44. دعاؤں کا بیان

【1】

دُعا کی فضیلت کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم کوئی چیز (عبادت) نہیں ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے مرفوع صرف عمران قطان کی روایت سے جانتے ہیں، عمران القطان یہ ابن داور ہیں اور ان کی کنیت ابوالعوام ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدعاء ١ (٣٨٢٩) (تحفة الأشراف : ١٢٩٣٨) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ بندہ رب العالمین کی طاقت و قدرت کے سامنے دعا کرتے وقت اپنی انتہائی بےبسی اور عاجزی و محتاجگی کا اظہار کرتا ہے ، اس لیے اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم چیز ( عبادت ) کوئی نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (3829) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3370

【2】

اسی سے متعلق

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دعا عبادت کا مغز (حاصل و نچوڑ) ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ہم اسے صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٥) (ضعیف) (سند میں ” ابن لھیعہ “ ضعیف ہیں، اس لیے مخ العبادة کے لفظ سے حدیث ضعیف ہے، اور ” الدعاء ھو العبادة “ کے لفظ سے نعمان بن بشیر (رض) کی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو اگلی حدیث) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ دعا عبادت کا خلاصہ اور اصل ہے ، اس لیے جو شخص اپنی حاجت برآری اور مشکل کشائی کے لیے غیر اللہ کو پکارتا ہے ، وہ گویا غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے ، جب کہ غیر اللہ کی عبادت شرک ہے ، اور شرک ایسا گناہ ہے جو بغیر توبہ کے ہرگز معاف نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف بهذا اللفظ، الروض النضير (2 / 289) ، المشکاة (2231) // ضعيف الجامع الصغير (3003) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3371

【3】

اسی سے متعلق

نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دعا ہی عبادت ہے، پھر آپ نے آیت : «وقال ربکم ادعوني أستجب لکم إن الذين يستکبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين» تمہارا رب فرماتا ہے، تم مجھے پکارو، میں تمہاری پکار (دعا) کو قبول کروں گا، جو لوگ مجھ سے مانگنے سے گھمنڈ کرتے ہیں، وہ جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوں گے (المومن : ٦) پڑھی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- منصور نے یہ حدیث اعمش سے اور اعمش نے ذر سے روایت کی ہے، ہم اسے صرف ذر کی روایت سے جانتے ہیں، یہ ذر بن عبداللہ ہمدانی ہیں ثقہ ہیں، عمر بن ذر کے والد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٩٦٩، و ٣٢٤٧ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3828) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3372

【4】

اسی متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اللہ سے سوال نہیں کرتا ١ ؎ اللہ اس سے ناراض اور ناخوش ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : وکیع اور کئی راویوں نے یہ حدیث ابوالملیح سے روایت کی ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ابوالملیح کا نام صبیح ہے، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو ایسا ہی کہتے ہوئے سنا ہے، انہوں نے کہا کہ انہیں فارسی بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (حسن) وضاحت : ١ ؎ : یعنی نہ توبہ و استغفار کرتا ہے اور نہ دنیوی و اخروی اپنی ضرورت کی چیزیں طلب کرتا ہے ، اللہ سے دعا سے بالکل ہی بےنیازی برتنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (3827) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3373

【5】

اسی متعلق

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے جب ہم لوٹے اور ہمیں مدینہ دکھائی دینے لگا تو لوگوں نے تکبیر کہی اور بلند آواز سے تکبیر کہی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارا رب بہرہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ غائب و غیر حاضر ہے، وہ تمہارے درمیان موجود ہے، وہ تمہارے کجاؤں اور سواریوں کے درمیان (یعنی بہت قریب) ہے پھر آپ نے فرمایا : عبداللہ بن قیس ! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں ؟ «لا حول ولا قوة إلا بالله» (جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- ابوعثمان نہدی کا نام عبدالرحمٰن بن مل ہے اور ابونعامہ سعدی کا نام عمرو بن عیسیٰ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٣١ (٢٩٩٢) ، والمغازي ٣٨ (٤٢٠٥) ، والدعوات ٥٠ (٦٣٨٤) ، ٦٦ (٦٤٠٩) ، و القدر ٧ (٦٦١٠) ، والتوحید ٩ (٧٣٨٦) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٣ (٢٧٠٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦١ (١٥٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٩ (٣٨٢٤) (تحفة الأشراف : ٩٨٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : جو اس کلمے کا ورد کرے گا وہ جنت کے خزانوں میں ایک خزانے کا مالک ہوجائے گا ، کیونکہ اس کلمے کا مطلب برائی سے پھر نے اور نیکی کی قوت اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ جب بندہ اس کا باربار اظہار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بےانتہا خوش ہوتا ہے ، بندے کی طرف سے اس طرح کی عاجزی کا اظہار تو عبادت حاصل ہے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3374

【6】

ذکر کی فضیلت کے بارے میں

عبداللہ بن بسر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا : اللہ کے رسول ! اسلام کے احکام و قوانین تو میرے لیے بہت ہیں، کچھ تھوڑی سی چیزیں مجھے بتا دیجئیے جن پر میں (مضبوطی) سے جما رہوں، آپ نے فرمایا : تمہاری زبان ہر وقت اللہ کی یاد اور ذکر سے تر رہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٣ (٣٧٩٣) (تحفة الأشراف : ٥١٩٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس آدمی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ فرائض ، سنن اور نوافل کی شکل میں نیکیوں کی بہت کثرت ہے ، مجھے کوئی ایسا جامع نسخہ بتائیے جس سے صرف فرائض و سنن پر اگر عمل کرسکوں اور نوافل و مستحبات رہ جائیں تو بھی میری نیکیاں کم نہ ہوں ، آپ نے فرمایا : ذکر الٰہی سے اپنی زبان تر رکھ اور اسے اپنی زندگی کا دائمی معمول بنا لے ، ایسا کرنے کی صورت میں اگر تو نوافل و مستحبات پر عمل نہ بھی کرسکا تو ذکر الٰہی کی کثرت سے اس کا ازالہ ہوجائے گا۔ کیونکہ نوافل و مستحبات ( عبادات ) کا حاصل تو یہی ہے نہ کہ بندے بارگاہ الٰہی میں اپنی عاجزی و خاکساری کا اظہار کا نذرانہ پیش کرتا ہے ، سو کثرت ذکر سے بھی یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3793) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3375

【7】

اسی سے متعلق

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : قیامت کے دن اللہ کے نزدیک درجہ کے لحاظ سے کون سے بندے سب سے افضل اور سب سے اونچے مرتبہ والے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں ۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اللہ کی راہ میں لڑائی لڑنے والے (غازی) سے بھی بڑھ کر ؟ آپ نے فرمایا : (ہاں) اگرچہ اس نے اپنی تلوار سے کفار و مشرکین کو مارا ہو، اور اتنی شدید جنگ لڑی ہو کہ اس کی تلوار ٹوٹ گئی ہو، اور وہ خود خون سے رنگ گیا ہو، تب بھی اللہ کا ذکر کرنے والے اس سے درجے میں بڑھے ہوئے ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف دراج کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٠٥٤) (ضعیف) (سند میں دراج ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (2 / 228) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3376

【8】

اسی کے بارے میں

ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہارے سب سے بہتر اور تمہارے رب کے نزدیک سب سے پاکیزہ اور سب سے بلند درجے والے عمل کی تمہیں خبر نہ دوں ؟ وہ عمل تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے، وہ عمل تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تم (میدان جنگ میں) اپنے دشمن سے ٹکراؤ، وہ تمہاری گردنیں کاٹے اور تم ان کی (یعنی تمہارے جہاد کرنے سے بھی افضل) لوگوں نے کہا : جی ہاں، (ضرور بتائیے) آپ نے فرمایا : وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ، معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں : اللہ کے ذکر سے بڑھ کر اللہ کے عذاب سے بچانے والی کوئی اور چیز نہیں ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : بعض نے یہ حدیث عبداللہ بن سعید اسی طرح اسی سند سے روایت کی ہے، اور بعضوں نے اسے ان سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٣ (٣٧٩٠) (تحفة الأشراف : ١٠٩٥٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کا ذکر اللہ کے عذاب سے نجات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ، کیونکہ ذکر : رب العالمین کی توحید ، اس کی ثنا ، تحمید و تمجید وغیرہ کے کلمات کو دل اور زبان پر جاری رکھنے کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2790) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3377

【9】

مجلس ذکر کی فضیلت کے بارے میں

ابوہریرہ اور ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے : انہوں نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو قوم اللہ کو یاد کرتی ہے (ذکر الٰہی میں رہتی ہے) اسے فرشتے گھیر لیتے ہیں اور رحمت الٰہی اسے ڈھانپ لیتی ہے، اس پر سکینت (طمانیت) نازل ہوتی ہے اور اللہ اس کا ذکر اپنے ہاں فرشتوں میں کرتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١١ (٢٧٠٠) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٣ (٣٧٩١) (تحفة الأشراف : ٣٩٦٤، و ١٢١٩٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ طریق ( ٣٣٨٠) کے بعد مطبوع نسخوں میں تھا ، اور صحیح جگہ اس کی یہی ہے ، جیسا کہ کئی قلمی نسخوں میں آیا ہے ، یہ سند محبوبی کی روایت سے ساقط تھی ، اسی لیے مزی نے اس سند کو تحفۃ الأشراف میں ذکر نہیں کیا ، حافظ ابن حجر نے اس پر استدراک کیا اور کہا کہ ایسے ہی میں نے اس کو دیکھا ہے حافظ ابوعلی حسین بن محمد صدفی ( ت : ٥١٤ ھ ) کے قلم سے جامع ترمذی میں ، اور ایسے ہی ابن زوج الحرۃ کی روایت میں ہے ، اور میں نے اسے محبوبی کی روایت میں نہیں دیکھا ہے ( النکت الظراف ٣/٣٢٩) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3791) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3378 اس سند سے شعبہ نے ابواسحاق سے، ابواسحاق نے اغر (یعنی ابو مسلم) سے سنا، انہوں نے کہا : میں ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) کے متعلق گواہی دیتا ہوں، ان دونوں (بزرگوں) نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق گواہی دی، اور پھر اوپر والی حدیث جیسی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3791) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3378

【10】

مجلس ذکر کی فضیلت کے بارے میں

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) مسجد گئے (وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں سے) پوچھا : تم لوگ کس لیے بیٹھے ہو ؟ ان لوگوں نے کہا : ہم یہاں بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتے ہیں، معاویہ (رض) نے کہا : کیا ! قسم اللہ کی ! تم کو اسی چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے ؟ انہوں نے کہا : قسم اللہ کی، ہم اسی مقصد سے یہاں بیٹھے ہیں، معاویہ (رض) نے کہا : میں نے تم لوگوں پر کسی تہمت کی بنا پر قسم نہیں کھلائی ہے ١ ؎، رسول اللہ ﷺ کے پاس میرے جیسا مقام و منزلت رکھنے والا کوئی شخص مجھ سے کم (ادب و احتیاط کے سبب) آپ سے حدیثیں بیان کرنے والا نہیں ہے۔ ( پھر بھی میں تمہیں یہ حدیث سنا رہا ہوں) رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے پاس گئے وہ سب دائرہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، ان سے کہا : کس لیے بیٹھے ہو ؟ انہوں نے کہا : ہم یہاں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں، اللہ نے ہمیں اسلام کی طرف جو ہدایت دی ہے، اور مسلمان بنا کر ہم پر جو احسان فرمایا ہے ہم اس پر اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اور اس کی حمد بیان کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا واقعی ؟ ! قسم ہے تمہیں اسی چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے ؟ انہوں نے کہا : قسم اللہ کی، ہمیں اسی مقصد نے یہاں بٹھایا ہے، آپ نے فرمایا : میں نے تمہیں قسم اس لیے نہیں دلائی ہے، میں نے تم لوگوں پر کسی تہمت کی بنا پر قسم نہیں کھلائی ہے، بات یہ ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے بتایا اور خبر دی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ فرشتوں پر فخر کرتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١١ (٢٧٠١) ، سنن النسائی/القضاة ٣٧ (٥٤٢٨) (تحفة الأشراف : ١١٤١٦) ، و مسند احمد (٤/٩٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : بات یہ نہیں ہے کہ میں آپ لوگوں کی ثقاہت کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں اس لیے قسم کھلائی ہے ، بلکہ خود آپ ﷺ نے اسی طرح صحابہ سے قسم لے کر یہ حدیث بیان فرمائی تھی ، اسی اتباع میں ، میں نے بھی آپ لوگوں کو قسم کھلائی ہے ، حدیثوں کی روایت کا یہ بھی ایک انداز ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جس کیفیت کے ساتھ حدیث بیان کی ہوتی ہے ، صحابہ سے لے کر اخیر سند تک کے ساری راوی اسی طرح روایت کرتے ہیں ، اس سے حدیث کی صحت پر اور زیادہ یقین بڑھ جاتا ہے ( اور خود آپ ﷺ نے بھی کسی شک و شبہ کی بنا پر ان سے قسم نہیں لی تھی ، بلکہ بیان کی جانے والی بات کی اہمیت جتانے کے لیے ایک اسلوب اختیار کیا تھا ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3379

【11】

جس مجلس میں اللہ کا ذکر نہ ہو اس کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اللہ کی یاد نہ کریں، اور نہ اپنے نبی ﷺ پر (درود) بھیجیں تو یہ چیز ان کے لیے حسرت و ندامت کا باعث بن سکتی ہے۔ اللہ چاہے تو انہیں عذاب دے، اور چاہے تو انہیں بخش دے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ (رض) کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے، ٣- اور آپ کے قول «ترة» کے معنی ہیں حسرت و ندامت کے، بعض عربی داں حضرات کہتے ہیں : «ترة» کے معنی بدلہ کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٥٠٦) ، و مسند احمد (٢/٤٣٢، ٤٤٦، ٤٥٣) (صحیح) (سند میں صالح بن نبہان مولی التوأمة صدوق راوی ہیں، لیکن آخر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے، اس لیے ان سے روایت کرنے والے قدیم تلامیذ جیسے ابن ابی ذئب اور ابن جریج کی ان سے روایت مقبول ہے، لیکن اختلاط کے بعد روایت کرنے والے شاگردوں کی ان سے روایت ضعیف ہوگی، مسند احمد کی روایت زیاد بن سعد اور ابن ابی ذئب قدماء سے ہے، نیز طبرانی اور حاکم میں ان سے راوی عمارہ بن غزیہ قدماء میں سے ہے، اور حاکم نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے، اور متابعات بھی ہیں، جن کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة رقم : ٧٤) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کا سبق یہ ہے کہ مسلمان جب بھی کسی میٹنگ میں بیٹھیں تو آخر مجلس کے خاتمہ پر پڑھی جانے والی دعا ضرور پڑھ لیں ، نہیں تو یہ مجلس بجائے اجر و ثواب کے سبب کے وبال کا سبب بن جائے گی ( یہ حدیث رقم ٣٤٣٣ پر آرہی ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (74) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3380

【12】

اس بارے میں کہ مسلمان کی دعا مقبول ہے

جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو کوئی بندہ اللہ سے دعا کر کے مانگتا ہے اللہ اسے یا تو اس کی مانگی ہوئی چیز دے دیتا ہے، یا اس دعا کے نتیجہ میں اس دعا کے مثل اس پر آئی ہوئی مصیبت دور کردیتا ہے، جب تک اس نے کسی گناہ یا قطع رحمی (رشتہ ناتا توڑنے) کی دعا نہ کی ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابو سعید خدری اور عبادہ بن صامت سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٧٨١) (حسن) (سند میں ابن لھیعہ ضعیف، اور ابوالزبیر مدلس ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ دعا میں فائدہ ہے ، اللہ کی مشیت کے مطابق اگر وہ قبول ہوجاتی ہے تو جو چیز اس سے مانگی گئی ہے وہ مانگنے والے کو دی جاتی ہے اور اگر جب مشیت قبول نہ ہوئی تو اس کی مثل مستقبل میں پہنچنے والی کوئی مصیبت اس سے دور کی جاتی ہے ، یا پھر آخرت میں دعا کی مثل رب العالمین مانگنے والے کو اجر عطا فرمائے گا ، لیکن اگر دعا کسی گناہ کے لیے ہو یا صلہ رحمی کے خلاف ہو تو نہ تو قبول ہوتی ہے ، اور نہ ہی اس کا ثواب ملتا ہے ، اسی طرح دعا کی قبولیت کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ دعا آدمی کے حسب حال ہو ، اس کی فطری حیثیت سے ماوراء نہ ہو جیسے کوئی غریب ہندی یہ دعا کرے کہ اے اللہ مجھے امریکہ کا صدر بنا دے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (2236) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3381

【13】

اس بارے میں کہ مسلمان کی دعا مقبول ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے اچھا لگے (اور پسند آئے) کہ مصائب و مشکلات (اور تکلیف دہ حالات) میں اللہ اس کی دعائیں قبول کرے، تو اسے کشادگی و فراخی کی حالت میں کثرت سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیئے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٤٩٧) (حسن) (سند میں شہر بن حوشب متکلم فیہ راوی ہیں، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو الصحیحة رقم : ٥٩٣) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (595) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3382

【14】

اس بارے میں کہ مسلمان کی دعا مقبول ہے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : سب سے بہتر ذکر «لا إلہ إلا اللہ» ہے، اور بہترین دعا «الحمد للہ» ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف موسیٰ بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- علی بن مدینی اور کئی نے یہ حدیث موسیٰ بن ابراہیم سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٤٢ (٨٣١) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٥ (٣٨٠٠) (تحفة الأشراف : ٢٢٨٦) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : «لا إله إلا الله» افضل ترین ذکر اس لیے ہے کہ یہ اصل التوحید ہے اور توحید کے مثل کوئی نیکی نہیں ، نیز یہ شرک کو سب سے زیادہ نفی کرنے والا جملہ ہے ، اور یہ دونوں باتیں اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہیں ، اور «الحمد لله» سب سے افضل دعا اس معنی کر کے ہے کہ جو بندہ اللہ کی حمد کرتا ہے وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر یہ ادا کرتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «لئن شکرتم لأزيدنكم» اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تم کو اور زیادہ دوں گا ، تو اس سے بہتر طلب ( دعا ) اور کیا ہوگی ، اور بعض علماء کا کہنا ہے کہ «الحمد لله» سے اشارہ ہے سورة الحمدللہ میں جو دعا اس کی طرف ، یعنی «إهدنا الصراط المستقيم» اور یہ سب سے افضل دعا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (3800) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3383

【15】

اس بارے میں کہ مسلمان کی دعا مقبول ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر وقت اللہ کو یاد کرتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٩ (تعلیقا) صحیح مسلم/الطھارة ٣٠ (٣٧٣) ، والحیض ٣٠ (٣٧٣) ، سنن ابی داود/ الطھارة ٩ (١٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١ (٣٠٣) (تحفة الأشراف : ١٦٣٦١) ، و مسند احمد (٦/٧٠، ١٥٣، ١٧٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : سبھی اوقات سے یہ اوقات مستثنیٰ ہیں مثلاً : پاخانہ ، پیشاب کی حالت اور جماع کی حالت ، کیونکہ ان حالات میں ذکر الٰہی نہ کرنا ، اسی طرح ان حالتوں میں مؤذن کے کلمات کا جواب نہ دینا اور چھینک آنے پر «الحمد للہ» نہ کہنا اور سلام کا جواب نہ دینا بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (302) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3384

【16】

اس بارے میں کہ دعا کرنے والا پہلے اپنے لئے دعا کرے

ابی بن کعب (رض) سے کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی کو یاد کر کے اس کے لیے دعا کرتے، تو پہلے اپنے لیے دعا کرتے پھر اس کے لیے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤٤ (١٢٢) ، والأنبیاء ٢٧ (٣٤٠٠) ، وتفسیر (٤٧٢٥) ، صحیح مسلم/الفضائل ٤٦ (٢٣٨٠) ، سنن ابی داود/ الحروف ح ١٦ (٣٩٨٤) (تحفة الأشراف : ٤١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2258 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3385

【17】

دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانے کے بارے میں

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ دعا میں ہاتھ اٹھاتے تھے تو جب تک اپنے دونوں ہاتھ منہ مبارک پر پھیر نہ لیتے انہیں نیچے نہ گراتے تھے، محمد بن مثنیٰ اپنی روایت میں کہتے ہیں : آپ دونوں ہاتھ جب دعا کے لیے اٹھاتے تو انہیں اس وقت تک واپس نہ لاتے جب تک کہ دونوں ہاتھ اپنے چہرے مبارک پر پھیر نہ لیتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف حماد بن عیسیٰ کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- حماد بن عیسیٰ نے اسے تنہا روایت کیا ہے، اور یہ بہت کم حدیثیں بیان کرتے ہیں، ان سے کئی لوگوں نے روایت لی ہے، ٣- حنظلہ ابن ابی سفیان جمحی ثقہ ہیں، انہیں یحییٰ بن سعید قطان نے ثقہ کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٥٣١) (ضعیف) (سند میں ” عیسیٰ بن حماد “ ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : دونوں روایتوں کا مفہوم ایک ہے فرق صرف الفاظ میں ہے ، ایک میں ہے «لم يحطهما» اور دوسری میں ہے «لايردهما» اور یہی یہاں دونوں روایتوں کے ذکر سے بتانا مقصود ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2245) ، الإرواء (433) // ضعيف الجامع الصغير (4412) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3386

【18】

دعا میں جلدی کرنے والے کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر کسی کی دعا قبول کی جاتی ہے، جب تک کہ وہ جلدی نہ مچائے (جلدی یہ ہے کہ) وہ کہنے لگتا ہے : میں نے دعا کی مگر وہ قبول نہ ہوئی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٢٢ (٦٣٤٠) ، صحیح مسلم/الزکر والدعاء ٢٥ (٢٧٣٥) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٨ (١٤٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٨ (٣٨٥٣) (تحفة الأشراف : ١٢٩٢٩) ، وط/القرآن ٨ (٢٩) ، و مسند احمد (٢/٣٩٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ دعا کرتے ہوئے انسان یہ کبھی نہ سوچے کہ دعا مانگتے ہوئے اتنا عرصہ گزر گیا اور دعا قبول نہیں ہوئی ، بلکہ اسے مسلسل دعا مانگتے رہنا چاہیئے ، کیونکہ اس تاخیر میں بھی کوئی مصلحت ہے جو صرف اللہ کو معلوم ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2334) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3387

【19】

صبح اور شام کی دعائے متعلق

ابان بن عثمان کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسا کوئی شخص نہیں ہے جو ہر روز صبح و شام کو «بسم اللہ الذي لا يضر مع اسمه شيء في الأرض ولا في السماء وهو السميع العليم» میں اس اللہ کے نام کے ذریعہ سے پناہ مانگتا ہوں جس کے نام کی برکت سے زمین و آسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی، اور وہ سننے والا جاننے والا ہے ، تین بار پڑھے اور اسے کوئی چیز نقصان پہنچا دے۔ ابان کو ایک جانب فالج کا اثر تھا، (حدیث سن کر) حدیث سننے والا شخص ان کی طرف دیکھنے لگا، ابان نے ان سے کہا : میاں کیا دیکھ رہے ہو ؟ حدیث بالکل ویسی ہی ہے جیسی میں نے تم سے بیان کی ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ جس دن مجھ پر فالج کا اثر ہوا اس دن میں نے یہ دعا نہیں پڑھی تھی، اور نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے مجھ پر اپنی تقدیر کا فیصلہ جاری کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١١٠ (٥٠٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٤ (٣٨٦٩) (تحفة الأشراف : ٩٧٧٨) ، و مسند احمد (١/٦٢، ٧٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (3869) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3388

【20】

صبح اور شام کی دعائے متعلق

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص شام کے وقت کہا کرے «رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا» میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی (و خوش) ہوں ، تو اللہ پر یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس بندے کو بھی اپنی طرف سے راضی و خوش کر دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢١٢٢) (ضعیف) (سند میں سعید بن المرزبان ضعیف راوی ہیں، تراجع الالبانی ٢٠٧) قال الشيخ الألباني : ضعيف نقد الکتاني (33 / 34) ، الکلم الطيب (24) ، الضعيفة (5020) // ضعيف الجامع الصغير (5735) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3389

【21】

صبح اور شام کی دعائے متعلق

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب شام ہوتی تو نبی اکرم ﷺ کہتے «أمسينا وأمسی الملک لله والحمد لله ولا إله إلا اللہ وحده لا شريك له أراه قال فيها له الملک وله الحمد وهو علی كل شيء قدير أسألک خير ما في هذه الليلة وخير ما بعدها وأعوذ بک من شر هذه الليلة وشر ما بعدها وأعوذ بک من الکسل وسوء الکبر وأعوذ بک من عذاب النار وعذاب القبر» ہم نے شام کی اور ساری بادشاہی نے شام کی اللہ کے حکم سے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اللہ وحدہ لاشریک لہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے اسی کے لیے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اس رات میں جو خیر ہے، اس کا میں طالب ہوں، اور رات کے بعد کی بھی جو بھلائی ہے اس کا بھی میں خواہاں ہوں، اور اس رات کی برائی اور رات کے بعد کی بھی برائی سے میں پناہ مانگتا ہوں، اور پناہ مانگتا ہوں میں سستی اور کاہلی سے، اور پناہ مانگتا ہوں بوڑھا پے کی تکلیف سے، اور پناہ مانگتا ہوں آگ کے عذاب سے اور پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے ، اور جب صبح ہوتی تو اس وقت بھی یہی دعا پڑھتے، تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ «أمسينا» کی جگہ «أصبحنا» اور «أمسی» کی جگہ «أصبح» کہتے «وأصبح الملک لله والحمد لله» صبح کی ہم نے، اور صبح کی ساری بادشاہی نے، اور ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے، شعبہ نے یہ حدیث اسی سند سے ابن مسعود سے روایت کی ہے، اور اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٨ (٢٧٢٣) ، سنن ابی داود/ الأدب ١١٠ (٥٠٧١) (تحفة الأشراف : ٩٣٨٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3390

【22】

صبح اور شام کی دعائے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کو سکھاتے ہوئے کہتے تھے کہ جب تمہاری صبح ہو تو کہو «اللهم بك أصبحنا وبک أمسينا وبک نحيا وبک نموت وإليك المصير» اے اللہ ! تیرے حکم سے ہم نے صبح کی اور تیرے ہی حکم سے ہم نے شام کی، تیرے حکم سے ہم زندہ ہیں اور تیرے ہی حکم سے ہم مریں گے ، اور آپ نے اپنے صحابہ کو سکھایا جب تم میں سے کسی کی شام ہو تو اسے چاہیئے کہ کہے «اللهم بك أمسينا وبک أصبحنا وبک نحيا وبک نموت وإليك النشور» ہم نے تیرے ہی حکم سے شام کی اور تیرے ہی حکم سے صبح کی تھی، تیرے ہی حکم سے ہم زندہ ہیں اور تیرا جب حکم ہوگا، ہم مرجائیں گے اور تیری ہی طرف ہمیں اٹھ کر جانا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٦٨٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3868) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3391

【23】

اسی سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیجئیے جسے میں صبح و شام میں پڑھ لیا کروں، آپ نے فرمایا : کہہ لیا کرو : «اللهم عالم الغيب والشهادة فاطر السموات والأرض رب کل شيء ومليكه أشهد أن لا إله إلا أنت أعوذ بک من شر نفسي ومن شر الشيطان وشرکه» اے اللہ ! غائب و حاضر، موجود اور غیر موجود کے جاننے والے، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، ہر چیز کے مالک ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، میں اپنے نفس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، میں شیطان کے شر اور اس کی دعوت شرک سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، آپ نے فرمایا : یہ دعا صبح و شام اور جب اپنی خواب گاہ میں سونے چلو پڑھ لیا کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١١٠ (٥٠٧٦) (تحفة الأشراف : ١٤٢٧٤) و مسند احمد (٢/٢٩٧) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٥٤ (٢٧٣١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الکلم الطيب (22) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3392

【24】

شداد بن اوس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : کیا میں تمہیں «سيد الاستغفار» (طلب مغفرت کی دعاؤں میں سب سے اہم دعا) نہ بتاؤں ؟ (وہ یہ ہے) : «اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت خلقتني وأنا عبدک وأنا علی عهدک ووعدک ما استطعت أعوذ بک من شر ما صنعت وأبوء لک بنعمتک علي وأعترف بذنوبي فاغفر لي ذنوبي إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» اے اللہ ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود برحق نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا، میں تیرا بندہ ہوں، میں اپنی استطاعت بھر تجھ سے کیے ہوئے وعدہ و اقرار پر قائم ہوں، اور میں تیری ذات کے ذریعہ اپنے کئے کے شر سے پناہ مانگتا ہوں تو نے مجھے جو نعمتیں دی ہیں، ان کا اقرار اور اعتراف کرتا ہوں، میں اپنے گناہوں کو تسلیم کرتا ہوں تو میرے گناہوں کو معاف کر دے، کیونکہ گناہ تو بس تو ہی معاف کرسکتا ہے ، شداد کہتے ہیں : آپ نے فرمایا : یہ دعا تم میں سے کوئی بھی شام کو پڑھتا ہے اور صبح ہونے سے پہلے ہی اس پر «قدر» (موت) آ جاتی ہے تو جنت اس کے لیے واجب ہوجاتی ہے، اور کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو اس دعا کو صبح کے وقت پڑھے اور شام ہونے سے پہلے اسے «قدر» (موت) آ جائے مگر یہ کہ جنت اس پر واجب ہوجاتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے شداد بن اوس (رض) کے واسطہ سے آئی ہے، ٣- اس باب میں ابوہریرہ، ابن عمر، ابن مسعود، ابن ابزی اور بریدہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٨٢٥) (وأخرجہ صحیح البخاری/الدعوات ٢ (٦٣٠٦) ، وسنن النسائی/الاستعاذة ٥٦ (٥٥٢٤) ، و مسند احمد (٤/١٢٢، ١٢٥) ، نحوہ بدون قولہ ” ألا ا أدلک علی سید الاستغفار “ ) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1747) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3393

【25】

سوتے وقت پڑھنے والی دعائیں

براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے کہا : کیا میں تمہیں ایسے کچھ کلمات نہ سکھاؤں جنہیں تم اپنے بستر پر سونے کے لیے جانے لگو تو کہہ لیا کرو، اگر تم اسی رات میں مرجاؤ تو فطرت پر (یعنی اسلام پر) مرو گے اور اگر تم نے صبح کی تو صبح کی، خیر (اجر و ثواب) حاصل کر کے، تم کہو :«اللهم إني أسلمت نفسي إليك ووجهت وجهي إليك وفوضت أمري إليك رغبة ورهبة إليك وألجأت ظهري إليك لا ملجأ ولا منجی منك إلا إليك آمنت بکتابک الذي أنزلت ونبيك الذي أرسلت» اے اللہ ! میں نے اپنی جان تیرے حوالے کردی، میں اپنا رخ تیری طرف کر کے پوری طرح متوجہ ہوگیا، میں نے اپنا معاملہ تیری سپردگی میں دے دیا، تجھ سے امیدیں وابستہ کر کے اور تیرا خوف دل میں بسا کر، میری پیٹھ تیرے حوالے، تیرے سوا نہ میرے لیے کوئی جائے پناہ ہے اور نہ ہی تجھ سے بچ کر تیرے سوا کوئی ٹھکانا میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری ہے، میں تیرے اس رسول پر ایمان لایا جسے تو نے رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ براء کہتے ہیں : میں نے «نبيك الذي أرسلت» کی جگہ «برسولک الذي أرسلت» کہہ دیا تو آپ ﷺ نے میرے سینے پر اپنے ہاتھ سے کونچا، پھر فرمایا : «ونبيك الذي أرسلت» ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- یہ حدیث براء (رض) سے کئی سندوں سے آئی ہے، ٣- اس حدیث کو منصور بن معتمر نے سعد بن عبیدہ سے اور سعد نے براء کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، البتہ ان کی روایت میں اتنا فرق ہے کہ جب تم اپنے بستر پر آؤ اور تم وضو سے ہو تو یہ دعا پڑھا کرو، ٤- اس باب میں رافع بن خدیج (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢١٥ (٧٥٩) ، و ٢٢٢ (٧٧ ¤ ٣- ٧٨٧) (تحفة الأشراف : ١٨٥٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی میں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہی کہو ، انہیں بدلو نہیں ، چاہے یہ الفاظ قرآن کے نہ بھی ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الکلم الطيب (41 / 26) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3394

【26】

سوتے وقت پڑھنے والی دعائیں

رافع بن خدیج (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنی داہنی کروٹ لیٹے پھر پڑھے : «اللهم أسلمت نفسي إليك ووجهت وجهي إليك وألجأت ظهري إليك وفوضت أمري إليك لا ملجأ ولا منجی منك إلا إليك أومن بکتابک وبرسولک» اے اللہ ! میں نے اپنی جان تیرے سپرد کردی، میں نے اپنا منہ (اوروں کی طرف سے پھیر کر) تیری طرف کردیا، میں نے اپنی پیٹھ تیری طرف ٹیک دی، میں نے اپنا معاملہ تیرے حوالے کردیا، تجھ سے بچ کر تیرے سوا اور کوئی جائے پناہ و جائے نجات نہیں ہے، میں تیری کتاب اور تیرے رسولوں پر ایمان لاتا ہوں ، پھر اسی رات میں مرجائے، تو وہ جنت میں جائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث رافع بن خدیج (رض) کی روایت سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٢٢ (٧٧١) (تحفة الأشراف : ٣٥٨٩) (ضعیف) (سند میں یحییٰ بن کثیر ثقہ راوی ہیں، لیکن تدلیس اور ارسال کرتے ہیں، اور یہاں روایت عنعنہ سے کی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد، وقوله : وبرسولک مخالف للصحيح الذي قبله (3394) // ضعيف الجامع الصغير (381) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3395

【27】

سوتے وقت پڑھنے والی دعائیں

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے بستر پر سونے کے لیے آتے تو کہتے : «الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وکفانا وآوانا فکم ممن لا کا في له ولا مؤوي» تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم کو کھلایا اور پلایا اور بچایا ہم کو (مخلوق کے شر سے) اور ہم کو (رہنے سہنے کے لیے) ٹھکانا دیا، جب کہ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کا نہ کوئی حمایتی اور محافظ ہے اور نہ ہی کوئی ٹھکانا اور جائے رہائش ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٧ (٢٧١٥) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٠٧ (٥٠٥٣) (تحفة الأشراف : ٣١١) ، و مسند احمد (٣/١٥٣، ١٦٧، ٢٣٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3396

【28】

اسی کے بارے میں

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے بستر پر سونے کے لیے جاتے ہوئے تین بار کہے : «أستغفر اللہ العظيم الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه» میں اس عظیم ترین اللہ سے استغفار کرتا ہوں کہ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، وہ ہمیشہ زندہ اور تا ابد قائم و دائم رہنے والا ہے، اور میں اسی کی طرف رجوع ہوتا ہوں ، اللہ اس کے گناہ بخش دے گا اگرچہ وہ گناہ سمندر کی جھاگ کی طرح (بےشمار) ہوں، اگرچہ وہ گناہ درخت کے پتوں کی تعداد میں ہوں، اگرچہ وہ گناہ اکٹھا ریت کے ذروں کی تعداد میں ہوں، اگرچہ وہ دنیا کے دنوں کے برابر ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف اس سند سے عبیداللہ بن ولید وصافی کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٢١٤) (ضعیف) (سند میں ” عطیہ عوفی “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الکلم الطيب (39) ، التعليق الرغيب (1 / 211) // ضعيف الجامع الصغير (5728) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3397

