14. تجارت ومعاملات کا بیان

【1】

کمائی کی ترغیب۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کا سب سے عمدہ کھانا وہ ہے جو اس کی اپنی کمائی کا ہو، اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ١ (٤٤٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٦١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٩ (٣٥٢٨) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٢ (١٣٥٨) ، مسند احمد (٦/٣١، ٤٢، ١٢٧، ١٦٢، ١٩٣، ٢٢٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٦ (٢٥٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر والدین محتاج اور ضرورت مند ہوں تو ان کا نفقہ (خرچ) اولاد پر واجب ہے، اور جو محتاج یا عاجز نہ ہوں تب بھی اولاد کی رضامندی سے اس کے مال میں سے کھا سکتے ہیں، مطلب حدیث کا یہ ہے کہ اولاد کا مال کھانا بھی طیب (پاکیزہ) اور حلال ہے، اور اپنے کمائے ہوئے مال کی طرح ہے۔

【2】

کمائی کی ترغیب۔

مقدام بن معدیکرب زبیدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کی کوئی کمائی اس کمائی سے بہتر نہیں جسے اس نے اپنی محنت سے کمایا ہو، اور آدمی اپنی ذات، اپنی بیوی، اپنے بچوں اور اپنے خادم پر جو خرچ کرے وہ صدقہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٥٦١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ١٥ (٢٠٧٢) ، مسند احمد (٤/١٣١، ١٣٢) (صحیح )

【3】

کمائی کی ترغیب۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سچا، امانت دار مسلمان تاجر قیامت کے دن شہداء کے ساتھ ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٥٩٨، ومصباح الزجاجة : ٧٥٥) (حسن صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٢٤٨ ) وضاحت : ١ ؎: تجارت کے ساتھ سچائی اور امانت داری بہت مشکل کام ہے، اکثر تاجر جھوٹ بولتے ہیں اور سودی لین دین کرتے ہیں، تو کوئی تاجر سچا امانت دار، متقی اور پرہیزگار ہوگا تو اس کو شہیدوں کا درجہ ملے گا، اس لئے کہ جان کے بعد آدمی کو مال عزیز ہے، بلکہ بعض مال کے لئے جان گنواتے ہیں جیسے شہید نے اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کی، ایسے ہی متقی تاجر نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دولت خرچ کی، اور حرام کا لالچ نہ کیا۔

【4】

کمائی کی ترغیب۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیوہ عورتوں اور مسکینوں کے لیے محنت و کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے مانند ہے، اور اس شخص کے مانند ہے جو رات بھر قیام کرتا، اور دن کو روزہ رکھتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النفقات ١ (٥٣٥٣) ، صحیح مسلم/الزہد والرقائق ٢ (٢٩٨٢) ، سنن الترمذی/البروالصلة ٤٤ (١٩٦٩) ، سنن النسائی/الزکاة ٧٨ (٢٥٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٦١) (حسن صحیح )

【5】

کمائی کی ترغیب۔

عبداللہ بن خبیب کے چچا سے روایت ہے ہم ایک مجلس میں تھے، رسول اللہ ﷺ بھی وہاں اچانک تشریف لے آئے، آپ کے سر مبارک پر پانی کا اثر تھا، ہم میں سے ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا : آپ کو ہم آج بہت خوش دل پا رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، بحمداللہ خوش ہوں ، پھر لوگوں نے مالداری کا ذکر چھیڑ دیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اہل تقویٰ کے لیے مالداری کوئی حرج کی بات نہیں، اور تندرستی متقی کے لیے مالداری سے بہتر ہے، اور خوش دلی بھی ایک نعمت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٠٦، ومصباح الزجاجة : ٧٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٧٢، ٣٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحت اور خوش دلی کی نعمت تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے اگر مال لاکھوں کروڑوں ہو، لیکن صحت اور خوش دلی و اطمینان نفس نہ ہو تو سب بیکار ہے، یہ صحت اور طبیعت کی خوشی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، جس بندے کو اللہ چاہتا ہے ان نعمتوں کو عطا کرتا ہے، یا اللہ ہم کو بھی ہمیشہ صحت و عافیت اور خوش دلی اور اطمینان قلب کی نعمت میں رکھ۔ آمین۔

【6】

روزی کی تلاش میں میانہ روی۔

ابو حمید ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا کی طلب میں اعتدال کا طریقہ اپناؤ اس لیے کہ جس چیز کے لیے آدمی پیدا کیا گیا ہے وہ اسے مل کر رہے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٤، ومصباح الزجاجة : ٧٥٧) (صحیح) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٨٩٨- ٢٦٠٧- ٢٦٠٧ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کمانے کے چکر میں زیادہ نہ پڑو، آدمی کے مقدر (قسمت) میں جو چیز اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہے، وہ اسے مل کر رہے گی، تو بےاعتدالی اور ظلم کی کوئی ضرورت نہیں۔

【7】

روزی کی تلاش میں میانہ روی۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ فکرمندی اس مومن کو ہوتی ہے جسے دنیا کی بھی فکر ہو اور آخرت کی بھی ۔ ابوعبداللہ (ابن ماجہ) کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، اس لیے کہ اسماعیل اس کی روایت میں منفرد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٤، ومصباح الزجاجة : ٧٥٨) (ضعیف) (سند میں یزید الرقاشی، حسن بن محمد اور اسماعیل بن بہرام تینوں ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: بےدین آدمی کو آخرت سے کوئی غرض اور دلچسپی نہیں، اسے تو صرف دنیا کی فکر ہے، اور جو کچا مسلمان ہے اس کو دونوں فکریں لگی ہوتی ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر اس کو پورا بھروسہ اور اعتماد نہیں ہے، اور جو پکا مسلمان ہے اس کو فقط آخرت کی ہی فکر ہے، اور دنیا کی زیادہ فکر نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ رازق اور مسبب الاسباب ہے، جب تک زندگی ہے، وہ کہیں سے ضرور کھلائے اور پلائے گا۔

【8】

روزی کی تلاش میں میانہ روی۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! اللہ سے ڈرو، اور دنیا طلبی میں اعتدال کا راستہ اختیار کرو، اس لیے کہ کوئی اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک اپنی روزی پوری نہ کرلے گو اس میں تاخیر ہو، لہٰذا اللہ سے ڈرو، اور روزی کی طلب میں اعتدال کا راستہ اختیار کرو، صرف وہی لو جو حلال ہو، اور جو حرام ہو اسے چھوڑ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٨٨٠، ومصباح الزجاجة : ٧٥٩) (صحیح) (سند میں ولید بن مسلم، ابن جریج اور ابوالزبیر تینوں مدلس راوی ہیں، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٦٠٧ )

【9】

تجارت میں تقوی اختیار کرنا۔

قیس بن ابی غرزہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں سماسرہ (دلال) کہے جاتے تھے، ایک بار رسول اللہ ﷺ کا ہمارے پاس سے گزر ہوا، تو آپ نے ہمارا ایک ایسا نام رکھا جو اس سے اچھا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : اے تاجروں کی جماعت ! خریدو فروخت میں قسمیں اور لغو باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں، تو تم اس میں صدقہ ملا دیا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ١ (٣٣٢٦، ٣٣٢٧) ، سنن الترمذی/البیوع ٤ (١٢٠٨) ، سنن النسائی/الأیمان ٢١ (٣٨٢٨) ، البیوع ٧ (٤٤٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١١١٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٦، ٢٨٠) (صحیح )

【10】

تجارت میں تقوی اختیار کرنا۔

رفاعہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ اچانک کچھ لوگ صبح کے وقت خریدو فروخت کرتے نظر آئے، آپ نے ان کو پکارا : اے تاجروں کی جماعت ! جب ان لوگوں نے اپنی نگاہیں اونچی اور گردنیں لمبی کرلیں ١ ؎ تو آپ نے فرمایا : تاجر قیامت کے دن اس حال میں اٹھائے جائیں گے کہ وہ فاسق و فاجر ہوں گے، سوائے ان کے جو اللہ سے ڈریں، اور نیکوکار اور سچے ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٤ (١٢١٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٧) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/البیوع ٧ (٢٥٨٠) (صحیح) (سند میں اسماعیل بن عبید ضعیف راوی ہے، لیکن اصل حدیث : إن التجار يبعثون يوم القيامة فجارا صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٤٥٨ ) وضاحت : ١ ؎: نیک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں سے اچھا سلوک کرے، مفلس کو مہلت دے، بلکہ اگر ہو سکے تو معاف کر دے۔

【11】

جب مرد کو کوئی روزی کا ذریعہ مل جائے تو اسے چھوڑے نہیں۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے روزی کا کوئی ذریعہ مل جائے، تو چاہیئے کہ وہ اسے پکڑے رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٢، ومصباح الزجاجة : ٧٦٠) (ضعیف) (سند میں فروہ اور ہلال بن جبیر دونوں ضعیف ہیں )

【12】

جب مرد کو کوئی روزی کا ذریعہ مل جائے تو اسے چھوڑے نہیں۔

نافع کہتے ہیں کہ میں اپنا سامان تجارت شام اور مصر بھیجا کرتا تھا، پھر میں نے عراق کی طرف بھیج دیا، پھر میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس آیا، اور ان سے کہا کہ میں اپنا سامان تجارت شام بھیجا کرتا تھا، لیکن اس بار میں نے عراق بھیج دیا ہے، تو انہوں نے کہا : ایسا نہ کرو، تمہاری پہلی تجارت گاہ کو کیا ہوا کہ اس کو چھوڑ کر تم نے دوسری اختیار کرلی ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اللہ تعالیٰ جب تم میں سے کسی کے لیے روزی کا کوئی ذریعہ پیدا کر دے، تو وہ اسے نہ چھوڑے یہاں تک کہ وہ بدل جائے، یا بگڑ جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٧٤، ومصباح الزجاجة : ٧٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٤٦) (ضعیف) (سند میں زبیر بن عبید مجہول راوی، اور ابوعاصم کے والد مختلف فیہ راوی ہیں )

【13】

تجارت مختلف پیشے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے جتنے بھی نبی بھیجے ہیں، سب نے بکریاں چرائی ہیں ، اس پر آپ کے صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ نے بھی ؟ فرمایا : میں بھی چند قیراط پر اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا ١ ؎۔ سوید کہتے ہیں کہ ہر بکری پر ایک قیراط ملتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإجارة ٢ (٢٢٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک قیراط دینار کا بیسواں حصہ ہوتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محنت اور مزدوری کرنے میں کوئی ذلت نہیں، بلکہ حرام کا مال بیٹھ کر کھانا اور اڑانا انتہاء درجہ کی بےشرمی، و بےحیائی اور ذلت و خواری ہے، سرتاج انبیاء اشرف المخلوقات محمد رسول اللہ ﷺ نے مزدوری کی تو اور کسی کی کیا حقیقت ہے جو مزدوری کرنے کو ننگ و عار سمجھتا ہے، مسلمانان ہند کی ایک بڑی تعداد محنت اور مزدوری سے کتراتے ہیں، ایسی دنیا میں کوئی قوم نہیں، جب ہی تو وہ فاقوں مرتے ہیں، مگر اپنی محنت اور تجارت سے روٹی پیدا کرنا عار جانتے ہیں، اور بعض تو ایسے بےحیا ہیں کہ بھیک مانگتے ہیں، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں مگر محنت اور تجارت کو عار جانتے ہیں، خاک پڑے ان کی عقل پر نیز حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جانور چرانا ایک حلال پیشہ ہے، اور غیرمسلموں کے یہاں مزدوری بھی کرنا جائز ہے کیونکہ مکہ والے اس وقت کافر ہی تھے۔

