41. فضائل قرآن کا بیان۔

【1】

سورت فاتحہ کی فضیلت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابی بن کعب (رض) کے پاس سے گزرے وہ نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے فرمایا : اے ابی (سنو) وہ (آواز سن کر) متوجہ ہوئے لیکن جواب نہ دیا، نماز جلدی جلدی پوری کی، پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا : السلام علیک یا رسول اللہ ! (اللہ کے رسول آپ پر سلامتی نازل ہو) ، رسول اللہ ﷺ نے کہا : وعلیک السلام (تم پر بھی سلامتی ہو) ابی ! جب میں نے تمہیں بلایا تو تم میرے پاس کیوں نہ حاضر ہوئے ؟ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا : (اب تک) جو وحی مجھ پر نازل ہوئی ہے اس میں تجھے کیا یہ آیت نہیں ملی «استجيبوا لله وللرسول إذا دعاکم لما يحييكم» اے ایمان والو ! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ، جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں (انفال ٢٤ ) ، انہوں نے کہا : جی ہاں، اور آئندہ إن شاء اللہ ایسی بات نہ ہوگی۔ آپ نے فرمایا : کیا تمہیں پسند ہے کہ میں تمہیں ایسی سورت سکھاؤں جیسی سورت نہ تو رات میں نازل ہوئی نہ انجیل میں اور نہ زبور میں اور نہ ہی قرآن میں ؟ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! (ضرور سکھائیے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز میں تم (قرآن) کیسے پڑھتے ہو ؟ تو انہوں نے ام القرآن (سورۃ فاتحہ) پڑھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ تورات میں، انجیل میں، زبور میں (حتیٰ کہ) قرآن اس جیسی سورت نازل نہیں ہوئی ہے۔ یہی سبع مثانی ٢ ؎ (سات آیتیں) ہیں اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں انس بن مالک اور ابوسعید بن معلی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٠٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حکم ربانی کی بنا پر صحابہ پر واجب تھا کہ آپ ﷺ کی پکار کا جواب دیں خواہ نماز ہی میں کیوں نہ ہو ، لیکن ان صحابی نے یہ سمجھا تھا کہ یہ حکم نماز سے باہر کے لیے ہے ، اس لیے جواب نہیں دیا تھا۔ ٢ ؎ : چونکہ اس میں سات آیتیں ہیں اس لیے اسے سبع کہا گیا ، اور ہر نماز میں یہ سورت دہرائی جاتی ہے ، اس لیے اسے مثانی کہا گیا ، یا مثانی اس لیے کہا گیا کہ اس کا نزول دو مرتبہ ہوا ایک مکہ میں دوسرا مدینہ میں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1310) ، المشکاة (2142 / التحقيق الثاني) ، التعليق الرغيب (2 / 216) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2875

【2】

سورت بقرہ اور آیة الکرسی کی فضیلت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گنتی کے کچھ لشکری بھیجے (بھیجتے وقت) ان سے (قرآن) پڑھوایا، تو ان میں سے ہر ایک نے جسے جتنا قرآن یاد تھا پڑھ کر سنایا۔ جب ایک نوعمر نوجوان کا نمبر آیا تو آپ نے اس سے کہا : اے فلاں ! تمہارے ساتھ کیا ہے یعنی تمہیں کون کون سی سورتیں یاد ہیں ؟ اس نے کہا : مجھے فلاں فلاں اور سورة البقرہ یاد ہے۔ آپ نے کہا : کیا تمہیں سورة البقرہ یاد ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ نے فرمایا : جاؤ تم ان سب کے امیر ہو ۔ ان کے شرفاء میں سے ایک نے کہا : اللہ کے رسول ! قسم اللہ کی ! میں نے سورة البقرہ صرف اسی ڈر سے یاد نہ کی کہ میں اسے (نماز تہجد میں) برابر پڑھ نہ سکوں گا۔ آپ نے فرمایا : قرآن سیکھو، اسے پڑھو اور پڑھاؤ۔ کیونکہ قرآن کی مثال اس شخص کے لیے جس نے اسے سیکھا اور پڑھا، اور اس پر عمل کیا اس تھیلی کی ہے جس میں مشک بھری ہوئی ہو اور چاروں طرف اس کی خوشبو پھیل رہی ہو، اور اس شخص کی مثال جس نے اسے سیکھا اور سو گیا اس کا علم اس کے سینے میں بند رہا۔ اس تھیلی کی سی ہے جو مشک بھر کر سیل بند کردی گئی ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس حدیث کو لیث بن سعد نے سعید مقبری سے، اور سعید نے ابواحمد کے آزاد کردہ غلام عطا سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے، اور انہوں نے اس روایت میں ابوہریرہ کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٦ (٢١٧) (تحفة الأشراف : ١٤٢٤٢) (ضعیف) (سند میں عطاء مولی ابی احمد لین الحدیث راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (217) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (39) ، المشکاة (2143) ، ضعيف الجامع الصغير (2452) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2876

【3】

سورت بقرہ اور آیة الکرسی کی فضیلت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ وہ گھر جس میں سورة البقرہ پڑھی جاتی ہے اس میں شیطان داخل نہیں ہوتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٩ (٢٨٠) ، سنن ابی داود/ المناسک ١٠٠ (الشق الأول فحسب، وفي سیاق آخر) (تحفة الأشراف : ١٢٧٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح أحكام الجنائز (212) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2877

【4】

سورت بقرہ اور آیة الکرسی کی فضیلت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر چیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے ١ ؎ اور قرآن کی چوٹی سورة البقرہ ہے، اس سورة میں ایک آیت ہے یہ قرآن کی ساری آیتوں کی سردار ہے اور یہ آیت آیۃ الکرسی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف حکیم بن جبیر کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - حکیم بن جبیر کے بارے میں شعبہ نے کلام کیا ہے اور انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٣١٣) (ضعیف) (سند میں حکیم بن جبیر ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس میں کوئی چیز نمایاں ہوتی ہے جو کوہان کی حیثیت رکھتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1348) ، التعليق الرغيب (2 / 218) // ضعيف الجامع الصغير (4725) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2878

【5】

سورت بقرہ اور آیة الکرسی کی فضیلت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے سورة مومن کی (ابتدائی تین آیات) «حم» سے «إليه المصير» تک اور آیت الکرسی صبح ہی صبح (بیدار ہونے کے بعد ہی) پڑھی تو ان دونوں کے ذریعہ شام تک اس کی حفاظت کی جائے گی، اور جس نے ان دونوں کو شام ہوتے ہی پڑھا تو ان کے ذریعہ اس کی صبح ہونے تک حفاظت کی جائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - بعض اہل علم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر بن ابی ملیکہ کے حافظے کے سلسلے میں کلام کیا ہے، ٣ - زرارہ بن مصعب کا پورا نام زرارہ بن مصعب بن عبدالرحمٰن بن عوف ہے، اور وہ ابومصعب مدنی کے دادا ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٩٥) (ضعیف) (سند میں عبد الرحمن ملی کی ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2144 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (5769) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2879

