31. فتنوں کا بیان

【1】

اس بارے میں کہ تین جرموں کے علاوہ کسی مسلمان کو خون بہانا حرام ہے

ابوامامہ بن سہل بن حنیف (رض) جب باغیوں نے عثمان بن عفان (رض) کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا تو انہوں نے اپنے گھر کی چھت پر آ کر کہا : میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم نہیں جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین صورتوں کے سوا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں : شادی کے بعد زنا کرنا، یا اسلام لانے کے بعد مرتد ہوجانا، یا کسی کو ناحق قتل کرنا جس کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جائے، اللہ کی قسم ! میں نے نہ جاہلیت میں زنا کیا ہے نہ اسلام میں، نہ رسول اللہ ﷺ سے بیعت کرنے کے بعد میں مرتد ہوا ہوں اور نہ ہی اللہ کے حرام کردہ کسی نفس کا قاتل ہوں، پھر (آخر) تم لوگ کس وجہ سے مجھے قتل کر رہے ہو ؟۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اسے حماد بن سلمہ نے یحییٰ بن سعید کے واسطہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے، اور یحییٰ بن سعید قطان اور دوسرے کئی لوگوں نے یحییٰ بن سعید سے یہ حدیث روایت کی ہے، لیکن یہ موقوف ہے نہ کہ مرفوع، ٣ - اس باب میں ابن مسعود، عائشہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - اور یہ حدیث عثمان کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے کئی دیگر سندوں بھی سے مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الدیات ٣ (٤٥٠٢) ، سنن النسائی/المحاربة ٥ (٤٠٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١ (٢٥٣٣) (تحفة الأشراف : ٩٧٨٢) ، و مسند احمد (١/٦١، ٦٢، ٦٥، ٧٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2533 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2158

【2】

جان ومال کی حرمت کے بارے میں

عمرو بن احوص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کو لوگوں سے خطاب کرتے سنا : یہ کون سا دن ہے ؟ لوگوں نے کہا : حج اکبر کا دن ہے ١ ؎، آپ نے فرمایا : تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت و آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس شہر میں تمہارے اس دن کی حرمت و تقدس ہے، خبردار ! جرم کرنے والے کا وبال خود اسی پر ہے، خبردار ! باپ کے قصور کا مواخذہ بیٹے سے اور بیٹے کے قصور کا مواخذہ باپ سے نہ ہوگا، سن لو ! شیطان ہمیشہ کے لیے اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ تمہارے اس شہر میں اس کی پوجا ہوگی، البتہ ان چیزوں میں اس کی کچھ اطاعت ہوگی جن کو تم حقیر عمل سمجھتے ہو، وہ اسی سے خوش رہے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - زائدہ نے بھی شبیب بن غرقدہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ہم اس حدیث کو صرف شبیب بن غرقدہ کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - اس باب میں ابوبکرہ، ابن عباس، جابر، حذیم بن عمرو السعدی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٥ (٣٣٣٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٦ (٣٠٥٥) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر التوبة (٣٠٨٧) (تحفة الأشراف : ١٠٦٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یوم حج اکبر سے مراد یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) ہے ، کیونکہ اسی دن منی میں کفار و مشرکین سے برأت کا اعلان سنایا گیا ، یا حج اکبر کہنے کی یہ وجہ ہے کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم اعمال ادا کئے جاتے ہیں یا عوام عمرہ کو حج اصغر کہتے تھے ، اس اعتبار سے حج کو حج اکبر کہا گیا ، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو وہ حج حج اکبر ہے ، اس کی کچھ بھی اصل نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3055) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2159

【3】

کسی مسلمان کو گھبراہٹ میں مبتلا کرنے کی ممانعت کے متعلق

یزید بن سائب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص کھیل کود میں ہو یا سنجیدگی میں اپنے بھائی کی لاٹھی نہ لے اور جو اپنے بھائی کی لاٹھی لے، تو وہ اسے واپس کر دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف ابن ابی ذئب ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - سائب بن یزید کو شرف صحبت حاصل ہے بچپن میں انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے کئی حدیثیں سنی ہیں، نبی اکرم ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمر سات سال تھی، ان کے والد یزید بن سائب ١ ؎ کی بہت ساری حدیثیں ہیں، وہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ہیں، اور نبی اکرم ﷺ سے حدیثیں روایت کی ہیں، سائب بن یزید نمر کے بہن کے بیٹے ہیں، ٣ - اس باب میں ابن عمر، سلیمان بن صرد، جعدہ، اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٩٣ (٥٠٠٣) (تحفة الأشراف : ١١٨٢٧) ، و مسند احمد (٤/٢٢١) (صحیح لغیرہ ) وضاحت : ١ ؎ : ان کا نام یزید بن سعید ہے ، انہیں یزید بن سائب (رض) بھی کہا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (2948) ، الإرواء (1518) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2160

【4】

کسی مسلمان کو گھبراہٹ میں مبتلا کرنے کی ممانعت کے متعلق

سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ (میرے والد) یزید (رض) نے حجۃ الوداع کیا، اس وقت میں سات سال کا تھا۔ یحییٰ بن سعید قطان کہتے ہیں : محمد بن یوسف ثبت اور صاحب حدیث ہیں، سائب بن یزید ان کے نانا تھے، محمد بن یوسف کہتے تھے : مجھ سے سائب بن یزید نے حدیث بیان کی ہے، اور وہ میرے نانا ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم ٩٢٦ (إسنادہ حسن ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2161

【5】

کسی مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرنے کی ممانعت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتے تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - یہ خالد حذاء کی روایت سے غریب سمجھی جاتی ہے، ٣ - ایوب نے محمد بن سیرین کے واسطہ سے ابوہریرہ (رض) سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، لیکن اسے مرفوعاً نہیں بیان کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے «وإن کان أخاه لأبيه وأمه» اگرچہ اس کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو ، ٤ - اس باب میں ابوبکرہ، ام المؤمنین عائشہ اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٣٥ (٢٦١٦) (تحفة الأشراف : ١٤٤٦٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (446) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2162

【6】

ننگی تلوار کا تبادلہ ممنوع ہے

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ننگی تلوار لینے اور دینے سے منع فرمایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حماد بن سلمہ کی روایت سے حسن غریب ہے، ٢ - ابن لہیعہ نے یہ حدیث «عن أبي الزبير عن جابر عن بنة الجهني عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، ٣ - میرے نزدیک حماد بن سلمہ کی روایت زیادہ صحیح ہے، ٤ - اس باب میں ابوبکرہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجھاد ٧٣ (٢٥٨٨) (تحفة الأشراف : ٢٦٩٠) ، و مسند احمد (٣/٣٠٠، ٣٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ممانعت اس وجہ سے ہے کہ ننگی تلوار سے بسا اوقات خود صاحب تلوار بھی زخمی ہوسکتا ہے ، اور دوسروں کو اس سے تکلیف پہنچنے کا بھی اندیشہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3527 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2163

【7】

اس بارے میں کہ جس نے فجر کی نماز پڑھی وہ اللہ کی پناہ میں ہے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے فجر پڑھ لی وہ اللہ کی پناہ میں ہے، پھر (اس بات کا خیال رکھو کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے درپے نہ ہوجائے اس کی پناہ توڑنے کی وجہ سے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں جندب اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤١٣٨) (صحیح) (سند میں معدی بن سلیمان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی فجر کی نماز کا خاص خیال رکھو اور اسے پابندی کے ساتھ ادا کرو ، نہ ادا کرنے کی صورت میں رب العالمین کا وہ عہد جو تمہارے اور اس کے درمیان امان سے متعلق ہے ٹوٹ جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر الحديث (222) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2164

【8】

جماعت کی پابندی کرنے کے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ مقام جابیہ میں (میرے والد) عمر (رض) ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، انہوں نے کہا : لوگو ! میں تمہارے درمیان اسی طرح (خطبہ دینے کے لیے) کھڑا ہوا ہوں جیسے رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوتے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں اپنے صحابہ کی پیروی کی وصیت کرتا ہوں، پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تابعین) کی پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تبع تابعین) کی، پھر جھوٹ عام ہوجائے گا، یہاں تک کہ قسم کھلائے بغیر آدمی قسم کھائے گا اور گواہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے گا، خبردار ! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو اور پارٹی بندی سے بچو، کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے، دو کے ساتھ اس کا رہنا نسبۃً زیادہ دور کی بات ہے، جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتا ہو وہ جماعت سے لازمی طور پر جڑا رہے اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اور گناہ سے غم لاحق ہو حقیقت میں وہی مومن ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اسے ابن مبارک نے بھی محمد بن سوقہ سے روایت کیا ہے، ٣ - یہ حدیث کئی سندوں سے عمر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٧ (٢٣٦٣) (والنسائي في الکبری) و مسند احمد (١/١٨، ٢٦) (تحفة الأشراف : ١٠٥٣٠) (صحیح) (ویأتي الإشارة إلیہ برقم : ٢٣٠٣ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2363) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2165

【9】

جماعت کی پابندی کرنے کے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ میری امت کو یا یہ فرمایا : محمد ﷺ کی امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا، اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد و نصرت) جماعت کے ساتھ ہے، جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢ - سلیمان مدنی میرے نزدیک سلیمان بن سفیان ہی ہیں، ان سے ابوداؤد طیالسی، ابوعامر عقدی اور کئی اہل علم نے روایت کی ہے، ٣ - اہل علم کے نزدیک جماعت سے مراد اصحاب فقہ اور اصحاب علم اور اصحاب حدیث ہیں، ٤ - علی بن حسین کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا : جماعت سے کون لوگ مراد ہیں ؟ انہوں نے کہا : ابوبکر و عمر، ان سے کہا گیا : ابوبکر و عمر تو وفات پا گئے، انہوں نے کہا : فلاں اور فلاں، ان سے کہا گیا : فلاں اور فلاں بھی تو وفات پاچکے ہیں تو عبداللہ بن مبارک نے کہا : ابوحمزہ سکری جماعت ہیں ١ ؎، ٥ - ابوحمزہ کا نام محمد بن میمون ہے، وہ صالح اور نیک شیخ تھے، عبداللہ بن مبارک نے یہ بات ہم سے اس وقت کہی تھی جب ابوحمزہ باحیات تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧١٨٨) (صحیح) (سند میں ” سلیمان مدنی “ ضعیف ہیں، لیکن ” من شذ شذ إلى النار “ کے سوا دیگر ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے ظلال الجنة رقم : ٨٠ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اگر ایک آدمی بھی صحیح عقیدہ و منہج پر ہو تو وہ اکیلے بھی جماعت ہے ، اصل معیار صحیح عقیدہ و منہج پر ہونا ہے ، نہ کہ بڑی تعداد میں ہونا ، اس لیے تقلید کے شیدائیوں کا یہ کہنا کہ تقلید پر امت کی اکثریت متفق ہے ، اس لیے مقلدین ہی سواد اعظم ہیں ، سراسر مغالطہٰ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2167 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد و نصرت) جماعت کے ساتھ ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے ابن عباس (رض) کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٧٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج الإصلاح // إصلاح المساجد // (61) وانظر ما قبله (2165) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2166

【10】

None

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ میری امت کو یا یہ فرمایا: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا، اللہ کا ہاتھ ( اس کی مدد و نصرت ) جماعت کے ساتھ ہے، جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- سلیمان مدنی میرے نزدیک سلیمان بن سفیان ہی ہیں، ان سے ابوداؤد طیالسی، ابوعامر عقدی اور کئی اہل علم نے روایت کی ہے، ۳- اہل علم کے نزدیک ”جماعت“ سے مراد اصحاب فقہ اور اصحاب علم اور اصحاب حدیث ہیں، ۴- علی بن حسین کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا: جماعت سے کون لوگ مراد ہیں؟ انہوں نے کہا: ابوبکر و عمر، ان سے کہا گیا: ابوبکر و عمر تو وفات پا گئے، انہوں نے کہا: فلاں اور فلاں، ان سے کہا گیا: فلاں اور فلاں بھی تو وفات پا چکے ہیں تو عبداللہ بن مبارک نے کہا: ابوحمزہ سکری جماعت ہیں ۱؎، ۵- ابوحمزہ کا نام محمد بن میمون ہے، وہ صالح اور نیک شیخ تھے، عبداللہ بن مبارک نے یہ بات ہم سے اس وقت کہی تھی جب ابوحمزہ باحیات تھے۔

【11】

اس بارے میں کہ برائی کو نہ روکنا نزول عذاب کا باعث ہے

ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ لوگو ! تم یہ آیت پڑھتے ہو «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسکم لا يضرکم من ضل إذا اهتديتم» اے ایمان والو ! اپنی فکر کرو گمراہ ہونے والا تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا جب تم نے ہدایت پالی (المائدہ : ١٠٥ ) اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جب لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں (یعنی ظلم نہ روک دیں) تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا عذاب لوگوں پر عام کر دے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السلام ١٧ (٤٣٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٠ (٤٠٠٥) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر المائدة (٣٠٥٧) (تحفة الأشراف : ٦٦١٥) ، و مسند احمد (١/٢، ٥، ٧، ٩) (صحیح ) وضاحت : ٢ ؎ : ابوبکر (رض) کے ذہن میں جب یہ بات آئی کہ بعض لوگوں کے ذہن میں آیت «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسکم لا يضرکم من ضل إذا اهتديتم» (المائدة : ١٠٥ ) سے متعلق یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ اپنی اصلاح اگر کرلی جائے تو یہی کافی ہے ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ضروری نہیں ہے ، تو اسی شبہ کے ازالہ کے لیے آپ نے فرمایا : لوگو ! تم آیت کو غلط جگہ استعمال کر رہے ہو ، میں نے تو نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ، پھر آپ نے یہ حدیث بیان کی ، گویا آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ تمہارے سمجھانے کے باوجود اگر لوگ نیکی کا راستہ اختیار نہ کریں اور برائی سے باز نہ آئیں تو تمہارے لیے یہ نقصان دہ نہیں ہے جب کہ تم خود نیکی پر قائم اور برائی سے بچتے رہو ، کیونکہ امر بالمعروف کا فریضہ بھی نہایت اہم ہے ، اگر کوئی مسلمان یہ فریضہ ترک کر دے تو وہ ہدایت پر قائم رہنے والا کب رہے گا جب کہ قرآن «إذا اھتدیتم» کی شرط لگا رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4005) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2168

【12】

بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے بارے میں

حذیفہ بن یمان (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم معروف (بھلائی) کا حکم دو اور منکر (برائی) سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے پھر تم اللہ سے دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٣٦٦) (صحیح) (سند میں عبد اللہ بن عبدالرحمن اشہلی انصاری لین الحدیث ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ جب تک لوگ انجام دیتے رہیں گے اس وقت تک ان پر عمومی عذاب نہیں آئے گا ، اور جب لوگ اس فریضہ کو چھوڑ بیٹھیں گے اس وقت رب العالمین کا ان پر ایسا عذاب آئے گا کہ اس کے بعد پھر ان کی دعائیں نہیں سنی جائیں گی ، اگر ایک محدود علاقہ کے لوگ اس امربالمعروف اور نہی عن المنکر والے کام سے کلی طور پر رک جائیں تو وہاں اکیلے صرف ان پر بھی عام عذاب آسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (5140) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2169

【13】

بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے بارے میں

حذیفہ بن یمان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم اپنے امام کو قتل نہ کر دو ، اپنی تلواروں سے ایک دوسرے کو قتل نہ کرو اور برے لوگ تمہاری دنیا کے وارث نہ بن جائیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - ہم اسے صرف عمرو بن ابی عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٥ (٤٠٤٣) (تحفة الأشراف : ٣٣٦٥) ، و مسند احمد (٥/٣٨٩) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن عبدالرحمن اشہلی ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (4043) // ضعيف سنن ابن ماجة (876) ، ضعيف الجامع الصغير (6111) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2170

【14】

بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے بارے میں

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس لشکر کا ذکر کیا جو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، تو ام سلمہ نے عرض کیا : ہوسکتا ہے اس میں کچھ مجبور لوگ بھی ہوں، آپ نے فرمایا : وہ اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، یہ حدیث «عن نافع بن جبير عن عائشة أيضا عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے بھی آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٠ (٤٠٦٥) (تحفة الأشراف : ١٨٢١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دنیاوی عذاب میں تو مجبور اور بےبس لوگ بھی مبتلا ہوجائیں گے مگر آخرت میں وہ اپنے اعمال کے موافق اٹھائے جائیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4065) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2171

