45. مناقب کا بیان

【1】

نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کے بارے میں

واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے اسماعیل (علیہ السلام) کا انتخاب فرمایا ١ ؎ اور اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے بنی کنانہ کا، اور بنی کنانہ میں سے قریش کا، اور قریش میں سے بنی ہاشم کا، اور بنی ہاشم میں سے میرا انتخاب فرمایا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ١ (٢٢٧٦) (تحفة الأشراف : ١١٧٤١) ، مسند احمد (٤/١٠٧) (صحیح) (پہلا فقرہ إن اللہ اصطفی من ولد إبراهيم إسماعيل کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے، اس سند میں محمد بن مصعب صدوق کثیر الغلط راوی ہیں، اور آگے آنے والی حدیث میں یہ پہلا فقرہ نہیں ہے، اس لیے یہ ضعیف ہے، الصحیحة ٣٠٢) وضاحت : ١ ؎ : صحیح مسلم میں اگلی حدیث کی طرح یہ ٹکڑا نہیں ہے ، یہ محم بن مصعب کی روایت سے ہے جو کثیر الغلط ہیں ، اس لیے یہ ضعیف ہے ، معنی کے لحاظ سے بھی یہ ٹکڑا صحیح نہیں ہے ، اس سے دوسرے ان انبیاء کی نسب کی تنقیص لازم آتی ہے ، جو اسحاق (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں ، اس کے بعد والے اجزاء میں اس طرح کی کوئی بات نہیں اس حدیث سے نبی کریم محمد بن عبداللہ عبدالمطلب کے سلسلہ نسب کے شروع سے اخیر تک اشرف نسب ہونے پر روشنی پڑتی ہے ، نبی قوم کے اشرف نسب ہی میں مبعوث ہوتا ہے ، تاکہ کسی کے لیے کسی بھی مرحلے میں اس کی اعلیٰ نسبی اس نبی پر ایمان لانے میں رکاوٹ نہ بن سکے ، یہ بھی اللہ کی اپنے بندوں پر ایک طرح کی مہربانی ہی ہے کہ اس کے اپنے وقت کے نبی پر ایمان لانے میں کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ سی بات رکاوٹ نہ بن سکے ، «فالحمدللہ الرحمن الرحیم»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون الاصطفاء الأول، الصحيحة (302) ، ويأتى برقم (3869) ، (3687) // أي في صحيح سنن الترمذي - باختصار السند - برقم (2855 / 1 - 3869) ، ضعيف الجامع الصغير (1553) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3605

【2】

نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کے بارے میں

واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے کنانہ کا انتخاب فرمایا اور کنانہ سے قریش کا اور قریش میں سے ہاشم کا اور بنی ہاشم میں سے میرا انتخاب فرمایا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) (الصحیحة ٣٠٢) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (302) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3606

【3】

نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کے بارے میں

عباس بن عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! قریش کے لوگ بیٹھے اور انہوں نے قریش میں اپنے حسب کا ذکر کیا تو آپ کی مثال کھجور کے ایک ایسے درخت سے دی جو کسی کوڑے خانہ پر (اگا) ہو تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا، اس نے اس میں سے دو گروہوں کو پسند کیا، اور مجھے ان میں سب سے اچھے گروہ (یعنی اولاد اسماعیل) میں پیدا کیا، پھر اس نے قبیلوں کو چنا اور مجھے بہتر قبیلے میں سے کیا، پھر گھروں کو چنا اور مجھے ان گھروں میں سب سے بہتر گھر میں کیا، تو میں ذاتی طور پر بھی ان میں سب سے بہتر ہوں اور گھرانے کے اعتبار سے بھی بہتر ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر مایأتي ( تحفة الأشراف : ٥١٣٠) (ضعیف) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف نقد الکتاني (31 - 32) ، الضعيفة (3073) // ضعيف الجامع الصغير (1605) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3607

【4】

نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کے بارے میں

مطلب بن ابی وداعہ کہتے ہیں کہ عباس (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، گویا انہوں نے کوئی چیز سنی تھی، تو نبی اکرم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا : میں کون ہوں ؟ لوگوں نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں سلامتی ہو آپ پر، آپ نے فرمایا : میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں، اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے ان کے سب سے بہتر مخلوق میں کیا، پھر ان کے دو گروہ کئے تو مجھے ان کے بہتر گروہ میں کیا، پھر انہیں قبیلوں میں بانٹا تو مجھے ان کے سب سے بہتر قبیلہ میں کیا، پھر ان کے کئی گھر کیے تو مجھے ان کے سب سے بہتر گھر میں کیا اور شخصی طور پر بھی مجھے ان میں سب سے بہتر بنایا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- جس طرح اسماعیل بن ابی خالد نے یزید بن ابی زیاد سے اور یزید بن ابی زیاد نے عبداللہ بن حارث کے واسطہ سے عباس بن عبدالمطلب سے روایت کی ہے اسی طرح سفیان ثوری نے بھی یزید بن ابی زیاد سے روایت کی ہے (وہ یہی روایت ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٥٣٢ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (3073) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3608

【5】

نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! نبوت آپ کے لیے کب واجب ہوئی ؟ تو آپ نے فرمایا : جب آدم روح اور جسم کے درمیان تھے ١ ؎۔ (یعنی ان کی پیدائش کی تیاری ہو رہی تھی) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- اس باب میں میسرہ فجر سے بھی روایت آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٣٩٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہی وہ مشہور حدیث ہے جس کی تشریح میں اہل بدعت حد سے زیادہ غلو کا شکار ہوئے ہیں حتیٰ کہ دیگر انبیاء (علیہم السلام) کی تنقیص تک بات جا پہنچی ہے ، حالانکہ اس میں صرف اتنی بات بیان ہوئی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے میرے لیے نبوت کا فیصلہ ( بطور تقدیر ) کردیا گیا تھا ، ظاہر بات ہے کہ کسی کے لیے کسی بات کا فیصلہ روز ازل میں اللہ نے لکھ دیا تھا ، اور روز ازل آدم (علیہ السلام) پیدائش سے پہلے ، اس حدیث کے ثابت الفاظ یہی ہیں باقی دوسرے الفاظ ثابت نہیں ہیں جیسے «کنت نبیا وآدم بین الماء والطین» میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم ابھی اور مٹی کے درمیان تھے اسی طرح «کنت نبیا ولاماء ولا طین» میں اس وقت نبی تھا جب نہ پانی تھا نہ مٹی ، یعنی تخلیق کائنات سے پہلے ہی میں نبی تھا ان الفاظ کے بارے میں علماء محدثین نے «لا اصل لہ» فرمایا ہے ، یعنی ان الفاظ کے ساتھ اس حدیث کی کوئی صحیح کیا غلط سند تک نہیں اللہ غلو سے بچائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1856) ، المشکاة (5758) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3609

【6】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب لوگ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے تو میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہوگی اور جب وہ دربار الٰہی میں آئیں گے تو میں ان کا خطیب ہوں گا، اور جب وہ مایوس اور ناامید ہوجائیں گے تو میں انہیں خوشخبری سنانے والا ہوں گا، حمد کا پرچم اس دن میرے ہاتھ میں ہوگا، اور میں اپنے رب کے نزدیک اولاد آدم میں سب سے بہتر ہوں اور یہ کوئی فخر کی بات نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٣١) (ضعیف) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5765) // ضعيف الجامع الصغير (1309) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3610

【7】

None

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہو گی پھر مجھے جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا، پھر میں عرش کے داہنی جانب کھڑا ہوں گا، میرے علاوہ وہاں مخلوق میں سے کوئی اور کھڑا نہیں ہو سکے گا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

【8】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہوگی پھر مجھے جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا، پھر میں عرش کے داہنی جانب کھڑا ہوں گا، میرے علاوہ وہاں مخلوق میں سے کوئی اور کھڑا نہیں ہو سکے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٥٥٦) (ضعیف) (سند میں حسین بن یزید کوفی، لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5766) // ضعيف الجامع الصغير (1311) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3611 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ سے میرے لیے وسیلہ کا سوال کرو، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وسیلہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ جنت کا سب سے اونچا درجہ ہے جسے صرف ایک ہی شخص پاسکتا ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہوں گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے، ٢- کعب غیر معروف شخص ہیں، ہم لیث بن سلیم کے علاوہ کسی اور کو نہیں جانتے ہیں جس نے ان سے روایت کی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٢٩٥) (صحیح) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف، اور کعب مدنی مجہول راوی ہیں، لیکن حدیث نمبر ٣٦١٤ سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں مذکورہ وسیلہ سے وہی وسیلہ مراد ہے ، جس کی دعا ایک امتی نبی کریم ﷺ کے لیے ہر اذان کے بعد کرتا ہے ،«اللہم آت محمد الوسیلۃ» اے اللہ ! محمد ﷺ کو وسیلہ عطا فرما اس حدیث میں آپ نے جو امت کو اپنے لیے وسیلہ طلب کرنے کے لیے فرمایا خود ہی اس طلب کو اذان کی بعد والی دعا میں کردیا ، اذان سے باہر بھی آدمی نہ دعا کرسکتا ہے ، یہ دعا کرنے سے خود آدمی کو دعا کا ثواب ملا کرے گا ، آپ کو تو وسیلہ عطا کیا جانے والا ہی ہے ، اسی لیے آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ اس سے سرفراز ہونے والا میں ہی ہوں گا تو یقیناً آپ ہی ہوں گے ، اس حدیث سے آپ کی فضیلت واضح طور پر ظاہر ہو رہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5767) ، وهو الآتی (3876) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3612

【9】

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انبیاء میں میری مثال ایک ایسے آدمی کی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور اسے بہت اچھا بنایا، مکمل اور نہایت خوبصورت بنایا، لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس میں پھرتے تھے اور اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے، کاش اس اینٹ کی جگہ بھی پوری ہوجاتی، تو میں نبیوں میں ایسے ہی ہوں جیسی خالی جگہ کی یہ اینٹ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٢) ، و مسند احمد (٥/١٣٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج فقه السيرة (141) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3613 اور اسی سند سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے آپ نے فرمایا : جب قیامت کا دن ہوگا تو میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب ہوں گا اور ان کی شفاعت کرنے والا ہوں گا اور (اور اس پر مجھے) کوئی گھمنڈ نہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث منجملہ ان احادیث کے ہے جن سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آپ ہی آخری نبی ہیں ، آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہے ، تو فرمایا کہ میں وہ آخری اینٹ ہوں اب اس اینٹ کے جگہ پر جانے کے بعد کسی اور اینٹ کی ضرورت ہی کیا رہ گئے شاعر نے اس حدیث کی کیا خوب ترجمانی کی ہے : قصر ہدیٰ کے آخری پتھر ہیں مصطفی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج فقه السيرة (141) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3613

【10】

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جب تم مؤذن کی آواز سنو تو وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے ١ ؎ پھر میرے اوپر صلاۃ (درود) بھیجو کیونکہ جس نے میرے اوپر ایک بار درود بھیجا تو اللہ اس پر دس بار اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا، پھر میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت میں ایک (ایسا بلند) درجہ ہے جس کے لائق اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں اور جس نے میرے لیے (اللہ سے) وسیلہ مانگا تو اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوگئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : اس سند میں مذکور عبدالرحمٰن بن جبیر قرشی، مصری اور مدنی ہیں اور نفیر کے پوتے عبدالرحمٰن بن جبیر شامی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٧ (٣٤٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦ (٥٢٣) ، سنن النسائی/الأذان ٣٧ (٦٧٩) (تحفة الأشراف : ٨٨٧١) ، و مسند احمد (٢/١٦٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : سوائے «حي علی الصلاة ، حي علی الفلاح» کے اس جواب میں کہا جائے گا ، «لا حول ولا قوة إلا بالله» مطلب یہ ہے کہ مؤذن جو صلاۃ و فلاح کے لیے پکار رہا ہے ، تو اس پکار کا جواب ہم بندے بغیر اللہ کے عطا کردہ طاقت و توفیق کے نہیں دے سکتے ، یعنی صلاۃ میں نہیں حاضر ہوسکتے جب تک کہ اللہ کی مدد اور توفیق نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (242) ، التعليق علی بداية السول (20 / 52) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3614

【11】

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور میرے ہاتھ میں حمد کا پرچم ہوگا اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں، اور آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہوں گے سب میرے پرچم کے نیچے ہوں گے، اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس کے لیے زمین شق ہوگی، اور سب سے پہلے قبر سے میں اٹھوں گا اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے، ٢- اسے اسی سند سے ابونضرہ سے روایت ہے، وہ اسے ابن عباس (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣١٤٨ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ تمام باتیں نبی اکرم ﷺ کی دیگر انبیاء پر فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ گھمنڈ اس لیے نہیں کہ یہ سب کچھ اللہ عزوجل کے خاص فضل و انعام سے ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4308) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3615

【12】

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگ بیٹھے آپ کے حجرے سے نکلنے کا انتظار کر رہے تھے، کہتے ہیں : پھر آپ نکلے یہاں تک کہ جب آپ ان کے قریب آئے تو انہیں آپس میں بحث کرتے سنا، آپ نے ان کی باتیں سنیں، کوئی کہہ رہا تھا، تعجب ہے اللہ نے اپنی مخلوق میں سے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا دوست بنایا، دوسرے نے کہا : موسیٰ سے اس کا کلام کرنا کتنا زیادہ تعجب خیز معاملہ ہے، اور ایک نے کہا : عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں، اور ایک دوسرے نے کہا : آدم کو اللہ نے تو چن لیا ہے، تو آپ نکل کر ان کے سامنے آئے اور انہیں سلام کیا اور فرمایا : میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) کے خلیل اللہ ہونے پر تعجب میں پڑنے کو بھی، واقعی وہ ایسے ہی ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کے اللہ کے نجی اللہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں اور آدم کے اللہ کا برگزیدہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں، سن لو ! میں اللہ کا حبیب ہوں اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں، قیامت کے دن حمد کا پرچم میرے ہاتھ میں ہوگا اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں اور قیامت کے دن میں پہلا وہ شخص ہوں گا جو شفاعت (سفارش) کرے گا اور جس کی شفاعت (سفارش) سب سے پہلے قبول کی جائے گی اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جو جنت کی کنڈی ہلائے گا تو اللہ میرے لیے جنت کو کھول دے گا، پھر وہ مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ فقراء مومنین ہوں گے اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں اور میں اگلوں اور پچھلوں میں سب سے زیادہ معزز ہوں اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٠٩٥) (ضعیف) (سند میں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5762) // ضعيف الجامع الصغير (4077) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3616

【13】

عبداللہ بن سلام (رض) سے روایت ہے کہ تورات میں محمد ﷺ کے احوال لکھے ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ عیسیٰ بن مریم انہیں کے ساتھ دفن کئے جائیں گے۔ ابوقتیبہ کہتے ہیں کہ ابومودود نے کہا : حجرہ مبارک میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، سند میں راوی نے عثمان بن ضحاک کہا اور مشہور ضحاک بن عثمان مدنی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٣٣٦) (ضعیف) (سند میں عثمان بن ضحاک ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : اس معنی کی کئی احادیث وارد ہیں ، مگر سب پر کلام ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ قرب قیامت میں جب عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہوں گے ، تو پینتالیس زندہ رہ کر جب وفات پائیں گے تو قبر نبوی کے پاس دفن ہوں گے ، «واللہ اعلم»۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5772) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3617

【14】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب وہ دن ہوا جس میں رسول اللہ ﷺ (پہلے پہل) مدینہ میں داخل ہوئے تو اس کی ہر چیز پرنور ہوگئی، پھر جب وہ دن آیا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو اس کی ہر چیز تاریک ہوگئی اور ابھی ہم نے آپ کے دفن سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے کہ ہمارے دل بدل گئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٦٥ (١٦٣١) (تحفة الأشراف : ٢٦٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان میں وہ نور ایمان باقی نہیں رہا جو آپ کی زندگی میں تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1631) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3618

【15】

نبی اکرم ﷺ کی پیدائش کے بارے میں

قیس بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں واقعہ فیل ١ ؎ کے سال پیدا ہوئے، وہ کہتے ہیں : عثمان بن عفان نے قباث بن اشیم (جو قبیلہ بنی یعمر بن لیث کے ایک فرد ہیں) سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ ﷺ ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ مجھ سے بڑے ہیں اور پیدائش میں، میں آپ سے پہلے ہوں ٢ ؎، رسول اللہ ﷺ ہاتھی والے سال میں پیدا ہوئے، میری ماں مجھے اس جگہ پر لے گئیں (جہاں ابرہہ کے ہاتھیوں پر پرندوں نے کنکریاں برسائی تھیں) تو میں نے دیکھا کہ ہاتھیوں کی لید بدلی ہوئی ہے اور سبز رنگ کی ہوگئی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٠٦٤) (ضعیف الإسناد) (سند میں مطلب لین الحدیث راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جس سال ابرہہ اپنے ہاتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ ڈھانے آیا تھا۔ ٢ ؎ : کیا ہی مہذب انداز ہے کہ بےادبی کا لفظ بھی استعمال نہ ہو اور مدعا بھی بیان ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3619

【16】

نبوت کی ابتداء کے متعلق

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ ابوطالب شام کی طرف (تجارت کی غرض سے) نکلے، نبی اکرم ﷺ بھی قریش کے بوڑھوں میں ان کے ساتھ نکلے، جب یہ لوگ بحیرہ راہب کے پاس پہنچے تو وہیں پڑاؤ ڈال دیا اور اپنی سواریوں کے کجاوے کھول دیے، تو راہب اپنے گرجا گھر سے نکل کر ان کے پاس آیا حالانکہ اس سے پہلے یہ لوگ اس کے پاس سے گزرتے تھے، لیکن وہ کبھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا، اور نہ ان کے پاس آتا تھا، کہتے ہیں : تو یہ لوگ اپنی سواریاں ابھی کھول ہی رہے تھے کہ راہب نے ان کے بیچ سے گھستے ہوئے آ کر رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا : یہ سارے جہان کے سردار ہیں، یہ سارے جہان کے سردار ہیں، یہ سارے جہان کے رب کے رسول ہیں، اللہ انہیں سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گا، تو اس سے قریش کے بوڑھوں نے پوچھا : تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا ؟ تو اس نے کہا : جب تم لوگ اس ٹیلے سے اترے تو کوئی درخت اور پتھر ایسا نہیں رہا جو سجدہ میں نہ گرپڑا ہو، اور یہ دونوں صرف نبی ہی کو سجدہ کیا کرتے ہیں، اور میں انہیں مہر نبوت سے پہچانتا ہوں جو شانہ کی ہڈی کے سرے کے نیچے سیب کے مانند ہے، پھر وہ واپس گیا اور ان کے لیے کھانا تیار کیا، جب وہ کھانا لے کر ان کے پاس آیا تو آپ ﷺ اونٹ چرانے گئے تھے تو اس نے کہا : کسی کو بھیج دو کہ ان کو بلا کر لائے، چناچہ آپ آئے اور ایک بدلی آپ پر سایہ کئے ہوئے تھی، جب آپ لوگوں کے قریب ہوئے تو انہیں درخت کے سایہ میں پہلے ہی سے بیٹھے پایا، پھر جب آپ بیٹھ گئے تو درخت کا سایہ آپ پر جھک گیا اس پر راہب بول اٹھا : دیکھو ! درخت کا سایہ آپ پر جھک گیا ہے، پھر راہب ان کے سامنے کھڑا رہا اور ان سے قسم دے کر کہہ رہا تھا کہ انہیں روم نہ لے جاؤ اس لیے کہ روم کے لوگ دیکھتے ہی انہیں ان کے اوصاف سے پہچان لیں گے اور انہیں قتل کر ڈالیں گے، پھر وہ مڑا تو دیکھا کہ سات آدمی ہیں جو روم سے آئے ہوئے ہیں تو اس نے بڑھ کر ان سب کا استقبال کیا اور پوچھا آپ لوگ کیوں آئے ہیں ؟ ان لوگوں نے کہا : ہم اس نبی کے لیے آئے ہیں جو اس مہینہ میں آنے والا ہے، اور کوئی راستہ ایسا باقی نہیں بچا ہے جس کی طرف کچھ نہ کچھ لوگ نہ بھیجے گئے ہوں، اور جب ہمیں تمہارے اس راستہ پر اس کی خبر لگی تو ہم تمہاری اس راہ پر بھیجے گئے، تو اس نے پوچھا : کیا تمہارے پیچھے کوئی اور ہے جو تم سے بہتر ہو ؟ ان لوگوں نے کہا : ہمیں تو تمہارے اس راستہ پر اس کی خبر لگی تو ہم اس پر ہو لیے اس نے کہا : اچھا یہ بتاؤ کہ اللہ جس امر کا فیصلہ فرما لے کیا لوگوں میں سے اسے کوئی ٹال سکتا ہے ؟ ان لوگوں نے کہا : نہیں، اس نے کہا : پھر تم اس سے بیعت کرو، اور اس کے ساتھ رہو، پھر وہ عربوں کی طرف متوجہ ہو کر بولا : میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ تم میں سے اس کا ولی کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : ابوطالب، تو وہ انہیں برابر قسم دلاتا رہا یہاں تک کہ ابوطالب نے انہیں واپس مکہ لوٹا دیا اور ابوبکر (رض) نے آپ کے ساتھ بلال (رض) کو بھی بھیج دیا اور راہب نے آپ کو کیک اور زیتون کا توشہ دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩١٤١) (صحیح) (لیکن اس واقعہ میں بلال کا تذکرہ صحیح نہیں ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح فقه السيرة، دفاع عن الحديث النبوی (62 - 72) ، المشکاة (5918) ، لکن ذکر بلال فيه منکر كما قيل صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3620

【17】

نبی اکرم ﷺ کی بعثت اور عمر مبارک کے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل کی گئی تو آپ چالیس سال کے تھے، پھر آپ مکہ میں تیرہ سال تک رہے اور مدینہ میں دس سال تک، اور آپ کی وفات ہوئی تو آپ ترسٹھ ( ٦٣) سال کے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٢٨ (٣٨٥١) ، ٤٥ (٣٩٠٢، ٣٩٠٣) (تحفة الأشراف : ٦٢٢٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (317) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3621

【18】

نبی اکرم ﷺ کی بعثت اور عمر مبارک کے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ پینسٹھ ( ٦٥) سال کے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اسی طرح سے ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ہے اور ان سے محمد بن اسماعیل بخاری نے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٢٢٧) (شاذ) وضاحت : ١ ؎ : یہی بات شاذ ہے ، محفوظ بات یہ ہے کہ آپ ترسٹھ سال کے تھے جیسا کہ پچھلی حدیث میں ہے ، ممکن ہے کسی نے پیدائش کے سال اور وفات کے سال کو پورا پورا ایک سال جوڑ لیا ہو ، اور اس طرح پینسٹھ بتادیا ہو ؟ قال الشيخ الألباني : شاذ المصدر نفسه // مختصر الشمائل (320) ، وسيأتي (751 / 3912) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3622

【19】

نبی اکرم ﷺ کی بعثت اور عمر مبارک کے متعلق

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نہ بہت لمبے قد والے تھے نہ بہت ناٹے اور نہ نہایت سفید، نہ بالکل گندم گوں، آپ کے سر کے بال نہ گھنگرالے تھے نہ بالکل سیدھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیسویں سال کے شروع میں مبعوث فرمایا، پھر مکہ میں آپ دس برس رہے اور مدینہ میں دس برس اور ساٹھویں برس ١ ؎ کے شروع میں اللہ نے آپ کو وفات دی اور آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہیں رہے ہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٤٧، و ٣٥٤٨) ، واللباس ٦٨ (٥٩٠٠) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣١ (٢٣٤٧) (تحفة الأشراف : ٨٣٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ آپ ساٹھ ( ٦٠) برس کے تھے ان لوگوں نے کسور عدد کو چھوڑ کر صرف دہائیوں کے شمار پر اکتفا کیا ہے ، اور جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ آپ پینسٹھ سال کے تھے تو ان لوگوں نے سن وفات اور سن پیدائش کو بھی شمار کرلیا ہے ، لیکن سب سے صحیح قول ان لوگوں کا ہے جو ترسٹھ ( ٦٣) برس کے قائل ہیں ، کیونکہ ترسٹھ برس والی روایت زیادہ صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل رقم (1) ، وقد مضی شطره الأول (1823) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3623

【20】

نبی اکرم ﷺ کے معجزات اور خصوصیات کے متعلق

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مکہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے ان راتوں میں جن میں میں مبعوث کیا گیا تھا سلام کیا کرتا تھا، اسے میں اب بھی پہچانتا ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ١ (٢٢٧٧) (تحفة الأشراف : ٢١٦٥) ، و مسند احمد (٥/٥٩، ٩٥) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٤ (٢٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ ایک معجزہ تھا جو آپ کے نبی ہونے کی دلیل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3624

【21】

نبی اکرم ﷺ کے معجزات اور خصوصیات کے متعلق

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک بڑے برتن میں صبح سے شام تک کھاتے رہے، دس آدمی اٹھتے تھے اور دس بیٹھتے تھے، ہم نے (سمرہ سے) کہا : تو اس پیالہ نما بڑے برتن میں کچھ بڑھایا نہیں جاتا تھا ؟ انہوں نے کہا : تمہیں تعجب کس بات پر ہے ؟ اس میں بڑھایا نہیں جاتا تھا مگر وہاں سے، اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی جانب اشارہ کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٤٦٣٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اللہ کی طرف سے معجزانہ طور پر کھانا بڑھایا جاتا رہا ، یہ آپ ﷺ کے نبی ہونے کی دلیل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5958) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3625

【22】

نبی اکرم ﷺ کے معجزات اور خصوصیات کے متعلق

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مکہ میں تھا، جب ہم اس کے بعض اطراف میں نکلے تو جو بھی پہاڑ اور درخت آپ کے سامنے آتے سبھی السلام علیک یا رسول اللہ کہتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- کئی لوگوں نے یہ حدیث ولید بن ابی ثور سے روایت کی ہے اور ان سب نے «عن عباد أبي يزيد» کہا ہے، اور انہیں میں سے فروہ بن ابی المغراء بھی ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠١٥٩) (ضعیف) (سند میں عباد بن یزید مجہول، اور ولید بن ابی ثور ضعیف اور سدی متکلم فیہ راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : فروہ بن ابی المغراء معدی کرب ، کندی ، کوفی استاذ امام بخاری ، امام ابوحاتم رازی ، امام ابوزرعہ رازی ، متوفی ٢٢٥ ھ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5919 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3626

【23】

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے، پھر لوگوں نے آپ کے لیے ایک منبر تیار کردیا، آپ نے اس پر خطبہ دیا تو وہ تنا رونے لگا جیسے اونٹنی روتی ہے جب نبی اکرم ﷺ نے اتر کر اس پر ہاتھ پھیرا تب وہ چپ ہوا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس والی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس باب میں ابی، جابر، ابن عمر، سہل بن سعد، ابن عباس اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩٤) ، و مسند احمد (٣/٢٢٦، ٢٩٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ آپ کے نبی ہونے کی دلیلوں میں سے ایک اہم دلیل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1415) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3627

【24】

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا : کیسے میں جانوں کہ آپ نبی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اگر میں اس کھجور کے درخت کی اس ٹہنی کو بلا لوں تو کیا تم میرے بارے میں اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دو گے ؟ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا تو وہ (ٹہنی) کھجور کے درخت سے اتر کر نبی اکرم ﷺ کے سامنے گر پڑی، پھر آپ نے فرمایا : لوٹ جا تو وہ واپس چلی گئی یہ دیکھ کر وہ اعرابی اسلام لے آیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٤٠٧) (صحیح) (لیکن ” فأسلم الأعرابي “ کا لفظ ثابت نہیں ہے، سند میں محمد بن اسماعیل سے مراد امام بخاری ہیں، اور محمد بن سعید بن سلیمان الکوفی ابو جعفر ثقہ ہیں، لیکن شریک بن عبداللہ القاضی ضعیف ہیں، شواہد کی بنا پر حدیث صحیح ہے، فأسلم الأعرابي یعنی اعرابی مسلمان ہوگیا، کا جملہ شاہد نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، الصحیحة ٣٣١٥) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5926 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3628

【25】

ابوزید بن اخطب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک میرے چہرے پر پھیرا اور میرے لیے دعا فرمائی، عزرہ کہتے ہیں : وہ ایک سو بیس سال تک پہنچے ہیں پھر بھی ان کے سر کے صرف چند بال سفید ہوئے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- ابوزید کا نام عمرو بن اخطب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٦٩٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایسا آپ ﷺ کے ابوزید کے چہرے پر اپنا دست مبارک پھیرنے اور دعا کی برکت سے ہوا ، یہ آپ ﷺ کے نبی ہونے کی دلیل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3629

【26】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ابوطلحہ (رض) نے ام سلیم (رض) سے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی، وہ کمزور تھی، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ بھوکے ہیں، کیا تمہارے پاس کوئی چیز کھانے کی ہے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں، تو انہوں نے جو کی کچھ روٹیاں نکالیں پھر اپنی اوڑھنی نکالی اور اس کے کچھ حصہ میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے ہاتھ یعنی بغل کے نیچے چھپا دیں اور اوڑھنی کا کچھ حصہ مجھے اڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا، جب میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ مسجد میں بیٹھے ملے اور آپ کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے، تو میں جا کر ان کے پاس کھڑا ہوگیا، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : کیا تمہیں ابوطلحہ نے بھیجا ہے ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں، آپ نے پوچھا : کھانا لے کر ؟ میں نے کہا : جی ہاں، تو رسول اللہ ﷺ نے ان تمام لوگوں سے جو آپ کے ساتھ تھے فرمایا : اٹھو چلو ، چناچہ وہ سب چل پڑے اور میں ان کے آگے آگے چلا، یہاں تک کہ میں ابوطلحہ (رض) کے پاس آیا اور انہیں اس کی خبر دی، ابوطلحہ (رض) نے کہا : ام سلیم ! رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے ہیں، اور لوگ بھی آپ کے ساتھ ہیں اور ہمارے پاس کچھ نہیں جو ہم انہیں کھلائیں، ام سلیم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کو خوب معلوم ہے، تو ابوطلحہ (رض) چلے اور آ کر رسول اللہ ﷺ سے ملے، تو رسول اللہ ﷺ آئے اور ابوطلحہ (رض) آپ کے ساتھ تھے، یہاں تک کہ دونوں اندر آ گئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ام سلیم ! جو تمہارے پاس ہے اسے لے آؤ، چناچہ وہ وہی روٹیاں لے کر آئیں، رسول اللہ ﷺ نے انہیں توڑنے کا حکم دیا، چناچہ وہ توڑی گئیں اور ام سلیم نے اپنے گھی کی کُپّی کو اس پر اوندھا کردیا اور اسے اس میں چیپڑ دیا، پھر اس پر رسول اللہ ﷺ نے پڑھا جو اللہ نے پڑھوانا چاہا، پھر آپ نے فرمایا : دس آدمیوں کو اندر آنے دو ، تو انہوں نے انہیں آنے دیا اور وہ کھا کر آسودہ ہوگئے، پھر وہ نکل گئے، پھر آپ نے فرمایا : دس کو اندر آنے دو ، تو انہوں نے انہیں آنے دیا وہ بھی کھا کر خوب آسودہ ہوگئے اور نکل گئے، اس طرح سارے لوگوں نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا اور وہ سب کے سب ستر یا اسی آدمی تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤٣ (٤٢٢) ، والمناقب ٢٥ (٣٥٧٨) ، والأطعمة ٦ (٥٣٨١) ، والأیمان والنذور ٢٢ (٦٦٨٨) ، صحیح مسلم/الأشربة والأطعمة ٢٠ (٢٠٤٠) (تحفة الأشراف : ٢٠٠) ، وط/صفة النبی ﷺ ١٠ (١٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : آپ کی دعا کی برکت سے کھانا معجزانہ طور پر اتنا زیادہ ہوا کہ ستر اسی لوگوں نے اس سے شکم سیر ہو کر کھایا ، یہ معجزا تھا جو آپ ﷺ کے نبی ہونے کی ایک اہل دلیل ہے ، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ ﷺ کو بھی بھوک لگتی تھی ، کیونکہ آپ بھی فطرتاً انسان تھے ، بعض علماء کا یہ کہنا بالکل یہ درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کھلاتا پلاتا تھا اس لیے آپ کو بھوک نہیں لگتی تھی ، کبھی ایسا بھی ہوتا تھا ، اور کبھی بھوک بھی لگتی تھی ، ورنہ پیٹ پر پتھر کیوں باندھتے ، آواز کیوں نحیف ہوجاتی ؟ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3630

【27】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، عصر کا وقت ہوگیا تھا، لوگوں نے وضو کا پانی ڈھونڈھا، لیکن وہ نہیں پا سکے، اتنے میں رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ وضو کا پانی لایا گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس سے وضو کریں، وہ کہتے ہیں : تو میں نے آپ کی انگلیوں کے نیچے سے پانی ابلتے دیکھا، پھر لوگوں نے وضو کیا یہاں تک کہ ان میں کا جو سب سے آخری شخص تھا اس نے بھی وضو کرلیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمران بن حصین، ابن مسعود، جابر اور زیاد بن حارث صدائی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٢ (١٦٩) ، و ٤٥ (١٩٥) ، و ٤٦ (٢٠٠) ، والمناقب ٢٥ (٣٥٧ ¤ ٢- ٣٥٧٥) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣ (٢٢٧٩) ، سنن النسائی/الطھارة ٦١ (٧٦) (تحفة الأشراف : ٢٠١) ، وط/الطھارة ٦ (٣٢) ، و مسند احمد (٣/١٤٧، ١٧٠، ٢١٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3631

【28】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ پہلی وہ چیز جس سے رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی ابتداء ہوئی اور جس وقت اللہ نے اپنے اعزاز سے آپ کو نوازنے اور آپ کے ذریعہ بندوں پر اپنی رحمت و بخشش کا ارادہ کیا وہ یہ تھی کہ آپ جو بھی خواب دیکھتے تھے اس کی تعبیر صبح کے پو پھٹنے کی طرح ظاہر ہوجاتی تھی ١ ؎، پھر آپ کا حال ایسا ہی رہا جب تک اللہ نے چاہا، ان دنوں خلوت و تنہائی آپ کو ایسی مرغوب تھی کہ اتنی مرغوب کوئی اور چیز نہ تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٦١٢) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو خواب بھی آپ دیکھتے وہ بالکل واضح طور پر پورا ہوجاتا تھا ، یہ آپ ﷺ کی نبوت کی ابتدائی حالت تھی ، پھر کلامی وحی کا سلسلہ «اقراء باسم ربک» سے شروع ہوگیا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3632

【29】

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ تم لوگ اللہ کی نشانیوں کو عذاب سمجھتے ہو اور ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اسے برکت سمجھتے تھے، ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور ہم کھانے کو تسبیح پڑھتے سنتے تھے، نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک برتن لایا گیا اس میں آپ نے اپنا ہاتھ رکھا تو آپ کی انگلیوں کے بیچ سے پانی ابلنے لگا، پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آؤ اس برکت پانی سے وضو کرو اور یہ بابرکت آسمان سے نازل ہو رہی ہے، یہاں تک کہ ہم سب نے وضو کرلیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٥٧٩) (تحفة الأشراف : ٩٤٥٤) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٥ (٣٠) ، و مسند احمد (١/٤٦٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3633

【30】

نزول وحی کی کیفیت کے متعلق

آتی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کبھی کبھی وہ میرے پاس گھنٹی کی آواز ١ ؎ کی طرح آتی ہے اور یہ میرے لیے زیادہ سخت ہوتی ہے ٢ ؎ اور کبھی کبھی فرشتہ میرے سامنے آدمی کی شکل میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے، تو وہ جو کہتا ہے اسے میں یاد کرلیتا ہوں، عائشہ (رض) کہتی ہیں : چناچہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سخت جاڑے کے دن میں آپ پر وحی اترتے دیکھی جب وہ وحی ختم ہوتی تو آپ کی پیشانی پر پسینہ آیا ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الوحی ٢ (٢) ، وبدء الخلق ٦ (٣٢١٥) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٣ (٢٣٣٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٧ (٩٣٤، ٩٣٥) (تحفة الأشراف : ١٧١٥٢) ، وط/القرآن ٤ (٧) ، و مسند احمد (٦/١٥٨، ١٦٣، ٢٥٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کہتے ہیں : یہ آواز جبرائیل (علیہ السلام) کی آواز ہوتی تھی جو ابتداء میں غیر مفہوم ہوتی تھی ، پھر سمجھ میں آ جاتی مگر بہت مشکل سے ، اسی لیے یہ شکل آپ پر وحی کی تمام قسموں سے سخت ہوتی تھی کہ آپ پسینہ پسینہ ہوجایا کرتے تھے ، بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ جبرائیل (علیہ السلام) کے پروں کی آواز ہوتی تھی ، جو اس لیے ہوتی کہ آپ ﷺ وحی کے لیے چوکنا ہوجائیں۔ ٢ ؎ : سب سے سخت ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس کے سمجھنے میں دشواری ہوتی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3634

【31】

نبی اکرم ﷺ کی صفات کے متعلق

براء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو جس کے بال کان کی لو کے نیچے ہوں سرخ جوڑے ١ ؎ میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال آپ کے دونوں کندھوں سے لگے ہوتے تھے ٢ ؎، اور آپ کے دونوں کندھوں میں کافی فاصلہ ہوتا تھا ٣ ؎، نہ آپ پستہ قد تھے نہ بہت لمبے ٤ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٧٢٤ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : آپ کے بالوں کی مختلف اوقات میں کئی حالت ہوا کرتی تھی ، کبھی آدھے کانوں تک ، کبھی کانوں کے لؤوں تک ، کبھی آدھی گردن تک ، اور کبھی کندھوں کو چھوتے ہوئے۔ ٢ ؎ : مردوں کے لال کپڑے پہننے کے سلسلے میں علماء درمیان مختلف روایات کی وجہ سے اختلاف ہے ، زیادہ تر لوگ کہتے ہیں کہ آپ کا یہ جوڑا ایسا تھا کہ اس کا تانہ لال رنگ تھا ، یہ بالکل خالص لال نہیں تھا ، کیونکہ آپ نے خود خالص لال سے مردوں کے لیے منع کیا ہے ، ( دیکھئیے کتاب اللباس میں مردوں کے لیے لال کپڑے پہننے کا باب ) ۔ ٣ ؎ : یعنی آپ کے کندھے کافی چوڑے تھے۔ ٤ ؎ : ناٹا اور لمبا ہونا دونوں معیوب صفتیں ہیں ، آپ درمیانی قد کے تھے ، عیب سے مبرا ، ماشاء اللہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی (1794) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3635

【32】

ابواسحاق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے براء سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح تھا ؟ انہوں نے کہا : نہیں، بلکہ چاند کی مانند تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٥٢) (تحفة الأشراف : ١٨٣٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (9) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3636

【33】

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نہ لمبے تھے نہ پستہ قد، آپ کی ہتھیلیاں اور پاؤں گوشت سے پُر تھے، آپ بڑے سر اور موٹے جوڑوں والے تھے، (یعنی گھٹنے اور کہنیاں گوشت سے پُر اور فربہ تھیں) ، سینہ سے ناف تک باریک بال تھے، جب چلتے تو آگے جھکے ہوئے ہوتے گویا آپ اوپر سے نیچے اتر رہے ہیں، میں نے نہ آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد کسی کو آپ جیسا دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٢٨٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (40) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3637 ہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے میرے باپ وکیع نے بیان کیا اور انہوں نے مسعودی سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (40) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3637

【34】

ابراہیم بن محمد جو علی بن ابی طالب (رض) کی اولاد میں سے ہیں ان سے روایت ہے کہ علی (رض) جب نبی اکرم ﷺ کا حلیہ بیان کرتے تو کہتے : نہ آپ بہت لمبے تھے نہ بہت پستہ قد، بلکہ لوگوں میں درمیانی قد کے تھے، آپ کے بال نہ بہت گھونگھریالے تھے نہ بالکل سیدھے، بلکہ ان دونوں کے بیچ میں تھے، نہ آپ بہت موٹے تھے اور نہ چہرہ بالکل گول تھا، ہاں اس میں کچھ گولائی ضرور تھی، آپ گورے سفید سرخی مائل، سیاہ چشم، لمبی پلکوں والے، بڑے جوڑوں والے اور بڑے شانہ والے تھے، آپ کے جسم پر زیادہ بال نہیں تھے، صرف بالوں کا ایک خط سینہ سے ناف تک کھنچا ہوا تھا، دونوں ہتھیلیاں اور دونوں قدم گوشت سے پُر تھے جب چلتے زمین پر پیر جما کر چلتے، پلٹتے تو پورے بدن کے ساتھ پلٹتے، آپ کے دونوں شانوں کے بیچ میں مہر نبوت تھی، آپ خاتم النبیین تھے، لوگوں میں آپ سب سے زیادہ سخی تھے، آپ کھلے دل کے تھے، یعنی آپ کا سینہ بغض و حسد سے آئینہ کے مانند پاک و صاف ہوتا تھا، اور سب سے زیادہ سچ بولنے والے، نرم مزاج اور سب سے بہتر رہن سہن والے تھے، جو آپ کو یکایک دیکھتا ڈر جاتا اور جو آپ کو جان اور سمجھ کر آپ سے گھل مل جاتا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا، آپ کی توصیف کرنے والا کہتا : نہ آپ سے پہلے میں نے کسی کو آپ جیسا دیکھا ہے اور نہ آپ کے بعد۔ ﷺ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، اس کی سند متصل نہیں ہے، ٢- ( نسائی کے شیخ) ابو جعفر کہتے ہیں : میں نے نبی اکرم ﷺ کے حلیہ مبارک کی تفسیر میں اصمعی کو کہتے ہوئے سنا کہ «الممغط» کے معنی لمبائی میں جانے والے کے ہیں، میں نے ایک اعرابی کو سنا وہ کہہ رہا تھا «تمغط فی نشابة» یعنی اس نے اپنا تیر بہت زیادہ کھینچا اور «متردد» ایسا شخص ہے جس کا بدن ٹھنگنے پن کی وجہ سے بعض بعض میں گھسا ہوا ہو اور «قطط» سخت گھونگھریالے بال کو کہتے ہیں، اور «رَجِل» اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے بالوں میں تھوڑی خمید گی ہو اور «مطہم» ایسے جسم والے کو کہتے ہیں جو موٹا اور زیادہ گوشت والا ہو اور «مکلثم» جس کا چہرہ گول ہو اور «مشدب» وہ شخص ہے جس کی پیشانی میں سرخی ہو اور «ادعج» وہ شخص ہے جس کے آنکھوں کی سیاہی خوب کالی ہو اور «اہدب» وہ ہے جس کی پلکیں لمبی ہوں اور «کتد» دونوں شانوں کے ملنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور «مسربة» وہ باریک بال ہیں جو ایک خط کی طرح سینہ سے ناف تک چلے گئے ہوں اور «شثن» وہ شخص ہے جس کے ہتھیلیوں اور پیروں کی انگلیاں موٹی ہوں، اور «تقلع» سے مراد پیر جما جما کر طاقت سے چلنا ہے اور «صبب» اترنے کے معنی میں ہے، عرب کہتے ہیں «انحدر نافی صبوب وصبب» یعنی ہم بلندی سے اترے «جلیل المشاش» سے مراد شانوں کے سرے ہیں، یعنی آپ بلند شانہ والے تھے، اور «عشرة» سے مراد رہن سہن ہے اور «عشیرہ» کے معنیٰ رہن سہن والے کے ہیں اور «بدیھة» کے معنی یکایک اور یکبارگی کے ہیں، عرب کہتے ہیں «بَدَهْتُهُ بِأَمْرٍ» میں ایک معاملہ کو لے کر اس کے پاس اچانک آیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٠٢٤) (ضعیف) (سند میں ابراہیم بن محمد اور علی (رض) کے درمیان انقطاع ہے، ابراہیم کی ملاقات علی (رض) سے نہیں ہوئی) قال الشيخ الألباني : ضعيف مختصر الشمائل (5) ، المشکاة (5791) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3638

