35. قسموں اور نذروں سے متعلق احادیث مبارکہ

【1】

بیوی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کچھ دے سکے اس کے بیان میں

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جو قسم کھاتے تھے وہ یہ تھی ‏لا ومقلب القلوب نہیں، اس کی قسم جو دلوں کو پھیر نے والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/القدر ١٤ (٦٦١٧) ، الأیمان ٣ (٦٦٢٨) ، التوحید ١١ (٧٣٩١) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٢ (١٥٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٢٤) ، مسند احمد (٢/٢٦، ٦٧، ٦٨، ١٢٧) ، سنن الدارمی/النذور ١٢ (٢٣٩٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3761

【2】

مصرف القلوب کے لفظ کی قسم

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جو قسم کھاتے تھے وہ یہ تھی لا ومصرف القلوب نہیں، اس کی قسم جو دلوں کو پھیرنے والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الکفارات ١ (٢٠٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٦٥) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3762

【3】

اللہ تعالیٰ قدوس کی عزت کی قسم کھانے کے بارے میں

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے جب جنت اور جہنم کو پیدا کیا تو جبرائیل کو جنت کے پاس بھیجا اور فرمایا : اسے اور ان چیزوں کو دیکھو جو میں نے اس میں اس کے مستحقین کے لیے تیار کی ہیں، چناچہ انہوں نے اسے دیکھا اور لوٹ کر آئے تو کہا : قسم ہے تیری عزت اور غلبے کی ! ١ ؎ جو کوئی بھی اس کے بارے میں سنے گا اس میں داخل ہوئے بغیر نہ رہے گا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا تو اسے مکروہ ناپسندیدہ چیزوں سے گھیر دیا گیا ٢ ؎، پھر کہا : جاؤ اسے اور ان چیزوں کو دیکھو جو میں نے اس میں اس کے مستحقین کے لیے تیار کی ہیں، چناچہ انہوں نے اس پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ وہ ناپسندیدہ چیزوں سے گھیر دی گئی ہے، انہوں نے کہا : تیری عزت اور غلبے کی قسم ! مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ اس میں کوئی داخل نہ ہوگا، کہا : جاؤ اور جہنم کو اور ان چیزوں کو دیکھو جو میں نے اس کے مستحقین کے لیے تیار کی ہیں، انہوں نے اس پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے پر چڑھا جا رہا ہے ٣ ؎، وہ لوٹ کر آئے اور بولے : تیری عزت اور غلبے کی قسم ! اس میں کوئی داخل نہ ہوگا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں حکم دیا تو وہ دل کو بھانے والی چیزوں سے گھیر دی گئی۔ (پھر اللہ تعالیٰ نے) کہا : واپس جا کر اب اسے دیکھو۔ انہوں نے اس پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ وہ پسندیدہ چیزوں سے گھیر دی گئی ہے۔ وہ لوٹے اور کہا : تیرے غلبے کی قسم ! مجھے ڈر ہے کہ اس میں تو کوئی داخل ہونے سے نہ بچ سکے گا ٤ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٠٨٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/السنة ٢٥ (٤٧٤٤) ، سنن الترمذی/صفة الجنة ٢١ (٢٥٦٠) ، مسند احمد (٢/٣٣٣، ٣٧٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسی جملے میں باب سے مطابقت ہے۔ ٢ ؎: یعنی صلاۃ، صوم، زکاۃ اور جہاد جیسے نیک اعمال سے اسے گھیر دیا گیا، ان اعمال کی ادائیگی اسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوئے انہیں اداء کرے، اور کتاب و سنت کے مطابق ان کی ادائیگی کے بغیر حصول جنت کا تصور ناممکن ہے، اس لیے کہ انہیں سارے اعمال صالحہ کی وجہ سے وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہوگا اور اس رحمت کے نتیجے میں وہ جنت میں داخل ہوگا۔ ٣ ؎: یعنی اس میں اس قدر شدت پائی جاتی ہے کہ لگتا ہے اس کا ایک حصہ دوسرے کو کھائے جا رہا ہے۔ ٤ ؎: کیونکہ انسان اگر خواہشات کے پیچھے پڑگیا اور اپنے نفس پر کنٹرول نہ رکھ سکا تو ڈر ہے کہ وہ جہنم میں داخل ہونے سے نہ بچ سکے گا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3763

【4】

اللہ تعالیٰ کے سوا قسم کھانے کی ممانعت کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو قسم کھائے تو وہ اللہ کے سوا کسی اور کی قسم نہ کھائے ، اور قریش اپنے باپ دادا کی قسم کھاتے تھے تو آپ نے فرمایا : تم اپنے باپ دادا کی قسم نہ کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٣٦) ، الأیمان ٤ (٦٦٤٨) ، صحیح مسلم/الأیمان ١(١٦٤٦) ، مسند احمد (٢/٩٨) ، سنن الدارمی/النذور والأیمان ٦ (٢٣٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3764

【5】

اللہ تعالیٰ کے سوا قسم کھانے کی ممانعت کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے روکتا ہے کہ تم اپنے باپ دادا کی قسم کھاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٠٣٤) ، مسند احمد (٢/٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: غیر اللہ کی قسم کھانے کی ممانعت کی حکمت یہ ہے کہ قسم سے اس چیز کی تعظیم مقصود ہوتی ہے جس کی قسم کھائی جاتی ہے حالانکہ حقیقی عظمت و تقدس صرف اللہ رب العالمین کی ذات کے ساتھ خاص ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے اسماء (نام) اور اس کی صفات (خوبیوں) کے علاوہ کی قسم کھانا جائز نہیں، اس سلسلہ میں ملائکہ، انبیاء، اولیاء وغیرہ سب برابر ہیں، ان میں سے کسی کی قسم نہیں کھائی جاسکتی ہے۔ رہ گئی بات حدیث میں وارد لفظ أفلح و أبیہ کی تو اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ اس طرح کا کلمہ عربوں کی زبان پر جاری ہوجاتا تھا، جس کا مقصود قسم نہیں ہوتا تھا، اور ممکن ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی زبان سے یہ کلمہ اس ممانعت سے پہلے نکلا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3765

【6】

باپوں کی قسم کھانے سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک بار نبی اکرم ﷺ نے عمر (رض) کو کہتے سنا : میرے باپ کی قسم ! میرے باپ کی قسم ! تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے روکتا ہے کہ تم اپنے باپ دادا کی قسم کھاؤ۔ (عمر (رض) کہتے ہیں) اللہ کی قسم ! اس کے بعد پھر میں نے کبھی ان کی قسم نہیں کھائی، نہ تو خود اپنی بات بیان کرتے ہوئے اور نہ ہی دوسرے کی بات نقل کرتے ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان ٤ (٦٦٤٧ تعلیقًا) ، صحیح مسلم/الأیمان ١ (١٦٤٦) ، سنن الترمذی/الأیمان والنذور ٨ (١٥٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٨) ، موطا امام مالک/ مسند احمد (٢/٧، ٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3766

【7】

باپوں کی قسم کھانے سے متعلق

عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے روکتا ہے کہ تم اپنے باپ دادا کی قسم کھاؤ۔ عمر (رض) کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! اس کے بعد پھر کبھی میں نے خود اپنی بات بیان کرتے ہوئے یا دوسرے کی بات نقل کرتے ہوئے ان کی قسم نہیں کھائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان ٤ (٦٦٤٧) ، صحیح مسلم/الأیمان ١ (١٦٤٦) ، سنن ابی داود/الأیمان ٥ (٢٣٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٢ (٢٠٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥١٨) ، مسند احمد (١/١٨، ٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3767

【8】

باپوں کی قسم کھانے سے متعلق

عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے روکتا ہے کہ تم اپنے باپ دادا کی قسم کھاؤ۔ عمر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے اس کے بعد ان کی قسم نہیں کھائی، نہ تو خود کچھ بیان کرتے ہوئے اور نہ ہی کسی دوسرے کی بات نقل کرتے ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3768

