49. کتاب اداب القضاة

【1】

عادل حاکم کی تعریف اور منصف حاکم کی فضیلت

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک انصاف کرنے والے لوگ رحمان (اللہ) کے دائیں نور کے منبر پر ہوں گے ١ ؎، یعنی وہ لوگ جو اپنے فیصلوں میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو ان کے تابع ہیں انصاف کرتے ہیں۔ مدد بن آدم کی روایت میں ہے : اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الٕامارة ٥(١٨٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٩٨) ، مسند احمد (٢/١٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حقیقت میں انہیں نور کے منبر ملیں گے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں بلند درجات بھی نصیب ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5379

【2】

انصاف کرنے والا امام

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سات لوگ ہیں اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن (عرش کے) سائے میں رکھے گا، جس دن کہ اس کے سوا کسی کا سایہ نہ ہوگا : انصاف کرنے والا حاکم، وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں بڑھتا جائے، وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں، وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، دو ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کے لیے آپس میں دوست ہوں، ایسا شخص جسے رتبے والی خوبصورت عورت (اپنے ساتھ غلط کام کرنے کے لیے) بلائے تو وہ کہہ دے : مجھے اللہ تعالیٰ کا ڈر لگ رہا ہے، ایک ایسا شخص جو صدقہ کرے تو اس طرح چھپا کر کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا کیا ہے ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٦ (٦٦٠) ، الزکاة ١٦ (١٤٢٣) ، الرقاق ٢٤ (٦٤٧٩) ، الحدود ١٩ (٦٨٠٦) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٠ (١٠٣١) ، سنن الترمذی/الزہد ٥٣ (٢٣٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٦٤) ، موطا امام مالک/الشعر ٥ (١٤) ، مسند احمد (٢/٤٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5380

【3】

اگر کوئی شخص صحیح فیصلہ کرے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب حاکم فیصلہ (کا ارادہ) کرے اور اجتہاد سے کام لے پھر وہ صحیح فیصلہ تک پہنچ جائے تو اس کے لیے دو اجر ہیں، اور اگر اجتہاد کرنے میں غلطی کر بیٹھے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتصام ٢١ (٧٣٥٢) ، صحیح مسلم/الأقضیة (١٧١٦) ، سنن ابی داود/الأقضیة ٢(٣٥٧٤) ، سنن الترمذی/الاحکام ٢ (١٣٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٣ (٢٣١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٤٨) ، مسند احمد (٤/١٩٨، ٢٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حاکم مراد وہ حاکم ہے جو عالم ہونے کے ساتھ ساتھ فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو، قدیم و جدید سارے علما مجتہدین کے اجتہادات کا بھی یہی حکم ہے۔ کسی غلط فیصلہ یا اجتہاد کا گناہ حاکم یا عالم یا امام پر تو نہیں ہوگا، مگر جان بوجھ کر کسی امام یا عالم کے کسی فتوے پر اڑے رہ جانے والوں کو ضرور گناہ ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5381

【4】

جو کوئی قاضی بننے کی آرزو کرے اس کو کبھی قاضی نہ بنایا جائے

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میرے پاس قبیلہ اشعر کے کچھ لوگوں نے آ کر کہا : ہمیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لے چلئے، ہمیں کچھ کام ہے، چناچہ میں انہیں لے کر گیا، ان لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم سے اپنا کوئی کام لیجئیے ١ ؎ میں نے آپ سے ان کی اس بات کی معذرت چاہی اور بتایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ ان کی غرض کیا تھی، چناچہ آپ نے میری بات کا یقین کیا اور معذرت قبول فرما لی اور فرمایا : ہم اپنے کام (عہدے) میں ایسے لوگوں کو نہیں لگاتے جو ہم سے اس کا مطالبہ کرتے ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٠٩٣) ، مسند احمد (٤/٤١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ہمیں کوئی عہدہ دیجئیے۔ ٢ ؎: یعنی جو شخص منصب و عہدے کا طالب ہو ہم اسے یہ چیز نہیں دیتے کیونکہ اگر اسے صحیح طور پر انجام نہ دے سکا تو ایسے شخص کی صرف دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت کی تباہی و بربادی کا بھی ڈر ہے، اور عہدہ و منصب کا طالب تو وہی ہوگا جو حصول دنیا کا خواہاں ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5382

【5】

جو کوئی قاضی بننے کی آرزو کرے اس کو کبھی قاضی نہ بنایا جائے

اسید بن حضیر (رض) سے روایت ہے کہ انصار کے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا : کیا آپ مجھے کام نہیں دیں گے جیسے فلاں کو دیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : میرے بعد تم پاؤ گے کہ ترجیحات ١ ؎ ہوں گی ایسے حالات میں تم صبر سے کام لینا یہاں تک کہ حوض پر تم مجھ سے ملو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الٔعنصار ٨ (٣٧٩٢) ، الفتن ٢ (٧٠٥٧) ، صحیح مسلم/الإمارة ١١ (١٨٤٥) ، سنن الترمذی/الفتن ٢٥ (٢١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨) ، مسند احمد (٤/٣٥١، ٣٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مستحق اور اہلیت والے کو محروم کر کے نالائق کو کام پر رکھنا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5383

【6】

حکومت کی خواہش نہ کرنا

عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : منصب طلب مت کرو، اس لیے کہ اگر مانگے سے وہ تمہیں ملا تو تم اسی کے سپرد کر دئیے جاؤ گے ١ ؎ اور اگر وہ تمہیں بن مانگے مل گیا تو تمہاری اس میں مدد ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨١٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اللہ کی نصرت و تائید سے تم محروم رہو گے اور کوئی مدد نہیں ملے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5384

【7】

حکومت کی خواہش نہ کرنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عنقریب تم لوگ منصب کی خواہش کرو گے، لیکن وہ باعث ندامت و حسرت ہوگی پس دودھ پلانے والی کتنی اچھی ہوتی ہے، اور دودھ چھڑانے والی کتنی بری ہوتی ہے، (اس لیے کہ ملتے وقت وہ بھلی لگتی ہے اور جاتے وقت بری لگتی ہے ) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢١٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : حکومت اور منصب والی زندگی تو بھلی لگے گی لیکن اس کے بعد والی زندگی ابتر اور بری ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5385

【8】

(ایک یمنی قوم) اشعریوں کو حکومت سے نوازنا

عبداللہ بن زبیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ بنو تمیم کے کچھ سوار نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، ابوبکر (رض) نے کہا : قعقاع بن معبد کو سردار بنائیے، اور عمر (رض) نے کہا : اقرع بن حابس کو سردار بنائیے، پھر دونوں میں بحث و تکرار ہوگئی، یہاں تک کہ ان کی آواز بلند ہوگئی، تو اس سلسلے میں یہ حکم نازل ہوا اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے آگے مت بڑھو (یعنی ان سے پہلے اپنی رائے مت پیش کرو) یہاں تک کہ یہ آیت اس مضمون پر ختم ہوگئی : اگر وہ لوگ تمہارے باہر نکلنے تک صبر کرتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٦٨ (٤٣٦٧) ، تفسیر سورة الحجرات ١ (٤٨٤٥) ، ٢ (٤٨٤٧) ، الاعتصام ٥ (٧٣٠٢) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة الحجرات (٣٢٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کی بحث و تکرار کے سبب ابتداء سورة سے أجر عظیم تک ٣ آیتیں نازل ہوئیں، اور آیت : ولو أنهم صبروا حتى تخرج إليهم لکان خيرا لهم اقرع بن حابس (رض) کے آپ ﷺ کو زور زور سے یا محمد اخرج کہنے کی وجہ سے نازل ہوئی، ان میں سے اقرع شاعر تھے، یہی بات باب سے مناسبت ہے، یعنی : کسی شاعر ہونے کے سبب اس کو کسی عہدہ سے دور نہیں رکھا جاسکتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5386