【29】

اسی کے بارے میں

حذیفہ بن یمان (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سونے کا ارادہ کرتے تو اپنا ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھتے، پھر پڑھتے : «اللهم قني عذابک يوم تجمع أو تبعث عبادک» اے اللہ ! مجھے تو اس دن کے عذاب سے بچا لے جس دن تو اپنے بندوں کو جمع کرے گا یا اٹھائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٣٢٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2754) ، الکلم الطيب (37 / 39) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3398

【30】

اسی کے بارے میں

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سوتے وقت اپنے داہنے ہاتھ کا تکیہ بناتے تھے، پھر پڑھتے تھے : «رب قني عذابک يوم تبعث عبادک» اے میرے رب ! مجھے اس دن کے عذاب سے بچا لے جس دن کہ تو مردوں کو اٹھا کر زندہ کرے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- یہ حدیث (امام) ثوری نے ابواسحاق سے روایت کی، اور ابواسحاق نے براء سے، اور امام ثوری نے ان دونوں یعنی ابواسحاق و براء کے بیچ میں کسی اور راوی کا ذکر نہیں کیا، ٣- روایت کی شعبہ نے ابواسحاق سے، اور ابواسحاق نے ابوعبیدہ سے، اور ایک دوسرے شخص نے براء سے، ٤- اسرائیل نے ابواسحاق سے، اور ابواسحاق نے عبداللہ بن یزید کے واسطہ سے براء سے روایت کی ہے، اور ابواسحاق نے ابوعبیدہ اور ابوعبیدہ نے عبداللہ بن مسعود (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی کی طرح روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢١٥ (٧٥ ¤ ٢- ٧٥٨) (تحفة الأشراف : ١٩٢٣) ، و مسند احمد (٤/٢٩٠، ٢٩٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3399

【31】

اسی کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیتے تھے کہ جب ہم میں سے کوئی اپنے بستر پر سونے کے لیے جائے تو کہے : «اللهم رب السموات ورب الأرضين وربنا ورب کل شيء وفالق الحب والنوی ومنزل التوراة والإنجيل والقرآن أعوذ بک من شر کل ذي شر أنت آخذ بناصيته أنت الأول فليس قبلک شيء وأنت الآخر فليس بعدک شيء والظاهر فليس فوقک شيء والباطن فليس دونک شيء اقض عني الدين وأغنني من الفقر» اے آسمانوں اور زمینوں کے رب ! اے ہمارے رب ! اے ہر چیز کے رب ! زمین چیر کر دانے اور گٹھلی سے پودے اگانے والے، توراۃ، انجیل اور قرآن نازل کرنے والے، اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ہر شر والی چیز کے شر سے، تو ہی ہر شر و فساد کی پیشانی اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ تو ہی سب سے پہلے ہے تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں ہے، تو ہی سب سے آخر ہے، تیرے بعد کوئی چیز نہیں ہے، تو سب سے ظاہر (اوپر) ہے تیرے اوپر کوئی چیز نہیں ہے، تو باطن (نیچے و پوشیدہ) ہے تیرے سے نیچے کوئی چیز نہیں ہے، مجھ پر جو قرض ہے اسے تو ادا کر دے اور تو مجھے محتاجی سے نکال کر غنی کر دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٧ (٢٧١٣) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٠٧ (٥٠٥١) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٢ (٣٨٧٣) (تحفة الأشراف : ١٢٦٣١) ، و مسند احمد (٢/٤٠٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الکلم الطيب (40) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3400

【32】

None

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی تم میں سے اپنے بستر پر سے اٹھ جائے پھر لوٹ کر اس پر ( لیٹنے، بیٹھنے ) آئے تو اسے چاہیئے کہ اپنے ازار ( تہبند، لنگی ) کے ( پلو ) کو نے اور کنارے سے تین بار بستر کو جھاڑ دے، اس لیے کہ اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس کے اٹھ کر جانے کے بعد وہاں کون سی چیز آ کر بیٹھی یا چھپی ہے، پھر جب لیٹے تو کہے: «باسمك ربي وضعت جنبي وبك أرفعه فإن أمسكت نفسي فارحمها وإن أرسلتها فاحفظها بما تحفظ به عبادك الصالحين» ”اے میرے رب! میں تیرا نام لے کر ( اپنے بستر پر ) اپنے پہلو کو ڈال رہا ہوں یعنی سونے جا رہا ہوں، اور تیرا ہی نام لے کر میں اسے اٹھاؤں گا بھی، پھر اگر تو میری جان کو ( سونے ہی کی حالت میں ) روک لیتا ہے ( یعنی مجھے موت دے دیتا ہے ) تو میری جان پر رحم فرما، اور اگر تو سونے دیتا ہے تو اس کی ویسی ہی حفاظت فرما جیسی کہ تو اپنے نیک و صالح بندوں کی حفاظت کرتا ہے“، پھر نیند سے بیدار ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ کہے: «الحمد لله الذي عافاني في جسدي ورد علي روحي وأذن لي بذكره» ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے بدن کو صحت مند رکھا، اور میری روح مجھ پر لوٹا دی اور مجھے اپنی یاد کی اجازت ( اور توفیق ) دی“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حدیث حسن ہے، ۲- بعض دوسرے راویوں نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے، اور اس روایت میں انہوں نے «فلينفضه بداخلة إزاره» کا لفظ استعمال کیا ہے «بداخلة إزاره» سے مراد تہبند کا اندر والا حصہ ہے، ۳- اس باب میں جعفر اور عائشہ رضی الله عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں۔

【33】

سوتے وقت قرآن پڑھنے کے بارے میں

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر رات جب اپنے بستر پر آتے تو اپنی دونوں ہتھیلیاں اکٹھی کرتے، پھر ان دونوں پر یہ سورتیں : «قل هو اللہ أحد» ، «قل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس» ١ ؎ پڑھ کر پھونک مارتے، پھر ان دونوں ہتھیلیوں کو اپنے جسم پر جہاں تک وہ پہنچتیں پھیرتے، اور شروع کرتے اپنے سر، چہرے اور بدن کے اگلے حصے سے، اور ایسا آپ تین بار کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ١٢ (٦٣١٩) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٠٧ (٥٠٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٥ (٣٨٧٥) (تحفة الأشراف : ١٦٥٣٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : انہیں معوذات کہا جاتا ہے ، کیونکہ ان کے ذریعہ سے اللہ رب العالمین کے حضور پناہ کی درخواست کی جاتی ہے ، معلوم ہوا کہ سوتے وقت ان سورتوں کو پڑھنا چاہیئے تاکہ سوتے میں اللہ کی پناہ حاصل ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3402

【34】

None

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر انہوں نے کہا: اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جسے میں جب اپنے بستر پر جانے لگوں تو پڑھ لیا کروں، آپ نے فرمایا: «قل يا أيها الكافرون» پڑھ لیا کرو، کیونکہ اس سورۃ میں شرک سے برأۃ ( نجات ) ہے۔ شعبہ کہتے ہیں: ( ہمارے استاذ ) ابواسحاق کبھی کہتے ہیں کہ سورۃ «قل يا أيها الكافرون» ایک بار پڑھ لیا کرو، اور کبھی ایک بار کا ذکر نہیں کرتے۔

【35】

جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اس وقت تک سوتے نہ تھے جب تک کہ سونے سے پہلے آپ سورة «سجدہ» اور سورة « تبارک الذی» (یعنی سورة الملک) پڑھ نہ لیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سفیان (ثوری) اور کچھ دوسرے لوگوں نے بھی یہ حدیث لیث سے، لیث نے ابوالزبیر سے، ابوالزبیر نے جابر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، ٢- زہیر نے بھی یہ حدیث ابوالزبیر سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا : کیا آپ نے یہ حدیث جابر سے (خود) سنی ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے یہ حدیث جابر سے نہیں سنی ہے، میں نے یہ حدیث صفوان یا ابن صفوان سے سنی ہے، ٣- شبابہ نے مغیرہ بن مسلم سے، مغیرہ نے ابوالزبیر سے اور ابوالزبیر نے جابر سے لیث کی حدیث کی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٨٩٢ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2155) ، الصحيحة (585) ، الروض النضير (227) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3404

【36】

None

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ الزمر اور سورۃ بنی اسرائیل جب تک پڑھ نہ لیتے سوتے نہ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: مجھے محمد بن اسماعیل بخاری نے خبر دی ہے کہ ابولبابہ کا نام مروان ہے، اور یہ عبدالرحمٰن بن زیاد کے آزاد کردہ غلام ہیں، انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے سنا ہے اور ان ( ابولبابہ ) سے حماد بن زید نے سنا ہے۔

【37】

عرباض بن ساریہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب تک «مسبحات» ١ ؎ پڑھ نہ لیتے سوتے نہ تھے ٢ ؎، آپ فرماتے تھے : ان میں ایک ایسی آیت ہے جو ہزار آیتوں سے بہتر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٩٢١ (ضعیف) (سند میں بقیة بن الولید مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز عبد اللہ بن أبی بلال الخزاعی الشامی مقبول عندالمتابعہ ہیں، اور ان کا کوئی متابع نہیں اس لیے ضعیف ہیں، البانی صاحب نے صحیح الترمذی میں پہلی جگہ ضعیف الإسناد لکھا ہے، اور دوسری جگہ حسن جب کہ ضعیف الترغیب (٣٤٤) میں اسے ضعیف کہا ہے) وضاحت : ١ ؎ : وہ سورتیں جن کے شروع میں «سبح» ، «ی سبح» یا «سبحان اللہ» ہے۔ ٢ ؎ : سونے کے وقت پڑھی جانے والی سورتوں اور دعاؤں کے بارے میں آپ ﷺ سے متعدد روایات وارد ہیں جن میں بعض کا مولف نے بھی ذکر کیا ہے ، نبی اکرم ﷺ سے بالکل ممکن ہے کہ وہ ساری دعائیں اور سورتیں پڑھ لیتے ہوں ، یا نشاط اور چستی کے مطابق کبھی کوئی پڑھ لیتے ہوں اور کبھی کوئی۔ قال الشيخ الألباني : حسن ومضی برقم (3101) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3406

【38】

بنی حنظلہ کے ایک شخص نے کہا کہ میں شداد بن اوس (رض) کے ساتھ ایک سفر میں تھا، انہوں نے کہا : کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ سکھاؤں جسے ہمیں رسول اللہ ﷺ سکھاتے تھے، آپ نے ہمیں سکھایا کہ ہم کہیں : «اللهم إني أسألک الثبات في الأمر وأسألک عزيمة الرشد وأسألک شکر نعمتک وحسن عبادتک وأسألک لسانا صادقا وقلبا سليما وأعوذ بک من شر ما تعلم وأسألک من خير ما تعلم وأستغفرک مما تعلم إنك أنت علام الغيوب» اے اللہ ! میں تجھ سے کام میں ثبات (جماؤ ٹھہراؤ) کی توفیق مانگتا ہوں، میں تجھ سے نیکی و بھلائی کی پختگی چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ تو مجھے اپنی نعمت کے شکریہ کی توفیق دے، اپنی اچھی عبادت کرنے کی توفیق دے، میں تجھ سے لسان صادق اور قلب سلیم کا طالب ہوں، میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس شر سے جو تیرے علم میں ہے اور اس خیر کا بھی میں تجھ سے طلب گار ہوں جو تیرے علم میں ہے اور تجھ سے مغفرت مانگتا ہوں ان گناہوں کی جنہیں تو جانتا ہے تو بیشک ساری پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٣٣ (٨١٢) (تحفة الأشراف : ٤٨٣١) ، و مسند احمد (٤/١٢٥) (ضعیف) (سند میں ایک راوی ” مبہم “ ہے) قال الشيخ الألباني : (حديث : اللهم إني أسألک الثبات في الأمر ... ) ضعيف، (حديث : ما من مسلم يأخذ مضجعه .... ) ضعيف (حديث : اللهم إني أسألک الثبات في الأمر ... ) ، المشکاة (955) ، الکلم الطيب (104 / 65) ، (حديث : ما من مسلم يأخذ مضجعه ... ) ، المشکاة (2405) ، التعليق الرغيب (1 / 210) // ضعيف الجامع الصغير (5218) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3407 شداد بن اوس (رض) نے کہا : اور رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : جو مسلمان بھی اپنے بستر پر سونے کے لیے جاتا ہے، اور کتاب اللہ (قرآن پاک) میں سے کوئی سورت پڑھ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لیے فرشتہ مقرر کردیتا ہے، جس کی وجہ سے تکلیف دینے والی کوئی چیز اس کے قریب نہیں پھٹکتی، یہاں تک کہ وہ سو کر اٹھے جب بھی اٹھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- جریری : یہ سعید بن ایاس ابومسعود جریری ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : (حديث : اللهم إني أسألک الثبات في الأمر ... ) ضعيف، (حديث : ما من مسلم يأخذ مضجعه .... ) ضعيف (حديث : اللهم إني أسألک الثبات في الأمر ... ) ، المشکاة (955) ، الکلم الطيب (104 / 65) ، (حديث : ما من مسلم يأخذ مضجعه ... ) ، المشکاة (2405) ، التعليق الرغيب (1 / 210) // ضعيف الجامع الصغير (5218) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3407

【39】

سوتے وقت تسبیح، تکبیر، اور تحمید کہنے کے بارے میں

علی (رض) کہتے ہیں کہ فاطمہ (رض) نے مجھ سے آٹا پیسنے کے سبب ہاتھوں میں آبلے پڑجانے کی شکایت کی، میں نے ان سے کہا : کاش آپ اپنے ابو جان کے پاس جاتیں اور آپ ﷺ سے اپنے لیے ایک خادم مانگ لیتیں، (وہ گئیں تو) آپ نے (جواب میں) فرمایا : کیا میں تم دونوں کو ایسی چیز نہ بتادوں جو تم دونوں کے لیے خادم سے زیادہ بہتر اور آرام دہ ہو، جب تم دونوں اپنے بستروں پر سونے کے لیے جاؤ تو ٣٣ بار الحمدللہ اور سبحان اللہ اور ٣٤ بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو، اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث ابن عون کی روایت سے حسن غریب ہے، ٢- یہ حدیث کئی اور سندوں سے علی (رض) سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ٦ (٣١١٢) ، والمناقب ٩ (٣٧٠٥) ، والنفقات ٦ (٥٣٦١) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٩ (٢٧٢٧) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٠٩ (٥٠٦٢) (تحفة الأشراف : ١٠٢٣٥) ، و مسند احمد (١/٩٦، ١٣٦، ١٤٦) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٥٢ (٢٧٢٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : وہ قصہ یہ ہے کہ کہیں سے مال غنیمت آیا تھا جس میں غلام اور باندیاں بھی تھیں ، علی (رض) نے انہیں میں سے مانگنے کے لیے فاطمہ (رض) کو بھیجا ، لیکن آپ نے فاطمہ (رض) کو لوٹا دیا اور رات میں ان کے گھر آ کر مذکورہ تسبیحات بتائیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3408

【40】

سوتے وقت تسبیح، تکبیر، اور تحمید کہنے کے بارے میں

علی (رض) کہتے ہیں کہ (آپ کی بیٹی) فاطمہ (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس اپنے ہاتھوں میں آبلے پڑجانے کی شکایت کرنے آئیں تو آپ نے انہیں تسبیح (سبحان اللہ) تکبیر (اللہ اکبر) اور تحمید (الحمدللہ) پڑھنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3409

【41】

اسی سے متعلق

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو عادتیں ایسی ہیں جنہیں جو بھی مسلمان پابندی اور پختگی سے اپنائے رہے گا وہ جنت میں جائے گا، دھیان سے سن لو، دونوں آسان ہیں مگر ان پر عمل کرنے والے تھوڑے ہیں، ہر نماز کے بعد دس بار اللہ کی تسبیح کرے (سبحان اللہ کہے) دس بار حمد بیان کرے (الحمدللہ کہے) اور دس بار اللہ کی بڑائی بیان کرے (اللہ اکبر کہے) ۔ عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو انہیں اپنی انگلیوں پر شمار کرتے ہوئے دیکھا ہے، آپ نے فرمایا : یہ تو زبان سے گننے میں ڈیڑھ سو ١ ؎ ہوئے لیکن یہ (دس گنا بڑھ کر) میزان میں ڈیڑھ ہزار ہوجائیں گے۔ (یہ ایک خصلت و عادت ہوئی) اور (دوسری خصلت و عادت یہ ہے کہ) جب تم بستر پر سونے جاؤ تو سو بار سبحان اللہ، اللہ اکبر اور الحمدللہ کہو، یہ زبان سے کہنے میں تو سو ہیں لیکن میزان میں ہزار ہیں، (اب بتاؤ) کون ہے تم میں جو دن و رات ڈھائی ہزار گناہ کرتا ہو ؟ لوگوں نے کہا : ہم اسے ہمیشہ اور پابندی کے ساتھ کیوں نہیں کرسکیں گے ؟ آپ نے فرمایا : (اس وجہ سے) کہ تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہوتا ہے، شیطان اس کے پاس آتا ہے اور اس سے کہتا ہے : فلاں بات کو یاد کرو، فلاں چیز کو سوچ لو، یہاں تک کہ وہ اس کی توجہ اصل کام سے ہٹا دیتا ہے، تاکہ وہ اسے نہ کرسکے، ایسے ہی آدمی اپنے بستر پر ہوتا ہے اور شیطان آ کر اسے (تھپکیاں دیدے کر) سلاتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ (بغیر تسبیحات پڑھے) سو جاتا ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- شعبہ اور ثوری نے یہ حدیث عطاء بن سائب سے روایت کی ہے۔ اور اعمش نے یہ حدیث عطاء بن سائب سے اختصار کے ساتھ روایت کی ہے، ٣- اس باب میں زید بن ثابت، انس اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٠٩ (٥٠٦٥) ، سنن النسائی/السھو ٩١ (١٣٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٢ (٩٢٦) (تحفة الأشراف : ٨٦٣٨) ، و مسند احمد (٢/١٦٠، ٢٠٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ہر نماز کے بعد دس مرتبہ اگر انہیں پڑھا جائے تو ان کی مجموعی تعداد ڈیڑھ سو ہوتی ہے۔ ٢ ؎ : یہی وجہ ہے کہ یہ دو مستقل عادتیں و خصلتیں رکھنے والے لوگ تھوڑے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (926) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3410

【42】

اسی سے متعلق

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو تسبیح (سبحان اللہ) انگلیوں پر گنتے ہوئے دیکھا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اعمش کی روایت سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٩ (١٥٠٢) ، سنن النسائی/السھو ٩٧ (١٣٥٦) (تحفة الأشراف : ٨٦٣٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (926) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3411

【43】

اسی سے متعلق

کعب بن عجرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کچھ چیزیں نماز کے پیچھے (بعد میں) پڑھنے کی ایسی ہیں کہ ان کا کہنے والا محروم و نامراد نہیں رہتا، ہر نماز کے بعد ٣٣ بار سبحان اللہ کہے، ٣٣ بار الحمدللہ کہے، اور ٣٤ بار اللہ اکبر کہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- شعبہ نے یہ حدیث حکم سے روایت کی ہے، اور اسے مرفوع نہیں کیا ہے، اور منصور بن معتمر نے حکم سے روایت کی ہے اور اسے مرفوع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩٦) ، سنن النسائی/السھو ٩٢ (١٣٥٠) ، وعمل الیوم واللیلة ٥٩ (١٥٥) (تحفة الأشراف : ١١١١٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (102) (هذا حديث زيد بن ثابت فی نسخة الدع اس فی التسبيح والتحميد والتکبير والتهليل) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3412

【44】

اسی سے متعلق

زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہر نماز کے بعد ہم (سلام پھیر کر) ٣٣ بار سبحان اللہ، ٣٣ بار الحمدللہ اور ٣٤ بار اللہ اکبر کہیں، راوی (زید) کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے خواب دیکھا، خواب میں نظر آنے والے شخص (فرشتہ) نے پوچھا : کیا تمہیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے کہ ہر نماز کے بعد ٣٣ بار سبحان اللہ ٣٣ بار الحمدللہ اور ٣٤ بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو ؟ اس نے کہا : ہاں، (تو سائل (فرشتے) نے کہا : (٣٣، ٣٣ اور ٣٤ کے بجائے) ٢٥ کرلو، اور «لا إلہ إلا اللہ» کو بھی انہیں کے ساتھ شامل کرلو، (اس طرح کل سو ہوجائیں گے) صبح جب ہوئی تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے، اور آپ سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا : ایسا ہی کرلو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السھو ٩٣ (١٣٥١) (تحفة الأشراف : ٣٤١٣) ، و مسند احمد (٥/٥٨٥، ١٩٠) ، وسنن الدارمی/الصلاة ٩٠ (١٣٩٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سلسلے میں تین روایتیں ہیں ایک یہی اس حدیث میں مذکور طریقہ ( یعنی ٣٣/٣٣/ اور ٣٤ بار ) دوسرا طریقہ وہی جو فرشتے نے بتایا ، اور ایک تیسرا طریقہ یہ ہے کہ سبحان اللہ ، الحمدللہ ، اللہ اکبر ٣٣/٣٣ بار ، اور ایک بار سو کا عدد پورا کرنے کے لیے «لا الہ الا اللہ» کہے ، جو طریقہ بھی اپنائے سب ثابت ہے ، کبھی یہ کرے اور کبھی وہ۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3413

【45】

رات کو آنکھ کھل جانے پر پڑھی جانے والے دُعا

عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی نیند سے جاگے پھر کہے «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو علی كل شيء قدير و سبحان اللہ والحمد لله ولا إله إلا اللہ والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله» ١ ؎، پھر کہے «رب اغفر لي» اے میرے رب ہمیں بخش دے ، یا آپ نے کہا : پھر وہ دعا کرے تو اس کی دعا قبول کی جائے گی، پھر اگر اس نے ہمت کی اور وضو کیا پھر نماز پڑھی تو اس کی نماز مقبول ہوگی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٢١ (١١٥٤) ، والأدب ١٠٨ (٥٠٦٠) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٦ (٣٨٧٨) (تحفة الأشراف : ٥٠٧٤) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٥٣ (٢٧٢٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اللہ واحد کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، بادشاہت اسی کی ہے اور اسی کے لیے سب تعریفیں ہیں ، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور اللہ سب سے بڑا ہے ، اور گناہ سے بچنے کی قوت اور نیکی کرنے کی طاقت نہیں ہے مگر اللہ کی توفیق سے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3878) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3414

【46】

رات کو آنکھ کھل جانے پر پڑھی جانے والے دُعا

مسلمہ بن عمرو کہتے ہیں کہ عمیر بن ہانی ١ ؎ ہر دن ہزار رکعتیں نمازیں پڑھتے تھے، اور سو ہزار (یعنی ایک لاکھ) تسبیحات پڑھتے تھے، یعنی سبحان اللہ کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩١٨١) (ضعیف الإسناد) (سند میں ” مسلمہ بن عمرو شامی “ مجہول راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یہ دمشق کے رہنے والے ایک تابعی ہیں ، ستۃ کے رواۃ میں سے ہیں ، اور ثقہ ہیں ، ١٢٧ ھ میں شہید کردیئے گئے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3415

【47】

اسی کے بارے میں

ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے دروازے کے پاس سوتا تھا، اور آپ کو وضو کا پانی دیا کرتا تھا، میں آپ کو «سمع اللہ لمن حمده» کہتے ہوئے سنتا تھا، نیز میں آپ کو «الحمد لله رب العالمين» پڑھتے ہوئے سنتا تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٣ (٤٨٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٢ (١٣٢٠) ، سنن النسائی/التطبیق ٧٩ (١١٣٩) ، وقیام اللیل ٩ (١٦١٧) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٦ (١٦٧٩) (تحفة الأشراف : ٣٦٠٣) ، و مسند احمد (٤/٥٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : جب جب آپ رات میں اٹھا کرتے تو یہ دونوں دعائیں کافی دیر تک پڑھتے تھے یا کبھی یہ اور کبھی وہ پڑھتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3879) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3416

【48】

اسی کے بارے میں

حذیفہ بن الیمان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سونے کا ارادہ فرماتے تو کہتے : «اللهم باسمک أموت وأحيا» ١ ؎، اور جب آپ سو کر اٹھتے تو کہتے : «الحمد لله الذي أحيا نفسي بعد ما أماتها وإليه النشور» ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٧ (٦٣١٢) ، والتوحید ١٣ (٧٣٩٤) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٠٧ (٥٠٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٦ (٣٨٨٠) (تحفة الأشراف : ٣٣٠٨) ، و مسند احمد (٥/١٥٤) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٥٣ (٢٧٢٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : تیرا ہی نام لے کر مرتا ( یعنی سوتا ) ہوں اور تیرا ہی نام لے کر جیتا ( یعنی سو کر اٹھتا ) ہوں۔ ٢ ؎ : تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میری جان ( میری ذات ) کو زندگی بخشی ، اس کے بعد کہ اسے ( عارضی ) موت دے دی تھی اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ، بعض روایات میں اس کے الفاظ یوں بھی آئے ہیں ، «الحمد لله الذي أحيا نفسي بعد ما أماتها وإليه النشور» (معنی ایک ہی ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3880) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3417

【49】

اس بارے میں کہ رات کو نماز (تہجد) کیلئے اٹھے کیا کہے؟

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات میں تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے : «اللهم لک الحمد أنت نور السموات والأرض ولک الحمد أنت قيام السموات والأرض ولک الحمد أنت رب السموات والأرض ومن فيهن أنت الحق ووعدک الحق ولقاؤك حق والجنة حق والنار حق والساعة حق اللهم لك أسلمت وبک آمنت وعليك توکلت وإليك أنبت وبک خاصمت وإليك حاکمت فاغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت أنت إلهي لا إله إلا أنت» اے اللہ ! تیرے ہی لیے سب تعریف ہے تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے، (اور آسمان و زمین کے درمیان روشنی پیدا کرنے والا) تیرے ہی لیے سب تعریف ہے تو ہی آسمانوں اور زمین کو قائم کرنے والا ہے، تیرے لیے ہی سب تعریف ہے تو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کا رب ہے، تو حق ہے تیرا وعدہ حق (سچا) ہے تیری ملاقات حق ہے، جنت حق ہے جہنم حق ہے، قیامت حق ہے۔ اے اللہ ! میں نے اپنے کو تیرے سپرد کردیا، اور تجھ ہی پر ایمان لایا، اور تجھ ہی پر بھروسہ کیا، اور تیری ہی طرف رجوع کیا، اور تیرے ہی خاطر میں لڑا اور تیرے ہی پاس فیصلہ کے لیے گیا۔ اے اللہ ! میں پہلے جو کچھ کرچکا ہوں اور جو کچھ بعد میں کروں گا اور جو پوشیدہ کروں اور جو کھلے عام کروں میرے سارے گناہ اور لغزشیں معاف کر دے، تو ہی میرا معبود ہے، اور تیرے سوا میرا کوئی معبود برحق نہیں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عباس (رض) سے آئی ہے، اور وہ اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ١ (١١٢٠) ، والدعوات ١٠ (٦٣١٧) ، والتوحید ٨ (٧٣٨٥) ، و ٢٤ (٧٤٤٢) ، و ٣٥ (٧٤٩٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٢١ (٧٧١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٩ (١٦٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٠ (١٣٥٥) (تحفة الأشراف : ٥٧٥١) ، و مسند احمد (١/٢٩٨) ، وسنن الدارمی/الصلاة ١٦٩ (١٥٢٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1355) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3418

【50】

اسی کے بارے میں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک رات نماز (تہجد) سے فارغ ہو کر پڑھتے ہوئے سنا (آپ پڑھ رہے تھے) :«اللهم إني أسألک رحمة من عندک تهدي بها قلبي وتجمع بها أمري وتلم بها شعثي وتصلح بها غائبي وترفع بها شاهدي وتزکي بها عملي وتلهمني بها رشدي وترد بها ألفتي وتعصمني بها من کل سوء اللهم أعطني إيمانا ويقينا ليس بعده کفر ورحمة أنال بها شرف کر امتک في الدنيا والآخرة اللهم إني أسألک الفوز في العطاء ونزل الشهداء وعيش السعداء والنصر علی الأعداء اللهم إني أنزل بک حاجتي وإن قصر رأيي وضعف عملي افتقرت إلى رحمتک فأسألك يا قاضي الأمور ويا شافي الصدور کما تجير بين البحور أن تجيرني من عذاب السعير ومن دعوة الثبور ومن فتنة القبور اللهم ما قصر عنه رأيي ولم تبلغه نيتي ولم تبلغه مسألتي من خير وعدته أحدا من خلقک أو خير أنت معطيه أحدا من عبادک فإني أرغب إليك فيه وأسألكه برحمتک رب العالمين اللهم ذا الحبل الشديد والأمر الرشيد أسألک الأمن يوم الوعيد والجنة يوم الخلود مع المقربين الشهود الرکع السجو د الموفين بالعهود إنک رحيم ودود وأنت تفعل ما تريد اللهم اجعلنا هادين مهتدين غير ضالين ولا مضلين سلما لأوليائك وعدوا لأعدائك نحب بحبک من أحبک ونعادي بعداوتک من خالفک اللهم هذا الدعا وعليك الإجابة وهذا الجهد وعليك التکلان اللهم اجعل لي نورا في قلبي ونورا في قبري ونورا من بين يدي ونورا من خلفي ونورا عن يميني ونورا عن شمالي ونورا من فوقي ونورا من تحتي ونورا في سمعي ونورا في بصري ونورا في شعري ونورا في بشري ونورا في لحمي ونورا في دمي ونورا في عظامي اللهم أعظم لي نورا وأعطني نورا واجعل لي نورا سبحان الذي تعطف العز وقال به سبحان الذي لبس المجد وتکرم به سبحان الذي لا ينبغي التسبيح إلا له سبحان ذي الفضل والنعم سبحان ذي المجد والکرم سبحان ذي الجلال والإکرام» ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے اور ہم اسے ابن ابی لیلیٰ کی روایت سے اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- شعبہ اور سفیان ثوری نے سلمہ بن کہیل سے، سلمہ نے کریب سے، اور کریب نے ابن عباس (رض) کے واسطہ سے، نبی اکرم ﷺ سے اس حدیث کے بعض حصوں کی روایت کی ہے، انہوں نے یہ پوری لمبی حدیث ذکر نہیں کی ہے۔ فائدہ ١ ؎: اے اللہ ! میں تجھ سے ایسی رحمت کا طالب ہوں، جس کے ذریعہ تو میرے دل کو ہدایت عطا کر دے، اور جس کے ذریعہ میرے معاملے کو مجتمع و مستحکم کر دے، میرے پراگندہ امور کر درست فرما دے، اور اس کے ذریعہ میرے باطن کی اصلاح فرما دے، اور اس کے ذریعہ میرے ظاہر کو بلند کر دے، اور اس کے ذریعہ میرے عمل کو صاف ستھرا بنا دے، اس کے ذریعہ سیدھی راہ کی طرف میری رہنمائی فرما، اس کے ذریعہ ہماری باہمی الفت و چاہت کو لوٹا دے، اور اس کے ذریعہ ہر برائی سے مجھے بچا لے، اے اللہ ! تو ہمیں ایسا ایمان و یقین دے کہ پھر اس کے بعد کفر کی طرف جانا نہ ہو، اے اللہ ! تو ہمیں ایسی رحمت عطا کر جس کے ذریعہ میں دنیا و آخرت میں تیری کرامت کا شرف حاصل کرسکوں، اے اللہ ! میں تجھ سے «عطاء» (بخشش) اور «قضاء» (فیصلے) میں کامیابی مانگتا ہوں، میں تجھ سے شہدا کی سی مہمان نوازی، نیک بختوں کی سی خوش گوار زندگی اور دشمنوں کے خلاف تیری مدد کا خواستگار ہوں، اور میں اگرچہ کم سمجھ اور کمزور عمل کا آدمی ہوں مگر میں اپنی ضروریات کو لے کر تیرے ہی پاس پہنچتا ہوں، میں تیری رحمت کا محتاج ہوں، اے معاملات کے نمٹانے و فیصلہ کرنے والے ! اے سینوں کی بیماریوں سے شفاء دینے والے تو مجھے بچا لے جہنم کی آگ سے، تباہی و بربادی کی پکار (نوحہ و ماتم) سے، اور قبروں کے فتنوں عذاب اور منکر نکیر کے سوالات سے اسی طرح بچا لے جس طرح کہ تو سمندروں میں (گھرے اور طوفانوں کے اندر پھنسے ہوئے لوگوں کو) بچاتا ہے، اے اللہ ! جس چیز تک پہنچنے سے میری رائے عقل قاصر رہی، جس چیز تک میری نیت و ارادے کی بھی رسائی نہ ہوسکی، جس بھلائی کا تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی سے وعدہ کیا اور میں اسے تجھ سے مانگ نہ سکا، یا جو بھلائی تو از خود اپنے بندوں میں سے کسی بندے کو دینے والا ہے میں بھی اسے تجھ سے مانگنے اور پانے کی خواہش اور آرزو کرتا ہوں، اور اے رب العالمین ! سارے جہاں کے پالنہار، تیری رحمت کے سہارے تجھ سے اس چیز کا سوالی ہوں، اے اللہ بڑی قوت والے اور اچھے کاموں والے، میں تجھ سے وعید کے دن یعنی قیامت کے دن امن و چین چاہتا ہوں، میں تجھ سے ہمیشہ کے لیے تیرے مقرب بندوں، تیرے کلمہ گو بندوں، تیرے آگے جھکنے والے بندوں، تیرے سامنے سجدہ ریز ہونے والے بندوں، تیرے وعدہ و اقرار کے پابند بندوں کے ساتھ جنت میں جانے کی دعا مانگتا ہوں، (اے رب ! ) تو رحیم ہے (بندوں پر رحم کرنے والا) تو ودود ہے (اپنے بندوں سے محبت فرمانے والا) تو (بااختیار ہے) جو چاہتا ہے کرتا ہے، اے اللہ ! تو ہمیں ہدایت دینے والا بنا مگر ایسا جو خود بھی ہدایت یافتہ ہو جو نہ خود گمراہ ہو، نہ دوسروں کو گمراہ بنانے والا ہو، تیرے دوستوں کے لیے صلح جو ہو، اور تیرے دشمنوں کے لیے دشمن، جو شخص تجھ سے محبت رکھتا ہو ہم اس شخص سے تجھ سے محبت رکھنے کے سبب محبت رکھیں، اور جو شخص تیرے خلاف کرے ہم اس شخص سے تجھ سے دشمنی رکھنے کے سبب دشمنی رکھیں، اے اللہ یہ ہماری دعا و درخواست ہے، اور اس دعا کو قبول کرنا بس تیرے ہی ہاتھ میں ہے، یہ ہماری کوشش ہے اور بھروسہ بس تیری ہی ذات پر ہے، اے اللہ ! تو میری قبر میں نور (روشنی) کر دے، اے اللہ ! تو میرے قلب میں نور بھر دے، اے اللہ ! تو میرے آگے اور سامنے نور پھیلا دے، اے اللہ تو میرے پیچھے نور کر دے، میرے آگے اور سامنے نور پھیلا دے، اے اللہ تو میرے پیچھے نور کر دے، نور میرے داہنے بھی نور میرے بائیں بھی، نور میرے اوپر بھی اور نور میرے نیچے بھی، نور میرے کانوں میں بھی نور میری آنکھوں میں بھی، نور میرے بالوں میں بھی نور میری کھال میں بھی نور، میرے گوشت میں بھی، نور میرے خون میں بھی اور نور میں اضافہ فرما دے، میرے لیے نور بنا دے، پاک ہے وہ ذات جس نے عزت کو اپنا اوڑھنا بنایا، اور عزت ہی کو اپنا شعار بنانے کا حکم دیا، پاک ہے وہ ذات جس نے مجد و شرف کو اپنا لباس بنایا اور جس کے سبب سے وہ مکرم و مشرف ہوا، پاک ہے وہ ذات جس کے سوا کسی اور کے لیے تسبیح سزاوار نہیں، پاک ہے فضل اور نعمتوں والا، پاک ہے مجد و کرم والا، پاک ہے عظمت و بزرگی والا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٢٩٢) (ضعیف الإسناد) (سند میں داود بن علی لین الحدیث راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (1194) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3419

