22. لباس کا بیان

【1】

مردوں کے لئے ریشم اور سونا حرام ہے

ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ریشم کا لباس اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہے اور ان کی عورتوں کے لیے حلال کیا گیا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمر، علی، عقبہ بن عامر، انس، حذیفہ، ام ہانی، عبداللہ بن عمرو، عمران بن حصین، عبداللہ بن زبیر، جابر، ابوریحان، ابن عمر، براء، اور واثلہ بن اسقع (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ٤٠ (٥١٥١) ، و ٧٤ (٥٢٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٩٨) ، و مسند احمد (٤/٣٩٢، ٣٩٣، ٤٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مسلمان مردوں کے لیے سونا اور ریشم کے کپڑے حرام ہیں ، حرمت کی کئی وجہیں ہیں : کفار و مشرکین سے اس میں مشابہت پائی جاتی ہے ، زیب و زینت عورتوں کا خاص وصف ہے ، مردوں کے لیے یہ پسندیدہ نہیں ، اس پہلو سے یہ دونوں حرام ہیں ، اسلام جس سادگی کی تعلیم دیتا ہے یہ اس سادگی کے خلاف ہے ، حالانکہ سادگی رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق ایمان کا حصہ ہے ، آپ کا ارشاد ہے «البذاذة من الإيمان» یعنی سادہ اور بےتکلف رہن سہن اختیار کرنا ایمان کا حصہ ہے ، یہ دونوں چیزیں عورتوں کے لیے حلال ہیں ، لیکن حلال ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے استعمال میں حد سے تجاوز کیا جائے ، اسی طرح یہاں حلت کا تعلق صرف سونے کے زیورات سے ہے ، نہ کہ ان سے بنے ہوئے برتنوں سے کیونکہ سونے (اور چاندی) سے بنے ہوئے برتن سب کے لیے حرام ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3595) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1720

【2】

مردوں کے لئے ریشم اور سونا حرام ہے

سوید بن غفلہ (رض) کہتے ہیں کہ عمر نے مقام جابیہ میں خطبہ دیا اور کہا : نبی اکرم ﷺ نے ریشم سے منع فرمایا سوائے دو ، یا تین، یا چار انگشت کے برابر ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٦٩/١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٥٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ریشم کا لباس مردوں کے لیے شرعی طور پر حرام ہے ، البتہ دو یا تین یا چار انگلی کے برابر کسی کپڑے پر ریشم لگا ہو ، یا کوئی عذر مثلاً خارش وغیرہ ہو تو اس کی گنجائش ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1721

【3】

ریشمی کپڑے لڑائی میں پہننا

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف اور زبیر بن عوام (رض) نے ایک غزوہ میں نبی اکرم ﷺ سے جوؤں کی شکایت کی، تو آپ نے انہیں ریشم کی قمیص کی اجازت دے دی، انس (رض) کہتے ہیں : میں نے ان کے بدن پر ریشم کی قمیص دیکھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٩٠ (٢٩١٩- ٢٩٢٢) ، واللباس ٢٩ (٥٨٣٩) ، صحیح مسلم/اللباس ٣ (٢٠٧٦) ، سنن ابی داود/ اللباس ١٣ (٤٠٥٦) ، سنن النسائی/الزینة ٩٢ (٥٣١٢) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ١٧ (٣٥٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٤) ، و مسند احمد (٣/١٢٧، ١٨٠، ٢١، ٢٥٥، ٢٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3592) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1722

【4】

واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ کہتے ہیں کہ انس بن مالک (رض) (ہمارے پاس) آئے تو میں ان کے پاس گیا، انہوں نے پوچھا : تم کون ہو ؟ میں نے کہا : میں واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ (رض) ہوں، انس (رض) رو پڑے اور بولے : تم سعد کی شکل کے ہو، سعد بڑے دراز قد اور لمبے تھے، نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک ریشمی جبہ بھیجا گیا جس میں زری کا کام کیا ہوا تھا ١ ؎ آپ اسے پہن کر منبر پر چڑھے، کھڑے ہوئے یا بیٹھے تو لوگ اسے چھو کر کہنے لگے : ہم نے آج کی طرح کبھی کوئی کپڑا نہیں دیکھا، آپ نے فرمایا : کیا تم اس پر تعجب کر رہے ہو ؟ جنت میں سعد کے رومال اس سے کہیں بہتر ہیں جو تم دیکھ رہے ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں اسماء بنت ابی بکر سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ٢٨ (٢٦١٥) ، وبدء الخلق ٨ (٣٢٤٨) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢٤ (٢٤٦٩) ، سنن النسائی/الزینة ٨٨ (٥٣٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٨) ، و مسند احمد (٣/١١١، ١٢١-١٢٢، ٢٠٧، ٢٠٩، ٢٢٩، ٢٣٨، ٢٥١، ٢٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ جبہ اکیدردومہ نے نبی اکرم ﷺ کے لیے بطور ہدیہ بھیجا تھا ، یہ ریشم کی حرمت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1723

【5】

مردوں کے لئے سرخ کپڑا پہننے کی اجازت

براء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے سرخ جوڑے میں کسی لمبے بال والے کو رسول اللہ ﷺ سے خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال شانوں کو چھوتے تھے، آپ کے شانوں کے درمیان دوری تھی، آپ نہ کوتاہ قد تھے اور نہ لمبے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں جابر بن سمرہ، ابورمثہ اور ابوجحیفہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٣٣ (٣٥٥١) ، واللباس ٣٥ (٥٨٤٨) ، و ٦٨ (٥٩٠٣) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٥ (٢٣٣٧) ، سنن ابی داود/ الترجل ٩ (٤١٨٣) ، سنن النسائی/الزینة ٩ (٥٠٦٣) ، و ٥٩ (٥٢٣٤) ، و ٩٣ (٥٢٤٨) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٠ (٣٥٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٤٧) ، و مسند احمد (٤/٢٨١، ٢٩٥) و یأتي برقم ٣٦٣٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سرخ لباس کی بابت حالات و ظروف کی رعایت ضروری ہے ، اگر یہ عورتوں کا مخصوص زیب و زینت والا لباس ہے جیسا کہ آج کے اس دور میں شادی کے موقع پر سرخ جوڑا دلہن کو خاص طور سے دیا جاتا ہے تو مردوں کا اس سے بچنا بہتر ہے ، خود نبی اکرم ﷺ کے اس سرخ جوڑے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کیسا تھا ؟ خلاصہ اقوال یہ ہے کہ یہ سرخ جوڑا یا دیگر لال لباس جو آپ ﷺ پہنے تھے ، ان میں تانا اور بانا میں رنگوں کا اختلاف تھا ، بالکل خالص لال رنگ کے وہ جوڑے نہیں تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3599 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1724

【6】

مردوں کے لئے کسم سے رنگے ہوئے کپڑے پہننا مکروہ ہے۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے قسی کے بنے ہوئے ریشمی اور زرد رنگ کے کپڑے پہننے سے منع فرمایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - علی (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں انس اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٦٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «معصفر» وہ کپڑا ہے جو عصفر سے رنگا ہوا ہو ، اس کا رنگ سرخی اور زردی کے درمیان ہوتا ہے ، اس رنگ کا لباس عام طور سے کاہن ، جوگی اور سادھو پہنتے ہیں ، ممکن ہے نبی اکرم ﷺ کے زمانے کے کاہنوں کا لباس یہی رہا ہو جس کی وجہ سے اسے پہننے سے منع کیا گیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3602) ، ويأتي بأتم (3637) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1725

