28. وصیتوں کے متعلق ابواب

【1】

تہائی مال کی وصیت

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال میں ایسا بیمار پڑا کہ موت کے قریب پہنچ گیا، رسول اللہ ﷺ میری عیادت کو آئے تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے پاس بہت مال ہے اور ایک لڑکی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے، کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، میں نے عرض کیا : دو تہائی مال کی ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، میں نے عرض کیا : آدھا مال کی ؟ آپ ﷺ نے کہا : نہیں ، میں نے عرض کیا : ایک تہائی کی ؟ آپ نے فرمایا : ایک تہائی کی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت ہے ١ ؎، تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج و غریب چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیریں، تم جو بھی خرچ کرتے ہو اس پر تم کو ضرور اجر ملتا ہے، یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی جس کو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں تو اپنی ہجرت سے پیچھے رہ جاؤں گا ؟ آپ نے فرمایا : تم میرے بعد زندہ رہ کر اللہ کی رضا مندی کی خاطر جو بھی عمل کرو گے اس کی وجہ سے تمہارے درجات میں بلندی اور اضافہ ہوتا جائے گا، شاید کہ تم میرے بعد زندہ رہو یہاں تک کہ تم سے کچھ قومیں نفع اٹھائیں گی اور دوسری نقصان اٹھائیں گی ٢ ؎، (پھر آپ نے دعا کی) اے اللہ ! میرے صحابہ کی ہجرت برقرار رکھ اور ایڑیوں کے بل انہیں نہ لوٹا دنیا لیکن بیچارے سعد بن خولہ جن پر رسول اللہ ﷺ افسوس کرتے تھے، (ہجرت کے بعد) مکہ ہی میں ان کی وفات ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - سعد بن ابی وقاص سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے، ٣ - اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے، ٤ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرنا آدمی کے لیے جائز نہیں ہے، ٤ - بعض اہل علم ایک تہائی سے کم کی وصیت کرنے کو مستحب سمجھتے ہیں اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک تہائی بھی زیادہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٩٧٥ (تحفة الأشراف : ٣٨٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صاحب مال ورثاء کو محروم رکھنے کی کوشش نہ کرے ، اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ اپنے تہائی مال کی وصیت کرسکتا ہے ، اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کرسکتا ہے ، البتہ ورثاء اگر زائد کی اجازت دیں تو پھر کوئی حرج کی بات نہیں ہے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ ورثاء کا مالدار رہنا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچنا بہت بہتر ہے۔ ٢ ؎ : آپ ﷺ نے سعد بن ابی وقاص کے متعلق جس امید کا اظہار کیا تھا وہ پوری ہوئی ، چناچہ سعد اس مرض سے شفاء یاب ہوئے اور آپ کے بعد کافی لمبی عمر پائی ، ان سے ایک طرف مسلمانوں کو فائدہ پہنچا تو دوسری جانب کفار کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ، ان کا انتقال مشہور قول کے مطابق ٥٠ ھ میں ہوا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2708) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2116

【2】

تہائی مال کی وصیت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مرد اور عورت ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت کرتے ہیں پھر ان کی موت کا وقت آتا ہے اور وہ وصیت کرنے میں (ورثاء کو) نقصان پہنچاتے ہیں ١ ؎، جس کی وجہ سے ان دونوں کے لیے جہنم واجب ہوجاتی ہے ، پھر ابوہریرہ نے «من بعد وصية يوصی بها أو دين غير مضار وصية من الله» سے «ذلک الفوز العظيم» ٢ ؎ تک آیت پڑھی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - نصر بن علی جنہوں نے اشعث بن جابر سے روایت کی ہے وہ نصر بن علی جہضمی کے دادا ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الوصایا ٣ (٢٨٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٣ (٢٧٣٤) (تحفة الأشراف : ١٣٤٩٥) (ضعیف) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : نقصان پہنچانے کی صورت یہ ہے کہ تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کردی یا ورثاء میں سے کسی ایک کو سارا مال ہبہ کردیا یا وصیت سے پہلے وہ جھوٹ کا سہارا لے کر اپنے اوپر دوسروں کا قرض ثابت کرے ، ظاہر ہے ان تمام صورتوں میں ورثاء نقصان سے دوچار ہوں گے ، اس لیے اس کی سزا بھی سخت ہے۔ ٢ ؎ : اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو یہ مقرر کیا ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، اور اللہ تعالیٰ دانا ہے بردبار ہے ، یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ جنتوں میں لے جائے گا ، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے (النساء : ١٢ -١٣) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2704) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (591) ، المشکاة (3075) ، ضعيف الجامع الصغير (1457) ، ضعيف أبي داود (614 / 2867) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2117