【51】

تہجد کی نماز شروع کرتے واقت کی دعا کے متعلق

ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا : رات میں جب نبی اکرم ﷺ تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنی نماز کے شروع میں کیا پڑھتے تھے ؟ انہوں نے کہا : جب رات کو کھڑے ہوتے، نماز شروع کرتے وقت یہ دعا پڑھتے : «اللهم رب جبريل وميكائيل وإسرافيل فاطر السموات والأرض عالم الغيب والشهادة أنت تحکم بين عبادک فيما کانوا فيه يختلفون اهدني لما اختلف فيه من الحق بإذنك إنک تهدي من تشاء إلى صراط مستقيم» اے اللہ ! جبرائیل، میکائیل و اسرافیل کے رب ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، چھپے اور کھلے کے جاننے والے، اپنے بندوں کے درمیان ان کے اختلافات کا فیصلہ کرنے والا ہے، اے اللہ ! جس چیز میں بھی اختلاف ہوا ہے اس میں حق کو اپنانے، حق کو قبول کرنے کی اپنے اذن و حکم سے مجھے ہدایت فرما، (توفیق دے) کیونکہ تو ہی جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر چلاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٧٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٢١ (٧٦٧) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٢ (١٦٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٠ (١٣٥٧) (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1357) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3420

【52】

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں کھڑے ہوتے تو پڑھتے : «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشرکين إن صلاتي ونسکي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلک أمرت وأنا من المسلمين اللهم أنت الملک لا إله إلا أنت أنت ربي وأنا عبدک ظلمت نفسي واعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي جميعا إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت واصرف عني سيئها إنه لا يصرف عني سيئها إلا أنت آمنت بک تبارکت وتعاليت أستغفرک وأتوب إليك» ، پھر جب آپ رکوع کرتے تو پڑھتے : «اللهم لک رکعت وبک آمنت ولک أسلمت خشع لک سمعي وبصري ومخي وعظامي وعصبي» پھر آپ جب سر اٹھاتے تو کہتے : «اللهم ربنا لک الحمد ملء السموات والأرضين وملء ما بينهما وملء ما شئت من شيء بعد» ، پھر جب آپ سجدہ فرماتے تو کہتے : «اللهم لک سجدت وبک آمنت ولک أسلمت سجد وجهي للذي خلقه فصوره وشق سمعه وبصره فتبارک اللہ أحسن الخالقين» پھر آپ سب سے آخر میں تشہد اور سلام کے درمیان جو دعا پڑھتے تھے، وہ دعا یہ تھی : «اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت»۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٨) ، دالصلاة ١٢١ (٧٦٠) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٧ (٨٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥ (٨٦٤) (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٨) ، و مسند احمد (١/٩٤، ٩٥، ١٠٢) ، وسنن الدارمی/الصلاة ٣٣ (١٢٧٤) ، وانظر حدیث رقم ٣٤٢٣ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة، صحيح أبي داود (738) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3421

【53】

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو (تکبیر تحریمہ کے بعد) کہتے : «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشرکين إن صلاتي ونسکي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلک أمرت وأنا من المسلمين اللهم أنت الملک لا إله إلا أنت أنت ربي وأنا عبدک ظلمت نفسي واعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي جميعا إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت واصرف عني سيئها لا يصرف عني سيئها إلا أنت لبيك وسعديك والخير كله في يديك والشر ليس إليك أنا بک وإليك تبارکت وتعاليت أستغفرک وأتوب إليك» ، پھر جب آپ رکوع کرتے تو پڑھتے : «اللهم لک رکعت وبک آمنت ولک أسلمت خشع لک سمعي وبصري وعظامي وعصبي»، پھر جب آپ رکوع سے سر اٹھاتے تو آپ کہتے : «اللهم ربنا لک الحمد ملء السماء وملء الأرض وملء ما بينهما وملء ما شئت من شيء» ، پھر جب سجدہ میں جاتے تو کہتے : «اللهم لک سجدت وبک آمنت ولک أسلمت سجد وجهي للذي خلقه فصوره وشق سمعه وبصره فتبارک اللہ أحسن الخالقين» ، پھر آپ سب سے آخر میں تشہد اور سلام کے درمیان پڑھتے : «اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أسرفت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت»۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة، صحيح أبي داود (738) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3422

【54】

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب فرض نماز پڑھنے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے برابر اٹھاتے (رفع یدین کرتے) ، اور ایسا اس وقت بھی کرتے تھے جب اپنی قرأت پوری کرلیتے تھے اور رکوع کا ارادہ کرتے تھے، اور ایسا ہی کرتے تھے جب رکوع سے سر اٹھاتے تھے ١ ؎، بیٹھے ہونے کی حالت میں اپنی نماز کے کسی حصے میں بھی رفع یدین نہ کرتے تھے، پھر جب دونوں سجدے کر کے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اسی طرح، پھر تکبیر (اللہ اکبر) کہتے اور نماز شروع کرتے وقت تکبیر (تحریمہ) کے بعد پڑھتے : «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشرکين إن صلاتي ونسکي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلک أمرت وأنا من المسلمين اللهم أنت الملک لا إله إلا أنت سبحانک أنت ربي وأنا عبدک ظلمت نفسي واعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي جميعا إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت واصرف عني سيئها لا يصرف عني سيئها إلا أنت لبيك وسعديك أنا بک وإليك ولا منجا ولا ملجأ إلا إليك أستغفرک وأتوب إليك» (یہ دعا پڑھنے کے بعد) پھر قرأت کرتے، رکوع میں جاتے، رکوع میں آپ یہ دعا پڑھتے : «اللهم لک رکعت وبک آمنت ولک أسلمت وأنت ربي خشع سمعي وبصري ومخي وعظمي لله رب العالمين» پھر جب آپ اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو کہتے : «سمع اللہ لمن حمده» ، «سمع اللہ لمن حمده» کہنے کے فوراً بعد آپ پڑھتے : «اللهم ربنا ولک الحمد ملء السموات والأرض وملء ما شئت من شيء» اس کے بعد جب سجدہ کرتے تو سجدوں میں پڑھتے :«اللهم لک سجدت وبک آمنت ولک أسلمت وأنت ربي سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره تبارک اللہ أحسن الخالقين»۔ اور جب نماز سے سلام پھیرنے چلتے تو (سلام پھیرنے سے پہلے) پڑھتے : «اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت أنت إلهي لا إله إلا أنت»۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور اسی پر عمل ہے امام شافعی اور ہمارے بعض اصحاب کا، ٣- امام احمد بن حنبل ایسا خیال نہیں رکھتے، ٤- اہل کوفہ اور ان کے علاوہ کے بعض علماء کا کہنا ہے کہ آپ ﷺ انہیں نفلی نمازوں میں پڑھتے تھے نہ کہ فرض نمازوں میں ٢ ؎ ٣- میں نے ابواسماعیل ترمذی محمد بن اسماعیل بن یوسف کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے سلیمان بن داود ہاشمی کو کہتے ہوئے سنا، انہوں نے ذکر کیا اسی حدیث کا پھر کہا : یہ حدیث میرے نزدیک ایسے ہی مستند اور قوی ہے، جیسے زہری کی وہ حدیث قوی و مستند ہوتی ہے جسے وہ سالم بن عبداللہ سے اور سالم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١١٨ (٧٤٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٧ (٨٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥ (٨٦٤) (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٣ (١٢٧٤) ، وانظر ماقبلہ (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان تینوں حالتوں و صورتوں میں رفع یدین کرتے تھے۔ ٢ ؎ : فرض نماز خصوصا باجماعت نماز میں امام کو تخفیف کی ہدایت کی گئی ہے ، تو اس میں اتنی لمبی لمبی دعائیں آپ خود کیسے پڑھ سکتے تھے ، یہ انفرادی نمازو (رض) کے لیے ہے خواہ فرض ہو یا نفل۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، صحيح أبي داود (729) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3423

【55】

اس متعلق کہ سجود قرأت میں کیا پڑھے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں سویا ہوا تھا، رات میں نے اپنے آپ کو خواب میں دیکھا تو ان میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں، میں نے سجدہ کیا تو درخت نے بھی میرے سجدے کی متابعت کرتے ہوئے سجدہ کیا، میں نے سنا وہ پڑھ رہا تھا : «اللهم اکتب لي بها عندک أجرا وضع عني بها وزرا واجعلها لي عندک ذخرا وتقبلها مني كما تقبلتها من عبدک داود» اے اللہ ! تو اس کے بدلے میرے لیے اپنے پاس اجر و ثواب لکھ لے، اور اس کے عوض مجھ پر سے (گناہوں کا) بوجھ اتار دے اور اسے اپنے پاس (میرے لیے آخرت کا) ذخیرہ بنا دے، اور اسے میرے لیے ایسے ہی قبول کرلے جس طرح تو نے اپنے بندے داود (علیہ السلام) کے لیے قبول کیا تھا ۔ ابن جریج کہتے ہیں : مجھ سے تمہارے (یعنی حسن بن عبیداللہ کے) دادا (عبیداللہ) نے کہا کہ ابن عباس (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے (اس موقع پر) سجدہ کی ایک آیت پڑھی، پھر سجدہ کیا، ابن عباس (رض) کہتے ہیں : میں نے آپ کو (سجدہ میں) پڑھتے ہوئے سنا آپ وہی دعا پڑھ رہے تھے، جو (خواب والے) آدمی نے آپ کو درخت کی دعا سنائی تھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے کسی اور سے نہیں صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٥٧٩ (حسن) وضاحت : ١ ؎ : اللہ کی طرف سے احکام و مسائل بتانے کے مختلف طریقے اختیار کیے گئے تھے ، ان میں سے ایک طریقہ یہ تھا کہ اللہ کسی صحابی کو خواب دکھاتا ، اس میں فرشتہ کوئی مسئلہ بتاتا اور وہ صحابی بیدار ہو کر اللہ کے رسول ﷺ سے ذکر کرتا ، آپ اس کی تقریر ( تصدیق ) کردیتے ، جیسے اذان میں ہوا تھا۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1053) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3424

【56】

اس متعلق کہ سجود قرأت میں کیا پڑھے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات کے وقت سجدہ تلاوت میں پڑھتے تھے : «سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته» میرا چہرہ اس کے آگے سجدہ ریز ہوا جس نے اسے اپنی قدرت و قوت سے پیدا کیا، جس نے اسے سننے کے لیے کان اور دیکھنے کے لیے آنکھیں دیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٥٨٠ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (1035) ، صحيح أبي داود (1274) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3425

【57】

اس متعلق کہ گھر سے نکلتے وقت کیا کہے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص گھر سے نکلتے وقت : «بسم اللہ توکلت علی اللہ لا حول ولا قوة إلا بالله» میں نے اللہ کے نام سے شروع کیا، میں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور گناہوں سے بچنے اور کسی نیکی کے بجا لانے کی قدرت و قوت نہیں ہے سوائے سہارے اللہ کے کہے، اس سے کہا جائے گا : تمہاری کفایت کردی گئی، اور تم (دشمن کے شر سے) بچا لیے گئے، اور شیطان تم سے دور ہوگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١١٢ (٥٠٩٥) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٣٧ (٨٩) (تحفة الأشراف : ١٨٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2443 / التحقيق الثاني) ، التعليق الرغيب (2 / 264) ، الکلم الطيب (58 / 49) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3426

【58】

اسی بارے میں

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب گھر سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے تھے : «بسم اللہ توکلت علی اللہ اللهم إنا نعوذ بک من أن نزل أو نضل أو نظلم أو نظلم أو نجهل أو يجهل علينا» ١ ؎ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، بھروسہ کرتا ہوں اللہ پر، اے اللہ تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ حق و صواب سے کہیں پھر نہ جاؤں، یا راہ حق سے بھٹکا نہ دیا جاؤں، یا میں کسی پر ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے، یا میں کسی کے ساتھ جاہلانہ برتاؤ کروں یا کوئی میرے ساتھ جاہلانہ انداز سے پیش آئے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١١٢ (٥٠٩٤) ، سنن النسائی/الاستعاذة ٣٠ (٥٤٨٨) ، ٦٥ (٥٥٤١) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٨ (٣٨٨٤) (تحفة الأشراف : ١٨١٦٨) ، و مسند احمد (٦/٣٠٦، ٣١٨، ٣٢٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3884) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3427

【59】

بازار میں داخل ہوتے وقت پڑھنے کی دعا

عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بازار میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھی : «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير وهو علی كل شيء قدير» نہیں کوئی معبود برحق ہے مگر اللہ اکیلا، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کے لیے ملک (بادشاہت) ہے اور اسی کے لیے حمد و ثناء ہے وہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے، وہ زندہ ہے کبھی مرے گا نہیں، اسی کے ہاتھ میں ساری بھلائیاں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور اس کی دس لاکھ برائیاں مٹا دیتا ہے اور اس کے دس لاکھ درجے بلند فرماتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- عمرو بن دینار زبیر (رض) کے گھر والوں کے آمد و خرچ کے منتظم تھے، انہوں نے یہ حدیث سالم بن عبداللہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٠ (٢٢٣٥) (تحفة الأشراف : ١٠٥٢٨) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2235) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3428

【60】

بازار میں داخل ہوتے وقت پڑھنے کی دعا

عمرو بن دینار زبیر (رض) کے گھر کے منتظم کار، سالم بن عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے، اور وہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص بازار جاتے ہوئے یہ دعا پڑھے : «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير وهو علی كل شيء قدير» ١ ؎ تو اللہ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھ دے گا اور دس لاکھ اس کے گناہ مٹا دے گا اور جنت میں اس کے لیے ایک گھر بنائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ عمرو بن دینار بصریٰ شیخ ہیں، اور بعض اصحاب حدیث نے ان کے بارے میں کلام کیا ہے ٢- یحییٰ بن سلیم طائفی نے یہ حدیث عمران بن مسلم سے، عمران نے عبداللہ بن دینار سے، اور عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، اور اس میں انہوں نے عمر (رض) سے روایت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن انظر ما قبله (3428) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3429

【61】

کوئی بیمار ہو تو یہ دعا پڑھے

ابومسلم خولانی کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) نے گواہی دی کہ ان دونوں کی موجودگی میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو «لا إله إلا اللہ والله أكبر» اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، اللہ سب سے بڑا ہے ، کہتا ہے تو اس کا رب اس کی تصدیق کرتا ہے اور کہتا ہے : (ہاں) میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، میں ہی سب سے بڑا ہوں، اور جب : «لا إله إلا اللہ وحده» اللہ واحد کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے ، کہتا ہے، تو آپ نے فرمایا : اللہ کہتا ہے (ہاں) مجھ تنہا کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور جب کہتا ہے : «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له» اللہ واحد کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں ، تو اللہ کہتا ہے، (ہاں) مجھ تنہا کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میرا کوئی شریک نہیں ہے، اور جب کہتا ہے : «لا إله إلا اللہ له الملک» اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے حمد ہے ، تو اللہ کہتا ہے : کوئی معبود برحق نہیں مگر میں، میرے لیے ہی بادشاہت ہے اور میرے لیے ہی حمد ہے، اور جب کہتا ہے : «لا إله إلا اللہ ولا حول ولا قوة إلا بالله» اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، اور گناہ سے بچنے اور بھلے کام کرنے کی طاقت نہیں ہے، مگر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ، تو اللہ کہتا ہے : (ہاں) میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور گناہوں سے بچنے اور بھلے کام کرنے کی قوت نہیں ہے مگر میری توفیق سے، اور آپ فرماتے تھے : جو ان کلمات کو اپنی بیماری میں کہے، اور مرجائے تو آگ اسے نہ کھائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٧ (٣٠، ٣١) ، ١٣ (٣٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٤ (٣٧٩٤) (تحفة الأشراف : ٣٩٦٦، ١٢١٧٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3794) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3430 اس سند سے شعبہ نے ابواسحاق سے، ابواسحاق نے اغر ابو مسلم سے، اور ابو مسلم نے ابوہریرہ اور ابو سعید خدری سے اس حدیث کے مانند ہم معنی حدیث روایت کی، اور شعبہ نے اسے مرفوع نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3794) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3430

【62】

اس متعلق کہ مصیبت زدہ کو دیکھ کر کیا کہے

عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص مصیبت میں گرفتار کسی شخص کو دیکھے اور کہے : «الحمد لله الذي عافاني مما ابتلاک به وفضلني علی كثير ممن خلق تفضيلا» سب تعریف اللہ کے لیے ہے کہ جس نے مجھے اس بلا و مصیبت سے بچایا جس سے تجھے دوچار کیا، اور مجھے فضیلت دی، اپنی بہت سی مخلوقات پر ، تو وہ زندگی بھر ہر بلا و مصیبت سے محفوظ رہے گا خواہ وہ کیسی ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- اور عمرو بن دینار آل زبیر کے خزانچی ہیں اور بصریٰ شیخ ہیں اور حدیث میں زیادہ قوی نہیں ہیں، اور یہ سالم بن عبداللہ بن عمر سے کئی احادیث کی روایت میں منفرد ہیں، ٣- ابو جعفر محمد بن علی سے روایت ہے، انہوں نے کہا : جب آدمی کسی کو مصیبت میں گرفتار دیکھے تو اس بلا سے آہستہ سے پناہ مانگے مصیبت زدہ شخص کو نہ سنائے، ٤- اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدعاء ٢٢ (٣٨٩٢) (تحفة الأشراف : ١٠٥٣٢) (حسن) (سند میں عمرو بن دینار قھر مان آل زبیر ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، دیکھیے اگلی حدیث) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (3892) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3431

【63】

اس متعلق کہ مصیبت زدہ کو دیکھ کر کیا کہے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی شخص کو مصیبت میں مبتلا دیکھے پھر کہے : «الحمد لله الذي عافاني مما ابتلاک به وفضلني علی كثير ممن خلق تفضيلا» تو اسے یہ بلا نہ پہنچے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٦٩٠) (صحیح) (سند میں عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحہ : ٢٠٦، ٢٧٣٧، وتراجع الالبانی ٢٢٨) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2737) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3432

【64】

اس متعلق کہ مجلس سے کھڑا ہو تو کیا کہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور اس سے بہت سی لغو اور بیہودہ باتیں ہوجائیں، اور وہ اپنی مجلس سے اٹھ جانے سے پہلے پڑھ لے : «سبحانک اللهم وبحمدک أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرک وأتوب إليك» پاک ہے تو اے اللہ ! اور سب تعریف تیرے لیے ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں ، تو اس کی اس مجلس میں اس سے ہونے والی لغزشیں معاف کردی جاتی ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، اور ہم اسے سہیل کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- اس باب میں ابوبرزہ اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٣٧ (٣٩٧/م) ( تحفة الأشراف : ١٢٧٥٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2433) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3433

【65】

اس متعلق کہ مجلس سے کھڑا ہو تو کیا کہے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک مجلس میں مجلس سے اٹھنے سے پہلے سو سو مرتبہ : «رب اغفر لي وتب علي إنك أنت التواب الغفور» اے ہمارے رب ! ہمیں بخش دے اور ہماری توبہ قبول فرما، بیشک تو توبہ قبول کرنے اور بخشنے والا ہے ، گنا جاتا تھا۔ سفیان نے محمد بن سوقہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح اسی کے ہم معنی حدیث روایت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦١ (١٥١٦) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٧ (٣٨١٤) (تحفة الأشراف : ٨٤٢٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3814) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3434

【66】

اس متعلق کہ پریشانی کے وقت کیا پڑھے

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ تکلیف کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے : «لا إله إلا اللہ الحليم الحکيم لا إله إلا اللہ رب العرش العظيم لا إله إلا اللہ رب السموات والأرض ورب العرش الکريم» کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اللہ بلند و بردبار کے، اور کوئی معبود برحق نہیں سوائے اس اللہ کے جو عرش عظیم کا رب (مالک) ہے اور کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اس اللہ کے جو آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے اور قابل عزت عرش کا رب ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

【67】

اس متعلق کہ پریشانی کے وقت کیا پڑھے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب کسی مشکل معاملے سے دوچار ہوتے تو اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے پھر کہتے : «سبحان اللہ العظيم» اللہ پاک و برتر ہے اور جب جی جان لگا کر دعا کرتے تو کہتے : «يا حي يا قيوم» اے زندہ ذات ! اے کائنات کا نظام چلانے والے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٩٤١) (ضعیف جداً ) (سند میں ابراہیم بن فضل مخزومی متروک الحدیث ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا الکلم الطيب (119 / 77) ، // ضعيف الجامع الصغير (4356) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3436

【68】

اس بارے میں کہ جب کسی جگہ ٹھہرے تو کیا دعا پڑھے

خولہ بنت حکیم سلمیہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی منزل پر اترے اور یہ دعا پڑھے : «أعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ما خلق» میں اللہ کے مکمل کلموں کے ذریعہ اللہ کی پناہ میں آتا ہوں اس کی ساری مخلوقات کے شر سے ، تو جب تک کہ وہ اپنی اس منزل سے کوچ نہ کرے اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢- مالک بن انس نے یہ حدیث اس طرح روایت کی کہ انہیں یہ حدیث یعقوب بن عبداللہ بن اشج سے پہنچی ہے، پھر انہوں نے اسی جیسی حدیث بیان کی۔ (یعنی : مالک نے یہ حدیث بلاغاً روایت کی ہے) ٣- یہ حدیث ابن عجلان سے بھی آئی ہے اور انہوں نے یعقوب بن عبداللہ بن اشج سے روایت کی ہے، البتہ ان کی روایت میں «عن سعيد بن المسيب عن خولة» ہے، ٤- لیث کی حدیث ابن عجلان کی روایت کے مقابل میں زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٦ (٢٧٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٤٦ (٣٥٤٧) (تحفة الأشراف : ١٥٨٢٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3547) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3437

【69】

اس بارے میں کہ سفر میں جاتے وقت کیا کہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر پر نکلتے اور اپنی سواری پر سوار ہوتے تو اپنی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے :«اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل اللهم اصحبنا بنصحک واقلبنا بذمة اللهم ازو لنا الأرض وهون علينا السفر اللهم إني أعوذ بک من وعثاء السفر وکآبة المنقلب» اے اللہ ! تو ہی رفیق ہے سفر میں، اور تو ہی خلیفہ ہے گھر میں، (میری عدم موجودگی میں میرے گھر کا دیکھ بھال کرنے والا، نائب) اپنی ساری خیر خواہیوں کے ساتھ ہمارے ساتھ میں رہ، اور ہمیں اپنے ٹھکانے پر اپنی پناہ و حفاظت میں لوٹا (واپس پہنچا) ، اے اللہ ! تو زمین کو ہمارے لیے سمیٹ دے اور سفر کو آسان کر دے، اے اللہ ! میں سفر کی مشقتوں اور تکلیف سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور پناہ مانگتا ہوں ناکام و نامراد لوٹنے کے رنج و غم سے (یا لوٹنے پر گھر کے بدلے ہوئے برے حال سے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- میں اسے نہیں جانتا تھا مگر ابن ابی عدی کی روایت سے یہاں تک کہ سوید نے مجھ سے یہ حدیث (مندرجہ ذیل سند سے) سوید بن نصر کہتے ہیں : ہم سے بیان کیا عبداللہ بن مبارک نے، وہ کہتے ہیں : ہم سے شعبہ نے اسی سند کے ساتھ اسی طرح اسی کے ہم معنی حدیث بیان کی ١ ؎، ٢- یہ حدیث ابوہریرہ کی روایت سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف شعبہ کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : ابن ابی عدی کے علاوہ شعبہ سے ابن مبارک نے بھی روایت کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2339) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3438

【70】

اس بارے میں کہ سفر میں جاتے وقت کیا کہے

عبداللہ بن سرجس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے تو کہتے : «اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل اللهم اصحبنا في سفرنا واخلفنا في أهلنا اللهم إني أعوذ بک من وعثاء السفر وکآبة المنقلب ومن الحور بعد الکون ومن دعوة المظلوم ومن سوء المنظر في الأهل والمال» اے اللہ ! تو ہمارے سفر کا ساتھی ہے، تو ہمارے پیچھے ہمارے اہل و عیال کا نائب و خلیفہ ہے، اے اللہ ! تو ہمارے ساتھ رہ ہمارے اس سفر میں تو ہمارا نائب و خلیفہ بن جا ہمارے گھر والوں میں، اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں سفر کی تکلیف و تھکان سے اور ناکام نامراد لوٹنے کے غم سے، اور مظلوم کی بد دعا سے اور مال اور اہل خانہ میں واقع شدہ کسی برے منظر سے (بری صورت حال سے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- «الحور بعد الکون» کی جگہ «الحور بعد الکور» بھی مروی ہے، اور «الحور بعد الکور» یا «الحور بعد الکون» دونوں کے معنی ایک ہی ہیں، کہتے ہیں : اس کا معنی یہ ہے کہ پناہ مانگتا ہوں ایمان سے کفر کی طرف لوٹنے سے یا طاعت سے معصیت کی طرف لوٹنے سے، مطلب یہ ہے کہ اس سے مراد خیر سے شر کی طرف لوٹنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المناسک ٧٥ (١٣٤٣) ، سنن النسائی/الاستعاذة ٤١ (٥٥٠٠) ، و ٤٢ (٥٥٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٢٠ (٣٨٨٨) (تحفة الأشراف : ٥٣٢٠) ، و مسند احمد (٥/٨٢، ٨٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3888) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3439

【71】

اس بارے میں کہ سفر سے واپسی پر کیا کہے

براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سفر سے واپس آتے تو یہ دعا پڑھتے : «آيبون تائبون عابدون لربنا حامدون» (ہم سلامتی کے ساتھ سفر سے) واپس آنے والے ہیں، ہم (اپنے رب کے حضور) توبہ کرنے والے ہیں، ہم اپنے رب کی عبادت کرنے والے ہیں، اور ہم اپنے رب کے شکر گزار ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ثوری نے یہ حدیث ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے براء سے روایت کی ہے اور انہوں نے اس حدیث کی سند میں ربیع ابن براء کا ذکر نہیں کیا ہے، اور شعبہ کی روایت زیادہ صحیح و درست ہے، ٣- اس باب میں ابن عمر، انس اور جابر بن عبداللہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٧١ (٥٥٠) (تحفة الأشراف : ١٧٥٥) ، و مسند احمد (٤/٢٩٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح أبي داود تحت الحديث (2339) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3440

【72】

اسی کے بارے میں

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سفر سے واپس لوٹتے اور مدینہ کی دیواریں دکھائی دینے لگتیں تو آپ اپنی اونٹنی (سواری) کو (اپنے وطن) مدینہ کی محبت میں تیز دوڑاتے ١ ؎ اور اگر اپنی اونٹنی کے علاوہ کسی اور سواری پر ہوتے تو اسے بھی تیز بھگاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمرة ١٧ (١٨٠٢) ، وفضائل المدینة بعد ١٠ (١٨٨٦) (تحفة الأشراف : ٥٧٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ محبت مدینہ کے ساتھ خاص بھی ہوسکتی ہے ، نیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر انسان کو اپنے وطن ( گھر ) سے محبت ہوتی ہے ، تو اس محبت کی وجہ سے کوئی بھی انسان اپنے گھر جلد پہنچنے کی چاہت میں اسی طرح جلدی کرے جس طرح نبی اکرم ﷺ اپنے گھر پہنچنے کے لیے کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3441

【73】

اس بارے میں کہ کسی کو رخصت کرتے وقت کیا کہے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب کسی شخص کو رخصت کرتے تو اس کا ہاتھ پکڑتے ١ ؎ اور اس کا ہاتھ اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک کہ وہ شخص خود ہی آپ کا ہاتھ نہ چھوڑ دیتا اور آپ کہتے : «استودع اللہ دينک وأمانتک وآخر عملک» میں تیرا دین، تیری امانت، ایمان اور تیری زندگی کا آخری عمل (سب) اللہ کی سپردگی و حوالگی میں دیتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢- یہ حدیث دوسری سند سے بھی ابن عمر (رض) سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر : سنن ابی داود/ الجھاد ٨٠ (٢٦٠٠) ، وسنن ابن ماجہ/الجھاد ٢٤ (٢٨٢٦) (تحفة الأشراف : ٧٤٧١) (صحیح) (سند میں ابراہیم بن عبد الرحمن بن یزید مجہول راوی ہیں، لیکن شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة رقم ١٤، ١٦، ٢٤٨٥) وضاحت : ١ ؎ : اس سے رخصت کے وقت بھی مصافحہ ثابت ہوتا ہے ، معلوم نہیں لوگوں نے کہاں سے مشہور کر رکھا ہے کہ رخصت کے وقت مصافحہ ثابت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (16 - 2485) ، الکلم الطيب (169 - 122 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3442

【74】

اس بارے میں کہ کسی کو رخصت کرتے وقت کیا کہے

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ جب کوئی آدمی سفر کا ارادہ کرتا تو ابن عمر (رض) اس سے کہتے : میرے قریب آؤ میں تمہیں اسی طرح سے الوداع کہوں گا جس طرح رسول اللہ ﷺ ہمیں الوداع کہتے اور رخصت کرتے تھے، آپ ہمیں رخصت کرتے وقت کہتے تھے : «أستودع اللہ دينک وأمانتک وخواتيم عملک»۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے جو سالم بن عبداللہ (رض) سے آئی ہے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٦١ (٥٢٣) ، (وانظر أیضا الأرقام : ٥٠٩-٥٥٢) (تحفة الأشراف : ٦٧٥٢) ، و مسند احمد (٢/٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (16 و 2485) ، الکلم الطيب (169 / 122 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3443

【75】

اسی کے بارے میں

انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں سفر پر نکلنے کا ارادہ کر رہا ہوں، تو آپ مجھے کوئی توشہ دے دیجئیے، آپ نے فرمایا : اللہ تجھے تقویٰ کا زاد سفر دے ، اس نے کہا : مزید اضافہ فرما دیجئیے، آپ نے فرمایا : اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے ، اس نے کہا : مزید کچھ اضافہ فرما دیجئیے، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ نے فرمایا : جہاں کہیں بھی تم رہو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے خیر (بھلائی کے کام) آسان کر دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٧٤) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح الکلم الطيب (170 / 123 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3444

【76】

اسی کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں سفر پر نکلنے کا ارادہ کر رہا ہوں تو آپ مجھے کچھ وصیت فرما دیجئیے، آپ نے فرمایا : میں تجھے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں کہیں بھی اونچائی و بلندی پر چڑھو اللہ کی تکبیر پڑھو، (اللہ اکبر کہتے رہو) پھر جب آدمی پلٹ کر سفر پر نکلا تو آپ نے فرمایا : «اللهم اطو له الأرض وهون عليه السفر» اے اللہ ! اس کے لیے مسافت کی دوری کو لپیٹ کر مختصر کر دے اور اس کے لیے سفر کو آسان بنا دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجھاد ٨ (٢٧٧١) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2771) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3445

【77】

اس بارے میں کہ سواری پر سوار ہوتے وقت کیا کہے

علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں علی (رض) کے پاس موجود تھا، انہیں سواری کے لیے ایک چوپایہ دیا گیا، جب انہوں نے اپنا پیر رکاب میں ڈالا تو کہا : «بسم اللہ» میں اللہ کا نام لے کر سوار ہو رہا ہوں اور پھر جب پیٹھ پر جم کر بیٹھ گئے تو کہا : «الحمد للہ» تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، پھر آپ نے یہ آیت : «سبحان الذي سخر لنا هذا وما کنا له مقرنين وإنا إلى ربنا لمنقلبون» پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے قابو میں کیا ورنہ ہم ایسے نہ تھے جو اسے ناتھ پہنا سکتے، لگام دے سکتے، ہم اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانے والے ہیں ، پڑھی، پھر تین بار «الحمد للہ» کہا، اور تین بار «اللہ اکبر» کہا، پھر یہ دعا پڑھی : «سبحانک إني قد ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» پاک ہے تو اے اللہ ! بیشک میں نے اپنی جان کے حق میں ظلم و زیادتی کی ہے تو مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی ظلم معاف کرنے والا نہیں ہے ، پھر علی (رض) ہنسے، میں نے کہا : امیر المؤمنین کس بات پر آپ ہنسے ؟ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ نے ویسا ہی کیا جیسا میں نے کیا ہے، پھر آپ ہنسے، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ کس بات پر ہنسے ؟ آپ نے فرمایا : تمہارا رب اپنے بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ اے اللہ میرے گناہ بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی اور ذات نہیں ہے جو گناہوں کو معاف کرسکے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجھاد ٨١ (٢٦٠٢) (تحفة الأشراف : ١٠٢٤٨) (صحیح) (سند میں ابواسحاق مختلط راوی ہیں، اس لیے اس کی روایت میں اضطراب کا شکار بھی ہوئے ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود رقم ٢٣٤٢) وضاحت : ١ ؎ : یہ صرف اونٹنی کے ساتھ خاص نہیں ہے ، کسی بھی سواری پر سوار ہوتے وقت یہ دعا پڑھنی مسنون ہے ، خود باب کی دونوں حدیثوں میں اونٹنی کا تذکرہ نہیں ہے ، بلکہ دوسری حدیث میں تو سواری کا لفظ ہے ، کسی بھی سواری پر صادق آتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الکلم الطيب (172 / 126) ، صحيح أبي داود (2342) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3446

【78】

اس بارے میں کہ سواری پر سوار ہوتے وقت کیا کہے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سفر فرماتے تو اپنی سواری پر چڑھتے اور تین بار «اللہ اکبر» کہتے۔ پھر یہ دعا پڑھتے : «سبحان الذي سخر لنا هذا وما کنا له مقرنين وإنا إلى ربنا لمنقلبون» ١ ؎ اس کے بعد آپ یہ دعا پڑھتے : «اللهم إني أسألک في سفري هذا من البر والتقوی ومن العمل ما ترضی اللهم ہوں علينا المسير واطو عنا بعد الأرض اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل اللهم اصحبنا في سفرنا واخلفنا في أهلنا» اے اللہ ! میں اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کا طالب ہوں اور ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جس سے تو راضی ہو، اے اللہ تو اس سفر کو آسان کر دے، زمین کی دوری کو لپیٹ کر ہمارے لیے کم کر دے، اے اللہ تو سفر کا ساتھی ہے، اور گھر میں (گھر والوں کی دیکھ بھال کے لیے) میرا نائب و قائم مقام ہے، اے اللہ ! تو ہمارے ساتھ ہمارے سفر میں رہ، اور گھر والوں میں ہماری قائم مقامی فرما ، اور آپ جب گھر کی طرف پلٹتے تو کہتے تھے : «آيبون إن شاء اللہ تائبون عابدون لربنا حامدون» ہم لوٹنے والے ہیں اپنے گھر والوں میں ان شاء اللہ، توبہ کرنے والے ہیں، اپنے رب کی عبادت کرنے والے ہیں، حمد بیان کرنے والے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المناسک ٧٥ (١٣٤٤) ، سنن ابی داود/ الجھاد ٧٩ (٢٥٩٩) (تحفة الأشراف : ٧٣٤٨) ، و مسند احمد (٢/١٤٤) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٤٢ (٢٧١٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2339) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3447

