25. نیکی و صلہ رحمی کا بیان

【1】

ماں باپ سے حسن سلوک

معاویہ بن حیدہ قشیری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اللہ کے رسول ! میں کس کے ساتھ نیک سلوک اور صلہ رحمی کروں ؟ آپ نے فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ ، میں نے عرض کیا : پھر کس کے ساتھ ؟ فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ ، میں نے عرض کیا : پھر کس کے ساتھ ؟ فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ ، میں نے عرض کیا : پھر کس کے ساتھ ؟ فرمایا : پھر اپنے باپ کے ساتھ، پھر رشتہ داروں کے ساتھ پھر سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار پھر اس کے بعد کا، درجہ بدرجہ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، شعبہ نے بہز بن حکیم کے بارے میں کلام کیا ہے، محدثین کے نزدیک وہ ثقہ ہیں، ان سے معمر، ثوری، حماد بن سلمہ اور کئی ائمہ حدیث نے روایت کی ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، عائشہ اور ابو الدرداء (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٢٩ (٥١٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٨٣) ، و مسند احمد (٥/٣، ٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : ماں کو تین مشکل حالات سے گزرنا پڑتا ہے : ایک مرحلہ وہ ہوتا ہے جب نو ماہ تک بچہ کو پیٹ میں رکھ کر مشقت و تکلیف برداشت کرتی ہے ، دوسرا مرحلہ وہ ہوتا ہے جب بچہ جننے کا وقت آتا ہے ، وضع حمل کے وقت کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ ماں ہی کو معلوم ہے ، تیسرا مرحلہ دودھ پلانے کا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ماں کو قرابت داروں میں نیکی اور صلہ رحمی کے لیے سب سے افضل اور سب سے مستحق قرار دیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (4929) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1897

【2】

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : وقت پر نماز ادا کرنا ، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! پھر کون سا عمل زیادہ بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا : ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا ، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! پھر کون سا عمل ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ، پھر رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے، حالانکہ اگر میں زیادہ پوچھتا تو آپ زیادہ بتاتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسے ابوعمرو شیبانی، شعبہ اور کئی لوگوں نے ولید بن عیزار سے روایت کی ہے، ٣ - یہ حدیث ابوعمرو شیبانی کے واسطہ سے ابن مسعود سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٧٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد سب سے افضل و بہتر عمل ہے ، بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا یہ سب سے اچھا کام ہے ، اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ سب سے اچھا کام ہے ، جب کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز سب سے افضل عمل ہے ، اسی لیے اس کی توجیہ میں مختلف اقوال وارد ہیں ، سب سے بہتر توجیہ یہ ہے کہ افضل اعمال سے پہلے حرف «مِن» محذوف مان لیا جائے ، گویا مفہوم یہ ہوگا کہ یہ سب افضل اعمال میں سے ہیں ، دوسری توجیہ یہ ہے کہ اس کا تعلق سائل کے احوال اور وقت کے اختلاف سے ہے ، یعنی سائل اور وقت کے تقاضے کا خیال رکھتے ہوئے اس کے مناسب جواب دیا گیا۔ اور اپنی جگہ پر یہ سب اچھے کام ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1489) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1898

【3】

والدین کی رضامندی کی فضیلت

ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان کے پاس آ کر کہا : میری ایک بیوی ہے، اور میری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے، (میں کیا کروں ؟ ) ابوالدرداء (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو ١ ؎۔ سفیان بن عیینہ نے کبھی «إن امی» (میری ماں) کہا اور کبھی «إن أبی» (میرا باپ) کہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣٦ (٢٩٨٩) ، والأدب ١ (٣٦٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ماں باپ کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور اس کا خاص خیال رکھا جائے ، اگر والد کو جنس مان لیا جائے تو ماں باپ دونوں مراد ہوں گے ، یا حدیث کا یہ مفہوم ہے کہ والد کے مقام و مرتبہ کا یہ عالم ہے تو والدہ کے مقام کا کیا حال ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (910) ، المشکاة (4928 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1900

【4】

والدین کی رضامندی کی فضیلت

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٨٨٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (515) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1899 اس سند سے عبداللہ بن عمرو (رض) سے (موقوفاً ) اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ شعبہ نے اس کو مرفوع نہیں کیا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - شعبہ کے شاگردوں نے اسی طرح «عن شعبة عن يعلی بن عطاء عن أبيه عن عبد اللہ بن عمرو» کی سند سے موقوفا روایت کی ہے، ہم خالد بن حارث کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے ہیں، جس نے شعبہ سے اس حدیث کو مرفوعاً روایت کی ہو، ٢ - خالد بن حارث ثقہ ہیں، مامون ہیں، کہتے ہیں : میں نے بصرہ میں خالد بن حارث جیسا اور کوفہ میں عبداللہ بن ادریس جیسا کسی کو نہیں دیکھا، ٣ - اس باب میں ابن مسعود سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (515) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1899

【5】

والد کی نا فرمانی

ابوبکرہ نفیع بن حارث (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تم لوگوں کو سب سے بڑے کبیرہ گناہ کے بارے میں نہ بتادوں ؟ صحابہ نے کہا : اللہ کے رسول ! کیوں نہیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، راوی کہتے ہیں : آپ اٹھ بیٹھے حالانکہ آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر فرمایا : اور جھوٹی گواہی دینا ، یا جھوٹی بات کہنا رسول اللہ ﷺ باربار اسے دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا : کاش آپ خاموش ہوجاتے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابو سعید خدری (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشھادات ١٠ (٢٦٥٤) ، والأدب ٦ (٥٩٧٦) ، والاستئذان ٣٥ (٦٢٧٣) ، والمرتدین ١ (٦٩١٩) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٨ (٨٧) ، والمؤلف في الشھادات (٢٣٠١) ، وتفسیر النساء (٣٠١٩) (تحفة الأشراف : ١١٦٧٩) ، و مسند احمد (٥/٣٦، ٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (277) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1901

【6】

والد کی نا فرمانی

٢ - عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بھلا کوئی آدمی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، وہ کسی کے باپ کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کے باپ کو گالی دے گا، اور وہ کسی کی ماں کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کی ماں کو گالی دے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٤ (٥٩٧٣) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٨ (٩٠) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٢٩ (٥١٤١) ، (تحفة الأشراف : ٨٦١٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (3 / 221) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1902

【7】

والد کے دوست کی عزت کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : سب سے بہتر سلوک اور سب سے اچھا برتاؤ یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ صلہ رحمی کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ سند صحیح ہے، یہ حدیث ابن عمر (رض) سے کئی سندوں سے آئی ہے، ٢ - اس باب میں ابواسید (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٤ (٢٥٥٢) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٢٩ (٥١٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٥٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الضعيفة (2089 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1903

【8】

خالہ کے ساتھ نیکی کرنا

براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : خالہ ماں کے درجہ میں ہے ، اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلح ٦ (٢٦٩٩) ، والمغازي ٤٣ (٤٢٤١) (في کلا الوضعین في سیاق طویل) (تحفة الأشراف : ١٨٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2190) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1904

【9】

والدین کی دعا

٢ - اس سند سے نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، لیکن اس میں ابن عمر کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، یہ ابومعاویہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦ (١٥٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١١ (٣٨٦٢) ، ویأتي عند المؤلف في الدعوات ٤٨ (٣٤٤٨) (تحفة الأشراف : ١١٨٧٣) ، و مسند احمد (٢/٢٥٨، ٤٧٨، ٥٢٣) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (3862) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1905

【10】

والدین کا حق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین دعائیں مقبول ہوتی ہیں ان میں کوئی شک نہیں ہے : مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور بیٹے کے اوپر باپ کی بد دعا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - حجاج صواف نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے ہشام کی حدیث جیسی حدیث روایت کی ہے، ابو جعفر جنہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے انہیں ابو جعفر مؤذن کہا جاتا ہے، ہم ان کا نام نہیں جانتے ہیں، ٢ - ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العتق ٦ (١٥١٠) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١١ (٣٦٥٩) (تحفة الأشراف : ١٢٥٩٥) ، و مسند احمد (٢/٢٣٠، ٢٦٣، ٢٧٦، ٤٤٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3659) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1906

【11】

قطع رحمی

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی لڑکا اپنے باپ کا احسان نہیں چکا سکتا ہے سوائے اس کے کہ اسے (یعنی باپ کو) غلام پائے اور خرید کر آزاد کر دے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ہم اسے صرف سہیل بن ابی صالح کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - سفیان ثوری اور کئی لوگوں نے بھی یہ حدیث سہیل بن ابی صالح سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٤٦ (١٦٩٤) (تحفة الأشراف : ٩٧٢٨) ، و مسند احمد (١/١٩١، ١٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ باپ کے احسان کا بدلہ اس لیے ہے کہ غلامی کی زندگی سے کسی کو آزاد کرانا اس سے زیادہ بہتر کوئی چیز نہیں ہے ، جس کے ذریعہ کوئی کسی دوسرے پر احسان کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (520) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1907

【12】

صلہ رحمی

ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ابوالرداد لیثی بیمار ہوگئے، عبدالرحمٰن بن عوف (رض) ان کی عیادت کو گئے، ابوالرداء نے کہا : میرے علم کے مطابق ابو محمد (عبدالرحمٰن بن عوف) لوگوں میں سب سے اچھے اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں، عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے «رحم» (یعنی رشتے ناتے) کو پیدا کیا ہے، اور اس کا نام اپنے نام سے (مشتق کر کے) رکھا ہے، اس لیے جو اسے جوڑے گا میں اسے (اپنی رحمت سے) جوڑے رکھوں گا اور جو اسے کاٹے گا میں بھی اسے (اپنی رحمت سے) کاٹ دوں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس باب میں ابو سعید خدری، ابن ابی اوفی، عامر بن ربیعہ، ابوہریرہ اور جبیر بن مطعم (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ٢ - زہری سے مروی سفیان کی حدیث صحیح ہے، معمر نے زہری سے یہ حدیث «عن أبي سلمة عن رداد الليثي عن عبدالرحمٰن بن عوف و معمر» کی سند سے روایت کی ہے، معمر نے (سند بیان کرتے ہوئے) ایسا ہی کہا ہے، محمد (بخاری) کہتے ہیں : معمر کی حدیث میں خطا ہے، (دونوں سندوں میں فرق واضح ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١٥ (٥٩٩١) ، سنن ابی داود/ الزکاة ٤٥ (١٦٩٧) (تحفة الأشراف : ٨٩١٥) ، و مسند احمد (٢/١٦٣، ١٩٠، ١٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سند میں ابوالرداد ہے ، اور امام ترمذی کے کلام میں نیچے رداد آیا ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ رداد کو بعض لوگوں نے ابوالرداد کہا ہے ، اور یہ زیادہ صحیح ہے ، (تقریب التہذیب) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (404) ، صحيح أبي داود (1489) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1908

【13】

صلہ رحمی

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو بدلہ چکائے ١ ؎، بلکہ حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جو رشتہ ناتا توڑنے پر بھی صلہ رحمی کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں سلمان، عائشہ اور عبداللہ بن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١١ (٥٩٨٤) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٦ (٢٥٥٦) ، سنن ابی داود/ الزکاة ٤٥ (١٦٩٦) (تحفة الأشراف : ٣١٩٠) ، و مسند احمد (٤/٨٠، ٨٣، ٨٤، ٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی صلہ رحمی کی جائے تو صلہ رحمی کرے اور قطع رحمی کیا جائے تو قطع رحمی کرے ، یہ کوئی صلہ رحمی نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (407) ، صحيح أبي داود (1488) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1909

【14】

اولاد کی محبت

جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رشتہ ناتا توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا ۔ ابن ابی عمر کہتے ہیں : سفیان نے کہا : «قاطع» سے مراد «قاطع رحم» (یعنی رشتہ ناتا توڑنے والا) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو : تخریج کتاب الزہد لوکیع بن الجراح ب تحقیق، عبدالرحمن الفریوائی، حدیث نمبر ١٧٨، والضعیفة ٣٢١٤، والصحیحة ٤٧٦٤ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (3214) // ضعيف الجامع الصغير (2041) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1910

【15】

اولاد پر شفقت کرنا

خولہ بنت حکیم (رض) کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ گود میں اپنی بیٹی (فاطمہ) کے دو لڑکوں (حسن، حسین) میں سے کسی کو لیے ہوئے باہر نکلے اور آپ (اس لڑکے کی طرف متوجہ ہو کر) فرما رہے تھے : تم لوگ بخیل بنا دیتے ہو، تم لوگ بزدل بنا دیتے ہو، اور تم لوگ جاہل بنا دیتے ہو، یقیناً تم لوگ اللہ کے عطا کئے ہوئے پھولوں میں سے ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابراہیم بن میسرہ سے مروی ابن عیینہ کی حدیث کو ہم صرف انہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - ہم نہیں جانتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز کا سماع خولہ سے ثابت ہے، ٣ - اس باب میں ابن عمر اور اشعث بن قیس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١٧ (٥٩٩٣) ، صحیح مسلم/الفضائل ١٥ (٢٣١٨) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٥٦ (٥٢١٨) (تحفة الأشراف : ١٥٤٦) ، و مسند احمد (٢/٢٢٨، ٢٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج مشكلة الفقر (108) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1911

【16】

لڑکیوں پر خرچ کرنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس تین لڑکیاں، یا تین بہنیں، یا دو لڑکیاں، یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کے حقوق کے سلسلے میں اللہ سے ڈرے تو اس کے لیے جنت ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٩١٢ (تحفة الأشراف : ١٠٨٤) (صحیح) (ملاحظہ ہو : حدیث رقم : ١٩١٢، وصحیح الترغیب ١٩٧٣ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : ضعیف ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف بهذا اللفظ الصحيحة تحت الحديث (294) // ضعيف الجامع الصغير (5808) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1916

【17】

لڑکیوں پر خرچ کرنا

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسی کے پاس تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو جنت میں ضرور داخل ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابو سعید خدری کا نام سعد بن مالک بن سنان ہے، اور سعد بن ابی وقاص کا نام سعد بن مالک بن وہیب ہے، ٢ - اس حدیث کی دوسری سند میں راویوں نے (سعید بن عبدالرحمٰن اور ابوسعید کے درمیان) ایک اور راوی (ایوب بن بشیر) کا اضافہ کیا ہے، ٣ - اس باب میں عائشہ، عقبہ بن عامر، انس، جابر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٣٠ (٥١٤٧) (تحفة الأشراف : ٤٠٤١) ، و یأتي برقم ١٩١٦ (صحیح) (اس کے راوی سعید بن عبدالرحمن الأعشی مقبول راوی ہیں، اور اس باب میں وارد احادیث کی بنا پر یہ صحیح ہے، جس کی طرف امام ترمذی نے اشارہ کردیا ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح الترغیب ١٩٧٣، و الادب المفرد باب من أعلی جاريتين أو واحدة والباب الذي بعده، وتراجع الالبانی ٤٠٩، والسراج المنیر ٢/١٠٤٩ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف انظر ما قبله (1911) // ضعيف الجامع الصغير (6369) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1912