【9】

جس وقت کسی کو فیصلہ کے لئے ثالث مقرر کریں اور وہ فیصلہ دے

ہانی (رض) سے روایت ہے کہ وہ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ نے لوگوں کو سنا کہ وہ ہانی کو ابوالحکم کی کنیت سے پکارتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلایا اور ان سے فرمایا : حکم تو اللہ ہے اور حکم کرنا بھی اسی کا کام ہے ، وہ بولے : میری قوم کے لوگوں کا جب کسی چیز میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس چلے آتے ہیں، میں ان کے درمیان فیصلے کرتا ہوں اور دونوں فریق رضامند ہوجاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے، تمہارے کتنے لڑکے ہیں ؟ وہ بولے : شریح، عبداللہ اور مسلم، آپ نے فرمایا : ان میں بڑا کون ہے ؟ وہ بولے : شریح، آپ ﷺ نے فرمایا : تو تم اب سے ابوشریح ہو ، پھر آپ نے ان کے لیے اور ان کے بیٹے کے لیے دعا کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الٔیدب ٧٠(٤٩٥٥) (تحفة الأشراف : ١١٧٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5387

【10】

خواتین کو حاکم بنانے کی ممانعت سے متعلق

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک چیز کی وجہ سے روکے رکھا ١ ؎ جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی، جب کسریٰ ہلاک ہوا تو آپ نے فرمایا : انہوں نے کسے جانشین بنایا ؟ لوگوں نے کہا : اس کی بیٹی کو، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے کسی عورت کو حکومت کے اختیارات دے دیے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٨٢ (٤٤٢٥) ، الفتن ١٨(٧٠٩٩) ، سنن الترمذی/الفتن ٧٥ (٢٢٦٢) ، مسند احمد (٥/٣٨، ٤٣، ٤٧، ٥١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے علی (رض) سے جب جنگ کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس فرمان رسول ﷺ کے سبب محفوظ رکھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5388

【11】

مثال پیش کر کے ایک حکم نکالنا اور حضرت ابن عباس کی حدیث میں ولید بن مسلم پر راویوں کا اختلاف

فضل بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ وہ قربانی کے دن (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھے، آپ کے پاس قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی اور بولی : اللہ کے رسول ! اللہ کا اپنے بندوں پر عائد کردہ فریضہ حج میرے والد پر کافی بڑھاپے میں واجب ہوا ہے، وہ سوار ہونے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے سوائے اس کے کہ انہیں باندھ دیا جائے، تو کیا میں ان کی جانب سے حج کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، ان کی طرف سے حج کرلو۔ اس لیے کہ اگر ان پر کوئی قرض ہوتا تو وہ بھی تم ہی ادا کرتیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٢٣ (١٨٥٣) ، صحیح مسلم/الحج ٧١ (١٣٣٥) ، سنن الترمذی/الحج ٨٥ (٩٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الحج ١٠ (٢٩٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٤٨) ، مسند احمد (١/٢١٢، ٣١٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٣ (١٨٧٣، ١٨٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گویا اس مثال کے ذریعہ آپ ﷺ نے اس عورت پر اس کے معذور باپ کے اوپر فرض حج کی ادائیگی کا فیصلہ دیا، اسی طرح دنیا کی ہر عدالت میں اشباہ و نظائر کے سہارے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5389

【12】

مثال پیش کر کے ایک حکم نکالنا اور حضرت ابن عباس کی حدیث میں ولید بن مسلم پر راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ پوچھا (فضل اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھے۔ ) وہ بولی : اللہ کے رسول ! اللہ کا اپنے بن دوں پر عائد کردہ فرض فریضۂ حج میرے والد پر اس وقت فرض ہوا ہے جب وہ کافی بوڑھے ہوچکے ہیں، وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے، تو ان کی طرف سے میرا حج کرنا کافی ہے ؟ (محمود نے (فهل يجزي یعنی کافی ہے ؟ کے بجائے) فهل يقضي (یعنی کیا ادا ہوجائے گا) کہا۔ ) آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : ہاں ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : اس حدیث کو زہری سے ایک سے زائد لوگوں نے روایت کیا ہے، لیکن ان لوگوں نے اس کا ذکر نہیں کیا جس کا ذکر ولید نے کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم : ٢٦٣٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ولید نے اس حدیث کو مسند فضل سے روایت کیا ہے جب کہ زہری سے روایت کرنے والے دوسرے شاگردوں نے اسے مسند ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5390

【13】

مثال پیش کر کے ایک حکم نکالنا اور حضرت ابن عباس کی حدیث میں ولید بن مسلم پر راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ فضل بن عباس (رض) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھے، اتنے میں قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ سے مسئلہ پوچھنے آئی، فضل (رض) اس کی طرف دیکھنے لگے وہ ان کی طرف دیکھنے لگی، رسول اللہ ﷺ فضل کا رخ دوسری طرف موڑ دیتے، وہ بولی : اللہ کے رسول ! اپنے بندوں پر اللہ تعالیٰ کا فرض کردہ فریضہ حج میرے والد پر اس وقت فرض ہوا جب وہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں، وہ سواری پر سیدھے بیٹھ بھی نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، اور یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٣٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5391

【14】

مثال پیش کر کے ایک حکم نکالنا اور حضرت ابن عباس کی حدیث میں ولید بن مسلم پر راویوں کا اختلاف

عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے کہا : اللہ کے رسول ! اللہ کا اپنے بندوں پر عائد کردہ فریضہ حج میرے والد پر اس وقت فرض ہوا جبکہ وہ کافی بوڑھے ہوچکے ہیں، وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے، اگر میں ان کی طرف سے حج کرلوں تو کیا وہ ان کی طرف سے ادا ہوجائے گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : ہاں ، فضل اس کی طرف مڑ مڑ کر دیکھنے لگے، وہ ایک حسین و جمیل عورت تھی، رسول اللہ ﷺ نے فضل کو پکڑا اور ان کا رخ دوسری جانب گھما دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٣٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5392

【15】

زیر نظر حدیث میں حضرت یحیی بن ابی اسحق پر اختلاف

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : میرے والد پر حج فرض ہوگیا ہے، اور وہ اس قدر بوڑھے ہوگئے ہیں کہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے، اور اگر انہیں باندھ دوں تو خطرہ ہے کہ وہ اس سے مر نہ جائیں، کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : اگر ان پر کچھ قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتے تو کیا وہ کافی ہوتا ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ نے فرمایا : تو تم اپنے باپ کی طرف سے حج کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٣٥ (شاذ) (اس واقعہ میں سائل کا مرد ہونا شاذ ہے ) قال الشيخ الألباني : شاذ مضطرب والمحفوظ أن السائل امرأة والمسؤول عنه أبوها صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5393

【16】

زیر نظر حدیث میں حضرت یحیی بن ابی اسحق پر اختلاف

فضل بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پیچھے سوار تھے، اتنے میں ایک شخص نے آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میری ماں بہت بڑی بوڑھی عورت ہیں، اگر میں انہیں سوار کر دوں تو وہ اسے پکڑ نہیں سکیں گی اور اگر انہیں باندھ دوں تو خطرہ ہے کہ وہ میرے اس عمل سے مر نہ جائیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہاری ماں پر کچھ قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے یا نہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو تم اپنی ماں کی طرف سے حج کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٤٤ (شاذ ) قال الشيخ الألباني : شاذ والمحفوظ خلافة كما ذکرت في الذي قبله صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5394

【17】

زیر نظر حدیث میں حضرت یحیی بن ابی اسحق پر اختلاف

فضل بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے نبی ! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، حج نہیں کرسکتے، اگر میں انہیں سوار کر دوں، تو اسے پکڑ کر بیٹھ نہیں سکیں گے، کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے باپ کی طرف سے حج کرو ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : سلیمان کا فضل بن عباس (رض) سے سماع ثابت نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٤٤ (شاذ ) قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5395