【15】

ہاتھ زبان یا دل سے برائی کو روکنے کے متعلق

طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ سب سے پہلے (عید کے دن) خطبہ کو صلاۃ پر مقدم کرنے والے مروان تھے، ایک آدمی نے کھڑے ہو کر مروان سے کہا : آپ نے سنت کی مخالفت کی ہے، مروان نے کہا : اے فلاں ! چھوڑ دی گئی وہ سنت جسے تم ڈھونڈتے ہو (یہ سن کر) ابو سعید خدری (رض) نے کہا : اس شخص نے اپنا فرض پورا کردیا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو شخص کوئی برائی دیکھے تو چاہیئے کہ اس برائی کو اپنے ہاتھ سے بدل دے، جسے اتنی طاقت نہ ہو وہ اپنی زبان سے اسے بدل دے اور جسے اس کی طاقت بھی نہ ہو وہ اپنے دل میں اسے برا جانے ١ ؎ اور یہ ایمان کا سب سے کمتر درجہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٢٠ (١٧٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٤٨ (١١٤٠) ، والملاحم ١٧ (٤٣٤٠) ، سنن النسائی/الإیمان ١٧ (٥٠١٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٥ (١٢٧٥) (تحفة الأشراف : ٤٠٨٥) ، و مسند احمد (٣/١٠، ٢٠، ٤٠، ٥٢، ٥٣، ٥٤، ٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : خود اس برائی سے الگ ہوجائے ، اس کے ارتکاب کرنے والوں کی جماعت سے نکل جائے (اگر ممکن ہو) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1275) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2172

【16】

اسی سے متعلق

نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے حدود پر قائم رہنے والے (یعنی اس کے احکام کی پابندی کرنے والے) اور اس کی مخالفت کرنے والوں کی مثال اس قوم کی طرح ہے، جو قرعہ اندازی کے ذریعہ ایک کشتی میں سوار ہوئی، بعض لوگوں کو کشتی کے بالائی طبقہ میں جگہ ملی اور بعض لوگوں کو نچلے حصہ میں، نچلے طبقہ والے اوپر چڑھ کر پانی لیتے تھے تو بالائی طبقہ والوں پر پانی گر جاتا تھا، لہٰذا بالائی حصہ والوں نے کہا : ہم تمہیں اوپر نہیں چڑھنے دیں گے تاکہ ہمیں تکلیف پہنچاؤ (یہ سن کر) نچلے حصہ والوں نے کہا : ہم کشتی کے نیچے سوراخ کر کے پانی لیں گے، اب اگر بالائی طبقہ والے ان کے ہاتھ پکڑ کر روکیں گے تو تمام نجات پاجائیں گے اور اگر انہیں ایسا کرنے سے منع نہیں کریں گے تو تمام کے تمام ڈوب جائیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ٦ (٢٤٩٣) ، والشھادات ٣٠ (٢٦٨٦) (تحفة الأشراف : ١١٦٢٨) ، و مسند احمد (٤/٢٦٨، ٢٧٠، ٢٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (69) ، التعليق الرغيب (3 / 168) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2173

【17】

اس بارے میں کہ جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہاد ہے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ظالم بادشاہ کے سامنے حق کہنا سب سے بہتر جہاد ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوامامہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الملاحم ١٧ (٤٣٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٠ (٤٠١١) ، و مسند احمد ٣٠/١٩، ٦١) (تحفة الأشراف : ٤٢٣٤) (صحیح) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” عطیہ عوفي “ ضعیف ہیں ۔ دیکھیے : الصحیحة : ٤٩١ ) وضاحت : ١ ؎ : یہ سب سے بہتر جہاد اس وجہ سے ہے کہ دشمن سے مقابلہ کے وقت جو ڈر سوار رہتا ہے ، وہ اپنے اندر جیتنے اور ہارنے سے متعلق دونوں صفتوں کو سمیٹے ہوئے ہے ، جب کہ کسی جابر بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے میں صرف مغلوبیت کا خوف طاری رہتا ہے ، اسی لیے اسے سب سے بہتر جہاد کہا گیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4010) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2174

【18】

امت کے لئے رسول اللہ ﷺ کے تین سوال

خباب بن ارت (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک بار کافی لمبی نماز پڑھی، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے ایسی نماز پڑھی ہے کہ اس سے پہلے ایسی نماز نہیں پڑھی تھی، آپ نے فرمایا : ہاں، یہ امید و خوف کی نماز تھی، میں نے اس میں اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں مانگی ہیں، جن میں سے اللہ تعالیٰ نے دو کو قبول کرلیا اور ایک کو نہیں قبول کیا، میں نے پہلی دعا یہ مانگی کہ میری امت کو عام قحط میں ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ دعا قبول کرلی، میں نے دوسری دعا یہ کی کہ ان پر غیروں میں سے کسی دشمن کو نہ مسلط کرے، اللہ نے میری یہ دعا بھی قبول کرلی، میں نے تیسری دعا یہ مانگی کہ ان میں آپس میں ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ نہ چکھا تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہیں فرمائی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں سعد اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ١٦ (١٦٣٩) (تحفة الأشراف : ٣٥١٦) ، و مسند احمد (٥/١٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی میری دو دعائیں میری امت کے حق میں مقبول ہوئیں ، اور تیسری دعا مقبول نہیں ہوئی ، گویا یہ امت ہمیشہ اپنے لوگوں کے پھیلائے ہوئے فتنہ و فساد سے دوچار رہے گی ، اور اس امت کے لوگ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک ، اور قتل کریں گے ، اور حدیث کا مقصد یہ ہے کہ امت کے لوگ اپنے آپ کو اس کا مستحق نہ بنالیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صفة الصلاة صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2175

【19】

امت کے لئے رسول اللہ ﷺ کے تین سوال

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی تو میں نے مشرق (پورب) و مغرب (پچھم) کو دیکھا یقیناً میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک میرے لیے زمین سمیٹی گئی، اور مجھے سرخ و سفید دو خزانے دے گئے، میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لیے دعا کی کہ ان کو کسی عام قحط سے ہلاک نہ کرے اور نہ ان پر غیروں میں سے کوئی ایسا دشمن مسلط کر جو انہیں جڑ سے مٹا دے، میرے رب نے مجھ سے فرمایا : اے محمد ! جب میں کوئی فیصلہ کرلیتا ہوں تو اسے بدلتا نہیں، تیری امت کے حق میں تیری یہ دعا میں نے قبول کی کہ میں اسے عام قحط سے ہلاک و برباد نہیں کروں گا، اور نہ ہی ان پر کوئی ایسا دشمن مسلط کروں گا جو ان میں سے نہ ہو اور جو انہیں جڑ سے مٹا دے، گو ان کے خلاف تمام روئے زمین کے لوگ جمع ہوجائیں، البتہ ایسا ہوگا کہ انہیں میں سے بعض لوگ بعض کو ہلاک کریں گے، اور بعض کو قیدی بنائیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ٥ (٢٨٨٩) ، سنن ابی داود/ الفتن ١ (٤٢٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٩ (٣٩٥٢) (تحفة الأشراف : ٢١٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3952) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2176

【20】

جو شخص فتنے کے وقت ہو وہ کیا عمل کرے

ام مالک بہزیہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتنے کا ذکر کیا اور فرمایا : وہ بہت جلد ظاہر ہوگا ، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! اس وقت سب سے بہتر کون شخص ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ایک وہ آدمی جو اپنے جانوروں کے درمیان ہو اور ان کا حق ادا کرنے کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتا ہو، اور دوسرا وہ آدمی جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑے ہو، وہ دشمن کو ڈراتا ہو اور دشمن اسے ڈراتے ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - لیث بن ابی سلیم نے بھی یہ حدیث «عن طاؤس عن أم مالک البهزية عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں ام مبشر، ابو سعید خدری اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٨٣٥٥) (صحیح) (سند میں ایک راوی مبہم ہے، لیکن شواہد کی بنا پر حدیث صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی فتنہ کے ظہور کے وقت ایسا آدمی سب سے بہتر ہوگا جو فتنہ کی جگہوں سے دور رہ کر اپنے جانوروں کے پالنے پوسنے میں مشغول ہو ، اور ان کی وجہ سے اس پر جو شرعی واجبات و حقوق ہیں مثلاً زکاۃ و صدقات کی ادائیگی میں ان کا خاص خیال رکھتا ہو ، ساتھ ہی رب العالمین کی اس کے حکم کے مطابق عبادت بھی کرتا ہو ، اسی طرح وہ آدمی بھی بہتر ہے جو اپنے گھوڑے کے ساتھ کسی دور دراز جگہ میں رہ کر وہاں موجود دشمنوں کا مقابلہ کرتا ہو ، انہیں خوف و ہراس میں مبتلا رکھتا ہو اور خود بھی ان سے خوف کھاتا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (698) ، التعليق الرغيب (2 / 153) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2177

【21】

جو شخص فتنے کے وقت ہو وہ کیا عمل کرے

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک فتنہ ایسا ہوگا جو تمام عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا، اس کے مقتول جہنمی ہوں گے، اس وقت زبان کھولنا تلوار مارنے سے زیادہ سخت ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا : زیاد بن سیمین کوش کی اس کے علاوہ دوسری کوئی حدیث نہیں معلوم ہے، ٣ - حماد بن سلمہ نے اسے لیث سے روایت کرتے ہوئے مرفوعاً بیان کیا ہے، اور حماد بن زید نے اسے لیث سے روایت کرتے ہوئے موقوفاً بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الفتن ٣ (٤٢٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٢ (٣٩٦٧) (تحفة الأشراف : ٨٦٣١) ، و مسند احمد (٢/٢١٢) (ضعیف) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں، اور زیاد بن سیمین گوش لین الحدیث ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3967) // ضعيف سنن ابن ماجة (859) ، ضعيف أبي داود (918 / 4265) ، ضعيف الجامع الصغير (2475) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2178

【22】

امانت داری کے اٹھ جانے کے متعلق

حذیفہ بن یمان (رض) کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک کی حقیقت تو میں نے دیکھ لی ١ ؎، اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں، آپ نے فرمایا : امانت لوگوں کے دلوں کے جڑ میں اتری پھر قرآن کریم اترا اور لوگوں نے قرآن سے اس کی اہمیت قرآن سے جانی اور سنت رسول سے اس کی اہمیت جانی ٢ ؎، پھر آپ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا : آدمی (رات کو) سوئے گا اور اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی (اور جب وہ صبح کو اٹھے گا) تو اس کا تھوڑا سا اثر ایک نقطہٰ کی طرح دل میں رہ جائے گا، پھر جب دوسری بار سوئے گا تو اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی اور اس کا اثر کھال موٹا ہونے کی طرح رہ جائے گا ٣ ؎، جیسے تم اپنے پاؤں پر چنگاری پھیرو تو آبلہ (پھپھولا) پڑجاتا ہے، تم اسے پھولا ہوا پاتے ہو حالانکہ اس میں کچھ نہیں ہوتا ، پھر حذیفہ (رض) ایک کنکری لے کر اپنے پاؤں پر پھیرنے لگے اور فرمایا : لوگ اس طرح ہوجائیں گے کہ خرید و فروخت کریں گے لیکن ان میں کوئی امانت دار نہ ہوگا، یہاں تک کہ کہا جائے گا : فلاں قبیلہ میں ایک امانت دار آدمی ہے، اور کسی آدمی کی تعریف میں یہ کہا جائے گا : کتنا مضبوط شخص ہے ! کتنا ہوشیار اور عقلمند ہے ! حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانہ برابر بھی ایمان نہ ہوگا ، حذیفہ (رض) کہتے ہیں : میرے اوپر ایک ایسا وقت آیا کہ خرید و فروخت میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا تھا، اگر میرا فریق مسلمان ہوتا تو اس کی دینداری میرا حق لوٹا دیتی اور اگر یہودی یا نصرانی ہوتا تو اس کا سردار میرا حق لوٹا دیتا، جہاں تک آج کی بات ہے تو میں تم میں سے صرف فلاں اور فلاں سے خرید و فروخت کرتا ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٣٥ (٦٤٩٧) ، والفتن ١٣ (٧٠٨٦) ، والإعتصام ٣ (٧٢٧٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦٤ (١٤٣) (تحفة الأشراف : ٣٣٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کا ظہور ہوچکا ہے اور قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس امانت سے متعلق لوگوں کے دلوں میں مزید پختگی پیدا ہوئی ، اور اس سے متعلق ایمانداری اور بڑھ گئی ہے۔ ٢ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی تشریح و تفسیر خود قرآن سے اور پھر سنت و حدیث نبوی سے سمجھنی چاہیئے ، اسی طرح قرآن کے سمجھنے میں تیسرا درجہ فہم صحابہ ہے (رض) اجمعین چوتھے درجہ میں تابعین و تبع تابعین ہیں جیسا کہ پیچھے حدیث ( ٢١٥٦ ) سے بھی اس کا معنی واضح ہوتا ہے۔ ٣ ؎ : یعنی جس طرح جسم پر نکلے ہوئے پھوڑے کی کھال اس کے اچھا ہونے کے وقت موٹی ہوجاتی ہے اسی طرح امانت کا حال ہوگا ، گویا اس امانت کا درجہ اس امانت سے کہیں کم تر ہے جو ایک نقطہٰ کے برابر رہ گئی تھی ، کیونکہ یہاں صرف نشان باقی رہ گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2179

【23】

اس بارے میں سابقہ امتوں کی عادات اس امت میں بھی ہوگی

ابو واقد لیثی (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ حنین کے لیے نکلے تو آپ کا گزر مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے ہوا جسے ذات انواط کہا جاتا تھا، اس درخت پر مشرکین اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے ١ ؎، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئیے جیسا کہ مشرکین کا ایک ذات انواط ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سبحان اللہ ! یہ تو وہی بات ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے کہی تھی کہ ہمارے لیے بھی معبود بنا دیجئیے جیسا ان مشرکوں کے لیے ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم گزشتہ امتوں کی پوری پوری پیروی کرو گے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابو واقد لیثی کا نام حارث بن عوف ہے، ٣ - اس باب میں ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ١٤٥١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ذات انواط نامی درخت جھاؤ کی قسم سے تھا ، مشرکین بطور حاجت برآری اس پر اپنا ہتھیار لٹکاتے اور اس درخت کے اردگرد اعتکاف کرتے تھے۔ ٢ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ تم خلاف شرع نافرمانی کے کاموں میں اپنے سے پہلے کی امتوں کے نقش قدم پر چلو گے ، نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کے مطابق آج مسلمانوں کا حال حقیقت میں ایسا ہی ہے ، چناچہ یہود و نصاری اور مشرکین کی کون سی عادات و اطوار ہیں جنہیں مسلمانوں نے نہ اپنایا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ظلال الجنة (76) ، المشکاة (5369) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2180

【24】

درندوں کے کلام سے متعلق

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ درندے انسانوں سے گفتگو نہ کرنے لگیں، آدمی سے اس کے کوڑے کا کنارہ گفتگو کرنے لگے، اس کے جوتے کا تسمہ گفتگو کرنے لگے اور اس کی ران اس کام کی خبر دینے لگے جو اس کی بیوی نے اس کی غیر حاضری میں انجام دیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف قاسم بن فضل کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - قاسم بن فضل محدثین کے نزدیک ثقہ اور مامون ہیں، یحییٰ بن سعید قطان اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے ان کی توثیق کی ہے، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٣٧١) ، و مسند احمد (٣/٨٣-٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (22) ، المشکاة (5459) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2181

【25】

چاند کے پھٹنے کے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں چاند (دو ٹکڑوں میں) ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ گواہ رہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن مسعود، انس اور جبیر بن مطعم (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/صفات المنافقین ٨ (٢٨٠١) (تحفة الأشراف : ٧٣٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چاند کا دو ٹکڑوں میں بٹ جانا نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ہوا ، اس معجزہ کا ظہور اہل مکہ کے مطالبے پر ہوا تھا صحیحین میں ہے کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے ، یہاں تک کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا ، اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور دوسرا اس سے نیچے تھا ، یہ آپ ﷺ کے واضح معجزات میں سے ہے ، ایسی متواتر احادیث سے اس کا ثبوت ہے جو صحیح سندوں سے ثابت ہیں ، جمہور علماء اس معجزہ کے قائل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2182

【26】

زمین کے دھنسنے کے بارے میں

حذیفہ بن اسید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف اپنے کمرے سے جھانکا، اس وقت ہم قیامت کا ذکر کر رہے تھے، تو آپ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو ! مغرب (پچھم) سے سورج کا نکلنا، یاجوج ماجوج کا نکلنا، دابہ (جانور) کا نکلنا، تین بار زمین کا دھنسنا : ایک پورب میں، ایک پچھم میں اور ایک جزیرہ عرب میں، عدن کے اندر سے آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہانکے یا اکٹھا کرے گی، جہاں لوگ رات گزاریں گے وہیں رات گزارے گی اور جہاں لوگ قیلولہ کریں گے وہیں قیلولہ کرے گی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ١٣ (٢٩٠١) ، سنن ابی داود/ الملاحم ١٢ (٤٣١١) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٨ (٤٠٤١) (تحفة الأشراف : ٧٣٩٧) ، و مسند احمد (٤/٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2183

【27】

زمین کے دھنسنے کے بارے میں

ام المؤمنین صفیہ بنت حی (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ (اللہ کے) اس گھر پر حملہ کرنے سے باز نہیں آئیں گے، یہاں تک کہ ایک ایسا لشکر لڑائی کرنے کے لیے آئے گا کہ جب اس لشکر کے لوگ مقام بیدا میں ہوں گے، تو ان کے آگے والے اور پیچھے والے دھنسا دے جائیں گے اور ان کے بیچ والے بھی نجات نہیں پائیں گے (یعنی تمام لوگ دھنسا دے جائیں گے) ۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ان میں سے جو ناپسند کرتے رہے ہوں ان کے افعال کو وہ بھی ؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کے مطابق انہیں اٹھائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٠ (٤٠٦٤) (تحفة الأشراف : ١٥٩٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4064) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2184