【6】

سورت بقرہ اور آیة الکرسی کی فضیلت کے متعلق

ابوایوب انصاری (رض) سے روایت ہے کہ ان کا اپنا ایک احاطہٰ تھا اس میں کھجوریں رکھی ہوئی تھیں۔ جن آتا تھا اور اس میں سے اٹھا لے جاتا تھا، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس بات کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا : جاؤ جب دیکھو کہ وہ آیا ہوا ہے تو کہو : بسم اللہ (اللہ کے نام سے) رسول اللہ ﷺ کی بات مان ، ابوذر (رض) نے اسے پکڑ لیا تو وہ قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا کہ مجھے چھوڑ دو ، دوبارہ وہ ایسی حرکت نہیں کرے گا، چناچہ انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے پوچھا، تمہارے قیدی نے کیا کیا ؟ ! انہوں نے کہا : اس نے قسمیں کھائیں کہ اب وہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے گا۔ آپ نے فرمایا : اس نے جھوٹ کہا : وہ جھوٹ بولنے کا عادی ہے ، راوی کہتے ہیں : انہوں نے اسے دوبارہ پکڑا، اس نے پھر قسمیں کھائیں کہ اسے چھوڑ دو ، وہ دوبارہ نہ آئے گا تو انہوں نے اسے (دوبارہ) چھوڑ دیا، پھر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے پوچھا : تمہارے قیدی نے کیا کیا ؟ انہوں نے کہا : اس نے قسم کھائی کہ وہ پھر لوٹ کر نہ آئے گا۔ آپ نے فرمایا : اس نے جھوٹ کہا، وہ تو جھوٹ بولنے کا عادی ہے ۔ (پھر جب وہ آیا) تو انہوں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا : اب تمہیں نبی اکرم ﷺ کے پاس لے جائے بغیر نہ چھوڑوں گا۔ اس نے کہا : مجھے چھوڑ دو ، میں تمہیں ایک چیز یعنی آیت الکرسی بتارہا ہوں۔ تم اسے اپنے گھر میں پڑھ لیا کرو۔ تمہارے قریب شیطان نہ آئے گا اور نہ ہی کوئی اور آئے گا ، پھر ابوذر (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے پوچھا : تمہارے قیدی نے کیا کیا ؟ تو انہوں نے آپ کو وہ سب کچھ بتایا جو اس نے کہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس نے بات تو صحیح کہی ہے، لیکن وہ ہے پکا جھوٹا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابی بن کعب (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٤٧٣) ، وانظر مسند احمد (٥/٤٢٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 220) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2880

【7】

سورت بقرہ کی آخری آیات کی فضیلت

ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے رات میں سورة البقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اس کے لیے کافی ہوگئیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ١٠ (٥٠٠٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٣ (٨٠٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٢٦ (١٣٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٣ (١٣٦٩) (تحفة الأشراف : ٩٩٩٩) ، و مسند احمد (٤/١١٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٠ (١٥٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ دونوں آیتیں ہر برائی اور شیطان کے شر سے اس کی حفاظت کریں گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1263 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2881

【8】

سورت بقرہ کی آخری آیات کی فضیلت

نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی، اس کتاب کی دو آیتیں نازل کیں اور انہیں دونوں آیتوں پر سورة البقرہ کو ختم کیا، جس گھر میں یہ دونوں آیتیں (مسلسل) تین راتیں پڑھی جائیں گی ممکن نہیں ہے کہ شیطان اس گھر کے قریب آسکے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٧٩ (٩٦٧) (تحفة الأشراف : ١١٦٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (886) ، التعليق الرغيب (2 / 219) ، المشکاة (2145) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2882

【9】

سورت آل عمران کی فضیلت کے متعلق

نواس بن سمعان (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قرآن اور قرآن والا جو دنیا میں قرآن پر عمل کرتا ہے دونوں آئیں گے ان کی پیشوائی سورة البقرہ اور آل عمران کریں گی ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں سورتوں کی تین مثالیں دیں، اس کے بعد پھر میں ان سورتوں کو نہ بھولا۔ آپ نے فرمایا : گویا کہ وہ دونوں چھتریاں ہیں، جن کے بیچ میں شگاف اور پھٹن ہیں، یا گویا کہ وہ دونوں کالی بدلیاں ہیں، یا گویا کہ وہ صف بستہ چڑیوں کا سائبان ہیں، یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں اور ان پر عمل کرنے والوں کا لڑ جھگڑ کر دفاع و بچاؤ کر رہی ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢ - اس باب میں بریدہ اور ابوامامہ سے بھی روایت ہے، ٣ - اس حدیث کا بعض اہل علم کے نزدیک معنی و مفہوم یہ ہے کہ قرآن پڑھنے کا ثواب آئے گا۔ اس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث کی بعض اہل علم نے یہی تفسیر کی ہے کہ قرآن پڑھنے کا ثواب آئے گا، نواس (رض) کی نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، مفسرین کی اس تفسیر کی دلیل اور اس کا ثبوت ملتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے اس قول «وأهله الذين يعملون به في الدنيا» میں اشارہ ہے کہ قرآن کے آنے سے مراد ان کے اعمال کا ثواب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤٢ (٨٠٥) (تحفة الأشراف : ١١٧١٣) ، و مسند احمد (٤/١٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2883

【10】

سورت آل عمران کی فضیلت کے متعلق

سفیان بن عیینہ سے روایت ہے، وہ عبداللہ بن مسعود (رض) کی اس حدیث «ما خلق اللہ من سماء ولا أرض أعظم من آية الکرسي» کی تفسیر میں کہتے ہیں : آیت الکرسی کی فضیلت اس وجہ سے ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اللہ کا کلام اللہ کی مخلوق یعنی آسمان و زمین سے بڑھ کر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2884

【11】

سورت آل عمران کی فضیلت کے متعلق

براء (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی سورة الکہف پڑھ رہا تھا کہ اسی دوران اس نے اپنے چوپائے (سواری) کو دیکھا کہ وہ (اپنے کھونٹے پر) ناچنے اور اچھل کود کرنے لگا۔ اس نے نظر (ادھر ادھر) دوڑائی تو اسے ایک بدلی سی نظر آئی، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور اس (واقعہ) کا آپ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ سکینت (طمانینت) تھی جو قرآن کی وجہ سے یا قرآن پڑھنے پر نازل ہوئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں اسید بن حضیر سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٦١٤) ، وتفسیر سورة الفتح ٤ (٤٨٣٩) ، وفضائل القرآن ١١ (٥٠١١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٦ (٧٩٥) (تحفة الأشراف : ١٨٧٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2885

【12】

سورت آل عمران کی فضیلت کے متعلق

ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے سورة الکہف کی ابتدائی تین آیات پڑھیں وہ دجال کے فتنہ سے بچا لیا گیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤٤ (٨٠٩) ، سنن ابی داود/ الملاحم ١٤ (٤٣٢٣) (تحفة الأشراف : ١٠٩٦٣) (صحیح) (مؤلف کے الفاظ ” ثلاث آیات “ کے ساتھ یہ روایت شاذ ہے، مؤلف کے سوا سب کے یہاں ” عشر آیات “ ہی کے الفاظ ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کی موجودگی میں دجال کا ظہور ہو بھی جائے تو بھی وہ اللہ کی رحمت اور ان آیات کی برکت سے وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بلفظ : من حفظ عشر آيات ...... ، وهو بلفظ الکتاب شاذ، الصحيحة (582) ، الضعيفة (1336) // صحيح الجامع الصغير (6201) ، ضعيف الجامع الصغير (5765) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2886 اس سند سے بھی اسے ابوالدرداء (رض) نے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح بلفظ : من حفظ عشر آيات ...... ، وهو بلفظ الکتاب شاذ، الصحيحة (582) ، الضعيفة (1336) // صحيح الجامع الصغير (6201) ، ضعيف الجامع الصغير (5765) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2886