【14】

تجارت مختلف پیشے۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زکریا (علیہ السلام) (یحییٰ (علیہ السلام) کے والد) بڑھئی تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٤٥ (٢٣٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٦، ٤٠٥، ٤٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ بڑھئی کا پیشہ حلال ہے، اور رسولوں نے یہ پیشہ اختیار کیا ہے، اسی طرح سے ہر صنعت اور پیشہ جس میں رزق حلال ہو اچھا کام ہے، اور اسے اپنانے اور اس میدان میں آگے بڑھنے میں ہماری طاقت و قوت ہے۔

【15】

تجارت مختلف پیشے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تصویریں بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، اور ان سے کہا جائے گا جن کو تم نے بنایا ہے، ان میں جان ڈالو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التوحید ٦٥ (٧٥٥٧) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٥٩ (٥٣٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٥٧) ، وقد أخرجہ : ٦/٧٠، ٨٠، ٢٢٣، ٢٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جان ڈالو، اور یہ ان سے نہ ہو سکے گا، بس اسی بات پر ان کو عذاب ہوتا رہے گا، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مصوری کا پیشہ ناجائز ہے، البتہ اگر بےجان چیزوں کی تصویر بنانی ہو جیسے مکانوں کی، درختوں کی، شہروں کی تو کوئی حرج نہیں ہے، اب علماء کا اختلاف ہے کہ کون سی تصویر مراد ہے ؟ مجسم یعنی بت جو پتھر یا لکڑی یا لوہے وغیرہ سے بناتے ہیں، یا ہر طرح کی تصویر ؟ گرچہ نقشی یا عکسی ہو ؟ جس کو ہمارے زمانہ میں فوٹو کہتے ہیں، حدیث عام ہے اور ہر ایک تصویر کو شامل ہے، لیکن بعضوں نے صرف مجسم تصویر کو حرام کہا ہے۔

【16】

تجارت مختلف پیشے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں میں سب سے زیادہ جھوٹے رنگ ریز اور سنار ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٣٨، ومصباح الزجاجة : ٧٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٢، ٣٢٤، ٣٤٥) (موضوع) (سند میں فرقد سبخی غیر قوی، اور عمر بن ہارون کذاب ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٤٤ )

【17】

ذخیرہ اندوزی اور اپنے شہر میں تجارت کیلئے دوسرے شہر سے مال لانا۔

عمر بن الخطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جلب کرنے والا روزی پاتا ہے اور (ذخیرہ اندوزی) کرنے والا ملعون ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشرا : ١٠٤٥٥، ومصباح الزجاجة : ٧٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/البیوع ١٢ (٢٥٨٦) (ضعیف) (سند میں زید بن علی بن جدعان ضعیف راوی ہے ) وضاحت : ١ ؎: ذخیرہ اندوزی (حکر اور احتکار ) یہ ہے کہ مال خرید کر اس انتظار میں رکھ چھوڑے کہ جب زیادہ مہنگا ہوگا تو بیچیں گے۔ جلب: یہ ہے کہ شہر میں بیچنے کے لئے دوسرے علاقہ سے مال لے کر آئے۔: ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت آئی ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذخیرہ اندوزی حرام ہے، لیکن مراد وہی ذخیرہ اندوزی ہے کہ جس وقت شہر میں غلہ نہ ملتا ہو اور لوگوں کو غلہ کی احتیاج ہو، کوئی شخص بہت سا غلہ لے کر بند کر کے رکھ چھوڑے اور شہر والوں کے ہاتھ نہ بیچے اس انتظار میں کہ جب اور زیادہ گرانی ہوگی تو بیچیں گے، یہ اس وجہ سے حرام ہوا کہ اپنے ذرا سے فائدہ کے لئے لوگوں کو تکلیف دینا ہے، اور مردم آزاری کے برابر کوئی گناہ نہیں ہے۔

【18】

ذخیرہ اندوزی اور اپنے شہر میں تجارت کیلئے دوسرے شہر سے مال لانا۔

معمر بن عبداللہ بن نضلہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ذخیرہ اندوزی صرف خطاکار کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢٦ (١٦٠٥) ، سنن ابی داود/البیوع ٤٩ (٣٤٤٧) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٠ (١٢٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٥٣، ٤٥٤، ٦/٤٠٠، )، سنن الدارمی/البیوع ١٢ (٢٥٨٥) (صحیح )

【19】

ذخیرہ اندوزی اور اپنے شہر میں تجارت کیلئے دوسرے شہر سے مال لانا۔

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو مسلمانوں کے کھانے کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے جذام (کوڑھ) یا افلاس (فقر) میں مبتلا کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٢٢، ومصباح الزجاجة : ٧٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١) (ضعیف) سند میں ابویحییٰ المکی مجہول ہیں، صرف ابن+حبان نے ان کی توثیق ہے، اور یہ معلوم ہے کہ وہ مجہول رواة کی توثیق کرتے ہیں ایسے ہی فروخ کی توثیق بھی صرف ابن+حبان نے کی ہے، جو حجت نہیں ہے، ابن الجوزی نے العلل المتناہیة میں حدیث کی تضعیف ابویحییٰ کی جہالت کی وجہ سے کی ہے، نیز ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجة : ٧٦٤ )

【20】

جھاڑ پھونک کی اجرت۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم تیس سواروں کو رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ (فوجی ٹولی) میں بھیجا، ہم ایک قبیلہ میں اترے، اور ہم نے ان سے اپنی مہمان نوازی کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے انکار کردیا پھر ایسا ہوا کہ ان کے سردار کو بچھو نے ڈنک مار دیا، چناچہ وہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے : کیا آپ لوگوں میں کوئی بچھو کے ڈسنے پر جھاڑ پھونک کرتا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں، میں کرتا ہوں لیکن میں اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک تم ہمیں کچھ بکریاں نہ دے دو ، انہوں نے کہا : ہم آپ کو تیس بکریاں دیں گے، ہم نے اسے قبول کرلیا، اور میں نے سات مرتبہ سورة فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کیا تو وہ اچھا ہوگیا، اور ہم نے وہ بکریاں لے لیں، پھر ہمیں اس میں کچھ تردد محسوس ہوا ١ ؎ تو ہم نے (اپنے ساتھیوں سے) کہا (ان کے کھانے میں) جلد بازی نہ کرو، یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ جائیں، (اور آپ سے ان کے بارے میں پوچھ لیں) پھر جب ہم (مدینہ) آئے تو میں نے جو کچھ کیا تھا نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ سورة فاتحہ جھاڑ پھونک ہے ؟ انہیں آپس میں بانٹ لو، اور اپنے ساتھ میرا بھی ایک حصہ لگاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإجارة ١٦ (٢٢٧٦) ، صحیح مسلم/السلام ٢٣ (٢٢٠١) ، سنن ابی داود/الطب ١٩ (٣٩٠٠) ، سنن الترمذی/الطب ٢٠ (٢٠٦٣، ٢٠٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٤٩، ٤٣٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کہ یہ ہمارے لیے حلال ہیں یا نہیں۔ اس سند سے بھی ابوسعید (رض) سے اسی طرح کی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔ اس سند سے بھی ابوسعید سے اسی طرح کی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔ ابن ماجہ کہتے ہیں : (ابن ابی المتوکل کے بجائے) صحیح ابوالمتوکل ہی ہے۔

【21】

قرآن سکھانے پر اجرت لینا۔

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اہل صفہ میں سے کئی لوگوں کو قرآن پڑھنا اور لکھنا سکھایا، تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے ایک کمان ہدیے میں دی، میں نے اپنے جی میں کہا : یہ تو مال نہیں ہے، یہ اللہ کے راستے میں تیر اندازی کے لیے میرے کام آئے گا، پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم کو یہ اچھا لگے کہ اس کمان کے بدلے تم کو آگ کا ایک طوق پہنایا جائے تو اس کو قبول کرلو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٧ (٣٤١٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٦٨) ، وقدأخرجہ : مسند احمد (٥/٣١٥) (صحیح) (سند میں اسود بن ثعلبہ مجہول راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٥٦ ) وضاحت : ١ ؎: اہل صفہ وہ صحابہ جو مسجد نبوی کے سائبان میں رہا کرتے تھے۔ اس حدیث سے حنفیہ نے استدلال کرتے ہوئے تعلیم قرآن پر اجرت لینے کو ناجائز کہا ہے، تلاوت پر اجرت لینا جائز ہے، تلاوت پر اجرت لینے کا جواز ابوسعید خدری (رض) کی حدیث سے نکلتا ہے (جو اوپر گزری، ملاحظہ ہو حدیث ٢١٥٦ ) ، اور صحیح بخاری میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ لوگوں نے ابوسعید سے کہا : آپ نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی، اس پر انہوں نے فرمایا کہ سب سے زیادہ جس کے اجرت لینے کا حق ہے، وہ اللہ کی کتاب ہے، اور احمد، ابوداود اور نسائی میں ہے کہ خارجہ کے چچا نے جب سورة فاتحہ سے دیوانے پر جھاڑ پھونک کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تم اس کی اجرت لے لو، قسم میری عمر کی ! لوگ تو جھاڑ پھونک سے جھوٹ پیدا کرتے ہیں تو نے سچ جھاڑ پھونک کر کے کھایا۔ اور تعلیم پر اجرت جائز نہ ہونے کی دلیل عبادہ (رض) کی یہ حدیث ہے، دوسرے ابی (رض) کی حدیث جو آگے آرہی ہے، تیسرے مسند احمد میں عبدالرحمن بن شبل (رض) سے مرفوعاً آیا ہے کہ قرآن پڑھو، اس میں غلو اور جفا مت کرو اور اس سے روٹی مت کھاؤ اور مال مت بڑھاؤ، بزار نے بھی اس کے کئی شاہد ذکر کئے ہیں۔ چوتھی مسند احمد و ترمذی میں عمران بن حصین (رض) سے ہے کہ نبی کریم ﷺ سے فرمایا : قرآن پڑھو اور اللہ تعالیٰ سے قرآن کا بدلہ مانگو، اس لئے کہ تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو لوگوں سے قرآن کا عوض مانگیں گے، اس باب میں کئی حدیثیں ہیں۔ لیکن جن علماء نے تعلیم قرآن پر اجرت کے جواز کا فتوی دیا ہے وہ اس اعتبار سے کہ اس کے سیکھنے سکھانے میں معلم نے اپنا وقت لگایا، تو اس کے لئے اس نیک عمل پر اجرت کا لینا وقت کے مقابل جائز ہوا۔

【22】

قرآن سکھانے پر اجرت لینا۔

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو قرآن پڑھنا سکھایا تو اس نے مجھے ایک کمان ہدیے میں دی، میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم نے یہ لی تو آگ کی ایک کمان لی ، اس وجہ سے میں نے اس کو واپس کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٩، ومصباح الزجاجة : ٧٥٨) (صحیح) (سند میں عطیہ اور أبی بن کعب (رض) کے درمیان انقطاع ہے، اور عبدالرحمن بن سلم مجہول راوی ہیں، سند میں اضطراب بھی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٤٩٣ )