【18】

لڑکیوں پر خرچ کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص لڑکیوں کی پرورش سے دوچار ہو، پھر ان کی پرورش سے آنے والی مصیبتوں پر صبر کرے تو یہ سب لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بنیں گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١٠ (١٤١٨) ، والأدب ١٨ (٥٩٩٥) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٤٦ (٢٦٢٩) ، کلاہما مع ذکر القصة المشھورة في رقم ١٩١٥، و مسند احمد (٦/٣٣، ٨٨، ١٦٦، ٢٤٣) ، ویأتي عند المؤلف برقم ١٩١٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1913

【19】

لڑکیوں پر خرچ کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں، اس نے (کھانے کے لیے) کوئی چیز مانگی مگر میرے پاس سے ایک کھجور کے سوا اسے کچھ نہیں ملا، چناچہ اسے میں نے وہی دے دیا، اس عورت نے کھجور کو خود نہ کھا کر اسے اپنی دونوں لڑکیوں کے درمیان بانٹ دیا اور اٹھ کر چلی گئی، پھر میرے پاس نبی اکرم ﷺ تشریف لائے، میں نے آپ سے یہ (واقعہ) بیان کیا تو آپ نے فرمایا : جو ان لڑکیوں کی پرورش سے دو چار ہو اس کے لیے یہ سب جہنم سے پردہ ہوں گی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم ١٩١٣ (تحفة الأشراف : ١٦٣٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ (رض) نے اسے تین کھجوریں دی تھیں ، دو کھجوریں اس نے ان دونوں بچیوں کو دے دیں اور ایک کھجور خود کھانا چاہتی تھی ، لیکن بچیوں کی خواہش پر آدھا آدھا کر کے اسے بھی ان کو دے دیا ، جس پر عائشہ (رض) کو بڑا تعجب ہوا ، ان دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ پہلے انہیں ایک کھجور دی ، پھر بعد میں جب دو کھجوریں اور مل گئیں تو انہیں بھی اس کے حوالہ کردیا ، یا یہ کہا جائے کہ یہ دونوں الگ الگ واقعات ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (3 / 83) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1915

【20】

لڑکیوں پر خرچ کرنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے دو لڑکیوں کی کفالت کی تو میں اور وہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے ، اور آپ نے کیفیت بتانے کے لیے اپنی دونوں انگلیوں (شہادت اور درمیانی) سے اشارہ کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - محمد بن عبید نے محمد بن عبدالعزیز کے واسطہ سے اسی سند سے کئی حدیثیں روایت کی ہے اور سند بیان کرتے ہوئے کہا ہے : «عن أبي بکر بن عبيد اللہ بن أنس» حالانکہ صحیح یوں ہے «عن عبيد اللہ بن أبي بکر بن أنس»۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٤٦ (٢٦٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٣) (صحیح) (مسلم کی سند میں ” عن عبيد اللہ بن أبي بکر بن أنس، عن أنس بن مالک “ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (297) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1914

【21】

یتیم پر رحم اور اس کی کفالت کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان یتیم کو اپنے ساتھ رکھ کر انہیں کھلائے پلائے، تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا، سوائے اس کے کہ وہ ایسا گناہ (شرک) کرے جو مغفرت کے قابل نہ ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - راوی حنش کا نام حسین بن قیس ہے، کنیت ابوعلی رحبی ہے، سلیمان تیمی کہتے ہیں : یہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، ٢ - اس باب میں مرہ فہری، ابوہریرہ، ابوامامہ اور سہل بن سعد (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٠٢٧) (ضعیف) (سند میں ” حنش “ یعنی حسین بن قیس “ متروک الحدیث ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (3 / 230) ، الضعيفة (5345) // ضعيف الجامع الصغير (5745) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1917

【22】

یتیم پر رحم اور اس کی کفالت کرنا

سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ان دونوں کی طرح ہوں گے ١ ؎ اور آپ نے اپنی شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٢٥ (٥٣٠٣) ، والأدب ٢٤ (٦٠٠٥) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٣١ (٥١٥٠) (تحفة الأشراف : ٤٧١٠) ، و مسند احمد (٥/٣٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے اشارہ ہے یتیموں کے سرپرستوں کے درجات کی بلندی کی طرف یعنی یتیموں کی کفالت کرنے والے جنت میں اونچے درجات پر فائز ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (800) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1918

【23】

بچوں پر رحم کرنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک بوڑھا آیا، وہ نبی اکرم ﷺ سے ملنا چاہتا تھا، لوگوں نے اسے راستہ دینے میں دیر کی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے، جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - راوی زربی نے انس بن مالک اور دوسرے لوگوں سے کئی منکر حدیثیں روایت کی ہیں، ٣ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو، ابوہریرہ، ابن عباس اور ابوامامہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٣٨) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” زربی “ ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : الصحیحہ رقم : ٢١٩٦ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2196) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1919

【24】

بچوں پر رحم کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا مقام نہ پہچانے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٦٦ (٤٩٤٣) (تحفة الأشراف : ٨٧٨٩) ، و مسند احمد (٢/١٨٥، ٢٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (1 / 16) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1920

【25】

بچوں پر رحم کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے، معروف (بھلی باتوں) کا حکم نہ دے اور منکر (بری باتوں) سے منع نہ کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - محمد بن اسحاق کی عمرو بن شعیب کے واسطہ سے مروی حدیث صحیح ہے، ٣ - عبداللہ بن عمرو سے یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، ٤ - بعض اہل علم کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کے اس قول «ليس منا» کا مفہوم یہ ہے «ليس من سنتنا ليس من أدبنا» یعنی وہ ہمارے طور طریقہ پر نہیں ہے، ٥ - علی بن مدینی کہتے ہیں : یحییٰ بن سعید نے کہا : سفیان ثوری اس تفسیر کی تردید کرتے تھے اور اس کا مفہوم یہ بیان کرتے تھے کہ «ليس منا» سے مراد «ليس من ملتنا» ہے، یعنی وہ ہماری ملت کا نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٢٠٧) ، و مسند احمد (١/٢٥٧) (ضعیف) (سند میں لیث بن أبي سلیم اور شریک القاضي دونوں ضعیف ہیں، مگر پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے پچھلی دونوں حدیثیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (4970) ، التعليق الرغيب (3 / 173) // ضعيف الجامع الصغير (4938) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1921

【26】

لوگوں پر رحم کرنا

جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص لوگوں پر مہربانی نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس پر مہربانی نہیں کرے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، ابو سعید خدری، ابن عمر، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التوحید ٢ (٧٣٧٦) (وانظر أیضا : الأدب ٢٧ (٦٠١٣) ، صحیح مسلم/الفضائل ١٥ (٢٣١٩) (تحفة الأشراف : ٣٢٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج مشكلة الفقر (108) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1922

【27】

لوگوں پر رحم کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ابوالقاسم ﷺ کو فرماتے سنا : صرف بدبخت ہی (کے دل) سے رحم ختم کیا جاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - ابوعثمان جنہوں نے ابوہریرہ سے یہ حدیث روایت کی ہے ان کا نام نہیں معلوم ہے، کہا جاتا ہے، وہ اس موسیٰ بن ابوعثمان کے والد ہیں جن سے ابوالزناد نے روایت کی ہے، ابوالزناد نے «عن موسیٰ بن أبي عثمان عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٦٦ (٤٩٤٢) (تحفة الأشراف : ١٣٣٩١) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (4968 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1923

【28】

لوگوں پر رحم کرنا

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے، تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا، رحم رحمن سے مشتق (نکلا) ہے، جس نے اس کو جوڑا اللہ اس کو (اپنی رحمت سے) جوڑے گا اور جس نے اس کو توڑا اللہ اس کو اپنی رحمت سے کاٹ دے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٦٦ (٤٩٤١) (تحفة الأشراف : ٨٩٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (922) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1924

【29】

نصیحت کے بارے میں

جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز قائم کرنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٤٢ (٥٧) ، والمواقیت ٣ (٥٢٤) ، والزکاة ٢ (١٤٠١) ، والبیوع ٥٨ (٢١٥٧) ، والشروط ١ (٢٧١٤، ٢٧١٥) ، والأحکام ٤٣ (٧٢٠٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٣ (٥٦) ، سنن النسائی/البیعة ٦ (٤١٦١) ، و ١٦ (٤١٧٩) ، و ١٧ (٤١٨٢) ، و ٢٤ (٤١٩٤) (تحفة الأشراف : ٣٢٢٦) ، و مسند احمد (٤/٣٥٨، ٣٦١، ٣٦٤، ٣٦٥) ، وسنن الدارمی/البیوع ٩ (٢٥٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مالی اور بدنی عبادتوں میں نماز اور زکاۃ سب سے اصل ہیں ، نیز «لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ» کی شہادت و اعتراف کے بعد ارکان اسلام میں یہ دونوں (زکاۃ و صلاۃ) سب سے اہم ہیں اسی لیے ان کا تذکرہ خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خیر خواہی عام وخاص سب کے لیے ہے ، طبرانی میں ہے کہ جریر (رض) نے اپنے غلام کو تین سو درہم کا ایک گھوڑا خریدنے کا حکم دیا ، غلام گھوڑے کے ساتھ گھوڑے کے مالک کو بھی لے آیا ، جریر (رض) نے کہا کہ تمہارا گھوڑا تین سو درہم سے زیادہ قیمت کا ہے ، کیا اسے چار سو میں بیچو گے ؟ وہ راضی ہوگیا ، پھر آپ نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ قیمت کا ہے کیا پانچ سو درہم میں فروخت کرو گے ، چناچہ وہ راضی ہوگیا ، پھر اسی طرح اس کی قیمت بڑھاتے رہے یہاں تک کہ اسے آٹھ سو درہم میں خریدا ، اس سلسلہ میں ان سے عرض کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ پر ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کی بیعت کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1925

【30】

نصیحت کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا : دین سراپا خیر خواہی ہے ، لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کس کے لیے ؟ فرمایا : اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ (حکمرانوں) اور عام مسلمانوں کے لیے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر، تمیم داری، جریر، «حكيم بن أبي يزيد عن أبيه» اور ثوبان (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٨٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا اور اس کی ذات پر صحیح طور پر ایمان رکھنا یہ اللہ کے ساتھ خیر خواہی ہے ، جس کا فائدہ انسان کو خود اپنی ذات کو پہنچتا ہے ، ورنہ اللہ عزوجل کی خیر خواہی کون کرسکتا ہے ، اس کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ نصیحت اور خیر خواہی کا حق اللہ کے لیے ہے جو وہ اپنی مخلوق سے کرتا ہے ، اور اس کی کتاب (قرآن) کے ساتھ خیر خواہی اس کے احکام پر عمل کرنا ہے ، اس میں غور و فکر اور تدبر کرنا اس کی تعلیمات کو پھیلانا اس میں تحریف سے بچنا ، اس کی تصدیق کرنے کے ساتھ اس کی تلاوت کا التزام کرنا ہے ، رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کا پابند ہونا ، اس کی رسالت کی تصدیق کرنا اور اس کی فرماں برداری کرنا یہ رسول کی خیر خواہی ہے ، مسلمان حکمراں اور ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق اور غیر معصیت میں ان کی اعانت و اطاعت کی جائے ، سیدھے راستے سے انحراف کرنے کی صورت میں ان کے خلاف خروج و بغاوت سے گریز کرتے ہوئے انہیں معروف کا حکم دیا جائے ، سوائے اس کے کہ ان سے صریحاً کفر کا اظہار ہو تو ایسی صورت میں ترک اعانت ضروری ہے ، عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ دنیا و آخرت سے متعلق جو بھی خیر اور بھلائی کے کام ہیں ان سے انہیں آگاہ کیا جائے ، اور شر و فساد کے کاموں میں ان کی صحیح رہنمائی کی جائے ، اور برائی سے روکا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (26) ، غاية المرام (332) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1926

【31】

مسلمان کی مسلمان پر شفقت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرے، اس سے جھوٹ نہ بولے، اور اس کو بےیار و مددگار نہ چھوڑے، ہر مسلمان کی عزت، دولت اور خون دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے، تقویٰ یہاں (دل میں) ہے، ایک شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر و کمتر سمجھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں علی اور ابوایوب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ١٠ (٢٥٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٣ (٤٢١٣) (تحفة الأشراف : ١٢٣١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں مسلمانوں کی عزت آبرو اور جان و مال کی حفاظت کرنے کی تاکید کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات یہ بتائی گئی ہے کہ تقویٰ کا معاملہ انسان کا اندرونی معاملہ ہے ، اس کا تعلق دل سے ہے ، اس کا حال اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا ، اس لیے دوسرے مسلمان کو حقیر سمجھتے ہوئے اپنے بارے میں قطعا یہ گمان نہیں کرنا چاہیئے کہ میں زہد و تقویٰ کے اونچے مقام پر فائز ہوں ، کیونکہ اس کا صحیح علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (8 / 99 - 100) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1927

【32】

مسلمان کی مسلمان پر شفقت

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٨ (٤٨١) ، والمظالم ٥ (٢٤٤٦) ، والأدب ٢٦ (٦٠٢٦) ، صحیح مسلم/البر والصلة ١٧ (٢٥٨٥) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٧ (٢٥٦١) (تحفة الأشراف : ٩٠٤٠) ، و مسند احمد (٤/٣٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج المشکاة (104) ، إيمان ابن أبى شيبة (90) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1928

【33】

مسلمان کی مسلمان پر شفقت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر آدمی اپنے بھائی کے لیے آئینہ ہے، اگر وہ اپنے بھائی کے اندر کوئی عیب دیکھے تو اسے (اطلاع کے ذریعہ) دور کر دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - شعبہ نے یحییٰ بن عبیداللہ کو ضعیف کہا ہے، ٢ - اس باب میں انس (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤١٢١) (ضعیف جداً ) (سند میں یحییٰ بن عبید اللہ متروک الحدیث راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، الضعيفة (1889) // ضعيف الجامع الصغير (1371) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1929

【34】

مسلمان کی پردہ پوشی

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور فرما دے گا، جس نے دنیا میں کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کی اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ دنیا اور آخرت دونوں میں آسانی کرے گا، اور جس نے دنیا میں کسی مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے عیب کی پردہ پوشی کرے گا، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں ہوتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس حدیث کو ابو عوانہ اور کئی لوگوں نے «عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، لیکن اس میں «حدثت عن أبي صالح» کے الفاظ نہیں بیان کیے ہیں، ٣ - اس باب میں ابن عمر اور عقبہ بن عامر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٤٢٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رضا کی خاطر دنیاوی مفاد کے بغیر جو کوئی مسلمانوں کی حاجات و ضروریات کا خاص خیال رکھے اور انہیں پوری کرے تو اس کا یہ عمل نہایت فضیلت والا ہے ، ایسے شخص کی حاجات خود رب العالمین پوری کرتا ہے ، مزید اسے آخرت میں اجر عظیم سے بھی نوازے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1225) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1930