【13】

سورت یسین کی فضیلت کے متعلق

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے، اور قرآن کا دل سورة یاسین ہے۔ اور جس نے سورة یاسین پڑھی تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے پڑھنے کے صلے میں دس مرتبہ قرآن شریف پڑھنے کا ثواب لکھے گا ۔ اس سند سے بھی یہ سابقہ حدیث کی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اس حدیث کو ہم صرف حمید بن عبدالرحمٰن کی روایت سے جانتے ہیں۔ اور اہل بصرہ قتادہ کی روایت کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ اور ہارون ابو محمد شیخ مجہول ہیں۔ ٣ - اس باب میں ابوبکر صدیق سے بھی روایت ہے، اور یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ ٤ - اس کی سند ضعیف ہے اور اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٥٠) (موضوع) (سند میں ہارون العبدی اور مقاتل بن سلیمان کذاب ہیں، یہاں مقاتل بن سلیمان ہی صحیح ہے، مقاتل بن حیان سہو ہے، دیکھیے : الضعیفة رقم : ١٦٩ ) قال الشيخ الألباني : موضوع، الضعيفة (169) ، // ضعيف الجامع الصغير (1935) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2887

【14】

سورت دخان کی فضیلت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص سورة «حم الدخان» کسی رات میں پڑھے وہ اس حال میں صبح کرے گا کہ اس کے لیے ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کر رہے ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٣ - عمر بن ابی خثعم ضعیف قرار دیئے گئے ہیں، محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ وہ منکر الحدیث ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٤١٣) (موضوع) (مولف نے سبب بیان کردیا ہے ) قال الشيخ الألباني : موضوع، المشکاة (2149) // ضعيف الجامع الصغير (5766) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2888

【15】

سورت دخان کی فضیلت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص جمعہ کی رات میں «حم الدخان» پڑھے گا اسے بخش دیا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - ہشام ابوالمقدام ضعیف قرار دیئے گئے ہیں، ٣ - حسن بصری نے ابوہریرہ (رض) سے نہیں سنا ہے، ایوب، یونس بن عبید اور علی بن زید نے ایسا ہی کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٢٥٢) (ضعیف) (مؤلف نے سبب بیان کردیا ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4632) ، المشکاة (2150 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (5767) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2889

【16】

سورت ملک کی فضیلت کے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ میں سے کسی نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کردیا اور انہیں معلوم نہیں ہوا کہ وہاں قبر ہے، (انہوں نے آواز سنی) اس قبر میں کوئی انسان سورة «تبارک الذي بيده الملک» پڑھ رہا تھا، یہاں تک کہ اس نے پوری سورة ختم کردی۔ وہ صحابی نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے پھر آپ سے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کردیا، مجھے گمان نہیں تھا کہ اس جگہ پر قبر ہے۔ مگر اچانک کیا سنتا ہوں کہ اس جگہ ایک انسان سورة «تبارک الملک» پڑھ رہا ہے اور پڑھتے ہوئے اس نے پوری سورة ختم کردی۔ آپ نے فرمایا : «هي المانعة» یہ سورة مانعہ ہے، یہ نجات دینے والی ہے، اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے بچاتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٣٦٧) (ضعیف) (سند میں یحییٰ بن عمرو ضعیف راوی ہیں، لیکن ” ھي المانعة “ کا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے، دیکھیے : الصحیحة رقم ١١٤٠ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، وإنما يصح منه قوله : هي المانعة ..... ، الصحيحة (1140) // ضعيف الجامع الصغير (6101) ، المشکاة (2154) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2890

【17】

سورت ملک کی فضیلت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قرآن کی تیس آیتوں کی ایک سورة نے ایک آدمی کی شفاعت (سفارش) کی تو اسے بخش دیا گیا، یہ سورة «تبارک الذي بيده الملک» ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٢٧ (١٤٠٠) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٠٧ (٧١٠) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٢ (٣٧٨٦) (تحفة الأشراف : ١٣٥٥٠) ، وسنن الدارمی/فضائل القرآن ٢٣ (٣٤٥٢) (حسن) (سند میں عباس الجشمی لین الحدیث راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (2 / 223) ، المشکاة (2153) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2891

【18】

سورت ملک کی فضیلت کے متعلق

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب تک «الم تنزيل» اور «تبارک الذي بيده الملک» پڑھ نہ لیتے سوتے نہ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کو کئی ایک رواۃ نے لیث بن ابی سلیم سے اسی طرح روایت کیا ہے، ٢ - مغیرہ بن مسلم نے ابوزبیر سے، اور ابوزبیر نے جابر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، ٣ - زہیر روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں : میں نے ابوزبیر سے کہا : آپ نے جابر سے سنا ہے، تو انہوں نے یہی حدیث بیان کی ؟ ابوالزبیر نے کہا : مجھے صفوان یا ابن صفوان نے اس کی خبر دی ہے۔ تو ان زہیر نے ابوالزبیر سے جابر کے واسطہ سے اس حدیث کی روایت کا انکار کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٠٦ (٧٠٨) (تحفة الأشراف : ٢٩٣١) ، و مسند احمد (٣/٣٤٠) (صحیح) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” لیث بن ابی سلیم “ ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو الصحیحہ رقم ٥٨٥ ) قال الشيخ الألباني : (حديث جابر) صحيح، (قول طاو وس) ضعيف مقطوع (حديث جابر) ، الصحيحة (585) ، الروض النضير (227) ، المشکاة (2155 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2892

【19】

سورہ زلزال کی فضیلت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے سورة «إذا زلزلت الأرض» سورة پڑھی تو اسے آدھا قرآن پڑھنے کے برابر ثواب ملے گا، اور جس نے سورة «قل يا أيها الکافرون» پڑھی تو اسے چوتھائی قرآن پڑھنے کے برابر ثواب ملے گا، اور جس نے سورة «قل هو اللہ أحد» پڑھی تو اسے ایک تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب ملے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے کسی اور سے نہیں صرف انہیں حسن بن مسلم کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢٨٤) (حسن) (سند میں حسن بن سلم مجہول راوی ہے، مگر ” { قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ } اور { قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} کی فضیلت شواہد کی بنا پر حسن ہے، اور اول حدیث سورة زلزال سے متعلق ضعیف ہے ) قال الشيخ الألباني : حسن دون فضل (زلزلت) ، الضعيفة (1142) // كذا أصل الشيخ ناصر والصواب (1342) ، ضعيف الجامع الصغير (5757) ، وسيأتي برقم (550 / 3071) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2893