【23】

کتے کی قیمت زنا کی اجرت نجومی کی اجرت اور سانڈ چھوڑنے کی اجرت سے ممانعت۔

ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری بدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی اور کاہن کی اجرت سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١١٣ (٢٢٣٧) ، الإجارة ٢٠ (٢٢٨٢) ، الطلاق ٥١ (٥٣٤٦) ، الطب ٤٦ (٥٧٦١) ، صحیح مسلم/المساقاة ٩ (١٥٦٧) ، سنن ابی داود/البیوع ٤١ (٣٤٢٨) ، ٦٥ (٣٤٨١) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٦ (١٢٧٦) ، النکاح ٣٧ (١١٣٣) ، الطب ٢٣ (٢٠٧١) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ١٥ (٤٢٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠١٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ٢٩ (٦٨) ، مسند احمد (١/١١٨، ١٢٠، ١٤٠، ١٤١) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٤ (٢٦١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتے کی خریدو فروخت جائز نہیں ہے، مگر نسائی کی روایت کے مطابق شکاری کتا اس سے مستثنی ہے یعنی اس کی قیمت جائز اور نجومی میں وہ رمال، جفار اور جوتشی وغیرہ بھی شامل ہیں جو مستقبل کی باتیں بتاتے ہیں۔

【24】

کتے کی قیمت زنا کی اجرت نجومی کی اجرت اور سانڈ چھوڑنے کی اجرت سے ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے کتے کی قیمت، اور نر سے جفتی کرانے کے معاوضہ سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٠٧) ، وقہ أخرجہ : سنن ابی داود/البیوع ٦٥ (٣٤٨١) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ١٥ (٤٢٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نر گھوڑا، اونٹ یا گدھا یا بیل یا بکرا وغیرہ کی مادہ جانوروں سے جفتی کرانے کی اجرت لینا منع ہے، البتہ اگر بطور احسان و سلوک کے بلا شرط کے کچھ دے دے، تو اس کا لینا جائز ہے اور نر کا عاریتاً دینا مستحب ہے، اور علماء کی ایک جماعت نے اس کی اجرت کی بھی اجازت دی ہے تاکہ نسل ختم نہ ہو، لیکن اکثر صحابہ اور فقہاء ان احادیث کی رو سے اس کی حرمت کے قائل ہیں۔

【25】

کتے کی قیمت زنا کی اجرت نجومی کی اجرت اور سانڈ چھوڑنے کی اجرت سے ممانعت۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بلی کی قیمت سے منع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأشراف : ٢٧٨٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٤٩ (١٢٧٩) ، سنن النسائی/الصید ١٦ (٤٣٠٠) ، البیوع ٩٠ (٤٦٧٢) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٤ (٣٤٧٩) ، مسند احمد (٣/٣٣٩، ٣٤٩) (صحیح) (سند میں ابن لہیعہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ایسا ہی ابوالزبیر کی روایت کا معاملہ ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة : ٢٩٧١ ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ بلی بلا قیمت اکثر جگہوں پر مل جاتی ہے، اور اس کی نسل بھی بہت ہوتی ہے، قیمت سے خریدنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اکثر علماء کہتے ہیں کہ یہ نہی تنزیہی ہے (یعنی نہ خریدنا زیادہ اچھا ہے) ، ابوہریرہ (رض) اور تابعین کی ایک جماعت سے یہ مروی ہے کہ بلی کی قیمت کسی حال میں لینا جائز نہیں، اور اہل حدیث کا بھی یہی مذہب ہے۔

【26】

بچھنے لگانے والے کی کمائی۔

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پچھنا لگوایا، اور حجام (پچھنا لگانے والے) کو اس کی اجرت دی۔ ابن ماجہ کا قول ہے کہ ابن ابی عمر اس حدیث کی روایت میں منفرد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١١ (١٨٣٥) ، الصوم ٣٢ (١٩٣٨) ، الإجارة ١٨ (٢٢٧٨) ، الطب ٩ (٥٦٩١) ، صحیح مسلم/الحج ١١ (١٢٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٣٦ (١٨٣٥) ، سنن الترمذی/الحج ٢٢ (٨٣٩) ، سنن النسائی/الحج ٩٢ (٢٨٤٩) ، مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢١، ٢٢٢، ٢٣٦، ٢٤٨، ٢٤٩، ٢٦٠، ٢٨٣، ٢٨٦، ٢٩٢، ٣٠٦، ٣١٥، ٣٣٣، ٣٤٦، ٣٥١، ٣٧٢، ٣٧٤) ، سنن الدارمی/البیوع ٧٩ (٢٦٦٤) (صحیح )

【27】

بچھنے لگانے والے کی کمائی۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پچھنا لگوایا، اور مجھے حکم دیا تو میں نے حجام (پچھنا لگانے والے) کو اس کی اجرت دی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٨٤، ومصباح الزجاجة : ٧٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٠، ١٣٤، ١٣٥) (صحیح) (عبدالاعلی بن عامر متکلم فیہ راوی ہیں، لیکن باب کی احادیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【28】

بچھنے لگانے والے کی کمائی۔

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پچھنا لگوایا اور حجام (پچھنا لگانے والے) کو اس کی اجرت دی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٧١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطب ١٣ (٥٦٩٦) ، صحیح مسلم/المسا قاة ١١ (١٥٧٧) ، سنن ابی داود/البیوع ٣٩ (٣٤٢٤) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٨ (١٢٧٨) ، موطا امام مالک/الإستئذان ١٠ (٢٦) (صحیح )

【29】

بچھنے لگانے والے کی کمائی۔

ابومسعود عقبہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجام (پچھنا لگانے والے) کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠١١، ومصباح الزجاجة : ٧٦٧) (صحیح )

【30】

بچھنے لگانے والے کی کمائی۔

محیصہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے حجام (پچھنا لگانے والے) کی کمائی کے متعلق نبی اکرم ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے ان کو اس سے منع فرمایا، انہوں نے اس کی ضرورت بیان کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے پانی لانے والے اونٹوں کو اسے کھلا دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٩ (٣٤٢٢) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٧ (١٢٧٦، ١٢٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٣٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الإستئذان ١٠ (٢٨) ، مسند احمد (٥/٤٣٥، ٤٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: محیصہ بن مسعود (رض) کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پچھنا لگانے کی اجرت حرام ہے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ جب کہ انس اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی حدیثیں صحیحین میں موجود ہیں کہ آپ ﷺ نے ابو طیبہ کے ہاتھ سے پچھنا لگوایا اور اس کو گیہوں کے دو صاع (پانچ کلو) دیئے، واضح رہے کہ پچھنا لگانے والے کی اجرت کلی طور پر حرام نہیں ہے، بلکہ اس میں ایک نوع کی کراہت ہے، اور اس کا صرف کرنا اپنے کھانے پینے یا دوسروں کے کھلانے پلانے یا صدقہ میں مناسب نہیں بلکہ جانوروں کی خوراک میں صرف کرنا بہتر ہے جیسا کہ گذشتہ حدیث میں مذکور ہے، یا جو اس کی مثل ہو، جیسے چراغ کی روشنی یا پاخانہ کی مرمت میں، اور اس طریق سے دونوں کی حدیثیں مطابق ہوجاتی ہیں، اور تعارض نہیں رہتا۔ (ملاحظہ ہو : الروضہ الندیہ) ۔

【31】

جن چیزوں کو بیچناجائز ہے۔

عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال جب کہ آپ مکہ میں تھے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی خریدو فروخت کو حرام قرار دیا ہے، اس وقت آپ سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! مردار کی چربی کے بارے میں ہمیں بتائیے اس کا کیا حکم ہے ؟ اس سے کشتیوں اور کھالوں کو چکنا کیا جاتا ہے، اور اس سے لوگ چراغ جلاتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں (یہ بھی جائز نہیں) یہ سب چیزیں حرام ہیں ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ یہودیوں کو ہلاک کرے، اللہ تعالیٰ نے ان پر چربی حرام کی تو انہوں نے (حیلہ یہ کیا کہ) پگھلا کر اس کی شکل بدل دی، پھر اس کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١١٢ (٢٢٣٦) ، المغازي ٥١ (٤٢٩٦) ، سورة الأنعام ٦ (٤٦٣٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٣ (١٥٨١) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٦ (٣٤٨٦، ٣٤٨٧) ، سنن الترمذی/البیوع ٦١ (١٢٩٧) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٧ (٤٢٦١) ، البیوع ٩١ (٤٦٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٣٤، ٣٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ظاہر میں انہوں نے شرعی حیلہ کیا کہ چربی نہیں کھائی، لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ دلوں کی بات کو جانتا ہے، اور اس کے سامنے کوئی حیلہ نہیں چل سکتا، بلکہ کیا عجب ہے کہ حیلہ کرنے والے کو اصل گناہ کرنے والے سے زیادہ عذاب ہو، کیونکہ اصل گناہ کرنے والا نادم اور شرمسار ہوتا ہے، اور اپنے گناہ پر اپنے آپ کو قصوروار سمجھتا ہے، لیکن شرعی حیلے کرنے والے تو خوب غراتے اور گردن کی رگیں پھلاتے ہیں، اور بحث کرنے پر مستعد ہوتے ہیں کہ ہم نے کوئی گناہ کی بات نہیں کی، دوسری حدیث میں ہے کہ شراب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دس آدمیوں پر لعنت کی، نچوڑنے والے، نچڑوانے والے پر، پینے والے اور اٹھانے والے پر، جس کے لئے اٹھایا جائے، پلانے والے پر، بیچنے والے پر، اس کی قیمت کھانے والے پر، خریدنے والے پر، جس کے لئے خریدا اس پر، بڑے افسوس کی بات ہے کہ اکثر مسلم ممالک میں اعلانیہ شراب اور سور کے گوشت کی خریدوفروخت ہوتی ہے، اور اس سے بڑھ کر افسوس اس پر ہے کہ مسلمان خود شراب پیتے اور دوسروں کو پلاتے ہیں، اور اللہ اور رسول ﷺ سے نہیں شرماتے، اور یہ نہیں جانتے کہ شراب کا پلانے والا بھی ملعون ہے، جیسے پینے والا، اور شراب کا خریدنے والا بھی ملعون ہے، اور جس دستر خوان یا میز پر شراب پی جائے وہاں پر کھانا حرام ہے گو خود نہ پئے۔

【32】

جن چیزوں کو بیچناجائز ہے۔

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مغنیہ (گانے والی عورتوں) کی خریدو فروخت، ان کی کمائی اور ان کی قیمت کھانے سے منع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ١٥ (١٢٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٩٨) (حسن) (سند میں ابو المہلب ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٩٢٢ )