【35】

مسلمان سے مصیبت دور کرنا

ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے بھائی کی عزت (اس کی غیر موجودگی میں) بچائے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو جہنم سے بچائے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں اسماء بنت یزید (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٩٩٥) (وانظر حم : ٦/٤٤٩، ٤٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض احادیث میں «عن عرض أخيه» کے بعد «بالغيب» کا اضافہ ہے ، مفہوم یہ ہے کہ جو اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں اس کا دفاع کرے اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے اس کی بڑی فضیلت ہے ، اور اس کا بڑا مقام ہے ، اس سے بڑی فضیلت اور کیا ہوسکتی ہے کہ رب العالمین اسے جہنم کی آگ سے قیامت کے دن محفوظ رکھے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (431) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1931

【36】

ترک ملاقات کی ممانعت

ابوایوب انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے (کسی دوسرے مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام بند رکھے، جب دونوں کا آمنا سامنا ہو تو وہ اس سے منہ پھیر لے اور یہ اس سے منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن مسعود، انس، ابوہریرہ، ہشام بن عامر اور ابوہند داری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٦٢ (٦٠٧٧) ، والإستئذان ٩ (٦٢٣٧) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٨ (٢٥٦٠) (تحفة الأشراف : ٣٤٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ تین دن سے زیادہ کسی مسلمان بھائی سے ذاتی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے ناراض رہنا درست نہیں ، اور اگر اس ناراضگی کا تعلق کسی دینی معاملہ سے ہو تو علماء کا کہنا ہے کہ اس وقت تک قطع تعلق درست ہے جب تک وہ سبب دور نہ ہوجائے جس سے یہ دینی ناراضگی پائی جا رہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2029) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1932

【37】

مسلمان بھائی کی غم خواری

انس (رض) کہتے ہیں کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف (رض) (ہجرت کر کے) مدینہ آئے تو نبی اکرم ﷺ نے ان کے اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا، سعد بن ربیع نے عبدالرحمٰن بن عوف (رض) سے کہا : آؤ تمہارے لیے اپنا آدھا مال بانٹ دوں، اور میرے پاس دو بیویاں ہیں ان میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں، جب اس کی عدت گزر جائے تو اس سے شادی کرلو، عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے کہا : اللہ تعالیٰ تمہارے مال اور تمہاری اولاد میں برکت دے، مجھے بازار کا راستہ بتاؤ، انہوں نے ان کو بازار کا راستہ بتادیا، اس دن وہ (بازار سے) کچھ پنیر اور گھی لے کر ہی لوٹے جو نفع میں انہیں حاصل ہوا تھا، اس کے (کچھ دنوں) بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کے اوپر زردی کا اثر دیکھا تو پوچھا : کیا بات ہے ؟ (یہ زردی کیسی) کہا : میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے، آپ نے پوچھا : اس کو مہر میں تم نے کیا دیا ؟ کہا : ایک (سونے کی) گٹھلی، (یا گٹھلی کے برابر سونا) آپ نے فرمایا : ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کا ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - احمد کہتے ہیں : گٹھلی کے برابر سونا سوا تین درہم کے برابر ہوتا ہے، ٣ - اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں : گٹھلی کے برابر سونا، پانچ درہم کے برابر ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١ (٢٠٤٩) ، والکفالة ٢ (٢٢٩٣) ، مناقب الأنصار ٣ (٣٧٨١) ، و ٥٠ (٣٩٣٧) ، والنکاح ٦٨ (٥١٦٧) ، والأدب ٦٧ (٦٠٨٢) (تحفة الأشراف : ٥٧١) ، و مسند احمد (٣/١٩٠، ٢٠٤، ٢٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1907) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1933

【38】

غیبت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ کسی نے کہا : اللہ کے رسول ! غیبت کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس انداز سے اپنے بھائی کا تمہارا ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے ، اس نے کہا : آپ کا کیا خیال ہے اگر وہ چیز اس میں موجود ہو جسے میں بیان کر رہا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت (چغلی) کی، اور جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود نہیں ہے تو تم نے اس پر تہمت باندھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوبرزہ، ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٢٠ (٢٥٨٩) ، سنن ابی داود/ الأدب ٤٠ (٤٨٧٤) (تحفة الأشراف : ١٤٠٥٤) ، و مسند احمد (٢/٢٣٠، ٤٥٨) ، سنن الدارمی/الرقاق ٦ (٢٧٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : غیبت (چغلی) حرام اور کبیرہ گناہ ہے ، قرآن کریم میں اسے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے ، اس حدیث میں بھی اس کی قباحت بیان ہوئی ، اور قباحت کی وجہ یہ ہے کہ غیبت کرنے والا اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی عزت و ناموس پر حملہ کرتا ہے ، اور اس کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے ، غیبت یہ ہے کہ کسی آدمی کا تذکرہ اس طور پر کیا جائے کہ جو اسے ناپسند ہو ، یہ تذکرہ الفاظ میں ہو ، یا اشارہ و کنایہ میں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (426) ، نقد الکتانی (36) ، الصحيحة (2667) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1934

【39】

حسد

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آپس میں قطع تعلق نہ کرو، ایک دوسرے سے بےرخی نہ اختیار کرو، باہم دشمنی و بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اللہ کے بندو ! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے سلام کلام بند رکھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوبکر صدیق، زبیر بن عوام، ابن مسعود اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٥٧ (٦٠٦٥) ، ٦٢ (٦٠٧٦) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٧ (٢٥٥٩) ، سنن ابی داود/ الأدب ٥٥ (٤٩١٠) (تحفة الأشراف : ١٤٨٨) ، و مسند احمد (٣/١٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اسلام نے مسلم معاشرہ کی اصلاح اور اس کی بہتری کا خاص خیال رکھا ہے ، اس حدیث میں جن باتوں کا ذکر ہے ان کا تعلق بھی اصلاح معاشرہ اور سماج کی سدھار سے ہے ، صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے ، ہاہمی بغض و عناد اور دشمنی سے باز رہنے کو کہا گیا ہے ، حسد جو معاشرہ کے لیے ایسی مہلک بیماری ہے جس سے نیکیاں جل کر راکھ ہوجاتی ہیں ، اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (7 / 93 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1935

【40】

حسد

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا چاہیئے، ایک اس آدمی پر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس میں سے رات دن (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا ہے، دوسرا اس آدمی پر جس کو اللہ تعالیٰ نے علم قرآن دیا اور وہ رات دن اس کا حق ادا کرتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابن مسعود اور ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التوحید ٤٥ (٧٥٢٩) ، صحیح مسلم/ صلاة المسافرین ٤٧ (٨١٥) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٢ (٤٢٠٩) (تحفة الأشراف : ٦٨١٥) ، و مسند احمد (٢/٩، ٣٦، ٨٨، ١٣٣، ١٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حسد کی دو قسمیں ہیں : حقیقی اور مجازی ، حقیقی حسد یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے پاس موجود نعمت کے ختم ہوجانے کی تمنا و خواہش کرے ، حسد کی یہ قسم بالاتفاق حرام ہے ، اس کی حرمت سے متعلق صحیح نصوص وارد ہیں ، اسی لیے اس کی حرمت پر امت کا اجماع ہے ، حسد کی دوسری قسم رشک ہے ، یعنی دوسرے کی نعمت کے خاتمہ کی تمنا کیے بغیر اس نعمت کے مثل نعمت کے حصول کی تمنا کرنا ، اس حدیث میں حسد کی یہی دوسری قسم مراد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (897) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1936

【41】

آپس میں بغض رکھنے کی برائی

جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ مصلی اس کی عبادت کریں گے، لیکن وہ ان کے درمیان جھگڑا کرانے کی کوشش میں رہتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں انس اور «سليمان بن عمرو بن الأحوص عن أبيه» سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المنافقین ١٦ (٢٨١٢) (تحفة الأشراف : ٢٣٠٢) ، و مسند احمد (٣/٣١٣، ٣٥٤، ٣٦٦، ٣٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ مسلمان مرتد ہو کر بت پرستی کریں گے ، اور شیطان کو پوجیں گے ، اس مایوسی کے بعد وہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے ، ان کے اندر بزدلی پیدا کرنے ، جنگ وجدال اور فتنوں میں انہیں مشغول رکھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1606) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1937

【42】

آپس میں صلح کرانا

اسماء بنت یزید (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صرف تین جگہ پر جھوٹ جائز اور حلال ہے، ایک یہ کہ آدمی اپنی بیوی سے بات کرے تاکہ اس کو راضی کرلے، دوسرا جنگ میں جھوٹ بولنا اور تیسرا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٧٧٠) ، وانظر مسند احمد (٦/٤٥٤، ٤٥٩، ٤٦٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله : ليرضيها ، الصحيحة (545) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1939 داود بن ابی ہند نے یہ حدیث شہر بن حوشب کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، لیکن اس میں اسماء (رض) کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اسماء کی حدیث کو ہم صرف ابن خیثم کی روایت سے جانتے ہیں۔ ٣ - اس باب میں ابوبکر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١٨٨١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله : ليرضيها ، الصحيحة (545) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1939

【43】

آپس میں صلح کرانا

ام کلثوم بنت عقبہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور وہ (خود ایک طرف سے دوسرے کے بارے میں) اچھی بات کہے، یا اچھی بات بڑھا کر بیان کرے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلح ٢ (٢٦٩٢) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٣٧ (٢٦٠٥) ، سنن ابی داود/ الأدب ٥٨ (٤٩٢٠) (تحفة الأشراف : ١٨٣٥٣) ، و مسند احمد (٦/٤٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : لوگوں کے درمیان صلح و مصالحت کی خاطر اچھی باتوں کا سہارا لے کر جھوٹ بولنا درست ہے ، یہ اس جھوٹ کے دائرہ میں نہیں آتا جس کی قرآن و حدیث میں مذمت آئی ہے ، مثلاً زید سے یہ کہنا کہ میں نے عمر کو تمہاری تعریف کرتے ہوئے سنا ہے وغیرہ ، اسی طرح کی بات عمر کے سامنے رکھنا ، ایسا شخص جھوٹا نہیں ہے ، بلکہ وہ ان دونوں کا محسن ہے ، اور شریعت کی نظر میں اس کا شمار نیک لوگوں میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (1196) ، الصحيحة (545) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1938

【44】

خیانت اور دھوکہ

ابوصرمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو دوسرے کو نقصان پہنچائے اللہ اسے نقصان پہنچائے گا اور جو دوسرے کو تکلیف دے اللہ تعالیٰ اسے تکلیف دے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوبکر سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأقضیة ٣١ (٣٦٣٥) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١٧ (٢٣٤٠) (تحفة الأشراف : ١٢٠٦٦٣) ، و مسند احمد (٣/٤٥٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جس نے کسی مسلمان کو مالی و جانی نقصان اور عزت و آبرو میں ناحق تکلیف دی ، اللہ تعالیٰ اس پر اسی جیسی تکلیف ڈال دے گا ، اسی طرح جس نے کسی مسلمان سے ناحق جھگڑا کیا اللہ اس پر مشقت نازل کرے گا۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الإرواء (896) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1940

【45】

خیانت اور دھوکہ

ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ شخص ملعون (یعنی اللہ کی رحمت سے دور) ہے جس نے کسی مومن کو نقصان پہنچایا یا اس کو دھوکہ دیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٦١٩) (ضعیف) (سند میں فرقد سبخی ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1903) // ضعيف الجامع الصغير (5275) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1941

【46】

پڑوسی کے حقوق

مجاہد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کے لیے ان کے گھر میں ایک بکری ذبح کی گئی، جب وہ آئے تو پوچھا : کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے گھر (گوشت کا) ہدیہ بھیجا ؟ کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے گھر ہدیہ بھیجا ہے ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : مجھے جبرائیل (علیہ السلام) پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ہمیشہ تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ اسے وارث بنادیں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - یہ حدیث مجاہد سے عائشہ اور ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے، ٣ - اس باب میں عائشہ، ابن عباس، ابوہریرہ، انس، مقداد بن اسود، عقبہ بن عامر، ابوشریح اور ابوامامہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٣٢ (٥١٥٢) (تحفة الأشراف : ٨٩١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پڑوسی تین قسم کے ہیں : ایک پڑوسی وہ ہے جو غیر مسلم ہے یعنی کافر و مشرک اور یہودی ، نصرانی ، مجوسی وغیرہ ، اسے صرف پڑوس میں رہنے کا حق حاصل ہے ، دوسرا وہ پڑوسی ہے جو مسلم ہے ، اسے اسلام اور پڑوس میں رہنے کے سبب ان دونوں کا حق حاصل ہے ، ایک تیسرا پڑوسی وہ ہے جو مسلم بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رشتہ ناتے والا بھی ہے ، ایسے پڑوسی کو اسلام ، رشتہ داری اور پڑوس میں رہنے کے سبب تینوں حقوق حاصل ہیں ، ایسے ہی مسافر بھی پڑوسی ہے اس کے ساتھ اس تعلق سے بھی حقوق ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (891) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1943

【47】

پڑوسی کے حقوق

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے جبرائیل (علیہ السلام) پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ہمیشہ وصیت (تاکید) کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ اسے وراثت میں (بھی) شریک ٹھہرا دیں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٢٨ (٦٠١٤) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٤٢ (٢٦٢٤) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٣٢ (٥١٥١) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٤ (٢٦٧٣) (تحفة الأشراف : ١٧٩٤٧) ، و مسند احمد (٦/٩١، ١٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اس کے حقوق کا خیال رکھنے کی اسلام میں کتنی اہمیت اور تاکید ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح المصدر نفسه صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1942

【48】

پڑوسی کے حقوق

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے بہتر دوست وہ ہے جو لوگوں میں اپنے دوست کے لیے بہتر ہے، اور اللہ کے نزدیک سب سے بہتر پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٨٦٥) ، وانظر مسند احمد (٢/١٦٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1030) ، المشکاة (4987) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1944

【49】

خادم سے اچھا سلوک کرنا

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے زیر دست کردیا ہے، لہٰذا جس کے تحت میں اس کا بھائی (خادم) ہو، وہ اسے اپنے کھانے میں سے کھلائے، اپنے کپڑوں میں سے پہنائے اور اسے کسی ایسے کام کا مکلف نہ بنائے جو اسے عاجز کر دے، اور اگر اسے کسی ایسے کام کا مکلف بناتا ہے، جو اسے عاجز کر دے تو اس کی مدد کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی، ام سلمہ، ابن عمر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٢ (٣٠) ، والتعق ١٥ (٢٥٤٥) ، والأدب ٤٤ (٦٠٥٠) ، صحیح مسلم/الأیمان والنذور ١٠ (١٦٦١) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٠ (٣٦٩٠) (تحفة الأشراف : ١١٩٨٠) ، و مسند احمد (٥/١٥٨، ١٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1945

【50】

خادم سے اچھا سلوک کرنا

ابوبکر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جو خادموں کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ایوب سختیانی اور کئی لوگوں نے راوی فرقد سبخی کے بارے میں ان کے حافظے کے تعلق سے کلام کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ١٠ (٣٦٩١) (تحفة الأشراف : ٦٦١٨) (ضعیف) (سند میں فرقد سبخی ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3691) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (806) بزيادات کثيرة، ضعيف الجامع (6340) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1946