【79】

مسافر کی دعا کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین طرح کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں : مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، اور باپ کی بد دعا اپنے بیٹے کے حق میں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٩٠٥ (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (598 - 1797) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3448 ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی سند کے ساتھ، اسی جیسی حدیث روایت کی، انہوں نے اس حدیث میں «ثلاث دعوات مستجابات» کے الفاظ بڑھائے ہیں، (یعنی بلاشبہہ ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں ہے) امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے۔ ٢- اور ابو جعفر رازی کا نام میں نہیں جانتا، (لیکن) ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (598 - 1797) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3448

【80】

آندھی کے وقت پڑھنے کی دعا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب ہوا چلتی ہوئی دیکھتے تو کہتے : «‏‏‏‏اللهم إني أسألک من خيرها وخير ما فيها وخير ما أرسلت به وأعوذ بک من شرها وشر ما فيها وشر ما أرسلت به» اے اللہ ! میں تجھ سے اس کی خیر مانگتا ہوں، اور جو خیر اس میں ہے وہ چاہتا ہوں اور جو خیر اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے اسے چاہتا ہوں، اور میں اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور جو شر اس میں چھپا ہوا ہے اس سے پناہ مانگتا ہوں اور جو شر اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے اس سے پناہ مانگتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابی بن کعب سے بھی روایت ہے اور یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الاستسقاء ٣ (٨٩٩/١٥) (تحفة الأشراف : ١٧٣٨٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2757) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3449

【81】

اسبارے میں کہ بادل کی آواز سن کر کیا کہے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب بجلی کی گرج اور کڑک سنتے تو فرماتے : «اللهم لا تقتلنا بغضبک ولا تهلكنا بعذابک وعافنا قبل ذلك» اے اللہ ! تو اپنے غضب سے ہمیں نہ مار، اپنے عذاب کے ذریعہ ہمیں ہلاک نہ کر، اور ایسے برے وقت کے آنے سے پہلے ہمیں بخش دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٦٩ (٩٢٧) (تحفة الأشراف : ٧٠٤١) ، و مسند احمد (٢/١٠٠) (ضعیف) (سند میں ابو مطر مجہول راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1042) ، الکلم الطيب (158 / 111) // ضعيف الجامع الصغير (4421) ، المشکاة (1521) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3450

【82】

اس بارے میں کہ چاند دیکھ کر کیا کہے

طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب چاند دیکھتے تھے تو کہتے تھے : «اللهم أهلله علينا باليمن والإيمان والسلامة والإسلام ربي وربک الله» اے اللہ ! مبارک کر ہمیں یہ چاند، برکت اور ایمان اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ، (اے چاند ! ) میرا اور تمہارا رب اللہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٠١٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1816) ، الکلم الطيب (161 / 114) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3451

【83】

اس متعلق کہ غصہ کے وقت کیا پڑھے

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے نبی اکرم ﷺ کے سامنے آپس میں گالی گلوچ کیا ان میں سے ایک کے چہرے سے غصہ عیاں ہو رہا تھا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر وہ اس کلمے کو کہہ لے تو اس کا غصہ کافور ہوجائے، وہ کلمہ یہ ہے : «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم» میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں راندے ہوئے شیطان سے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں سلیمان بن سرد سے بھی روایت ہے، اور یہ حدیث مرسل (منقطع) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٤ (٤٧٨٠) (تحفة الأشراف : ١١٣٤٢) ، و مسند احمد (٥/٢٤٠) (حسن) (عبد الرحمن بن ابی لیلی کا معاذ (رض) سے سماع نہیں ہے، نسائی نے یہ حدیث بسند عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ عن ابی بن کعب روایت کی ہے، جو متصل سند ہے، نیز یہ حدیث جیسا کہ ترمذی نے ذکر کیا، سلیمان بن صرد سے آئی ہے، اس لیے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، اور سلیمان بن صرد کی حدیث متفق علیہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3452 عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے سفیان سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث روایت کی، ٣- عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے معاذ بن جبل سے نہیں سنا ہے، معاذ بن جبل کا انتقال عمر بن خطاب کی خلافت میں ہوا ہے، اور عمر بن خطاب (رض) جب شہید ہوئے ہیں اس وقت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ چھ برس کے تھے ٤- اسی طرح شعبہ نے بھی حکم کے واسطہ سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت کی ہے، ٥- عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے عمر بن خطاب (رض) سے روایت کی ہے، اور ان کو دیکھا ہے اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی کنیت ابوعیسیٰ ہے اور ابی لیلیٰ کا نام یسار ہے، اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے، انہوں نے کہا : میں نے نبی اکرم ﷺ کے ایک سو بیس صحابہ کو پایا ہے اور دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری ، بدء الخلق : ١١/٣٢٨٢ و الأدب : ٧٦/ ٦١١٥ ، و مسلم ، البر والصلة ٢٦١٠ (١٠٩ ، ١١٠) ، وابوداؤد ٤٧٨١ ، نسائی فی عمل الیوم واللیلة ٣٩٣ والکبریٰ ١٠٢٢٥) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3452

【84】

اس بارے میں کہ جب کوئی برا خواب دیکھے تو کیا کہے

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے : تم میں سے جب کوئی اچھا اور پسندیدہ خواب دیکھے تو سمجھے کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرے اور جو دیکھا ہوا سے لوگوں سے بیان کرے، اور جب خراب اور ناپسندیدہ چیزوں میں سے کوئی چیز دیکھے تو سمجھے کہ یہ شیطان کی جانب سے ہے پھر اللہ سے اس کے شر سے پناہ مانگے اور کسی سے اس کا ذکر نہ کرے، تو یہ چیز اسے کچھ نقصان نہ پہنچائے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب صحیح ہے، ٢- ابن الہاد کا نام یزید بن عبداللہ بن اسامہ بن ہاد مدینی ہے اور یہ محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں ان سے امام مالک اور دوسرے لوگوں نے روایت کی ہے، ٣- اس باب میں ابوقتادہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التعبیر ٣ (٦٩٨٥) ، و ٤٦ (٧٠٤٥) (تحفة الأشراف : ٤٠٩٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 262) ، صحيح الجامع (549 - 550) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3453

【85】

اس بارے میں کہ جب کوئی نیا پھل دیکھے تو کیا کہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ لوگ جب کھجور کا پہلا پھل دیکھتے تو اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس (توڑ کر) لاتے، جب اسے رسول اللہ ﷺ لیتے تو فرماتے «اللهم بارک لنا في ثمارنا وبارک لنا في مدينتنا وبارک لنا في صاعنا ومدنا اللهم إن إبراهيم عبدک وخليلک ونبيك وإني عبدک ونبيك وإنه دعاک لمكة وأنا أدعوک للمدينة بمثل ما دعاک به لمكة ومثله» اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے پھلوں میں برکت دے، اور ہمارے لیے ہمارے شہر میں برکت دے، ہمارے صاع میں برکت دے، ہمارے مد میں برکت دے، اے اللہ ! ابراہیم (علیہ السلام) تیرے بندے ہیں، تیرے دوست ہیں تیرے نبی ہیں، اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں، انہوں نے دعا کی تھی مکہ کے لیے میں تجھ سے دعا کرتا ہوں مدینہ کے لیے، اسی طرح کی دعا جس طرح کی دعا ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کے لیے کی تھی، بلکہ اس کے دوگنا (برکت دے) ، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : پھر آپ کو جو کوئی چھوٹا بچہ نظر آتا جاتا آپ اسے بلاتے اور یہ (پہلا) پھل اسے دے دیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المناسک ٨٥ (١٣٧٣) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٣٥ (٣٣٢٢) (تحفة الأشراف : ١٢٧٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3329) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3454

【86】

اس بارے میں کہ جب کوئی کھائے تو کیا کہے؟

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں اور خالد بن ولید (رض) (دونوں) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ (رض) کے گھر میں داخل ہوئے، وہ ایک برتن لے کر ہم لوگوں کے پاس آئیں، اس برتن میں دودھ تھا میں آپ کے دائیں جانب بیٹھا ہوا تھا اور خالد آپ کے بائیں طرف تھے، آپ نے دودھ پیا پھر مجھ سے فرمایا : پینے کی باری تو تمہاری ہے، لیکن تم چاہو تو اپنا حق (اپنی باری) خالد بن ولید کو دے دو ، میں نے کہا : آپ کا جو ٹھا پینے میں اپنے آپ پر میں کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے اللہ کھانا کھلائے، اسے کھا کر یہ دعا پڑھنی چاہیئے : «اللهم بارک لنا فيه وأطعمنا خيرا منه» اے اللہ ! ہمیں اس میں برکت اور مزید اس سے اچھا کھلا ، اور جس کو اللہ دودھ پلائے اسے کہنا چاہیئے «اللهم بارک لنا فيه وزدنا منه» اے اللہ ! ہمیں اس میں برکت اور مزید اس سے اچھا کھلا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دودھ کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کھانے اور پینے (دونوں) کی جگہ کھانے و پینے کی ضرورت پوری کرسکے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- بعض محدثین نے یہ حدیث علی بن زید سے روایت کی ہے، اور انہوں نے عمر بن حرملہ کہا ہے۔ جب کہ بعض نے عمر بن حرملہ کہا ہے اور عمرو بن حرملہ کہنا صحیح نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأشربة ٢١ (٣٧٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٣٥ (٣٣٢٢) (تحفة الأشراف : ٦٢٩٨) ، و مسند احمد (١/٢٢٥) (حسن) (سند میں ” علی بن زید بن جدعان “ ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طریق سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود رقم ٢٣٢٠، والصحیحة ٢٣٢٠، وتراجع الألبانی ٤٢٦) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (3322) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3455

【87】

اس بارے میں کہ کھانے سے فراغت پر کیا کہے؟

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے جب دستر خوان اٹھا لیا جاتا تو آپ کہتے : «الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه غير مودع ولا مستغنی عنه ربنا» اللہ ہی کے لیے ہیں ساری تعریفیں، بہت زیادہ تعریفیں، پاکیزہ روزی ہے، بابرکت روزی ہے، یہ اللہ کی جانب سے ہماری آخری غذا نہ ہو اور اے ہمارے رب ہم اس سے کبھی بےنیاز نہ ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٥٤ (٥٤٥٨) ، سنن ابی داود/ الأطعمة ٥٣ (٣٨٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ١٦ (٣٢٨٤) (تحفة الأشراف : ٤٨٥٦) ، و مسند احمد (٥/٣٤٩) ، وسنن الدارمی/الأطعمة ٣ (٢٠٦٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3284) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3456

【88】

اس بارے میں کہ کھانے سے فراغت پر کیا کہے؟

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب کھا پی چکتے تو کہتے : «الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمين» سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأطعمة ١٦ (٣٢٨٣) (تحفة الأشراف : ٤٤٤٢) (ضعیف) (سند میں ” حجاج بن ارطاة “ متکلم فیہ راوی ہیں، اور ” ابن اخی سعید “ مجہول ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3283) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3457

【89】

اس بارے میں کہ کھانے سے فراغت پر کیا کہے؟

معاذ بن انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کھانا کھایا پھر کھانے سے فارغ ہو کر کہا : «الحمد لله الذي أطعمني هذا ورزقنيه من غير حول مني ولا قوة غفر له ما تقدم من ذنبه» تمام تعریفیں ہیں اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں یہ کھانا کھلایا اور اسے ہمیں عطا کیا، میری طرف سے محنت مشقت اور جدوجہد اور قوت و طاقت کے استعمال کے بغیر، تو اس کے اگلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اور ابو مرحوم کا نام عبدالرحیم بن میمون ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ اللباس ١ (٤٠٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ١٦ (٣٢٨٥) (تحفة الأشراف : ١١٢٩٧) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٥٥ (٢٧٣٢) (حسن) (سنن ابی داود میں : وما تأخر آخر میں آیا ہے، جو صحیح نہیں ہے) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (3285) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3458

【90】

اس بارے میں کہ گدھے کی آواز سن کر کیا کہا جائے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ سے اس کا فضل مانگو، کیونکہ وہ اسی وقت بولتا ہے جب اسے کوئی فرشتہ نظر آتا ہے، اور جب گدھے کے رینکنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو، کیونکہ وہ اس وقت شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٥ (٣٣٠٣) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٢٠ (٢٧٢٩) ، سنن ابی داود/ الأدب ١١٥ (٥١٠٢) (تحفة الأشراف : ١٣٦٢٩) ، و مسند احمد (٢/٣٢١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3459

【91】

تسبیح، تکبیر، تہلیل اور تمحید کی فضیلت

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زمین پر جو کوئی بھی بندہ : «لا إله إلا اللہ والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله» کہے گا اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سوا کسی کام کے کرنے کی کسی میں نہ کوئی طاقت ہے اور نہ ہی قوت ، اس کے (چھوٹے چھوٹے) گناہ بخش دیئے جائیں گے، اگرچہ سمندر کی جھاگ کی طرح (بہت زیادہ) ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- شعبہ نے یہ حدیث اسی سند کے ساتھ اسی طرح ابوبلج سے روایت کی ہے، اور اسے مرفوع نہیں کیا، اور ابوبلج کا نام یحییٰ بن ابی سلیم ہے اور انہیں یحییٰ بن سلیم بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٤٩ (١٢٢) (تحفة الأشراف : ٨٩٠٢) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (2 / 249) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3460 اس سند سے حاتم بن ابی صغیرہ سے، حاتم نے ابوبلج سے، ابوبلج نے عمرو بن میمون سے، عمرو بن میمون نے عبداللہ بن عمرو کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی، اور حاتم کی کنیت ابو یونس قشیری ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (2 / 249) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3460

【92】

تسبیح، تکبیر، تہلیل اور تمحید کی فضیلت

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک غزوے میں تھے، جب ہم واپس پلٹے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو لوگوں نے تکبیر کہی اور بلند آواز سے کہی، آپ نے فرمایا : تمہارا رب بہرا نہیں ہے اور نہ ہی وہ غائب ہے، وہ تمہارے درمیان اور تمہاری سواریوں کے درمیان موجود ہے، پھر آپ نے فرمایا : عبداللہ بن قیس ! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتادوں ؟ وہ : «لا حول ولا قوة إلا بالله» ہے، یعنی حرکت و قوت اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابوعثمان النہدی کا نام عبدالرحمٰن بن مل ہے، ٣- اور ابونعامہ کا نام عمرو بن عیسیٰ ہے، ٤- آپ ﷺ کے قول «بينكم وبين رءوس رحالکم » سے مراد یہ ہے کہ اس کا علم اور قدرت ہر جگہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٣٧٤ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3824) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3461

【93】

تسبیح، تکبیر، تہلیل اور تمحید کی فضیلت

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس رات مجھے معراج کرائی گئی، اس رات میں ابراہیم (علیہ السلام) سے ملا، ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : اے محمد ! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دینا اور انہیں بتادینا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی (زرخیز) ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے، اور وہ خالی پڑی ہوئی ہے ١ ؎ اور اس کی باغبانی : «سبحان اللہ والحمد لله ولا إله إلا اللہ والله أكبر» سے ہوتی ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث ابن مسعود (رض) کی روایت ہے اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں ابوایوب انصاری (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٣٦٥) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : جنت کو جنت اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں درخت ہی درخت ہیں ، جنت کے معنی ہوتے ہی باغات ہیں تو پھر خالی پڑی ہوئی ہے کا کیا مطلب ؟ مطلب یہ ہے کہ اس کے درخت بندوں کے اعمال ہی کا ثمرہ ہیں ، اللہ کو اپنی غیب دانی سے یہ معلوم ہے کہ کون کون بندے اپنے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہوں گے ، سو اس نے ان کے اعمال کے بقدر وہاں درخت اگا دیئے ہیں ، یا اگا دے گا ، اس لحاظ سے گویا جنت درختوں سے خالی ایک میدان ہے۔ ٢ ؎ : یعنی : بندہ جتنی بار کلمات کو کہتا ہے ، اتنے ہی درخت پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (2 / 245 و 256) ، الکلم الطيب (15 / 6) ، الصحيحة (106) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3462

【94】

تسبیح، تکبیر، تہلیل اور تمحید کی فضیلت

سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہم نشینوں سے فرمایا : کیا تم میں سے کوئی اس بات سے عاجز و ناکام رہے گا کہ ایک دن میں ہزار نیکیاں کما لے ؟ آپ کے ہم نشینوں میں سے ایک پوچھنے والے نے پوچھا : ہم میں سے کوئی کس طرح ہزار نیکیاں کمائے گا ؟ آپ نے فرمایا : تم میں سے کوئی بھی سو مرتبہ تسبیح پڑھے گا (یعنی سبحان اللہ) تو اس کے لیے ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اور اس کی ہزار برائیاں مٹا دی جائیں گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٠ (٢٦٩٨) (تحفة الأشراف : ٣٩٣٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3463

【95】

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے : «سبحان اللہ العظيم وبحمده» کہا، اس کے لیے جنت میں کھجور کا ایک درخت لگا دیا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢- اور ہم اسے صرف ابوالزبیر کی روایت سے جسے وہ جابر کے واسطے سے روایت کرتے ہیں جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٥٨ (١٥٢) (تحفة الأشراف : ٢٦٨٠) ، و مسند احمد (١/١٨٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (243) ، الصحيحة (64) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3464

【96】

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص : «سبحان اللہ العظيم وبحمده» کہے گا اس کے لیے جنت میں کھجور کا ایک درخت لگایا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ٢٦٩٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (3464) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3465

【97】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص سو بار : «سبحان اللہ وبحمده» کہے گا اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کی طرح ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٦٥ (٦٤٠٥) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٠ (٢٦٩١) (في آخرہ) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٦ (٣٨١٢) (تحفة الأشراف : ١٢٥٧٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3812) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3466

【98】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں (آسانی سے ادا ہوجاتے ہیں) مگر میزان میں بھاری ہیں (تول میں وزنی ہیں) رحمن کو پیارے ہیں (وہ یہ ہیں) «سبحان اللہ وبحمده سبحان اللہ العظيم»۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٦٥ (٦٤٠٦) ، والأیمان والنذور ١٩ (٦٦٨٢) ، والتوحید ٥٨ (٧٥٦٣) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٠ (٢٦٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٦ (٣٨٠٦) (تحفة الأشراف : ١٤٨٩٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3467

【99】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ایک دن میں سو بار کہا : «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو علی كل شيء قدير» ١ ؎، تو اس کو دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ہوگا، اور اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی، اور اس کی سو برائیاں مٹا دی جائیں گی، اور یہ چیز اس کے لیے شام تک شیطان کے شر سے بچاؤ کا ذریعہ بن جائے گی، اور قیامت کے دن کوئی اس سے اچھا عمل لے کر نہ آئے گا سوائے اس شخص کے جس نے یہی عمل اس شخص سے زیادہ کیا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١١ (٣٢٩٣) ، والدعوات ٦٤ (٦٤٠٣) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٠ (٢٦٩١) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٤ (٣٧٩٨) (تحفة الأشراف : ١٢٥٧١) ، مسند احمد (٢/٣٠٢، ٣٦٠، ٣٧٥) (صحیح) (صحیحین میں یحییٰ ویمیت کا لفظ نہیں ہے) وضاحت : ١ ؎ : کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اللہ اکیلے کے ، اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں ، اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے ہے ہر طرح کی تعریف ، وہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله يحيي ويميت الکلم الطيب ص (26 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3468 اسی سند کے ساتھ نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے، آپ نے فرمایا : جس نے سو مرتبہ : «سبحان اللہ وبحمده» کہا اس کے گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں، اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٤٦٦ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله يحيي ويميت الکلم الطيب ص (26 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3468

【100】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص صبح و شام میں سو (سو) مرتبہ : «سبحان اللہ وبحمده» کہے، قیامت کے دن کوئی شخص اس سے اچھا عمل لے کر نہیں آئے گا، سوائے اس شخص کے جس نے وہی کہا ہو جو اس نے کہا ہے یا اس سے بھی زیادہ اس نے یہ دعا پڑھی ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٠ (٢٦٩٢) ، سنن ابی داود/ الأدب ١١٠ (٥٠٩١) (تحفة الأشراف : ١٢٥٦٠) ، و مسند احمد (٢/٣٧١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (1 / 226) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3469

【101】

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا : «سبحان اللہ وبحمده» کہا کرو، جس نے یہ کلمہ ایک بار کہا اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی، اور جس نے دس بار کہا اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی، اور جس نے سو بار کہا اس کے لیے ایک ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی، اور جو زیادہ کہے گا اللہ اس کی نیکیوں میں بھی اضافہ فرما دے گا، اور جو اللہ سے بخشش چاہے گا اللہ اس کو بخش دے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٦٢ (١٦٠) (تحفة الأشراف : ٨٤٤٦) (ضعیف جداً ) (سند میں مطر الوراق بہت زیادہ غلطیاں کیا کرتے تھے، اور داود بن زبرقان متروک راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، الضعيفة (4067) // ضعيف الجامع الصغير (4119) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3470

【102】

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے سو بار صبح اور سو بار شام تسبیح پڑھی (یعنی «سبحان الله» کہا) تو وہ سو حج کیے ہوئے شخص کی طرح ہوجاتا ہے۔ اور جس نے سو بار صبح اور سو بار شام میں اللہ کی حمد بیان کی (یعنی «الحمدللہ» کہا) اس نے تو ان فی سبیل اللہ غازیوں کی سواریوں کے لیے سو گھوڑے فراہم کئے (راوی کو شک ہوگیا یہ کہا یا یہ کہا) تو ان اس نے سو جہاد کئے، اور جس نے سو بار صبح اور سو بار شام کو اللہ کی تہلیل بیان کی (یعنی «لا إلہ الا اللہ» ) کہا تو وہ ایسا ہوجائے گا تو ان اس نے اولاد اسماعیل میں سے سو غلام آزاد کئے اور جس نے سو بار صبح اور سو بار شام کو «اللہ اکبر» کہا تو قیامت کے دن کوئی شخص اس سے زیادہ نیک عمل لے کر حاضر نہ ہوگا، سوائے اس کے جس نے اس سے زیادہ کہا ہوگا یا اس کے برابر کہا ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٧١٩) (منکر) (سند میں ” ضحاک بن حمرہ “ سخت ضعیف ہے، اور یہ حدیث اصول اسلام کے خلاف ہے کہ اس میں معمولی نیکیوں پر حد سے زیادہ اجر وثواب ملنے کا تذکرہ ہے) قال الشيخ الألباني : منكر، الضعيفة (1315) ، المشکاة (2312 / التحقيق الثاني) ، التعليق الرغيب (1 / 229) // ضعيف الجامع الصغير (5619) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3471

【103】

زہری کہتے ہیں کہ رمضان میں ایک بار سبحان اللہ کہنا غیر رمضان میں ہزار بار سبحان اللہ کہنے سے زیادہ بہتر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٠٥٦) (ضعیف) (سند میں ” خلیل بن مرہ “ ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3472

【104】

تمیم الداری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص دس مرتبہ (یہ دعا) «أشهد أن لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له إلها واحدا أحدا صمدا لم يتخذ صاحبة ولا ولدا ولم يكن له کفوا أحد» میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ واحد کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، وہ تنہا اکیلا معبود ہے، بےنیاز ہے، اس نے نہ اپنا کوئی شریک حیات بنایا اور نہ ہی اس کا کوئی بیٹا ہے، اور نہ ہی کوئی اس کے برابر ہے ، پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے چار کروڑ نیکیاں لکھتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اس کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- خلیل بن مرہ محدثین کے یہاں قوی نہیں ہیں اور محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ وہ منکر الحدیث ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩٤١٧) (ضعیف) (سند میں ” ابو بشر حلبی “ مجہول راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (3611) // ضعيف الجامع الصغير (5727) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3473

【105】

ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص نماز فجر کے بعد جب کہ وہ پیر موڑے (دو زانوں) بیٹھا ہوا ہو اور کوئی بات بھی نہ کی ہو : «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو علی كل شيء» دس مرتبہ پڑھے تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی، اور اس کی دس برائیاں مٹا دی جائیں گی، اس کے لیے دس درجے بلند کئے جائیں گے اور وہ اس دن پورے دن بھر ہر طرح کی مکروہ و ناپسندیدہ چیز سے محفوظ رہے گا، اور شیطان کے زیر اثر نہ آ پانے کے لیے اس کی نگہبانی کی جائے گی، اور کوئی گناہ اسے اس دن سوائے شرک باللہ کے ہلاکت سے دوچار نہ کرسکے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٤٩ (تحفة الأشراف : ١١٩٦٣) (حسن) (سند میں ” شہر بن حوشب “ ضعیف ہیں، لیکن ابوا ما مہ اور عبدالرحمن بن غنم کے شاہد سے تقویت پا کر حسن ہے، تراجع الالبانی ٩٨) الصحیحة ١١٤، صحیح الترغیب والترہیب ٤٧٤، ٤٧٥) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 166) // ضعيف الجامع الصغير (5738) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3474

【106】

جامع دعاؤں کے بارے میں

بریدہ اسلمی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو ان کلمات کے ساتھ : «اللهم إني أسألک بأني أشهد أنك أنت اللہ لا إله إلا أنت الأحد الصمد الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له کفوا أحد» اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں بایں طور کہ میں تجھے گواہ بناتا ہوں اس بات پر کہ تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، تو اکیلا (معبود) ہے تو بےنیاز ہے، (تو کسی کا محتاج نہیں تیرے سب محتاج ہیں) ، (تو ایسا بےنیاز ہے) جس نے نہ کسی کو جنا ہے اور نہ ہی کسی نے اسے جنا ہے، اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہوا ہے ، دعا کرتے ہوئے سنا تو فرمایا : قسم ہے اس رب کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ! اس شخص نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے وسیلے سے مانگا ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ دعا کی گئی ہے اس نے وہ دعا قبول کی ہے، اور جب بھی اس کے ذریعہ کوئی چیز مانگی گئی ہے اس نے دی ہے ۔ زید (راوی) کہتے ہیں : میں نے یہ حدیث کئی برسوں بعد زہیر بن معاویہ سے ذکر کی تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے یہ حدیث ابواسحاق نے مالک بن مغول کے واسطہ سے بیان کی ہے۔ زید کہتے ہیں : پھر میں نے یہ حدیث سفیان ثوری سے ذکر کی تو انہوں نے مجھ سے یہ حدیث مالک کے واسطے سے بیان کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- شریک نے یہ حدیث ابواسحاق سے، ابواسحاق نے ابن بریدہ سے، ابن بریدہ نے اپنے والد (بریدہ (رض) ) سے روایت کی ہے، حالانکہ ابواسحاق ہمدانی نے یہ حدیث مالک بن مغول سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٨ (١٤٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٩ (٣٨٥٧) (تحفة الأشراف : ١٩٩٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3857) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3475

【107】

فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کے ساتھ (مسجد میں) تشریف فرما تھے، اس وقت ایک شخص مسجد میں آیا، اس نے نماز پڑھی، اور یہ دعا کی : اے اللہ ! میری مغفرت کر دے اور مجھ پر رحم فرما، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے نمازی ! تو نے جلدی کی، جب تو نماز پڑھ کر بیٹھے تو اللہ کے شایان شان اس کی حمد بیان کر اور پھر مجھ پر صلاۃ (درود) بھیج، پھر اللہ سے دعا کر ، کہتے ہیں : اس کے بعد پھر ایک اور شخص نے نماز پڑھی، اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے نمازی ! دعا کر، تیری دعا قبول کی جائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اس حدیث کو حیوہ بن شریح نے ابوہانی خولانی سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٨ (١٤٨١) ، سنن النسائی/السھو ٤٨ (١٢٨٥) (تحفة الأشراف : ١١٠٣١) ، و مسند احمد (٦/١٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة، صحيح أبي داود (1331) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3476

【108】

فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو نماز کے اندر ١ ؎ دعا کرتے ہوئے سنا، اس نے نبی اکرم ﷺ پر صلاۃ (درود) نہ بھیجا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس نے جلدی کی ، پھر آپ نے اسے بلایا، اور اس سے اور اس کے علاوہ دوسروں کو خطاب کر کے فرمایا، جب تم میں سے کوئی بھی نماز پڑھ چکے ٢ ؎ تو اسے چاہیئے کہ وہ پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی ﷺ پر صلاۃ (درود) بھیجے، پھر اس کے بعد وہ جو چاہے دعا مانگے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : نماز کے اندر سے مراد ہے کہ آخری رکعت میں درود کے بعد اور سلام سے پہلے نماز میں دعا کا یہی محل ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ دعا میں کوشش کرو۔ ٢ ؎ : یعنی : پوری نماز سے فارغ ہو کر صرف سلام کرنا باقی رہ جائے ، یہ معنی اس لیے لینا ہوگا کہ اسی حدیث میں آچکا ہے کہ پہلے شخص نے نماز کے اندر دعا کی تھی اس پر آپ نے فرمایا تھا کہ اس نے صلاۃ ( درود ) نہ بھیج کر جلدی کی ، نیز دعا اللہ سے قرب کے وقت زیادہ قبول ہوتی ہے اور بندہ سلام سے پہلے اللہ سے بنسبت سلام کے بعد زیادہ قریب ہوتا ہے ، ویسے سلام بعد بھی دعا کی کی جاسکتی ہے ، مگر شرط وہی ہے کہ پہلے حمد و ثنا اور درود و سلام کا نذرانہ پیش کرلے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله بحديث صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3477

【109】

جامع دعاؤں کے بارے میں

اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کا اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے (ایک آیت) «وإلهكم إله واحد لا إله إلا هو الرحمن الرحيم» تم سب کا معبود ایک ہی معبود برحق ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ رحمن، رحیم ہے (البقرہ : ١٦٣) ، اور (دوسری آیت) آل عمران کی شروع کی آیت «الم اللہ لا إله إلا هو الحي القيوم» ہے «الم» ، اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، جو «حی» زندہ اور «قیوم» سب کا نگہبان ہے (آل عمران : ١- ٢) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٨ (١٤٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٩ (٣٨٥٥) (تحفة الأشراف : ١٥٧٦٧) (حسن) (سند میں ” عبید اللہ بن ابی زیاد القداح “ اور ” شہر بن حوشب “ ضعیف ہیں، مگر ابو امامہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة رقم ٧٤٦) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (3855) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3478

【110】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اللہ سے دعا مانگو اور اس یقین کے ساتھ مانگو کہ تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی، اور (اچھی طرح) جان لو کہ اللہ تعالیٰ بےپرواہی اور بےتوجہی سے مانگی ہوئی غفلت اور لہو و لعب میں مبتلا دل کی دعا قبول نہیں کرتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- میں نے عباس عنبری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ عبداللہ بن معاویہ جمحی کی بیان کردہ روایتیں لکھ لو کیونکہ وہ ثقہ راوی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٥٣١) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (596) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3479

【111】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کہتے تھے : «اللهم عافني في جسدي وعافني في بصري واجعله الوارث مني لا إله إلا اللہ الحليم الكريم سبحان اللہ رب العرش العظيم والحمد لله رب العالمين» اے اللہ ! تو مجھے میرے جسم میں عافیت عطا کر (یعنی مجھے صحت دے) اور مجھے عافیت دے میری نگاہوں میں (یعنی میری بینائی صحیح سالم رکھ) اور اسے (یعنی میری نگاہ کو) آخری وقت تک (یعنی بصارت کو باقی و قائم رکھ چاہے اور کسی چیز میں اضم حلال اور زوال آ جائے تو آ جائے) کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اللہ کے جو حلیم اور کریم ہے، پاک ہے اللہ عرش عظیم والا اور تمام تعریفیں اس اللہ کے ہیں جو سارے جہان کا رب ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ حبیب بن ابی ثابت نے عروہ بن زبیر سے کچھ بھی نہیں سنا ہے، اللہ بہتر جانتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٣٧٤) (ضعیف الإسناد) (سند میں ” حبیب بن ابی ثابت “ کا عروہ سے بالکل سماع نہیں ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (1211) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3480

【112】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ فاطمہ (بنت رسول) (رض) آپ کے پاس ایک خادم مانگنے آئیں، آپ نے ان سے کہا : تم یہ دعا پڑھتی رہو : «اللهم رب السموات السبع ورب العرش العظيم ربنا ورب کل شيء منزل التوراة والإنجيل والقرآن فالق الحب والنوی أعوذ بک من شر کل شيء أنت آخذ بناصيته أنت الأول فليس قبلک شيء وأنت الآخر فليس بعدک شيء وأنت الظاهر فليس فوقک شيء وأنت الباطن فليس دونک شيء اقض عني الدين وأغنني من الفقر» اے اللہ ! تو ساتوں آسمانوں کا رب، عرش عظیم کا رب، اے ہمارے رب ! اور ہر چیز کے رب، توراۃ، انجیل اور قرآن کے نازل کرنے والے، زمین پھاڑ کر دانے اگانے اور اکھوے نکالنے والے، میں تیری پناہ چاہتا ہوں ہر چیز کے شر سے، جس کی پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، تو پہلا ہے (شروع سے ہے) تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں ہے، تو سب سے آخر ہے تیرے بعد کوئی چیز نہیں، تو سب سے ظاہر (یعنی اوپر ہے) ، تیرے اوپر کوئی چیز نہیں ہے، تو پوشیدہ ہے سب کی نظروں سے، لیکن تم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے، اے اللہ ! تو میرے اوپر سے قرض اتار دے، اور مجھے محتاجی سے نکال کر مالدار کر دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، اور اعمش کے بعض شاگردوں نے اعمش سے ایسے ہی روایت کی ہے، ٢- ایسے ہی بعض راویوں نے اعمش سے، اعمش نے ابوصالح سے مرسل طریقہ سے روایت کی ہے، اور انہوں نے اپنی روایت میں ابوہریرہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٧ (٢٧١٣/٦٢) (تحفة الأشراف : ١٢٤٨٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3481

【113】

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھتے تھے : «اللهم إني أعوذ بک من قلب لا يخشع ومن دعا لا يسمع ومن نفس لا تشبع ومن علم لا ينفع أعوذ بک من هؤلاء الأربع» اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ایسے دل سے جو ڈرتا نہ ہو (یعنی جس میں خوف الٰہی نہ ہو) ، اور ایسی دعا سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں جو سنی نہ جائے، اور اس نفس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں جو سیر نہ ہو، اور ایسے علم سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں جو فائدہ نہ پہنچائے، اے اللہ ! میں ان چاروں چیزوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے (یعنی) عبداللہ بن عمرو کی روایت حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس باب میں جابر، ابوہریرہ اور ابن مسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الاستعاذة ٢ (٥٤٤٤) (تحفة الأشراف : ٨٦٢٩) ، و مسند احمد (٢/١٦٧، ١٩٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (1 / 75 - 76) ، صحيح أبي داود (1384 - 1385) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3482