【9】

ماں کی قسم کھانے سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے ماں باپ، دادا، دادی اور شریکوں ١ ؎ کی قسم نہ کھاؤ، اور نہ اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھاؤ اور تم قسم نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تم سچے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان ٥ (٣٢٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بتوں اور معبودان باطلہ کی قسم نہ کھاؤ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3769

【10】

اسلام کے علاوہ اور کسی ملت کی قسم کھانے سے متعلق

ثابت بن ضحاک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام کے سوا کسی اور ملت و مذہب کی جو کوئی جھوٹی قسم کھائے تو وہ ویسا ہی ہوگا جیسا اس نے کہا ، قتیبہ نے اپنی حدیث میں متعمدا کہا ہے (یعنی دوسری ملت کی جان بوجھ کر قسم کھائے) اور یزید نے کاذبا کہا ہے (جو دوسری ملت کی جھوٹی قسم کھائے گا) تو وہ ویسا ہی ہوگا جیسا اس نے کہا ١ ؎ اور جو کوئی اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کرلے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ میں اسی چیز سے عذاب دے گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٣ (١٣٦٣) ، الأدب ٤٤ (٦٠٤٧) ، ٧٣ (٦١٠٥) ، الأیمان ٧ (٦٦٥٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٧ (١١٠) ، سنن ابی داود/الأیمان ٩ (٣٢٥٧) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٥ (١٥٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٣(٢٠٩٨) ، مسند احمد (٤/٣٣، ٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٦٢) ، سنن الدارمی/الدیات ١٠ (٢٤٠٦) ، و یأتي عند المؤلف برقم : ٣٨٤٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کسی نے قسم کھائی کہ اگر یہ کام مجھ سے نہ ہوا تو میں یہودی یا نصرانی یا مذہب اسلام سے بیزار و متنفر ہوں اور وہ اپنی اس قسم میں پورا نہیں اترا بلکہ جھوٹا ثابت ہوا تو وہ اپنے کہے کے مطابق ہوگا، لیکن علماء کا کہنا ہے کہ یہ وعید اور دھمکی کے طور پر ہے، اگر دلی طور پر وہ اپنے ایمان سے مطمئن ہے تو اسے اپنے اس قول سے کچھ بھی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3770

【11】

اسلام کے علاوہ اور کسی ملت کی قسم کھانے سے متعلق

ثابت بن ضحاک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اسلام کے سوا کسی ملت و مذہب کی جھوٹی قسم کھائی تو وہ ویسا ہی ہے، جیسا اس نے کہا، اور جس نے خود کو کسی چیز سے مار ڈالا (خودکشی کرلی) تو اسے آخرت میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3771

【12】

اسلام سے بے زار ہونے کے واسطے قسم کھانا

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کہا : (اگر میں نے یہ کیا ہوا تو) میں اسلام سے بری اور لاتعلق ہوں، تو اگر وہ جھوٹا ہے تو وہ ویسا ہی ہے جیسا اس نے کہا، اور اگر وہ سچا ہے تو بھی وہ اسلام کی طرف صحیح سالم نہیں لوٹے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان ٩ (٣٢٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٣ (٢١٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٩٥٩) ، مسند احمد (٥/٣٥٥، ٣٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی یہ کہہ کر قسم کھانا کہ میں اسلام سے بری و بیزار ہوں اس کے گناہ گار ہونے کے لیے کافی ہے، اسے چاہیئے کہ توبہ و استغفار کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3772

【13】

خانہ کعبہ کی قسم سے متعلق

قبیلہ جہینہ کی ایک عورت قتیلہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : تم لوگ (غیر اللہ کو اللہ کے ساتھ) شریک ٹھہراتے اور شرک کرتے ہو، تم کہتے ہو : جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں، اور تم کہتے ہو : کعبے کی قسم ! تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ جب وہ قسم کھانا چاہیں تو کہیں : کعبے کے رب کی قسم ! اور کہیں : جو اللہ چاہے پھر آپ جو چاہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٠٤٦) ، مسند احمد (٦/٣٧١، ٣٧٢) ، والمؤلف في عمل الیوم واللیلة ٢٨٤ (٩٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ اچھی بات کی رہنمائی کوئی بھی کرے تو اسے قبول کرنا چاہیئے، خصوصا جب اس کا تعلق توحید و شرک کے مسائل سے ہو تو اسے بدرجہ اولیٰ قبول کرنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3773

【14】

جھوٹے معبودوں کی قسم کھانا

عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے باپ دادا کی قسم نہ کھاؤ، اور نہ طاغوتوں (جھوٹے معبودوں) کی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان ٢ (١٦٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٢ (٢٠٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٧) ، مسند احمد (٥/٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3774

【15】

لات (بت) کی قسم سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جو قسم کھائے اور کہے : لات (بت) کی قسم، تو اسے چاہیئے کہ وہ لا الٰہ الا اللہ پڑھے، اور جو اپنے ساتھی سے کہے : آؤ تمہارے ساتھ جوا کھیلیں گے) تو اسے چاہیئے کہ صدقہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة النجم ٢ (٤٨٦٠) ، الأدب ٧٤ (٦١٠٧) ، الاستئذان ٥٢ (٦٣٠١) ، الأیمان ٥ (٦٦٥٠) ، صحیح مسلم/الأیمان ٢ (١٦٤٧) ، سنن ابی داود/الأیمان ٤(٣٢٤٧) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٧(١٥٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٢ (٢٠٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٧٦) ، مسند احمد (٢/٣٠٩) ، والمؤلف في الیوم واللیلة ٢٨٥ (٩٩١ و ٩٩٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3775

【16】

لات اور عزی کی قسم کھانا

سعد (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک معاملے کا ذکر کر رہے تھے اور میں نیا نیا مسلمان ہوا تھا، میں نے لات و عزیٰ کی قسم کھالی، تو مجھ سے صحابہ کرام نے کہا کہ تم نے بری بات کہی، رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ اور آپ کو اس کی خبر دو کیونکہ ہمارے خیال میں تو تم نے کفر کا ارتکاب کیا ہے، چناچہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو اس کی اطلاع دی تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : تین بار : لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له کہو اور تین بار شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو اور تین بار اپنے بائیں طرف تھوک دو اور پھر دوبارہ کبھی ایسا نہ کہنا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الکفارات ٢ (٢٠٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٣٨) ، مسند احمد (١/١٨٣، ١٨٦) والمؤلف في عمل الیوم واللیلة ٢٨٥ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3776

【17】

لات اور عزی کی قسم کھانا

سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے لات و عزیٰ کی قسم کھالی تو میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا : تم نے بری بات کہی ہے، تم نے فحش بات کہی ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ سے اس کا تذکرہ کیا، تو آپ نے فرمایا : کہو : لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شىء قدير اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور تین بار بائیں طرف تھوک لو اور شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرو اور پھر کبھی ایسا نہ کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3777

【18】

قسم پوری کرنے سے متعلق

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا : آپ نے ہمیں جنازوں کے پیچھے جانے، بیمار کی عیادت کرنے، چھینکنے والے کا جواب دینے، دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنے، مظلوم کی مدد کرنے، قسم پوری کرنے اور سلام کا جواب دینے کا حکم دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3778

【19】

کسی شخص نے کسی چیز کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھانے کے بعد عمدہ اور بہتر پایا تو وہ شخص کیا کرے؟

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : زمین پر کوئی ایسی قسم نہیں جو میں کھاؤں پھر اس کے سوا کو اس سے بہتر سمجھوں مگر میں وہی کروں گا (جو بہتر ہوگا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ١٥ (٣١٣٣) ، المغازي ٧٤ (٤٣٨٥) ، الصید ٢٦(٥٥١٧) ، الأیمان ١ (٦٦٢٣) ، ٤ (٦٦٤٩) ، ١٨ (٦٦٨٠) ، کفارات الأیمان ٩ (٦٧١٨) ، ١٠(٦٧٢١) ، والتوحید ٥٦ (٧٥٥٥) ، صحیح مسلم/الأیمان ٣ (١٦٤٩) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٢٥ (١٨٢٦، ١٨٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٩٠) ، مسند احمد (٤/٣٩٤، ٣٩٧، ٣٩٨، ٤٠٤٤٠١، ٤١٨) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢٢ (٢١٠٠) ، ویأتي عند المؤلف في الصید (برقم : ٤٣٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3779