【51】

خادموں کو مارنے اور گالی دینے کی ممانعت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی التوبہ ١ ؎ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے غلام یا لونڈی پر زنا کی تہمت لگائے حالانکہ وہ اس کی تہمت سے بری ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر حد قائم کرے گا، إلا یہ کہ وہ ویسا ہی ثابت ہو جیسا اس نے کہا تھا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں سوید بن مقرن اور عبداللہ بن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٤٥ (٦٨٥٨) ، صحیح مسلم/الأیمان والنذور ٩ (١٦٦٠) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٣٣ (٥١٦٥) (تحفة الأشراف : ١٣٦٢٤) ، و مسند احمد (٢/٤٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آپ ﷺ ایک دن ستر مرتبہ اور بعض روایات سے ثابت ہے کہ سو مرتبہ استغفار کرتے تھے ، اسی لحاظ سے آپ کو «نبي التوبة» کہا گیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (1146) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1947

【52】

خادموں کو مارنے اور گالی دینے کی ممانعت

ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ پیچھے سے کسی کہنے والے کی آواز سنی وہ کہہ رہا تھا : ابومسعود جان لو، ابومسعود جان لو (یعنی خبردار) ، جب میں نے مڑ کر دیکھا تو میرے پاس رسول اللہ ﷺ تھے آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تم پر اس سے کہیں زیادہ قادر ہے جتنا کہ تم اس غلام پر قادر ہو ۔ ابومسعود کہتے ہیں : اس کے بعد میں نے اپنے کسی غلام کو نہیں مارا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان والنذور ٨ (١٦٥٩) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٣٣ (٥١٥٩) (تحفة الأشراف : ١٠٠٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ ـ : غلاموں اور نوکروں چاکروں پر سختی برتنا مناسب نہیں، بلکہ بعض روایات میں ان پر بےجا سختی کرنے یا جرم سے زیادہ سزا دینے پر وعید آئی ہے، نبی اکرم ﷺ اللہ کی جانب سے جلالت وہیبت کے جس مقام پر فائز تھے اس حدیث میں اس کی بھی ایک جھلک دیکھی جاسکتی ہے ، چناچہ آپ کے خبردار کہنے پر ابومسعود اس غلام کو نہ صرف یہ کہ مارنے سے رک گئے بلکہ آئندہ کسی غلام کو نہ مارنے کا عہد بھی کر بیٹھے اور زندگی اس پر قائم رہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1948

【53】

خادم کو معاف کردینا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی نے آ کر پوچھا : اللہ کے رسول ! میں اپنے خادم کی غلطیوں کو کتنی بار معاف کروں ؟ آپ ﷺ اس شخص کے اس سوال پر خاموش رہے، اس نے پھر پوچھا : اللہ کے رسول ! میں اپنے خادم کی غلطیوں کو کتنی بار معاف کروں ؟ آپ نے فرمایا : ہر دن ٧٠ (ستر) بار معاف کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اسے عبداللہ بن وہب نے بھی ابوہانی خولانی سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٣٣ (٥١٦٤) (تحفة الأشراف : ٧١١٧، ٨٨٣٦) ، و مسند احمد (٢/٩٠، ١١١) (صحیح) (اس حدیث کے ” عبد اللہ بن عمر بن خطاب “ یا ” عبد اللہ بن عمرو بن العاص “ کی روایت سے ہونے میں اختلاف ہے جس کی طرف مؤلف نے اشارہ کردیا، مزی نے ابوداود کی طرف عبداللہ بن عمرو بن العاص کی روایت، اور ترمذی کی طرف عبد اللہ بن عمر ابن خطاب کی روایت کی نسبت کی ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (488) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1949

【54】

خادم کو ادب سکھانا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے اور وہ (خادم) اللہ کا نام لے لے تو تم اپنے ہاتھوں کو روک لو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : راوی ابوہارون عبدی کا نام عمارہ بن جو ین ہے، ابوبکر عطار نے یحییٰ بن سعید کا یہ قول نقل کیا کہ شعبہ نے ابوہارون عبدی کی تضعیف کی ہے، یحییٰ کہتے ہیں : ابن عون ہمیشہ ابوہارون سے روایت کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٢٦٣) (ضعیف) (سند میں ” ابو ہارون عمارة بن جو ین عبدی “ متروک الحدیث راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف (1441) // ضعيف الجامع الصغير (582) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1950

【55】

اولاد کو ادب سکھانا

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے لڑکے کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ دینے سے بہتر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - راوی ناصح کی کنیت ابوالعلا ہے، اور یہ کوفہ کے رہنے والے ہیں، محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں، یہ حدیث صرف اسی سند سے معروف ہے، ٣ - ناصح ایک دوسرے شیخ بھی ہیں جو بصرہ کے رہنے والے ہیں، عمار بن ابوعمار وغیرہ سے حدیث روایت کرتے ہیں، اور یہ ان سے زیادہ قوی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢١٩٥) (ضعیف) (سند میں ” ناصح “ ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الضعيفة (1887) // ضعيف الجامع الصغير (4642) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1951

【56】

اولاد کو ادب سکھانا

عمرو بن سعید بن عاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حسن ادب سے بہتر کسی باپ نے اپنے بیٹے کو تحفہ نہیں دیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عامر بن ابوعامر خزاز کی روایت سے جانتے ہیں، اور عامر صالح بن رستم خزاز کے بیٹے ہیں، ٢ - راوی ایوب بن موسیٰ سے مراد ایوب بن موسیٰ بن عمرو بن سعید بن عاص ہیں، ٣ - یہ حدیث میرے نزدیک مرسل ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٤٧٣) (ضعیف) (سند میں ” عامر بن صالح “ حافظہ کے کمزور ہیں، اور ” موسیٰ بن عمرو “ مجہول الحال ) وضاحت : ١ ؎ : اگر «جدہ» کی ضمیر کا مرجع «ایوب» ہیں تو ان کے دادا «عمرو بن سعید الأشرق» صحابی نہیں ہیں ، اور اگر «جدہ» کی ضمیر کا مرجع «موسیٰ» ہیں تو ان کے دادا «سعید بن العاص» بہت چھوٹے صحابی ہیں ، ان کا سماع نبی کریم ﷺ سے نہیں ہے ، تب یہ روایت مرسل صحابی ہوئی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الضعيفة (1121) ، نقد الکتاني ص (20) // ضعيف الجامع الصغير (5227) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1952

【57】

ہدیہ قبول کرنے اور اس کے بدلے میں کچھ دینا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول کرتے تھے اور اس کا بدلہ دیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب صحیح ہے، ٢ - ہم اسے صرف عیسیٰ بن یونس کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ ہشام سے روایت کرتے ہیں، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ، انس، ابن عمر اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ١١ (٢٥٨٥) ، سنن ابی داود/ البیوع ٨٢ (٣٥٣٧) (تحفة الأشراف : ١٧١٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1603) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1953

【58】

محسن کا شکریہ ادا کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو لوگوں کا شکر یہ ادا نہ کرے وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٢ (٤٨١١) (تحفة الأشراف : ١٤٣٦٨) ، و مسند احمد (٢/٢٩٥، ٣٠٣، ٤٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو اللہ کے بندوں کا ان کے توسط سے ملنے والی کسی نعمت پر شکر گزار نہ ہو حالانکہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے تو ایسے شخص سے یہ کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ کا شکر گزار بندہ ہوگا ؟ یا اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندہ کا شکر اس احسان پر جو اللہ نے اس پر کیا ہے نہیں قبول کرے گا ، جب تک کہ بندہ لوگوں کے احسان کا شکر ادا نہ کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3025) ، الصحيحة (417) ، التعليق الرغيب (2 / 56) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1954

【59】

محسن کا شکریہ ادا کرنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے لوگوں کا شکر یہ ادا نہ کیا اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، اشعث بن قیس اور نعمان بن بشیر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٢٣٥) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے دو راوی ” محمد بن ابی لیلی “ اور ” عطیہ عوفی “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (1954) ، المشکاة (3025) ، الصحيحة (417) ، التعليق الرغيب (2 / 56) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1955

【60】

نیک کام

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے، تمہارا بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، بھٹک جانے والی جگہ میں کسی آدمی کو تمہارا راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، نابینا اور کم دیکھنے والے آدمی کو راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، پتھر، کانٹا اور ہڈی کو راستے سے ہٹانا تمہارے لیے صدقہ ہے، اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں تمہارا پانی ڈالنا تمہارے لیے صدقہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابن مسعود، جابر، حذیفہ، عائشہ اور ابوہریرہ (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٩٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ اس حدیث میں مذکور سارے کام ایسے ہیں جن کی انجام دہی پر ثواب اسی طرح ملتا ہے جس طرح کسی صدقہ کرنے والے کو ملتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (572) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1956

【61】

عاریت دینا

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص نے دودھ کا عطیہ دیا ١ ؎، یا چاندی قرض دی، یا کسی کو راستہ بتایا، اسے غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ابواسحاق کی روایت سے جسے وہ طلحہ بن مصرف سے روایت کرتے ہیں حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - منصور بن معتمر اور شعبہ نے بھی اس حدیث کی روایت طلحہ بن مصرف سے کیا ہے، ٣ - اس باب میں نعمان بن بشیر (رض) سے بھی حدیث آئی ہے، ٤ -«من منح منيحة ورق» کا مطلب ہے بطور قرض دینا «هدى زقاقا» کا مطلب ہے راستہ دکھانا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٨٨٧) ، وانظر مسند احمد (٤/٢٩٦، ٣٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کسی کو اونٹ ، گائے یا بکری دیا تاکہ وہ دودھ سے فائدہ اٹھائے اور پھر جانور واپس کر دے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 34 و 241) ، المشکاة (1917 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1957

【62】

راستہ میں سے تکلیف دہ چیز ہٹانا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک آدمی راستے پر چل رہا تھا کہ اسے ایک کانٹے دار ڈالی ملی، اس نے اسے راستے سے ہٹا دیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے اس کام سے خوش ہو کر اس کو بدلہ دیا یعنی اس کی مغفرت فرما دی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوبرزہ، ابن عباس اور ابوذر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٢ (٦٥٢) والمظالم ٢٨ (٢٤٧٢) ، صحیح مسلم/الإمارة ٥١ (١٩١٤/١٦٤) ، والبر والصلة (١٩١٤/١٢٧) (تحفة الأشراف : ١٢٥٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1958

【63】

مجالس امانت کے ساتھ ہیں۔

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی آدمی تم سے کوئی بات بیان کرے پھر (اسے راز میں رکھنے کے لیے) دائیں بائیں مڑ کر دیکھے تو وہ بات تمہارے پاس امانت ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - ہم اسے صرف ابن ابی ذئب کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٣٧ (٤٨٦٨) (تحفة الأشراف : ٢٣٨٤) ، و مسند احمد (٣/٣٨٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص تم سے کوئی بات کہے اور کہتے ہوئے مڑ کر دائیں بائیں دیکھے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ راز کی بات ہے جو صرف تم سے ہو رہی ہے کسی دوسرے کو اس کی خبر نہ ہو لہٰذا سننے والے کی امانت داری میں سے ہے کہ وہ اسے راز رکھے کیونکہ یہ مجلس کے آداب میں سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1089) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1959

【64】

سخاوت کے بارے میں

اسماء بنت ابوبکر (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے گھر میں صرف زبیر کی کمائی ہے، کیا میں اس میں سے صدقہ و خیرات کروں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، صدقہ کرو اور گرہ مت لگاؤ ورنہ تمہارے اوپر گرہ لگا دی جائے گی ١ ؎۔ «لا توكي فيوكى عليك» کا مطلب یہ ہے کہ شمار کر کے صدقہ نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی شمار کرے گا اور برکت ختم کر دے گا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - بعض راویوں نے اس حدیث کو «عن ابن أبي مليكة عن عباد بن عبد اللہ بن الزبير عن أسماء بنت أبي بکر رضي اللہ عنهما» کی سند سے روایت کی ہے ٣ ؎، کئی لوگوں نے اس حدیث کی روایت ایوب سے کی ہے اور اس میں عباد بن عبیداللہ بن زبیر کا ذکر نہیں کیا، ٣ - اس باب میں عائشہ اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٢١ (١٤٣٣) ، و ٢٢ (١٤٣٤) ، والہبة ١٥ (٢٥٩٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٨ (١٠٢٩) ، سنن ابی داود/ الزکاة ٤٦ (١٦٩٩) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٢ (٢٥٥٢) (تحفة الأشراف : ١٥٧١٨) ، و مسند احمد (٦/٣٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بخل نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ برکت ختم کر دے گا۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال کے ختم ہوجانے کے ڈر سے صدقہ خیرات نہ کرنا منع ہے ، کیونکہ صدقہ و خیرات نہ کرنا ایک اہم سبب ہے جس سے برکت کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے ، اس لیے کہ رب العالمین خرچ کرنے اور صدقہ دینے پر بیشمار ثواب اور برکت سے نوازتا ہے ، مگر شوہر کی کمائی میں سے صدقہ اس کی اجازت ہی سے کی جاسکتی ہے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی صراحت آئی ہے۔ ٣ ؎ : یعنی ابن ابی ملیکہ اور اسماء بنت ابی بکر کے درمیان عباد بن عبداللہ بن زبیر کا اضافہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1490) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1960

【65】

سخاوت کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سخی آدمی اللہ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے اور جہنم سے دور ہے، بخیل آدمی اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے، اور جہنم سے قریب ہے، جاہل سخی اللہ کے نزدیک بخیل عابد سے کہیں زیادہ محبوب ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے «يحيى بن سعيد عن الأعرج عن أبي هريرة» کی سند سے صرف سعد بن محمد کی روایت سے جانتے ہیں، اور یحییٰ بن سعید سے اس حدیث کی روایت کرنے میں سعید بن محمد کی مخالفت کی گئی ہے، (سعید بن محمد نے تو اس سند سے روایت کی ہے جو اوپر مذکور ہے) جب کہ یہ «عن يحيى بن سعيد عن عائشة» کی سند سے بھی مرسلاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٩٧٣) (ضعیف جداً ) (سند میں ” سعید بن محمد الوراق “ سخت ضعیف ہے، بلکہ بعض کے نزدیک متروک الحدیث راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا الضعيفة (154) // ضعيف الجامع الصغير (3341) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1961

【66】

بخل کے بارے میں

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کے اندر دو خصلتیں بخل اور بداخلاقی جمع نہیں ہوسکتیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف صدقہ بن موسیٰ کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔ ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤١١٠) (ضعیف) (سند میں ” صدقہ بن موسیٰ “ حافظہ کے کمزور ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ حسن خلق اور خیر خواہی کا نام ایمان ہے ، اس لیے جس شخص میں یہ دونوں خوبیاں پائی جائے گی وہ مومن کامل ہوگا ، اور ایسا مومن کامل بخیل اور بداخلاقی جیسی بری اور قابل مذمت صفات سے دور ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الضعيفة (1119) ، نقد الکتاني (33 / 33) // ضعيف الجامع الصغير (2833) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1962

【67】

بخل کے بارے میں

ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دھوکہ باز، احسان جتانے والا اور بخیل جنت میں نہیں داخل ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٦٢٠) (ضعیف) (سند میں صدقہ بن موسیٰ ، اور فرقد سبخی دونوں ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف أحاديث البيوع // ضعيف الجامع الصغير (6339) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1963

