44. خرید و فروخت کے مسائل و احکام

【1】

خود کما کر کھانے کی ترغیب

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو آدمی اپنی (محنت کی) کمائی سے کھائے، اور آدمی کی اولاد اس کی کمائی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٩ (٣٥٢٨، ٣٥٢٩) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٢ (١٢٥٨) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٤ (٢٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٩٢) ، مسند احمد (٦/٣١، ٤١، ١٢٧، ١٦٢، ١٩٣، ٢٠١، ٢٠٢، ٢٢٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٦ (٢٥٧٩) (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کی راویہ ” عمة عمارة “ مجہولہ ہیں ) وضاحت : ١ ؎: سب سے پاکیزہ کمائی کی بابت علماء کے تین اقوال ہیں : ١- تجارت ٢- ہاتھ کی کمائی اور ایسا پیشہ جو کمتر درجے کا نہ ہو ٣- زراعت (کھیتی باڑی) ، ان میں سب سے بہتر کون ہے اس کا دارومدار حالات و ظروف پر ہے۔ راجح یہ ہے کہ سب سے بہتر اور پاکیزہ رزق وہ ہے جو حدیث رسول جعل رزقی تحت ظل رمحی کے مطابق بطور غنیمت حاصل ہو۔ اس لیے کہ یہ دین کے غلبہ کے لیے حاصل ہونے والی جدوجہد اور قتال میں حاصل مال ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4449

【2】

خود کما کر کھانے کی ترغیب

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہاری اولاد سب سے پاکیزہ کمائی ہے، لہٰذا تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظرما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4450

【3】

خود کما کر کھانے کی ترغیب

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو آدمی اپنی کمائی سے کھائے اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ١ (٢١٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٦١) ، مسند احمد (٦/٤٢، ٢٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4451

【4】

خود کما کر کھانے کی ترغیب

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو آدمی اپنی کمائی سے کھائے اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4452

【5】

آمدنی میں شبہات سے بچنے سے متعلق احادیث شریفہ

نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا (اللہ کی قسم، میں آپ سے سن لینے کے بعد کسی سے نہیں سنوں گا) آپ فرما رہے تھے : حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے، ان دونوں کے بیچ کچھ شبہ والی چیزیں ہیں (یا آپ نے مشتبہات کے بجائے مشتبھ ۃ ً کہا ١ ؎ ) - اور فرمایا : میں تم سے اس سلسلے میں ایک مثال بیان کرتا ہوں : اللہ تعالیٰ نے ایک چراگاہ بنائی تو اللہ کی چراگاہ یہ محرمات ہیں، جو جانور بھی اس چراگاہ کے پاس چرے گا قریب ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے یا یوں فرمایا : جو بھی اس چراگاہ کے جانور پاس چرائے گا قریب ہے کہ وہ جانور اس میں سے میں چر لے۔ اور جو مشکوک کام کرے تو قریب ہے کہ وہ (حرام کام کرنے کی) جرات کر بیٹھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٩ (٥٢) ، البیوع ٢ (٢٠٥١) ، صحیح مسلم/البیوع ٤٠ المساقاة ٢٠ (١٥٩٩) ، سنن ابی داود/المساقاة ٣ (٣٣٢٩، ٣٣٣٠) ، سنن الترمذی/المساقاة ١ (١٢٠٥) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٤ (٢٩٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٢٤) ، مسند احمد (٤/٢٦٧، ٢٦٩، ٢٧٠، ٢٧١، ٢٧٤، ٢٧٥) ، سنن الدارمی/البیوع ١ (٢٥٧٣) ، ویأتی عند المؤلف فی الأشربة ٥٠ (برقم ٥٧١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گویا دنیاوی چیزیں تین طرح کی ہیں : حلال، حرام اور مشتبہ (شک و شبہہ والی چیزیں) پس حلال چیزیں وہ ہیں جو کتاب و سنت میں بالکل واضح ہیں جیسے دودھ، شہد، میوہ، گائے اور بکری وغیرہ، اسی طرح حرام چیزیں بھی کتاب و سنت میں واضح ہیں جیسے شراب، زنا، قتل اور جھوٹ وغیرہ اور مشتبہ وہ ہے جو کسی حد تک حلال سے اور کسی حد تک حرام سے، یعنی دونوں سے مشابہت رکھتی ہو جیسے رسول اللہ ﷺ نے راستہ میں ایک کھجور پڑی ہوئی دیکھی تو فرمایا کہ اگر اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کی ہوسکتی ہے تو میں اسے کھا لیتا۔ اس لیے مشتبہ امر سے اپنے آپ کو بچا لینا ضروری ہے، کیونکہ اسے اپنانے کی صورت میں حرام میں پڑنے کا خطرہ ہے، نیز شبہ والی چیز میں پڑتے پڑتے آدمی حرام میں پڑنے اور اسے اپنانے کی جرات و جسارت کرسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4453

【6】

آمدنی میں شبہات سے بچنے سے متعلق احادیث شریفہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی کو اس بات کی فکر و پروا نہ ہوگی کہ اسے مال کہاں سے ملا، حلال طریقے سے یا حرام طریقے سے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٢٣ (٢٠٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠١٦) ، مسند احمد (٢/٤٣٥، ٤٥٢، ٥٠٥) ، سنن الدارمی/البیوع ٥ (٢٥٧٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4454

【7】

آمدنی میں شبہات سے بچنے سے متعلق احادیث شریفہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ سود کھائیں گے اور جس نے اسے نہیں کھایا، اس پر بھی اس کا غبار پڑ کر رہے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣ (٣٣٣١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٨ (٢٢٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٤١) ، مسند احمد ٢/٤٩٤ (ضعیف) (حسن بصری کا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے، نیز ” سعید “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4455

【8】

تجارت سے متعلق احادیث

عمرو بن تغلب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ مال و دولت کا پھیلاؤ ہوجائے گا اور بہت زیادہ ہوجائے گا، تجارت کو ترقی ہوگی، علم اٹھ جائے گا ١ ؎، ایک شخص مال بیچے گا، پھر کہے گا : نہیں، جب تک میں فلاں گھرانے کے سوداگر سے مشورہ نہ کرلوں، اور ایک بڑی آبادی میں کاتبوں کی تلاش ہوگی لیکن وہ نہیں ملیں گے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٧١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اکثر نسخوں میں يظهر العلم ہے، اور بعض نسخوں میں يظهر الجهل ہے، یعنی لوگوں کے دنیاوی امور و معاملات میں مشغول ہونے کے سبب جہالت پھیل جائے گی، اور دوسری احادیث کے سیاق کو دیکھتے ہوئے يظهر العلم کا معنی یہاں علم کے اٹھ جانے یا ختم ہوجانے کے ہوں گے ، واللہ اعلم۔ ٢ ؎: یعنی ایسے کاتبوں کی تلاش جو عدل و انصاف سے کام لیں اور ناحق کسی کا مال لینے کی ان کے اندر حرص و لالچ نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4456

【9】

تاجروں کو خرید و فروخت میں کس ضابطہ پر عمل کرنا چاہیے؟

حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو جدا ہونے تک (مال کے بیچنے اور نہ بیچنے کے بارے میں) اختیار حاصل ہے، اگر سچ بولیں گے اور (عیب و ہنر کو) صاف صاف بیان کردیں گے تو ان کی خریدو فروخت میں برکت ہوگی، اور اگر جھوٹ بولیں گے اور عیب کو چھپائیں گے تو ان کی خریدو فروخت کی برکت جاتی رہے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٩ (٢٠٧٩) ، ٢٢ (٢٠٨٢) ، ٤٢ (٢١٠٨) ، ٤٤ (٢١١٠) ، ٤٦ (٢١١٤) ، صحیح مسلم/البیوع ١ (١٥٣٢) ، سنن ابی داود/البیوع ٥٣ (٣٤٥٩) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٦ (١٢٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٢٧) ، مسند احمد (٣/٤٠٢، ٤٠٣، ٤٣٤) ، سنن الدارمی/البیوع ١٥ (٢٥٨٩) ، ویأتي عند المؤلف برقم ٤٤٦٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : تجار کو اپنی خریدو فروخت کے معاملے میں جھوٹ سے بچنا چاہیئے، تبھی تجارت میں برکت ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4457

【10】

جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان فروخت کرنا۔

ابوذر (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات چیت کرے گا، اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا ، پھر رسول اللہ ﷺ نے آیت پڑھی ١ ؎ تو ابوذر (رض) نے کہا : وہ لوگ ناکام ہوگئے اور خسارے میں پڑگئے، آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے تہبند کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا ٢ ؎، جھوٹی قسم کھا کر اپنے سامان کو بیچنے والا، دے کر باربار احسان جتانے والا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥٦٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس آیت سے مراد سورة آل عمران کی آیت نمبر ٧٧ ہے جو اس طرح ہے ولا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم (سورة آل عمران : 77) ۔ ٢ ؎: کسی کسی روایت میں خیلاء کا لفظ آیا ہے یعنی تکبر اور گھمنڈ سے ٹخنے سے نیچے ازار (تہبند) لٹکانے والا لیکن یہ وعید ہر حالت پر ہے چاہے ازار (تہبند) تکبر سے لٹکائے یا بغیر تکبر کے اور تکبر سے کا لفظ کوئی احترازی لفظ نہیں ہے، ٹخنے سے نیچے لٹکانے میں بہرحال تکبر و غرور کی کیفیت پیدا ہو ہی جاتی ہے اس لیے کسی روایت میں خیلاء کا لفظ آیا ہے۔ تکبر کے ساتھ مزید گناہ ہوگا اور عام حالت میں یہ کبیرہ گناہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4458

【11】

جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان فروخت کرنا۔

ابوذر (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہیں دیکھے گا، اور نہ انہیں گناہوں سے پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے : وہ شخص جو کوئی بھی چیز دیتا ہے تو احسان جتاتا ہے، جو غرور اور گھمنڈ سے تہبند لٹکاتا ہے اور جو جھوٹ بول کر اپنا سامان بیچتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥٦٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4459

【12】

جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان فروخت کرنا۔

ابوقتادہ انصاری (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تم لوگ خریدو فروخت میں کثرت سے قسم کھانے سے بچو، اس لیے کہ (قسم کھانے سے) سامان تو بک جاتا ہے، لیکن برکت ختم جاتی رہتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢٧ (البیوع) ٤٨ (١٦٠٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٠ (٢٢٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢٩) ، مسند احمد (٥/٢٩٧، ٢٩٨، ٣٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4460

【13】

جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان فروخت کرنا۔

ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم کھانے سے سامان بک تو جاتا ہے، لیکن کمائی (کی برکت) ختم ہوجاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٢٦ (٢٠٨٧) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢٧ (البیوع ٤٨) (١٦٠٦) ، سنن ابی داود/البیوع ٦ (٣٣٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣١) ، مسند احمد (٢/٢٣٥، ٢٤٢، ٤١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4461

【14】

دھوکہ دور کرنے کے واسطے قسم کھانے سے متعلق۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین لوگ ہیں قیامت کے دن اللہ ان کی طرف نہیں دیکھے گا اور نہ انہیں گناہوں سے پاک کرے گا، ان کے لیے درد ناک عذاب ہے : ایک شخص وہ ہے جو راستے میں فاضل پانی کا مالک ہو اور مسافر کو دینے سے منع کرے، ایک وہ شخص جو دنیا کی خاطر کسی امام (خلیفہ) کے ہاتھ پر بیعت کرے، اگر وہ اس کا مطالبہ پورا کر دے تو عہد بیعت کو پورا کرے اور مطالبہ پورا نہ کرے تو عہد بیعت کو پورا نہ کرے، ایک وہ شخص جو عصر بعد کسی شخص سے کسی سامان پر مول تول کرے اور اس کے لیے اللہ کی قسم کھائے کہ یہ اتنے اتنے میں لیا گیا تھا تو دوسرا (یعنی خریدنے والا) اسے سچا جانے (حالانکہ اس نے اس سے کم قیمت میں خریدی تھی) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٢٢ (٢٦٧٢) ، الأحکام ٤٨ (٧٢١٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٦(١٠٨) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٢ (٣٤٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٣٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/السیر ٣٥ (١٥٩٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٠ (٢٢٠٧) ، الجہاد ٤٢ (٢٨٧٠) ، مسند احمد (٢/٢٥٣، ٤٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے عصر کے بعد کے وقت خریدو فروخت میں جھوٹی قسم کھانے پر وعید ہے، اس سے جہاں یہ حکم ثابت ہوا وہیں پر عصر کے بعد کی فضیلت ثابت ہوئی، اس وقت رب کی مرضی کے خلاف اس طرح کا اقدام جس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و تقدیس کا سہارا لے کر آدمی دنیاوی ترقی کا خواہش معیوب ہے، جب کہ جھوٹ بول کر اور جھوٹی گواہی کے ذریعہ مقاصد حاصل کرنا ہر وقت معیوب اور غلط ہے، عصر بعد مزید شناعت و برائی ہے، شاید یہ وقت بازار کی بھیڑ اور اس میں لوگوں کے ریل پیل کا ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4462

【15】

جو شخص فروخت کرنے میں سچی قسم کھائے تو اس کو صدقہ دینا۔

قیس بن ابی غرزہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم مدینے میں (غلوں سے بھرے) وسق خریدتے اور بیچتے تھے، اور ہم اپنا نام سمسار (دلال) رکھتے تھے، لوگ بھی ہمیں اسی نام سے پکارتے تھے، ایک دن رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس نکل کر آئے اور ہمارا ایسا نام رکھا جو ہمارے رکھے ہوئے نام سے بہتر تھا، اور فرمایا : اے تاجروں کی جماعت ! تمہاری خریدو فروخت میں قسم اور لغو باتیں آجاتی ہیں، لہٰذا تم اس میں صدقہ کو ملا دیا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٢٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خریدو فروخت کے وقت زبان سے لا واللہ اور بلیٰ واللہ، اللہ کی قسم، قسم اللہ کی ایمان سے وغیرہ وغیرہ جیسے قسمیہ الفاظ جو نکل جاتے ہیں ان کا شمار یمین لغو (بیکار قسم) میں ہوتا ہے، ان کا کفارہ صدقہ کرنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4463

【16】

جس وقت تک خریدنے اور فروخت کرنے والا شخص علیحدہ نہ ہوجائیں تو ان کو اختیار حاصل ہے۔

حکیم بن حزام (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خریدنے اور بیچنے والے جب تک جدا نہ ہوجائیں دونوں کو اختیار رہتا ہے ١ ؎، اگر وہ عیب بیان کردیں اور سچ بولیں تو ان کی خریدو فروخت میں برکت ہوگی، اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور عیب چھپائیں تو ان کی بیع کی برکت ختم ہوجاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٤٦٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : بیع کو فسخ (کالعدم) کردینے کا اختیار دونوں فریق کو صرف اسی مجلس تک ہوتا ہے جس مجلس میں بیع کا معاملہ طے ہوا ہو، مجلس ختم ہوجانے کے بعد دونوں کا اختیار ختم ہوجاتا ہے اب معاملہ فریق ثانی کی رضا مندی پر ہوگا اگر وہ راضی نہ ہوا تو بیع نافذ رہے گی۔ الا یہ کہ معاملہ کے اندر کسی اور وقت تک کی شرط رکھی گئی ہو۔ تو اس وقت تک اختیار باقی رہے گا (دیکھئیے اگلی حدیث) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4464

【17】

نافع کی روایت میں الفاظ حدیث میں راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خریدنے اور بیچنے والا جب تک الگ الگ نہ ہوجائیں دونوں کو اپنے ساتھی پر اختیار رہتا ہے، سوائے اس بیع کے جس میں اختیار کی شرط ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٠ (١٥٣١) ، سنن ابی داود/البیوع ٥٣ (٣٤٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤١) ، مسند احمد (١/٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : وہ معاملہ جس میں طرفین سے یہ طے ہو کہ فلان تاریخ تک یا اتنے دن تک معاملہ کو ختم کرنے کا اختیار رہے گا، اس معاملہ میں مقررہ مدت تک حق اختیار اور حاصل رہے گا، باقی دیگر معاملات میں صرف معاملہ کی مجلس ختم ہونے تک اختیار رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4465

【18】

نافع کی روایت میں الفاظ حدیث میں راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خریدو فروخت کرنے والوں کو اس وقت تک اختیار رہتا ہے جب تک وہ الگ الگ نہ ہوں، یا پھر اختیار کی شرط ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٠ (١٥٣١ م) ، (تحفة الأشراف : ٨١٨٠) ، مسند احمد (٢/٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4466

【19】

نافع کی روایت میں الفاظ حدیث میں راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خریدو فروخت کرنے والوں کو اس وقت تک اختیار رہتا ہے جب تک وہ الگ نہ ہوں، سوائے اس کے کہ بیع اختیار کی شرط کے ساتھ ہوئی ہو، لہٰذا اگر بیع اختیار کی شرط کے ساتھ ہوئی ہے تو بیع ہوجاتی ہے (البتہ اختیار باقی رہتا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد النسائي (تحفة الأشراف : ٧٥٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4467

【20】

نافع کی روایت میں الفاظ حدیث میں راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو آدمی بیع کریں تو ان میں سے ہر ایک کو اپنی بیع کا اس وقت تک اختیار رہتا ہے جب تک وہ دونوں الگ تھلگ نہ ہوں، یا پھر ان کی بیع میں اختیار کی شرط ہو، تو اگر بیع میں شرط اختیار ہو تو بیع ہوجاتی ہے (لیکن حق اختیار باقی رہتا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٠ (١٥٣١) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٧٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4468

【21】

نافع کی روایت میں الفاظ حدیث میں راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیع کرنے والے دونوں کو اس وقت تک اختیار رہتا ہے جب تک وہ الگ تھلگ نہ ہوں، یا پھر ان میں سے ایک دوسرے سے کہے کہ اختیار کی شرط کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٤٧٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4469

【22】

نافع کی روایت میں الفاظ حدیث میں راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیع کرنے والے دونوں کو اختیار رہتا ہے جب تک الگ تھلگ نہ ہوں، یا پھر وہ اختیاری خریدو فروخت ہو ۔ نافع کی بعض روایتوں میں یوں ہے ‏أو يقول أحدهما للآخر اختر یا ان میں سے ایک دوسرے سے یہ کہے : بیع میں اختیار کی شرط کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4470

【23】

نافع کی روایت میں الفاظ حدیث میں راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیع کرنے والے دونوں اختیار کے ساتھ رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ الگ تھلگ ہوجائیں، یا بیع خیار (اختیاری بیع) کے ساتھ ہو ۔ کبھی کبھی نافع نے یوں کہا : أو يقول أحدهما للآخر اختر یا یہ کہ ان میں سے ایک دوسرے سے کہے : بیع بالخیار کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٤٥ (٢١١٢) ، صحیح مسلم/البیوع ١٠ (١٥٣١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٧ (٢١٨١) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٧٢) ، مسند احمد (٢/١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4471

【24】

نافع کی روایت میں الفاظ حدیث میں راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو آدمی آپس میں خریدیں اور بیچیں تو ان میں سے ہر ایک کو اس وقت تک اختیار ہوتا ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں، اور ایک دوسری بار نافع نے (حتى يفترقا کے بجائے) ما لم يتفرقا کہا، حالانکہ وہ دونوں ایک جگہ تھے، یا یہ کہ ان میں سے ایک دوسرے کو اختیار دیدے، لہٰذا اگر ان میں سے ایک دوسرے کو اختیار دیدے اور وہ دونوں اس (شرط خیار) پر بیع کرلیں تو بیع ہوجائے گی، اب اگر وہ دونوں بیع کرنے کے بعد جدا ہوجائیں اور ان میں سے کسی ایک نے بیع ترک نہ کی تو بیع ہوجائے گی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4472

【25】

نافع کی روایت میں الفاظ حدیث میں راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خریدو فروخت کرنے والے دونوں اپنی بیع کے سلسلے میں اس وقت تک اختیار کے ساتھ رہتے ہیں جب تک وہ جدا نہ ہوں، سوائے اس کے کہ وہ بیع خیار (اختیاری خریدو فروخت) ہو ۔ نافع کہتے ہیں : چناچہ عبداللہ بن عمر (رض) جب کوئی ایسی چیز خریدتے جو دل کو بھا گئی ہو تو صاحب معاملہ سے (فوراً ) جدا ہوجاتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٠ (١٥٣١) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٦ (١٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4473

【26】

نافع کی روایت میں الفاظ حدیث میں راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خریدو فروخت کرنے والے دونوں کے درمیان اس وقت تک بیع پوری نہیں ہوتی جب تک وہ جدا نہ ہوجائیں، سوائے بیع خیار کے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4474

【27】

زیر نظر حدیث شریف کے الفاظ میں حضرت عبداللہ بن دینار سے متعلق راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیچنے اور خریدنے والے دونوں کے درمیان اس وقت تک بیع پوری نہیں ہوتی جب تک وہ جدا نہ ہوجائیں، سوائے بیع خیار کے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٠ (١٥٣١) ، (تحفة الأشراف : ٧١٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4475

【28】

زیر نظر حدیث شریف کے الفاظ میں حضرت عبداللہ بن دینار سے متعلق راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بیچنے اور خریدنے والے دونوں کے درمیان اس وقت تک بیع پوری نہیں ہوتی جب تک وہ جدا نہ ہوجائیں، سوائے بیع خیار کے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٢٦٥) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٤٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4476

【29】

زیر نظر حدیث شریف کے الفاظ میں حضرت عبداللہ بن دینار سے متعلق راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیچنے اور خریدنے والے دونوں کے درمیان اس وقت تک بیع پوری نہیں ہوتی جب تک وہ دونوں جدا نہ ہوجائیں، سوائے بیع خیار کے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٤٦ (٢١١٣) ، (تحفة الأشراف : ٧١٥٥) ، مسند احمد (٢/١٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4477

【30】

زیر نظر حدیث شریف کے الفاظ میں حضرت عبداللہ بن دینار سے متعلق راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بیچنے اور خریدنے والے دونوں کے درمیان اس وقت تک بیع پوری نہیں ہوتی جب تک دونوں جدا نہ ہوجائیں، سوائے بیع خیار کے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٤٨١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4478

【31】

زیر نظر حدیث شریف کے الفاظ میں حضرت عبداللہ بن دینار سے متعلق راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیچنے اور خریدنے والے دونوں کے درمیان اس وقت تک بیع پوری نہیں ہوتی جب تک وہ جدا نہ ہوجائیں، سوائے بیع خیار کے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧١٩٥) ، مسند احمد (٢/١٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4479

【32】

زیر نظر حدیث شریف کے الفاظ میں حضرت عبداللہ بن دینار سے متعلق راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو اختیار رہتا ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوجائیں، إلا یہ کہ وہ بیع خیار ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧١٧٣) ، مسند احمد (٢/٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4480