【18】

زیر نظر حدیث میں حضرت یحیی بن ابی اسحق پر اختلاف

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : میرے والد کافی بوڑھے ہیں، کیا میں ان کی طرف سے حج کروں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، تمہارا کیا خیال ہے اگر ان پر قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتے تو کافی ہوتا یا نہیں ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٣٨٩) (شاذ ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5396

【19】

علماء جس امر پر اتفاق کریں اس کے مطابق حکم کرنے سے متعلق

عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایک دن عبداللہ بن مسعود (رض) سے بہت سارے موضوعات پر بات چیت کی، عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : ہم پر ایک زمانہ ایسا بھی گزر چکا ہے کہ ہم نہ تو کوئی فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کے قابل تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقدر کر رکھا تھا کہ ہم اس مقام کو پہنچے جو تم دیکھ رہے ہو، لہٰذا آج کے بعد سے جس کسی کو فیصلہ کرنے کی ضرورت آپڑے تو چاہیئے کہ وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں ہے، پھر اگر ایسا کوئی معاملہ اسے درپیش آئے جو کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نبی اکرم ﷺ نے کیا تھا، اور اگر کوئی ایسا معاملہ ہو جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ کا کوئی فیصلہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نیک لوگوں نے کیا ہو ١ ؎، اور اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو، نہ نبی اکرم ﷺ کا اس سلسلے میں کوئی فیصلہ ہو اور نہ ہی نیک لوگوں کا) تو اسے چاہیئے کہ اپنی عقل سے اجتہاد کرے اور یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر ہے، مجھے ڈر ہے، کیونکہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں تو تم ان باتوں کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالیں اور وہ کرو جو شک سے بالاتر ہوں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ حدیث بہت اچھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٣٩٩) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: مراد نیک علماء ہیں، کیونکہ ابن مسعود (رض) کے زمانہ میں صالحین صحابہ کرام ہی تھے، اور ان کی اکثریت عالم تھی، خلاصہ کلام یہ کہ صحابہ کرام کا اجماع مراد ہے، اسی طرح ہر زمانہ کے نیک علماء و ائمہ کرام کا اجماع بھی دلیل ہوگا، اور چونکہ مراد زمانہ کے علماء کا اجماع ہے اس لیے اس سے ایک عالم کی تقلید شخصی ہرگز مراد نہیں ہوسکتی، جیسا کہ بعض مقلدین نے اس سے تقلید شخصی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5397

【20】

علماء جس امر پر اتفاق کریں اس کے مطابق حکم کرنے سے متعلق

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر ایک ایسا وقت آیا کہ اس وقت نہ ہم فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کے اہل تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے وہ مقام مقدر کردیا جہاں تم ہمیں دیکھ رہے ہو، لہٰذا جس کسی کو آج کے بعد کوئی معاملہ درپیش ہو تو وہ اس کا فیصلہ اس کے مطابق کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں ہے، اور اگر اس کے پاس کوئی ایسا معاملہ آئے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہیں ہے تو وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نبی اکرم ﷺ نے اس بارے میں کیا تھا، اور اگر کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ ہی نبی اکرم ﷺ نے اس بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نیک لوگوں نے کیا ہو، اور تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے، مجھے ڈر لگ رہا ہے، کیونکہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ شبہ والی چیزیں ہیں، لہٰذا جو شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور جو شک میں نہ ڈالے اسے لے لو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩١٩٧) (صحیح) (اس کے راوی ” حریث “ مجہول ہیں، لیکن پچھلی سند صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5398

【21】

علماء جس امر پر اتفاق کریں اس کے مطابق حکم کرنے سے متعلق

شریح سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر (رض) سے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے انہیں ایک خط لکھا تو انہوں نے لکھا : فیصلہ کرو اس کے مطابق جو کتاب اللہ (قرآن) میں ہے، اور اگر وہ کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو سنت رسول (حدیث) کے مطابق، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول (حدیث) میں تو اس کے مطابق فیصلہ کرو جو نیک لوگوں نے کیا تھا، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول ﷺ میں اور نہ ہی نیک لوگوں کا کوئی فیصلہ ہو تو اگر تم چاہو تو آگے بڑھو (اور اپنی عقل سے کام لے کر فیصلہ کرو) اور اگر چاہو تو پیچھے رہو (فیصلہ نہ کرو) اور میں پیچھے رہنے ہی کو تمہارے حق میں بہتر سمجھتا ہوں۔ والسلام علیکم۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩١٩٧) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5399

【22】

آیت کریمہ|"ومن لم یحکم بما انزل اللہ الآیہ کی تفسیر سے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے بعد کئی بادشاہ ہوئے جن ہوں نے تورات اور انجیل کو بدل ڈالا، ان میں کچھ مومن تھے جو توراۃ پڑھتے تھے، ان کے بادشاہوں سے عرض کیا گیا : ہمیں اس سے زیادہ سخت گالی نہیں ملتی جو یہ ہمیں دیتے ہیں، یہ لوگ پڑھتے ہیں جس نے اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کیا وہ کافر ہیں یہ لوگ اس قسم کی آیات پڑھتے ہیں ور ساتھ ہی وہ چیزیں پڑھتے ہیں جس میں ہمارا عیب نکلتا ہے تو انہیں بلا کر کہو کہ وہ بھی ویسے ہی پڑھیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور اسی طرح کا ایمان لائیں جیسا ہم لائے ہیں، چناچہ اس (بادشاہ) نے انہیں بلایا اور اکٹھا کیا اور کہا : قتل منظور کرو یا پھر توراۃ اور انجیل کو پڑھنا چھوڑ دو ، البتہ وہ پڑھو جو بدل دیا گیا ہے۔ وہ بولے : تمہارا اس سے کیا مقصد ہے ؟ ہمیں چھوڑ دو ۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا : ہمارے لیے ایک مینار بنادو اور ہمیں اس پر چڑھا دو پھر ہمیں کھانے پینے کی کچھ چیزیں دے دو ، تو ہم تمہارے پاس کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا : ہمیں چھوڑ دو ، ہم زمین میں گھومیں ور بھٹکتے پھریں اور جنگلی جانوروں کی طرح پئیں، پھر اگر تم ہمیں اپنی زمین میں دیکھ لو تو مار ڈالنا، ان میں سے بعض لوگوں نے کہا : ہمارے لیے صحراء و بیابان میں گھر بنادو ، ہم خود کنویں کھود لیں گے اور سبزیاں بولیں گے، پھر پلٹ کر تمہارے پاس نہ آئیں گے اور نہ تمہارے پاس سے گزریں گے، اور کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس کا دوست یا رشتہ دار اس میں نہ ہو۔ چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، تو اللہ تعالیٰ نے آیت : ورهبانية ابتدعوها ما کتبناها عليهم إلا ابتغاء رضوان اللہ فما رعوها حق رعايتها اور جو درویشی انہوں نے خود نکالی تھی ہم نے انہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے، پھر انہوں نے اس کی بھی پوری رعایت نہیں کی (الحدید : ٢٧ ) نازل فرمائی، کچھ دوسرے لوگوں نے کہا : ہم بھی فلاں کی طرح عبادت کریں گے اور فلاں کی طرح گھومیں گے اور فلاں کی طرح گھر بنائیں گے حالانکہ وہ شرک میں مبتلا تھے، یہ ان لوگوں کے ایمان سے باخبر نہ تھے جن کی پیروی کا یہ دم بھر رہے تھے، پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو بھیجا تو ان میں سے بہت تھوڑے سے لوگ بچے تھے، ایک شخص اپنے عبادت خانے سے اترا اور جنگل میں گھومنے والا گھوم کر لوٹا اور گرجا گھر میں رہنے والا گرجا گھر سے لوٹا اور یہ سب کے سب آپ پر ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ وآمنوا برسوله يؤتكم كفلين من رحمته اے لوگو ! جو ایمان رکھتے ہو، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کا دوگنا حصہ دے گا (الحدید : ٢٩ ) دوہرا اجر ان کے عیسیٰ ، تورات اور انجیل پر ایمان کے بدلے اور محمد ﷺ پر ایمان اور تصدیق کے بدلے، پھر فرمایا : وہ تمہارے چلنے کے لیے ایک روشنی دے گا یعنی قرآن اور نبی اکرم ﷺ کی پیروی تاکہ اہل کتاب یعنی وہ اہل کتاب جو تمہاری مشابہت کرتے ہیں جان لیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٥٧٥) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5400