【28】

زمین کے دھنسنے کے بارے میں

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس امت کے آخری عہد میں یہ واقعات ظاہر ہوں گے زمین کا دھنسنا، صورت تبدیل ہونا اور آسمان سے پتھر برسنا ، عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم ہلاک کر دئیے جائیں گے حالانکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، جب فسق و فجور عام ہوجائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث عائشہ کی روایت سے غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - راوی عبداللہ بن عمر عمری کے حفظ کے تعلق سے یحییٰ بن سعید نے کلام کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٧٥٤٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (987) ، الروض النضير (2 / 394) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2185

【29】

سورج کا مغرب سے نکلنا

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ سورج ڈوبنے کے بعد میں مسجد میں داخل ہوا، اس وقت نبی اکرم ﷺ تشریف فرما تھے، آپ ﷺ نے پوچھا : ابوذر ! جانتے ہو سورج کہاں جاتا ہے ؟ میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا : وہ سجدے کی اجازت لینے جاتا ہے، اسے اجازت مل جاتی ہے لیکن ایک وقت اس سے کہا جائے گا : اسی جگہ سے نکلو جہاں سے آئے ہو، لہٰذا وہ پچھم سے نکلے گا ، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : «وذلک مستقر لها» یہ اس کا ٹھکانا ہے ، راوی کہتے ہیں : عبداللہ بن مسعود (رض) کی قرأت یہی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں صفوان بن عسال، حذیفہ، اسید، انس اور ابوموسیٰ اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٤ (٣١٩٩) ، والتوحید ٢٢ (٧٤٢٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧٢ (١٥٩) ، ویأتي في تفسیر یسین برقم : ٣٢٢٧) (تحفة الأشراف : ١١٩٩٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2186

【30】

یاجوج اور ماجوج کے نکلنے کے متعلق

زینب بنت جحش (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سو کر اٹھے تو آپ کا چہرہ مبارک سرخ تھا اور آپ فرما رہے تھے : «لا إله إلا الله» اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں آپ نے اسے تین بار دہرایا، پھر فرمایا : اس شر (فتنہ) سے عرب کے لیے تباہی ہے جو قریب آگیا ہے، آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہوگیا ہے اور آپ نے (ہاتھ کی انگلیوں سے) دس کی گرہ لگائی ١ ؎، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم ہلاک کر دئیے جائیں گے حالانکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، جب برائی زیادہ ہوجائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - (سند میں چار عورتوں کا تذکرہ کر کے) سفیان بن عیینہ نے یہ حدیث اچھی طرح بیان کی ہے، حمیدی، علی بن مدینی اور دوسرے کئی محدثین نے یہ حدیث سفیان بن عیینہ سے اسی طرح روایت کی ہے، ٣ - حمیدی کہتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ نے کہا : میں نے اس حدیث کی سند میں زہری سے چار عورتوں کا واسطہ یاد کیا ہے : «عن زينب بنت أبي سلمة، عن حبيبة، عن أم حبيبة، عن زينب بنت جحش» ، زینب بنت ابی سلمہ اور حبیبہ نبی اکرم ﷺ کی سوتیلی لڑکیاں ہیں اور ام حبیبہ اور زینب بنت جحش نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات ہیں، ٤ - معمر اور کئی لوگوں نے یہ حدیث زہری سے اسی طرح روایت کی ہے مگر اس میں حبیبہ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، ابن عیینہ کے بعض شاگردوں نے ابن عیینہ سے یہ حدیث روایت کرتے وقت اس میں ام حبیبہ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٧ (٣٣٤٦) ، والمناقب ٢٥ (٣٥٩٨) ، والفتن ٤ (٧٠٥٩) ، و ٢٨ (٧١٣٥) ، صحیح مسلم/الفتن ١ (٢٨٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٩ (٣٩٥٢) (تحفة الأشراف : ١٥٨٨٠) ، و مسند احمد (٦/٤٢٨، ٤٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے اس سوراخ کی مقدار بتائی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3953) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2187

【31】

خارجی گروہ کی نشانی کے بارے میں

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آخری زمانہ ١ ؎ میں ایک قوم نکلے گی جس کے افراد نوعمر اور سطحی عقل والے ہوں گے، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، قرآن کی بات کریں گے لیکن وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے شکار سے تیر آر پار نکل جاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - دوسری حدیث میں نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے جس میں آپ نے انہیں لوگوں کی طرح اوصاف بیان کیا کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے، مگر ان کے گلے کے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے، ان سے مقام حروراء کی طرف منسوب خوارج اور دوسرے خوارج مراد ہیں، ٣ - اس باب میں علی، ابوسعید اور ابوذر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٢ (١٦٨) (تحفة الأشراف : ٩٢١٠) ، و مسند احمد (١/٤٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد خلافت راشدہ کا اخیر زمانہ ہے ، اس خلافت کی مدت تیس سال ہے ، خوارج کا ظہور علی (رض) کے دور خلافت میں ہوا ، جب خلافت راشدہ کے دو سال باقی تھے تو علی (رض) نے نہروان کے مقام پر ان سے جنگ کی ، اور انہیں قتل کیا ، خوارج میں نوعمر اور غیر پختہ عقل کے لوگ تھے جو پرفریب نعروں کا شکار ہوگئے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ کی یہ پیش گوئی ہر زمانہ میں ظاہر ہو رہے ہیں آج کے پرفتن دور میں اس کا مظاہرہ جگہ جگہ نظر آ رہا ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ دے اور ہر طرح کے فتنوں سے محفوظ رکھے ، آمین۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (168) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2188

【32】

اثرہ کے بارے میں

اسید بن حضیر (رض) سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے فلاں کو عامل بنادیا اور مجھے عامل نہیں بنایا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ میرے بعد (غلط) ترجیح دیکھو گے، لہٰذا تم اس پر صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٨ (٣٧٩٢) ، والفتن ٢ (٧٠٥٧) ، صحیح مسلم/الإمارة ١١ (١٨٤٥) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٤ (٥٣٨٥) (تحفة الأشراف : ١٤٨) ، و مسند احمد (٤/٣٥١، ٣٥٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الظلال (752 و 753) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2189

【33】

اثرہ کے بارے میں

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میرے بعد عنقریب (غلط) ترجیح اور ایسے امور دیکھو گے جنہیں تم برا جانو گے ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ایسے وقت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم حکام کا حق ادا کرنا (ان کی اطاعت کرنا) اور اللہ سے اپنا حق مانگو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٦٠٣) ، والفتن ٢ (٧٠٥٢) ، صحیح مسلم/الإمارة ١٠ (١٨٤٣) (تحفة الأشراف : ٩٢٢٩) ، و مسند احمد (١/٣٨٤، ٣٨٧، ٤٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی حکام اگر ایسے لوگوں کو دوسروں پر ترجیح دیں جو قابل ترجیح نہیں ہیں تو تم صبر سے کام لیتے ہوئے ان کی اطاعت کرو اور اپنا معاملہ اللہ کے حوالہ کرو ، کیونکہ اللہ نیکو کاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2190

【34】

اس بارے میں کہ نبی ﷺ نے صحابہ کرام کو قیامت تک کے واقعات کی خبر دی

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عصر کچھ پہلے پڑھائی پھر خطبہ دینے کھڑے ہوئے، اور آپ نے قیامت تک ہونے والی تمام چیزوں کے بارے میں ہمیں خبر دی، یاد رکھنے والوں نے اسے یاد رکھا اور بھولنے والے بھول گئے، آپ نے جو باتیں بیان فرمائیں اس میں سے ایک بات یہ بھی تھی : دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ بنائے گا ١ ؎، پھر دیکھے گا کہ تم کیسا عمل کرتے ہو ؟ خبردار ! دنیا سے اور عورتوں سے بچ کے رہو ٢ ؎، آپ نے یہ بھی فرمایا : خبردار ! حق جان لینے کے بعد کسی آدمی کو لوگوں کا خوف اسے بیان کرنے سے نہ روک دے ، ابو سعید خدری (رض) نے روتے ہوئے کہا : اللہ کی قسم ! ہم نے بہت ساری چیزیں دیکھی ہیں اور (بیان کرنے سے) ڈر گئے آپ نے یہ بھی بیان فرمایا : خبردار ! قیامت کے دن ہر عہد توڑنے والے کے لیے اس کے عہد توڑنے کے مطابق ایک جھنڈا ہوگا اور امام عام کے عہد توڑنے سے بڑھ کر کوئی عہد توڑنا نہیں، اس عہد کے توڑنے والے کا جھنڈا اس کے سرین کے پاس نصب کیا جائے گا ، اس دن کی جو باتیں ہمیں یاد رہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی : جان لو ! انسان مختلف درجہ کے پیدا کیے گئے ہیں کچھ لوگ پیدائشی مومن ہوتے ہیں، مومن بن کر زندگی گزارتے ہیں اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، کچھ لوگ کافر پیدا ہوتے ہیں، کافر بن کر زندگی گزارتے ہیں اور کفر کی حالت میں مرتے ہیں، کچھ لوگ مومن پیدا ہوتے ہیں، مومن بن کر زندگی گزارتے ہیں اور کفر کی حالت میں ان کی موت آتی ہے، کچھ لوگ کافر پیدا ہوتے ہیں، کافر بن کر زندہ رہتے ہیں، اور ایمان کی حالت میں ان کی موت آتی ہے، کچھ لوگوں کو غصہ دیر سے آتا ہے اور جلد ٹھنڈا ہوجاتا ہے، کچھ لوگوں کو غصہ جلد آتا ہے اور دیر سے ٹھنڈا ہوتا ہے، یہ دونوں برابر ہیں، جان لو ! کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں جلد غصہ آتا ہے اور دیر سے ٹھنڈا ہوتا ہے، جان لو ! ان میں سب سے بہتر وہ ہیں جو دیر سے غصہ ہوتے ہیں اور جلد ٹھنڈے ہوجاتے ہیں، اور سب سے برے وہ ہیں جو جلد غصہ ہوتے ہیں اور دیر سے ٹھنڈے ہوتے ہیں، جان لو ! کچھ لوگ اچھے ڈھنگ سے قرض ادا کرتے ہیں اور اچھے ڈھنگ سے قرض وصول کرتے ہیں، کچھ لوگ بدسلوکی سے قرض ادا کرتے ہیں، اور بدسلوکی سے وصول کرتے ہیں، جان لو ! ان میں سب سے اچھا وہ ہے جو اچھے ڈھنگ سے قرض ادا کرتا ہے اور اچھے ڈھنگ سے وصول کرتا ہے، اور سب سے برا وہ ہے جو برے ڈھنگ سے ادا کرتا ہے، اور بدسلوکی سے وصول کرتا ہے، جان لو ! غصہ انسان کے دل میں ایک چنگاری ہے کیا تم غصہ ہونے والے کی آنکھوں کی سرخی اور اس کی گردن کی رگوں کو پھولتے ہوئے نہیں دیکھتے ہو ؟ لہٰذا جس شخص کو غصہ کا احساس ہو وہ زمین سے چپک جائے ، ابو سعید خدری کہتے ہیں : ہم لوگ سورج کی طرف مڑ کر دیکھنے لگے کہ کیا ابھی ڈوبنے میں کچھ باقی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جان لو ! دنیا کے گزرے ہوئے حصہ کی بہ نسبت اب جو حصہ باقی ہے وہ اتنا ہی ہے جتنا حصہ آج کا تمہارے گزرے ہوئے دن کی بہ نسبت باقی ہے ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں حذیفہ، ابومریم، ابوزید بن اخطب اور مغیرہ بن شعبہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ان لوگوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے قیامت تک ہونے والی چیزوں کو بیان فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٩ (٤٠٠٠) (تحفة الأشراف : ٤٣٦٦) (ضعیف) (سند میں ” علی بن زید بن جدعان “ ضعیف ہیں، اس لیے یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے، لیکن اس حدیث کے کئی ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے : الصحیحہ : ٤٨٦، و ٩١١ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی تم کو پچھلی قوموں کا وارث و نائب بنائے گا ، یہ نہیں کہ انسان اللہ کا خلفیہ و نائب ہے یہ غلط بات ہے ، بلکہ اللہ خود انسان کا خلیفہ ہے جیسا کہ خضر کی دعا میں ہے «والخلیف ۃ بعد»۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، لکن بعض فقراته صحيح . فانظر مثلا ابن ماجة (4000) الرد علی بليق (86) ، ابن ماجة (4000) // ضعيف سنن ابن ماجة (865 ) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2191

【35】

اہل شام کی فضلیت کے بارے میں

قرہ بن ایاس المزنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب ملک شام والوں میں خرابی پیدا ہوجائے گی تو تم میں کوئی اچھائی باقی نہیں رہے گی، میری امت کے ایک گروہ کو ہمیشہ اللہ کی مدد سے حاصل رہے گی، اس کی مدد نہ کرنے والے قیامت تک اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن حوالہ، ابن عمر، زید بن ثابت اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - محمد بن اسماعیل بخاری نے کہا کہ علی بن مدینی نے کہا : ان سے مراد اہل حدیث ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١ (٦) (تحفة الأشراف : ١١٠٨١) ، و مسند احمد (٥/٣٤، ٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا ، اللہ کی نصرت و مدد سے سرفراز رہے گا ، اس کی نصرت و تائید نہ کرنے والے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ، امام نووی کہتے ہیں : یہ گروہ اقطار عالم میں منتشر ہوگا ، جس میں بہادر قسم کے جنگجو ، فقہاء ، محدثین ، زہداء اور معروف و منکر کا فریضہ انجام دینے والے لوگ ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (6) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2192

【36】

میرے بعد کافر ہو کر ایک دوسرے کو قتل نہ کرنے لگ جانا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میرے بعد کافر ہو کر ایک دوسرے کی گردنیں مت مارنا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن مسعود، جریر، ابن عمر، کرز بن علقمہ، واثلہ اور صنابحی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٣٢ (١٧٣٩) ، والفتن ٨ (٧٠٧٩) (تحفة الأشراف : ٦١٨٥) ، و مسند احمد (١/٢٣٠، ٤٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ ـ : یعنیکفار سے مشابہتمتاختیارکرنا اور کفریہاعمالکونہاپنانا، اسحدیث میں کافرکالفظزجروتوبیخ کے طورپ رہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3942 و 3943) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2193

【37】

ایسا فتنہ جس میں بیٹھا رہنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا

بسر بن سعید (رض) سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص (رض) نے عثمان بن عفان (رض) کے دور خلافت میں ہونے والے فتنہ کے وقت کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عنقریب ایک ایسا فتنہ ہوگا جس میں بیٹھنے والا کھڑا ہونے والے سے بہتر ہوگا، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا ، میں نے عرض کیا : آپ بتائیے اگر کوئی میرے گھر میں گھس آئے اور قتل کرنے کے لیے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھائے تو میں کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا : آدم کے بیٹے (ہابیل) کی طرح ہوجانا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - بعض لوگوں نے اسے لیث بن سعد سے روایت کرتے ہوئے سند میں «رجلا» (ایک آدمی) کا اضافہ کیا ہے، ٣ - سعد بن ابی وقاص (رض) کی روایت سے نبی اکرم ﷺ سے یہ حدیث دوسری سند سے بھی آئی ہے، ٤ - اس باب میں ابوہریرہ، خباب بن ارت، ابوبکرہ، ابن مسعود، ابو واقد، ابوموسیٰ اشعری اور خرشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٨٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (758) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2194

【38】

اس بارے میں کہ ایک فتنہ ایسا ہوگا جو اندھیری رات کی طرح ہوگا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ نیک اعمال کی طرف جلدی کرو، ان فتنوں کے خوف سے جو سخت تاریک رات کی طرح ہیں جس میں آدمی صبح کے وقت مومن اور شام کے وقت کافر ہوگا، شام کے وقت مومن اور صبح کے وقت کافر ہوگا، دنیاوی ساز و سامان کے بدلے آدمی اپنا دین بیچ دے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٥١ (١١٨) (تحفة الأشراف : ١٤٠٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی قرب قیامت کے وقت بکثرت فتنوں کا ظہور ہوگا ، ہر ایک دنیا کا طالب ہوگا ، لوگوں کی نگاہ میں دین و ایمان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی ، انسان مختلف قسم کے روپ اختیار کرے گا ، یہاں تک کہ دنیوی مفادات کی خاطر اپنا دین و ایمان فروخت کر بیٹھے گا ، اس حدیث میں ایسے حالات میں اہل ایمان کو استقامت کی اور بلا تاخیر اعمال صالحہ بجا لانے کی تلقین کی گئی ہے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2195