【114】

عمران بن حصین کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے میرے باپ سے پوچھا : اے حصین ! آج کل تم کتنے معبودوں کو پوجتے ہو ؟ میرے باپ نے جواب دیا سات کو چھ زمین میں (رہتے ہیں) اور ایک آسمان میں، آپ نے پوچھا : ان میں سے کس کی سب سے زیادہ رغبت دلچسپی، امید اور خوف و ڈر کے ساتھ عبادت کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا : اس کی جو آسمان میں ہے، آپ نے فرمایا : اے حصین ! سنو، اگر تم اسلام لے آتے تو میں تمہیں دو کلمے سکھا دیتا وہ دونوں تمہیں برابر نفع پہنچاتے رہتے ، پھر جب حصین اسلام لے آئے تو انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے وہ دونوں کلمے سکھا دیجئیے جنہیں سکھانے کا آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا، آپ نے فرمایا : کہو «اللهم ألهمني رشدي وأعذني من شر نفسي» اے اللہ ! تو مجھے میری بھلائی کی باتیں سکھا دے، اور میرے نفس کے شر سے مجھے بچا لے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- یہ حدیث عمران بن حصین سے اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٧٩٧) (ضعیف) (حسن بصری کا عمران بن حصین (رض) سے لقاع و سماع نہیں ہے، نیز ” شبیب بن شیبہ “ مجہول راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2476 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (4098) القسم الأخير // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3483

【115】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کو اکثر و بیشتر ان الفاظ سے دعا مانگتے سنتا تھا : «اللهم إني أعوذ بک من الهم والحزن والعجز والکسل والبخل وضلع الدين وغلبة الرجال» اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکرو غم سے، عاجزی سے اور کاہلی سے اور بخیلی سے اور قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کے قہر و ظلم و زیادتی سے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے یعنی عمرو بن ابی عمرو کی روایت سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٢٥ (٢٨٦٢) ، وتفسیر سورة النحل ١ (٤٧٠٧) ، والدعوات ٣٨ (٦٣٧٠) ، و ٤٢ (٦٣٧٤) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٥ (٢٧٠٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦٧ (١٥٤٠) ، سنن النسائی/الاستعاذة ٦ (٥٤٥٠) (تحفة الأشراف : ١١١٥) ، و مسند احمد (٣/١١٣، ١١٧، ٢٠٨، ٢١٤، ٢٣١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (347) ، صحيح أبي داود (1377 - 1478) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3484

【116】

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ یہ دعا کرتے تھے : «اللهم إني أعوذ بک من الکسل والهرم والجبن والبخل وفتنة المسيح وعذاب القبر» اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں سستی و کاہلی سے، اور انتہائی بڑھاپے سے (جس میں آدمی ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے) بزدلی و بخالت سے اور مسیح (دجال) کے فتنہ سے اور عذاب قبر سے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ٥٨٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1377) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3485

【117】

انگلیوں پر تسبیح گننے کے بارے میں

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو تسبیح کا شمار اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، یعنی اعمش کی روایت سے جسے وہ عطاء بن سائب سے روایت کرتے ہیں، ٢- شعبہ اور ثوری نے یہ پوری حدیث عطاء بن سائب سے روایت کی ہے، ٢- اس باب میں یسیرہ بنت یاسر (رض) سے بھی روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہوئے کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے عورتوں کی جماعت ! تم تسبیحات کا شمار انگلیوں کے پوروں سے کرلیا کرو، کیونکہ ان سے پوچھا جائے گا اور انہیں گویائی عطا کی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٤١٢ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وهو مکرر الحديث (3652) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3486

【118】

انگلیوں پر تسبیح گننے کے بارے میں

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک صحابی کی جو بیماری سے سخت لاغر اور سوکھ کر چڑیا کے بچے کی طرح ہوگئے تھے عیادت کی، آپ نے ان سے فرمایا : کیا تم اپنے رب سے اپنی صحت و عافیت کی دعا نہیں کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : میں دعا کرتا تھا کہ اے اللہ ! جو سزا تو مجھے آخرت میں دینے والا تھا وہ سزا مجھے تو دنیا ہی میں پہلے ہی دیدے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سبحان اللہ ! پاک ہے اللہ کی ذات، تو اس سزا کو کاٹنے اور جھیلنے کی طاقت و استطاعت نہیں رکھتا، تم یہ کیوں نہیں کہا کرتے تھے : «اللهم آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار» اے اللہ ! تو ہمیں دنیا میں بھی نیکی، اچھائی و بھلائی دے اور آخرت میں بھی حسنہ، نیکی بھلائی و اچھائی دے، اور بچا لے تو ہمیں جہنم کے عذاب سے (البقرہ : ٢٠١) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- یہ حدیث انس بن مالک کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے دیگر کئی اور سندوں سے بھی آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٧ (٢٦٨٨) (تحفة الأشراف : ٣٩٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3487

【119】

انگلیوں پر تسبیح گننے کے بارے میں

اللہ تعالیٰ کی اس آیت : «ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة» کے بارے میں حسن سے مروی ہے، دنیا میں «حسنہ» سے مراد علم اور عبادت ہے، اور آخرت میں «حسنہ» سے مراد جنت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (حسن) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3488

【120】

انگلیوں پر تسبیح گننے کے بارے میں

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ یہ دعا کرتے تھے : «اللهم إني أسألک الهدى والتقی والعفاف والغنی» اے اللہ ! میں تجھ سے ہدایت کا طالب ہوں، تقویٰ کا طلب گار ہوں، پاکدامنی کا خواہشمند ہوں، مالداری اور بےنیازی چاہتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٨ (٢٧٢١) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٢ (٣٨٣٢) (تحفة الأشراف : ٩٥٠٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3832) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3489

【121】

باب

ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : داود (علیہ السلام) کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ تھی : «اللهم إني أسألک حبک وحب من يحبک والعمل الذي يبلغني حبک اللهم اجعل حبک أحب إلي من نفسي وأهلي ومن الماء البارد» اے اللہ ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں، اور میں اس شخص کی بھی تجھ سے محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے، اور ایسا عمل چاہتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے، اے اللہ ! تو اپنی محبت کو مجھے میری جان اور میرے گھر والوں سے زیادہ محبوب بنا دے، اے اللہ ! اپنی محبت کو ٹھنڈے پانی کی محبت سے بھی زیادہ کر دے ، (راوی) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ جب داود (علیہ السلام) کا ذکر کرتے تو ان کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے : وہ لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٩٤٢) (ضعیف) (سند میں ” عبد اللہ بن ربیعہ “ مجہول ہے، اور بقول امام احمد : اس کی حدیثیں موضوع ہوتی ہیں، مگر ” کان داود أعبد البشر “ کا ٹکڑا ابن عمر (رض) سے مسلم میں موجود ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة رقم ٧٠٧) قال الشيخ الألباني : ضعيف - إلا قوله في داود : کان أعبد البشر فهو عند مسلم - ابن عمر -، الصحيحة (707) ، المشکاة (2496 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3490

【122】

باب

عبداللہ بن یزید اخطمی انصاری سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی دعا میں کہتے تھے : «اللهم ارزقني حبک وحب من ينفعني حبه عندک اللهم ما رزقتني مما أحب فاجعله قوة لي فيما تحب اللهم وما زويت عني مما أحب فاجعله فراغا لي فيما تحب» اے اللہ ! تو مجھے اپنی محبت عطا کر، اور مجھے اس شخص کی بھی محبت عطا کر جس کی محبت مجھے تیرے دربار میں فائدہ دے، اے اللہ ! جو بھی تو مجھے میری پسندیدہ و پاکیزہ رزق عطا کرے اس رزق کو اپنی پسندیدہ چیزوں میں استعمال کے لیے قوت و طاقت کا ذریعہ بنا دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٦٧٦) (ضعیف) (سند میں ” سفیان بن وکیع “ متروک الحدیث ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2491 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (1172) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3491

【123】

باب

شکل بن حمید (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے کوئی ایسا تعویذ (پناہ لینے کی دعا) سکھا دیجئیے جسے پڑھ کر میں اللہ کی پناہ حاصل کرلیا کروں، تو آپ نے میرا کندھا پکڑا اور کہا : کہو (پڑھو) : «اللهم إني أعوذ بک من شر سمعي ومن شر بصري ومن شر لساني ومن شر قلبي ومن شر منيي يعني فرجه» اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے کان کے شر سے، اپنی آنکھ کے شر سے، اپنی زبان کے شر سے، اپنے دل کے شر سے، اور اپنی شرمگاہ کے شر سے (منی سے مراد شرمگاہ ہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، اور ہم اس حدیث کو صرف اسی سند یعنی «سعد بن أوس عن بلال بن يحيى» کے طریق سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦٧ (٥١٥١) ، سنن النسائی/الاستعاذة ٤ (٥٤٤٦) ، ١٠ (٥٤٥٧) ، و ١١ (٥٤٥٨) ، و ٢٨ (٥٤٨٦) (تحفة الأشراف : ٤٨٤٧) ، و مسند احمد (٣/٤٢٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2472) ، صحيح أبي داود (1387) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3492

【124】

باب

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ انہیں (صحابہ کو) یہ دعا سکھایا کرتے تھے جیسا کہ انہیں قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے : «اللهم إني أعوذ بک من عذاب جهنم ومن عذاب القبر وأعوذ بک من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بک من فتنة المحيا والممات» اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں مسیح دجال کے فتنہ سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں حیات و موت کے فتنے (کشمکش) سے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٥ (٥٩٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦٧ (١٥٤٢) ، سنن النسائی/الجنائز ١١٥ (٢٠٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٣ (٣٨٤٠) (تحفة الأشراف : ٥٧٥٢) ، وما/القرآن ٨ (٣٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3840) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3494

【125】

باب

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کلمات کے ذریعہ دعا فرمایا کرتے تھے : «اللهم إني أعوذ بک من فتنة النار وعذاب النار وفتنة القبر وعذاب القبر ومن شر فتنة الغنی ومن شر فتنة الفقر ومن شر فتنة المسيح الدجال اللهم اغسل خطاياي بماء الثلج والبرد وأنق قلبي من الخطايا كما أنقيت الثوب الأبيض من الدنس وباعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم إني أعوذ بک من الکسل والهرم والمأثم والمغرم» اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے فتنے سے، (جہنم میں لے جانے والے اعمال سے) جہنم کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے، اور قبر کے فتنہ سے، (منکر نکیر کے سوال سے جس کا جواب نہ پڑے) مالداری کے فتنے کے شر سے (تکبر اور کسب حرام سے) اور محتاجی کے فتنے کے شر سے، (حسد اور طمع سے) اور مسیح دجال کے شر سے، اے اللہ ! ہمارے گناہوں کو دھل دے برف اور اولوں کے پانی سے، اور میرے دل کو گناہوں سے صاف کر دے جس طرح کہ تو سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کرتا ہے، اور میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری پیدا کر دے جتنی دوری تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان پیدا کردی ہے، اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کاہلی سے، بڑھاپے سے، گناہ سے اور تاوان و قرض کے بوجھ سے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٣٩ (٦٣٦٨) ، و ٤٤ (٦٣٧٥) ، و ٤٥ (٦٣٧٦) ، و ٤٦ (٦٣٧٧) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٤ (٥٨٩/٤٩) ، سنن النسائی/الاستعاذة ١٧ (٥٤٦٨) ، و ٢٦ (٥٤٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٣ (٣٨٣٨) (تحفة الأشراف : ١٧٠٦٢) ، و مسند احمد (٦/٥٧، ٢٠٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3838) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3495

【126】

باب

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کی وفات کے وقت (یہ دعا) پڑھتے ہوئے سنا ہے : «اللهم اغفر لي وارحمني وألحقني بالرفيق الأعلی» اے اللہ ! بخش دے مجھ کو اور رحم فرما مجھ پر اور مجھ کو رفیق اعلیٰ (انبیاء و ملائکہ) سے ملا دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٨٣ (٤٤٤٠) ، والمرضی ١٩ (٥٦٧٤) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٤٤) (تحفة الأشراف : ١٦١٧٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3496

【127】

باب

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں سوئی ہوئی تھی، رات میں نے آپ کو اپنی جگہ نہ پا کر آپ کو ادھر ادھر تلاش کیا، ٹٹولا، میرا ہاتھ آپ کے قدموں پر پڑا، اس وقت آپ سجدے میں تھے، اور یہ دعا پڑھ رہے تھے : «أعوذ برضاک من سخطک وبمعافاتک من عقوبتک لا أحصي ثناء عليك أنت کما أثنيت علی نفسک» اے اللہ ! میں تیری رضا و خوشنودی کے ذریعہ تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں، اور تیرے عفو درگزر کے سہارے تیری سزا و عذاب سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری ثناء، تیری تعریف کی گنتی اور اس کا احصاء و احاطہٰ نہیں کرسکتا، تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود آپ اپنی ذات کی تعریف کی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہ حدیث کئی سندوں سے عائشہ (رض) سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٢ (٤٨٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٥٢ (٨٧٩) ، سنن النسائی/الطھارة ١٢٠ (١٦٩) ، والتطبیق ٧١ (١١٣١) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٣ (٣٨٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٥٨٥) ، وط/القرآن ٨ (٣١) ، و مسند احمد (٦/٥٨، ٢٠١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3841) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3493 لیث نے بیان کیا اور لیث نے یحییٰ بن سعید سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی ہے اور اس میں اتنا اضافہ کیا ہے : «وأعوذ بک منک لا أحصي ثناء عليك» میں تیری پناہ چاہتا ہوں تیری ناراضگی سے اور تیری تعریف کا حق ادا نہیں کرسکتا ، (جیسی کہ تیری تعریف ہونی چاہیئے) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3841) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3493

【128】

باب

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (کوئی شخص دعا مانگے تو) اس طرح نہ کہے : اے اللہ ! تو چاہے تو ہمیں بخش دے، اے اللہ ! تو چاہے تو ہم پر رحم فرما ١ ؎ بلکہ زور دار طریقے سے مانگے، اس لیے کہ اللہ کو کوئی مجبور کرنے والا تو ہے نہیں (کہ کہا جائے : اگر تو چاہے) ، امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٢١ (٦٣٣٩) ، والتوحید ٣١ (٧٣٧٧) ، صحیح مسلم/الذکر ٣ (٢٦٧٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٨ (١٤٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٨ (٣٨٥٤) (تحفة الأشراف : ٣٨١٣) ، وط/القرآن ٨ (٢٨) ، و مسند احمد (٢/٢٤٣، ٤٥٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی شبہہ اور تذبذب والی اور ڈھیلے پن کی بات نہیں ہونی چاہیئے۔ بلکہ پورے عزم ، پختہ ارادے ، اور اپنی پوری کوشش کے ساتھ دعا مانگے جیسے مجھے یہ چاہیئے ، مجھے یہ دے ، مجھے تو بس تجھی سے مانگنا ہے اور تجھ ہی سے پانا ہے وغیرہ وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3854) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3497

【129】

باب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمارا رب ہر رات آسمان دنیا پر آخری تہائی رات میں اترتا ہے اور کہتا ہے : کون ہے جو مجھے پکارے کہ میں اس کی دعا قبول کرلوں ؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے عطا کر دوں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے کہ میں اسے بخش دوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے ٢- اور ابوعبداللہ الاغر کا نام سلمان ہے، ٣- اس باب میں علی، عبداللہ بن مسعود، ابوسعید، جبیر بن مطعم، رفاعہ جہنی، ابودرداء اور عثمان بن ابوالعاص (رض) سے بھی روایتیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ١٤ (١١٤٥) ، والدعوات ١٤ (٦٣٢١) ، والتوحید ٣٥ (٧٤٩٤) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٤ (٧٥٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣١١ (١٣١٥) ، والسنة ٢١ (٤٧٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٢ (١٣٦٦) (تحفة الأشراف : ١٣٤٦٣، و ١٥٢٤١) ، و مسند احمد (٢/٢٦٤، ٢٦٧، ٢٨٣، ٤١٩، ٤٧٨) ، وسنن الدارمی/الصلاة ١٦٨ (١٥١٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی برقم (448) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3498

【130】

باب

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول ! کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : آدھی رات کے آخر کی دعا (یعنی تہائی رات میں مانگی ہوئی دعا) اور فرض نمازوں کے اخیر میں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- ابوذر اور ابن عمر (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : رات کے آخری حصہ میں دعا سب سے بہتر ہے، یا اس کے قبول ہونے کی امیدیں زیادہ ہیں یا اسی جیسی کوئی اور بات آپ نے فرمائی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٤٥ (١٠٨) (تحفة الأشراف : ٤٨٩٢) (حسن) (تراجع الالبانی ١٠٨) وضاحت : ١ ؎ : «دبر الصلوات» کے معنی نماز کے بعد یعنی سلام کے بعد بھی ہوسکتے ہیں اور نماز کے اخیر میں سلام سے پہلے بھی ہوسکتے ہیں ، اور یہ دوسرا معنی زیادہ قرین صواب ہے ، کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ابوبکر (رض) کو اسی وقت دعا زیادہ قبول ہونے کے بارے میں بتایا تھا ، نیز بندہ اللہ سے پہلے زیادہ قریب ہوتا ہے کیونکہ وہ نماز میں ہوتا ہے بنسبت سلام کے بعد کے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (2 / 276) ، الکلم الطيب (113 / 70 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3499

【131】

باب

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص صبح میں یہ کلمات کہے گا : «اللهم أصبحنا نشهدک ونشهد حملة عرشک وملائكتک وجميع خلقک بأنک اللہ لا إله إلا أنت اللہ وحدک لا شريك لک وأن محمدا عبدک ورسولک» اے اللہ ! ہم نے صبح کی اور ہم تجھے گواہ بناتے ہیں اور تیرا عرش اٹھائے رہنے والوں، تیرے فرشتوں کو تیری ساری مخلوقات کو گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ تو ہی اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، تو اکیلا اللہ ہے تیرا کوئی شریک نہیں ہے، اور محمد ﷺ تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں ، تو اس دن اس سے جتنے بھی گناہ ہوں گے انہیں اللہ بخش دے گا اور اگر وہ یہ دعا شام کے وقت پڑھے گا تو اس رات اس سے جتنے بھی گناہ سرزد ہوں گے اللہ انہیں بخش دے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١١٠ (٥٠٧٨) (تحفة الأشراف : ١٥٨٧) (ضعیف) (سند میں ” بقیہ “ اور ” مسلم بن زیاد “ دونوں ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الکلم الطيب (25) ، المشکاة (2398 / التحقيق الثاني) ، الضعيفة (1041) // ضعيف الجامع الصغير (5729) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3501

【132】

باب

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے آج رات آپ کی دعا سنی، میں نے آپ کی جو دعا سنی وہ یہ تھی : «اللهم اغفر لي ذنبي ووسع لي في داري وبارک لي فيما رزقتني» اے اللہ ! میرے گناہ بخش دے اور میرے گھر میں کشادگی دے، اور میرے رزق میں برکت دے ، آپ نے فرمایا : کیا ان دعائیہ کلمات نے کچھ چھوڑا ؟ (یعنی ان میں دین دنیا کی سبھی بھلائیاں آ گئی ہیں) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٥١٢) (ضعیف) (دعا کا حصہ حسن ہے، بقیہ ضعیف، سند میں راوی ” سعید بن ایاس جریری “ مختلط ہوگئے تھے، اور ” عبد الحمید الھلالی “ بہت غلطیاں کرتے تھے، مگر نفس اس دعاء کے الفاظ ابوموسیٰ (رض) کی روایت سے تقویت پا کر دعا کا ٹکڑا حسن ہے، ملاحظہ ہو : غایة المرام رقم ١١٢) قال الشيخ الألباني : ضعيف، لکن الدعاء حسن، الروض النضير (1167) ، غاية المرام (112) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3500

【133】

باب

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ کم ہی ایسا ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی کسی مجلس سے اپنے صحابہ کے لیے یہ دعا کیے بغیر اٹھے ہوں : «اللهم اقسم لنا من خشيتک ما يحول بيننا وبين معاصيك ومن طاعتک ما تبلغنا به جنتک ومن اليقين ما تهون به علينا مصيبات الدنيا ومتعنا بأسماعنا وأبصارنا وقوتنا ما أحييتنا واجعله الوارث منا واجعل ثأرنا علی من ظلمنا وانصرنا علی من عادانا ولا تجعل مصيبتنا في ديننا ولا تجعل الدنيا أكبر همنا ولا مبلغ علمنا ولا تسلط علينا من لا يرحمنا» اے اللہ ! ہمارے درمیان تو اپنا اتنا خوف بانٹ دے جو ہمارے اور ہمارے گناہوں کے درمیان حائل ہوجائے، اور ہمارے درمیان اپنی اطاعت و فرماں برداری کا اتنا جذبہ پھیلا دے جو ہمیں تیری جنت تک پہنچا دے، اور ہمیں اتنا یقین دیدے جس کے سہارے دنیا کی مصیبتیں ہیچ اور آسان ہوجائیں، اور جب تک تو زندہ رکھ ہمیں اپنے کانوں اپنی آنکھوں اور اپنی قوتوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دیتا رہ، اور ان سب کو (ہماری موت تک) باقی رکھ، اور ہمارا قصاص اور ہمارا بدلہ ان سے لے جو ہم پر ظلم کرے، اور جو ہم سے دشمنی کرے اس کے مقابل میں ہماری مدد فرما، اور دنیا کو ہمارا برا مقصد نہ بنا دے، اور نہ ہمارے علم کی انتہا بنا (کہ ہمارا سارا سیکھنا سکھانا صرف دنیا کی خاطر ہو) اور ہم پر کسی ایسے شخص کو مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، بعض محدثین نے یہ حدیث خالد بن ابوعمران سے اور خالد نے نافع کے واسطہ سے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٣٧ (٤٠١) (تحفة الأشراف : ١٥٨٧) (ضعیف) (سند میں ” بقیہ “ اور ” مسلم بن زیاد “ دونوں ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : حسن الکلم الطيب (225 / 169) ، المشکاة (2492 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3502

【134】

باب

مسلم بن ابوبکرہ کہتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے : «اللهم إني أعوذ بک من الهم والکسل وعذاب القبر» اے اللہ میں غم و فکر اور سستی و کاہلی اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، پڑھتے ہوئے سنا تو کہا : اے بیٹے تو نے یہ دعا کس سے سنی ؟ میں نے کہا : میں نے آپ کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سنی ہے، انہوں نے کہا : انہیں پابندی سے پڑھتے رہا کرو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٧٠٥) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3503

【135】

باب

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : کیا میں تم کو ایسے کلمات نہ سکھا دوں کہ ان کلمات کو جب تم کہو گے تو تمہارے گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا، اگرچہ تم ان لوگوں میں سے ہو جن کے گناہ پہلے ہی معاف کئے جا چکے ہیں ، آپ نے فرمایا : کہو : «لا إله إلا اللہ العلي العظيم لا إله إلا اللہ الحليم الكريم لا إله إلا اللہ سبحان اللہ رب العرش العظيم» اللہ جو بلند و بالا ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، حلیم و کریم (بردبار مہربان) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے، پاک ہے اللہ جو عرش عظیم کا رب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٩٨ (٦٤٠) (تحفة الأشراف : ١٠٠٤٠) (ضعیف) (سند میں ” حارث الأعور “ ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الروض النضير (679 و 717) // ضعيف الجامع الصغير (2170) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3504 اسی سند سے حسین بن واقد کے واسطہ سے ایسی ہی حدیث روایت ہے، البتہ ان کی حدیث کے آخر میں : «الحمد لله رب العالمين» کا اضافہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں، یعنی ابی اسحاق کی روایت سے جسے وہ حارث (اعور) کے واسطہ سے علی سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الروض النضير (679 و 717) // ضعيف الجامع الصغير (2170) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3504

【136】

باب

سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ذوالنون (یونس علیہ السلام) کی دعا جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے دوران کی تھی وہ یہ تھی : «لا إله إلا أنت سبحانک إني كنت من الظالمين» تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو پاک ہے، میں ہی ظالم (خطاکار) ہوں ، کیونکہ یہ ایسی دعا ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان شخص اسے پڑھ کر دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- محمد بن یحییٰ نے کہا : محمد بن یوسف کبھی ابراہیم بن محمد بن سعد کے واسطہ سے سعد سے روایت کرتے ہیں اور اس میں «عن أبيه» کا ذکر نہیں کرتے، ٢- دوسرے راویوں نے یہ حدیث یونس بن ابواسحاق سے، اور یونس نے ابراہیم بن محمد بن سعد کے واسطہ سے سعد سے روایت کی ہے، اور اس روایت میں انہوں نے «عن أبيه» کا ذکر نہیں کیا ہے، ٣- بعض نے یونس بن ابواسحاق سے روایت کی ہے، اور ان لوگوں نے ابن یوسف کی روایت کی طرح ابراہیم بن محمد بن سعد سے روایت کرتے ہوئے «عن أبيه عن سعد» کہا ہے اور یونس بن ابواسحاق کی عادت تھی کہ کبھی تو وہ اس حدیث میں «عن أبيه» کہہ کر روایت کرتے اور کبھی «عن أبيه» کا ذکر نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٠٠ (٦٥٦) (تحفة الأشراف : ٣٩٢٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الکلم الطيب (122 / 79) ، التعليق الرغيب (2 / 275 و 3 / 43) ، المشکاة (2292 / التحقيق الثاني ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3505

【137】

باب

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ننانوے ١ ؎ نام ہیں، سو میں ایک کم، جو انہیں یاد رکھے وہ جنت میں داخل ہوگا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشروط ١٨ (٢٧٣٦) ، والدعوات ٦٨ (٦٤١٠) ، والتوحید ١٢ (٧٣٩٢) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٢ (٢٦٧٧) (تحفة الأشراف : ١٤٥٣٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2288 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3506 امام ترمذی کہتے ہیں کہ یوسف نے کہا : ہم سے بیان کیا عبدالاعلی نے اور عبدالاعلی نے ہشام بن حسان سے، ہشام نے محمد بن سیرین سے، محمد بن سیرین نے ابوہریرہ (رض) سے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہاں نناوے کا لفظ «حصر» کے لیے نہیں ہے کیونکہ ابن مسعود (رض) کی ایک حدیث ( جو مسند احمد کی ہے اور ابن حبان نے اس کی تصحیح کی ہے ) میں ہے کہ آپ دعا میں کہا کرتے تھے : اے اللہ میں ہر اس نام سے تجھ سے مانگتا ہوں جو تم نے اپنے لیے رکھا ہے اور جو ابھی پردہ غیب میں ہے ، اس معنی کی بنا پر اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مذکور بالا ان ننانوے ناموں کو جو یاد کرلے گا … نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کا اصل نام اللہ ہے باقی نام صفاتی ہیں۔ ٢ ؎ : یعنی جو ان کو یاد کرلے اور صرف بسرد الاسماء معرفت اسے حاصل ہوجائے اور ان میں پائے جانے والے معنی و مفہوم کے تقاضوں کو پورا کر کے ان کے مطابق اپنی زندگی گزارے گا وہ جنت کا مستحق ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2288 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3506

【138】

باب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ننانوے ( ٩٩) نام ہیں جو انہیں شمار کرے (گنے) گا وہ جنت میں جائے گا، اور اللہ کے ننانوے ( ٩٩) نام یہ ہیں : «الله» اسم ذات سب ناموں سے اشرف و اعلی، «الرحمن» بہت رحم کرنے والا ، « الرحيم» مہربان ، «الملک» بادشاہ ، «القدوس» نہایت پاک ، «السلام» سلامتی دینے والا ، «المؤمن» یقین والا ، «المهيمن» نگہبان ، «العزيز» غالب ،«الجبار» تسلط والا ، «المتکبر» بڑائی والا ، «الخالق» پیدا کرنے والا ، «البارئ» پیدا کرنے والا ، «المصور» صورت بنانے والا ،«الغفار» بہت بخشنے والا ‘، «القهار» قہر والا ، «الوهاب» بہت دینے والا ، «الرزاق» روزی دینے والا ، «الفتاح» فیصلہ چکانے والا ،«العليم» جاننے والا ، «القابض» روکنے والا ، «الباسط» چھوڑ دینے والا، پھیلانے والا ، «الخافض» پست کرنے والا ، «الرافع» بلند کرنے والا ، «المعز» عزت دینے والا ، «المذل» ذلت دینے والا ، «السميع» سننے والا ، «البصير» دیکھنے والا ، «الحکم» فیصلہ کرنے والا ، «العدل» انصاف والا ، «اللطيف» بندوں پر شفقت کرنے والا ، «الخبير» خبر رکھنے والا ، «الحليم» بردبار ، «العظيم» بزرگی والا ، «الغفور» بہت بخشنے والا ، «الشکور» قدر کرنے والا ، «العلي» اونچا ، «الكبير» بڑا ، «الحفيظ» نگہبان ، «المقيت» طاقت و قوت والا ، «الحسيب» حساب لینے والا ، «الجليل» بزرگ ، «الكريم» کرم والا ، «الرقيب» مطلع رہنے والا ، «المجيب» قبول کرنے والا ، «الواسع» کشادگی اور وسعت والا ، «الحکيم» حکمت والا ، «الودود» بہت چاہنے والا ، «المجيد» بزرگی والا ،«الباعث» زندہ کر کے اٹھانے والا ، «الشهيد» نگراں، حاضر ، «الحق» سچا ، «الوکيل» کار ساز ، «القوي» طاقتور ، «المتين» مضبوط ، «الولي» مددگار و محافظ ، «الحميد» ، «المحصي» ، «المبدئ» پہلے پہل پیدا کرنے والا ، «المعيد» دوبارہ پیدا کرنے والا ،«المحيي» زندہ کرنے والا ، «المميت» مارنے والا ، «الحي» زندہ ، «القيوم» قائم رہنے و قائم رکھنے والا ، «الواجد» پانے والا ،«الماجد» بزرگی والا ، «الواحد» اکیلا ، «الصمد» بےنیاز ، «القادر» قدرت والا ، «المقتدر» طاقتور پکڑنے والا ، «المقدم» پہلا ،«المؤخر» پچھلا ، «الأول» پہلا ، «الآخر» پچھلا ، «الظاهر» ظاہر ، «الباطن» پوشیدہ، مخفی ، «الوالي» مالک مختار، حکومت کرنے والا ، «المتعالي» برتر ، «البر» بھلائی والا ، «التواب» توبہ قبول کرنے والا ، «المنتقم» انتقام لینے والا ، «العفو» درگذر کرنے والا ،«الرء وف» شفقت والا، مہربان ، «مالک الملک» تمام جہاں کا مالک ، «ذو الجلال والإکرام» عزت و جلال والا ، «المقسط» انصاف کرنے والا ، «الجامع» جمع کرنے والا ، «الغني» تونگر و بےنیاز ، «المغني» بےنیاز ، «المانع» روکنے والا ، «الضار» نقصان پہنچانے والا ، «النافع» نفع پہنچانے والا ، «النور» روشن، ظاہر ، «الهادي» ہدایت بخشنے والا ، «البديع» از سر نو پیدا کرنے والا ، «الباقي» قائم رہنے والا ، «الوارث» وارث ، «الرشيد» خیر و بھلائی والا ، «الصبور» بردبار ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے،

【139】

باب

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ننانوے ( ٩٩) نام ہیں جس نے انہیں شمار کیا (یاد رکھا) وہ جنت میں جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس حدیث میں اسماء (الٰہی) کا ذکر نہیں ہے، ٣- اسے ابوالیمان نے شعیب بن ابی حمزہ کے واسطہ سے ابوالزناد سے روایت کیا ہے اور اس میں اسمائے حسنیٰ کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٥٠٦ (تحفة الأشراف : ١٣٦٧٤) (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3508

【140】

باب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم جنت کے باغوں میں سے کسی باغ کے پاس سے گزرو تو کچھ چر چگ لیا کرو ، میں پوچھا : اللہ کے رسول ! «رياض الجنة» کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : «رياض الجنة » مساجد ہیں ، میں نے کہا اور «الرتع» کیا ہے، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : «سبحان اللہ والحمد لله ولا إله إلا اللہ والله أكبر» کہنا «الرتع» ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤١٧٥) (ضعیف) (سند میں ” حمید المکی “ مجہول راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1150) // ضعيف الجامع الصغير (701) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3509

【141】

باب

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم جنت کے باغوں سے گزرو تو تم (کچھ) چر، چگ لیا کرو ١ ؎ لوگوں نے پوچھا «رياض الجنة» کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ذکر کے حلقے اور ذکر کی مجلسیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے جسے ثابت نے انس سے روایت کی ہے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (٤٦٥) (حسن) (سند میں ” محمد بن ثابت البنانی “ ضعیف ہیں، لیکن شاہد اور متابع کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو الصحیحہ : ٢٥٦٢، تراجع الالبانی ٩٢) وضاحت : ١ ؎ : مساجد میں کچھ عبادت و بندگی اور ذکر و فکر کر کے اپنی یہ اخروی زندگی کی آسودگی کا کچھ سامان کرلیا کرو۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (2562) ، التعليق الرغيب (2 / 335) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3510

【142】

باب

ابوسلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت لاحق ہو تو اسے : «إنا لله وإنا إليه راجعون اللهم عندک احتسبت مصيبتي فأجرني فيها وأبدلني منها خيرا» ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور ہم اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، اے اللہ ! میں اپنی مصیبتوں کا اجر تجھ سے چاہتا ہوں مجھے تو ان پر (صبر کرنے کا) اچھا اجر دے، اور ان مصیبتوں کے بدلے مجھے ان سے اچھا دے ، پڑھنا چاہیئے، پھر جب ابوسلمہ (رض) کی موت کا وقت آگیا تو انہوں نے دعا کی : «اللهم اخلف في أهلي خيرا مني» اے اللہ ! میرے گھر والوں میں مجھ سے بہتر ذات کو میرا خلیفہ و جانشیں بنا دے ، اور جب ان کی موت واقع ہوگئی تو ام سلمہ (رض) نے کہا : «إنا لله وإنا إليه راجعون عند اللہ احتسبت مصيبتي فأجرني فيها»۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ام سلمہ (رض) کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے ٣- اور ابوسلمہ (رض) کا نام عبداللہ بن عبدالاسد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٥ (١٥٩٨) (تحفة الأشراف : ٦٥٧٧) (ضعیف) (تراجع الالبانی ٣٤١) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد - أم سلمة نحوه صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3511

【143】

باب

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون سی دعا افضل (سب سے اچھی) ہے ؟ آپ نے فرمایا : اپنے رب سے دنیا و آخرت میں بلاؤں و مصیبتوں سے بچا دینے کی دعا کرو ، پھر آپ کے پاس وہی شخص دوسرے دن بھی آیا، اور آپ سے پھر پوچھا : کون سی دعا افضل ہے ؟ آپ نے اسے ویسا ہی جواب دیا جیسا پہلے جواب دیا تھا، وہ شخص تیسرے دن بھی آپ کے پاس حاضر ہوا، اس دن بھی آپ نے اسے ویسا ہی جواب دیا، مزید فرمایا : جب تمہیں دنیا و آخرت میں عافیت مل جائے تو سمجھ لو کہ تم نے کامیابی حاصل کرلی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف سلمہ بن وردان کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدعاء ٥ (٣٨٤٨) (تحفة الأشراف : ٨٦٩) (ضعیف) (سند میں ” سلمہ بن وردان “ ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3848) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (839) ، ضعيف الجامع الصغير (3269) ، المشکاة (2490) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3512