【68】

بخل کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے، اور فاجر دھوکہ باز اور کمینہ خصلت ہوتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٦ (٤٧٩٠) (تحفة الأشراف : ١٥٣٦٢) ، و مسند احمد (٢/٣٩٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مومن اپنی شرافت اور سادگی کی وجہ سے دنیاوی منفعت کو منفعت سمجھتے ہوئے اس کا حریص نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات دھوکہ کھا کر اسے نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے ، اس کے برعکس ایک فاجر شخص دوسروں کو دھوکہ دے کر انہیں نقصان پہنچاتا ہے جو اس کے کمینہ خصلت ہونے کی دلیل ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (932) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1964

【69】

اہل وعیال پر خرچ کرنا

ابومسعود انصاری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آدمی کا اپنے بال بچوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو، عمرو بن امیہ ضمری اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٤٢ (٥٥) ، والمغازي ١٢ (٤٠٠٦) ، والنفقات ١ (٥٣٥١) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٤ (١٠٠٢) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٠ (٢٥٤٦) (تحفة الأشراف : ٩٩٩٦) ، و مسند احمد (٤/١٢٠، ١٢٢) ، و (٥/٢٧٣) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٣٥ (٢٦٦٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (982) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1965

【70】

اہل وعیال پر خرچ کرنا

ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر دینار وہ دینار ہے، جسے آدمی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے، اور وہ دینار ہے جسے آدمی اپنے جہاد کی سواری پر خرچ کرتا ہے، اور وہ دینار ہے جسے آدمی اپنے مجاہد ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے ، ابوقلابہ کہتے ہیں : آپ نے بال بچوں کے نفقہ (اخراجات) سے شروعات کی پھر فرمایا : اس آدمی سے بڑا اجر و ثواب والا کون ہے جو اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرتا ہے، جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انہیں حرام چیزوں سے بچاتا ہے اور انہیں مالدار بناتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ١٢ (٩٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٤ (٢٧٦٠) (تحفة الأشراف : ٢١٠١) ، و مسند احمد (٥/٢٧٧، ٢٧٩، ٢٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2760) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1966

【71】

مہمان نوازی کے بارے

ابوشریح عدوی (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ یہ حدیث بیان فرما رہے تھے تو میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا اور کانوں نے آپ سے سنا، آپ نے فرمایا : جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق ادا کرے ، صحابہ نے عرض کیا، مہمان کی عزت و تکریم اور آؤ بھگت کیا ہے ؟ ١ ؎ آپ نے فرمایا : ایک دن اور ایک رات، اور مہمان نوازی تین دن تک ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ صدقہ ہے، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٣١ (٦٠١٩) و ٨٥ (٦١٣٥) ، والرقاق ٢٣ (٦٤٧٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٩ (٤٨) ، سنن ابی داود/ الأطعمة ٥ (٣٧٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥ (٣٦٧٥) (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٦) ، وط/صفة النبي ﷺ ١٠ (٢٢) ، و مسند احمد (٤/٣١) ، و (٦/٣٨٤) ، وسنن الدارمی/الأطعمة ١١ (٢٠٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کتنے دن تک اس کے لیے پرتکلف کھانا بنایا جائے۔ ٢ ؎ : اس حدیث میں ضیافت اور مہمان نوازی سے متعلق اہم باتیں مذکور ہیں ، مہمان کی عزت و تکریم کا یہ مطلب ہے کہ خوشی سے اس کا استقبال کیا جائے ، اس کی مہمان نوازی کی جائے ، پہلے دن اور رات میں اس کے لیے پرتکلف کھانے کا انتظام کیا جائے ، مزید اس کے بعد تین دن تک معمول کے مطابق مہمان نوازی کی جائے ، اپنی زبان ذکر الٰہی ، توبہ و استغفار اور کلمہ خیر کے لیے وقف رکھے یا بےفائدہ فضول باتوں سے گریز کرتے ہوئے اسے خاموش رکھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3675) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1967

【72】

مہمان نوازی کے بارے

ابوشریح کعبی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ضیافت (مہمان نوازی) تین دین تک ہے، اور مہمان کا عطیہ (یعنی اس کے لیے پرتکلف کھانے کا انتظام کرنا) ایک دن اور ایک رات تک ہے، اس کے بعد جو کچھ اس پر خرچ کیا جائے گا وہ صدقہ ہے، مہمان کے لیے جائز نہیں کہ میزبان کے پاس (تین دن کے بعد بھی) ٹھہرا رہے جس سے اپنے میزبان کو پریشانی و مشقت میں ڈال دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - مالک بن انس اور لیث بن سعد نے اس حدیث کی روایت سعید مقبری سے کی ہے، ٣ - ابوشریح خزاعی کی نسبت الکعبی اور العدوی ہے، اور ان کا نام خویلد بن عمرو ہے، ٤ - اس باب میں عائشہ اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٥ - «لا يثوي عنده» کا مطلب یہ ہے کہ مہمان گھر والے کے پاس ٹھہرا نہ رہے تاکہ اس پر گراں گزرے، ٦ - «الحرج» کا معنی «الضيق» (تنگی ہے) اور «حتی يحرجه» کا مطلب ہے «يضيق عليه» یہاں تک کہ وہ اسے پریشانی و مشقت میں ڈال دے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٣١ (٦٠١٩) ، و ٨٥ (٦١٣٥) ، والرقاق ٢٣ (٦٤٧٦) ، سنن ابی داود/ الأطعمة ٥ (٣٧٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥ (٣٦٧٥) (تحفة الأشراف : ٢٠٥٦) و موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ ١٠ (٢٢) ، و مسند احمد (٤/٣١) ، و (٦/٣٨٤) ، و سنن الدارمی/الأطعمة ١١ (٢٠٧٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (3 / 242) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1968

【73】

یتیموں اور بیواؤں کی خبرگیری

صفوان بن سلیم نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بیوہ اور مسکین پر خرچ کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے، یا اس آدمی کی طرح ہے جو دن میں روزہ رکھتا ہے اور رات میں عبادت کرتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٢٥ (٦٠٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٨١٨) (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، صفوان تابعی ہیں، اگلی روایت کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، مالک کے طرق کے لیے دیکھئے : فتح الباری ٩/٤٩٩ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2140) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1969 اس سند سے ابوہریرہ (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النفقات ١ (٥٣٥٣) ، والأدب ٢٦ (٦٠٠٧) ، صحیح مسلم/الزہد ٢ (٢٩٨٢) ، سنن النسائی/الزکاة ٧٨ (٢٥٧٨) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١ (٢١٤٠) (تحفة الأشراف : ١٢٩١٤) ، و مسند احمد (٢/٣٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2140) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1969

【74】

کشادہ پیشانی اور بشاش چہرے سے ملنا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر بھلائی صدقہ ہے، اور بھلائی یہ بھی ہے کہ تم اپنے بھائی سے خوش مزاجی کے ساتھ ملو اور اپنے ڈول سے اس کے ڈول میں پانی ڈال دو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوذر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٠٨٥) (وانظر : مسند احمد (٣/٣٤٤، ٣٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف مال ہی خرچ کرنا صدقہ نہیں ہے ، بلکہ ہر نیکی صدقہ ہے ، چناچہ اپنے ڈول سے دوسرے بھائی کے ڈول میں کچھ پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے ، اور دوسرے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا بھی صدقہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (3 / 264) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1970

【75】

سچ اور جھوٹ

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سچ بولو، اس لیے کہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے، آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ کی تلاش میں رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے، اور جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ گناہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جاتا ہے، آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوبکر صدیق، عمر، عبداللہ بن شخیر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٦٩ (٦٠٩٤) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٢٩ (٢٦٠٧) ، و القدر ١ (٢٦٤٣) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٧ (٤٦) (تحفة الأشراف : ٩٢٦١) ، و مسند احمد (١/٣٨٤، ٤٠٥) ، و سنن الدارمی/الرقاق ٧ (٢٧٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ ہمیشہ جھوٹ سے بچنا اور سچائی کو اختیار کرنا چاہیئے ، کیونکہ جھوٹ کا نتیجہ جہنم اور سچائی کا نتیجہ جنت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1971

【76】

سچ اور جھوٹ

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور بھاگتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن جید غریب ہے ٢ - یحییٰ بن موسیٰ کہتے ہیں : میں نے عبدالرحیم بن ہارون سے پوچھا : کیا آپ سے عبدالعزیز بن ابی داود نے یہ حدیث بیان کی ؟ کہا : ہاں، ٣ - ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، اس کی روایت کرنے میں عبدالرحیم بن ہارون منفرد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧٧٦٧) (ضعیف جداً ) (سند میں ” عبد الرحیم بن ہارون “ سخت ضعیف راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، الضعيفة (1828) // ضعيف الجامع الصغير (680) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1972

【77】

سچ اور جھوٹ

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک جھوٹ سے بڑھ کر کوئی اور عادت نفرت کے قابل ناپسندیدہ نہیں تھی، اور جب کوئی آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس جھوٹ بولتا تو وہ ہمیشہ آپ کی نظر میں قابل نفرت رہتا یہاں تک کہ آپ جان لیتے کہ اس نے جھوٹ سے توبہ کرلی ہے، امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي ولا یوجد ھو في أکثر النسخ) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1973

【78】

بے حیائی کے بارے میں

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس چیز میں بھی بےحیائی آتی ہے اسے عیب دار کردیتی ہے اور جس چیز میں حیاء آتی ہے اسے زینت بخشتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالرزاق کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ١٧ (٤١٨٥) (تحفة الأشراف : ٤٧٢) ، و مسند احمد (٣/١٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4185) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1974

【79】

بے حیائی کے بارے میں

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اخلاق میں بہتر ہیں، نبی اکرم ﷺ بےحیاء اور بدزبان نہیں تھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٥٩) ، وفضائل الصحابة ٢٧ (٣٧٥٩) ، صحیح مسلم/الفضائل ١٦ (٢٣٢١) (تحفة الأشراف : ٨٩٣٣) ، و مسند احمد (٢/١٦١، ١٨٩، ١٩٣، ٢١٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (791) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1975

【80】

لعنت بھیجنا

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ (کسی پر) اللہ کی لعنت نہ بھیجو، نہ اس کے غضب کی لعنت بھیجو اور نہ جہنم کی لعنت بھیجو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس، ابوہریرہ، ابن عمر اور عمران بن حصین (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٥٣ (٤٩٠٦) (تحفة الأشراف : ٤٥٩٤) ، وانظر مسند احمد (٥/١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے وقت یہ مت کہو کہ تم پر اللہ کی لعنت ، اس کے غضب کی لعنت اور جہنم کی لعنت ہو ، کیونکہ یہ ساری لعنتیں کفار و مشرکین اور یہود و نصاری کے لیے ہیں ، نہ کہ آپ ﷺ کی امت کے لیے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (893 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1976

【81】

لعنت بھیجنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا، بےحیاء اور بدزبان نہیں ہوتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - یہ حدیث عبداللہ سے دوسری سند سے بھی آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٤٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں مومن کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں کہ مومن کامل نہ تو کسی کو حقیر و ذلیل سمجھتا ہے ، نہ ہی کسی کی لعنت و ملامت کرتا ہے ، اور نہ ہی کسی کو گالی گلوج دیتا ہے ، اسی طرح چرب زبانی ، زبان درازی اور بےحیائی جیسی مذموم صفات سے بھی وہ خالی ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (320) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1977

【82】

لعنت بھیجنا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے ایک آدمی نے ہوا پر لعنت بھیجی تو آپ نے فرمایا : ہوا پر لعنت نہ بھیجو اس لیے کہ وہ تو (اللہ کے) حکم کی پابند ہے، اور جس شخص نے کسی ایسی چیز پر لعنت بھیجی جو لعنت کی مستحق نہیں ہے تو لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - بشر بن عمر کے علاوہ ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مرفوعاً بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٥٣ (٤٩٠٨) (تحفة الأشراف : ٥٤٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (528) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1978

【83】

نسب کی تعلیم

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس قدر اپنا نسب جانو جس سے تم اپنے رشتے جوڑ سکو، اس لیے کہ رشتہ جوڑنے سے رشتہ داروں کی محبت بڑھتی ہے، مال و دولت میں اضافہ ہوتا ہے، اور آدمی کی عمر بڑھا دی جاتی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢ - «منسأة في الأثر» کا مطلب ہے «الزيادة في العمر» یعنی عمر کے لمبی ہونے کا سبب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦ (١٥٣٥) (تحفة الأشراف : ١٤٨٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عمر بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ نیک عمل کی توفیق ملتی ہے ، اور مرنے کے بعد لوگوں میں اس کا ذکر جمیل باقی رہتا ہے ، اور اس کی نسل سے صالح اولاد پیدا ہوتی ہیں۔ اگر حقیقی طور پر عمر ان نیک اعمال سے ہوتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی بعید بات نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (276) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1979

【84】

اپنے بھائی کے لئے پس پشت دعا کرنا

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی دعا اتنی جلد قبول نہیں ہوتی ہے جتنی جلد غائب آدمی کے حق میں غائب آدمی کی دعا قبول ہوتی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - راوی افریقی حدیث کے سلسلے میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں، ان کا نام عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦ (١٥٣٥) (تحفة الأشراف : ٨٨٥٢) (ضعیف) (سند میں ” عبدالرحمن بن أبی نعم “ ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ ایسی دعا ریا کاری اور دکھاوے سے خالی ہوتی ہے ، صدق دلی اور خلوص نیت سے نکلی ہوئی یہ دعا قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (269 / 2) // عندنا برقم (330 / 1535) ، ضعيف الجامع الصغير (5065) ، المشکاة (2247) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1980

【85】

گالی دینا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گالی گلوچ کرنے والے دو آدمیوں میں سے گالی کا گناہ ان میں سے شروع کرنے والے پر ہوگا، جب تک مظلوم حد سے آگے نہ بڑھ جائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں سعد، ابن مسعود اور عبداللہ بن مغفل (رض) سے بھی حدیثیں مروی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ١٨ (٢٥٨٧) ، سنن ابی داود/ الأدب ٤٧ (٤٨٩٤) (تحفة الأشراف : ١٤٠٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اگر مظلوم بدلہ لینے میں ظالم سے تجاوز کر جائے تو ایسی صورت میں دونوں کے گالی گلوج کا وبال اسی مظلوم کے سر ہوگا نہ کہ ظالم کے سر۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1981

【86】

گالی دینا

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مردوں کو گالی دے کر زندوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث کی روایت کرنے میں سفیان کے شاگرد مختلف ہیں، بعض نے حفری کی حدیث کے مثل روایت کی ہے (یعنی : «عن زياد بن علاقة، عن المغيرة» کے طریق سے) اور بعض نے اسے «عن سفيان عن زياد بن علاقة قال سمعت رجلا يحدث عند المغيرة بن شعبة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٥٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (357) ، التعليق الرغيب (4 / 135) ، الصحيحة (2379) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1982