【33】

منابذہ اور ملامسہ سے ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو بیع سے منع کیا ہے : ایک بیع ملامسہ سے، دوسری بیع منابذہ سے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠ (٣٦٨) ، المواقیت ٣٠ (٥٨٤) ، الصوم ٦٧ (١٩٩٣) ، البیوع ٦٣ (٢١٤٦) ، اللباس ٢٠ (٥٨١٩) ، ٢١ (٥٨٢١) ، صحیح مسلم/البیوع ١ (١٥١١) ، سنن النسائی/البیوع ٢٤ (٤٥٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٦٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٦٩ (١٣١٠) ، موطا امام مالک/البیوع ٣٥ (٧٦) ، مسند احمد (٢/٢٧٩، ٣١٩، ٤١٩، ٤٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: منابذہ : یہ ہے کہ بائع (بیچنے والا) اپنا کپڑا مشتری (خریدنے والے) کی طرف پھینک دے، اور مشتری بائع کی طرف، اور ہر ایک یہ کہے کہ یہ کپڑا اس کپڑے کا بدل ہے، اور بعضوں نے کہا کہ منابذہ یہ ہے کہ کپڑا پھینکنے سے بیع پوری ہوجائے نہ اس چیز کو دیکھیں نہ راضی ہوں۔ ملامسہ : یہ ہے کہ کپڑے کو چھو لیں نہ اس کو کھولیں نہ اندر سے دیکھیں، یا رات کو صرف چھو کر بیچیں، ان دونوں بیعوں سے منع کیا، کیونکہ ان میں دھوکہ ہے اور یہ شرعاً فاسد ہے کہ دیکھنے پر کسی کو بیع کے فسخ کا اختیار نہ ہوگا۔ (الروضہ الندیہ) ۔

【34】

منابذہ اور ملامسہ سے ممانعت۔

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع ملامسہ و منابذہ سے منع کیا ہے۔ سہل نے اتنا مزید کہا ہے کہ سفیان نے کہا کہ ملامسہ یہ ہے کہ آدمی ایک چیز کو ہاتھ سے چھوئے اور اسے دیکھے نہیں، (اور بیع ہوجائے) اور منابذہ یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے سے کہے کہ جو تیرے پاس ہے میری طرف پھینک دے، اور جو میرے پاس ہے وہ میں تیری طرف پھینکتا ہوں (اور بیع ہوجائے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٢ (٢١٤٤) ، ٦٣ (٢١٤٧) ، اللباس ٢٠ (٥٨٢٠) ، الاستئذان ٤٢ (٦٢٨٤) ، صحیح مسلم/البیوع ١ (١٥١٢) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٤ (٤٥١٩) ، سنن النسائی/البیوع ٢٤ (٤٥٢٤) ، ٢٥ (٤٥٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٦، ٥٩، ٦٦، ٦٧، ٧١، ٩٥) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٨ (٢٦٠٤) (صحیح )

【35】

اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور بھائی کی قیمت پر قیمت نہ لگائے۔

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی کسی کے سودے پر سودہ نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٤٥ (٥١٤٢) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٢) ، البیوع ٨ (١٤١٢) ، سنن ابی داود/النکاح ١٨ (٢٠٨١) ، سنن النسائی/النکاح ٢٠ (٣٢٤٠) ، البیوع ١٨ (٤٥٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٥٧ (١١٣٤) ، موطا امام مالک/البیوع ٤٥ (٩٥) ، مسند احمد (٢/ ١٢٢، ١٢٤، ١٢٦، ١٣٠، ١٤٢، ١٥٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٣ (٢٦٠٩) (صحیح )

【36】

اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور بھائی کی قیمت پر قیمت نہ لگائے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودہ نہ کرے، اور نہ اپنے بھائی کے دام پر دام لگائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٨ (٢١٤٠) ، الشروط ٨ (٢٧٢٣) ، النکاح ٤٥ (٥١٤٢) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٢) ، سنن ابی داود/النکاح ١٨ (٢٠٨٠) ، سنن الترمذی/النکاح ٣٨ (١١٣٤) ، سنن النسائی/النکاح ٢٠ (٣٢٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ٤٥ (٩٦) ، مسند احمد (٢٠/٢٣٨، ٢٧٣، ٣١٨، ٣٩٤، ٤١١، ٤٢٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٧ (٢٢٢١) (صحیح )

【37】

نجش سے ممانعت۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بیع نجش سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٩ (٢١٤٢) ، الحیل ٦ (٦٩٦٣) ، صحیح مسلم/البیوع ٤ (١٥١٦) ، سنن النسائی/البیوع ١٩ (٤٥٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٨) ، وقدأخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ٤٥ (٩٧) ، مسند احمد (٢ /٧، ٤٢، ٦٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٣ (٢٦٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بیع نجش یہ ہے کہ آدمی بیچنے والے سے سازش کر کے مال کی قیمت بڑھا دے اور خریدنا منظور نہ ہو، تاکہ دوسرے خریدار دھوکہ کھائیں اور قیمت بڑھا کر اس مال کو خرید لیں، اس زمانہ میں نیلام میں اکثر لوگ ایسا کیا کرتے ہیں اور اس فعل کو گناہ نہیں سمجھتے، جب کہ یہ کام حرام اور ناجائز ہے، اور ایسی سازش کے نتیجے میں اگر خریدار اس مال کی اتنی قیمت دیدے جتنی حقیقت میں اس مال کی نہیں بنتی تو اس کو اختیار ہے کہ وہ اس بیع کو فسخ کر دے، اور سامان واپس کر کے اپنا پیسہ لے لے۔

【38】

نجش سے ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آپس میں بیع نجش نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث (رقم : ١٨٦٧، ٢١٧٢) (صحیح )

【39】

شہر والاباہروالے کا مال نہ بیچے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال نہ بیچے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث (رقم : ١٨٦٧، ٢١٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مثلاً باہر والا غلہ شہر لائے اور اس کی نیت یہ ہو کہ آج کے نرخ سے بیچ ڈالے اس میں شہر والوں کو فائدہ ہو، ان کو غلہ کی ضرورت ہو لیکن ایک شہر والا اس کو کہے کہ تم اپنا مال ابھی نہ بیچو، مجھ کو دے دو ، میں مہنگی قیمت سے بیچ دوں گا، تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے منع کیا کیونکہ اس میں عام لوگوں کا نقصان ہے گو صرف ایک شخص کا فائدہ ہے، مگر یہ قاعدہ ہے کہ ایک شخص کے فائدہ کے لئے عام نقصان جائز نہیں ہوسکتا۔

【40】

شہر والاباہروالے کا مال نہ بیچے۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال نہ بیچے، لوگوں کو چھوڑ دو ، (خود بیچیں) اللہ تعالیٰ بعض کو بعض سے روزی دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٦ (١٥٢٢) ، سنن الترمذی/البیوع ١٣ (١٢٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٦٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/البیوع ٤٥ (٣٤٣٦) ، مسند احمد ٣/٣٠٧) (صحیح )

【41】

شہر والاباہروالے کا مال نہ بیچے۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شہری کو دیہاتی کا مال بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے کہا : آپ ﷺ کے قول : حاضر لباد کا کیا مفہوم ہے ؟ تو انہوں نے کہا : بستی والا باہر والے کا دلال نہ بنے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٨ (٢١٥٨) ، ٧١ (٢١٦٣) ، الإجارة ١٤ (٢٢٧٤) ، صحیح مسلم/البیوع ٦ (١٥٢١) ، سنن ابی داود/البیوع ٤٧ (٣٤٣٩) ، سنن النسائی/البیوع ١٦ (٤٥٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٦٨) (صحیح )

【42】

باہر سے مال لانے والے سے شہر سے باہر جا کر ملنا منع ہے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : باہر سے آنے والے سامان تجارت کو بازار میں پہنچنے سے پہلے نہ لیا کرو، اگر کوئی اس طرح خریداری کرلے، تو بازار میں آنے کے بعد صاحب مال کو اختیار ہوگا، چاہے تو اس بیع کو باقی رکھے اور چاہے تو فسخ (منسوخ) کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٦٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٧١ (٢١٦٢) ، صحیح مسلم/البیوع ٥ (١٥١٩) ، سنن النسائی/البیوع ١٦ (٤٥٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٤، ٤٠٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٢ (٢٦٠٨) (صحیح )

【43】

باہر سے مال لانے والے سے شہر سے باہر جا کر ملنا منع ہے۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے باہر سے آنے والے سامان تجارت کو بازار میں پہنچنے سے پہلے آگے جا کر خرید لینے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأشراف : ٨٠٥٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٧١ (٢١٦٥) ، صحیح مسلم/البیوع ٥ (١٥١٨) ، سنن ابی داود/البیوع ٤٥ (٣٤٣٦) ، سنن النسائی/البیوع ١٦ (٤٥٠٣) ، مسند احمد (٢/٧، ٢٢، ٦٣، ٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تلقي جلب کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ باہر والوں کو شہر کا بھاؤ معلوم نہیں ہوتا، تو یہ شہری تاجر پہلے سے جا کر ان سے مل کر ان کا مال سستے دام سے خرید لیتا ہے، جب وہ شہر میں آتے ہیں اور دام معلوم کرتے ہیں تو ان کو افسوس ہوتا ہے، یہ اس لئے منع ہوا کہ اس میں باہر والے تاجروں کا نقصان ہے، اور شہر والوں کا بھی، باہر والوں کا تو ظاہر ہے، شہر والوں کا نقصان اس سے طرح کہ شاید وہ شہر میں آتے تو سستا بیچتے، اب اس شہر والے نے ان باہر سے آنے والوں کا مال لے لیا، جس کو وہ آہستہ آہستہ مہنگا کر کے بیچے گا۔

【44】

باہر سے مال لانے والے سے شہر سے باہر جا کر ملنا منع ہے۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے آگے جا کر ملنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٤ (٢١٤٩) ، صحیح مسلم/البیوع ٥ (١٥١٨) ، سنن الترمذی/البیوع ١٢ (١٢٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٣٠) (صحیح )

【45】

بیچنے اور خرید نے والے کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہو۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو آدمی ایک مجلس میں خریدو فروخت کریں، تو دونوں میں سے ہر ایک کو بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوجائیں، یا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو اختیار نہ دیدے، پھر اگر ایک نے دوسرے کو اختیار دے دیا پھر بھی ان دونوں نے بیع پکی کرلی تو بیع واجب ہوگئی، اس طرح بیع ہوجانے کے بعد اگر وہ دونوں مجلس سے جدا ہوگئے تب بھی بیع لازم ہوگئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٤٢ (٢١٠٧) ، ٤٣ (٢١٠٩) ، ٤٤ (٢١١١) ، ٤٥ (٢١١٢) ، ٤٦ (٢١١٣) ، صحیح مسلم/البیوع ١٠ (١٥٣١) ، سنن النسائی/البیوع ٨ (٤٤٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٧٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/البیوع ٥٣ (٣٤٥٤) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٦ (١٢٤٥) ، مسند احمد (٢/ ٤، ٩، ٥٢، ٥٤، ٧٣، ١١٩، ١٣٤، ١٣٥، ١٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جدا ہونے سے بدن کا جدا ہونا مراد ہے، اور اس حدیث کے راوی ابن عمر (رض) نے بھی یہی معنی سمجھا تھا، دوسری روایت میں ہے کہ ابن عمر (رض) جب کسی بیع کو پورا کرنا چاہتے تو عقد کے بعد چند قدم چلتے تاکہ بیع پکی ہوجائے، اور اگر تفرق اقوال مراد ہوتا یعنی ایجاب و قبول کا ہوجانا تو اس حدیث کا بیان کرنے کا کیا مقصد، اس لئے جب تک ایجاب و قبول نہ ہوں بیع تمام ہی نہیں ہوئی، تو وہ کیونکر نافذ ہوگی۔