【35】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح جلدی جلدی نہیں بولتے تھے بلکہ آپ ایسی گفتگو کرتے جس میں ٹھہراؤ ہوتا تھا، جو آپ کے پاس بیٹھا ہوتا وہ اسے یاد کرلیتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف زہری کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- اسے یونس بن یزید نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٢١ (٤٨٣٩) (نحوہ) سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٣٩ (٤١٢) (تحفة الأشراف : ١٦٤٠٦) ، و مسند احمد (٦/١١٨، ١٣٨) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن المختصر (191) ، المشکاة (5828) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3639

【36】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (بسا اوقات) ایک کلمہ تین بار دہراتے تھے تاکہ اسے (اچھی طرح) سمجھ لیا جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف عبداللہ بن مثنیٰ کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٧٢٣ (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وقد مضی نحوه (2879) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3640

【37】

عبداللہ بن حارث بن جزء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر مسکرانے والا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٢٣٤) (صحیح) (تراجع الألبانی ٦٠٢) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (194) ، المشکاة (5829 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3641

【38】

عبداللہ بن حارث بن جزء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ہنسی صرف مسکراہٹ ہوتی تھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے لیث بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس لیے کہ قہقہہ معزز آدمی کے وقار کے خلاف ہے ، اور آپ سے بڑھ کر معزز کون ہوگا ؟۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (195) ، المشکاة أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3642

【39】

مہر نبوت کے متعلق

سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ میری خالہ مجھے نبی اکرم ﷺ کے پاس لے کر گئیں، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرا بھانجہ بیمار ہے، تو آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی، آپ نے وضو کیا تو میں نے آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی پی لیا، پھر میں آپ کے پیچھے کھڑا ہوگیا، اور میں نے آپ کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی وہ چھپر کھٹ (کے پردے) کی گھنڈی کی طرح تھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : کبوتر کے انڈے کو «زر» کہا جاتا ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس باب میں سلمان، قرہ بن ایاس مزنی، جابر بن سمرہ، ابورمثہ، بریدہ اسلمی، عبداللہ بن سرجس، عمرو بن اخطب اور ابو سعید خدری (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٠ (١٩٠) ، والمناقب ٢٢ (٣٥٤٠، ٣٥٤١) ، والمرضی ١٨ (٥٦٧٠) ، والدعوات ٣١ (٦٣٥٢) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣٠ (٢٣٤٥) (تحفة الأشراف : ٣٧٩٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : پردوں اور جھالروں کے کنارے گول مٹول گھنڈی ہوا کرتے ہیں ، ان کو دوسرے کپڑے کے کناروں میں جوڑتے ہیں ، یہی یہاں مراد ہے۔ ٢ ؎ : بعض علماء لغت نے «زر الحجلۃ» کی تفسیر ایک معروف پرندہ چکور کے انڈہ سے کیا ہے ، وہی مؤلف بھی کہہ رہے ہیں ، مگر جمہور اہل لغت نے اس کا انکار کیا ہے اس لفظ کہ «زر الحجلۃ» سے حجلہ عروسی کی چاروں کی گھنڈی ہی مراد ہے ، ویسے مہر نبوت کے بارے میں اگلی حدیث میں کبوتری کے انڈے کی مثال بھی آئی ہے ، دونوں تشبیہات میں کوئی تضاد نہیں ہے ، ایک چیز کئی چیزوں کے مثل ہوسکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (14) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3643

【40】

مہر نبوت کے متعلق

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی مہر نبوت یعنی جو آپ کے دونوں شانوں کے درمیان تھی کبوتر کے انڈے کے مانند سرخ رنگ کی ایک گلٹی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢١٤٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (15) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3644

【41】

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی دونوں پنڈلیاں مناسب باریکی ١ ؎ لیے ہوئے تھیں اور آپ کا ہنسنا صرف مسکرانا تھا، اور جب میں آپ کو دیکھتا تو کہتا کہ آپ آنکھوں میں سرمہ لگائے ہوئے ہیں، حالانکہ آپ سرمہ نہیں لگائے ہوتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢١٤٤) (ضعیف) (سند میں حجاج بن ارطاة کثیر الخطا والتدلیس راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یعنی آپ کی پنڈلیاں اتنی بھی باریک نہیں تھیں کہ جسم کے دوسرے اعضاء سے بےجوڑ ہوگئی ہوں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف المصدر نفسه // مختصر الشمائل (193) ، ضعيف الجامع الصغير (4474) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3645

【42】

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا منہ مبارک کشادہ تھا، آپ کی آنکھ کے ڈورے سرخ تھے اور ایڑیاں کم گوشت والی تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٢٧ (٢٣٣٩) (تحفة الأشراف : ٢١٨٣) (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3646

【43】

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کشادہ منہ والے تھے، آپ کی آنکھ کے ڈورے سرخ اور ایڑیاں کم گوشت والی تھیں۔ شعبہ کہتے ہیں : میں نے سماک سے پوچھا : «ضليع الفم» کے کیا معنی ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : اس کے معنی کشادہ منہ کے ہیں، میں نے پوچھا «أشكل العينين» کے کیا معنی ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : اس کے معنی بڑی آنکھ والے کے ہیں، وہ کہتے ہیں : میں نے پوچھا : «منهوش العقب» کے کیا معنی ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : کم گوشت کے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (7) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3647

【44】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا، گویا آپ کے چہرہ پر سورج پھر رہا ہے، اور نہ میں نے کسی کو آپ سے زیادہ تیز رفتار دیکھا، گویا زمین آپ کے لیے لپیٹ دی جاتی تھی، ہمیں آپ کے ساتھ چلنے میں زحمت اٹھانی پڑتی تھی اور آپ کوئی دقت محسوس کئے بغیر چلے جاتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٤٧١) (ضعیف) (سند میں ابن لھیعہ ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف المصدر نفسه // مختصر الشمائل // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3648

【45】

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انبیاء میرے سامنے پیش کئے گئے تو موسیٰ (علیہ السلام) ایک چھریرے جوان تھے، گویا وہ قبیلہ شنوءہ کے ایک فرد ہیں اور میں نے عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کو دیکھا تو میں نے جن لوگوں کو دیکھا ہے ان میں سب سے زیادہ ان سے مشابہت رکھنے والے عروہ بن مسعود (رض) ہیں اور میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا تو ان سے زیادہ مشابہت رکھنے والا تمہارا یہ ساتھی ہے ١ ؎، اور اس سے مراد آپ خود اپنی ذات کو لیتے تھے، اور میں نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا تو جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں سب سے زیادہ ان سے مشابہت رکھنے والے دحیہ کلبی ہیں، یہ خلیفہ کلبی کے بیٹے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٧٤ (١٦٧) (تحفة الأشراف : ٢٩٢٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی خود نبی اکرم ﷺ ، اس میں آپ کے حلیہ کا بیان اس طرح ہے کہ آپ شکل و صورت سے ابراہیم (علیہ السلام) سے مشابہ ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1100) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3649

【46】

نبی اکرم ﷺ کے وقت عمر کے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ پینسٹھ ( ٦٥) سال کے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٣٣ (٢٣٥٣) (تحفة الأشراف : ٦٢٩٤) (شاذ) (سند صحیح ہے، لیکن ابن عباس (رض) کو اس بابت وہم ہوگیا تھا، وفات کے وقت صحیح عمر ٦٣ سال ہے، دیکھیے ابن عباس ہی کا بیان حدیث رقم ٣٦٥٢ میں) وضاحت : ١ ؎ : دیکھئیے حاشیہ حدیث رقم : ٣٦٣١۔ قال الشيخ الألباني : شاذ ومضی (3701) // (746 / 3883) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3650

【47】

نبی اکرم ﷺ کے وقت عمر کے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ پینسٹھ ( ٦٥) سال کے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (شاذ) قال الشيخ الألباني : شاذ انظر ما قبله (3650) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3651

【48】

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں تیرہ ( ١٣) سال رہے یعنی آپ پر تیرہ سال تک وحی کی جاتی رہی اور آپ کی وفات ترسٹھ ( ٦٣) سال کی عمر میں ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی یہ حدیث عمرو بن دینار کی روایت سے حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، انس اور دغفل بن حنظلہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور دغفل کا نبی اکرم ﷺ سے نہ تو سماع صحیح ہے اور نہ ہی رؤیت۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٤٥ (٣٩٠٣) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣٣ (٣٣٥١) (تحفة الأشراف : ٦٣٠٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی (3882) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3652

【49】

جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ (رض) کو خطبہ دیتے ہوئے سنا وہ کہہ رہے تھے : رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ ترسٹھ سال کے تھے اور ابوبکر اور عمر (رض) بھی ترسٹھ سال کے تھے اور میں بھی (اس وقت) ترسٹھ سال کا ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٣٣ (٢٣٥٣) (تحفة الأشراف : ١١٤٠٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (318) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3653

【50】

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ ترسٹھ سال کے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور اسے زہری کے بھتیجے (محمد بن عبداللہ بن مسلم) نے بھی زہری سے اور زہری نے عروہ کے واسطہ سے عائشہ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ١٩ (٣٥٣٦) ، والمغازي ٨٥ (٤٤٦٦) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣٣ (٢٣٥٠) (تحفة الأشراف : ١٦٥٣٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (319) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3654

【51】

حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے مناقب ان کا نام عبداللہ بن عثمان اور لقب عتیق ہے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں ہر خلیل کی «خلت» (دوستی) سے بری ہوں اور اگر میں کسی کو خلیل (دوست) بناتا تو ابن ابی قحافہ کو، یعنی ابوبکر (رض) کو خلیل بناتا، اور تمہارا یہ ساتھی اللہ کا خلیل ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری، ابوہریرہ، ابن زبیر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١ (٢٣٨٣) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (٩٣) (تحفة الأشراف : ٩٥١٣) ، و مسند احمد (١/٣٧٧، ٣٨٩، ٣٩٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : «خُلّت» دوستی کی ایک خاص حالت ہے جس کے معنی ہیں دوست کی دوستی کا دل میں رچ بس جانا ، یہ محبت سے اعلی و ارفع حالت ہے ، اسی لیے آپ ﷺ یا ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ مقام صرف اللہ تعالیٰ کو دیا ہے ، رہی محبت کی بات تو آپ کو سارے صحابہ ، صدیقین و صالحین سے محبت ہے ، اور صحابہ میں ابوبکر صدیق (رض) کا مقام سب سے افضل ہے ، حتیٰ کہ ممکن ہوتا تو آپ ابوبکر کو خلیل بنا لیتے ، یہ بات ابوبکر (رض) کی ایک بہت بڑی فضیلت پر دلالت کر رہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3655

【52】

حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے مناقب ان کا نام عبداللہ بن عثمان اور لقب عتیق ہے

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سب سے بہتر ہیں اور وہ ہم میں رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف بهذا الاختصار وهو في سياق طويل في حديث ثقيفة بني ساعدة وبيعة أبي بکر في البخاري (فضائل الصحابة ٥ برقم : 3667، 3668) ( تحفة الأشراف : ١٠٦٧٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (6018) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3656

【53】

حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے مناقب ان کا نام عبداللہ بن عثمان اور لقب عتیق ہے

عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا : صحابہ میں سے رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ کون محبوب تھے ؟ انہوں نے کہا : ابوبکر، میں نے پوچھا : پھر کون ؟ انہوں نے کہا : عمر، میں نے پوچھا : پھر کون ؟ کہا : پھر ابوعبیدہ بن جراح، میں نے پوچھا : پھر کون ؟ تو وہ خاموش رہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٠٢) (تحفة الأشراف : ١٦٢١٢) (صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے حدیث نمبر (٣٧٥٨، نیز ٣٦٦٧) وضاحت : ١ ؎ : صحابہ کے فضائل و مناقب کے مختلف اسباب ہیں ، منجملہ سبب تو سب کا صحابی رسول ہونا ہے ، اور الگ سبب یہ ہے کہ کسی کی فضیلت اسلام میں تقدم کی وجہ سے ہے ، کسی کی اللہ و رسول سے ازحد فدائیت کی وجہ سے ہے ، اور کسی سے کسی بات میں بڑھے ہونے کی وجہ سے ہے ، اور کسی کی فضیلت دوسرے کی فضیلت کے منافی نہیں ہے ، اور اس حدیث میں جو عثمان و علی (رض) کا تذکرہ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عمر (رض) کے بعد ان دونوں کا مقام نہیں بلکہ ابوعبیدہ (رض) کا ہے ، مگر احادیث میں یہ ترتیب ثابت ہے ، کہ ابوبکر کے بعد عمر ان کے بعد عثمان اور ان کے بعد علی ، پھر ان کے بعد عشرہ مبشرہ ، پھر عام صحابہ کا مقام ہے (رض) اجمعین۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3657

【54】

حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے مناقب ان کا نام عبداللہ بن عثمان اور لقب عتیق ہے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بلند درجات والوں کو (جنت میں) جو ان کے نیچے ہوں گے، ایسے ہی دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے افق پر طلوع ہونے والے ستارے کو دیکھتے ہو اور ابوبکر و عمر (رض) دونوں انہیں میں سے ہوں گے اور کیا ہی خوب ہیں دونوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے، یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی عطیہ کے واسطہ سے ابو سعید خدری سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (٩٦) (تحفة الأشراف : ٤٢٠٢، و ٤٢٠٦، و ٤٢١٢، و ٤٢٣٣، ٤٢٣٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (96) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3658

【55】

ابومعلی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن خطبہ دیا تو فرمایا : ایک شخص کو اس کے رب نے اختیار دیا کہ وہ دینا میں جتنا رہنا چاہے رہے اور جتنا کھانا چاہے کھالے یا اپنے رب سے ملنے کو (ترجیح دے) تو اس نے اپنے رب سے ملنے کو پسند کیا، وہ کہتے ہیں : یہ سن کر ابوبکر (رض) رو پڑے، تو صحابہ نے کہا : کیا تمہیں اس بوڑھے کے رونے پر تعجب نہیں ہوتا جب رسول اللہ ﷺ نے ایک نیک بندے کا ذکر کیا کہ اس کے رب نے دو باتوں میں سے ایک کا اسے اختیار دیا کہ وہ دنیا میں رہے یا اپنے رب سے ملے، تو اس نے اپنے رب سے ملاقات کو پسند کیا۔ ابوبکر (رض) ان میں سب سے زیادہ ان باتوں کو جاننے والے تھے جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (رسول اللہ ﷺ کی بات سن کر) ابوبکر (رض) نے کہا : بلکہ ہم اپنے باپ دادا، اپنے مال سب کو آپ پر قربان کردیں گے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی آدمی ایسا نہیں جو ابن ابی قحافہ سے بڑھ کر میرا حق صحبت ادا کرنے والا ہو اور میرے اوپر اپنا مال خرچ کرنے والا ہو، اگر میں کسی کو خلیل (گہرا دوست) بناتا تو ابن ابی قحافہ کو دوست بناتا، لیکن (ہمارے اور ان کے درمیان) ایمان کی دوستی موجود ہے ۔ یہ کلمہ آپ نے دو یا تین بار فرمایا، پھر فرمایا : تمہارا یہ ساتھی (یعنی خود) اللہ کا خلیل (دوست) ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابو سعید خدری (رض) سے بھی روایت آئی ہے اور یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- یہ حدیث ابو عوانہ کے واسطہ سے عبدالملک بن عمیر سے ایک دوسری سند سے بھی آئی ہے، اور «أمن إلينا» میں «إلى» ، «علی» کے معنی میں ہے، یعنی مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢١٧٦) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابن ابی المعلی انصاری کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں : لا يعرف یعنی غیر معروف اور مجہول راوی ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے، امام ترمذی نے اس کی تحسین ابو سعید خدری کی حدیث کی وجہ سے کی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3659

【56】

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا : ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ دنیا کی رنگینی کو پسند کرے یا ان چیزوں کو جو اللہ کے پاس ہیں ، تو اس نے ان چیزوں کو اختیار کیا جو اللہ کے پاس ہیں، اسے سنا تو ابوبکر (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم نے اپنے باپ دادا اور اپنی ماؤں کو آپ پر قربان کیا ١ ؎ ہمیں تعجب ہوا، لوگوں نے کہا : اس بوڑھے کو دیکھو ! اللہ کے رسول ایک ایسے بندے کے بارے میں خبر دے رہے ہیں جسے اللہ نے یہ اختیار دیا کہ وہ یا تو دنیا کی رنگینی کو اپنا لے یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اپنا لے، اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد اور ماؤں کو آپ پر قربان کیا، جس بندے کو اللہ نے اختیار دیا وہ خود اللہ کے رسول تھے، اور ابوبکر (رض) اسے ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے، ابوبکر (رض) کی بات سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سب سے بڑھ کر میرا حق صحبت ادا کرنے والے اور سب سے زیادہ میرے اوپر اپنا مال خرچ کرنے والے ابوبکر ہیں، اگر میں کسی کو خلیل (گہرا دوست) بناتا، تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلام کی اخوت ہی کافی ہے اور مسجد میں (یعنی مسجد کی طرف) کوئی کھڑکی باقی نہ رہے سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٠ (٤٦٦) ، وفضائل الصحابة ٣ (٣٦٥٤) ، ومناقب الأنصار ٤٥ (٣٩٠٤) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١ (٢٣٨٢) (تحفة الأشراف : ٤١٤٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : ہمارے ماں باپ کی عمریں آپ کو مل جائیں تاکہ آپ کا سایہ ہم پر تادیر اور مزید قائم رہے۔ ٢ ؎ : یہ ابوبکر (رض) کی تمام صحابہ پر فضیلت کی دلیل ہے۔ مسجد نبوی میں یہ دروازہ آج بھی موجود ہے ، محراب کی دائیں جانب پہلا دروازہ باب السلام ہے اور اور دوسرا خوخۃ ابی بکر (رض) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3660

【57】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی کا ہمارے اوپر کوئی ایسا احسان نہیں جسے میں نے چکا نہ دیا ہو سوائے ابوبکر کے، کیونکہ ان کا ہمارے اوپر اتنا بڑا احسان ہے کہ جس کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن انہیں اللہ ہی دے گا، کسی کے مال سے کبھی بھی مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا مجھے ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے، اگر میں کسی کو خلیل (گہرا دوست) بنانے والا ہوتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا، سن لو تمہارا یہ ساتھی (یعنی خود) اللہ کا خلیل ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٨٤٩) (ضعیف) (سند میں ” داود الأودی “ اور ” محبوب “ ضعیف ہیں، اس لیے پہلا فقرہ يوم القيامة تک ضعیف ہے، مگر حدیث کا دوسرا اور تیسرا فقرہ شواہد و متابعات کی بنا پر صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (94) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3661

【58】

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اقتداء کرو ان دونوں کی جو میرے بعد ہوں گے، یعنی ابوبکر و عمر کی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابن مسعود سے بھی روایت ہے، ٣- سفیان ثوری نے یہ حدیث عبدالملک بن عمیر سے اور عبدالملک بن عمیر نے ربعی کے آزاد کردہ غلام کے واسطہ سے ربعی سے اور ربعی نے حذیفہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (٩٧) (تحفة الأشراف : ٣٣١٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے یکے بعد دیگرے ابوبکر اور عمر (رض) دونوں کی خلافت کی طرف اشارہ ہے اور یہ دونوں کے لیے فضیلت کی بات ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (97) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3662 ہم سے احمد بن منیع اور کئی دوسرے راویوں نے بیان کیا ہے، وہ سب کہتے ہیں : ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ہے اور سفیان نے عبدالملک بن عمیر سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سفیان بن عیینہ اس حدیث میں تدلیس کرتے تھے، کبھی تو انہوں نے اسے «عن زائدة عن عبد الملک بن عمير» ذکر کیا اور کبھی انہوں نے اس میں «عن زائدة» ذکر نہیں کیا، ٢- ابراہیم بن سعد نے یہ حدیث سفیان ثوری سے، سفیان نے عبدالملک بن عمیر سے، عبدالملک نے ربعی کے آزاد کردہ غلام ہلال سے، ہلال نے ربعی سے اور ربعی نے حذیفہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ٣- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ربعی سے آئی ہے، جسے انہوں نے حذیفہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ٤- سالم انعمی کوفی نے یہ حدیث ربعی بن حراش کے واسطہ سے حذیفہ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (97) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3662

【59】

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا : میں نہیں جانتا کہ میں تمہارے درمیان کب تک رہوں گا، لہٰذا تم لوگ ان دونوں کی پیروی کرو جو میرے بعد ہوں گے اور آپ نے ابوبکر و عمر (رض) کی جانب اشارہ کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (3662) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3663

【60】

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر و عمر (رض) کے سلسلہ میں فرمایا : یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردار ہوں گے، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے انبیاء و مرسلین کے، (آپ نے فرمایا :) علی ان دونوں کو اس بات کی خبر مت دینا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣١٣) (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3664

【61】

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا اچانک ابوبکر و عمر (رض) نمودار ہوئے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے سردار ہیں، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے انبیاء و مرسلین کے لیکن علی ! تم انہیں نہ بتانا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢- ولید بن محمد موقری حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں اور علی بن حسین نے علی سے نہیں سنا ہے، ٣- علی (رض) سے یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی آئی ہے، ٤- اس باب میں انس اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٢٤٦) (صحیح) (سند میں ” علی بن الحسین زین العابدین “ کی اپنے دادا ” علی “ (رض) سے ملاقات و سماع نہیں ہے، مگر شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (95) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3665

【62】

علی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ابوبکر و عمر جنت کے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے سردار ہیں، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے نبیوں اور رسولوں کے، لیکن علی ! تم انہیں نہ بتانا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (٩٥) (تحفة الأشراف : ١٠٠٣٥) (صحیح) (سند میں حارث اعور ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد و متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (3665) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3666

【63】

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے کہا : کیا میں وہ شخص نہیں ہوں جو سب سے پہلے اسلام لایا ؟ کیا میں ایسی ایسی خوبیوں کا مالک نہیں ہوں ؟۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- بعض نے یہ حدیث شعبہ سے، شعبہ نے جریری سے، جریری نے ابونضرہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں : ابوبکر نے کہا، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٥٩٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الأحاديث المختارة (19 - 20) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3667 ہم سے اسے محمد بن بشار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے شعبہ سے اور شعبہ نے جریری کے واسطہ سے ابونضرہ سے روایت کی، وہ کہتے ہیں : ابوبکر (رض) نے کہا : پھر انہوں نے اسی مفہوم کے ساتھ اسی جیسی روایت ذکر کی لیکن اس میں ابو سعید خدری کا واسطہ ذکر نہیں کیا اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الأحاديث المختارة (19 - 20) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3667

【64】

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مہاجرین و انصار میں سے اپنے صحابہ کے پاس نکل کر آتے اور وہ بیٹھے ہوتے، ان میں ابوبکر و عمر (رض) بھی ہوتے، تو ان میں سے کوئی اپنی نگاہ آپ کی طرف نہیں اٹھاتا تھا، سوائے ابوبکر و عمر (رض) کے یہ دونوں آپ کو دیکھتے اور مسکراتے اور آپ ان دونوں کو دیکھتے اور مسکراتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- اس حدیث کو ہم صرف حکم بن عطیہ کی روایت سے جانتے ہیں، ٣- بعض محدثین نے حکم بن عطیہ کے بارے میں کلام کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٨٦) (ضعیف) (سند میں ” حکم بن عطیہ “ پر کلام ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6053) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3668

【65】

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے، ابوبکر و عمر (رض) میں سے ایک آپ کے دائیں جانب تھے اور دوسرے بائیں جانب، اور آپ ان دونوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے آپ نے فرمایا : اسی طرح ہم قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- سعید بن مسلمہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں، ٣- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی نافع کے واسطہ سے ابن عمر (رض) سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (٩٩) (تحفة الأشراف : ٧٤٩٩) (ضعیف) (سند میں سعید بن مسلمہ ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (99) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (18) وهنا أتم، المشکاة (6054) ، ضعيف الجامع الصغير (6089) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3669

【66】

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر (رض) سے فرمایا : تم حوض کوثر پر میرے رفیق ہو گے جیسا کہ غار میں میرے رفیق تھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن، صحیح، غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٦٧٦) (ضعیف) (سند میں کثیر بن اسماعیل ابو اسماعیل ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6019) // ضعيف الجامع الصغير (1327) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3670

【67】

عبداللہ بن حنطب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر و عمر (رض) کو دیکھا تو فرمایا : یہ دونوں (اسلام کے) کان اور آنکھ ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث مرسل ہے عبداللہ بن حنطب نے نبی اکرم ﷺ کو نہیں پایا، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٢٤٦) (صحیح) (الصحیحة ٨١٤) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (814) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3671

【68】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا : ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ، اس پر عائشہ (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! ابوبکر جب آپ کی جگہ (نماز پڑھانے) کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو قرأت نہیں سنا سکیں گے ١ ؎، اس لیے آپ عمر کو حکم دیجئیے کہ وہ نماز پڑھائیں، پھر آپ نے فرمایا : ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں : تو میں نے حفصہ سے کہا : تم ان سے کہو کہ ابوبکر جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو رونے کے سبب قرأت نہیں سنا سکیں گے، اس لیے آپ عمر کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تو حفصہ نے (ایسا ہی) کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم وہی تو ہو جنہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو تنگ کیا، ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تو حفصہ نے عائشہ سے (بطور شکایت) کہا کہ مجھے تم سے کبھی کوئی بھلائی نہیں پہنچی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، ابوموسیٰ اشعری، ابن عباس، سالم بن عبید اور عبداللہ بن زمعہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٩ (٦٦٤) ، و ٤٦ (٦٧٩) ، و ٦٧ (٧١٢) ، و ٧٠ (٧١٦) ، والاعتصام (٧٣٠٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢١ (٤١٨) ، سنن النسائی/الإمامة ٤٠ (٨٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٢ (١٢٣٢) (تحفة الأشراف : ١٧١٥٣) ، و مسند احمد (٦/٣٤، ٩٦، ٩٧، ٢١٠، ٢٢٤) ، وسنن الدارمی/المقدمة ١٤ (٨٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ ابوبکر پر رقت طاری ہوجائے گی اور وہ رونے لگیں گے پھر رونے کی وجہ سے اپنی قرأت لوگوں کو نہیں سنا سکیں گے ، اور بعض روایات کے مطابق اس کا سبب عائشہ نے یہ بیان کیا ، اور بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کی موجودگی میں آپ کی جگہ پر کھڑے ہونے پر ابوبکر اپنے غم ضبط نہیں کر پائیں گے اس طرح لوگوں کو نماز نہیں پڑھا پائیں گے ، «واللہ اعلم»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1232) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3672

【69】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی قوم کے لیے مناسب نہیں کہ ابوبکر (رض) کی موجودگی میں ان کے سوا کوئی اور ان کی امامت کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٥٤٨) (ضعیف جداً ) (بعض نسخوں میں ” حسن غریب “ ہے، اور بعض نسخوں اور تحفة الأشراف میں صرف ” غریب “ ہے، اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے، اس لیے کہ سند میں عیسیٰ بن میمون ضعیف راوی ہے، عبدالرحمن بن مہدی نے ان سے کہا : بسند قاسم تم عائشہ سے یہ کس طرح کی احادیث روایت کرتے ہو، تو کہا کہ دو بارہ نہیں بیان کروں گا اور امام بخاری نے فرمایا کہ وہ منکر الحدیث ہے، الضعیفة : ٤٨٢٠) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، الضعيفة (4820) // ضعيف الجامع الصغير (6371) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3673

【70】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ کی راہ میں جوڑا خرچ کرے گا اسے جنت میں پکارا جائے گا کہ اے اللہ کے بندے ! یہ وہ خیر ہے (جسے تیرے لیے تیار کیا گیا ہے) تو جو اہل صلاۃ میں سے ہوگا اسے صلاۃ کے دروازے سے پکارا جائے گا، اور جو اہل جہاد میں سے ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے پکارا جائے گا، اور جو اہل صدقہ میں سے ہوگا اسے صدقہ کے دروازے سے پکارا جائے گا، اور جو اہل صیام میں سے ہوگا، وہ باب ریان سے پکارا جائے گا، اس پر ابوبکر (رض) نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ کسی کو ان سارے دروازوں سے پکارا جائے (اس لیے کہ ایک دروازے سے داخل ہوجانا کافی ہے) مگر کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جو ان سبھی دروازوں سے پکارا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں میں سے ہو گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٤ (١٨٩٧) ، والجھاد ٣٧ (٢٨٤١) ، وبدء الخلق ٦ (٣٢١٦) ، وفضائل الصحابة ٥ (٣٦٦٦) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٧ (١٠٢٧) ، سنن النسائی/الصیام ٤٣ (٢٢٤٠) ، والزکاة ١ (٢٤٤١) ، والجھاد ٢٠ (٣١٣٧) (تحفة الأشراف : ١٢٢٧٩) ، وط/الجھاد ١٩ (٤٩) ، و مسند احمد (٢/٢٦٨، ٣٣٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3674

【71】

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اتفاق سے ان دنوں میرے پاس مال بھی تھا، میں نے (دل میں) کہا : اگر میں ابوبکر (رض) سے کسی دن آگے بڑھ سکوں گا تو آج کے دن آگے بڑھ جاؤں گا، پھر میں اپنا آدھا مال آپ کے پاس لے آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے ؟ میں نے عرض کیا : اتنا ہی (ان کے لیے بھی چھوڑا ہوں) اور ابوبکر (رض) وہ سب مال لے آئے جو ان کے پاس تھا، تو آپ نے پوچھا : ابوبکر ! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے ؟ تو انہوں نے عرض کیا : ان کے لیے تو اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں، میں نے (اپنے جی میں) کہا : اللہ کی قسم ! میں ان سے کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٤٠ (١٦٧٨) (تحفة الأشراف : ١٠٣٩٠) ، وسنن الدارمی/الزکاة ٢٦ (١٧٠١) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (6021) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3675

【72】

جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت نے آ کر کسی مسئلہ میں آپ سے بات کی اور آپ نے اسے کسی بات کا حکم دیا تو وہ بولی : مجھے بتائیے اللہ کے رسول ! اگر میں آپ کو نہ پاؤں ؟ (تو کس کے پاس جاؤں) آپ نے فرمایا : اگر تم مجھے نہ پانا تو ابوبکر کے پاس جانا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٥ (٣٦٥٩) ، والأحکام ٥١ (٧٢٢٠) ، والاعتصام ٢٥ (٧٣٦٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١ (٢٣٨٦) (تحفة الأشراف : ٣١٩٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس میں آپ ﷺ کے بعد آپ کے جانشین ابوبکر (رض) کے ہونے کی پیشین گوئی ، اور ان کو اپنا جانشین بنانے کا لوگوں کو اشارہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3676

【73】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس دوران کہ ایک شخص ایک گائے پر سوار تھا اچانک وہ گائے بول پڑی کہ میں اس کے لیے نہیں پیدا کی گئی ہوں، میں تو کھیت جوتنے کے لیے پیدا کی گئی ہوں (یہ کہہ کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا اس پر ایمان ہے اور ابوبکر و عمر کا بھی، ابوسلمہ کہتے ہیں : حالانکہ وہ دونوں اس دن وہاں لوگوں میں موجود نہیں تھے ، واللہ اعلم ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث والمزارعة ٤ (٢٣٢٤) ، وأحادیث الأنبیاء ٥٢ (٣٤٧١) ، وفضائل الصحابة ٥ (٣٦٦٣) ، و ٦ (٣٦٩٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١ (٢٣٨٨) (تحفة الأشراف : ١٤٩٥١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اللہ کے رسول ﷺ کو ان دونوں کے سلسلہ میں اتنا مضبوط یقین تھا کہ جو میں کہوں گا وہ دونوں اس پر آمنا و صدقنا کہیں گے ، اسی لیے ان کے غیر موجودگی میں بھی آپ نے ان کی طرف سے تصدیق کردی ، یہ ان کی فضیلت کی دلیل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (247) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3677 ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں : ہم سے شعبہ نے اسی سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (247) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3677

【74】

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے کہ نبی اکرم ﷺ نے (مسجد کی طرف کھلنے والے) سارے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا سوائے ابوبکر (رض) کے دروازہ کے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے ٢- اس باب میں ابو سعید خدری (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٤١٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر الحديث (3922)

【75】

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ابوبکر (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا : تم جہنم سے اللہ کے آزاد کردہ ہو تو اسی دن سے ان کا نام عتیق رکھ دیا گیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- بعض راویوں نے یہ حدیث معن سے روایت کی ہے اور سند میں «عن موسیٰ بن طلحة عن عائشة» کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٩٢١) (صحیح) (الصحیحة ١٥٧٤) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6022 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3679

【76】

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی نبی ایسا نہیں جس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے نہ ہوں اور دو وزیر زمین والوں میں سے نہ ہوں، رہے میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے تو وہ جبرائیل اور میکائیل (علیہما السلام) ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر (رض) ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حدیث حسن غریب ہے، ٢- اور ابوالجحاف کا نام داود بن ابوعوف ہے، سفیان ثوری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : ہم سے ابوالجحاف نے بیان کیا (اور وہ ایک پسندیدہ شخص تھے) ٣- اور تلید بن سلیمان کی کنیت ابوادریس ہے اور یہ اہل تشیع میں سے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤١٩٦) (ضعیف) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : اس کے باوجود ابوبکر و عمر (رض) کی منقبت میں حدیث روایت کی ، اس سے اس روایت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ، «الفضل ما شہدت بہ أعداء»۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6056) // ضعيف الجامع الصغير (5223) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3680

【77】

مناقب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! ان دونوں یعنی ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعہ اسلام کو طاقت و قوت عطا فرما ، آپ ﷺ نے فرمایا : تو ان دونوں میں سے عمر اللہ کے محبوب نکلے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابن عمر (رض) کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٦٥٥) ، و مسند احمد (٢/٦٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6036 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3681

【78】

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان و دل پر حق کو جاری فرما دیا ہے ۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس میں لوگوں نے اپنی رائیں پیش کیں ہوں اور عمر بن خطاب (رض) نے (راوی خارجہ کو شک ہوگیا ہے) بھی رائے دی ہو، مگر قرآن اس واقعہ سے متعلق عمر (رض) کی اپنی رائے کے موافق نہ اترا ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- خارجہ بن عبداللہ انصاری کا پورا نام خارجہ بن عبداللہ بن سلیمان بن زید بن ثابت ہے اور یہ ثقہ ہیں، ٣- اس باب میں فضل بن عباس، ابوذر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٦٥٦) ، و مسند احمد (٢/٥٣، ٩٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اسی لیے آپ کو «ملہم» یا «محدث» کہا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (108) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3682

【79】

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! اسلام کو ابوجہل بن ہشام یا عمر کے ذریعہ قوت عطا فرما ، پھر صبح ہوئی تو عمر رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور اسلام لے آئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢- بعض محدثین نے نضر ابوعمر کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے اور یہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔ (لیکن حدیث رقم : (٣٦٩٠) سے اس کے مضمون کی تائید ہوتی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٢٢٣) (ضعیف جداً ) (سند میں نضر بن عبدالرحمن ابو عمر الخزاز متروک راوی ہے، امام ترمذی نے بھی اسی سبب ضعف کا ذکر کردیا ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، المشکاة (6036) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3683

【80】

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ عمر نے ابوبکر (رض) سے کہا : اے رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے بہتر انسان ! اس پر ابوبکر (رض) نے کہا : سنو ! اگر تم ایسا کہہ رہے ہو تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : عمر سے بہتر کسی آدمی پر سورج طلوع نہیں ہوا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اور اس کی سند قوی نہیں ہے، ٢- اس باب میں ابو الدرداء (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٥٨٩) (موضوع) (سند میں عبد الرحمن ابن اخی محمد بن منکدر اور عبد اللہ بن داود ابو محمد التمار دونوں ضعیف راوی ہیں، اور دونوں کی متابعت نہیں کی جائے گی، حدیث کو ابن الجوزی اور ذہبی اور البانی نے موضوع کہا ہے، اور اس کے باطل ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ قطعی طور پر صحیح اور ثابت حدیث کے مخالف ہے کہ سب سے بہتر جن پر سورج طلوع ہوا وہ نبی اکرم صلی+اللہ+علیہ+وسلم اور دیگر انبیاء ورسل ہیں، اس کے بعد ابوبکر ہیں، جیسا کہ حدیث میں آیا : انبیاء ورسل کے بعد کسی پر سورج کا وغروب نہیں ہوا جو ابوبکر سے افضل ہو، الضعیفة : ١٣٥٧) قال الشيخ الألباني : موضوع، الضعيفة (1357) // ضعيف الجامع الصغير (5097) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3684

【81】

محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں کسی کو نہیں سمجھتا کہ وہ نبی اکرم ﷺ سے محبت کرتا ہو اور وہ ابوبکر و عمر (رض) کی تنقیص کرے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩٣٠٢) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : ان دونوں کی محبت واقعی جزو ایمان ہے ، ان کا دشمن دشمن اسلام اور خارج از اسلام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3685

【82】

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف مشرح بن ہاعان کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٩٦٦) ، و مسند احمد (٤/١٥٤) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ عمر (رض) نہایت فہم و فراست اور الٰہی الہام سے بہرہ ور ہیں وہاں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی مصطفیٰ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ، ورنہ کسی اور سے پہلے عمر ہی ہوتے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (327) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3686

【83】

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا گویا مجھے دودھ کا کوئی پیالہ دیا گیا جس میں سے میں نے کچھ پیا پھر میں نے اپنا بچا ہوا حصہ عمر بن خطاب کو دے دیا ، تو لوگ کہنے لگے اللہ کے رسول ! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی ؟ آپ نے فرمایا : اس کی تعبیر علم ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٢٨٤ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : میرے بعد دین کا علم عمر کو ہے ( (رض) ) اس میں ابوبکر (رض) کی من جملہ فضیلت کی نفی نہیں ہے صرف علم کے سلسلے میں ان کا علم بڑھا ہوا ثابت ہوتا ہے ، بقیہ فضائل کے لحاظ سے سب سے افضل امتی ( بعد از نبی اکرم ﷺ ) ابوبکر ہی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی (2400) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3687

【84】

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں جنت کے اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک سونے کے محل میں ہوں، میں نے پوچھا : یہ محل کس کا ہے ؟ فرشتوں نے کہا : قریش کے ایک نوجوان کا ہے، تو میں نے سوچا کہ وہ میں ہی ہوں گا، چناچہ میں نے پوچھا کہ وہ نوجوان کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا : وہ عمر بن خطاب ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٩٠) ، و مسند احمد (٣/١٠٧، ١٧٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمر (رض) کو دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری دیدی گئی اور کسی مرتد کو جنت کی خوشخبری نہیں دی جاسکتی ، ( برا ہو آپ سے بغض و نفرت رکھنے والوں کا ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1405 - 1423) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3688

【85】

بریدہ (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک دن) صبح کی تو بلال (رض) کو بلایا اور پوچھا : بلال ! کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں میرے آگے آگے رہے ؟ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں جنت میں داخل ہوا ہوں اور اپنے آگے تمہاری کھڑاؤں کی آواز نہ سنی ہو، آج رات میں جنت میں داخل ہوا تو (آج بھی) میں نے اپنے آگے تمہارے کھڑاؤں کی آواز سنی، پھر سونے کے ایک چوکور بلند محل پر سے گزرا تو میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے ؟ فرشتوں نے بیان کیا کہ یہ ایک عرب آدمی کا ہے، تو میں نے کہا : میں (بھی) عرب ہوں، بتاؤ یہ کس کا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : یہ قریش کے ایک شخص کا ہے، میں نے کہا : میں (بھی) قریشی ہوں، بتاؤ یہ محل کس کا ہے ؟ انہوں نے کہا : یہ محمد ﷺ کی امت کے ایک فرد کا ہے، میں نے کہا : میں محمد ہوں، یہ محل کس کا ہے ؟ انہوں نے کہا : عمر بن خطاب کا ہے ، بلال (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے اذان دی ہو اور دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں اور نہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے حدث لاحق ہوا ہو اور میں نے اسی وقت وضو نہ کرلیا ہو اور یہ نہ سمجھا ہو کہ اللہ کے لیے میرے اوپر دو رکعتیں (واجب) ہیں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انہیں دونوں رکعتوں (یا خصلتوں) کی سے (یہ مرتبہ حاصل ہوا ہے ١ ؎ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس باب میں جابر، معاذ، انس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں نے جنت میں سونے کا ایک محل دیکھا تو میں نے کہا : یہ کس کا ہے ؟ کہا گیا : یہ عمر بن خطاب کا ہے ، ٣- حدیث کے الفاظ «أني دخلت البارحة الجنة» کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں جنت میں داخل ہوا ہوں، بعض روایتوں میں ایسا ہی ہے، ٤- ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : انبیاء کے خواب وحی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩٦٦) ، و مسند احمد (٥/٣٥٤، ٣٦٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : وضو کے بعد دو رکعت نفل کی پابندی سے ادائیگی کی برکت سے بلال کو یہ مرتبہ حاصل ہوا ، یا ایک خصلت وضو ٹوٹتے وضو کرلینا یعنی ہمیشہ باوضو رہنا ، دوسری خصلت : ہر وضو کے بعد دو رکعت بطور تحیۃ الوضو کے پڑھنا ، ان دونوں خصلتوں کی برکت سے ان کو یہ مرتبہ حاصل ہوا ، اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ ہمیشہ باوضو رہنا بڑے اجر و ثواب کا کام ہے ، وہیں اس سے بلال (رض) کی فضیلت اور دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری کا پتا چلا اور عمر (رض) کے لیے سونے کے محل سے ان کی فضیلت ثابت ہوئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (1 / 99) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3689