【7】

پوستین پہننا

سلمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے گھی، پنیر اور پوستین (چمڑے کا لباس) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کردیا، اور حرام وہ ہے، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کردیا اور جس چیز کے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کردیا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، ٢ - اسے سفیان نے بسند «سليمان التيمي عن أبي عثمان عن سلمان» موقوفاً روایت کیا ہے، گویا یہ موقوف حدیث زیادہ صحیح ہے، اس باب میں مغیرہ سے بھی حدیث آئی ہے، ٣ - میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا : تو انہوں نے کہا : میں اس کو محفوظ نہیں سمجھتا ہوں، سفیان نے بسند «سليمان التيمي عن أبي عثمان عن سلمان» موقوفا روایت کی ہے، ٤ - امام بخاری کہتے ہیں : سیف بن ہارون مقارب الحدیث ہیں، اور سیف بن محمد عاصم سے روایت کرنے میں ذاہب الحدیث ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٦٠ (٣٣٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٩٦) (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی سیف سخت ضعیف ہیں، دیکھئے : غایة المرام رقم : ٣، وتراجع الألبانی ٤٢٨ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کا استعمال جائز اور مباح ہے ، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے یہ اصول اپنایا کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے حلال و مباح ہیں ، اس کی تائید اس آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے «هو الذي خلق لکم ما في الأرض جميعا» لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی حرمت سے متعلق کوئی دلیل نہ ہو ، کیونکہ حرمت کی دلیل آ جانے کے بعد وہ حرام ہوجائیں گی ، فقہاء کے مذکورہ اصول اور مذکورہ آیت سے بعض نے پان ، تمباکو اور بیڑی سگریٹ کے مباح ہونے پر استدلال کیا ہے ، لیکن یہ استدلال درست نہیں ہے ، کیونکہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہیں ، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ ضرر رساں نہ ہوں ، اگر دیر یا سویر نقصان ظاہر ہوتا ہے تو ایسی صورت میں وہ ہرگز مباح نہیں ہوں گی ، اور مذکورہ چیزوں میں جو ضرر و نقصان ہے یہ کسی سے مخفی نہیں ، نیز ان کا استعمال «تبذیر» (اسراف اور فضول خرچی) کے باب میں آتا ہے ، لہٰذا ان کی حرمت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (3366) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1726

【8】

دباغت کے بعد مردار جانور کی کھال

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک بکری مرگئی، رسول اللہ ﷺ نے بکری والے سے کہا : تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی ؟ پھر تم دباغت دے کر اس سے فائدہ حاصل کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٩٦٩) ، وانظر : صحیح البخاری/الزکاة ٦١ (١٤٩٢) ، والبیوع ١٠١ (٢٢٢١) ، والذبائح ٣٠ (٥٥٣١، ٥٥٣٢) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٧ (٣٦٣-٣٦٥) ، سنن ابی داود/ اللبا ٤١ (٤١٢١) ، سنن النسائی/الفرع ٤ (٤٢٤٠-٤٢٤٤) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٥ (٣٦١٠) ، وط/الصید ٦ (١٦) ، مسند احمد (١/٢٣٧) ، ٣٢٧، ٣٣٠، ٣٦٥، ٣٦٦، ٣٧٢) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢٠ (٢٠٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ مردہ جانور کی کھال سے فائدہ دباغت (پکانے) کے بعد ہی اٹھایا جاسکتا ہے ، اور ان روایتوں کو جن میں دباغت (پکانے) کی قید نہیں ہے ، اسی دباغت والی روایت پر محمول کیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3609 - 3610 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1727

【9】

دباغت کے بعد مردار جانور کی کھال

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس چمڑے کو دباغت دی گئی، وہ پاک ہوگیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - بواسطہ ابن عباس نبی اکرم ﷺ سے دوسری سندوں سے بھی اسی طرح مروی ہے، ٣ - یہ حدیث ابن عباس سے کبھی میمونہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اور کبھی سودہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے، ٤ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو نبی اکرم ﷺ سے مروی ابن عباس کی حدیث اور میمونہ کے واسطہ سے مروی ابن عباس کی حدیث کو صحیح کہتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا : احتمال ہے کہ ابن عباس نے بواسطہ میمونہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہو، اور ابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے براہ راست بھی روایت کیا، اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ٥ - نضر بن شمیل نے بھی اس کا یہی مفہوم بیان کیا ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : نضر بن شمیل نے کہا : «إهاب» اس جانور کے چمڑے کو کہا جاتا ہے، جس کا گوشت کھایا جاتا ہے، ٦ - اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں : مردار کا چمڑا دباغت دینے کے بعد پاک ہوجاتا ہے ، ٧ - شافعی کہتے ہیں : کتے اور سور کے علاوہ جس مردار جانور کا چمڑا دباغت دیا جائے وہ پاک ہوجائے گا، انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے، ٨ - بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں نے درندوں کے چمڑوں کو مکروہ سمجھا ہے، اگرچہ اس کو دباغت دی گئی ہو، عبداللہ بن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ان لوگوں نے اسے پہننے اور اس میں نماز ادا کرنے کو برا سمجھا ہے، ٩ - اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کے قول «أيما إهاب دبغ فقد طهر» کا مطلب یہ ہے کہ اس جانور کا چمڑا دباغت سے پاک ہوجائے گا جس کا گوشت کھایا جاتا ہے، ١٠ - اس باب میں سلمہ بن محبق، میمونہ اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٧ (٣٦٦) ، سنن ابی داود/ اللباس ٤١ (٤١٢٣) ، سنن النسائی/الفرع ٤ (٤٢٤٦) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٥ (٣٦٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٢٢) ، وط/الصید ٦ (١٧) ، و مسند احمد (١/٢١٩، ٢٧٠، ٢٧٩، ٢٨٠، ٣٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر چمڑا جسے دباغت دیا گیا ہو وہ پاک ہے ، لیکن اس عموم سے درندوں کی کھالیں نکل جائیں گی ، کیونکہ اس سلسلہ میں فرمان رسول ہے «أن رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم نهى عن جلود السباع» یعنی آپ ﷺ نے درندوں کی کھالوں (کے استعمال) سے منع فرمایا ہے ، اس حدیث کی بنیاد پر درندوں کی کھالیں ہر صورت میں ناپاک ہی رہیں گی ، اور ان کا استعمال ناجائز ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3609 - 3610) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1728

【10】

دباغت کے بعد مردار جانور کی کھال

عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کا خط آیا کہ تم لوگ مردہ جانوروں کے چمڑے ١ ؎ اور پٹھوں سے فائدے نہ حاصل کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - یہ حدیث عبداللہ بن عکیم سے ان کے شیوخ کے واسطہ سے بھی آئی ہے، ٣ - اکثر اہل علم کا اس پر عمل نہیں ہے، ٤ - عبداللہ بن عکیم سے یہ حدیث مروی ہے، انہوں نے کہا : ہمارے پاس نبی اکرم ﷺ کا خط آپ کی وفات سے دو ماہ پہلے آیا، ٥ - میں نے احمد بن حسن کو کہتے سنا، احمد بن حنبل اسی حدیث کو اختیار کرتے تھے اس وجہ سے کہ اس میں آپ کی وفات سے دو ماہ قبل کا ذکر ہے، وہ یہ بھی کہتے تھے : یہ نبی اکرم ﷺ کا آخری حکم تھا، ٦ - پھر احمد بن حنبل نے اس حدیث کو چھوڑ دیا اس لیے کہ راویوں سے اس کی سند میں اضطراب واقع ہے، چناچہ بعض لوگ اسے عبداللہ بن عکیم سے ان کے جہینہ کے شیوخ کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ اللباس ٤٢ (٤١٢٧) ، سنن النسائی/الفرع ٥٤ (٢٤٥٥، ٢٤٥٦) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٦ (٣٦١٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٤٢) ، و مسند احمد (٤/٢١٠، ٣١١) (صحیح) (نیز ملاحظہ ہو : الإرواء ٣٨، والصحیحة ٣١٣٣، والضعیفة ١١٨، تراجع الألبانی ١٥ و ٤٧٠ ) وضاحت : ١ ؎ : دباغت سے پہلے کی حالت پر محمول ہے ، گویا حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دباغت سے قبل مردہ جانوروں کے چمڑے سے فائدہ اٹھانا صحیح نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3613) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1729