【46】

بیچنے اور خرید نے والے کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہو۔

ابوبرزہ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بائع اور مشتری (بیچنے اور خریدنے والے) جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوجائیں دونوں کو (بیع کے منسوخ کرنے کا) اختیار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٥ (٣٤٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٢٥) (صحیح )

【47】

بیچنے اور خرید نے والے کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہو۔

سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو (بیع منسوخ کرنے کا) اختیار ہے، جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوجائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٨ (٤٤٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢، ١٧، ٢١، ٢٢) (صحیح) (حسن بصری نے سمرہ (رض) سے صرف حدیث عقیقہ سنی ہے، اس لئے سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【48】

بیع خیار کی شرط کرلینا۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک اعرابی (دیہاتی) سے ایک بوجھ چارا خریدا، پھر جب بیع مکمل ہوگئی، تو آپ نے اس سے فرمایا : تجھ کو اختیار ہے (بیع کو باقی رکھ یا منسوخ کر دے) تو دیہاتی نے کہا : اللہ آپ کی عمردراز کرے میں بیع کو باقی رکھتا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٢٧ (١٢٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٣٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: ایسی صورت میں جب طرفین بیع کو اختیار کرلیں تو خیار مجلس باقی نہ رہے گا، جیسے اوپر کی حدیث میں گزرا۔

【49】

بیع خیار کی شرط کرلینا۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیع بیچنے والے اور خریدنے والے کی باہمی رضا مندی سے منعقد ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠٧٦، ومصباح الزجاجة : ٧٦٨) (صحیح )

【50】

بائع ومشتری کا اختلاف ہوجائے تو؟

عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے اشعث بن قیس (رض) کے ہاتھ حکومت کے غلاموں میں سے ایک غلام بیچا، پھر دونوں میں قیمت کے بارے میں اختلاف ہوگیا، ابن مسعود (رض) کا کہنا تھا کہ میں نے آپ سے اسے بیس ہزار میں بیچا ہے، اور اشعث بن قیس (رض) نے کہا کہ میں نے اسے دس ہزار میں خریدا ہے، اس پر عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : اگر چاہیں تو میں ایک حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، اشعث (رض) نے کہا : بیان کریں، عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جب بیچنے والے اور خریدنے والے اختلاف کریں اور ان میں کسی کے پاس گواہ نہ ہوں، اور بیچی ہوئی چیز بعینہٖ موجود ہو تو بیچنے والے ہی کی بات معتبر ہوگی، یا دونوں بیع فسخ کردیں ، انہوں نے کہا : میں مناسب یہی سمجھتا ہوں کہ بیع فسخ کر دوں، چناچہ انہوں نے بیع فسخ کردی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٤ (٣٥١٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٥٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٤٣ (١٢٧٠) ، سنن النسائی/البیوع ٨٠ (٤٦٥٢) ، مسند احمد (١/٤٦٦) (صحیح) (نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٣٢٢ و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٧٨٩ )

【51】

جو چیز پاس نہ ہو اس کی بیع منع ہے اور جو چیز اپنی ضمان میں نہ ہو اس کا نفع منع ہے۔

حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! ایک آدمی مجھ سے ایک چیز خریدنا چاہتا ہے، اور وہ میرے پاس نہیں ہے، کیا میں اس کو بیچ دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کو نہ بیچو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٠ (٣٥٠٣) ، سنن الترمذی/البیوع ١٩ (١٢٣٢، ١٢٣٣) ، سنن النسائی/البیوع ٥٨ (٤٦١٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠٢، ٤٣٤) (صحیح )

【52】

جو چیز پاس نہ ہو اس کی بیع منع ہے اور جو چیز اپنی ضمان میں نہ ہو اس کا نفع منع ہے۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کا بیچنا جائز نہیں، اور نہ اس چیز کا نفع جائز ہے جس کے تم ضامن نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٠ (٣٥٠٤) ، سنن الترمذی/البیوع ١٩ (١٢٣٤) ، سنن النسائی/البیوع ٥٨ (٤٦١٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٤، ١٧٨، ٢٠٥) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٦ (٢٦٠٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر وہ چیز برباد ہوجائے تو تمہارا کچھ نقصان نہ ہو، ایسی چیز کا نفع اٹھانا بھی جائز نہیں، یہ شرع کا ایک عام مسئلہ ہے کہ نفع ہمیشہ ضمانت کے ساتھ ملتا ہے، جو شخص کسی چیز کا ضامن ہو وہی اس کے نفع کا مستحق ہے، اور اس کی مثال یہ ہے کہ ابھی خریدار نے بیع پر قبضہ نہیں کیا اور وہ چیز خریدنے والے کی ضمانت میں داخل نہیں ہوئی، اب خریدنے والا اگر اس کو قبضے سے پہلے کسی اور کے ہاتھ بیچ ڈالے اور نفع کمائے، تو بیع جائز اور صحیح نہیں ہے۔

【53】

جو چیز پاس نہ ہو اس کی بیع منع ہے اور جو چیز اپنی ضمان میں نہ ہو اس کا نفع منع ہے۔

عتاب بن اسید (رض) کہتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ نے ان کو مکہ بھیجا، تو اس چیز کے نفع سے منع کیا جس کے وہ ضامن نہ ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٧٤٩) (صحیح) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں، اور عطاء کی ملاقات عتاب (رض) سے نہیں ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٢١٢ )

【54】

جب دو با اختیار شخص بیع کریں تو وہ پہلے خریدار کی ہوگی۔

عقبہ بن عامر (رض) یا سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے ایک چیز دو آدمیوں کے ہاتھ بیچی، تو جس کے ہاتھ پہلے بیچی اس کو وہ چیز ملے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٢٢ (٢٠٨٨) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٠ (١١١٠) ، سنن النسائی/البیوع ٩٤ (٤٦٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٢، ٩٩١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨، ١١، ١٢، ١٨، ٢٢) ، سنن الدارمی/النکاح ١٥ (٢٢٣٩) (ضعیف) (سند میں حسن بصری ہیں، جن کا سماع سمرة (رض) سے صرف عقیقہ کی حدیث کا ہے، دوسری احادیث کا نہیں )

【55】

جب دو با اختیار شخص بیع کریں تو وہ پہلے خریدار کی ہوگی۔

سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو اختیار رکھنے والے ایک چیز کی بیع کریں تو جس نے پہلے بیع کی، اس کا اعتبار ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٢، ٩٩١٨) (ضعیف) (سند میں حسن بصری ہیں جن کا سماع سمرة (رض) سے صرف عقیقہ کی حدیث کا ہے، دوسری احادیث کا نہیں )

【56】

بیع میں بیعانہ کا حکم۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بیعانہ (عربان کی بیع) سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٦٩ (٣٥٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٢٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ١ (١) ، مسند احمد (٢/١٨٣) (ضعیف) (یہ بلاغات مالک میں سے ہے، عمرو بن شعیب سے روایت میں واسطہ کا ذکر نہیں ہے، اس لئے سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ ضعیف ہے )

【57】

بیع میں بیعانہ کا حکم۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (عربان کی بیع) سے منع فرمایا ہے۔ ابوعبداللہ (ابن ماجہ) کہتے ہیں کہ عربان : یہ ہے کہ آدمی ایک جانور سو دینار میں خریدے، اور بیچنے والے کو اس میں سے دو دینار بطور بیعانہ دیدے، اور کہے : اگر میں نے جانور نہیں لیا تو یہ دونوں دینار تمہارے ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا ہے واللہ اعلم : (عربان یہ ہے کہ) آدمی ایک چیز خریدے پھر بیچنے والے کو ایک درہم یا زیادہ یا کم دے، اور کہے اگر میں نے یہ چیز لے لی تو بہتر، ورنہ یہ درہم تمہارا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٢٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ١ (١) مسند احمد (٢/ ١٨٣) (ضعیف) (سند میں حبیب کاتب مالک اور عبد اللہ أسلمی دونوں ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: بیع عربون : یعنی بیع کے وقت خریدار کی طرف سے بیچنے والے کو دی جانے والی ایک مخصوص رقم جس سے بیچنے والا اپنے سامان کو خریدنے والے سے بیچنے کے بدلے لیتا ہے، اور اسے عرف عام میں بیعانہ کہتے ہیں، اس سے متعلق اس باب کی حدیث ضعیف ہے، علماء کے درمیان بیعانہ کی یہ شکل کہ اگر خریدار نے سامان نہیں خریدا تو بیعانہ کی دی ہوئی رقم بیچنے والے کی ہوجائے گی جس کو وہ خریدنے والے کو واپس نہیں کرے گا، مالک، شافعی اور ابوحنیفہ کے یہاں یہ ناجائز ہے، امام احمد اس بیع کی صحت کے قائل ہیں، ان کی دلیل عمر (رض) کی روایت ہے اور عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث ضعیف ہے، اور متفقہ طور پر صحیح قیاس کی دلیل کے اعتبار سے بھی یہ صحیح ہے کہ اگر خریدار سامان کو ناپسند کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ سامان کو واپس کر دے اور اس کے ساتھ کچھ دے دے، اس صورت پر قیاس کرتے ہوئے بیعانہ نہ واپس کرنے کی یہ صورت صحیح ہوگی، امام احمد کہتے ہیں کہ یہ بیعانہ اسی کے ہم معنی ہے۔ یہ واضح رہے کہ بیعانہ کی رقم بیچنے والے کو بلاعوض نہیں مل رہی ہے، اس لیے کہ یہاں پر فروخت شدہ چیز کے انتظار کے عوض میں یہ رقم رکھی گئی ہے، اور یہ سامان خریدار کے خریدنے تک ایسے ہی پڑا رہے گا، اور اس مدت میں دوسرے شخص سے بیع و فروخت کی بات نہ ہو سکے گی، مجمع الفقہ الإسلامی، مکہ مکرمہ نے محرم ( ١٤١٤ ) ہجری میں اس بیع کی بابت یہ قرارداد صادر کی ہے کہ اگر خریدنے والے نے بیچنے والے سے سامان نہیں خریدا تو بیعانہ کی رقم کا مالک بیچنے والا ہوجائے گا، مجلس نے اس بیع کے جواز کی بات اس صورت میں کہی ہے کہ انتظار کا زمانہ مقرر ہو، اور یہ کہ بیعانہ کی رقم بیع کے نافذ ہونے کی صورت میں قیمت کا ایک حصہ شمار ہوگی، اور اگر خریدنے والا سامان نہ خریدے تو یہ رقم بیچنے والے کا حق ہوگی۔ (ملاحظہ ہو : توضیح الأحکام من بلوغ المرام، تالیف شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن البسام، ٤ /٢٩٣ )