【87】

گالی دینا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جھگڑا کرنا کفر ہے ١ ؎۔ راوی زبید بن حارث کہتے ہیں : میں نے ابو وائل شقیق بن سلمہ سے پوچھا : کیا آپ نے یہ حدیث عبداللہ بن مسعود (رض) سے سنی ہے ؟ کہا : ہاں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٦ (٤٨) ، والأدب ٤٤ (٦٠٤٤) ، والفتن ٨ (٧٠٧٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٨ (٦٤) ، سنن النسائی/المحاربة ٢٧ (٤١١٣-٤١١٦) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٦٩) ، والفتن ٤ (٣٩٣٩) (تحفة الأشراف : ٩٢٤٣) ، و مسند احمد (١/٣٨٥، ٤١١، ٤١٧، ٤٣٣، ٤٣٩، ٤٤٦، ٤٥٤، ٤٦٠) ، ویأتي في الإیمان برقم ٢٦٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی عزت و احترام کا خاص خیال رکھے کیونکہ ناحق کسی کو گالی دینا باعث فسق ہے ، اور ناحق جھگڑا کرنا کفار کا عمل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (69) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1983

【88】

اچھی بات کہنا

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا ، (یہ سن کر) ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! کس کے لیے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جو اچھی طرح بات کرے، کھانا کھلائے، خوب روزہ رکھے اور اللہ کی رضا کے لیے رات میں نماز پڑھے جب کہ لوگ سوئے ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، اسحاق بن عبدالرحمٰن کے حافظے کے تعلق سے بعض محدثین نے کلام کیا ہے، یہ کوفہ کے رہنے والے ہیں، ٣ - عبدالرحمٰن بن اسحاق نام کے ایک دوسرے راوی ہیں، وہ قرشی اور مدینہ کے رہنے والے ہیں، یہ ان سے اثبت ہیں، اور دونوں کے دونوں ہم عصر ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤالف وأعادہ في صفة الجنة ٣ (٢٥٢٧) (تحفة الأشراف : ١٠٢٩٦) و مسند احمد (١/١٥٦) (حسن) (سند میں عبد الرحمن بن اسحاق واسطی سخت ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : خوش کلامی ، کثرت سے روزے رکھنا ، اور رات میں جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں اللہ کے لیے نماز پڑھنی یہ ایسے اعمال ہیں جو جنت کے بالاخانوں تک پہنچانے والے ہیں ، شرط یہ ہے کہ یہ سب اعمال ریاکاری اور دکھاوے سے خالی ہوں۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (2335) ، التعليق الرغيب (2 / 46) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1984

【89】

نیک غلام کی فضیلت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان کے لیے کیا ہی اچھا ہے کہ اپنے رب کی اطاعت کریں اور اپنے مالک کا حق ادا کریں ، آپ کے اس فرمان کا مطلب لونڈی و غلام سے تھا ١ ؎۔ کعب (رض) کہتے ہیں : اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوموسیٰ اشعری اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٣٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : گویا وہ غلام اور لونڈی جو رب العالمین کی عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے مالک کے جملہ حقوق کو اچھی طرح سے ادا کریں ان کے لیے دو گنا ثواب ہے ، ایک رب کی عبادت کا دوسرا مالک کا حق ادا کرنے کا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (3 / 159) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1985

【90】

نیک غلام کی فضیلت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین آدمی مشک کے ٹیلے پر ہوں گے، قیامت کے دن، پہلا وہ غلام جو اللہ کا اور اپنے مالکوں کا حق ادا کرے، دوسرا وہ آدمی جو کسی قوم کی امامت کرے اور وہ اس سے راضی ہوں، اور تیسرا وہ آدمی جو رات اور دن میں نماز کے لیے پانچ بار بلاتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے سفیان ثوری کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ ابوالیقظان سے روایت کرتے ہیں، ٢ - ابوالیقظان کا نام عثمان بن قیس ہے، انہیں عثمان بن عمیر بھی کہا جاتا ہے اور یہی مشہور ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وأعادہ في صفة الجنة ٢٥ (٢٥٦٦) (تحفة الأشراف : ٦٧١٨) ، وانظر مسند احمد (٢/٢٦) (ضعیف) (سند میں أبوالیقظان ضعیف، مختلط اور مدلس راوی ہے، اور تشیع میں بھی غالی ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اذان دیتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (666) // ضعيف الجامع الصغير (2579) ، وسيأتي برقم (470 / 2705) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1986

【91】

لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، برائی کے بعد (جو تم سے ہوجائے) بھلائی کرو جو برائی کو مٹا دے ١ ؎ اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٩٨٩) ، وانظر مسند احمد (٥/١٥٣، ١٥٨، ١٧٧، ٢٢٨، ٢٣٦) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٧٤ (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : مثلاً نماز پڑھو ، صدقہ و خیرات کرو اور کثرت سے توبہ و استغفار کرو۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (5083) ، الروض النضير (855) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1987

【92】

بدگمانی کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - سفیان کہتے ہیں کہ ظن دو طرح کا ہوتا ہے، ایک طرح کا ظن گناہ کا سبب ہے اور ایک طرح کا ظن گناہ کا سبب نہیں ہے، جو ظن گناہ کا سبب ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں گمان کرے اور اسے زبان پر لائے، اور جو ظن گناہ کا سبب نہیں ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں گمان کرے اور اسے زبان پر نہ لائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٤٥ (٥١٤٣) ، والأدب ٥٧ (٦٠٦٤) ، و ٥٨ (٦٠٦٦) ، والفرائض ٢ (٦٧٢٤) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٩ (٢٥٦٣) ، سنن ابی داود/ الأدب ٥٦ (٤٩١٧) (تحفة الأشراف : ١٣٧٢٠) ، و مسند احمد (٢/٢٤٥، ٣١٢، ٣٤٢، ٤٦٥، ٤٧٠، ٤٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اسی حدیث میں بدگمانی سے بچنے کی سخت تاکید ہے ، کیونکہ یہ جھوٹ کی بدترین قسم ہے اس لیے عام حالات میں ہر مسلمان کی بابت اچھا خیال رکھنا ضروری ہے سوائے اس کے کہ کوئی واضح ثبوت اس کے برعکس موجود ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (417) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1988

【93】

مزاح کے بارے میں

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر والوں کے ساتھ اس قدر مل جل کر رہتے تھے کہ ہمارے چھوٹے بھائی سے فرماتے : ابوعمیر ! نغیر کا کیا ہوا ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٣٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نغیر گوریا کی مانند ایک چڑیا ہے جس کی چونچ لال ہوتی ہے ، ابوعمیر نے اس چڑیا کو پال رکھا تھا اور اس سے بہت پیار کرتے تھے ، جب وہ مرگئی تو نبی اکرم ﷺ تسلی مزاح کے طور پر ان سے پوچھتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح وقد مضی (333) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1989

【94】

مزاح کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ ہم سے ہنسی مذاق کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : میں (خوش طبعی اور مزاح میں بھی) حق کے سوا کچھ نہیں کہتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٩٤٩) ، وانظر : مسند احمد (٢/٣٤٠، ٣٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : لوگوں کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے ہمیں مزاح (ہنسی مذاق) اور خوش طبعی کرنے سے منع فرمایا ہے اور آپ خود خوش طبعی کرتے ہیں ، اسی لیے آپ نے فرمایا کہ مزاح اور خوش طبعی کے وقت بھی میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا ، جب کہ ایسے موقع پر دوسرے لوگ غیر مناسب اور ناحق باتیں بھی کہہ جاتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1726) ، مختصر الشمائل (202) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1990

【95】

مزاح کے بارے میں

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سواری کی درخواست کی، آپ نے فرمایا : میں تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا ، اس آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں اونٹنی کا بچہ کیا کروں گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بھلا اونٹ کو اونٹنی کے سوا کوئی اور بھی جنتی ہے ؟ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٩٢ (٤٩٩٨) (تحفة الأشراف : ٦٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اونٹ اونٹنی کا بچہ ہی تو ہے ، ایسے ہی آپ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا تھا : «لا تدخل الجنة عجوز» یعنی بوڑھیا جنت میں نہیں جائیں گی ، جس کا مطلب یہ تھا کہ جنت میں داخل ہوتے وقت ہر عورت نوجوان ہوگی ، اسی طرح نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان : «إني حاملک علی ولد الناقة» کا بھی حال ہے ، مفہوم یہ ہے کہ اگر کہنے والے کی بات پر غور کرلیا جائے تو پھر سوال کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4886) ، مختصر الشمائل (203) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1991

【96】

مزاح کے بارے میں

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : اے دو کان والے ! محمود بن غیلان کہتے ہیں : ابواسامہ نے کہا، یعنی آپ ﷺ نے اس سے مزاح کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٩٢ (٥٠٠٢) ، ویأتي في المناقب ٥٦ (برقم : ٣٨٢٨) (تحفة الأشراف : ٩٣٤) ، و مسند احمد (٣/١١٧، ١٢٧، ٢٤٢، ٢٦٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (200) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1992

【97】

جھگڑے کے بارے میں

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص (جھگڑے کے وقت) جھوٹ بولنا چھوڑ دے حالانکہ وہ ناحق پر ہے، اس کے لیے اطراف جنت میں ایک مکان بنایا جائے گا، جو شخص حق پر ہوتے ہوئے جھگڑا چھوڑ دے اس کے لیے جنت کے بیچ میں ایک مکان بنایا جائے گا اور جو شخص اپنے اخلاق اچھے بنائے اس کے لیے اعلیٰ جنت میں ایک مکان بنایا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف سلمہ بن وردان کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٧ (٥١) (تحفة الأشراف : ٨٦٨) (ضعیف) سند میں سلمہ بن وردان لیثی مدنی ضعیف راوی ہیں، صحیح الفاظ ابو امامہ (رض) کی حدیث سے اس طرح ہیں : ” أنا زعیم ببیت في ربض الجنة لمن ترک المزاح و إن کان محقا، و بیت في وسط الجنة لمن ترک الکذب و إن کان مازحا، و بیت في اعلی الجنة لمن حسن خلقہ “ (أبو داود رقم ٤٨٠٠) تفصیل کے لیے دیکھیے الصحیحة ٢٧٣ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف بهذا اللفظ، ابن ماجة (51) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (6) ، الصحيحة (273) ، ضعيف الجامع برقم (5522) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1993

【98】

جھگڑے کے بارے میں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ تم ہمیشہ جھگڑتے رہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٥٤٠) (ضعیف) (سند میں ” ادریس بن بنت وہب بن منبہ “ مجہول راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4096) // ضعيف الجامع الصغير (4186 ) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1994

【99】

جھگڑے کے بارے میں

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے بھائی سے مت جھگڑو، نہ اس سے ہنسی مذاق کرو، اور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی تم خلاف ورزی کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦١٥١) (ضعیف) (سند میں ” لیث بن أبی سلیم “ ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (4892 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6274) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1995

【100】

حسن سلوک

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کی اجازت مانگی، اس وقت میں آپ کے پاس تھی، آپ نے فرمایا : یہ قوم کا برا بیٹا ہے، یا قوم کا بھائی برا ہے ، پھر آپ نے اس کو اندر آنے کی اجازت دے دی اور اس سے نرم گفتگو کی، جب وہ نکل گیا تو میں نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے تو اس کو برا کہا تھا، پھر آپ نے اس سے نرم گفتگو کی ١ ؎، آپ نے فرمایا : عائشہ ! لوگوں میں سب سے برا وہ ہے جس کی بد زبانی سے بچنے کے لیے لوگ اسے چھوڑ دیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٣٨ (٦٠٣٢) ، و ٤٨ (٦٠٥٤) ، و ٨٢ (٦١٣١) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٢٢ (٢٥٩١) ، سنن ابی داود/ الأدب ٦ (٤٧٩١) (تحفة الأشراف : ١٦٧٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کے برا ہوتے ہوئے بھی اس کے مہمان ہونے پر اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا ، یہی باب سے مطابقت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1049) ، مختصر الشمائل (301) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1996

【101】

محبت اور بغض میں میانہ روی اختیار کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے دوست سے اعتدال اور توسط کے ساتھ دوستی رکھو شاید وہ کسی دن تمہارا دشمن ہوجائے اور اپنے دشمن سے اعتدال اور توسط کے ساتھ دشمنی کرو شاید وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - یہ حدیث ایوب کے واسطہ سے دوسری سند سے بھی آئی ہے، حسن بن ابی جعفر نے اپنی سند سے اس کی روایت کی ہے، جو علی کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ تک پہنچتی ہے، یہ روایت بھی ضعیف ہے، اس روایت کے سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ علی سے موقوفا مروی ہے اور یہ ان کا اپنا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٤٣٢) (صحیح) (انظر غایة المرام رقم : ٤٧٢ ) قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (472) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1997

【102】

تکبر کے بارے میں

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر (گھمنڈ) ہوگا ١ ؎ اور جہنم میں وہ شخص داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہوگا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس، سلمہ بن الاکوع اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٩ (١٤٨) ، سنن ابی داود/ اللباس ٢٩ (٤٠٩١) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة (٥٩) (تحفة الأشراف : ٩٤٢١) ، و مسند احمد (١/٣٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مراد جنت میں پہلے پہل جانے کا ہے ، ورنہ ہر موحد سزا بھگتنے بعد «إن شاء اللہ» جنت میں جائے گا۔ ٢ ؎ : مراد کفار کی طرح جہنم میں داخل ہونے کا ہے ، یعنی ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں نہیں داخل ہوگا ، بلکہ اخیر میں سزا کاٹ کر جنت میں چلا جائے گا ، «إن شاء اللہ»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج إصلاح المساجد (115) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1998

【103】

تکبر کے بارے میں

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر (گھمنڈ) ہو، اور جہنم میں داخل نہیں ہوگا یعنی وہ شخص جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو ١ ؎۔ ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا : میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں ؟ آپ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ جمال (خوبصورتی) کو پسند کرتا ہے، لیکن تکبر اس شخص کے اندر ہے جو حق کونہ مانے اور لوگوں کو حقیر اور کم تر سمجھے ۔ بعض اہل علم اس حدیث : «ولا يدخل النار يعني من کان في قلبه مثقال ذرة من إيمان» کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا، ابو سعید خدری (رض) سے مروی ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ جہنم سے بالآخر ضرور نکلے گا ، کئی تابعین نے اس آیت «ربنا إنک من تدخل النار فقد أخزيته» (سورۃ آل عمران : ١٩٢ ) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا ہے : اے میرے رب ! تو نے جس کو جہنم میں ہمیشہ کے لیے ڈال دیا اس کو ذلیل و رسوا کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ٩٤٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کبر و غرور اللہ کو قطعا پسند نہیں ہے ، اس کا انجام بےحد خطرناک اور نہایت برا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1626) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1999

【104】

تکبر کے بارے میں

سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انسان ہمیشہ اپنے آپ کو تکبر (گھمنڈ) کی طرف لے جاتا ہے، یہاں تک کہ ظالموں کی فہرست میں اس کا نام لکھ دیا جاتا ہے، اور اس لیے اسے وہی عذاب لاحق ہوتا ہے جو ظالموں کو لاحق ہوا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٥٢٨) (ضعیف) (سند میں عمر بن راشد ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1914) // ضعيف الجامع الصغير (6344) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2000