【86】

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کسی غزوہ میں نکلے، پھر جب واپس آئے تو ایک سیاہ رنگ کی (حبشی) لونڈی نے آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کو بخیر و عافیت لوٹایا تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں گی اور گانا گاؤں گی، تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : اگر تو نے نذر مانی تھی تو بجا لے ورنہ نہیں ١ ؎، چناچہ وہ بجانے لگی، اسی دوران ابوبکر (رض) اندر داخل ہوئے اور وہ بجاتی رہی، پھر علی (رض) داخل ہوئے اور وہ بجاتی رہی، پھر عثمان (رض) داخل ہوئے اور وہ بجاتی رہی، پھر عمر (رض) داخل ہوئے تو انہیں دیکھ کر اس نے دف اپنی سرین کے نیچے ڈال لی اور اسی پر بیٹھ گئی، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمر ! تم سے شیطان بھی ڈرتا ہے ٢ ؎، میں بیٹھا ہوا تھا اور وہ بجا رہی تھی، اتنے میں ابوبکر اندر آئے تو بھی وہ بجاتی رہی، پھر علی اندر آئے تو بھی وہ بجاتی رہی، پھر عثمان اندر آئے تو بھی وہ بجاتی رہی، پھر جب تم داخل ہوئے اے عمر ! تو اس نے دف پھینک ڈالی ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- بریدہ کی روایت سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس باب میں عمر، سعد بن ابی وقاص اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩٦٧) ، و مسند احمد (٥/٣٥٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اگر منکر ( حرام ) کی نذر نہ مانی ہو تو نذر پوری کرنی واجب ہے ، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے اس کو اپنی نذر پوری کرنے کی اجازت دے دی کیونکہ اس کام میں کوئی ممنوع بات نہیں تھی۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے عمر فاروق (رض) کی بڑی فضیلت کے ساتھ ساتھ ان کے لیے عصمت ( شیطان اور گناہوں سے بچاؤ ) بھی ثابت ہو رہی ہے ، حالانکہ عصمت انبیاء کی خصوصیت ہے ، اس سلسلے میں بقول حافظ ابن حجر : عصمت انبیاء کے لیے واجب ہے ، جبکہ کسی امتی کے لیے بطور امکان کے ہے جو عمر (رض) کو حاصل ہوئی۔ ٣ ؎ : مطلب یہ ہے کہ ایک گانے والی لونڈی تو کیا ، شیطان بھی عمر (رض) سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے ، حتیٰ کہ اس راستے سے شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ، جس راستے سے عمر (رض) گزرے رہے ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح نقد الکتانی (47 - 48) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3690

【87】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے تھے کہ اتنے میں ہم نے ایک شور سنا اور بچوں کی آواز سنی چناچہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے تو دیکھا کہ ایک حبشی عورت ناچ رہی ہے اور بچے اسے گھیرے ہوئے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! آؤ، تم بھی دیکھ لو ، تو میں آئی اور رسول اللہ ﷺ کے کندھے پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر آپ کے سر اور کندھے کے بیچ سے اسے دیکھنے لگی، پھر آپ نے فرمایا : کیا تو ابھی آسودہ نہیں ہوئی ؟ کیا تو ابھی آسودہ نہیں ہوئی ؟ تو میں نے کہا کہ ابھی نہیں تاکہ میں دیکھوں کہ آپ کے دل میں میرا کتنا مقام ہے ؟ اتنے میں عمر (رض) آ گئے تو سب لوگ اس عورت کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوئے، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں جنوں اور انسانوں کے شیطانوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ عمر کو دیکھ کر بھاگ گئے، پھر میں بھی لوٹ آئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ١٧٣٥٥) ، و مسند احمد (٦/٥٧، ٢٣٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6039) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3691

【88】

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہوگی، پھر ابوبکر، پھر عمر (رض)، (سے زمین شق ہوگی) پھر میں بقیع والوں کے پاس آؤں گا تو وہ میرے ساتھ اٹھائے جائیں گے، پھر میں مکہ والوں کا انتظار کروں گا یہاں تک کہ میرا حشر حرمین کے درمیان ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اور عاصم بن عمر محدثین کے نزدیک حافظ نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٢٠٠) (ضعیف) (سند میں عاصم العمری ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (2949) // ضعيف الجامع الصغير (1310) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3692

【89】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگلی امتوں میں کچھ ایسے لوگ ہوتے تھے، جو «مُحدّث» ہوتے تھے ١ ؎ اگر میری امت میں کوئی ایسا ہوا تو وہ عمر بن خطاب ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث صحیح ہے، ٢- مجھ سے سفیان کے کسی شاگرد نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ نے کہا : «محدثون» وہ ہیں جنہیں دین کی فہم عطا کی گئی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢ (٢٣٩٨) (تحفة الأشراف : ١٧٧١٧) ، و مسند احمد (٦/٥٥) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : «محدث» اس کو کہتے ہیں جس کی زبان پر اللہ کی طرف سے حق بات کا الہام ہوتا ہے ، جبرائیل (علیہ السلام) وحی لے کر اس کے پاس نہیں آتے کیونکہ وہ آدمی نبی نہیں ہوتا ، اللہ کی طرف سے حق بات اس کے دل و دماغ میں ڈال دی جاتی ہے ، اور فی الحقیقت کئی معاملات میں عمر (رض) کی رائے کی تائید اللہ تعالیٰ نے وحی سے فرما دی ( نیز دیکھئیے حدیث رقم : ٣٦٩١) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3693

【90】

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص آ رہا ہے تو ابوبکر (رض) آئے، پھر آپ نے فرمایا : تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص آ رہا ہے ، تو عمر (رض) آئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن مسعود (رض) کی یہ حدیث غریب ہے، ٢- اس باب میں ابوموسیٰ اشعری اور جابر (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٤٠٦) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن سلمہ ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6058) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3694

【91】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس دوران کہ ایک شخص اپنی بکریاں چرا رہا تھا، ایک بھیڑیا آیا اور ایک بکری پکڑ کرلے گیا تو اس کا مالک آیا اور اس نے اس سے بکری کو چھین لیا، تو بھیڑیا بولا : درندوں والے دن میں جس دن میرے علاوہ ان کا کوئی اور چرواہا نہیں ہوگا تو کیسے کرے گا ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے اس پر یقین کیا اور ابوبکر نے اور عمر نے بھی ، ابوسلمہ کہتے ہیں : حالانکہ وہ دونوں اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٦٧٧ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وهو تمام الحديث (3944) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3695 ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں : ہم سے شعبہ نے سعد بن ابراہیم کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وهو تمام الحديث (3944) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3695

【92】

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ احد پہاڑ پر چڑھے اور ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) بھی تو وہ ان کے ساتھ ہل اٹھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ٹھہرا رہ اے احد ! تیرے اوپر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٥ (٣٦٧٥) ، و ٦ (٣٦٨٦) ، و ٧ (٣٦٩٩) ، سنن ابی داود/ السنة ٩ (٤٦٥١) (تحفة الأشراف : ١١٧٢) ، و مسند احمد (٣/١١٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : دو شہید سے مراد : عمر و عثمان (رض) ہیں جن دونوں کی شہادت کی گواہی بزبان رسالت مآب ہو ان کی مقبول بارگاہ الٰہی ہونے کا منکر اپنے ایمان کی خیر منائے۔ وہ مومن کہاں مسلمان بھی نہ رہا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (875) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3697

【93】

حضرت عثمان (رض) کے مناقب انکی دو کنیتیں ہیں ابوعمرو اور ابوعبد اللہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر، عمر، علی، عثمان، طلحہ، اور زبیر (رض) حرا پہاڑ ١ ؎ پر تھے، تو وہ چٹان جس پر یہ لوگ تھے ہلنے لگی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ٹھہری رہ، تجھ پر نبی، صدیق اور شہید ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث صحیح ہے، ٢- اس باب میں عثمان، سعید بن زید، ابن عباس، سہل بن سعد، انس بن مالک، اور بریرہ (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٦ (٢٤١٧) (تحفة الأشراف : ١٢٧٠٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ ( باب مناقب ابی بکر ) اور ( باب مناقب عثمان ) میں احد پہاڑ کا تذکرہ ہے ، حافظ ابن حجر کے بقول : یہ دو الگ الگ واقعات ہیں ، اس میں کوئی تضاد یا تعارض کی بات نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2 / 562) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3696

【94】

حضرت عثمان (رض) کے مناقب انکی دو کنیتیں ہیں ابوعمرو اور ابوعبد اللہ

طلحہ بن عبیداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے، اور میرے رفیق یعنی جنت میں عثمان ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، اس کی سند قوی نہیں اور یہ منقطع ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٩٩٦) (ضعیف) (اس کی سند میں زہری شیخ مبہم ہے، اور سند میں انقطاع ہے، اس لیے کہ حارث بن عبدالرحمن الدوسی المدنی کی وفات (١٤٦ ھ) میں ہوئی اور طلحہ بن عبیداللہ کی شہادت (٣٦ ھ) میں ہوئی، اور وہ طلحہ بن عبیداللہ سے مرسلاً روایت کرتے ہیں، نیز یحییٰ بن الیمان صدوق راوی ہیں، لیکن بہت غلطیاں کرتے ہیں، اور حافظہ میں تغیر بھی آگیا تھا) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (109) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (21) عن أبي هريرة، بسند آخر، ضعيف الجامع الصغير (4738) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3698

【95】

ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ جب عثمان (رض) کا محاصرہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے مکان کے کوٹھے سے جھانک کر بلوائیوں کو دیکھا پھر کہا : میں تمہیں اللہ کا حوالہ دے کر یاد دلاتا ہوں : کیا تم جانتے ہو کہ حرا پہاڑ سے جس وقت وہ ہلا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ حرا ٹھہرے رہو ! کیونکہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور ایک شہید کے علاوہ کوئی اور نہیں ؟ ، ان لوگوں نے کہا : ہاں، پھر عثمان (رض) نے کہا : میں تمہیں اللہ کا حوالہ دے کر یاد لاتا ہوں، کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جیش عسرہ (غزوہ تبوک) کے سلسلے میں فرمایا تھا : کون (اس غزوہ کا) خرچ دے گا جو اللہ کے نزدیک مقبول ہوگا (اور لوگ اس وقت پریشانی اور تنگی میں تھے) تو میں نے (خرچ دے کر) اس لشکر کو تیار کیا ؟ ، لوگوں نے کہا : ہاں، پھر عثمان (رض) نے کہا : میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر یاد دلاتا ہوں : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ بئررومہ کا پانی بغیر قیمت کے کوئی پی نہیں سکتا تھا تو میں نے اسے خرید کر غنی، محتاج اور مسافر سب کے لیے وقف کردیا ؟ ، لوگوں نے کہا : ہاں، ہمیں معلوم ہے اور اسی طرح اور بھی بہت سی چیزیں انہوں نے گنوائیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے یعنی ابوعبدالرحمٰن کی روایت سے جسے وہ عثمان سے روایت کرتے ہیں حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٣٣ (تعلیقاً ) ، سنن النسائی/الاحب اس ٤ (٣٦٣٩) (تحفة الأشراف : ٩٨١٤) ، و مسند احمد (١/٥٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں مذکور تینوں باتیں اسلام کی عظیم ترین خدمت ہیں جن کو عثمان (رض) نے انجام دیئے ، یہ آپ کی اسلام میں عظیم مقام و مرتبے کی بات ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (109) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3699

【96】

عبدالرحمن بن خباب (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ جیش عسرہ (غزوہ تبوک) کے سامان کی لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے، تو عثمان بن عفان (رض) کھڑے ہوئے اور بولے : اللہ کے رسول ! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، آپ نے پھر اس کی ترغیب دلائی، تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے : اللہ کے رسول ! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں دو سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، آپ نے پھر اسی کی ترغیب دی تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے اللہ کے رسول ! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں تین سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ منبر سے یہ کہتے ہوئے اتر رہے تھے کہ اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں، اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ہم اسے صرف سکن بن مغیرہ کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- اس باب میں عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٦٩٤) (ضعیف) (سند میں فرقد ابو طلحہ مجہول راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6063) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3700

【97】

عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ عثمان (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک ہزار دینار لے کر آئے، (حسن بن واقع جو راوی حدیث ہیں کہتے ہیں : دوسری جگہ میری کتاب میں یوں ہے کہ وہ اپنی آستین میں لے کر آئے) ، جس وقت انہوں نے جیش عسرہ کو تیار کیا، اور اسے آپ کی گود میں ڈال دیا، میں نبی اکرم ﷺ کو اسے اپنی گود میں الٹتے پلٹتے دیکھا اور یہ کہتے سنا کہ آج کے بعد سے عثمان کو کوئی بھی برا عمل نقصان نہیں پہنچائے گا ، ایسا آپ نے دو بار فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٦٩٩) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (6064) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3701

【98】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کو بیعت رضوان ١ ؎ کا حکم دیا گیا تو عثمان بن عفان (رض) رسول اللہ ﷺ کے قاصد بن کر اہل مکہ کے پاس گئے ہوئے تھے، جب آپ نے لوگوں سے بیعت لی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عثمان اللہ اور اس کے رسول کے کام سے گئے ہوئے ہیں، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک کو دوسرے پر مارا تو رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ جسے آپ نے عثمان کے لیے استعمال کیا لوگوں کے ہاتھوں سے بہتر تھا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٥٥) (ضعیف) (سند میں حکم بن عبد الملک ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : بیعت رضوان وہ بیعت ہے جو صلح حدیبیہ کے سال ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی ، یہ بیعت اس بات پر لی گئی تھی کہ خبر اڑ گئی کہ کفار مکہ نے عثمان کو قتل کردیا ہے ، اس پر نبی اکرم ﷺ نے لوگوں سے بیعت لی کہ عثمان کے خون کا بدلہ لینا ہے ، اس پر سب لوگوں سے بیعت لی گئی کہ کفار مکہ سے اس پر جنگ کی جائے گی ، سب لوگ اس عہد پر جمے رہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6065) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3702

【99】

ثمامہ بن حزن قشیری کہتے ہیں کہ میں اس وقت گھر میں موجود تھا جب عثمان (رض) نے کوٹھے سے جھانک کر انہیں دیکھا اور کہا تھا : تم میرے سامنے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو لاؤ، جنہوں نے میرے خلاف تمہیں جمع کیا ہے، چناچہ ان دونوں کو لایا گیا گویا وہ دونوں دو اونٹ تھے یا دو گدھے یعنی بڑے موٹے اور طاقتور، تو عثمان (رض) نے انہیں جھانک کر دیکھا اور کہا : میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں بئررومہ کے علاوہ کوئی اور میٹھا پانی نہیں تھا جسے لوگ پیتے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کون بئررومہ کو جنت میں اپنے لیے اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اپنے ڈول کو دوسرے مسلمانوں کے ڈول کے برابر کر دے گا ؟ ، یعنی اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی پینے کا برابر کا حق دے گا، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس کے پینے سے روک رہے ہو، یہاں تک کہ میں سمندر کا (کھارا) پانی پی رہا ہوں ؟ لوگوں نے کہا : ہاں، یہی بات ہے، انہوں نے کہا : میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ مسجد لوگوں کے لیے تنگ ہوگئی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کون آل فلاں کی زمین کے ٹکڑے کو اپنے لیے جنت میں اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اسے مسجد میں شامل کر دے گا ؟ ، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس میں دو رکعت نماز پڑھنے نہیں دے رہے ہو، لوگوں نے کہا : ہاں، بات یہی ہے، پھر انہوں نے کہا : میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ کے پہاڑ ثبیر پر تھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر (رض) تھے اور میں تھا، تو پہاڑ لرزنے لگا، یہاں تک کہ اس کے کچھ پتھر نیچے کھائی میں گرے تو رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے پیر سے مار کر فرمایا : ٹھہر اے ثبیر ! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی اور نہیں ، لوگوں نے کہا : ہاں بات یہی ہے۔ تو انہوں نے کہا : اللہ اکبر ! قسم ہے رب کعبہ کی ! ان لوگوں نے میرے شہید ہونے کی گواہی دے دی، یہ جملہ انہوں نے تین بار کہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے اور عثمان سے یہ حدیث اس سند کے علاوہ سے بھی آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الاحب اس ٤ (٣٦٣٨) (تحفة الأشراف : ٩٧٨٥) (حسن) (الإرواء ١٥٩٤، وتراجع الألبانی ٥٩٤) قال الشيخ الألباني : حسن، الإرواء (1594) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3703

【100】

ابواشعث صنعانی سے روایت ہے کہ مقررین ملک شام میں تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، ان میں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے بھی کچھ لوگ تھے، پھر سب سے آخر میں ایک شخص کھڑا ہوا جسے مرہ بن کعب (رض) کہا جاتا تھا، اس نے کہا : اگر میں نے ایک حدیث رسول اللہ ﷺ سے نہ سنی ہوتی تو میں کھڑا نہ ہوتا، پھر انہوں نے فتنوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس کا ظہور قریب ہے، پھر ایک شخص منہ پر کپڑا ڈالے ہوئے گزرا تو مرہ نے کہا : یعنی نبی اکرم ﷺ کا قول نقل کیا : یہ اس دن ہدایت پر ہوگا ، تو میں اسے دیکھنے کے لیے اس کی طرف اٹھا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ عثمان بن عفان (رض) ہیں، پھر میں نے ان کا منہ مرہ کی طرف کر کے کہا : وہ یہی ہیں، انہوں نے کہا : ہاں وہ یہی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے ٢- اس باب میں ابن عمر، عبداللہ بن حوالہ اور کعب بن عجرۃ (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٢٤٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (111) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3704

【101】

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے عثمان ! شاید اللہ تمہیں کوئی کرتا ١ ؎ پہنائے، اگر لوگ اسے اتارنا چاہیں تو تم اسے ان کے لیے نہ اتارنا ، اس میں حدیث ایک طویل قصہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١١١) (تحفة الأشراف : ١٧٦٧٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس کرتے سے مراد خلعت خلافت ( خلافت کی چادر ) ہے ، مفہوم یہ ہے کہ اگر منافقین تمہیں خلافت سے دستبردار ہونے کو کہیں اور اس سے معزول کرنا چاہیں تو ایسا مت ہونے دینا کیونکہ اس وقت تم حق پر قائم رہو گے اور دستبرداری کا مطالبہ کرنے والے باطل پر ہوں گے ، اللہ کے رسول کے اسی فرمان کے پیش نظر عثمان (رض) نے شہادت کا جام پی لیا۔ لیکن دستبردار نہیں ہوئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (112) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3705

【102】

عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ اہل مصر میں سے ایک شخص نے بیت اللہ کا حج کیا تو اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے دیکھا تو پوچھا : یہ کون لوگ ہیں ؟ لوگوں نے بتایا یہ قبیلہ قریش کے لوگ ہیں، اس نے کہا : یہ کون شیخ ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ابن عمر (رض) ہیں تو وہ ان کے پاس آیا اور بولا : میں آپ سے ایک چیز پوچھ رہا ہوں آپ مجھے بتائیے، میں آپ سے اس گھر کی حرمت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان (رض) احد کے دن بھاگے تھے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، پھر اس نے کہا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہیں تھے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، پھر اس نے کہا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر میں موجود نہیں تھے، تمہارے انہوں نے کہا : ہاں، اس مصری نے ازراہ تعجب اللہ اکبر کہا ١ ؎، اس پر ابن عمر (رض) نے اس سے کہا : آؤ میں تیرے سوالوں کو تم پر واضح کر دوں : رہا ان (عثمان) کا احد کے دن بھاگنا ٢ ؎ تو تو گواہ رہ کہ اللہ نے اسے معاف کردیا اور بخش دیا ہے ٣ ؎ اور رہی بدر کے دن، ان کی غیر حاضری تو ان کے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تھا : تمہیں اس آدمی کے برابر ثواب اور اس کے برابر مال غنیمت میں سے حصہ ملے گا، جو بدر میں حاضر ہوگا ، اور رہی ان کی بیعت رضوان سے غیر حاضری تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عثمان سے بڑھ کر وادی مکہ میں کوئی باعزت ہوتا تو عثمان (رض) کی جگہ رسول اللہ ﷺ اسی کو بھیجتے، رسول اللہ ﷺ نے عثمان کو مکہ بھیجا اور بیعت رضوان عثمان کے مکہ جانے کے بعد ہوئی پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یہ عثمان کا ہاتھ ہے ، اور اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا : یہ عثمان کی طرف سے بیعت ہے ، تو ابن عمر (رض) نے اس سے کہا : اب یہ جواب تو اپنے ساتھ لیتا جا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ١٤ (٣١٣٠) (بعضہ) وفضائل الصحابة ٧ (٣٦٩٨) ، والمغازي ١٩ (٤٠٦٦) (تحفة الأشراف : ٧٣١٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ شیعی آدمی تھا جو عثمان (رض) سے بغض رکھتا تھا ، اسی لیے ان تینوں باتوں پر اللہ اکبر کہا ، یعنی : جب ان میں یہ تینوں عیب ہیں تو لوگ ان کی فضیلت کے کیوں قائل ہیں۔ ٢ ؎ : یہ اشارہ ہے غزوہ احد سے ان بھاگنے والوں کی طرف جو جنگ کا پانسہ پلٹ جانے کے بعد میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے ، ان میں عثمان (رض) بھی تھے۔ ٣ ؎ : اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی اس آیت میں نازل کی تھی «ولقد عفا اللہ عنهم إن اللہ غفور حليم» (سورة آل عمران : 155 ) پوری آیت اس طرح ہے «إن الذين تولوا منکم يوم التقی الجمعان إنما استزلهم الشيطان ببعض ما کسبوا ولقد عفا اللہ عنهم إن اللہ غفور حليم» یعنی : تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی جس دن دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑ ہوئی تھی ، یہ لوگ اپنے بعض گناہوں کے باعث شیطان کے بہکاوے میں آ گئے ، لیکن یقین جانو کہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ، اللہ تعالیٰ ہے ہی بخشنے والا اور تحمل والا ( آل عمران : 155 ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3706

【103】

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں کہتے تھے : ابوبکر، عمر، اور عثمان ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٤ (٣٦٥٥) ، و ٧ (٣٦٩٧) ، سنن ابی داود/ السنة ٨ (٤٦٢٧) (تحفة الأشراف : ٧٨٢٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کا ذکر آتا تو ہم اسی ترتیب سے ان کا نام لیتے تھے پہلے نمبر پر ابوبکر کا نام رکھتے تھے ، پھر عمر کا پھر عثمان کا ( (رض) ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6076) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3707

【104】

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک فتنہ کا ذکر کیا تو فرمایا : اس فتنہ میں یہ عثمان بھی مظلوم قتل کیا جائے گا (یہ بات آپ نے عثمان (رض) کے متعلق کہی) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابن عمر (رض) کی یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٣٨٣) (حسن الإسناد) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3708

【105】

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں تو آپ نے اس پر نماز نہیں پڑھی، آپ سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! اس سے پہلے ہم نے آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی پر جنازہ کی نماز نہ پڑھی ہو ؟ آپ نے فرمایا : یہ عثمان سے بغض رکھتا تھا، تو اللہ نے اسے مبغوض کردیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- میمون بن مہران کے شاگرد محمد بن زیادہ حدیث میں بہت ضعیف گردانے جاتے ہیں ١ ؎، اور محمد بن زیاد جو ابوہریرہ (رض) کے شاگرد ہیں یہ بصریٰ ہیں اور ثقہ ہیں، ان کی کنیت ابوحارث ہے اور محمد بن زیاد الہانی جو ابوامامہ کے شاگرد ہیں، ثقہ ہیں، ان کی کنیت ابوسفیان ہے، یہ شامی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٩٤٣) (موضوع) (سند میں محمد بن زیاد الیشکری الطحان کذاب ہے) وضاحت : ١ ؎ : اور اس سند میں یہی محمد بن زیاد ہیں ، ان کی نسبت ہی میمونی ہے۔ قال الشيخ الألباني : موضوع، الضعيفة (1967) // ضعيف الجامع الصغير (2073) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3709

【106】

None

میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا، آپ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور اپنی حاجت پوری کی، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: ”ابوموسیٰ! تم دروازہ پر رہو کوئی بغیر اجازت کے اندر داخل نہ ہونے پائے“، پھر ایک شخص نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا، تو میں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر ہوں، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ابوبکر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: ”انہیں آنے دو، اور انہیں جنت کی بشارت دے دو“، چنانچہ وہ اندر آئے اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دی، پھر ایک دوسرے شخص آئے اور انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: عمر ہوں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ عمر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: ”ان کے لیے دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت دے دو“، چنانچہ میں نے دروازہ کھول دیا، وہ اندر آ گئے، اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دے دی، پھر ایک تیسرے شخص آئے اور انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا، تو میں نے کہا: کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: عثمان ہوں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ عثمان اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: ”ان کے لیے بھی دروازہ کھول دو اور انہیں بھی جنت کی بشارت دے دو، ساتھ ہی ایک آزمائش کی جو انہیں پہنچ کر رہے گی“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی ابوعثمان نہدی سے آئی ہے، ۳- اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

【107】

ابوسہلہ کا بیان ہے کہ عثمان (رض) نے مجھ سے جس دن وہ گھر میں محصور تھے کہا : رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے عہد لیا تھا اور میں اس عہد پر صابر یعنی قائم ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسماعیل بن ابی خالد کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١١٣) (تحفة الأشراف : ٩٨٤٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس عہد سے مراد یہ ہے کہ آپ نے فرمایا تھا اللہ تعالیٰ تم کو ایک کرتا پہنائے گا ، لوگ اس کو تم سے اتروانا چاہیں گے ، تو مت اتارنا ، ( اس سے خلافت کا کرتا مراد ہے ) اسی لیے عثمان شہید (رض) ہوگئے مگر خلافت سے دستبردار نہیں ہوئے کیونکہ آپ بفرمان رسالت مآب حق پر تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (113) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3711

【108】

مناقب حضرت علی بن ابی طالب (رض) آپ کی کنیت ابوتراب اور ابوالحسن ہے

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ (لشکر) روانہ کیا اور اس لشکر کا امیر علی (رض) کو مقرر کیا، چناچہ وہ اس سریہ (لشکر) میں گئے، پھر ایک لونڈی سے انہوں نے جماع کرلیا ١ ؎ لوگوں نے ان پر نکیر کی اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے چار آدمیوں نے طے کیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے جب ہم ملیں گے تو علی نے جو کچھ کیا ہے اسے ہم آپ کو بتائیں گے، اور مسلمان جب سفر سے لوٹتے تو پہلے رسول اللہ ﷺ سے ملتے اور آپ کو سلام کرتے تھے، پھر اپنے گھروں کو جاتے، چناچہ جب یہ سریہ واپس لوٹ کر آیا اور لوگوں نے آپ کو سلام کیا تو ان چاروں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ علی نے ایسا ایسا کیا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے منہ پھیرلیا، پھر دوسرا کھڑا ہوا تو دوسرے نے بھی وہی بات کہی جو پہلے نے کہی تھی تو آپ نے اس سے بھی منہ پھیرلیا، پھر تیسرا شخص کھڑا ہوا اس نے بھی وہی بات کہی، تو اس سے بھی آپ نے منہ پھیرلیا، پھر چوتھا شخص کھڑا ہوا تو اس نے بھی وہی بات کہی جو ان لوگوں نے کہی تھی تو رسول اللہ ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کے چہرے سے ناراضگی ظاہر تھی۔ آپ نے فرمایا : تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو ؟ تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو ؟ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ١ ؎ اور وہ دوست ہیں ہر اس مومن کا جو میرے بعد آئے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ١٠٨٦١) ، و مسند احمد (٤/٤٣٧-٤٣٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ لونڈی مال غنیمت میں سے تھی ، تو لوگوں نے اس لیے اعتراض کیا کہ ابھی مال غنیمت کی تقسیم تو عمل میں آئی نہیں ، اس لیے یہ مال غنیمت میں خردبرد کے ضمن میں آتا ہے ، یا اس لیے اعتراض کیا کہ مال غنیمت کی لونڈیوں میں ضروری ہے کہ پہلے ایک ماہواری سے ان کے رحم کی صفائی ہوجائے ، اور علی (رض) نے ایسا نہیں کیا ہے ، یہ بات تو علی (رض) سے بالکل بعید ہے کہ استبراء رحم ( رحم کی صفائی ) سے پہلے لونڈی سے ہمبستری کر بیٹھیں ، ہوا یہ ہوگا کہ ایک دو دن کے بعد ہی وہ ماہواری سے فارغ ہوئی ہوگی ، تو اب مزید ماہواری کی تو ضرورت تھی نہیں۔ ٢ ؎ : اس جملہ سے اہل تشیع کا یہ استدلال کرنا کہ علی (رض) سارے صحابہ سے افضل ہیں درست نہیں ہے کیونکہ کچھ اور صحابہ بھی ہیں جن کے متعلق آپ نے یہی جملہ کہا ہے ، مثلاً جلیبیب کے متعلق آپ نے فرمایا : «ہذا منی و أنا منہ» اسی طرح اشعریین کے بارے میں آپ نے فرمایا : «فہم منی و أنا منہم» یہ دونوں روایتیں صحیح مسلم کی ہیں ، مسند احمد میں ہے : آپ ﷺ نے بنی ناجیہ کے متعلق فرمایا : «أنا منہم وہم منی»۔ نیز اس سے یہ استدلال کرنا بھی صحیح نہیں ہے کہ علی مجھ سے ہیں کا مطلب ہے : علی آپ کی ذات ہی میں سے ہیں ، اس سے مراد ہے : نسب۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2223) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3712

【109】

مناقب حضرت علی بن ابی طالب (رض) آپ کی کنیت ابوتراب اور ابوالحسن ہے

ابوسریحہ یا زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبداللہ سے اور میمون نے زید بن ارقم سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، اور ابوسریحہ نبی اکرم ﷺ کے صحابی حذیفہ بن اسید غفاری ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٣٢٩٩) ، و ٣٦٦٧) ، و مسند احمد (٤/٣٦٨، ٣٧٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : آپ ﷺ کے اس فرمان : «من کنت مولاہ فعلی مولاہ» کا ایک خاص سبب ہے ، کہا جاتا ہے کہ اسامہ (رض) نے جب علی (رض) سے یہ کہا : « لست مولای إنما مولای رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم» یعنی میرے مولی تم نہیں ہو بلکہ رسول اللہ ﷺ ہیں تو اسی موقع پر آپ ﷺ نے «من کنت مولاہ فعليّ مولاہ» کہا ، امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ یہاں ولی سے مراد «ولاء الإسلام» یعنی اسلامی دوستی اور بھائی چارگی ہے ، اس لیے شیعہ حضرات کا اس جملہ سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہنا کہ علی (رض) نبی اکرم ﷺ کے بعد اصل خلافت کے حقدار تھے ، صحیح نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1750) ، الروض النضير (171) ، المشکاة (6082) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3713

【110】

مناقب حضرت علی بن ابی طالب (رض) آپ کی کنیت ابوتراب اور ابوالحسن ہے

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ ابوبکر پر رحم فرمائے، انہوں نے اپنی لڑکی سے میری شادی کردی اور مجھے دارلہجرۃ (مدینہ) لے کر آئے اور بلال کو اپنے مال سے (خرید کر) آزاد کیا، اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے وہ حق بات کہتے ہیں، اگرچہ وہ کڑوی ہو، حق نے انہیں ایسے حال میں چھوڑا ہے کہ (اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ) ان کا کوئی دوست نہیں، اللہ عثمان پر رحم کرے ان سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں، اللہ علی پر رحم فرمائے، اے اللہ ! حق کو ان کے ساتھ پھیر جہاں وہ پھریں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- مختار بن نافع کثیر الغرائب اور بصریٰ شیخ ہیں، ٣- ابوحیان تیمی کا نام یحییٰ بن سعید بن حیان تیمی ہے اور یہ کوفی ہیں اور ثقہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠١٠٧) (ضعیف) (سند میں مختار بن نافع ضعیف اور ساقط راوی ہیں، الضعیفة ٢٠٩٤) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، الضعيفة (2094) ، المشکاة (6125) // ضعيف الجامع الصغير (3095) بأتم من هنا // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3714

【111】

مناقب حضرت علی بن ابی طالب (رض) آپ کی کنیت ابوتراب اور ابوالحسن ہے

ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن ابوطالب (رض) نے «رحبیہ» (مخصوص بیٹھک) میں بیان کیا، حدیبیہ کے دن مشرکین میں سے کچھ لوگ ہماری طرف نکلے، ان میں سہیل بن عمرو اور مشرکین کے کچھ اور سردار بھی تھے یہ سب آ کر کہنے لگے : اللہ کے رسول ! ہمارے بیٹوں، بھائیوں اور غلاموں میں سے کچھ آپ کی طرف نکل کر آ گئے ہیں، انہیں دین کی سمجھ نہیں وہ ہمارے مال اور سامانوں کے درمیان سے بھاگ آئے ہیں، آپ انہیں واپس کر دیجئیے اگر انہیں دین کی سمجھ نہیں تو ہم انہیں سمجھا دیں گے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے گروہ قریش ! تم اپنی نفسیانیت سے باز آ جاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر ایسے شخص کو بھیجے گا جو تمہاری گردنیں اسی دین کی خاطر تلوار سے اڑائے گا، اللہ نے اس کے دل کو ایمان کے لیے جانچ لیا ہے، لوگوں نے عرض کیا : وہ کون شخص ہے ؟ اللہ کے رسول ! اور آپ سے ابوبکر (رض) نے بھی پوچھا : وہ کون ہے اللہ کے رسول ؟ اور عمر (رض) نے بھی کہ وہ کون ہے اللہ کے رسول ؟ آپ نے فرمایا : وہ جوتی ٹانکنے والا ہے، اور آپ نے علی (رض) کو اپنا جوتا دے رکھا تھا، وہ اسے ٹانک رہے تھے، (راوی کہتے ہیں) پھر علی (رض) ہماری جانب متوجہ ہوئے اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جو میرے اوپر جھوٹ باندھے اسے چاہیئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنا لے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے اس سند سے صرف ربعی ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ علی (رض) سے روایت کرتے ہیں، ٢- میں نے جارود سے سنا وہ کہہ رہے تھے : میں نے وکیع کو کہتے ہوئے سنا کہ ربعی بن حراش نے اسلام میں کبھی کوئی جھوٹ نہیں بولا، ٣- اور مجھے محمد بن اسماعیل بخاری نے خبر دی اور وہ عبداللہ بن ابی اسود سے روایت کر رہے تھے، وہ کہتے ہیں : میں نے عبدالرحمٰن بن مہدی کو کہتے سنا : منصور بن معتمر اہل کوفہ میں سب سے ثقہ آدمی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجھاد ١٣٦ (٢٧٠٠) ، وانظر أیضا حدیث رقم ٢٦٦٠ (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٨) (ضعیف الإسناد) (سند میں سفیان بن وکیع ضعیف ہیں، لیکن حدیث کا آخری لفظ ” من کذب … “ دیگر سندوں سے صحیح متواتر ہے، ملاحظہ ہو : حدیث نمبر (٢٦٦٠، اور ٢٦٥٩، اور ٢٦٦١) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد، لکن الجملة الأخيرة منه صحيحة متواترة انظر الحديث (2796) // صحيح سنن الترمذي - باختصار السند - (2141 / 2809) ، وصحيح سنن النسائي - باختصار السند - 2141 - 2809) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3715

【112】

مناقب حضرت علی بن ابی طالب (رض) آپ کی کنیت ابوتراب اور ابوالحسن ہے

براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے علی سے فرمایا : تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور اس حدیث میں ایک واقعہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي، ولیس في بعض النسخ) (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3716

【113】

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم گروہ انصار، منافقوں کو علی (رض) سے ان کے بغض رکھنے کی وجہ سے خوب پہچانتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف ابوہارون کی روایت سے جانتے ہیں اور شعبہ نے ابوہارون کے سلسلہ میں کلام کیا ہے، ٢- یہ حدیث اعمش سے بھی روایت کی گئی ہے، جسے انہوں نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٢٦٤) (ضعیف جداً ) (سند میں ابو ہارون العبدی متروک راوی ہے) قال الشيخ الألباني : (حديث أبو سعيد) ضعيف الإسناد جدا، (حديث المساور الحميري عن أمه) ضعيف (حديث المساور الحميري عن أمه) ، المشکاة (6091) // ضعيف الجامع الصغير (6330) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3717

【114】

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے مجھے چار شخصوں سے محبت کا حکم دیا ہے، اور مجھے بتایا ہے کہ وہ بھی ان سے محبت کرتا ہے ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! ہمیں ان کا نام بتا دیجئیے، آپ نے فرمایا : علی انہیں میں سے ہیں ، آپ اس جملہ کو تین بار دہرا رہے تھے اور باقی تین : ابوذر، مقداد اور سلمان ہیں، مجھے اللہ نے ان لوگوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے، اور مجھے اس نے بتایا ہے کہ وہ بھی ان لوگوں سے محبت رکھتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٤٩) (تحفة الأشراف : ٢٠٠٨) ، و مسند احمد (٥/٣٥٦) (ضعیف) (سند میں ابو ربیعہ ایادی لین الحدیث، اور شریک القاضی ضعیف الحفظ ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (149) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (28) ، ضعيف الجامع الصغير (1566) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3718

【115】

حبشی بن جنادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور میری جانب سے نقض عہد کی بات میرے یا علی کے علاوہ کوئی اور ادا نہیں کرے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١١٩) (تحفة الأشراف : ٣٢٩٠) ، و مسند احمد (٤/١٦٤، ٩٥) (حسن) (سند میں شریک القاضی ضعیف الحفظ اور ابواسحاق سبیعی مدلس وصاحب اختلاط راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة رقم ١٩٨٠، وتراجع الالبانی ٣٧٨) وضاحت : ١ ؎ : اہل عرب کا یہ طریقہ تھا کہ نقض عہد یا صلح کی تنفیذ کا اعلان جب تک قوم کے سردار یا اس کے کسی خاص قریبی فرد کی طرف سے نہ ہوتا وہ اسے قبول نہ کرتے تھے ، اسی لیے جب رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر (رض) کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا اور پھر بعد میں اللہ کے اس فرمان «إنما المشرکون نجس فلا يقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا» (سورة التوبة : 28 ) کے ذریعہ اعلان برأت کی خاطر علی (رض) کو بھیجا تو آپ نے علی کی تکریم میں اسی موقع پر یہ بات فرمائی : «علی منی و أنا من علی و لا یؤدی عنی الا أنا أو علی»۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (119) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3719

【116】

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کے درمیان باہمی بھائی چارا کرایا تو علی (رض) روتے ہوئے آئے اور کہا : اللہ کے رسول ! آپ نے اپنے اصحاب کے درمیان بھائی چارا کرایا ہے اور میری بھائی چارگی کسی سے نہیں کرائی ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : تم میرے بھائی ہو دنیا اور آخرت دونوں میں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں زید بن ابی اوفی سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٦٧٧) (ضعیف) (سند میں حکیم بن جبیر ضعیف رافضی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6084) // ضعيف الجامع الصغير (1325) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3720

【117】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک پرندہ تھا، آپ نے دعا فرمائی کہ اے للہ ! میرے پاس ایک ایسے شخص کو لے آ جو تیری مخلوق میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوتا کہ وہ میرے ساتھ اس پرندہ کا گوشت کھائے، تو علی آئے اور انہوں نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے سدی کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- یہ حدیث انس سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، ٣- عیسیٰ بن عمر کوفی ہیں ٤- اور سدی کا نام اسماعیل بن عبدالرحمٰن ہے، اور ان کا سماع انس بن مالک سے ہے، اور حسین بن علی کی رؤیت بھی انہیں حاصل ہے، شعبہ، سفیان ثوری اور زائدہ نے ان کی توثیق کی ہے، نیز یحییٰ بن سعید القطان نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٢٨) (ضعیف) (سند میں سفیان بن وکیع ضعیف اور ساقط الحدیث ہیں، اور اسماعیل بن عبد الرحمن السدی الکبیر روایت میں وہم کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ تشیع سے متہم، اور اس روایت میں تشیع ہے بھی) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6085) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3721

【118】

علی (رض) کہتے ہیں کہ جب بھی میں رسول اللہ ﷺ سے مانگتا تو آپ مجھے دیتے تھے اور جب میں چپ رہتا تو خود ہی پہل کرتے (دینے میں یا بولنے میں) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٢٠٠) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن عمرو بن ہند جملی کا علی (رض) سے سماع نہیں ہے، یعنی : سند میں انقطاع ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6086) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3722

【119】

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب، اور منکر ہے، ٢- بعض راویوں نے اس حدیث کو شریک سے روایت کیا ہے، اور انہوں نے اس میں صنابحی کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ یہ حدیث کسی ثقہ راوی کے واسطہ سے شریک سے آئی ہو، اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٢٠٩) (موضوع) (سند میں شریک القاضی حافظہ کے ضعیف ہیں اور شریک کے سوا کسی نے سند میں صنابحی کا ذکر نہیں کیا ہے، جس سے پتہ چلا کہ سند میں انقطاع بھی ہوا ہے، اس حدیث پر ابن الجوزی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے موضوع کا حکم لگایا ہے، ابن تیمیہ کہتے ہیں : یہ حدیث ضعیف بلکہ عارفین حدیث کے یہاں موضوع ہے، لیکن ترمذی وغیرہ نے اس کی روایت کی ہے بایں ہمہ یہ جھوٹ ہے، اس حدیث کی مفصل تخریج ہم نے اپنی کتاب شیخ الاسلام ابن تیمیہ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ میں کی ہے حدیث نمبر ٣٧٦) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6087) // ضعيف الجامع الصغير (6087) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3723