【11】

کپڑاٹخنوں سے نیچے رکھنے کی ممانعت کے بارے میں

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جس نے تکبر سے اپنا تہ بند گھیسٹا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں حذیفہ، ابو سعید خدری، ابوہریرہ، سمرہ، ابوذر، عائشہ اور وہیب بن مغفل (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٥ (٣٦٦٥) ، واللباس ١ (٥٧٨٣) ، و ٢ (٥٧٨٤) ، و ٥ (٥٧٩١) ، صحیح مسلم/اللباس ٩ (٢٠٨٥) ، سنن ابی داود/ اللباس ٢٨ (٤٠٨٥) ، سنن النسائی/الزینة ٦٦ (٥٣٧٧) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٦ (٣٥٦٩) ، و ٩ (٣٥٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٢٦ و ٧٢٢٧ و ٨٣٥٨) ، وط/اللباس ٥ (٩) و مسند احمد (٢/٥، ١٠، ٣٢، ٤٢، ٤٤، ٤٦، ٥٥، ٥٦، ٦٠، ٦٥، ٦٧، ٦٩، ٧٤، ٧٦، ٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : گویا تکبر کیے بغیر غیر ارادی طور پر تہ بند کا نیچے لٹک جانا اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن ارادۃ و قصداً نیچے رکھنا اور حدیث میں جو سزا بیان ہوئی ہے اسے معمولی جاننا یہ بڑا جرم ہے ، کیونکہ کپڑا گھسیٹ کر چلنا یہ تکبر کی ایک علامت ہے ، جو لباس کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3569) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1730

【12】

عورتوں کے دامن کی لمبائی

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا ، ام سلمہ نے کہا : عورتیں اپنے دامنوں کا کیا کریں ؟ آپ نے فرمایا : ایک بالشت لٹکا لیں ، انہوں نے کہا : تب تو ان کے قدم کھل جائیں گے، آپ نے فرمایا : ایک بالشت لٹکائیں ١ ؎ اور اس سے زیادہ نہ لٹکائیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ٧٥٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کپڑا لٹکانے کے سلسلہ میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ حکم ہے ، مردوں کے لیے آدھی پنڈلی تک لٹکانا زیادہ بہتر ہے ، تاہم ٹخنوں تک رکھنے کی اجازت ہے ، لیکن ٹخنوں کا کھلا رکھنا بےحد ضروری ہے ، اس کے برعکس عورتیں نہ صرف ٹخنے بلکہ پاؤں تک چھپائیں گی ، خاص طور پر جب وہ باہر نکلیں تو اس کا خیال رکھیں کہ پاؤں پر کسی غیر محرم کی نظر نہ پڑے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3580 - 3581) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1731

【13】

عورتوں کے دامن کی لمبائی

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فاطمہ کے «نطاق» کے لیے ایک بالشت کا اندازہ لگایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - بعض لوگوں نے اسے «حماد بن سلمة عن علي بن زيد عن الحسن عن أمه عن أم سلمة» کی سند سے روایت کی ہے، ٢ - اس حدیث میں عورتوں کے لیے تہ بند (چادر) گھسیٹنے کی اجازت ہے، اس لیے کہ یہ ان کے لیے زیادہ ستر پوشی کا باعث ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر سنن ابی داود/ اللباس ٤٠ (٤١١٧-٤١١٨) ، و ق /اللباس ١٣ (٣٥٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٥٧) (صحیح) (ابوداود اور ابن ماجہ کی مذکورہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کی سند میں ” علی بن زید بن جدعان “ ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایک بالشت کے برابر لٹکانے کی اجازت دی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3580) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1732

【14】

اون کالباس پہننا

ابوبردہ کہتے ہیں کہ عائشہ (رض) نے ہمارے سامنے ایک اونی چادر اور موٹا تہ بند نکالا اور کہا : رسول اللہ ﷺ کی وفات انہی دونوں کپڑوں میں ہوئی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی اور ابن مسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ٥ (٣١٠٨) ، واللباس ١٩ (٥٨١٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٦ (٢٠٨٠) ، سنن ابی داود/ اللباس ٨ (٤٠٣٦) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ١ (٣٥٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٩٣) ، و مسند احمد (٦/٣٢، ١٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ نے یہ دعا کی تھی کہ «اللهم أحيني مسكينا وأمتني مسكينا» اللہ مجھے مسکین کی زندگی عطا کر اور اسی حالت میں میری وفات ہو ، اللہ نے آپ کی یہ دعا قبول کی چناچہ آپ کی وفات حدیث میں مذکور دو معمولی کپڑوں میں ہوئی ، غور کا مقام ہے کہ آپ زہد کے کس مقام پر فائز تھے ، اور دنیاوی مال و متاع سے کس قدر دور رہتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3551) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1733

【15】

اون کالباس پہننا

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس دن موسیٰ (علیہ السلام) سے ان کے رب نے گفتگو کی اس دن موسیٰ (علیہ السلام) کے بدن پر پرانی چادر، اونی جبہ، اونی ٹوپی، اور اونی سراویل (پائجامہ) تھا اور ان کے جوتے مرے ہوئے گدھے کے چمڑے کے تھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صرف حمید اعرج کی روایت سے جانتے ہیں، حمید سے مراد حمید بن علی کوفی ہیں، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا کہ حمید بن علی اعرج منکرالحدیث ہیں اور حمید بن قیس اعرج مکی جو مجاہد کے شاگرد ہیں، وہ ثقہ ہیں، ٣ - «کمہ» : چھوٹی ٹوپی کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٣٢٨) (ضعیف جدا) (سند میں حمید بن علی کوفی ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، الضعيفة (4082) // ضعيف الجامع الصغير (4154) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1734

【16】

سیاہ عمامہ

جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں علی، عمر، ابن حریث، ابن عباس اور رکانہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٨٤ (١٣٥٨) ، سنن ابی داود/ اللباس ٢٤ (٤٠٧٦) ، سنن النسائی/الحج ١٠٧ (٢٨٧٢) ، والزینة ١٠٩ (٥٣٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٢٢ (٢٨٢٢) ، واللباس ١٤ (٢٥٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٨٩) ، و مسند احمد (٣/٣٦٣، ٣٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے کالی پگڑی پہننے کا جواز ثابت ہوتا ہے ، مکمل کالا لباس نہ پہننا بہتر ہے ، کیونکہ یہ ایک مخصوص جماعت کا ماتمی لباس ہے ، اس لیے اس کی مشابہت سے بچنا اور اجتناب کرنا ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2822) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1735

【17】

سیاہ عمامہ

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ عمامہ باندھتے تو اسے اپنے شانوں کے بیچ لٹکا لیتے۔ نافع کہتے ہیں : ابن عمر (رض) اپنے عمامہ کو شانوں کے بیچ لٹکاتے تھے۔ عبیداللہ بن عمر کہتے ہیں : میں نے قاسم اور سالم کو بھی ایسا کرتے ہوئے دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے، لیکن ان کی حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٠٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (716) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1736

【18】

سونے کی انگوٹھی پہننا منع ہے۔

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے سونے کی انگوٹھی، «قسی» (ایک ریشمی کپڑا) کا لباس، رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے اور «معصفر» (کسم سے رنگے ہوئے زرد) کپڑے سے منع فرمایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٦٤ و ١٧٢٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سونا مردوں کے لیے حرام ہے ، نہ کہ عورتوں کے لیے ، لہٰذا ممانعت مردوں کے لیے ہے ، رکوع اور سجدہ میں اللہ کی تسبیح بیان کی جاتی ہے ، اس میں قرآن پڑھنا صحیح نہیں ہے ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1737

