38. فئی تقسیم کر نے سے متعلق

【1】

مال فئے کی تقسیم

یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ حروری جب عبداللہ بن زبیر کے عہد میں شورش و ہنگامہ کے ایام میں (حج کے لیے) نکلا ٢ ؎ تو اس نے ابن عباس (رض) کے پاس ایک شخص کو بھیجا کہ وہ ان سے معلوم کرے کہ (مال غنیمت میں سے) ذی القربی کا حصہ (اب) کس کو ملنا چاہیئے ٣ ؎، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے قربت کے سبب وہ ہمارا ہے، رسول اللہ ﷺ نے اسے انہیں قرابت والوں میں تقسیم کیا تھا، اور عمر (رض) نے ہمیں ہمارے حق سے کچھ کم حصہ دیا تھا تو ہم نے اسے قبول نہیں کیا، اور جو بات انہوں نے جواز میں پیش کی وہ یہ تھی کہ وہ اس کے ذریعہ (رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں کا) نکاح کرانے والوں کی مدد کریں گے، اور ان کے قرض داروں کا قرض ادا کیا جائے گا اور ان کے فقراء و مساکین کو دیا جائے گا، اور اس سے زائد دینے سے انکار کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجہاد ٤٨ (١٨١٢) ، سنن ابی داود/الخراج ٢٠(٢٩٨٢) ، سنن الترمذی/السیر ٨ (١٥٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٥٧) ، مسند احمد (١/٢٤٨، ٢٩٤، ٣٠٨، ٣٢٠، ٣٤٤، ٣٤٩، ٣٥٢) ، سنن الدارمی/السیر ٣٢ (٢٥١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مال فئی اس مال کو کہتے ہیں جو مسلمانوں کو کفار سے جنگ و جدال کئے بغیر حاصل ہو، لیکن مؤلف نے اس میں فیٔ اور غنیمت دونوں سے متعلق احادیث ذکر کی ہیں، اور پہلی حدیث میں فیٔ کے ساتھ ساتھ غنیمت میں سے بھی رسول اللہ ﷺ کے ذوی القربی کے حصے کی بابت سوال کیا گیا ہے۔ ٢ ؎: یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ حجاج نے مکہ پر چڑھائی کر کے عبداللہ بن زبیر (رض) کو قتل کیا تھا۔ ٣ ؎: رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت سے ذوی القربی کا حصہ اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کیا تھا، آپ کی وفات کے بعد سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ حصہ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کا تھا یا امام وقت کے رشتہ داروں کا ؟ ابن عباس (رض) کا خیال تھا (نیز قرآن کا سیاق بھی اسی کی تائید کرتا ہے) کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کا تھا اور اب بھی ہے اس لیے ہمیں ملنا چاہیئے، جب کہ عمر (رض) نے آپ کے رشتہ داروں کے ہاتھ میں نہ دے کر خود ہی آپ کے رشتہ داروں کی ضروریات میں خرچ کیا، ابوبکر اور عمر (رض) کا موقف بھی یہی تھا کہ امام وقت ہی اس خمس (غنیمت کے پانچویں حصہ) کو رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں میں خرچ کرے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4133

【2】

مال فئے کی تقسیم

یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہ نجدہ نے ابن عباس (رض) کو یہ سوال لکھا کہ (نبی اکرم ﷺ کے) رشتہ داروں کا حصہ (آپ کے بعد) کس کا ہے ؟ نجدہ کے پاس ابن عباس (رض) کا جواب میں نے ہی لکھ کر بھیجا، میں نے لکھا کہ تم نے یہ سوال مجھے لکھ کر بھیجا ہے کہ (نبی اکرم ﷺ کے) رشتہ داروں کا حصہ کس کا ہے ؟ وہ ہم اہل بیت کا ہے۔ البتہ عمر (رض) نے ہم سے کہا کہ وہ اس مال سے ہماری بیواؤں کا نکاح کرائیں گے، اس کو ہمارے فقراء و مساکین پر خرچ کریں گے اور ہمارے قرض داروں کا قرض ادا کریں گے، لیکن ہم اصرار کرتے رہے کہ وہ ہم ہی کو دیا جائے، تو انہوں نے اس سے انکار کیا، لہٰذا ہم نے اسے انہیں پر چھوڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4134