【144】

باب

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس میں کیا پڑھوں ؟ آپ نے فرمایا : پڑھو «اللهم إنک عفو کريم تحب العفو فاعف عني» اے اللہ ! تو عفو و درگزر کرنے والا مہربان ہے، اور عفو و درگزر کرنے کو تو پسند کرتا ہے، اس لیے تو ہمیں معاف و درگزر کر دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدعاء ٥ (٣٨٥٠) (تحفة الأشراف : ١٦١٨٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3850) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3513

【145】

باب

عباس بن عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیے جسے میں اللہ رب العزت سے مانگتا رہوں، آپ نے فرمایا : اللہ سے عافیت مانگو ، پھر کچھ دن رک کر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا : مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جسے میں اللہ سے مانگتا رہوں، آپ نے فرمایا : اے عباس ! اے رسول اللہ ﷺ کے چچا ! دنیا و آخرت میں عافیت طلب کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث صحیح ہے، ٢- عبداللہ بن حارث بن نوفل نے عباس بن عبدالمطلب (رض) سے سنا ہے (یعنی ان کا ان سے سماع ثابت ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥١٢٩) ، و مسند احمد (١/٢٠٩) (صحیح) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو الصحیحة رقم : ١٥٢٣) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2490 / التحقيق الثاني) ، الصحيحة (1523) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3514

【146】

باب

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ سے جو بھی چیزیں مانگی گئی ہیں ان میں اللہ کو سب سے زیادہ پسند یہ ہے کہ اس سے عافیت (دنیا و آخرت کی مصیبتوں سے نجات) مانگی جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- اور ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن ابوبکر ملی کی کی روایت سے جانتے ہیں، (اور یہ ضعیف ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٥٠٤) (ضعیف) (سند میں ” عبد الرحمن بن ابی بکر ملی کی “ ضعیف ہیں) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3515

【147】

باب

ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی کام کا ارادہ کرتے تو یہ دعا فرماتے : «اللهم خر لي واختر لي» اے اللہ ! میرے لیے بہتر کا انتخاب فرما اور میرے لیے بہتر پسند فرما ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے ٢- اور ہم اسے زنفل کی روایت کے سوا اور کسی سند سے نہیں جانتے، اور یہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، اور انہیں زنفل بن عبداللہ عرفی بھی کہتے ہیں، وہ عرفات میں رہتے تھے، وہ اس حدیث میں منفرد ہیں، یعنی یہ روایت صرف انہوں نے ہی بیان کی ہے (کسی اور نے نہیں) اور کسی نے بھی ان کی متابعت نہیں کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٦٣٨) (ضعیف) (سند میں ” زنفل “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1515) // ضعيف الجامع الصغير (4330) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3516

【148】

باب

بو مالک اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وضو آدھا ایمان ہے، اور «الحمد لله» (اللہ کی حمد) میزان کو ثواب سے بھر دے گا اور «سبحان الله» اور «الحمد لله» یہ دونوں بھر دیں گے آسمانوں اور زمین کے درمیان کی جگہ کو یا ان میں سے ہر ایک بھر دے گا آسمانوں اور زمین کے درمیان کی ساری خلا کو (اجر و ثواب سے) «صلاة» نور ہے، اور «صدقة» دلیل اور کسوٹی ہے (ایمان کی) اور «صبر» روشنی ہے اور «قرآن» تمہارے حق میں حجت و دلیل ہے یا اور تمہارے خلاف حجت ہے۔ ہر انسان صبح اٹھ کر اپنے نفس کو فروخت کرتا ہے چناچہ یا تو ( اللہ کے یہاں فروخت کر کے) اس کو (جہنم سے) آزاد کرا لیتا ہے، یا (شیطان کے ہاں فروخت کر کے) اس کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ١ (٢٢٣) (تحفة الأشراف : ١٢١٦٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎: علماء نے اس کے کئی معانی بیان کیے ہیں، سب بہتر قول بقول صاحب تحفہ الاحوذی ہے کہ یہاں ایمان سے مراد «صلاة» ہے جیسا کہ ارشاد باری «وما کان اللہ ليضيع إيمانکم» (البقرۃ : ١٤٣) میں «إيمان» سے مراد «صلاة» ہے، اور «صلاة» کے لیے وضو شرط ہے، (وضو میں طہارت کبریٰ بھی شامل ہے، اور بعض روایات میں «الطہور» کا لفظ بھی آیا ہے) ۔ ٢ ؎: صدقہ ایمان کی دلیل ہے، کیونکہ اللہ کے لیے صدقہ وہی کرتا ہے جس کو اللہ پر ایمان ہوتا ہے۔ ٣ ؎: یعنی اگر قرآن پر عمل کیا ہوگا تو قرآن فائدہ دے گا، ورنہ خلاف میں گواہی دے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (280) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3517

【149】

باب

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «تسبيح» (سبحان اللہ کہنے سے) نصف میزان (آدھا پلڑا) بھر جائے گا، اور «الحمد لله» میزان (پلڑے کے باقی خالی حصے) کو پورا بھر دے گا، اور «لا إله إلا الله» کے تو اللہ تک پہنچنے میں کوئی حجاب و رکاوٹ ہے ہی نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٨٦٣) (ضعیف) (سند میں ” اسماعیل بن عیاش “ غیر شامیوں سے روایت میں ضعیف ہیں، نیز ” عبد الرحمن بن زیاد بن انعم افریقی “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2313 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (2510) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3518

【150】

باب

بنی سلیم کے ایک شخص کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے ہاتھ کی انگلیوں یا اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر گن کر بتایا کہ «سبحان الله» نصف میزان رہے گا اور «الحمد لله» اس پورے پلڑے کو بھر دے گا اور «الله أكبر» آسمان و زمین کے درمیان کی ساری جگہوں کو بھر دے گا، روزہ آدھا ہے، اور پاکی نصف ایمان ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے اور اس حدیث کو شعبہ اور سفیان ثوری نے ابواسحاق سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٥٤١) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے، اور ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہوں اور خود ” جری النھدی “ لین الحدیث ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (296) ، التعليق الرغيب (2 / 246) // ضعيف الجامع الصغير (2509) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3519

【151】

باب

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وقوف عرفہ کے دوران عرفہ کی شام اکثر جو دعا مانگا کرتے تھے وہ یہ تھی : «اللهم لک الحمد کالذي نقول وخيرا مما نقول اللهم لک صلاتي ونسکي ومحياي ومماتي وإليك مآبي ولک رب تراثي اللهم إني أعوذ بک من عذاب القبر ووسوسة الصدر وشتات الأمر اللهم إني أعوذ بک من شر ما تجيء به الريح» اے اللہ ! تیرے لیے ہی ہیں سب تعریفیں جیسی کہ تو نے ہمیں بتائی ہیں اور اس سے بہتر جیسی کہ ہم تیری تعریف کرسکتے ہیں، اے اللہ ! تیرے لیے ہی ہے میری صلاۃ، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت، اور تیری ہی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے، اے میرے رب ! تیرے لیے ہی ہے میری میراث، اے اللہ میں عذاب قبر سے، سینے کے وسوسہ سے اور متفرق و پراگندہ کام سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ہر اس شر سے جسے ہوا لے کر آتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٠٨٤) (ضعیف) (سند میں ” قیس بن ربیع “ ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (2918) // ضعيف الجامع الصغير (1214) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3520

【152】

باب

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت ساری دعائیں کیں، مگر مجھے ان میں سے کوئی دعا یاد نہ رہی، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! دعائیں تو آپ نے بہت سی کیں مگر میں کوئی دعا یاد نہ رکھ سکا، آپ نے فرمایا : کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتادوں جو ان سب چیزوں (دعاؤں) کی جامع ہو، کہو :«اللهم إنا نسألک من خير ما سألک منه نبيك محمد صلی اللہ عليه وسلم ونعوذ بک من شر ما استعاذ منه نبيك محمد صلی اللہ عليه وسلم وأنت المستعان وعليك البلاغ ولا حول ولا قوة إلا بالله» اے اللہ ! ہم تجھ سے وہ بھلائی (خیر) مانگتے ہیں جو تجھ سے تیرے نبی محمد ﷺ نے مانگی ہے اور ہم تیری پناہ چاہتے ہیں اس شر (برائی) سے جس سے تیرے نبی محمد ﷺ نے پناہ مانگی ہے، تو ہی مددگار ہے، اور تیرے ہی اختیار میں ہے (خیر و شر کا) پہچانا، اور گناہ سے بچنے کی طاقت اور عبادت کرنے کی قوت اللہ کے سہارے کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٨٩٣) (ضعیف) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (3356) // ضعيف الجامع الصغير (2165) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3521

【153】

باب

شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے ام سلمہ (رض) سے پوچھا : ام المؤمنین ! جب رسول اللہ ﷺ کا قیام آپ کے یہاں ہوتا تو آپ کی زیادہ تر دعا کیا ہوتی تھی ؟ انہوں نے کہا : آپ زیادہ تر : «يا مقلب القلوب ثبت قلبي علی دينك» اے دلوں کے پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر جما دے ، پڑھتے تھے، خود میں نے بھی آپ سے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! آپ اکثر یہ دعا : «يا مقلب القلوب ثبت قلبي علی دينك» کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اے ام سلمہ ! کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جس کا دل اللہ کی انگلیوں میں سے اس کی دو انگلیوں کے درمیان نہ ہو، تو اللہ جسے چاہتا ہے (دین حق پر) قائم و ثابت قدم رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کا دل ٹیڑھا کردیتا ہے پھر (راوی حدیث) معاذ نے آیت : «ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هديتنا» اے ہمارے پروردگار ! ہمیں ہدایت دے دینے کے بعد ہمارے دلوں میں کجی (گمراہی) نہ پیدا کر (آل عمران : ٨) ، پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، نواس بن سمعان، انس، جابر، عبداللہ بن عمرو اور نعیم بن عمار (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٨١٦٤) ، و مسند احمد (٦/٣١٥) (صحیح) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح ظلال الجنة (223) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3522

【154】

باب

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ خالد بن ولید مخزومی (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے شکایت کرتے ہوئے کہا : اللہ کے رسول ! میں رات بھر نیند نہ آنے کی وجہ سے سو نہیں پاتا ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم اپنے بسترے پر سونے کے لیے جاؤ تو پڑھو : «اللهم رب السموات السبع وما أظلت ورب الأرضين وما أقلت ورب الشياطين وما أضلت کن لي جارا من شر خلقک کلهم جميعا أن يفرط علي أحد منهم أو أن يبغي عز جارک وجل ثناؤك ولا إله غيرک لا إله إلا أنت» اے اللہ ! ساتوں آسمانوں، اور جن پر وہ سایہ فگن ہیں ان سب کے رب ! ساری زمینوں اور ان ساری چیزوں کے رب جن کا وہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں اور اے شیاطین اور جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہے ان سب کے رب ! اپنی ساری مخلوق کے شر سے بچانے کے لیے میرا پڑوسی بن جا، تاکہ ان میں سے کوئی مجھ پر نہ ظلم و زیادتی کرسکے، اور نہ ہی بغاوت و سرکشی کا مرتکب ہو، تیرا پڑوسی باعزت ہو، اور تیری ثنا (و تعریف) بڑھ چڑھ کر ہو، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں معبود تو بس تو ہی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے، ٢- حکم بن ظہیر جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں، بعض محدثین ان کی بیان کردہ حدیث نہیں لیتے، ٣- یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے ایک دوسری سند سے مرسل طریقہ سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩٤٠) (ضعیف) (سند میں ” حکم بن ظہیر “ متروک الحدیث ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الکلم الطيب (47 / 33) ، المشکاة (2411) // ضعيف الجامع الصغير (408) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3523

【155】

باب

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو جب کوئی کام سخت تکلیف و پریشانی میں ڈال دیتا تو آپ یہ دعا پڑھتے : «يا حي يا قيوم برحمتک أستغيث» اے زندہ اور ہمیشہ رہنے والے ! تیری رحمت کے وسیلے سے تیری مدد چاہتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٧٧) (حسن) (سند میں یزید بن ابان الرقاشی ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، دیکھیے الکلم الطیب رقم ١١٨) قال الشيخ الألباني : حسن الکلم الطيب (118 / 76) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3524

【156】

باب

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : «يا ذا الجلال والإکرام» کو لازم پکڑو (یعنی : اپنی دعاؤں میں برابر پڑھتے رہا کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، محفوظ نہیں ہے، ٢- یہ حدیث حماد بن سلمہ نے حمید سے، انہوں نے حسن بصری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے (مرسلاً ) روایت کی ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ اور مومل سے اس میں غلطی ہوئی ہے، چناچہ انہوں نے «عن حميد عن أنس» دیا، جبکہ اس میں ان کا کوئی متابع نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٢٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1536) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3525

【157】

باب

ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص اپنے بستر پر پاک و صاف ہو کر سونے کے لیے جائے اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے اسے نیند آ جائے تو رات کے جس کسی لمحے میں بھی بیدار ہو کر وہ دنیا و آخرت کی جو کوئی بھی بھلائی، اللہ سے مانگے گا اللہ اسے وہ چیز ضروری عطا کرے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے ٢- یہ حدیث شہر بن حوشب سے بطریق : «أبي ظبية عن عمرو بن عبسة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٨٨٩) (ضعیف) (سند میں ” شہر بن حوشب “ ضعیف ہیں، تراجع الالبانی ١٤٣) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 207) ، المشکاة (1250) ، الکلم الطيب (43 / 29) ، التحقيق الثاني // ضعيف الجامع الصغير (5496) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3526

【158】

باب

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو دعا مانگتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا : «اللهم إني أسألک تمام النعمة» اے اللہ ! میں تجھ سے نعمت تامہ مانگ رہا ہوں ، آپ نے اس شخص سے پوچھا : نعمت تامہ کیا چیز ہے ؟ اس شخص نے کہا : میں نے ایک دعا مانگی ہے اور مجھے امید ہے کہ مجھے اس سے خیر حاصل ہوگی، آپ نے فرمایا : بیشک نعمت تامہ میں جنت کا دخول اور جہنم سے نجات دونوں آتے ہیں ۔ آپ نے ایک اور آدمی کو (بھی) دعا مانگتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہا تھا : «يا ذا الجلال والإکرام» ، آپ نے فرمایا : تیری دعا قبول ہوئی تو مانگ لے (جو تجھے مانگنا ہو) ، آپ نے ایک شخص کو سنا وہ کہہ رہا تھا، «اللهم إني أسألک الصبر» اے اللہ ! میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں ، آپ نے فرمایا : تو نے اللہ سے بلا مانگی ہے اس لیے تو عافیت بھی مانگ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٣٥٨) ، و مسند احمد (٥/٢٣٥) (ضعیف) (سند میں ” ابوالورد “ لین الحدیث راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4520) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3527 اس سند سے بھی اسماعیل بن ابراہیم نے جریری سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث روایت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4520) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3527

【159】

باب

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نیند میں ڈر جائے تو (یہ دعا) پڑھے :«أعوذ بکلمات اللہ التامات من غضبه وعقابه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون» میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کامل و جامع کلموں کے ذریعہ اللہ کے غضب، اللہ کے عذاب اور اللہ کے بندوں کے شر و فساد اور شیاطین کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ وہ ہمارے پاس آئیں ۔ (یہ دعا پڑھنے سے) یہ پریشان کن خواب اسے کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ (تاکہ وہ اسے یاد کرلیں، نہ کہ تعویذ کے طور پر) عبداللہ بن عمر (رض) اپنے بالغ بچوں کو یہ دعا سکھا دیتے تھے، اور جو بچے نابالغ ہوتے تھے ان کے لیے یہ دعا کاغذ پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطب ١٩ (٣٨٩٣) (تحفة الأشراف : ٨٧٨١) (حسن) (عبداللہ بن عمرو کا اثر ثابت نہیں ہے، الکلم الطیب) وضاحت : ١ ؎ : اس کے لیے دیکھئیے ترمذی : کتاب الطب حدیث رقم : ٢٠٧٢ کا حاشیہ۔ قال الشيخ الألباني : حسن دون قوله فکان عبد اللہ 0000 الکلم الطيب (48 / 35) ، صحيح أبي داود (3294 / 3893) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3528

【160】

باب

ابوراشد حبرانی کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کے پاس آیا اور ان سے کہا : آپ نے رسول اللہ ﷺ سے جو حدیثیں سن رکھی ہیں ان میں سے کوئی حدیث ہمیں سنائیے، تو انہوں نے ایک لکھا ہوا ورق ہمارے آگے بڑھا دیا، اور کہا : یہ وہ کاغذ ہے جسے رسول اللہ نے ہمیں لکھ کردیا ہے ١ ؎، جب میں نے اسے دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ ابوبکر صدیق (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے کوئی ایسی دعا بتا دیجئیے جسے میں صبح اور شام میں پڑھا کروں، آپ نے فرمایا : ابوبکر ! (یہ دعا) پڑھا کرو : «اللهم فاطر السموات والأرض عالم الغيب والشهادة لا إله إلا أنت رب کل شيء ومليكه أعوذ بک من شر نفسي ومن شر الشيطان وشرکه وأن أقترف علی نفسي سوءا أو أجره إلى مسلم» اے اللہ ! آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے، کھلی ہوئی اور پوشیدہ چیزوں کے جاننے والے، کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے تیرے، تو ہر چیز کا رب (پالنے والا) اور اس کا بادشاہ ہے، اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے نفس کے شر سے، شیطان کے شر اور اس کے جال اور پھندوں سے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں اپنے آپ کے خلاف کوئی گناہ کر بیٹھوں، یا اس گناہ میں کسی مسلمان کو ملوث کر دوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٩٥٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس صحیح الإسناد و المتن حدیث سے بھی نہایت واضح معلوم ہو رہا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ و طاہرہ میں آپ کی احادیث مبارکہ کو صحابہ کرام (رض) اجمعین لکھ لیا کرتے تھے اور اس عظیم المرتبت عمل کے لیے راوی حدیث عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بہت معروف تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الکلم الطيب (22 / 9) ، الصحيحة (2763) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3529

【161】

باب

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بےحیائی کی چیزیں حرام کردی ہیں چاہے وہ کھلے طور پر ہوں یا پوشیدہ طور پر، اور کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے اللہ سے زیادہ مدح (تعریف) پسند ہو، اسی لیے اللہ نے اپنی ذات کی تعریف خود آپ کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الأنعام ٧ (٤٦٣٤) ، وسورة الأعراف ١ (٤٦٣٧) ، والنکاح ١٠٧ (٥٢٢٠) ، والتوحید ١٥ (٧٤٠٣) ، صحیح مسلم/التوبة ٦ (٢٧٦٠) (تحفة الأشراف : ٩٢٨٧) ، و مسند احمد (١/٣٨، ٤٢٦، ٤٣٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3530

【162】

باب

ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : آپ مجھے کوئی ایسی دعا بتا دیجئیے جسے میں اپنی نماز میں مانگا کروں ١ ؎، آپ نے فرمایا : کہو : «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما کثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندک وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» اے اللہ ! میں نے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے، جب کہ گناہوں کو تیرے سوا کوئی اور بخش نہیں سکتا، اس لیے تو مجھے اپنی عنایت خاص سے بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، تو ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، اور یہ لیث بن سعد کی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤٩ (٨٣٤) ، والدعوات ١٧ (٦٣٢٦) ، والتوحید ٩ (٧٣٨٨) ، صحیح مسلم/الدعاء والذکر ١٣ (٢٧٠٥) ، سنن النسائی/السھو ٥٩ (١٣٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٢ (٣٨٣٥) (تحفة الأشراف : ٦٦٠٦) ، و مسند احمد (١/٤، ٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : نماز میں سے مراد ہے آخری رکعت میں سلام سے پہلے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3835) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3531

【163】

None

عباس رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو ان انہوں نے کوئی بات سنی ( جس کی انہوں نے آپ کو خبر دی ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھ گئے، اور پوچھا: ”میں کون ہوں؟“ لوگوں نے کہا: آپ اللہ کے رسول! آپ پر اللہ کی سلامتی نازل ہو، آپ نے فرمایا: ”میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں، اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے سب سے بہتر گروہ میں پیدا کیا، پھر اس گروہ میں بھی دو گروہ بنا دیئے اور مجھے ان دونوں گروہوں میں سے بہتر گروہ میں رکھا، پھر ان میں مختلف قبیلے بنا دیئے، تو مجھے سب سے بہتر قبیلے میں رکھا، پھر انہیں گھروں میں بانٹ دیا تو مجھے اچھے نسب والے بہترین خاندان اور گھر میں پیدا کیا“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

【164】

باب

انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک ایسے درخت کے پاس سے گزرے جس کی پتیاں سوکھ گئی تھیں، آپ نے اس پر اپنی چھڑی ماری تو پتیاں جھڑ پڑیں، آپ نے فرمایا : «الحمد لله و سبحان اللہ ولا إله إلا اللہ والله أكبر» کہنے سے بندے کے گناہ ایسے ہی جھڑ جاتے ہیں جیسے اس درخت کی پتیاں جھڑ گئیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- اعمش کا انس سے سماع ہم نہیں جانتے، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ انہوں نے انس کو دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وأعادہ في المناقب ١ (٣٦٠٨) (تحفة الأشراف : ١١٢٨٦) (ضعیف) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (2 / 249) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3533

【165】

باب

عمارہ بن شبیب سبائی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے مغرب کے بعد دس بار کہا : «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو علی كل شيء قدير» اللہ اس کی صبح تک حفاظت کے لیے مسلح فرشتے بھیجے گا جو اس کی شیطان سے حفاظت کریں گے اور اس کے لیے ان کے عوض دس نیکیاں لکھی جائیں گی جو اسے اجر و ثواب کا مستحق بنائیں گی اور اس کی مہلک برائیاں اور گناہ مٹا دیں گی اور اسے دس مسلمان غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اسے صرف لیث بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- اور ہم عمارہ کا نبی اکرم ﷺ سے سماع نہیں جانتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٨٨ (٥٧٧/٢) (تحفة الأشراف : ١٠٣٨٠) (حسن) (تراجع الألبانی ٤٦٠) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح الترغيب والترهيب (1 / 160 / 472) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3534

【166】

توبہ اور استغفار اور اللہ کی اپنے بندوں پر رحمت

زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال مرادی (رض) کے پاس موزوں پر مسح کا مسئلہ پوچھنے آیا، انہوں نے (مجھ سے) پوچھا اے زر کون سا جذبہ تمہیں لے کر یہاں آیا ہے، میں نے کہا : علم کی تلاش و طلب مجھے یہاں لے کر آئی ہے، انہوں نے کہا : فرشتے علم کی طلب و تلاش سے خوش ہو کر طالب علم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں، میں نے ان سے کہا : پیشاب پاخانے سے فراغت کے بعد موزوں پر مسح کی بات میرے دل میں کھٹکی (کہ مسح کریں یا نہ کریں) میں خود بھی صحابی رسول ہوں، میں آپ سے یہ پوچھنے آیا ہوں کہ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو اس سلسلے میں کوئی بات بیان کرتے ہوئے سنی ہے ؟ کہا : جی ہاں (سنی ہے) جب ہم سفر پر ہوتے یا سفر کرنے والے ہوتے تو آپ ﷺ ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم سفر کے دوران تین دن و رات اپنے موزے نہ نکالیں، مگر غسل جنابت کے لیے، پاخانہ پیشاب کر کے اور سو کر اٹھنے پر موزے نہ نکالیں ، (پہنے رہیں، مسح کا وقت آئے ان پر مسح کرلیں) میں نے ان سے پوچھا : کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے انسان کی خواہش و تمنا کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کر رہے تھے، اس دوران کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے ایک اعرابی نے آپ کو یا محمد ! کہہ کر بلند آواز سے پکارا، رسول اللہ ﷺ نے اسے اسی کی آواز میں جواب دیا، آ جاؤ (میں یہاں ہوں) ہم نے اس سے کہا : تمہارا ناس ہو، اپنی آواز دھیمی کرلو، کیونکہ تم نبی اکرم ﷺ کے پاس ہو، اور تمہیں اس سے منع کیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس بلند آواز سے بولا جائے، اعرابی نے کہا : (نہ) قسم اللہ کی میں اپنی آواز پست نہیں کروں گا، اس نے «المرء يحب القوم ولما يلحق بهم» ١ ؎ کہہ کر آپ سے اپنی انتہائی محبت و تعلق کا اظہار کیا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : «المرء مع من أحب يوم القيامة» جو شخص جس شخص سے زیادہ محبت کرتا ہے قیامت کے دن وہ اسی کے ساتھ رہے گا ۔ وہ ہم سے (یعنی زر کہتے ہیں ہم سے صفوان بن عسال) حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے پچھمی سمت (مغرب کی طرف) میں ایک ایسے دروازے کا ذکر کیا جس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے (راوی کو شک ہوگیا ہے یہ کہا یا یہ کہا) کہ دروازے کی چوڑائی اتنی ہوگی ؛ سوار اس میں چلے گا تو چالیس سال یا ستر سال میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچے گا، سفیان (راوی) کہتے ہیں : یہ دروازہ شام کی جانب پڑے گا، جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے تبھی اللہ نے یہ دروازہ بھی بنایا ہے اور یہ دروازہ توبہ کرنے والوں کے لیے کھلا ہوا ہے اور (توبہ کا یہ دروازہ) اس وقت تک بند نہ ہوگا جب تک کہ سورج اس دروازہ کی طرف سے (یعنی پچھم سے) طلوع نہ ہونے لگے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٩٦ (حسن) وضاحت : ١ ؎ : آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن وہ ان کے درجے تک نہیں پہنچ پاتا۔ قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (4 / 73) ، وتقدم بعضه برقم (96) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3535

【167】

توبہ اور استغفار اور اللہ کی اپنے بندوں پر رحمت

زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال مرادی (رض) کے پاس آیا، انہوں نے پوچھا : تمہیں کیا چیز یہاں لے کر آئی ہے ؟ میں نے کہا : علم حاصل کرنے آیا ہوں، انہوں نے کہا : مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ فرشتے طالب علم کے کام (و مقصد ) سے خوش ہو کر طالب علم کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : میں نے کہا : میرے جی میں یہ خیال گزرا یا میرے دل میں موزوں پر مسح کے بارے میں کچھ بات کھٹکی، تو کیا اس بارے میں آپ کو رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات یاد ہے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں، ہم جب سفر میں ہوں (یا سفر کرنے والے ہوں) تو ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم تین دن تک اپنے موزے پیروں سے نہ نکالیں، سوائے جنابت کی صورت میں، پاخانہ کر کے آئے ہوں یا پیشاب کر کے، یا سو کر اٹھے ہوں تو موزے نہ نکالیں ۔ پھر میں نے ان سے پوچھا : کیا آپ کو محبت و چاہت کے سلسلے میں بھی رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات یا د ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی سفر میں تھے تو آپ کو ایک آدمی نے جو لوگوں میں سب سے پیچھے چل رہا تھا اور گنوار، بیوقوف اور سخت مزاج تھا، بلند آواز سے پکارا، کہا : یا محمد ! یا محمد ! لوگوں نے اس سے کہا : ٹھہر، ٹھہر، اس طرح پکارنے سے تمہیں روکا گیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے اسے اسی کی طرح بھاری اور بلند آواز میں جواب دیا : بڑھ آ، بڑھ آ، آ جا آ جا (وہ جب قریب آگیا) تو بولا : آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان کے درجے تک نہیں پہنچا ہوتا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو انسان جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا ۔ زر کہتے ہیں : وہ مجھ سے حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ اللہ نے مغرب میں توبہ کا ایک دروازہ بنایا ہے جس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت ہے، وہ بند نہ کیا جائے گا یہاں تک کہ سورج ادھر سے نکلنے لگے (یعنی قیامت تک) اور اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے :«يوم يأتي بعض آيات ربک لا ينفع نفسا إيمانها» جس دن کہ تیرے رب کی بعض آیات کا ظہور ہوگا اس وقت کسی شخص کو اس کا ایمان کام نہ دے گا (الأنعام : ١٥٨) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد انظر ما قبله (3535) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3536

【168】

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ (موت کے وقت) اس کے گلے سے خر خر کی آواز نہ آنے لگے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٠ (٤٢٥٣) (تحفة الأشراف : ٦٦٧٤) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : روح جسم سے نکلنے کے لیے اس کے گلے تک پہنچ نہ جائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4253) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3537 ابوعامر عقدی نے عبدالرحمٰن سے اسی سند کے ساتھ، اسی طرح کی حدیث روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4253) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3537

【169】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا کہ کوئی شخص اپنی کھوئی ہوئی چیز (خاص طور سے گمشدہ سواری کی اونٹنی پا کر خوش ہوتا ہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، یعنی ابوالزناد کی روایت سے، ٢- یہ حدیث مکحول سے بھی ان کی اپنی سند سے آئی ہے، انہوں نے ابوذر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے، ٣- اس باب میں ابن مسعود، نعمان بن بشیر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/التوبة ١ (٢٦٧٥/٢) (تحفة الأشراف : ١٣٨٨٠) ، و مسند احمد (٢/٣١٦، ٥٠٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ بندوں کے ساتھ اللہ کے کمال رحمت کی دلیل ہے ، اسی کمال رحمت کے سبب اللہ بندوں کی گمراہی ، یا نافرمانی کی روش سے ازحد ناخوش ہوتا ہے ، اور توبہ کرلینے پر ازحد خوش ہوتا ہے کہ اب بندہ میری رحمت کا مستحق ہوگیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4247) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3538

【170】

ابوایوب (رض) سے روایت ہے کہ جب ان کی موت کا وقت قریب آگیا تو انہوں نے کہا : میں نے تم لوگوں سے ایک بات چھپا رکھی ہے، (میں اسے اس وقت ظاہر کردینا چاہتا ہوں) میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ ایک ایسی مخلوق پیدا کر دے جو گناہ کرتی پھر اللہ انہیں بخشتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- یہ حدیث محمد بن کعب سے آئی ہے اور انہوں نے اسے ابوایوب کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/التوبة ٢ (٢٧٤٨) (تحفة الأشراف : ٣٥٠٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صحیح مسلم کی روایت میں ہے «فیستغفرون فیغفرلہم» یعنی وہ گناہ کریں پھر توبہ و استغفار کریں تو اللہ انہیں بخش دیتا ہے ، اس سے استغفار اور توبہ کی فضیلت بتانی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (967 - 970 و 1963) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3539 محمد بن کعب قرظی سے اور محمد نے ابوایوب کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ٣٤٨٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (967 - 970 و 1963) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3539

【171】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ کہتا ہے : اے آدم کے بیٹے ! جب تک تو مجھ سے دعائیں کرتا رہے گا اور مجھ سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا، چاہے تیرے گناہ کسی بھی درجے پر پہنچے ہوئے ہوں، مجھے کسی بات کی پرواہ و ڈر نہیں ہے، اے آدم کے بیٹے ! اگر تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگیں پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرنے لگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کسی بات کی پرواہ نہ ہوگی۔ اے آدم کے بیٹے ! اگر تو زمین برابر بھی گناہ کر بیٹھے اور پھر مجھ سے (مغفرت طلب کرنے کے لیے) ملے لیکن میرے ساتھ کسی طرح کا شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس اس کے برابر مغفرت لے کر آؤں گا (اور تجھے بخش دوں گا) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٥٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے مشرک کی بےانتہا خطرناکی اور توبہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (127 - 128) ، الروض النضير (432) ، المشکاة (4336 / التحقيق الثاني) ، التعليق الرغيب صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3540

【172】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کیں اور ایک رحمت اپنی مخلوق کے درمیان دنیا میں رکھی، جس کی بدولت وہ دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و شفقت سے پیش آتے ہیں، جب کہ اللہ کے پاس ننانوے ( ٩٩) رحمتیں ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سلمان اور جندب بن عبداللہ بن سفیان بجلی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٩ (٦٤٦٩) ، صحیح مسلم/التوبة ٤ (٢٧٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٥ (٤٢٩٣) (تحفة الأشراف : ١٤٠٧٧) ، مسند احمد (٢/٤٣٣، ٥١٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس ( ٩٩) رحمت کا مظاہرہ اللہ تعالیٰ بندوں کے ساتھ قیامت کے دن کرے گا ، اس سے بندوں کے ساتھ اللہ کی رحمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ، لیکن یہ رحمت بھی مشروط ہے شرک نہ ہونے اور توبہ استغفار کے ساتھ ، ویسے بغیر توبہ کے بھی اللہ اپنی رحمت کا مظاہرہ کرسکتا ہے ، «ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء» مگر مشرک کے ساتھ بغیر توبہ کے رحمت کا کوئی معاملہ نہیں «إن لایغفر أن یشرک بہ»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4293 و 4294) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3541

【173】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر مومن کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کے یہاں کیسی کیسی سزائیں ہیں تو جنت کی کوئی امید نہ رکھے، اور اگر کافر یہ جان لے کہ اللہ کی رحمت کتنی وسیع و عظیم ہے تو جنت میں پہنچنے سے کوئی بھی ناامید و مایوس نہ ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- ہم اسے صرف ابو العلاء کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ اپنے والد اور ان کے والد ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٩ (٦٤٦٩) ، صحیح مسلم/التوبة ٤ (٢٧٥٥) (تحفة الأشراف : ١٤٠٧٩) ، و مسند احمد (٢/٣٣٤، ٣٩٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ان سزاؤں کے تعین میں اللہ نے کسی پر ظلم سے کام نہیں لیا ہے ، یہ بالکل انصاف کے مطابق ہیں ، اللہ بندوں کے لیے ظالم بالکل نہیں ، رہی جنت کی رحمت کی بات تو وہ تو سو میں سے ننانوے کا معاملہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1634) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3542

【174】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے اپنے آپ سے اپنی ذات پر لکھ دیا (یعنی اپنے آپ پر فرض کرلیا) کہ میری رحمت میرے غضب (غصہ) پر غالب رہے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١ (٣١٩٤) ، والتوحید ١٥ (٧٤٠٤) ، و ٢٧ (٧٤٥٣) ، و ٥٤ (٧٥٥٣، ٧٥٥٤) ، صحیح مسلم/التوبة ٤ (٢٧٥١) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٨٩) ، والزہد ٣٥ (٤٢٩٥) (تحفة الأشراف : ١٤١٣٩) ، و مسند احمد (٢/٢٤٢، ٢٥٨، ٢٦٠، ٣١٣، ٣٥٨، ٣٨١، ٣٩٧) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (189) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3543