【33】

زیر نظر حدیث شریف کے الفاظ میں حضرت عبداللہ بن دینار سے متعلق راویوں کا اختلاف

سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو اختیار رہتا ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں یا ان میں سے ہر ایک بیع کو اپنی مرضی کے مطابق لے اور وہ تین بار اختیار لیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ١٧ (٢١٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٠٠) ، مسند احمد (٥/١٢، ١٧، ٢١، ٢٢، ٢٣) (ضعیف) (اس کے رواة ” قتادہ “ اور ” حسن بصری “ دونوں مدلس ہیں اور ” عنعنہ “ سے روایت کیے ہوئے ہیں، نیز سمرہ رضی الله عنہ سے حسن کے سماع میں بھی اختلاف ہے، مگر اس حدیث کا پہلا ٹکڑا پہلی حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4481

【34】

زیر نظر حدیث شریف کے الفاظ میں حضرت عبداللہ بن دینار سے متعلق راویوں کا اختلاف

سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو اختیار ہوتا ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں اور ان میں سے ایک اپنے ساتھی سے راضی نہ ہوجائے، یا خواہش پوری نہ کرلے (یعنی بیع خیار تک) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4482

【35】

جس وقت تک فروخت کرنے والا اور خریدار دونوں علیحدہ نہ ہوں اس وقت تک ان کو اختیار حاصل ہے

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو اس وقت تک اختیار رہتا ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں، سوائے اس کے کہ وہ بیع خیار ہو، اور (کسی فریق کے لیے) یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے صاحب معاملہ سے اس اندیشے سے جدا ہو کہ کہیں وہ بیع فسخ کر دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٥٣ (٣٤٥٦) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٦(١٢٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٩٧) ، مسند احمد (٢/١٨٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ جدائی سے مراد جسمانی جدائی ہے، یعنی دونوں کی مجلس بدل جائے، نہ کہ مجلس ایک ہی ہو اور بات چیت کا موضوع بدل جائے جیسا کہ بعض علماء کا خیال ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4483

【36】

بیع کے معاملہ میں دھوکہ ہو نا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا کہ وہ بیع میں دھوکہ کھا جاتا ہے تو آپ نے اس سے فرمایا : جب تم بیچو تو کہہ دیا کرو : فریب اور دھوکہ دھڑی نہ ہو، چناچہ وہ شخص جب کوئی چیز بیچتا تو کہتا : دھوکہ دھڑی نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٤٨ (٢١١٧) ، الاستقراض ١٩ (٢٤٠٧) ، الخصومات ٣ (٢٤١٤) ، الحیل ٧ (٦٩٦٤) ، صحیح مسلم/البیوع ١٢ (١٥٣٣) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٨ (٣٥٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٢٩) ، موطا امام مالک/البیوع ٤٦ (٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ کہہ دینے سے اسے اختیار حاصل ہوجاتا اگر بعد میں اسے پتہ چل جائے کہ اس کے ساتھ چالبازی کی گئی ہے تو وہ اسے فسخ کرسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4484

【37】

بیع کے معاملہ میں دھوکہ ہو نا

انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص کم عقلی کا شکار تھا اور تجارت کرتا تھا، اس کے گھر والوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے نبی ! آپ اسے تجارت کرنے سے روک دیجئیے، تو آپ نے اسے بلایا اور اسے اس سے روکا، اس نے کہا : اللہ کے نبی ! میں تجارت سے باز نہیں آسکتا، تو آپ نے فرمایا : جب بیچو تو کہو : فریب و دھوکہ نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٦٨ (٣٥٠١) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٨ (١٢٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٤ (٢٣٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥) ، مسند احمد (٣/٢١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4485

【38】

کسی جانور کے سینہ میں دودھ اکھٹا کر کے فروخت کرنے سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی جب بکری یا اونٹنی بیچے تو اس کے تھن میں دودھ روک کر نہ رکھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٤٨٤٦) ، مسند احمد ٢/٢٧٣، ٤٨١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ ایسے جانور کو اگر بیچا جائے گا تو خریدار کے ساتھ دھوکہ ہوگا اور کسی کو دھوکہ دینا صحیح نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4486

【39】

مصراة بیچنے کی ممانعت یعنی کسی دودھ والے جانور کو بیچنے سے کچھ روز قبل اس کا دودھ نہ نکالنا تاکہ زیادہ دودھ دینے والا جانور سمجھ کر اس کی زیادہ بولی (قیمت) لگے

ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آگے جا کر تجارتی قافلے سے مت ملو ١ ؎ اور اونٹنیوں اور بکریوں کو ان کے تھنوں میں دودھ روک کر نہ رکھو ٢ ؎، اگر کسی نے ایسا جانور خرید لیا تو اسے اختیار ہے چاہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو اسے لوٹا دے اور (لوٹاتے وقت) اس کے ساتھ ایک صاع کھجور دیدے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٣٧٢٢) مسند احمد (٢/٢٤٢، ٢٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چونکہ باہر سے آنے والے تاجر کو بازار کی قیمت کا صحیح علم نہیں ہے اس لیے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خریدنے میں تاجر کو دھوکہ ہوسکتا ہے، اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے تاجروں کے بازار میں پہنچنے سے پہلے ان سے مل کر ان کا سامان خریدنے سے منع فرما دیا ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو تاجر کو اختیار حاصل ہوگا بیع کے نفاذ اور عدم نفاذ کے سلسلہ میں۔ ٢ ؎: تھن میں دو یا تین دن تک دودھ چھوڑے رکھنے اور نہ دوہنے کو تصریہ کہتے ہیں تاکہ اونٹنی یا بکری دودھاری سمجھی جائے اور جلد اور اچھے پیسوں میں بک جائے۔ ٣ ؎: تاکہ وہ اس دودھ کا بدل بن سکے جو خریددار نے دوہ لیا ہے، نیز واضح رہے کہ کسی ثابت شدہ حدیث کی تردید یہ کہہ کر نہیں کی جاسکتی کہ کسی مخالف اصل سے اس کا ٹکراؤ ہے یا اس میں مثلیت نہیں پائی جا رہی ہے اس لیے عقل اسے تسلیم نہیں کرتی، بلکہ شریعت سے جو چیز ثابت ہو وہی اصل ہے اور اس پر عمل واجب ہے، اسی طرح حدیث مصراۃ ان احادیث میں سے ہے جو صحیح اور ثابت شدہ ہیں لہٰذا کسی قیل و قال کے بغیر اس پر عمل واجب ہے۔ کسی قیاس سے اس کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4487

【40】

مصراة بیچنے کی ممانعت یعنی کسی دودھ والے جانور کو بیچنے سے کچھ روز قبل اس کا دودھ نہ نکالنا تاکہ زیادہ دودھ دینے والا جانور سمجھ کر اس کی زیادہ بولی (قیمت) لگے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی ایسا جانور خریدا جس کا دودھ اس کے تھن میں روک رکھا گیا ہو تو جب اسے دو ہے اور اس پر راضی ہوجائے تو چاہیئے کہ اسے روک لے اور اگر اسے وہ ناپسند ہو تو اسے لوٹا دے اور اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی دیدے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٥ (٢١٤٨ تعلیقًا) ، صحیح مسلم/البیوع ٤ (١٥٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٢٩) ، مسند احمد (٢/٤٦٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4488

【41】

مصراة بیچنے کی ممانعت یعنی کسی دودھ والے جانور کو بیچنے سے کچھ روز قبل اس کا دودھ نہ نکالنا تاکہ زیادہ دودھ دینے والا جانور سمجھ کر اس کی زیادہ بولی (قیمت) لگے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی محفلہ یا مصرا ۃ (دودھ تھن میں روکے ہوئے جانور کو) خریدا تو اسے تین دن تک اختیار ہے، اگر وہ اسے روکے رکھنا چاہے تو روک لے اور اگر لوٹانا چاہے تو اسے لوٹا دے اور اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی دے، گیہوں کا دینا ضروری نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٤ (١٥٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٣٥) ، مسند احمد (٢/٢٨٤) (صحیح) (” ثلاثة أيام “ تین دن کی تحدید ثابت نہیں ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے : سنن ابن ماجہ ٢٢٣٩، وسنن ابی داود ٣٤٤٤ (اس میں تصحیح کرلیں) وتراجع الالبانی ٣٣٧ ) قال الشيخ الألباني : صحيح م خ نحوه دون ثلاثة أيام صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4489

【42】

فائدہ اسی کا ہے جو کہ مال کا ذمہ دار ہو

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ خراج (نفع) مال کی ضمانت سے جڑا ہوا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٣ (٣٥٠٩) ، سنن الترمذی/البیوع ٥٣ (١٢٨٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٣ (٢٢٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٥٥) ، مسند احمد (٦/٤٩، ٢٠٨، ٢٣٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: مثلاً خریدار نے ایک غلام خریدا اسی دوران غلام نے کچھ کمائی کی پھر غلام میں کچھ نقص اور عیب نکل آیا تو خریدار نے اسے بیچنے والے کو لوٹا دیا اس کے کمائی کا حقدار خریدار ہوگا بیچنے والا نہیں کیونکہ غلام کے کھو جانے یا بھاگ جانے کی صورت میں خریدار ہی اس کا ضامن ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4490

【43】

مقیم کا دیہاتی کے لئے مال فروخت کرنا ممنوع ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے باہر نکل کر سامان خریدنے سے، مہاجر (شہری) کو دیہاتی کا مال بیچنے سے ١ ؎، جانوروں کے تھن میں قیمت بڑھانے کے مقصد سے دودھ چھوڑنے سے، خود خریدنا مقصود نہ ہو لیکن دوسرے کو ٹھگانے کے لیے بڑھ بڑھ کر قیمت لگانے سے اور اپنے بھائی کے مول پر بھاؤ بڑھانے سے اور اپنی سوکن ٢ ؎ کے لیے طلاق کا مطالبہ کرنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : الشروط ٨ (٢٧٢٣) ، ١١(٢٧٢٧) ، النکاح ٥٣ (٥١٥٢) ، القدر ٤ (٦٦٠١) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٣) ، البیوع ٤ (١٥١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تلقی (شہر سے باہر جا کر بازار آنے والے تاجر کا مال خریدنے) میں نیز دیہات سے شہر کے بازار میں مال لانے والے سے بازار سے پہلے ہی مال خرید لینے میں اس طرح کے دونوں تاجروں نیز شہر کے عام باشندوں کو بھی نقصان کا اندیشہ ہے اس لیے اس طرح کی خریداری سے منع کردیا گیا ہے تاجر کا نقصان اس طرح ہوسکتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ بازار میں سامان کا بھاؤ زیادہ ہو اور تاجر کا نقصان ہوجائے اور شہر کے باشندوں کا نقصان اس طرح ہوگا کہ درمیان میں ایک اور واسطہ ہوجانے کے سبب سامان کا بھاؤ زیادہ ہوجائے۔ ٢ ؎: یعنی ہونے والی سوکن، اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنی کسی بیوی کی موجودگی میں کسی دوسری عورت کو نکاح کا پیغام دے تو وہ عورت اس سے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دینے کی شرط رکھے، یہ ممنوع ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4491

【44】

کوئی شہری دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا کہ شہری دیہاتی کا سامان بیچے، گرچہ وہ اس کا باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٤٧ (٣٤٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4492

【45】

کوئی شہری دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں اس بات سے روکا گیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان بیچے، گرچہ وہ اس کا بھائی یا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٠ (٢١٦١) ، صحیح مسلم/البیوع ٦ (١٥٢٣) ، سنن ابی داود/البیوع ٤٧ (٣٤٤٠ م) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٥، ١٤٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4493

【46】

کوئی شہری دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے

انس (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں اس بات سے روکا گیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان بیچے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4494

【47】

کوئی شہری دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے، لوگوں کو چھوڑ دو ، اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ رزق (روزی) فراہم کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٨٧٢) ، مسند احمد (٣/٣٠٧، ٣١٢، ٣١٢، ٣٨٦، ٣٩٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4495

【48】

کوئی شہری دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تجارتی قافلے سے (مال) خریدنے کے لیے باہر نکل کر نہ ملو، اور تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے، نہ بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے کا کام کرو اور نہ شہری دیہاتی کا سامان بیچے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٤ (٢١٥٠) ، صحیح مسلم/البیوع ٤ (١٥١٥) ، سنن ابی داود/البیوع ٤٨ (٣٤٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٠٢) ، موطا امام مالک/البیوع ٤٥ (٩٦) ، مسند احمد (٢/٣٧٩، ٤٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4496

【49】

کوئی شہری دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے سے، شہری کا باہر جا کر دیہاتی سے مال لینے سے اور اس بات سے منع فرمایا کہ شہری دیہاتی کا سامان بیچے۔ تخریج دارالدعوہ : تفردہ بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٢٦٤) ، مسند احمد (٢/٧، ٤٢، ٦٣، ١٥٣، ١٥٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4497

【50】

قافلہ سے آگے جا کر ملاقات کرنے کی ممانعت سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تجارتی قافلے سے آگے جا کر ملنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٤ (١٥١٧) ، (تحفة الأشراف : ٨١٨١) ، مسند احمد (٢/٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4498 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ آگے جا کر قافلے سے ملا جائے یہاں تک کہ وہ خود بازار آئے (اور وہاں کا نرخ (بھاؤ) معلوم کرلے) ۔ ابواسامہ نے اس کی تصدیق کی اور کہا : جی ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٨٧٢) ، مسند احمد (٢/٧، ٢٢، ٦٣، ٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4499

【51】

قافلہ سے آگے جا کر ملاقات کرنے کی ممانعت سے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا کہ کوئی آگے جا کر تجارتی قافلے سے ملے، اور کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان بیچے، (راوی طاؤس کہتے ہیں :) میں نے ابن عباس سے کہا : اس قول کوئی شہری دیہاتی کا سامان نہ بیچے کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے کہا : یعنی شہری دلال نہ بنے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٨ (٢١٥٨) ، ٧١ (٢١٦٣) ، الإجارة ١٤ (٢٢٧٤) ، صحیح مسلم/البیوع ٦ (١٥٢١) ، سنن ابی داود/البیوع ٤٧ (٣٤٣٩) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٥ (٢١٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٦) ، مسند احمد (١/٣٦٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4500

【52】

قافلہ سے آگے جا کر ملاقات کرنے کی ممانعت سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آگے جا کر تجارتی قافلے سے نہ ملو، جو اس سے جا کر ملا اور اس سے کوئی چیز خرید لی، جب اس کا مالک بازار آئے تو اسے اختیار ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٥ (١٥١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٣٨) ، مسند احمد (٢/٢٨٤، ٤٠٣، ٤٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چاہے تو پہلی قیمت پر جو باہر نکل کر لگائی تھی فروخت کر دے یا بازار کی قیمت پر۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4501

【53】

اپنے بھائی کے نرخ پر نرخ لگانے سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال ہرگز نہ بیچے، اور نہ بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے کا کام کرو، اور نہ آدمی اپنے (مسلمان) بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ لگائے، اور نہ (مسلمان) بھائی کی شادی کے پیغام پر پیغام بھیجے اور نہ عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ جو اس کے برتن میں ہے اسے بھی اپنے لیے انڈیل لے (یعنی جو اس کی قسمت میں تھا وہ اسے مل جائے) بلکہ (بلا مطالبہ و شرط) نکاح کرے، کیونکہ اسے وہی ملے گا جو اس کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشروط ١١ (٢٧٢٣) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٧١) ، ویأتي عند المؤلف : ٤٥١١) مسند احمد (٢/٢٧٤، ٤٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4502

【54】

اپنے (مسلمان) بھائی کی بیع پر بیع نہ کرنے سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی اپنے (مسلمان) بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4503

【55】

اپنے (مسلمان) بھائی کی بیع پر بیع نہ کرنے سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے یہاں تک کہ وہ اسے خرید لے یا چھوڑ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨١١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4504

【56】

نجش کی ممانعت

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرضی بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیل ٦ (٦٩٦٣) ، صحیح مسلم/البیوع ٤ (١٥١٦) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٤ (٢١٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٨) ، موطا امام مالک/البیوع ٤٥ (٩٧) ، مسند احمد (٢/٧، ٦٣، ٩١، ١٥٦) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٣ (٢٦٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نجش: ایک چیز کا خریدنا مقصود نہ ہو لیکن دوسرے کو ٹھگانے کے لیے قیمت بڑھا دینا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4505

【57】

نجش کی ممانعت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : آدمی اپنے (کسی مسلمان) بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے، اور نہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان بیچے، اور نہ بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے کا کام کرے، اور نہ آدمی اپنے بھائی کی بیع پر اضافہ کرے (کہ میں اس سامان کا تو اتنا اتنا مزید دوں گا) اور نہ کوئی عورت سوکن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ جو اس کے برتن میں ہے اسے اپنے برتن میں انڈیل لے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٣١٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4506

【58】

نجش کی ممانعت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے، اور نہ کوئی فرضی بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے کا کام کرے، اور نہ آدمی اپنے بھائی کی بیع پر اضافہ کرے، اور نہ عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ جو اس کے برتن میں ہے اسے اپنے میں انڈیل لے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4507

【59】

نیلام سے متعلق

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک پیالا اور ایک کمبل نیلام کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٦ (١٦٤١) ، سنن الترمذی/البیوع ١٠(١٢١٨) ، سنن ابن ماجہ/التجا رات ٢٥(٢١٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٨) ، مسند احمد (٣/١٠٠، ١١٤، ١٢٦) (ضعیف) ١ ؎ (اس کے راوی ” ابوبکر حنفی “ مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎: انس (رض) کی یہ حدیث سند کے لحاظ سے ضعیف ہے، مگر خریدو فروخت کے معاملات میں حرمت کی جو بنیاد ہے بیع مزایدہ (نیلام) پر صادق نہیں آتی، کیونکہ اس معاملہ میں بیچنے والے کی رائے کسی بھاؤ پر حتمی اور آخری نہیں اس لیے دوسرے خریدار کو بھاؤ بڑھا کر سودا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4508

【60】

بیع ملامسہ سے متعلق احادیث

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٣ (٢١٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٢٧) ، موطا امام مالک/البیوع ٣٥ (٧٦) ، مسند احمد (٢/٢٧٩، ٣١٩، ٤١٩، ٤٦٤، ٤٧٦، ٤٨٠، ٤٩١، ٤٩٦، ٥٢١، ٥٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: زمانہ جاہلیت میں منابذہ، ملامسہ، یا کنکری پھینک کر خریدو فروخت کا عام رواج تھا، ان سارے معاملات میں دھوکا، اور مال و قیمت کی تحدید و تعیین نہیں ہوتی تھی، اس لیے یہ معاملات جھگڑے کا سبب ہوتے ہیں یا کسی فریق کے سخت گھاٹے میں پڑجانے سے اسے سخت تکلیف ہوتی ہے، اس لیے ان سے شریعت اسلامیہ نے منع کردیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4509

【61】

بیع ملامسہ کے متلق احادیث

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع ملامسہ سے منع فرمایا، اور وہ یہ ہے کہ آدمی کپڑے کو چھو لے اسے اندر سے دیکھے بغیر (اور بیع ہوجائے) اور منابذہ سے منع فرمایا، اور منابذہ یہ ہے کہ آدمی اپنا کپڑا دوسرے کی طرف بیع کے ساتھ پھینکے اس سے پہلے کہ وہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٣ (٢١٤٤) ، اللباس ٢٠ (٥٨٢٠) ، ٢١(٥٨٢٢) ، صحیح مسلم/البیوع ١ (١٥١٢) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٥ (٣٣٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٨٧) ، مسند احمد (٣/٦، ٥٩، ٦٦، ٦٨، ٧١، ٩٥) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٤٥١٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دور جاہلیت میں اس طرح کپڑا چھو کر یا پھینک کر بغیر دیکھے بیع کرلیتے اور ایجاب و قبول نہ ہوتا، اس سے منع کیا گیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4510

【62】

بیع منابذہ سے متعلق حدیث

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4511

【63】

بیع منابذہ سے متعلق حدیث

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو قسم کی بیع ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٣ (٢١٤٧) ، الإستئذان ٤٢ (٦٢٨٤) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٥ (٣٣٧٧، ٣٣٧٨) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٢ (٢١٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥٤) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤٥١٩، ٥٣٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4512

【64】

بیع منابذہ کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع منابذہ اور ملامسہ سے منع فرمایا، ملامسہ یہ ہے کہ دو آدمی رات کو دو کپڑوں کی بیع کریں، ہر ایک دوسرے کا کپڑا چھو لے۔ منابذہ یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کی طرف کپڑا پھینکے اور دوسرا اس کی طرف کپڑا پھینکے اور اسی بنیاد پر بیع کرلیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٣٢٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4513

【65】

بیع منابذہ کی تفسیر

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ملامسہ سے منع فرمایا۔ اور ملامسہ یہ ہے کہ کپڑے کو چھولے اس کی طرف دیکھے نہیں، اور منابذہ سے منع فرمایا، منابذہ یہ ہے کہ آدمی کپڑا دوسرے آدمی کی طرف پھینکے اور وہ اسے الٹ کر نہ دیکھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥١٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4514

【66】

بیع منابذہ کی تفسیر

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو قسم کے لباس اور دو قسم کی بیع سے منع فرمایا ہے، رہی دو قسم کی بیع تو وہ ملامسہ اور منابذہ ہیں۔ منابذہ یہ ہے کہ وہ کہے : جب میں اس کپڑے کو پھینکوں تو بیع واجب ہوگئی، اور ملامسہ یہ ہے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے چھولے اور جب چھولے تو اسے پھیلائے نہیں اور نہ اسے الٹ پلٹ کرے تو بیع واجب ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥١٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4515

【67】

بیع منابذہ کی تفسیر

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو قسم کے لباس سے منع فرمایا، اور ہمیں دو قسم کی بیع منابذہ اور ملامسہ سے روکا، اور یہ دونوں ایسی بیع ہیں جنہیں زمانہ جاہلیت میں لوگ کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٨٠٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأطعمة ١٩ (٣٧٧٤) (صحیح) (سند میں جعفر اور زہری کے درمیان انقطاع ہے، مگر پچھلی روایت سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4516

【68】

بیع منابذہ کی تفسیر

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دو طرح کی بیع سے منع فرمایا، رہی دونوں بیع تو وہ منابذہ اور ملامسہ ہیں اور ملامسہ یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی سے کہے : میں تمہارے کپڑے سے اپنا کپڑا بیچ رہا ہوں اور ان میں کوئی دوسرے کے کپڑے کو نہ دیکھے بلکہ صرف اسے چھولے، رہی منابذہ تو وہ یہ ہے کہ وہ کہے : جو میرے پاس ہے میں اسے پھینک رہا ہوں اور جو تمہارے پاس ہے اسے تم پھینکو تاکہ ان میں سے ایک دوسرے کی چیز خرید لے حالانکہ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ دوسرے کے پاس کتنا اور کس قسم کا کپڑا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٠ (٥٨٤) ، اللباس ٢٠ (٥٨١٩، ٥٨٢٠) ، صحیح مسلم/البیوع ١ (١٥١١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٧ (١٢٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٦٥) ، مسند احمد (٢/٤٧٧، ٤٩٦، ٥١٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4517