【3】

مال فئے کی تقسیم

اوزاعی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے عمر بن ولید کو ایک خط لکھا : تمہارے باپ نے تقسیم کر کے پورا خمس (پانچواں حصہ) تمہیں دے دیا، حالانکہ تمہارے باپ کا حصہ ایک عام مسلمان کے حصے کی طرح ہے، اس میں اللہ کا حق ہے اور رسول، ذی القربی، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔ تو قیامت کے دن تمہارے باپ سے جھگڑنے والے اور دعوے دار کس قدر زیادہ ہوں گے، اور جس شخص پر دعوے دار اتنی کثرت سے ہوں گے وہ کیسے نجات پائے گا ؟ اور جو تم نے باجے اور بانسری کو رواج دیا ہے تو یہ سب اسلام میں بدعت ہیں، میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں تمہارے پاس ایسے شخص کو بھیجوں جو تمہارے بڑے بڑے اور برے لٹکتے بالوں کو کاٹ ڈالے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: جمہ ایسے بالوں کو کہتے ہیں جو گردن تک لٹکتے ہیں، اس طرح کا بال رکھنا مکروہ نہیں ہے، عمر بن عبدالعزیز نے اس لیے ایسا کہا کیونکہ عمر بن الولید اپنے انہیں بالوں کی وجہ سے گھمنڈ میں مبتلا رہتا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4135

【4】

مال فئے کی تقسیم

جبیر بن مطعم (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ اور عثمان بن عفان (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس غزوہ حنین کے اس خمس ١ ؎ کے سلسلے میں آپ سے گفتگو کرنے آئے جسے آپ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب بن عبد مناف کے درمیان تقسیم کردیا تھا، انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول ! آپ نے ہمارے بھائی بنی مطلب بن عبد مناف میں مال فیٔ بانٹ دیا اور ہمیں کچھ نہ دیا، حالانکہ ہمارا رشتہ انہی لوگوں کے رشتہ کی طرح ہے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : میں تو ہاشم اور مطلب کو ایک ہی سمجھتا ہوں ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس خمس میں سے بنی عبد شمس کو کچھ نہ دیا اور نہ ہی بنی نوفل کو جیسا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کو دیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ١٧ (٣١٤٠) ، المناقب ٢ (٣٥٠٢) ، المغازي ٣٨ (٤٢٢٩) ، سنن ابی داود/الخراج ٢٠ (٢٩٧٩، ٢٩٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٤٦ (٢٨٨١) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٥) ، مسند احمد (٤/٨١، ٨٣، ٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دونوں اس خمس کے بارے میں بات چیت کرنے آئے تھے جو ذوی القربیٰ کا حصہ ہے۔ ٢ ؎: جبیر بن مطعم اور عثمان (رض) عنہما کو اعتراض بنو ہاشم کو دینے پر نہیں تھا کیونکہ نبی اکرم ﷺ سے ان کا تعلق سب کو معلوم تھا، انہیں اعتراض بنو مطلب کو دے کر بنو عبد مناف کو نہ دینے پر تھا کہ بنو ہاشم کے سوا سب سے آپ ﷺ سے قرابت برابر تھی تو ایک کو دینا اور دوسرے کو نہ دینا ؟ اور آپ ﷺ کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ بنو مطلب نے بھی بنو ہاشم کی طرح آپ کا زمانۂ جاہلیت میں بھی ساتھ دیا تھا، جبکہ بنو عبد مناف نے دشمن کا رول ادا کیا تھا۔ (دیکھئیے اگلی حدیث ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4136

【5】

مال فئے کی تقسیم

جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ذی القربی کا حصہ بنی ہاشم اور بنی مطلب میں تقسیم کیا تو میں اور عثمان بن عفان (رض) آپ کے پاس آئے، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ بنی ہاشم ہیں، آپ کے مقام کی وجہ سے ان کی فضیلت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مرتبے کے ساتھ آپ کو ان میں سے بنایا ہے، لیکن بنی مطلب کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ آپ نے انہیں دیا اور ہمیں نہیں دیا۔ حالانکہ آپ کے لیے ہم اور وہ ایک ہی درجے کے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انہوں نے مجھے نہ زمانہ جاہلیت میں چھوڑا اور نہ اسلام میں، بنو ہاشم اور بنو مطلب تو ایک ہی چیز ہیں ، اور آپ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے کے اندر ڈالیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4137