【39】

اس بارے میں کہ ایک فتنہ ایسا ہوگا جو اندھیری رات کی طرح ہوگا

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک رات بیدار ہوئے اور فرمایا : سبحان اللہ ! آج کی رات کتنے فتنے اور کتنے خزانے نازل ہوئے ! حجرہ والیوں (امہات المؤمنین) کو کوئی جگانے والا ہے ؟ سنو ! دنیا میں کپڑا پہننے والی بہت سی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤٠ (١١٥) ، والتھجد ٥ (١١٢٦) ، والمناقب ٢٥ (٣٥٩٩) ، واللباس ٣١ (٥٨٤٤) ، والأدب ١٢١ (٦٢١٨) ، والفتن ٦ (٧٠٦٩) (تحفة الأشراف : ١٨٢٩٠) ، و مسند احمد (٦/٢٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو بےانتہا باریک لباس پہنتی ہیں ، یا وہ عورتیں مراد ہیں جن کے لباس مال حرام سے بنتے ہیں ، یا وہ عورتیں ہیں جو بطور زینت بہت سے کپڑے استعمال کرتی ہیں ، لیکن عریانیت سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھتیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2196

【40】

اس بارے میں کہ ایک فتنہ ایسا ہوگا جو اندھیری رات کی طرح ہوگا

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت سے پہلے سخت تاریک رات کی طرح فتنے (ظاہر) ہوں گے، جن میں آدمی صبح کو مومن ہوگا اور شام میں کافر ہوجائے گا، شام میں مومن ہوگا اور صبح کو کافر ہوجائے گا، دنیاوی ساز و سامان کے بدلے کچھ لوگ اپنا دین بیچ دیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، جندب، نعمان بن بشیر اور ابوموسیٰ اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ الموٌلف (تحفة الأشراف : ٨٥٠) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الصحيحة (758 و 810 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2197

【41】

اس بارے میں کہ ایک فتنہ ایسا ہوگا جو اندھیری رات کی طرح ہوگا

حسن بصری کہتے ہیں کہ اس حدیث صبح کو آدمی مومن ہوگا اور شام کو کافر ہوجائے گا اور شام کو مومن ہوگا اور صبح کو کافر ہوجائے گا، کا مطلب یہ ہے کہ آدمی صبح کو اپنے بھائی کی جان، عزت اور مال کو حرام سمجھے گا اور شام کو حلال سمجھے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ الموٌلف (لم یذکرہ المزي) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد عن الحسن، وهو البصری صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2198

【42】

اس بارے میں کہ ایک فتنہ ایسا ہوگا جو اندھیری رات کی طرح ہوگا

وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، اس وقت آپ سے ایک آدمی سوال کرتے ہوئے کہہ رہا تھا : آپ بتائیے اگر ہمارے اوپر ایسے حکام الحکمرانی کریں جو ہمارا حق نہ دیں اور اپنے حق کا مطالبہ کریں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان کا حکم سنو اور ان کی اطاعت کرو، اس لیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کے جواب دہ ہیں اور تم اپنی ذمہ داریوں کے جواب دہ ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ١٢ (١٨٤٦) (تحفة الأشراف : ١١٧٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ اگر حکام مال غنیمت وغیرہ میں سے تمہارا حق نہ دیں ، پھر بھی تم ان کی اطاعت کرو ، ان کے خلاف سر مت اٹھاؤ تمہارا حق تمہیں آخرت میں ایسے ہی ملے گا جس طرح ان ظالم حکمرانوں کو ان کے ظلم کی سزا ملے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2199

【43】

قتل کے بارے میں

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے بعد ایسے دن آنے والے ہیں جس میں علم اٹھا لیا جائے گا، اور ہرج زیادہ ہوجائے گا ، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہرج کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا : قتل و خوں ریزی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، خالد بن ولید اور معقل بن یسار (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٥ (٧٠٦٢-٧٠٦٤) ، صحیح مسلم/العلم ٥ (٢٦٧٢) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٦ (٤٠٥١) (تحفة الأشراف : ٩٠٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح الجامع (2233) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2200

【44】

قتل کے بارے میں

معقل بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : قتل و خوں ریزی کے زمانہ میں عبادت کرنا میری طرف ہجرت کرنے کے مانند ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف حماد بن زید کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ معلی سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ٢٦ (٢٩٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٤ (٣٩٨٥) (تحفة الأشراف : ١١٤٧٦) ، و مسند احمد (٥/٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قتل و خوں ریزی یعنی فتنہ کے زمانہ میں فتنہ سے دور رہ کر عبادت میں مشغول رہنا مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے مثل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3985) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2201

【45】

قتل کے بارے میں

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی تو وہ قیامت تک نہ رکے گی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الفتن ١ (٤٢٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٩ (٣٩٥٢) والفتن (٢١٠٨) ، و مسند احمد (٥/٢٧٨، ٢٨٤) (کلہم : ١٧٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جب وہ آپس میں لڑنے لگیں گے تو قیامت تک یہ لڑائی چلتی رہے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5406) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2202

【46】

لکڑی کی تلوار بنانے کے بارے میں

عدیسہ بنت اہبان غفاری کہتی ہیں کہ میرے والد کے پاس علی (رض) آئے اور ان کو اپنے ساتھ لڑائی کے لیے نکلنے کو کہا، ان سے میرے والد نے کہا : میرے دوست اور آپ کے چچا زاد بھائی (رسول اللہ ﷺ ) نے مجھے وصیت کی کہ جب لوگوں میں اختلاف ہوجائے تو میں لکڑی کی تلوار بنا لوں ، لہٰذا میں نے بنا لی ہے، اگر آپ چاہیں تو اسے لے کر آپ کے ساتھ نکلوں، عدیسہ کہتی ہیں : چناچہ علی (رض) نے میرے والد کو چھوڑ دیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عبداللہ بن عبیداللہ کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اس باب میں محمد بن مسلمہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٠ (٣٩٦٠) (تحفة الأشراف : ١٧٣٤) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : لکڑی کی تلوار بنانے کا مطلب فتنہ کے وقت قتل و خوں ریزی سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (3960) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2203

【47】

لکڑی کی تلوار بنانے کے بارے میں

ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فتنہ کے بارے میں فرمایا : اس وقت تم اپنی کمانیں توڑ ڈالو، کمانوں کی تانت کاٹ ڈالو، اپنے گھروں کے اندر چپکے بیٹھے رہو اور آدم کے بیٹے (ہابیل) کے مانند ہوجاؤ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الفتن ٢ (٤٢٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٠ (٣٩٦١) (تحفة الأشراف : ٩٠٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ہابیل نے اپنے بھائی قابیل سے کہا تھا : «لئن بسطت إلي يدک لتقتلني ما أنا بباسط يدي إليك لأقتلک إني أخاف اللہ رب العالمين إني أريد أن تبوئ بإثمي وإثمك» گو تو میرے قتل کے لیے دست درازی کرے لیکن میں تیرے قتل کی طرف اپنے ہاتھ نہ بڑھاؤں گا ، میں تو اللہ رب العالمین سے خوف کھاتا ہوں ، میں تو چاہتا ہوں کہ تو میرا گناہ اور اپنے گناہ اپنے سر پر رکھ لے (المائدة : ٢٨، ٢٩) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3361) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2204

【48】

علامت قیامت کے متعلق

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں تم لوگوں سے ایک ایسی حدیث بیان کر رہا ہوں جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے اور میرے بعد تم سے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی حدیث کوئی نہیں بیان کرے گا ١ ؎، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا : قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے : علم کا اٹھایا جانا، جہالت کا پھیل جانا، زنا کا عام ہوجانا، شراب نوشی، عورتوں کی کثرت اور مردوں کی قلت یہاں تک کہ پچاس عورتوں پر ایک نگراں ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوموسیٰ اشعری اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢١ (٨٠، ٨١) ، والنکاح ١١٠ (٥٢٣١) ، والأشربة ١ (٥٥٧٧) ، صحیح مسلم/العلم ٥ (٢٦٧١) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٥ (٤٠٤٥) (تحفة الأشراف : ١٢٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : انس (رض) وہ آخری صحابی ہیں جن کا انتقال بصرہ میں ہوا ہے ، ممکن ہے یہ بات انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دور میں کہی ہو ، ظاہر ہے اس وقت گنے چنے ایسے صحابہ موجود رہے ہوں گے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث نہیں سنی ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2205

【49】

علامت قیامت کے متعلق

زبیر بن عدی کہتے ہیں کہ ہم لوگ انس بن مالک (رض) کے گھر گئے اور ان سے حجاج کے مظالم کی شکایت کی، تو انہوں نے کہا : آنے والا ہر سال (گزرے ہوئے سال سے) برا ہوگا، یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جا ملو ، اسے میں نے تمہارے نبی اکرم ﷺ سے سنا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٦ (٧٠٦٨) (تحفة الأشراف : ٨٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1 / 10 و 1218) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2206

【50】

علامت قیامت کے متعلق

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک روئے زمین پر اللہ اللہ کہا جائے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت اس وقت قائم ہوگی جب روئے زمین پر اللہ کا نام لینے والا کوئی باقی نہیں رہے گا ، صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو مخلوق میں سب سے بدتر ہوں گے ، کیونکہ یمن کی جانب سے ایک ہوا ایسی چلے گی جو مومنوں کی روحوں کو قبض کرلے گی ، صرف غیر مومن رہ جائیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2207

【51】

علامت قیامت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (قیامت کے قریب) زمین اپنے جگر گوشے یعنی کھمبے کی طرح سونا اور چاندی اگلے گی، اس وقت چور آئے گا اور کہے گا : اسی کے لیے میرا ہاتھ کاٹا گیا ہے، قاتل آئے گا اور کہے گا : اسی کے لیے میں نے قتل کیا ہے، رشتہ ناطہٰ توڑنے والا آئے گا اور کہے گا : اسی کے لیے میں نے رشتہ ناطہٰ توڑا تھا، پھر وہ لوگ اسے چھوڑ دیں گے اور اس میں سے کچھ نہیں لیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ١٨ (١٠١٣) (تحفة الأشراف : ١٣٤٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2208

【52】

علامت قیامت کے متعلق

حذیفہ بن یمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک بیوقوفوں کی اولاد دنیا میں سب سے زیادہ خوش نصیب نہ ہوجائیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف عمرو بن ابی عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفردہ بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٣٦٧) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” عبد اللہ بن عبد الرحمن اشہلی “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2365 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2209

【53】

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب میری امت پندرہ چیزیں کرنے لگے تو اس پر مصیبت نازل ہوگی ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! وہ کون کون سی چیزیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جب مال غنیمت کو دولت، امانت کو غنیمت اور زکاۃ کو تاوان سمجھا جائے، آدمی اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے، اور اپنی ماں کی نافرمانی کرے گا، اپنے دوست پر احسان کرے اور اپنے باپ پر ظلم کرے، مساجد میں آوازیں بلند ہونے لگیں، رذیل آدمی قوم کا لیڈر بن جائے گا، شر کے خوف سے آدمی کی عزت کی جائے، شراب پی جائے، ریشم پہنا جائے، (گھروں میں) گانے والی لونڈیاں اور باجے رکھے جائیں اور اس امت کے آخر میں آنے والے پہلے والوں پر لعنت بھیجیں تو اس وقت تم سرخ آندھی یا زمین دھنسنے اور صورت تبدیل ہونے کا انتظار کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صرف اسی سند سے علی بن ابوطالب کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - ہم فرج بن فضالہ کے علاوہ دوسرے کسی کو نہیں جانتے جس نے یہ حدیث یحییٰ بن سعید انصاری سے روایت کی ہو اور فرج بن فضالہ کے بارے میں کچھ محدثین نے کلام کیا ہے اور ان کے حافظے کے تعلق سے انہیں ضعیف کہا ہے، ان سے وکیع اور کئی ائمہ نے روایت حدیث کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٢٧٣) (ضعیف) (سند میں ” فرج بن فضالة “ ضعیف ہیں، اور ” محمد بن عمرو بن علی “ مجہول ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5451) // ضعيف الجامع الصغير (608) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2210

【54】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب مال غنیمت کو دولت، امانت کو مال غنیمت اور زکاۃ کو تاوان سمجھا جائے، دین کی تعلیم کسی دوسرے مقصد سے حاصل کی جائے، آدمی اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے، اور اپنی ماں کی نافرمانی کرے، اپنے دوست کو قریب کرے اور اپنے باپ کو دور کرے گا، مساجد میں آوازیں بلند ہونے لگیں، فاسق و فاجر آدمی قبیلہ کا سردار بن جائے، گھٹیا اور رذیل آدمی قوم کا لیڈر بن جائے گا، شر کے خوف سے آدمی کی عزت کی جائے گی، گانے والی عورتیں اور باجے عام ہوجائیں، شراب پی جائے اور اس امت کے آخر میں آنے والے اپنے سے پہلے والوں پر لعنت بھیجیں گے تو اس وقت تم سرخ آندھی، زلزلہ، زمین دھنسنے، صورت تبدیل ہونے، پتھر برسنے اور مسلسل ظاہر ہونے والی علامتوں کا انتظار کرو، جو اس پرانی لڑی کی طرح مسلسل نازل ہوں گی جس کا دھاگہ ٹوٹ گیا ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٨٩٥) (ضعیف) (سند میں ” رمیح جذامی “ مجہول ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5450) // ضعيف الجامع الصغير (287) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2211

【55】

عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس امت میں «خسف» ، «مسخ» اور «قذف» واقع ہوگا ١ ؎، ایک مسلمان نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ایسا کب ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : جب ناچنے والیاں اور باجے عام ہوجائیں گے اور شراب خوب پی جائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث «عن الأعمش عن عبدالرحمٰن بن سابط عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے مرسلاً مروی ہے، ٢ - یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٨٦٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : «خسف» : زمین کا دھنسنا ، «مسخ» : صورتوں کا تبدیل ہونا ، «قذف» : پتھروں کی بارش ہونا۔ اتنی دوری ہے جتنی دوری شہادت اور بیچ والی انگلی کے درمیان ہے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1604) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2212

【56】

نبی ﷺ کی بعثت قیامت کی قرب کی نشانی ہے

مستورد بن شداد فہری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں قیامت کے زمانہ ہی میں بھیجا گیا پھر میں اس پر سبقت لے گیا جیسے یہ انگلی اس انگلی پر سبقت لے گئی، اور آپ نے اپنی شہادت اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث مستورد بن شداد کی روایت سے غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٢٦٢) (ضعیف) (سند میں ” مجالد بن سعید “ ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے اشارہ قیامت کے قریب ہونے کی طرف ہے ، گویا آپ کی بعثت اور قیامت کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے ، جس طرح شہادت اور بیچ کی انگلی کے درمیان کوئی دوسری انگلی نہیں ہے ، اس کا یہ بھی مطلب بیان کیا جاتا ہے کہ میرے اور قیامت کے درمیان کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5513) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2213

【57】

نبی ﷺ کی بعثت قیامت کی قرب کی نشانی ہے

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں (یہ بتانے کے لیے) ابوداؤد نے شہادت اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کیا، چناچہ ان دونوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٣٩ (٦٥٠٥) ، صحیح مسلم/الفتن ٢٧ (٢٩٥١) (تحفة الأشراف : ١٢٥٣) ، و مسند احمد (٣/١٢٤، ١٣٠، ١٣١، ١٩٣، ٢٣٧، ٢٧٥، ٢٨٣، ٣١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2214

【58】

ترکوں سے جنگ کے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم ایسی قوم سے لڑو جس کے جوتے بال کے ہوں گے، اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم ایسی قوم سے لڑو جس کے چہرے تہہ بہ تہہ جمی ہوئی ڈھالوں کے مانند ہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوبکر صدیق، بریدہ، ابوسعید، عمرو بن تغلب اور معاویہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٩٥ (٢٩٢٨) ، و ٩٦ (٢٩٢٩) ، والمناقب ٢٥ (٣٥٨٧، ٣٥٩٠) ، صحیح مسلم/الفتن ١٨ (٢٩١٢) ، سنن ابی داود/ الملاحم ٩ (٤٣٠٣، ٤٣٠٤) ، سنن النسائی/الجھاد ٤٢ (٣١٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٦ (٤٠٩٦) (تحفة الأشراف : ١٣١٢٥) ، و مسند احمد (٢/٢٣٩، ٣٠٠، ٣١٩، ٣٣٨، ٤٧٥، ٤٩٣، ٥٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2215

【59】

کسی کی ہلاکت کے بعد کوئی کسری نہیں ہوگا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کسریٰ ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا، جب قیصر ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم ان کے خزانے کو اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے (اور یہ واقع ہوچکا ہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٦١٨) ، والأیمان والنذور ٣ (٦٦٣٠) ، صحیح مسلم/الفتن ١٨ (٢٩١٨) (تحفة الأشراف : ١٣١٤٣) ، و مسند احمد (٢/٢٣٣، ٢٤٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2216

【60】

حجاز سے آگ نکلنے سے پہلے قیامت قائم نہیں ہوگی

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت سے پہلے حضر موت یا حضر موت کے سمندر کی طرف سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکٹھا کرے گی ، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس وقت آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں، آپ نے فرمایا : تم شام چلے جانا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ابن عمر (رض) کی روایت سے حسن غریب صحیح ہے، ٢ - اس باب میں حذیفہ بن اسید، انس، ابوہریرہ اور ابوذر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٧٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح فضائل الشام (11) ، المشکاة (6265) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2217