【69】

کنکری کی بیع سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کنکری کی بیع اور دھوکے کی بیع سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٢ (١٥١٣) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٥ (٣٣٧٦) ، سنن الترمذی/البیوع ١٧ (١٢٣٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٣ (٢١٩٤) ، مسند احمد (٢/٢٥٠، ٤٣٦، ٣٧٦، ٤٣٩، ٤٩٦، سنن الدارمی/البیوع ٢٠ (٢٥٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کنکری کی بیع کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کہے : میں تمہاری طرف جب کنکری پھینک دوں تو بیع ہوگئی، یہ ممنوع اس لیے ہے کہ کنکری پھینکنے تک کی جو مدت بیع کے اثبات کے لیے رکھی گئی ہے وہ مجہول ہے، یا پھر یوں کہے کہ میں کنکری پھینکتا ہوں جس مال پر کنکری گرے وہی بیچنا ہے تو یہ بھی صحیح نہیں، کیونکہ اس صورت میں بھی مال مجہول ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4518

【70】

پھلوں کا بیچنا ان کی پختگی معلوم ہونے سے پہلے۔

عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تک پختگی ظاہر نہ ہوجائے پھلوں کی بیع نہ کرو ، آپ نے بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو (اس سے) منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٢ (٢٢١٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٠٢) ، مسند احمد (٢/ ١٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پھلوں کی پختگی ظاہر ہونے سے پہلے اگر ان کو درخت پر بیچ دیا گیا تو بہت ممکن ہے کہ پختگی ظاہر ہونے سے پہلے آندھی طوفان آئے اور سارے یا اکثر پھل برباد ہوجائیں اور خریدار کا نقصان ہوجائے، اور پختگی ظاہر ہونے کے بعد اگر آندھی طوفان آئے بھی تو کم پھل برباد ہوں گے، نیز پختہ پھل اگر گر بھی گئے تو خریدار کی قیمت بھر پیسہ نکل آئے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4519

【71】

پھلوں کا بیچنا ان کی پختگی معلوم ہونے سے پہلے۔

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پختگی ظاہر ہونے سے پہلے پھل بیچنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٣ (١٥٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٣٢) ، مسند احمد (٢/٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4520

【72】

پھلوں کا بیچنا ان کی پختگی معلوم ہونے سے پہلے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پھل نہ بیچو جب تک اس کی پختگی ظاہر نہ ہوجائے، اور نہ (کھجور کے) درخت کے پھل کا اندازہ کر کے (درخت سے توڑی ہوئی) کھجوروں کو بیچو ۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں : مجھ سے سالم بن عبداللہ نے اپنے والد عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس جیسی صورت سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٣ (١٥٣٨) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٢ (٢٢١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٢٨) ، وحدیث ابن شہاب قد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٨٧ (٢١٩٩ تعلیقًا) ، صحیح مسلم/البیوع ١٣ (١٥٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٨٤) ، مسند احمد (٣/٢٦٢، ٣٦٣، وانظر حدیث رقم : ٤٥٢٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4521

【73】

پھلوں کا بیچنا ان کی پختگی معلوم ہونے سے پہلے۔

طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو کہتے ہوئے سنا : ہمارے درمیان رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر فرمایا : پھل مت بیچو یہاں تک کہ اس کی پختگی ظاہر ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧١٠٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4522

【74】

پھلوں کا بیچنا ان کی پختگی معلوم ہونے سے پہلے۔

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بیع مخابرہ، مزابنہ، محاقلہ سے، اور پکنے سے پہلے پھل بیچنے سے منع فرمایا، اور پھلوں کو درہم و دینار کے سوا کسی اور چیز کے بدلے بیچنے سے منع فرمایا، اور بیع عرایا میں رخصت دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩١٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مخابرہ: بیل میں لگی ہوئی انگور کو کشمش (توڑی ہوئی خشک انگور) سے بیچنا، یا کھیت کو اس طرح بٹائی پر دینا کہ پیداوار کٹنے کے وقت کھیت کا مالک یہ کہے کہ فلاں حصے میں جو پیداوار ہے وہ میں لوں گا، ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک ہی کھیت کے مختلف حصوں میں مختلف انداز سے اچھی یا خراب پیداوار ہوتی ہے، اور کھیت کا مالک اچھی والی پیداوار لینا چاہتا ہے، یہ جھگڑے فساد یا دوسرے فریق کے نقصان کا سبب ہے، اس لیے بٹائی کے اس معاملہ سے روکا گیا، ہاں مطلق پیداوار کے آدھے یا تہائی پر بٹائی کا معاملہ صحیح ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر میں کیا تھا۔ ٢ ؎ مزابنہ: درخت پر لگے ہوئے پھل کو توڑے ہوئے پھل کے معینہ مقدار سے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں۔ محاقلہ: کھیت میں لگی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے غلّہ سے بیچنا۔ عرایا: عرایا یہ ہے کہ باغ کا مالک ایک یا دو درخت کے پھل کسی مسکین کو کھانے کے لیے مفت دیدے اور باغ کے اندر اس کے آنے جانے سے تکلیف ہو تو مالک اس درخت کے پھلوں کا اندازہ کر کے مسکین سے خرید لے اور اس کے بدلے تازہ تر یا خشک کھجور اس کے حوالے کر دے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4523

【75】

پھلوں کا بیچنا ان کی پختگی معلوم ہونے سے پہلے۔

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بیع مخابرہ، مزابنہ، محاقلہ اور کھانے کے لائق ہونے سے پہلے درخت پر لگے پھلوں کو بیچنے سے منع فرما، یا سوائے بیع عرایا کے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩١٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بیع عرایا کا استثناء بیع مزابنہ سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4524

【76】

پھلوں کا بیچنا ان کی پختگی معلوم ہونے سے پہلے۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کھجور بیچنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ کھانے کے لائق نہ ہوجائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٩٨٥) ، مسند احمد (٣/٣٥٧، ٣٧٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4525

【77】

پھلوں کے پختہ ہونے سے قبل ان کا اس شرط پر خریدنا کہ پھل کاٹ لئے جائیں گے

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پھلوں کو بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ خوش رنگ ہوجائیں، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! یہ خوش رنگ ہونا کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہاں تک کہ لال ہوجائیں اور فرمایا : دیکھو ! اگر اللہ تعالیٰ پھلوں کو روک دے (پکنے سے پہلے گرجائیں) تو تم میں کوئی اپنے بھائی کا مال کس چیز کے بدلے لے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٨ (١٤٨٨) ، البیوع ٨٧، ٣١٩٨، ٢٢٠٨) ، صحیح مسلم/البیوع ٢٤ (المساقاة ٣) (١٥٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٣) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٢ (٢٢١٧) ، موطا امام مالک/البیوع ٨ (١١) ، مسند احمد (٣/١١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب خریدار سے توڑنے کی شرط نہ لگائی گئی ہو، اگر فوری طور پر توڑ لینے کی شرط لگائی ہو تو اب یہ خریدار کی وجہ سے ہے کہ وہی اپنی قیمت کے بدلے اسی سودے پر راضی ہوگیا۔ اب بیچنے والے کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے، اور نہ ہی پھلوں کے کسی آفت کے شکار ہونے کا خطرہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4526

【78】

پھلوں پر آفت آنا اور اس کی تلافی

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم نے اپنے (مسلمان) بھائی سے پھل بیچے پھر اچانک ان پر کوئی آفت آگئی تو تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم اس سے کچھ لو، آخر تم کس چیز کے بدلے میں ناحق اپنے (مسلمان) بھائی کا مال لو گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٣ (البیوع ٢٤) (١٥٥٤) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٠ (٣٤٧٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٣ (٢٢١٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٩٨) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٢ (٢٥٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس طرح کے حادثہ میں بیچنے والے کے اوپر لازم ہے کہ خریدار کا جتنا نقصان (خسارہ) ہوا ہے اتنے کی وہ بھرپائی کر دے ورنہ وہ مسلمان بھائی کا مال کھا لینے کا مرتکب گردانا جائے گا، اور یہ اس صورت میں ہے جب پھل ابھی پکے نہ ہوئے ہوں، یا بیچنے والے نے ابھی خریدار کو مکمل قبضہ نہ دیا ہو، ورنہ پھل کے پک جانے اور قبضہ دے دینے کے بعد بیچنے والے کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے، اس طرح کا معاملہ ایک آدمی کے ساتھ پیش آیا تو آپ ﷺ نے بیچنے والے سے بھر پائی کرانے کی بجائے عام لوگوں سے خریدار پر صدقہ و خیرات کرنے کی اپیل کی جیسا کہ حدیث نمبر : ٤٥٣٤ میں آ رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4527

【79】

پھلوں پر آفت آنا اور اس کی تلافی

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے پھل بیچے پھر ان پر کوئی آفت آگئی تو وہ اپنے بھائی سے (کچھ) نہ لے، آخر تم کس چیز کے بدلے میں اپنے مسلمان بھائی کا مال کھاؤ گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4528

【80】

پھلوں پر آفت آنا اور اس کی تلافی

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آفتوں کا نقصان دلوایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٣ (البیوع ٢٤) (١٥٥٤) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٤ (٣٣٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٧٠) ، مسند احمد (٣/٣٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4529

【81】

پھلوں پر آفت آنا اور اس کی تلافی

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک شخص کے پھلوں پر جسے اس نے خرید رکھا تھا کوئی آفت آگئی، چناچہ اس پر بہت سارا قرض ہوگیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے خیرات دو ، تو لوگوں نے اسے خیرات دی، لیکن خیرات اتنی اکٹھا نہ ہوئی جس سے اس کے تمام قرض کی ادائیگی ہوجاتی تو آپ نے (اس کے قرض خواہوں سے) کہا : جو پا گئے ہو وہ لے لو، اس کے علاوہ اب کچھ اور دینا لینا نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٤ (البیوع ٢٥) (١٥٥٦) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٠ (٣٤٦٩) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢٤ (٦٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٥ (٢٣٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٧٠) ، مسند احمد (٣/٥٦، ٥٨) ، ویأتي عند المؤلف في باب ٩٥ برقم : ٤٦٨٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ گویا مصیبت میں تمہاری طرف سے اس کے ساتھ رعایت و مدد ہے۔ اس واقعہ میں پھلوں پر آفت آنے کا معاملہ پھلوں کے پک جانے کے بعد بیچنے پر ہوا تھا، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے بیچنے والے سے بھرپائی کرانے کے بجائے عام لوگوں سے خیرات دینے کی اپیل کی، اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرض خواہ بقیہ قرض سے ہاتھ دھو لیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حاکم موجودہ مال کو قرض خواہوں کے درمیان بقدر حصہ تقسیم کر دے پھر بھی اس شخص کے ذمہ قرض خواہوں کا قرض باقی رہ جائے تو ایسی صورت میں قرض خواہ اسے تنگ کرنے، قید کرنے اور قرض کی ادائیگی پر مزید اصرار کرنے کے بجائے اسے مال کی فراہمی تک مہلت دے۔ حدیث کا مفہوم یہی ہے اور قرآن کی اس آیت وإن کان ذوعسر ۃ فنظر ۃ إلی میسر ۃ کے مطابق بھی ہے کیونکہ کسی کے مفلس (دیوالیہ) ہوجانے سے قرض خواہوں کے حقوق ضائع نہیں ہوتے، رہی اس حدیث کی یہ بات کہ اس کے علاوہ اب تم کو کچھ نہیں ملے گا تو یہ اس آدمی کے ساتھ خاص ہوسکتا ہے، کیونکہ اصولی بات وہی ہے جو اوپر گزری۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4530

【82】

چند سال کے پھل فروخت کرنا

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کئی سال تک کے لیے پھل بیچنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم /البیوع ١٦ (١٥٣٦) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٤ (٣٣٧٤) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٣ (٢٢١٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٦٩) ، مسند احمد (٣/٣٠٩) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٤٦٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ اگلے سالوں میں پھل آئیں گے یا نہیں، اور پھل نہ آنے کی صورت میں خریدار کا گھاٹا ہی گھاٹا ہے اس طرح کی بیع کو بیع غرر یعنی دھوکے کی بیع کہا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4531

【83】

درخت کے پھلوں کو خشک پھلوں کے بدلہ فروخت کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے درخت کے پھل (کھجور) توڑے ہوئے پھلوں (کھجور) سے بیچنے سے منع فرمایا۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : مجھ سے زید بن ثابت (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع عرایا میں اجازت عطا فرمائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٢٤، وحدیث زید بن ثابت وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٥ (٢١٧٣) ، ٨٢ (٢١٨٤، ٢١٨٨) ، ٨٤ (٢١٩٢) ، المساقاة ١٧ (٢٣٨٠) ، صحیح مسلم/البیوع ١٤ (١٥٣٩) ، سنن الترمذی/البیوع ٦٣ (١٣٠٠، ١٣٠٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٥ (٢٢٦٨، ٢٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٢٣، موطا امام مالک/البیوع ٩ (١٤) ، مسند احمد (٢/٥، ٨، ٥/١٨٢، ١٨٦، ١٨٨، ١٩٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٤ (٢٦٠٠) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤٥٤٠، ٤٥٤٢- ٤٥٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عرایا : عریا کی شکل یہ ہوتی تھی کہ باغ کا مالک کسی غریب و مسکین کو درختوں کے درمیان سے کوئی درخت صدقہ کردیتا تھا، تو ایسے میں اگر مسکین اور اس کے بال بچوں کے باغ میں باربار آنے جانے سے مالک کو تکلیف ہوتی ہو تو اس کو یہ اجازت دی گئی کہ اس درخت پر لگے پھل (تر کھجور) کے بدلے توڑی ہوئی کھجور کا اندازہ لگا کر دیدے، یہ ضرورت کے تحت خاص اجازت ہے۔ عام حالات میں اس طرح کی بیع جائز نہیں۔ قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4532

【84】

درخت کے پھلوں کو خشک پھلوں کے بدلہ فروخت کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا، اور مزابنہ یہ ہے کہ درخت میں موجود پھل کو متعین توڑے ہوئے پھلوں سے بیچنا اس طور پر کہ زیادہ ہوا تو بھی میرا (یعنی کا) اور کم ہوا تو بھی میرے ذمہ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٥ (٢١٧٢) ، صحیح مسلم/البیوع ١٤(١٥٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٢٢) ، مسند احمد (٢/٥، ٦٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4533

【85】

تازہ انگور خشک انگور کے عوض فروخت کرنے سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا، مزانبہ درخت پر لگے کھجور کو توڑے ہوئے کھجور سے ناپ کر بیچنا، اور بیل پر لگے تازہ انگور کو توڑے ہوئے انگور (کشمش) سے ناپ کر بیچنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٥ (٢١٧١) ، ٨٢ (٢١٨٥) ، صحیح مسلم/البیوع ١٤ (١٥٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٦٠) ، موطا امام مالک/البیوع ١٣(٢٣) ، مسند احمد (٢/٧، ٦٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4534

【86】

تازہ انگور خشک انگور کے عوض فروخت کرنے سے متعلق

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع محاقلہ اور مزانبہ سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٢١(صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4535

【87】

تازہ انگور خشک انگور کے عوض فروخت کرنے سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے زید بن ثابت (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع عرایا میں اجازت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٣٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4536

【88】

تازہ انگور خشک انگور کے عوض فروخت کرنے سے متعلق

زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع عرایا میں خشک کھجور کو تر کھجور سے بیچنے کی اجازت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٢٠ (٣٣٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٠٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4537

【89】

عرایا میں اندازہ کر کے خشک کھجور دینا

زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عاریت والی بیع میں اجازت دی کہ (اس کی تازہ کھجوروں کو) اندازہ کر کے (توڑی ہوئی) کھجوروں کے بدلے بیچی (جا سکتی) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٣٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4538

【90】

عرایا میں اندازہ کر کے خشک کھجور دینا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے زید بن ثابت (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع عریہ کی اجازت دی کہ اس (کی تازہ کھجوروں کو) اندازہ لگا کر کے خشک کھجوروں کے بدلے بیچی (جا سکتی) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٣٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4539

【91】

عرایا میں تر کھجور دینا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ان سے زید بن ثابت (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عاریت والی بیع میں اجازت دی کہ وہ توڑی ہوئی تازہ اور سوکھی کھجور سے بیچی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور چیز میں رخصت نہیں دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٣٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4540

【92】

عرایا میں تر کھجور دینا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عاریت والی بیع میں (یہ) اجازت دی کہ پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم کھجور اندازہ لگا کر کے بیچی جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٨٣ (٢١٩٠) ، المساقاة ١٧ (٢٣٨٢) ، صحیح مسلم/البیوع ١٤ (١٥٤١) ، سنن ابی داود/البیوع ٢١ (٣٣٦٤) ، سنن الترمذی/البیوع ٦٣ (١٣٠١) ، موطا امام مالک/البیوع ٩ (١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٤٣) ، مسند احمد (٢/٢٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اوپر جو عاریت والی بیع میں یہ اجازت موجود ہے کہ درخت پر لگی کھجور کو توڑی ہوئی تازہ اور سوکھی کھجور کے بدلے بیچ سکتے ہیں، یہ ایک ضرورت کے تحت اجازت ہے، اور بات ضرورت کی ہے تو پانچ وسق سے یہ ضرورت پوری ہوجاتی ہے، اس لیے صرف پانچ وسق تک کی اجازت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4541

【93】

عرایا میں تر کھجور دینا

سہیل بن ابی حثمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پھل بیچنے سے منع فرمایا جب تک کہ پک نہ جائیں اور بیع عرایا میں اجازت دی کہ اندازہ لگا کر کے بیچا جائے، تاکہ کچی کھجور والے تازہ کھجور کھا سکیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٨٣ (٢١٩١) ، المساقاة ١٧ (٢٣٨٤) ، صحیح مسلم/البیوع ١٤ (١٥٤٠) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٠ (٣٣٦٣) ، سنن الترمذی/البیوع ٦٤ (١٣٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٦) ، مسند احمد (٤/٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ق دون قوله حتى يبدو صلاحه صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4542

【94】

عرایا میں تر کھجور دینا

رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا، یعنی : درخت کے پھل کو توڑے ہوئے پھل سے بیچنا، سوائے اصحاب عرایا کے، آپ نے انہیں اس کی اجازت دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظرما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4543

【95】

عرایا میں تر کھجور دینا

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تخمینہ (اندازہ) لگا کر کے عاریت والی بیع کی اجازت دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٤٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4544

【96】

تر کھجور کے عوض خشک کھجور

سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے تازہ کھجوروں کے بدلے خشک کھجور بیچنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اپنے اردگرد موجود لوگوں سے سوال کیا : جب تازہ کھجور سوکھ جاتی ہے تو کیا کم ہوجاتی ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، تو آپ نے اس سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ١٨ (٣٣٦٠) ، سنن الترمذی/البیوع ١٤ (١٢٢٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٥ (٢٤٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٥٤) ، موطا امام مالک/البیوع ١٢ (٢٢) ، مسند احمد ١/١٧٥، ١٧٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر کسی کے پاس خشک کھجوریں ہوں اور وہ تازہ کھجوریں کھانا چاہتا ہے تو ایک دوسرے کے بدلے برابر یا کم و بیش کے حساب سے خریدو فروخت کرنے کی بجائے خشک کھجوروں کو پیسوں سے فروخت کر دے، پھر ان پیسوں سے تازہ کھجوریں خرید لے، ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے (دیکھئیے نمبر ٤٥٥٧ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4545

【97】

تر کھجور کے عوض خشک کھجور

سعد بن مالک (سعد بن ابی وقاص) (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سوکھی کھجور کے بدلے تازہ کھجور بیچنے کے متعلق سوال کیا گیا ؟ تو آپ نے فرمایا : کیا تازہ کھجور سوکھنے پر کم ہوجائے گی ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں، تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4546

【98】

کھجور کا ڈھیر جس کی پیمائش کا علم نہ ہو کھجور کے عوض فروخت کرنا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بےناپی کھجور کے ڈھیر کو ناپی ہوئی کھجور سے بیچنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٩ (١٥٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : دونوں کھجوریں خشک ہوں جن کو برابر برابر کے حساب سے بیچ سکتے ہیں، مگر دونوں کی ناپ معلوم ہونی چاہیئے، کیونکہ ایسی چیزوں کی خریدو فروخت میں کم و بیش ہونا جائز نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4547

【99】

اناج کا ایک انبار اناج کے انبار کے عوض فروخت کرنا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اناج کا ڈھیر اناج کے ڈھیر سے نہیں بیچا جائے گا ١ ؎، اور نہ ہی اناج کا ڈھیر ناپے اناج سے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ دونوں کی مقدار معلوم نہیں، تو ہوسکتا ہے کہ ایک زیادہ ہو اور ایک کم، جب کہ تفاضل (کمی زیادتی) جائز نہیں۔ ٢ ؎: کیونکہ گرچہ ایک ڈھیر کی مقدار معلوم ہے مگر دوسرے کی معلوم نہیں، تو ہوسکتا ہے کہ کمی زیادتی ہوجائے، جو جائز نہیں، یہ اس صورت میں ہے جب دونوں ڈھیروں کی جنس ایک ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4548

【100】

غلہ کے عوض غلہ فروخت کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا ہے مزابنہ یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ میں لگے پھل کو بیچے، اگر وہ کھجور ہو تو نپی ہوئی کھجور سے بیچے، اور اگر انگور ہو تو اسے نپے ہوئے خشک انگور (منقیٰ یا کشمش) سے بیچے، اور اگر کھڑی کھیتی (فصل) ہو تو اسے نپے ہوئے اناج سے بیچے ۔ آپ نے ان تمام اقسام کی بیع سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٩١ (٢٢٠٥) ، صحیح مسلم/البیوع ١٤ (١٥٤٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٤ (٢٢٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٧٣) ، مسند احمد (٢/١٢٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4549

【101】

غلہ کے عوض غلہ فروخت کرنا

جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع مخابرہ، مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا، اور کھانے کے لائق ہونے سے پہلے کھجور کو بیچنے سے، اور اسے سوائے دینار اور درہم کے کسی اور چیز سے بیچنے سے (منع فرمایا) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩١٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4550

【102】

بالی اس وقت تک فروخت نہ کرنا کہ جب تک وہ سفید نہ ہو جائیں

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کھجور کے بیچنے سے یہاں تک کہ وہ خوش رنگ ہوجائے، اور بالی کے بیچنے سے یہاں تک کہ وہ سفید پڑجائے (یعنی پک جائے) اور آفت سے محفوظ ہوجائے۔ آپ نے بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو روکا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٣ (١٥٣٥) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٣ (٣٣٦٨) ، سنن الترمذی/البیوع ١٥ (١٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٥١٥) ، مسند احمد (٢/٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس طرح کی بیع میں بھی وہی بات ہے جو پھلوں کے پکنے سے پہلے ان کی بیع میں ہے، یعنی ہوسکتا ہے کہ کھیتی پکنے سے کسی آسمانی آفت کا شکار ہوجائے، تو خریدار کا گھاٹا ہی گھاٹا ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4551

【103】

بالی اس وقت تک فروخت نہ کرنا کہ جب تک وہ سفید نہ ہو جائیں

ایک صحابی رسول (رض) نے کہا کہ اللہ کے رسول ! ہم صیحانی (نامی کھجور) اور عذق (نامی کھجور) ردی کھجور کے بدلے نہیں پاتے جب تک کہ ہم زیادہ نہ دیں، تو آپ نے فرمایا : اسے درہم سے بیچ دو پھر اس سے (صیحانی اور عذق کو) خرید لو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٥٦٦) (صحیح) (اس کے رواة ” اعمش “ اور ” حبیب “ دونوں مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4552