【20】

قسم توڑنے سے قبل کفارہ دینا

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں اشعریوں کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، ہم آپ سے سواریاں مانگ رہے تھے ١ ؎، آپ نے فرمایا : قسم اللہ کی ! میں تمہیں سواریاں نہیں دے سکتا، میرے پاس کوئی سواری ہے بھی نہیں جو میں تمہیں دوں ، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، اتنے میں کچھ اونٹ لائے گئے تو آپ ﷺ نے ہمارے لیے تین اونٹوں کا حکم دیا، تو جب ہم چلنے لگے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : اللہ تعالیٰ ہمیں برکت نہیں دے گا۔ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سواریاں طلب کرنے آئے تو آپ نے قسم کھائی کہ آپ ہمیں سواریاں نہیں دیں گے۔ ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں : تو ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : میں نے تمہیں سواریاں نہیں دی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دی ہیں، قسم اللہ کی ! میں کسی بات کی قسم کھاتا ہوں، پھر میں اس کے علاوہ کو بہتر سمجھتا ہوں تو میں اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور جو بہتر ہوتا ہے کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان ١ (٦٦٢٣) ، کفارات الأیمان ٩ (٦٧١٨) ، صحیح مسلم/الأیمان ٣ (١٦٤٩) ، سنن ابی داود/الأیمان ١٧ (٣٢٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٧ (٢١٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٩١٢٢) ، مسند احمد (٤/٣٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سواریوں کا مطالبہ غزوہ تبوک میں شریک ہونے کے لیے کیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3780

【21】

قسم توڑنے سے قبل کفارہ دینا

عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی قسم کھائے پھر اس کے سوا کو اس سے بہتر سمجھے تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ دے اور وہی کام انجام دے جو بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٧٥٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الکفارات ٨ (٢١١١) ، مسند احمد (٢/١٨٥، ٢٠٤، ٢١١، ٢١٢) (حسن، صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3781

【22】

قسم توڑنے سے قبل کفارہ دینا

عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جب کوئی قسم کھائے پھر اس کے سوا کو اس سے بہتر سمجھے تو چاہیئے کہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے اور دیکھے کہ کون سی بات بہتر ہے تو وہی کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان ١ (٦٦٢٢ مطولا) ، کفارات الأیمان ١٠(٦٧٢٢ مطولا) ، الأحکام ٥ (٧١٤٦ مطولا) ، ٦٠ (٧١٤٧) ، صحیح مسلم/الأیمان ٣ (١٦٥٢) ، سنن ابی داود/الأیمان ١٧ (٣٢٧٨) ، سنن الترمذی/الأیمان ٥ (١٥٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٥) ، مسند احمد ٥/٦١، ٦٢، ٦٣، سنن الدارمی/النذور والأیمان ٩، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٣٨١٤، ٨٣١٥، ٣٨٢٠- ٣٨٢٢، ٥٣٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3782

【23】

قسم توڑنے سے قبل کفارہ دینا

عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم قسم کھاؤ تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو پھر وہ کام کرو جو بہتر ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3783

【24】

قسم توڑنے سے قبل کفارہ دینا

عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی بات کی قسم کھاؤ پھر اس کے علاوہ کو اس سے بہتر دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہی کرو جو بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3784

【25】

قسم ٹوٹنے کے بعد کفارہ دینا

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی بات کی قسم کھائے پھر اس کے علاوہ کو اس سے بہتر پائے تو وہی کرے جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٨٧١) ، مسند احمد (٤/٢٥٦، ٣٧٨) ، سنن الدارمی/النذور والأیمان ٩ (٢٣٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کی پچھلی حدیث میں قسم توڑنے سے پہلے ہی کفارہ ادا کرنے کا ذکر ہے، اور عدی بن حاتم طائی (رض) کی اس حدیث میں قسم توڑنے کے بعد کفارہ ادا کرنے کی بات ہے، امام نسائی اور امام بخاری نے ان دونوں حدیثوں سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ چاہے تو کفارہ پہلے ادا کر دے، یا چاہے تو بعد میں ادا کرے دونوں صورتیں جائز ہیں، بعض علماء قسم توڑنے کے بعد ہی کفارہ ادا کرنے کے قائل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ذکر میں تقدیم تاخیر اتفاقیہ ہے، یا رواۃ کی طرف سے ہے کیونکہ خود عبدالرحمٰن بن سمرہ کی حدیث (رقم : ٢٨٢٠ ، ٢٨٢٢ ) میں کفارہ کا تذکرہ بعد میں ہے، یعنی قسم کا ٹوٹنا پہلے ہونا چاہیئے، مگر یہ نص شریعت کے مقابلے میں قیاس ہے اور بس۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3785

【26】

قسم ٹوٹنے کے بعد کفارہ دینا

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی بات کی قسم کھائے پھر اس کے علاوہ کو اس سے بہتر بات پائے تو اپنی قسم کو ترک کر دے اور وہی کرے جو بہتر ہو، اور قسم کا کفارہ ادا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان ٣ (١٦٥١) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٧ (٢١٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٥١) ، مسند احمد (٤/٢٥٦، ٢٥٧، ٢٥٨، ٢٥٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3786

【27】

قسم ٹوٹنے کے بعد کفارہ دینا

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی بات کی قسم کھائے، پھر اس سے بہتر بات پائے تو وہی کرے جو بہتر ہے اور اپنی قسم کو چھوڑ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3787

【28】

قسم ٹوٹنے کے بعد کفارہ دینا

ابوالاحوص کے والد مالک بن نضلہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ نے میرے چچا زاد بھائی کو دیکھا ؟ میں اس کے پاس اس سے کچھ مانگنے آتا ہوں تو وہ مجھے نہیں دیتا اور مجھ سے صلہ رحمی نہیں کرتا ہے ١ ؎، پھر اسے میری ضرورت پڑتی ہے تو وہ میرے پاس مجھ سے مانگنے آتا ہے، میں نے قسم کھالی ہے کہ میں نہ اسے دوں گا اور نہ اس سے صلہ رحمی کروں گا، تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں وہی کروں جو بہتر ہو اور میں اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الکفارات ٧ (٢١٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٠٤) ، مسند احمد (٤/١٣٦، ١٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نہ ہی وہ رشتہ داری نبھاتا ہے اور نہ ہی بھائیوں جیسا سلوک کرتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3788

【29】

قسم ٹوٹنے کے بعد کفارہ دینا

عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی چیز کی قسم کھاؤ پھر اس کے علاوہ چیز کو اس سے بہتر پاؤ تو وہی کرو جو بہتر ہو اور اپنی قسم کا کفارہ دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3789

【30】

قسم ٹوٹنے کے بعد کفارہ دینا

عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی بات کی قسم کھاؤ پھر اس کے علاوہ بات کو اس سے بہتر پاؤ تو وہی کرو جو بہتر ہو اور اپنی قسم کا کفارہ دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3790

【31】

قسم ٹوٹنے کے بعد کفارہ دینا

عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی بات کی قسم کھاؤ پھر اس کے علاوہ بات کو اس سے بہتر پاؤ تو وہی کرو جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3791

【32】

انسان جس شے کا مالک نہیں تو اس کی قسم کھانا

عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس چیز میں کوئی نذر، اور کوئی قسم نہیں ہوتی، جس کے تم مالک نہیں ہو اور نہ ہی معصیت اور قطع رحمی میں قسم ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان ١٥ (٣٢٧٤ مطولا) ، مسند احمد (٢/١١٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان جس چیز کا مالک نہیں اس میں نذر اور قسم نہیں، لیکن دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نذر اور قسم تو ہوجاتی ہے لیکن ان کو پورا نہیں کیا جائے گا اور (قسم کا) کفارہ ادا کیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3792