【61】

جب تک کذاب نہ نکلیں قیامت قائم نہیں ہو گی

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تقریباً تیس دجال اور کذاب نکلیں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں جابر بن سمرہ اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٦٠٩) ، والفتن ٢٥ (٧١٢١) ، صحیح مسلم/الفتن ١٨ (١٥٧/٨٤) ، سنن ابی داود/ الملاحم ١٦ (٤٣٣٣، ٤٣٣٤) (تحفة الأشراف : ١٤٧١٩) ، و مسند احمد (٢/٢٣٧، ٣١٣، ٤٢٩، ٤٥٠، ٤٥٧، ٥٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مسیلمہ کذاب ، اسود عنسی ، شجاح ، بہاء اللہ ، باب اللہ ، اور مرزا غلام احمد قادیانی انہیں کذابوں میں سے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (683) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2218

【62】

جب تک کذاب نہ نکلیں قیامت قائم نہیں ہو گی

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری امت کے کچھ قبیلے مشرکین سے مل جائیں، اور بتوں کی پرستش کریں، اور میری امت میں عنقریب تیس جھوٹے (دعویدار) نکلیں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی (دوسرا) نبی نہیں ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢١٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5406) ، الصحيحة (1683) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2219 سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ ہم سے سفینہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں تیس سال تک خلافت رہے گی، پھر اس کے بعد ملوکیت آ جائے گی ، پھر مجھ سے سفینہ (رض) نے کہا : ابوبکر (رض) کی خلافت، عمر (رض) کی خلافت، عثمان (رض) کی خلافت اور علی (رض) کی خلافت، شمار کرو ١ ؎، راوی حشرج بن نباتہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسے تیس سال پایا، سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے سفینہ (رض) سے کہا : بنو امیہ یہ سمجھتے ہیں کہ خلافت ان میں ہے ؟ کہا : بنو زرقاء جھوٹ اور غلط کہتے ہیں، بلکہ ان کا شمار تو بدترین بادشاہوں میں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - کئی لوگوں نے یہ حدیث سعید بن جمہان سے روایت کی ہے، ہم اسے صرف سعید بن جمہان ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - اس باب میں عمر اور علی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خلافت کے بارے میں کسی چیز کی وصیت نہیں فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ٩ (٤٦٤٦، ٤٦٤٧) (تحفة الأشراف : ٤٤٨٠) ، و مسند احمد (٥/٢٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مسند احمد میں سفینہ (رض) سے ہر خلیفہ کے دور کی تصریح موجود ہے ، اس تصریح کے مطابق ابوبکر (رض) کی مدت خلافت دو سال ، عمر (رض) کی دس سال ، عثمان (رض) کی بارہ سال اور علی (رض) کی چھ سال ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (459 و 1534 و 1535) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2226

【63】

نبی ﷺ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک خون ریز ہوگا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ہلاک کرنے والا ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : کہا جاتا ہے کذاب اور جھوٹے سے مراد مختار بن ابی عبید ثقفی اور ہلاک کرنے والا سے مراد حجاج بن یوسف ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وأعادہ في المناقب ٧٤ (٣٩٤٤) (تحفة الأشراف : ٧٢٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مختار بن ابوعبید بن مسعود ثقفی کی شہرت اس وقت ہوئی جب اس نے حادثہ حسین کے بعد ان کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان محض اس غرض سے کیا کہ لوگوں کو اپنی جانب مائل کرسکے ، اور امارت (حکومت) کے حصول کا راستہ آسان بنا سکے ، علم و فضل میں پہلے یہ بہت مشہور تھا ، آگے چل کر اس نے اپنی شیطنت کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ اس کے عقیدے اور دین کا بگاڑ لوگوں پر واضح ہوگیا ، یہ امارت اور دنیا کا طالب تھا ، بالآخر ٦٧ ھ میں مصعب بن زبیر (رض) کے زمانے میں مارا گیا۔ حجاج بن یوسف ثقفی اپنے ظلم ، قتل ، اور خون ریزی میں ضرب المثل ہے ، یہ عبدالملک بن مروان کا گورنر تھا ، عبداللہ بن زبیر (رض) کا اندوہناک حادثہ اسی کے ہاتھ پیش آیا۔ مقام واسط پر ٧٥ ھ میں اس کا انتقال ہوا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2220 اس سند سے ہشام بن حسان سے روایت ہے، انہوں نے کہا : حجاج نے جن لوگوں کو باندھ کر قتل کیا تھا انہیں شمار کیا گیا تو ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک پہنچی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں اسماء بنت ابوبکر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٩٥٠٨) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2220 اس سند سے بھی ابن عمر (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اور یہ حدیث ابن عمر (رض) کی روایت سے حسن غریب ہے۔ شریک نے اپنے استاذ کا نام عبداللہ بن عصم بیان کیا ہے، جب کہ اسرائیل نے عبداللہ بن عصمہ بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم ٢٢٢٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2220

【64】

تیسری صدی کے متعلق

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تمام لوگوں سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو موٹے تازے ہوں گے، موٹاپا پسند کریں گے اور گواہی طلب کرنے سے پہلے ہی گواہی دیتے پھریں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : محمد بن فضیل نے یہ حدیث اسی طرح «عن الأعمش عن علي بن مدرک عن هلال بن يساف» کی سند سے روایت کی ہے، کئی حفاظ نے اسے «عن الأعمش عن هلال بن يساف» کی سند سے روایت کی ہے، اس میں علی بن مدرک کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشھادات ٩ (٢٦٥١) ، و فضائل الصحابة ١ (٣٦٥٠) ، والرقاق ٧ (٦٤٢٨) ، والأیمان ٧ (٦٦٩٥) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٢ (٢٥٣٥) ، سنن ابی داود/ السنة ١٠ (٤٦٥٧) ، سنن النسائی/الأیمان والنذور ٢٩ (٢٣٠٢) (تحفة الأشراف : ١٠٨٦٦) ، و مسند احمد (٤/٤٢٦، ٤٢٧، ٤٣٦، ٤٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ یہ لوگ دین و ایمان کی فکر سے خالی ہوں گے ، کسی کے سامنے جواب دہی کا کوئی خوف ان کے دلوں میں باقی نہیں رہے گا ، اور عیش و آرام کی زندگی کی مستیاں لے رہے ہوں گے ، اس لیے موٹاپا ان میں عام ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1840) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2221

【65】

تیسری صدی کے متعلق

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جن کے درمیان میں بھیجا گیا ہوں، پھر وہ لوگ ہیں جو ان کے بعد ہوں گے ، عمران بن حصین کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے تیسرے زمانہ کا ذکر کیا یا نہیں، پھر اس کے بعدا ی سے لوگ پیدا ہوں گے جن سے گواہی نہیں طلب کی جائے گی پھر بھی گواہی دیتے رہیں گے، خیانت کریں گے امانت دار نہیں ہوں گے اور ان میں موٹاپا عام ہوجائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١٠٨٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1840) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2222

【66】

خلفاء کے بارے میں

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے بعد بارہ امیر (خلیفہ) ہوں گے ، پھر آپ نے کوئی ایسی بات کہی جسے میں نہیں سمجھ سکا، لہٰذا میں نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے آدمی سے سوال کیا تو اس نے کہا کہ آپ نے فرمایا : یہ بارہ کے بارہ (خلیفہ) قبیلہ قریش سے ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢١٩٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1075) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2223

【67】

خلفاء کے بارے میں

زیاد بن کسیب عدوی کہتے ہیں کہ میں ابوبکرہ (رض) کے ساتھ ابن عامر کے منبر کے نیچے تھا، اور وہ خطبہ دے رہے تھے، ان کے بدن پر باریک کپڑا تھا، ابوبلال نے کہا : ہمارے امیر کو دیکھو فاسقوں کا لباس پہن رکھا ہے، ابوبکرہ (رض) نے کہا : خاموش رہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو شخص زمین پر اللہ کے بنائے ہوئے سلطان (حاکم) کو ذلیل کرے تو اللہ اسے ذلیل کرے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٦٧٤) (حسن) (سند میں ” زیاد بن کسیب “ لین الحدیث (مقبول) ہیں، لیکن باب میں ابو بکرہ کی حدیث کے شاہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، تفصیل دیکھیے : الصحیحة رقم : ٢٢٩٧، تراجع الالبانی ٢٢٣ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2296) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2224

【68】

خلافت کے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) سے کہا گیا : کاش ! آپ کسی کو خلیفہ نامزد کردیتے، انہوں نے کہا : اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کروں تو ابوبکر (رض) نے خلیفہ مقرر کیا ہے اور اگر کسی کو خلیفہ نہ مقرر کروں تو رسول اللہ ﷺ نے خلیفہ نہیں مقرر کیا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث میں ایک قصہ بھی مذکور ہے ٢ ؎، ٢ - یہ حدیث صحیح ہے، اور کئی سندوں سے ابن عمر (رض) سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأحکام ٥١ (٧٢١٨) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢ (١٨٢٣) ، سنن ابی داود/ الخراج الإمارة ٨ (٢٩٣٩) (تحفة الأشراف : ١٠٥٢١) ، و مسند احمد (١/٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اگر میں کسی کو خلافت کے لیے نامزد کر دوں تو اپنے پیش رو کی اقتداء میں ایسا ہوسکتا ہے ، اور اگر نہ مقرر کروں تو یہ رسول اللہ ﷺ کی اقتداء ہے کہ آپ ﷺ نے کسی کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا تھا۔ ٢ ؎ : یہ قصہ صحیح مسلم میں کتاب الإمارہ کے شروع میں مذکور ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2605) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2225

【69】

None

ہم سے سفینہ رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں تیس سال تک خلافت رہے گی، پھر اس کے بعد ملوکیت آ جائے گی“، پھر مجھ سے سفینہ رضی الله عنہ نے کہا: ابوبکر رضی الله عنہ کی خلافت، عمر رضی الله عنہ کی خلافت، عثمان رضی الله عنہ کی خلافت اور علی رضی الله عنہ کی خلافت، شمار کرو ۱؎، راوی حشرج بن نباتہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسے تیس سال پایا، سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے سفینہ رضی الله عنہ سے کہا: بنو امیہ یہ سمجھتے ہیں کہ خلافت ان میں ہے؟ کہا: بنو زرقاء جھوٹ اور غلط کہتے ہیں، بلکہ ان کا شمار تو بدترین بادشاہوں میں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- کئی لوگوں نے یہ حدیث سعید بن جمہان سے روایت کی ہے، ہم اسے صرف سعید بن جمہان ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۳- اس باب میں عمر اور علی رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے بارے میں کسی چیز کی وصیت نہیں فرمائی۔

【70】

اس بارے میں کہ خلفاء قیامت تک قریش ہی میں سے ہوں گے

عبداللہ بن ابی ہذیل کہتے ہیں کہ قبیلہ ربیعہ کے کچھ لوگ عمرو بن العاص (رض) کے پاس تھے، قبیلہ بکر بن وائل کے ایک آدمی نے کہا : قریش باز رہیں ١ ؎، ورنہ اللہ تعالیٰ خلافت کو ان کے علاوہ جمہور عرب میں کر دے گا، عمرو بن العاص (رض) نے کہا : تم جھوٹ اور غلط کہہ رہے ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : قریش قیامت تک خیر (اسلام) و شر (جاہلیت) میں لوگوں کے حاکم ہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن مسعود، ابن عمر اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٧٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی فسق و فجور سے قریش باز رہیں۔ ٢ ؎ : یعنی زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں میں قریش حاکم و خلیفہ ہیں ، اور قیامت تک خلافت انہیں میں باقی رہنی چاہیئے ، یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم نہیں مانا ، جیسے دوسرے فرمان رسول کو نہیں مان رہے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1155) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2227

【71】

اس بارے میں کہ خلفاء قیامت تک قریش ہی میں سے ہوں گے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رات اور دن اس وقت تک باقی رہیں گے (یعنی قیامت نہیں آئے گی) یہاں تک کہ جہجاہ نامی ایک غلام بادشاہت کرے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ١٨ (٢٩١١) (تحفة الأشراف : ١٤٢٦٧) ، و مسند احمد (٢/٣٢٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2441) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2228

【72】

گمراہ حکمرانوں کے متعلق

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اپنی امت پر گمراہ کن اماموں (حاکموں) سے ڈرتا ہوں ١ ؎، نیز فرمایا : میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر غالب رہے گی، ان کی مدد نہ کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ میں نے علی بن مدینی کو کہتے سنا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی یہ حدیث میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر غالب رہے گی ذکر کی اور کہا : وہ اہل حدیث ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٥٣ (١٩٢٠) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١ (١٠) (تحفة الأشراف : ٢١٠٢) ، و مسند احمد (٥/٢٧٩) (کلہم بالشطر الثاني فحسب) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ حکمراں ایسے ہوں گے جو بدعت اور فسق و فجور کے داعی ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (4 / 110 و 1957) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2229

【73】

امام مہدی کے متعلق

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ میرے گھرانے کا ایک آدمی جو میرا ہم نام ہوگا عرب کا بادشاہ نہ بن جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی، ابو سعید خدری، ام سلمہ اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ المھدي ١ (٤٢٨٢) (تحفة الأشراف : ٩٢٠٨) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (5452) ، فضائل الشام ص (16) ، الروض النضير (647) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2230

【74】

امام مہدی کے متعلق

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے گھرانے کا ایک آدمی جو میرا ہم نام ہوگا حکومت کرے گا ۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : اگر دنیا کا صرف ایک دن بھی باقی رہے تو اللہ تعالیٰ اس دن کو لمبا کر دے گا یہاں تک کہ وہ آدمی حکومت کرلے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح انظر ما قبله (2230) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2231

【75】

امام مہدی کے متعلق

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم اس بات سے ڈرے کہ ہمارے نبی کے بعد کچھ حادثات پیش آئیں، لہٰذا ہم نے آپ ﷺ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا : میری امت میں مہدی ہیں جو نکلیں گے اور پانچ، سات یا نو تک زندہ رہیں گے، (اس گنتی میں زیدالعمی کی طرف سے شک ہوا ہے ، راوی کہتے ہیں : ہم نے عرض کیا : ان گنتیوں سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا : سال) آپ ﷺ نے فرمایا : پھر ان کے پاس ایک آدمی آئے گا اور کہے گا : مہدی ! مجھے دیجئیے، مجھے دیجئیے، آپ نے فرمایا : وہ اس آدمی کے کپڑے میں (دینار و درہم) اتنا رکھ دیں گے کہ وہ اٹھا نہ سکے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - ابو سعید خدری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے کئی سندوں سے یہ حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٤ (٤٠٨٣) (تحفة الأشراف : ٣٩٧٦) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4083) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2232

【76】

عیسی بن مریم کے نزول کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! عنقریب تمہارے درمیان عیسیٰ بن مریم حاکم اور منصف بن کر اتریں گے، وہ صلیب کو توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے، جزیہ ختم کردیں گے، اور مال کی زیادتی اس طرح ہوجائے گی کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٠٢ (٢٢٢٢) ، والمظالم ٣١ (٢٤٧٦) ، والأنبیاء ٤٩ (٣٤٤٨) ، صحیح مسلم/الأیمان ٧٠ (١٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٣ (٤٠٧٨) (تحفة الأشراف : ١٣٢٢٨) ، و مسند احمد (٢/٢٣٠، ٢٧٢، ٣٩٤، ٤٨٢، ٥٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : علماء کا کہنا ہے کہ دیگر انبیاء کو چھوڑ کر عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اس نزول سے یہود کے اس زعم کو کہ انہوں نے عیسیٰ کو قتل کیا ہے ، باطل کرنا مقصود ہے ، چناچہ نزول عیسیٰ سے ان کے جھوٹ کی قلعی کھل جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4078) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2233

【77】

دجال کے بارے میں

ابوعبیدہ بن جراح (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : نوح (علیہ السلام) کے بعد کوئی نبی ایسا نہیں ہے جس نے اپنی امت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو اور میں بھی تمہیں اس سے ڈرا رہا ہوں ، پھر رسول اللہ ﷺ نے ہم سے اس کا حال بیان کیا اور فرمایا : ہوسکتا ہے مجھے دیکھنے والے یا میری بات سننے والے کچھ لوگ اسے پالیں ، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس دن ہمارے دل کیسے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : آج کی طرح یا اس سے بہتر ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ابوعبیدہ بن جراح کی روایت سے حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن بسر، عبداللہ بن حارث بن جزی، عبداللہ بن مغفل اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ٢٩ (٤٧٥٦) (تحفة الأشراف : ٥٠٤٦) (ضعیف) (سند میں ” عبد اللہ بن سراقہ “ کا سماع ” ابو عبیدہ (رض) “ سے نہیں ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5486 / التحقيق الثاني) //، ضعيف أبي داود (1019 / 4756) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2234