【104】

کھجور کو کھجور کے عوض کم زیادہ فروخت کرنا

ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو خیبر کا عامل بنایا، وہ جنیب (نامی عمدہ قسم کی) کھجور لے کر آیا تو آپ نے فرمایا : کیا خیبر کی ساری کھجوریں اسی طرح ہیں ؟ وہ بولا : نہیں، اللہ کی قسم ! ہم یہ کھجور دو صاع کے بدلے ایک صاع یا تین صاع کے بدلے دو صاع لیتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسا نہ کرو، گھٹیا اور ردی کھجوروں کو درہم (پیسوں) سے بیچ دو ، پھر درہم سے جنیب خرید لو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/لبیوع ٨٩ (٢٢٠١، ٢٢٠٢) ، الوکالة ٣ (٢٣٠٢، ٢٣٠٣) ، المغازي ٣٩ (٤٢، ٤٢٤٤) ، الاعتصام ٢٠(٧٣٥٠-٧٣٥١) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٨ (البیوع ٣٩) (١٥٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٤٤) ، موطا امام مالک /البیوع ١٢ (٢١) ، مسند احمد (٣/٤٥، ٤٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٠ (٤٢٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہی معاملہ ہر طرح کے پھلوں اور غلوں میں کرنا چاہیئے، اگر کسی کو گھٹیا اور ردی قسم کے بدلے اچھے قسم کا پھل یا غلہ چاہیئے تو وہ قیمت سے خریدے، بدلے میں نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4553

【105】

کھجور کو کھجور کے عوض کم زیادہ فروخت کرنا

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ریان (نامی عمدہ) کھجوریں لائی گئیں اور آپ کی بعل نامی (گھٹیا قسم کی) سوکھی کھجور تھی تو آپ نے فرمایا : تمہارے پاس یہ کھجوریں کہاں سے آئیں ؟ لوگوں نے کہا : ہم نے اپنی دو صاع کھجوروں کے بدلے اسے ایک صاع خریدی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا نہ کرو، اس لیے کہ یہ چیز صحیح نہیں، البتہ تم اپنی کھجوریں بیچ دو اور پھر اس نقدی سے اپنی ضرورت کی دوسری کھجوریں خریدو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4554

【106】

کھجور کو کھجور کے عوض کم زیادہ فروخت کرنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ردی کھجوریں ملتی تھیں تو ہم دو صاع دے کر ایک صاع (اچھی کھجوریں) خرید لیتے تھے، یہ بات رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا : کھجور کے دو صاع ایک صاع کے بدلے، گیہوں کے دو صاع ایک صاع کے بدلے اور دو درہم ایک درہم کے بدلے نہ لیے جائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٢٠ (٢٠٨٠) ، صحیح مسلم/البیوع ٣٩ (المساقاة ١٨) (١٥٩٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٨ (٢٢٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٢٢) ، مسند احمد (٣/٤٨، ٤٩، ٥٠، ٥١، ٥٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4555

【107】

کھجور کو کھجور کے عوض کم زیادہ فروخت کرنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ دو صاع ردی کھجوروں کے بدلے ایک صاع (عمدہ قسم کی کھجوریں) لیتے تھے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک صاع کھجور کے بدلے دو صاع کھجور، ایک صاع گیہوں کے بدلے دو صاع گی ہوں، اور ایک درہم کے بدلے دو درہم لینا جائز نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4556

【108】

کھجور کو کھجور کے عوض کم زیادہ فروخت کرنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ بلال (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس برنی نامی کھجور لائے، تو آپ نے فرمایا : یہ کیا ہے ؟ وہ بولے : یہ میں نے ایک صاع دو صاع دے کر خریدی ہیں۔ آپ نے فرمایا : افسوس ! یہ تو عین سود ہے، اس کے نزدیک مت جانا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ١١ (٢٣١٢) ، صحیح مسلم/المساقاة ٨ (البیوع ٣٩) (١٥٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٤٦) ، مسند احمد (٣/٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4557

【109】

کھجور کو کھجور کے عوض کم زیادہ فروخت کرنا

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سونا، چاندی کے بدلے سود ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد ہو، کھجور کھجور کے بدلے سود ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد ہو، گی ہوں گیہوں کے بدلے سود ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد ہو، جو جو کے بدلے سود ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٤ (٢١٣٤) ، ٧٤ (٢١٧٠) ، ٧٦ (٢١٧٤) ، صحیح مسلم/البیوع ٣٧ (المساقاة ١٥) (١٥٨٦) ، سنن ابی داود/البیوع ١٢ (٣٣٤٨) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٤ (١٢٤٣) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٠ (٢٢٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٣٠) ، موطا امام مالک/البیوع ١٧ (٣٨) ، مسند احمد (١/٢٤، ٣٥، ٤٥) ، سنن الدارمی/البیوع ٤١ (٢٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت میں چار ہی چیزوں کا ذکر ہے لیکن ابوسعید (رض) کی جو صحیحین میں وارد حدیث میں دو چیزوں چاندی اور نمک کا اضافہ ہے، اس طرح ان چھ چیزوں میں تفاضل (کمی بیشی) اور نسیئہ (ادھار) جائز نہیں ہے، اگر ایک ہاتھ سے دے اور دوسرے ہاتھ سے لے تو جائز اور صحیح ہے اور اگر ایک طرف سے بھی ادھار ہو تو یہ سود ہوجائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4558

【110】

کھجور کو کھجور کے عوض فروخت کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کھجور کے بدلے کھجور، گیہوں کے بدلے گی ہوں، جَو کے بدلے جَو اور نمک کے بدلے نمک میں خریدو فروخت نقدا نقد ہے، جس نے زیادہ دیا، یا زیادہ لیا تو اس نے سود لیا، سوائے اس کے کہ جنس بدل جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٥ (البیوع ٣٦) (١٥٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٢١) ، مسند احمد (٢/٢٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سود صرف انہی چار چیزوں میں کمی زیادتی میں نہیں ہے، بلکہ اگلی حدیث میں دو اور چیزوں کا تذکرہ ہے، نیز صرف انہی چھ کی بیع میں تفاضل سود نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کی ہر چیز میں موجود ہے سوائے ان چیزوں کے جن کو شریعت نے مستثنیٰ کردیا ہے جیسے : جانور، پس ایک اونٹ کے بدلے دو اونٹ بیچ سکتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4559

【111】

گیہوں کے عوض گیہوں فروخت کرنا

مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ ایک دن عبادہ بن صامت اور معاویہ (رض) اکٹھا ہوئے، عبادہ (رض) نے لوگوں سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سونے کو سونے کے بدلے، چاندی کو چاندی کے بدلے، گیہوں کو گیہوں کے بدلے، جَو کو جَو کے بدلے اور کھجور کو کھجور کے بدلے (ان میں سے ایک نے کہا : نمک کو نمک کے بدلے، دوسرے نے یہ نہیں کہا) بیچنے سے منع کیا، مگر برابر برابر اور نقدا نقد، اور ہمیں حکم دیا کہ ہم سونا چاندی کے بدلے، چاندی سونے کے بدلے، گیہوں جو کے بدلے، جَو گیہوں کے بدلے نقداً نقد بیچیں جیسے بھی ہم چاہیں ١ ؎ ان (دونوں تابعی راویوں) میں سے ایک نے یہ بھی کہا : جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو اس نے سود لیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٨ (٢٢٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٥١١٣) ، مسند احمد (٥/٣٢٠) ، انظرأیضا حدیث رقم : ٤٥٦٥، ٤٥٦٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کمی زیادتی کے ساتھ بیچ سکتے ہیں جب جنس مختلف ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4560

【112】

گیہوں کے عوض گیہوں فروخت کرنا

مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عبید (ابن عتیک) (ان کو ابن ہرمز بھی کہا جاتا ہے) بیان کرتے ہیں کہ عبادہ بن صامت اور معاویہ (رض) ایک جگہ اکٹھا ہوئے، عبادہ (رض) نے لوگوں سے حدیث بیان کی کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، گیہوں گی ہوں کے بدلے اور جَو جَو کے بدلے (ان دونوں راویوں میں سے ایک نے کہا :) نمک نمک کے بدلے، (دوسرے نے یہ نہیں کہا) بیچنے سے منع کیا مگر برابر برابر، نقدا نقد (ان میں سے ایک نے کہا :) جس نے زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا، اس نے سود لیا، (اسے دوسرے (راوی) نے نہیں کہا) اور ہمیں حکم دیا کہ ہم سونا چاندی کے بدلے، چاندی سونے کے بدلے، گیہوں جَو کے بدلے اور جَو گیہوں کے بدلے بیچیں، نقدا نقد جس طرح چاہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4561

【113】

جو کے عوض جو فروخت کرنا

مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عبید کہتے ہیں کہ عبادہ بن صامت اور معاویہ (رض) ایک جگہ اکٹھا ہوئے تو عبادہ (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ ہم سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گیہوں گیہوں کے بدلے، جَو جَو کے بدلے اور کھجور کھجور کے بدلے بیچیں مگر نقدا نقد اور برابر برابر (ان دونوں راویوں میں سے کسی ایک نے کہا :) اور نمک نمک کے بدلے، (یہ دوسرے نے نہیں کہا اور پھر ان میں سے ایک نے کہا :) جس نے زیادہ دیا یا زیادہ کا مطالبہ کیا تو اس نے سود کا کام کیا، (یہ دوسرے نے نہیں کہا) اور آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم سونا چاندی سے، چاندی سونے سے، گیہوں جَو سے اور جَو گیہوں سے نقدا نقد بیچیں، جس طرح چاہیں (یعنی کم و زیادتی) ۔ جب یہ حدیث معاویہ (رض) کو پہنچی تو انہوں نے کھڑے ہو کر کہا : کیا بات ہے آخر لوگ رسول اللہ ﷺ سے ایسی حدیثیں بیان کرتے ہیں جو ہم نے نہیں سنیں حالانکہ ہم بھی آپ کی صحبت میں رہے، یہ بات عبادہ بن صامت (رض) کو پہنچی تو وہ کھڑے ہوئے اور دوبارہ حدیث بیان کی اور بولے : ہم تو اسے ضرور بیان کریں گے جو ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے گرچہ معاویہ (رض) کو یہ ناپسند ہو۔ قتادہ نے اس حدیث کو اس کے برعکس مسلم بن یسار سے، انہوں نے ابوالاشعث سے انہوں نے عبادہ (رض) سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٦٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4562

【114】

جو کے عوض جو فروخت کرنا

عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے (وہ بدری صحابی ہیں، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی کہ وہ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے) کہ وہ خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور کہا : لوگو ! تم نے خریدو فروخت سے متعلق بعض ایسی چیزیں ایجاد کرلی ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ وہ کیا ہیں ؟ سنو ! سونا سونے کے بدلے، برابر برابر وزن کا ہو، ڈلا ہو یا سکہ، چاندی چاندی کے بدلے برابر برابر وزن ڈالا ہو یا سکہ، اور کوئی حرج نہیں (یعنی) چاندی کو سونے سے نقدا نقد بیچنے میں جب کہ چاندی زیادہ ہو، البتہ اس میں نسیئہ (ادھار) درست نہیں، سنو ! گیہوں گیہوں کے بدلے، اور جَو جَو کے بدلے برابر برابر ہو، البتہ جَو گیہوں کے بدلے نقدا نقد بیچنے میں کوئی حرج نہیں جب جَو زیادہ ہو لیکن نسیئہ (ادھار) درست نہیں، سنو ! کھجور کھجور کے بدلے برابر برابر ہو یہاں تک کہ انہوں نے ذکر کیا کہ نمک (نمک کے بدلے) برابر برابر ہو، جس نے زیادہ دیا، یا زیادہ کا مطالبہ کیا تو اس نے سود لیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٥ (البیوع ٣٦) (١٥٨٧) ، سنن ابی داود/البیوع ١٢ (٣٣٤٩) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٣ (١٢٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٨٩) ، مسند احمد (٥/٣١٤، ٣٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4563

【115】

جو کے عوض جو فروخت کرنا

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سونا سونے کے بدلے، ڈلا ہو یا سکہ، برابر برابر ہو، چاندی چاندی کے بدلے ڈالا ہو یا سکہ، برابر برابر ہو، نمک نمک کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، گیہوں گیہوں کے بدلے اور جَو جَو کے بدلے برابر برابر اور یکساں ہو، لہٰذا جو زیادہ دے یا زیادہ کا مطالبہ کرے تو اس نے سود لیا ۔ یہ الفاظ محمد بن المثنیٰ کے ہیں، ابراہیم بن یعقوب نے جَو جَو کے بدلے کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظرما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4564

【116】

جو کے عوض جو فروخت کرنا

سلیمان بن علی سے روایت ہے کہ بازار میں ان کے پاس سے ابوالمتوکل کا گزر ہوا، تو کچھ لوگ ان کے پاس گئے، ان لوگوں میں میں بھی تھا، ہم نے کہا : ہم آپ کے پاس آئے ہیں تاکہ آپ سے بیع صرف ١ ؎ کے بارے میں پوچھیں، تو انہوں نے کہا : میں نے ابو سعید خدری (رض) کو (کہتے) سنا، (اس پر) ایک شخص نے ان سے کہا : آپ کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان ابوسعید (رض) کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا : میرے اور آپ ﷺ کے درمیان ان (ابوسعید رضی اللہ عنہ) کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا : سونا سونے کے بدلے اور چاندی چاندی کے بدلے اور گیہوں گیہوں کے بدلے، جَو جَو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، نمک نمک کے بدلے برابر برابر ہو، اب جو اس میں زیادہ دے یا زیادہ کا مطالبہ کرے تو اس نے سود کا کام کیا، اور سود لینے اور دینے والے (جرم میں) دونوں برابر ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٥ (البیوع ٣٦) (١٥٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٥٥) ، مسند احمد (٣/٤٩، ٦٦، ٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سونا چاندی کو سونا چاندی کے بدلے نقدا بیچنا بیع صرف ہے، اور اسی کو بیع اثمان بھی کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4565

【117】

جو کے عوض جو فروخت کرنا

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : سونا ایک پلڑا دوسرے پلڑے کے برابر ہو ، تو معاویہ (رض) نے کہا : یہ بات تو میرے سمجھ میں نہیں آتی، تو عبادہ (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! مجھے پروا نہیں اگر میں اس سر زمین میں نہ رہوں جہاں معاویہ (رض) رہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٠٨٤) ، مسند احمد (٥/٣١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4566

【118】

اشرفی کو اشرفی کے عوض فروخت کرنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دینار کے بدلے دینار اور درہم کے بدلے درہم ہو تو ان دونوں میں کمی زیادتی نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٥ (البیوع ٣٦) (١٥٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٨٤) ، موطا امام مالک/البیوع ١٦ (٢٩) ، مسند احمد (٢/٣٧٩، ٤٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4567

【119】

درہم درہم کے عوض فروخت کرنا

عمر (رض) کہتے ہیں کہ دینار کے بدلے دینار، درہم کے بدلے درہم کی بیع میں کمی زیادتی جائز نہیں، یہ ہم سے نبی اکرم ﷺ کا عہد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٣٩٨) (صحیح) (مجاہد کا عمر رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے اس لیے سند میں انقطاع ہے، مگر پچھلی روایت سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ نے اس کا ہمیں حکم دیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4568

【120】

درہم درہم کے عوض فروخت کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سونے کے بدلے سونا، برابر برابر اور یکساں ہوگا، اور چاندی کے بدلے چاندی برابر برابر اور یکساں ہوگی، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ کا مطالبہ کیا تو اس نے سود کا کام کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٥(البیوع ٣٦) (١٥٨٨) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٨ (٢٢٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٦٢٥) ، مسند احمد (٢/٢٦١، ٢٨٢، ٤٣٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4569

【121】

سونے کے بدلے سونا فروخت کرنا

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سونا سونے کے بدلے نہ بیچو مگر برابر برابر، اور ان میں سے ایک کا دوسرے پر اضافہ نہ کرو، اور چاندی کے بدلے چاندی مت بیچو مگر برابر برابر اور ان میں سے کسی کو نقد کے بدلے ادھار نہ بیچو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٨ (٢١٧٧) ، صحیح مسلم/البیوع ٣٥ (المساقاة ١٤) (١٥٨٤) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٤ (١٢٤١) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٨٥) ، موطا امام مالک/البیوع ١٦(٣٠) ، مسند احمد ٣/٤، ٥١، ٥٣، ٦١، ٧٣، ٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4570

【122】

سونے کے بدلے سونا فروخت کرنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور میرے کانوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے سونے کے بدلے سونا اور چاندی کے بدلے چاندی بیچنے سے روکا ہے، سوائے اس کے کہ وہ برابر ہوں، اور (ان میں سے) کسی نقد کے بدلے ادھار نہ بیچو، اور نہ ہی ان میں سے ایک کا دوسرے پر اضافہ کرو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4571

【123】

سونے کے بدلے سونا فروخت کرنا

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ معاویہ (رض) نے پینے کا برتن جو سونے یا چاندی کا تھا اس سے زائد وزن کے بدلے بیچا تو ابو الدرداء (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح کی بیع سے منع فرماتے ہوئے سنا، سوائے اس کے کہ وہ برابر برابر ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٩٥٣) ، موطا امام مالک/البیوع ١٦ (٣٣) ، مسند احمد (٦/٤٤٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4572

【124】

نگینہ اور سونے سے جڑے ہوئے ہار کی بیع

فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ خیبر کے دن میں نے ایک ہار جس میں سونا اور نگینے لگے ہوئے تھے، بارہ دینار میں خریدا، پھر میں نے انہیں الگ کیا تو اس میں لگا ہوا سونا بارہ دینار سے زیادہ کا تھا، اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا : جب تک الگ کرلیا جائے اسے نہ بیچا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٧ (البیوع ٣٨) (١٥٩١) ، سنن ابی داود/البیوع ١٣(٣٣٥٢) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٢ (١٢٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٢٧) ، مسند احمد (٦/٢١، ٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4573

【125】

نگینہ اور سونے سے جڑے ہوئے ہار کی بیع

فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ مجھے خیبر کے دن ایک ہار ملا جس میں سونا اور نگینے تھے، میں نے اسے بیچنا چاہا، اس کا تذکرہ نبی اکرم ﷺ سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ایک کو دوسرے سے الگ کر دو پھر بیچو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4574

【126】

چاندی کو سونے کے بدلہ ادھار فروخت کرنا

ابومنہال کہتے ہیں کہ شریک نے کچھ چاندی ادھار بیچی، پھر میرے پاس کر مجھے بتایا تو میں نے کہا : یہ درست نہیں، انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے تو اسے بازار میں بیچا ہے، لیکن کسی نے اسے غلط نہیں کہا، چناچہ میں براء بن عازب (رض) کے پاس آ کر ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا : مدینے میں رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے اور ہم اسی طرح سے بیچا کرتے تھے، تو آپ نے فرمایا : جب تک نقدا نقد ہو تو کوئی حرج نہیں، لیکن ادھار ہو تو یہ سود ہے ، پھر انہوں نے مجھ سے کہا : زید بن ارقم (رض) کے پاس جاؤ، میں نے ان کے پاس جا کر معلوم کیا تو انہوں نے بھی اسی جیسا بتایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٨ (٢٠٦٠، ٢٠٦١) ، (٢١٨٠، ٢١٨١) ، الشرکة ١٠(٢٤٩٧، ٢٤٩٨) ، مناقب الأنصار ٥١ (٣٩٣٩، ٣٩٤٠) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٦ (البیوع ٣٧) (١٥٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٨) ، مسند احمد (٤/٢٨٩، ٣٦٨، ٣٧١، ٣٧٢، ٢٧٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4575

【127】

چاندی کو سونے کے بدلہ ادھار فروخت کرنا

ابومنہال کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب اور زید بن ارقم (رض) سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم دونوں تاجر تھے، ہم نے آپ سے بیع صرف (اثمان کی خریدو فروخت) کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا : اگر وہ نقدا نقد ہو تو کوئی حرج نہیں اور اگر ادھار ہو تو یہ صحیح نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4576

【128】

چاندی کو سونے کے بدلہ ادھار فروخت کرنا

ابومنہال کہتے ہیں کہ میں نے بیع صرف کے بارے میں براء بن عازب (رض) سے پوچھا، تو انہوں نے کہا : زید بن ارقم (رض) سے معلوم کرلو، وہ مجھ سے بہتر ہیں اور زیادہ جاننے والے ہیں۔ چناچہ میں نے زید (رض) سے پوچھا تو انہوں نے کہا : براء (رض) سے معلوم کرو وہ مجھ سے بہتر ہیں اور زیادہ جاننے والے ہیں، تو ان دونوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے سونے کے بدلے چاندی ادھار بیچنے سے روکا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٧٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4577

【129】

چاندی کو سونے کے عوض اور سونے کو چاندی کے عوض فروخت کرنا

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کے بدلے چاندی اور سونے کے بدلے سونا بیچنے سے منع فرمایا، مگر برابر برابر، اور ہمیں حکم دیا کہ چاندی کے بدلے سونا جیسے چاہیں خریدیں اور سونے کے بدلے چاندی جیسے چاہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٧ (٢١٧٥) ، ٨١ (٢١٨٢) ، صحیح مسلم/البیوع ٣٧ (المساقاة ١٦) (١٥٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٨١) ، مسند احمد (٣/٣٨، ٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کمی و زیادتی کے ساتھ بشرطیکہ نقدا ہو ادھار نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4578

【130】

چاندی کو سونے کے عوض اور سونے کو چاندی کے عوض فروخت کرنا

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ ہم چاندی کے بدلے چاندی بیچیں مگر نقدا نقد اور برابر برابر، اور سونے کے بدلے سونا بیچیں مگر نقدا نقد اور برابر برابر، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چاندی کے بدلے سونا اور سونے کے بدلے چاندی جیسے چاہو بیچو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کمی و زیادتی کے ساتھ بشرطیکہ نقداً ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4579

【131】

چاندی کو سونے کے عوض اور سونے کو چاندی کے عوض فروخت کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے اسامہ بن زید (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سود تو صرف ادھار میں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٩ (٢١٧٨، ٢١٧٩) ، صحیح مسلم/البیوع ٣٩ (المساقاة ١٨) (١٥٩٦) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٩ (٢٢٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٤) ، مسند احمد (٥/٢٠٠، ٢٠٢، ٢٠٤، ٢٠٦، ٢٠٩) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٢ (٢٦٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : سونا سونے کے بدلے اور چاندی چاندی کے بدلے، یا اسی طرح ہم جنس غلہ جات کی نقداً خریدو فروخت میں اگر کمی بیشی ہو تو سود نہیں ہے، سود تو اسی وقت ہے جب معاملہ ادھار کا ہو، امام نووی نیز دیگر علماء کہتے ہیں کہ اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس حدیث کے ظاہر پر عمل نہیں ہے، کچھ لوگ اسے منسوخ کہتے ہیں اور کچھ تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اجناس مختلفہ میں سود صرف ادھار کی صورت میں ہے، پچھلی حدیثوں میں صراحت ہے کہ تفاضل میں سود ہے، اس لیے حدیث کو منسوخ ماننا ضروری ہے، یا اسامہ (رض) نے آپ ﷺ سے باہم مختلف اجناس کی خریدو فروخت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں اگر نقداً ہو، سود تو ادھار میں ہے۔ اس حدیث کو منسوخ ماننا، یا یہ تاویل اس لیے بھی ضروری ہے کہ ابن عباس (رض) وغیرھم کو تفاضل والی حدیث پہنچ گئی تو انہوں نے اس حدیث کے مطابق فتوی دینے سے رجوع کرلیا (کما حققہ العلماء) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4580