【19】

سونے کی انگوٹھی پہننا منع ہے۔

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عمران کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی، ابن عمر، ابوہریرہ اور معاویہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ٤٤ (٥١٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨١٨) ، و مسند احمد (٤/٤٢٨، ٤٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3642) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1738

【20】

چاندی کی انگوٹھی

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ (عقیق) حبشہ کا بنا ہوا تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر اور بریدہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٨ (٥٨٧٠) ، صحیح مسلم/اللباس ١٥ (٢٠٩٤) ، سنن ابی داود/ الخاتم ١ (٤٢١٦) ، سنن النسائی/الزینة ٤٧ (٥١٩٩) ، و ٧ (٥٢٧٩-٥٢٨٢) سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٩ (٣٦٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٤) ، و مسند احمد (٣/٢٠٩) ، وانظر الحدیث التالي (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آنے والی انس کی روایت جس میں ذکر ہے کہ نگینہ بھی چاندی کا تھا ، اور باب کی اس روایت میں کوئی تعارض نہیں ہے ، کیونکہ احتمال ہے کہ آپ کے پاس دو قسم کی انگوٹھیاں تھیں ، یا یہ کہا جائے کہ نگینہ چاندی کا تھا ، حبشہ کی جانب نسبت کی وجہ یہ ہے کہ حبشی نقش و نگار یا طرز پر بنا ہوا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3646) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1739

【21】

چاندی کے نگینے

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی، اس کا نگینہ بھی اسی کا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٨ (٥٨٧٠) ، سنن ابی داود/ الخاتم ١ (٤٢١٧) ، سنن النسائی/الزینة ٤٧ (٥٢٠١) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٩ (٣٦٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (73) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1740

【22】

دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنائی اور اسے داہنے ہاتھ میں پہنا، پھر منبر پر بیٹھے اور فرمایا : میں نے اس انگوٹھی کو اپنے داہنے ہاتھ میں پہنا تھا ، پھر آپ نے اسے نکال کر پھینکا اور لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث بواسطہ نافع ابن عمر سے دوسری سند سے اسی طرح آئی ہے، اس میں انہوں نے یہ ذکر کیا کہ آپ نے داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنی، ٢ - اس باب میں علی، جابر، عبداللہ بن جعفر، ابن عباس، عائشہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٥ (٥٨٦٥) ، و ٤٦ (٥٨٦٦) ، و ٤٧ (٥٨٦٧) ، و ٥٠ (٥٨٧٣) ، و ٥٣ (٥٨٧٦) ، والأیمان والنذور ٦ (٦٦٥١) ، والاعتصام ٤ (٧٢٩٨) ، صحیح مسلم/اللباس ١١ (٢٠٩١) ، سنن ابی داود/ الخاتم ١ (٤٢١٨) ، سنن النسائی/الزینة ٤٣ (٥١٦٧) ، و ٥٣ (٥٢١٧-٥٢٢١) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٩ (٣٦٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٧١) ، و مسند احمد (٢/١٨، ٦٨، ٩٦، ١٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : فقہاء کے نزدیک دائیں اور بائیں کسی بھی ہاتھ میں انگوٹھی پہننا جائز ہے ، ان میں سے افضل کون سا ہے ، اس کے بارے میں اختلاف ہے ، اکثر فقہاء کے نزدیک دائیں ہاتھ میں پہننا افضل ہے ، اس لیے کہ انگوٹھی ایک زینت ہے اور دایاں ہاتھ زینت کا زیادہ مستحق ہے ، سونے کی یہ انگوٹھی جسے آپ ﷺ نے پہنا یہ اس کے حرام ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (84) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1741

【23】

دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا

صلت بن عبداللہ بن نوفل کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنے دیکھا اور میرا یہی خیال ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنے دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : محمد بن اسماعیل بخاری نے کہا : صلت بن عبداللہ بن نوفل کے واسطہ سے محمد بن اسحاق کی روایت حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الخاتم ٥ (٤٢٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٨٦) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الإرواء (3 / 303 - 304) ، مختصر الشمائل (80) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1742

【24】

دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا

محمد الباقر کہتے ہیں کہ حسن اور حسین اپنے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ٣٤٠٨ و ٣٤١١) (صحیح موقوف ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف مختصر الشمائل (82) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1743

【25】

دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا

حماد بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی رافع ١ ؎ کو داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے دیکھا تو اس کے بارے میں ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن جعفر (رض) کو داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے دیکھا، عبداللہ بن جعفر (رض) نے کہا : نبی اکرم ﷺ اپنے داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : یہ اس باب میں سب سے صحیح روایت ہے جو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ٤٨ (٥٢٠٧) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٤٢ (٣٦٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٢٢) ، و مسند احمد (١/٢٠٤) ، والمؤلف في الشمائل ١٣ (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ” عبد الرحمن بن ابی رافع “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام ابورافع (رض) کے لڑکے عبدالرحمن ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3747) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1744

【26】

انگوٹھی پر کچھ نقش کرانا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنائی، اس میں «محمد رسول اللہ» نقش کرایا، پھر فرمایا : تم لوگ اپنی انگوٹھی پر یہ نقش مت کرانا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ «لا تنقشوا عليه» کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے منع فرمایا کوئی دوسرا اپنی انگوٹھی پر «محمد رسول الله» نقش کرائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٥٠ (٥٨٧٢) ، و ٥١ (٥٨٧٤) ، و ٥٤ (٥٨٧٧) ، سنن النسائی/الزینة ٥٠ (٥٢١١) ، و ٧٨ (٥٢٨٣) ، و ٧٩ (٥٢٨٤) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٩ (٣٦٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠) ، و مسند احمد (٣/١٠١، ١٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (1744) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1745

【27】

انگوٹھی پر کچھ نقش کرانا

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب پاخانہ جاتے تو اپنی انگوٹھی اتار دیتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ١٠ (١٩) ، سنن النسائی/الزینة ٥١ (٥٢١٦) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١ (٣٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٢) ، و مسند احمد (٣/٩٩، ١٠١، ٢٨٢) ، والمؤلف الشمائل ١١ (٨٨) (ضعیف) (بطریق ” الزهري عن أنس “ اصل روایت یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی، پھر اسے پھینک دیا، اس روایت میں یا تو بقول امام ابوداود ہمام سے وہم ہوا ہے، یا بقول البانی اس کے ضعف کا سبب ابن جریج مدلس کا عنعنہ ہے، انہوں نے خود زہری سے نہیں سنا اور بذریعہ عنعنہ روایت کردیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے : ضعیف ابی داود رقم ٤ ) وضاحت : ١ ؎ : ایسا اس لیے کرتے تھے کیونکہ اس پر «محمد رسول اللہ» نقش تھا ، معلوم ہوا کہ پاخانہ پیشاب جاتے وقت اس بات کا خیال رہے کہ اس کے ساتھ ایسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیئے جس کی بےحرمتی ہو ، مثلاً اللہ اور اس کے رسول کے نام یا آیات قرآنیہ وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (303) // ضعيف ابن ماجة برقم (61) ، ضعيف أبي داود (5 / 19) ، ضعيف سنن النسائي (400 / 5213) ، المشکاة (343) ، ضعيف الجامع الصغير بلفظ وضع (4390) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1746

【28】

انگوٹھی پر کچھ نقش کرانا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی انگوٹھی کا نقش اس طرح تھا «محمد» ایک سطر، «رسول» ایک سطر اور «اللہ» ایک سطر میں، امام ترمذی کہتے ہیں : انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ٥ (٣١٠٦) ، واللباس ٥٥ (٥٨٨٨، ٨٥٧٩) والمؤلف في الشمائل ١٢ (تحفة الأشراف : ٥٠٢) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1747