【78】

دجال کے بارے میں

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی شان کے لائق اس کی تعریف کی پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا : میں تمہیں دجال سے ڈرا رہا ہوں اور تمام نبیوں نے اس سے اپنی قوم کو ڈرایا ہے، نوح (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا ہے، لیکن میں اس کے بارے میں تم سے ایک ایسی بات کہہ رہا ہوں جسے کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہی، تم لوگ اچھی طرح جان لو گے کہ وہ کانا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ، زہری کہتے ہیں : ہمیں عمر بن ثابت انصاری نے خبر دی کہ انہیں نبی اکرم ﷺ کے بعض صحابہ نے بتایا : نبی اکرم ﷺ جس دن لوگوں کو دجال کے فتنے سے ڈرا رہے تھے (اس دن) آپ نے فرمایا : تم جانتے ہو کہ کوئی آدمی اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتا، اور اس کی آنکھوں کے درمیان ک، ف، ر لکھا ہوگا، اس کے عمل کو ناپسند سمجھنے والے اسے پڑھ لیں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٧٨ (٣٠٥٧) ، وأحادیث الأنبیاء ٣ (٣٣٣٧) ، والمغازي ٧٧ (٤٤٠٢) ، والأدب ٩٧ (٦١٧٥) ، والفتن ٢٦ (٧١٢٧) ، صحیح مسلم/الفتن ١٩ (٢٩٣١) ، سنن ابی داود/ السنة ٢٩ (٤٧٥٧) (تحفة الأشراف : ٦٩٣٢) ، و مسند احمد (٢/١٣٥، ١٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دجال دنیا میں ربوبیت کا دعویدار ہوگا اور ساتھ ہی کانا بھی ہوگا ، جب کہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ کو کوئی مرنے سے قبل دنیا میں نہیں دیکھ سکتا ، وہ ہر عیب سے پاک ہے ، دجال کے کفر سے وہی لوگ آگاہ ہوں گے جو اس کے عمل سے بےزار ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2235

【79】

دجال کے بارے میں

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہود تم سے لڑیں گے اور تم ان پر غالب ہوجاؤ گے یہاں تک کہ پتھر کہے گا : اے مسلمان ! میرے پیچھے یہ یہودی ہے اسے قتل کر دو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٩٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دیگر احادیث کے مطالعہ سے اس ضمن میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسا مہدی اور عیسیٰ بن مریم (علیہم السلام) کے دور میں جاری جہاد کے وقت ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2236

【80】

اس متعلق کہ دجال کہاں سے نکلے گا

ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا : دجال مشرق (پورب) میں ایک جگہ سے نکلے گا جسے خراسان کہا جاتا ہے، اس کے پیچھے ایسے لوگ ہوں گے جن کے چہرے تہ بہ تہ ڈھال کی طرح ہوں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - عبداللہ بن شوذب اور کئی لوگوں نے اسے ابوالتیاح سے روایت کیا ہے، ہم اسے صرف ابوتیاح کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٣ (٤٠٧٢) (تحفة الأشراف : ٦٦١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دجال کی پیروی کرنے والے چوڑے چہرے اور ابھرے رخسار والے ہوں گے۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ (ملک ایران کے شہر) اصفہان کے ستر ہزار یہودی دجال کا لشکر بن کر نکلیں گے اور ان پر کالے لباس ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4072) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2237

【81】

دجال کے نکلنے کی نشانیوں کے بارے میں

معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ملحمہ عظمی (بڑی لڑائی) ، فتح قسطنطنیہ اور خروج دجال (یہ تینوں واقعات) سات مہینے کے اندر ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٣ - اس باب میں صعب بن جثامہ، عبداللہ بن بسر، عبداللہ بن مسعود اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الملاحم ٤ (٤٢٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٥ (٤٩٠٢) (تحفة الأشراف : ١١٣٢٨) (ضعیف) (سند میں دو راوی ” ابوبکر بن ابی مریم “ اور ” ولید بن سفیان غسانی “ ضعیف، اور ” یزید بن قطیب “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (4092) // ضعيف ابن ماجة برقم (890) ، ضعيف أبي داود (925 / 4295) ، المشکاة (5425) ، ضعيف الجامع الصغير (5945) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2238

【82】

دجال کے نکلنے کی نشانیوں کے بارے میں

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ قسطنطنیہ قیامت کے قریب فتح ہوگا۔ محمود بن غیلان کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦٦٣) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد موقوف صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2239

【83】

دجال کے فتنے کے متعلق

نواس بن سمعان کلابی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا، تو آپ نے (اس کی حقارت اور اس کے فتنے کی سنگینی بیان کرتے ہوئے دوران گفتگو) آواز کو بلند اور پست کیا ١ ؎ حتیٰ کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ (مدینہ کی) کھجوروں کے جھنڈ میں ہے، پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سے واپس آ گئے، (جب بعد میں) پھر آپ کے پاس گئے تو آپ نے ہم پر دجال کے خوف کا اثر جان لیا اور فرمایا : کیا معاملہ ہے ؟ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے صبح دجال کا ذکر کرتے ہوئے (اس کی حقارت اور سنگینی بیان کرتے ہوئے) اپنی آواز کو بلند اور پست کیا یہاں تک کہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ وہ کھجوروں کے درمیان ہے۔ آپ نے فرمایا : دجال کے علاوہ دوسری چیزوں سے میں تم پر زیادہ ڈرتا ہوں، اگر وہ نکلے اور میں تمہارے بیچ موجود ہوں تو میں تمہاری جگہ خود اس سے نمٹ لوں گا، اور اگر وہ نکلے اور میں تمہارے بیچ موجود نہ رہوں تو ہر آدمی خود اپنے نفس کا دفاع کرے گا، اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ (جانشیں) ہے ٢ ؎، دجال گھونگھریالے بالوں والا جوان ہوگا، اس کی ایک آنکھ انگور کی طرح ابھری ہوئی ہوگی تو ان میں اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں، پس تم میں سے جو شخص اسے پالے اسے چاہیئے کہ وہ سورة الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے، وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور دائیں بائیں فساد پھیلائے گا، اللہ کے بندو ! ثابت قدم رہنا ۔ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! روئے زمین پر ٹھہرنے کی اس کی مدت کیا ہوگی ؟ آپ نے فرمایا : چالیس دن، ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا، ایک دن ایک مہینہ کے برابر ہوگا، ایک دن ہفتہ کے برابر ہوگا اور باقی دن تمہارے دنوں کی طرح ہوں گے ، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بتائیے وہ ایک دن جو ایک سال کے برابر ہوگا کیا اس میں ایک دن کی نماز کافی ہوگی ؟ آپ نے فرمایا : نہیں بلکہ اس کا اندازہ کر کے پڑھنا ۔ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! زمین میں وہ کتنی تیزی سے اپنا کام کرے گا ؟ آپ نے فرمایا : اس بارش کی طرح کہ جس کے پیچھے ہوا لگی ہوتی ہے (اور وہ بارش کو نہایت تیزی سے پورے علاقے میں پھیلا دیتی ہے) ، وہ کچھ لوگوں کے پاس آئے گا، انہیں دعوت دے گا تو وہ اس کو جھٹلائیں گے اور اس کی بات رد کردیں گے، لہٰذا وہ ان کے پاس سے چلا جائے گا مگر اس کے پیچھے پیچھے ان (انکار کرنے والوں) کے مال بھی چلے جائیں گے، ان کا حال یہ ہوگا کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں رہے، پھر وہ کچھ دوسرے لوگوں کے پاس جائے گا، انہیں دعوت دے گا، اور اس کی دعوت قبول کریں گے اور اس کی تصدیق کریں گے، تب وہ آسمان کو بارش برسانے کا حکم دے گا۔ آسمان بارش برسائے گا، وہ زمین کو غلہ اگانے کا حکم دے گا، زمین غلہ اگائے گی، ان کے چرنے والے جانور شام کو جب (چراگاہ سے) واپس آئیں گے، تو ان کے کوہان پہلے سے کہیں زیادہ لمبے ہوں گے، ان کی کوکھیں زیادہ کشادہ ہوں گی اور ان کے تھن کامل طور پر (دودھ سے) بھرے ہوں گے، پھر وہ کسی ویران جگہ میں آئے گا اور اس سے کہے گا : اپنا خزانہ نکال، پھر وہاں سے واپس ہوگا تو اس زمین کے خزانے شہد کی مکھیوں کے سرداروں کی طرح اس کے پیچھے لگ جائیں گے، پھر وہ ایک بھرپور اور مکمل جوان کو بلائے گا اور تلوار سے مار کر اس کے دو ٹکڑے کر دے گا۔ پھر اسے بلائے گا اور وہ روشن چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آ جائے گا، پس دجال اسی حالت میں ہوگا کہ اسی دوران عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) دمشق کی مشرقی جانب سفید مینار پر زرد کپڑوں میں ملبوس دو فرشتوں کے بازو پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے، جب وہ اپنا سر جھکائیں گے تو پانی ٹپکے گا اور جب اٹھائیں گے تو اس سے موتی کی طرح چاندی کی بوندیں گریں گی، ان کی سانس کی بھاپ جس کافر کو بھی پہنچے گی وہ مرجائے گا اور ان کی سانس کی بھاپ ان کی حد نگاہ تک محسوس کی جائے گی، وہ دجال کو ڈھونڈیں گے یہاں تک کہ اسے باب لد ٣ ؎ کے پاس پالیں گے اور اسے قتل کردیں گے۔ اسی حالت میں اللہ تعالیٰ جتنا چاہے گا عیسیٰ (علیہ السلام) ٹھہریں گے، پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس وحی بھیجے گا کہ میرے بندوں کو طور کی طرف لے جاؤ، اس لیے کہ میں نے کچھ ایسے بندے اتارے ہیں جن سے لڑنے کی کسی میں تاب نہیں ہے، اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ویسے ہی ہوں گے جیسا اللہ تعالیٰ نے کہا ہے : «من کل حدب ينسلون» ہر بلندی سے پھیل پڑیں گے (الأنبياء : ٩٦ ) ان کا پہلا گروہ (شام کی) بحیرہ طبریہ (نامی جھیل) سے گزرے گا اور اس کا تمام پانی پی جائے گا، پھر اس سے ان کا دوسرا گروہ گزرے گا تو کہے گا : اس میں کبھی پانی تھا ہی نہیں، پھر وہ لوگ چلتے رہیں گے یہاں تک کہ جبل بیت المقدس تک پہنچیں گے تو کہیں گے : ہم نے زمین والوں کو قتل کردیا اب آؤ آسمان والوں کو قتل کریں، چناچہ وہ لوگ آسمان کی طرف اپنے تیر چلائیں گے چناچہ اللہ تعالیٰ ان کو خون سے سرخ کر کے ان کے پاس واپس کر دے گا، (اس عرصے میں) عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) اور ان کے ساتھی گھرے رہیں گے، یہاں تک کہ (شدید قحط سالی کی وجہ سے) اس وقت بیل کی ایک سری ان کے لیے تمہارے سو دینار سے بہتر معلوم ہوگی (چیزیں اس قدر مہنگی ہوں گی) ، پھر عیسیٰ بن مریم اور ان کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کر دے گا، جس سے وہ سب دفعتاً ایک جان کی طرح مرجائیں گے، عیسیٰ اور ان کے ساتھی (پہاڑ سے) اتریں گے تو ایک بالشت بھی ایسی جگہ نہ ہوگی جو ان کی لاشوں کی گندگی، سخت بدبو اور خون سے بھری ہوئی نہ ہو، پھر عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ایسے بڑے پرندوں کو بھیجے گا جن کی گردنیں بختی اونٹوں کی گردنوں کی طرح ہوں گی، وہ لاشوں کو اٹھا کر گڈھوں میں پھینک دیں گے، مسلمان ان کے کمان، تیر اور ترکش سے سات سال تک ایندھن جلائیں گے ٤ ؎۔ پھر اللہ تعالیٰ ان پر ایسی بارش برسائے گا جسے کوئی کچا اور پکا گھر نہیں روک پائے گا، یہ بارش زمین کو دھو دے گی اور اسے آئینہ کی طرح صاف شفاف کر دے گی، پھر زمین سے کہا جائے گا : اپنا پھل نکال اور اپنی برکت واپس لا، چناچہ اس وقت ایک انار ایک جماعت کے لیے کافی ہوگا، اس کے چھلکے سے یہ جماعت سایہ حاصل کرے گی، اور دودھ میں ایسی برکت ہوگی کہ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کے لیے ایک دودھ دینے والی اونٹنی کافی ہوگی، اور دودھ دینے والی ایک گائے لوگوں کے ایک قبیلے کو کافی ہوگی اور دودھ دینے والی ایک بکری لوگوں میں سے ایک گھرانے کو کافی ہوگی، لوگ اسی حال میں (کئی سالوں تک) رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا جو سارے مومنوں کی روح قبض کرلے گی اور باقی لوگ گدھوں کی طرح کھلے عام زنا کریں گے، پھر انہیں لوگوں پر قیامت ہوگی ٥ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف عبدالرحمٰن یزید بن جابر کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ٢٠ (٢٩٣٧) ، سنن ابی داود/ الملاحم ١٤ (٤٣٢١) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٣ (٤٠٧٥) (تحفة الأشراف : ١١٧١١) ، و مسند احمد (٤/١٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «فخض فيه ورفع» کے معنی و مطلب کے بارے میں دو قول ہیں : ایک «خفض» ، «حقر» کے معنی میں یعنی اللہ تعالیٰ کے یہاں وہ ذلیل وحقیر ہے ، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا میں کانا پیدا کیا ، نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ دجال اللہ رب العزت کے یہاں اس سے زیادہ ذلیل ہے یعنی وہ اس ایک آدمی کے علاوہ کسی اور کو قتل کرنے پر قدرت نہیں رکھے گا ، بلکہ ایسا کرنے سے عاجز ہوگا ، اس کا معاملہ کمزور پڑجائے گا ، اور اس کے بعد اس کا اور اس کے اتباع و مویدین کا قتل ہوجائے گا ، اور «رفع» کے معنی اس کے شر اور فتنے کی وسعت ہے اور یہ کہ اس کے پاس جو خرق عادت چیزیں ہوں گی وہ لوگوں کے لیے ایک بڑا فتنہ ہوں گی ، یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو اس کے فتنے سے ڈرایا ، دوسرا معنی اس جملے کا یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس کا تذکرہ اتنا زیادہ کیا کہ لمبی گفتگو کے بعد آپ کی آواز کم ہوگئی تاکہ دوران گفتگو آپ آرام فرما لیں پھر سب کو اس فتنے سے آگاہ کرنے کے لیے آپ کی آواز بلند ہوگئی۔ ٢ ؎ : یعنی میری زندگی کے بعد فتنہ دجال کے وقت میری امت کا نگراں اللہ رب العالمین ہے۔ ٣ ؎ : لُد : بیت المقدس کے قریب ایک شہر ہے ، النہایہ فی غریب الحدیث میں ہے کہ لُد ملک شام میں ایک جگہ ہے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطین میں ایک جگہ ہے ، (یہ آج کل اسرائیل کا ایک فوجی اڈہ ہے) ٤ ؎ : ان کے اسلحہ کی مقدار اس قدر زیادہ ہوگی ، یا مسلمانوں کی تعداد اس وقت اس قدر کم ہوگی۔ ٥ ؎ : اس حدیث میں علامات قیامت ، خروج دجال ، نزول عیسیٰ بن مریم ، یاجوج و ماجوج کا ظہور اور ان کے مابین ہونے والے اہم واقعات کا تذکرہ ہے ، دجال کی فتنہ انگیزیوں ، یاجوج و ماجوج کے ذریعہ پیدا ہونے والے مصائب اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں اور ان کی دعاؤں سے ان کے خاتمے کا بیان ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (481) ، تخريج فضائل الشام (25) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2240

【84】

دجال کی صفات کے بارے میں

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے دجال کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : سنو ! تمہارا رب کانا نہیں ہے جب کہ دجال کانا ہے، اس کی داہنی آنکھ انگور کی طرح ابھری ہوئی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث عبداللہ بن عمر کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں سعد، حذیفہ، ابوہریرہ، اسماء، جابر بن عبداللہ، ابوبکرہ، عائشہ، انس، ابن عباس اور فلتان بن عاصم (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٤٨ (٣٤٣٩) ، والفتن ٢٦ (٧١٣٣) ، والتوحید ١٧ (٧٤٠٧) ، صحیح مسلم/الفتن ٢٠ (١٦٩/١٠٠) وانظر أیضا ماتقدم برقم ٢٢٣٥ (تحفة الأشراف : ٨١٢١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2241

【85】

اس بارے میں کہ دجال مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہو سکتا

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دجال مدینہ (کے قریب) آئے گا تو فرشتوں کو اس کی نگرانی کرتے ہوئے پائے گا، اللہ نے چاہا تو اس میں دجال اور طاعون نہیں داخل ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، فاطمہ بنت قیس، اسامہ بن زید، سمرہ بن جندب اور محجن (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٢٧ (٧١٣٤) ، والتوحید ٣١ (٧٤٧٣) (تحفة الأشراف : ١٢٦٩) ، و مسند احمد (٣/١٢٣، ٢٠٢، ٢٠٦، ٢٢٩، ٢٧٧، ٣٩٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2457) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2242