【132】

چاندی کو سونے کے عوض اور سونے کو چاندی کے عوض فروخت کرنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے کہا : آپ جو یہ باتیں کہتے ہیں، کیا آپ نے انہیں کتاب اللہ (قرآن) میں پایا ہے یا رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : نہ تو میں نے انہیں کتاب اللہ (قرآن) میں پایا ہے اور نہ ہی انہیں رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، لیکن اسامہ بن زید (رض) نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سود تو صرف ادھار میں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (لیکن یہ حکم منسوخ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4581

【133】

چاندی کو سونے کے عوض اور سونے کو چاندی کے عوض فروخت کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں بقیع میں اونٹ بیچتا، چناچہ میں دینار سے بیچتا تھا اور درہم لیتا تھا، پھر میں ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں آپ سے کچھ معلوم کرنا چاہتا ہوں، میں بقیع میں اونٹ بیچتا ہوں تو دینار سے بیچتا اور درہم لیتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : کوئی حرج نہیں، اگر تم اسی دن کے بھاؤ سے لے لو جب تک کہ جدا نہ ہو اور تمہارے درمیان ایک دوسرے کا کچھ باقی نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ١٤ (٣٣٥٤، ٣٣٥٥) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٤ (١٢٤٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥١(٢٢٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٥٣، ١٨٦٨٥) ، مسند احمد (٢/٣٣، ٥٩، ٨٣، ٨٩، ١٠١، ١٣٩، سنن الدارمی/البیوع ٤٣ (٢٦٢٣) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤٥٨٧-٤٥٨٩، ٤٥٩١-٤٥٩٣) (ضعیف) (اس روایت کا مرفوع ہونا ضعیف ہے، صحیح یہ ہے کہ یہ ابن عمر رضی الله عنہما کا اپنا واقعہ ہے، ضعیف ہونے کی وجہ سماک ہیں جو حافظہ کے کمزور ہیں، انہیں اختلاط بھی ہوتا تھا، بس موقوف کو مرفوع بنادیا جب کہ ان کے دوسرے ساتھیوں نے موقوفاً ہی روایت کی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4582

【134】

سونے کے عوض چاندی اور چاندی کے عوض سونا لینے سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں چاندی کے بدلے سونا یا سونے کے بدلے چاندی بیچتا تھا۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، میں نے آپ کو اس کی خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم اپنے ساتھی سے بیچو تو اس سے الگ نہ ہو جب تک تمہارے اور اس کے درمیان کوئی چیز باقی رہے (یعنی حساب بےباق کر کے الگ ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4583

【135】

سونے کے عوض چاندی اور چاندی کے عوض سونا لینے سے متعلق

سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ وہ اس چیز کو ناپسند کرتے تھے کہ وہ درہم ٹھیرا کر دینار اور دینار ٹھیرا کر درہم لیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٨٦ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: سعید بن جبیر سے اسی سند سے نمبر ٤٥٩٢ پر جو روایت ہے وہی زیادہ صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4584

【136】

سونے کے عوض چاندی اور چاندی کے عوض سونا لینے سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے یعنی دینار طے کر کے کر درہم لینے اور درہم طے کر کے کر دینار لینے میں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4585

【137】

سونے کے عوض چاندی اور چاندی کے عوض سونا لینے سے متعلق

ابراہیم نخعی سے روایت ہے کہ درہم طے کر کے کر دینار لینے کو وہ ناپسند کرتے تھے جب وہ قرض کے طور پر ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٤١٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4586

【138】

سونے کے عوض چاندی اور چاندی کے عوض سونا لینے سے متعلق

سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے خواہ قرض کے طور پر ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4587

【139】

سونے کے عوض چاندی اور چاندی کے عوض سونا لینے سے متعلق

اس سند سے بھی سعید بن جبیر سے اسی طرح مروی ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : میں نے اس مقام میں اسے اسی طرح پایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٨٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سعید کی پہلی روایت سے متضاد، اس سے گویا وہ ضعف کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4588

【140】

سونے کے عوض چاندی لینا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : ٹھہریے ! میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ؟ میں بقیع میں دینار کے بدلے اونٹ بیچتا ہوں اور درہم لیتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر اسی دن کے بھاؤ سے لو تو کوئی حرج نہیں جب تک کہ تم ایک دوسرے سے الگ نہ ہو اور تمہارے درمیان ایک دوسرے پر کچھ باقی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٨٦ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4589

【141】

تو لنے میں زیادہ دینے سے متعلق

جابر (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ مدینہ آئے تو آپ نے ترازو منگا کر اس سے مجھے تول کردیا اور مجھے اس سے کچھ زیادہ دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٥٩ (٤٤٣) ، الوکالة ٨ (٢٣٠٩) ، الاستقراض ٧ (٢٣٩٤) ، الہبة ٣٢ (٣٦٠٣، ٣٦٠٤) ، صحیح مسلم/المسافرین ١١ (٧١٥) ، سنن ابی داود/البیوع ١١(٣٣٤١) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٧٨) ، مسند احمد (٣/٢٩٩، ٣٠٢، ٣٦٣) سنن الدارمی/البیوع ٤٦ (٢٦٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر بغیر شرط کے خریداری ( یا قرض دار ) اپنی طرف سے قیمت میں زیادہ کر دے تو اس کو علماء نے مستحب قرار دیا ہے، اور اس کو خفیہ صدقہ سے تعبیر کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4590

【142】

تو لنے میں زیادہ دینے سے متعلق

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا قرض دیا اور مجھے مزید دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4591

【143】

تولتے وقت جھکتا دینا

سوید بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ میں اور مخرفہ عبدی (رض) مقام ہجر سے کپڑا لائے، ہم منیٰ میں تھے کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ آگئے، وہاں ایک تولنے والا تھا جو اجرت پر تول رہا تھا، تو آپ نے ہم سے پاجامہ خریدا اور تولنے والے سے فرمایا : جھکتا ہوا تولو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧ (٣٣٣٦) ، سنن الترمذی/البیوع ٦٦(١٣٠٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٤(٢٢٢٠) ، اللباس ١٢ (٣٥٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٨١٠) ، مسند احمد (٤/٣٥٢) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٧ (٢٦٢٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4592

【144】

تولتے وقت جھکتا دینا

ابوصفوان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت سے قبل پاجامے بیچے تو آپ نے میرے لیے جھکتی ہوئی تول تولی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4593

【145】

تولتے وقت جھکتا دینا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مکیال (ناپنے کا آلہ) مدینے والوں کا معتبر ہے اور وزن اہل مکہ کا معتبر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥٢١/م (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4594

【146】

غلہ فروخت کرنے کے ممانعت جس وقت تک اس کو تول نہ لے یا نہ ناپ نہ کر لے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے غلہ خریدا تو وہ اسے اس وقت تک نہ بیچے جب تک اسے مکمل طور پر اپنی تحویل میں نہ لے لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥١ (٢١٢٦) ، ٥٤(٢١٣٥) ، ٥٥ (٢١٣٦) ، صحیح مسلم/البیوع ٨ (١٥٢٦) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٧ (٣٤٩٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٧ (٢٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٧) ، موطا امام مالک/البیوع ١٩ (٤٠) ، مسند احمد (١/٥٦، ٦٢) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٥ (٢٦٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خریدو فروخت میں شریعت اسلامیہ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ خریدی ہوئی چیز کو خریدار جب تک بیچنے والے سے مکمل طور پر اپنی تحویل میں نہ لے لے دوسرے سے نہ بیچے، اور یہ تحویل و تملک اور قبضہ ہر چیز پر اسی چیز کے حساب سے ہوگا، نیز اس سلسلے میں ہر علاقہ کے عرف ( رسم رواج ) کا اعتبار بھی ہوگا کہ وہاں کس چیز پر کیسے قبضہ مانا جاتا ہے، البتہ منقولہ چیزوں کے سلسلے میں شریعت نے ایک عام اصول برائے مکمل قبضہ یہ بتایا ہے کہ اس چیز کو بیچنے والے کی جگہ سے خریدار اپنی جگہ میں منتقل کرلے، یا ناپنے والی چیز کو ناپ لے اور تولنے والی چیز کو تول لے، اور اندازہ والی چیز کی جگہ بدل لے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4595

【147】

غلہ فروخت کرنے کے ممانعت جس وقت تک اس کو تول نہ لے یا نہ ناپ نہ کر لے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے غلہ خریدا تو اسے اس وقت تک نہ بیچے جب تک اس کو اپنی تحویل میں نہ لے لے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٢٥١) ، موطا امام مالک/البیوع ١٩ (٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4596

【148】

غلہ فروخت کرنے کے ممانعت جس وقت تک اس کو تول نہ لے یا نہ ناپ نہ کر لے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اناج خریدے تو اسے اس وقت تک نہ بیچے جب تک اسے ناپ نہ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٤ (٢١٣٢) ، ٥٥ (٢١٣٥) ، صحیح مسلم/البیوع ٨ (١٥٢٥) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٧ (٣٤٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٧) ، مسند احمد (١/٢٥٢، ٢٥٦، ٣٦٨، ٣٦٩) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤٦٠٣، ٤٦٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4597

【149】

غلہ فروخت کرنے کے ممانعت جس وقت تک اس کو تول نہ لے یا نہ ناپ نہ کر لے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح سے سنا، (اس سے پہلی والی روایت میں حتى يقبضه کے الفاظ ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٥ (٢١٣٥) ، صحیح مسلم/البیوع ٨ (١٥٢٥) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٧ (٣٤٩٧) ، سنن الترمذی/البیوع ٥٦ (١٢٩١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٧ (٢٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٦) ، مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢١، ٢٧٠، ٢٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4598

【150】

غلہ فروخت کرنے کے ممانعت جس وقت تک اس کو تول نہ لے یا نہ ناپ نہ کر لے

طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو کہتے ہوئے سنا : ناپ تول کرلینے سے جس چیز کے پہلے بیچنے سے رسول اللہ ﷺ نے روکا وہ غلہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٦٠١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: غلہ تو ہے ہی، غلہ کی طرح منتقل کی جانے والی، ناپنے اور تولے جانے والی دیگر چیزوں کے بارے میں بھی یہی حکم ہوگا، جیسا کہ خود ابن عباس (رض) کا خیال ہے، دیکھئیے اگلی روایت۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4599

【151】

غلہ فروخت کرنے کے ممانعت جس وقت تک اس کو تول نہ لے یا نہ ناپ نہ کر لے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی گیہوں خریدے تو اسے نہ بیچے جب تک اس کو اپنی تحویل میں نہ لے لے ۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ ہر چیز گیہوں ہی کی طرح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٦٠١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4600

【152】

غلہ فروخت کرنے کے ممانعت جس وقت تک اس کو تول نہ لے یا نہ ناپ نہ کر لے

حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اناج (غلہ) مت بیچو جب تک اسے خرید نہ لو اور ناپ نہ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٤٣٠) ، مسند احمد (٣/٤٠٢، ٤٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4601

【153】

غلہ فروخت کرنے کے ممانعت جس وقت تک اس کو تول نہ لے یا نہ ناپ نہ کر لے

اس سند سے بھی حکیم بن حزام (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٤٢٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4602

【154】

غلہ فروخت کرنے کے ممانعت جس وقت تک اس کو تول نہ لے یا نہ ناپ نہ کر لے

حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ میں نے صدقے کے اناج میں سے خریدا تو اسے اپنی تحویل میں لینے سے پہلے ہی مجھے اس میں نفع ملا، میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا : جب تک تحویل میں نہ لے لو اسے مت بیچو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٤٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4603

【155】

جو شخص غلہ ناپ کر خریدے اس کا فروخت کرنا درست نہیں ہے جس وقت تک اس پر قبضہ نہ کر لے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا کہ کوئی ناپ کر خریدا ہوا اناج بیچے جب تک کہ اسے پورا پورا اپنی تحویل میں نہ لے لے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٦٧ (٣٤٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٧٥) ، مسند احمد (٢/١١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4604

【156】

جو شخص غلہ کا انبار بغیر ناپے ہوئے خرید لے اس کا اس جگہ سے اٹھانے سے قبل فروخت کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اناج خریدتے تھے، پھر آپ ایک شخص کو ہمارے پاس بھیجتے جو ہمیں حکم دیتا کہ اسے اس جگہ سے کسی دوسری جگہ منتقل کرلے جہاں سے ہم نے خریدا ہے قبل اس کے کہ ہم اسے فروخت کریں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٨ (١٥٢٧) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٧ (٣٤٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٧١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٤ (٢١٣١) ، ٥٦ (٢١٣٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣١ (٢٢٢٢) ، موطا امام مالک/البیوع ١٩ (٤٢) ، مسند احمد (١/٥٦، ١١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4605

【157】

جو شخص غلہ کا انبار بغیر ناپے ہوئے خرید لے اس کا اس جگہ سے اٹھانے سے قبل فروخت کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں بازار کی اونچی جگہ پر ڈھیر خریدا کرتے تھے تو آپ نے انہیں اسے اسی جگہ بیچنے سے روکا جب تک کہ وہ اسے منتقل نہ کرلیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٢ (٢١٦٧) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٧ (٣٤٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٨١٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4606

【158】

جو شخص غلہ کا انبار بغیر ناپے ہوئے خرید لے اس کا اس جگہ سے اٹھانے سے قبل فروخت کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں لوگ سواروں سے اناج (غلہ) خریدتے تھے تو آپ نے انہیں اسی جگہ بیچنے سے روکا جہاں انہوں نے اسے خریدا تھا، یہاں تک کہ وہ اسے غلہ منڈی منتقل کرلیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٤٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4607

【159】

جو شخص غلہ کا انبار بغیر ناپے ہوئے خرید لے اس کا اس جگہ سے اٹھانے سے قبل فروخت کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگوں کی پٹائی اس بات پر ہوتی تھی کہ جب وہ اناج اندازہ لگا کر خریدیں تو اسے گھر تک لانے سے پہلے ہی فروخت کردیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٤٢ (٦٨٥٢) ، صحیح مسلم/البیوع ٨ (١٥٢٧) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٧ (٣٤٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٣٣) ، مسند احمد (٢/٧، ١٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4608

【160】

ایک مدت کے لئے کوئی چیز گروی رکھ کر غلہ ادھار خریدنا۔

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے کچھ مدت تک کے لیے ادھار اناج خریدا اور اس کے پاس اپنی زرہ رہن رکھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٤ (٢٠٦٨) ، ٣٣ (٢٠٩٦) ، ٨٨ (٢٢٠٠) ، السلم ٥ (٢٢٥١) ، ٦ (٢٢٥٢) ، الاستقراض ١ (٢٣٨٦) ، الرہن ٢ (٢٥٠٩) ، ٥ (٢٥١٣) ، الجہاد ٨٩ (٢٩١٦) ، المغازي ٨٦ (٤٤٦٧) ، صحیح مسلم/البیوع ٤٥ (المساقاة ٢٤) (١٦٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ١ (الأحکام ٦٢) (٢٤٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٤٨) ، مسند احمد (٦/٤٢، ١٦٠، ٢٣٠، ٢٣٧) ، ویأتي عند المؤلف ٤٦٥٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4609

【161】

گھر میں رہ کر کوئی چیز گروی رکھنا۔

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جو کی ایک روٹی اور بودار چربی لے گئے، اور آپ نے اپنی زرہ مدینے کے ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دی تھی اور اپنے گھر والوں کے لیے اس سے جَو لیے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٤ (٢٠٦٩) ، الرہون ١ (٢٥٠٨) ، سنن الترمذی/البیوع ٧ (١٢١٥) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ١ (الأحکام ٦٢) (٢٤٣٧) ، (تحفہ الأشراف : ١٣٥٥) ، مسند احمد (٣/١٣٣، ٢٠٨، ٢٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4610

【162】

اس چیز کا فروخت کرنا جو کہ فروخت کرنے والے شخص کے پاس موجود نہ ہو

عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ادھار اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں ١ ؎، اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں درست ہیں ٢ ؎، اور نہ اس چیز کی بیع درست ہے جو سرے سے تمہارے پاس ہو ہی نہ ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧ (٣٥٠٤) ، سنن الترمذی/البیوع ١٩ (١٢٣٤) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٠ (٢١٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٦٤) ، مسند احمد (٢/١٧٨) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤٦٣٤، ٤٦٣٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کی صورت یہ ہے کہ بیچنے والا خریدار کے ہاتھ آٹھ سو کا سامان ایک ہزار روپے کے بدلے اس شرط پر بیچے کہ بیچنے والا خریدار کو ایک ہزار روپے بطور قرض دے گا ( دیکھئیے باب رقم ٧٠ ) گویا بیع کی اگر یہ شکل نہ ہوتی تو بیچنے والا خریدار کو قرض نہ دیتا اور اگر قرض کا وجود نہ ہوتا تو خریدار یہ سامان نہ خریدتا۔ ٢ ؎: مثلاً کوئی کہے کہ یہ غلام میں نے تجھ سے ایک ہزار نقد اور دو ہزار ادھار میں بیچا ( دیکھئیے باب رقم ٧٢ ) یہ ایسی بیع ہے جو دو شرطں ہیں یا مثلاً کوئی یوں کہے کہ میں نے تم سے اپنا یہ کپڑا اتنے اتنے میں اس شرط پر بیچا کہ اس کا دھلوانا اور سلوانا میرے ذمہ ہے۔ ٣ ؎: بیچنے والے کے پاس جو چیز موجود نہیں ہے اسے بیچنے سے اس لیے روک دیا گیا ہے کہ اس میں دھوکہ دھڑی کا خطرہ ہے جیسے کوئی شخص اپنے بھاگے ہوئے غلام یا اونٹ بیچے جب کہ ان دونوں کے واپسی کی ضمانت بیچنے والا نہیں دے سکتا البتہ ایسی چیز کی بیع جو اپنی صفت کے اعتبار سے خریدار کے لیے بالکل واضح ہو جائز ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے بیع سلم کی اجازت دی ہے باوجود یہ کہ بیچی جانے والی چیز بیچنے والے کے پاس بروقت موجود نہیں ہوتی۔ ( کیونکہ چیز کے سامنے آنے کے بعد اختلاف اور جھگڑا پیدا ہوسکتا ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4611

【163】

اس چیز کا فروخت کرنا جو کہ فروخت کرنے والے شخص کے پاس موجود نہ ہو

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس چیز کا بیچنا آدمی کے لیے جائز نہیں جس کا وہ مالک نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٧ (٢١٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٠٤) ، مسند احمد (٢/١٨٩، ١٩٠) (حسن، صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4612

【164】

اس چیز کا فروخت کرنا جو کہ فروخت کرنے والے شخص کے پاس موجود نہ ہو

حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا : اللہ کے رسول ! میرے پاس آدمی آتا ہے اور وہ مجھ سے ایسی چیز خریدنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی۔ کیا میں اس سے اس چیز کو بیچ دوں اور پھر وہ چیز اسے بازار سے خرید کر دے دوں ؟ آپ نے فرمایا : جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اسے مت بیچو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٠ (٣٥٠٣) ، سنن الترمذی/البیوع ١٩ (١٢٣٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٠ (٢١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٣٦) ، مسند احمد (٣/٤٠٢، ٤٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4613

【165】

غلہ میں بیع سلم کرنے سے متعلق

عبداللہ بن ابی مجالد کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی سے بیع سلم کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر (رض) کے زمانے میں گی ہوں، جَو اور کھجور میں ایسے لوگوں سے بیع سلم کرتے تھے کہ مجھے نہیں معلوم، آیا ان کے یہاں یہ چیزیں ہوتی بھی تھیں یا نہیں۔ اور ابن ابزیٰ نے (سوال کرنے پر) اسی طرح کہا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/السلم ٢ (٢٢٤٢) ، ٣ (٢٢٤٤، ٢٢٤٥) ، ٧ (٢٢٥٤، ٢٢٥٥) ، سنن ابی داود/البیوع ٥٧ (٣٤٦٤، ٣٤٦٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٩ (٢٢٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٥١٧١) ، مسند احمد (٤/٣٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سلف یا سلم یہ ہے کہ خریدار بیچنے والے کو سامان کی قیمت پیشگی دے دے اور سامان کی ادائیگی کے لیے ایک میعاد مقرر کرلے، ساتھ ہی سامان کا وزن وصف اور نوعیت وغیرہ متعین ہو۔ ( اگلی حدیث دیکھیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4614

【166】

خشک انگور میں سلم کرنا

ابن ابی مجالد بیان کرتے ہیں کہ ابوبردہ اور عبداللہ بن شداد میں سلم کے سلسلے میں بحث ہوگئی تو انہوں نے مجھے ابن ابی اوفی (رض) کے پاس بھیجا، میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا : ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اور ابوبکر و عمر (رض) کے زمانے میں گیہوں، جَو، کشمش اور کھجور میں بیع سلم کیا کرتے تھے، ایسے لوگوں سے جن کے پاس ہم یہ چیزیں نہیں پاتے اور (ابن ابی المجالد کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابزیٰ سے پوچھا تو انہوں نے اسی طرح کہا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4615

【167】

پھلوں میں بیع سلف سے متعلق

ابوالمنہال کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ آئے تو لوگ کھجور میں دو تین سال کے لیے بیع سلم کرتے تھے، آپ نے انہیں روک دیا، اور فرمایا : جو بیع سلم کرے تو مقررہ ناپ، مقررہ وزن میں مقررہ مدت تک کے لیے کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/السلم ١ (٢٢٣٩) ، ٢ (٢٢٢١) ، ٧ (٢٢٥٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢٥ (البیوع ٤٦) (١٦٠٤) ، سنن ابی داود/البیوع ٥٧ (٣٤٦٣) ، سنن الترمذی/البیوع ٧٠ (١٣١١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٩ (٢٢٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٢٠) ، مسند احمد (١/٢١٧، ٢٢٢، ٢٨٢، ٣٥٨) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٥ (٢٦٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ناپ وزن اور اس میں یہ تعیین و تحدید اس لیے ہے تاکہ جھگڑے اور اختلاف پیدا ہونے والی بات نہ رہ جائے، اگر مدت نہ معلوم ہو اور وزن اور ناپ نہ متعین ہو تو بیع سلف صحیح نہ ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4616