【105】

تکبر کے بارے میں

جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ میرے اندر تکبر ہے، حالانکہ میں نے گدھے کی سواری کی ہے، موٹی چادر پہنی ہے اور بکری کا دودھ دوہا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے یہ کام کیے اس کے اندر بالکل تکبر نہیں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٢٠٠) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2001

【106】

اچھے اخلاق

ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن مومن کے میزان میں اخلاق حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی اور اللہ تعالیٰ بےحیاء، بدزبان سے نفرت کرتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عائشہ، ابوہریرہ، انس اور اسامہ بن شریک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٨ (٤٧٩٩) (تحفة الأشراف : ١١٠٠٢) ، و مسند احمد (٦/٤٤٢، ٤٤٦، ٤٤٨، ٤٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (876) ، الروض النضير (941) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2002

【107】

اچھے اخلاق

ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : میزان میں رکھی جانے والی چیزوں میں سے اخلاق حسنہ (اچھے اخلاق) سے بڑھ کر کوئی چیز وزنی نہیں ہے، اور اخلاق حسنہ کا حامل اس کی بدولت روزہ دار اور نمازی کے درجہ تک پہنچ جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١٠٩٩٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (876) ، الإرواء (941) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2003

【108】

اچھے اخلاق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا جو لوگوں کو بکثرت جنت میں داخل کرے گی تو آپ نے فرمایا : اللہ کا ڈر اور اچھے اخلاق پھر آپ سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا جو لوگوں کو بکثرت جہنم میں داخل کرے گی تو آپ نے فرمایا : منہ اور شرمگاہ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٩ (٤٢٤٦) (تحفة الأشراف : ١٤٨٤٧) ، و مسند احمد (٢/٢٩١، ٣٩٢، ٤٤٢) (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : اللہ کا خوف اور اچھے اخلاق جس کے اندر پائے جائیں اس سے بہتر شخص کوئی نہیں ہے ، اسی طرح جو شخص اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت نہ کرسکے اس سے زیادہ بدنصیب کوئی نہیں ہے ، کیونکہ دین کا سارا دارومدار اسی پر ہے ، ہر طرح کی برائی کا صدور انہیں سے ہوتا ہے ، اس لیے جس نے ان دونوں کی حفاظت کی وہ خوش نصیب ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2004

【109】

اچھے اخلاق

عبداللہ بن مبارک سے روایت ہے کہ انہوں نے اخلاق حسنہ کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا : اخلاق حسنہ لوگوں سے مسکرا کر ملنا ہے، بھلائی کرنا ہے اور دوسروں کو تکلیف نہ دینا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٨٩٣٦) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2005

【110】

احسان اور معاف کرنا

مالک بن نضلہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ایک ایسا آدمی ہے جس کے پاس سے میں گزرتا ہوں تو میری ضیافت نہیں کرتا اور وہ بھی کبھی کبھی میرے پاس سے گزرتا ہے، کیا میں اس سے بدلہ لوں ؟ ١ ؎ آپ نے فرمایا : نہیں، (بلکہ) اس کی ضیافت کرو ، آپ ﷺ نے میرے بدن پر پرانے کپڑے دیکھے تو پوچھا، تمہارے پاس مال و دولت ہے ؟ میں نے کہا : اللہ نے مجھے ہر قسم کا مال اونٹ اور بکری عطاء کی ہے، آپ نے فرمایا : تمہارے اوپر اس مال کا اثر نظر آنا چاہیئے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - «اقْرِهِ» کا معنی ہے تم اس کی ضیافت کرو «قری» ضیافت کو کہتے ہیں، ٣ - اس باب میں عائشہ، جابر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - ابوالاحوص کا نام عوف بن مالک نضلہ جشمی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر سنن ابی داود/ اللباس ١٧ (٤٠٦٣) ، سنن النسائی/الزینة ٥٤ (٥٢٣٩) ، و ٨٢ (٥٣٠٩) (تحفة الأشراف : ١١٢٠٦) ، و مسند احمد (٣/٤٧٣-٤٧٤) و (٤/١٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی بدلہ کے طور پر میں بھی اس کی میزبانی اور ضیافت نہ کروں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (75) ، الصحيحة (1320) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2006

【111】

احسان اور معاف کرنا

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ ہر ایک کے پیچھے دوڑنے والے نہ بنو یعنی اگر لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر ہمارے اوپر ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرو کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ احسان کریں تو تم بھی احسان کرو، اور اگر بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٣٦١) (ضعیف) (سند میں ” ولید بن عبد اللہ بن جمیع زہری “ حافظہ کے کمزور ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف نقد الکتاني (26) ، المشکاة (5129) // ضعيف الجامع الصغير (6271) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2007

【112】

بھائیوں کی ملاقات

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی مریض کی عیادت کی یا کسی دینی بھائی سے ملاقات کی تو اس کو ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے : تمہاری دنیاوی و اخروی زندگی مبارک ہو، تمہارا چلنا مبارک ہو، تم نے جنت میں ایک گھر حاصل کرلیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - حماد بن سلمہ نے «عن ثابت عن أبي رافع عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے اس حدیث کا کچھ حصہ روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢ (١٤٤٣) (تحفة الأشراف : ١٤١٣٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص حصول ثواب کی خاطر اپنے کسی دینی بھائی کی جو مریض ہو عیادت کرے یا کسی بھی دینی بھائی سے ملاقات کرے تو ایسا شخص اس ثواب کا مستحق ہوگا جو اس حدیث میں مذکور ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (5015) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2008

【113】

حیاء کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حیاء ایمان کا ایک جزء ہے اور ایمان والے جنت میں جائیں گے اور بےحیائی کا تعلق ظلم سے ہے اور ظالم جہنم میں جائیں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر، ابوبکرہ، ابوامامہ اور عمران بن حصین (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٠٤٠، و ١٥٠٥٣، و ١٥٠٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جس طرح ایمان صاحب ایمان کو گناہوں سے روکنے کا سبب ہے ، اسی طرح حیاء انسان کو معصیت اور گناہوں سے بچاتا ہے ، بلکہ اس کے لیے ایک طرح کی ڈھال ہے ، اسی وجہ سے حیاء کو ایمان کا جزء کہا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (495) ، الروض النضير (746) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2009

【114】

آہستگی اور عجلت

عبداللہ بن سرجس مزنی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اچھی خصلت، غور و خوص کرنا اور میانہ روی نبوت کے چوبیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٣٢٣) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، الروض النضير (384) ، التعليق الرغيب (3 / 6) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2010 اس سند سے بھی عبداللہ بن سرجس (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، لیکن اس میں عاصم کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا، نصر بن علی کی روایت ہی صحیح ہے (جو اوپر مذکور ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، الروض النضير (384) ، التعليق الرغيب (3 / 6) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2010

【115】

آہستگی اور عجلت

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے منذر بن عائذ اشج عبدالقیس سے فرمایا : تمہارے اندر دو خصلتیں (خوبیاں) ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں : بردباری اور غور و فکر کی عادت ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں اشج عصری سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ١٨ (٤١٨٨) (تحفة الأشراف : ٦٥٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ انسان کو کوئی بھی کام سوچ سمجھ کرنا چاہیئے ، جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیئے اور آدمی کو بردباری اور حلیم و صابر ہونا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4188) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2011

【116】

آہستگی اور عجلت

سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سوچ سمجھ کر کام کرنا اور جلد بازی نہ کرنا اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - بعض محدثین نے عبدالمہیمن بن عباس بن سہل کے بارے میں کلام کیا ہے، اور حافظے کے تعلق سے انہیں ضعیف کہا ہے، ٣ - اشج بن عبدالقیس کا نام منذر بن عائذ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٧٩٧) (ضعیف) (سند میں ” عبد المھیمن بن عباس “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5055 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (2300) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2012

【117】

نرمی کے بارے میں

ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص کو نرم برتاؤ کا حصہ مل گیا، اسے اس کی بھلائی کا حصہ بھی مل گیا اور جو شخص نرم برتاؤ کے حصہ سے محروم رہا وہ بھلائی سے بھی محروم رہا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عائشہ، جریر بن عبداللہ اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٠٠٣) ، وانظر : مسند احمد (٦/٤٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ نرم برتاؤ ، مہربانی اور رفق دنیا اور آخرت کی ہر اچھائی کے حصول کا بنیادی ذریعہ ہے ، چناچہ انسان میں خیر کا پہلو اتنا ہی غالب ہوگا جتنا اس میں رفق اور نرم روی کا پہلو غالب ہوگا ، اور جو اس صفت سے محروم ہوگا وہ خیر سے خالی ہوگا قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (515 و 874) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2013

【118】

مظلوم کی دعا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ بن جبل کو (حاکم بنا کر) یمن روانہ کرتے وقت فرمایا : مظلوم کی دعا سے ڈرو، اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ آڑے نہیں آتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں انس، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦٣ (١٤٩٦) ، والمظالم ٩ (٢٤٤٨) ، والمغازي ٦٠ (٤٣٤٧) ، سنن ابی داود/ الزکاة ٥ (١٥٨٤) ، سنن النسائی/الزکاة ٤٦ (٢٥٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١ (١٧٨٣) (تحفة الأشراف : ٦٥١١) ، و مسند احمد (١/٢٣٣) ، وسنن الدارمی/الزکاة ١ (١٦٥٥) (وانظر أیضا ماتقدم عند المؤلف برقم ٦٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ مظلوم کی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے ، اس لیے ظلم و تعدی سے ہمیشہ دور رہو ، ورنہ مظلوم کی آہ کا شکار ہوجاؤ گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1412) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2014

【119】

اخلاق نبوی ﷺ

انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دس سال تک نبی اکرم ﷺ کی خدمت کی، آپ نے کبھی مجھے اف تک نہ کہا، اور نہ ہی میرے کسی ایسے کام پر جو میں نے کیا ہو یہ کہا ہو : تم نے ایسا کیوں کیا ؟ اور نہ ہی کسی ایسے کام پر جسے میں نے نہ کیا ہو تم نے ایسا کیوں نہیں کیا، رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے اچھے اخلاق کے آدمی تھے، میں نے کبھی کوئی ریشم، حریر یا کوئی چیز آپ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم اور ملائم نہیں دیکھی اور نہ کبھی میں نے کوئی مشک یا عطر آپ ﷺ کے پسینے سے زیادہ خوشبودار دیکھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عائشہ اور براء (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٢٥ (٢٧٢٨) ، والمناقب ٢٣ (٣٥٦١) ، والأدب ٣٩ (٦٠٣٨) ، والدیات ٢٧ (٦٩١١) (في جمیع المواضع بالشطر الأول فحسب) ، صحیح مسلم/الفضائل ١٣ (٢٣١٠) (بالشطر الأول فحسب) و ٢١ (٢٣٣٠) (بالشطر الأخیر) ، سنن ابی داود/ الأدب ١ (٤٧٧٧٣) (في سیاق طویل بالشطر الأول فحسب) (تحفة الأشراف : ٢٦٤) ، و مسند احمد (٣/١٠١، ١٢٤، ١٧٤، ٢٠٠، ٢٢٧، ٢٢١، ٢٥٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل المحمدية (296) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2015

【120】

اخلاق نبوی ﷺ

ابوعبداللہ جدلی کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ فحش گو، بدکلامی کرنے والے اور بازار میں چیخنے والے نہیں تھے، آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے، بلکہ عفو و درگزر فرما دیتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابوعبداللہ جدلی کا نام عبد بن عبد ہے، اور عبدالرحمٰن بن عبد بھی بیان کیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٧٧٩٤) ، وانظر : مسند احمد (٦/١٧٤، ٢٣٦، ٢٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس میں نبی اکرم ﷺ کے حسن اخلاق اور کمال شرافت کا بیان ہے ، اور اس بات کی صراحت ہے کہ آپ ﷺ برائی اور تکلیف پہنچانے والے سے عفو و درگذر سے کام لیتے تھے نہ کہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (298) ، المشکاة (5820) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2016

【121】

حسن وفا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی بیویوں میں سے کسی پر میں اس طرح غیرت نہیں کھاتی تھی جس طرح خدیجہ پر غیرت کھاتی تھی جب کہ میں نے ان کا زمانہ بھی نہیں پایا تھا، اس غیرت کی کوئی وجہ نہیں تھی سوائے اس کے کہ آپ ان کو بہت یاد کرتے تھے، اور اگر آپ بکری ذبح کرتے تو ان کی سہیلیوں کو ڈھونڈتے اور گوشت ہدیہ بھیجتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٢٠ (٣٨١٦، ٣٨١٧) ، والنکاح ١٠٨ (٥٢٢٩) ، والأدب ٢٣ (٦٠٠٤) ، والتوحید ٣٢ (٧٤٨٤) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٢ (٢٤٣٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٦ (١٩٩٧) (تحفة الأشراف : ١٦٨٧) ، و مسند احمد (٦/٥٨، ٢٠٢، ٢٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جب سہیلیوں کے ساتھ آپ کا برتاؤ اتنا اچھا تھا تو خود خدیجہ (رض) کے ساتھ کیسا ہوگا ؟ نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہنا چاہیئے ، جیسے کہ باپ کے بارے میں حکم آیا ہے کہ باپ کے دوستوں کے ساتھ آدمی اچھا برتاؤ کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2017

【122】

بلند اخلاق

جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے نزدیک تم میں سے (دنیا میں) سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں، اور میرے نزدیک تم میں (دنیا میں) سب سے زیادہ قابل نفرت اور قیامت کے دن مجھ سے دور بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو باتونی، بلااحتیاط بولنے والے، زبان دراز اور تکبر کرنے والے «متفيهقون» ہیں ، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم نے «ثرثارون» (باتونی) اور «متشدقون» (بلااحتیاط بولنے والے) کو تو جان لیا لیکن کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تکبر کرنے والے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٣ - بعض لوگوں نے یہ حدیث «عن المبارک بن فضالة عن محمد بن المنکدر عن جابر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم ولم» کی سند سے روایت کی ہے اور اس میں «عن عبد ربه بن سعيد» کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا، اور یہ زیادہ صحیح ہے، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٤ - «ثرثار» باتونی کو کہتے ہیں : اور «متشدق» اس آدمی کو کہتے ہیں : جو لوگوں کے ساتھ گفتگو میں بڑائی جتاتے اور فحش کلامی کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٠٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں کم بولنے اور سادگی سے گفتگو کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ، اور تصنع و بناوٹ اور تکبر سے منع کیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (791) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2018

【123】

لعن وطعن

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن لعن و طعن کرنے والا نہیں ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی روایت ہے، ٣ - بعض لوگوں نے اسی سند سے نبی اکرم ﷺ سے یوں روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ لعن وطعن کرنے والا ہو ، یہ حدیث پہلی حدیث کی وضاحت کر رہی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٧٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4848 / التحقيق الثانی) ، ظلال الجنة (1014) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2019