【6】

مال فئے کی تقسیم

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ حنین کے دن رسول اللہ ﷺ نے اونٹ کی دم کا بال (ہاتھ میں) لے کر فرمایا : لوگو ! جو اللہ تمہیں مال فیٔ کے طور پر دیتا ہے اس میں سے میرے لیے خمس (پانچواں حصہ) کے سوا اس کی مقدار کے برابر بھی حلال نہیں ہے، اور وہ خمس بھی تم ہی پر لوٹایا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٠٩٢) ، مسند احمد (٥/٣١٦، ٣١٨، ٣١٩) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4138

【7】

مال فئے کی تقسیم

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک اونٹ کے پاس آئے اور اس کی کوہان سے اپنی دو انگلیوں کے درمیان ایک بال لیا پھر فرمایا : خمس (پانچویں حصے) کے علاوہ مال فیٔ میں سے میرا کچھ بھی حق نہیں اس بال کے برابر بھی نہیں اور خمس بھی تم ہی پر لوٹا دیا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٧٩٢) (حسن، صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4139

【8】

مال فئے کی تقسیم

عمر (رض) کہتے ہیں کہ بنی نضیر کا مال غنیمت مال فی میں سے تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عطا کیا یعنی مسلمانوں نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ جنگ کی۔ آپ اسی میں سے سال بھر کا خرچ اپنے اوپر کرتے، جو بچ جاتا اسے گھوڑوں اور ہتھیار میں جہاد کی تیاری کے لیے صرف کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٨٠ (٢٩٠٤) ، الخمس ١ (٣٠٩٤) ، المغازي ١٤ (٤٠٣٣) ، تفسیر سورة الحشر ٣ (٤٨٨٥) ، النفقات ٣ (٥٣٥٧) ، الفرائض ٣ (٦٧٢٨) ، الاعتصام ٥ (٧٣٠٥) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٥ (١٧٥٧) ، سنن ابی داود/الخراج ١٩ (٢٩٦٥) ، سنن الترمذی/السیر ٤٤ (١٦١٠) ، الجہاد ٣٩ (١٧١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٣١) ، مسند احمد (١/٢٥، ٤٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4140

【9】

مال فئے کی تقسیم

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر (رض) کے پاس ایک آدمی بھیجا وہ ان سے نبی اکرم ﷺ کے صدقے میں سے اپنا حصہ اور خیبر کے خمس (پانچویں حصے) میں سے اپنا حصہ مانگ رہی تھیں، ابوبکر (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ہمارا (یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ١(٣٠٩٢) ، فضائل الصحابة ١٢ (٣٧١١) ، المغازي ١٤ (٤٠٣٥، ٤٠٣٦) ، ٣٨ (٤٢٤٠، ٤٢٤١) ، الفرائض ٣ (٦٧٢٥) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٦ (١٧٥٩) ، سنن ابی داود/الخراج ١٩ (٢٩٦٨، ٢٩٦٩، ٢٩٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٣٠) ، مسند احمد (١/٤، ٦، ٩، ١٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4141

【10】

مال فئے کی تقسیم

عطاء آیت کریمہ : واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه وللرسول ولذي القربى جان لو کہ تمہیں جو مال غنیمت ملا ہے اس کا خمس اللہ کے لیے اور رسول اور ذی القربی کے لیے ہے ۔ (الأنفال : ٤١) کے سلسلے میں کہتے ہیں : اللہ کا خمس اور رسول کا خمس ایک ہی ہے، رسول اللہ ﷺ اس سے لوگوں کو سواریاں دیتے، نقد دیتے، جہاں چاہتے خرچ کرتے اور جو چاہتے اس سے کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩٠٥٦) (صحیح الإسناد) (سند صحیح ہے، لیکن متن مرسل ہے اس لئے کہ عطاء نے اسے نبی اکرم سے منسوب کر کے بیان کیا ہے، واسطہ میں صحابی کا ذکر نہیں کیا ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مرسل صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4142