【168】

جانور میں سلف سے متعلق

ابورافع (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے اونٹ کے بچے میں بیع سلم کی، وہ شخص اپنے نوجوان اونٹ کا تقاضا کرتا ہوا آیا تو آپ نے ایک شخص سے کہا : جاؤ، اس کے لیے نوجوان اونٹ خرید دو ، اس نے آپ کے پاس آ کر کہا : مجھے تو سوائے بہترین، رباعی (جو ساتویں برس میں لگ چکا ہو) نوجوان اونٹ کے کوئی نہیں ملا، آپ نے فرمایا : اسے وہی دے دو ، اس لیے کہ بہترین مسلمان وہ ہے جو قرض ادا کرنے میں بہتر ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٤٣ (المساقاة ٢٢) (١٦٠٠) ، سنن ابی داود/البیوع ١١ (٣٣٤٦) ، سنن الترمذی/البیوع ٧٥ (١٣١٨) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٢ (٢٢٨٥) ، موطا امام مالک/البیوع ٤٣ (٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢٥) ، مسند احمد (٦/٣٩٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٣١ (٢٦٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4617

【169】

جانور میں سلف سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے ذمہ ایک شخص کا ایک جوان اونٹ باقی تھا، وہ آپ کے پاس تقاضا کرتا ہوا آیا تو آپ نے (صحابہ سے) فرمایا : اسے دے دو ، انہیں اس سے زیادہ عمر کے ہی اونٹ ملے تو آپ نے فرمایا : اسی کو دے دو ، اس نے کہا : آپ نے پورا پورا ادا کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ٥ (٢٣٠٥) ، ٦ (٢٣٠٦) ، الاستقراض ٤ (٢٣٩٠) ، ٦(٢٣٩٢) ، ٧ (٢٣٩٣) ، ١٣ (٢٤٠١) الہبة ٢٣ (٢٦٠٦) ، ٢٥(٢٦٠٩) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢٢ (١٦٠١) ، (البیوع ٤٣) سنن الترمذی/البیوع ٧٥ (١٣١٦، ١٣١٧) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ١٦(الأحکام ٥٦) (٢٣٢٢) ، (مقتصرا علی قولہ : ” إن خیارکم ۔۔ “ ) حم ٢/٣٧٣، ٣٩٣، ٤١٦، ٤٣١، ٤٥٦، ٤٧٦، ٥٠٩ ویأتی عند المؤلف برقم ٤٦٩٧ مثل ابن ماجہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4618

【170】

جانور میں سلف سے متعلق

عرباض بن ساریہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک جوان اونٹ بیچا تو میں آپ کے پاس اس کا تقاضا کرنے آیا، آپ نے فرمایا : میں تو تمہیں بختی (عمدہ قسم کا اونٹ) دوں گا ، پھر آپ نے مجھے ادا کیا تو بہت اچھا ادا کیا، اور آپ کے پاس ایک اعرابی (دیہاتی) اپنا جوان اونٹ مانگتے ہوئے آیا تو آپ نے فرمایا : اسے جوان اونٹ دے دو ، تو اس دن ان لوگوں نے اسے ایک بڑا (مکمل) اونٹ دیا، اس نے کہا : یہ تو میرے اونٹ سے بہتر ہے، آپ نے فرمایا : تم میں بہتر وہ ہے جو بہتر طرح سے قرض ادا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٢ (٢٢٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٨٧) ، مسند احمد (٤/١٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4619

【171】

جانور کو جانور کے عوض ادھار فروخت کرنا

سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذی روح کے بدلے ذی روح کو ادھار بیچنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ١٥ (٣٣٥٦) ، سنن الترمذی/البیوع ٢١ (١٢٣٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٦ (٢٢٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٣) ، مسند احمد ٥/١٢، ٢١، ١٩، ٢٢، سنن الدارمی/البیوع ٣٠ (٢٦٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب ادھار کی صورت طرفین سے ہو اور اگر کسی ایک جانب سے ہو تو بیع جائز ہے ( دیکھئیے : صحیح بخاری کتاب البیوع باب ١٠٨ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4620

【172】

حیوان کو اسی حیوان کی جنس کے بدلے کم یا زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کے جواز کے بیان میں

جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا تو اس نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت پر بیعت کی، آپ کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ غلام ہے، اتنے میں اسے ڈھونڈتا ہوا اس کا مالک آپہنچا تو آپ نے فرمایا : اسے میرے ہاتھ بیچ دو ، چناچہ آپ نے اسے دو کالے غلاموں کے بدلے خرید لیا، پھر آپ نے اس کے بعد کسی سے بیعت نہیں لی جب تک کہ اس سے پوچھ نہ لیتے کہ وہ غلام ہے ؟۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4621

【173】

پیٹ کے بچہ کے بچہ کو فروخت کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حمل والے جانور کے حمل کی بیع سلم کرنا سود ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٤٤٠) مسند احمد (١/٢٤٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4622

【174】

پیٹ کے بچہ کے بچہ کو فروخت کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حاملہ کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٤ (٢١٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٦٢) ، مسند احمد (٢/١٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4623

【175】

پیٹ کے بچہ کے بچہ کو فروخت کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حاملہ کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٣ (١٥١٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ بیع زمانہ جاہلیت میں رائج تھی، آدمی اس شرط پر اونٹ خریدتا تھا کہ جب اونٹنی بچہ جنے گی پھر بچے کا بچہ ہوگا تب وہ اس اونٹ کے پیسے دے گا تو ایسی خریدو فروخت سے روک دیا گیا ہے، کیونکہ اس میں دھوکہ ہے، یہ بیع غرر ( دھوکہ والی بیع ) کی قبیل سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4624

【176】

مذکو رہ مضمون کی تفسیر سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حاملہ کے حمل کی بیع سے منع فرمایا اور یہ ایسی بیع تھی جو جاہلیت کے لوگ کیا کرتے تھے، ایک شخص اونٹ خریدتا اور پیسے دینے کا وعدہ اس وقت تک کے لیے کرتا جب وہ اونٹنی جنے اور پھر اس کا بچہ جنے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦١ (٢١٤٣) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٥ (٣٣٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٧٠) ، موطا امام مالک/البیوع ٢٦ (٦٢) ، مسند احمد (١/٥٦، ٦٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4625

【177】

چند سالوں کے واسطے پھل فروخت کرنا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کئی سال کی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٧٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: باغ کے پھل کئی سال کے لیے بیچنا، یہ بھی بیع غرر ( دھوکہ والی خریدو فروخت ) کی قبیل سے ہے، اس میں خریدار کے لیے دھوکہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4626

【178】

چند سالوں کے واسطے پھل فروخت کرنا

جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کئی سال کی بیع کرنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٣٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4627

【179】

ایک مدت مقرر کرکے ادھار فروخت کرنے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو قطری چادریں تھیں، جب آپ بیٹھتے اور ان میں پسینہ آتا تو وہ بھاری ہوجاتیں، ایک یہودی کا شام سے کپڑا آیا تو میں نے عرض کیا : اگر آپ اس کے پاس کسی کو بھیج کر تاوقت سہولت (قیمت ادا کرنے کے وعدہ پر) دو کپڑے خرید لیتے تو بہتر ہوتا، چناچہ آپ نے اس کے پاس ایک شخص کو بھیجا، اس (یہودی) نے کہا : مجھے معلوم ہے محمد کیا چاہتے ہیں، وہ تو میرا مال ہضم کرنا چاہتے ہیں، یا یہ دونوں چادروں کو ہضم کرنا چاہتے ہیں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس نے جھوٹ کہا، اسے معلوم ہے کہ میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور سب سے زیادہ امانت کا ادا کرنے والا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٧ (١٢١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٠٠) ، مسند احمد (٦/١٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آپ ﷺ نے اس طرح کی بیع پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ اس یہودی کے پاس اس کے لیے آدمی بھیجا، اسی سے باب پر استدلال ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4628

【180】

سلف اور بیع ایک ساتھ کرنا جیسے کہ کوئی کسی کے ہاتھ ایک شے فروخت کرے اس شرط پر اس کے ہاتھ کسی مال میں سلم کرے اس سے متعلق حدیث

عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سلف اور بیع ایک ساتھ کرنے، ایک بیع میں دو شرطیں لگانے، اور اس چیز کے نفع لینے سے منع فرمایا جس کے تاوان کا وہ ذمے دار (ضامن) نہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٦٩٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس چیز کو بیچنا جو ابھی پہلے بیچنے والے سے خریدار کے قبضے میں آئی بھی نہ ہو، اور نہ ہی اس کے اوصاف ( وزن، ناپ اور نوعیت ) معلوم ہو۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4629

【181】

ایک بیع میں دو شرائط طے کرنا مثلا اگر رقم ایک ماہ میں ادا کرو تو اتنے اور دو ماہ میں اتنے (زائد)

عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سلف (قرض) اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں، اور نہ ایک بیع میں دو شرطیں، اور نہ ہی ایسی چیز کا نفع جس کے تاوان کی ذمے داری نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٦١٥ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور دونوں میں سے کسی ایک پر بات طے نہ ہو، اور اگر کسی ایک پر بات طے ہوجائے تو پھر بیع حلال اور جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4630

【182】

ایک بیع میں دو شرائط طے کرنا مثلا اگر رقم ایک ماہ میں ادا کرو تو اتنے اور دو ماہ میں اتنے (زائد)

عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سلف (قرض) اور بیع ایک ساتھ کرنے سے، ایک ہی بیع میں دو شرطیں لگانے سے، اور اس چیز کے بیچنے سے جو تمہارے پاس موجود نہ ہو اور ایسی چیز کے نفع سے جس کے تاوان کی ذمہ داری نہ ہو، (ان سب سے) منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٦١٥ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4631

【183】

ایک بیع کے اندر دو بیع کرنا جیسے کہ اس طریقہ سے کہے کہ اگر تم نقد فروخت کرو تو سو روپیہ میں اور ادھار لو تو دو سو روپے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥١١٢) ، مسند احمد (٢/٤٣٢، ٤٧٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور دونوں میں کسی بات پر اتفاق نہ ہوسکا ہو، اگر کسی ایک پر اتفاق ہوگیا تو پھر یہ بیع حلال اور جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4632

【184】

فروخت کرتے وقت غیر معین چیز کو مستثنی کرنے کی ممانعت

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بیع محاقلہ، مزابنہ، مخابرہ سے اور بیع میں استثناء کرنے سے سوائے اس کے کہ مقدار معلوم ہو منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩١١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی درخت کے پھل بیچتے وقت کچھ غیر معلوم پھل الگ کرنے سے منع فرمایا، اگر الگ کئے ہوئے پھلوں کی مقدار طے ہو تو یہ معاملہ جائز ہے، لیکن یہ مقدار اتنی بھی نہ ہو کہ بیچے ہوئے پھل کی مقدار انتہائی کم رہ جائے، جس سے خریدار کو گھاٹا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4633

【185】

فروخت کرتے وقت غیر معین چیز کو مستثنی کرنے کی ممانعت

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع محاقلہ، مزابنہ، مخابرہ، معاومہ (کئی سالوں کی بیع) اور بیع میں الگ کرنے سے منع فرمایا اور بیع عرایا (عاریت والی بیع) میں رخصت دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٦ (١٥٣٦) ، سنن ابی داود/البیوع ٣٤ (٣٤٠٤) ، سنن الترمذی/البیوع ٥٥ (١٣١٣) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٤ (٢٢٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٦٦) ، مسند احمد (٣/٣١٣، ٣٥٦، ٣٦٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4634

【186】

کھجور کا درخت فروخت کرے تو پھل کس کے ہیں؟

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو بھی کوئی کھجور کے درخت کی پیوند کاری کرے پھر اس درخت کو بیچے تو درخت کا پھل پیوند کاری کرنے والے کا ہوگا، سوائے اس کے کہ خریدنے والا پھل کی شرط لگالے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٩٠ (٢٢٠٣) ، ٩٢ (٢٢٠٦) ، المساقاة ١٧ (٢٣٧٩) ، الشروط ٢ (٢٧١٦) ، صحیح مسلم/البیوع ١٥ (١٥٤٣) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣١ (٢٢١٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٧٤) ، موطا امام مالک/البیوع ٧ (٩) ، مسند احمد (٢/٦، ٩، ٤، ٥، ٦٣، ٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ معاملہ ہر قسم کی کھیتی کے بیچنے میں ہوگا، کیونکہ کھیتی میں بیچنے والا خرچ کیا ہوتا ہے، کھجور میں تو تابیر ( پیوند کاری ) سے پہلے بیچنے والے کا کچھ خرچ نہیں ہوتا ہے اس لیے تابیر ( پیوند کاری ) کی شرط لگائی گئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4635

【187】

غلام فروخت ہو اور خریدار اس کا مال لینے کی شرط مقرر کرے

عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کوئی تابیر (پیوند کاری) ہوجانے کے بعد (کھجور کا) درخت خریدے تو اس کا پھل بائع کا ہوگا سوائے اس کے کہ خریدار شرط لگا دے، اور جو غلام بیچے اور اس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بائع کا ہوگا سوائے اس کے کہ خریدار شرط لگا دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٥ (١٥٤٣) ، سنن ابی داود/البیوع ٤٤ (٣٤٣٣) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣١ (٢٢١١) ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4636

【188】

غلام فروخت ہو اور خریدار اس کا مال لینے کی شرط مقرر کرے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میرا اونٹ تھک کر چلنے سے عاجز آگیا، تو میں نے چاہا کہ اسے چھوڑ دوں، اتنے میں رسول اللہ ﷺ مجھ سے آ ملے، آپ نے اس کے لیے دعا کی اور اسے تھپتھپایا، اب وہ ایسا چلا کہ اس طرح کبھی نہ چلا تھا، آپ نے فرمایا : اسے ایک اوقیہ ( ٤٠ درہم) میں مجھ سے بیچ دو ، میں نے کہا : نہیں (بلکہ وہ آپ ہی کا ہے) ، آپ نے فرمایا : اسے مجھ سے بیچ دو تو میں نے ایک اوقیہ میں اسے آپ کے ہاتھ بیچ دیا اور مدینے تک اس پر سوار ہو کر جانے کی شرط لگائی ١ ؎، جب ہم مدینہ پہنچے تو میں اونٹ لے کر آپ کے پاس آیا اور اس کی قیمت چاہی، پھر میں لوٹا تو آپ نے مجھے بلا بھیجا، اور فرمایا : کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے کم قیمت لگائی تاکہ میں تمہارا اونٹ لے سکوں، لو اپنا اونٹ بھی لے لو اور اپنے درہم بھی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٣٤ (٢٠٩٧) ، الاستقراض ١ (٢٣٨٥) ، ١٨ (٢٤٠٦) ، المظالم ٢٦ (٢٤٧٠) ، الشروط ٤ (٢٧١٨) ، الجہاد ٤٩ (٢٨٦١) ، ١١٣ (٢٩٦٧) ، صحیح مسلم/البیوع ٤٢ (المساقاة ٢١) (٧١٥) ، الرضاع ١٦ (٧١٥) ، سنن ابی داود/البیوع ٧١ (٣٥٠٥) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٠ (١٢٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٤١) ، مسند احمد (٣/٢٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ جائز شرط تھی اس لیے نبی اکرم ﷺ نے اس پر معاملہ کرلیا، یہی باب سے مناسبت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4637

【189】

غلام فروخت ہو اور خریدار اس کا مال لینے کی شرط مقرر کرے

جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنے سینچائی کرنے والے اونٹ پر بیٹھ کر جہاد کیا، پھر انہوں نے لمبی حدیث بیان کی، پھر ایک چیز کا تذکرہ کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ تھک گیا تو اسے نبی اکرم ﷺ نے ڈانٹا تو وہ تیز ہوگیا یہاں تک کہ سارے لشکر سے آگے نکل گیا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جابر ! تمہارا اونٹ تو لگ رہا ہے کہ بہت تیز ہوگیا ہے ، میں نے عرض کیا : آپ کے ذریعہ سے ہونے والی برکت سے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : اسے، میرے ہاتھ بیچ دو ۔ البتہ تم (مدینہ) پہنچنے تک اس پر سوار ہوسکتے ہو ، چناچہ میں نے اسے بیچ دیا حالانکہ مجھے اس کی سخت ضرورت تھی۔ لیکن مجھے آپ سے شرم آئی۔ جب ہم غزوہ سے فارغ ہوئے اور (مدینے کے) قریب ہوئے تو میں نے آپ سے جلدی سے آگے جانے کی اجازت مانگی، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے ابھی جلد شادی کی ہے، آپ نے فرمایا : کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے ؟ میں نے عرض کیا : بیوہ سے، اللہ کے رسول ! والد صاحب عبداللہ بن عمرو (رض) مارے گئے اور انہوں نے کنواری لڑکیاں چھوڑی ہیں، تو مجھے برا معلوم ہوا کہ میں ان کے پاس ان جیسی (کنواری لڑکی) لے کر آؤں، لہٰذا میں نے بیوہ سے شادی کی ہے جو انہیں تعلیم و تربیت دے گی، تو آپ نے مجھے اجازت دے دی اور مجھ سے فرمایا : اپنی بیوی کے پاس شام کو جانا ، جب میں مدینے پہنچا تو میں نے اپنے ماموں کو اونٹ بیچنے کی اطلاع دی، تو انہوں نے مجھے ملامت کی، جب رسول اللہ ﷺ پہنچے تو میں صبح کو اونٹ لے کر آپ کے پاس گیا، تو آپ نے مجھے اونٹ کی قیمت ادا کی اور اونٹ بھی دے دیا اور (مال غنیمت میں سے) ایک حصہ سب لوگوں کے برابر دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4638

【190】

غلام فروخت ہو اور خریدار اس کا مال لینے کی شرط مقرر کرے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میں ایک اونٹ پر سوار تھا۔ آپ نے فرمایا : کیا وجہ ہے کہ تم سب سے پیچھے میں ہو ؟ میں نے عرض کیا : میرا اونٹ تھک گیا ہے، آپ نے اس کی دم کو پکڑا اور اسے ڈانٹا، اب حال یہ تھا کہ میں سب سے آگے تھا، (ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے اونٹ سے آگے بڑھ جائے اس لیے) مجھے اس کے سر سے ڈر ہو رہا تھا، تو جب ہم مدینے سے قریب ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اونٹ کا کیا ہوا ؟ اسے میرے ہاتھ بیچ دو ، میں نے عرض کیا : نہیں، بلکہ وہ آپ ہی کا ہے، اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : نہیں، اسے میرے ہاتھ بیچ دو ، میں نے عرض کیا : نہیں، بلکہ وہ آپ ہی کا ہے، آپ نے کہا : نہیں، بلکہ اسے میرے ہاتھ بیچ دو ، میں نے اسے ایک اوقیہ میں لے لیا، تم اس پر سوار ہو اور جب مدینہ پہنچ جاؤ تو اسے ہمارے پاس لے آنا ، جب میں مدینے پہنچا تو اسے لے کر آپ کے پاس آیا، آپ نے بلال (رض) سے فرمایا : بلال ! انہیں ایک اوقیہ (چاندی) دے دو اور ایک قیراط مزید دے دو ، میں نے عرض کیا : یہ تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے زیادہ دیا ہے، (یہ سوچ کر کہ) وہ مجھ سے کبھی جدا نہ ہو، تو میں نے اسے ایک تھیلی میں رکھا، پھر وہ قیراط میرے پاس برابر رہا یہاں تک کہ حرہ کے دن ١ ؎ اہل شام آئے اور ہم سے لوٹ لے گئے جو لے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشروط ٤ (٢٧١٨ تعلیقًا) ، صحیح مسلم/البیوع ٤٢ (٧١٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٤٣) ، مسند احمد (٣/٣١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ واقعہ ٦٣ ؁ھ میں پیش آیا تھا، اس میں یزید کے لشکر نے مدینے پر چڑھائی کی تھی۔ حرہ کالے پتھروں والی زمین کو کہتے ہیں جو مدینے کے مشرقی اور مغربی علاقہ کی زمین ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4639

【191】

غلام فروخت ہو اور خریدار اس کا مال لینے کی شرط مقرر کرے

جابر (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے پایا کہ میں اپنے سینچنے والے اونٹ پر سوار تھا، میں نے عرض کیا : افسوس ! ہمارے پاس ہمیشہ پانی سینچنے والا اونٹ ہی رہتا ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جابر ! کیا تم اسے میرے ہاتھ بیچو گے ؟ میں نے عرض کیا : یہ تو آپ ہی کا ہے، اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : اے اللہ ! اس کی مغفرت کر، اس پر رحم فرما، میں نے تو اسے اتنے اتنے دام پر لے لیا ہے، اور مدینے تک اس پر سوار ہو کر جانے کی تمہیں اجازت دی ہے ، جب میں مدینے آیا تو اسے تیار کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا : بلال ! انہیں اس کی قیمت دے دو ، جب میں لوٹنے لگا تو آپ نے مجھے بلایا، مجھے اندیشہ ہوا کہ آپ اسے لوٹائیں گے، آپ نے فرمایا : یہ تمہارا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفردہ بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٧٦٩) (ضعیف) (سند ضعیف ہے، اور متن منکر ہے، اس لیے کہ اس کے راوی ابو زبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس کے متن میں پچھلے متن سے تعارض بھی ہے جو واضح ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد منکر المتن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4640

【192】

غلام فروخت ہو اور خریدار اس کا مال لینے کی شرط مقرر کرے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جا رہے تھے، میں سینچائی کرنے والے ایک اونٹ پر سوار تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اسے میرے ہاتھ اتنے اتنے میں بیچو گے ؟ اللہ تمہیں معاف کرے ، میں نے عرض کیا : ہاں، اللہ کے نبی ! وہ آپ کا ہی ہے، آپ نے فرمایا : کیا تم اسے میرے ہاتھ اتنے اور اتنے میں بیچو گے ؟ اللہ تمہیں معاف کرے ، میں نے عرض کیا : ہاں، اللہ کے نبی ! وہ آپ ہی کا ہے، آپ نے فرمایا : کیا تم اسے میرے ہاتھ اتنے اور اتنے میں بیچو گے ؟ اللہ تمہیں معاف کرے ، میں نے عرض کیا : ہاں، وہ آپ ہی کا ہے۔ ابونضرہ کہتے ہیں : یہ مسلمانوں کا تکیہ کلام تھا کہ جب کسی سے کہتے : ایسا ایسا کرو تو کہتے : واللہ یغفر لک۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشروط ٤ (٢٧١٨ تعلیقًا) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٦ (٧١٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٩ (٢٢٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٣١٠١) ، مسند احمد (٣/٣٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4641