【33】

قسم کے بعد انشاء اللہ کہنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو قسم کھائے اور ان شاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) کہے تو اگر چاہے تو وہ قسم پوری کرے اور اگر چاہے تو پوری نہ کرے، وہ قسم توڑنے والا نہیں ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان ١١ (٣٢٦١، ٣٢٦٢) ، سنن الترمذی/الأیمان ٧ (١٥٣١) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٦ (٢١٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٥١٧) ، مسند احمد (٢/٦، ١٠، ٤٨، ٤٩، ١٢٦، ١٢٧، ١٥٣، سنن الدارمی/النذور والأیمان ٧ (٢٣٨٧، ٢٣٨٨) ، ویأتي عند المؤلف فی باب ٣٩ بأرقام : ٣٨٦٠، ٣٨٦١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ وہ اپنی قسم میں جھوٹا نہیں ہوگا اس لیے کہ اس کی قسم اللہ کی مرضی (مشیت) پر معلق و منحصر ہوگئی، اسی لیے وہ قسم توڑنے والا نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3793

【34】

قسم میں نیت کا اعتبار ہے

عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور آدمی کو اسی کا ثواب ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو، تو جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوگی تو اس کی ہجرت اسی کی طرف ہوگی جس کی خاطر اس نے ہجرت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چونکہ قسم بھی ایک عمل ہے، اس لیے حدیث إنما الأعمال بالنية کے مطابق قسم میں بھی نیت معتبر ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3794

【35】

حلال شے کو اپنے لئے حرام کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرتے اور ان کے پاس شہد پیتے تھے، میں نے اور حفصہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس نبی اکرم ﷺ آئیں تو وہ کہے : مجھے آپ (کے منہ) سے مغافیر ١ ؎ کی بو محسوس ہو رہی ہے، آپ نے مغافیر کھائی ہے۔ آپ ان دونوں میں سے ایک کے پاس گئے تو اس نے آپ سے یہی کہا تو آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، میں نے تو زینب بنت جحش کے پاس شہد پیا ہے اور آئندہ اسے نہیں پیوں گا ۔ تو آیت کریمہ يا أيها النبي لم تحرم ما أحل اللہ لك سے (آیت کا سیاق یہ ہے کہ) اے نبی جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال کردیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں (التحریم : ١) ‏إن تتوبا إلى اللہ (آیت کا سیاق یہ ہے کہ) (اے نبی کی بیویو ! ) اگر تم دونوں اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کرلو (تو بہتر ہے) (التحریم : ٤) تک نازل ہوئی، اس سے عائشہ اور حفصہ (رض) مراد ہیں اور آپ ﷺ کے قول : میں نے تو شہد پیا ہے (مگر اب نہیں پیوں گا) کی وجہ سے آیت کریمہ وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے چپکے سے ایک بات کہی (التحریم : ٣) نازل ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤١٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک قسم کا گوند ہے جو بعض درختوں سے نکلتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3795

【36】

اگر کسی نے قسم کھائی کہ میں سالن نہیں کھاؤں گا اور سرکہ کے ساتھ روٹی کھالی تو اس کے حکم کے بیان میں

جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ آپ کے گھر میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ روٹی کا ایک ٹکڑا اور سرکہ ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کھاؤ، سرکہ کیا ہی بہترین سالن ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة والأطعمة ٣٠ (٢٠٥٢) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٤٠ (٣٨٢١) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٣٨) ، مسند احمد (٣/٣٠١، ٤٠٠) سنن الدارمی/الأطعمة ١٨ (٢٠٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لیے سالن نہ کھانے کی قسم کھانے والا اگر سرکہ کھالے تو وہ قسم توڑنے والا مانا جائے گا، اور اسے قسم کا کفارہ دینا ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3796

【37】

جو شخص دل سے قسم نہ کھائے بلکہ زبان سے کہے تو اس کا کیا کفارہ ہے؟

قیس بن ابی غرزہ غفاری (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں سماسر (دلال) کہا جاتا تھا، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے اور ہم خریدو فروخت کر رہے تھے تو آپ نے ہمیں ہمارے نام سے بہتر ایک نام دیا، آپ نے فرمایا : اے تاجروں کی جماعت ! خریدو فروخت میں قسم اور جھوٹ ١ ؎ بھی شامل ہوجاتی ہیں تو تم اپنی خریدو فروخت میں صدقہ ملا لیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ١ (٣٣٢٧) ، سنن الترمذی/البیوع ٤ (١٢٠٨) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣ (٢١٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١١٠٣) ، مسند احمد (٤/٦، ٢٨٠) ، ویأتي فیما یلي : ٣٨٢٩، ٣٨٣١، وفي البیوع ٧ برقم : ٤٤٦٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎؎: یعنی خریدو فروخت میں بعض دفعہ بغیر ارادے اور قصد کے بعض ایسی باتیں زبان پر آجاتی ہیں جو خلاف واقع ہوتی ہیں تو کچھ صدقہ و خیرات کرلیا کرو تاکہ وہ ایسی چیزوں کا کفارہ بن جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3797

【38】

جو شخص دل سے قسم نہ کھائے بلکہ زبان سے کہے تو اس کا کیا کفارہ ہے؟

قیس بن ابی غرزہ غفاری (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ بقیع میں خریدو فروخت کرتے تھے، تو رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے، ہم لوگوں کو سماسرہ (دلال) کہا جاتا تھا، تو آپ نے فرمایا : اے تاجروں کی جماعت ! آپ نے ہمیں ایک ایسا نام دیا جو ہمارے نام سے بہتر تھا، پھر فرمایا : خریدو فروخت میں (بغیر قصد و ارادے کے) قسم اور جھوٹ کی باتیں شامل ہوجاتی ہیں تو اس میں صدقہ ملا لیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3798

【39】

اگر خرید و فروخت کے وقت جھوٹی بات یا لغو کلام زبان سے نکل جائے

قیس بن ابی غرزہ غفاری (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ بازار میں تھے کہ ہمارے پاس نبی اکرم ﷺ آئے اور فرمایا : ان بازاروں میں (بغیر قصد و ارادے کے) غلط اور جھوٹی باتیں آ ہی جاتی ہیں، لہٰذا تم اس میں صدقہ ملا لیا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٢٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی صدقہ کیا کرو تو یہ ان کا کفارہ بن جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3799

【40】

اگر خرید و فروخت کے وقت جھوٹی بات یا لغو کلام زبان سے نکل جائے

قیس بن ابی غرزہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ مدینے میں وسق بیچتے اور خریدتے تھے، اور ہم اپنے کو سماسرہ (دلال) کہتے تھے، لوگ بھی ہمیں دلال کہتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ ہماری طرف نکل کر آئے تو آپ نے ہمیں ایک ایسا نام دیا جو اس نام سے بہتر تھا جو ہم اپنے لیے کہتے تھے یا لوگ ہمیں اس نام سے پکارتے تھے، آپ نے فرمایا : اے تاجروں کی جماعت ! تمہاری خریدو فروخت میں (بلا قصد و ارادے کے) قسم اور جھوٹ کی باتیں بھی آجاتی ہیں تو تم اس میں صدقہ ملا لیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٢٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3800

【41】

نذر اور منت ماننے کی ممانعت

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نذر (ماننے) سے منع کیا اور فرمایا : اس سے کوئی بھلائی حاصل نہیں ہوتی، البتہ اس سے بخیل سے (کچھ مال) نکال لیا جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/القدر ٦ (٦٦٠٨) ، الأیمان ٢٦ (٦٦٩٣) ، صحیح مسلم/ال نذر ٢ (١٦٣٩) ، سنن ابی داود/الأیمان ٢١ (٣٢٨٧) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٥ (٢١٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٨٧) ، مسند احمد (٢/٦١، ٨٦، ١١٨) ، سنن الدارمی/النذور والأیمان ٥ (٢٣٨٥) ، ویأتي فیما یلي : ٣٨٣٣، ٣٨٣٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نذر ماننے والے کو اس کی نذر سے کچھ بھی نفع یا نقصان نہیں پہنچتا کیونکہ نذر ماننے والے کے حق میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فیصلہ ہوچکا ہے اس میں اس کی نذر سے ذرہ برابر تبدیلی نہیں آسکتی، اس لیے یہ سوچ کر نذر نہ مانی جائے کہ اس سے مقدر میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3801