【11】

مال فئے کی تقسیم

قیس بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن محمد سے آیت کریمہ : واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه‏ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : یہ تو اللہ سے کلام کی ابتداء ہے جیسے کہا جاتا ہے دنیا اور آخرت اللہ کے لیے ہے ، انہوں نے کہا : ان دونوں حصوں یعنی رسول اور ذی القربی کے حصہ میں رسول اللہ ﷺ کی موت کے بعد لوگوں میں اختلاف ہوا، تو کہنے والوں میں سے کسی نے کہا کہ رسول کا حصہ ان کے بعد خلیفہ کا ہوگا، ایک جماعت نے کہا کہ ذی القربی کا حصہ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کا ہوگا، دوسروں نے کہا : ذی القربی کا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کا ہوگا۔ بالآخر ان کی رائیں اس پر متفق ہوگئیں کہ ان لوگوں نے ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور جہاد کی تیاری کے لیے طے کردیا، یہ دونوں حصے ابوبکر اور عمر (رض) کی خلافت کے زمانہ میں اسی کام کے لیے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٥٧٩) (صحیح الإسناد مرسل ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مرسل صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4143

【12】

مال فئے کی تقسیم

موسیٰ بن ابی عائشہ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن جزار سے اس آیت : واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه وللرسول کے بارے میں پوچھا، میں نے کہا : نبی اکرم ﷺ کا خمس میں سے کتنا حصہ ہوتا تھا : انہوں نے کہا : خمس کا خمس ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩٥٣١) (صحیح الإسناد مرسل) (سند صحیح ہے، لیکن رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والے صحابی کا تذکرہ سند میں نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی پانچویں حصے کا پانچواں حصہ، کیونکہ خمس کا اکثر حصہ تو آپ ﷺ اسلامی کاموں میں خرچ کردیتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مرسل صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4144

【13】

مال فئے کی تقسیم

مطرف کہتے ہیں کہ عامر شعبی سے نبی اکرم ﷺ کے حصے اور آپ کے صفی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : نبی اکرم ﷺ کا حصہ ایک مسلمان شخص کے حصے کی طرح ہوتا تھا۔ رہا صفی ١ ؎ کے حصے کا معاملہ تو آپ کو اختیار ہوتا کہ غلام، لونڈی اور گھوڑے وغیرہ میں سے جسے چاہیں لے لیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخراج ٢١(٢٩٩١) ، تحفة الأشراف : ١٨٨٦٨) (صحیح الإسناد مرسل) (سند صحیح ہے، لیکن رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والے صحابی کا تذکرہ سند میں نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: صفی مالِ غنیمت کے اس حصے کو کہتے ہیں جسے حاکم تقسیم سے قبل اپنے لیے مقرر کرلے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مرسل صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4145

【14】

مال فئے کی تقسیم

یزید بن شخیر کہتے ہیں کہ میں مطرف کے ساتھ کھلیان میں تھا کہ اچانک ایک آدمی چمڑے کا ایک ٹکڑا لے کر آیا اور بولا : میرے لیے رسول اللہ ﷺ نے یہ لکھا ہے، تو کیا تم میں سے کوئی اسے پڑھ سکتا ہے ؟ انہوں نے کہا : میں پڑھوں گا، تو دیکھا کہ اس تحریر میں یہ تھا : اللہ کے نبی محمد ﷺ کی طرف سے بنی زہیر بن اقیش کے لیے : اگر یہ لوگ لا إله إلا اللہ وأن محمدا رسول اللہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں کی گواہی دیں اور کفار و مشرکین کا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنے مال غنیمت میں سے خمس، نبی کے حصے اور ان کے صفی کا اقرار کریں تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی امان میں رہیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخراج ٢١ (٢٩٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٨٣) ، مسند احمد (٥/٧٧، ٧٨، ٣٦٣) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: صفی مالِ غنیمت کے اس حصے کو کہتے ہیں جسے حاکم تقسیم سے قبل اپنے لیے مقرر کرلے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4146