【23】

قاضی کا ظاہر شرع پر حکم

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ میرے سامنے مقدمات لاتے ہو، میں تو بس تمہاری طرح ایک انسان ہوں ١ ؎، ممکن ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو، لہٰذا اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا حق دلا دوں (اور وہ حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو اسے وہ نہ لے کیونکہ میں تو اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ١٦ (٢٤٩٨) ، الشہادات ٢٧ (٢٦٨٠) ، الحیل ١٠ (٦٩٦٧) ، الأحکام ٢٠ (٧١٦٩) ، ٢٩ (٧١٨١) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٣ (١٧١٣) ، سنن ابی داود/الأقضیة ٧ (٣٥٨٣) ، سنن الترمذی/الأحکام ١١ (١٣٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١١ (٢٣١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦١) ، موطا امام مالک/الأقضیة ١(١) ، مسند احمد (٦/٢٠٣، ٢٩٠، ٣٠٧، ٣٠٨) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٤٢٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی غیب کا علم صرف اللہ کو ہے، میں تو صرف ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5401

【24】

حاکم اپنی عقل سے فیصلہ کرسکتا ہے

ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو عورتیں تھیں ان دونوں کے ساتھ ان کا ایک ایک بچہ تھا، اتنے میں بھیڑیا آیا اور ایک کا بچہ اٹھا لے گیا، تو اس نے دوسری سے کہا : وہ تمہارا بچہ لے گیا، دوسری بولی : تمہارا بچہ لے گیا، پھر وہ دونوں مقدمہ لے کر داود (علیہ السلام) کے پاس گئیں تو آپ نے بڑی کے حق میں فیصلہ کیا۔ پھر وہ دونوں سلیمان (علیہ السلام) کے پاس گئیں اور ان سے بیان کیا تو انہوں نے کہا : ایک چھری لاؤ، میں اسے دونوں کے درمیان تقسیم کردیتا ہوں، چھوٹی بولی : ایسا نہ کیجئیے، اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے، وہ اسی کا بیٹا ہے، تو انہوں نے چھوٹی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! سوائے اس دن کے ہم نے کبھی چھری کا نام سکین نہیں سنا، ہم) تو اسے مدیہ کہا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الَٔنبیاء ٤٠ (٣٤٢٧) ، والفرائض ٣٠ (٦٧٦٩) ، (تحفة الُٔشراف : ١٣٧٢٨) ، مسند احمد ٢/٣٢٢٢٢، ٣٤٠، وانظر حدیث رقم : ٥٤٠٥، ٥٤٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5402

【25】

قاضی و حاکم کے لئے اس کی گنجائش کہ جو کام نہ کرنا ہو اس کو ظاہر کرے کہ میں یہ کام کروں گا تاکہ حق ظاہر ہو جائے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو عورتیں نکلیں، ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے، ان میں سے ایک پر بھیڑیئے نے حملہ کردیا اور اس کے بچے کو اٹھا لے گیا، وہ دونوں اس بچے کے سلسلے میں جو باقی تھا جھگڑتی ہوئی داود (علیہ السلام) کے پاس آئیں، تو انہوں نے ان میں سے بڑی کے حق میں فیصلہ دیا، پھر وہ سلیمان (علیہ السلام) کے پاس گئیں، وہ بولے : تم دونوں کا کیا قضیہ ہے ؟ چناچہ انہوں نے پورا واقعہ بیان کیا، تو انہوں نے کہا : چھری لاؤ، بچے کے دو حصے کر کے ان دونوں کے درمیان تقسیم کروں گا ١ ؎، چھوٹی عورت بولی : کیا آپ اسے کاٹیں گے ؟ کہا : ہاں، وہ بولی : ایسا نہ کیجئیے، اس میں جو میرا حصہ ہے وہ بھی اسی کو دے دیجئیے، سلیمان (علیہ السلام) نے کہا : یہ تمہارا بیٹا ہے، چناچہ آپ نے اس کے حق میں فیصلہ کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الَٔقضیة ١٠ (١٧٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسی جملے میں باب سے مطابقت ہے، سلیمان (علیہ السلام) کا مقصد بچے کو حقیقت میں ٹکڑے کر کے تقسیم کرنا نہیں تھا، بس اس طریقے سے وہ بچے کی حقیقی ماں کو پہچاننا چاہتے تھے، واقعی میں جس کا بچہ تھا وہ (چھوٹی عورت) بچے کے ٹکڑے کرنے پر راضی نہیں ہوئی، جب کہ جس کا بچہ نہیں تھا وہ خاموش رہی، اسے دوسری کے بچے سے کیا محبت ہوسکتی تھی ؟ اس لیے ٹکڑے کرنے پر خاموش رہی، اس طرح آپ نے حقیقت کا پتہ چلا لیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5403

【26】

ایک حاکم اپنے برابر والے کا یا اپنے سے زیادہ درجہ والے شخص کا فیصلہ توڑ سکتا ہے اگر اس میں غلطی کا علم ہو

ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دو عورتیں نکلیں، ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے، ان میں سے ایک پر بھیڑیئے نے حملہ کردیا اور اس کے بچے کو اٹھا لے گیا، وہ اس بچے کے سلسلے میں جو باقی رہ گیا تھا جھگڑتی ہوئی داود (علیہ السلام) کے پاس آئیں، انہوں نے ان میں سے بڑی کے حق میں فیصلہ دیا، وہ سلیمان (علیہ السلام) کے پاس گئیں تو انہوں نے کہا : تم دونوں کے درمیان کیا فیصلہ کیا ؟ (چھوٹی) بولی بڑی کے حق میں فیصلہ کیا، سلیمان (علیہ السلام) نے کہا : میں اس بچے کو دو حصوں میں تقسیم کروں گا، ایک حصہ اس کے لیے اور دوسرا حصہ اس کے لیے ہوگا، بڑی عورت بولی : ہاں ! آپ اسے کاٹ دیں، جب کہ چھوٹی عورت نے کہا : ایسا نہ کیجئیے، یہ بچہ اسی کا ہے، چناچہ انہوں نے اس کے حق میں فیصلہ کیا جس نے بچہ کو کاٹنے سے روکا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٤٠٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے باپ داود (علیہ السلام) کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، یہی باب سے مطابقت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5404

【27】

جب کوئی حاکم ناحق فیصلہ کر دے تو اس کو رد کرنا صحیح ہے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خالد بن ولید (رض) کو بنی جذیمہ کی طرف روانہ کیا، خالد (رض) نے انہیں اسلام کی دعوت دی، مگر وہ اچھی طرح اسلمنا ہم اسلام لائے نہ کہہ سکے بلکہ کہنے لگی : ہم نے اپنا دین چھوڑا، چناچہ خالد (رض) نے بعض کو قتل کردیا اور بعض کو قیدی بنا لیا اور ہر شخص کو اس کا قیدی حوالے کردیا، جب صبح ہوئی تو خالد (رض) نے ہم میں سے ہر شخص کو اپنا قیدی قتل کرنے کا حکم دیا، ابن عمر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! میں اپنا قیدی قتل نہیں کروں گا اور نہ ہی (میرے ساتھیوں میں سے) کوئی دوسرا، پھر ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور خالد (رض) کی اس کارروائی کا آپ سے ذکر کیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا (اور آپ دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھی) : اے اللہ میں اس سے برأت کا اعلان کرتا ہوں جو خالد نے کیا ١ ؎۔ بشر کی روایت میں ہے کہ آپ نے یوں فرمایا : اے اللہ ! میں اس سے بَری ہوں جو خالد نے کیا ہے ، ایسا آپ نے دو مرتبہ کہا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٥٨ (٤٣٣٩) ، الٔمحکام ٣٥ (٧١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٤١) ، مسند احمد (٢/١٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہی باب سے مناسبت ہے، آپ ﷺ نے خالد بن ولید کے فیصلہ کو رد کردیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5405