【42】

نذر اور منت ماننے کی ممانعت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا : اس سے کوئی چیز رد نہیں ہوتی، البتہ اس سے بخیل سے (کچھ مال) نکال لیا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3802

【43】

منت آنے والی چیز کو پیچھے اور پیچھے کی چیز کو آگے نہیں کرتی اس سے متعلق احادیث

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نذر نہ کسی (مقدر) چیز کو آگے کرتی ہے نہ پیچھے، البتہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے بخیل سے (کچھ مال) نکال لیا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3803

【44】

منت آنے والی چیز کو پیچھے اور پیچھے کی چیز کو آگے نہیں کرتی اس سے متعلق احادیث

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) نذر ابن آدم کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں لاسکتی جسے میں نے اس کے لیے مقدر نہ کیا ہو، البتہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے بخیل سے (کچھ مال) نکال لیا جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٣٧٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأیمان ٢٦ (٦٦٩٢) ، صحیح مسلم/ال نذر (١٦٤٠) ، سنن ابی داود/الأیمان ٢١ (٣٢٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٥(٢١٢٣) ، مسند احمد ٢/٢٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث قدسی ہے اگرچہ نبی اکرم ﷺ نے صراحۃً اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا ہے، لیکن سیاق سے بالکل واضح ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3804

【45】

نذر اس واسطے ہے کہ اس سے کنجوس شخص کا مال خرچ کرائے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نذر نہ مانو، کیونکہ نذر تقدیر (کے لکھے) میں کچھ کام نہیں آتی، اس سے تو صرف بخیل سے کچھ نکلوایا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان ٢٦ (١٦٤٠) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٠ (١٥٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3805

【46】

کسی عبادت کے واسطے منت ماننا

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کی نذر مانے تو اسے چاہیئے کہ وہ اس کی اطاعت کرے، اور جو اللہ کی نافرمانی کرنے کی نذر مانے تو اس کی نافرمانی نہ کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان ٢٨ (٦٦٩٦) ، ٣١ (٦٧٠٠) ، سنن ابی داود/الأیمان ٢٢ (٣٢٨٩) ، سنن الترمذی/الأیمان ٢ (١٥٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٦ (٢١٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٥٨) ، موطا امام مالک/النذور ٤ (٨) ، مسند احمد ٦/٣٦، ٤١، ٢٢٤) ، سنن الدارمی/النذور والأیمان ٣ (٢٣٨٣) ، ویأتي فیمایلي : ٣٨٣٨، ٣٨٣٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نذر کا تعلق اگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری سے ہے تو اسے پوری کرے اور اگر اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ہے تو اسے پوری نہ کرے اور اس کا کفارہ دیدے، رسول کی اطاعت و فرماں برداری اور نافرمانی کا بھی یہی حکم ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3806

【47】

گناہ کے کام میں منت سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری کی نذر مانے تو اسے چاہیئے کہ وہ اس کی اطاعت کرے، اور جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی نذر مانے گا تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3807

【48】

گناہ کے کام میں منت سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو نذر مانے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری کرے گا تو اسے چاہیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے، اور جو اللہ کی نافرمانی کی نذر مانے تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٣٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3808

【49】

منت پوری کرنا

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے زیادہ اچھے اور بہتر لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد کے ہیں ، مجھے نہیں معلوم کہ آپ ﷺ نے ثم الذين يلونهم کا ذکر دو بار کیا یا تین بار، پھر آپ نے ان لوگوں کا ذکر کیا جو خیانت کریں گے اور انہیں امین (امانت دار) نہیں سمجھا جائے گا، گواہی دیں گے حالانکہ ان سے گواہی نہیں مانگی جائے گی اور نذر مانیں گے اور اسے پورا نہیں کریں گے اور ان لوگوں میں موٹاپا ظاہر ہوگا ١ ؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہ ابوجمرہ نصر بن عمران ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٩ (٢٦٥١) ، و فضائل الصحابة ١ (٣٦٥٠) ، الرقاق ٧ (٦٤٢٨) ، الأیمان ٧ (٦٦٩٥) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٢ (٢٥٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٢٧) ، سنن ابی داود/السنة ١٠ (٤٦٥٧) ، سنن الترمذی/الفتن ٤٥ (٢٢٢٣) ، والشہادات ٤ (٢٣٠٢) ، مسند احمد (٤/٤٢٦، ٤٢٧، ٤٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ جواب دہی کا خوف ان کے دلوں سے جاتا رہے گا، عیش و آرام کے عادی ہوجائیں گے اور دین و ایمان کی فکر جاتی رہے گی جو ان کے مٹاپے کا سبب ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3809

【50】

اس نذر سے متعلق کہ جس میں رضاء الہی کا قصد نہ کیا جائے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو ایک آدمی کو رسی میں باندھ کر کھینچے لے جا رہا تھا، آپ نے رسی کو لیا اور اسے کاٹ ڈالا اور فرمایا : یہ نذر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩٢٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نذر اس طرح سے بھی ادا ہوجائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح خ دون قوله إنه نذر صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3810

【51】

اس نذر سے متعلق کہ جس میں رضاء الہی کا قصد نہ کیا جائے

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو کعبے کا طواف کر رہا تھا، اور ایک آدمی اس کی ناک میں نکیل ڈال کر اسے کھینچ رہا تھا تو آپ ﷺ نے اسے اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا پھر حکم دیا کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے پکڑ کرلے جائے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ اس (آدمی) کے پاس سے گزرے، وہ کعبے کا طواف کر رہا تھا اور اس نے ایک آدمی کا ہاتھ ایک دوسرے آدمی سے تسمے سے یا دھاگے سے یا کسی اور چیز سے باندھ رکھا تھا تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اسے کاٹ ڈالا اور فرمایا : اسے اپنے ہاتھ سے پکڑ کرلے جاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩٢٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3811

【52】

اس شے کی نذر ماننا جو کہ ملکیت میں نہ ہو

عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کی نافرمانی میں نذر نہیں، اور نہ ہی کسی ایسی چیز میں ہے جس کا ابن آدم مالک نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ال نذر ٣ (١٦٤١) ، سنن ابی داود/ال نذر ٢٨ (٣٣١٦) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٦(٢١٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٤، ١٠٨٨٨) ، مسند احمد (٤/٤٢٩، ٤٣٠، ٤٣٢، ٤٣٣، ٤٣٤) ، سنن الدارمی/النذور ٣ (٢٣٨٢) ، وأعادہ المؤلف برقم : ٣٨٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3812

【53】

اس شے کی نذر ماننا جو کہ ملکیت میں نہ ہو

ثابت بن ضحاک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی دین اسلام کے سوا کسی دوسری ملت کی جھوٹی قسم کھائے گا تو وہ اسی طرح ہوگا جیسے اس نے کہا، اور جس نے اپنے آپ کو دنیا میں کسی چیز سے قتل کیا تو اسے قیامت کے دن اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا، اور آدمی پر اس چیز کی نذر نہیں جس کا وہ مالک نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٠١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3813

【54】

جو شخص خانہ کعبہ کے لئے پیدل جانے سے متعلق نذر کرے

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میری بہن نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ پیدل جائے گی، اس نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کے لیے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں مسئلہ پوچھوں، میں نے اس کے لیے نبی اکرم ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا : وہ پیدل جائے اور سوار ہو کر (بھی) جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٢٧ (١٨٦٦) ، صحیح مسلم/ال نذر ٤ (١٦٤٤) ، سنن ابی داود/الأیمان ٢٣ (٣٢٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٧) ، مسند احمد (٤/١٤٧، ١٥٢، ٢٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3814