【15】

مال فئے کی تقسیم

مجاہد کہتے ہیں کہ (قرآن میں) جو خمس اللہ اور رسول کے لیے آیا ہے، وہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے رشتہ داروں کے لیے تھا، وہ لوگ صدقہ و زکاۃ کے مال سے نہیں کھاتے تھے، چناچہ نبی اکرم ﷺ کے لیے خمس کا خمس تھا اور رشتہ داروں کے خمس کا خمس اور اتنا ہی یتیموں کے لیے، اتنا ہی فقراء و مساکین کے لیے اور اتنا ہی مسافروں کے لیے۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں مال غنیمت سے ملے تو : اللہ کے لیے، رسول کے لیے، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے اس کا خمس ہے، اللہ کے اس فرمان واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساکين وابن السبيل میں اللہ کا قول لِلَّهِ یعنی اللہ کے لیے ہے ابتدائے کلام کے طور پر ہے کیونکہ تمام چیزیں اللہ ہی کی ہیں اور مال فیٔ اور خمس کے سلسلے میں بات کی ابتداء بھی اس اپنے ذکر سے شاید اس لیے کی ہے کہ وہ سب سے اعلیٰ درجے کی کمائی (روزی) ہے، اور صدقے کی اپنی طرف نسبت نہیں کی، اس لیے کہ وہ لوگوں کا میل (کچیل) ہے۔ واللہ اعلم۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ غنیمت کا کچھ مال لے کر کعبے میں لگایا جائے گا اور یہی اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے اور نبی کا حصہ امام کے لیے ہوگا جو اس سے گھوڑے اور ہتھیار خریدے گا، اور اسی میں سے وہ ایسے لوگوں کو دے گا جن کو وہ مسلمانوں کے لیے مفید سمجھے گا جیسے اہل حدیث، اہل علم، اہل فقہ، اور اہل قرآن کے لیے، اور ذی القربی کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کا ہے، ان میں غنی (مالدار) اور فقیر سب برابر ہیں، ایک قول کے مطابق ان میں بھی غنی کے بجائے صرف فقیر کے لیے ہے جیسے یتیم، مسافر وغیرہ، دونوں اقوال میں مجھے یہی زیادہ صواب سے قریب معلوم ہوتا ہے، واللہ اعلم۔ اسی طرح چھوٹا، بڑا، مرد، عورت سب برابر ہوں گے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ان سب کے لیے رکھا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اسے انہی سب میں تقسیم کیا ہے، اور حدیث میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ آپ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی ہو، ہمیں اس سلسلے میں علماء کے درمیان کسی اختلاف کا بھی علم نہیں ہے کہ ایک شخص اگر کسی کی اولاد کے لیے ایک تہائی کی وصیت کرے تو وہ ان سب میں تقسیم ہوگا اور مرد و عورت اس سلسلے میں سب برابر ہوں گے جب وہ شمار کئے جائیں گے، اسی طرح سے ہر وہ چیز جو کسی کی اولاد کے لیے دی گئی ہو تو وہ ان میں برابر ہوگی، سوائے اس کے کہ اس چیز کا حکم کرنے والا اس کی وضاحت کر دے۔ واللہ ولی التوفیق۔ اور ایک حصہ مسلم یتیموں کے لیے اور ایک حصہ مسلم مساکین کے لیے اور ایک حصہ مسلم مسافروں کے لیے ہے۔ ان میں سے کسی کو مسکین کا حصہ اور مسافر کا حصہ نہیں دیا جائے گا، اور اس سے کہا جائے گا کہ ان (دو ) میں سے جو چاہے لے لے اور بقیہ چار خمس کو امام ان بالغ مسلمانوں میں تقسیم کرے گا جو جنگ میں شریک ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩٢٦١) (ضعیف الإسناد مرسل) (خصیف اور شریک حافظے کے ضعیف راوی ہیں، نیز مجاہد نے نبی اکرم ﷺ سے روایت میں صحابی کا ذکر نہیں کیا ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد مرسل صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4147