【86】

اس بارے میں کہ دجال مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہو سکتا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایمان یمن کی طرف سے نکلا ہے اور کفر مشرق (پورب) کی طرف سے، سکون و اطمینان والی زندگی بکری والوں کی ہے، اور فخر و ریاکاری فدادین یعنی گھوڑے اور اونٹ والوں میں ہے، جب مسیح دجال احد کے پیچھے آئے گا تو فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے اور شام ہی میں وہ ہلاک ہوجائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٥ (٣٣٠١) ، والمناقب ١ (٣٤٩٩) ، والمغازي ٧٤ (٤٣٨٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢١ (٥٢/٨٥، ٨٦) (تحفة الأشراف : ١٤٠٧٨) ، و مسند احمد (٢/٢٥٨، ٥٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1770) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2243

【87】

اس بارے میں کہ حضرت عیسیٰ دجال کو قتل کریں گے

مجمع بن جاریہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ابن مریم (علیہما السلام) دجال کو باب لد کے پاس قتل کریں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمران بن حصین، نافع بن عتبہ، ابوبرزہ، حذیفہ بن اسید، ابوہریرہ، کیسان، عثمان، جابر، ابوامامہ، ابن مسعود، عبداللہ بن عمرو، سمرہ بن جندب، نواس بن سمعان، عمرو بن عوف اور حذیفہ بن یمان (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٢١٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2457) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2244

【88】

دجال کی صفات کے بارے میں

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی نبی ایسا نہیں تھا جس نے اپنی امت کو کانے اور جھوٹے (دجال) سے نہ ڈرایا ہو، سنو ! وہ کانا ہے، جب کہ تمہارا رب کانا نہیں ہے، اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ «ک» ، «ف» ، «ر» لکھا ہوا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٢٦ (٧١٣١) ، والتوحید ١٧ (٧٤٠٧) ، صحیح مسلم/الفتن ٢٠ (٢٩٣٣) ، سنن ابی داود/ الملاحم ١٤ (٤٣١٦) (تحفة الأشراف : ١٢٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج الطحاوية (762) ، الصحيحة (2457) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2245

【89】

ابن صیاد کے بارے میں

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ حج یا عمرہ میں ابن صائد (ابن صیاد) میرے ساتھ تھا، لوگ آگے چلے گئے اور ہم دونوں پیچھے رہ گئے، جب میں اس کے ساتھ اکیلے رہ گیا تو لوگ اس کے بارے میں جو کہتے تھے اس کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے اور اس سے مجھے خوف محسوس ہونے لگا، چناچہ جب میں سواری سے اترا تو اس سے کہا : اس درخت کے پاس اپنا سامان رکھ دو ، پھر اس نے کچھ بکریوں کو دیکھا تو پیالہ لیا اور جا کر دودھ نکال لایا، پھر میرے پاس دودھ لے آیا اور مجھ سے کہا : ابوسعید ! پیو، لیکن میں نے اس کے ہاتھ کا کچھ بھی پینا پسند نہیں کیا، اس وجہ سے جو لوگ اس کے بارے میں کچھ کہتے تھے (یعنی دجال ہے) چناچہ میں نے اس سے کہا : آج کا دن سخت گرمی کا ہے اس لیے میں آج دودھ پینا بہتر نہیں سمجھتا، اس نے کہا : ابوسعید ! میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک رسی سے اپنے آپ کو اس درخت سے باندھ لوں اور گلا گھونٹ کر مرجاؤں یہ اس وجہ سے کہ لوگ جو میرے بارے میں کہتے ہیں، بدگمانی کرتے ہیں، آپ بتائیے لوگوں سے میری باتیں بھلے ہی چھپی ہوں مگر آپ سے تو نہیں چھپی ہیں ؟ انصار کی جماعت ! کیا آپ لوگ رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے سب سے بڑے جانکار نہیں ہیں ؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے (دجال کے بارے میں) یہ نہیں فرمایا ہے کہ وہ کافر ہے ؟ جب کہ میں مسلمان ہوں، کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ بانجھ ہے ؟ اس کی اولاد نہیں ہوگی، جب کہ میں نے مدینہ میں اپنی اولاد چھوڑی ہے، کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہیں ہوگا ؟ کیا میں مدینہ کا نہیں ہوں ؟ اور اب آپ کے ساتھ چل کر مکہ جا رہا ہوں، ابو سعید خدری کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! وہ ایسی ہی دلیلیں پیش کرتا رہا یہاں تک کہ میں کہنے لگا : شاید لوگ اس کے متعلق جھوٹ بولتے ہیں، پھر اس نے کہا : ابوسعید ! اللہ کی قسم ! اس کے بارے میں آپ کو سچی بات بتاؤں ؟ اللہ کی قسم ! میں دجال کو جانتا ہوں، اس کے باپ کو جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ اس وقت زمین کے کس خطہٰ میں ہے تب میں نے کہا : تمہارے لیے تمام دن تباہی ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ١٩ (٢٩٢٧/٩١) (تحفة الأشراف : ٤٣٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو دلائل تم نے پیش کئے ان کی بنیاد پر تمہارے متعلق میں نے جو حسن ظن قائم کیا تھا تمہاری اس آخری بات کو سن کر میرا حسن ظن جاتا رہا اور مجھے تجھ سے بدگمانی ہوگئی (شاید یہ اس کے ذہنی مریض ہونے کی وجہ سے تھا ، یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کو اس کی اول فول باتوں کی وجہ سے دجال تک سمجھنے لگے) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2246

【90】

ابن صیاد کے بارے میں

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ابن صائد سے مدینہ کے کسی راستہ میں ملے، آپ نے اسے پکڑ لیا، وہ ایک یہودی لڑکا تھا، اس کے سر پر ایک چوٹی تھی، اس وقت آپ کے ساتھ ابوبکر اور عمر (رض) بھی تھے، آپ نے فرمایا : کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ ، اس نے کہا : کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لایا ہوں ، نبی اکرم ﷺ نے پوچھا : تم کیا دیکھتے ہو ؟ ١ ؎ اس نے کہا : پانی کے اوپر ایک عرش دیکھتا ہوں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم سمندر کے اوپر ابلیس کا عرش دیکھتے ہو ، آپ نے فرمایا : اور بھی کچھ دیکھتے ہو ؟ اس نے کہا : ایک سچا اور دو جھوٹے یا دو جھوٹے اور ایک سچے کو دیکھتا ہوں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس پر معاملہ مشتبہ ہوگیا ہے ، پھر آپ نے اسے چھوڑ دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں عمر، حسین بن علی، ابن عمر، ابوذر، ابن مسعود، جابر اور حفصہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ١٩ (٢٩٢٥/٨٧) (تحفة الأشراف : ٤٣٢٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے ، اور جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ، اس میں سے کیا دیکھتے ہو ؟۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2247

【91】

ابن صیاد کے بارے میں

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دجال کے باپ اور ماں تیس سال تک اس حال میں رہیں گے کہ ان کے ہاں کوئی لڑکا پیدا نہیں ہوگا، پھر ایک کانا لڑکا پیدا ہوگا جس میں نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوگا، اس کی آنکھیں سوئیں گی مگر دل نہیں سوئے گا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کے والدین کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : اس کا باپ دراز قد اور دبلا ہوگا اور اس کی ناک چونچ کی طرح ہوگی، اس کی ماں بھاری بھر کم اور لمبے ہاتھ والی ہوگی ، ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں : ہم نے مدینہ کے اندر یہود میں ایک ایسے ہی لڑکے کے بارے میں سنا، چناچہ میں اور زبیر بن عوام چلے یہاں تک کہ اس کے والدین کے پاس گئے تو وہ ویسے ہی تھے، جیسا رسول اللہ ﷺ نے بتایا تھا، ہم نے پوچھا : کیا تمہارا کوئی لڑکا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہمارے ہاں تیس سال تک کوئی لڑکا پیدا نہیں ہوا، پھر ہم سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس میں نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہے، اس کی آنکھیں سوتی ہیں مگر اس کا دل نہیں سوتا، ہم ان کے پاس سے نکلے تو وہ لڑکا دھوپ میں ایک موٹی چادر پر لیٹا تھا اور کچھ گنگنا رہا تھا، پھر اس نے اپنے سر سے کپڑے ہٹایا اور پوچھا : تم دونوں نے کیا کہا ہے ؟ ہم نے کہا : ہم نے جو کہا ہے کیا تم نے اسے سن لیا ؟ اس نے کہا : ہاں، میری آنکھیں سوتی ہیں، مگر دل نہیں سوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٦٨٨) (ضعیف) (سند میں ” علی بن زید بن جدعان “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5503 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6445) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2248

【92】

ابن صیاد کے بارے میں

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، اس وقت وہ بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس کھیل رہا تھا، وہ ایک چھوٹا بچہ تھا اس لیے اسے آپ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہوسکا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر مارا، پھر فرمایا : کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے نبی اکرم ﷺ سے کہا : کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ہوں ، پھر نبی اکرم ﷺ نے دریافت کیا : تمہارے پاس (غیب کی) کون سی چیز آتی ہے ؟ ابن صیاد نے کہا : میرے پاس ایک سچا اور ایک جھوٹا آتا ہے، پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہارے اوپر تیرا معاملہ مشتبہ ہوگیا ہے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہارے لیے (دل میں) ایک بات چھپاتا ہوں اور آپ نے آیت : «يوم تأتي السماء بدخان مبين» ١ ؎ چھپالی، ابن صیاد نے کہا : وہ (چھپی ہوئی چیز) «دخ» ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پھٹکار ہو تجھ پر تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے گا ، عمر (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجئیے میں اس کی گردن اڑا دوں، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر وہ حقیقی دجال ہے تو تم اس پر غالب نہیں آسکتے اور اگر وہ نہیں ہے تو اسے قتل کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے ۔ عبدالرزاق کہتے ہیں : «حقا» سے آپ کی مراد دجال ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٧٩ (١٣٥٤) ، والجھاد ١٧٨ (٣٠٥٥) ، والأدب ٩٧ (٦٦١٨) ، صحیح مسلم/الفتن ١٩ (٢٩٣٠) ، سنن ابی داود/ الملاحم ١٦ (٤٣٢٩) (تحفة الأشراف : ٦٩٣٢) ، و مسند احمد (٢/١٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔ ٢ ؎ : بعض صحابہ کرام یہ سمجھتے تھے کہ یہی وہ مسیح دجال ہے جس کے متعلق قرب قیامت میں ظہور کی خبر دی گئی ہے ، لیکن فاطمہ بنت قیس کی روایت سے جس میں تمیم داری نے اپنے سمندری سفر کا حال بیان کیا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ قطعیت اس بات میں ہے کہ ابن صیاد دجال اکبر نہیں بلکہ کوئی اور ہے ، ابن صیاد تو ان دجاجلہ ، کذابین میں سے ایک ہے جن کے ظہور کی رسول اللہ ﷺ نے خبر دی تھی ، اور ان میں سے اکثر کا ظہور ہوچکا ہے ، رہے وہ صحابہ جنہوں نے وثوق کے ساتھ قسم کھا کر ابن صیاد کو دجال کہا حتیٰ کہ آپ ﷺ کے سامنے بھی اسے دجال کہا گیا اور آپ خاموش رہے تو یہ سب تمیم داری والے واقعہ سے پہلے کی باتیں ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2249

【93】

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آج روئے زمین پر جو بھی زندہ ہے سو سال بعد نہیں رہے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر، ابو سعید خدری اور بریدہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٣ (٢٥٣٨) (تحفة الأشراف : ٢٣٣١) ، و مسند احمد (٣/٣٠٥، ٣١٤، ٣٢٢، ٣٤٥، ٣٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایک قرن ختم ہوجائے گا اور دوسرا قرن شروع ہوجائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2250

【94】

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی آخری عمر میں ایک رات ہمیں عشاء پڑھائی، جب آپ سلام پھیر چکے تو کھڑے ہوئے اور فرمایا : کیا تم نے اپنی اس رات کو دیکھا اس وقت جتنے بھی آدمی اس روئے زمین پر ہیں سو سال گزر جانے کے بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا ۔ ابن عمر (رض) کہتے ہیں : یہ سن کر لوگ مغالطے میں پڑگئے کہ یہ تو رسول اللہ ﷺ سے ایسی حدیث بیان کرتے ہیں کہ سو سال کے بعد قیامت آ جائے گی، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ جو آج باقی ہیں ان میں سے کوئی روئے زمین پر باقی نہیں رہے گا، یعنی اس نسل اور قرن کے لوگ ختم ہوجائیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤١ (١١٦) ، والمواقیت الصلاة ٢٠ (٦٠١) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٣ (٢٥٣٧) ، سنن ابی داود/ الملاحم ١٨ (٤٣٤٨) (تحفة الأشراف : ٦٩٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2251

【95】

ہوا کو برا کہنے کی ممانعت

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہوا کو گالی مت دو ، اگر اس میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھو تو یہ دعا پڑھو «اللهم إنا نسألک من خير هذه الريح وخير ما فيها وخير ما أمرت به ونعوذ بک من شر هذه الريح وشر ما فيها وشر ما أمرت به» یعنی اے اللہ ! ہم تجھ سے اس ہوا کی بہتری مانگتے ہیں اور وہ بہتری جو اس میں ہے اور وہ بہتری جس کی یہ مامور ہے، اور تیری پناہ مانگتے ہیں اس ہوا کی شر سے اور اس شر سے جو اس میں ہے اور اس شر سے جس کی یہ مامور ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عائشہ، ابوہریرہ، عثمان، انس، ابن عباس اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٧١ (٩٣٣، ٩٣٦) (تحفة الأشراف : ٥٦) ، و مسند احمد (٥/١٢٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (1518) ، الصحيحة (2756) ، الروض النضير (1107) ، الکلم الطيب (رقم // 154 // عن عائشة) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2252

【96】

فاطمہ بنت قیس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ منبر پر چڑھے، ہنسے پھر فرمایا : تمیم داری نے مجھ سے ایک بات بیان کی ہے جس سے میں بےحد خوش ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم سے بھی بیان کروں، انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ فلسطین کے کچھ لوگ سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوئے، وہ کشتی (طوفان میں پڑنے کی وجہ سے) کسی اور طرف چلی گئی حتیٰ کہ انہیں سمندر کے کسی جزیرہ میں ڈال دیا، اچانک ان لوگوں نے بہت کپڑے پہنے ایک رینگنے والی چیز کو دیکھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، ان لوگوں نے پوچھا : تم کیا ہو ؟ اس نے کہا : میں جساسہ (جاسوسی کرنے والی) ہوں، ان لوگوں نے کہا : ہمیں (اپنے بارے میں) بتاؤ، اس نے کہا : نہ میں تم لوگوں کو کچھ بتاؤں گی اور نہ ہی تم لوگوں سے کچھ پوچھوں گی، البتہ تم لوگ بستی کے آخر میں جاؤ وہاں ایک آدمی ہے، جو تم کو بتائے گا اور تم سے پوچھے گا، چناچہ ہم لوگ بستی کے آخر میں آئے تو وہاں ایک آدمی زنجیر میں بندھا ہوا تھا اس نے کہا : مجھے زغر (ملک شام کی ایک بستی کا نام ہے) کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا : بھرا ہوا ہے اور چھلک رہا ہے، اس نے کہا : مجھے بیسان کی کھجوروں کے بارے میں بتاؤ جو اردن اور فلسطین کے درمیان ہے، کیا اس میں پھل آیا ؟ ہم نے کہا : ہاں، اس نے کہا : مجھے نبی (آخرالزماں ﷺ ) کے بارے میں بتاؤ کیا وہ مبعوث ہوئے ؟ ہم نے کہا : ہاں، اس نے کہا : بتاؤ لوگ ان کی طرف کیسے جاتے ہیں ؟ ہم نے کہا : تیزی سے، اس نے زور سے چھلانگ لگائی حتیٰ کہ آزاد ہونے کے قریب ہوگیا، ہم نے پوچھا : تم کون ہو ؟ اس نے کہا کہ وہ دجال ہے اور طیبہ کے علاوہ تمام شہروں میں داخل ہوگا، طیبہ سے مراد مدینہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث شعبہ کے واسطہ سے قتادہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اسے کئی لوگوں نے شعبی کے واسطہ سے فاطمہ بنت قیس سے روایت کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ٢٤ (٢٩٤٢) ، سنن ابی داود/ الملاحم ١٥ (٤٣٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٣ (٤٠٧٤) (تحفة الأشراف : ١٨٠٢٤) ، و مسند احمد (٦/٣٧٤، ٤١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث جساسہ کی تفصیل کے لیے صحیح مسلم میں کتاب الفتن کا مطالعہ کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح قصة نزول عيسى عليه السلام صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2253

【97】

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے نفس کو ذلیل کرے ، صحابہ نے عرض کیا : اپنے نفس کو کیسے ذلیل کرے گا ؟ آپ نے فرمایا : اپنے آپ کو ایسی مصیبت سے دو چار کرے جسے جھیلنے کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٢١ (٤٠١٦) (تحفة الأشراف : ٣٣٠٥) ، و مسند احمد (٥/٤٠٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4016) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2254