【3】

وصیت کی ترغیب

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان کو یہ اس بات کا حق نہیں کہ وہ دو راتیں ایسی حالت میں گزارے کہ وہ کوئی وصیت کرنا چاہتا ہو اور اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث «عن الزهري عن سالم عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے اسی طرح مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٩٧٤ (تحفة الأشراف : ٧٥٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آیت میراث کے نزول سے پہلے وصیت کرنا لازمی اور ضروری تھا ، لیکن اس آیت کے نزول کے بعد ورثاء کے حصے متعین ہوگئے اس لیے ورثاء سے متعلق وصیت کا سلسلہ بند ہوگیا ، البتہ ان کے علاوہ کے لیے تہائی مال میں وصیت کی جاسکتی ہے ، اور یہ وصیت اس حدیث کی روشنی میں تحریری شکل میں موجود رہنی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2699) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2118

【4】

رسول اللہ ﷺ نے وصیت نہیں کی

طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ نے وصیت کی تھی ؟ انہوں نے کہا : نہیں ١ ؎ میں نے پوچھا : پھر وصیت کیسے لکھی گئی اور آپ نے لوگوں کو کس چیز کا حکم دیا ؟ ابن ابی اوفی نے کہا : آپ نے کتاب اللہ پر عمل پیرا ہونے کی وصیت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف مالک بن مغول کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١ (٢٧١٠) ، والمغازي ٨٣ (٤٤٦٠) ، وفضائل القرآن ١٨ (٥٠٢٢) ، صحیح مسلم/الوصایا ٥ (١٦٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٢ (٣٦٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ١ (٢٦٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٥١٧٠) ، و مسند احمد (٤/٣٥٤، ٣٥٥، ٣٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابن ابی اوفی (رض) نے یہ سمجھا کہ یہ سوال کسی خاص وصیت کے تعلق سے ہے اسی لیے نفی میں جواب دیا ، اس سے مطلق وصیت کی نفی مقصود نہیں ہے ، بلکہ اس نفی کا تعلق مالی وصیت یا علی (رض) سے متعلق کسی مخصوص وصیت سے ہے ، ورنہ آپ ﷺ نے وصیت کی جیسا کہ خود ابن ابی اوفی نے بیان کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2696) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2119