【29】

انگوٹھی پر کچھ نقش کرانا

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی انگوٹھی کا نقش تین سطروں میں تھا «محمد» ایک سطر میں «رسول» ایک سطر میں اور «اللہ» ایک سطر میں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - محمد بن یحییٰ نے اپنی روایت میں تین سطروں کا ذکر نہیں کیا ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3639 - 3640) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1748 انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی انگوٹھی کا نقش تین سطروں میں تھا «محمد» ایک سطر میں «رسول» ایک سطر میں اور «اللہ» ایک سطر میں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - محمد بن یحییٰ نے اپنی روایت میں تین سطروں کا ذکر نہیں کیا ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3639 - 3640) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1748

【30】

تصویر کے بارے میں

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھر میں تصویر رکھنے سے منع فرمایا اور آپ نے اس کو بنانے سے بھی منع فرمایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - جابر کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی، ابوطلحہ، عائشہ ابوہریرہ اور ابوایوب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢٨٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تصویر کے سلسلہ میں جمہور علماء کی یہ رائے ہے کہ ذی روح اور جاندار کی تصویر قطعی طور پر حرام ہے ، غیر جاندار چیزیں مثلاً درخت وغیرہ کی تصویر حرام نہیں ہے ، بعض کا کہنا ہے کہ جاندار کی تصویر اگر ایسی جگہ ہو جہاں اسے پاؤں سے روندا جا رہا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (424) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1749

【31】

تصویر کے بارے میں

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں کہ وہ ابوطلحہ انصاری (رض) کی عیادت کرنے ان کے گھر گئے، تو میں نے ان کے پاس سہل بن حنیف (رض) کو پایا، ابوطلحہ (رض) نے ایک آدمی کو وہ چادر نکالنے کے لیے بلایا جو ان کے نیچے تھی، سہل (رض) نے ان سے کہا : کیوں نکال رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا : اس لیے کہ اس میں تصویریں ہیں، نبی اکرم ﷺ نے اس سلسلے میں جو کچھ فرمایا ہے اسے آپ جانتے ہیں، سہل (رض) نے کہا : آپ نے تو یہ بھی فرمایا ہے : سوائے اس کپڑے کے جس میں نقش ہو ابوطلحہ نے کہا : آپ نے تو یہ فرمایا ہے لیکن یہ میرے لیے زیادہ اچھا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ١١١ (٥٣٥١) ، وانظر أیضا : صحیح البخاری/بدء الخلق ٧ (٣٢٢٦) ، واللباس ٩٢ (٥٩٥٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٦/٨٥) ، سنن ابی داود/ اللباس ٤٨ (٤١٥٥) ، سنن النسائی/الزینة ١١١ (٥٢٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٨٢ و ٤٦٦٣) ، و مسند احمد (٤/٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی رخصت کے بجائے عزیمت پر عمل کرنا میرے نزدیک زیادہ اچھا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (134) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1750

【32】

تصویر کے بارے میں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی تصویر بنائی اللہ تعالیٰ اس کو عذاب دیتا رہے گا یہاں تک کہ مصور اس میں روح پھونک دے اور وہ اس میں روح نہیں پھونک سکے گا، اور جس نے کسی قوم کی بات کان لگا کر سنی حالانکہ وہ اس سے بھاگتے ہوں ١ ؎، قیامت کے دن اس کے کان میں سیسہ ڈالا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن مسعود، ابوہریرہ، ابوحجیفہ، عائشہ اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التعبیر ٤٥ (٧٠٤٢) ، والأدب ٩٦ (٥٠٢٤) ، سنن النسائی/الزینة ١١٣ (٥٣٦١) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٨٦) ، و مسند احمد (١/٢٤٦) ، سنن الدارمی/الرقاق ٣ ( ) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی وہ لوگ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ کوئی ان کی بات سنے ، پھر بھی اس نے کان لگا کر سنا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (120 و 422) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1751

【33】

خضاب کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بال کی سفیدی (خضاب کے ذریعہ) بدل ڈالو اور یہود کی مشابہت نہ اختیار کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے مرفوع طریقہ سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، ٣ - اس باب میں زبیر، ابن عباس، جابر، ابوذر، انس، ابورمثہ، جہدمہ، ابوطفیل، جابر بن سمرہ، ابوحجیفہ اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر : صحیح البخاری/الأنبیاء ٥٠ (٣٤٦٢) ، واللباس ٦٧ (٥٨٩٩) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٥ (٢١٠٣) ، سنن ابی داود/ الترجل ١٨ (٤٢٠٣) ، سنن النسائی/الزینة ١٤ (٥٠٧٢) ، و ٦٤ (٥٢٤٣) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٣ (٣٦٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٨٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہود و نصاریٰ خضاب کا استعمال نہیں کرتے ، لہٰذا ان کی مخالفت میں اسے استعمال کرو ، یہی وجہ ہے کہ سلف میں اس کا استعمال کثرت سے پایا گیا ، چناچہ اسلاف کی سوانح لکھنے والوں میں سے بعض سوانح نگار اس کی بھی تصریح کرتے ہیں کہ فلاں خضاب کا استعمال کرتے تھے اور فلاں نہیں کرتے تھے۔ اور یہ کہ فلاں کالا استعمال کرتے ہیں اور فلاں کالا نہیں استعمال کرتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح حجاب المرأة (96) ، الصحيحة (836) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1752

【34】

خضاب کے بارے میں

ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر چیز جس سے بال کی سفیدی بدلی جائے وہ مہندی اور وسمہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الترجل ١٨ (٤٢٠٥) ، سنن النسائی/الزینة ١٦ (٥٠٨٠) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٢ (٣٦٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٢٧) ، و مسند احمد (٥/١٤٧، ١٥٠، ١٥٤، ١٥٦، ١٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ـ جو سرخ اورسیاہمخلوطہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2622) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1753

【35】

لمبے بال رکھنا

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میانہ قد تھے، آپ نہ لمبے تھے نہ کوتاہ قد، گندمی رنگ کے سڈول جسم والے تھے، آپ کے بال نہ گھونگھریالے تھے نہ سیدھے، آپ جب چلتے تو پیر اٹھا کر چلتے جیسا کوئی اوپر سے نیچے اترتا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس سند سے حمید کی روایت سے انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں عائشہ، براء، ابوہریرہ، ابن عباس، ابوسعید، جابر، وائل بن حجر اور ام ہانی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (1 و 2) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1754

【36】

لمبے بال رکھنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرتی تھی، آپ کے بال «جمہ» سے چھوٹے اور «وفرہ» سے بڑے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - دوسری سندوں سے یہ حدیث عائشہ سے یوں مروی ہے، کہتی ہیں : میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرتی تھی، راویوں نے اس حدیث میں یہ جملہ نہیں بیان کیا ہے، «وكان له شعر فوق الجمة ودون الوفرة» ٣ - عبدالرحمٰن بن ابی زناد ثقہ ہیں، مالک بن انس ان کی توثیق کرتے تھے اور ان کی روایت لکھنے کا حکم دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الترجل ٩ (٤١٨٧) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٦ (٣٦٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠١٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «جمہ» : ایسے بال جو کندھوں تک لٹکتے ہیں ، اور «وفرہ» کان کی لو تک لٹکنے والے بال کو کہتے ہیں ، بال تین طرح کے ہوتے ہیں : «جمہ» ،«وفرہ» ، اور «لمہ» ، «لمة» : ایسے بال کو کہتے ہیں جو کان کی لو سے نیچے اور کندھوں سے اوپر ہوتا ہے ، (یعنی «وفرہ» سے بڑے اور «جمہ» سے جھوٹے) بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے بال «جمہ» یعنی کندھوں تک لٹکنے والے تھے ، ممکن ہے کبھی «جمہ» رکھتے تھے اور کبھی «لمہ» نیز کبھی «وفرہ» بھی رکھتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (604 و 3635) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1755