【20】

سورہ اخلاص اور سورت زلزال کی فضیلت کے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «إذا زلزلت» (ثواب میں) آدھے قرآن کے برابر ہے، اور «قل هو اللہ أحد» تہائی قرآن کے برابر ہے اور «قل يا أيها الکافرون» چوتھائی قرآن کے برابر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف یمان بن مغیرہ کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٩٧٠) (صحیح) (سند میں یمان بن مغیرہ ضعیف راوی ہیں، مگر { قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ } اور { قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} “ کی فضیلت شواہد کی بنا پر صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح دون فضل زلزلت انظر الحديث (3070) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2894

【21】

سورہ زلزال کی فضیلت

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا : اے فلاں ! کیا تم نے شادی کرلی ؟ انہوں نے کہا : نہیں، قسم اللہ کی ! اللہ کے رسول ! نہیں کی ہے، اور نہ ہی میرے پاس ایسا کچھ ہے جس کے ذریعہ میں شادی کرسکوں۔ آپ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس سورة «قل هو اللہ أحد» نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں، میرے پاس ہے۔ آپ نے فرمایا : سورة «قل هو اللہ أحد» ثواب میں ایک تہائی قرآن کے برابر ہے ۔ آپ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس سورة «إذا جاء نصر اللہ والفتح» نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں، (ہے) آپ نے فرمایا : یہ ایک چوتھائی قرآن ہے ، آپ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس سورة «قل يا أيها الکافرون» نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں۔ (ہے) آپ نے فرمایا : (یہ) چوتھائی قرآن ہے ۔ آپ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس سورة «إذا زلزلت الأرض» نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں (ہے) آپ نے فرمایا : یہ ایک چوتھائی قرآن ہے ، آپ نے فرمایا : تم شادی کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٧٠) (ضعیف) (سند میں سلم بن وردان ضعیف راوی ہیں، لیکن قل ھو اللہ سے متعلق فقرہ اوپر (٢٨٩٣) سے تقویت پا کر حسن ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (2 / 224) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2895

【22】

سورہ اخلاص کی فضیلت کے متعلق

ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم میں سے کوئی اس بات سے بھی عاجز ہے کہ رات میں ایک تہائی قرآن پڑھ ڈالے ؟ (آپ نے فرمایا) جس نے «الله الواحد الصمد» پڑھا (یعنی سورة الاخلاص پڑھی) اس نے تہائی قرآن پڑھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے زائدہ کی روایت سے بہتر اسے روایت کیا ہو، اور ان کی روایت پر ان کی متابعت اسرائیل، فضیل بن عیاض نے کی ہے۔ شعبہ اور ان کے علاوہ کچھ دوسرے لوگوں نے یہ حدیث منصور سے روایت کی ہے اور ان سبھوں نے اس میں اضطراب کا سے کام لیا، ٣ - اس باب میں ابوالدرداء، ابو سعید خدری، قتادہ بن نعمان، ابوہریرہ، انس، ابن عمر اور ابومسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ٦٩ (تحفة الأشراف : ٣٥٠٢) ، و مسند احمد (٥/٤١٩) ، وسنن الدارمی/فضائل القرآن ٢٣ (٣٤٨٠) (صحیح) (سند میں ” امرأة “ ایک مبہم راویہ ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اسے ایک تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب ملا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 225) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2896

【23】

سورہ اخلاص کی فضیلت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ آیا، آپ نے وہاں ایک آدمی کو «قل هو اللہ أحد اللہ الصمد» پڑھتے ہوئے سنا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : واجب ہوگئی ۔ میں نے کہا : کیا چیز واجب ہوگئی ؟ آپ نے فرمایا : جنت (واجب ہوگئی) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس حدیث کو صرف مالک بن انس کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ٦٩ (٩٩٥) (تحفة الأشراف : ١٤١٢٧) ، وط/القرآن ٦ (١٨) ، و مسند احمد (٢/٥٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب أيضا (2 / 224) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2897

【24】

سورہ اخلاص کی فضیلت کے متعلق

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص ہر دن دو سو مرتبہ «قل هو اللہ أحد» پڑھے گا تو قرض کے سوا اس کے پچاس سال تک کے گناہ مٹا دیئے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢٨١) (ضعیف) (سند میں حاتم بن میمون سخت ضعیف راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : (حديث : من قرأ كل ... ) ضعيف، (حديث : من أراد أن ينام .... ) ضعيف (حديث : من قرأ كل ... ) ، الضعيفة (300) ، المشکاة (2158) // ضعيف الجامع الصغير (5783) //، (حديث : من أراد أن ينام .... ) ، المشکاة (2159) // ضعيف الجامع الصغير (5389) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2898 انس (رض) اسی سند سے (یہ بھی) مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے بستر پر سونے کا ارادہ کرے اور دائیں کروٹ پر لیٹ جائے پھر سو مرتبہ «قل هو اللہ أحد» پڑھے تو جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے کہے گا تو اپنی داہنی جانب سے جنت میں داخل ہوجا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ثابت کی روایت سے جسے وہ انس سے روایت کرتے ہیں غریب ہے، ٢ - یہ حدیث اس سند کے علاوہ بھی دوسری سند سے ثابت سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : (حديث : من قرأ كل ... ) ضعيف، (حديث : من أراد أن ينام .... ) ضعيف (حديث : من قرأ كل ... ) ، الضعيفة (300) ، المشکاة (2158) // ضعيف الجامع الصغير (5783) //، (حديث : من أراد أن ينام .... ) ، المشکاة (2159) // ضعيف الجامع الصغير (5389) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2898

【25】

سورہ اخلاص کی فضیلت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «قل هو اللہ أحد» ایک تہائی قرآن کے برابر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٢ (٣٧٨٣) (تحفة الأشراف : ١٢٦٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3783) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2899

【26】

سورہ اخلاص کی فضیلت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم سب اکٹھے ہوجاؤ کیونکہ میں تم سب کو تہائی قرآن پڑھ کر سنانے والا ہوں ، چناچہ آپ ﷺ کی اس پکار پر جو بھی پہنچ سکا جمع ہوگیا، پھر نبی اکرم ﷺ باہر تشریف لائے، سورة «قل هو اللہ أحد» پڑھی اور (حجرہ شریفہ میں) واپس چلے گئے۔ تو بعض صحابہ نے چہ میگوئیاں کرتے ہوئے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : میں عنقریب تمہیں تہائی قرآن پڑھ کر سناؤں گا، میرا خیال یہ ہے کہ ایسا اس وجہ سے ہوا ہے کہ آسمان سے کوئی خبر (کوئی اطلاع) آ گئی ہے، پھر نبی اکرم ﷺ کمرے سے باہر نکلے اور فرمایا : میں نے کہا تھا میں تمہیں تہائی قرآن پڑھ کر سناؤں گا تو سن لو یہ سورة «قل هو اللہ أحد» تہائی قرآن کے برابر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤٥ (٨١٢) (تحفة الأشراف : ١٣٤٤١) ، و مسند احمد (٢/٤٢٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 225) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2900