【120】

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے ان کو امیر بنایا تو پوچھا کہ تم ابوتراب (علی) کو برا بھلا کیوں نہیں کہتے ؟ انہوں نے کہا : جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد رہیں گی جنہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے میں انہیں ہرگز برا نہیں کہہ سکتا، اور ان میں سے ایک کا بھی میرے لیے ہونا مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میرے لیے سرخ اونٹ ہوں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو علی (رض) سے فرماتے ہوئے سنا ہے (آپ نے انہیں اپنے کسی غزوہ میں مدینہ میں اپنا جانشیں مقرر کیا تھا تو آپ سے علی (رض) نے کہا تھا : اللہ کے رسول ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جا رہے ہیں) ، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تم میرے لیے اسی طرح ہو جس طرح ہارون موسیٰ کے لیے تھے، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد نبوت نہیں ١ ؎، اور دوسری یہ کہ میں نے آپ کو خیبر کے دن فرماتے ہوئے سنا کہ آج میں پرچم ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اس سے اللہ اور اس کے رسول بھی محبت کرتے ہیں، سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں تو ہم سب نے اس کے لیے اپنی گردنیں بلند کیں، یعنی ہم سب کو اس کی خواہش ہوئی، آپ نے فرمایا : علی کو بلاؤ، چناچہ وہ آپ کے پاس آئے اور انہیں آشوب چشم کی شکایت تھی تو آپ نے اپنا لعاب مبارک ان کی آنکھ میں لگایا اور پرچم انہیں دے دیا چناچہ اللہ نے انہیں فتح دی، تیسری بات یہ ہے کہ جب آیت کریمہ «ندع أبناءنا وأبناء کم ونساءنا ونساء کم» اتری۔ تو رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رض) کو بلایا اور فرمایا : اے اللہ ! یہ میرے اہل ہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٩ (٣٧٠٦) ، والمغازي ٧٨ (٤٤١٦) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤ (٢٤٠٤/٣٢) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٢١) ، ( تحفة الأشراف : ٣٨٧٢) ، و مسند احمد (١/١٧٠، ١٧٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ علی (رض) کے آپ ﷺ سے نہایت قریب ہونے کی دلیل ہے ، نیز یہ ختم نبوت کی ایک واضح دلیل ہے۔ ٢ ؎ : اس آیت مباہلہ میں جن لوگوں کو نبی اکرم ﷺ کا اہل مراد لیا گیا ان میں علی (رض) بھی شامل کئے گئے ، «ذلک فضل اللہ يؤتيه من يشاء» (الجمعة : ٤) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3724

【121】

براء (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دو لشکر بھیجے اور ان دونوں میں سے ایک کا امیر علی بن ابی طالب (رض) کو اور دوسرے کا خالد بن ولید (رض) کو بنایا اور فرمایا : جب لڑائی ہو تو علی امیر رہیں گے چناچہ علی (رض) نے ایک قلعہ فتح کیا اور اس سے (مال غنیمت میں سے) ایک لونڈی لے لی، تو میرے ساتھ خالد (رض) نے نبی اکرم ﷺ کو ایک خط لکھ کر بھیجا جس میں وہ آپ ﷺ سے علی (رض) کی شکایت کر رہے تھے، وہ کہتے ہیں : چناچہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا آپ نے خط پڑھا تو آپ کا رنگ متغیر ہوگیا پھر آپ نے فرمایا : تم کیا چاہتے ہو ایک ایسے شخص کے سلسلے میں جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : میں اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، میں تو صرف ایک قاصد ہوں، پھر آپ خاموش ہوگئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم : ١٧٠٤ (ضعیف الإسناد) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد ومضی برقم (1756) // (286 / 1772) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3725

【122】

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ طائف کے دن علی (رض) کو بلایا اور ان سے سرگوشی کے انداز میں کچھ باتیں کیں، لوگ کہنے لگے : آپ نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ بڑی دیر تک سرگوشی کی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے ان سے سرگوشی نہیں کی ہے بلکہ اللہ نے ان سے سرگوشی کی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اجلح کی روایت سے جانتے ہیں، اور اسے ابن فضیل کے علاوہ دوسرے راویوں نے بھی اجلح سے روایت کیا ہے، ٢- آپ کے قول بلکہ اللہ نے ان سے سرگوشی کی ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مجھے ان کے ساتھ سرگوشی کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٦٥٤) (ضعیف) (سند میں ابوالزبیر مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6088) ، الضعيفة (3084) // ضعيف الجامع الصغير (5022) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3726

【123】

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے علی (رض) سے فرمایا : علی ! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس مسجد میں جنبی رہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- علی بن منذر کہتے ہیں : میں نے ضرار بن صرد سے پوچھا : اس حدیث کا مفہوم کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ حالت جنابت میں وہ اس مسجد میں سے گزرے، ٣- مجھ سے محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو سنا تو وہ اچنبھے میں پڑگئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٢٠٣) (ضعیف) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف ہیں، اور سالم بن ابی حفصہ غالی شیعہ ہے، اور روایت میں تشیع ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6089) ، الضعيفة (4973) // ضعيف الجامع الصغير (6402) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3727

【124】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو دوشنبہ کو مبعوث کیا گیا اور علی نے منگل کو نماز پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اور یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف مسلم اعور کی روایت سے جانتے ہیں اور مسلم اعور محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں، ٢- اسی طرح یہ حدیث مسلم اعور سے بھی آئی ہے اور مسلم نے حبہ کے واسطہ سے اسی طرح علی سے روایت کی ہے، ٣- اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٨٩) (ضعیف الإسناد) (سند میں علی بن عابس اور مسلم بن کیسان اعور دونوں ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3728

【125】

None

علی رضی الله عنہ کہتے تھے: جب بھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگتا تو آپ مجھے دیتے تھے اور جب میں چپ رہتا تو خود ہی پہل کرتے ( دینے میں یا بولنے میں ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

【126】

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے علی (رض) سے فرمایا : تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لیے تھے، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (اور ہارون (علیہ السلام) اللہ کے نبی تھے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں سعد، زید بن ارقم، ابوہریرہ اور ام سلمہ (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٣٧٠) (صحیح) (سند میں شریک القاضی ضعیف الحفظ ہیں، مگر سعد بن ابی وقاص (رض) کی حدیث (٣٧٢٤) سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (3729) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3730

【127】

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے علی (رض) سے فرمایا : تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے ہارون، موسیٰ کے لیے تھے، مگر اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے ٢- اور یہ سعد بن ابی وقاص کے واسطہ سے جسے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کئی سندوں سے آئی ہے، ٣- اور یحییٰ بن سعید انصاری کی سند سے یہ حدیث غریب سمجھی جاتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٨٣٠ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (121) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3731

【128】

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے علی (رض) کے دروازے کے علاوہ (مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام) دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے شعبہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٣١٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مناقب ابی بکر (رض) میں یہ حدیث گزری کہ نبی اکرم ﷺ نے ابوبکر (رض) کے دروازے کے سوا مسجد نبوی میں کھلنے والے سارے دروازوں کو بند کردینے کا حکم دیا ان دونوں حدیثوں کے درمیان بظاہر نظر آنے والے تعارض کو اس طرح دور کیا گیا ہے ، کہ شروع میں مسجد میں کھلنے والے تمام دروازے سوائے علی (رض) کے بند کردینے کا حکم ہوا ، تو لوگوں نے دروازے بند کر کے روشندان کھول لیے اور نبی اکرم ﷺ کے مرض کے ایام میں آپ نے ابوبکر (رض) کے روشندان کے سوا سارے لوگوں کے روشندان بند کردیئے ، ( یہ روشندان اوپر بھی ہوتے تھے اور نیچے بھی ، نیچے والے سے لوگ آمدورفت بھی کرتے تھے ، مسجد کی طرف دروازوں کے بند ہوجانے کے بعد مسجد میں آنے جانے کے لیے لوگوں نے استعمال کرنا شروع کردیا تھا ، «کما فی کتب مشکل الحدیث»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الضعيفة تحت الحديث (4932 و 4951) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3732

【129】

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن اور حسین (رض) کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جو مجھ سے محبت کرے، اور ان دونوں سے، اور ان دونوں کے باپ اور ان دونوں کی ماں سے محبت کرے، تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے جعفر بن محمد کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٠٧٣) ، و مسند احمد (١/٧٧) (ضعیف) (سند میں علی بن جعفر مجہول ہیں، اور حدیث کا متن منکر ہے، ملاحظہ ہو الضعیفة رقم : ٣١٢٢) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (3122) ، تخريج المختارة (392 - 397) // ضعيف الجامع الصغير (5344) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3733

【130】

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ پہلے پہل جس نے نماز پڑھی وہ علی (رض) ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، شعبہ کی یہ حدیث جسے وہ ابوبلج سے روایت کرتے ہیں ہم اسے صرف محمد بن حمید کی روایت سے جانتے ہیں اور ابوبلج کا نام یحییٰ بن سلیم ہے، ٢- اہل علم نے اس سلسلہ میں اختلاف کیا ہے، بعض راویوں نے کہا ہے کہ پہلے پہل جس نے اسلام قبول کیا ہے وہ ابوبکر صدیق (رض) ہیں، اور بعضوں نے کہا ہے کہ پہلے پہل جو اسلام لائے ہیں وہ علی (رض) ہیں، اور بعض اہل علم نے کہا ہے : بڑے مردوں میں جو پہلے پہل اسلام لائے ہیں وہ ابوبکر (رض) ہیں اور علی (رض) جب اسلام لائے تو وہ آٹھ سال کی عمر کے لڑکے تھے، اور عورتوں میں جو سب سے پہلے اسلام لائی ہیں وہ خدیجہ (رض) ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (٦٣١٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور یہی قول سب سے بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الضعيفة تحت الحديث م (4932) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3734

【131】

زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ علی (رض) ہیں۔ عمرو بن مرہ کہتے ہیں : میں نے اسے ابراہیم نخعی سے ذکر کیا تو انہوں نے اس کا انکار کیا اور کہا : سب سے پہلے جس نے اسلام قبول کیا وہ ابوبکر صدیق (رض) ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٣٦٦٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد عن زيد، متصل عن النخعی صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3735

【132】

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی امی ﷺ نے مجھ سے فرمایا : تم سے صرف مومن ہی محبت کرتا ہے اور منافق ہی بغض رکھتا ہے ١ ؎۔ عدی بن ثابت کہتے ہیں : میں اس طبقے کے لوگوں میں سے ہوں، جن کے لیے نبی اکرم ﷺ نے دعا فرمائی ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٣ (٧٨) ، سنن النسائی/الإیمان ١٩ (٥٠٢١) ، و ٢٠ (٥٠٢٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١١٤) (تحفة الأشراف : ١٠٠٩٢) و مسند احمد (١/٨٤، ٩٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے شرعی محبت اور عداوت مراد ہے ، مثلاً ایک آدمی علی سے تو محبت رکھتا ہے مگر ابوبکر و عمر (رض) سے بغض رکھتا ہے تو اس کی محبت ایمان کی علامت نہیں ہوگی ، اور جہاں تک بغض کا معاملہ ہے ، تو صرف علی (رض) سے بھی بغض ایمان کی نفی کے لیے کافی ہے ، خواہ وہ ابوبکر و عمر و عثمان (رض) سے محبت ہی کیوں نہ رکھتا ہو۔ ٢ ؎ : یعنی : ارشاد نبوی اے اللہ تو اس سے محبت رکھ جو علی سے محبت رکھتا ہے ، کہ مصداق میں اس دعائے نبوی کے افراد میں شامل ہوں کیونکہ میں علی (رض) سے محبت رکھتا ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (114) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3736

【133】

ام عطیہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا جس میں علی (رض) بھی تھے، میں نے نبی اکرم ﷺ کو سنا آپ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے یہ دعا فرما رہے تھے : «اللهم لا تمتني حتی تريني عليا» اے اللہ ! تو مجھے مارنا نہیں جب تک کہ مجھے علی کو دکھا نہ دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٨١٤٢) (ضعیف) (سند میں ام شراحیل مجہول راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6090) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3737

【134】

طلحہ بن عبیداللہ (رض) کے مناقب

زبیر بن عوام (رض) کہتے ہیں کہ احد کے دن رسول اللہ ﷺ دو زرہیں پہنے ہوئے تھے، آپ ایک چٹان پر چڑھنے لگے لیکن چڑھ نہ سکے تو اپنے نیچے طلحہ کو بٹھایا اور چڑھے یہاں تک کہ چٹان پر سیدھے کھڑے ہوگئے، تو میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : طلحہ نے اپنے لیے (جنت) واجب کرلی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٦٩٢ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اپنے اس فدائیانہ و فدویانہ عمل کے طفیل طلحہ (رض) جنت کے حقدار قرار دئیے گئے ، یعنی دنیا ہی میں ان کو نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے جنت کی بشارت مل گئی۔ قال الشيخ الألباني : حسن مضی برقم (1759) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3738

【135】

طلحہ بن عبیداللہ (رض) کے مناقب

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس کو اس بات سے خوشی ہو کہ وہ کسی شہید کو (دنیا ہی میں) زمین پر چلتا ہوا دیکھے تو اسے چاہیئے کہ وہ طلحہ کو دیکھ لے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف صلت کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- بعض اہل علم نے صلت بن دینار اور صالح بن موسیٰ کے سلسلہ میں ان دونوں کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٢٥) (تحفة الأشراف : ٣١٠٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ معجزات رسول میں سے ایک معجزہ تھا ، چناچہ طلحہ (رض) اس معجزہ نبوی کے مطابق واقعہ جمل میں شہید ہوئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (125) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3739

【136】

طلحہ بن عبیداللہ (رض) کے مناقب

موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں معاویہ (رض) کے پاس آیا تو انہوں نے کہا : کیا میں تمہیں یہ خوشخبری نہ سناؤں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : طلحہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے سلسلہ میں اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ اپنا کام پورا کرچکے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے معاویہ (رض) کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٢٠٢ (حسن) وضاحت : ١ ؎ : یہ اللہ تعالیٰ کے قول «من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا اللہ عليه فمنهم من قضی نحبه ومنهم من ينتظر» (الأحزاب : 23 ) کی طرف اشارہ ہے ، یعنی : مومنوں میں ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان ( صبر و ثبات ) کو سچ کر دکھایا ، ان میں سے بعض نے تو اپنی نذر پوری کردی ، اور بعض وقت کا انتظار کر رہے ہیں ۔ قال الشيخ الألباني : حسن وهو مکرر الحديث (3432) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3740

【137】

طلحہ بن عبیداللہ (رض) کے مناقب

عقبہ بن علقمہ یشکری کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میرے کانوں نے رسول اللہ ﷺ کے زبان مبارک سے سنا ہے آپ فرما رہے تھے : طلحہ اور زبیر دونوں میرے جنت کے پڑوسی ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٢٤٣) (ضعیف) (سند میں ابو عبد الرحمن نضر بن منصور اور عقبہ بن علقمة یشکری دونوں ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6114) ، الضعيفة (2311) // ضعيف الجامع الصغير (3627) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3741

【138】

طلحہ بن عبیداللہ (رض) کے مناقب

طلحہ (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ نے ایک جاہل اعرابی سے کہا : تم نبی اکرم ﷺ سے «من قضی نحبه» کے متعلق پوچھو کہ اس سے کون مراد ہے، صحابہ کا یہ حال تھا کہ رسول اللہ ﷺ کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ آپ ﷺ کی ان پر اتنی ہیبت طاری رہتی تھی کہ وہ آپ سے سوال کی جرات نہیں کر پاتے تھے، چناچہ اس اعرابی نے آپ سے پوچھا تو آپ نے اپنا منہ پھیرلیا، اس نے پھر پوچھا : آپ نے پھر منہ پھیرلیا پھر میں مسجد کے دروازے سے نکلا، میں سبز کپڑے پہنے ہوئے تھا، تو جب رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا : «من قضی نحبه» کے متعلق پوچھنے والا کہاں ہے ؟ اعرابی بولا : میں موجود ہوں اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : یہ «عن قضی نحبہ» میں سے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف ابوکریب کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ یونس بن بکیر سے روایت کرتے ہیں، ٢- کبار محدثین میں سے متعدد لوگوں نے ابوکریب سے روایت کی ہے، ٣- میں نے اسے محمد بن اسماعیل بخاری کو ابوکریب کے واسطہ سے بیان کرتے سنا ہے، اور انہوں نے اس حدیث کو اپنی کتاب کتاب الفوائد میں رکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٠٢ (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وهو مکرر الحديث (3433) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3742

【139】

حضرت زبیر بن عوام (رض) نے مناقب

زبیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قریظہ کے دن اپنے ماں اور باپ دونوں کو میرے لیے جمع کیا اور فرمایا : میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ١٣ (٣٧٢٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٦ (٢٤١٦) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٢٣) (تحفة الأشراف : ٣٦٢٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور یہ زبیر سے اللہ کے رسول ﷺ کی نہایت قربت کی دلیل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3743

【140】

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں ١ ؎ اور میرے حواری زبیر بن عوام ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور حواری مددگار کو کہا جاتا ہے، میں نے ابن ابی عمر کو کہتے ہوئے سنا کہ سفیان بن عیینہ نے کہا ہے کہ حواری کے معنی مددگار کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٠٩٦) (صحیح) (یہ سند حسن ہے، اور یہ حدیث جابر (رض) سے متفق علیہ مروی ہے، ملاحظہ ہو : ابن ماجہ ١٢٢) وضاحت : ١ ؎ : یوں تو سبھی صحابہ کرام آپ ﷺ کے مددگار تھے ، مگر زبیر (رض) میں یہ خصوصیت بدرجہ اتم تھی ، اس لیے خاص طور سے آپ نے اس کا تذکرہ کیا اور اس کا ایک خاص پس منظر ہے جس کا بیان اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (122) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3744

【141】

جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر بن عوام ہیں ١ ؎، اور ابونعیم نے اس میں «یوم الأحزاب» (غزوہ احزاب) کا اضافہ کیا ہے، آپ نے فرمایا : کون میرے پاس کافروں کی خبر لائے گا ؟ تو زبیر (رض) بولے : میں، آپ نے تین بار اسے پوچھا اور زبیر (رض) نے ہر بار کہا : میں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٤٠ (٢٨٤٦) ، و ٤١ (٢٨٤٧) ، ١٣٥ (٢٩٩٧) ، وفضائل الصحابة ١٣ (٣٧١٩) ، والمغازي ٢٩ (٤١١٣) ، والآحاد ٢ (٧٢٦١) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٦ (٢٤١٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٢٢) (تحفة الأشراف : ٣٠٢٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : غزوہ احزاب کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے جب کفار کی سرگرمیوں کا پتہ لگانے کے لیے یہ اعلان کیا کہ کون ہے جو مجھے کافروں کے حال سے باخبر کرے اور ایسا آپ نے تین بار کہا ، تینوں مرتبہ زبیر (رض) کے سوا کسی نے بھی جواب نہیں دیا ، اسی موقع پر آپ نے زبیر (رض) کے حق میں یہ فرمایا تھا : «ان لکل نبی حواریا و ان حواری الزبیر بن العوام» یہ بھی یاد رکھئیے کہ زبیر بن عوام نبی اکرم ﷺ کی سگی پھوپھی صفیہ (رض) کے بیٹے تھے ، اور ان کی شادی ام المؤمنین عائشہ کی بڑی بہن اسماء بنت ابی بکر (رض) کے ساتھ ہوئی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (3744) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3745

【142】

ہشام بن عروہ کہتے ہیں کہ زبیر (رض) نے اپنے بیٹے عبداللہ (رضی اللہ عنہما) کو جنگ جمل کی صبح کو وصیت کی اور کہا : میرا کوئی عضو ایسا نہیں ہے جو رسول اللہ ﷺ کی رفاقت میں زخمی نہ ہوا ہو یہاں تک کہ میری شرمگاہ بھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : حماد بن زید کی روایت سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٦٢٧) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : یہ وصیت انہوں نے اس لیے کی کہ جو قربانیاں ہم نے غلبہ دین حق کے لیے دی تھیں اور اسلام ان قربانیوں کے عوض دنیا پر غالب آگیا ہے ، آج اسی قوت ، طاقت ، صلاحیت اور قربانی کو ہم آپس میں ضائع کر رہے ہیں چناچہ زبیر (رض) جنگ جمل سے دست بردار ہو کر واپس مکہ ( یا مدینہ طیبہ ) کی طرف پلٹ آئے تھے اور آپ کو راستے میں کسی نے شہید کردیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3746

【143】

حضرت عبدالرحمن بن عوف زہری (رض) کے مناقب

عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، عبدالرحمٰن بن عوف جنتی ہیں، سعد جنتی ہیں، سعید (سعید بن زید) جنتی ہیں اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں ١ ؎ (رضی اللہ علیہم اجمعین) ابومصعب نے ہمیں خبر دی کہ انہوں نے عبدالعزیز بن محمد کے آگے پڑھا اور عبدالعزیز نے عبدالرحمٰن بن حمید سے اور عبدالرحمٰن نے اپنے والد حمید کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی لیکن اس میں عبدالرحمٰن بن عوف کے واسطہ کا ذکر نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث عبدالرحمٰن بن حمید سے بطریق : «عن أبيه عن سعيد بن زيد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» بھی آئی ہے، (اور اسی طرح آئی ہے) ، اور یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے (جو آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٩٧١٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہی وہ حدیث ہے جس میں دس جنتیوں کا نام ایک مجلس میں اکٹھے آیا ہے ، اور اسی بنا پر ان دسوں کو عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے ، ورنہ جنت کی خوشخبری آپ ﷺ نے ان دس کے علاوہ بھی دیگر صحابہ کو دی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6110 و 6111) ، تخرج الطحاوية (728) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3747

【144】

حضرت عبدالرحمن بن عوف زہری (رض) کے مناقب

حمید سے روایت ہے کہ سعید بن زید (رض) نے ان سے کئی اشخاص کی موجودگی میں بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دس آدمی جنتی ہیں، ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں عثمان، علی، زبیر، طلحہ، عبدالرحمٰن، ابوعبیدہ اور سعد بن ابی وقاص (جنتی ہیں) وہ کہتے ہیں : تو انہوں نے ان نو ( ٩) کو گن کر بتایا اور دسویں آدمی کے بارے میں خاموش رہے، تو لوگوں نے کہا : اے ابوالاعور ہم اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھ رہے ہیں کہ دسواں کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا : تم لوگوں نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے (اس لیے میں بتارہا ہوں) ابوالاعور جنتی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا ہے کہ یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ٢- ابوالاعور سے مراد خود سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٤٤٥٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (133) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3748

【145】

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (اپنی بیویوں سے) فرماتے تھے : تم لوگوں کا معاملہ مجھے پریشان کئے رہتا ہے کہ میرے بعد تمہارا کیا ہوگا ؟ تمہارے حقوق کی ادائیگی کے معاملہ میں صرف صبر کرنے والے ہی صبر کرسکیں گے۔ پھر عائشہ (رض) نے (ابوسلمہ سے) کہا : اللہ تمہارے والد یعنی عبدالرحمٰن بن عوف کو جنت کی نہر سلسبیل سے سیراب کرے، انہوں نے آپ ﷺ کی بیویوں کے ساتھ ایک ایسے مال کے ذریعہ جو چالیس ہزار (دینار) میں بکا، اچھے سلوک کا مظاہرہ کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٧٢٦) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : نبی اکرم ﷺ کی پیشین گوئی عبدالرحمٰن بن عوف (رض) پر صادق آتی ہے ، یعنی یہ «الصابرون» میں داخل ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (6121 و 6122) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3749

【146】

ابوسلمہ سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے امہات المؤمنین (رض) کے لیے ایک باغ کی وصیت کی جسے چار لاکھ (درہم) میں بیچا گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح) (یہ حدیث حسن ہے، لیکن اس سے پہلے کی حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح بما قبله (3749) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3750

【147】

حضرت ابواسحاق سعد بن ابی وقاص (رض) کے مناقب

سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! سعد جب تجھ سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول فرما ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اسماعیل بن ابی خالد سے قیس بن حازم کے واسطہ سے روایت کی گئی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! سعد جب تجھ سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول فرما اور یہ زیادہ صحیح ہے (یعنی : مرسل روایت زیادہ صحیح ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٩١٣ الف) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ سعد بن ابی وقاص (رض) رسول اللہ ﷺ کی دعا کے بموجب مستجاب الدعوات ہونے کی دلیل ہے ، اور ایک بہت بڑی فضیلت ہے۔ آثار و روایات میں سعد (رض) کی بہت ساری دعاؤں کا ذکر ملتا ہے جو ان کی زندگی میں ہی پوری ہوگئیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6116) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3751

【148】

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص (رض) آئے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ میرے ماموں ہیں، تو مجھے دکھائے کوئی اپنا ماموں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے مجالد ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- سعد بن ابی وقاص قبیلہ بنی زہرہ کے ایک فرد تھے اور نبی اکرم ﷺ کی والدہ محترمہ قبیلہ بنی زہرہ ہی کی تھیں، اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ یہ میرے ماموں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٣٥٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی میرے ماموں جیسے کسی کے ماموں نہیں ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6118) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3752

【149】

علی بن زید اور یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ان دونوں نے سعید بن مسیب کو کہتے ہوئے سنا کہ علی (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے سعد کے علاوہ کسی اور کے لیے اپنے باپ اور ماں کو جمع نہیں کیا ١ ؎، احد کے دن آپ نے سعد سے فرمایا : تم تیر مارو میرے باپ اور ماں تم پر فدا ہوں، تم تیر مارو اے جوان پٹھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث متعدد لوگوں سے روایت کی گئی ہے ان سب نے اسے یحییٰ بن سعید سے، اور یحییٰ نے سعید بن مسیب کے واسطہ سے سعد (رض) سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٨٢٨ (صحیح) (متن میں ” الغلام الحزور “ کا ذکر منکر ہے، سند میں حسن بن الصباح البزار راوی کے بارے میں ابن حجر کہتے ہیں : صدوق یہم یعنی ثقہ ہیں، اور حدیث بیان کرنے میں وہم کا شکار ہوجاتے ہیں، اور الغلام الحزور کی زیادتی اس کی دلیل ہے) وضاحت : ١ ؎ : زبیر بن عوام (رض) کے مناقب میں گزرا کہ ان کے لیے بھی اللہ کے رسول ﷺ نے «فدان ابی وامی» ، کہا ، دونوں میں یہ تطبیق دی جاتی ہے کہ علی (رض) کو زبیر کے بارے میں یہ معلوم نہیں تھا ، یا یہ مطلب ہے کہ احد کے دن کسی اور کے لیے آپ ﷺ نے ایسا نہیں کہا۔ قال الشيخ الألباني : منکر - بذکر الغلام الحزور - وقد مضی برقم (2986) // (535 / 2998) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3753

【150】

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احد کے دن اپنے ماں اور باپ دونوں کو میرے لیے جمع کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث عبداللہ بن شداد بن ہاد سے بھی روایت کی گئی ہے اور انہوں نے علی بن ابی طالب کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٨٣٠ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یوں فرمایا : میرے باپ اور میری ماں تم پر فدا ہوں ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح وتقدم برقم (2999) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3754

【151】

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے اپنے باپ اور ماں کو سعد کے علاوہ کسی اور پر فدا کرتے نہیں سنا، میں نے احد کے دن آپ کو فرماتے ہوئے سنا : سعد تم تیر مارو، میرے باپ اور ماں تم پر فدا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٨٢٨ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وتقدم برقم (2997) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3755

【152】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو کسی غزوہ سے مدینہ واپس آنے پر ایک رات نیند نہیں آئی، تو آپ نے فرمایا : کاش کوئی مرد صالح ہوتا جو آج رات میری نگہبانی کرتا ، ہم اسی خیال میں تھے کہ ہم نے ہتھیاروں کے کھنکھناہٹ کی آواز سنی، تو آپ ﷺ نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ آنے والے نے کہا : میں سعد بن ابی وقاص ہوں، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا : تم کیوں آئے ہو ؟ تو سعد (رض) نے کہا : میرے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں رسول اللہ ﷺ کو کوئی نقصان نہ پہنچے اس لیے میں آپ کی نگہبانی کے لیے آیا ہوں، تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی پھر سو گئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٧٠ (٢٨٨٥) ، والتمنی ٤ (٧٢٣١) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥ (٢٤١٠) (تحفة الأشراف : ١٦٢٢٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : اللہ کے رسول اللہ ﷺ کے فرمان «رجل صالح» کے مصداق سعد (رض) قرار پائے ، یہ ایک بہت بڑی فضیلت ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ کسی کو «رجل صالح» قرار دیں ہیں ، «رضی اللہ عنہ وأرضاہ»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3756

【153】

حضرت ابو اعور سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (رض) کے مناقب

سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (رض) کہتے ہیں کہ میں نو اشخاص کے سلسلے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ یہ لوگ جنتی ہیں اور اگر میں دسویں کے سلسلے میں گواہی دوں تو بھی گنہگار نہیں ہوں گا، آپ سے کہا گیا : یہ کیسے ہے ؟ (ذرا اس کی وضاحت کیجئے) تو انہوں نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حرا پہاڑ پر تھے تو آپ نے فرمایا : ٹھہرا رہ اے حرا ! تیرے اوپر ایک نبی، یا صدیق، یا شہید ١ ؎ کے علاوہ کوئی اور نہیں ، عرض کیا گیا : وہ کون لوگ ہیں جنہیں آپ نے صدیق یا شہید فرمایا ہے ؟ (انہوں نے کہا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف ہیں (رض) ، پوچھا گیا : دسویں شخص کون ہیں ؟ تو سعید نے کہا : وہ میں ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث کئی سندوں سے سعید بن زید (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ٩ (٤٦٤٨) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٣٤) (تحفة الأشراف : ٤٤٥٨) ، وانظر ماتقدم برقم ٣٧٤٧ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہاں شہید کا لفظ ایک شہید کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ جنس شہید کے معنی میں ہے ، اس لیے کہ آپ نے کئی شہیدوں کے نام گنائے ہیں ، اسی طرح صدیق بھی جنس صدیق کے معنی میں ہے ، کیونکہ سعد بن ابی وقاص شہید نہیں ہوئے تھے ، وہ صدیق کے جنس سے ہیں ، گرچہ یہ لقب ابوبکر (رض) کے لیے مشہور ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح وتقدم قريبا (4014) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3757

【154】

حضرت ابوعبیدہ بن عامر بن جراح (رض) کے مناقب

عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے بیان کیا کہ عباس بن عبدالمطلب رسول اللہ ﷺ کے پاس غصہ کی حالت میں آئے، میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ نے پوچھا : تم غصہ کیوں ہو ؟ وہ بولے : اللہ کے رسول ! قریش کو ہم سے کیا (دشمنی) ہے کہ جب وہ آپس میں ملتے ہیں تو خوش روئی سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو اور طرح سے ملتے ہیں، (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ غصہ میں آ گئے، یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر تم سے محبت نہ کرے ، پھر آپ نے فرمایا : اے لوگو ! جس نے میرے چچا کو اذیت پہنچائی تو اس نے مجھے اذیت پہنچائی کیونکہ آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ١ ؎ ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ماتقدم عندہ برقم ٣٦٠٧ (تحفة الأشراف : ١١٢٨٩) (ضعیف) (سند میں یزید بن ابی زیاد ہاشمی کوفی ضعیف شیعی راوی ہے، کبر سنی کی وجہ سے حافظہ میں تغیر آگیا تھا، اور دوسروں کی تلقین قبول کرنے لگے تھے، لیکن حدیث کا آخری ٹکڑا ” عم الرجل صنو أبيه “ ثابت ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے ٣٧٦٠، ٣٧٦١) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں «صنو» کا لفظ آیا ہے ، «صنو» کی حقیقت یہ ہے کہ کسی درخت کے ایک ہی تنے سے اوپر دو یا تین یا چار شاخیں نکلتی ہیں ، ان شاخوں کو آپس میں ایک دوسرے کا «صنو» کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف إلا قوله : عم الرجل ... فصحيح، المشکاة (6147) ، الصحيحة (806) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3758 عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے بیان کیا کہ عباس بن عبدالمطلب رسول اللہ ﷺ کے پاس غصہ کی حالت میں آئے، میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ نے پوچھا : تم غصہ کیوں ہو ؟ وہ بولے : اللہ کے رسول ! قریش کو ہم سے کیا (دشمنی) ہے کہ جب وہ آپس میں ملتے ہیں تو خوش روئی سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو اور طرح سے ملتے ہیں، (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ غصہ میں آ گئے، یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر تم سے محبت نہ کرے ، پھر آپ نے فرمایا : اے لوگو ! جس نے میرے چچا کو اذیت پہنچائی تو اس نے مجھے اذیت پہنچائی کیونکہ آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ١ ؎ ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ماتقدم عندہ برقم ٣٦٠٧ (تحفة الأشراف : ١١٢٨٩) (ضعیف) (سند میں یزید بن ابی زیاد ہاشمی کوفی ضعیف شیعی راوی ہے، کبر سنی کی وجہ سے حافظہ میں تغیر آگیا تھا، اور دوسروں کی تلقین قبول کرنے لگے تھے، لیکن حدیث کا آخری ٹکڑا ” عم الرجل صنو أبيه “ ثابت ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے ٣٧٦٠، ٣٧٦١ ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں «صنو» کا لفظ آیا ہے ، «صنو» کی حقیقت یہ ہے کہ کسی درخت کے ایک ہی تنے سے اوپر دو یا تین یا چار شاخیں نکلتی ہیں ، ان شاخوں کو آپس میں ایک دوسرے کا «صنو» کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف إلا قوله : عم الرجل ... فصحيح، المشکاة (6147) ، الصحيحة (806 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3758

【155】

حضرت ابوفضل عباس بن عبدالمطلب کے مناقب

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عباس مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسرائیل کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٥٥٤٤) (ضعیف) (سند میں عبدا لأعلی بن عامر ضعیف راوی ہیں، الضعیفة ٢٣١٥) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6148) ، الضعيفة (2315) // ضعيف الجامع الصغير (3842) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3759

【156】

علی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عمر (رض) سے عباس (رض) کے سلسلہ میں فرمایا : بلاشبہہ آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ہوتا ہے عمر (رض) نے آپ ﷺ سے ان کے صدقہ کے سلسلہ میں کوئی بات کی تھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠١١٢) (صحیح) (شواہد کی بنا پر حدیث صحیح ہے، دیکھئے : حدیث نمبر (٣٧٦١) والصحیحة ٨٠٦) وضاحت : ١ ؎ : صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمر (رض) کو زکاۃ کا مال جمع کرنے کے لیے بھیجا تو کچھ لوگوں نے دینے سے انکار کردیا ، ان میں سے آپ ﷺ کے چچا عباس (رض) بھی تھے ، انہی کے سلسلہ میں آپ نے عمر سے فرمایا : «و أما العباس فھی علي ومثلھا معھا» یعنی جہاں تک میرے چچا عباس کا مسئلہ ہے تو ان کا حق میرے اوپر ہے اور اسی کے مثل مزید اور ، ساتھ ہی آپ نے وہ بات بھی کہی جو حدیث میں مذکور ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (3759) ، الإرواء (3 / 348 - 349) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3760

【157】

حضرت ابوفضل عباس بن عبدالمطلب کے مناقب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عباس اللہ کے رسول کے چچا ہیں اور آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے ابوالزناد کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣ (٩٨٣) ، سنن ابی داود/ الزکاة ٢١ (١٦٢٢) ، سنن النسائی/الزکاة ١٥ (٢٤٦٦) (تحفة الأشراف : ١٣٩٢٢) (وأخرجہ البخاري في الزکاة (٤٩/ح ١٤٦٨) ، بدون قولہ : ” عم الرجل صنو أبیہ “ ) ، و مسند احمد (٢/٣٢٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (806) ، صحيح أبي داود (1435) ، الإرواء (3 / 348 - 350) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3761

【158】

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عباس (رض) سے فرمایا : دوشنبہ کی صبح کو آپ اپنے لڑکے کے ساتھ میرے پاس آئیے تاکہ میں آپ کے حق میں ایک ایسی دعا کر دوں جس سے اللہ آپ کو اور آپ کے لڑکے کو فائدہ پہنچائے ، پھر وہ صبح کو گئے اور ہم بھی ان کے ساتھ گئے تو آپ نے ہمیں ایک چادر اڑھا دی، پھر دعا کی : اے اللہ ! عباس کی اور ان کے لڑکے کی بخشش فرما، ایسی بخشش جو ظاہر اور باطن دونوں اعتبار سے ایسی ہو کہ کوئی گناہ نہ چھوڑے، اے اللہ ! ان کی حفاظت فرما، ان کے لڑکے کے سلسلہ میں یعنی اس کے حقوق کی ادائیگی کی انہیں خوب توفیق مرحمت فرما ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٣٦٤) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (6149 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3762

【159】

حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) کے مناقب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے جعفر کو جنت میں فرشتوں کے ساتھ اڑتے دیکھا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عبداللہ بن جعفر کی روایت سے جانتے ہیں، اور یحییٰ بن معین وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے، اور عبداللہ بن جعفر : علی بن مدینی کے والد ہیں، ٢- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٠٣٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1226) ، المشکاة (6153) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3763

【160】

حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) کے مناقب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نہ کسی نے جوتا پہنایا اور نہ پہنا اور نہ سوار ہوا سواریوں پر اور نہ چڑھا اونٹ کی کاٹھی پر جو رسول اللہ ﷺ کے بعد جعفر بن ابی طالب سے افضل و بہتر ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- «کور» کے معنیٰ کجاوہ کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ١٤٢٤٦) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد موقوفا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3764

【161】

حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) کے مناقب

براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جعفر بن ابی طالب سے فرمایا : تم صورت اور سیرت دونوں میں میرے مشابہ ہو ، اور اس حدیث میں ایک قصہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے والد نے اسرائیل کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٨٠٣) (صحیح) وضاحت : ؎ : قصہ یہ ہے کہ «عمرۃ القضاء» کے موقع سے حمزہ (رض) کی بچی کی کفالت کے لیے : جعفر، علی اور زید بن خارجہ (رض) کے درمیان اختلاف ہوا، سب نے اپنا اپنا حق جتایا، لیکن بچی کی خالہ کے جعفر (رض) کی زوجیت میں ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ نے بچی کو جعفر کے حوالہ کردیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3765

【162】

حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) کے مناقب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں قرآن کی آیتوں کے سلسلہ میں صحابہ سے پوچھا کرتا تھا، چاہے میں اس کے بارے ان سے زیادہ واقف ہوتا ایسا اس لیے کرتا تاکہ وہ مجھے کچھ کھلائیں، چناچہ جب میں جعفر بن ابی طالب سے پوچھتا تو وہ مجھے جواب اس وقت تک نہیں دیتے جب تک مجھے اپنے گھر نہ لے جاتے اور اپنی بیوی سے یہ نہ کہتے کہ اسماء ہمیں کچھ کھلاؤ، پھر جب وہ ہمیں کھلا دیتیں تب وہ مجھے جواب دیتے، جعفر (رض) مسکینوں سے بہت محبت کرتے تھے، ان میں جا کر بیٹھتے تھے ان سے باتیں کرتے تھے، اور ان کی باتیں سنتے تھے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ انہیں ابوالمساکین کہا کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ابواسحاق مخزومی کا نام ابراہیم بن فضل مدنی ہے اور بعض محدثین نے ان کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے اور ان سے غرائب حدیثیں مروی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٧ (٤١٢٥) (تحفة الأشراف : ١٢٩٤٢) (ضعیف جداً ) (سند میں ابراہیم بن الفضل ابواسحاق متروک ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، المشکاة (6152 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3766

【163】

حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) کے مناقب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم جعفر بن ابی طالب کو ابوالمساکین کہہ کر پکارتے تھے، چناچہ جب ہم ان کے پاس آتے تو وہ جو کچھ موجود ہوتا ہمارے سامنے لا کر رکھ دیتے، تو ایک دن ہم ان کے پاس آئے اور جب انہیں کوئی چیز نہیں ملی، (جو ہمیں پیش کرتے) تو انہوں نے شہد کا ایک گھڑا نکالا اور اسے توڑا تو ہم اسی کو چاٹنے لگے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث ابوسلمہ کی روایت سے جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے، حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (ضعیف) (حاتم بن سیاہ مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کی موجودگی میں، ورنہ لین الحدیث یعنی ضعیف، اور یزید بن قسیط یہ یزید بن عبداللہ بن قسیط لیثی ثقہ راوی ہیں) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3767

【164】

ابو محمد حسن بن علی بن ابی طالب (رض) اور حسین بن علی بن ابی طالب (رض) کے مناقب

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حسن اور حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤١٣٤) ، و مسند احمد (٣/٣، ٢٢، ٦٤، ٨٠) (صحیح) (سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة رقم ٧٩٦) وضاحت : ١ ؎ : جنت میں جوانوں کے سردار اس کے محدثین نے کئی معانی بیان کئے ہیں ، ( ١) جو لوگ جوانی کی حالت میں وفات پائے ( اور جنتی ہیں ) ان کے سردار یہ دونوں ہوں گے ، اس بیان کے وقت وہ دونوں جوان تھے ، شہادت جوانی کے بعد حالت کہولت میں ہوئی ، لیکن جوانی کی حالت میں وفات پانے والوں کے سردار بنا دیئے گئے ہیں ( ٢) جنت میں سبھی لوگ جوانی کی عمر میں کردیئے جائیں گے ، اس لیے مراد یہ ہے کہ انبیاء اور خلفائے راشدین کے سوا دیگر لوگوں کے سردار یہ دونوں ہوں گے ( ٣) اس زمانہ کے ( جب یہ دونوں جوان تھے ) ان جوانوں کے یہ سردار ہیں جو مرنے کے بعد جنت میں جائیں گے ، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (796) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3768 ہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے جریر اور محمد بن فضیل نے یزید کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے، ابن ابی نعم کا نام عبدالرحمٰن بن ابی نعم بجلی کوفی ہے اور ان کی کنیت ابوالحکم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (796) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3768

【165】

ابو محمد حسن بن علی بن ابی طالب (رض) اور حسین بن علی بن ابی طالب (رض) کے مناقب

اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک رات کسی ضرورت سے نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ ﷺ نکلے تو آپ ایک ایسی چیز لپیٹے ہوئے تھے جسے میں نہیں جان پا رہا تھا کہ کیا ہے، پھر جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا : یہ کیا ہے جس کو آپ لپیٹے ہوئے ہیں ؟ تو آپ نے اسے کھولا تو وہ حسن اور حسین (رض) تھے، آپ ﷺ کے کولہے سے چپکے ہوئے تھے، پھر آپ نے فرمایا : یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں، اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٦) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (6156 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3769

【166】

ابو محمد حسن بن علی بن ابی طالب (رض) اور حسین بن علی بن ابی طالب (رض) کے مناقب

عبدالرحمٰن بن ابی نعم سے روایت ہے کہ اہل عراق کے ایک شخص نے ابن عمر (رض) سے مچھر کے خون کے بارے میں پوچھا جو کپڑے میں لگ جائے کہ اس کا کیا حکم ہے ؟ ١ ؎ تو ابن عمر (رض) نے کہا : اس شخص کو دیکھو یہ مچھر کے خون کا حکم پوچھ رہا ہے ! حالانکہ انہیں لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے نواسہ کو قتل کیا ہے، اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : حسن اور حسین (رض) یہ دونوں میری دنیا کے پھول ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث صحیح ہے، ٢- اسے شعبہ اور مہدی بن میمون نے بھی محمد بن ابی یعقوب سے روایت کیا ہے، ٣- ابوہریرہ کے واسطے سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی روایت آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١٨ (٥٩٩٤) (تحفة الأشراف : ٧٣٠٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ سائل نے حالت احرام میں مچھر مارنے کے فدیہ کے بارے میں سوال کیا تھا ، ہوسکتا ہے کہ مؤلف کی روایت میں کسی راوی نے مبہم روایت کردی ہو ، سیاق و سباق کے لحاظ سے صحیح صورت حال مسئلہ وہی ہے جو صحیح بخاری میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6155) ، الصحيحة (564) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3770