【58】

بیع حصاة اور بیع غرر سے ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع غرر اور بیع حصاۃ سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٢ (١٥١٣) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٥ (٣٣٧٦) ، سنن الترمذی/البیوع ١٧ (١٢٣٠) ، سنن النسائی/البیوع ٢٥ (٤٥٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٠، ٣٧٦، ٤٣٦) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٠ (٢٥٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بیع غرر : معدوم و مجہول چیز کی بیع ہے یا ایسی چیز کی بیع ہے جسے خریدنے والے کے حوالہ کرنے پر بیچنے والے کو قدرت نہ ہو، جیسے بھاگے ہوئے غلام کی بیع، فضا میں اڑتے ہوئے پرندے کی بیع، یا مچھلی کی بیع جو پانی میں ہو، اور دودھ کی بیع جو جانور کے تھن میں ہو وغیرہ وغیرہ۔ بیع حصاۃ کی تین صورتیں ہیں، ایک یہ کہ بیچنے والا یہ کہے کہ میں یہ کنکری پھینکتا ہوں جس چیز پر یہ گرے اسے میں نے تمہارے ہاتھ بیچ دیا، یا جہاں تک یہ کنکری جائے اتنی دور کا سامان میں نے بیچ دیا، دوسرے یہ کہ بیچنے والا یہ شرط لگائے کہ جب تک میں کنکری پھینکوں تجھے اختیار ہے اس کے بعد اختیار نہ ہوگا، تیسرے یہ کہ خود کنکری پھینکنا ہی بیع قرار پائے مثلاً یوں کہے کہ جب میں اس کپڑے پر کنکری ماروں تو یہ اتنے میں بک جائے گا۔

【59】

بیع حصاة اور بیع غرر سے ممانعت۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع غرر سے منع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٩٦٧) ، ومصباح الزجاجة : ٧٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٠٢) (صحیح) (سند میں ایوب بن عتبہ ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ ابوہریرہ (رض) کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【60】

جانوروں کا حمل خریدنا یا تھنوں میں جو دودھ ہے اسی حالت میں وہ خریدنا یا غوطہ خور کے ایک مرتبہ کے غوطہ میں جو بھی آئے (شکار کرنے سے قبل) اسے خریدنا منع ہے۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں کے پیٹ میں جو ہو اس کے خریدنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ جن دے، اور جو ان کے تھنوں میں ہے اس کے خریدنے سے بھی منع فرمایا ہے الا یہ کہ اسے دوھ کر اور ناپ کر خریدا جائے، اسی طرح بھاگے ہوئے غلام کو خریدنے سے، اور غنیمت (لوٹ) کا مال خریدنے سے بھی منع فرمایا یہاں تک کہ وہ تقسیم کردیا جائے اور صدقات کو خریدنے سے (منع کیا) یہاں تک کہ وہ قبضے میں آجائے، اور غوطہٰ خور کے غوطہٰ کو خریدنے سے (منع کیا) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ١٤ (١٥٦٣) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٤٠٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢) (ضعیف) (سند میں محمد بن ابراہیم باہلی مجہول راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٢٩٣ ) وضاحت : ١ ؎: غوطہ خور کے غوطہ کو خریدنے کی صورت یہ ہے کہ غوطہ خور خریدنے والے سے کہے کہ میں غوطہ لگا رہا ہوں اس بار جو کچھ میں نکالوں گا وہ اتنی قیمت میں تیرا ہوگا یہ تمام بیعیں اس لئے ناجائز ہیں کہ ان سب میں غرر (دھوکا) اور جہالت ہے۔

【61】

جانوروں کا حمل خریدنا یا تھنوں میں جو دودھ ہے اسی حالت میں وہ خریدنا یا غوطہ خور کے ایک مرتبہ کے غوطہ میں جو بھی آئے (شکار کرنے سے قبل) اسے خریدنا منع ہے۔

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٦٦ (٤٦٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٦٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٦١ (٢١٤٣) ، السلم ٧ (٢٢٥٦) ، مناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٤٣) ، صحیح مسلم/البیوع ٣ (١٥١٣) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٥ (٣٣٨٠) ، سنن الترمذی/البیوع ١٦ (١٢٢٩) ، /البیوع ٢٦ (٦٢) ، مسند احمد (١/٥٦، ٦٣، ١٠٨، ١٤٠، ١٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حمل کے حمل کو بیچنے کی صورت یہ ہے کہ کوئی کہے کہ میں تم سے اس حاملہ اونٹنی کے پیٹ کے بچہ کے بچہ کو اتنی قیمت میں بیچتا ہوں تو یہ بیع جائز نہیں کیونکہ یہ معدوم و مجہول کی بیع ہے۔

【62】

نیلامی کا بیان۔

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ انصار کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا، وہ آپ سے کوئی چیز چاہ رہا تھا، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے ؟ ، اس نے عرض کیا : جی ہاں ! ایک کمبل ہے جس کا ایک حصہ ہم اوڑھتے اور ایک حصہ بچھاتے ہیں، اور ایک پیالہ ہے جس سے ہم پانی پیتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ، وہ گیا، اور ان کو لے آیا، رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا پھر فرمایا : انہیں کون خریدتا ہے ؟ ایک شخص بولا : میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : ایک درہم پر کون بڑھاتا ہے ؟ یہ جملہ آپ ﷺ نے دو یا تین بار فرمایا، ایک شخص بولا : میں انہیں دو درہم میں لیتا ہوں، چناچہ آپ ﷺ نے یہ دونوں چیزیں اس شخص کے ہاتھ بیچ دیں، پھر دونوں درہم انصاری کو دئیے اور فرمایا : ایک درہم کا اناج خرید کر اپنے گھر والوں کو دے دو ، اور دوسرے کا ایک کلہاڑا خرید کر میرے پاس لاؤ، اس نے ایسا ہی کیا، رسول اللہ ﷺ نے اس کلہاڑے کو لیا، اور اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لکڑی جما دی اور فرمایا : جاؤ اور لکڑیاں کاٹ کر لاؤ (اور بیچو) اور پندرہ دن تک میرے پاس نہ آؤ، چناچہ وہ لکڑیاں کاٹ کر لانے لگا اور بیچنے لگا، پھر وہ آپ کے پاس آیا، اور اس وقت اس کے پاس دس درہم تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : کچھ کا غلہ خرید لو، اور کچھ کا کپڑا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ تم قیامت کے دن اس حالت میں آؤ کہ سوال کرنے کی وجہ سے تمہارے چہرے پر داغ ہو، یاد رکھو سوال کرنا صرف اس شخص کے لیے درست ہے جو انتہائی درجہ کا محتاج ہو، یا سخت قرض دار ہو یا تکلیف دہ خون بہا کی ادائیگی میں گرفتار ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٦ (١٦٤١) ، سنن الترمذی/البیوع ١٠ (١٢١٨) ، سنن النسائی/البیوع ٢٠ (٤٥١٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٠، ١١٤، ١٢٦) (ضعیف) (سند میں ابوبکر حنفی مجہول راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٢٨٩) ۔ وضاحت : ١ ؎: انتہائی درجے کی محتاجی یہ ہے کہ ایک دن اور ایک رات کی خواک اس کے پاس کھانے کے لئے نہ ہو، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ بہ قدر نصاب اس کے پاس مال نہ ہو۔ سخت قرض داری یہ ہے کہ قرضہ اس کے مال سے زیادہ ہو۔ تکلیف دہ خون کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو قتل کیا ہو، اور مقتول کے وارث دیت پر راضی ہوگئے ہوں لیکن اس کے پاس رقم نہ ہو کہ دیت ادا کرسکے، مقتول کے وارث اس کو ستا رہے ہوں اور دیت کا تقاضا کر رہے ہوں تو ایسے شخص کے لئے سوال کرنا جائز ہے۔

【63】

بیع فسخ کرنے کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کے اقالے کو مان لے (یعنی اس کے ساتھ بیع کے فسخ پر راضی ہوجائے) تو اللہ تعالیٰ (اس احسان کے بدلہ میں) قیامت کے دن اس کے گناہوں کو مٹا دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٥٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/البیوع ٥٤ (٣٤٦٠) ، مسند احمد (٢/٢٥٢) (صحیح )

【64】

نرخ مقرر کرنا مکروہ (منع) ہے۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایک دفعہ قیمتیں چڑھ گئیں، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے لیے ایک نرخ (بھاؤ) مقرر کر دیجئیے ! آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے، کبھی کم کردیتا ہے اور کبھی زیادہ کردیتا ہے، وہی روزی دینے والا ہے، اور مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ کوئی مجھ سے جان یا مال میں کسی ظلم کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٥١ (٣٤٥١) ، سنن الترمذی/البیوع ٧٣ (١٣١٤) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨، ٦١٤، ١١٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٥٦) ، سنن الدارمی/البیوع ١٣ (٢٥٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نہ مالی نہ جانی کسی طرح کا ظلم میں نے کسی پر نہ کیا ہو، حدیث میں اشارہ ہے کہ نرخ مقرر کرنا یعنی قیمتوں پر کنٹرول کرنا بیوپاریوں پر اور غلہ کے تاجروں پر ایک مالی ظلم ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس سے بچنے کی آرزو کی۔