【175】

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مسجد میں آئے، ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا اور دعا مانگتے ہوئے وہ اپنی دعا میں کہہ رہا تھا : «اللهم لا إله إلا أنت المنان بديع السموات والأرض ذا الجلال والإکرام» اے اللہ ! تیرے سوا کوئی اور معبود برحق نہیں ہے، تو ہی احسان کرنے والا ہے تو ہی آسمانوں اور زمین کا بنانے و پیدا کرنے والا ہے، اے بڑائی والے اور کرم کرنے والے (میری دعا قبول فرما) ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو اس نے کس چیز سے دعا کی ہے ؟ اس نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے ذریعہ دعا کی ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ دعا کی جائے گی اللہ اسے قبول کرلے گا، اور جب بھی اس کے ذریعہ کوئی چیز مانگی جائے گی اسے عطا فرما دے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی انس سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٨ (١٤٩٥) ، سنن النسائی/السھو ٥٨ (١٣٠١) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٩ (٣٨٥٨) (تحفة الأشراف : ٤٠٠، ٩٣٦) ، و مسند احمد (٣/١٢٠، ١٥٨، ٢٤٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3858) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3544

【176】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ شخص مجھ پر درود نہ بھیجے، اور اس شخص کی بھی ناک خاک آلود ہو جس کی زندگی میں رمضان کا مہینہ آیا اور اس کی مغفرت ہوئے بغیر وہ مہینہ گزر گیا، اور اس شخص کی بھی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے میں پایا ہو اور وہ دونوں اسے ان کے ساتھ حسن سلوک نہ کرنے کی وجہ سے جنت کا مستحق نہ بنا سکے ہوں ، عبدالرحمٰن (راوی) کہتے ہیں : میرا خیال یہ ہے کہ آپ نے دونوں ماں باپ کہا۔ یا یہ کہا کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی بڑھاپے میں پایا (اور ان کی خدمت کر کے اپنی مغفرت نہ کر الی ہو) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- ربعی بن ابراہیم اسماعیل بن ابراہیم کے بھائی ہیں اور یہ ثقہ ہیں اور یہ ابن علیہ ١ ؎ ہیں، ٣- اس باب میں جابر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- بعض اہل علم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں : جب مجلس میں آدمی ایک بار رسول اللہ ﷺ کو درود بھیج دے تو اس مجلس میں چاہے جتنی بار آپ کا نام آئے ایک بار درود بھیج دینا ہر بار کے لیے کافی ہوگا (یعنی ہر بار درود بھیجنا ضروری نہ ہوگا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف والجملة الأخیرة عند مسلم في البر والصلة ٣ (٢٥٥١) (تحفة الأشراف : ١٢٩٧٧) ، و مسند احمد (٢/٢٥٤) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کی ماں کا نام علیہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (927) ، التعليق الرغيب (2 / 283) ، فضل الصلاة علی النبي صلی اللہ عليه وسلم (16) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3545

【177】

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور پھر بھی وہ مجھ پر صلاۃ (درود) نہ بھیجے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٣٤١٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (933) ، فضل الصلاة (14 / 31 - 39) ، التعليق الرغيب (2 / 284) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3546

【178】

عبداللہ بن ابی اوفی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا کرتے تھے : «اللهم برد قلبي بالثلج والبرد والماء البارد اللهم نق قلبي من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس» اے اللہ ! تو میرے دل کو ٹھنڈا کر دے برف اور اولے سے اور ٹھنڈے پانی سے اور میرے دل کو خطاؤں سے پاک و صاف کر دے جیسا کہ تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے پاک و صاف کیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥١٧٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3547

【179】

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جس کسی کے لیے دعا کا دروازہ کھولا گیا تو اس کے لیے (گویا) رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے، اور اللہ سے مانگی جانے والی چیزوں میں سے جسے وہ دے اس سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں کہ اس سے عافیت مانگی جائے ، تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٥١٥ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : (حديث : من فتح له منکم باب ... ) ضعيف، (حديث : إن الدعاء ينفع مما .. ) حسن (حديث : إن الدعاء ينفع مما ... ) ، المشکاة (2239) ، التعليق الرغيب (2 / 272) ، (حديث : من فتح له منکم باب ... ) ، المشکاة (2239) ، التعليق الرغيب (2 / 272) // ضعيف الجامع الصغير (5720) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3548 اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دعا نازل شدہ مصیبت، اور جو ابھی نہیں نازل ہوئی ہے اس سے بچنے کا فائدہ دیتی ہے، تو اے اللہ کے بندو ! تم اللہ سے برابر دعا کرتے رہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن ابوبکر قرشی کی روایت سے جانتے ہیں، یہ ملی کی ہیں اور یہ حدیث میں ضعیف مانتے جاتے ہیں، انہیں بعض اہل علم نے حافظہ کے اعتبار سے ضعیف ٹھہرایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : (حسن) (صحیح الترغیب) قال الشيخ الألباني : (حديث : من فتح له منکم باب ... ) ضعيف، (حديث : إن الدعاء ينفع مما .. ) حسن (حديث : إن الدعاء ينفع مما ... ) ، المشکاة (2239) ، التعليق الرغيب (2 / 272) ، (حديث : من فتح له منکم باب ... ) ، المشکاة (2239) ، التعليق الرغيب (2 / 272) // ضعيف الجامع الصغير (5720) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3548 یہ حدیث اسرائیل نے بھی عبدالرحمٰن بن ابوبکر سے روایت کی ہے اور عبدالرحمٰن نے موسیٰ بن عقبہ سے، موسیٰ نے نافع سے، اور نافع نے ابن عمر (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے، آپ نے فرمایا : اللہ سے جو چیزیں بھی مانگی جاتی ہیں ان میں اللہ کو عافیت سے زیادہ محبوب کوئی چیز بھی نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) (تلخیص المستدرک ١/٤٩٨) قال الشيخ الألباني : (حديث : من فتح له منکم باب ... ) ضعيف، (حديث : إن الدعاء ينفع مما .. ) حسن (حديث : إن الدعاء ينفع مما ... ) ، المشکاة (2239) ، التعليق الرغيب (2 / 272) ، (حديث : من فتح له منکم باب ... ) ، المشکاة (2239) ، التعليق الرغيب (2 / 272) // ضعيف الجامع الصغير (5720) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3548

【180】

None

عبدالرحمٰن بن ابوبکر سے روایت کی ہے اور عبدالرحمٰن نے موسیٰ بن عقبہ سے، موسیٰ نے نافع سے، اور نافع نے ابن عمر رضی الله عنہما کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ نے فرمایا: ”اللہ سے جو چیزیں بھی مانگی جاتی ہیں ان میں اللہ کو عافیت سے زیادہ محبوب کوئی چیز بھی نہیں ہے“۔

【181】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہماری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر (سال) کے درمیان ہیں اور تھوڑے ہی لوگ ایسے ہوں گے جو اس حد کو پار کریں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے یعنی محمد بن عمرو کی روایت سے جسے وہ ابی سلمہ سے اور ابوسلمہ ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، ٢- ہم (ابوسلمہ کی) اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٣- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے آئی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٧ (٤٢٣٦) ، وانظر حدیث رقم ٢٣٣١ (تحفة الأشراف : ١٥٠٣٧) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : دیکھئیے : کتاب الزہد ، «باب ما جاء في فناء أعماء ہذہ الأمۃ» (رقم ٢٣٣١) وہاں یہ حدیث بطریق : «أبی صالح ، عن أبی ہریرۃ» آئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن وقد مضی بنحوه برقم (2447) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3550

【182】

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا مانگتے ہوئے یہ کہتے تھے : «رب أعني ولا تعن علي وانصرني ولا تنصر علي وامکر لي ولا تمکر علي واهدني ويسر الهدى لي وانصرني علی من بغی علي رب اجعلني لک شکارا لک ذکارا لک رهابا لک مطواعا لک مخبتا إليك أواها منيبا رب تقبل توبتي واغسل حوبتي وأجب دعوتي وثبت حجتي وسدد لساني واهد قلبي واسلل سخيمة صدري» اے میرے رب ! میری مدد کر، میرے خلاف کسی کی مدد نہ کر، اے اللہ ! تو میری تائید و نصرت فرما اور میرے خلاف کسی کی تائید و نصرت نہ فرما، اور میرے لیے تدبیر فرما اور میرے خلاف کسی کے لیے تدبیر نہ فرما، اور اے اللہ ! تو مجھے ہدایت بخش اور ہدایت کو میرے لیے آسان فرما، اور اے اللہ ! میری مدد فرما اس شخص کے مقابل میں جو میرے خلاف بغاوت و سرکشی کرے، اے میرے رب ! تو مجھے اپنا بہت زیادہ شکر گزار بندہ بنا لے، اپنا بہت زیادہ یاد و ذکر کرنے والا بنا لے، اپنے سے بہت ڈرنے والا بنا دے، اپنی بہت زیادہ اطاعت کرنے والا بنا دے، اور اپنے سامنے عاجزی و فروتنی کرنے والا بنا دے، اور اپنے سے درد و اندوہ بیان کرنے اور اپنی طرف رجوع کرنے والا بنا دے۔ اے میرے رب ! میری توبہ قبول فرما اور میرے گناہ دھو دے، اور میری دعا قبول فرما، اور میری حجت (میری دلیل) کو ثابت و ٹھوس بنا دے، اور میری زبان کو ٹھیک بات کہنے والی بنا دے، میرے دل کو ہدایت فرما، اور میرے سینے سے کھوٹ کینہ حسد نکال دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦٠ (١٥١٠) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٢ (٣٨٣١) (تحفة الأشراف : ٥٧٦٥) ، و مسند احمد (١/٢٢٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3830) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3551 محمود بن غیلان کہتے ہیں کہ ہم سے محمد بن بشر عبدی نے یہ حدیث سفیان کے واسطہ سے اسی طرح بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3830) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3551

【183】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنے اوپر ظلم کرنے والے کے خلاف بد دعا کی تو اس نے اس سے بدلہ لے لیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے حمزہ کی روایت سے جانتے ہیں اور حمزہ کے بارے میں بعض اہل علم نے ان کے حافظہ کے تعلق سے کلام کیا ہے، اور یہ میمون الاعور ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٠٠٣) (ضعیف) (سند میں ” میمون ابو حمزہ “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4593) // ضعيف الجامع الصغير (5578) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3552 حمید بن عبدالرحمٰن نے ابولاحوص کے واسطہ سے ابوحمزہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4593) // ضعيف الجامع الصغير (5578) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3552

【184】

ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے دس بار : «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو علی كل شيء قدير» اللہ واحد کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں اسی کے لیے ہے ملک (بادشاہت) اسی کے لیے ہے ساری تعریفیں، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی مارتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ، کہا تو یہ (اس کا اجر) اولاد اسماعیل میں سے چار غلام آزاد کرنے کے برابر ہوگا ١ ؎۔ یہ حدیث ابوایوب (رض) سے موقوفاً بھی روایت ہوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٦٤ (٦٤٠٤) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٠ (٢٦٩٣) (تحفة الأشراف : ٣٤٧١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اسے اونچے حسب و نسب والے چار غلام آزاد کرنے کے ثواب برابر اجر عطا ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الضعيفة تحت الحديث (5126) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3553

【185】

کنانہ مولی صفیہ کہتے ہیں کہ میں نے صفیہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا : میرے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، اس وقت میرے سامنے کھجور کی چار ہزار گٹھلیوں کی ڈھیر تھی، میں ان گٹھلیوں کے ذریعہ تسبیح پڑھا کرتی تھی، میں نے کہا : میں نے ان کے ذریعہ تسبیح پڑھی ہے، آپ نے فرمایا : کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ میں تمہیں اس سے زیادہ تسبیح کا طریقہ بتادوں جتنی تو نے پڑھی ہیں ؟ میں نے کہا : (ضرور) مجھے بتائیے، تو آپ نے فرمایا : «سبحان اللہ عدد خلقه» میں تیری مخلوقات کی تعداد کے برابر تیری تسبیح بیان کرتی ہوں ، پڑھ لیا کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے صفیہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں یعنی ہاشم بن سعید کوفی کی روایت سے اور اس کی سند معروف نہیں ہے، ٣- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٩٠٤) (منکر) (سند میں ” ہاشم بن سعید کوفی “ ضعیف ہیں، اس بابت صحیح حدیث اگلی حدیث ہے) قال الشيخ الألباني : منکر الرد علی التعقيب الحثيث (35 - 38) // ضعيف الجامع الصغير (2167 و 4122) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3554

【186】

ام المؤمنین جویریہ بنت حارث سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرے اور وہ (اس وقت) اپنی مسجد میں تھیں (جہاں وہ باقاعدہ گھر میں نماز پڑھتی تھیں) ، دوپہر میں رسول اللہ ﷺ کا ان کے پاس سے پھر گزر ہوا، رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا : تب سے تم اسی حال میں ہو ؟ (یعنی اسی وقت سے اس وقت تک تم ذکرو تسبیح ہی میں بیٹھی ہو) انہوں نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : کیا میں تمہیں چند کلمے ایسے نہ سکھا دوں جنہیں تم کہہ لیا کرو۔ (اور پھر پورا ثواب پاؤ) وہ کلمے یہ ہیں : «سبحان اللہ عدد خلقه، سبحان اللہ عدد خلقه، سبحان اللہ عدد خلقه، سبحان اللہ رضا نفسه، سبحان اللہ رضا نفسه، سبحان اللہ رضا نفسه، سبحان اللہ زنة عرشه، سبحان اللہ زنة عرشه، سبحان اللہ زنة عرشه، سبحان اللہ مداد کلماته، سبحان اللہ مداد کلماته، سبحان اللہ مداد کلماته» ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- محمد بن عبدالرحمٰن آل طلحہ کے آزاد کردہ غلام ہیں، وہ مدینہ کے رہنے والے شیخ ہیں اور ثقہ ہیں، یہ حدیث مسعودی اور ثوری نے بھی ان سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٩ (٢٧٢٦) ، سنن النسائی/السھو ٩٤ (١٣٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٦ (٣٨٠٨) (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٨) ، و مسند احمد (٦/٣٢٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہو اللہ کی مخلوق کی تعداد کے برابر ( تین بار ) میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں اس کی رضا و خوشنودی کے برابر ( تین بار ) ، میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں اللہ کے عرش کے وزن کے برابر ( تین بار ) ، میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں اللہ کے کلموں کی سیاہی کے برابر ( تین بار ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3808) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3555

【187】

سلمان فارسی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ «حيي كريم» ہے یعنی زندہ و موجود ہے اور شریف ہے اسے اس بات سے شرم آتی ہے کہ جب کوئی آدمی اس کے سامنے ہاتھ پھیلا دے تو وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو خالی اور ناکام و نامراد واپس کر دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، بعض دوسروں نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٨ (١٤٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٣ (٣٨٦٥) (تحفة الأشراف : ٤٤٩٤) ، و مسند احمد (٥/٤٨٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3865) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3555

【188】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص اپنی دو انگلیوں کے اشارے سے دعا کرتا تھا تو آپ نے اس سے کہا : ایک سے ایک سے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- یہی اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی تشہد میں انگلیوں سے اشارہ کرتے وقت صرف ایک انگلی سے اشارہ کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السھو ٣٧ (١٢٧٧٣) (تحفة الأشراف : ١٢٨٦٥) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جیسا کہ مؤلف نے خود تشریح کردی ہے کہ یہ تشہد ( اولیٰ اور ثانیہ ) میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کے بارے میں ہے ، تشہد کے شروع ہی سے ترپن کا حلقہ بنا کر شہادت کی انگلی کو باربار اٹھا کر توحید کی شہادت برابر دی جائے گی ، نہ کہ صرف «أشہد أن لا إلہ إلا اللہ» پر جیسا کہ ہند و پاک میں رائج ہوگیا ہے ، حدیث میں واضح طور پر صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ترپن کا حلقہ بناتے تھے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے ، یا حرکت دیتے رہتے تھے ، اس میں جگہ کی کوئی قید نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، صفة الصلاة، المشکاة (913) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3557

【189】

دعاؤں کے بارے میں مختلف احادیث

رفاعہ بن رافع انصاری (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق (رض) منبر پر چڑھے، اور روئے، پھر کہا : رسول اللہ ﷺ ہجرت کے پہلے سال منبر پر چڑھے، روئے، پھر کہا : اللہ سے (گناہوں سے) عفو و درگزر اور مصیبتوں اور گمراہیوں سے عافیت طلب کرو کیونکہ ایمان و یقین کے بعد کسی بندے کو عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں دی گئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے یعنی ابوبکر (رض) کی سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٥٩٣) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (3849) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3558

【190】

دعاؤں کے بارے میں مختلف احادیث

ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص گناہ کر کے توبہ کرلے اور اپنے گناہ پر نادم ہو تو وہ چاہے دن بھر میں ستر بار بھی گناہ کر ڈالے وہ گناہ پر مصر اور بضد نہیں مانا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف ابونصیرہ کی روایت سے جانتے ہیں ٣- اور اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦١ (١٥١٤) (تحفة الأشراف : ٦٦٢٨) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2340) ، ضعيف أبي داود (267) // (326 / 1514) ، ضعيف الجامع الصغير (5004) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3559

【191】

دعاؤں کے بارے میں مختلف احادیث

ابوامامہ الباہلی (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے نیا کپڑا پہنا پھر یہ دعا پڑھی «الحمد لله الذي کساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي» تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے ایسا کپڑا پہنایا جس سے میں اپنی ستر پوشی کرتا ہوں اور اپنی زندگی میں حسن و جمال پیدا کرتا ہوں ، پھر انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا : جس نے نیا کپڑا پہنا پھر یہ دعا پڑھی : «الحمد لله الذي کساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي» پھر اس نے اپنا پرانا (اتارا ہوا) کپڑا لیا اور اسے صدقہ میں دے دیا، تو وہ اللہ کی حفاظت و پناہ میں رہے گا زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ٢ (٣٥٥٧) (تحفة الأشراف : ١٠٤٦٧) (ضعیف) (سند میں ” ابوالعلاء الشامی “ مجہول راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3557) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (782) ، المشکاة (4374) ، ضعيف الجامع الصغير (5827) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3560 یحییٰ بن ابی ایوب نے یہ حدیث عبیداللہ بن زحر سے، عبیداللہ بن زحر نے علی بن یزید سے اور علی بن یزید نے قاسم کے واسطہ سے ابوامامہ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3557) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (782) ، المشکاة (4374) ، ضعيف الجامع الصغير (5827) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3560

【192】

دعاؤں کے بارے میں مختلف احادیث

عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نجد کی طرف ایک فوج بھیجی تو اس نے بہت ساری غنیمت حاصل کیا اور جلد ہی لوٹ آئی، (جنگ میں) نہ جانے والوں میں سے ایک نے کہا : میں نے اس فوج سے بہتر کوئی فوج نہیں دیکھی جو اس فوج سے زیادہ جلد لوٹ آنے والی اور زیادہ مال غنیمت لے کر آنے والی ہو۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا میں تم لوگوں کو ایک ایسے لوگوں کی ایک جماعت نہ بتاؤں جو زیادہ غنیمت والی اور جلد واپس آ جانے والی ہو ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز فجر میں حاضر ہوتے ہیں پھر بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں یہاں تک کہ سورج نکل آتا ہے یہ لوگ (ان سے) جلد لوٹ آنے والے اور (ان سے) زیادہ مال غنیمت لانے والے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- حماد بن ابی حمید یہ محمد بن ابی حمید ہیں، اور یہ ابوابراہیم انصاری مدنی ہیں ١ ؎۔ حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٤٠٠) (ضعیف) (سند میں ” محمد بن أبی حمید المقلب بـ ” حماد “ ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کا نام محمد ہے ، حماد ان کا لقب ہے اور ابوابراہیم ان کی کنیت ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 166) ، الصحيحة تحت الحديث (3531) // ضعيف الجامع الصغير (2164) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3561

【193】

دعاؤں کے بارے میں مختلف احادیث

عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے عمرہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ نے (اجازت دیتے ہوئے) کہا : اے میرے بھائی ! اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا، بھولنا نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٨ (١٤٩٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥ (٢٨٩٤) (ضعیف) (سند میں ” عاصم بن عبید اللہ “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2894) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3562

【194】

دعاؤں کے بارے میں مختلف احادیث

علی (رض) سے روایت ہے کہ ایک مکاتب غلام نے ١ ؎ ان کے پاس آ کر کہا کہ میں اپنی مکاتبت کی رقم ادا نہیں کر پا رہا ہوں، آپ ہماری کچھ مدد فرما دیجئیے تو انہوں نے کہا : کیا میں تم کو کچھ ایسے کلمے نہ سکھا دوں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھائے تھے ؟ اگر تیرے پاس «صیر» پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو تو تیری جانب سے اللہ اسے ادا فرما دے گا، انہوں نے کہا : کہو : «اللهم اکفني بحلالک عن حرامک وأغنني بفضلک عمن سواک» اے اللہ ! تو ہمیں حلال دے کر حرام سے کفایت کر دے، اور اپنے فضل (رزق، مال و دولت) سے نواز کر اپنے سوا کسی اور سے مانگنے سے بےنیاز کر دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠١٢٨) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : مکاتب غلام سے مراد وہ غلام ہے : جس نے غلامی سے آزادی کے لیے اپنے مالک سے کسی متعین رقم کی ادائیگی کا معاہدہ کیا ہو۔ قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (2 / 40) ، الکلم الطيب (143 / 99) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3563

【195】

None

مجھے شکایت ہوئی ( بیماری ہوئی ) ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اس وقت میں دعا کر رہا تھا: «اللهم إن كان أجلي قد حضر فأرحني وإن كان متأخرا فارفغني وإن كان بلاء فصبرني» ”اے میرے رب! اگر میری موت کا وقت آ پہنچا ہے تو مجھے ( موت دے کر ) راحت دے اور اور اگر میری موت بعد میں ہو تو مجھے اٹھا کر کھڑا کر دے ( یعنی صحت دیدے ) اور اگر یہ آزمائش ہے تو مجھے صبر دے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیسے کہا“ تو انہوں نے جو کہا تھا اسے دہرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پیر سے ٹھوکا دیا پھر آپ نے فرمایا: «اللهم عافه أو اشفه» ”اے اللہ! انہیں عافیت دے، یا شفاء دے“، اس کے بعد مجھے اپنی تکلیف کی پھر کبھی شکایت نہیں ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

【196】

دعاؤں کے بارے میں مختلف احادیث

علی (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ کسی بیمار کی عیادت کرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے : «اللهم أذهب البأس رب الناس واشف فأنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما» اے اللہ ! اے لوگوں کے رب ! عذاب و تکلیف کو دور کر دے اور شفاء دیدے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیری دی ہوئی شفاء کے سوا کوئی شفاء نہیں ہے، ایسی شفاء دے کہ بیماری کچھ بھی باقی نہ رہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٠٥٠) (حسن) (حارث اعور ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، صحیحین میں یہ حدیث عائشہ (رض) سے آئی ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3565

【197】

دعاؤں کے بارے میں مختلف احادیث

علی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی (نماز) وتر میں یہ دعا پڑھتے تھے : «اللهم إني أعوذ برضاک من سخطک وأعوذ بمعافاتک من عقوبتک وأعوذ بک منک لا أحصي ثناء عليك أنت کما أثنيت علی نفسک» ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث علی کی روایت سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، یعنی حماد ابن سلمہ کی روایت سے۔ فائدہ ١ ؎: اے اللہ ! میں تیری ناراضگی سے بچ کر تیری رضا و خوشنودی کی پناہ میں آتا ہوں، اے اللہ ! میں تیرے عذاب و سزا سے بچ کر تیرے عفو و درگزر کی پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں تیرے غضب سے، میں تیری ثناء (تعریف) کا احاطہٰ و شمار نہیں کرسکتا تو تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنے آپ کی ثناء و تعریف کی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤٠ (١٤٢٧) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥١ (١٧٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٧ (١١٧٩) (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٧) ، و مسند احمد (١/٩٦، ١١٨، ١٥٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1179) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3566

【198】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

مصعب بن سعد اور عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اپنے بیٹوں کو یہ کلمے ایسے ہی سکھاتے تھے جیسا کہ چھوٹے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے والا معلم سکھاتا ہے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ان کلمات کے ذریعہ ہر نماز کے اخیر میں اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔ (وہ کلمے یہ تھے) : «اللهم إني أعوذ بک من الجبن وأعوذ بک من البخل وأعوذ بک من أرذل العمر وأعوذ بک من فتنة الدنيا وعذاب القبر» اے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں بزدلی سے، اے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں کنجوسی سے، اے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں ذلیل ترین عمر سے (یعنی اس بڑھاپے سے جس میں عقل و ہوس کچھ نہ رہ جائے) اور پناہ مانگتا ہوں دنیا کے فتنہ اور قبر کے عذاب سے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح ہے، ٢- عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کہتے ہیں : ابواسحاق ہمدانی اس حدیث میں اضطرب کا شکار تھے، کبھی کہتے تھے : روایت ہے عمرو بن میمون سے اور وہ روایت کرتے ہیں عمر سے، اور کبھی کسی اور سے کہتے اور اس روایت میں اضطراب کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٢٥ (٢٨٢٢) ، والدعوات ٣٧ (٦٣٦٥) ، و ٤١ (٦٣٧٠) ، و ٤٤ (٦٣٧٤) ، و ٥٦ (٦٣٩٠) ، سنن النسائی/الاستعاذة ٥ (٥٤٤٧) ، و ٦ (٥٤٤٩) (تحفة الأشراف : ٢٩١٠، و ٢٩٣٢) ، و مسند احمد (١/١٨٣، ١٨٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3567

【199】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک عورت کے پاس گئے، اس کے آگے کھجور کی گٹھلیاں تھیں یا کنکریاں، ان کے ذریعہ وہ تسبیح پڑھا کرتی تھی، آپ نے اس سے فرمایا : کیا میں تمہیں اس سے آسان طریقہ نہ بتادوں ؟ یا اس سے افضل و بہتر طریقہ نہ بتادوں ؟ (کہ ثواب میں بھی زیادہ رہے اور لمبی چوڑی گنتی کرنے سے بھی بچا رہے) وہ یہ ہے : «سبحان اللہ عدد ما خلق في السماء، و سبحان اللہ عدد ما خلق في الأرض، و سبحان اللہ عدد ما بين ذلك، و سبحان اللہ عدد ما هو خالق، والله أكبر مثل ذلك، والحمد لله مثل ذلك، ولا حول ولا قوة إلا بالله مثل ذلك» پاکی ہے اللہ کی اتنی جتنی اس نے آسمان میں چیزیں پیدا کی ہیں، اور پاکی ہے اللہ کی اتنی جتنی اس نے زمین میں چیزیں پیدا کی ہیں، اور پاکی ہے اس کی اتنی جتنی کہ ان دونوں کے درمیان چیزیں ہیں، اور پاکی ہے اس کی اتنی جتنی کہ وہ (آئندہ) پیدا کرنے والا ہے، اور ایسے ہی اللہ کی بڑائی ہے اور ایسے ہی اللہ کے لیے حمد ہے اور ایسے ہی لا حول ولا قوۃ ہے، (یعنی اللہ کی مخلوق کی تعداد کے برابر) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث سعد کی روایت سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٩ (١٥٠٠) (تحفة الأشراف : ٣٩٥٤) (منکر) (سند میں خزیمہ مجہول راوی ہے) قال الشيخ الألباني : منکر الرد علی التعقيب الحثيث ص (23 - 35) ، المشکاة (2311) ، الضعيفة (83) ، الکلم الطيب (13 / 4) // ضعيف الجامع الصغير (2155) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3568

【200】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

زبیر بن عوام (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی صبح ایسی نہیں ہے کہ اللہ کے بندے صبح کرتے ہوں اور اس صبح میں کوئی پکار کر کہنے والا یہ نہ کہتا ہو کہ «سبحان الملک القدوس» کی تسبیح پڑھا کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٦٤٧) (ضعیف) (سند میں ” موسیٰ بن عبیدہ “ ضعیف، اور ان کے استاذ ” محمد بن ثابت “ مجہول ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4496) // ضعيف الجامع الصغير (5188) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3569

【201】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس دوران کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے کہ اسی دوران علی (رض) آپ ﷺ کے پاس آئے اور آ کر عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان، یہ قرآن تو میرے سینے سے نکلتا جا رہا ہے، میں اسے محفوظ نہیں رکھ پا رہا ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوالحسن ! کیا میں تمہیں ایسے کلمے نہ سکھا دوں کہ جن کے ذریعہ اللہ تمہیں بھی فائدہ دے اور انہیں بھی فائدہ پہنچے جنہیں تم یہ کلمے سکھاؤ؟ اور جو تم سیکھو وہ تمہارے سینے میں محفوظ رہے ، انہوں نے کہا : جی ہاں، اے اللہ کے رسول ! آپ ہمیں ضرور سکھائیے، آپ نے فرمایا : جب جمعہ کی رات ہو اور رات کے آخری تہائی حصے میں تم کھڑے ہوسکتے ہو تو اٹھ کر اس وقت عبادت کرو کیونکہ رات کے تیسرے پہر کا وقت ایسا وقت ہوتا ہے جس میں فرشتے بھی موجود ہوتے ہیں، اور دعا اس وقت مقبول ہوتی ہے، میرے بھائی یعقوب (علیہ السلام) نے بھی اپنے بیٹوں سے کہا تھا : «سوف أستغفر لکم ربي» یعنی میں تمہارے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا، آنے والی جمعہ کی رات میں، اگر نہ اٹھ سکو تو درمیان پہر میں اٹھ جاؤ، اور اگر درمیانی حصے (پہر) میں نہ اٹھ سکو تو پہلے پہر ہی میں اٹھ جاؤ اور چار رکعت نماز پڑھو، پہلی رکعت میں سورة فاتحہ اور سورة یٰسین پڑھو، دوسری رکعت میں سورة فاتحہ اور حم دخان اور تیسری رکعت میں سورة فاتحہ اور الم تنزیل السجدہ اور چوتھی رکعت میں سورة فاتحہ اور تبارک (مفصل) پڑھو، پھر جب تشہد سے فارغ ہوجاؤ تو اللہ کی حمد بیان کرو اور اچھے ڈھنگ سے اللہ کی ثناء بیان کرو، اور مجھ پر صلاۃ (درود) بھیجو، اور اچھے ڈھنگ سے بھیجو اور سارے نبیوں صلاۃ پر (درود) بھیجو اور مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے لیے مغفرت طلب کرو، اور ان مومن بھائیوں کے لیے بھی مغفرت کی دعا کرو، جو تم سے پہلے اس دنیا سے جا چکے ہیں، پھر یہ سب کر چکنے کے بعد یہ دعا پڑھو : «اللهم ارحمني بترک المعاصي أبدا ما أبقيتني وارحمني أن أتكلف ما لا يعنيني وارزقني حسن النظر فيما يرضيك عني اللهم بديع السموات والأرض ذا الجلال والإکرام والعزة التي لا ترام أسألك يا ألله يا رحمن بجلالک ونور وجهك أن تلزم قلبي حفظ کتابک کما علمتني وارزقني أن أتلوه علی النحو الذي يرضيك عني اللهم بديع السموات والأرض ذا الجلال والإکرام والعزة التي لا ترام أسألك يا ألله يا رحمن بجلالک ونور وجهك أن تنور بکتابک بصري وأن تطلق به لساني وأن تفرج به عن قلبي وأن تشرح به صدري وأن تغسل به بدني فإنه لا يعينني علی الحق غيرک ولا يؤتيه إلا أنت ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم» اے اللہ ! مجھ پر رحم فرما اس طرح کہ جب تک تو مجھے زندہ رکھ میں ہمیشہ گناہ چھوڑے رکھوں، اے اللہ ! تو مجھ پر رحم فرما اس طرح کہ میں لا یعنی چیزوں میں نہ پڑوں، جو چیزیں تیری رضا و خوشنودی کی ہیں انہیں پہچاننے کے لیے مجھے حسن نظر (اچھی نظر) دے، اے اللہ ! آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے، ذوالجلال (رعب و داب والے) اکرام (عزت و بزرگی والے) ایسی عزت و مرتبت والے کہ جس عزت کو حاصل کرنے و پانے کا کوئی قصد و ارادہ ہی نہ کرسکے، اے اللہ ! اے بڑی رحمت والے میں تیرے جلال اور تیرے تابناک و منور چہرے کے وسیلہ سے تجھ سے مانگتا ہوں کہ تو میرے دل کو اپنی کتاب (قرآن پاک) کے حفظ کے ساتھ جوڑ دے، جیسے تو نے مجھے قرآن سکھایا ہے ویسے ہی میں اسے یاد و محفوظ رکھ سکوں، اور تو مجھے اس بات کی توفیق دے کہ میں اس کتاب کو اسی طریقے اور اسی ڈھنگ سے پڑھوں جو تجھے مجھ سے راضی و خوش کر دے، اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، (جاہ) و جلال اور بزرگی والے اور ایسی عزت والے جس عزت کا کوئی ارادہ (تمنا اور خواہش) ہی نہ کرسکے، اے اللہ ! اے رحمن تیرے جلال اور تیرے چہرے کے نور کے وسیلہ سے تجھ سے مانگتا ہوں کہ تو اپنی کتاب کے ذریعہ میری نگاہ کو منور کر دے (مجھے کتاب الٰہی کی معرفت حاصل ہوجائے، اور میری زبان بھی اسی کے مطابق چلے، اور اسی کے ذریعہ میرے دل کا غم دور کر دے، اور اس کے ذریعہ میرا سینہ کھول دے (میں ہر اچھی و بھلی بات کو سمجھنے لگوں) اور اس کے ذریعہ میرے بدن کو دھو دے (میں پاک و صاف رہنے لگوں) کیونکہ میرے حق پر چلنے کے لیے تیرے سوا کوئی اور میری مدد نہیں کرسکتا، اور نہ ہی کوئی تیرے سوا مجھے حق دے سکتا ہے اور اللہ جو برتر اور عظیم ہے اس کے سوا برائیوں سے پلٹنے اور نیکیوں کو انجام دینے کی توفیق کسی اور سے نہیں مل سکتی ۔ اے ابوالحسن ! ایسا ہی کرو، تین جمعہ، پانچ جمعہ یا سات جمعہ تک، اللہ کے حکم سے دعا قبول کرلی جائے گی، اور قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے، اس کو پڑھ کر کوئی مومن کبھی محروم نہ رہے گا، عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں : قسم اللہ کی ! علی (رض) پانچ یا سات جمعہ ٹھہرے ہوں گے کہ وہ پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک ایسی ہی مجلس میں حاضر ہوئے اور آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں اس سے پہلے چار آیتیں یا ان جیسی دو ایک آیتیں کم و بیش یاد کر پاتا تھا، اور جب انہیں دل میں آپ ہی آپ دہراتا تھا تو وہ بھول جاتی تھیں، اور اب یہ حال ہے کہ میں چالیس آیتیں سیکھتا ہوں یا چالیس سے دو چار کم و بیش، پھر جب میں انہیں اپنے آپ دہراتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے تو ان کتاب اللہ میری آنکھوں کے سامنے کھلی ہوئی رکھی ہے (اور میں روانی سے پڑھتا چلا جاتا ہوں) اور ایسے ہی میں اس سے پہلے حدیث سنا کرتا تھا، پھر جب میں اسے دہراتا تو وہ دماغ سے نکل جاتی تھی، لیکن آج میرا حال یہ ہے کہ میں حدیثیں سنتا ہوں پھر جب میں انہیں بیان کرتا ہوں تو ان میں سے ایک حرف بھی کم نہیں کرتا، رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا : قسم ہے رب کعبہ کی ! اے ابوالحسن تم مومن ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف ولید بن مسلم کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٩٢٧، و ٦١٥٢) (موضوع) (سند میں ” ولید بن مسلم “ تدلیس تسویہ کرتے تھے، اور یہ روایت ان کی ان روایتوں میں سے ہے جن کو کسی کذاب اور واضاع سے لے کر ” عنعنہ “ کے ذریعہ تدلیس تسویہ کردیا، ملاحظہ ہو : الضعیفة رقم ٣٣٧٤) قال الشيخ الألباني : موضوع، التعليق الرغيب (2 / 214) ، الضعيفة (3374) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3570