【5】

وارث کے لئے وصیت نہیں

ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال خطبہ میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں، لڑکا (ولدالزنا) بستر والے کی طرف منسوب ہوگا (نہ کہ زانی کی طرف) ، اور زانی رجم کا مستحق ہے اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔ جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسری طرف نسبت کی یا اپنے موالی کے علاوہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیا اس پر قیامت کے دن تک جاری رہنے والی لعنت ہو، کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کھانا بھی نہیں ؟ آپ نے فرمایا : یہ ہمارے مالوں میں سب سے بہتر ہے ۔ (یعنی اس کی زیادہ حفاظت ہونی چاہیئے) پھر آپ نے فرمایا : «عارية» (منگنی) لی ہوئی چیز واپس لوٹائی جائے گی،«منحة» ١ ؎ واپس کی جائے گی، قرض ادا کیا جائے گا، اور ضامن ذمہ دار ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابوامامہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے یہ حدیث دوسری سند سے بھی آئی ہے، ٣ - اسماعیل بن عیاش کی وہ روایت جسے وہ اہل عراق اور اہل شام سے روایت کرنے میں منفرد ہیں، قوی نہیں ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے ان سے منکر حدیثیں روایت کی ہیں، اہل شام سے ان کی روایت زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح محمد بن اسماعیل بخاری نے کہا : ٤ - احمد بن حنبل کہتے ہیں : اسماعیل بن عیاش حدیث روایت کرنے کے اعتبار سے بقیہ سے زیادہ صحیح ہیں، بقیہ نے ثقہ راویوں سے بہت سی منکر حدیثیں روایت کی ہیں، ٥ - ابواسحاق فزاری کہتے ہیں : ثقہ راویوں کے سے بقیہ جو حدیثیں بیان کریں اسے لے لو اور اسماعیل بن عیاش کی حدیثیں مت لو، خواہ وہ ثقہ سے روایت کریں یا غیر ثقہ سے، ٦ - اس باب میں عمرو بن خارجہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الوصایا ٦ (٢٨٧٠) ، والبیوع ٩٠ (٣٥٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٦ (٢٧١٣) (تحفة الأشراف : ٤٨٨٢) ، و مسند احمد (٥/٢٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : وہ دودھ والا جانور جو کسی کو صرف دودھ سے فائدہ اٹھانے کے لیے دیا جاتا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی ضامن نے جس چیز کی ذمہ داری لی ہے ، اس کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2713) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2120

【6】

وارث کے لئے وصیت نہیں

عمرو بن خارجہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی اونٹنی پر خطبہ دے رہے تھے، اس وقت میں اس کی گردن کے نیچے تھا، وہ جگالی کر رہی تھی اور اس کا لعاب میرے کندھوں کے درمیان بہہ رہا تھا، آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کا حق دے دیا ہے، کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں، لڑکا (ولد الزنا) بستر والے کی طرف منسوب ہوگا، اور زانی رجم کا مستحق ہے، جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کی طرف نسبت کرے یا (غلام) اپنے مالکوں کے علاوہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے انہیں ناپسند کرتے ہوئے اس پر اللہ کی لعنت ہے، اللہ ایسے شخص کا نہ نفلی عبادت قبول کرے گا نہ فریضہ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - احمد بن حنبل کہتے ہیں : میں شہر بن حوشب کی حدیث کی پرواہ نہیں کرتا ہوں، ٣ - امام ترمذی کہتے ہیں : میں نے محمد بن اسماعیل سے شہر بن حوشب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے توثیق کی اور کہا : ان کے بارے میں ابن عون نے کلام کیا ہے، پھر ابن عون نے خود ہلال بن ابوزینب کے واسطہ سے شہر بن حوشب سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الوصایا ٥ (٣٦٧١) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٦ (٢٧١٢) (تحفة الأشراف : ١٠٧٣١) ، و مسند احمد (٤/١٨٦) ، ١٨٧، ٢٣٨، ٢٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2712) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2121

【7】

قرض وصیت سے پہلے ادا کیا جائے

علی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وصیت (کے نفاذ) سے پہلے قرض کی ادائیگی کا فیصلہ فرمایا، جب کہ تم (قرآن میں) قرض سے پہلے وصیت پڑھتے ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : عام اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ وصیت سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٠٩٤ (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے اشارہ قرآن کریم کی اس آیت «من بعد وصية يوصی بها أو دين» (النساء : ١٢ ) کی طرف ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن ومضی (2189) أتم منه صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2122