【27】

سورہ اخلاص کی فضیلت کے متعلق

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ مسجد قباء میں ایک انصاری شخص ان کی امامت کرتا تھا، اور اس کی عادت یہ تھی کہ جب بھی وہ ارادہ کرتا کہ کوئی سورت نماز میں پڑھے تو اسے پڑھتا لیکن اس سورت سے پہلے «قل هو اللہ أحد» پوری پڑھتا، پھر اس کے ساتھ دوسری سورت پڑھتا، اور وہ یہ عمل ہر رکعت میں کرتا تھا۔ تو اس کے ساتھیوں (نمازیوں) نے اس سے (اس موضوع پر) بات کی، انہوں نے کہا : آپ یہ سورت پڑھتے ہیں پھر آپ خیال کرتے ہیں کہ یہ تو آپ کے لیے کافی نہیں ہے یہاں تک کہ دوسری سورت (بھی) پڑھتے ہیں، تو آپ یا تو صرف اسے پڑھیں، یا اسے چھوڑ دیں اور کوئی دوسری سورت پڑھیں، تو انہوں نے کہا : میں اسے چھوڑنے والا نہیں، اگر آپ لوگ پسند کریں کہ میں اسے پڑھنے کے ساتھ ساتھ امامت کروں تو امامت کروں گا اور اگر آپ لوگ اس کے ساتھ امامت کرنا پسند نہیں کرتے تو میں آپ لوگوں (کی امامت) کو چھوڑ دوں گا۔ اور لوگوں کا حال یہ تھا کہ انہیں اپنوں میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور ناپسند کرتے تھے کہ ان کے سوا کوئی دوسرا ان کی امامت کرے، چناچہ نبی اکرم ﷺ جب ان لوگوں کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کو ساری بات بتائی۔ آپ نے فرمایا : اے فلاں ! تمہارے ساتھی جو بات کہہ رہے ہیں، اس پر عمل کرنے سے تمہیں کیا چیز روک رہی ہے اور تمہیں کیا چیز مجبور کر رہی ہے کہ ہر رکعت میں تم اس سورت کو پڑھو ؟ ، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں اسے پسند کرتا ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کی محبت تمہیں جنت میں لے جائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب صحیح ہے اور یہ عبیداللہ بن عمر کی روایت سے ہے جسے وہ ثابت سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٦ (٧٧٤/م) (تعلیقاً بقولہ : قال عبید اللہ بن عمر، عن ثابت، عن أنس) (تحفة الأشراف : ٤٥٧) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، التعليق الرغيب (2 / 224) ، صفة الصلاة (85) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2901 انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! میں اس سورت کو پسند کرتا ہوں یعنی «قل هو اللہ أحد» کو آپ نے فرمایا : تمہاری اس کی یہی محبت و چاہت ہی تو تمہیں جنت میں پہنچائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٦٤/الف) (صحیح) (سند میں مبارک بن فضالہ تدلیس تسویہ کیا کرتے تھے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، التعليق الرغيب (2 / 224) ، صفة الصلاة (85) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2901

【28】

معوذتین کی فضلیت کے بارے میں

عقبہ بن عامر جہنی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسی آیات نازل کی ہیں جیسی (کبھی) نہیں دیکھی گئی ہیں، وہ یہ ہیں : «قل أعوذ برب الناس» آخر سورة تک اور «قل أعوذ برب الفلق» آخر سورة تک ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤٦ (٨١٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ٤٦ (٩٥٥) (تحفة الأشراف : ٩٩٤٨) ، و مسند احمد (٤/١٤٤، ١٥٠، ١٥١، ١٥٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2902

【29】

معوذتین کی فضلیت کے بارے میں

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ ہر نماز کے بعد معوذتین پڑھا کروں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦١ (١٥٢٣) ، سنن النسائی/السھو ٨٠ (١٣٣٧) ، سنن ابی داود/ الاستعاذة ١ (٥٤٤١) (تحفة الأشراف : ٩٩٤٠) ، و مسند احمد (٤/٢٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1514) ، صحيح أبي داود (1363) ، التعليق علی ابن خزيمة (755) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2903

【30】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور قرآن پڑھنے میں مہارت رکھتا ہے وہ بزرگ پاکباز فرشتوں کے ساتھ ہوگا، اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور بڑی مشکل سے پڑھ پاتا ہے، پڑھنا اسے بہت شاق گزرتا ہے تو اسے دہرا اجر ملے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر ٧٩ (٤٩٣٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٨ (٧٩٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤٩ (١٤٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٢ (٣٧٧٩) (تحفة الأشراف : ١٦١٠٢) ، و مسند احمد (٦/٤٨، ٩٤، ١١٠، ١٩٢) ، وسنن الدارمی/فضائل القرآن ١١ (٣٤١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قرآن پڑھنے میں مہارت رکھنے والا ہو یعنی حافظ قرآن ہونے کے ساتھ قرآن کو تجوید اور اچھی آواز سے پڑھنے والا ہو ، ایسا شخص نیکوکار بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہوگا ، اور جو مشقت کے ساتھ اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور اسے قرآن پڑھنے کا ذوق و شوق ہے تو اسے اس مشقت کی وجہ سے دگنا اجر ملے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1307) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2904

【31】

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کرلیا، جس چیز کو قرآن نے حلال ٹھہرایا اسے حلال جانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام ٹھہرایا اسے حرام سمجھا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس (قرآن) کی سفارش قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہوچکی ہو گی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - اس کی سند صحیح نہیں ہے، ٣ - حفص بن سلیمان حدیث میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٦ (٢١٦) (تحفة الأشراف : ١٠١٤٦) (ضعیف جداً ) (سند میں حفص بن سلیمان ابو عمر قاری کوفی صاحب عاصم ابن ابی النجود قراءت میں امام ہیں، اور حدیث میں متروک ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، ابن ماجة (216) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (38) ، المشکاة (2141) ، ضعيف الجامع الصغير (5761) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2905