【167】

ابو محمد حسن بن علی بن ابی طالب (رض) اور حسین بن علی بن ابی طالب (رض) کے مناقب

سلمیٰ کہتی ہیں کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے پاس آئی، وہ رو رہی تھیں، میں نے پوچھا : آپ کیوں رو رہی ہیں ؟ وہ بولیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے (یعنی خواب میں) آپ کے سر اور داڑھی پر مٹی تھی، تو میں نے عرض کیا : آپ کو کیا ہوا ہے ؟ اللہ کے رسول ! تو آپ نے فرمایا : میں حسین کا قتل ابھی ابھی دیکھا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٨٢٧٩) (ضعیف) (سند میں سلمی البکریة ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6157) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3771

【168】

ابو محمد حسن بن علی بن ابی طالب (رض) اور حسین بن علی بن ابی طالب (رض) کے مناقب

انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ کے اہل بیت میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) ، آپ فاطمہ (رض) سے فرماتے : میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ، پھر آپ انہیں چومتے اور انہیں اپنے سینہ سے لگاتے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : انس کی روایت سے یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٠٦) (ضعیف) (سند میں یوسف بن ابراہیم ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6158) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3772

【169】

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر چڑھ کر فرمایا : میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور «ابني هذا» سے مراد حسن بن علی ہیں (رض) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلح ٩ (٢٧٠٤) ، والمناقب ٢٥ (٣٦٢٩) ، وفضائل الصحابة ٢٢ (٣٧٤٦) ، والفتن ٢٠ (٧١٠٩) ، سنن ابی داود/ السنة ١٣ (٤٦٦٢) ، سنن النسائی/الجمعة ٢٧ (١٤١١) (تحفة الأشراف : ١١٦٥٨) ، و مسند احمد (٥/٣٧، ٤٤، ٤٩، ٥١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی میرا یہ نواسہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کا سبب بنے گا ، چناچہ خلافت کے مسئلہ کو لے کر جب مسلمانوں کے دو گروہ ہوگئے ، ایک گروہ معاویہ (رض) کے ساتھ اور دوسرا حسن (رض) کے ساتھ تھا ، تو حسن (رض) نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کر کے مسلمانوں کو قتل و خونریزی سے بچا کر اس امت پر بڑا احسان کیا اور یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے «جزاہ اللہ عن المسلمین خیر الجزاء»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (923) ، الإرواء (1597) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3773

【170】

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک حسن اور حسین (رض) دونوں سرخ قمیص پہنے ہوئے گرتے پڑتے چلے آ رہے تھے، آپ نے منبر سے اتر کر ان دونوں کو اٹھا لیا، اور ان کو لا کر اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے «إنما أموالکم وأولادکم فتنة» ١ ؎ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں، میں نے ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے ہوئے دیکھا تو صبر نہیں کرسکا، یہاں تک کہ اپنی بات روک کر میں نے انہیں اٹھا لیا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف حسین بن واقد کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٣٣ (١١٠٩) ، سنن النسائی/الجمعة ٣٠ (١٤١٤) ، والعیدین ٢٧ (١٥٨٦) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٠ (٣٦٠٠) (تحفة الأشراف : ١٩٥٨) ، و مسند احمد (٥/٣٥٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : التغابن : ١٥۔ ٢ ؎ : جہاں یہ بچوں کے ساتھ آپ ﷺ کے کمال شفقت کی دلیل ہے ، وہیں حسن اور حسین (رض) کے آپ کے نزدیک مقام و مرتبہ کی بھی بات ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3600) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3774

【171】

یعلیٰ بن مرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں ١ ؎ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین قبائل میں سے ایک قبیلہ ہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں ١- یہ حدیث حسن ہے ہم اسے صرف عبداللہ بن عثمان بن خثیم کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- اسے عبداللہ بن عثمان بن خثیم سے متعدد لوگوں نے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٤٤) (تحفة الأشراف : ١١٨٥٠) ، و مسند احمد (٤/١٧٢) (حسن) (تراجع الالبانی ٣٧٥) الصحیحہ ١٢٢٧) وضاحت : ١ ؎ : بقول قاضی عیاض : اللہ کے رسول ﷺ من جانب اللہ مطلع کردیئے گئے تھے کہ کچھ لوگ حسین سے بغض رکھیں گے اس لیے آپ نے پیشگی بیان کردیا کہ حسین سے محبت مجھ سے محبت ہے ، اور حسین سے دشمنی مجھ سے دشمنی ہے کیونکہ ہم دونوں ایک ہی ہیں ۔ ٢ ؎ : یعنی : حسین (رض) کی بہت ہی زیادہ اولاد ہوگی ، یعنی ان کی نسل خوب پھیلے گی کہ قبائل بن جائیں گے ، سو ایسا ہی ہوا۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (144) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3775

【172】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں میں حسن بن علی (رض) سے زیادہ اللہ کے رسول کے مشابہ کوئی نہیں تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٢٢ (٣٧٥٢) (تحفة الأشراف : ١٥٣٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3776

【173】

ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور حسن بن علی (رض) ان سے مشابہت رکھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوبکر صدیق، ابن عباس اور عبداللہ بن زبیر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٨٢٦ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وقد مضی (2828 و 2829) // هذا رقم الدع اس وهو عندنا برقم (2266 / 2995، 2996) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3777

【174】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں عبیداللہ بن زیاد کے پاس تھا کہ حسین (رض) کا سر لایا گیا تو وہ ان کی ناک میں اپنی چھڑی مار کر کہنے لگا میں نے اس جیسا خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا کیوں ان کا ذکر حسن سے کیا جاتا ہے (جب کہ وہ حسین نہیں ہے) ١ ؎۔ تو میں نے کہا : سنو یہ اہل بیت میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٢٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ جملہ اس نے حسین (رض) کے حسن اور آپ کی خوبصورتی سے متعلق طعن و استہزاء کے طور پر کہا تھا ، اسی لیے انس بن مالک نے اسے جواب دیا۔ ٢ ؎ : اس سے پہلے حدیث رقم ٣٧٨٦ کے تحت زہری کی ایک روایت انس (رض) سے گزری ہے ، اس میں ہے کہ حسن بن علی (رض) سے زیادہ اللہ کے رسول ﷺ سے مشابہ کوئی نہیں تھا اور اس روایت میں یہ ہے کہ حسین بن علی (رض) سب سے زیادہ مشابہ تھے ، بظاہر دونوں روایتوں میں تعارض پایا جا رہا ہے ، علماء نے دونوں روایتوں میں تطبیق کی جو صورت نکالی ہے وہ یہ ہے : ( ١) زہری کی روایت میں جو مذکور ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب حسن (رض) باحیات تھے اور اس وقت وہ اپنے بھائی حسین بن علی کے بہ نسبت رسول اللہ ﷺ سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے اور انس (رض) کی اس روایت میں جو مذکور ہے یہ حسن (رض) کی وفات کے بعد کا واقعہ ہے۔ ( ٢) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حسین بن علی (رض) کو جن لوگوں نے اللہ کے رسول سے مشابہ قرار دیا ہے تو ان لوگوں نے حسن کو مستثنیٰ کر کے یہ بات کہی ہے۔ ( ٣) یہ بھی ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک کسی نہ کسی صورت میں اللہ کے رسول سے مشابہ تھے ( دیکھئیے اگلی روایت ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6170 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3778

【175】

علی (رض) کہتے ہیں کہ حسن (رض) سینہ سے سر تک کے حصہ میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے، اور حسین (رض) اس حصہ میں جو اس سے نیچے کا ہے سب سے زیادہ نبی اکرم ﷺ سے مشابہ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٣٠٢) (ضعیف) (سند میں ہانی بن ہانی مجہول الحال راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6161) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3779

【176】

عمارہ بن عمیر کہتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئے ١ ؎ اور کوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیا گیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے : آیا آیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہو کر آیا اور عبیداللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہوگیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلا گیا، یہاں تک کہ غائب ہوگیا، پھر لوگ کہنے لگے : آیا آیا، اس طرح دو یا تین بار ہوا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩١٤٠) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : حسن اور حسین (رض) کے مناقب میں اس حدیث کو لا کر امام ترمذی نواسہ رسول کے اس دشمن کا حشر بتانا چاہتے ہیں جس نے حسین (رض) کے ساتھ گستاخی کرتے ہوئے اپنی چھڑی سے آپ کی ناک ، آنکھ اور منہ پر مارا تھا کہ اللہ نے نواسہ رسول کے اس دشمن کے ساتھ کیسا سلوک کیا اسے اہل دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ ( عبداللہ بن زیاد کو مختار ثقفی کے فرستادہ ابراہیم بن اشتر نے سن چھیاسٹھ میں مقام جازر میں جو موصل سے پانچ فرسخ پر ہے قتل کیا تھا ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3780

【177】

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے میری والدہ نے پوچھا : تو نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے ؟ میں نے کہا : اتنے اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جاسکا ہوں، تو وہ مجھ پر خفا ہوئیں، میں نے ان سے کہا : اب مجھے نبی اکرم ﷺ کے پاس جانے دیجئیے میں آپ کے ساتھ نماز مغرب پڑھوں گا اور آپ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا، چناچہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپ (نوافل) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے عشاء پڑھی، پھر آپ لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا، آپ نے میری آواز سنی تو فرمایا : کون ہو ؟ حذیفہ ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں، حذیفہ ہوں، آپ نے فرمایا : «ما حاجتک غفر اللہ لک ولأمك» کیا بات ہے ؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو (پھر) آپ نے فرمایا : یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین (رض) اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان) کے سردار ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسرائیل کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٣٣٢٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : خصوصی فرشتہ کے ذریعہ مذکورہ خوشخبری ان تینوں ماں بیٹوں کی خصوصی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (205 - 206) ، المشکاة (6162) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3781

【178】

براء (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حسن اور حسین (رض) کو دیکھا تو فرمایا : «اللهم إني أحبهما فأحبهما» اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان دونوں سے محبت فرما ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٢٢ (٣٧٤٩) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٨ (٢٤٢٢) (تحفة الأشراف : ١٧٩٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2789) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3782

【179】

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا، آپ اپنے کندھے پر حسن بن علی (رض) کو بٹھائے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے : «اللهم إني أحبه فأحبه» اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور یہ فضیل بن مرزوق کی (مذکورہ) روایت سے زیادہ صحیح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جس روایت میں صرف حسن کو کندھے پر اٹھائے ہونے کا تذکرہ ہے وہ اس روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ حسن و حسین (رض) دونوں کو اٹھائے ہوئے تھے ، حالانکہ یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعے ہیں ، اور دونوں کے لیے یہ بات کہے جانے میں کوئی تضاد بھی نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2789) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3783

【180】

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حسین بن علی (رض) کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے تو ایک شخص نے کہا : بیٹے ! کیا ہی اچھی سواری ہے جس پر تو سوار ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اور سوار بھی کیا ہی اچھا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- زمعہ بن صالح کی بعض محدثین نے ان کے حفظ کے تعلق سے تضعیف کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٠٩٦) (ضعیف) (سند میں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6163) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3784

【181】

نبی اکرم ﷺ کے اہل بیت کے مناقب

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن دیکھا، آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہو کر خطبہ دے رہے تھے، میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو ! میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے : ایک اللہ کی کتاب ہے دوسرے میری «عترت» یعنی اہل بیت ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- زید بن حسن سے سعید بن سلیمان اور متعدد اہل علم نے روایت کی ہے، ٣- اس باب میں ابوذر، ابو سعید خدری، زید بن ارقم اور حذیفہ بن اسید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٦١٥) (صحیح) (تراجع الألبانی ٦٠١) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : اہل بیت کا عقیدہ اور منہج جو صحیح سند سے ثابت ہو وہ ہدایت کا ضامن ہی ہے ، کیونکہ یہ نفوس قدسیہ بزبان رسالت مآب ہدایت ہیں ، اس سے شیعوں کا اپنی شیعیت پر استدلال بالکل درست نہیں کیونکہ صحیح روایات سے اہل بیت سے منقول عقیدہ و منہج موجودہ شیعیت کے بالکل مخالف ہے اہل بیت کیا ، کیا شیعہ کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ پر قائم ہونے کے دعویدار نہیں ؟ مگر کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی تشریح اور تفہیم شیعوں کے طریقے سے آئی ہے کیا وہ صد فی صد ان دونوں کے صحیح مفاہیم کے خلاف نہیں ؟ اصل بات یہ ہے کہ صحیح سند سے سلف کے فہم کے مطابق منقول عقیدہ و منہج ہی ہدایت کا ضامن ہے۔ اور وہ اہل السنہ و الجماعہ اہل حدیث کے پاس ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6143 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3786

【182】

نبی اکرم ﷺ کے اہل بیت کے مناقب

نبی اکرم ﷺ کے «ربيب» (پروردہ) عمر بن ابی سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ «إنما يريد اللہ ليذهب عنکم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا» اے اہل بیت النبوۃ ! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے (کفر و شرک) کی گندگی دور کر دے، اور تمہاری خوب تطہیر کر دے (الاحزاب : ٣٣) ، نبی اکرم ﷺ پر ام سلمہ (رض) کے گھر میں اتریں تو آپ نے فاطمہ اور حسن و حسین (رض) کو بلایا اور آپ نے انہیں ایک چادر میں ڈھانپ لیا اور علی (رض) آپ کی پشت مبارک کے پیچھے تھے تو آپ نے انہیں بھی چادر میں چھپالیا، پھر فرمایا : «اللهم هؤلاء أهل بيتي فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا» اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان کی ناپاکی کو دور فرما دے اور انہیں اچھی طرح پاک کر دے ، ام سلمہ نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں، آپ نے فرمایا : تو اپنی جگہ پر رہ اور تو بھی نیکی پر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢- اس باب میں ام سلمہ، معقل بن یسار، ابوحمراء اور انس (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٢٠٥ (صحیح) وضاحت : ٢ ؎ : اس آیت کے سیاق و سباق اور سبب نزول سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ اہل البیت سے نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات مراد ہیں یا اس حدیث سے ازواج مطہرات کے علاوہ علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین (رض) کے بھی اہل بیت میں ہونے کی بات ثابت ہوتی ہے ، اور دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مضی برقم (3425) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3787

【183】

نبی اکرم ﷺ کے اہل بیت کے مناقب

زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے : ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، اور دوسری میری «عترت» یعنی میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے، تو تم دیکھ لو کہ ان دونوں کے سلسلہ میں تم میری کیسی جانشینی کر رہے ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٦٥٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان دونوں سے ثابت عقیدہ و منہج پر عمل کرنے میں تم کیا کرتے ہو ، ان کے مطابق عمل کرتے ہو یا مخالف پہلے یہ بات گزری کہ اہل بیت سے صحیح سند سے ثابت عقیدہ و منہج ہدایت کا ضامن ہے ، اور اس شیعیت کا کوئی تعلق نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6144) ، الروض النضير (977 - 978) ، الصحيحة (4 / 356 - 357) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3788

【184】

نبی اکرم ﷺ کے اہل بیت کے مناقب

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر نبی کو اللہ نے سات نقیب عنایت فرمائے ہیں، اور مجھے چودہ ، ہم نے عرض کیا : وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا : میں، میرے دونوں نواسے، جعفر، حمزہ، ابوبکر، عمر، مصعب بن عمیر، بلال، سلمان، مقداد، حذیفہ، عمار اور عبداللہ بن مسعود (رض) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- یہ حدیث علی (رض) سے موقوفاً بھی آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٢٨٠) (ضعیف) (سند میں مسیب بن نجبہ لین الحدیث اور کثیر النواء ضعیف اور ابو ادریس المرہبی شیعی ہیں، اور حدیث میں تشیع واضح ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6246 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (1912) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3785

【185】

نبی اکرم ﷺ کے اہل بیت کے مناقب

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمتیں کھلا رہا ہے، اور محبت کرو مجھ سے اللہ کی خاطر، اور میرے اہل بیت سے میری خاطر ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٢٩١) (ضعیف) (سند میں عبداللہ بن سلیمان نوفلی مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کی صورت میں اور یہاں متابعت نہیں ہے، اس لیے لین الحدیث یعنی ضعیف الحدیث ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف تخريج فقه السيرة (23) // ضعيف الجامع الصغير (176) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3789

【186】

حضرت معاذ بن جبل زید بن ثابت ابی بن کعب اور ابوعبید بن جراح (رض) کے مناقب

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں، اور سب سے زیادہ سچی حیاء والے عثمان بن عفان ہیں، اور حلال و حرام کے سب سے بڑے جانکار معاذ بن جبل ہیں، اور فرائض (میراث) کے سب سے زیادہ جاننے والے زید بن ثابت ہیں، اور سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں، اور ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اس سند سے صرف قتادہ کی روایت سے جانتے ہیں ٢- اسے ابوقلابہ نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مانند روایت کیا ہے اور مشہور ابوقلابہ والی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ما بعدہ ( تحفة الأشراف : ١٣٤٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : امین یوں تو سارے صحابہ تھے ، مگر ابوعبیدہ (رض) اس بات میں ممتاز تھے ، اس لیے ان کو «امین الامۃ» (آج کل کی اصطلاح میں پوری امت کا جنرل سیکریٹری ) کا لقب دیا ، اسی طرح بہت ساری اچھی صفات میں بہت سے صحابہ مشترک ہیں مگر کسی کسی کی خاص خصوصیت ہے کہ جس کی وجہ سے آپ ﷺ نے ان کو اس صفت میں ممتاز قرار دیا ، جیسے حیاء میں عثمان ، قضاء میں علی ، میراث میں زید بن ثابت اور قراءت میں ابی بن کعب ، وغیرہم (رض) ، ( دیکھئیے اگلی حدیث ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (154) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3790

【187】

حضرت معاذ بن جبل زید بن ثابت ابی بن کعب اور ابوعبید بن جراح (رض) کے مناقب

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے زیادہ سچی حیاء والے عثمان ہیں اور اللہ کی کتاب کے سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں اور فرائض (میراث) کے سب سے بڑے جانکار زید بن ثابت ہیں اور حلال و حرام کے سب سے بڑے عالم معاذ بن جبل ہیں اور سنو ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٥٤) ، وانظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ٩٥٢) (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3791

【188】

حضرت معاذ بن جبل زید بن ثابت ابی بن کعب اور ابوعبید بن جراح (رض) کے مناقب

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابی بن کعب (رض) سے فرمایا : اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں «لم يكن الذين کفروا» ١ ؎ پڑھ کر سناؤں، انہوں نے عرض کیا : کیا اس نے میرا نام لیا ہے، آپ نے فرمایا : ہاں (یہ سن کر) وہ رو پڑے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ١٦ (٣٨٠٩) ، وتفسیر سورة البینة (٤٩٥٩-٤٩٦١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٩ (٧٩٩) ، وفضائل الصحابة ٢٣ (٧٩٩/١٢١) (تحفة الأشراف : ١٢٤٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : سورة البینۃ : ١۔ ٢ ؎ : یہ بات اللہ کے نزدیک ابی بن کعب کے مقام و مرتبہ کی دلیل ہے ، اور وہ بھی خاص قراءت قرآن میں «ذلک فضل اللہ يؤتيه من يشاء» (الجمعة : ٤) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3792

【189】

حضرت معاذ بن جبل زید بن ثابت ابی بن کعب اور ابوعبید بن جراح (رض) کے مناقب

ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں ، پھر آپ نے انہیں «لم يكن الذين کفروا من أهل الکتاب» پڑھ کر سنایا، اور اس میں یہ بھی پڑھا ١ ؎ «إن ذات الدين عند اللہ الحنيفية المسلمة لا اليهودية ولا النصرانية من يعمل خيرا فلن يكفره» بیشک دین والی ٢ ؎ اللہ کے نزدیک تمام ادیان و ملل سے رشتہ کاٹ کر اللہ کی جانب یکسو ہوجانے والی مسلمان عورت ہے نہ کہ یہودی اور نصرانی عورت جو کوئی نیکی کا کام کرے تو وہ ہرگز اس کی ناقدری نہ کرے ، اور آپ نے ان کے سامنے یہ بھی پڑھا : ٣ ؎«ولو أن لابن آدم واديا من مال لابتغی إليه ثانيا ولو کان له ثانيا لابتغی إليه ثالثا ولا يملأ جوف ابن آدم إلا التراب ويتوب اللہ علی من تاب» اگر ابن آدم کے پاس مال کی ایک وادی ہو تو وہ دوسری وادی کی خواہش کرے گا اور اگر اسے دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری چاہے گا، اور آدم زادہ کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی ٤ ؎، اور جو توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی آئی ہے، ٣- اسے عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابزی نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی سے اور انہوں نے ابی بن کعب سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابی بن کعب سے فرمایا : اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں ، ٤- قتادہ نے انس سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابی بن کعب (رض) سے فرمایا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ حدیث ارشاد فرمائی ، نہ کہ مذکورہ آیت کی طرح تلاوت کی۔ ٢ ؎ : یعنی : شادی کے لیے عورتوں کا انتخاب میں جو «فاظفر بذات الدین» کا حکم نبوی آیا ہے اس «ذات الدین» سے مراد ایسی ہی عورت ہے۔ ٣ ؎ : یعنی : یہ حدیث ارشاد فرمائی ، نہ کہ مذکورہ آیت کی طرح تلاوت کی۔ ٤ ؎ : یعنی : موت کے بعد مٹی میں دفن ہوجانے پر ہی یہ خواہش ختم ہو پائے گی۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3793

【190】

حضرت معاذ بن جبل زید بن ثابت ابی بن کعب اور ابوعبید بن جراح (رض) کے مناقب

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں قرآن کو چار آدمیوں نے جمع کیا اور وہ سب کے سب انصار میں سے ہیں : ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابوزید ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الأنصار ١٧ (٣٨١٠) ، وفضائل القرآن ٨ (٥٠٠٣) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢٣ (٢٤٦٥) (تحفة الأشراف : ١٢٤٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس میں جہاں ان چاروں کی فضیلت ہے وہیں انصار مدینہ کی بھی منقبت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3794

【191】

حضرت معاذ بن جبل زید بن ثابت ابی بن کعب اور ابوعبید بن جراح (رض) کے مناقب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا ہی اچھے لوگ ہیں ابوبکر، عمر، ابوعبیدہ بن جراح، اسید بن حضیر، ثابت بن قیس بن شماس، معاذ بن جبل اور معاذ بن عمرو بن جموح (رضی اللہ عنہم) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے ہم اسے صرف سہیل کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ١٢٧٠٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وقد تقدم أوله برقم (4028) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3795

【192】

حضرت معاذ بن جبل زید بن ثابت ابی بن کعب اور ابوعبید بن جراح (رض) کے مناقب

حذیفہ بن یمان (رض) کہتے ہیں کہ ایک قوم کا نائب اور سردار دونوں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور دونوں نے عرض کیا : ہمارے ساتھ آپ اپنا کوئی امین روانہ فرمائیں، تو آپ نے فرمایا : میں تمہارے ساتھ ایک ایسا امین بھیجوں گا جو حق امانت بخوبی ادا کرے گا ، تو اس کے لیے لوگوں کی نظریں اٹھ گئیں اور پھر آپ نے ابوعبیدہ بن جراح (رض) کو روانہ فرمایا۔ راوی حدیث ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں : جب وہ اس حدیث کو صلہ سے روایت کرتے تو کہتے ساٹھ سال ہوئے یہ حدیث میں نے ان سے سنی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث ابن عمر اور انس (رض) کے واسطے سے بھی نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے، آپ نے فرمایا : ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٢١ (٣٧٤٥) ، والمغازي ٧٢ (٤٣٨٠، ٤٣٨١) ، وأخبار الآحاد ١ (٧٢٥٤) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٧ (٢٤٢٠) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٣٥) (تحفة الأشراف : ٣٣٥٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وانظر الصحيحة (1964) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3796 بیان کیا ہم سے محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں : مجھے مسلم بن قتیبہ اور ابوداؤد نے خبر دی اور ان دونوں نے شعبہ کے واسطہ سے ابواسحاق سے روایت کی، وہ کہتے ہیں : حذیفہ نے کہا : صلہ بن زفر کا دل سونے کی طرح روشن اور چمکدار ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وانظر الصحيحة (1964) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3796

【193】

حضرت سلمان فارسی (رض) کے مناقب

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت تین آدمیوں کی مشتاق ہے : علی، عمار، اور سلمان (رض) کی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف حسن بن صالح کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٣٢) (ضعیف) (سند میں حسن بن سلم بن صالح الجعلی مجہول، اور ابوربیعہ الإیادی لین الحدیث راوی ہیں، نیز اس کے سارے طرق ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : الضعیفة رقم ٢٣٢٨) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (2329) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3797

【194】

حضرت عمار بن یاسر (رض) کے مناقب

علی (رض) کہتے ہیں کہ عمار نے آ کر نبی اکرم ﷺ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا : انہیں اجازت دے دو ، مرحبا مرد پاک ذات و پاک صفات کو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٤٦) (تحفة الأشراف : ١٠٣٠٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (146) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3798

【195】

حضرت عمار بن یاسر (رض) کے مناقب

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمار کو جب بھی دو باتوں کے درمیان اختیار دیا گیا تو انہوں نے اسی کو اختیار کیا جو ان دونوں میں سب سے بہتر اور حق سے زیادہ قریب ہوتی تھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے عبدالعزیز بن سیاہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اور یہ ایک کوفی شیخ ہیں اور ان سے لوگوں نے روایت کی ہے، ان کا ایک لڑکا تھا جسے یزید بن عبدالعزیز کہا جاتا تھا، ان سے یحییٰ بن آدم نے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٤٨) (تحفة الأشراف : ١٧٣٩٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ بات عمار (رض) کے فطرتاً حق پسند ہونے ، اور اللہ کی طرف سے ان کے لیے حسن توفیق پر دلیل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (148) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3799

【196】

حضرت عمار بن یاسر (رض) کے مناقب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمار ! تمہیں ایک باغی جماعت قتل کرے گی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث علاء بن عبدالرحمٰن کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس باب میں ام سلمہ، عبدالرحمٰن بن عمرو، ابویسر اور حذیفہ (رض) احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وھو جماعة من الصحابة غیرہ ( تحفة الأشراف : ١٤٠٨١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں اس بات کی گواہی اللہ کے رسول ﷺ کی زبان سے ہے کہ قتل ہونے کے وقت عمار حق والی جماعت کے ساتھ ہوں گے اور ان کے قاتل اس بابت حق پر نہیں ہوں گے ، اور اس حق و ناحق سے مراد اعتقادی ( توحید و شرک کا ) حق و ناحق نہیں مراد ہے بلکہ اس وقت سیاسی طور پر حق و ناحق پر ہونے کی گواہی ہے ، عمار اس وقت علی (رض) کے ساتھ جو اس وقت خلیقہ برحق تھے ، اور فریق مخالف معاویہ (رض) تھے جو علی (رض) سے خلافت کے سیاسی مسئلہ پر جنگ کر رہے تھے ، اس میں عمار (رض) کی شہادت ہوئی تھی ، یہ جنگ صفین کا واقعہ ہے اس واقعہ میں معاویہ (رض) جو علی (رض) سے برسرپیکار ہوگئے تھے ، یہ ان کی اجتہادی غلطی تھی جو معاف ہے ، ( (رض) اجمعین ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (710) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3800

【197】

حضرت ابوذر غفاری (رض) کے مناقب

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : آسمان نے کسی پر سایہ نہیں کیا اور نہ زمین نے اپنے اوپر کسی کو پناہ دی جو ابوذر (رض) سے زیادہ سچا ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابو الدرداء اور ابوذر سے حدیثیں آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٥٦) (تحفة الأشراف : ٨٩٥٧) ، و مسند احمد (٢/١٦٣، ١٧٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے ابوذر (رض) کی سچائی سے متعلق مبالغہ اور تاکید مقصود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (156) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3801

【198】

حضرت ابوذر غفاری (رض) کے مناقب

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آسمان نے کسی پر سایہ نہیں کیا اور نہ زمین نے کسی کو پناہ دی جو ابوذر سے - جو عیسیٰ بن مریم کے مشابہ ہیں - زیادہ زبان کا سچا اور اس کا پاس و لحاظ رکھنے والا ہو ، یہ سن کر عمر بن خطاب (رض) رشک کے انداز میں بولے : اللہ کے رسول ! کیا ہم یہ بات انہیں بتادیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، بتادو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- اور بعضوں نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا : ابوذر زمین پر عیسیٰ بن مریم کی زاہدانہ چال چلتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٩٧٦) (ضعیف) (سند میں مرثد الزمانی لین الحدیث راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6230 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3802

【199】

حضرت عبداللہ بن سلام کے مناقب

عبداللہ بن سلام (رض) کے بھتیجے کہتے ہیں کہ جب لوگوں نے عثمان (رض) کے قتل کا ارادہ کیا تو عبداللہ بن سلام عثمان (رض) کے پاس آئے، عثمان (رض) نے ان سے کہا : تم کیوں آئے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا : میں آپ کی مدد کے لیے آیا ہوں تو آپ نے کہا : تم لوگوں کے پاس جاؤ اور انہیں میرے پاس آنے سے بھگاؤ کیونکہ تمہارا باہر رہنا میرے حق میں تمہارے اندر رہنے سے زیادہ بہتر ہے، چناچہ عبداللہ بن سلام نکل کر لوگوں کے پاس آئے اور ان سے کہا : لوگو ! میرا نام جاہلیت میں فلاں تھا تو رسول اللہ ﷺ نے میرا نام عبداللہ رکھا، اور میری شان میں اللہ کی کتاب کی کئی آیتیں نازل ہوئیں، چناچہ «وشهد شاهد من بني إسرائيل علی مثله فآمن واستکبرتم إن اللہ لا يهدي القوم الظالمين» ١ ؎ «قل کفی بالله شهيدا بيني وبينكم ومن عنده علم الکتاب» ٢ ؎ میرے ہی سلسلہ میں اتری، اللہ کی تلوار میان میں ہے اور فرشتے تمہارے اس شہر مدینہ میں جس میں رسول اللہ ﷺ اترے تمہارے ہمسایہ ہیں، لہٰذا تم اس شخص کے قتل میں اللہ سے ڈرو، قسم اللہ کی ! اگر تم نے اسے قتل کردیا، تم اپنے ہمسایہ فرشتوں کو اپنے پاس سے بھگا دو گے، اور اللہ کی تلوار کو جو میان میں ہے باہر کھینچ لو گے، پھر وہ قیامت تک میان میں نہیں آسکے گی تو لوگ ان کی یہ نصیحت سن کر بولے : اس یہودی کو قتل کرو اور عثمان کو بھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالملک بن عمیر کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- شعیب بن صفوان نے بھی حدیث عبدالملک بن عمیر سے روایت کی ہے، انہوں نے سند میں «عن ابن محمد بن عبد اللہ بن سلام عن جده عبد اللہ بن سلام» کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٢٥٦ (ضعیف الإسناد) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد ومضی برقم (3309) // (642 / 3486) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3803

【200】

حضرت عبداللہ بن سلام کے مناقب

یزید بن عمیرہ کہتے ہیں کہ جب معاذ بن جبل (رض) کے مرنے کا وقت آیا تو ان سے کہا گیا : اے ابوعبدالرحمٰن ! ہمیں کچھ وصیت کیجئے، تو انہوں نے کہا : مجھے بٹھاؤ، پھر بولے : علم اور ایمان دونوں اپنی جگہ پر قائم ہیں جو انہیں ڈھونڈے گا ضرور پائے گا، انہوں نے اسے تین بار کہا، پھر بولے : علم کو چار آدمیوں کے پاس ڈھونڈو : عویمر ابو الدرداء کے پاس، سلمان فارسی کے پاس، عبداللہ بن مسعود کے پاس اور عبداللہ بن سلام کے پاس، (جو یہودی تھے پھر اسلام لائے) کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ ان دس لوگوں میں سے ہیں جو جنتی ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ١١٣٦٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں عبداللہ بن سلام کی فضیلت شہادت ایک تو صحابی رسول کی زبان سے ہے ، دوسرے رسول اللہ ﷺ کی زبان سے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6231) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3804

【201】

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ چلا، آپ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور اپنی حاجت پوری کی، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا : ابوموسیٰ ! تم دروازہ پر رہو کوئی بغیر اجازت کے اندر داخل نہ ہونے پائے ، پھر ایک شخص نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا، تو میں نے کہا : کون ہے ؟ انہوں نے کہا : ابوبکر ہوں، تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ ابوبکر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا : انہیں آنے دو ، اور انہیں جنت کی بشارت دے دو ، چناچہ وہ اندر آئے اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دی، پھر ایک دوسرے شخص آئے اور انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے کہا : کون ہے ؟ انہوں نے کہا : عمر ہوں، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ عمر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا : ان کے لیے دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت دے دو ، چناچہ میں نے دروازہ کھول دیا، وہ اندر آ گئے، اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دے دی، پھر ایک تیسرے شخص آئے اور انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا، تو میں نے کہا : کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا : عثمان ہوں، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ عثمان اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا : ان کے لیے بھی دروازہ کھول دو اور انہیں بھی جنت کی بشارت دے دو ، ساتھ ہی ایک آزمائش کی جو انہیں پہنچ کر رہے گی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی ابوعثمان نہدی سے آئی ہے، ٣- اس باب میں جابر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٥ (٣٦٧٤) ، و ٦ (٣٦٩٣) ، و ٧ (٣٦٩٥) ، والأدب ١١٩ (٦٢١٦) ، والفتن ١٧ (٧٠٩٧) ، وخبر الواحد ٣ (٧٢٦٢) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٣ (٢٤٠٣) (تحفة الأشراف : ٩٠١٨) ، و مسند احمد (٤/٣٩٣، ٤٠٦، ٤٠٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے آپ ﷺ کا اشارہ اس حادثہ کی طرف تھا جس سے عثمان (رض) اپنی خلافت کے آخری دور میں دوچار ہوئے پھر جام شہادت نوش کیا ، نیز اس حدیث سے ان تینوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ، اور یہ کہ ان کے درمیان خلافت میں یہی ترتیب ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3710 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم ان دونوں کی پیروی کرو جو میرے اصحاب میں سے میرے بعد ہوں گے یعنی ابوبکر و عمر کی، اور عمار کی روش پر چلو، اور ابن مسعود کے عہد (وصیت) کو مضبوطی سے تھامے رہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن مسعود کی یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف یحییٰ بن سلمہ بن کہیل کی روایت سے جانتے ہیں، اور یحییٰ بن سلمہ حدیث میں ضعیف ہیں، ٣- ابوالزعراء کا نام عبداللہ بن ہانی ٔ ہے، اور وہ ابوالزعراء جن سے شعبہ، ثوری اور ابن عیینہ نے روایت کی ہے ان کا نام عمرو بن عمرو ہے، اور وہ عبداللہ بن مسعود کے شاگرد ابوالاحوص کے بھتیجے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٣٥٢) (صحیح) (الصحیحہ ١٢٣٣، وتراجع الالبانی ٣٧٧) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کے اول و آخر ٹکڑے میں خلافت صدیقی و فاروقی کی طرف اشارہ ہے ، ابوبکر و عمر (رض) کی اقتداء سے مراد نبی اکرم ﷺ کے بعد بالترتیب ان دونوں کی خلافت ہے ، اور ابن مسعود (رض) کی وصیت سے مراد بھی یہی ہے کہ انہوں نے ابوبکر (رض) کی خلافت کی تائید کی تھی ، یہی مراد ہے ، ان کی وصیت مضبوطی سے تھامنے سے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (97) ، وانظر الحديث (4069) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3805

【202】

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے مناقب

اسود بن یزید سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں اور میرے بھائی دونوں یمن سے آئے تو ہم ایک عرصہ تک یہی سمجھتے رہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) اہل بیت ہی کے ایک فرد ہیں، کیونکہ ہم انہیں اور ان کی والدہ کو کثرت سے نبی اکرم ﷺ کے پاس (ان کے گھر میں) آتے جاتے دیکھتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- سفیان ثوری نے بھی اسے ابواسحاق سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٢٧ (٣٧٦٣) ، والمغازي ٧٤ (٤٣٨٤) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢٢ (٢٤٦٠) (تحفة الأشراف : ٨٩٧٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں عبداللہ بن مسعود (رض) کے نبی ﷺ سے ازحد قربت اور برابر ساتھ رہنے کی دلیل ہے جو ان کے فضل و شرف کی بات ہے ، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ابن مسعود کی ہر روایت اور فتوی ضرور ہی تمام صحابہ کی روایتوں اور فتاوی پر مقدم ہوگا ، کیونکہ امہات المؤمنین تک کی بعض روایات یا تو منسوخ ہیں یا انہیں گھر سے باہر کے بعض احوال کا علم نہیں ہوسکا تھا ، اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3806

【203】

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے مناقب

عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ ہم حذیفہ (رض) کے پاس آئے تو ہم نے ان سے کہا : آپ ہمیں بتائیے کہ لوگوں میں چال ڈھال میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے قریب کون ہے کہ ہم اس کے طور طریقے کو اپنائیں، اور اس کی باتیں سنیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ لوگوں میں چال ڈھال اور طور طریقے میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے قریب ابن مسعود (رض) ہیں، یہاں تک کہ وہ ہم سے اوجھل ہو کر آپ کے گھر کے اندر بھی جایا کرتے تھے، اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کو جو کسی طرح کی تحریف یا نسیان سے محفوظ ہیں یہ بخوبی معلوم ہے کہ ام عبد کے بیٹے یعنی عبداللہ بن مسعود (رض) ان سب میں اللہ سے سب سے نزدیک ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٢٧ (٣٧٦٢) (تحفة الأشراف : ٣٣٧٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی لوگ جو بیان کریں گے وہ بالکل حقیقت کے مطابق ہوگا ، اور انہوں نے یہ بیان کیا کہ ابن مسعود (رض) اللہ کے رسول ﷺ کے طور طریقے سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے ، اور ان سے ازحد قریب تھے ، یہ صحابہ کی زبان سے ابن مسعود کی فضیلت کا اعتراف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3807

【204】

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے مناقب

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میں بغیر مشورہ کے ان میں سے کسی کو امیر بناتا تو ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود) کو امیر بناتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف حارث کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ علی (رض) سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المدقمة ١١ (١٣٧) (تحفة الأشراف : ١٠٠٤٥) (ضعیف) (سند میں ” حارث اعور “ ضعیف اور ابواسحاق سبیعی مدلس اور مختلط راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (137) // ضعيف سنن ابن ماجة (24) ، المشکاة (6222) ، ضعيف الجامع الصغير (4844) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3808

【205】

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے مناقب

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میں بغیر مشورہ کے کسی کو امیر بناتا تو ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود) کو امیر بناتا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : ضعيف انظر ما قبله (3808) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3809

【206】

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے مناقب

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرآن مجید چار لوگوں سے سیکھو : ابن مسعود، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، اور سالم مولی ابی حذیفہ سے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٢٦ (٣٧٥٨) ، و ٢٧ (٣٧٦٠) ، وفضائل الأنصار ١٤ (٣٨٠٦) ، و ١٦ (٣٨٠٨) ، وفضائل القرآن ٨ (٤٩٩٩) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢٢ (٢٤٦٤) (تحفة الأشراف : ٨٩٣٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ یہ چار صحابہ خاص طور پر قرآن کے نبی اکرم ﷺ سے اخذ کرنے ، یاد کرنے ، بہتر طریقے سے ادا کرنے میں ممتاز تھے ، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے سوا دیگر صحابہ کو قرآن یاد ہی نہیں تھا ، اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان سے مروی قراءت کی ضرور ہی پابندی کی جائے ، کیونکہ عثمان (رض) نے اعلی ترین مقصد کے تحت ایک قراءت کے سوا تمام قراءتوں کو ختم کرا دیا تھا ( اس قراءتوں سے مراد معروف سبعہ کی قراءتیں نہیں مراد صحابہ کے مصاحف ہیں ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1827) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3810

【207】

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے مناقب

خیثمہ بن ابی سبرہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو میں نے اللہ سے اپنے لیے ایک صالح ہم نشیں پانے کی دعا کی، چناچہ اللہ نے مجھے ابوہریرہ (رض) کی ہم نشینی کی توفیق بخشی ١ ؎، میں ان کے پاس بیٹھنے لگا تو میں نے ان سے عرض کیا : میں نے اللہ سے اپنے لیے ایک صالح ہم نشیں کی توفیق مرحمت فرمانے کی دعا کی تھی، چناچہ مجھے آپ کی ہم نشینی کی توفیق ملی ہے، انہوں نے مجھ سے پوچھا : تم کہاں کے ہو ؟ میں نے عرض کیا : میرا تعلق اہل کوفہ سے ہے اور میں خیر کی تلاش و طلب میں یہاں آیا ہوں، انہوں نے کہا : کیا تمہارے یہاں سعد بن مالک جو مستجاب الدعوات ہیں ٢ ؎ اور ابن مسعود جو رسول اللہ ﷺ کے لیے وضو کے پانی کا انتظام کرنے والے اور آپ کے کفش بردار ہیں اور حذیفہ جو آپ کے ہمراز ہیں اور عمار جنہیں اللہ نے شیطان سے اپنے نبی کی زبانی پناہ دی ہے اور سلمان جو دونوں کتابوں والے ہیں موجود نہیں ہیں۔ راوی حدیث قتادہ کہتے ہیں : کتابان سے مراد انجیل اور قرآن ہیں ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- خیثمہ یہ عبدالرحمٰن بن ابوسبرہ کے بیٹے ہیں ان کی نسبت ان کے دادا کی طرف کردی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٣٠٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ٹھیک یہی معاملہ علقمہ بن قیس کوفی کے ساتھ بھی پیش آیا تھا ، وہ شام آئے تو یہی دعا کی ، تو انہیں ابو الدرداء (رض) صحبت میسر ہوئی ، انہوں بھی علقمہ سے بالکل یہی بات کہی جو اس حدیث میں ہے۔ ٢ ؎ : جن کی دعائیں رب العزت کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہیں۔ اور یہ سعد بن ابی وقاص (رض) ہیں۔ ٣ ؎ : انہیں صاحب کتابیں اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ وہ پہلے مجوسی تھے ، تلاش حق میں پہلے دین عیسیٰ قبول کئے ، پھر مشرف بہ اسلام ہوئے اور قرآن پر ایمان لائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3811