【124】

غصہ کی زیادتی

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی نے آ کر عرض کیا : مجھے کچھ سکھائیے لیکن زیادہ نہ بتائیے تاکہ میں اسے یاد رکھ سکوں، آپ نے فرمایا : غصہ مت کرو ، وہ کئی بار یہی سوال دہراتا رہا اور آپ ہر بار کہتے رہے غصہ مت کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوسعید اور سلیمان بن صرد (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٧٦ (٦١١٦) (تحفة الأشراف : ١٢٨٤٦) ، و مسند احمد (٢/٣٦٢، ٤٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : غصہ کی صفت سے کوئی انسان خالی نہیں ہے ، لیکن غصہ پر قابو پالینا سب سے بڑی نیکی اور انسان کی سب سے کامل عادت ہے ، نصیحت مخاطب کے مزاج و طبیعت کا خیال کرتے ہوئے اس کے حالات کے مطابق ہونی چاہیئے ، چناچہ اس حدیث میں آپ ﷺ نے اس آدمی کے متعدد بار سوال کرنے کے باوجود اس کے حالات کے مطابق ایک ہی جواب دیا یعنی غصہ مت کرو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2020

【125】

غصہ کی زیادتی

معاذ بن انس جہنی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص غصہ ضبط کرلے حالانکہ وہ اسے کر گزرنے کی استطاعت رکھتا ہو، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ وہ جس حور کو چاہے منتخب کرلے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٣ (٤٧٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ١٨ (٤١٨٦) ، یأتي في القیامة ٢٤٩٣ (تحفة الأشراف : ١١٢٩٨) ، و مسند احمد (٣/٤٣٨، ٤٤٠) (حسن ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2021

【126】

بڑوں کی تعظیم

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو جوان کسی بوڑھے کا اس کے بڑھاپے کی وجہ سے احترام کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے لوگوں کو مقرر فرما دے گا جو اس عمر میں (یعنی بڑھاپے میں) اس کا احترام کریں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی شیخ یعنی یزید بن بیان کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - ابوالرجال انصاری ایک دوسرے راوی ہیں (اور جو راوی اس حدیث میں ہیں وہ ابوالرحال ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٧١٦) (ضعیف) (سند میں یزید بن بیان، اور أبوالرحال دونوں ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (304) ، المشکاة (4971) // ضعيف الجامع الصغير (5012) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2022

【127】

ملاقات ترک کرنے والوں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں، اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے والوں کی اس دن مغفرت کی جاتی ہے، سوائے ان کے جنہوں نے باہم قطع تعلق کیا ہے، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے، ان دونوں کو لوٹا دو یہاں تک کہ آپس میں صلح کرلیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - بعض روایتوں میں «ردوا هذين حتی يصطلحا» ان دونوں کو اپنے حال پر چھوڑ دو جب تک صلح نہ کرلیں کے الفاظ مروی ہیں، ٣ - «مهتجرين» کے معنی «متصارمين» قطع تعلق کرنے والے ہیں، ٤ - یہ حدیث اسی روایت کے مثل ہے جو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے، آپ نے فرمایا : کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ١١ (٢٥٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٢ (١٧٣٩) (تحفة الأشراف : ١٢٧٠٢) ، و مسند احمد (٢/٣٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پیر اور جمعرات یہ ایسے دو دن ہیں جن کے بارے میں بعض روایات سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ان دو دنوں میں (اللہ کے یہاں) بندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں ، آپ ﷺ ان دو دنوں میں اہتمام سے روزہ رکھتے تھے ، اور مسلم کی روایت ہے کہ پیر کے دن آپ کی پیدائش ہوئی اور اسی دن آپ کی بعثت بھی ہوئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (3 / 105) ، غاية المرام (412) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2023

【128】

صبر کے بارے میں

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ چند انصاریوں نے نبی اکرم ﷺ سے کچھ مانگا، آپ نے انہیں دیا، انہوں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا، پھر فرمایا : جو مال بھی میرے پاس ہوگا میں اس کو تم سے چھپا کر ہرگز جمع نہیں رکھوں گا، لیکن جو استغناء ظاہر کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو غنی کر دے گا ١ ؎، جو سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اس کو سوال سے محفوظ رکھے گا، اور جو صبر کی توفیق مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق عطا کرے گا، کسی شخص کو بھی صبر سے بہتر اور کشادہ کوئی چیز نہیں ملی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث امام مالک سے (دوسری سند سے) «فلن أذخره عنكم» کے الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے، ان دونوں عبارتوں کا ایک ہی معنی ہے، یعنی تم لوگوں سے میں اسے ہرگز نہیں روک رکھوں گا، ٣ - اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٠ (١٣٦٩) ، والرقاق ٢٠ (٦٤٧٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٢ (١٠٥٣) ، سنن النسائی/الزکاة ٨٥ (٢٥٨٩) (تحفة الأشراف : ٤١٥٢) ، وط/الصدقہ ٢ (٧) ، و مسند احمد (٣/١٢، ١٤، ٤٧، ٩٣) ، و سنن الدارمی/الزکاة ١٨ (١٦٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو قناعت سے کام لے گا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ بڑھانے اور سوال کرنے سے بچے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اطمینان قلب بخشے گا اور دوسروں سے بےنیاز کر دے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 11) ، صحيح أبي داود (1451) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2024

【129】

ہر ایک کے منہ پر اس کی طرف داری کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ کی نظر میں دو رخے شخص سے بدتر کوئی نہیں ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں انس اور عمار (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ١ (٣٤٩٤) ، والأدب ٥٢ (٦٠٥٨) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤٨ (٢٥٢٦) ، سنن ابی داود/ الأدب ٣٩ (٤٨٧٢) (تحفة الأشراف : ١٢٥٣٨) ، و مسند احمد (٢/٤٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دو رخے شخص سے مراد ایسا آدمی ہے جو ایک گروہ کے پاس جائے تو اسے یہ یقین دلائے کہ تمہارا خیرخواہ اور ساتھی ہوں اور دوسرے کا مخالف ہوں ، لیکن جب دوسرے گروہ کے پاس جائے تو اسے بھی اسی طرح کا تاثر دے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح الجامع (2226) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2025

【130】

چغل خوری کرنے والے

ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان (رض) کے پاس سے ایک آدمی گزرا، ان سے کہا گیا کہ یہ شخص حکام کے پاس لوگوں کی باتیں پہنچاتا ہے، تو حذیفہ (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : چغل خور جنت میں نہیں داخل ہوگا ١ ؎۔ سفیان کہتے ہیں : «قتات» ، «نمام» چغل خور کو کہتے ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٥٠ (٦٠٥٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٥ (١٥٠) ، سنن ابی داود/ الأدب ٣٨ (٤٨٧١) (تحفة الأشراف : ٣٣٨٦) ، و مسند احمد (٥/٣٨٢، ٣٨٩، ٣٩٧، ٤٠٣، ٤٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حاکموں اور حکومتی عہدہ داروں کے پاس اہل ایمان اور صالح لوگوں کی چغلی کرنے والوں ، ان کی رپورٹیں بنا بنا کر پیش کرنے والوں اور جھوٹ سچ ملا کر اپنے مفادات حاصل کرنے والوں کو اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیئے ، دنیاوی مفادات چار دن کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ اخروی حیات کا آخری کوئی سرا نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1034) ، غاية المرام (433) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2026

【131】

کم گوئی

ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حیاء اور کم گوئی ایمان کی دو شاخیں ہیں، جب کہ فحش کلامی اور کثرت کلام نفاق کی دو شاخیں ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب، ہم اسے صرف ابوغسان محمد بن مطرف ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - «عي» کا معنی کم گوئی اور «بذاء» کا معنی فحش گوئی ہے، «بيان» کا معنی کثرت کلام ہے، مثلا وہ مقررین جو لمبی تقریریں کرتے ہیں اور لوگوں کی تعریف میں ایسی فصاحت بگھاڑتے ہیں جو اللہ کو پسند نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (٤٨٥٥) ، وانظر : مسند احمد (٥/٢٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : حیاء اور کم گوئی کے سبب انسان بہت سے گناہوں سے بچ جاتا ہے ، یہ دونوں خصلتیں انسان کو بہت سے گناہوں کے ارتکاب سے روک دیتی ہیں ، جب کہ بک بک کرتے رہنے سے انسان جھوٹ گوئی کا بھی ارتکاب کر بیٹھتا ہے ، اور جو دل میں ہو اس کے خلاف بھی بول پڑتا ہے ، یہی نفاق ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح إيمان ابن أبى شيبة (118) ، المشکاة (4796 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2027

【132】

بعض بیان جادو ہے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں دو آدمی آئے ١ ؎ اور انہوں نے تقریر کی، لوگ ان کی تقریر سن کر تعجب کرنے لگے، رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : کچھ باتیں جادو ہوتی ہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمار، ابن مسعود اور عبداللہ بن شخیر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٤٧ (٥١٤٦) ، والطب ٥١ (٥٧٦٧) ، سنن ابی داود/ الأدب ٩٤ (٥٠٠٧) (تحفة الأشراف : ٦٧٢٧) ، و مسند احمد (٤/٢٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ٩ ھ میں بنو تمیم کے وفد میں یہ دونوں شامل تھے ، ان میں سے ایک کا نام زبرقان اور دوسرے کا نام عمرو بن اہیم تھا۔ ٢ ؎ : اگر حق کی دفاع اور اخروی زندگی کی کامیابی سے متعلق اسی طرح کی خوبی کسی میں ہے تو قابل تعریف ہے ، اور اگر باطل کی طرف پھیرنے کے لیے ہے تو لائق مذمت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2028

【133】

تواضع

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صدقہ مال کو کم نہیں کرتا، اور عفو و درگزر کرنے سے آدمی کی عزت بڑھتی ہے، اور جو شخص اللہ کے لیے تواضع و انکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا رتبہ بلند فرما دیتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، ابن عباس اور ابوکبشہ انماری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢ - ابوکبشہ انماری کا نام عمر بن سعد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ١٩ (٢٥٨٨) (تحفة الأشراف : ١٤٠٧٢) ، و مسند احمد (٢/٣٨٦) ، و سنن الدارمی/الزکاة ٣٥ (١٧١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں تواضع اور خاکساری کا مذکور مرتبہ تو دنیا میں دیکھی حقیقت ہے ، اے کاش لوگ نصیحت پکڑتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2200) ، الصحيحة (2328) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2029

【134】

ظلم

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ظلم کرنا قیامت کے دن تاریکیوں کا سبب ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ابن عمر کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو، عائشہ، ابوموسیٰ ، ابوہریرہ، اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٨ (٢٤٤٧) ، صحیح مسلم/البر والصلة ١٥ (٢٥٧٩) (تحفة الأشراف : ٧٢٠٩) ، و مسند احمد (٢/٩٢، ١٠٦، ١٣٦، ١٣٧، ١٥٦، ١٥٩، ١٩١، ١٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ظلم کرنے والا اپنے ظلم کے سبب قیامت کے دن مختلف قسم کے مصائب سے دوچار ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2030

【135】

نعمت میں عیب جوئی ترک کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا، جب آپ کو پسند آتا تو کھالیتے نہیں تو چھوڑ دیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٦٣) ، صحیح مسلم/الأشربة ٣٥ (٢٠٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٤ (٣٢٥٩) (تحفة الأشراف : ١٣٤٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2031

【136】

مومن کی تعظیم

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے، بلند آواز سے پکارا اور فرمایا : اے اسلام لانے والے زبانی لوگوں کی جماعت ان کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچا ہے ! مسلمانوں کو تکلیف مت دو ، ان کو عار مت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتا ہے، اسے رسوا و ذلیل کردیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو ۔ راوی (نافع) کہتے ہیں : ایک دن ابن عمر (رض) نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر کہا : کعبہ ! تم کتنی عظمت والے ہو ! اور تمہاری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن اللہ کی نظر میں مومن (کامل) کی حرمت تجھ سے زیادہ عظیم ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف حسین بن واقد کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اسحاق بن ابراہیم سمر قندی نے بھی حسین بن واقد سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ٣ - ابوبرزہ اسلمی (رض) کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧٥٠٩) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (5044 / التحقيق الثانی) ، التعليق الرغيب (3 / 277) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2032

【137】

تجربے کے بارے میں

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غلطی کرنے والے ہی بردبار ہوتے ہیں اور تجربہ والے ہی دانا ہوتے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٠٥٥) ، وانظر : مسند احمد (٣/٦٩) (ضعیف) (سند میں ” دراج أبوالسمح “ أبوالھیثم سے روایت میں ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5056) ، الضعيفة (5646) // ضعيف الجامع الصغير (6283) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2033

【138】

جو چیز اپنے پاس نہ اس پر فخر نہ کرنا

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جسے کوئی تحفہ دیا جائے پھر اگر اسے میسر ہو تو اس کا بدلہ دے اور جسے میسر نہ ہو تو وہ (تحفہ دینے والے کی) تعریف کرے، اس لیے کہ جس نے تعریف کی اس نے اس کا شکریہ ادا کیا اور جس نے نعمت کو چھپالیا اس نے کفران نعمت کیا، اور جس نے اپنے آپ کو اس چیز سے سنوارا جو وہ نہیں دیا گیا ہے، تو وہ جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والے کی طرح ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں اسماء بنت ابوبکر اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - «ومن کتم فقد کفر» کا معنی یہ ہے : اس نے اس نعمت کی ناشکری کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢٨٩٢) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (2617) ، التعليق الرغيب (2 / 55) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2034

【139】

احسان کے بدلے تعریف کرنا

اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کے ساتھ کوئی بھلائی کی گئی اور اس نے بھلائی کرنے والے سے «جزاک اللہ خيراً» اللہ تعالیٰ تم کو بہتر بدلا دے کہا، اس نے اس کی پوری پوری تعریف کردی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن جید غریب ہے، ہم اسے اسامہ بن زید (رض) کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل حدیث مروی ہے، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا، ٣ - مکی بن ابراہیم کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن جریج مکی کے پاس تھے، ایک مانگنے والا آیا اور ان سے کچھ مانگا، ابن جریج نے اپنے خزانچی سے کہا : اسے ایک دینار دے دو ، خازن نے کہا : میرے پاس صرف ایک دینار ہے اگر میں اسے دے دوں تو آپ اور آپ کے اہل و عیال بھوکے رہ جائیں گے، یہ سن کر ابن جریج غصہ ہوگئے اور فرمایا : اسے دینار دے دو ، ہم ابن جریج کے پاس ہی تھے کہ ایک آدمی ان کے پاس ایک خط اور تھیلی لے کر آیا جسے ان کے بعض دوستوں نے بھیجا تھا، خط میں لکھا تھا : میں نے پچاس دینار بھیجے ہیں، ابن جریج نے تھیلی کھولی اور شمار کیا تو اس میں اکاون دینار تھے، ابن جریج نے اپنے خازن سے کہا : تم نے ایک دینار دیا تو اللہ تعالیٰ نے تم کو اسے مزید پچاس دینار کے ساتھ لوٹا دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٧١ (١٨٠) (تحفة الأشراف : ١٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کسی پر احسان کیا گیا ہو ، اس نے اپنے محسن کے لیے «جزاک اللہ خيرا» کہا تو اس احسان کا اس نے پورا پورا شکر یہ ادا کردیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3024) ، التعليق الرغيب (2 / 55) ، الروض النضير (8) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2035