【32】

قرآن کی فضیلت کے بارے میں

حارث اعور کہتے ہیں کہ مسجد میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ گپ شپ اور قصہ کہانیوں میں مشغول ہیں، میں علی (رض) کے پاس پہنچا۔ میں نے کہا : امیر المؤمنین ! کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ لوگ لایعنی باتوں میں پڑے ہوئے ہیں ؟۔ انہوں نے کہا : کیا واقعی وہ ایسا کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا : ہاں، انہوں نے کہا : مگر میں نے تو رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : عنقریب کوئی فتنہ برپا ہوگا ، میں نے کہا : اس فتنہ سے بچنے کی صورت کیا ہوگی ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : کتاب اللہ، اس میں تم سے پہلے کے لوگوں اور قوموں کی خبریں ہیں اور بعد کے لوگوں کی بھی خبریں ہیں، اور تمہارے درمیان کے امور و معاملات کا حکم و فیصلہ بھی اس میں موجود ہے، اور وہ دو ٹوک فیصلہ کرنے والا ہے، ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے۔ جس نے اسے سرکشی سے چھوڑ دیا اللہ اسے توڑ دے گا اور جو اسے چھوڑ کر کہیں اور ہدایت تلاش کرے گا اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔ وہ (قرآن) اللہ کی مضبوط رسی ہے یہ وہ حکمت بھرا ذکر ہے، وہ سیدھا راستہ ہے، وہ ہے جس کی وجہ سے خواہشیں ادھر ادھر نہیں بھٹک پاتی ہیں، جس کی وجہ سے زبانیں نہیں لڑکھڑاتیں، اور علماء کو (خواہ کتنا ہی اسے پڑھیں) آسودگی نہیں ہوتی، اس کے باربار پڑھنے اور تکرار سے بھی وہ پرانا (اور بےمزہ) نہیں ہوتا۔ اور اس کی انوکھی (و قیمتی) باتیں ختم نہیں ہوتیں، اور وہ قرآن وہ ہے جسے سن کر جن خاموش نہ رہ سکے بلکہ پکار اٹھے : ہم نے ایک عجیب (انوکھا) قرآن سنا ہے جو بھلائی کا راستہ دکھاتا ہے، تو ہم اس پر ایمان لے آئے، جو اس کے مطابق بولے گا اس کے مطابق عمل کرے گا اسے اجر و ثواب دیا جائے گا۔ اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے انصاف کیا اور جس نے اس کی طرف بلایا اس نے اس نے سیدھے راستے کی ہدایت دی۔ اعور ! ان اچھی باتوں کا خیال رکھو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - اس کی سند مجہول ہے، ٣ - حارث کے بارے میں کلام کیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٠٥٧) (ضعیف) (سند میں حارث الأعور ضعیف راوی ہے، اور ابن أخی الحارث مجہول ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2138 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2906

【33】

قرآن کی تعلیم کی فضیلت کے متعلق

عثمان بن عفان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھلائے ، ابوعبدالرحمٰن سلمی (راوی حدیث) کہتے ہیں : یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے اپنی اس نشست گاہ (مسند) پر بٹھا رکھا ہے، عثمان کے زمانہ میں قرآن کی تعلیم دینی شروع کی (اور دیتے رہے) یہاں تک حجاج بن یوسف کے زمانہ میں یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٢١ (٥٠٢٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤٩ (١٤٥٢) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٦ (٢١١) (تحفة الأشراف : ٩٨١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (211) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2907

【34】

قرآن کی تعلیم کی فضیلت کے متعلق

عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سب سے بہتر یا تم میں سب سے افضل وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھلائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - عبدالرحمٰن بن مہدی اور کئی دوسروں نے اسی طرح بسند «سفيان الثوري عن علقمة بن مرثد عن أبي عبدالرحمٰن عن عثمان عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، ٣ - سفیان اس کی سند میں سعد بن عبیدہ کا ذکر نہیں کرتے ہیں، ٤ - یحییٰ بن سعید قطان نے یہ حدیث بسند «سفيان وشعبة عن علقمة بن مرثد عن سعد بن عبيدة عن أبي عبدالرحمٰن عن عثمان عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی۔ ہم سے بیان کیا اسے محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں : ہم سے بیان کیا یحییٰ بن سعید نے سفیان اور شعبہ کے واسطہ سے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2907) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2908 محمد بن بشار کہتے ہیں : ایسا ہی یحییٰ بن سعید نے اس روایت کو سفیان اور شعبہ کے واسطہ سے، ایک نہیں کئی بار ذکر کیا، اور ان دونوں نے بسند «عن علقمة بن مرثد عن سعد بن عبيدة عن أبي عبدالرحمٰن عن عثمان عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی، ٦ - محمد بن بشار کہتے ہیں : اصحاب سفیان اس روایت میں «عن سفيان عن سعد بن عبيدة» کا ذکر نہیں کرتے ہیں۔ محمد بن بشار کہتے ہیں۔ اور یہ زیادہ صحیح ہے، ٧ - شعبہ نے اس حدیث کی سند میں سعد بن عبیدہ کا اضافہ کیا ہے تو ان سفیان کی حدیث (جو شعبہ کے ہم سبق ہیں) زیادہ صحیح ہے۔ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) کہتے ہیں : یحییٰ بن سعید نے کہا کہ میرے نزدیک شعبہ کے برابر کوئی (ثقہ) نہیں ہے۔ اور جب سفیان ان کی مخالفت کرتے ہیں تو میں سفیان کی بات لے لیتا ہوں، ٨ - میں نے ابوعمار کو وکیع کے واسطہ سے ذکر کرتے ہوئے سنا ہے : شعبہ نے کہا : سفیان مجھ سے زیادہ قوی حافظہ والے ہیں۔ (اور اس کی دلیل یہ ہے کہ) مجھ سے سفیان نے کسی شخص سے کوئی چیز روایت کی تو میں نے اس شخص سے وہ چیز (براہ راست) پوچھی تو میں نے ویسا ہی پایا جیسا سفیان مجھ سے بیان کیا تھا، ٩ - اس باب میں علی اور سعد سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2907) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2908

【35】

قرآن کی تعلیم کی فضیلت کے متعلق

علی ابن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھلائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث کو ہم علی بن ابی طالب کی روایت سے جسے وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں صرف عبدالرحمٰن بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٢٩٩) (صحیح) (سند میں عبد الرحمن بن اسحاق کوفی ضعیف راوی ہیں، اور نعمان بن سعد لین الحدیث، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (2908) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2909

【36】

قرآن میں سے ایک حرف پڑھنے کا اجر

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی، اور ایک نیکی دس گنا بڑھا دی جائے گی، میں نہیں کہتا «الم» ایک حرف ہے، بلکہ «الف» ایک حرف ہے، «لام» ایک حرف ہے اور «میم» ایک حرف ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ابن مسعود سے روایت کی گئی ہے، ٢ - اس حدیث کو ابوالاحوص نے ابن مسعود سے روایت کیا ہے۔ بعض نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے اور بعض نے اسے ابن مسعود سے موقوفاً روایت کیا ہے، ٣ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٥٤٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج الطحاوية (139) ، المشکاة (2137) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2910

【37】

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کسی بندے کی کوئی بات اتنی زیادہ توجہ اور ہمہ تن گوش ہو کر نہیں سنتا جتنی دو رکعتیں پڑھنے والے بندے کی سنتا ہے، اور بندہ جب تک نماز پڑھ رہا ہوتا ہے اس کے سر پر نیکی کی بارش ہوتی رہتی ہے، اور بندے اللہ عزوجل سے (کسی چیز سے) اتنا قریب نہیں ہوتے جتنا اس چیز سے جو اس کی ذات سے نکلی ہے ، ابونضر کہتے ہیں : آپ اس قول سے قرآن مراد لیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - بکر بن خنیس کے بارے میں ابن مبارک نے کلام کیا ہے اور آخر امر یعنی بعد میں (ان کے ضعیف ہونے کی وجہ سے) ان سے روایت کرنی چھوڑ دی تھی، ٣ - یہ حدیث زید بن ارطاۃ کے واسطہ سے جبیر بن نفیر سے مروی ہے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مرسل طریقہ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٨٦٣) ، وانظر مسند احمد (٥/٢٦٨) (ضعیف) (سند میں بکر بن خنیس سے بہت ہی غلطیاں ہوئی ہیں، اور لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1332) ، الضعيفة (1957) // ضعيف الجامع الصغير (4993) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2911 جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم اللہ کی طرف رجوع کرنے کے لیے قرآن سے بڑھ کر کوئی اور ذریعہ نہیں پاسکتے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ المراسیل (١٠٣) (تحفة الأشراف : ١٨٤٧١) (ضعیف) (جبیر بن نفیر تابعی ہیں، اس لیے یہ روایت مرسل ہے، تراجع الالبانی ١٩٣ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الضعيفة أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2912