【208】

حضرت حذیفہ بن یمان (رض) کے مناقب

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کاش ! آپ اپنا جانشین مقرر فرما دیتے، آپ نے فرمایا : اگر میں نے اپنا جانشین مقرر کردیا اور تم نے اس کی نافرمانی کی تو تم عذاب دیئے جاؤ گے، البتہ حذیفہ جو کچھ تم سے کہیں تم ان کی تصدیق کرو ، اور جو عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) ١ ؎ تمہیں پڑھائیں انہیں پڑھ لو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے اور یہ شریک کی روایت سے ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٣٢٢) (ضعیف) (سند میں ابوالیقظان اور شریک القاضی دونوں ضعیف راوی ہیں، ابوالیقظان شیعی بھی ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث شریک اور ابوالیقظان کی وجہ سے سنداً ضعیف ہے ، مگر خلافت کے بارے میں ابن مسعود کی وصیت کی بابت ایک صحیح حدیث ( رقم : ( ٣٨١٨) گزر چکی ہے ، اس حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ آپ نے واضح طور پر اپنے جانشین کا نام تو نہیں بتایا ، مگر حذیفہ (رض) کی احالہ کر کے اشارہ کردیا کہ جو حذیفہ بتائیں ، وہی میری بات ہے ، ابوحذیفہ نے ابوبکر (رض) کے بارے میں بعد میں بتادیا ، ( نیز دیکھئیے حدیث رقم : ٢/٣٨) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6232) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3812

【209】

حضرت زید بن حارثہ (رض) کے مناقب

اسلم عدوی مولیٰ عمر سے روایت ہے کہ عمر (رض) نے اسامہ بن زید (رض) کے لیے بیت المال سے ساڑھے تین ہزار کا، وظیفہ مقرر کیا، اور عبداللہ بن عمر (رض) کے لیے تین ہزار کا تو عبداللہ بن عمر (رض) نے اپنے باپ سے عرض کیا : آپ نے اسامہ کو مجھ پر ترجیح دی ؟ اللہ کی قسم ! وہ مجھ سے کسی غزوہ میں آگے نہیں رہے، تو انہوں نے کہا : اس لیے کہ زید رسول اللہ ﷺ کو تمہارے باپ سے اور اسامہ تم سے زیادہ محبوب تھے، اس لیے میں نے رسول اللہ ﷺ کے محبوب کو اپنے محبوب پر ترجیح دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٤٠١) (ضعیف) (سند میں سفیان بن وکیع ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6164) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3813

【210】

حضرت زید بن حارثہ (رض) کے مناقب

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمد ہی کہہ کر پکارتے تھے یہاں تک کہ آیت کریمہ «ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله» تم متبنی (لے پالک) لوگوں کو ان کے اپنے باپوں کے نام پکارا کرو، یہی بات اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف بات ہے (الاحزاب : ٥) ، نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٢٠٩ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وهو مکرر الحديث (3439) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3814

【211】

حضرت زید بن حارثہ (رض) کے مناقب

زید بن حارثہ (رض) کے بھائی جبلہ بن حارثہ (رض) کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے بھائی زید کو میرے ساتھ بھیج دیجئیے، آپ نے فرمایا : وہ موجود ہیں اگر تمہارے ساتھ جانا چاہ رہے ہیں تو میں انہیں نہیں روکوں گا ، یہ سن کر زید نے کہا : اللہ کے رسول ! قسم اللہ کی ! میں آپ کے مقابلہ میں کسی اور کو اختیار نہیں کرسکتا، جبلہ کہتے ہیں : تو میں نے دیکھا کہ میرے بھائی کی رائے میری رائے سے افضل تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف ابن رومی کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ علی بن مسہر سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣١٨٢) (حسن) (تراجع الألبانی ٦٠٠) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (6165 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3815

【212】

حضرت زید بن حارثہ (رض) کے مناقب

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس کا امیر اسامہ بن زید کو بنایا تو لوگ ان کی امارت پر تنقید کرنے لگے چناچہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر تم ان کی امارت میں طعن کرتے ہو تو اس سے پہلے ان کے باپ کی امارت پر بھی طعن کرچکے ہو ١ ؎، قسم اللہ کی ! وہ (زید) امارت کے مستحق تھے اور وہ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے، اور ان کے بعد یہ بھی (اسامہ) لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٨٧ (٤٤٦٩) (تحفة الأشراف : ٧٢٣٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : آپ کا اشارہ غزوہ موتہ میں زید کو امیر بنانے کے واقعے کی طرف ہے ، اس حدیث سے دونوں باپ بیٹوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3816 عبداللہ بن دینار نے عمر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مالک بن انس کی حدیث ہی جیسی حدیث روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3816

【213】

حضرت اسامہ بن زید (رض) کے مناقب

اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری شدید ہوگئی تو میں («جرف» سے) اتر کر مدینہ آیا اور (میرے ساتھ) کچھ اور لوگ بھی آئے، میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اندر گیا تو آپ کی زبان بند ہوچکی تھی، پھر اس کے بعد آپ کچھ نہیں بولے، آپ اپنے دونوں ہاتھ میرے اوپر رکھتے اور اٹھاتے تھے تو میں یہی سمجھ رہا تھا کہ آپ میرے لیے دعا فرما رہے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٢) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (6166) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3817

【214】

حضرت اسامہ بن زید (رض) کے مناقب

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اسامہ کی ناک پونچھنے کا ارادہ فرمایا ١ ؎ تو میں نے کہا : آپ چھوڑیں میں صاف کئے دیتی ہوں، آپ نے فرمایا : عائشہ ! تم اس سے محبت کرو کیونکہ میں اس سے محبت کرتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٨٧٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ اس وقت کی بات ہے جب اسامہ بچے تھے ، آدمی اسی بچے کی ناک پونچھتا ہے جس سے انتہائی محبت رکھتا ہے ، جیسے اپنے بچے بسا اوقات آدمی کسی رشتہ دار یا دوست کے بچے سے محبت تو رکھتا ہے لیکن اس کی محبت میں اس حد تک نہیں جاتا کہ اس کی ناک پونچھے اس لیے آپ ﷺ کا اسامہ کی ناک پونچھنے کے لیے اٹھنا ان سے آپ کی انتہائی محبت کی دلیل ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (6167) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3818

【215】

حضرت اسامہ بن زید (رض) کے مناقب

اسامہ بن زید (رض) کا بیان ہے کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں علی اور عباس (رض) دونوں اندر آنے کی اجازت مانگنے لگے، انہوں نے کہا : اسامہ ! ہمارے لیے رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگو، تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! علی اور عباس دونوں اندر آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ کیوں آئے ہیں ؟ میں نے عرض کیا : میں نہیں جانتا، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے تو معلوم ہے ، پھر آپ نے انہیں اجازت دے دی وہ اندر آئے اور عرض کیا کہ ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں تاکہ ہم آپ سے پوچھیں کہ آپ کے اہل میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : فاطمہ بنت محمد ، تو وہ دونوں بولے : ہم آپ کی اولاد کے متعلق نہیں پوچھتے ہیں، آپ نے فرمایا : میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس پر اللہ نے انعام کیا اور میں نے انعام کیا ہے، اور وہ اسامہ بن زید ہیں ، وہ دونوں بولے : پھر کون ؟ آپ نے فرمایا : پھر علی بن ابی طالب ہیں ، عباس بولے : اللہ کے رسول ! آپ نے اپنے چچا کو پیچھے کردیا، آپ نے فرمایا : علی نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- شعبہ : عمر بن ابی سلمہ کو ضعیف قرار دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٣) (ضعیف) (سند میں عمر بن ابی سلمہ روایت حدیث میں غلطیاں کر جاتے تھے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6168) // ضعيف الجامع الصغير (168) باختصار // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3819

【216】

حضرت جریر بن عبداللہ بجلی (رض) کے مناقب

جریر بن عبداللہ بجلی (رض) کہتے ہیں کہ جب سے میں اسلام لایا ہوں رسول اللہ ﷺ نے مجھے (اجازت مانگنے پر اندر داخل ہونے سے) منع نہیں فرمایا ١ ؎ اور جب بھی آپ نے مجھے دیکھا آپ مسکرائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٦٢ (٣٠٣٥) ، وفضائل الأنصار ٢١ (٣٨٢٢) ، والأدب ٦٨ (٦٠٩٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢٩ (٢٤٧٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٥٩) (تحفة الأشراف : ٣٢٢٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جب بھی اندر آنے کی اجازت طلب کی آپ نے اجازت دیدی ، منع نہیں کیا ، اجازت کے بعد مستورات کو پردہ کرا کر اندر آنے دینے میں کوئی حرج نہیں ، اس سے خواہ مخواہ یہ نکتہ نکالنے کی ضرورت نہیں کہ اس سے خاص مردانہ حلیہ مراد ہے ، ہر بار اجازت لینے پر اندر آنے کی اجازت دے دینا اس آدمی سے خاص لگاؤ کی دلیل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (159) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3820

【217】

حضرت جریر بن عبداللہ بجلی (رض) کے مناقب

جریر بن عبداللہ بجلی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب سے میں اسلام لایا ہوں مجھے (اندر جانے سے) منع نہیں کیا اور جب بھی آپ نے مجھے دیکھا آپ مسکرائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، وهو بهذا اللفظ أرجح انظر ما قبله (3820) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3821

【218】

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے مناقب

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دو بار دیکھا اور نبی اکرم ﷺ نے ان کے لیے دو مرتبہ دعائیں کیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث مرسل ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ ابوجہضم کا ابن عباس سے سماع ہے یا نہیں ٢- یہ حدیث عبیداللہ بن عبداللہ بن عباس سے بھی ابن عباس کے واسطہ سے آئی ہے، ٣- اور ابوجہضم کا نام موسیٰ بن سالم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٥٠٢) (ضعیف) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3822

【219】

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے مناقب

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو بار مجھے حکمت سے نوازے جانے کی دعا فرمائی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے عطا کی روایت سے غریب ہے اور اسے عکرمہ نے ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) وانظر مایأتي (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایک مرتبہ اپنے سینہ سے چمٹا کر آپ ﷺ نے ان کے حق میں یہ دعا کی کہ رب العالمین انہیں علم و حکمت عطا فرما اور دوسری مرتبہ جب وہ آپ ﷺ کے لیے وضو کا پانی رکھ رہے تھے تو یہ دعا کی کہ اللہ تو انہیں دین کی سمجھ عطا فرما۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (395) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3823

【220】

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے مناقب

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے سینے سے لگا کر فرمایا : «اللهم علمه الحکمة» اے اللہ ! اسے حکمت سکھا دے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٢٤ (٣٧٥٦) ، والاعتصام ١ (٧٢٧٠) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٦٦) (تحفة الأشراف : ٦٠٤٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : حکمت سے مراد سنت ہے قرآن کی تفسیر کی تعلیم کی دعا بھی آپ نے ابن عباس (رض) کے لیے کی تھی ، یہاں سنت کی تعلیم کی دعا کا تذکرہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (395) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3824

【221】

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے مناقب

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا میرے ہاتھ میں موٹے ریشم کا ایک ٹکڑا ہے اور اس سے میں جنت کی جس جگہ کی جانب اشارہ کرتا ہوں تو وہ مجھے اڑا کر وہاں پہنچا دیتا ہے، تو میں نے یہ خواب (ام المؤمنین) حفصہ (رض) سے بیان کیا پھر حفصہ (رض) نے اسے نبی اکرم ﷺ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا : تیرا بھائی ایک مرد صالح ہے یا فرمایا : عبداللہ مرد صالح ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٢١ (١١٥٦) ، والتعبیر ٢٥ (٦٩٩١) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٣١ (٢٤٧٨) (تحفة الأشراف : ٧٥١٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کسی کے صالح ہونے کی شہادت اللہ کے رسول ﷺ دیں ، اس کے شرف کا کیا پوچھنا !۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3825

【222】

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے مناقب

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (خواب میں) زبیر کے گھر میں ایک چراغ دیکھا تو آپ نے عائشہ (رض) سے فرمایا : عائشہ ! میں یہی سمجھا ہوں کہ اسماء کے یہاں ولادت ہونے والی ہے، تو اس کا نام تم لوگ نہ رکھنا، میں رکھوں گا ، تو آپ ﷺ نے ان کا نام عبداللہ رکھا، اور اپنے ہاتھ سے ایک کھجور کے ذریعہ ان کی تحنیک کی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٢٤٣) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اسے چبا کر ان کے منہ میں ڈال دیا جس کے منہ میں اللہ کے نبی ﷺ کا لعاب دہن گیا وہ منہ کتنا مبارک ہوگیا ! «ذلک فضل اللہ يؤتيه من يشاء» (الجمعة : ٤) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3826

【223】

حضرت انس بن مالک (رض) کے مناقب

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گزرے تو میری ماں ام سلیم نے آپ کی آواز سن کر بولیں : میرے باپ اور میری ماں آپ پر فدا ہوں اللہ کے رسول ! یہ انیس ١ ؎ ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے تین دعائیں کیں، ان میں سے دو کو تو میں نے دنیا ہی میں دیکھ لیا ٢ ؎ اور تیسرے کا آخرت میں امیدوار ہوں ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- یہ حدیث انس سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، اور وہ اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٣٢ (٢٤٨١) (تحفة الأشراف : ٥١٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : انیس یہ انس کی تصغیر ہے۔ ٢ ؎ : ان دونوں دعاؤں کا تعلق مال و اولاد کی کثرت سے تھا ، انس (رض) کا خود بیان ہے کہ میری زمین سال میں دو مرتبہ پیداوار دیتی تھی ، اور میری اولاد میں میرے پوتے اور نواسے اس کثرت سے ہوئے کہ ان کی تعداد سو کے قریب ہے ( دیکھئیے اگلی حدیث رقم : ٣٨٤٦) ۔ ٣ ؎ : اس دعا کا تعلق گناہوں کی مغفرت سے تھا جو انہیں آخرت میں نصیب ہوگی۔ «إن شاء اللہ» قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3827

【224】

حضرت انس بن مالک (رض) کے مناقب

انس (رض) کہتے ہیں کہ کبھی کبھی نبی اکرم ﷺ مجھے کہتے : اے دو کانوں والے ۔ ابواسامہ کہتے ہیں : یعنی آپ ان سے یہ مذاق کے طور پر فرماتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١١٩٢ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور مذاق کسی محبوب آدمی ہی سے کیا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3828

【225】

حضرت انس بن مالک (رض) کے مناقب

ام سلیم (رض) کہتی ہیں کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! انس آپ کا خادم ہے، آپ اللہ سے اس کے لیے دعا فرما دیجئیے۔ آپ نے فرمایا : «اللهم أكثر ماله وولده وبارک له فيما أعطيته» اے اللہ ! اس کے مال اور اولاد میں زیادتی عطا فرما اور جو تو نے اسے عطا کیا ہے اس میں برکت دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٤٧ (٦٣٧٨، ٦٣٨٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٣٢ (٢٤٨٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : دیکھئیے پچھلی حدیث کے حواشی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2246) ، تخريج المشکلة (12) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3829

【226】

حضرت انس بن مالک (رض) کے مناقب

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میری کنیت ایک ساگ (گھاس) کے ساتھ رکھی جسے میں چن رہا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، اس حدیث کو ہم صرف جابر جعفی کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ ابونصر سے روایت کرتے ہیں، ٢- ابونصر کا نام خیثمہ بن ابی خیثمہ بصریٰ ہے، انہوں نے انس سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٢٦) (ضعیف) (سند میں خیثمہ ابو نصر العبدی لین الحدیث راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (4773 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3830

【227】

حضرت انس بن مالک (رض) کے مناقب

ثابت بنانی کا بیان ہے کہ مجھ سے انس بن مالک (رض) نے کہا : اے ثابت مجھ سے علم دین حاصل کرو کیونکہ اس کے لیے تم مجھ سے زیادہ معتبر آدمی کسی کو نہیں پاؤ گے، میں نے اسے (براہ راست) رسول اللہ ﷺ سے لیا ہے، اور آپ ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) سے اور جبرائیل (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے لیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف زید بن حباب کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٩١) (ضعیف الإسناد) (سند میں میمون بن ابان مجہول الحال راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3831

【228】

حضرت انس بن مالک (رض) کے مناقب

اس سند سے بھی انس (رض) سے ابراہیم بن یعقوب والی حدیث ہی کی طرح حدیث مروی ہے، لیکن اس میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اسے جبرائیل سے لیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف الإسناد) قال الشيخ الألباني : * صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3832

【229】

حضرت انس بن مالک (رض) کے مناقب

ابوخلدہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالعالیہ سے پوچھا : کیا انس (رض) نے نبی اکرم ﷺ سنا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : انس (رض) نے نبی اکرم ﷺ کی دس سال خدمت کی ہے اور آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی ہے، اور انس (رض) کا ایک باغ تھا جو سال میں دو بار پھلتا تھا، اور اس میں ایک خوشبودار پودا تھا جس سے مشک کی بو آتی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- ابوخلدہ کا نام خالد بن دینار ہے اور وہ محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں اور ابوخلدہ نے انس بن مالک (رض) کا زمانہ پایا ہے، اور انہوں نے ان سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، ( تحفة الأشراف : ٨٣٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2241) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3833

【230】

حضرت ابوہریرہ (رض) کے مناقب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کے پاس اپنی چادر پھیلا دی، آپ نے اسے اٹھایا اور سمیٹ کر اسے میرے دل پر رکھ دیا، اس کے بعد سے میں کوئی چیز نہیں بھولا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر مابعدہ ( تحفة الأشراف : ١٤٨٨٥) (حسن الإسناد) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيحه صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3834

【231】

حضرت ابوہریرہ (رض) کے مناقب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں بہت سی چیزیں آپ سے سنتا ہوں لیکن انہیں یاد نہیں رکھ پاتا، آپ نے فرمایا : اپنی چادر پھیلاؤ، تو میں نے اسے پھیلا دیا، پھر آپ نے بہت سے حدیثیں بیان فرمائیں، تو آپ نے جتنی بھی حدیثیں مجھ سے بیان فرمائیں میں ان میں سے کوئی بھی نہیں بھولا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور ابوہریرہ (رض) سے کئی سندوں سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤٢ (١١٩) ، والمناقب ٢٨ (٣٦٤٨) (تحفة الأشراف : ١٣٠١٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3835

【232】

حضرت ابوہریرہ (رض) کے مناقب

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے کہا : ابوہریرہ ! آپ ہم سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہنے والے اور ہم سے زیادہ آپ ﷺ کی حدیثیں یاد رکھنے والے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٥٥٧) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3836

【233】

حضرت ابوہریرہ (رض) کے مناقب

مالک بن ابوعامر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے طلحہ بن عبیداللہ کے پاس آ کر کہا : اے ابو محمد ! کیا یہ یمنی شخص یعنی ابوہریرہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں کا آپ لوگوں سے زیادہ جانکار ہے، ہم اس سے ایسی حدیثیں سنتے ہیں جو آپ سے نہیں سنتے یا وہ رسول اللہ ﷺ پر ایسی بات گھڑ کر کہتا ہے جو آپ نے نہیں فرمائی، تو انہوں نے کہا : نہیں ایسی بات نہیں، واقعی ابوہریرہ نے رسول اللہ ﷺ سے ایسی چیزیں سنی ہیں جو ہم نے آپ سے نہیں سنیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مسکین تھے، ان کے پاس کوئی چیز نہیں تھی وہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان رہتے تھے، ان کا ہاتھ (کھانے پینے میں) رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ کے ساتھ پڑتا تھا، اور ہم گھربار والے تھے اور مالدار لوگ تھے، ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس صبح میں اور شام ہی میں آ پاتے تھے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسی چیزیں سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں، اور تم کوئی ایسا آدمی نہیں پاؤ گے جس میں کوئی خیر ہو اور وہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- اسے یونس بن بکیر نے اور ان کے علاوہ دوسرے راویوں نے بھی محمد بن اسحاق سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٠١٠) (ضعیف الإسناد) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3837

【234】

حضرت ابوہریرہ (رض) کے مناقب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم کس قبیلہ سے ہو ؟ میں نے عرض کیا : میں قبیلہ دوس کا ہوں، آپ نے فرمایا : میں نہیں جانتا تھا کہ دوس میں کوئی ایسا آدمی بھی ہوگا جس میں خیر ہوگی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- ابوخلدہ کا نام خالد بن دینار ہے اور ابوالعالیہ کا نام رفیع ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٨٩٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3838

【235】

حضرت ابوہریرہ (رض) کے مناقب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ان میں برکت کی دعا فرما دیجئیے، تو آپ نے انہیں اکٹھا کیا پھر ان میں برکت کی دعا کی اور فرمایا : انہیں لے جاؤ اور اپنے توشہ دان میں رکھ لو اور جب تم اس میں سے کچھ لینے کا ارادہ کرو تو اس میں اپنا ہاتھ ڈال کرلے لو، اسے بکھیرو نہیں چناچہ ہم نے اس میں سے اتنے اتنے وسق اللہ کی راہ میں دیئے اور ہم اس میں سے کھاتے تھے اور کھلاتے بھی تھے ١ ؎ اور وہ (تھیلی) کبھی میری کمر سے جدا نہیں ہوتی تھی، یہاں تک کہ جس دن عثمان (رض) قتل کئے گئے تو وہ ٹوٹ کر (کہیں) گرگئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- یہ حدیث ابوہریرہ (رض) سے دوسری سندوں سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٨٩٣) (صحیح) (شواہد کی بنا پر صحیح ہے، الصحیحة : ٣٩٦٣، تراجع الالبانی ٢٢٧) وضاحت : ١ ؎ : خیر و برکت کی دعا اللہ کے رسول ﷺ کسی مقبول بارگاہ الٰہی آدمی کے لیے کرسکتے ہیں ؟ ثابت ہوا کہ ابوہریرہ (رض) مقبول بارگاہ الٰہی تھے۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3839

【236】

حضرت ابوہریرہ (رض) کے مناقب

عبداللہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے پوچھا : آپ کی کنیت ابوہریرہ کیوں پڑی ؟ تو انہوں نے کہا : کیا تم مجھ سے ڈرتے نہیں ہو ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ؟ قسم اللہ کی ! میں آپ سے ڈرتا ہوں، پھر انہوں نے کہا : میں اپنے گھر والوں کی بکریاں چراتا تھا، میری ایک چھوٹی سی بلی تھی میں اس کو رات میں ایک درخت پر بٹھا دیتا اور دن میں اسے اپنے ساتھ لے جاتا، اور اس سے کھیلتا، تو لوگوں نے میری کنیت ابوہریرہ رکھ دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٥٦٠) (حسن الإسناد) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3840

【237】

حضرت ابوہریرہ (رض) کے مناقب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں مجھ سے زیادہ کسی کو یاد نہیں، سوائے عبداللہ بن عمرو کے کیونکہ وہ لکھ لیتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٦٦٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : لکھ لینے کے باوجود عبداللہ بن عمرو (رض) کی روایات ابوہریرہ (رض) سے زیادہ نہیں ہیں ، یہ صرف ان کا گمان تھا کہ لکھ دینے کی وجہ سے زیادہ ہوں گی ، نیز اس روایت میں یہ بات بھی ہے کہ عہد نبوی میں بھی لوگ احادیث رسول لکھا کرتے تھے ، خود ابوہریرہ (رض) کے پاس بعد میں تحریری شکل میں احادیث کا مجموعہ ہوگیا تھا۔ یہ بھی واضح رہے کہ ابوہریرہ (رض) نے علم حدیث کے سیکھنے سکھانے کو اپنی زندگی کا مشغلہ بنا لیا تھا ، جب سے مدینہ آئے ، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دن رات رہ کر احادیث کا علم حاصل کیا ، بعد میں ٥٧ ھ سے ٥٨ ھ تک اسی کے نشر و اشاعت میں مدینۃ الرسول اور مسجد رسول میں بیٹھ کر مشغول رہے ، جب کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) نے مدینہ چھوڑ کر طائف کی سکونت اختیار کرلی ، اور شاید اسی وجہ سے آپ کی احادیث ہم تک نہیں پہنچ سکیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3841

【238】

حضرت معاویہ بن ابی سفیان کے مناقب

صحابی رسول عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے معاویہ (رض) کے بارے میں فرمایا : اے اللہ ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٧٠٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور یہ دعا آپ کی ان دعاؤں میں سے نہیں ہے جو قبول نہیں ہوئیں تھیں ، یہ مقبول دعاؤں میں سے ہے ، ثابت ہوا کہ معاویہ (رض) خود ہدایت پر تھے اور لوگوں کے لیے ہدایت کا معیار تھے ، «رضی اللہ عنہ»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (623) ، الصحيحة (1969) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3842

【239】

حضرت معاویہ بن ابی سفیان کے مناقب

ابوادریس خولانی کہتے ہیں کہ جب عمر بن خطاب (رض) نے عمیر بن سعد کو حمص سے معزول کیا اور ان کی جگہ معاویہ (رض) کو والی بنایا تو لوگوں نے کہا : انہوں نے عمیر کو معزول کردیا اور معاویہ کو والی بنایا، تو عمیر نے کہا : تم لوگ معاویہ (رض) کا ذکر بھلے طریقہ سے کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : «اللهم اهد به» اے اللہ ! ان کے ذریعہ ہدایت دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- عمرو بن واقد حدیث میں ضعیف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٨٩٢) (صحیح) (سند میں عمرو بن واقد ضعیف ہے، اوپر کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (3842) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3843

【240】

حضرت عمر و بن عاص کے مناقب

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ اسلام لائے اور عمرو بن العاص (رض) ایمان لائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ مشرح بن ہاعان سے روایت کرتے ہیں اور اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٩٦٧) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : عمرو بن العاص (رض) فتح مکہ سے ایک سال یا دو سال پہلے اسلام لا کر مدینہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے ، اور اہل مکہ میں سے جو لوگ فتح مکہ کے بعد اسلام لائے ان کی بنسبت عمرو بن العاص کا اسلام لانا کسی زور و زبردستی اور خوف و ہراس سے بالاتر تھا اسی لیے آپ نے ان کے متعلق فرمایا کہ دوسرے لوگ ( جو لوگ فتح مکہ کے دن ایمان لائے وہ ) تو خوف و ہراس کے عالم میں اسلام لائے ، لیکن عمرو بن العاص (رض) کا ایمان ان کے دلی اطمینان اور چاہت و رغبت کا مظہر ہے ، گویا اللہ نے انہیں اس ایمان قلبی سے نوازا ہے جس کا درجہ بڑھا ہوا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (115) ، المشکاة (6236) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3844

【241】

حضرت عمر و بن عاص کے مناقب

طلحہ بن عبیداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : عمرو بن العاص (رض) قریش کے نیک لوگوں میں سے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث کو ہم صرف نافع بن عمر جمحی کی روایت سے جانتے ہیں اور نافع ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل نہیں ہے، اور ابن ابی ملیکہ نے طلحہ کو نہیں پایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٠٠١) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابن ابی ملیکہ اور طلحہ کے درمیان انقطاع ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3845

【242】

حضرت خالد بن ولید کے مناقب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک منزل پر پڑاؤ کیا، جب لوگ آپ کے سامنے سے گزرتے تو آپ پوچھتے : ابوہریرہ ! یہ کون ہے ؟ میں کہتا : فلاں ہے، تو آپ فرماتے : کیا ہی اچھا بندہ ہے یہ اللہ کا ، پھر آپ فرماتے : یہ کون ہے ؟ تو میں کہتا : فلاں ہے تو آپ فرماتے : کیا ہی برا بندہ ہے یہ اللہ کا ١ ؎، یہاں تک کہ خالد بن ولید گزرے تو آپ نے فرمایا : یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا : یہ خالد بن ولید ہیں، آپ نے فرمایا : کیا ہی اچھے بندے ہیں اللہ کے خالد بن ولید، وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ زید بن اسلم کا سماع ابوہریرہ (رض) سے ہے کہ نہیں اور یہ میرے نزدیک مرسل روایت ہے، ٢- اس باب میں ابوبکر صدیق (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٩٠٧) (صحیح) (الصحیحة ١٢٣٧، ١٨٢٦) وضاحت : ١ ؎ : جن لوگوں کے بارے میں آپ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا شاید وہ منافقین ہوں گے ، ورنہ کسی صحابی کے بارے میں آپ ایسا نہیں فرما سکتے تھے ٢ ؎ : خالد بن ولید (رض) کے حق میں آپ کا یہ فرمان عمر (رض) کے دور خلافت میں سچ ثابت ہوا ، اللہ نے خالد بن ولید (رض) کے ذریعہ دین کی ایسی تائید فرمائی کہ ان کے ہاتھوں متعدد فتوحات حاصل ہوئیں ، خالد بن ولید (رض) حقیقت میں اس ملت کی ایسی تلوار تھے جسے اللہ نے کافروں کی برتری کے لیے میان سے باہر نکالی تھی۔ اور خالد بن ولید (رض) کے وہ اکیلے جرنیل ہیں جنہوں نے زندگی بھر کبھی کسی جنگ میں شکست نہیں کھائی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6253 / التحقيق الثاني) ، الصحيحة (1237 - 1826) ، أحكام الجنائز (166) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3846

【243】

حضرت سعد بن معاذ کے مناقب

براء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ ریشمی کپڑے ہدیہ میں آئے، ان کی نرمی کو دیکھ کر لوگ تعجب کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت میں سعد بن معاذ (رض) کے رومال اس سے بہتر ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس (رض) بھی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٨ (٣٢٤٩) ، مناقب الأنصار ١٢ (٣٨٠٢) ، واللباس ٢٦ (٥٨٣٦) ، والأیمان والنذور ٣ (٦٦٤٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢٤ (٢٤٦٨) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٥٧) (تحفة الأشراف : ١٨٥٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : دیگر لفظوں میں آپ نے دنیا ہی میں سعد بن معاذ کے جنتی ہونے کی خوشخبری سنا دی (رض) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3847

【244】

حضرت سعد بن معاذ کے مناقب

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا : اور سعد بن معاذ (رض) کا جنازہ (اس وقت لوگوں کے سامنے رکھا ہوا تھا) : ان کے لیے رحمن کا عرش (بھی خوشی سے) جھوم اٹھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں اسید بن حضیر، ابو سعید خدری اور رمیثہ (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ١٢ (٣٨٠٣) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢٤ (٢٤٦٦) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٥٨) (تحفة الأشراف : ٢٨١٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : ان کے آسمان پر آ جانے کی خوشی میں ، بعض لوگوں نے رحمان کے عرش کو اٹھانے والے فرشتے مراد لیا ہے کہ وہ سعد بن معاذ (رض) کے آسمان پر آنے کی خوشی میں جھوم اٹھے ، بہرحال یہ ان کے مقرب بارگاہ الٰہی ہونے کی دلیل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3848

【245】

حضرت سعد بن معاذ کے مناقب

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب سعد بن معاذ (رض) کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافقین کہا : کتنا ہلکا ہے ان کا جنازہ ؟ اور یہ طعن انہوں نے اس لیے کیا کہ سعد نے بنی قریظہ کے قتل کا فیصلہ فرمایا تھا، جب نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا : فرشتے اسے اٹھائے ہوئے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٤٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ جب خندق کی لڑائی سے فارغ ہوگئے اور بنی قریظہ کا رخ کیا تو اس وقت یہ لوگ ایک قلعہ میں محبوس تھے ، لشکر اسلام نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا ، پھر یہ لوگ سعد بن معاذ (رض) کے فیصلہ پر راضی ہوئے ، چناچہ سعد نے ان کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ ان کے جنگجو جوان قتل کردیئے جائیں ، مال مسلمانوں میں تقسیم ہوں اور عورتیں بچے غلام و لونڈی بنا لیے جائیں ، آپ ﷺ نے سعد کا یہ فیصلہ بہت پسند فرمایا اور اسی پر عمل ہوا ، اسی فیصلہ کی وجہ سے منافقوں نے ان سے جل کر یہ طعن کیا کہ ان کا جنازہ کیسا ہلکا ہے ، ان احمقوں کو یہ خبر نہ تھی کہ اسے ملائکہ اٹھائے ہوئے ہیں ( یہ ان کے اللہ کے ازحد محبوب بندہ ہونے کی دلیل ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6228) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3849

【246】

حضرت قیس بن سعد بن عبادہ کے مناقب

انس (رض) کہتے ہیں کہ قیس بن سعد (رض) نبی اکرم ﷺ کے لیے ایسے ہی تھے جیسے امیر (کی حفاظت) کے لیے پولیس والا ہوتا ہے۔ راوی حدیث (محمد بن عبداللہ) انصاری کہتے ہیں : یعنی وہ (آپ ﷺ کی حفاظت کے لیے) آپ کے بہت سے امور انجام دیا کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف انصاری کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأحکام ١٢ (٧١٥٥) (تحفة الأشراف : ٥٠١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3850 ہم سے محمد بن یحییٰ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے اسی جیسی حدیث بیان کی لیکن اس میں انصاری کا قول ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3850

【247】

حضرت جابر بن عبداللہ کے مناقب

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے ١ ؎، آپ نہ کسی خچر پر سوار تھے نہ ترکی گھوڑے پر۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المرضی ١٥ (٥٦٦٤) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٦ (٣٠٩٦) ، وانظر ماتقدم برقم ٢٠٩٧) (تحفة الأشراف : ٣٠٢١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صحیح بخاری اور دیگر کتب سنن میں ہے کہ آپ میری عیادت کو آئے … بہرحال اس میں جابر (رض) سے آپ ﷺ کے غایت درجہ محبت کرنے کی دلیل ہے ، کہ سواری نہ ہونے پر پیدل چل کر ان کی عیادت کو گئے ، (رض) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (291) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3851

【248】

حضرت جابر بن عبداللہ کے مناقب

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے «ليلة البعير» (اونٹ کی رات) میں میرے لیے پچیس بار دعائے مغفرت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- ان کے قول «ليلة البعير» اونٹ کی رات سے وہ رات مراد ہے جو جابر سے کئی سندوں سے مروی ہے کہ وہ ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، انہوں نے اپنا اونٹ نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ بیچ دیا اور مدینہ تک اس پر سوار ہو کر جانے کی شرط رکھ لی، جابر (رض) کہتے ہیں : جس رات میں نے نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ اونٹ بیچا آپ نے پچیس بار میرے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ اور جابر کے والد عبداللہ بن عمرو بن حرام (رض) احد کے دن شہید کردیئے گئے تھے اور انہوں نے کچھ لڑکیاں چھوڑی تھیں، جابر ان کی پرورش کرتے تھے اور ان پر خرچ دیتے تھے، اس کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ ان کے ساتھ حسن سلوک فرماتے تھے اور ان پر رحم کرتے تھے، ٣- اسی طرح ایک اور حدیث میں جابر سے ایسے ہی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي) ( تحفة الأشراف : ٢٦٩١) (ضعیف) (ابوالزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6238) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3852

【249】

ضرت نصعب بن عمیر کے مناقب

خباب (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی ١ ؎، ہم اللہ کی رضا کے خواہاں تھے تو ہمارا اجر اللہ پر ثابت ہوگیا ٢ ؎ چناچہ ہم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنے اجر میں سے (دنیا میں) کچھ بھی نہیں کھایا ٣ ؎ اور کچھ ایسے ہیں کہ ان کے امید کا درخت بار آور ہوا اور اس کے پھل وہ چن رہے ہیں، اور مصعب بن عمیر (رض) نے ایسے وقت میں انتقال کیا کہ انہوں نے کوئی چیز نہیں چھوڑی سوائے ایک ایسے کپڑے کے جس سے جب ان کا سر ڈھانپا جاتا تو دونوں پیر کھل جاتے اور جب دونوں پیر ڈھانپے جاتے تو سر کھل جاتا، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان کا سر ڈھانپ دو اور ان کے پیروں پر اذخر گھاس ڈال دو ٤ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢٧ (١٢٧٦) ، ومناقب الأنصار ٤٥ (٣٨٩٧) ، والمغازي ١٧ (٤٠٤٧) ، و ٢٦ (٤٠٨٢) ، والرقاق ٧ (٦٤٣٢) ، ١٦ (٦٤٤٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٣ (٩٤٠) ، سنن ابی داود/ الوصایا ١١ (٢٨٧٦) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٠ (١٩٠٤) (تحفة الأشراف : ٣٥١٤) ، و مسند احمد (٥/١٠٩، ١١٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح أحكام الجنائز (57 - 58) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3853 ہم سے ہناد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابن ادریس نے بیان کیا، اور ابن ادریس نے اعمش سے، اعمش نے ابو وائل شفیق بن سلمہ سے اور ابو وائل نے خباب بن ارت (رض) سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی آپ کے حکم سے ہجرت کی ، ورنہ ہجرت میں آپ کے ساتھ صرف ابوبکر (رض) تھے ، یا یہ مطلب ہے کہ ہم نے آپ کے آگے پیچھے ہجرت کی اور بالآخر سب مدینہ پہنچے۔ ٢ ؎ : یعنی اللہ کے اپنے اوپر آپ خود سے واجب کرنے پر ، ورنہ آپ پر کون کوئی چیز واجب کرسکتا ہے ، یا آپ نے ایسا اس لیے کہا کہ اللہ نے اس کا خود ہی وعدہ فرمایا ہے ، اور اللہ کا وعدہ سچا پکا ہوتا ہے۔ ٣ ؎ : یعنی فتوحات سے قبل ہی ان کا انتقال ہوگیا تو اموال غنیمت سے استفادہ کرنے کا ان کو موقع نہیں ملا ، ورنہ صحابہ نے خاص مال غنیمت کی نیت سے ہجرت نہیں کی تھی۔ ٤ ؎ : چونکہ مصعب کا انتقال فراخی ہونے سے پہلے ہوا تھا اس لیے سرکاری بیت المال میں بھی اتنی گنجائش نہیں تھی کہ ان کے کفن دفن کا انتظام کیا جاتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح أحكام الجنائز (57 - 58) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3853

【250】

حضرت براہ بن مالک کے مناقب

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کتنے پراگندہ بال غبار آلود اور پرانے کپڑے والے ہیں کہ جن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ایسے ہیں کہ اگر اللہ کے بھروسہ پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم کو سچی کر دے ١ ؎، انہیں میں سے براء بن مالک ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٧٥، و ١١٠١) ، و مسند احمد (٣/١٤٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ ان کے اللہ تعالیٰ کے نہایت محبوب ہونے کی دلیل ہے ، اور یہ محبوبیت یونہی حاصل ہوجاتی ، بلکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی اور احکامات کی صدق دل اور فدائیت کے ساتھ بجا آوری کرتے ہیں ، اس لیے ان کو یہ مقام حاصل ہوجاتا ہے ، اور ان میں براء بن مالک بھی تھے ، (رض) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6239) ، تخريج المشکلة (125) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3854

【251】

حضرت ابوموسیٰ اشعری کے مناقب

ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ابوموسیٰ تمہیں آل داود کی خوش الحانیوں (اچھی آوازوں) میں سے ایک خوش الحانی دی گئی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- اس باب میں بریدہ، ابوہریرہ اور انس (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٣١ (٥٠٤٨) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٤ (٧٩٣) (تحفة الأشراف : ٩٠٦٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایک بار اللہ کے نبی ﷺ اور عائشہ (رض) ابوموسیٰ اشعری (رض) کے گھر کے پاس سے گزرے ابوموسیٰ نہایت خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ، صبح کو اسی واقعہ پر آپ نے ان کی بابت یہ فرمایا ، «مزمار» (بانسری ) گرچہ ایک آلہ ہے جس کے ذریعہ اچھی آواز نکالی جاتی ہے ، مگر یہاں صرف اچھی آواز مراد ہے ، داود (علیہ السلام) اپنی کتاب زبور کی تلاوت اس خوش الحانی سے فرماتے کہ اڑتی ہوئی چڑیاں فضا میں رک کر آپ کی تلاوت سننے لگتی تھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3855

【252】

حضرت سہل بن سعد کے مناقب

سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ خندق کھود رہے تھے اور ہم مٹی ڈھو رہے تھے، آپ نے ہمیں دیکھا تو فرمایا : «اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره» اے اللہ زندگی تو آخرت ہی کی زندگی ہے، تو انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس باب میں انس بن مالک سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٩ (٣٧٩٧) ، والمغازي ٢٩ (٤٠٩٨) ، والرقاق ١ (٦٤١٤) (تحفة الأشراف : ٤٧٣٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صاحب تحفہ الأحوذی نے اس حدیث پر باب مناقب سہل بن سعد کا عنوان لگایا ہے ، اور یہی مناسب ہے ، کہ اس حدیث کا تعلق ابوموسیٰ (رض) سے کسی طرح نہیں ہے ، اور اس میں تمام مہاجرین و انصار صحابہ کی منقبت کا بیان ہے ، جو خاص طور پر خندق کھودنے میں شریک تھے ، (رض) اجمعین۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3856

【253】

حضرت سہل بن سعد کے مناقب

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے تھے : «اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأكرم الأنصار والمهاجره» بار الٰہا زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، تو انصار و مہاجرین کی تکریم فرما ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- انس (رض) سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٩ (٣٧٩٥) ، والرقاق ١ (٦٤١٣) ، صحیح مسلم/الجھاد ٤٤ (١٨٠٥) (تحفة الأشراف : ١٢٤٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اگلی حدیث کے استشہاد میں لائے ہیں ، یہی اس باب سے اس کی مناسبت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3857

【254】

صحابہ کرام کی فضیلت کے بارے میں

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جہنم کی آگ کسی ایسے مسلمان کو نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا، یا کسی ایسے شخص کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا ہے ، طلحہ (راوی حدیث) نے کہا : تو میں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو دیکھا ہے اور موسیٰ نے کہا : میں نے طلحہ کو دیکھا ہے اور یحییٰ نے کہا کہ مجھ سے موسیٰ (راوی حدیث) نے کہا : اور تم نے مجھے دیکھا ہے اور ہم سب اللہ سے نجات کے امیدوار ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف موسیٰ بن ابراہیم انصاری کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- اس حدیث کو علی بن مدینی نے اور محدثین میں سے کئی اور لوگوں نے بھی موسیٰ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٢٨٨) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن ابراہیم انصاری صدوق ہیں، لیکن احادیث کی روایت میں غلطی کرتے ہیں، گرچہ حدیث کی تحسین ترمذی نے کی ہے، اور ضیاء مقدسی نے اسے احادیث مختارہ میں ذکر کیا ہے، اور البانی نے بھی مشکاة کی پہلی تحقیق میں اس کی تحسین کی تھی، لیکن ضعیف الترمذی میں اسے ضعیف قرار دیا، حدیث میں نکارہ بھی ہے کہ اس میں سارے صحابہ اور صحابہ کے تابعین سب کے بارے میں عذاب جہنم کی نفی موجود ہے، جب کہ اس عموم پر کوئی اور دلیل نہیں ہے، اس لیے یہ حدیث منکر بھی قرار پائے گی، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الالبانی ٣٥٩) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6004 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6277) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3858