【202】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ اللہ کو یہ پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے، اور افضل عبادت یہ ہے (کہ اس دعا کے اثر سے) کشادگی (اور خوش حالی) کا انتظار کیا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حماد بن واقد نے ایسی ہی روایت کی ہے، اور ان کی روایت میں اختلاف کیا گیا ہے، ٢- حماد بن واقد یہ صفار ہیں، حافظ نہیں ہیں، اور یہ ہمارے نزدیک ایک بصریٰ شیخ ہیں، ٣- ابونعیم نے یہ حدیث اسرائیل سے، اسرائیل نے حکیم بن جبیر سے اور حکیم بن جبیر نے ایک شخص کے واسطہ سے رسول اللہ ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، اور ابونعیم کی حدیث صحت سے قریب تر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٥١٥) (ضعیف) (سند میں ” حماد بن واقد “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (492) // ضعيف الجامع الصغير (3278) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3571

【203】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ یہ دعا پڑھتے تھے : «اللهم إني أعوذ بک من الکسل والعجز والبخل» اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں، سستی و کاہلی سے، عاجزی و درماندگی سے اور کنجوسی و بخیلی سے ،

【204】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زمین پر کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے جو گناہ اور قطع رحمی کی دعا کو چھوڑ کر کوئی بھی دعا کرتا ہو اور اللہ اسے وہ چیز نہ دیتا ہو، یا اس کے بدلے اس کے برابر کی اس کی کوئی برائی (کوئی مصیبت) دور نہ کردیتا ہو ، اس پر ایک شخص نے کہا : تب تو ہم خوب (بہت) دعائیں مانگا کریں گے، آپ نے فرمایا : اللہ اس سے بھی زیادہ دینے والا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٠٧٣) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، التعليق الرغيب (2 / 271 - 272) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3573

【205】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم اپنے بستر پر سونے کے لیے جاؤ تو جس طرح نماز کے لیے وضو کرتے ہو ویسا ہی وضو کر کے جاؤ، پھر داہنے کروٹ لیٹو، پھر (یہ) دعا پڑھو : «اللهم أسلمت وجهي إليك وفوضت أمري إليك وألجأت ظهري إليك رغبة ورهبة إليك لا ملجأ ولا منجا منک إلا إليك آمنت بکتابک الذي أنزلت ونبيك الذي أرسلت» اے اللہ ! میں تیرا تابع فرمان بندہ بن کر تیری طرف متوجہ ہوا، اپنا سب کچھ تجھے سونپ دیا، تجھ سے ڈرتے ہوئے اور رغبت کرتے ہوئے میں نے تیرا سہارا لیا، نہ تو میری کوئی امید گاہ ہے اور نہ ہی کوئی جائے نجات، میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری ہے اور تیرے اس نبی پر ایمان لایا جسے تو نے بھیجا ہے ، پس اگر تو اپنی اس رات میں مرگیا تو فطرت (اسلام) پر مرے گا، براء (رض) کہتے ہیں : میں نے دعا کے ان الفاظ کو دہرایا تاکہ یاد ہوجائیں تو دہراتے وقت میں نے کہا : «آمنت برسولک الذي أرسلت» کہہ لیا تو آپ نے فرمایا : (رسول نہ کہو بلکہ) «آمنت بنبيك الذي أرسلت» کہو، میں ایمان لایا تیرے اس نبی پر جسے تو نے بھیجا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث براء بن عازب سے کئی سندوں سے آئی ہے مگر اس رات کے سوا کسی بھی روایت میں ہم یہ نہیں پاتے کہ وضو کا ذکر کیا گیا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧٥ (٢٤٧) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٧ (٢٧١٠) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٥ (٣٨٧٦) (تحفة الأشراف : ١٧٦٣) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٥١ (٢٧٢٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3574

【206】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

عبداللہ بن خبیب (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک بارش والی سخت تاریک رات میں رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرنے نکلے تاکہ آپ ہمیں نماز پڑھا دیں، چناچہ میں آپ کو پا گیا، آپ نے فرمایا : کہو (پڑھو) ، تو میں نے کچھ نہ کہا : کہو آپ نے پھر فرمایا، مگر میں نے کچھ نہ کہا، (کیونکہ معلوم نہیں تھا کیا کہوں ؟ ) آپ نے پھر فرمایا : کہو ، میں نے کہا : کیا کہوں ؟ آپ نے فرمایا : «قل هو اللہ أحد» اور «المعوذتين» («قل أعوذ برب الفلق» ، «قل أعوذ برب الناس» ) صبح و شام تین مرتبہ پڑھ لیا کرو، یہ (سورتیں) تمہیں ہر شر سے بچائیں گی اور محفوظ رکھیں گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- ابوسعید براد : یہ اسید بن ابی اسید مدنی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١١٠ (٥٠٨٢) ، سنن النسائی/الاستعاذة ١ (٥٤٣٠) (تحفة الأشراف : ٥٢٥٠) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (1 / 224) ، الکلم الطيب (19 / 7) ، صحيح الکلم الصفحة (19) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3575

【207】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

عبداللہ بن بسر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے باپ کے پاس آئے، ہم نے آپ کے کھانے کے لیے کچھ پیش کیا تو آپ نے اس میں سے کھایا، پھر آپ کے لیے کچھ کھجوریں لائی گئیں، تو آپ کھجوریں کھانے اور گھٹلی اپنی دونوں انگلیوں سبابہ اور وسطی (شہادت اور بیچ کی انگلی سے (دونوں کو ملا کر) پھینکتے جاتے تھے، شعبہ کہتے ہیں : جو میں کہہ رہا ہوں وہ میرا گمان و خیال ہے، اللہ نے چاہا تو صحیح ہوگا، آپ دونوں انگلیوں کے بیچ میں گٹھلی رکھ کر پھینک دیتے تھے، پھر آپ کے سامنے پینے کی کوئی چیز لائی گئی تو آپ نے پی اور اپنے دائیں جانب ہاتھ والے کو تھما دیا (جب آپ چلنے لگے تو) آپ کی سواری کی لگام تھامے تھامے میرے باپ نے آپ سے عرض کیا، آپ ہمارے لیے دعا فرما دیجئیے، آپ نے فرمایا : «اللهم بارک لهم فيما رزقتهم واغفر لهم وارحمهم» اے اللہ ! ان کے رزق میں برکت عطا فرما اور انہیں بخش دے اور ان پر رحمت نازل فرما ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی یہ حدیث عبداللہ بن بسر سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة والأطعمة ٢٢ (٢٠٤٢) ، سنن ابی داود/ الأشربة ٢٠ (٣٧٢٩) (تحفة الأشراف : ٥٢٠٥) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢ (٢٠٦٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3576

【208】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

زید (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص کہے : «أستغفر اللہ العظيم الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه» میں مغفرت مانگتا ہوں اس بزرگ و برتر اللہ سے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، جو زندہ ہے اور ہر چیز کا نگہبان ہے اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ، تو اس کی مغفرت کردی جائے گی اگرچہ وہ لشکر (و فوج) سے بھاگ ہی کیوں نہ آیا ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦١ (١٥١٧) (صحیح) (سند میں بلال اور یسار بن زید دونوں باپ اور بیٹے مجہول راوی ہیں، لیکن ابن مسعود وغیرہ کی احادیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، صحیح سنن أبی داود ١٣٥٨، صحیح الترغیب والترہیب ١٦٢٢، الصحیحة ٢٧٢٧) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 269) ، صحيح أبي داود (1358) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3577

【209】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

عثمان بن حنیف (رض) سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : آپ دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے عافیت دے، آپ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور اگر چاہو تو صبر کیے رہو، کیونکہ یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر (و سود مند) ہے ۔ اس نے کہا : دعا ہی کر دیجئیے، تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ وضو کرے، اور اچھی طرح سے وضو کرے اور یہ دعا پڑھ کر دعا کرے : «اللهم إني أسألک وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضی لي اللهم فشفعه» اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیرے نبی محمد جو نبی رحمت ہیں کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، میں نے آپ کے واسطہ سے اپنی اس ضرورت میں اپنے رب کی طرف توجہ کی ہے تاکہ تو اے اللہ ! میری یہ ضرورت پوری کر دے تو اے اللہ تو میرے بارے میں ان کی شفاعت قبول کر ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں یعنی ابو جعفر کی روایت سے، ٢- اور ابوجعفر خطمی ہیں ٣- اور عثمان بن حنیف یہ سہل بن حنیف کے بھائی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٩ (١٣٨٥) (تحفة الأشراف : ٩٧٦٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہی وہ مشہور روایت ہے جس سے انبیاء اور اولیاء کی ذات سے وسیلہ پکڑنے کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے ، بعض محدثین نے تو اس حدیث کی صحت پر کلام کیا ہے ، اور جو لوگ اس کو صحیح قرار دیتے ہیں ، ان میں سے سلفی منہج و فکر کے علماء ( جیسے امام ابن تیمیہ و علامہ البانی نے اس کی توجیہ کی ہے کہ نابینا کو اپنی ذات بابرکات سے وسیلہ پکڑنے کا مشورہ آپ ﷺ نے نہیں دیا تھا ، بلکہ آپ کی دعا کو قبول کرنے کی دعا اس نے کی ، اور اب آپ کی وفات کے بعد ایسا نہیں ہوسکتا ، اسی لیے عمر (رض) نے قحط پڑنے پر آپ کی قبر شریف کے پاس آ کر آپ سے دعا کی درخواست نہیں کی ، ( آپ کی ذات سے وسیلہ پکڑنے کی بات تو دور کی ہے ) بلکہ انہوں نے آپ کے زندہ چچا عباس (رض) سے دعا کرائی ، اور تمام صحابہ نے اس پر ہاں کیا ، تو گویا یہ بات تمام صحابہ کے اجماع سے ہوئی ، کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ کیوں نہ نابینا کی طرح آپ سے دعا کی درخواست کی جائے ، اور اس دعا یا آپ کی ذات کو وسیلہ بنایا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1385) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3578

【210】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

عمرو بن عنبسہ (رض) کا بیان ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : رب تعالیٰ اپنے بندے سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری نصف حصے کے درمیان میں ہوتا ہے، تو اگر تم ان لوگوں میں سے ہو سکو جو رات کے اس حصے میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو تم بھی اس ذکر میں شامل ہو کر ان لوگوں میں سے ہوجاؤ (یعنی تہجد پڑھو) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٩٩ (١٢٧٧) (تحفة الأشراف : ١٠٧٥٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 276) ، المشکاة (1229) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3579

【211】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

عمارہ بن زعکرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میرا بندہ کامل بندہ وہ ہے جو مجھے اس وقت یاد کرتا ہے جب وہ جنگ کے وقت اپنے مدمقابل (دشمن) کے سامنے کھڑا ہو رہا ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اس کی سند قوی نہیں ہے، اس ایک حدیث کے سوا ہم عمارہ بن زعکرہ کی نبی اکرم ﷺ سے کوئی اور روایت نہیں جانتے، ٢- اللہ کے قول «وهو ملاق قرنه» کا معنی و مطلب یہ ہے کہ لڑائی و جنگ کے وقت، یعنی ایسے وقت اور ایسی گھڑی میں بھی وہ اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٣٧٩) (ضعیف) (سند میں ” عفیر بن معدان “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (3135) // ضعيف الجامع الصغير (1750) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3580

【212】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

قیس بن سعد بن عبادہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کے باپ (سعد بن عبادہ) نے انہیں نبی اکرم ﷺ کی خدمت کرنے کے لیے آپ کے حوالے کردیا، وہ کہتے ہیں : میں نماز پڑھ کر بیٹھا ہی تھا کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس سے گزرے، آپ نے اپنے پیر سے (مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے) ایک ٹھوکر لگائی پھر فرمایا : کیا میں تمہیں جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ نہ بتادوں ، میں نے کہا : کیوں نہیں ضرور بتائیے، آپ نے فرمایا : وہ «لا حول ولا قوة إلا بالله» ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٣٠ (٣٥٥) (تحفة الأشراف : ١١٠٩٧) ، و مسند احمد (٣/٤٢٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1746) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3581

【213】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

صفوان بن سلیم کہتے ہیں کہ کوئی بھی فرشتہ «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہے بغیر زمین سے نہیں اٹھتا (نہیں اڑتا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي) (صحیح الإسناد) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3582

【214】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

حمیضہ بنت یاسر اپنی دادی یسیرہ (رض) سے روایت کرتی ہیں، یسیرہ ہجرت کرنے والی خواتین میں سے تھیں، کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : تمہارے لیے لازم اور ضروری ہے کہ تسبیح پڑھا کرو تہلیل اور تقدیس کیا کرو ١ ؎ اور انگلیوں پر (تسبیحات وغیرہ کو) گنا کرو، کیونکہ ان سے (قیامت میں) پوچھا جائے گا اور انہیں گویائی عطا کردی جائے گی، اور تم لوگ غفلت نہ برتنا کہ (اللہ کی) رحمت کو بھول بیٹھو ۔ امام ترمذی کہتے : ہم اس حدیث کو صرف ہانی بن عثمان کی روایت سے جانتے ہیں اور محمد بن ربیعہ نے بھی ہانی بن عثمان سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٨ (١٥٠١) (تحفة الأشراف : ١٨٣٠١) ، و مسند احمد (٦/٣٧١) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : «تسبیح» «سبحان اللہ» کہنا ، «تہلیل» «لا إله إلا الله» کہنا اور «تقدیس» «سبحان الملک القدوس» یا «سبوح قدوس ربنا ورب الملائکۃ والروح» کہنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، صحيح أبي داود (1345) ، المشکاة (2316) ، الضعيفة تحت الحديث (83) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3583

【215】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

انس (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ جہاد کرتے (لڑتے) تو یہ دعا پڑھتے : «اللهم أنت عضدي وأنت نصيري وبك أقاتل» اے اللہ ! تو میرا بازو ہے، تو ہی میرا مددگار ہے اور تیرے ہی سہارے میں لڑتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے ٢- اور «عضدی» کے معنی ہیں تو میرا مددگار ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجھاد ٩٩ (٢٦٣٢) (تحفة الأشراف : ١٣٢٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الکلم الطيب (125) ، صحيح أبي داود (2366) ، // صحيح الکلم الصفحة (50) أتم من هنا // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3584

【216】

نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق

عبداللہ عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر دعا عرفہ والے دن کی دعا ہے اور میں نے اب تک جو کچھ (بطور ذکر) کہا ہے اور مجھ سے پہلے جو دوسرے نبیوں نے کہا ہے ان میں سب سے بہتر دعا یہ ہے : «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو علی كل شيء قدير» اللہ واحد کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے (ساری کائنات کی) بادشاہت ہے، اسی کے لیے ساری تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢- حماد بن ابی حمیدیہ محمد بن ابی حمید ہیں اور ان کی کنیت ابوابراہیم انصاری مدنی ہے اور یہ محدثین کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٦٩٨) (حسن) (سند میں حماد (محمد) بن ابی حمید ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (2598) ، التعليق الرغيب (2 / 242) ، الصحيحة (1503) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3585

【217】

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے سکھایا، آپ نے فرمایا : کہو «اللهم اجعل سريرتي خيرا من علانيتي واجعل علانيتي صالحة اللهم إني أسألک من صالح ما تؤتي الناس من المال والأهل والولد غير الضال ولا المضل» اے اللہ ! میرا باطن میرے ظاہر سے اچھا کر دے اور میرے ظاہر کو نیک کر دے۔ اور لوگوں کو جو مال تو بیوی اور بچے کی شکل میں دیتا ہے ان میں سے اچھا مال دے جو نہ خود گمراہ ہوں اور نہ دوسروں کو گمراہ کریں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٥١٥) (ضعیف) (سند میں ” ابو شیبہ “ مجہول راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2504 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (4097) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3586

【218】

عاصم بن کلیب بن شہاب کے دادا شہاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا، آپ نماز پڑھا رہے تھے، آپ نے اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا تھا، اور اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر رکھا، انگلیاں بند کی تھیں (یعنی مٹھی باندھ رکھی تھی) اور «سبابہ» (شہادت کی انگلی) کھول رکھی تھی اور آپ یہ دعا کر رہے تھے : «يا مقلب القلوب ثبت قلبي علی دينك» اے دلوں کے پھیرنے والے میرا دل اپنے دین پر جما دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٨٤٨) (منکر) (اس سیاق سے یہ حدیث منکر ہے، سند میں ” عبداللہ بن معدان ابو سعدان “ لین الحدیث ہیں، اور یہ حدیث اس بابت دیگر صحیح احادیث کے برخلاف ہے) قال الشيخ الألباني : منکر بهذا السياق وانظر الأحاديث (291 - 293 و 2226 و 3588) // وهي في صحيح سنن الترمذي - باختصار السند بالأرقام الآتية (238 / 292 - 240 / 294 و 1739 / 2240 و 2792 / 3768) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3587

【219】

ثابت بنانی اپنے شاگرد محمد بن سالم سے کہتے ہیں کہ جب تمہیں درد ہو تو جہاں درد اور تکلیف ہو وہاں ہاتھ رکھو پھر پڑھو : «بسم اللہ أعوذ بعزة اللہ وقدرته من شر ما أجد من وجعي هذا» اللہ کے نام سے اللہ کی عزت و قدرت کے سہارے میں اپنی اس تکلیف کے شر سے جو میں محسوس کر رہا ہوں پناہ چاہتا ہوں ۔ ، پھر (درد کی جگہ سے) ہاتھ ہٹا لو پھر ایسے ہی طاق (تین یا پانچ یا سات) بار کرو، کیونکہ انس بن مالک نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے ایسا ہی بیان کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور محمد بن سالم یہ بصریٰ شیخ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٦٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1258) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3588

【220】

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ دعا سکھائی : «اللهم هذا استقبال ليلک واستدبار نهارک وأصوات دعاتک وحضور صلواتک أسألك أن تغفر لي» اے اللہ ! یہ تیری رات کے آنے اور تیرے دن کے جانے کا وقت ہے اور تجھے یاد کرنے کی آوازوں اور تیری نماز کے لیے پہنچنے کا وقت ہے میں (ایسے وقت میں) اپنی مغفرت کے لیے تجھ سے درخواست کرتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- حفصہ بنت ابی کثیر کو ہم نہیں جانتے اور نہ ہی ہم ان کے باپ کو جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٩ (٥٣٠) (تحفة الأشراف : ١٨٢٤٦) (ضعیف) (سند میں ابوکثیر لین الحدیث راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الکلم الطيب (76 / 35) ، ضعيف أبي داود (85) // (105 / 530) //، المشکاة (669) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3589

【221】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بھی کوئی بندہ خلوص دل سے «لا إله إلا الله» کہے گا اور کبائر سے بچتا رہے گا تو اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جائیں گے، اور یہ کلمہ «لا إله إلا الله» عرش تک جا پہنچے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٤٢ (٨٣٣) (تحفة الأشراف : ١٣٤٤٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (2314 / التحقيق الثانی) ، التعليق الرغيب (2 / 238) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3590

【222】

زیاد بن علاقہ کے چچا قطبہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ یہ دعا پڑھتے تھے : «اللهم إني أعوذ بک من منکرات الأخلاق والأعمال والأهواء» اے اللہ ! میں تجھ سے بری عادتوں، برے کاموں اور بری خواہشوں سے پناہ مانگتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے ٢- اور زیاد بن علاقہ کے چچا کا نام قطبہ بن مالک ہے اور یہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٠٨٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2471 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3591

【223】

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک بار ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ١ ؎، اسی دوران ایک شخص نے کہا : «الله أكبر کبيرا والحمد لله كثيرا و سبحان اللہ بكرة وأصيلا» اللہ بہت بڑائی والا ہے، اور ساری تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اور پاکی ہے اللہ تعالیٰ کے لیے صبح و شام ، رسول اللہ ﷺ نے (سنا تو) پوچھا : ایسا ایسا کس نے کہا ہے ؟ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا : میں نے کہا ہے، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : میں اس کلمے کو سن کر حیرت میں پڑگیا، اس کلمے کے لیے آسمان کے دروازے کھولے گئے ۔ ابن عمر (رض) کہتے ہیں : جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی ہے میں نے ان کا پڑھنا کبھی نہیں چھوڑا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- حجاج بن ابی عثمان یہ حجاج بن میسرہ صواف ہیں، ان کی کنیت ابوصلت ہے اور یہ محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ فائدہ ١ ؎: نماز پڑھ رہے تھے سے مراد : ہم لوگ نماز شروع کرچکے تھے، اتنے میں وہ آدمی آیا اور دعا ثناء کی جگہ اس نے یہی کلمات کہے، اس پر نبی اکرم ﷺ نے اس کی تقریر (تصدیق) کردی، تو گویا ثناء کی دیگر دعاؤں کے ساتھ یہ دعا بھی ایک ثناء ہے، امام نسائی دعا ثناء کے باب ہی میں اس حدیث کو لاتے ہیں، اس لیے بعض علماء کا یہ کہنا کہ «سبحانک اللہم …» کے سواء ثنا کی بابت منقول ساری دعائیں سنن و نوافل سے تعلق رکھتی ہیں، صحیح نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٧ (٦٠١) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨ (٨٨٦) (تحفة الأشراف : ٧٣٦٩) ، و مسند احمد (٢/١٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة (74) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3592

【224】

ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی عیادت کی (یہاں راوی کو شبہ ہوگیا) یا انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی عیادت کی، تو انہوں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان، اے اللہ کے رسول ! کون سا کلام اللہ کو زیادہ پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ کلام جو اللہ نے اپنے فرشتوں کے لیے منتخب فرمایا ہے (اور وہ یہ ہے) «سبحان ربي وبحمده سبحان ربي وبحمده» میرا رب پاک ہے اور تعریف ہے اسی کے لیے، میرا رب پاک ہے اور ہر طرح کی حمد اسی کے لیے زیبا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٢٢ (٢٧٣١) (تحفة الأشراف : ١١٩٤٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 242) ، الصحيحة (1498) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3593

【225】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اذان اور اقامت کے درمیان مانگی جانے والی دعا لوٹائی نہیں جاتی ، (یعنی قبول ہوجاتی ہے) لوگوں نے پوچھا : اس دوران ہم کون سی دعا مانگیں، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : دنیا اور آخرت (دونوں) میں عافیت مانگو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے، یحییٰ بن ابان نے اس حدیث میں اس عبارت کا اضافہ کیا ہے کہ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہم کیا کہیں ؟ آپ نے فرمایا : دنیا و آخرت میں عافیت (یعنی امن و سکون) مانگو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢١٢ (منکر) حدیث کا پہلا فقرہ صحیح ہے، لیکن اس کے بعد کا قصہ ” منکر “ ہے اس لیے کہ سند میں یحییٰ بن الیمان اور زید العمی دونوں ضعیف راوی ہیں، اور قصے کا شاہد موجود نہیں ہے، تراجع الالبانی ١٤٠) قال الشيخ الألباني : منکر بهذا التمام، لکن قوله : صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3594

【226】

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اذان اور اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے ، (یعنی ضرور قبول ہوتی ہے۔ ) امام ترمذی کہتے ہیں : ابواسحاق ہمدانی نے برید بن ابی مریم کوفی سے اور برید کوفی نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے ایسے ہی روایت کی ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢١٢ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وقد مضی (212) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3595

【227】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہلکے پھلکے لوگ آگے نکل گئے ، لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! یہ ہلکے پھلکے لوگ کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی یاد و ذکر میں ڈوبے رہنے والے لوگ، ذکر ان کا بوجھ ان کے اوپر سے اتار کر رکھ دے گا اور قیامت کے دن ہلکے پھلکے آئیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٤١١) (ضعیف) (سند میں ” عمر بن راشد “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (3690) // ضعيف الجامع الصغير (3240) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3596

【228】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ساری کائنات سے کہ جس پر سورج طلوع ہوتا ہے مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں : «سبحان اللہ والحمد لله ولا إله إلا اللہ والله أكبر» اللہ پاک ہے، تعریف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے ، کہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٠ (٢٦٩٥) (تحفة الأشراف : ١٢٥١١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3597

【229】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین لوگ ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی : ایک روزہ دار، جب تک کہ روزہ نہ کھول لے، (دوسرے) امام عادل، (تیسرے) مظلوم، اس کی دعا اللہ بدلیوں سے اوپر تک پہنچاتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور رب کہتا ہے : میری عزت (قدرت) کی قسم ! میں تیری مدد کروں گا، بھلے کچھ مدت کے بعد ہی کیوں نہ ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- سعدان قمی یہ سعدان بن بشر ہیں، ان سے عیسیٰ بن یونس، ابوعاصم اور کئی بڑے محدثین نے روایت کی ہے ٣- اور ابومجاہد سے مراد سعد طائی ہیں ٤- اور ابومدلہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں ہم انہیں صرف اسی حدیث کے ذریعہ سے جانتے ہیں اور یہی حدیث ان سے اس حدیث سے زیادہ مکمل اور لمبی روایت کی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٨ (١٧٥٢) (تحفة الأشراف : ١٥٤٥٧) ، و مسند احمد (٢/٣٠ ¤ ٤- ٣٠٥، ٤٤٥، ٤٧٧) (ضعیف) (” الإمام العادل “ کے لفظ سے ضعیف ہے، اور ” المسافر “ کے لفظ سے صحیح ہے، سند میں ابو مدلہ مولی عائشہ “ مجہول راوی ہے، نیز یہ حدیث ابوہریرہ ہی کی صحیح حدیث جس میں ” المسافر “ کا لفظ ہے کے خلاف ہے، ملاحظہ ہو : الضعیفة رقم ١٣٥٨، والصحیحة رقم : ٥٩٦) قال الشيخ الألباني : ضعيف، لكن، الصحيحة منه الشطر الأول بلفظ : .... المسافر مکان الإمام العادل ، وفي رواية الوالد ، ابن ماجة (1752) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3598

【230】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا پڑھی : «اللهم انفعني بما علمتني وعلمني ما ينفعني وزدني علما الحمد لله علی كل حال وأعوذ بالله من حال أهل النار» اے اللہ ! مجھے اس علم سے نفع دے جو تو نے مجھے سکھایا ہے اور مجھے وہ علم سکھا جو مجھے فائدہ دے اور میرا علم زیادہ کر، ہر حال میں اللہ ہی کے لیے تعریف ہے اور میں جہنمیوں کے حال سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢٣ (٢٥١) ، والدعاء (٣٨٣٣) (تحفة الأشراف : ١٤٣٥٦) (صحیح) ” الحمد للہ۔۔۔ الخ) کا لفظ صحیح نہیں ہے، سند میں محمد بن ثابت مجہول راوی ہے، مگر پہلا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی ٤٦٢) قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله : والحمد لله ... ، ابن ماجة (251 و 3833 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3599

【231】

ابوہریرہ (رض) یا ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کے نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ بھی کچھ فرشتے ہیں جو زمین میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں، جب وہ کسی قوم کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو پکارتے ہیں : آؤ آؤ یہاں ہے تمہارے مطلب و مقصد کی بات، تو وہ لوگ آ جاتے ہیں، اور انہیں قریبی آسمان تک گھیر لیتے ہیں، اللہ ان سے پوچھتا ہے : میرے بندوں کو کیا کام کرتے ہوئے چھوڑ آئے ہو ؟ وہ کہتے ہیں : ہم انہیں تیری تعریف کرتے ہوئے تیری بزرگی بیان کرتے ہوئے اور تیرا ذکر کرتے ہوئے چھوڑ آئے ہیں، وہ کہتا ہے : کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے (یا بن دیکھے ہوئے ہی میری عبادت و ذکر کئے جا رہے ہیں) وہ جواب دیتے ہیں : نہیں، اللہ کہتا ہے : اگر وہ لوگ مجھے دیکھ لیں تو کیا صورت و کیفیت ہوگی ؟ وہ جواب دیتے ہیں، وہ لوگ اگر تجھے دیکھ لیں تو وہ لوگ اور بھی تیری تعریف کرنے لگیں، تیری بزرگی بیان کریں گے اور تیرا ذکر بڑھا دیں گے، وہ پوچھتا ہے : وہ لوگ کیا چاہتے اور مانگتے ہیں ؟ فرشتے کہتے ہیں : وہ لوگ جنت مانگتے ہیں، اللہ پوچھتا ہے کیا ان لوگوں نے جنت دیکھی ہے ؟ وہ جواب دیتے ہیں : نہیں، وہ پوچھتا ہے : اگر یہ دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہوگی ؟ وہ کہتے ہیں : ان کی طلب اور ان کی حرص اور بھی زیادہ بڑھ جائے گی، وہ پھر پوچھتا ہے : وہ لوگ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : جہنم سے، وہ پوچھتا ہے : کیا ان لوگوں نے جہنم دیکھ رکھی ہے ؟ وہ کہتے ہیں : نہیں، وہ پوچھتا ہے : اگر یہ لوگ جہنم کو دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہوگی ؟ وہ کہتے ہیں : اگر یہ جہنم دیکھ لیں تو اس سے بہت زیادہ دور بھاگیں گے، زیادہ خوف کھائیں گے اور بہت زیادہ اس سے پناہ مانگیں گے، پھر اللہ کہے گا میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان سب کی مغفرت کردی ہے ، وہ کہتے ہیں : ان میں فلاں خطاکار شخص بھی ہے، ان کے پاس مجلس میں بیٹھنے نہیں بلکہ کسی ضرورت سے آیا تھا، (اور بیٹھ گیا تھا) اللہ فرماتا ہے، یہ ایسے (معزز و مکرم) لوگ ہیں کہ ان کا ہم نشیں بھی محروم نہیں رہ سکتا (ہم نے اسے بھی بخش دیا) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٠١٥، و ١٢٥٤٠) ، و مسند احمد (٢/٢٥١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3600

【232】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «لا حول ولا قوة إلا بالله» کثرت سے پڑھا کرو، کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ۔ مکحول کہتے ہیں : جس نے کہا : «لا حول ولا قوة إلا بالله ولا منجا من اللہ إلا إليه» تو اللہ تعالیٰ اس سے ستر طرح کے ضرر و نقصان کو دور کردیتا ہے، جن میں کمتر درجے کا ضرر فقر (و محتاجی) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس کی سند متصل نہیں ہے، مکحول نے ابوہریرہ (رض) سے نہیں سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٦٢١) (صحیح) (سند میں مکحول اور ابوہریرہ کے درمیان انقطاع ہے، اس لیے مکحول کا قول، سنداً ضعیف ہے، لیکن مرفوع حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، الصحیحة ١٠٥، ١٥٢٨) قال الشيخ الألباني : صحيح دون قول مکحول فمن قال ... فإنه مقطوع، الصحيحة (105 و 1528) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3601

【233】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر نبی کی ایک دعا مقبول ہوتی ہے اور میں نے اپنی دعا اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ کر رکھی ہے، اس دعا کا فائدہ ان شاء اللہ امت کے ہر اس شخص کو حاصل ہوگا جس نے مرنے سے پہلے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کیا ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨٦ (١٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٧ (٤٣٠٧) (تحفة الأشراف : ١٢٥١٢) ، و مسند احمد (٢/٢٧٥، ٣١٣، ٣٨١، ٣٩٦، ٤٠٩، ٤٢٦، ٤٣٠، ٤٨٦، ٤٨٧) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٨٥ (٢٨٤٧، ٢٨٤٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہر اس شخص کو اللہ کے رسول ﷺ کی شفاعت نصیب ہوگی جس نے کسی قسم کا شرک نہیں کیا ہوگا مشرک خواہ غیر مسلموں کا ہو ، یا نام نہاد مسلمانوں کا شرک کے مرتکب کو یہ شفاعت نصیب نہیں ہوگی ، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حق مذہب وہی ہے جس کے قائل سلف صالحین ہیں ، یعنی موحد گناہوں کے سبب ہمیشہ ہمیش جہنم میں نہیں رہے گا ، گناہوں کی سزا بھگت کر آخری میں جنت میں جانے کی اجازت مل جائے گی ، الا یہ کہ توبہ کرچکا ہو تو شروع ہی میں جنت میں چلا جائے گا ، ان شاء اللہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3602

【234】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کہتا ہے : میں اپنے بندے کے میرے ساتھ گمان کے مطابق ہوتا ہوں ١ ؎، جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے جی میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے جماعت (لوگوں) میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں (یعنی فرشتوں میں) اگر کوئی مجھ سے قریب ہونے کے لیے ایک بالشت آگے بڑھتا ہے تو اس سے قریب ہونے کے لیے میں ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہوں، اور اگر کوئی میری طرف ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتا ہوں، اگر کوئی میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس حدیث کی تفسیر میں اعمش سے مروی ہے کہ اللہ نے یہ جو فرمایا ہے کہ جو شخص میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں ، اس سے مراد یہ ہے کہ میں اپنی رحمت و مغفرت کا معاملہ اس کے ساتھ کرتا ہوں، ٣- اور اسی طرح بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر یہ کی ہے کہ اس سے مراد جب بندہ میری اطاعت اور میرے مامورات پر عمل کر کے میری قربت حاصل کرنا چاہتا ہے تو میں اپنی رحمت و مغفرت لے کر اس کی طرف تیزی سے لپکتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التوحید ١٥ (٧٤٠٥) ، و ٣٥ (٧٥٠٥) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٦ (٢٦٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٨ (٣٨٢٢) (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٥) (وراجع ماتقدم عند المؤلف في الزہد (برقم ٢٣٨٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3822) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3603 سعید بن جبیر اس آیت : «فاذکروني أذكركم» کے بارے میں فرماتے ہیں : «اذکروني» سے مراد یہ ہے کہ میری اطاعت کے ساتھ مجھے یاد کرو میں تمہاری مغفرت میں تجھے یاد کروں گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : اگر مومن بندہ اپنے تئیں اللہ سے یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے گا ، میرے اوپر رحمت کرے ، مجھے دین و دنیا میں بھلائی سے بہرہ ور کے گا ، تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اس حسن ظن کے مطابق معاملہ کرتا ہے ، بعض شارحین کہتے ہیں : یہاں ظن گمان نہیں یقین کے معنی میں ہے ، یعنی : بندہ جیسا اللہ سے یقین رکھتا ہے اللہ ویسا ہی اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3822) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3603

【235】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «استعيذوا بالله من عذاب جهنم واستعيذوا بالله من عذاب القبر استعيذوا بالله من فتنة المسيح الدجال واستعيذوا بالله من فتنة المحيا والممات» اللہ سے پناہ مانگو جہنم کے عذاب سے، اللہ سے پناہ مانگو قبر کے عذاب سے، اللہ سے پناہ مانگو مسیح دجال کے فتنے سے اور اللہ سے پناہ مانگو زندگی اور موت کے فتنے سے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٩٢ (٥٩٠) ، و مسند احمد (٢/٢٩٠) (تحفة الأشراف : ١٢٧٥٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد، صفة الصلاة (163) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3604