【193】

بیع میں اگر شرط خلاف ہو تو بیع صحیح ہوجائے اور شرط باطل ہوگی

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا تو ان کے گھر والوں نے ولاء (وراثت) کی شرط لگائی، میں نے اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا، تو آپ نے فرمایا : اسے آزاد کر دو ، کیونکہ ولاء (وراثت) اس کا حق ہے جس نے درہم (روپیہ) دیا ہے ، چناچہ میں نے انہیں آزاد کردیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلایا اور انہیں ان کے شوہر کے بارے میں اختیار دیا ١ ؎ تو بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی زوجیت میں نہ رہنے کو ترجیح دی، حالانکہ ان کے شوہر آزاد تھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤٧٩ (صحیح) (لیکن ” وکان زوجھا حراً “ کا لفظ شاذ ہے، محفوظ روایت یہی ہے کہ بریرہ کے شوہر غلام تھے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی چاہیں تو اس شوہر کی زوجیت میں رہیں جن سے غلامی میں نکاح ہوا تھا، اور چاہیں تو ان کی زوجیت میں نہ رہیں۔ ٢ ؎: صحیح واقعہ یہ ہے کہ وہ اس وقت غلام تھے، اسی لیے تو بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا گیا، اگر وہ آزاد ہوتے تو بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا ہی نہیں جاتا، (دیکھئیے حدیث رقم ٢٦١٥ و ٣٤٧٩ ) اس حدیث کی باب سے مناسبت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ولاء والی شرط کو باطل قرار دے کر باقی معاملہ ( بریرہ کی بیع کو ) صحیح قرار دیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله وکان زوجها حرا فإنه شاذ والمحفوظ أنه کان عبدا صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4642

【194】

بیع میں اگر شرط خلاف ہو تو بیع صحیح ہوجائے اور شرط باطل ہوگی

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے غلامی سے آزاد کرنے کے لیے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنا چاہا، لوگوں نے ان کے ولاء (وراثت) کی شرط لگائی، انہوں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انہیں خرید کر آزاد کر دو ، کیونکہ ولاء (وراثت) کا حق اسی کا ہے جو آزاد کرے ، اور رسول اللہ ﷺ کے پاس گوشت لایا گیا تو کہا گیا : یہ تو بریرہ پر کیا گیا صدقہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ ان کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے تحفہ (ہدیہ) ہے ، اور انہیں (بریرہ کو) اختیار دیا گیا (شوہر کے ساتھ رہنے اور نہ رہنے کا) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4643

【195】

بیع میں اگر شرط خلاف ہو تو بیع صحیح ہوجائے اور شرط باطل ہوگی

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے لونڈی خریدنا چاہی تاکہ اسے آزاد کریں، تو اس کے گھر والوں (مالکان) نے کہا : ہم اسے آپ سے اس شرط پر بیچیں گے کہ ولاء (حق وراثت) ہمارا ہوگا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا : تم اس وجہ سے مت رک جانا، کیونکہ ولاء (وراثت) تو اس کے لیے ہے جو آزاد کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٣ (٢١٦٩) ، المکاتب ٢(٢٥٦٢) ، الفرائض ١٩ (٦٧٥١) ، ٢٢(٦٧٥٧) ، صحیح مسلم/العتق ٢ (١٥٠٤) ، سنن ابی داود/الفرائض ١٢ (٢٩١٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٣٤) ، موطا امام مالک/العتق ١٠ (١٨) ، مسند احمد (٢/٢٨، ١١٣، ١٥٣، ١٥٦) ، وانظر أیضا حدیث رقم : ٢٦١٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4644

【196】

غنیمت کے مال کو فروخت کرنا تقسیم ہونے سے قبل

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تقسیم ہونے سے پہلے مال غنیمت بیچنے، حاملہ عورتوں ١ ؎ کے ساتھ بچہ کی پیدائش سے پہلے جماع کرنے اور ہر دانت والے درندے کے گوشت (کھانے) سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٤٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مال غنیمت میں ملی ہوئی لونڈیاں مراد ہیں، اگر وہ حاملہ ہوں تو ان کو پانے والے مجاہد ان کے بچہ جننے کے بعد ہی ان سے مباشرت کرسکتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4645

【197】

مشترک مال فروخت کرنا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شفعہ کا حق ہر چیز میں ہے، زمین ہو یا کوئی احاطہٰ (باغ وغیرہ) ، کسی حصہ دار کے لیے جائز نہیں کہ اپنے دوسرے حصہ دار کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ بیچے، اگر اس نے بیچ دیا تو وہ (دوسرا حصہ دار) اس کا زیادہ حقدار ہوگا یہاں تک کہ وہ خود اس کی اجازت دیدے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢٨ (البیوع ٤٩) (١٦٠٨) ، سنن ابی داود/البیوع ٧٥ (٣٥١٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٦) ، مسند احمد (٣/٣١٢، ٣١٦، ٣٥٧، ٣٩٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٨٣ (٢٦٧٠) ، ویأتي عندالمؤلف برقم : ٤٧٠٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شفعہ: زمین، باغ گھر وغیرہ میں ایسی ساجھے داری کو کہتے ہیں جس میں کسی فریق کا حصہ متعین نہ ہو کہ ہمارا حصہ یہاں سے یہاں تک ہے اور دوسرے کا حصہ یہاں سے یہاں تک ہے بس مطلق ملکیت میں سب کی ساجھے داری ہو، ایسا ساجھے دار اگر اپنا حصہ بیچنا چاہتا ہے تو دوسرے شریک کو پہلے بتائے، اگر وہ اسی قیمت پر لینے پر راضی ہوجائے تو اسی کا حق ہے، اگر جازت دیدے تب دوسرے سے بیچنا جائز ہوگا، اور اگر اس کی اجازت کے بغیر بیچ دیا تو وہ اس بیع کو قاضی منسوخ کرا سکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4646

【198】

کوئی چیز فروخت کرتے وقت گواہی ضروری نہیں

صحابی رسول عمارہ بن خزیمہ کے چچا (خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک اعرابی (دیہاتی) سے ایک گھوڑا خریدا، اور اس سے پیچھے پیچھے آنے کو کہا تاکہ وہ اپنے گھوڑے کی قیمت لے لے، نبی اکرم ﷺ آگے بڑھ گئے اور اعرابی سست رفتاری سے چلا، لوگ اعرابی سے پوچھنے لگے اور گھوڑا خریدنے کے لیے (بڑھ بڑھ کر قیمتیں لگانے لگے) انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ نبی اکرم ﷺ اسے خرید چکے ہیں، یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اس سے زیادہ قیمت لگا دی جتنے پر آپ نے اس سے خریدا تھا، اعرابی نے نبی اکرم ﷺ کو پکارا، اگر آپ اس گھوڑے کو خریدیں تو ٹھیک ورنہ میں اسے بیچ دوں، آپ نے جب اس کی پکار سنی تو ٹھہر گئے اور فرمایا : کیا میں نے اسے تم سے خریدا نہیں ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، اللہ کی قسم ! میں نے اسے آپ سے بیچا نہیں ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں اسے تم سے خرید چکا ہوں ١ ؎، اب لوگ نبی اکرم ﷺ اور اعرابی کے اردگرد اکٹھا ہونے لگے، دونوں تکرار کر رہے تھے، اعرابی کہنے لگا : گواہ لائیے جو گواہی دے کہ میں اسے آپ سے بیچ چکا ہوں ، خزیمہ بن ثابت (رض) نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اسے بیچ چکے ہو، نبی اکرم ﷺ خزیمہ (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تم گواہی کیسے دے رہے ہو ؟ انہوں نے کہا : آپ کے سچا ہونے پر یقین ہونے کی وجہ سے ٢ ؎، اللہ کے رسول ! تو رسول اللہ ﷺ نے خزیمہ (رض) کی گواہی کو دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ٢٠ (٣٦٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٤٦) ، مسند احمد (٥/٢١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر اس خریدو فروخت میں گواہوں کا انتظام کیا گیا ہوتا تو وہ دیہاتی آپ ﷺ سے گواہ طلب ہی نہیں کرتا، اس نے سوچا کہ گواہ نہ ہونے کا فائدہ اٹھا کر زیادہ قیمت پر بیچ دوں گا، پتہ چلا کہ خریدو فروخت میں گواہی کا ضروری نہیں، ورنہ آپ ضرور اس کا انتظام کرتے۔ ٢ ؎: چونکہ آپ سچے ہیں اس لیے آپ کا یہ دعویٰ ہی میرے لیے کافی ہے کہ آپ خرید چکے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4647

【199】

فروخت کرنے والے اور خریدنے والے کے درمیان قیمت میں اختلاف سے متعلق

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بیچنے اور خریدنے والے میں اختلاف ہوجائے اور ان میں سے کسی کے پاس گواہ نہ ہو تو اس کی بات کا اعتبار ہوگا جو صاحب مال (بیچنے والا) ہے ١ ؎ (اور خریدار کو اسی قیمت پر لینا ہوگا) یا پھر دونوں بیع ترک کردیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٤ (٣٥١١) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مگر قسم کھانے کے بعد، جیسا کہ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ ٢ ؎: خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان قیمت کی تعیین میں اگر اختلاف ہوجائے اور ان کے درمیان کوئی گواہ موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں بیچنے والا قسم کھا کر کہے گا کہ میں نے اس سامان کو اتنے میں نہیں بلکہ اتنے میں بیچا ہے اب خریدار اس کی قسم اور قیمت کی تعیین پر راضی ہے تو بہتر ورنہ بیع کا معاملہ ہی ختم کردیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4648

【200】

فروخت کرنے والے اور خریدنے والے کے درمیان قیمت میں اختلاف سے متعلق

عبدالملک بن عبید کہتے ہیں کہ ہم ابوعبیدہ بن عبداللہ بن مسعود کے پاس حاضر ہوئے، ان کے پاس دو آدمی آئے جنہوں نے ایک سامان کی خریدو فروخت کر رکھی تھی، ان میں سے ایک نے کہا : میں نے اسے اتنے اور اتنے میں لیا ہے، دوسرے نے کہا : میں نے اسے اتنے اور اتنے میں بیچا ہے تو ابوعبیدہ نے کہا : ابن مسعود (رض) کے پاس بھی ایسا ہی مقدمہ آیا تو انہوں نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے پاس ایسا ہی مقدمہ آیا۔ تو آپ ﷺ نے بائع کو قسم کھانے کا حکم دیا پھر (فرمایا : خریدار) کو اختیار ہے، چاہے تو اسے لے اور چاہے تو چھوڑ دے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٦١١) (صحیح) (پچھلی روایت نیز دیگر متابعات و شواہد کی بنا پر یہ روایت صحیح ہے ورنہ اس کے راوی ” عبدالملک بن عبید “ مجہول ہیں، اور ” ابو عبیدہ “ کا اپنے باپ ” ابن مسعود رضی الله عنہ “ سے سماع نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4649

【201】

یہود اور نصاری سے خرید و فروخت کرنے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے ادھار اناج (غلہ) خریدا اور اسے اپنی ایک زرہ بطور رہن دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٦١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4650

【202】

یہود اور نصاری سے خرید و فروخت کرنے سے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اور آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس گھر والوں کی خاطر تیس صاع جَو کے بدلے رہن (گروی) رکھی ہوئی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٧ (١٢١٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٢٨) ، مسند احمد (١/٢٣٦، ٣٠٠، ٣٦١) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٤ (٢٦٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4651

【203】

مدبر کی بیع سے متعلق

جابر (رض) کہتے ہیں کہ بنی عذرہ کے ایک شخص نے اپنا ایک غلام بطور مدبر آزاد (یعنی مرنے کے بعد آزاد ہونے کی شرط پر) کردیا، یہ بات رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوئی، تو آپ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ کوئی مال ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : اس غلام کو مجھ سے کون خریدے گا ؟ چناچہ اسے نعیم بن عبداللہ عدوی (رض) نے آٹھ سو درہم میں خرید لیا، رسول اللہ ﷺ ان (دراہم) کو لے کر آئے اور اسے ادا کردیا، پھر فرمایا : اپنی ذات سے شروع کرو اور اس پر صدقہ کرو، پھر کچھ بچ جائے تو وہ تمہارے گھر والوں کا ہے، تمہارے گھر والوں سے بچ جائے تو تمہارے رشتے داروں کے لیے ہے اور اگر تمہارے رشتے داروں سے بھی بچ جائے تو اس طرح اور اس طرح ، اپنے سامنے، اپنے دائیں اور بائیں اشارہ کرتے ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥٤٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مدبر: وہ غلام ہے جس کا مالک اس سے کہے کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو۔ اگر مدبّر کرنے والا مالک محتاج ہوجائے تو اس مدبّر غلام کو بیچا جاسکتا ہے، جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آدمی محتاج تھا اور اس پر قرض تھا، امام بخاری اور مؤلف نیز دیگر علماء مطلق طور پر مدبّر کے بیچنے کو جائز مانتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4652

【204】

مدبر کی بیع سے متعلق

جابر (رض) سے روایت ہے کہ ابومذکور نامی انصاری نے ایک یعقوب نامی غلام کو مدبر کے طور پر آزاد کیا، اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے بلا کر فرمایا : اسے کون خریدے گا ؟ اسے نعیم ابن عبداللہ (رض) نے آٹھ سو درہم میں خریدا، آپ نے اس (انصاری) کو وہ (درہم) دے کر فرمایا : تم میں جب کوئی محتاج ہو تو پہلے اپنی ذات سے شروع کرے، پھر اگر بچے تو اپنے گھر والوں پر، پھر اگر بچے تو اپنے رشتے داروں پر، اور اگر پھر بھی بچ رہے تو ادھر ادھر (یعنی دوسرے فقراء پر خرچ کرے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ١٣ (٩٩٧) ، سنن ابی داود/العتق ٩ (٣٩٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٦٧) ، مسند احمد (٣/٣٠١، ٣٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4653

【205】

مدبر کی بیع سے متعلق

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مدبر (غلام) کو بیچ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١١٠ (٢٢٣٠) ، سنن ابی داود/العتق ٩ (٣٩٥٥) ، سنن ابن ماجہ/العتق ١ (الأحکام ٩٤) (٢٥١٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٤١٦) ، مسند احمد (٣/٣٠١، ٣٧٠، ٣٩٠) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٤٢٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4654

【206】

مکاتب کو فروخت کرنا

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں، اپنی کتابت کے سلسلے میں ان کی مدد چاہتی تھیں، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : تم اپنے گھر والوں (مالکوں) کے پاس لوٹ جاؤ، اب اگر وہ پسند کریں کہ میں تمہاری مکاتبت (کی رقم) ادا کر دوں اور تمہارا ولاء (حق وراثت) میرے لیے ہوگا تو میں ادا کر دوں گی، بریرہ رضی اللہ عنہا نے اس کا تذکرہ اپنے گھر والوں سے کیا تو انہوں نے انکار کیا اور کہا : اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کرنا چاہتی ہیں تو کریں البتہ تمہارا ولاء (ترکہ) ہمارے لیے ہوگا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : انہیں خرید لو ٢ ؎ اور آزاد کر دو ۔ ولاء (وراثت) تو اسی کا ہے جس نے آزاد کیا، پھر آپ نے فرمایا : کیا حال ہے ان لوگوں کا جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہیں ہیں، لہٰذا اگر کوئی ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہ ہو، تو وہ پوری نہ ہوگی گرچہ سو شرطیں لگائی گئی ہوں، اللہ کی شرط قبول کرنے اور اعتماد کرنے کے لائق ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٧ (٢١٥٥) ، المکاتب ٢ (٢٥٦١) ، الشروط ٣(٢٧١٧) ، صحیح مسلم/العتق ٢ (١٥٠٤) ، سنن ابی داود/العتق ٢ (٣٩٢٩) ، سنن الترمذی/الوصایا ٧ (٢١٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨٠) ، موطا امام مالک/العتق ١٠ (١٧) ، مسند احمد (٦/٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مکاتب: وہ غلام ہے جس کا مالک اس سے کہے کہ اگر تم اتنی اتنی رقم اتنی مدت میں، یا جب بھی کما کر ادا کر دے تو تم آزاد ہو۔ ٢ ؎: بریرہ رضی اللہ عنہا نے چونکہ ابھی تک مکاتبت ( معاہدہ آزادی ) کی کوئی قسط ادا نہیں کی تھی، اس لیے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کل رقم ادا کر کے انہیں خرید لیا، یہی باب سے مناسبت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4655

【207】

اگر مکاتب نے اپنے بدل کتابت میں کچھ بھی نہ دیا ہو تو اس کا فروخت کرنا درست ہے

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس بریرہ رضی اللہ عنہا نے آ کر کہا : عائشہ ! میں نے نو اوقیہ کے بدلے اپنے گھر والوں (مالکوں) سے مکاتبت کرلی ہے کہ ہر سال ایک اوقیہ دوں گی تو آپ میری مدد کریں۔ (اس وقت) انہوں نے اپنی کتابت میں سے کچھ بھی ادا نہ کیا تھا۔ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا اور ان میں دلچسپی لے رہی تھیں : جاؤ اپنے لوگوں (مالکوں) کے پاس اگر وہ پسند کریں کہ میں انہیں یہ رقم ادا کر دوں اور تمہارا ولاء (حق وراثت) میرے لیے ہوگا تو میں ایسا کروں، بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے لوگوں (مالکوں) کے پاس گئیں اور ان کے سامنے یہ بات پیش کی، تو انہوں نے انکار کیا اور کہا : اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کرنا چاہتی ہیں تو کریں لیکن وہ ولاء (ترکہ) ہمارا ہوگا، اس کا ذکر عائشہ نے رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا : یہ چیز تمہیں ان سے مانع نہ رکھے، خریدو اور آزاد کر دو ، ولاء (ترکہ) تو اسی کا ہے جس نے آزاد کیا ، چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، رسول اللہ ﷺ لوگوں میں کھڑے ہوئے اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا : امابعد، لوگوں کا کیا حال ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہیں ہوتیں، جو ایسی شرط لگائے گا جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہیں ہے تو وہ باطل ہے گرچہ وہ سو شرطیں ہوں، اللہ تعالیٰ کا فیصلہ زیادہ قابل قبول اور اللہ تعالیٰ کی شرط زیادہ لائق بھروسہ ہے، ولاء (حق وراثت) اسی کا ہے جس نے آزاد کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4656

【208】

ولاء کا فروخت کرنا

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ولاء (وراثت) کو بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العتق ٣ (١٥٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٢٣) ، موطا امام مالک/العتق ١٠ (٢٠) ، مسند احمد (٢/٩، ٧٩، ١٠٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٦ (٢٦١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر کسی نے غلام کو آزاد کیا تو اس غلام کے مرنے پر اگر اس کے عصبہ وارث نہ ہوں، تو آزاد کرنے والا عصبہ ہوگا، اور عصبہ والا ترکے کا حقدار ہوگا اسی کو ولاء کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4657

【209】

ولاء کا فروخت کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ولاء (حق وراثت) بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧١٥٠) ، سنن الدارمی/الفرائض ٥٣ (٣٢٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4658

【210】

ولاء کا فروخت کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ولاء بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العتق ٣ (١٥٠٦ م) ، سنن ابی داود/الفرائض ١٤ (٢٩١٩) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٠ (١٢٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ١٥ (٢٧٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٧١٨٩) ، مسند احمد (٢/٧٩، ١٠٧) ، سنن الدارمی/الفرائض ٥٣ (٣٢٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4659

【211】

پانی کا فروخت کرنا

جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پانی بیچنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٣٩٩) ، مسند احمد (٣/٣٥٦) ، سنن الدارمی/البیوع ٦٩ (٢٦٥٤) ، وانظر أیضا حدیث رقم : ٤٦٤٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مراد نہر اور چشمے وغیرہ کا پانی جو کسی کی ذاتی ملکیت میں نہ ہو، اور اگر پانی پر کسی کا کسی طرح کا خرچ آیا ہو تو ایسے پانی کا بیچنا منع نہیں ہے، جیسے راستوں میں ٹھنڈا پانی، مینرل واٹر وغیرہ بیچنا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4660

【212】

پانی کا فروخت کرنا

ایاس بن عمر (یا ابن عبد) (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو پانی بیچنے سے منع فرماتے ہوئے سنا۔ قتیبہ کہتے ہیں : مجھے ان (سفیان) سے ایک مرتبہ ابومنہال کے بعض کلمات سمجھ میں نہیں آئے جیسا میں نے چاہا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٦٣ (٣٤٧٨) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٤ (١٢٧١) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ١٨ (الأحکام ٧٩) (٢٤٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٧) ، مسند احمد (٣/١٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4661

【213】

ضرورت سے زائد پانی فروخت کرنا

ایاس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فاضل پانی کے بیچنے سے منع فرمایا ہے، وہط کے نگراں نے وہط کا فاضل پانی بیچا تو عبداللہ بن عمرو (رض) نے اسے ناپسند کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4662

【214】

ضرورت سے زائد پانی فروخت کرنا

ابومنہال نے خبر دی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابی ایاس بن عبد (رض) نے کہا : فاضل پانی مت بیچو، اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ نے فاضل پانی بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٦٦٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4663

【215】

شراب فروخت کرنا

ابن وعلہ مصری سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس (رض) سے انگور کے رس کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا : ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کو شراب کی مشکیں تحفہ میں دیں تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : کیا تمہیں علم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قرار دیا ہے ؟ پھر اس نے کانا پھوسی کی - میں اس بات کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکا تو میں نے اس کی بغل کے آدمی سے پوچھا تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے کہا : تم نے اس سے کیا کانا پھوسی کی ؟ ، وہ بولا : میں نے اس سے کہا کہ وہ اسے بیچ دے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس ذات نے اس کا پینا حرام کیا ہے، اس نے اس کا بیچنا بھی حرام کیا ہے ، تو اس آدمی نے دونوں مشکوں کا منہ کھول دیا یہاں تک کہ جو کچھ اس میں تھا بہہ گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٢ (البیوع ٣٣٤) (١٥٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٢٣) ، موطا امام مالک/الأشربة ٥ (١٢) ، مسند احمد (١/٢٣٠، ٢٤٤، ٣٢٣، ٣٥٨) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٥ (٢٦١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4664

【216】

شراب فروخت کرنا

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب سود سے متعلق آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے ان کی تلاوت کی، پھر شراب کی تجارت حرام قرار دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧٣ (٤٥٩) ، البیوع ٢٥ (٢٠٨٤) ، ١٠٥ (٢٢٢٦) ، تفسیر آل عمران ٤٩-٥٢ (٤٥٤٠، ٤٥٤٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٢ (البیوع ٣٣) (١٥٨٠) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٦ (٣٤٩١) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ٧ (٣٣١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٦) ، مسند احمد (٦/٤٦، ١٠٠، ١٢٧، ١٨٦، ١٨٩٠، ٢٨٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٥ (٢٦١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4665

【217】

کتے کی فروخت سے متعلق

ابومسعود عقبہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ عورت کی کمائی اور نجومی کی آمدنی سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٩٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4666

【218】

کتے کی فروخت سے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کئی چیزوں کو حرام قرار دیا، کتے کی قیمت کو (بھی) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4667

【219】

کونسا کتا فروخت کرنا درست ہے؟

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے، اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا سوائے شکاری کتے کے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہ حدیث منکر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٠٠ (صحیح) (لیکن ” إلا کلب صید “ کا جملہ صحیح نہیں ہے، اور یہ جملہ صحیح مسلم میں بھی نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ ثقہ راویوں کی روایت میں إلا کلب صید کا ذکر نہیں ہے، اس کے رواۃ حجاج مختلط، اور ابوالزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4668