【28】

کون سی باتوں سے (قاضی و) حاکم کو بچنا چاہیے

عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے لکھوایا تو میں نے عبیداللہ بن ابی بکرہ کے پاس لکھا وہ سجستان کے قاضی تھے، تم دو لوگوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : کوئی شخص دو لوگوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الٔنحکام ١٣ (٧١٥٨) ، صحیح مسلم/الِٔقضیة ٧ (١٧١٧) ، سنن ابی داود/الٔدقضیة ٩ (٣٥٨٩) ، سنن الترمذی/الْٔحکام ٧ (١٣٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الٔرحکام ٤ (٢٣١٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٧٦) ، مسند احمد (٥/٣٦، ٣٧، ٣٨، ٤٦، ٥٢) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٤٢٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5406

【29】

جو حاکم ایماندار ہو تو وہ بحالت غصہ فیصلہ کرسکتا ہے

زبیر بن عوام (رض) سے روایت ہے کہ انصار کا ایک شخص سے جو بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک ہوا تھا حرہ کی نالیوں کے سلسلہ میں ان کا جھگڑا ہوگیا۔ وہ دونوں ہی اس سے اپنے کھجوروں کے باغ کی سنیچائی کرتے تھے۔ انصاری نے کہا : پانی چھوڑ دو وہ اس سے گزر کر چلا جائے، انہوں نے پانی چھوڑنے سے انکار کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زبیر ! پہلے سنیچائی کرو، پھر پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو ، انصاری کو غصہ آگیا وہ بولا : اللہ کے رسول ! وہ (زبیر) آپ کے پھوپھی زاد (بھائی) ہیں نا ؟ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا ١ ؎، پھر فرمایا : زبیر ! سینچائی کرو، پھر پانی اس قدر روکو کہ میڈوں تک ہوجائے ، اس طرح رسول اللہ ﷺ نے زبیر کو ان کا پورا پورا حق دلایا، حالانکہ اس سے پہلے آپ نے جو مشورہ دیا تھا اس میں ان کا بھی فائدہ تھا اور انصاری کا بھی۔ لیکن جب رسول اللہ ﷺ کو انصاری نے غصہ دلایا تو آپ نے زبیر (رض) کو صریح حکم دے کر ان کا حق دلا دیا۔ زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی ہے : ‏فلا وربک لا يؤمنون حتى يحكموک فيما شجر بينهم نہیں، آپ کے رب کی قسم ! وہ مومن نہیں یہاں تک کہ وہ اپنے جھگڑوں میں آپ کو حکم تسلیم نہ کرلیں (النساء : ٦٥ ) (اس حدیث کے دو راوی ہیں) اس واقعہ کو بیان کرنے میں ایک کے یہاں دوسرے کے بالمقابل کچھ کمی بیشی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٦٣٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الشرب والمساقاة ٦-٨ (٢٣٦٠- ٢٣٦٢) ، والصلح ١٢ (٢٧٠٨) ، و تفسیر سورة النساء ١٢ (٤٥٨٥) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣٦ (٢٣٥٧) ، سنن ابی داود/الأقضیة ٣١ (٣٦٣٧) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٦ (١٣٦٣) ، و تفسیر سورة النساء، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٥) ، والرہون ٢٠ (٢٤٨٠) ، مسند احمد (١/١٦٥) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٥٤١٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہی باب سے مطابقت ہے کہ غصہ کی حالت میں ایک فیصلہ صادر فرمایا، چونکہ آپ امین تھے اس لیے آپ کو غصہ کی حالت میں بھی فیصلہ کرنے کا حق تھا، عام قاضیوں کو یہ حق نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5407

【30】

اپنے گھر میں فیصلہ کرنا

کعب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن ابی حدرد (رض) سے اپنے قرض کا جو ان کے ذمہ تھا تقاضا کیا، ان دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کو سنائی دیں، آپ اپنے گھر میں تھے، چناچہ آپ ان کی طرف نکلے، پھر اپنے کمرے کا پردہ اٹھایا اور پکارا : کعب ! وہ بولے : حاضر ہوں اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : اتنا قرض معاف کر دو اور آپ نے آدھے اشارہ کیا۔ کہا : میں نے معاف کیا، پھر آپ نے (ابن ابی حدرد سے) کہا : اٹھو اور قرض ادا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧١ (٤٥٧) ، ٧٣ (٤٧١) ، الخصومات ٤ (٢٤١٨) ، ٩ (٢٤٢٤) ، الصلح ١٠ (٢٧٠٦) ، ١٤ (٢٧١٠) ، صحیح مسلم/البیوع ٢٥ (المساقاة ٤) (١٥٥٨) ، سنن ابی داود/الأقضیة (٣٥٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ١٨ (٢٤٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١١١٣٠) ، مسند احمد (٦/٣٩٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٩ (٢٦٢٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5408

【31】

مدد چاہنے سے متعلق

عباد بن شرحبیل (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے چچاؤں کے ساتھ مدینے آیا تو وہاں کے ایک باغ میں گیا اور ایک بالی (توڑ کر) مسل ڈالی، اتنے میں باغ کا مالک آگیا، اس نے میری چادر چھین لی اور مجھے مارا، میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ سے اس کے خلاف مدد چاہی، چناچہ آپ نے اس شخص کو بلا بھیجا۔ لوگ اسے لے کر آئے، آپ نے فرمایا : اس اقدام پر تمہیں کس چیز نے اکسایا ؟ وہ بولا : اللہ کے رسول ! یہ میرے باغ میں آیا اور بالی توڑ کر مسل دی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہ تو تم نے اسے بتایا جب کہ وہ ناسمجھ تھا، نہ تم نے اسے کھلایا جبکہ وہ بھوکا تھا، اس کی چادر اسے لوٹا دو ، اور مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک وسق یا آدھا وسق دینے کا حکم دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٩٣ (٢٦٢٠، ٢٦٢١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٧ (٢٢٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٦١) ، مسند احمد (٤/١٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوداؤد کے الفاظ ہیں وأعطانی یعنی اس باغ والے نے مجھے ایک یا آدھا صاع غلہ دیا یعنی اس نے جو میری ساتھ زیادتی کی تھی اس کے بدلے میں آپ ﷺ نے میرے لیے اس تاوان کا حکم دیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5409