【38】

None

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ کی طرف رجوع کرنے کے لیے قرآن سے بڑھ کر کوئی اور ذریعہ نہیں پا سکتے“۔

【39】

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ یاد نہ ہو وہ ویران گھر کی طرح ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٤٠٤) (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2135) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2913

【40】

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (قیامت کے دن) صاحب قرآن سے کہا جائے گا : (قرآن) پڑھتا جا اور (بلندی کی طرف) چڑھتا جا۔ اور ویسے ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔ پس تیری منزل وہ ہوگی جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہوگی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٥ (١٤٦٤) (تحفة الأشراف : ٨٦٢٧) ، و مسند احمد (٢/١٩٢) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ قرآن پڑھنے کی بہت بڑی فضیلت ہے اور جسے قرآن جس قدر یاد ہوگا وہ اپنے پڑھنے کے مطابق جنت میں مقام حاصل کرے گا ، یعنی جتنا قرآن یاد ہوگا اسی حساب سے وہ ترتیل سے پڑھتا جائے گا اور جنت کے درجات پر فائز ہوتا چلا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (2134) ، التعليق الرغيب صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2914 بندار نے ہم سے بطریق : «عبدالرحمٰن بن مهدي عن سفيان عن عاصم» اسی جیسی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (2134) ، التعليق الرغيب صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2914

【41】

قرآن میں سے ایک حرف پڑھنے کا اجر

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قرآن قیامت کے دن پیش ہوگا پس کہے گا : اے میرے رب ! اسے (یعنی صاحب قرآن کو) جوڑا پہنا، تو اسے کرامت (عزت و شرافت) کا تاج پہنایا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا : اے میرے رب ! اسے اور دے، تو اسے کرامت کا جوڑا پہنایا جائے گا۔ وہ پھر کہے گا : اے میرے رب اس سے راضی و خوش ہوجا، تو وہ اس سے راضی و خوش ہوجائے گا۔ اس سے کہا جائے گا پڑھتا جا اور چڑھتا جا، تیرے لیے ہر آیت کے ساتھ ایک نیکی کا اضافہ کیا جاتا رہے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٨١١) ، و مسند احمد (٢/٤٧١) ، وسنن الدارمی/فضائل القرآن (٣٣٤٩) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (2 / 207) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2915

【42】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے نیک اعمال کے اجر و ثواب میرے سامنے پیش کیے گئے یہاں تک کہ اس تنکے کا ثواب بھی پیش کیا گیا جسے آدمی مسجد سے نکال کر پھینک دیتا ہے۔ اور مجھ پر میری امت کے گناہ (بھی) پیش کیے گئے تو میں نے کوئی گناہ اس سے بڑھ کر نہیں دیکھا کہ کسی کو قرآن کی کوئی سورة یا کوئی آیت یاد ہو اور اس نے اسے بھلا دیا ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٣ - میں نے اس حدیث کا تذکرہ محمد بن اسماعیل بخاری سے کیا تو اس کو وہ پہچان نہ سکے اور انہوں نے اس حدیث کو غریب قرار دیا، ٤ - محمد بن اسماعیل بخاری نے یہ بھی کہا کہ میں نہیں جانتا کہ مطلب بن عبداللہ کی کسی صحابی رسول سے سماع ثابت ہے، سوائے مطلب کے اس قول کے کہ مجھ سے اس شخص نے روایت کی ہے جو نبی کریم ﷺ کی حاضرین میں موجود تھا، ٥ - میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن (دارمی) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ہم مطلب کا سماع کسی صحابی رسول سے نہیں جانتے، ٦ - عبداللہ (دارمی یہ بھی) کہتے ہیں : علی بن مدینی اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ مطلب نے انس سے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٦ (٤٦١) (تحفة الأشراف : ١٥٩٢) (ضعیف) (سند میں مطلب اور ابن جریج دونوں مدلس راوی ہیں اور عنعنہ سے روایت ہے، نیز دونوں (مطلب اور انس) کے درمیان سند میں انقطاع بھی ہے، ملاحظہ ہو ضعیف أبی داود ١/١٦٤ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (720) ، الروض النضير (72) ، ضعيف أبي داود (71) // عندنا برقم (88 / 461) ، ضعيف الجامع الصغير (3700) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2916

【43】

عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ وہ ایک قصہ گو کے پاس سے گزرے جو قرآن پڑھ رہا تھا (پڑھ کر) وہ مانگنے لگا۔ تو انہوں نے «إنا لله وإنا إليه راجعون» پڑھا، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے جو قرآن پڑھے تو اسے اللہ ہی سے مانگنا چاہیئے۔ کیونکہ عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو قرآن پڑھ پڑھ کر لوگوں سے مانگیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، اس کی سند ویسی قوی نہیں ہے، ٢ - محمود بن غیلان کہتے ہیں : یہ خیثمہ بصریٰ ہیں جن سے جابر جعفی نے روایت کی ہے۔ یہ خیثمہ بن عبدالرحمٰن نہیں ہیں۔ اور خیثمہ شیخ بصریٰ ہیں ان کی کنیت ابونصر ہے اور انہوں نے انس بن مالک سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ اور جابر جعفی نے بھی خیثمہ سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٧٩٥) ، وانظر مسند احمد (٤/٤٣٢، ٤٣٦، ٤٣٩) (حسن) (سند میں کلام ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو الصحیحة رقم ٢٥٧ ) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (257) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2917

【44】

صہیب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قرآن کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال جانا وہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند زیادہ قوی نہیں ہے، وکیع کی روایت میں وکیع سے اختلاف کیا گیا ہے، ٢ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : ابوفروہ کہتے ہیں : یزید بن سنان رہاوی کی روایت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سوائے اس روایت کے جسے ان کے بیٹے محمد ان سے روایت کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ ان سے مناکیر روایت کرتے ہیں، ٣ - محمد بن یزید بن سنان نے اپنے باپ سے یہ حدیث بھی روایت کی ہے اور اس کی سند میں اتنا اضافہ کیا ہے : «عن مجاهد عن سعيد بن المسيب عن صهيب» محمد بن یزید کی روایت کی کسی نے متابعت نہیں کی، وہ ضعیف ہیں، اور ابوالمبارک ایک مجہول شخص ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٩٧٢) (ضعیف) (سند میں ابوالمبارک مجہول راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2203 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (4975) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2918

