پانی پینا چاہے پیے) لوگوں نے ان کی اس بات کی بھی تصدیق کی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٨٤٢) ، مسند احمد (١/٥٩) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہاں نبی اکرم ﷺ نے اللہ کا ہاتھ جو ارشاد فرمایا ہے تو اس میں آپ ﷺ سورة الفتح کی آیت ( ١٥ ) کی طرف اشارہ فرما رہے تھے : اللہ عزوجل نے فرمایا ہے : إن الذين يبايعونک إنما يبايعون الله يد الله فوق أيديهم بلاشبہ جو لوگ اے ہمارے نبی ! ( حدیبیہ میں ) بیعت کر رہے تھے وہ گویا اللہ رب العزت سے بیعت کر رہے تھے، اللہ عزوجل کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر تھا ( الفتح : 10) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3609

【17】

مسجد کے واسطے وقف سے متعلق

ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ جب عثمان (رض) عنہ کا ان کے گھر میں محاصرہ کردیا گیا اور لوگ ان کے گھر کے چاروں طرف اکٹھا ہوگئے تو انہوں نے اوپر سے جھانک کر انہیں دیکھا، اور عبدالرحمٰن نے (اوپر گزری ہوئی) پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٣٣ (٢٧٧٨) تعلیقًا سنن الترمذی/المناقب ١٩ (٣٦٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٨١٤) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3610