【37】

روزانہ کنگھی کرنے کی ممانعت

عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کنگھی کرنے سے منع فرمایا، سوائے اس کے کہ ناغہ کر کے کی جائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الترجل ١ (٤١٥٩) ، سنن النسائی/الزینة ٧ (٥٠٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٥٠) ، و مسند احمد (٤/٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (501) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1756

【38】

سرمہ لگانا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اثمد سرمہ لگاؤ اس لیے کہ وہ بینائی کو جلا بخشتا ہے اور پلکوں کا بال اگاتا ہے ، نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک سرمہ دانی تھی جس سے آپ ہر رات تین سلائی اس (داہنی آنکھ) میں اور تین سلائی اس (بائیں آنکھ) میں سرمہ لگاتے تھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عباس کی حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اس لفظ کے ساتھ صرف عباد بن منصور کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - اس باب میں جابر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ٢٥ (٣٤٩٧) ، وانظر أیضا : سنن ابی داود/ الطب ١٤ (٣٨٧٨) ، سنن النسائی/الزینة ٢٨ (٥١١٦) ، (تحفة الأشراف : ٦١٣٧) ، و مسند احمد (١/٣٥٤) ، ویأتي عند المؤلف برقم ٢٠٤٨) (صحیح) (پہلا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ” عباد بن منصور “ مدلس ومختلط ہیں ) قال الشيخ الألباني : (حديث ابن عباس اکتحلوا بالإثمد .. ) صحيح دون قوله وزعم .. ، (الحديث الآخر عليكم بالإثمد .. ) ** مختصر الشمائل (42) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1757

【39】

صماء اور ایک کپڑے میں احتباء کی ممانعت کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دو لباس سے منع فرمایا : ایک صماء، اور دوسرا یہ کہ کوئی شخص خود کو کپڑے میں اس طرح لپیٹ لے کہ اس کی شرمگاہ پر اس کپڑے کا کوئی حصہ نہ رہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - یہ دوسری سندوں سے بھی ابوہریرہ کے واسطہ سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے، ٣ - اس باب میں علی، ابن عمر، عائشہ، ابوسعید، جابر اور ابوامامہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٧٨٨) ، وانظر : مسند احمد (٢/٣١٩، ٥٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اہل لغت کے نزدیک صماء یہ ہے کہ آدمی چادر سے جسم کو اس طرح لپیٹ لے کہ بوقت ضرورت ہاتھ بھی نہ نکال سکے ، فقہاء کے نزدیک صماء یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے جسم پر ایک ہی چادر لپیٹے اور اس کا ایک کنارہ اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈال لے جس سے اس کی شرمگاہ کھل جائے ، اور احتباء یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے دونوں پاؤں کو کھڑا کر کے چوتڑ کے بل بیٹھ جائے اور اوپر سے کپڑا اس طرح لپیٹے کہ شرمگاہ پر کچھ نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1758

【40】

مصنوعی بال جوڑنے کے بارے میں

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے بال میں جوڑے لگانے والی، بال میں جوڑے لگوانے والی، گدنا گوندنے والی اور گدنا گوندوانے والی پر لعنت بھیجی ہے ۔ نافع کہتے ہیں : گدنا مسوڑے میں ہوتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عائشہ، ابن مسعود، اسماء بنت ابی بکر، ابن عباس، معقل بن یسار اور معاویہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٨٣ (٥٩٣٧) ، و ٨٥ (٥٩٤٠، ٥٩٤٢) ، و ٨٧ (٥٩٤٧) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٤) ، سنن ابی داود/ الترجل ٥ (٤١٦٨) ، (٢٧٨٤) ، سنن النسائی/الزینة ٢٣ (٥٠٩٨) ، ٧٢ (٥٢٥٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٢ (١٩٨٧) (تحفة الأشراف : ٧٩٣٠) ، و مسند احمد (٢/٢١) ویأتي في الأدب ٣٣ (برقم ٢٧٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ غالب احوال کے تحت ہے ورنہ جسم کے دوسرے حصوں پر بھی گدنا گوندنے کا عمل ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1987) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1759

【41】

ریشمی زین کی ممانعت

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ریشمی زین پر سوار ہونے سے منع فرمایا : راوی کہتے ہیں : اس حدیث میں ایک قصہ مذکور ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - براء (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی اور معاویہ (رض) سے بھی روایت ہے، شعبہ نے بھی اشعث بن ابی شعثاء سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، اس حدیث میں ایک قصہ مذکور ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٧١ (٥١٧٥) ، والأشربة ٢٨ (٥٦٣٥) ، والمرضی ٤ (٥٦٥٠) ، واللباس ٢٨ (٥٨٣٨) ، و ٣٦ (٥٨٤٩) ، و ٤٥ (٥٨٦٣) ، والأدب ١٢٤ (٦٢٢٢) ، صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٩١٦) ، و مسند احمد (٤/٢٨٤، ٢٩٩) وکلہم في سیاق طویل منہ ہذا الشق (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح آداب الزفاف (125) ، المشکاة (4358 / التحقيق الثانی) ، الصحيحة (2396) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1760

【42】

نبی کریم ﷺ کا بستر مبارک

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جس بچھونے پر سوتے تھے وہ چمڑے کا تھا، اس کے اندر کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں حفصہ اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٦ (٦٤٥٦) ، صحیح مسلم/اللباس ٦ (٢٠٨٢) ، سنن ابی داود/ اللباس ٤٥ (٤١٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ١١ (٤١٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٠٧) ، و مسند احمد (٦/٤٨، ٥٦، ٧٣، ١٠٨، ١٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4151) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1761

【43】

قمیص کے بارے میں

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے نزدیک سب سے پسندیدہ لباس قمیص تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف عبدالمومن بن خالد کی روایت سے جانتے ہیں، وہ اسے روایت کرنے میں منفرد ہیں، وہ مروزی ہیں، ٣ - بعض لوگوں نے اس حدیث کو اس سند سے روایت کی ہے، «عن أبي تميلة عن عبد المؤمن بن خالد عن عبد اللہ بن بريدة عن أمه عن أم سلمة»۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ اللباس ٣ (٤٠٢٥) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٨ (٣٥٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3575) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1762

【44】

قمیص کے بارے میں

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے نزدیک سب سے پسندیدہ لباس قمیص تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : محمد بن اسماعیل کو کہتے سنا : عبداللہ بن بریدہ کی حدیث جو ان کی ماں کے واسطہ سے ام سلمہ سے مروی ہے زیادہ صحیح ہے، ابوتمیلہ اس حدیث میں «عن امہ» کا واسطہ ضرور بیان کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1763

【45】

قمیص کے بارے میں

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک پسندیدہ لباس قمیص تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم ١٧٦٢ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1764

【46】

قمیص کے بارے میں

اسماء بنت یزید بن سکن انصاریہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بازو کی آستین کلائی (پہنچوں) تک ہوتی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ اللباس ٣ (٤٠٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٦٥) (ضعیف) (اس کے راوی شہر بن حوشب حافظہ کے بہت کمزور ہیں اس لیے ان سے بہت وہم ہوجاتا تھا ) قال الشيخ الألباني : ضعيف مختصر الشمائل (47) ، الضعيفة (3457) //، ضعيف أبي داود (870 / 4027) ، ضعيف الجامع الصغير (4479) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1765

【47】

قمیص کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ قمیص پہنتے تو داہنی طرف سے (پہننا) شروع کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : کئی لوگوں نے یہ حدیث بسند «شعبة عن أبي هريرة» موقوف روایت کی ہے، شعبہ سے روایت کرنے والے عبدالصمد بن عبدالوارث کے علاوہ ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اسے مرفوع طریقہ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وأخرجہ النسائي في الکبریٰ ) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٩٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4330 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1766