【32】

خواتین کو عدالت میں حاضر کرنے سے بچانے سے متعلق

ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی جھگڑا لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، ان میں سے ایک نے کہا : ہمارے درمیان کتاب اللہ (قرآن) سے فیصلہ فرمایئے اور دوسرا جو زیادہ سمجھدار تھا بولا : ہاں، اللہ کے رسول اور مجھے کچھ بولنے کی اجازت دیجئیے، وہ کہنے لگا : میرا بیٹا اس آدمی کے یہاں نوکر تھا، اس نے اس کی عورت کے ساتھ زنا کیا، تو لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کی سزا رجم ہے، چناچہ میں نے اسے بدلے میں سو بکریاں اور اپنی ایک لونڈی دے دی، پھر میں نے اہل علم سے پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ میرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے، اور رجم کی سزا اس کی عورت کی تھی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں تمہارے درمیان کتاب اللہ (قرآن) کے مطابق فیصلہ کروں گا، تمہاری بکریاں اور لونڈی تو تمہیں لوٹائی جائیں گی ، اور آپ نے اس کے بیٹے کو سو کوڑے لگائے اور اسے ایک سال کے لیے جلا وطن کردیا، اور انیس (رضی اللہ عنہ) کو حکم دیا کہ وہ دوسرے کی بیوی کے پاس جائیں ١ ؎، اگر وہ اس جرم کا اعتراف کرلے تو اسے رجم کر دو ، چناچہ اس نے اعتراف کرلیا تو انہوں نے اسے رجم کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ١٣ (٢٣١٤) ، الصلح ٥ (٢٦٩٥، ٢٦٩٦) ، الشروط ٩ (٢٧٢٤، ٢٧٢٥) ، الأیمان ٣ (٦٦٣٣، ٦٦٣٤) ، الحدود ٣٠ (٦٨٢٧، ٦٨٢٨) ، ٣٤ (٦٨٣٥) ، ٣٨ (٦٨٤٢) ، ٤٦ (٦٨٦٠) ، الأحکام ٤٣ (٧١٩٣) ، الآحاد ١ (٧٢٥٨) ، صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٧) ، سنن ابی داود/الحدود ٢٥ (٤٤٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٧ (٢٥٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٥٥) ، موطا امام مالک/الحدود ١ (٦) ، مسند احمد ٤/١١٥، ١١٦، سنن الدارمی/الحدود ١٢ (٢٣٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسی میں باب سے مطابقت ہے، یعنی : وہ عورت مجلس قضاء میں طلب نہیں کی گئی، اسی لیے آپ نے انیس (رض) کو اس کے پاس اس کے گھر بھیجا، ہاں اگر کسی معاملہ میں عورتوں کی حاضری مجلس قضاء میں ضروری ہو تو پردے کے ساتھ ان کو لایا جاسکتا ہے، اور پردے کی آڑ سے ان کا بیان لیا جاسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5410

【33】

خواتین کو عدالت میں حاضر کرنے سے بچانے سے متعلق

ابوہریرہ، زید بن خالد اور شبل رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے، تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق فیصلہ کیجئے، پھر اس کا فریق مخالف کھڑا ہوا اور وہ اس سے زیادہ سمجھ دار تھا، اس نے کہا : اس نے ٹھیک کہا ہے، آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق فیصلہ فرمایئے۔ آپ نے فرمایا : بتاؤ تو اس نے کہا : میرا بیٹا اس کے یہاں نوکر تھا، تو وہ اس کی بیوی کے ساتھ زنا کر بیٹھا۔ چناچہ میں نے اس کے بدلے سو بکریاں اور ایک خادم (غلام) دے دیا (گویا اسے معلوم تھا کہ اس کے بیٹے پر رجم ہے، چناچہ اس نے تاوان دے دیا) ، پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق فیصلہ کروں گا : رہیں سو بکریاں اور خادم (غلام) تو وہ تمہیں لوٹائے جائیں گے، اور تمہارے لڑکے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے، اور انیس ! تم صبح اس کی عورت کے پاس جاؤ، اگر وہ اقبال جرم کرلے تو اسے رجم کردینا ، چناچہ وہ گئے، اس نے اقبال جرم کیا تو انہوں نے اسے رجم کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5411

【34】

جس نے زنا کیا ہو حاکم کو اس کا طلب کرنا

ابوامامہ بن سہل بن حنیف سے (مرسلاً ) ١ ؎ روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک عورت لائی گئی، جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا تو آپ نے فرمایا : کس کے ساتھ ؟ وہ بولی : اپاہج سے جو سعد (رض) کے باغ میں رہتا ہے، آپ نے اسے بلا بھیجا چناچہ وہ لاد کر لایا گیا اور اسے آپ کے سامنے رکھا گیا، پھر اس نے اعتراف کیا تو رسول اللہ ﷺ نے کھجور کے خوشے منگا کر اسے مارا اور اس کے لنجے پن کی وجہ سے اس پر رحم کیا اور اس پر تخفیف کی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٤٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحدود ٣٤ (٤٤٧٢) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٨ (٢٥٧٤) ، مسند احمد (٥/٢٢٢٢٢) (کلھم بزیادة ” سعید بن سعد بن عبادة “ أو ” بعض أصحاب النبی ﷺ “ بعد ” أبی أمامة “ ) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نسائی کی روایت مرسل ہے، لیکن دیگر لوگوں کے یہاں سعید بن سعد بن عبادہ (ایک چھوٹے صحابی) یا : بعض اصحاب نبی اکرم ﷺ کا واسطہ موجود ہے، اس لیے حدیث متصل مرفوع صحیح ہے۔ ٢ ؎: چونکہ وہ غیر شادی شدہ تھا اس لیے اس کو رجم کی سزا نہیں دی گئی، اور کوڑے میں بھی تخفیف سے کام لیا گیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5412

【35】

حاکم کا رعایا کے درمیان صلح کرانے کے لئے خود جانا

سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ انصار کے دو قبیلوں کے درمیان تکرار ہوئی یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کو پتھر مارنے لگے، تو نبی اکرم ﷺ ان کے درمیان صلح کرانے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا، تو بلال (رض) نے اذان دی اور آپ کا انتظار کیا اور رکے رہے، پھر اقامت کہی اور ابوبکر (رض) آگے بڑھے، اتنے میں نبی اکرم ﷺ آگئے، ابوبکر (رض) لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، جب لوگوں نے آپ کو دیکھا تو (بتانے کے لیے) تالی بجا دی۔ (ابوبکر نماز میں کسی اور طرف توجہ نہیں دیتے تھے) پھر جب انہوں نے ان سب کی تالی کی آواز سنی تو مڑے، دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ہیں، انہوں نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا، تو آپ نے وہیں رہنے کا اشارہ کیا، تو ابوبکر (رض) نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور الٹے پاؤں پیچھے ہٹے، پھر رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور نماز پڑھائی، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے نماز پوری کرلی تو فرمایا : تمہیں وہیں رکنے سے کس چیز نے روکا ؟ وہ بولے : یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ ابوقحافہ کے بیٹے کو اپنے نبی کے آگے دیکھے، پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں نماز میں کوئی چیز پیش آتی ہے تو تالی بجانے لگتے ہو، یہ تو عورتوں کے لیے ہے، تم میں سے کسی کو جب کوئی بات پیش آئے تو وہ سبحان اللہ کہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٤٦٩٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العمل فی الصلاة ٣ (١٢٠١) ، ١٦ (١٢١٨) ، الصلح ١ (٢٦٩٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٢ (٤٢١) ، مسند احمد (٥/٣٣٠، ٣٣١، ٢٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5413

【36】

حاکم دونوں فریق میں سے کسی ایک کو مصالحت کے واسطے اشارہ کرسکتا ہے

کعب بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ عبداللہ بن ابی حدرد اسلمی (رض) پر ان کا قرضہ تھا، وہ راستے میں مل گئے تو انہیں پکڑ لیا، پھر ان دونوں میں تکرار ہوگئی، یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہوگئیں، ان کے پاس سے رسول اللہ ﷺ کا گزر ہوا تو آپ نے فرمایا : کعب ! پھر اپنے ہاتھ سے ایک اشارہ کیا گویا آپ کہہ رہے تھے : آدھا ، چناچہ انہوں نے آدھا قرضہ لے لیا اور آدھا چھوڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٤١٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5414