【65】

نرخ مقرر کرنا مکروہ (منع) ہے۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں مہنگائی بڑھ گئی، تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر آپ نرخ مقرر کردیں تو اچھا رہے گا ! آپ ﷺ نے فرمایا : میری خواہش ہے کہ میں تم سے اس حال میں جدا ہوں کہ کوئی مجھ سے کسی زیادتی کا جو میں نے اس پر کی ہو مطالبہ کرنے والا نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٨، ومصباح الزجاجة : ٧٧٤) ، مسند احمد (٣/٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھ گئی تھیں شاید اس کا سبب قحط سالی اور بارش کا نہ برسنا تھا، یا مدینہ اور شام کے درمیان راستے کا خراب ہونا جہاں سے مدینہ منورہ کو غلہ آتا تھا، لوگوں نے رسول اکرم ﷺ سے قیمتوں اور منافع پر کنٹرول کی گزارش کی تو نبی کریم ﷺ نے اس معاملے کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹا دیا کہ وہی رزاق ہے اور اسی کے ہاتھ میں روزی کو کم اور زیادہ کرنا ہے، رسول اکرم ﷺ نے نرخ پر کنٹرول اس خیال سے نہ کیا کہ اس سے خواہ مخواہ کہیں لوگ ظلم و زیادتی کا شکار نہ ہوجائیں، لیکن حاکم وقت لوگوں کی خدمت کے لیے عادلانہ اور منصفانہ نرخ پر کنٹرول کا اقدام کرسکتا ہے، عام مصلحت کے پیش نظر علماء اسلام نے اس کی اجازت دی ہے، امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ نرخ کے کنٹرول میں بعض چیزیں حرام کے قبیل سے ہیں، اور بعض چیزیں انصاف پر مبنی اور جائز ہیں، قیمتوں پر کنٹرول سے اگر لوگ ظلم کا شکار ہوں یا ناحق ان کو ایسی بیع پر مجبور کیا جائے، جو ان کے یہاں غیر پسندیدہ ہو یا ان کو مباح چیزوں سے روکنے والی ہو تو ایسا کنٹرول حرام ہے، اور لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کا ضامن کنٹرول جیسے لوگوں کو اس بات پر مجبور کرنا کہ وہ وہی قیمت لیں جس کے وہ حقیقی طور پر حقدار ہیں، اور ان کو اس حقیقی قیمت سے زیادہ لینے سے روک دے جو ان کے لیے لینا حرام ہے، تو ایسا کنٹرول جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے، خلاصہ کلام یہ کہ اگر لوگوں کی مصلحتیں قیمتوں پر کنٹرول کے بغیر نہ پوری ہو رہی ہوں تو منصفانہ طور پر ان کی قیمتوں کی تحدید کر دینی چاہیے اور اگر اس کی ضرورت نہ ہو اور اس کے بغیر کام چل رہا ہو تو قیمتوں پر کنٹرول نہ کرے۔ علامہ محمد بن ابراہیم آل الشیخ مفتی اکبر سعودی عرب فرماتے ہیں کہ ہم پر جو چیز واضح ہوئی اور جس پر ہمارے دلوں کو اطمینان ہے وہ وہی ہے جسے ابن القیم نے ذکر فرمایا ہے کہ قیمتوں کی تحدید میں سے بعض چیزیں ظلم ہیں، اور بعض چیزیں عدل و انصاف کے عین مطابق تو دوسری صورت جائز ہے، قیمتوں پر کنٹرول سے اگر لوگ ظلم کا شکار ہو رہے ہوں یا ناحق انہیں ایسی قیمت پر مجبور ہونا پڑے جس پر وہ راضی نہیں ہیں، یا اس سے وہ اللہ کی مباح کی ہوئی چیزوں سے روکے جا رہے ہوں تو ایسا کرنا حرام ہے، اور اگر قیمتوں پر کنٹرول سے لوگوں کے درمیان عدل کا تقاضا پورا ہو رہا ہے کہ حقیقی قیمت اور واجبی معاوضہ لینے پر ان کو مجبور کیا جا رہا ہو یا اس تدبیر سے ان کو اصلی قیمت سے زیادہ لینے سے روکا جا رہا ہو جس کا لینا ان کے لیے حرام ہے، تو یہ جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے، پس قیمتوں پر کنٹرول دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے، پہلی شرط یہ ہے کہ ایسی چیزوں کی قیمتوں پر کنٹرول ہو جن کے محتاج سارے لوگ ہوں، دوسری شرط یہ ہے کہ مہنگائی کا سبب بازار میں سامان کا کم ہونا ہے یا طلب کا زیادہ ہونا، تو جس چیز میں یہ دونوں شرطیں پائی جائیں اس میں قیمتوں کی تحدید عدل و انصاف اور عام مصلحتوں کی رعایت کے قبیل سے ہے، جیسے گوشت، روٹی اور دواؤں وغیرہ کی قیمتوں پر کنٹرول۔ مجمع الفقہ الإسلامی مکہ مکرمہ نے تاجروں کے منافع کے کنٹرول سے متعلق ( ١٤٠٩ ) ہجری کی ایک قرارداد میں یہ طے کیا کہ حاکم صرف اس وقت مارکیٹ اور چیزوں کے بھاؤ کے سلسلے میں دخل اندازی کرے جب مصنوعی اسباب کی وجہ سے ان چیزوں میں واضح خلل پائے، تو ایسی صورت میں حاکم کو چاہیے کہ وہ ممکنہ عادلانہ وسائل اختیار کر کے اس مسئلے میں دخل اندازی کرے اور بگاڑ، مہنگائی اور غبن فاحش کے اسباب کا خاتمہ کرے۔ (ملاحظہ ہو : توضیح الأحکام من بلوغ المرام، تالیف عبداللہ بن عبدالرحمن البسام، ٤ /٣٢٩ )

【66】

خرید و فروخت میں نرمی سے کام لینا۔

عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں لے جائے جو نرمی کرنے والا ہو، خواہ بیچ رہا ہو یا خرید رہا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ١٠٢ (٤٧٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٥٨، ٦٧، ٧٠) (حسن) (سند میں عطاء بن فروخ اور عثمان بن عفان (رض) کے مابین انقطاع ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١١٨٨ )

【67】

خرید و فروخت میں نرمی سے کام لینا۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم کرے، جو نرمی کرے جب بیچے، نرمی کرے جب خریدے، اور نرمی کرے جب تقاضا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٦ (٢٠٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٨٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٧٦ (١٣٢٠) (صحیح )

【68】

نرخ لگانا۔

قیلہ ام بنی انمار (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی تو آپ ﷺ اپنے کسی عمرہ کے موقع پر مروہ پہاڑی کے پاس تھے، میں نے عرض کیا کہ میں ایک خریدو فروخت کرنے والی عورت ہوں، جب میں کوئی چیز خریدنا چاہتی ہوں تو پہلے اس کی قیمت اس سے کم لگاتی ہوں، جتنے میں خریدنا چاہتی ہوں، پھر تھوڑا تھوڑا بڑھاتی ہوں یہاں تک کہ اس قیمت تک پہنچ جاتی ہوں جو میں چاہتی ہوں، اور جب میں کسی چیز کو بیچنا چاہتی ہوں تو اس کی قیمت اس سے زیادہ لگاتی ہوں، جتنے میں بیچنا چاہتی ہوں، پھر تھوڑا تھوڑا کم کرتی ہوں یہاں تک کہ اس قیمت کو پہنچ جاتی ہوں جتنے میں اسے میں دینا چاہتی ہوں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیلہ ! ایسا نہ کرو جب تم کوئی چیز خریدنا چاہو تو وہی قیمت لگاؤ جو تمہارے پیش نظر ہو چاہے وہ چیز دی جائے یا نہ دی جائے، اور جب تم کوئی چیز بیچنا چاہو تو وہی قیمت کہو جو تمہارے پیش نظر ہے، چاہے تم دے سکو یا نہ دے سکو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٤٨، ومصباح الزجاجة : ٧٧٦) (ضعیف) (عبد اللہ بن عثمان اور قیلة (رض) کے درمیان انقطاع ہے نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢١٥٦ )

【69】

نرخ لگانا۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھا آپ نے مجھ سے فرمایا : کیا تم اپنے اس پانی ڈھونے والے اونٹ کو ایک دینار میں بیچتے ہو ؟ اور اللہ تمہیں بخشے میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جب میں مدینہ پہنچ جاؤں، تو آپ ہی کا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا دو دینار میں بیچتے ہو ؟ اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے جابر (رض) کہتے ہیں کہ پھر آپ اسی طرح ایک ایک دینار بڑھاتے گئے اور ہر دینار پر فرماتے رہے : اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے ! یہاں تک کہ بیس دینار تک پہنچ گئے، پھر جب میں مدینہ آیا تو اونٹ پکڑے ہوئے اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا : بلال ! انہیں مال غنیمت میں سے بیس دینار دے دو اور مجھ سے فرمایا : اپنا اونٹ بھی لے جاؤ، اور اسے اپنے گھر والوں میں پہنچا دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشروط ٤ (٢٧١٨) تعلیقا، ً صحیح مسلم/الرضاع ١٦ (٧١٥) ، سنن النسائی/البیوع ٧٥ (٤٦٤٥) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٠ (١٢٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٣١٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث سے یہ معلوم ہو کہ بھاؤ تاؤ کرنا درست اور جائز ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر بیچنے والا ایک جانور کو بیچے اور کسی مقام تک اس پر سواری کرنے کی شرط کرلے تو جائز ہے، بعض روایتوں میں ہے کہ جابر (رض) جب لوٹ کر اپنے گھر آئے اور گھر والوں سے اونٹ کے بیچنے کا ذکر کیا تو انہوں نے جابر (رض) کو ملامت کی کہ گھر کے کاموں کے لئے ایک ہی اونٹ تھا اس کو بھی بیچ ڈالا، لیکن جابر (رض) نے ان کی بات کا خیال نہ کیا، اور اپنے وعدے کے مطابق اونٹ کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے آئے، آپ نے بیس دینار دیئے اور اونٹ بھی، اور فرمایا کہ اونٹ اپنے گھر لے جاؤ، شاید وحی سے آپ کو یہ حال معلوم ہوگیا ہو کہ گھر والے اس خریدو فروخت کے حق میں نہیں ہیں اور شاید محض حسن اخلاق ہو۔

【70】

نرخ لگانا۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج نکلنے سے پہلے مول بھاؤ کرنے سے، اور دودھ والے جانور کو ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٦، ومصباح الزجاجة : ٧٧٧) (ضعیف) (سند میں ربیع بن حبیب منکر الحدیث اور نوفل مستور راوی ہیں، لیکن دوسرا جملہ کے ہم معنی صحیح مسلم میں موجود ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے کہ دودھ سے زیادہ فائدہ ہے، ہمیشہ غذا ملے گی اور گوشت اس کا دو تین روز ہی کام آئے گا، البتہ اگر دودھ والا جانور بوڑھا ہوگیا اور اس کا دودھ بند ہوگیا ہو تو ذبح کرنے میں مضائقہ نہیں۔

【71】

خرید و فروخت میں قسمیں اٹھانے کی کراہت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں سے اس قدر ناراض ہوگا کہ نہ تو ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ہی انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا : ایک وہ شخص جس کے پاس چٹیل میدان میں ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور وہ اسے مسافر کو نہ دے، دوسرے وہ شخص جو اپنا مال نماز عصر کے بعد بیچے اور اللہ کی قسم کھائے کہ اسے اس نے اتنے اتنے میں خریدا ہے، اور خریدار اسے سچا جانے حالانکہ وہ اس کے برعکس تھا، تیسرے وہ شخص جس نے کسی امام سے بیعت کی، اور اس نے صرف دنیا کے لیے بیعت کی، اگر اس نے اس کو کچھ دیا تو بیعت پوری کی، اور اگر نہیں دیا تو نہیں پوری کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٦ (١٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المساقاة ١٠ (٢٣٦٩) ، الشہادات ٢٢ (٢٦٧٢) ، الأحکام ٤٨ (٧٢١٢) ، التوحید ٢٤ (٧٤٤٦) ، سنن الترمذی/السیر ٣٥ (١٥٩٥) ، سنن النسائی/البیوع ٥ (٤٤٦٣) ، مسند احمد (٢/٢٥٣، ٤٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بلکہ امام کے مخالف ہو بیٹھا، اور اس کے خلاف بغاوت کی، جھوٹی قسم کھانا ہر وقت گناہ ہے، لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عصر کے بعد اور بھی سخت گناہ ہے۔

【72】

خرید و فروخت میں قسمیں اٹھانے کی کراہت۔

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ کون لوگ ہیں ؟ وہ نامراد ہوئے اور بڑے نقصان میں پڑے، آپ ﷺ نے فرمایا : جو اپنا تہمد (لنگی) ٹخنے سے نیچے لٹکائے، اور جو دے کر احسان جتائے، اور جو اپنے سامان کو جھوٹی قسم کے ذریعہ رواج دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٦ (١٠٦) ، سنن ابی داود/اللباس ٢٨ (٤٠٨٧) ، سنن الترمذی/البیوع ٥ (١٢١١) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٩ (٢٥٦٤) ، البیوع ٥ (٤٤٦٣) ، الزینة من المجتبیٰ ٥٠ (٥٣٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٨، ١٥٨، ١٦٢، ١٦٨، ١٧٨) ، سنن الدارمی/البیوع ٦٣ (٢٦٤٧) (صحیح )

【73】

خرید و فروخت میں قسمیں اٹھانے کی کراہت۔

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیع (خریدو فروخت) میں قسمیں کھانے سے بچو، کیونکہ اس سے گرم بازاری تو ہوجاتی ہے اور برکت جاتی رہتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢٧ (١٦٠٧) ، سنن النسائی/البیوع ٥ (٤٤٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٩٧، ٢٩٨، ٣٠١) (صحیح )