【8】

موت کے وقت صدقہ کرنے یا غلام آزاد کرنا

ابوحبیبہ طائی کہتے ہیں کہ میرے بھائی نے اپنے مال کے ایک حصہ کی میرے لیے وصیت کی، میں نے ابو الدرداء (رض) سے ملاقات کی اور کہا : میرے بھائی نے اپنے مال کے ایک حصہ کی میرے لیے وصیت کی ہے، آپ کی کیا رائے ہے ؟ میں اسے کہاں خرچ کروں، فقراء میں، مسکینوں میں یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں میں ؟ انہوں نے کہا : میری بات یہ ہے کہ اگر تمہاری جگہ میں ہوتا تو مجاہدین کے برابر کسی کو نہ سمجھتا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو شخص مرتے وقت غلام آزاد کرتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو آسودہ ہونے کے بعد ہدیہ کرتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ العتق ١٥ (٣٩٦٨) ، سنن النسائی/الوصایا ١ (٣٦١٦) (تحفة الأشراف : ١٠٩٧٠) ، و مسند احمد (٥/١٩٧) ، (٦/٤٤٧) (ضعیف) (سند میں ابو حبیبہ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1322) ، المشکاة (1871 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2123

【9】

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ بریرہ اپنے زر کتابت کے بارے میں ان سے تعاون مانگنے آئیں اور زر کتابت میں سے کچھ نہیں ادا کیا تھا۔ ام المؤمنین عائشہ نے ان سے کہا : تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کریں کہ میں تمہاری زر کتابت ادا کر دوں اور تمہاری ولاء (میراث) کا حق مجھے حاصل ہو، تو میں ادا کر دوں گی۔ بریرہ نے اپنے گھر والوں سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے انکار کردیا اور کہا : اگر وہ چاہتی ہوں کہ تمہیں آزاد کر کے ثواب حاصل کریں اور تمہارا حق ولاء (میراث) ہمارے لیے ہو تو وہ تمہیں آزاد کردیں، ام المؤمنین عائشہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : اسے خریدو اور آزاد کر دو اس لیے کہ حق ولاء (میراث) اسی کو حاصل ہے جو آزاد کرے پھر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا : لوگوں کو کیا ہوگیا ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں موجود نہیں ؟ جو شخص کوئی ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں موجود نہیں تو وہ اس کا مستحق نہیں ہوگا، اگرچہ وہ سو بار شرط لگائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ٢ - عائشہ (رض) سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے۔ ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آزاد کرنے والے ہی کو حق ولاء (میراث) حاصل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧٠ (٤٥٦) ، والزکاة ٦١ (١٤٩٣) ، والبیوع ٦٧ (٩٢١٥٥، ٧٣ (٢١٦٨) ، والعتق ١٠ (٢٥٣٦) ، والمکاتب ١ (٢٥٦٠) ، و ٢ (٢٥٦١) ، و ٣ (٢٥٦٣) ، و ٤ (٢٥٦٤) ، و ٥ (٢٥٦٥) ، والھبة ٧ (٢٥٧٨) ، والشروط ٧ (٢٧١٧) ، و ١٠ (٢٧٢٦) ، و ١٣ (٢٧٢٩) ، و ١٧ (٢٧٣٥) ، والطلاق ١٧ (٥٢٨٤) ، والأطعمة : ٣١ (٥٤٣٠) ، والکفارات ٨ (٦٧١٧) ، والفرائض ٢٠ (٦٧٥٤) ، و ٢٢ (٦٧٥٨) ، صحیح مسلم/العتق ٢ (١٥٠٤) ، سنن ابی داود/ الفرائض ١٢ (٢٩١٥، ٢٩١٦) ، والعتق ٢ (٣٩٢٩) ، سنن النسائی/الزکاة ٩٩ (٢٦١٥) ، والطلاق ٢٩ (٣٤٧٨) ، و ٣٠ (٣٤٧٩، ٣٤٨٠) ، و ٣١ (٣٤٨١، ٣٤٨٤) ، والبیوع ٧٨ (٤٦٤٦-٤٦٤٨) (تحفة الأشراف : ١٦٥٨٠) ، و مسند احمد (٦/٤٢، ٤٦، ١٧٠، ١٧٢، ١٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2521 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2124