【37】

حاکم معاف کرنے کے واسطے اشارہ کرسکتا ہے

وائل (رض) کہتے ہیں کہ میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھا جب قاتل کو مقتول کا ولی ایک رسی میں باندھ کر گھسیٹتا ہوا لایا، رسول اللہ ﷺ نے مقتول کے ولی سے فرمایا : کیا تم معاف کر دو گے ؟ وہ بولا : نہیں، آپ نے فرمایا : کیا دیت لو گے ؟ وہ بولا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو اسے قتل کرو گے ؟ کہا : جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے لے جاؤ (اور قتل کرو) جب وہ چلا اور آپ کے پاس سے چلا گیا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا : کیا معاف کر دو گے ؟ کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : دیت لو گے ؟ کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : تو اسے قتل کرو گے ؟ کہا : ہاں، آپ نے فرمایا : لے جاؤ اسے (اور قتل کرو) جب وہ چلا اور آپ کے پاس سے چلا گیا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا : کیا معاف کر دو گے ؟ کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : دیت لو گے ؟ کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : تو اسے قتل کرو گے ؟ کہا : ہاں، آپ نے فرمایا : لے جاؤ اسے (اور قتل کرو) پھر رسول اللہ ﷺ نے اس وقت فرمایا : اگر تم اسے معاف کر دو تو یہ اپنے گناہ اور تمہارے (مقتول) ساتھی کے گناہ سمیٹ لے گا ، یہ سن کر اس نے معاف کردیا اور اسے چھوڑ دیا، میں نے دیکھا کہ وہ اپنی رسی کھینچ رہا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٧٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5415

【38】

حاکم پہلے نرمی کرنے کا حکم دے سکتا ہے؟

عبداللہ بن زبیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ انصار کے ایک شخص نے زبیر (رض) سے حرہ کی نالیوں کے سلسلے میں جھگڑا کیا، (جن سے وہ باغ کی سینچائی کرتے تھے) اور مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آئے، انصاری نے کہا : پانی کو بہتا چھوڑ دو ، تو انہوں نے انکار کیا، ان دونوں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس مقدمہ پیش کیا، تو آپ نے فرمایا : زبیر ! سینچائی کرلو پھر پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو ، انصاری کو غصہ آگیا، وہ بولا : اللہ کے رسول ! وہ آپ کے پھوپھی زاد ہیں نا ؟ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر آپ نے فرمایا : زبیر ! سینچائی کرو، اور پانی مینڈوں تک روک لو ، زبیر (رض) کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ یہ آیت : فلا وربک لا يؤمنون‏ نہیں، تمہارے رب کی قسم ! وہ مومن نہیں ہوں گے (النساء : ٦٥ ) اسی سلسلے میں اتری۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المساقات ٦ (٢٣٥٩، ٢٣٦٠) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣٦ (٢٣٥٧) ، سنن ابی داود/الِٔقضیة ٣١ (٣٦٣٧) ، سنن الترمذی/الٔؤحکام ٢٦ (١٣٦٣) ، تفسیر سورة النساء (٣٠٢٧) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٧٥) ، مسند احمد (٤/٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5416

【39】

مقدمہ کے فیصلہ سے قبل حاکم کے سفارش کرنے سے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر غلام تھے جنہیں مغیث کہا جاتا تھا، گویا میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس (بریرہ) کے پیچھے پیچھے روتے پھر رہے ہیں، اور ان کے آنسو ڈاڑھی پر بہہ رہے ہیں، نبی اکرم ﷺ نے عباس (رض) سے کہا : عباس ! کیا آپ کو حیرت نہیں ہے کہ مغیث بریرہ سے کتنی محبت کرتا ہے اور بریرہ مغیث سے کس قدر نفرت کرتی ہے ؟ ، رسول اللہ ﷺ نے اس (بریرہ) سے فرمایا : اگر تم اس کے پاس واپس چلی جاتی (تو بہتر ہوتا) اس لیے کہ وہ تمہارے بچے کا باپ ہے ، وہ بولیں : اللہ کے رسول ! کیا مجھے آپ حکم دے رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، میں تو سفارش کر رہا ہوں ، وہ بولیں : پھر تو مجھے اس کی ضرورت نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ١٦ (٥٢٨٣) ، سنن ابی داود/الطلاق ١٩ (٢٢٣١) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٩ (٢٠٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٤٨) ، مسند احمد (١/٢١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مغیث اور بریرہ (رضی اللہ عنہما) کے معاملہ میں عدالتی قانونی فیصلہ تو آپ ﷺ نے یہی فرمایا کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزادی مل جانے کے بعد مغیث کے نکاح میں نہ رہنے کا حق حاصل ہے مگر اس عدالتی فیصلہ سے پہلے بریرہ رضی اللہ عنہا سے قانوناً نہیں اخلاقی طور پر مغیث کے نکاح میں باقی رہنے کی سفارش کی، یہی باب سے مناسبت ہے، اور اس طرح کی سفارش صرف ایسے ہی معاملات میں کی جاسکتی ہے، جس میں مدعی کو اختیار ہو (جیسے بریرہ کا معاملہ اور قصاص ودیت والا معاملہ وغیرہ) لیکن چوری و زنا کے حدود کے معاملے میں اس طرح کی سفارش نہیں کی جاسکتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5417

【40】

اگر کسی شخص کو مال کی ضرورت ہو اور وہ شخص اپنے مال کو ضائع کر دے تو حاکم روک سکتا ہے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ انصار کے ایک شخص نے مدابرہ کے طور پر اپنا ایک غلام آزاد کردیا، حالانکہ وہ ضرورت مند تھا اور اس پر قرض بھی تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اسے آٹھ سو درہم میں بیچ کر مال اسے دے دیا اور فرمایا : اپنا قرض ادا کرو اور اپنے بال بچوں پر خرچ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٦٥٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مدابرہ یہ کہنا کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5418

【41】

فیصلہ کرنے میں تھوڑا اور زیادہ مال برابر ہے

ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو آدمی کسی مسلمان آدمی کا حق قسم کھا کر مار لے گا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا اور جنت اس پر حرام کر دے گا ، ایک شخص نے آپ سے کہا : اگرچہ وہ معمولی سی چیز ہو ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : گرچہ وہ پیلو کی ایک ڈال ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٦١ (١٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٨ (٢٣٢٤) ، موطا امام مالک/الأقضیة ٨ (١١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٤) ، مسند احمد (٥/٢٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب جھوٹی قسم کھا کر پیلو کی ایک ڈال ہڑپ کرلینے پر اتنی سخت وعید ہے تو اتنی سی معمولی چیز کے بارے میں عدالتی فیصلہ بھی ہوسکتا ہے، یہی باب سے مناسبت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5419

【42】

جس وقت حاکم کسی شخص کو پہچان رہا ہو اور وہ شخص موجود نہ ہو تو اس کے بارے میں فیصلہ کرنا صحیح ہے

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہند رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! ابوسفیان بخیل شخص ہیں، وہ مجھ پر اور میرے بچوں پر اس قدر نہیں خرچ کرتے ہیں جو کافی ہو، تو کیا میں ان کے مال میں سے کچھ لے لیا کروں اور انہیں پتا بھی نہ چلے ؟ آپ نے فرمایا : بھلائی کے ساتھ اس قدر لے لو کہ تمہارے لیے اور تمہارے بچوں کے لیے کافی ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الٔاقضیة ٤ (١٧١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٦١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٩٥ (٢٢١١) ، والمظالم ١٨ (٢٤٦٠) ، النفقات ٥ (٥٣٥٩) ، ٩ (٥٣٦٤) ، ١٤ (٥٣٧) ، الأیمان ٣ (٦٦٤١) ، الأحکام ١٤ (٧١٦١) ، ٢٨ (٧١٨٠) ، سنن ابی داود/البیوع ٨١ (٣٥٣٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٥ (٢٢٩٣) ، مسند احمد (٣٩٦، ٥٠، ٢٠٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٤ (٢٣٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس غائب اور غیر موجود کو پہچانتا ہو، اور مدعی کی صداقت اور مدعی علیہ کے حالات سے گہری واقفیت رکھتا ہو جیسا کہ ہند اور ابوسفیان (رض) کے معاملہ کی بابت آپ ﷺ جانتے تھے، ہر مدعی علیہ کے بارے میں اس طرح فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ عام حالات میں مدعی کی گواہی یا قسم اور مدعا علیہ کے بیان سننے کی ضرورت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5420