【55】

اگر کوئی عورت ننگے پاؤں ننگے سر چل کر حج پر جانے کی قسم کھائے

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اپنی ایک بہن کے بارے میں پوچھا جس نے نذر مانی تھی کہ وہ دوپٹہ اوڑھے بغیر پیدل (حج کرنے) جائے گی۔ تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : اسے حکم دو کہ وہ اوڑھنی اوڑھ کر اور سوار ہو کر جائے اور تین دن کے روزے رکھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان ٢٣ (٣٢٩٣) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٦ (١٥٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٢٠ (٢١٣٤) ، مسند احمد ٣/١٤٣، ٤/ ١٤٥، ١٤٧، ١٤٩، ١٥١) ، سنن الدارمی/النذور والأیمان ٢ (٢٣٧٩) (ضعیف) (اس کے راوی ” عبید اللہ بن زحر “ سخت ضعیف ہیں، لیکن اس میں ” صرف روزہ والی بات “ ضعیف ہے، باقی کے صحیح شواہد موجود ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3815

【56】

اس شخص سے متعلق کہ جس نے روزے رکھنے کی نذر مان لی پھر وہ شخص فوت ہوگیا اور روزے نے رکھ سکا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت نے سمندر کا سفر کیا اور نذر مانی کہ وہ ایک مہینہ روزے رکھے گی پھر وہ روزے رکھنے سے پہلے ہی مرگئی تو اس کی بہن نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ اس کی طرف سے روزے رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٦٢٠) ، مسند احمد (١/٣٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3816

【57】

اس شخص سے متعلق کہ جس کی وفات ہوجائے اور اس کے ذمہ نذر ہو

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اس نذر کے متعلق مسئلہ پوچھا جو ان کی ماں کے ذمہ تھی اور اسے پوری کرنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوچکا تھا تو آپ نے فرمایا : ان کی طرف سے تم اسے پوری کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3817

【58】

اس شخص سے متعلق کہ جس کی وفات ہوجائے اور اس کے ذمہ نذر ہو

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے ایک نذر کے بارے میں مسئلہ پوچھا جو ان کی ماں کے ذمے تھی اور وہ اسے پوری کرنے سے پہلے ہی انتقال کرگئی تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے ان کی طرف سے تم پوری کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3818

【59】

اس شخص سے متعلق کہ جس کی وفات ہوجائے اور اس کے ذمہ نذر ہو

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ میری ماں مرگئیں، ان کے ذمے ایک نذر تھی جو انہوں نے پوری نہیں کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے ان کی جانب سے تم پوری کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3819

【60】

اگر کوئی شخص منت پوری کرنے سے پہلے مسلمان ہوجائے تو کیا کرے؟

عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے جاہلیت میں ایک رات کی نذر مانی تھی کہ وہ اس میں اعتکاف کریں گے، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے انہیں اعتکاف کرنے کا حکم دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ٥ (٢٠٣٢) ، ١٥ (٢٠٤٢) ، ١٦(٢٠٤٣) ، الأیمان ٢٩ (٦٦٩٧) ، صحیح مسلم/الأیمان ٦ (١٦٥٦) ، سنن ابی داود/الصوم ٨٠ (٢٤٧٤) ، الأیمان ٣٢(٣٣٢٥) ، سنن الترمذی/الأیمان ١١ (١٥٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٦٠ (١٧٧٢) ، الکفارات ١٨ (٢١٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٥٠) ، مسند احمد (١/٦٨٧) ، مسند احمد (١/٣٧ و ٢/٢٠، ٨٢، ١٥٣) ، سنن الدارمی/النذور والأیمان ١ (٢٣٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چونکہ یہ نذر ایک جائز چیز میں تھی اس لیے آپ نے اسے پوری کرنے کا حکم دیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3820

【61】

اگر کوئی شخص منت پوری کرنے سے پہلے مسلمان ہوجائے تو کیا کرے؟

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) کے ذمہ مسجد الحرام میں ایک رات اعتکاف کرنے کی نذر تھی، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے انہیں اعتکاف کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمیس ١٩ (٣١٤٤) ، المغازي ٥٤ (٤٣٢٠) ، صحیح مسلم/الأیمان ٦ (١٦٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٢١) ، مسند احمد (٢/١٠، ٣٥، ١٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3821

【62】

اگر کوئی شخص منت پوری کرنے سے پہلے مسلمان ہوجائے تو کیا کرے؟

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ عمر (رض) نے جاہلیت میں (مسجد الحرام میں) ایک دن کا اعتکاف اپنے اوپر واجب کرلیا تھا، انہوں نے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے انہیں اس میں اعتکاف کرنے کا حکم دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان ٦ (١٦٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٩١٦) ، مسند احمد (٢/٨٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3822

【63】

اگر کوئی شخص منت پوری کرنے سے پہلے مسلمان ہوجائے تو کیا کرے؟

کعب بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ جب ان کی توبہ قبول ہوئی تو رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں اللہ اور اس کے رسول کے نام پر صدقہ کر کے اپنے مال سے علیحدہ ہوجاتا ہوں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : اپنا کچھ مال روک لو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا ١ ؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : ہوسکتا ہے کہ زہری نے اس حدیث کو عبداللہ بن کعب اور عبدالرحمٰن دونوں سے سنا ہو اور انہوں نے ان (کعب رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ہو ٢ ؎۔ اسی لمبی حدیث میں کعب (رض) کی توبہ کا بھی ذکر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان ٢٩ (٣٣١٧، ٣٣١٨) ، (تحفة الأشراف : ١١١٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث اگلے باب سے متعلق ہے، نساخ کی غلطی سے یہاں درج ہوگئی ہے، واللہ اعلم۔ ٢ ؎: زہری نے یہ حدیث : عبداللہ بن کعب، عبدالرحمٰن بن کعب، نیز عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب (عن أبیہ عبداللہ بن کعب) تینوں سے سنی ہے، دیکھئیے احادیث رقم : ٣٤٥١-٣٤٥٦ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3823

【64】

اگر کوئی اپنے مال ودولت کو نذر کے طور پر ہدیہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

کعب بن مالک (رض) اپنا وہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے، وہ کہتے ہیں : جب میں آپ ﷺ کے سامنے بیٹھا تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کو صدقہ کر کے اپنے مال سے الگ ہوجاؤں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا ، میں نے عرض کیا : اچھا تو میں اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے، یہ حدیث مختصر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤٥٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3824

【65】

اگر کوئی اپنے مال ودولت کو نذر کے طور پر ہدیہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

کعب بن مالک (رض) اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ (کہتے ہیں :) میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کو صدقہ کر کے اپنے مال سے الگ ہوجاؤں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنا (کچھ) مال اپنے لیے روک لو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا ، میں نے عرض کیا : تو میں اپنے پاس اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٥٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3825

【66】

اگر کوئی اپنے مال ودولت کو نذر کے طور پر ہدیہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ نے مجھے صرف سچ کی وجہ سے نجات دی تو میری توبہ میں سے یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کو صدقہ کر کے اپنے مال سے الگ ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا : اپنا کچھ مال اپنے پاس روک لو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا ، میں نے عرض کیا : تو میں اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١١٦٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3826