【98】

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ، صحابہ نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے مظلوم ہونے کی صورت میں تو اس کی مدد کی لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کیسے کروں ؟ آپ نے فرمایا : اسے ظلم سے باز رکھو، اس کے لیے یہی تمہاری مدد ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٤ (٢٤٤٣، ٢٤٤٤) ، والإکراہ ٧ (٦٩٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٥١) ، و مسند احمد (٣/٩٩، ٢٠١، ٢٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2449) ، الروض النضير (32) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2255

【99】

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے بادیہ (صحراء و بیابان) کی سکونت اختیار کی وہ سخت طبیعت والا ہوگیا، جس نے شکار کا پیچھا کیا وہ غافل ہوگیا اور جو بادشاہ کے دروازے پر آیا وہ فتنوں کا شکار ہوگیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ابن عباس (رض) کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف ثوری کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصید ٤ (٢٨٥٩) ، سنن النسائی/الصید ٢٤ (٤٣١٤) (تحفة الأشراف : ٦٥٣٩) ، و مسند احمد (١/٣٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ صحراء و بیابان کی سکونت اختیار کرنے والا اگر جمعہ و جماعت میں حاضر نہیں ہوتا ہے اور علماء کی مجالس سے دور رہتا ہے تو ایسا شخص تمدن و تہذیب سے دور ، سخت طبیعت والا ہوگا ، اسی طرح جو لہو و لعب کی غرض سے شکار کا عادی ہوا وہ غفلت میں مبتلا ہوجائے گا ، البتہ جو رزق کی خاطر شکار کا ارادہ رکھتا ہو تو یہ عمل اس کے لیے جائز ہے۔ کیونکہ بعض صحابہ کرام نے بھی یہ عمل اپنا یا ہے ، بادشاہوں کے دربار میں حاضری دینے والا اگر مداہنت سے کام لیتا ہے تو فتنہ میں پڑجائے گا ، البتہ جو بادشاہوں کے پاس رہ کر انہیں نصیحت کرے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے تو یہ اس کے لیے افضل جہاد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3701 / التحقيق الثانی) ، صحيح أبي داود (2547) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2256

【100】

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : (دشمنوں پر) تمہاری مدد کی جائے گی، تمہیں مال و دولت ملے گی اور تمہارے لیے قلعے کے دروازے کھولے جائیں گے، پس تم میں سے جو شخص ایسا وقت پائے اسے چاہیئے کہ وہ اللہ سے ڈرے، بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ٩٣٥٩) (ویأتي الجزء الأخیر منہ برقم : ٢٦٥٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1383) ، وانظر الحديث (2809) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2257

【101】

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے پوچھا : رسول اللہ ﷺ نے فتنہ کے بارے میں جو فرمایا ہے اسے کس نے یاد رکھا ہے ؟ حذیفہ (رض) نے کہا : میں نے یاد رکھا ہے، حذیفہ (رض) نے بیان کیا : آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل، مال، اولاد اور پڑوسی کے سلسلے میں ہوگا اسے نماز، روزہ، زکاۃ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں ١ ؎، عمر (رض) نے کہا : میں تم سے اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہا ہوں، بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھ رہا ہوں جو سمندر کی موجوں کی طرح موجیں مارے گا، انہوں نے کہا : امیر المؤمنین ! آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بند دروازہ ہے، عمر نے پوچھا : کیا وہ دروازہ کھولا جائے گا یا توڑ دیا جائے گا ؟ انہوں نے کہا : توڑ دیا جائے گا، عمر (رض) نے کہا : تب تو قیامت تک بند نہیں ہوگا۔ حماد کی روایت میں ہے کہ ابو وائل شقیق بن سلمہ نے کہا : میں نے مسروق سے کہا کہ حذیفہ سے اس دروازہ کے بارے میں پوچھو انہوں نے پوچھا تو کہا : وہ دروازہ عمر ہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٤ (٥٢٥) ، والزکاة ٢٣ (١٤٣٥) ، والصوم ٣ (١٨٩٥) ، والمناقب ٢٥ (٣٥٨٦) ، والفتن ١٧ (٧٠٩٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦٥ (١٤٤) ، والفتن ٧ (١٤٤/٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٩ (٣٥٥٥) (تحفة الأشراف : ٣٣٣٧) ، و مسند احمد (٥/٣٨٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ گھر کی ذمہ داری سنبھالنے والے سے اس کے اہل ، مال ، اولاد اور پڑوسی کے سلسلہ میں ادائے حقوق کے ناحیہ سے جو کوتاہیاں ہوجاتی ہیں تو نماز ، روزہ ، صدقہ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر وغیرہ یہ سب کے سب ان کے لیے کفارہ بنتے ہیں۔ ٢ ؎ : حذیفہ (رض) نے جو کچھ بیان کیا عمر (رض) کی شہادت کے بعد حقیقت میں اسی طرح پیش آیا ، یعنی فتنوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا ، اور امن وامان نام کی کوئی چیز دنیا میں باقی نہیں رہی ، چناچہ ہر کوئی سکون و اطمینان کا متلاشی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3555) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2258

【102】

کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف نکلے اور ہم لوگ نو آدمی تھے، پانچ اور چار، ان میں سے کوئی ایک گنتی والے عرب اور دوسری گنتی والے عجم تھے ١ ؎ آپ نے فرمایا : سنو : کیا تم لوگوں نے سنا ؟ میرے بعد ایسے امراء ہوں گے جو ان کے پاس جائے ان کی جھوٹی باتوں کی تصدیق کرے اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کرے، وہ مجھ سے نہیں ہے اور نہ میں اس سے ہوں اور نہ وہ میرے حوض پر آئے گا، اور جو شخص ان کے پاس نہ جائے، ان کے ظلم پر ان کی مدد نہ کرے اور نہ ان کی جھوٹی باتوں کی تصدیق کرے، وہ مجھ سے ہے، اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے حوض پر آئے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح غریب ہے، ٢ - ہم اسے مسعر کی روایت سے اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیعة ٣٥ (٤٢١٢) ، و ٣٦ (٤٢١٣) (تحفة الأشراف : ١١١١٠) ، و مسند احمد (٤/٢٤٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی راوی کو شک ہے کہ عربوں کی تعداد پانچ تھی ، اور عجمیوں کی چار یا اس کے برعکس تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مضی بزيادة فی متنه (617) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2259 ہارون کہتے ہیں کہ ہم سے محمد بن عبدالوہاب نے «عن سفيان عن أبي حصين عن الشعبي عن عاصم العدوي عن کعب بن عجرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح مضی بزيادة فی متنه (617) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2259 ہارون کہتے ہیں کہ ہم ہم سے محمد نے «عن سفيان عن زبيد عن إبراهيم وليس بالنخعي عن کعب بن عجرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے مسعر کی حدیث جیسی حدیث بیان کی ہے، اور ابراہیم سے مراد ابراہیم نخعی نہیں ہیں۔ اس باب میں حذیفہ اور ابن عمر (رض) سے بھی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انطر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١١١٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مضی بزيادة فی متنه (617) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2259

【103】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان میں اپنے دین پر صبر کرنے والا آدمی ایسا ہوگا جیسے ہاتھ میں چنگاری پکڑنے والا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢ - عمر بن شاکر ایک بصریٰ شیخ ہیں، ان سے کئی اہل علم نے حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ہاتھ پر آگ کا انگارہ رکھنے والا بےانتہا مشقت و تکلیف برداشت کرتا ہے اسی طرح اس زمانے میں اپنے دین کی حفاظت اسی وقت ممکن ہوگی جب ثبات قدمی اور صبر عظیم سے کام لیا جائے گا ، کیونکہ دین پر قائم رہنے والا ایسی مصیبت میں گرفتار ہوگا جیسے چنگاری کو ہاتھ پر رکھنے والا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (957) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2260

【104】

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب میری امت اکڑ اکڑ کر چلنے لگے اور بادشاہوں کی اولاد یعنی فارس و روم کے بادشاہوں کی اولاد ان کی خدمت کرنے لگے تو اس وقت ان کے برے لوگ ان کے اچھے لوگوں پر مسلط کردیئے جائیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ابومعاویہ نے بھی اسے یحییٰ بن سعید انصاری کے واسطہ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧٢٥٢) (صحیح) (سند میں موسیٰ بن عبیدہ، ضعیف ہیں اگلی سند کی متابعت سے یہ حدیث بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (957) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2261

【105】

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک چیز سے بچا لیا جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن رکھا تھا، جب کسریٰ ہلاک ہوگیا تو آپ نے پوچھا : ان لوگوں نے کسے خلیفہ بنایا ہے ؟ صحابہ نے کہا : اس کی لڑکی کو، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے عورت کو اپنا حاکم بنایا ، جب عائشہ (رض) آئیں یعنی بصرہ کی طرف تو اس وقت میں نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث یاد کی ١ ؎، چناچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بچا لیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٨٢ (٤٤٢٥) ، والتفن ١٨ (٧٠٩٩) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٨ (٥٣٩٠) (تحفة الأشراف : ١١٦٦٠) ، و مسند احمد (٥/٣٨، ٣٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے اشارہ جنگ جمل کی طرف ہے جو قاتلین عثمان سے بدلہ لینے کی خاطر پیش آئی تھی ، عثمان (رض) جب شہید کردیے گئے اور علی (رض) کے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کرلی ، پھر طلحہ اور زبیر (رض) مکہ کی طرف روانہ ہوئے وہاں ان کی ملاقات عائشہ (رض) سے ہوئی جو حج کے ارادے سے گئی تھیں ، پھر ان سب کی رائے متفق ہوگئی کہ عثمان (رض) کے خون کا بدلہ لینے کے لیے لوگوں کو آمادہ کرنے کی غرض سے بصرہ چلیں ، علی (رض) کو جب یہ خبر پہنچی تو وہ بھی پوری تیاری کے ساتھ پہنچے ، پھر حادثہ جمل پیش آیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2456) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2262

【106】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کچھ بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس آ کر ٹھہرے اور فرمایا : کیا میں تمہارے اچھے لوگوں کو تمہارے برے لوگوں میں سے نہ بتادوں ؟ لوگ خاموش رہے، آپ نے تین مرتبہ یہی فرمایا، ایک آدمی نے کہا : اللہ کے رسول ! کیوں نہیں ؟ آپ ہمارے اچھے لوگوں کو برے لوگوں میں سے بتا دیجئیے، آپ نے فرمایا : تم میں بہتر وہ ہے جس سے خیر کی امید رکھی جائے اور جس کے شر سے مامون (بےخوف) رہا جائے اور تم میں سے برا وہ ہے جس سے خیر کی امید نہ رکھی جائے اور جس کے شر سے مامون (بےخوف) نہ رہا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٠٧٦) ، وانظر مسند احمد (٢/٣٦٨، ٣٧٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4993) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2263

【107】

عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں تمہارے اچھے حکمرانوں اور برے حکمرانوں کے بارے میں نہ بتادوں ؟ اچھے حکمراں وہ ہیں جن سے تم محبت کرو گے اور وہ تم سے محبت کریں گے، تم ان کے لیے دعائیں کرو گے اور وہ تمہارے لیے دعائیں کریں گے، تمہارے برے حکمراں وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو گے اور وہ تم سے نفرت کریں گے تم ان پر لعنت بھیجو گے اور وہ تم پر لعنت بھیجیں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف محمد بن ابوحمید کی روایت سے جانتے ہیں، اور محمد بن ابوحمید حافظے کے تعلق سے ضعیف قرار دیے گئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٣٩٩) (صحیح) (سند میں محمد بن ابی حمید ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے الصحیحة رقم : ٩٠٧ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کچھ ایسے حکمراں ہوں گے جو عدل و انصاف سے کام لیں گے ، ان کے اور تمہارے درمیان محبت قائم ہوگی وہ تمہارے خیرخواہ اور تم ان کے خیرخواہ ہو گے ، اور کچھ ایسے حکمراں ہوں گے جو ظلم و زیادتی میں بےمثال ہوں گے ، ان میں شر کا پہلو زیادہ غالب ہوگا ، اسی لیے تم ان سے اور وہ تم سے بغض رکھیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (907) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2264

【108】

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عنقریب تمہارے اوپر ایسے حکمراں ہوں گے جن کے بعض کاموں کو تم اچھا جانو گے اور بعض کاموں کو برا جانو گے، پس جو شخص ان کے برے اعمال پر نکیر کرے وہ مداہنت اور نفاق سے بری رہا اور جس نے دل سے برا جانا تو وہ محفوظ رہا، لیکن جو ان سے راضی ہو اور ان کی اتباع کرے (وہ ہلاک ہوگیا) ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة (١٨٥٤) ، سنن ابی داود/ السنة ٣٠ (٤٧٦٠) (تحفة الأشراف : ١٨١٦٦) ، و مسند احمد (٦/٢٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : منکر کا انکار اگر زبان سے ہے تو ایسا شخص نفاق سے بری ہے ، اور دل سے ناپسند کرنے والا اس منکر کے شر اور وبال سے محفوظ رہے گا ، لیکن جو پسند کرے اور اس سے راضی ہو تو وہ منکر کرنے والوں کے ساتھ ہے ، یعنی جس سزا کے وہ مستحق ہوں گے اس سزا کا یہ بھی مستحق ہوگا ، منکر انجام دینے والے بادشاہوں سے اگر وہ نماز کے پابند ہوں قتال کرنے سے اس لیے منع کیا گیا تاکہ فتنہ سے محفوظ رہ سکیں ، اور امت اختلاف و انتشار کا شکار نہ ہو ، جب کہ نماز کی پابندی نہ کرنے والا تو کافر ہے ، اس لیے اس سے قتال جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2265

【109】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تمہارے حکمراں، تمہارے اچھے لوگ ہوں، اور تمہارے مالدار لوگ، تمہارے سخی لوگ ہوں اور تمہارے کام باہمی مشورے سے ہوں تو زمین کی پیٹھ تمہارے لیے اس کے پیٹ سے بہتر ہے، اور جب تمہارے حکمراں تمہارے برے لوگ ہوں، اور تمہارے مالدار تمہارے بخیل لوگ ہوں اور تمہارے کام عورتوں کے ہاتھ میں چلے جائیں تو زمین کا پیٹ تمہارے لیے اس کی پیٹھ سے بہتر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف صالح المری کی روایت سے جانتے ہیں، اور صالح المری کی حدیث میں ایسے غرائب ہیں جن کی روایت کرنے میں وہ منفرد ہیں، کوئی ان کی متابعت نہیں کرتا، حالانکہ وہ بذات خود نیک آدمی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٦٢٠) (ضعیف) (سند میں صالح بن بشیر المری ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5368 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (646) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2266

【110】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم لوگ ایسے زمانہ میں ہو کہ جو اس کا دسواں حصہ چھوڑ دے جس کا اسے کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو وہ ہلاک ہوجائے گا، پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ تم میں سے جو اس کے دسویں حصہ پر عمل کرے جس کا اسے کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو وہ نجات پا جائے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف نعیم بن حماد کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ سفیان بن عیینہ سے روایت کرتے ہیں، ٢ - اس باب میں ابوذر اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٧٢١) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” نعیم بن حماد “ حافظہ کے سخت ضعیف ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے الصحیحة رقم : ٢٥١٠، وتراجع الالبانی ٢٢٤ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس وقت جب کہ دین کا غلبہ ہے اس کے معاونین کی کثرت ہے ایسے وقت میں شرعی امور میں سے دسویں حصہ کا ترک کرنا اور اسے چھوڑ دینا باعث ہلاکت ہے ، لیکن وہ زمانہ جو فسق و فجور سے بھرا ہوا ہوگا ، اسلام کمزور اور کفر غالب ہوگا ، اس وقت دین کے معاونین قلت میں ہوں گے تو ایسے وقت میں احکام شرعیہ کے دسویں حصہ پر عمل کرنے والا بھی کامیاب و کامران ہوگا ، لیکن اس دسویں حصہ میں ارکان اربعہ ضرور شامل ہوں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (684) ، المشکاة (179) ، الروض النضير (1076) // ضعيف الجامع الصغير (2038) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2267

【111】

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا : فتنے کی سر زمین وہاں ہے اور آپ نے مشرق (پورب) کی طرف اشارہ کیا یعنی جہاں سے شیطان کی شاخ یا سینگ نکلتی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ١٦ (٧٩٠٢-٧٠٩٤) ، صحیح مسلم/الفتن ١٦ (٢٩٠٥) (تحفة الأشراف : ٦٩٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے فتنہ کا ظہور مدینہ کی مشرقی جہت (عراق) سے ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج فضائل الشام / الحديث الثامن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2268

【112】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خراسان سے کالے جھنڈے نکلیں گے، ان جھنڈوں کو کوئی چیز پھیر نہیں سکے گی یہاں تک کہ (فلسطین کے شہر) ایلیاء میں یہ نصب کیے جائیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٢٨٩) (ضعیف الإسناد) (سند میں رشدین بن سعد ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (6420) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2269