【48】

نیا کپڑا پہنتے وقت کیا کہے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کوئی نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام لیتے جیسے عمامہ (پگڑی) ، قمیص یا چادر، پھر کہتے : «اللهم لک الحمد أنت کسوتنيه أسألک خيره وخير ما صنع له وأعوذ بک من شره وشر ما صنع له» اللہ ! تیرے ہی لیے تعریف ہے، تو نے ہی مجھے یہ پہنایا ہے، میں تم سے اس کی خیر اور اس چیز کی خیر کا طلب گار ہوں جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے، اور اس کی شر اور اس چیز کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ اللباس ١ (٤٠٢٠) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١١٨ (٣٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٢٦) ، و مسند احمد (٣/٣٠، ٥٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4342) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1767 اس سند سے بھی ابوسعید (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4342) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1767

【49】

جبہ پہننا

مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے رومی جبہ پہنا جس کی آستینیں تنگ تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٥١٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (57) ، صحيح أبي داود (139 - 140) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1768

【50】

جبہ پہننا

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ دحیہ کلبی نے رسول اللہ ﷺ کے لیے دو موزے تحفہ بھیجے، چناچہ آپ نے انہیں پہنا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اسرائیل نے اپنی روایت میں کہا ہے (جسے وہ بطریق «عن جابر» روایت کرتے ہیں) : ایک جبہ بھی بھیجا، آپ نے ان دونوں موزوں کو پہنا یہاں تک کہ وہ پھٹ گئے، نبی اکرم ﷺ نہیں جانتے تھے کہ وہ مذبوح جانور کی کھال کے ہیں یا غیر مذبوح، ٣ - ابواسحاق سبیعی کا نام سلیمان ہے، ٤ - حسن بن عیاش ابوبکر بن عیاش کے بھائی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ١١٥١٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : (حديث المغيرة) صحيح، (حديث عامر) ضعيف (حديث المغيرة) مختصر الشمائل (59) ، (حديث عامر) مختصر الشمائل (59) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1769

【51】

دانتوں پر سونا چڑھانا

عرفجہ بن اسعد (رض) کہتے ہیں کہ ایام جاہلیت میں کلاب ١ ؎ (ایک لڑائی) کے دن میری ناک کٹ گئی، میں نے چاندی کی ایک ناک لگائی تو اس سے بدبو آنے لگی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے مجھے سونے کی ایک ناک لگانے کا حکم دیا ٢ ؎۔ اس سند سے بھی ابوشہب سے اسی جیسی حدیث روایت ہے، امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ -

【52】

None

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھال ( استعمال کرنے ) سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ زیادہ صحیح ہے ۱؎۔

【53】

نبی کریم ﷺ کے نعلین مبارک

قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ کے جوتے کیسے تھے ؟ کہا : ان کے دو تسمے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس اور ابوہریرہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤١ (٥٨٥٧) ، (وانظر أیضا : الخمس رقم ٣١٠٧) سنن ابی داود/ اللباس ٤٤ (٤١٣٤) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٧ (١٦١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٢) ، و مسند احمد (٣/١٢٢، ٢٠٣، ٢٤٥، ٢٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (60 و 62) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1772

【54】

نبی کریم ﷺ کے نعلین مبارک

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے جوتے کے دو تسمے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس و ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (60 و 62) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1773

【55】

ایک جوتا پہن کر چلنا مکروہ ہے۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی آدمی ایک جوتا پہن کر نہ چلے، دونوں پہن لے یا دونوں اتار دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٠ (٥٨٥٥) ، صحیح مسلم/اللباس ١٩ (٢٠٩٧) ، سنن ابی داود/ اللباس ٤٤ (٤١٣٦) ، سنن النسائی/اللباس ٢٩ (١٦١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٠٠) ، و مسند احمد (٢/٢٤٥، ٣١٤) (صحیح) (وانظر أیضا : سنن ابی داود/ اللباس ١٩ (٢٠٩٨) ، وسنن النسائی/الزینة ١١٧ (٥٣٧١) ، وط/اللباس ٧ (١٤) ، و مسند احمد (٢/٢٥٣، ٤٢٤، ٤٧٧، ٤٨٠، ٥٢٨ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3617) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1774

【56】

ایک جوتا پہن کر چلنا مکروہ ہے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ کوئی شخص کھڑے ہو کر جوتا پہنے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - عبیداللہ بن عمر ورقی نے اس حدیث کو معمر سے، معمر نے قتادہ سے، قتادہ نے انس سے روایت کی ہے، یہ دونوں حدیثیں محدثین کے نزدیک صحیح نہیں ہیں، حارث بن نبہان کا حافظہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہے، ٣ - قتادہ کی انس سے مروی حدیث کی ہم کوئی اصل نہیں جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر : سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٩ (٣٦١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٣) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کا راوی حارث بن نبہان متروک الحدیث ہے، دیکھئے : سلسلہ الصحیحہ رقم ٧١٩ ) وضاحت : ١ ؎ : کھڑے ہو کر جوتا پہننے میں یہ دقت ہے کہ پہننے والا بسا اوقات گر سکتا ہے ، جب کہ بیٹھ کر پہننے میں زیادہ سہولت ہے ، اگر کھڑے ہو کر پہننے میں ایسی کوئی پریشانی نہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3618) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1775

【57】

ایک جوتا پہن کر چلنا مکروہ ہے۔

انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر جوتا پہننے سے منع فرمایا۔ ٍ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اور نہ ہی معمر کی حدیث جسے وہ عمار بن ابی عمار سے اور عمار ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٤٠) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی سلیمان ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (1775) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1776

【58】

ایک جوتا پہن کر چلنے کی اجازت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ بسا اوقات نبی اکرم ﷺ ایک جوتا پہن کر چلتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٧٥١٦) (منکر) (اس کے راوی لیث بن ابی سلیم متروک الحدیث ہیں، اس حدیث کا عائشہ پر موقوف ہونا ہی صحیح ہے، جیسا کہ اگلی روایت میں ہے، اور مؤلف نے صراحت کی ہے ) قال الشيخ الألباني : منكر، المشکاة (4416) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1777

【59】

ایک جوتا پہن کر چلنے کی اجازت

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ ایک جوتا پہن کر چلیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ روایت زیادہ صحیح ہے ١ ؎، ٢ - سفیان ثوری اور کئی لوگوں نے اسی طرح اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن قاسم کے واسطہ سے موقوف طریقہ سے روایت کیا ہے اور یہ موقوف روایت زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٧٤٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ ـ : یعنیعبدالرحمٰن بن قاسم کے واسطہ سے سفیان بن عیینہ کی یہ موقوف روایت اس سے ماقبل لیث کی مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے ، کیونکہ لیث کی بنسبت سفیان بن عیینہ محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں اور ان کا حافظہ قوی ہے ، جب کہ لیث آخری عمر میں اپنے حافظہ کے اعتبار سے کمزور ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح المصدر نفسه صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1778

【60】

ایک جوتا پہن کر چلنے کی اجازت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جب کوئی جوتا پہنے تو داہنے پیر سے شروع کرے اور جب اتارے تو بائیں سے شروع کرے، پہننے میں داہنا پاؤں پہلے اور اتارنے میں پیچھے ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٣٩ (٥٨٥٤) ، سنن ابی داود/ اللباس ٤٤ (٤١٣٩) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٨ (٣٦١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨١٤) ، وط/اللباس ٧ (١٥) ، و مسند احمد (٢/٢٨٣، ٤٣٠، ٤٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جوتا پہننا پاؤں کے لیے عزت و تکریم کا باعث ہے ، اس لحاظ سے اس تکریم کا مستحق داہنا پاؤں سب سے زیادہ ہے ، کیونکہ دایاں پاؤں بائیں سے بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3616) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1779