【67】

مال نذر کرتے وقت اس میں زمین بھی داخل ہے یا نہیں؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ خیبر کے سال ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ہمیں مال ١ ؎، سامان اور کپڑوں کے علاوہ کوئی غنیمت نہ ملی تو بنو ضبیب کے رفاعہ بن زید نامی ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو مدعم نامی ایک کالا غلام ہدیہ کیا، رسول اللہ ﷺ نے وادی قریٰ کا رخ کیا، یہاں تک کہ جب ہم وادی قریٰ میں پہنچے تو مدعم رسول اللہ ﷺ کا کجاوا اتار رہا تھا کہ اسی دوران اچانک ایک تیر آ کر اسے لگا اور اسے قتل کر ڈالا، لوگوں نے کہا کہ تمہیں جنت مبارک ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہرگز نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! وہ کملی جو اس نے غنیمت کے مال سے خیبر کے روز لے لی تھی (اور مال تقسیم نہ ہوا تھا) اس کے سر پر آگ بن کر دہک رہی ہے ۔ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص چمڑے کا ایک یا دو تسمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آیا تو آپ نے فرمایا : یہ ایک یا دو تسمے آگ کے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٤٢٣٤) ، الأیمان ٣٣ (٦٧٠٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٨ (١١٥) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٤٣ (٢٧١١) ، موطا امام مالک/الجہاد ١٣ (٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسی لفظ میں باب سے مطابقت ہے، کیونکہ ابوہریرہ (رض) نے اموال کے لفظ سے زمینیں (آراضی) مراد لی ہیں (خیبر میں زیادہ زمینیں مال غنیمت میں ہاتھ آئی تھیں) اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی صرف مال کی نذر مانے تو اس مال میں زمین بھی داخل گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3827

【68】

انشاء اللہ کہنے سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قسم کھائی اور ان شاء اللہ کہا تو اس نے استثناء کرلیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٢٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر اس نے قسم پوری نہیں کی تو بھی کوئی حرج نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3828

【69】

انشاء اللہ کہنے سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قسم کھائی اور ان شاء اللہ کہا تو اس نے استثناء کرلیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٢٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3829

【70】

انشاء اللہ کہنے سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی بات پر قسم کھائی اور ان شاء اللہ کہا تو اب اسے اختیار ہے چاہے تو قسم پوری کرے اور چاہے تو نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٢٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3830

【71】

اگر کوئی شخص قسم کھائے اور دوسرا شخص اس کے واسطے انشاء اللہ کہے تو دوسرے شخص کا انشاء اللہ کہنا اس کے واسطے کیسا ہے؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سلیمان بن داود (علیہ السلام) نے (قسم کھا کر) کہا : آج رات میں نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا، ان میں سے ہر کوئی ایک سوار کو جنم دے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا، تو ان کے ساتھی نے ان سے کہا : ان شاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) مگر خود انہوں نے نہیں کہا، پھر وہ ان تمام عورتوں کے پاس گئے لیکن ان میں سوائے ایک عورت کے کوئی بھی حاملہ نہ ہوئی اور اس نے بھی ایک ادھورے بچے کو جنم دیا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! اگر انہوں نے ان شاء اللہ کہا ہوتا تو وہ تمام بیٹے اللہ کی راہ میں سوار ہو کر جہاد کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان ٣ (٦٦٣٩) ، تحفة الأشراف : ١٣٧٣١) ، صحیح مسلم/الأیمان ٥ (١٦٥٤) ، سنن الترمذی/الأیمان ٧ (١٥٣٢- تعلیقاً ) ، مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٧٥، ٥٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ قسم کھانے والے نے اگر بذات خود ان شاء اللہ نہیں کہا ہے بلکہ کسی اور نے کہا ہے تو یہ استثناء قسم کھانے والے کے حق میں مفید نہ ہوگا (یعنی : اگر قسم توڑی تو حانث ہوجائے گا) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3831

【72】

نذر کے کفارہ سے متعلق

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٩٣٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/ال نذر ٥ (١٦٤٥) ، سنن ابی داود/ال نذر ٣١ (٣٣٢٣) ، سنن الترمذی/النذور ٤ (١٥٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٧ (٢١٢٦) ، مسند احمد (٤/١٤٤، ١٤٦، ١٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قسم کے کفارے کا ذکر سورة مائدہ کی اس آیت میں ہے لا يؤاخذکم الله باللغو في أيمانکم ولکن يؤاخذکم بما عقدتم الأيمان فکفارته إطعام عشرة مساکين من أوسط ما تطعمون أهليكم أو کسوتهم أو تحرير رقبة فمن لم يجد فصيام ثلاثة أيام ذلک کفارة أيمانکم إذا حلفتم واحفظوا أيمانکم کذلك يبين الله لکم آياته لعلکم تشکرون اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا، لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کر دو ۔ اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا ہے اوسط درجے کا جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھالو اور اپنی قسموں کا خیال رکھو ! اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو (سورة المائدة : 89) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3832

【73】

نذر کے کفارہ سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت (گناہ کے کاموں) میں نذر نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٥٦٧) (صحیح) (سند میں زہری اور قاسم کے درمیان انقطاع ہے، مگر سند متصل ہے، ملاحظہ ہو اگلی حدیث ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3833

【74】

نذر کے کفارہ سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت (گناہوں کے کاموں) میں نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان ٢٣ (٣٢٩١) ، سنن الترمذی/الأیمان ١(١٥٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٦(٢١٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٠) ، مسند احمد (٦/٢٤٧) ، ویأتی فیما یلي : ٣٨٦٦-٣٨٦٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر کسی نے معصیت کی نذر مانی ہے تو وہ اسے پوری نہیں کرے گا البتہ اس کا کفارہ ضرور ادا کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3834

【75】

نذر کے کفارہ سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت (گناہوں کے کاموں) میں نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3835

【76】

نذر کے کفارہ سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت (گناہوں کے کاموں) میں نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٦٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3836

【77】

نذر کے کفارہ سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت (گناہوں کے کاموں) میں نذر نہیں اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : کہا گیا ہے کہ زہری نے اسے ابوسلمہ سے نہیں سنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٦٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لیکن اگلی روایت میں زہری کے ابوسلمہ سے سننے کی صراحت موجود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3837

【78】

نذر کے کفارہ سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت (گناہوں کے کاموں) میں نذر نہیں اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٦٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3838

【79】

نذر کے کفارہ سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت (گناہوں کے کاموں) میں نذر نہیں اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : سلیمان بن ارقم متروک الحدیث راوی ہے، واللہ اعلم، اس حدیث کے سلسلے میں یحییٰ بن ابی کثیر کے تلامذہ میں سے کئی ایک نے سلیمان بن ارقم کی مخالفت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان ٢٣ (٣٢٩٢) ، سنن الترمذی/الأیمان ١ (١٥٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٨٢) (صحیح) (اس کے راوی ” سلیمان بن ارقم “ ضعیف ہیں، لیکن اس کی پچھلی سندیں صحیح ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یحییٰ بن ابی کثیر کے تلامذہ میں سے سلیمان بن ارقم جو متروک الحدیث ہیں نے یحییٰ سے حدیث کی روایت میں ثقافت کی مخالفت کی ہے، لیکن اصل حدیث دوسرے رواۃ سے ثابت ہے، اور یہ مخالفت بعد کی سندوں میں ظاہر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3839

【80】

نذر کے کفارہ سے متعلق

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت (گناہ کے کاموں) کی نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٨٢٢) ، مسند احمد (٤/٤٣٣، ٤٣٩، ٤٤٠، ٤٤٣) ، ویأتي بأرقام : ٣٨٧٢-٣٨٧٥) (صحیح) (اس کے راوی ” محمد بن زبیر “ ضعیف الحدیث ہیں، لیکن عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3840

【81】

اگر کوئی اپنے مال ودولت کو نذر کے طور پر ہدیہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت (گناہ کے کام) میں نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (سابقہ روایت سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3841

【82】

اگر کوئی اپنے مال ودولت کو نذر کے طور پر ہدیہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غضب کی نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن کہتے ہیں : محمد بن زبیر ضعیف ہیں، ان جیسے سے حجت قائم نہیں ہوتی اور اس حدیث کے سلسلے میں ان کے متعلق اختلاف کیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٧١ (ضعیف) (اس کے راوی ” محمد بن زبیر “ ضعیف الحدیث ہیں، اور اس حدیث کے مضمون کا کوئی شاہد موجود نہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3842

【83】

اگر کوئی اپنے مال ودولت کو نذر کے طور پر ہدیہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

عمران (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غضب کی نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٧١ (ضعیف) (دیکھئے پچھلی حدیث پر کلام ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3843