【16】

مال فئے کی تقسیم

مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عباس اور علی (رض) جھگڑتے ہوئے عمر (رض) کے پاس آئے، عباس (رض) نے کہا : میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کیجئیے، لوگوں نے کہا : ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیجئیے، تو عمر (رض) نے کہا : میں ان کے درمیان فیصلہ نہیں کرسکتا، انہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ہمارا ترکہ کسی کو نہیں ملتا، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے ۔ راوی کہتے ہیں : زہری ١ ؎ نے (آگے روایت کرتے ہوئے اس طرح) کہا : (عمر (رض) نے کہا :) رسول اللہ ﷺ (جب) اس مال کے ولی و نگراں رہے تو اس میں اپنے گھر والوں کے خرچ کے لیے لیتے اور باقی سارا اللہ کی راہ میں خرچ کرتے، پھر آپ کے بعد ابوبکر (رض) متولی ہوئے اور ان کے بعد میں متولی ہوا، تو میں نے بھی اس میں وہی کیا جو ابوبکر (رض) کرتے تھے، پھر یہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھ سے مطالبہ کیا کہ اسے میں ان کے حوالے کر دوں کہ وہ اس میں اس طرح عمل کریں گے جیسے رسول اللہ ﷺ کرتے تھے اور جیسے ابوبکر (رض) کرتے تھے اور جیسے تم کرتے ہو، چناچہ میں نے اسے ان دونوں کو دے دیا اور اس پر ان سے اقرار لے لیا، پھر اب یہ میرے پاس آئے ہیں، یہ کہتے ہیں : میرے بھتیجے کی طرف سے میرا حصہ مجھے دلائیے ٢ ؎ اور وہ کہتے ہیں : مجھے میرا حصہ بیوی کی طرف سے دلائیے ٣ ؎، اگر انہیں منظور ہو کہ میں وہ مال ان کے سپرد کر دوں اس شرط پر کہ یہ دونوں اس میں اسی طرح عمل کریں گے جیسے رسول اللہ ﷺ نے کیا اور جیسے میں نے کیا تو میں ان کے حوالے کرتا ہوں، اور اگر انہیں (یہ شرط) منظور نہ ہو تو وہ گھر میں بیٹھیں ٤ ؎، پھر عمر (رض) نے یہ آیات پڑھیں : واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساکين وابن السبيل جان لو جو کچھ تمہیں غنیمت میں ملے تو اس کا خمس اللہ کے لیے ہے، رسول کے لیے، ذی القربی، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے (الانفال : ٤١) ۔ اور یہ ان لوگوں کے لیے ہے إنما الصدقات للفقراء والمساکين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل اللہ‏ صدقات فقراء، مساکین، زکاۃ کا کام کرنے والے لوگوں، مؤلفۃ القلوب، غلاموں، قرض داروں اور مسافروں کے لیے ہیں (التوبہ : ٦٠) ۔ اور یہ ان لوگوں کے لیے ہے وما أفاء اللہ على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا رکاب اور ان کی طرف سے جو اللہ اپنے رسول کو لوٹائے تو جس پر تم نے گھوڑے دوڑائے اور زین کسے (الحشر : ٦) ۔ زہری کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص ہے اور وہ عربیہ کے چند گاؤں ہیں جیسے فدک وغیرہ۔ اور اسی طرح ما أفاء اللہ على رسوله من أهل القرى فلله وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساکين وابن السبيل، ‏ و، ‏ للفقراء المهاجرين الذين أخرجوا من ديارهم وأموالهم، والذين تبوء وا الدار والإيمان من قبلهم، والذين جاء وا من بعدهم جو اللہ گاؤں والوں کی طرف سے اپنے رسول پر لوٹائے تو وہ اللہ کے لیے رسول کے لیے اور ذی القربی، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور ان فقراء مہاجرین لوگوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال سے نکال دیے گئے اور جنہوں نے الدار (مدینہ) کو اپنا جائے قیام بنایا اور ایمان لائے اس سے پہلے اور اس کے بعد (الحشر : ٧-١٠) ، اس آیت میں سبھی لوگ آگئے ہیں، اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کا اس مال میں حق نہ ہو، یا یہ کہا : حصہ نہ ہو، سوائے چند لوگوں کے جنہیں تم اپنا غلام بناتے ہو اور اگر میں زندہ رہا تو ان شاء اللہ ہر ایک کو اس کا حق۔ یا کہا : اس کا نصیب مل کر رہے گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ١ (٣٠٩٤) ، المغازي ١٤ (٤٠٣٣) ، النفقات ٣ (٥٣٥٨) ، الفرائض ٣ (٦٧٢٨) إعتصام ٥ (٧٣٠٥) ، صحیح مسلم/الجہاد ٥ (١٧٥٧) ، سنن ابی داود/الخراج ١٩ (٢٩٦٣) ، سنن الترمذی/السیر ٤٤ (١٦١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مالک بن اوس سے اس حدیث کو روایت کرنے والے ایک راوی زہری بھی ہیں، دیکھئیے حدیث نمبر : ٤١٤٥ ٢ ؎: کیونکہ عباس (رض) رسول اللہ ﷺ کے چچا تھے۔ ٣ ؎: کیونکہ علی (رض) فاطمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے۔ ٤ ؎: یعنی جس عہد و پیمان کے تحت یہ مال تمہیں دیا گیا ہے اسی پر اکتفا کرو مزید کسی مطالبہ کی قطعی ضرورت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4148