【43】

ایک حکم میں دو حکم کرنے سے متعلق

عبدالرحمٰن بن ابوبکرہ (سجستان کے گورنر تھے) کہتے ہیں کہ مجھے ابوبکرہ (رض) نے لکھ بھیجا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : کوئی ایک قضیہ میں دو فیصلے نہ کرے ١ ؎، اور نہ کوئی دو فریقوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٤٠٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ قضاء کا مقدمہ جھگڑے کو ختم کرنا ہے، اور ایک ہی معاملہ میں دو طرح کے فیصلے سے جھگڑا ختم نہیں ہوتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5421

【44】

فیصلہ کو کیا چیز توڑتی ہے؟

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، حالانکہ میں ایک انسان ہوں، اور ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی دوسرے سے دلیل دینے میں چرب زبان ہو۔ میں تو صرف اس کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں جو میں سنتا ہوں، اب اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں (اور وہ حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو گویا میں اس کو جہنم کا ٹکڑا دلا رہا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٤٠٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تو کیا وہ پانے والے کے لیے ہر حال میں حلال ہوگا ؟ نہیں، خود جب نبی اکرم ﷺ کے فیصلے پر ملنے سے حلال نہیں ہوسکتا، (اگر حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو دوسرے کسی قاضی کے فیصلے سے کیسے جائز ہوسکتا ہے، اس لیے اس طرح کے معاملے میں سخت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے تو یہ فیصلہ ٹھیک ہے، لیکن اس طرح کے فیصلے حرام کو حلال، اور حلال کو حرام نہیں کرسکتے، اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے خود اپنے فیصلے پر یہ عرض کیا کہ حقیقت میں غلط فیصلہ پر عمل آدمی کو جہنم پہنچا سکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5422

【45】

فتنہ فساد مچانے والا

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ بغض و نفرت لڑاکے اور جھگڑالو شخص سے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ١٥ (٢٤٥٧) ، تفسیر البقرة ٣٧ (٤٥٢٣) ، الَٔحکام ٣٤ (٧١٨٨) ، صحیح مسلم/العلم ٢ (٢٦٦٨) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة البقرة (٢٩٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٤٨) ، مسند احمد (٦/٥٥، ٦٣، ٢٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مراد : باطل کے لیے جھگڑا کرنے والا اور چرب زبانی کرنے والا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5423

【46】

جہاں پر گواہ نہ ہو تو وہ کس طریقہ سے حکم دے

ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ دو لوگ ایک جانور کے بارے میں جھگڑا لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچے، ان میں سے کسی کے پاس کوئی گواہ نہ تھا، تو آپ نے اس کے آدھا کیے جانے کا فیصلہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الٔرقضیة ٢٢ (٣٦١٣) ، سنن ابن ماجہ/الٔوحکام ١١ (٢٣٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٨٨) ، مسند احمد (٤/٤٠٣) (ضعیف) (اس روایت کی سند اور متن دونوں میں سخت اختلاف ہے، اس کا مرسل ہونا ہی صحیح ہے، دیکھیے الإرواء رقم ٢٦٥٦ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5424

【47】

حاکم کا قسم دلانے کے وقت نصیحت کرنے سے متعلق

ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ دو لڑکیاں طائف میں موزے (خف) بنایا کرتی تھیں، ان میں سے ایک باہر نکلی، تو اس کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا، اس نے بتایا کہ اس کی سہیلی نے اسے زخمی کیا ہے، لیکن دوسری نے انکار کیا، تو میں نے اس سلسلے میں ابن عباس (رض) کو لکھا تو انہوں نے جواب لکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ قسم تو مدعا علیہ سے لی جائے گی، اگر لوگوں کو ان کے دعوے کے مطابق (فیصلہ) مل جایا کرے تو بعض لوگ دوسرے لوگوں کے مال اور ان کی جان کا بھی دعویٰ کر بیٹھیں، اس لیے اس عورت کو بلا کر اس کے سامنے یہ آیت پڑھو : إن الذين يشترون بعهد اللہ وأيمانهم ثمنا قليلا أولئك لا خلاق لهم في الآخرة‏ جو لوگ اللہ کے عہد اور قسموں کو معمولی قیمت سے بیچ دیتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں (آل عمران : ٧٧ ) یہاں تک کہ آیت ختم کی، چناچہ میں نے اسے بلایا اور یہ آیت اس کے سامنے تلاوت کی تو اس نے اس کا اعتراف کیا، جب انہیں (ابن عباس کو) یہ بات معلوم ہوئی تو خوش ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرہن ٦ (٢٥١٤) ، الشہادات ٢٠ (٢٦٦٨) (بدون ذکر القصة) تفسیر سورة آل عمران ٣ (٤٥٥٢) ، صحیح مسلم/الأقضیة ١ (١٧١١) ، سنن ابی داود/الأقضیة ٢٣ (٣٦١٩) ، سنن الترمذی/الأحکام ١٢ (١٣٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام (٢٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٩٢) ، مسند احمد (١/٣٤٢، ٣٥١، ٣٥٦، ٣٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : کسی معاملہ میں قسم کی ضرورت پڑے تو پہلے حاکم جس سے قسم لے اس کو نصیحت کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5425

【48】

حاکم کس طریقہ سے لے؟

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے حلقے کی طرف نکل کر آئے اور فرمایا : کیوں بیٹھے ہو ؟ وہ بولے : ہم بیٹھے ہیں، اللہ سے دعا کر رہے ہیں، اس کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے دین کی ہدایت بخشی اور آپ کے ذریعے ہم پر احسان فرمایا، آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! ٢ ؎ تم اسی لیے بیٹھے ہو ؟ وہ بولے : اللہ کی قسم ! ہم اسی لیے بیٹھے ہیں، آپ نے فرمایا : سنو، میں نے تم سے قسم اس لیے نہیں لی کہ تمہیں جھوٹا سمجھا، بلکہ میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں پر تمہاری وجہ سے فخر کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الدعوات (الذکر والدعاء) ١١ (٢٧٠١) ، سنن الترمذی/الدعوات ٧ (٣٣٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٤١٦) ، مسند احمد (٤/٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب کسی معاملہ میں قاضی کو قسم لینے کی ضرورت ہو تو کن الفاظ کے ساتھ قسم لے۔ ٢ ؎: اسی لفظ میں باب سے مناسبت ہے، یعنی آپ ﷺ لفظ واللہ سے قسم کھایا یا لیا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5426

【49】

حاکم کس طریقہ سے لے؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا، تو اس سے پوچھا : کیا تم نے چوری کی ؟ وہ بولا : نہیں، اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ١ ؎، عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : میں نے یقین کیا اللہ پر اور جھوٹا سمجھا اپنی آنکھ کو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الٔلنبیاء ٤٨ (٣٤٤٤ تعلیقًا) ، (تحفة الٔاشراف : ١٤٢٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الفضائل ٤٠ (٢٣٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٤ (٢١٠٢) ، مسند احمد (٢/٣١٤، ٣٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں یہی قسم کے الفاظ ہیں، ان الفاظ کے ساتھ بھی کبھی کبھی رسول اللہ ﷺ قسم کھایا یا لیا کرتے تھے، دونوں حدیثوں میں مذکور دونوں الفاظ کے علاوہ بھی کچھ الفاظ کے ذریعہ آپ ﷺ قسم کھایا یا کرتے تھے جیسے لا ومصرف القلوب، لا ومقلب القلوب وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5427