【45】

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : بلند آواز سے قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسا کھلے عام صدقہ دینے والا، اور آہستگی و خاموشی سے قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسے چھپا کر صدقہ دینے والا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس حدیث کا معنی و مطلب یہ ہے کہ جو شخص آہستگی سے قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص سے افضل ہے جو بلند آواز سے قرآن پڑھتا ہے، اس لیے کہ اہل علم کے نزدیک چھپا کر صدقہ دینا برسر عام صدقہ دینے سے افضل ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ اہل علم کے نزدیک اس سے آدمی عجب (خود نمائی) سے محفوظ رہتا ہے۔ کیونکہ جو شخص چھپا کر عمل کرتا ہے اس کے عجب میں پڑنے کا اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا اس کے کھلے عام عمل کرنے میں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٥ (١٣٣٣) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٤ (١٦٦٤) ، والزکاة ٦٨ (٢٥٦٠) (تحفة الأشراف : ٩٩٤٩) ، و مسند احمد (٤/١٥١، ١٥٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2202 / التحقيق الثاني) ، صحيح أبي داود (1204) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2919

【46】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب تک سورة بنی اسرائیل اور سورة الزمر پڑھ نہ لیتے بستر پر سوتے نہ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ابولبابہ ایک بصریٰ شیخ ہیں، حماد بن زید نے ان سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں، کہا جاتا ہے کہ ان کا نام مروان ہے، یہ بات مجھے محمد بن اسماعیل بخاری نے کتاب التاریخ میں بتائی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٠٥ (٧١٢) ، ویأتي عند المؤلف في الدعوات (برقم ٣٤٠٥) (تحفة الأشراف : ١٧٦٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (641) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2920

【47】

عرباض بن ساریہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سونے سے پہلے مسبحات پڑھتے تھے ١ ؎ آپ فرماتے تھے : ان میں ایک آیت ایسی ہے جو ہزار آیتوں سے بہتر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٠٧ (٥٠٥٧) (تحفة الأشراف : ٩٨٨٨) (ضعیف) (سند میں بقیة بن الولید مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز عبد اللہ بن أبی بلال الخزاعی الشامی مقبول عندالمتابعہ ہیں، اور ان کا کوئی متابع نہیں اس لیے ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مسبحات وہ سورتیں ہیں جو سبحان اللہ ، سبح اور یسبح سے شروع ہوتی ہیں ، وہ یہ ہیں : بنی اسرائیل ، الحدید ، الحشر ، الجمعہ ، الصف ، التغابن ، اور الاعلیٰ ۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2921

【48】

معقل بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص صبح کے وقت «أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم» تین بار پڑھے، اور تین بار سورة الحشر کی آخری تین آیتیں پڑھے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے مغفرت مانگنے کے لیے ستر ہزار فرشتے لگا دیتا ہے جو شام تک یہی کام کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسے دن میں مرجاتا ہے تو شہید ہو کر مرتا ہے، اور جو شخص ان کلمات کو شام کے وقت کہے گا وہ بھی اسی درجہ میں ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٤٧٨) (ضعیف جدا) (سند میں موجود نافع بن ابی نافع دراصل نفیع ابوداود الاعمی ہے، جو متروک ہے، بلکہ ابن معین نے تکذیب کی ہے، ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (342) ، التعليق الرغيب (2 / 225) // ضعيف الجامع الصغير (5732) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2922

【49】

نبی اکرم ﷺ کی قرأت کے متعلق

یعلیٰ بن مملک سے روایت ہے، انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے نبی اکرم ﷺ کی نماز اور آپ کی قرأت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : تمہارا اور آپ کی نماز کا کیا جوڑ ؟ آپ نماز پڑھتے تھے پھر اتنی دیر سوتے تھے جتنی دیر نماز پڑھے ہوتے، پھر نماز پڑھتے تھے اسی قدر جتنی دیر سوئے ہوئے ہوتے، پھر اتنی دیر سوتے تھے جتنی دیر نماز پڑھے ہوتے۔ یہاں تک کہ آپ صبح کرتے، پھر انہوں نے آپ کے قرأت کی کیفیت بیان کی اور انہوں نے اس کیفیت کو واضح طور پر ایک ایک حرف حرف کر کے بیان کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اسے ہم صرف لیث بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے یعلیٰ بن مملک کے واسطہ سے ام سلمہ سے روایت کی، ٣ - ابن جریج نے یہ حدیث ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی قرأت کا ہر حرف جدا جدا ہوتا تھا، ٤ - لیث کی حدیث (ابن جریج کی حدیث سے) زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٥ (١٤٦٦) (تحفة الأشراف : ١٨٢٢٦) (ضعیف) (سند میں یعلی بن مملک ضعیف ہیں، مگر شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ حدیث ثابت ہے، دیکھیے آگے حدیث رقم ٢٩٢٧ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (260) // (316 / 1466) //، المشکاة (1210 / التحقيق الثاني) ، // ضعيف سنن النسائي برقم (46 / 1022، 100 / 1629) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2923

【50】

نبی اکرم ﷺ کی قرأت کے متعلق

عبداللہ بن ابی قیس بصریٰ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی وتر کے بارے میں پوچھا کہ آپ وتر رات کے شروع حصے میں پڑھتے تھے یا آخری حصے میں ؟ انہوں نے کہا : آپ دونوں ہی طرح سے کرتے تھے۔ کبھی تو آپ شروع رات میں وتر پڑھ لیتے تھے اور کبھی آخر رات میں وتر پڑھتے تھے۔ میں نے کہا : الحمدللہ ! تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین کے معاملے میں وسعت و کشادگی رکھی، پھر میں نے پوچھا : آپ ﷺ کی قرأت کیسی ہوتی تھی ؟ کیا آپ دھیرے پڑھتے تھے یا بلند آواز سے ؟ کہا : آپ ﷺ یہ سب کرتے تھے۔ کبھی تو دھیرے پڑھتے تھے اور کبھی آپ زور سے میں نے کہا : الحمدللہ، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین میں وسعت و کشادگی رکھی۔ پھر میں نے کہا : آپ جب جنبی ہوجاتے تھے تو کیا کرتے تھے ؟ کیا سونے سے پہلے غسل کرلیتے تھے یا غسل کیے بغیر سو جاتے تھے ؟ کہا : آپ ﷺ یہ تمام ہی کرتے تھے، کبھی تو آپ غسل کرلیتے تھے پھر سوتے، اور کبھی وضو کر کے سو جاتے، میں نے کہا : اللہ کا شکر ہے کہ اس نے دینی کام میں وسعت و کشادگی رکھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٤٤٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (222 - 1291) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2924

【51】

نبی اکرم ﷺ کی قرأت کے متعلق

جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ «موقف» (عرفات) میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہتے تھے : ہے کوئی جو مجھے اپنی قوم میں لے چلے، کیونکہ قریش نے مجھے اپنے رب کے کلام (قرآن) کی تبلیغ سے روک دیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ٢٢ (٤٧٣٤) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (٢٠١) (تحفة الأشراف : ٢٢٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (201) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2925

【52】

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل فرماتا ہے : جس کو قرآن نے میری یاد نے مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھا۔ میں اسے اس سے زیادہ دوں گا جتنا میں مانگنے والوں کو دیتا ہوں، اللہ کے کلام کی فضیلت دوسرے سارے کلام پر ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی اپنی ساری مخلوقات پر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٢١٦) (ضعیف) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2136) ، الضعيفة (1335) // ضعيف الجامع الصغير (6435) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2926