【61】

کپڑوں میں پیوند لگانا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اگر تم (آخرت میں) مجھ سے ملنا چاہتی ہو تو دنیا سے مسافر کے سامان سفر کے برابر حاصل کرنے پر اکتفا کرو، مالداروں کی صحبت سے بچو اور کسی کپڑے کو اس وقت تک پرانا نہ سمجھ یہاں تک کہ اس میں پیوند لگا لو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف صالح بن حسان کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا : صالح بن حسان منکر حدیث ہیں اور صالح بن ابی حسان جن سے ابن ابی ذئب نے روایت کی ہے وہ ثقہ ہیں، ٤ - تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦٣٤٧) (ضعیف جداً ) (سند میں ” صالح بن حسان “ متروک ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، الضعيفة (1294) ، التعليق الرغيب (4 / 98) ، المشکاة (4344 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (1288) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1780 امام ترمذی کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کے فرمان «إياک ومجالسة الأغيناء» کا مطلب اسی طرح ہے جیسا کہ ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اس آدمی کو دیکھے جس کو صورت اور رزق میں اس پر فضیلت دی گئی ہو، تو اسے چاہیئے کہ اپنے سے کم تر کو دیکھے جس کے اوپر اس کو فضیلت دی گئی ہے، کیونکہ اس کے لیے مناسب ہے کہ اپنے اوپر کی گئی اللہ کی نعمت کی تحقیر نہ کرے ، ٤ - عون بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں : میں مالداروں کے ساتھ رہا تو اپنے سے زیادہ کسی کو غمزدہ نہیں دیکھا، کیونکہ میں اپنے سے بہتر سواری اور اپنے سے بہتر کپڑا دیکھتا تھا اور جب میں غریبوں کے ساتھ رہا تو میں نے راحت محسوس کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الترجل ١٢ (٤١٩١) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٦ (٣٦٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، الضعيفة (1294) ، التعليق الرغيب (4 / 98) ، المشکاة (4344 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (1288) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1780

【62】

ام ہانی (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مکہ اس حال میں آئے کہ آپ کی چار چوٹیاں تھیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : ام ہانی سے مجاہد کا سماع میں نہیں جانتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ممکن ہے گردوغبار سے بالوں کو محفوظ رکھنے کے لیے آپ نے ایسا کیا ہو ، کیونکہ اس وقت آپ سفر میں تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3631) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1781

【63】

ابوکبشہ انماری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی آستینیں کشادہ تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث منکر ہے، ٢ - عبداللہ بن بسر بصرہ کے رہنے والے ہیں، محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، یحییٰ بن سعید وغیرہ نے انہیں ضعیف کہا ہے، ٣ - «بطح» چوڑی اور کشادہ چیز کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢١٤٤) (ضعیف) (اس کے راوی عبد اللہ بن بسر مکی ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (4333 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1782

【64】

حذیفہ بن یمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی یا میری پنڈلی کا گوشت پکڑا اور فرمایا : یہ تہبند کی جگہ ہے، اگر اس پر راضی نہ ہو تو تھوڑا اور نیچا کرلو، پھر اگر اور نیچا کرنا چاہو تو تہ بند ٹخنوں سے نیچا نہیں کرسکتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے، ثوری اور شعبہ نے بھی اس کو ابواسحاق سبیعی سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ٧ (٣٥٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٨٣) و مسند احمد (٥/٣٨٢، ٣٩٦، ٣٩٨، ٤٠٠، ٤٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی تہ بند باندھنے کی اصل جگہ آدھی پنڈلی تک اگر اس سے نیچا رکھنا ہے تو ٹخنوں سے کچھ اوپر تک رکھنے کی گنجائش ہے ، اس سے نیچا رکھنا منع ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3572) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1783

【65】

محمد بن رکانہ سے روایت ہے کہ رکانہ نے نبی اکرم ﷺ سے کشتی لڑی تو نبی اکرم ﷺ نے اسے پچھاڑ دیا، رکانہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا : ہمارے اور مشرکوں کے درمیان فرق ٹوپیوں پر عمامہ باندھنے کا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اس کی سند قائم (صحیح) نہیں ہے، ٣ - ہم ابوالحسن عسقلانی اور ابن رکانہ کو نہیں جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ اللباس ٢٤ (٤٠٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٦١٤) (ضعیف) (اس کے راوی ابو جعفر بن محمد مجہول ہیں نیز محمد بن علی یزید بن رکانہ اور ان کے پردادا رکانہ یا محمد بن یزید بن رکانہ ان کے دادا کے درمیان انقطاع ہے، اس بابت سخت اختلاف ہے دیکھئے : تہذیب الکمال ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (4340) ، الإرواء (1503) // ضعيف الجامع الصغير (3959) ، ضعيف أبي داود (882 / 4078) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1784

【66】

لوہے اور پیتل کی انگوٹھی۔

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس لوہے کی انگوٹھی پہن کر آیا، آپ نے فرمایا : کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جہنمیوں کا زیور پہنے ہو ؟ پھر وہ آپ کے پاس پیتل کی انگوٹھی پہن کر آیا، آپ نے فرمایا : کیا بات ہے کہ تم سے بتوں کی بدبو آرہی ہے ؟ پھر وہ آپ کے پاس سونے کی انگوٹھی پہن کر آیا، تو آپ نے فرمایا : کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جنتیوں کا زیور پہنے ہو ؟ اس نے پوچھا : میں کس چیز کی انگوٹھی پہنوں ؟ آپ نے فرمایا : چاندی کی اور (وزن میں) ایک مثقال سے کم رکھو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے، ٣ - عبداللہ بن مسلم کی کنیت ابوطیبہ ہے اور وہ عبداللہ بن مسلم مروزی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الخاتم ٤ (٤٢٢٣) ، سنن النسائی/الزینة ٤٦ (٥١٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٩٨٢) ، و مسند احمد (٥/٣٥٩) (ضعیف) (اس کے راوی عبداللہ بن مسلم ابو طیبہ حافظہ کے کمزور ہیں، انہیں اکثر وہم ہوجایا کرتا تھا ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (4396) ، آداب الزفاف (128) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1785

【67】

ریشمی کپڑا پہننے کی ممانعت

علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے «قسي» (ایک ریشمی کپڑا) سرخ (رنگ کا ریشمی) زین پوش اور اس انگلی اور اس انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا اور انہوں نے شہادت اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ١٦ (٢٠٨٧) ، والذکر ١٨ (٢٧٢٥) ، سنن ابی داود/ الخاتم ٤ (٤٢٢٥) ، سنن النسائی/الزینة ٥٢ (٥٢١٣) ، ٧٩ (٥٢٨٨) ، و ١٢١ (٥٣٧٨) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٤٣ (٣٦٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣١٨) ، و مسند احمد (١/٨٨، ١٣٤، ١٣٨) (صحیح) ہذہ أو ہذہ کے لفظ سے صحیح ہے، اور دونوں سیاق کا معنی ایک ہی ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح - بلفظ فی هذه أو هذه شک عاصم - الضعيفة (5499) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1786

【68】

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا پسندیدہ کپڑا جسے آپ پہنتے تھے وہ دھاری دار یمنی چادر تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ١٨ (٥٨١٢) ، صحیح مسلم/اللباس ٥ (٢٠٧٩) ، سنن النسائی/الزینة ٩٤ (٥٣١٧) ، والمؤلف في الشمائل ٨ (تحفة الأشراف : ١٣٥٣) ، و مسند احمد (٣/١٣٤، ١٨٤، ٢٥١، ٢٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل المحمدية (51) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1787