【84】

اگر کوئی اپنے مال ودولت کو نذر کے طور پر ہدیہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

عمران (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : غضب کی نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ کہا گیا ہے کہ (محمد کے والد) زبیر نے اس حدیث کو عمران بن حصین سے نہیں سنا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٧١ (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎: اس کی دلیل اگلی روایت ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3844

【85】

اگر کوئی اپنے مال ودولت کو نذر کے طور پر ہدیہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : نذر کی دو قسمیں ہیں : جو نذر اللہ کی اطاعت کی ہو تو وہ اللہ کے لیے ہے اور اسے پورا کرنا ہے اور جو نذر اللہ کی معصیت کی ہو تو وہ شیطان کی ہے اور اسے پورا نہیں کرنا ہے اور اس کا کفارہ وہی ہوگا جو قسم کا ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٨٩١) (صحیح) (شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں بھی محمد اور ان کے باپ زبیر ضعیف ہیں، نیز ایک راوی مبہم بھی ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3845

【86】

نذر کے کفارہ سے متعلق

زبیر حنظلی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے بیان کیا کہ اس نے عمران بن حصین (رض) سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا، جس نے یہ نذر مانی کہ وہ اپنے قبیلے کی مسجد میں نماز میں حاضر نہیں ہوگا، تو عمران (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : غضب کی کوئی نذر نہیں ہوتی اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3846

【87】

اگر کوئی اپنے مال ودولت کو نذر کے طور پر ہدیہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت کی کوئی نذر نہیں، اور نہ ہی غضب میں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٨٠٨) ، مسند احمد (٤/٤٣٩، ٤٤٣) (ضعیف) (لفظ ” غضب “ میں اس حدیث کا کوئی شاہد نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3847

【88】

نذر کے کفارہ سے متعلق

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت میں نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ منصور بن زاذان کی روایت کے الفاظ اس سے مختلف ہیں (ان کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3848

【89】

نذر کے کفارہ سے متعلق

عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آدمی کی ایسی چیزوں میں نذر نہیں، جن کا اسے اختیار نہیں اور نہ ہی اللہ کی معصیت میں نذر ہے ۔ علی بن زید نے منصور کی مخالفت کی ہے اور اسے بسند حسن بصری عن عبدالرحمٰن بن سمرہ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٨١١) ، مسند احمد (٤/٤٢٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3849

【90】

نذر کے کفارہ سے متعلق

عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : معصیت میں کوئی نذر نہیں اور نہ ہی کسی ایسی چیز میں کوئی نذر ہے جس کا آدمی کو اختیار نہیں ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : علی بن زید ضعیف ہیں اور اس حدیث میں غلطی ہوئی ہے اور صحیح عمران بن حصین (رض) ہے اور دوسری سند سے یہ حدیث عمران بن حصین (رض) سے روایت کی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٧٠٠) (صحیح) (اس کے راوی ” علی بن زید بن جدعان “ ضعیف ہیں، لیکن سابقہ سند سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3850

【91】

نذر کے کفارہ سے متعلق

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت میں کوئی نذر نہیں اور نہ ہی ایسی چیز میں کوئی نذر ہے جس کا آدمی کو اختیار نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٤٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3851

【92】

اس شخص پر کیا واجب ہے کہ جس نے نذر مانی ہو ایک کام کے کرنے کی اور پھر وہ شخص اس کام کی انجام دہی سے عاجز ہو جائے

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ دو آدمیوں کے بیچ میں ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چل رہا ہے، آپ نے فرمایا : یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : اس نے نذر مانی ہے کہ وہ بیت اللہ تک پیدل چل کر جائے گا، آپ نے فرمایا : اس طرح اپنی جان کو تکلیف دینے کی اللہ کو ضرورت نہیں، اس سے کہو کہ سوار ہو کر جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزء الصید ٢٧ (١٨٦٥) ، الأیمان ٣١ (٦٧٠١) ، صحیح مسلم/النذور ٤ (١٦٤٢) ، سنن ابی داود/الأیمان ٢٣ (٣٣٠١) ، سنن الترمذی/الأیمان ٩ (١٥٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٢) ، مسند احمد (٣/١٠٦، ١١٤، ١٨٣، ١٨٣، ٢٣٥، ٢٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ جاہل صوفیوں نے جو نئی نئی قسم کے پر مشقت افعال یہ سمجھ کر ایجاد کر رکھے ہیں کہ ان سے تزکیہ نفوس حاصل ہوتا ہے حالانکہ شریعت سے ان کا ذرہ برابر تعلق نہیں، یہ احکام شریعت سے ان کی جہالت و ناواقفیت کی دلیل ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ہمارے لیے کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جسے صاف صاف طور پر بیان نہ کردیا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3852

【93】

اس شخص پر کیا واجب ہے کہ جس نے نذر مانی ہو ایک کام کے کرنے کی اور پھر وہ شخص اس کام کی انجام دہی سے عاجز ہو جائے

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک ایسے بوڑھے شخص کے پاس سے ہوا جو دو آدمیوں کے درمیان ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چل رہا تھا۔ آپ نے فرمایا : اس کا کیا حال ہے ؟ ان لوگوں نے عرض کیا : اس نے (کعبہ) پیدل جانے کی نذر مانی ہے، آپ نے فرمایا : اس کے اس طرح اپنی جان کو تکلیف پہنچانے کی اللہ کو ضرورت نہیں، اسے حکم دو کہ سوار ہو کر چلے، چناچہ انہوں نے اسے سوار ہونے کا حکم دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3853

【94】

اس شخص پر کیا واجب ہے کہ جس نے نذر مانی ہو ایک کام کے کرنے کی اور پھر وہ شخص اس کام کی انجام دہی سے عاجز ہو جائے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک ایسے شخص کے پاس سے گزر ہوا جو اپنے دو بیٹوں کے درمیان ان کے کندھوں کا سہارا لیے چل رہا تھا، آپ نے فرمایا : اس کا کیا معاملہ ہے ؟ عرض کیا گیا : اس نے کعبہ پیدل جانے کی نذر مانی ہے، آپ نے فرمایا : اس طرح اپنے آپ کو تکلیف دینے سے اللہ تعالیٰ اس کو کوئی ثواب نہیں دے گا، پھر آپ نے اسے سوار ہونے کا حکم دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٩٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3854

【95】

انشاء اللہ کہنے سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی بات کی قسم کھائے، پھر وہ ان شاء اللہ کہے تو اس نے استثناء کرلیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأیمان ٧ (١٥٣٢) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٦ (٢١٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٢٣) ، مسند احمد (٢/٣٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ قسم توڑنے والا نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3855

【96】

انشاء اللہ کہنے سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سلیمان (علیہ السلام) نے کہا : آج رات میں نوے ( ٩٠) عورتوں (بیویوں) کے پاس جاؤں گا، ان میں سے ہر عورت ایک ایسا بچہ جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا۔ ان سے کہا گیا : آپ ان شاء اللہ کہیں، لیکن انہوں نے نہیں کہا۔ سلیمان (علیہ السلام) اپنی عورتوں کے پاس گئے تو ان میں سے صرف ایک عورت نے آدھا بچہ جنا ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر انہوں نے ان شاء اللہ کہا ہوتا تو وہ قسم توڑنے والے نہیں ہوتے اور اپنی حاجت پالینے میں کامیاب بھی رہتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٩ (٥٢٤٢) ، صحیح مسلم/الأیمان ٥ (١٦٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥١٨) ، مسند احمد (٢/٢٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے پہلے کتاب الأیمان والنذور میں قسم اور نذر کو دو شرط مان کر اس باب میں تیسری شرط کا ذکر کیا، اس لیے کہ ان میں اکثر و بیشتر استثنا اور تعلیق کا تذکرہ ہوتا ہے، اسی لیے اس کو تیسری شرط کا عنوان دے کر یہ بتایا کہ اس میں مزارعت اور و ثائق کا تذکرہ ہوگا (التعلیقات السلفیۃ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3856