【255】

صحابہ کرام کی فضیلت کے بارے میں

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے ١ ؎، پھر ان لوگوں کا جو ان کے بعد ہیں ٢ ؎، پھر ان کا جو ان کے بعد ہیں ٣ ؎، پھر ان کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جو گواہیوں سے پہلے قسم کھائے گی یا قسموں سے پہلے گواہیاں دے گی ٤ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، عمران بن حصین اور بریدہ (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشھادات ٩ (٢٦٥٢) ، وفضائل الصحابة ١ (٣٦٥١) ، والأیمان والنذور ١٠ (٦٤٢٩) ، والرقاق ٧ (٦٦٥٨) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٢ (٢٥٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٧ (٢٣٦٢) (تحفة الأشراف : ٩٤٠٣) ، و مسند احمد (١/٣٧٨، ٤١٧، ٤٣٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا زمانہ جو نبی ﷺ کے زمانہ میں تھے ، ان کا عہد ایک قرن ہے ، جو ایک ہجری کے ذرا سا بعد تک ممتد ہے ، آخری صحابی ( واثلہ بن اسقع ) کا اور انس (رض) کا انتقال ١١٠ ھ میں ہوا تھا۔ ٢ ؎ : یعنی تابعین رحمہم اللہ۔ ٣ ؎ : یعنی : اتباع تابعین رحمہم اللہ ان کا زمانہ سنہ ٢٢٠ ھ تک ممتد ہے ( بعض علماء نے ان تین قرون سے : عہد صدیقی ، عہد فاروقی اور عہد عثمانی مراد لیا ہے ، کہ عہد عثمانی کے بعد فتنہ و فساد کا دور دورہ ہوگیا تھا ، واللہ اعلم۔ ٤ ؎ : یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے کے بڑے حریص ہوں گے ، ہر وقت اس کے لیے تیار رہیں گے ذرا بھی احتیاط سے کام نہیں لیں گے ، یہ باتیں اتباع تابعین کے بعد عام طور سے مسلمانوں میں پیدا ہوگئی تھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2362) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3859

【256】

بیعت رضوان والوں کی فضیلت کے بارے میں

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جن لوگوں نے (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے بیعت کی ہے ان میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ٩ (٤٨٥٣) (تحفة الأشراف : ٢٩١٨) ، و مسند احمد (٣/٣٥٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جس درخت کے نیچے بیعت ہوئی تھی یہ ایک کیکر کا درخت تھا اور اس بیعت سے مراد بیعت رضوان ہے ، یہ ٦ ھ میں مقام حدیبیہ میں ہوئی ، اس میں تقریباً تیرہ سو صحابہ شامل تھے۔ ایسے لوگوں کے منہ خاک آلود اور ان کی عاقبت برباد ہو جو صحابہ کرام (رض) اجمعین پر بکواس کرتے اور ان پر تہمتیں دھرتے ہیں ، ہماری اس بددعا کی تائید کے لیے اگلی احادیث پڑھ لیجئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ظلال الجنة (860) ، الصحيحة (2160) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3860

【257】

اس بارے میں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کہے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مد بلکہ آدھے مد کے (اجر کے) برابر بھی نہیں پہنچ سکے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- آپ کے قول «نصيفه» سے مراد نصف (آدھا) مد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٥ (٣٦٧٣) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٤ (٢٥٤١) ، سنن ابی داود/ السنة ١١ (٤٦٥٨) (تحفة الأشراف : ٤٠٠١) ، و مسند احمد (٣/١١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الظلال (988) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3861 ہم سے حسن بن خلال نے بیان کیا اور وہ حافظ تھے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا اور ابومعاویہ نے اعمش سے، اعمش نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابو سعید خدری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الظلال (988) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3861

【258】

اس بارے میں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کہے

عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا، جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا، جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی، اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٦٦٢) ، و مسند احمد (٤/٨٧) (ضعیف) (سند میں عبد الرحمن بن زیاد مجہول راوی ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : الضعیفة رقم : ٢٩٠١) قال الشيخ الألباني : ضعيف تخريج الطحاوية (471) // (673) //، الضعيفة (2901) // ضعيف الجامع الصغير (1160) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3862

【259】

اس بارے میں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کہے

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی (یعنی بیعت رضوان میں شریک رہے) وہ ضرور جنت میں داخل ہوں گے، سوائے سرخ اونٹ والے کے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٧٠٢) (ضعیف) (سند میں خداش بن عیاش لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : کہا جاتا ہے کہ سرخ اونٹ والے سے جد بن قیس منافق مراد ہے اس کا اونٹ کھو گیا تھا اس سے کہا گیا آ کر بیعت کرلو تو اس نے کہا : میرا اونٹ مجھے مل جائے ، یہ مجھے بیعت کرنے سے زیادہ محبوب ہے ( مگر یہ حدیث ضعیف ہے اس لیے حتمی طور پر یہ کہنا صحیح نہیں ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الصحيحة تحت الحديث (2160) // ضعيف الجامع الصغير (4873) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3863

【260】

اس بارے میں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کہے

جابر (رض) کہتے ہیں کہ حاطب بن ابی بلتعہ (رض) کا ایک غلام نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر حاطب کی شکایت کرنے لگا، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! حاطب ضرور جہنم میں جائیں گے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے غلط کہا وہ اس میں داخل نہیں ہوں گے، کیونکہ وہ بدر اور حدیبیہ دونوں میں موجود رہے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٣٦ (٢٤٩٥/١٦٢) (تحفة الأشراف : ٢٩١٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور اللہ نے بدریوں کی عام مغفرت کا اعلان کردیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3864

【261】

اس بارے میں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کہے

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ میں سے جو بھی کسی سر زمین پر مرے گا تو وہ قیامت کے دن اس سر زمین والوں کا پیشوا اور ان کے لیے نور بنا کر اٹھایا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- یہ حدیث عبداللہ بن مسلم ابوطیبہ سے مروی ہے اور انہوں نے اسے بریدہ (رض) کے بیٹے کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩٨٣) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن مسلم ابو طیبہ روایت میں وہم کے شکار ہوجایا کرتے تھے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4468) // ضعيف الجامع الصغير (5138) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3865

【262】

اس بارے میں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کہے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کو برا بھلا کہتے ہوں تو کہو : اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر پر ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث منکر ہے، ہم اسے عبیداللہ بن عمر (عمری) کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور نضر اور سیف دونوں مجہول راوی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٧١٣) (ضعیف جدا) (سند میں نضر اور سیف دونوں مجہول ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، المشکاة (6008 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (513) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3866

【263】

حضرت فاطمہ (رض) کی فضیلت کے بارے میں

مسور بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا اور آپ منبر پر تھے : ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علی سے کردیں، تو میں اس کی اجازت نہیں دیتا، نہیں دیتا، نہیں دیتا، مگر ابن ابی طالب چاہیں تو میری بیٹی کو طلاق دے دیں، اور ان کی بیٹی سے شادی کرلیں، اس لیے کہ میری بیٹی میرے جسم کا ٹکڑا ہے، مجھے وہ چیز بری لگتی ہے جو اسے بری لگے اور مجھے ایذا دیتی ہے وہ چیز جو اسے ایذا دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسے عمرو بن دینار نے اسی طرح ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے مسور بن مخرمہ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ٥ (٣١١٠) ، وفضائل الصحابة ٢٩ (٣٧٦٧) ، والنکاح ١٠٩ (٥٢٣٠) ، والطلاق ١٣ (٥٢٧٨) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٤ (٢٣٨٤) ، سنن ابی داود/ النکاح ١٣ (٢٠٦٩-٢٠٧١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٦ (١٩٩٨) (تحفة الأشراف : ١١٢٦٧) ، و مسند احمد (٤/٣٢٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1998) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3867

【264】

حضرت فاطمہ (رض) کی فضیلت کے بارے میں

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب فاطمہ (رض) تھیں اور مردوں میں علی (رض) تھے، ابراہیم بن سعد کہتے ہیں : یعنی اپنے اہل بیت میں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩٨١) (منکر) (سند میں عبد اللہ بن عطاء روایت میں غلطیاں کر جاتے تھے، اور جعفر بن زیاد الاحمر شیعی ہے، اور روایت میں تشیع ہے) قال الشيخ الألباني : منکر نقد الکتاني (29) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3868

【265】

حضرت فاطمہ (رض) کی فضیلت کے بارے میں

عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ علی (رض) نے ابوجہل کی بیٹی کا ذکر کیا تو اس کی خبر نبی اکرم ﷺ کو پہنچی، آپ نے فرمایا : فاطمہ میرے جسم کا ٹکرا ہے، مجھے تکلیف دیتی ہے وہ چیز جو اسے تکلیف دیتی ہے، اور «تعب» میں ڈالتی ہے مجھے وہ چیز جو اسے «تعب» میں ڈالتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسی طرح ایوب نے ابی ملیکہ سے اور انہوں نے ابن زبیر سے روایت کی ہے جبکہ متعدد لوگوں نے ابن ابی ملیکہ کے واسطہ سے مسور بن مخرمہ سے روایت کی ہے۔ (جیسا کہ حدیث رقم : ٣٨٨٠) ٣- اس بات کا احتمال ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے ایک ساتھ دونوں ہی سے روایت کیا ہو (اور ایسا بہت ہوا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٢٧١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (8 / 294) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3869

【266】

حضرت فاطمہ (رض) کی فضیلت کے بارے میں

زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رض) سے فرمایا : میں لڑنے والا ہوں اس سے جس سے تم لڑو اور صلح جوئی کرنے والا ہوں اس سے جس سے تم صلح جوئی کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور صبیح مولیٰ ام سلمہ معروف نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٤٥) (تحفة الأشراف : ٣٦٦٢) (ضعیف) (سند میں صبیح لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (145) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (27) ، المشکاة (6145) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3870

【267】

حضرت فاطمہ (رض) کی فضیلت کے بارے میں

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حسن، حسین، علی اور فاطمہ (رض) کو ایک چادر سے ڈھانپ کر فرمایا :«‏‏‏‏اللهم هؤلاء أهل بيتي وخاصتي أذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا » اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت اور میرے خاص الخاص لوگ ہیں، تو ان سے گندگی کو دور فرما دے، اور انہیں اچھی طرح سے پاک کر دے ، تو ام سلمہ (رض) بولیں : اور میں بھی ان کے ساتھ ہوں اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : تو (بھی) خیر پر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں جو حدیثیں مروی ہیں ان میں سب سے اچھی ہے، ٢- اس باب میں عمر بن ابی سلمہ، انس بن مالک، ابوالحمراء، معقل بن یسار، اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ماتقدم برقم ٣٢٠٥، و ٣٧٨٧ (تحفة الأشراف : ١٨١٦٥) (صحیح) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھئے حدیث نمبر (٣٧٨٧) قال الشيخ الألباني : صحيح بما تقدم رقم (3435) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3871

【268】

حضرت فاطمہ (رض) کی فضیلت کے بارے میں

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے کے طور و طریق اور عادت و خصلت میں فاطمہ ١ ؎ (رض) سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا، وہ کہتی ہیں : جب وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آتیں تو آپ اٹھ کر انہیں بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے، اور جب نبی اکرم ﷺ ان کے پاس آتے تو وہ اٹھ کر آپ کو بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں چناچہ جب نبی اکرم ﷺ بیمار ہوئے تو فاطمہ آئیں اور آپ پر جھکیں اور آپ کو بوسہ لیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور رونے لگیں پھر آپ پر جھکیں اور اپنا سر اٹھایا تو ہنسنے لگیں، پہلے تو میں یہ خیال کرتی تھی کہ یہ ہم عورتوں میں سب سے زیادہ عقل والی ہیں مگر ان کے ہنسنے پر یہ سمجھی کہ یہ بھی آخر (عام) عورت ہی ہیں، یعنی یہ کون سا موقع ہنسنے کا ہے، پھر جب نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوگئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا بات تھی کہ میں نے تمہیں دیکھا کہ تم نبی اکرم ﷺ پر جھکیں پھر سر اٹھایا تو رونے لگیں، پھر جھکیں اور سر اٹھایا تو ہنسنے لگیں، تو انہوں نے کہا : اگر آپ کی زندگی میں یہ بات بتا دیتی تو میں ایک ایسی عورت ہوتی جو آپ کے راز کو افشاء کرنے والی ہوتی، بات یہ تھی کہ پہلے آپ نے مجھے اس بات کی خبر دی کہ اس بیماری میں میں انتقال کر جانے والا ہوں، یہ سن کر میں رو پڑی، پھر آپ نے مجھے بتایا کہ ان کے گھر والوں میں سب سے پہلے میں ان سے ملوں گی، تو یہ سن کر میں ہنسنے لگی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور یہ عائشہ سے متعدد سندوں سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٥٥ (٥٢١٧) (تحفة الأشراف : ١٧٨٨٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے فاطمہ (رض) کی منقبت کئی طرح سے ثابت ہوتی ہے ، ١- فاطمہ (رض) آپ سے اخلاق و عادات میں بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھیں ، ٢- فاطمہ (رض) آپ کو اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ پیاری تھیں ، ٣- آخرت میں آپ سے شرف رفاقت سب سے پہلے فاطمہ (رض) کو حاصل ہوئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح نقد الکتانی (44 - 45) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3872

【269】

حضرت فاطمہ (رض) کی فضیلت کے بارے میں

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فاطمہ کو بلایا، اور ان سے سرگوشی کی تو وہ رو پڑیں، پھر دوبارہ آپ نے ان سے بات کی تو وہ ہنسنے لگیں، انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ بتایا کہ آپ عنقریب وفات پاجائیں گے، تو میں رو پڑی، پھر آپ نے مجھے بتایا کہ میں مریم بنت عمران کو چھوڑ کر اہل جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہوں گی تو میں ہنسنے لگی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وھو عند الجماعة من حدیث فاطمة نفسھا) ( تحفة الأشراف : ١٨١٨٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : پچھلی حدیث اور اس حدیث میں کوئی تضاد نہیں ہے ، وہ دوسرا واقعہ اور یہ دوسرا واقعہ ہے ، نیز فاطمہ (رض) ہنسنے کے دونوں اسباب میں بھی تضاد نہ سمجھا جائے ، دونوں باتیں خوش ہونے کی ہیں۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3873

【270】

حضرت فاطمہ (رض) کی فضیلت کے بارے میں

جمیع بن عمیر تیمی کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا کے ساتھ عائشہ (رض) کے پاس آیا تو ان سے پوچھا گیا : لوگوں میں رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا ؟ تو انہوں نے کہا : فاطمہ، پھر پوچھا گیا : مردوں میں کون تھا ؟ انہوں نے کہا : ان کے شوہر، یعنی علی، میں خوب جانتی ہوں وہ بڑے صائم اور تہجد گزار تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- ابوجحاف کا نام داود بن ابی عوف ہے، اور سفیان ثوری سے «عن ابی الجحاف» کے بجائے یوں مروی ہے : «حدثنا أبو الجحاف وکان مرضيا»۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٠٥٤) (منکر) (سند میں ابو الجحاف داود بن عوف دونوں شیعہ ہیں، اور روایت میں شیعیت موجود ہے ) قال الشيخ الألباني : منکر نقد الکتاني ص (20) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3874

【271】

حضرت خدیجہ کی فضیلت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زوجات میں سے کسی پر مجھے اتنا رشک نہیں آیا جتنا خدیجہ پر آیا، اور اگر میں ان کو پا لیتی تو میرا کیا حال ہوتا ؟ اور اس کی وجہ محض یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ انہیں کثرت سے یاد کرتے تھے، اگر آپ بکری بھی ذبح کرتے تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر خدیجہ کی سہیلیوں کو ہدیہ بھیجتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٠١٧ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1997) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3875

【272】

حضرت خدیجہ کی فضیلت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے کسی پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا ام المؤمنین خدیجہ (رض) پر کیا، حالانکہ مجھ سے تو آپ نے نکاح اس وقت کیا تھا جب وہ انتقال کرچکی تھیں، اور اس رشک کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں جنت میں موتی کے ایک ایسے گھر کی بشارت دی تھی جس میں نہ شور و شغف ہو اور نہ تکلیف و ایذا کی کوئی بات۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- «من قصبٍ» سے مراد موتی کے بانس ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١٧١٤٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (3875) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3876

【273】

حضرت خدیجہ کی فضیلت

علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر (اپنے زمانہ میں) خدیجہ بنت خویلد تھیں اور دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر (اپنے زمانہ میں) مریم بنت عمران تھیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں، انس، ابن عباس اور عائشہ (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٤٥ (٣٤٣٢) ، وفضائل الأنصار ٢٠ (٣٨١٥) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٢ (٢٤٣٠) (تحفة الأشراف : ١٠١٦١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3877

【274】

حضرت خدیجہ کی فضیلت

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ساری دنیا کی عورتوں میں سے تمہیں مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، اور فرعون کی بیوی آسیہ کافی ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٤٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ چاروں عورتیں ساری دنیا کی عورتوں سے افضل ہیں اور پیروی و اقتداء کے لائق ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6181) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3878

【275】

حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ لوگ اپنے ہدئیے تحفے بھیجنے کے لیے عائشہ (رض) کے دن (باری کے دن) کی تلاش میں رہتے تھے، تو میری سوکنیں سب ام سلمہ (رض) کے یہاں جمع ہوئیں، اور کہنے لگیں : ام سلمہ ! لوگ اپنے ہدایا بھیجنے کے لیے عائشہ (رض) کے دن کی تلاش میں رہتے ہیں اور ہم سب بھی خیر کی اسی طرح خواہاں ہیں جیسے عائشہ ہیں، تو تم رسول اللہ ﷺ سے جا کر کہو کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ آپ جہاں بھی ہوں (یعنی جس کے یہاں بھی باری ہو) وہ لوگ وہیں آپ کو ہدایا بھیجا کریں، چناچہ ام سلمہ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا، تو آپ نے اعراض کیا، اور ان کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، پھر آپ ان کی طرف پلٹے تو انہوں نے اپنی بات پھر دہرائی اور بولیں : میری سوکنیں کہتی ہیں کہ لوگ اپنے ہدایا کے لیے عائشہ کی باری کی تاک میں رہتے ہیں تو آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ آپ جہاں بھی ہوں وہ ہدایا بھیجا کریں، پھر جب انہوں نے تیسری بار آپ سے یہی کہا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ام سلمہ تم عائشہ کے سلسلہ میں مجھے نہ ستاؤ کیونکہ عائشہ کے علاوہ تم سب میں سے کوئی عورت ایسی نہیں جس کے لحاف میں مجھ پر وحی اتری ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- بعض راویوں نے اس حدیث کو حماد بن زید سے، حماد نے ہشام بن عروہ سے اور ہشام نے اپنے باپ عروہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے، ٣- یہ حدیث ہشام بن عروہ کے طریق سے عوف بن حارث سے بھی آئی ہے جسے عوف بن حارث نے رمیثہ کے واسطہ سے ام سلمہ (رض) سے اس کا کچھ حصہ روایت کیا ہے، ہشام بن عروہ سے مروی یہ حدیث مختلف طریقوں سے آئی ہے، ٤- سلیمان بن بلال نے بھی بطریق : «هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة» حماد بن زید کی حدیث کی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الھبة ٧ (٢٥٧٤) ، و ٨ (٢٥٨٠، ٢٥٨١) ، وفضائل الصحابة ٣٠ (٣٧٧٥) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٤١) ، سنن النسائی/عشرة النساء ٣ (٣٣٩٦) (تحفة الأشراف : ١٦٨٦١) ، و مسند احمد (٦/٢٩٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صحیح بخاری میں کعب بن مالک (رض) کی توبہ کی قبولیت کی وحی کے بارے میں آیا ہے کہ یہ وحی ام سلمہ (رض) کے گھر میں نازل ہوئی ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اور ام سلمہ (رض) ایک ہی لحاف میں تھے ، لحاف میں وحی نازل ہونے کی خصوصیت صرف عائشہ (رض) کی ہے ، اور یہ بہت بڑی فضیلت کی بات ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3879

【276】

حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) ایک سبز ریشم کے ٹکڑے پر ان کی تصویر لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور کہا : یہ آپ کی بیوی ہیں، دنیا اور آخرت دونوں میں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عبداللہ بن عمرو بن علقمہ کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- عبدالرحمٰن بن مہدی نے اس حدیث کو عبداللہ بن عمرو بن علقمہ سے اسی سند سے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں عائشہ سے روایت کا ذکر نہیں کیا ہے، ٣- ابواسامہ نے اس حدیث کے کچھ حصہ کو ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے عائشہ (رض) سے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٢٥٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ تصویر کی حرمت سے پہلے کا ہو ، کیونکہ اللہ نے ہر طرح کے جاندار کی تصویر کو حرام کردیا ہے ، یا یہ اللہ کے خاص حکم سے جبرائیل (علیہ السلام) کا کام تھا جس کا تعلق عام انسانوں سے نہیں ہے ، عام انسانوں کے لیے وہی حرمت والا معاملہ ہے ، واللہ اعلم۔ ٢ ؎ : یہ روایت صحیح بخاری کتاب النکاح باب رقم ٥ اور باب رقم : ٣٥ میں آئی ہے ، اس میں جبرائیل کی بجائے صرف فرشتہ کا لفظ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3880

【277】

حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! یہ جبرائیل ہیں، تمہیں سلام کہہ رہے ہیں، میں نے عرض کیا : اور انہیں بھی میری طرف سے سلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں، آپ وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ پاتے (جیسے جبرائیل کو) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٦ (٣٢١٧) ، وفضائل الصحابة ٣٠ (٣٧٦٨) ، والأدب ١١١ (٦٢٠١) ، والاستئذان ١٦ (٦٢٤٩) ، و ١٩ (٦٢٥٣) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٤٧) ، سنن النسائی/عشرة النساء ٣ (٣٤٠٥، ٣٤٦) (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٦) ، و مسند احمد (٦/١٤٦، ١٥٠، ٢٠٨، ٢٢٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3881

【278】

حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جبرائیل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں تو میں نے عرض کیا : ان پر سلام اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ، وحدیث رقم ٢٦٩٣ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وقد مضی (2846) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3882

【279】

حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول اللہ ﷺ پر جب بھی کوئی حدیث مشکل ہوتی اور ہم نے اس کے بارے میں عائشہ (رض) سے پوچھا تو ہمیں ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی جانکاری ضرور ملی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ عائشہ (رض) کی وسعت علمی کی دلیل ہے ، اور اس سے عام صحابہ پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6185) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3883

【280】

حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت

موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) سے زیادہ فصیح کسی کو نہیں دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہی : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٦٦٨/الف) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6186) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3884

【281】

حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت

عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں لشکر ذات السلاسل کا امیر مقرر کیا، وہ کہتے ہیں : تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : عائشہ ، میں نے پوچھا : مردوں میں کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : ان کے باپ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٥ (٣٦٦٢) ، والمغازي ٦٣ (٤٣٥٨) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١ (٢٣٨٤) (تحفة الأشراف : ١٠٧٣٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : پیچھے فاطمہ (رض) کے مناقب میں گزرا ہے کہ عورتوں میں فاطمہ اور مردوں میں ان کے شوہر علی (رض) اللہ کے رسول ﷺ کو زیادہ محبوب تھے ، لیکن وہ حدیث ضعیف منکر ہے ، اور یہ حدیث صحیح ہے ، اور دونوں عورتوں اور دونوں مردوں کے اللہ کے رسول ﷺ کے زیادہ محبوب ہونے میں تضاد ہی کیا ہے ، یہ سب سے زیادہ محبوب تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3885

【282】

حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت

عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : عائشہ ، انہوں نے پوچھا : مردوں میں ؟ آپ نے فرمایا : ان کے والد ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے یعنی اسماعیل کی روایت سے جسے وہ قیس سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ١٠٧٤٥) (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3886

【283】

حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت

انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورتوں پر عائشہ کی فضیلت اسی طرح ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پر ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، ابوموسیٰ اشعری سے احادیث آئی ہیں، ٣- عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن معمر انصاری سے مراد ابوطوالہ انصاری مدنی ہیں اور وہ ثقہ ہیں، ان سے مالک بن انس نے بھی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٣٠ (٣٧٧٠) ، والأطعمة ٢٥ (٥٤١٩) ، و ٣٠ (٥٤٢٨) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ١٤ (٣٢٨١) (تحفة الأشراف : ٩٧٠) ، و مسند احمد (٣/١٥٦، ٢٦٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ان عورتوں میں سے مریم ، خدیجہ اور فاطمہ مستثنیٰ ہیں ، جیسا کہ دوسری روایات سے ثابت ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3281) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3887

【284】

حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت

عمرو بن غالب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عمار بن یاسر (رض) کے پاس عائشہ (رض) کی عیب جوئی کی تو انہوں نے کہا : ہٹ مردود بدتر، کیا تو رسول اللہ ﷺ کی محبوبہ کو اذیت پہنچا رہا ہے ؟ امام ترمذی کہتے ہی : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٣٦٤) (ضعیف الإسناد) (سند میں عمرو بن غالب لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3888

【285】

حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت

عبداللہ بن زیاد اسدی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عمار بن یاسر (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ یہ یعنی عائشہ (رض) دنیا اور آخرت دونوں میں آپ کی بیوی ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ١٨ (٧١٠٠، ٧١٠١) (تحفة الأشراف : ١٠٣٥٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : دیگر ازواج مطہرات کے دنیا میں دوسرے شوہر بھی تھے ، جبکہ عائشہ (رض) کا آپ کے سوا کوئی شوہر نہ تھا ، اور آخرت میں عائشہ (رض) کے آپ کی بیوی ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ دیگر ازواج مطہرات آخرت میں آپ کی بیویاں نہیں ہوں گی ، عائشہ (رض) بھی ہوں گی ، وہ بھی ہوں گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح وانظر الحديث (4149) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3889

【286】

حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت

انس (رض) کہتے ہیں کہ آپ سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : عائشہ ، عرض کیا گیا مردوں میں ؟ آپ نے فرمایا : ان کے والد ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے یعنی انس کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٠١) (تحفة الأشراف : ٧٧٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وانظر الحديث (4155) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3890

【287】

ازواج مطہرات کی فضیلت کے بارے میں

عکرمہ کہتے ہیں کہ فجر کے بعد ابن عباس (رض) سے کہا گیا کہ نبی اکرم ﷺ کی ازواج میں سے فلاں کا انتقال ہوگیا، تو وہ سجدہ میں گرگئے، ان سے پوچھا گیا : کیا یہ سجدہ کرنے کا وقت ہے ؟ تو انہوں نے کہا : کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا : جب تم اللہ کی طرف سے کوئی خوفناک بات دیکھو تو سجدہ کرو ، تو نبی اکرم ﷺ کے ازواج کے دنیا سے رخصت ہونے سے بڑی اور کون سی ہوسکتی ہے ؟ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٦٩ (١١٩٧) (تحفة الأشراف : ٦٠٣٧) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث یا دیگر احادیث میں اس جیسے سیاق و سباق میں «آیۃ» کا لفظ بطور خوفناک عذاب یا آسمانی مصیبت وغیرہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، جس سے مقصود بندوں کو ڈرانا ہوتا ہے ، تو ازواج مطہرات دنیا میں برکت کا سبب تھیں ، ان کے اٹھ جانے سے برکت اٹھ جاتی ہے ، اور یہ بات خوفناک ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، صحيح أبي داود (1081) ، المشکاة (1491) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3891

【288】

ازواج مطہرات کی فضیلت کے بارے میں

ام المؤمنین صفیہ بنت حی (رض) بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، مجھے حفصہ اور عائشہ (رض) کی طرف سے ایک (تکلیف دہ) بات پہنچی تھی جسے میں نے آپ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : تم نے یہ کیوں نہیں کہا ؟ کہ تم دونوں مجھ سے بہتر کیسے ہوسکتی ہو، میرے شوہر محمد ﷺ ہیں اور باپ ہارون ہیں، اور چچا موسیٰ ہیں اور جو بات پہنچی تھی وہ یہ تھی کہ حفصہ اور عائشہ (رض) نے کہا تھا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے نزدیک ان سے زیادہ باعزت ہیں، اس لیے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی ازواج ہیں، اور آپ کے چچا کی بیٹیاں ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- صفیہ کی اس حدیث کو ہاشم کوفی کی روایت سے جانتے ہیں، اور اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے، ٣- اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٩٠٥) (ضعیف الإسناد) (سند میں ہاشم بن سعید الکوفی ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد وانظر الحديث (3625) // (3807) //، الرد علی الحبشي (35 - 38) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3892

【289】

ازواج مطہرات کی فضیلت کے بارے میں

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال فاطمہ کو بلایا اور ان کے کان میں کچھ باتیں کہیں تو وہ رو پڑیں، پھر آپ نے دوبارہ ان سے کچھ کہا تو وہ ہنسنے لگیں، پھر جب رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے تو میں نے ان سے ان کے رونے اور ہنسنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ بتایا تھا کہ عنقریب آپ وفات پاجائیں گے، تو (یہ سن کر) میں رونے لگی تھی، پھر آپ نے جب مجھے یہ بتایا کہ مریم بنت عمران کو چھوڑ کر میں اہل جنت کے تمام عورتوں کی سردار ہوں گی ١ ؎، تو یہ سن کر میں ہنسنے لگی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٨٧٣ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بعض روایات میں آیا ہے ( الفتح : مناقب خدیجہ ) کہ دنیا کی عورتوں کی سردار : مریم ، پھر فاطمہ پھر خدیجہ ، پھر آسیہ ہیں ، اور حاکم کی روایت میں ہے کہ جنت کی عورتوں میں سب سے افضل : خدیجہ ، فاطمہ ، مریم اور آسیہ ہیں ، معلوم ہوا کہ یہ چاروں دنیا اور جنت دونوں میں دیگر ساری عورتوں سے افضل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6184) ، الصحيحة (2 / 439) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3893

【290】

ازواج مطہرات کی فضیلت کے بارے میں

انس (رض) کہتے ہیں کہ ام المؤمنین صفیہ (رض) کو یہ بات پہنچی کہ ام المؤمنین حفصہ (رض) نے انہیں یہودی کی بیٹی ہونے کا طعنہ دیا ہے، تو وہ رونے لگیں، نبی اکرم ﷺ ان کے پاس آئے تو وہ رو رہی تھیں، آپ نے پوچھا : تم کیوں رو رہی ہو ؟ تو انہوں نے کہا : حفصہ نے مجھے یہ طعنہ دیا ہے کہ میں یہودی کی بیٹی ہوں، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تو ایک نبی کی بیٹی ہے، تیرا چچا بھی نبی ہے ١ ؎ اور تو ایک نبی کے عقد میں ہے، تو وہ کس بات میں تجھ پر فخر کر رہی ہے، پھر آپ نے (حفصہ سے) فرمایا : حفصہ ! اللہ سے ڈر ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی صفیہ موسیٰ (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں ، اور ان کے بھائی ہارون بھی نبی تھے ، تو باپ اور چچا دونوں نبی ہوئے ، ویسے حفصہ بھی ایک ( نبی اسماعیل (علیہ السلام) ) کی اولاد میں سے تھیں ، اور اسماعیل کے بھائی اسحاق ( چچا ) بھی نبی تھے ، اور نبی کی زوجیت میں بھی تھیں ، اس لحاظ سے دونوں برابر تھیں ، صرف اس طرح کے تفاخر سے آپ کو انہیں تنبیہ کرنا مقصود تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6183) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3894

【291】

ازواج مطہرات کی فضیلت کے بارے میں

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں اور جب تم میں سے کوئی مرجائے تو اسے خیر باد کہہ دو ، یعنی اس کی برائیوں کو یاد نہ کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث ثوری کی روایت سے حسن غریب صحیح ہے اور ثوری سے روایت کرنے والے اسے کتنے کم لوگ ہیں اور یہ حدیث ہشام بن عروہ سے عروہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً بھی آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف بھذا التمام ( تحفة الأشراف : ١٦٩١٩) ، وأخرج الجملة الأخیرة ” إذا مات … “ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٩٧ (٤٨٩٩) ، وسنن النسائی/الجنائز ٥٢ (١٩٣٨) ، و مسند احمد (٦/١٨٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ اور اس کے بعد کی دونوں حدیثوں کی اس باب سے کوئی مناسبت نہیں ، یہ گویا اس کتاب کی متفرق چھوٹی چھاٹی احادیث کے طور پر یہاں درج کی گئی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (285) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3895

【292】

ازواج مطہرات کی فضیلت کے بارے میں

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اصحاب میں سے کوئی کسی کی برائی مجھ تک نہ پہنچائے، کیونکہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میں ان کی طرف نکلوں تو میرا سینہ صاف ہو ، عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں : (ایک بار) رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ مال آیا اور آپ نے اسے تقسیم کردیا، تو میں دو آدمیوں کے پاس پہنچا جو بیٹھے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے : قسم اللہ کی ! محمد نے اپنی اس تقسیم سے جو انہوں نے کی ہے نہ رضائے الٰہی طلب کی ہے نہ دار آخرت، جب میں نے اسے سنا تو یہ بات مجھے بری لگی، چناچہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو اس کی خبر دی تو آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا : مجھے جانے دو کیونکہ موسیٰ کو تو اس سے بھی زیادہ ستایا گیا پھر بھی انہوں نے صبر کیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے اور اس سند میں ایک آدمی کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٣٣ (٤٨٦٠) (تحفة الأشراف : ٩٢٢٧) (ضعیف الإسناد) (سند میں زید بن زائدہ لین الحدیث راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد، لکن الشطر الثاني منه في القسمة صحيح // ضعيف الجامع الصغير (6322) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3896

【293】

ازواج مطہرات کی فضیلت کے بارے میں

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی کسی کی کوئی بات مجھے نہ پہنچائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث کا کچھ حصہ اس سند کے علاوہ سے بھی عبداللہ بن مسعود (رض) سے مرفوعاً آیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3897

【294】

حضرت ابی بن کعب کی فضیلت

ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں، چناچہ آپ نے انہیں «لم يكن الذين کفروا» پڑھ کر سنایا، اس میں یہ بات بھی کہ بیشک دین والی، اللہ کے نزدیک تمام ادیان وملل سے کٹ کر اللہ کی جانب یکسو ہوجانے والی مسلمان عورت ہے، نہ یہودی، نصرانی اور مجوسی عورت، جو کوئی نیکی کرے گا تو اس کی ناقدری ہرگز نہیں کی جائے گی اور آپ نے انہیں یہ بھی بتایا کہ انسان کے پاس مال سے بھری ہوئی ایک وادی ہو تو وہ دوسری بھی چاہے گا، اور اگر اسے دوسری مل جائے تو تیسری چاہے گا، اور انسان کا پیٹ صرف مٹی ہی بھر سکے گی اور اللہ اسی کی توبہ قبول کرتا ہے جو واقعی توبہ کرے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث اس کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، اسے عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابزی نے اپنے والد سے انہوں نے ابی بن کعب (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں ، ٣- اسے قتادہ نے انس سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابی بن کعب سے فرمایا : اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٧٩٣ (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : حقیقت میں انسان ایسا حریص ہے کہ وہ دنیا کے مال و متاع سے کسی بھی طرح سیر نہیں ہوتا اسے قبر کی مٹی ہی آسودہ کرسکتی ہے۔ ( دیکھئیے حدیث رقم : ٣٧٩٣ کا اور اس کے حواشی ) یہ حدیث پیچھے معاذ بن جبل ، زید بن ثابت ، ابی بن کعب اور ابوعبیدہ بن جراح (رض) کے اکٹھے باب میں بھی آچکی ہے اور امام ترمذی نے اس حدیث پر ابی بن کعب کا باب قائم کر کے ان کی فضیلت مزید بیان کیا ہے ، اس لیے کہ وہ بہت بڑے عالم بھی تھے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، وجملة ابن آدم صحيحة تخريج المشکلة (14) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3898

【295】

قریش و انصار کی فضیلت

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا ١ ؎۔ اسی سند سے نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : اگر انصار کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٣) ، و مسند احمد (٥/١٣٧، ١٣٨) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس فرمان سے انصار کی دل جمعی مقصود ہے ، یعنی انصار کی خوشنودی کے لیے میں یہاں تک جاسکتا ہوں کہ اگر ممکن ہوتا تو میں بھی انصار ہی میں سے ہوجاتا ، مگر نسب کی تبدیل تو ممکن نہیں یہ بات انصار کی اسلام کے لیے فدائیت اور قربانی کا اعتراف ہے ، اگلا فرمان البتہ ممکن ہے کہ اگر انصار کسی وادی میں چلیں تو میں انہی کے ساتھ ہوں گا اگر اس کی نوبت آ پاتی تو مہاجرین و انصار کی آپسی محبت چونکہ اللہ و رسول کے حوالہ سے تھی اس لیے ان کے آپس میں اس طرح کی بات ہونے کی نوبت ہی نہیں آسکی ، (رض) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الصحيحة (1768) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3899

【296】

قریش و انصار کی فضیلت

براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے سنا، یا کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے انصار کے بارے میں فرمایا : ان سے مومن ہی محبت کرتا ہے، اور ان سے منافق ہی بغض رکھتا ہے، جو ان سے محبت کرے گا اس سے اللہ محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اس سے اللہ بغض رکھے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٤ (٣٧٨٣) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٣ (٧٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٦٣) (تحفة الأشراف : ١٧٩٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اب اس سے بڑھ کر کسی کی فضیلت اور کیا ہوگی ، «رضی اللہ عن الأنصار وأرضاہم وعن جمیع الصحابۃ رضوان اللہ علیہم اجمعین»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (163) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3900

【297】

قریش و انصار کی فضیلت

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ١ ؎ اور فرمایا : کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا : قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے ، پھر آپ نے فرمایا : قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے رسول کو لے کر اپنے گھر جاؤ، لوگوں نے عرض کیا : کیوں نہیں، ہم اس پر راضی ہیں، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر لوگ ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی و گھاٹی میں چلوں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ١٤ (٣٥٢٨) ، ومناقب الأنصار ١ (٣٧٧٨) ، والمغازي ٥٦ (٤٣٣٤) ، والفرائض ٢٤ (٦٧٢٢) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٦ (١٠٥٩) ، سنن النسائی/الزکاة ٩٦ (٢٦١١) (تحفة الأشراف : ١٢٤٤) ، و مسند احمد (٣/٢٠١، ٢٤٦) ، وسنن الدارمی/السیر ٨٢ (٢٥٣٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے ، جس کے اندر آپ نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطور تالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا ، اسی پر آپ نے انصار کو جمع کر کے یہ ارشاد فرمایا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1776) ، الروض النضير (961) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3901

【298】

قریش و انصار کی فضیلت

زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے انس بن مالک (رض) کو خط لکھا اس خط میں وہ ان کی ان لوگوں کے سلسلہ میں تعزیت کر رہے تھے جو ان کے گھر والوں میں سے اور چچا کے بیٹوں میں سے حرّہ ١ ؎ کے دن کام آ گئے تھے تو انہوں نے (اس خط میں) انہیں لکھا : میں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک خوشخبری سناتا ہوں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ نے فرمایا : اے اللہ ! انصار کو، ان کی اولاد کو، اور ان کی اولاد کے اولاد کو بخش دے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسے قتادہ نے بھی نضر بن انس (رض) سے اور انہوں نے زید بن ارقم (رض) سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤٣ (٢٥٠٦) (تحفة الأشراف : ٣٦٨٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : حرّہ کا دن اس واقعے کو کہا جاتا ہے جس میں یزید کی فوجوں نے مسلم بن قتیبہ مُرّی کی سرکردگی میں سنہ ٦٣ ھ میں مدینہ پر حملہ کر کے اہل مدینہ کو لوٹا تھا اور مدینہ کو تخت و تاراج کیا تھا ، اس میں بہت سے صحابہ و تابعین کی جانیں چلی گئی تھیں ، یہ فوج کشی اہل مدینہ کے یزید کی بیعت سے انکار پر کی گئی تھی ، ( عفا اللہ عنہ ) یہ واقعہ چونکہ مدینہ کے ایک محلہ حرّہ میں ہوا تھا اس لیے اس کا نام یوم الحرّۃ پڑگیا۔ ٢ ؎ : یعنی : اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے کام آنے والے آپ کی اولاد کو نبی ﷺ کی دعا کی برکت شامل ہے ، اس لیے آپ کو ان کی موت پر رنجیدہ نہیں ہونا چاہیئے ، ایک مومن کا منتہائے آرزو آخرت میں بخشش ہی تو ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3902

【299】

قریش و انصار کی فضیلت

ابوطلحہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنی قوم ١ ؎ کو سلام کہو، کیونکہ وہ پاکباز اور صابر لوگ ہیں جیسا کہ مجھے معلوم ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٧٧٤) (ضعیف) (سند میں محمد بن ثابت بنانی ضعیف راوی ہے، مگر اس کا دوسرا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے، الصحیحة ٣٠٩٦) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : قوم انصار کو سلام کہو ، اس میں انصار کی فضیلت ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، لكن، الصحيحة منه الشطر الثاني، المشکاة (6242) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3903

【300】

قریش و انصار کی فضیلت

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری جامہ دانی جس کی طرف میں پناہ لیتا ہوں یعنی میرے خاص لوگ میرے اہل بیت ہیں، اور میرے راز دار اور امین انصار ہیں تو تم ان کے خطا کاروں کو درگزر کرو اور ان کے بھلے لوگوں کی اچھائیوں کو قبول کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤١٩٨) (منکر) (اہل بیت کے ذکر کے ساتھ منکر ہے، سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، مگر حدیث رقم ٣٩٠٦ سے تقویت پا کر اس کا دوسرا ٹکڑا صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : «عيبه» جامہ دانی اور صندوق کو کہتے ہیں جس میں کپڑے حفاظت سے رکھے جاتے ہیں ، آپ نے اپنے اہل بیت کو جامہ دانی اس لیے کہا کہ وہ آپ کے خدمت گار اور معاون تھے ، اور «کرش» جانور کے اس عضو کا نام ہے جو مثل معدہ کے ہوتا ہے ، آپ نے انصار کو «کرش» اس معنی میں کہا کہ جس طرح معدہ میں کھانا اور غذا جمع ہوتی ہے پھر اس سے سارے بدن و نفع پہنچتا ہے اسی طرح میرے لیے انصار ہیں کیونکہ وہ بےانتہا دیانت دار اور امانت دار ہیں اور میرے عہود و مواثیق اور اسرار کے حافظ و نگہبان اور مجھ پر دل و جان سے قربان ہیں۔ قال الشيخ الألباني : منکر - بذکر أهل البيت -، المشکاة (6240) // ضعيف الجامع الصغير (2175) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3904