【220】

خنزیر کا فروخت کرنا

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا اور آپ مکہ میں تھے : اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کے بیچنے سے منع فرمایا۔ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! مردے کی چربی کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ اس سے تو کشتیاں چکنی کی جاتی ہیں، کھالوں میں استعمال ہوتا ہے اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں، آپ نے فرمایا : نہیں، وہ حرام ہے ، اس وقت آپ نے یہ بھی فرمایا : اللہ تعالیٰ یہودیوں کو ہلاک و برباد کرے، اللہ تعالیٰ نے ان پر چربی حرام کی تھی، انہوں نے اسے پگھلایا، پھر بیچا اور اس کی قیمت کھائی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٦١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4669

【221】

جفتی کرانے کی اجرت لینے کی ممانعت۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ سے جفتی کرانے پر اجرت لینے سے، پانی بیچنے اور زمین کو بٹائی پر دینے سے ١ ؎ یعنی آدمی اپنی زمین اور پانی کو بیچ دے تو ان سب سے آپ ﷺ نے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٨ (البیوع ٢٩) (١٥٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس بٹائی سے مراد وہ معاملہ ہے جس میں زمین والا زمین کے کسی خاص حصے کی پیداوار لینا چاہے، کیونکہ آدھے پر بٹائی کا معاملہ آپ ﷺ نے خود اہل خیبر سے کیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4670

【222】

جفتی کرانے کی اجرت لینے کی ممانعت۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإجارة ٢١ (٢٢٨٤) ، دالبیوع ٤٢ (٣٤٢٩) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٢ (١٢٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٣٣) ، مسند احمد (٢/١٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4671

【223】

جفتی کرانے کی اجرت لینے کی ممانعت۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ بنی کلاب کی شاخ بنی صعق کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے اسے اس سے منع فرمایا، اس نے کہا : ہمیں تو اس کی وجہ سے تحفے ملتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٤٥ (١٢٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4672

【224】

جفتی کرانے کی اجرت لینے کی ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پچھنا لگانے کی کمائی سے، کتے کی قیمت سے اور نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٣٦٢٧) ، مسند احمد (٢/٢٩٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4673

【225】

جفتی کرانے کی اجرت لینے کی ممانعت۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٤١٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4674

【226】

جفتی کرانے کی اجرت لینے کی ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت سے اور نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٤٩ (١٢٧٩ تعلیقًام) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٩ (٢١٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٠٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٨٠ (٢٦٦٥) (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، اس لیے کہ ابوحازم نے صحابی کا ذکر نہیں کیا، لیکن پچھلی روایت (رقم ٤٦١٧) سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4675

【227】

ایک شخص ایک شے خریدے پھر اس کی قیمت دینے سے قبل مفلس ہوجائے اور وہ چیز اسی طرح موجود ہو اس سے متعلق

ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص (سامان خریدنے کے بعد) مفلس ہوگیا، پھر بیچنے والے کو اس کے پاس اپنا مال بعینہ ملا تو دوسروں کی بہ نسبت وہ اس مال کا زیادہ حقدار ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستقراض ١٤ (٢٤٠٢) ، صحیح مسلم/المساقاة ٥ (البیوع ٢٦) (١٥٥٩) ، سنن ابی داود/البیوع ٧٦(٣٥١٩، ٣٥٢٠) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٦ (١٢٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٦ (٤٣٥٨، ٢٣٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦١) ، موطا امام مالک/البیوع ٤٢ (٨٨) ، مسند احمد (٢/٢٢٨، ٢٤٧، ٢٤٩، ٢٥٨، ٤١٠، ٤٦٨، ٤٧٤، ٥٠٨) ، سنن الدارمی/البیوع ٥١ (٢٦٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس باب کی احادیث کی روشنی میں علماء نے کچھ شرائط کے ساتھ ایسے شخص کو اپنے سامان کا زیادہ حقدار ٹھہرایا ہے جو یہ سامان کسی ایسے شخص کے پاس بعینہٖ پائے جس کا دیوالیہ ہوگیا ہو، وہ شرائط یہ ہیں :( الف ) سامان خریدار کے پاس بعینہٖ موجود ہو۔ ( ب ) پایا جانے والا سامان اس کے قرض کی ادائیگی کے لیے کافی نہ ہو۔ ( ج ) سامان کی قیمت میں سے کچھ بھی نہ لیا گیا ہو۔ ( د ) کوئی ایسی رکاوٹ حائل نہ ہو جس سے وہ سامان لوٹایا ہی نہ جاسکے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4676

【228】

ایک شخص ایک شے خریدے پھر اس کی قیمت دینے سے قبل مفلس ہوجائے اور وہ چیز اسی طرح موجود ہو اس سے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسے شخص کے بارے میں جو مفلس ہوجائے اور اس کے پاس بعینہ کسی کا سامان موجود ہو اور وہ اسے پہچان لے فرمایا : اس سامان کا مستحق وہ ہے جس نے اسے اس کے ہاتھ بیچا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4677

【229】

ایک شخص ایک شے خریدے پھر اس کی قیمت دینے سے قبل مفلس ہوجائے اور وہ چیز اسی طرح موجود ہو اس سے متعلق

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص کے پھلوں پر جو اس نے خریدے تھے آفت آگئی اور اس کا قرض بہت زیادہ ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس پر صدقہ کرو ، چناچہ لوگوں نے اس پر صدقہ کیا، اس کی مقدار اتنی نہ ہوسکی کہ اس کا قرض پورا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو تمہیں ملے لے لو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انطر حدیث رقم : ٤٥٣٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب حاکم موجودہ مال کو قرض خواہوں کے مابین بقدر حصہ تقسیم کر دے پھر بھی اس شخص کے ذمہ قرض خواہوں کا قرض باقی رہ جائے تو ایسی صورت میں قرض خواہ اسے تنگ کرنے، قید کرنے اور قرض کی ادائیگی پر مزید اصرار کرنے کے بجائے اسے مال کی فراہمی تک مہلت دے۔ حدیث کا مفہوم یہی ہے اور قرآن کی اس آیت وإن کان ذوعسر ۃ فنظر ۃ إلی میسر ۃ کے مطابق بھی ہے کیونکہ کسی کے مفلس ہوجانے سے قرض خواہوں کے حقوق ضائع نہیں ہوتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4678

【230】

کوئی شخص ایسا مال فروخت کرے جو درحقیقت اس مال کا مالک نہ ہو۔

اسید بن حضیر بن سماک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ اگر کوئی کسی شخص کے ہاتھ میں اپنی (چوری کی ہوئی) چیز پائے اور اس پر چوری کا الزام نہ ہو تو چاہے تو اتنی قیمت ادا کر کے اس سے لے لے جتنے میں اس نے اسے خریدا ہے اور چاہے تو چور کا پیچھا کرے، یہی فیصلہ ابوبکر اور عمر (رض) نے (بھی) کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٠) ، مسند احمد (٤/٢٢٦) (صحیح الإسناد) (اسید حضیر کے بجائے صحیح ” اسید بن ظہیر “ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4679

【231】

کوئی شخص ایسا مال فروخت کرے جو درحقیقت اس مال کا مالک نہ ہو۔

بنی حارثہ کے ایک فرد اسید بن حضیر انصاری (رض) کہتے ہیں کہ وہ یمامہ کے گورنر تھے، مروان نے ان کو لکھا کہ معاویہ (رض) نے انہیں لکھا ہے کہ جس کی کوئی چیز چوری ہوجائے تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہے، جہاں بھی اسے پائے، پھر مروان نے یہ بات مجھے لکھی تو میں نے مروان کو لکھا کہ نبی اکرم ﷺ نے فیصلہ کیا کہ چوری کرنے والے سے ایک ایسے شخص نے کوئی چیز خریدی جس پر چوری کا الزام نہ ہو تو اس چیز کے مالک کو اختیار دیا جائے گا چاہے تو وہ اس کی قیمت دے کر اسے لے لے (جتنی قیمت اس نے چور کو دی ہے) اور اگر چاہے تو چور کا پیچھا کرے، یہی فیصلہ ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) عنہم نے کیا، پھر مروان نے میری یہ تحریر معاویہ (رض) کے پاس بھیجی، معاویہ (رض) نے مروان کو لکھا : تمہیں اور اسید کو حق نہیں کہ تم دونوں مجھ پر حکم چلاؤ بلکہ تمہارا والی اور امیر ہونے کی وجہ سے میں تم کو حکم کروں گا، لہٰذا جو حکم میں نے تمہیں دیا ہے، اس پر عمل کرو، مروان نے معاویہ (رض) کی تحریر (میرے پاس) بھیجی تو میں نے کہا : جب تک میں حاکم ہوں ان کے حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کروں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : فیصلہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق کروں گا، معاویہ (رض) کے حکم کے مطابق نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4680

【232】

کوئی شخص ایسا مال فروخت کرے جو درحقیقت اس مال کا مالک نہ ہو۔

سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی اپنے سامان کا زیادہ حقدار ہے جب کسی کے پاس پائے، اور بیچنے والا جس کے پاس چیز پائی گئی ہے وہ اپنے بیچنے والے کا پیچھا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٨٠(٣٥٣١) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٩٥) ، مسند احمد (٥/١٣، ١٨) (ضعیف) (قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، اور متن پچھلے متن کا مخالف بھی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4681

【233】

کوئی شخص ایسا مال فروخت کرے جو درحقیقت اس مال کا مالک نہ ہو۔

سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی عورت کی شادی دو ولیوں نے کردی تو وہ ان میں پہلے شوہر کی ہوگی، اور جس نے کوئی چیز دو آدمیوں سے بیچی تو وہ چیز ان میں سے پہلے کی ہوگی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٢٢ (٢٠٨٨) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٠ (١١١٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢١ (٢١٩١) ، الأحکام ١٩ (٢٣٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٢) ، مسند احمد (٥/٨، ١١، ١٢، ١٨، ٢٢) ، سنن الدارمی/النکاح ١٥ (٢٢٤٠) (ضعیف) (قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے ) وضاحت : ١ ؎: پہلے ولی کے ذریعے ہونے والے نکاح کا اعتبار ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4682

【234】

قرض لینے سے متعلق حدیث

عبداللہ بن ابی ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے چالیس ہزار قرض لیے، پھر آپ کے پاس مال آیا تو آپ نے مجھے ادا کر دئیے، اور فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہیں، تمہارے گھر والوں اور تمہارے مال میں برکت عطا فرمائے، قرض کا بدلہ تو شکریہ ادا کرنا اور قرض ادا کرنا ہی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصدقات ١٦ (٢٤٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٥٢) ، مسند احمد (٤/٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4683

【235】

قرض داری کی مذمت

محمد بن جحش (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، پھر ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھا، پھر فرمایا : سبحان اللہ ! کتنی سختی نازل ہوئی ہے ؟ ہم لوگ خاموش رہے اور ڈر گئے، جب دوسرا دن ہوا تو میں نے آپ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! وہ کیا سختی ہے جو نازل ہوئی ؟ آپ نے فرمایا : قسم اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ایک شخص اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے پھر زندہ کیا جائے، پھر قتل کیا جائے پھر زندہ کیا جائے، پھر قتل کیا جائے اور اس پر قرض ہو تو وہ جنت میں داخل نہ ہوگا جب تک اس کا قرض ادا نہ ہوجائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٢٢٦) ، مسند احمد (٥/٢٨٩، ٢٩٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یا قرض خواہ قرض نہ ادا کرنے پر اپنی رضا مندی کا اظہار کر دے، تو بھی وہ عفو و مغفرت کا مستحق ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4684

【236】

قرض داری کی مذمت

سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک جنازے میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، آپ نے تین مرتبہ فرمایا : کیا فلاں گھرانے کا کوئی شخص یہاں ہے ؟ چناچہ ایک شخص کھڑا ہوا تو اس سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پہلی دو مرتبہ میں کون سی چیز رکاوٹ تھی کہ تم نے میرا جواب نہ دیا، سنو ! میں نے تمہیں صرف بھلائی کے لیے پکارا تھا، فلاں شخص ان میں کا ایک آدمی جو مرگیا تھا - اپنے قرض کی وجہ سے (جنت میں جانے سے) رکا ہوا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٩ (٣٣٤١) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٢٣) ، مسند احمد (٥/٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لیے اس کے قرض کی ادائیگی کا انتظام کرو یا قرض خواہ کو راضی کرلو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4685

【237】

قرض داری میں آسانی اور سہولت سے متعلق حدیث شریف

عمران بن حذیفہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا قرض لیا کرتی تھیں اور کثرت سے لیا کرتی تھیں، تو ان کے گھر والوں نے اس سلسلے میں ان سے گفتگو کی اور ان کو برا بھلا کہا اور ان پر غصہ ہوئے تو وہ بولیں : میں قرض لینا نہیں چھوڑوں گی، میں نے اپنے خلیل اور محبوب ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو بھی کوئی قرض لیتا ہے اور اللہ کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ قرض ادا کرنے کی فکر میں ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا قرض دنیا میں ادا کردیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصدقات ١٠(٢٤٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٧٧) (صحیح) (لیکن ” فی الدنیا “ کا لفظ صحیح نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله في الدنيا صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4686

【238】

قرض داری میں آسانی اور سہولت سے متعلق حدیث شریف

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے قرض لیا، ان سے کہا گیا : ام المؤمنین ! آپ قرض لے رہی ہیں حالانکہ آپ کے پاس ادا کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے ؟ ، عرض کیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس نے کوئی قرض لیا اور وہ اسے ادا کرنے کی فکر میں ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٠٧٣) ، مسند احمد (٦/٣٣٢، ٣٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4687

【239】

دولت مند شخص قرض دینے میں تاخیر کرے اس سے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر تم میں سے کوئی شخص مالدار کی حوالگی میں دیا جائے تو چاہیئے کہ اس کی حوالگی قبول کرے ١ ؎، اور مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحوالة ١(٢٢٨٨) ، سنن الترمذی/البیوع ٦٨ (١٣٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٦٢) ، موطا امام مالک/البیوع ٤٠ (٨٤) ، مسند احمد (٢/ ٣٧٦، ٤٦٣، ٤٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اپنے ذمہ کا قرض دوسرے کے ذمہ کردینا یہی حوالہ ہے، مثلاً زید عمرو کا مقروض ہے پھر زید عمرو کا سامنا بکر سے یہ کہہ کر کرا دے کہ اب میرے ذمہ کے قرض کی ادائیگی بکر کے سر ہے اور بکر اسے تسلیم بھی کرلے تو عمرو کو یہ حوالگی قبول کر لینی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4688

【240】

دولت مند شخص قرض دینے میں تاخیر کرے اس سے متعلق

شرید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرض ادا کرنے میں مالدار کے ٹال مٹول کرنے سے اس کی عزت اور اس کی سزا حلال ہوجاتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ٢٩ (٣٦٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ١٨ (الأحکام ٥٨) (٢٤٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٣٨) ، مسند احمد (٤/٢٢٢، ٣٨٨، ٣٨٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کی برائی کرسکتا ہے اور حاکم اسے سزا دے سکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4689

【241】

دولت مند شخص قرض دینے میں تاخیر کرے اس سے متعلق

شرید (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مالدار کے ٹال مٹول کرنے سے اس کی عزت اور اس کی سزا حلال ہوجاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4690

【242】

قرضدار کو کسی دوسرے کی طرف محول کرنا جائز ہے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے، اگر تم میں سے کوئی مالدار آدمی کی حوالگی میں دیا جائے تو چاہیئے کہ اس کی حوالگی قبول کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحوالة ١ (٢٢٨٧) ، صحیح مسلم/المساقاة ٧ (١٥٦٤) ، سنن ابی داود/البیوع ١٠ (٣٣٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٠٣) ، موطا امام مالک/البیوع ٤٠ (٨٤) ، مسند احمد (٢/٣٧٩، ٤٦٥) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٨ (٢٦٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4691

【243】

قرض کی ضمانت

ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ انصار کا ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں لایا گیا تاکہ آپ اس کا جنازہ پڑھائیں، آپ نے فرمایا : تمہارے اس ساتھی پر قرض ہے ، ابوقتادہ نے کہا : میں اس کی ضمانت لیتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : پورا ادا کرو گے ؟ کہا : جی ہاں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٦٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4692

【244】

قرض بہتر طریقہ سے ادا کرنے کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو قرض اچھی طرح ادا کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٦٢٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4693

【245】

حسن معاملہ اور قرضہ کی وصولی میں نرمی کی فضیلت

ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک آدمی نے کبھی کوئی بھلائی کا کام نہیں کیا تھا لیکن وہ لوگوں کو قرض دیا کرتا، پھر اپنے قاصد سے کہتا : جو قرض آسانی سے واپس ملے اسے لے لو اور جس میں دشواری پیش آئے، اسے چھوڑ دو اور معاف کر دو ، شاید اللہ تعالیٰ ہماری غلطیوں کو معاف کر دے، جب وہ مرگیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا : کیا تم نے کبھی کوئی خیر کا کام کیا ؟ اس نے کہا : نہیں، سوائے اس کے کہ میرے پاس ایک لڑکا تھا، میں لوگوں کو قرض دیتا تھا جب میں اس لڑکے کو تقاضا کرنے کے لیے بھیجتا تو اس سے کہتا کہ جو آسانی سے ملے اسے لے لینا اور جس میں دشواری ہو، اسے چھوڑ دینا اور معاف کردینا، شاید اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کر دے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے تمہیں معاف کردیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٢٣٢٦) ، مسند احمد (٢/ ٣٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4694

【246】

حسن معاملہ اور قرضہ کی وصولی میں نرمی کی فضیلت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک شخص لوگوں کو قرض دیتا تھا، جب کسی مفلس (دیوالیہ) کی پریشانی دیکھتا تو اپنے آدمی سے کہتا : اسے معاف کر دو ، شاید اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے، پھر جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملا تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٨ (٢٠٨٧) ، الأنبیاء ٥٤ (٣٤٨٠) ، صحیح مسلم/المساقاة ٦ (١٥٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4695

【247】

حسن معاملہ اور قرضہ کی وصولی میں نرمی کی فضیلت

عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو جنت میں داخل کردیا جو خریدتے، بیچتے، (قرض) دیتے اور تقاضا کرتے ہوئے نرمی سے کام لیتا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٨ (٢٢٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٣٠) ، مسند احمد (١/٥٨، ٦٧، ٧٠) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4696

【248】

بغیر مال کے شرکت سے متعلق

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ عمار، سعد اور میں نے بدر کے دن حصہ داری کی، چناچہ سعد دو قیدی لے کر آئے، ہم اور عمار کچھ بھی نہیں لائے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٦٩ (ضعیف) (اس کے راوی ” ابو عبیدہ “ کا اپنے باپ ” ابن مسعود “ رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے، نیز ” ابواسحاق “ مدلس اور مختلط ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4697

【249】

بغیر مال کے شرکت سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے ایک غلام میں اپنا حصہ آزاد کردیا تو جتنا حصہ باقی ہے وہ بھی اسی کے مال سے آزاد ہوگا بشرطیکہ اس کے پاس غلام کی (بقیہ) قیمت بھر مال ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العتق ١ (١٥٠١) ، الأیمان ١٢ (١٥٠١) ، سنن ابی داود/العتق ٦ (٣٩٤٦) ، سنن الترمذی/الأحکام ١٤ (١٣٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٣٥) ، مسند احمد (٢/ ٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کا تعلق اگلے باب سے ہے، کاتبوں کی غلطی سے یہ اس باب میں درج ہوگیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4698

【250】

غلام باندی میں شرکت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی غلام میں اپنا حصہ آزاد کیا اور اس کے پاس غلام کی (بقیہ) قیمت کے برابر مال ہو تو وہ اس کے مال سے آزاد ہوجائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ٥ (٢٤٩١) ، العتق ٤ (٢٥٢٢) ، صحیح مسلم/العتق ١ (١٥٠١) ، سنن ابی داود/العتق ٦ (٣٩٤١) ، سنن الترمذی/الأحکام ١٤ (١٣٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٥١١) ، مسند احمد (٢/١٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4699

【251】

درخت میں شرکت سے متعلق

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں اگر کسی کے پاس کوئی زمین یا کھجور کا درخت ہو تو اسے نہ بیچے جب تک کہ اپنے حصہ دار و شریک سے نہ پوچھ لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الشفعة ١ (٢٤٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٦٥) ، مسند احمد (٢/٣٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے ثابت ہوا کہ درخت یا باغ میں حصہ داری جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4700

【252】

زمین میں شرکت سے متعلق

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر مشترک مال جو تقسیم نہ ہوا ہو جیسے زمین یا باغ، میں شفعہ کا حکم دیا، اس کے لیے صحیح نہیں کہ وہ اسے بیچے جب تک کہ حصہ دار سے اجازت نہ لے لے، اگر وہ (شریک) چاہے تو اسے لے لے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے، اور اگر اس (شریک) سے اس کی اجازت لیے بغیر بیچ دیا تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٦٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4701

【253】

شفعہ سے متعلق احادیث

ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ حقدار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشفعة ٢ (٢٢٥٨) ، الحیل ١٤(٦٩٧٧) ، ١٥(٦٩٧٨) ، سنن ابی داود/البیوع ٧٥ (٣٥١٦) ، سنن ابن ماجہ/الشفعة ٣ (الأحکام ٨٧) (٢٤٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢٧) ، مسند احمد (٦/١٠، ٣٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شفعہ وہ استحقاق ہے جس کے ذریعہ شریک اپنے شریک کا وہ حصہ جو دوسرے کی ملکیت میں جا چکا ہے قیمت ادا کر کے حاصل کرسکے، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ دونوں کی جائیداد اس طرح مشترک ہو کہ دونوں کے حصے کی تعیین نہ ہو، اور دونوں کا راستہ بھی ایک ہو، دیکھئیے حدیث رقم ٤٧٠٨۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4702

【254】

شفعہ سے متعلق احادیث

شرید (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! میری زمین ہے، جس میں کسی کی حصہ داری اور شرکت نہیں اور نہ ہی پڑوس کے سوا کسی کا حصہ ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پڑوسی اپنے پڑوسی کا زیادہ حقدار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الشفعة ٢ (٢٤٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٤٠) ، مسند احمد (٤/٣٨٨، ٣٨٩، ٣٩٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4703

【255】

شفعہ سے متعلق احادیث

ابوسلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر وہ مال جو تقسیم نہ ہوا ہو، اس میں شفعہ کا حق ہے۔ لہٰذا جب حد بندی ہوجائے اور راستہ متعین ہوجائے تو اس میں شفعہ کا حق نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩٥٨٣) (صحیح) (یہ حدیث مرسل ہے، اس لیے کہ ابوسلمہ نے یہاں پر واسطہ کا ذکر نہیں کیا، لیکن صحیح بخاری، کتاب الشفعہ (٢٢٥٧) میں ابو سلمہ نے اس حدیث کو جابر (رضی الله عنہ) سے روایت کیا ہے ) وضاحت : ١ ؎: حق شفعہ کے سلسلہ میں مناسب اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ حق ایسے دو پڑوسیوں کو حاصل ہوگا جن کے مابین پانی، راستہ وغیرہ مشتر کہوں، دوسری صورت میں یہ حق حاصل نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4704

【256】

شفعہ سے متعلق احادیث

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شفعہ اور پڑوس کے حق کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٦٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4705