【301】

قریش و انصار کی فضیلت

سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو قریش کی رسوائی چاہے گا اللہ اسے رسوا کر دے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢- ہم سے عبد بن حمید نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں : مجھے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے خبر دی، وہ کہتے ہیں : مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور انہوں نے صالح بن کیسان سے اور صالح نے ابن شہاب سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٩٢٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے اللہ کے نزدیک قریش کے مقام و مرتبہ کا ثبوت ہے ، کیونکہ قریش ہی سے سب سے افضل نبی پیدا ہوئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1178) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3905

【302】

قریش و انصار کی فضیلت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو انصار سے بغض نہیں رکھ سکتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٤٨٣) (صحیح) (الصحیحہ ١٢٣٤) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ آڑے وقت میں انصار ہی ایمان کی تائید و نصرت میں آگے آئے ، اس لیے کہ قریش کی ناراضگی مول لی ، ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1234) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3906

【303】

قریش و انصار کی فضیلت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انصار میرے راز دار اور میرے خاص الخاص ہیں، لوگ عنقریب بڑھیں گے اور انصار کم ہوتے جائیں گے، تو تم ان کے بھلے لوگوں کی اچھائیوں کو قبول کرو اور ان کے خطا کاروں کی خطاؤں سے درگزر کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ١١ (٣٨٠١) ، صحیح مسلم/فضائل الأنصار ٤٣ (٢٥١٠) (تحفة الأشراف : ١٢٤٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3907

【304】

قریش و انصار کی فضیلت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! قریش کے پہلوں کو تو نے (قتل، قید اور ذلت کا) عذاب چکھایا ہے ١ ؎، تو ان کے پچھلوں کو بخشش و عنایت سے نواز دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٥٢٢) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جیسے غزوہ بدر اور فتح مکہ میں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح الضعيفة تحت الحديث (398) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3908

【305】

قریش و انصار کی فضیلت

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : «اللهم اغفر للأنصار ولأبناء الأنصار ولأبناء أبناء الأنصار ولنساء الأنصار» اے اللہ ! انصار کو، ان کے بیٹوں کو، ان کے بیٹوں کے بیٹوں کو اور ان کی عورتوں کو بخش دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤٣ (٢٥٠٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3909

【306】

انصار کے گھروں کی فضیلت کے بارے میں

انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں انصار کے بہتر گھروں کی یا انصار کے بہتر لوگوں کی خبر نہ دوں ؟ لوگوں نے عرض کیا : کیوں نہیں اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : سب سے بہتر بنی نجار ہیں، پھر بنی عبدالاشہل ہیں جو ان سے قریب ہیں، پھر بنی حارث بن خزرج ہیں جو ان سے قریب ہیں، پھر بنی ساعدہ ہیں ١ ؎، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا اور اپنی انگلیوں کو بند کیا، پھر کھولا جیسے کوئی اپنے ہاتھوں سے کچھ پھینک رہا ہو اور فرمایا : انصار کے سارے گھروں میں خیر ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- انس سے بھی آئی ہے جسے وہ ابواسید ساعدی کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٢٥ (٥٣٠٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤٤ (٢٥١١) (تحفة الأشراف : ١٦٥٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اسلام کے لیے سبقت کے حساب سے ان قبائل کے فضائل کی ترتیب رکھی گئی ہے ، جو جس قبیلہ نے جس ترتیب سے اول اسلام کی طرف سبقت کی آپ نے اس کو اسی درجہ کی فضیلت سے سرفراز فرمایا۔ ٢ ؎ : یعنی : ایمان میں دیگر عربی قبائل کی بنسبت سبقت کے سبب انصار کے سارے خاندانوں کو ایک گونہ فضیلت حاصل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3910

【307】

انصار کے گھروں کی فضیلت کے بارے میں

ابواسید ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انصار کے گھروں میں سب سے بہتر گھر بنی نجار کے گھر ١ ؎ ہیں، پھر بنی عبدالاشہل کے، پھر بنی حارث بن خزرج کے پھر بنی ساعدہ کے اور انصار کے سارے گھروں میں خیر ہے ، تو سعد نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کو یہی سمجھ رہا ہوں کہ آپ نے ہم پر لوگوں کو فضیلت دی ہے ٢ ؎ تو ان سے کہا گیا : آپ کو بھی تو بہت سے لوگوں پر فضیلت دی ہے ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابواسید ساعدی کا نام مالک بن ربیعہ ہے، ٣- اسی جیسی روایت ابوہریرہ (رض) سے بھی مرفوع طریقہ سے آئی ہے، ٤- اسے معمر نے زہری سے، زہری نے ابوسلمہ اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے اور ان دونوں نے ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٧ (٣٧٨٩، و ٣٧٩٠) ، و ١٥ (٣٨٠٧) ، والأدب ٦٠٥٣٤٧) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤٤ (٢٥١١) (تحفة الأشراف : ١١١٨٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : قبائل و خاندان۔ ٢ ؎ : آپ بنی ساعدہ میں سے تھے جن کا تذکرہ نبی ﷺ نے چوتھے درجہ پر کیا۔ ٣ ؎ : یعنی : بنی ساعدہ کے بعد بھی تو انصار کے کئی خاندان ہیں جن کے اوپر بنی ساعدہ کو فضیلت دی ہے ، نیز یہ بھی خیال رہے کہ یہ ترتیب آپ نے بحکم خداوندی بتائی تھی ، اس لیے آپ پر اعتراض نہیں کرنا چاہیئے ، یہ نصیحت خود سعد بن معاذ کے بھائی سہل نے کی تھی «کما فی مسلم»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3911

【308】

انصار کے گھروں کی فضیلت کے بارے میں

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انصار کے گھروں میں سب سے بہتر گھر بنی نجار کے گھر ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٣٥٣) (صحیح) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : بنی نجار ہی میں نبی اکرم ﷺ کے والد عبداللہ کا ننہیال تھا ، یہ آپ کے ماموؤں کا خاندان تھا ، نیز اسلام میں نسبت بھی اسی قبیلے نے کی تھی ، یا اسلام میں ان کی قربانیاں دیگر خاندان کی بنسبت زیادہ تھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (3911) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3912

【309】

انصار کے گھروں کی فضیلت کے بارے میں

جابر عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انصار میں سب سے بہتر بنی عبدالاشہل ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : سابقہ حدیث میں «بنی اشہل» کا ذکر «بنی نجار» کے بعد آیا ہے ، تو یہاں «من» کا لفظ محذوف ماننا ہوگا ، یعنی : «بنی اشہل» انصار کے سب سے بہتر خاندانوں میں سے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (3912) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3913

【310】

مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب ہم حرہ سقیا ١ ؎ میں پہنچے جو سعد بن ابی وقاص (رض) کا محلہ تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «اللهم إن إبراهيم کان عبدک وخليلک ودعا لأهل مكة بالبرکة وأنا عبدک ورسولک أدعوک لأهل المدينة أن تبارک لهم في مدهم وصاعهم مثلي ما بارکت لأهل مكة مع البرکة بركتين» مجھے وضو کا پانی دو ، چناچہ آپ نے وضو کیا، پھر آپ قبلہ رخ کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے اللہ ! ابراہیم تیرے بندے اور تیرے دوست ہیں اور انہوں نے اہل مکہ کے لیے برکت کی دعا فرمائی، اور میں تیرا بندہ اور تیرا رسول ہوں، اور تجھ سے اہل مدینہ کے لیے دعا کرتا ہوں کہ تو ان کے مد اور ان کی صاع میں اہل مکہ کو جو تو نے برکت دی ہے اس کی دوگنا برکت فرما، اور ہر برکت کے ساتھ دو برکتیں (یعنی اہل مکہ کی دوگنی برکت عطا فرما ٢ ؎ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، عبداللہ بن زید اور ابوہریرہ (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) وانظر مسند احمد (١/١١٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : «حرّۃ السقیا» مکہ اور مدینہ کے درمیان مدینہ سے دو دن کے راستے پر ایک جگہ کا نام ہے۔ ٢ ؎ : مکہ میں گرچہ اللہ کا گھر ہے ، مگر مکہ والوں نے اللہ کے سب سے محبوب بندے کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تو مدینہ نے محبوب الٰہی کو پناہ دی جو آپ کی آخری پناہ ہوگئی ، نیز یہیں کے باشندوں نے اسلام کو پناہ دی ، اس کے لیے قربانیاں پیش کیں ، جان و مال کا نذرانہ پیش کردیا ، سارے عالم میں یہیں سے اسلام کا پھیلاؤ ہوا ، اس لیے مدینہ کے لیے دوگنی برکت کی دعا فرمائی ، اس دعا کا اثر ہر زائر مکہ کے لیے واضح طور پر دیکھی سنی حقیقت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 144) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3914

【311】

مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں۔

علی اور ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان (مسجد نبوی) جو حصہ ہے وہ جنت کی کیا ریوں میں سے ایک کیا ری ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور یہ حدیث ابوہریرہ (رض) سے اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی مرفوعاً آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٣٢٧، ١٤٩٣٩) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : روضۃ الجنۃ ، مسجد نبوی میں ہے ، اور مسجد نبوی مدینہ میں ہے ، پس اس سے مدینہ کی فضیلت ثابت ہوئی۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح ظلال الجنة (731) ، الروض النضير (1115) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3915

【312】

مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جو حصہ ہے وہ جنت کی کیا ریوں میں سے ایک کیا ری ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ١٤٨١٠) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مسجد الحرام میں ایک نماز کا ثواب دوسری مسجدوں کی بنسبت ایک لاگھ گنا ہے ، مسجد نبوی میں نماز کا ثواب ایک ہزار گنا ہے ، اور مسجد نبوی مدینہ میں ہے ، اس سے مدینہ کی فضیلت ثابت ہوئی۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (1404 و 1405) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3916 اور اسی سند سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری اور مسجدوں کے ایک ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد الحرام کے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے، یہ حدیث ابوہریرہ (رض) سے اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی مرفوع طریقہ سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (١٤٨١١) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (1404 و 1405) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3916

【313】

مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مدینہ میں مرسکتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہیں مرے کیونکہ جو وہاں مرے گا میں اس کے حق میں سفارش کروں گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے یعنی ایوب سختیانی کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس باب میں سبیعہ بنت حارث اسلمیہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحج ١٠ (٣١١٢) (تحفة الأشراف : ٧٥٥٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مدینہ میں رہنے کے لیے اسباب اختیار کرے ، اگر کامیابی ہوگئی تو «فبہا» ورنہ یہ کوئی فرض کام نہیں ہے ، نیز مدینہ میں اسی مرنے والے کے لیے آپ ﷺ شفاعت فرمائیں گے ، جس کی وفات صحیح ایمان و عقیدہ پر ہوئی ہو ، نہ کہ مشرک اور بدعتی کی شفاعت بھی کریں گے ، آپ نے فرمایا ہے : آخرت کے لیے اٹھا کر رکھی گئی میری دعا اس کو فائدہ پہنچائے گی جس نے اللہ کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہیں کیا ہوگا ( اس حدیث میں مدینہ کی ایک اہم فضیلت کا بیان ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3112) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3917

【314】

مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں۔

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ان کی ایک آزاد کردہ لونڈی ان کے پاس آئی اور ان سے کہنے لگی میں گردش زمانہ کی شکار ہوں اور عراق جانا چاہتی ہوں، تو انہوں نے کہا : تو شام کیوں نہیں چلی جاتی جو حشر و نشر کی سر زمین ہے، (آپ نے کہا) «اصبري لکاع» ! کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس نے اس کی (مدینہ کی) سختی اور تنگی معیشت پر صبر کیا تو میں قیامت کے دن اس کے لیے گواہ یا سفارشی ہوں گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث عبیداللہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری، سفیان بن ابی زہیر اور سبیعہ اسلمیہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨١٢٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ بھی مدینہ کی ایک فضیلت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج فقه السيرة (184) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3918

【315】

مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام کے شہروں میں ویرانی کے اعتبار سے مدینہ سب سے آخری شہر ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف جنادہ کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ ہشام بن عروہ سے روایت کرتے ہیں، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کے ابوہریرہ (رض) پر تعجب کا اظہار کیا ہے (یعنی ایسی بات کیسے صحیح ہوسکتی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤١٦٦) (ضعیف) (سند میں جنادہ کو بہت سے أئمہ نے ضعیف قرار دیا ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1300) // ضعيف الجامع الصغير (4) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3919

【316】

مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں۔

جابر (رض) سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے اسلام پر بیعت کی، پھر اسے مدینہ میں بخار آگیا تو وہ اعرابی نبی اکرم ﷺ پاس آیا اور کہنے لگا، آپ مجھے میری بیعت پھیر دیں، تو رسول اللہ ﷺ نے انکار کیا، پھر وہ دوبارہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا : آپ میری بیعت مجھے پھیر دیں تو پھر آپ نے انکار کیا، پھر وہ اعرابی مدینہ چھوڑ کر چلا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مدینہ ایک بھٹی کے مثل ہے جو دور کردیتا ہے اپنے کھوٹ کو اور خالص کردیتا ہے پاک کو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل المدینة ١٠ (١٨٨٣) ، والأحکام ٤٥ (٧٢٠٩) ، و ٤٧ (٧٢١١) ، و ٥٠ (٧٢١٦) ، والاعتصام ١٦ (٧٣٢٢) ، صحیح مسلم/الحج ٨٨ (١٣٨٣) (تحفة الأشراف : ٣٠٧١) ، موطا امام مالک/الجامع ٢ (٤) ، و مسند احمد (٣/٢٩٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی لوہار کی بھٹی جس طرح لوہے کے میل اور اس کے زنگ کو دور کردیتی ہے اسی طرح مدینہ اپنے یہاں سے برے لوگوں کو نکال پھینکتا ہے۔ اور مدینہ کی یہ خصوصیت کیا صرف عہد نبوی تک کے لیے تھی ( جیسا کہ قاضی عیاض کہتے ہیں ) یا عہد نبوی کے بعد بھی باقی ہے ؟ ( جیسا کہ نووی وغیرہ کہتے ہیں ) نووی نے حدیث دجال سے استدلال کیا ہے کہ اس وقت بھی مدینہ ایسا کرے گا ، کہ برے لوگوں کو اپنے یہاں سے نکال باہر کرے گا ، اب اپنی یہ بات کہ بہت سے صحابہ و خیار تابعین بھی مدینہ سے باہر چلے گئے ، تو کیا وہ لوگ بھی برے تھے ؟ ہرگز نہیں ، اس حدیث کا مطلب ہے : جو مدینہ کو برا جان کر وہاں سے نکل جائے وہ اس حدیث کا مصداق ہے ، اور رہے صحابہ کرام تو وہ مدینہ کی سکونت کو افضل جانتے تھے ، مگر دین اور علم دین کی اشاعت کے مقصد عظیم کی خاطر باہر گئے تھے ، (رض) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3920

【317】

مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں۔

ابوہریرہ (رض) کہتے تھے کہ اگر میں مدینہ میں ہرنوں کو چرتے دیکھوں تو انہیں نہ ڈراؤں اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : اس کی دونوں پتھریلی زمینوں ١ ؎ کے درمیان کا حصہ حرم ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سعد، عبداللہ بن زید، انس، ابوایوب، زید بن ثابت، رافع بن خدیج، سہل بن حنیف اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل المدینة ٤ (١٨٧٣) ، صحیح مسلم/الحج ٨٥ (١٣٧٢) (تحفة الأشراف : ١٣٢٣٥) ، وط/الجامع ٣ (١١) ، و مسند احمد (٢/٢٣٦، ٤٨٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ دونوں پتھریلی زمینیں ( حرہ ) حرّہ غربیہ اور حرّہ شرقیہ کے نام سے معروف ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3921

【318】

مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں۔

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو احد پہاڑ نظر آیا تو آپ نے فرمایا : یہ ایسا پہاڑ ہے کہ یہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے، اے اللہ ! ابراہیم نے مکہ کو حرام کیا اور میں اس (مدینہ) کی دونوں پتھریلی زمینوں کے بیچ کے حصہ کو حرام قرار دے رہا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٧١ (٢٨٨٩) ، وأحادیث الأنبیاء ١١ (٣٣٦٧) ، والمغازي ٢٨ (٤٠٨٣، ٤٠٨٤) ، والاعتصام ١٦ (٧٣٣٣) ، صحیح مسلم/الحج ٨٥ (١٣٦٥) (تحفة الأشراف : ١١١٦) ، و مسند احمد (٣/١٤٠، ١٤٩، ٢٤٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3922

【319】

مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں۔

جریر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ نے میری طرف وحی کی کہ مدینہ، بحرین اور قنسرین ان تینوں میں سے جہاں بھی تم جاؤ وہی تمہارا دار الہجرت ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف فضل بن موسیٰ کی روایت سے جانتے ہیں اور ان سے ابوعمار یعنی حسین بن حریث روایت کرنے میں منفرد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٢٤١) (موضوع) (سند میں غیلان بن عبد اللہ سخت ضعیف راوی ہے) قال الشيخ الألباني : موضوع الرد علی الکتاني رقم الحديث (1) // ضعيف الجامع الصغير (1573) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3923

【320】

مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مدینہ کی تنگی معیشت اور اس کی سختیوں پر جو صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کے لیے گواہ اور سفارشی ہوں گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری، سفیان بن ابی زہیر اور سبیعہ اسلمیہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صالح بن ابی صالح سہیل بن ابی صالح کے بھائی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٨٦ (١٣٧٨) (تحفة الأشراف : ١٢٨٠٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : شرط وہی ہے کہ وہ پکا موحد ہو ، کسی طرح کے بھی شرک کا مرتکب اس شفاعت کا مستحق نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج فقه السيرة (184) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3924

【321】

مکہ مکرمہ کی فضیلت کے بارے میں۔

عبداللہ بن عدی بن حمراء زہری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو «حزوراء» (چھوٹا ٹیلہ) پر کھڑے دیکھا، آپ نے فرمایا : قسم اللہ کی ! بلاشبہ تو اللہ کی سر زمین میں سب سے بہتر ہے اور اللہ کی زمینوں میں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب سر زمین ہے، اگر مجھے تجھ سے نہ نکالا جاتا تو میں نہ نکلتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢- اسے یونس نے بھی زہری سے اسی طرح روایت کیا ہے، اور اسے محمد بن عمرو نے بطریق : «أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، اور زہری کی حدیث جو بطریق : «أبي سلمة عن عبد اللہ بن عدي ابن حمراء» آئی ہے وہ میرے نزدیک زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ١٠٣ (٣١٠٨) (تحفة الأشراف : ٦٦٤١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث نیز مسجد الحرام مکہ میں نماز کے اجر و ثواب والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے ، کہ مکہ : مدینہ سے افضل ہے ، یہی محققین کا قول ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3108) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3925

【322】

مکہ مکرمہ کی فضیلت کے بارے میں۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : کتنا پاکیزہ شہر ہے تو اور تو کتنا مجھے محبوب ہے، میری قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا تو میں تیرے علاوہ کہیں اور نہ رہتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفردبہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٥٣٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2724) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3926

【323】

عرب کی فضیلت کے بارے میں

سلمان (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سلمان ! تم مجھ سے بغض نہ رکھو کہ تمہارا دین ہاتھ سے جاتا رہے ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں کیسے آپ سے بغض رکھ سکتا ہوں اور حال یہ ہے کہ اللہ نے آپ ہی کے ذریعہ ہمیں ہدایت بخشی ہے، آپ نے فرمایا : تم عربوں سے بغض رکھو گے تو مجھ سے بغض رکھو گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف ابوبدر شجاع بن ولید کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا : ابوظبیان نے سلمان کا زمانہ نہیں پایا ہے اور سلمان علی سے پہلے وفات پا گئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٤٨٨) (ضعیف) (سند میں قابوس لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (2020) ، المشکاة (5989) // ضعيف الجامع الصغير (6394) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3927

【324】

عرب کی فضیلت کے بارے میں

عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے عربوں کو دھوکہ دیا وہ میری شفاعت میں شامل نہ ہوگا اور اسے میری محبت نصیب نہ ہوگی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف حصین بن عمر احمسی کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ مخارق سے روایت کرتے ہیں، اور حصین محدثین کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٨١٢) (موضوع) (سند میں حصین بن عمر الاحمسی “ متروک راوی ہے) قال الشيخ الألباني : موضوع، الضعيفة (545) ، المشکاة (5990) // ضعيف الجامع الصغير (5715) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3928

【325】

عرب کی فضیلت کے بارے میں

محمد بن رزین کی والدہ کہتی ہیں کہ جب کوئی عرب مرتا تو ام جریر پر اس کی موت بڑی سخت ہوجاتی یعنی انہیں زبردست صدمہ ہوتا تو ان سے کہا گیا کہ ہم آپ کو دیکھتے ہیں کہ جب کوئی عرب مرتا ہے تو آپ کو بہت صدمہ پہنچتا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : میں نے اپنے مالک کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عربوں کی ہلاکت قرب قیامت کی نشانی ہے ۔ محمد بن رزین کہتے ہیں : ان کے مالک کا نام طلحہ بن مالک ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف سلیمان بن حرب کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٠٢٢) (ضعیف) (سند میں ام الحریر اور ام محمد بن ابی رزین دونوں مجہول ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4515) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3929

【326】

عرب کی فضیلت کے بارے میں

ام شریک (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ دجال سے بھاگیں گے، یہاں تک کہ پہاڑوں پر جا رہیں گے ، ام شریک (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس وقت عرب کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : وہ (تعداد میں) تھوڑے ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ٢٥ (٢٩٤٥) (تحفة الأشراف : ١٨٣٣٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3930

【327】

عرب کی فضیلت کے بارے میں

سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «سام» عربوں کے جد امجد ہیں اور «یافث» رومیوں کے اور «حام» حبشیوں کے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے اور «یافث» ، «یافِتُ» اور «یَفِتُ» تینوں لغتیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٢٣١ (ضعیف) وضاحت : ١ ؎ : یہ تینوں نوح (علیہ السلام) کے بیٹوں کے نام ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (3683) // تقدم برقم (635 / 3461) ، ضعيف الجامع الصغير (3214) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3931

【328】

عجم کی فضیلت کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس عجم کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : مجھے ان پر یا ان کے بعض لوگوں پر تم سے یا تمہارے بعض لوگوں سے زیادہ اعتماد ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صرف ابوبکر بن عیاش کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- اور صالح بن ابی صالح کو صالح بن مہران مولی عمرو بن حریث بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٥٠٢) (ضعیف) (سند میں صالح بن ابی صالح ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (6245) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3932

【329】

عجم کی فضیلت کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جس وقت سورة الجمعہ نازل ہوئی ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھے، آپ نے اس کی تلاوت فرمائی، جب «وآخرين منهم لما يلحقوا بهم» پر پہنچے تو آپ سے ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ کون لوگ ہیں جو ابھی ہم سے ملے نہیں ہیں تو آپ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، وہ کہتے ہیں : اور سلمان فارسی ہم میں موجود تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ سلمان کے اوپر رکھا اور فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایمان ثریا پر بھی ہوگا تو بھی اس کے کچھ لوگ اسے حاصل کرلیں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اور یہ متعدد سندوں سے ابوہریرہ (رض) سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الجمعة ١ (٤٨٩٧) ، ٤٨٩٨) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٩ (٢٥٢٦) (تحفة الأشراف : ١٢٩١٧) ، و مسند احمد (٢/٢٩٧، ٤٢٠، ٤٦٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : سلمان فارسی (رض) عجمی ( ملک ایران کے ) تھے اور اس آیت میں انہیں لوگوں کی طرف اشارہ ہے ، عجم میں بیشمار محدثین اور عظیم امامان اسلام پیدا ہوئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح وهو مکرر الحديث (3541) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3933

【330】

اہل یمن کی فضیلت کے بارے میں

زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے یمن کی طرف دیکھا اور فرمایا : اے اللہ ! ان کے دلوں کو ہماری طرف پھیر دے اور ہمارے صاع اور مد میں ہمیں برکت دے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے یعنی زید بن ثابت کی اس حدیث کو صرف عمران قطان کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٦٩٧) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مدینہ میں زیادہ تر علم یمن سے آیا کرتا تھا ، اس لیے آپ نے اہل یمن کی دلوں کو مدینہ کی طرف پھیر دینے کی دعا فرمائی ، اسی مناسبت سے آپ نے مدینہ کی صاع اور مد ( یعنی صاع اور مد میں ناپے جانے غلے ) میں برکت کی دعا فرمائی۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (6263 / التحقيق الثانی) ، الإرواء (4 / 176) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3934

【331】

اہل یمن کی فضیلت کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس اہل یمن آئے وہ نرم دل اور رقیق القلب ہیں، ایمان یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس اور ابن مسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٧٤ (٤٣٨٨، ٤٣٩٠) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢١ (٥٢/٨٤) (تحفة الأشراف : ١٥٠٤٧) ، و مسند احمد (٢/٢٥٢، ٢٥٨، ٢٥٨، ٤٨٠، ٥٤١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بقول بعض آپ ﷺ نے ایمان و حکمت کو جو یمنی فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان و حکمت دونوں مکہ سے نکلے ہیں اور مکہ تہامہ سے ہے اور تہامہ سر زمین یمن میں داخل ہے ، اور بقول بعض یہاں ظاہری معنی ہی مراد لینے میں کوئی حرج نہیں ، یعنی یہاں خاص یمن جو معروف ہے کہ وہ لوگ مراد ہیں جو اس وقت یمن سے آئے تھے ، نہ کہ ہر زمانہ کے اہل یمن مراد ہیں ، نیز یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ یمن والوں سے بہت آسانی سے ایمان قبول کرلیا ، جبکہ دیگر علاقوں کے لوگوں پر بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی تھی ، اس لیے اہل یمن ( اس وقت کے اہل یمن ) کی تعریف کی ، «واللہ اعلم» قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (1034) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3935

【332】

اہل یمن کی فضیلت کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سلطنت (حکومت) قریش میں رہے گی، اور قضاء انصار میں اور اذان حبشہ میں اور امانت قبیلہ ازد میں یعنی یمن میں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٤٦١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1083) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3936

【333】

اہل یمن کی فضیلت کے بارے میں

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «ازد» ( اہل یمن) زمین میں اللہ کے شیر ہیں، لوگ انہیں گرانا چاہتے ہیں اور اللہ انہیں اٹھانا چاہتا ہے، اور لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ آدمی کہے گا، کاش ! میرا باپ ازدی ہوتا، کاش میری ماں ! ازدیہ ہوتی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- یہ حدیث اس سند سے انس سے موقوف طریقہ سے آئی ہے، اور یہ ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩١٩) (ضعیف) (سند میں صالح بن عبد الکریم مجہول ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (2467) // ضعيف الجامع الصغير (2275) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3937

【334】

اہل یمن کی فضیلت کے بارے میں

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ اگر ہم ازدی (یعنی قبیلہ ازد کے) نہ ہوں تو ہم آدمی ہیں ہی نہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : (صحیح) تحفة الأحوذی (٤١٩٦/١٠/٣٠٤) کے نسخے میں یہ حدیث ہے، اور مکتبة المعارف کے نسخے اور تحفة الأشراف میں یہ حدیث نہیں ہے) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہم مکمل انسان نہ ہوتے ، انس (رض) قبیلہ انصار کے تھے ، اور سارے انصار قبیلہ ازد کے ہیں ، اور یہ قبیلہ یمن سے حجاز آیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد موقوف صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3938

【335】

اہل یمن کی فضیلت کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا (میرا خیال ہے کہ وہ قبیلہ قیس کا تھا) اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! قبیلہ حمیر پر لعنت فرمائیے، تو آپ نے اس سے چہرہ پھیرلیا، پھر وہ دوسری طرف سے آپ کے پاس آیا، آپ نے پھر اس سے اپنا چہرہ پھیرلیا، پھر وہ دوسری طرف سے آیا تو آپ نے پھر اپنا چہرہ پھیرلیا، پھر وہ دوسری طرف سے آیا تو آپ نے اپنا چہرہ پھیرلیا اور فرمایا : اللہ حمیر پر رحم کرے، ان کے منہ میں سلام ہے، ان کے ہاتھ میں کھانا ہے، اور وہ امن و ایمان والے لوگ ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے عبدالرزاق کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- اور میناء سے بہت سی منکر حدیثیں روایت کی جاتی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٦٣٣) ، و مسند احمد (٢/٢٧٨) (موضوع) (سند میں مینا بن ابی مینا متروک شیعی راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو : الضعیفة ٣٤٩) قال الشيخ الألباني : موضوع، الضعيفة (349) // ضعيف الجامع الصغير (3109) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3939

【336】

قبیلہ غفار، اسلم، جہینہ اور مزینہ کی فضیلت کے بارے میں

ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انصار، مزینہ، جہینہ، غفار، اشجع اور جو قبیلہ عبدالدار کے ہوں وہ میرے رفیق ہیں، ان کا اللہ کے علاوہ کوئی اور رفیق نہیں، اور اللہ اور اس کے رسول ان کے رفیق ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤٧ (٢٥١٩) (تحفة الأشراف : ٣٤٩٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3940

【337】

قبیلہ غفار، اسلم، جہینہ اور مزینہ کی فضیلت کے بارے میں

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بنی اسلم کو اللہ صحیح سالم رکھے، غفار کو اللہ بخشے اور عصیہ (قبیلہ) نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٦ (٣٥١٣) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤٦ (٢٥١٨) ، ویأتي برقم ٣٩٤٨ (تحفة الأشراف : ٧١٣٠) ، و مسند احمد (٢/٢٠، ٥٠، ٦٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس میں ، قبیلہ اسلم ، اور غفار کی منقبت ہے ، جبکہ قبیلہ عصیہ کی برائی ہے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3941

【338】

بنو ثقیف اور بنو حنیفہ کے بارے میں

جابر (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ثقیف کے تیروں نے ہمیں زخمی کردیا، تو آپ اللہ سے ان کے لیے بد دعا فرمائیں، آپ نے فرمایا :«اللهم اهد ثقيفا» اے اللہ ! ثقیف کو ہدایت دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٧٧٩) (ضعیف) (سند میں ابوالزبیر محمد بن مسلم مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5986) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3942

【339】

بنو ثقیف اور بنو حنیفہ کے بارے میں

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی اور آپ تین قبیلوں ثقیف، بنی حنیفہ اور بنی امیہ کو ناپسند کرتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٨١٣) (ضعیف الإسناد) (حسن بصری مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت ہے، جب کہ عمران بن حصین (رض) “ سے ان کا سماع بھی نہیں ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس سلسلہ میں علماء کا کہنا ہے کہ ثقیف کو حجاج بن یوسف اور بنی حنیفہ کو مسیلمہ کذاب اور بنی امیہ کو عبیداللہ بن زیاد کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے ( واللہ اعلم ) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3943

【340】

بنو ثقیف اور بنو حنیفہ کے بارے میں

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ثقیف میں ایک جھوٹا اور ایک تباہی مچانے والا ظالم شخص ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٢٢٠ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی (2221) // هذا الرقم فی طبعة الدع اس، وهو عندنا برقم (1808 / 2331) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3944 ہم سے عبدالرحمٰن بن واقد ابومسلم نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں : ہم سے شریک نے اسی سند سے اسی طرح کی حدیث بیان کی اور عبدالرحمٰن بن عاصم کی کنیت ابوعلوان ہے اور وہ کوفی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں، اور شریک کی روایت میں عبداللہ بن عصم ہے، اور اسرائیل بھی انہیں شیخ سے روایت کرتے ہیں، لیکن انہوں نے عبداللہ بن عصم کے بجائے عبداللہ بن عصمۃ کہا ہے، ٣- اس باب میں اسماء بنت ابی بکر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے اشارہ مختار بن عبید ثقفی کی طرف ہے جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور ظالم حجاج بن یوسف ثقفی کی طرف ہے جس نے ہزاروں صالحین اور اکابرین کو اپنے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی (2221) // هذا الرقم فی طبعة الدع اس، وهو عندنا برقم (1808 / 2331) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3944

【341】

بنو ثقیف اور بنو حنیفہ کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ کو ایک جوان اونٹنی ہدیہ میں دی، اور آپ نے اس کے عوض میں اسے چھ اونٹنیاں عنایت فرمائیں، پھر بھی وہ آپ سے خفا رہا یہ خبر نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا : فلاں نے مجھے ایک اونٹنی ہدیہ میں دی تھی، میں نے اس کے عوض میں اسے چھ جوان اونٹنیاں دیں، پھر بھی وہ ناراض رہا، میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ اب سوائے قریشی، یا انصاری، یا ثقفی ١ ؎ یا دوسی کے کسی کا ہدیہ قبول نہ کروں ، اس حدیث میں مزید کچھ اور باتیں بھی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث متعدد سندوں سے ابوہریرہ (رض) سے آئی ہے، ٢- اور یزید بن ہارون ایوب ابوالعلاء سے روایت کرتے ہیں، اور وہ ایوب بن مسکین ہیں اور انہیں ابن ابی مسکین بھی کہا جاتا ہے، اور شاید یہی وہ حدیث ہے جسے انہوں نے ایوب سے اور ایوب نے سعید مقبری سے روایت کی ہے، اور ایوب سے مراد ایوب ابوالعلاء ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر مایأتي ( تحفة الأشراف : ١٢٩٥٤) ، وانظر مسند احمد ( ٢/٢٩٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے قبیلہ ثقیف کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3022 / التحقيق الثانی) ، الصحيحة (1684) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3945

【342】

بنو ثقیف اور بنو حنیفہ کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فزارہ کے ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کو اپنے ان اونٹوں میں سے جو اسے غابہ میں ملے تھے ایک اونٹنی ہدیہ میں دی تو آپ نے اسے اس کا کچھ عوض دیا، لیکن وہ آپ سے خفا رہا، تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر فرماتے سنا کہ عربوں میں سے کچھ لوگ مجھے ہدیہ دیتے ہیں اور اس کے بدلہ میں انہیں جس قدر میرے پاس ہوتا ہے میں دیتا ہوں، پھر بھی وہ خفا رہتا ہے اور برابر مجھ سے اپنی خفگی جتاتا رہتا ہے، قسم اللہ کی ! اس کے بعد میں عربوں میں سے کسی بھی آدمی کا ہدیہ قبول نہیں کروں گا سوائے قریشی، انصاری یا ثقفی یا دوسی کے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے اور یہ یزید بن ہارون کی روایت سے جسے وہ ایوب سے روایت کرتے ہیں زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٨٢ (٣٥٣٧) ، وانظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ١٤٣٢٠) (صحیح) (سابقہ حدیث میں ایوب بن مسکین (یا ابن ابی مسکین) صدوق ہیں، لیکن صاحب اوہام ہیں، اور اس سند میں محمد بن اسحاق صدوق لیکن مدلس ہیں، لیکن شواہد و متابعات کی بنا پر یہ حدیث اور سابقہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحہ رقم ١٦٨٤) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (3945) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3946

【343】

بنو ثقیف اور بنو حنیفہ کے بارے میں

ابوعامر اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا ہی اچھے ہیں قبیلہ اسد اور قبیلہ اشعر کے لوگ، جو لڑائی سے بھاگتے نہیں اور نہ مال غنیمت میں خیانت کرتے ہیں، وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ، عامر (رض) کہتے ہیں : پھر میں نے اسے معاویہ (رض) سے بیان کیا تو انہوں نے کہا : اس طرح رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمایا، بلکہ آپ نے یہ فرمایا کہ وہ مجھ سے ہیں اور میری طرف ہیں ، تو میں نے عرض کیا : میرے باپ نے مجھ سے اس طرح نہیں بیان کیا، بلکہ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ، معاویہ (رض) نے کہا : تو تم اپنے باپ کی حدیثوں کے زیادہ جانکار ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف وہب بن جریر کی روایت سے جانتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اسد قبیلہ اسد ہی کے لوگ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٠٦٦) وانظر مسند احمد (٤/١٢٩) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن ملاذ مجہول راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4692) // ضعيف الجامع الصغير (5963) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3947

【344】

بنو ثقیف اور بنو حنیفہ کے بارے میں

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ قبیلہ اسلم کو سلامت رکھے اور بنی غفار کو اللہ کو بخشے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوذر، ابوبرزہ اسلمی اور ابوہریرہ (رض) سے ہی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٩٤١ (تحفة الأشراف : ٧١٩٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3948

【345】

بنو ثقیف اور بنو حنیفہ کے بارے میں

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ قبیلہ اسلم کو سلامت رکھے اور غفار کو اللہ بخش دے اور عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ٧١٦٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (3948) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3949

【346】

بنو ثقیف اور بنو حنیفہ کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! غفار، اسلم، مزنیہ اور جو جہنیہ کے لوگ یا آپ نے فرمایا : جہنیہ اور جو مزنیہ کے لوگ ہیں اللہ کے نزدیک قیامت کے دن اسد، طی اور غطفان سے بہتر ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤٧ (٢٥٢٠/١٩١) (تحفة الأشراف : ١٣٨٨١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3950

【347】

بنو ثقیف اور بنو حنیفہ کے بارے میں

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی تمیم کے لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا : اے بنی تمیم ! خوش ہو جاؤ، وہ لوگ کہنے لگے : آپ نے ہمیں بشارت دی ہے، تو (کچھ) دیجئیے، وہ کہتے ہیں : یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا، اتنے میں یمن کے کچھ لوگ آ گئے تو آپ نے فرمایا : تمہیں لوگ بشارت قبول کرلو ، جب بنی تمیم نے اسے قبول نہیں کیا تو ان لوگوں نے کہا : ہم نے قبول کرلیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١ (٣١٩٠) ، والمغازي ٦٧ (٤٣٦٥) ، و ٧٤ (٤٣٨٦) ، والتوحید ٢٢ (٧٤١٨) (تحفة الأشراف : ١٠٨٢٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3951

【348】

بنو ثقیف اور بنو حنیفہ کے بارے میں

ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قبائل اسلم، غفار اور مزینہ، قبائل تمیم، اسد، غطفان اور بنی عامر بن صعصعہ سے بہتر ہیں ، اور آپ اس کے ساتھ اپنی آواز اونچی کر رہے تھے، تو لوگ کہنے لگے : نامراد ہوئے اور خسارے میں رہے، آپ نے فرمایا : وہ ان (قبائل یعنی تمیم، اسد، غطفان اور بنی عامر بن صعصعہ) سے بہتر ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٦ (٣٥١٥، و ٣٥١٦) ، والأیمان والنذور ٣ (٦٦٣٥) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤٧ (٢٥٢٢) (تحفة الأشراف : ١١٦٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3952

【349】

شام اور یمن کی فضیلت کے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ ! ہمارے یمن میں برکت عطا فرما ، لوگوں نے عرض کیا : اور ہمارے نجد میں، آپ نے فرمایا : اے اللہ ! ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما ، لوگوں نے عرض کیا : اور ہمارے نجد میں، آپ نے فرمایا : یہاں زلزلے اور فتنے ہیں، اور اسی سے شیطان کی سینگ نکلے گی ، (یعنی شیطان کا لشکر اور اس کے مددگار نکلیں گے) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے یعنی ابن عون کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- یہ حدیث بطریق : «سالم بن عبد اللہ بن عمر عن أبيه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» بھی آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستسقاء ٢٧ (١٠٣٧) ، والفتن ١٦ (٧٠٩٤) (تحفة الأشراف : ٧٧٤٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : محقق شارحین حدیث نے قطعی دلائل اور تاریخی حقائق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس حدیث میں مذکور نجد سے مراد عراق ہے ، تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ دینی فتنے زیادہ تر عراق سے اٹھے ، لغت میں نجد اونچی زمین ( سطح مرتفع ) کو کہا جاتا ہے ، سعودیہ میں واقع نجد کو بھی اسی وجہ سے نجد کہا جاتا ہے ، اس اعتبار سے عراق پر بھی نجد کا لفظ صادق آتا ہے ، اور حسی و معنوی دینی فتنوں کے عراق سے ظہور نے یہ ثابت کردیا کہ آپ ﷺ کی مراد یہی عراق اور مضافات کا علاقہ تھا ، بدعتی فرقوں نے اس حدیث کا مصداق شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تحریک کو قرار دیا ہے ، «شتان مابین الیزیدین» سلف صالحین کے عقیدہ اور فہم شریعت کے مطابق چلائی گئی تحریک چاہے مذمومہ نجد ہی سے کیوں نہ ہو اس حدیث کا مصداق کیسے ہوسکتی ہے ؟ اگر نجدی تحریک مراد ہوگی تو اصل اسلام ہی مراد ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج فضائل الشام (8) ، الصحيحة (2246) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3953

【350】

شام اور یمن کی فضیلت کے متعلق

زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس کاغذ کے پرزوں سے قرآن کو مرتب کر رہے تھے، تو آپ نے فرمایا : مبارکبادی ہو شام کے لیے ، ہم نے عرض کیا : کس چیز کی اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : اس بات کی کہ رحمن کے فرشتے ان کے لیے اپنے بازو بچھاتے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف یحییٰ بن ایوب کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٧٢٨) ، وانظر : مسند احمد (٥/١٨٤) (صحیح) (ملاحظہ ہو : الصحیحة رقم ٥٠٣) قال الشيخ الألباني : صحيح الفضائل أيضا رقم (1) ، المشکاة (6624) ، الصحيحة (502) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3954

【351】

شام اور یمن کی فضیلت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : باز آ جائیں وہ قومیں جو اپنے ان آباء و اجداد پر فخر کر رہی ہیں جو مرگئے ہیں، وہ جہنم کا کوئلہ ہیں ورنہ وہ اللہ کے نزدیک اس گبریلے سے بھی زیادہ ذلیل ہوجائیں گے، جو اپنے آگے اپنی ناک سے نجاست دھکیلتا رہتا ہے، اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت کو ختم کردیا ہے، اب تو لوگ مومن و متقی ہیں یا فاجر و بدبخت، لوگ سب کے سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٠٧٤) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد وہ آباء و اجداد ہیں جن کی وفات کفر کی حالت میں ہوچکی تھی ، وہ کیسے بھی عال نسب ہوں ، ان پر مسلمانوں کو فخر کرنا درست نہیں کیونکہ ان کی وفات کفر پر ہوئی ہے۔ ٢ ؎ : قبائل کے فضائل کے اخیر میں شاید اس حدیث کے لانے سے مولف کا مقصد یہ ہو کہ مذکورہ قبائل کے جو بھی فضائل ہوں اصل کامیابی اور فضیلت کی بات اپنا ایمان وعمل ہے ، قبیلہ خاندان کی برتری اور ان پر فخر کچھ کام نہیں آئے گا ، یہ فخر بالآخر ذلت کا سبب بن جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (4 / 21 و 33 - 34) ، غاية المرام (312) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3955