【74】

پیوند کیا ہوا کھجور کا درخت یا مال والا غلام بیچنا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کوئی تابیر (قلم) کئے ہوئے کھجور کا درخت خریدے، تو اس میں لگنے والا پھل بیچنے والے کا ہوگا، الا یہ کہ خریدار خود پھل لینے کی شرط طے کرلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٩٠ (٢٢٠٣) ، ٩٢ (٢٢٠٦) ، المساقاة ١٧ (٢٣٧٩) ، الشروط ٢ (٢٧١٦) ، صحیح مسلم/البیوع ١٥ (١٥٤٣) ، سنن النسائی/البیوع ٧٤ (٤٦٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٣٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/البیوع ٤٤ (٣٤٣٣، ٣٤٣٤) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٥ (١٢٤٤) ، موطا امام مالک/البیوع ٧ (١٠) ، مسند احمد (٢/٤، ٥، ٩، ٦٢) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٧ (٢٦٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تأبیر کے معنی قلم کرنا یعنی نر کھجور کے گابھے کو مادہ میں رکھنا، جب قلم لگاتے ہیں تو درخت میں کھجور ضرور پیدا ہوتی ہے، لہذا قلم کے بعد جو درخت بیچا جائے وہ اس کا پھل بیچنے والے کو ملے گا۔ البتہ اگر خریدنے والا شرط طے کرلے کہ پھل میں لوں گا تو شرط کے موافق خریدار کو ملے گا، بعضوں نے کہا کہ یہ حکم اس وقت ہے جب درخت میں پھل نکل آیا ہو تو وہ خریدنے والے ہی کا ہوگا۔ اس سند سے بھی ابن عمر (رض) سے اسی طرح مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٩٢ (٢٢٠٦) ، صحیح مسلم/البیوع ١٥ (١٥٤٣) ، سنن النسائی/البیوع ٧٣ (٤٦٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٧٤) (صحیح )

【75】

پیوند کیا ہوا کھجور کا درخت یا مال والا غلام بیچنا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص تابیر (قلم) کئے ہوئے کھجور کا درخت بیچے تو اس میں لگنے والا پھل بیچنے والے کا ہوگا، سوائے اس کے کہ خریدنے والا خود لینے کی شرط طے کرلے، اور جو شخص کوئی غلام بیچے اور اس غلام کے پاس مال ہو تو وہ مال اس کا ہوگا، جس نے اس کو بیچا ہے سوائے اس کے کہ خریدنے والا شرط طے کرلے کہ اسے میں لوں گا، ، ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث محمد بن رمح تقدم بمثل الحدیث المتقدم (٢٢١٠) ، وحدیث ہشام بن عمار أخرجہ : صحیح مسلم/البیوع ١٥ (١٥٤٣) ، سنن ابی داود/البیوع ٤٤ (٣٤٣٣) ، سنن النسائی/البیوع ٧٤ (٤٦٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دوسرے مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، اختلاف ان کپڑوں میں ہے جو بکتے وقت غلام لونڈی کے بدن پر ہوں، بعضوں نے کہا : وہ بھی بیچنے والا لے لے گا، بعض نے کہا : صرف عورت کا ستر بیع میں داخل ہوگا۔

【76】

پیوند کیا ہوا کھجور کا درخت یا مال والا غلام بیچنا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کوئی کھجور کا درخت بیچے، اور کوئی غلام بیچے تو وہ ان دونوں کو اکٹھا بیچ سکتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٢/٧٨) (صحیح )

【77】

پیوند کیا ہوا کھجور کا درخت یا مال والا غلام بیچنا۔

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ کھجور کے درخت کا پھل اس شخص کا ہوگا جس نے اس کی تابیر (پیوندکاری) کی، سوائے اس کے کہ خریدنے والا خود لینے کی شرط طے کرلے، اور جس نے کوئی غلام بیچا اور اس غلام کے پاس مال ہو تو غلام کا مال اس کا ہوگا جس نے اس کو بیچا، سوائے اس کے کہ خریدنے والا شرط طے کرلے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٦٢، ومصباح الزجاجة : ٧٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٢٦، ٣٢٧) (صحیح) (سند میں اسحاق بن یحییٰ مجہول راوی ہیں، اور عبادہ (رض) سے ملاقات بھی نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【78】

پھل قابل استعمال ہونے قبل بیچنے سے ممانعت۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پختگی ظاہر ہونے سے پہلے پھلوں کو نہ بیچو، آپ نے اس سے بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کو منع کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٢٦ (٤٥٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٠٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٨ (١٤٨٦) ، البیوع ٨٢ (٢١٨٣) ، ٨٥ (٢١٩٤) ، ٨٧ (٢١٩٩) ، صحیح مسلم/البیوع ١٣ (١٥٣٤) ، ١٤ (١٥٣٤) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٣ (٣٣٦٧) ، سنن الترمذی/البیوع ١٥ (١٢٢٦) ، موطا امام مالک/البیوع ٨ (١٠) ، مسند احمد (٢/٧، ٨، ١٦، ٤٦، ٥٦، ٥٩، ٦١، ٨٠، ١٣٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٢١ (٢٥٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی درخت پر جو پھل لگے ہوں ان کا بیچنا اس وقت تک جائز نہیں، جب تک کہ وہ پھل استعمال کے قابل نہ ہوجائیں، موجودہ دور میں کئی سالوں کے لئے باغات بیچ لیے جاتے ہیں جب کہ نہ پھول کا پتہ ہے نہ پھل کا، یہ بالکل حرام ہے، مسلمانوں کو اس طرح کی تجارت سے بچنا چاہیے اور حدیث کے مطابق جب پھل قابل استعمال ہو تب بیچنا چاہیے۔

【79】

پھل قابل استعمال ہونے قبل بیچنے سے ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پھلوں کو ان کی پختگی ظاہر ہونے سے پہلے نہ بیچو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٣ (١٥٣٨) ، سنن النسائی/البیوع ٢٦ (٤٥٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٦٢، ٣٦٣) (صحیح )

【80】

پھل قابل استعمال ہونے قبل بیچنے سے ممانعت۔

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پھلوں کو ان کی پختگی ظاہر ہوجانے سے پہلے بیچنے سے منع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٨٣ (٢١٨٩) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٣ (٣٣٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٥٤) (صحیح )

【81】

پھل قابل استعمال ہونے قبل بیچنے سے ممانعت۔

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پھل کی بیع سے منع کیا ہے یہاں تک کہ وہ پکنے کے قریب ہوجائے، اور انگور کی بیع سے منع کیا ہے یہاں تک کہ وہ سیاہ ہوجائے، اور غلے کی بیع سے (بھی منع کیا ہے) یہاں تک کہ وہ سخت ہوجائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٢٣ (٣٣٧١) ، سنن الترمذی/٢١ (١٢٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٦١٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٨ (١٤٨٨) ، البیوع ٨٥ (٢١٩٥) ، ٨٧ (٢١٩٨) ، ٩٣ (٢٢٠٨) ، صحیح مسلم/المساقاة ٣ (١٥٥٥) ، سنن النسائی/البیوع ٢٧ (٤٥٣٠) ، موطا امام مالک/البیوع ٨ (١١) ، مسند احمد (٣/١١٥، ٣٠ ٤٥، ٢٢١، ٢٥٠) (صحیح )

【82】

کئی برس کیلئے میوہ بیچنا اور آفت کا بیان۔

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کئی سال کے لیے (پھلوں کی) بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ١٧ (١٥٣٦) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٤ (٣٣٧٤) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢٤ (٦٥٥) ، سنن النسائی/البیوع ٢٩ (٤٥٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦، ٣٠٩) (صحیح )

【83】

کئی برس کیلئے میوہ بیچنا اور آفت کا بیان۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے پھل بیچا، پھر اس کو کوئی آفت لاحق ہوئی، تو وہ اپنے بھائی (خریدار) کے مال سے کچھ نہ لے، آخر کس چیز کے بدلہ تم میں سے کوئی اپنے مسلمان بھائی کا مال لے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٣ (١٥٥٤) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٠ (٣٤٧٠) ، سنن النسائی/البیوع ٢٨ (٤٥٣١) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٩٨) ، وقد أ خرجہ : سنن الدارمی/البیوع ٢٢ (٢٥٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اہل حدیث اور امام احمد نے اسی حدیث پر عمل کیا ہے، اور کہا ہے کہ پھلوں پر اگر ایسی آفت آجائے کہ سارا پھل برباد ہوجائے تو ساری قیمت بیچنے والے سے خریدنے والے کو واپس دلائی جائے گی اگرچہ یہ آفت خریدنے والے کا قبضہ ہوجانے کے بعد آئے۔

【84】

جھکتا تولنا۔

سوید بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ میں اور مخرفہ عبدی (رض) دونوں ہجر سے کپڑا لائے، تو رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، آپ نے ہم سے پاجاموں کا مول بھاؤ کیا، ہمارے پاس ایک تولنے والا تھا جو اجرت لے کر تولتا تھا، نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا : او تولنے والے ! تولو اور پلڑا جھکا کر تولو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧ (٣٣٣٦، ٣٣٣٧) ، سنن الترمذی/البیوع ٦٦ (١٣٠٥) ، سنن النسائی/البیوع ٥٢ (٤٥٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٨١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٢) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٧ (٢٦٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ہجر : ایک مقام کا نام ہے، جو سعودی عرب کے مشروقی زون کے شہر احساء میں ہے۔

【85】

جھکتا تولنا۔

سماک بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے مالک ابوصفوان بن عمیرہ (رض) کو کہتے سنا کہ ہجرت سے پہلے میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ ایک پاجامہ بیچا، آپ نے مجھے قیمت تول کردی، اور جھکا کردی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان حدیثوں سے معلوم ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے پائجامہ قیمتاً خریدا، اور ظاہر یہ ہے کہ پہننے کے لئے خریدا، لیکن کسی صحیح حدیث سے صراحۃ یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے پائجامہ پہنا، اور جس روایت میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے پائجامہ پہنا، اس کو لوگوں نے موضوع کہا ہے۔ (انجاح الحاجۃ) ۔

【86】

جھکتا تولنا۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تولو تو جھکا کر تولو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٥٨٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢١ (٧١٥) (صحیح )

【87】

ناپ تول میں احتیاط۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو مدینہ والے ناپ تول میں سب سے برے تھے، اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : ويل للمطففين خرابی ہے کم تولنے والوں کے لیے الخ اتاری اس کے بعد وہ ٹھیک ٹھیک ناپنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٢٧٥، ومصباح الزجاجة : ٧٨٠) (حسن )

【88】

ملاوٹ سے ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو گیہوں (غلہ) بیچ رہا تھا، آپ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو وہ مغشوش (غیر خالص اور دھوکے والا گڑبڑ) تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : جو دھوکہ فریب دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٥٢ (٣٤٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٣ (١٠٢) ، سنن الترمذی/البیوع ٧٤ (١٣١٥) ، مسند احمد (٢/٢٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مغشوش: یعنی غیر خالص اور دھوکے والا یعنی گیہوں اندر سے گیلا تھا۔

【89】

ملاوٹ سے ممانعت۔

ابوالحمراء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ ایک شخص کے پاس سے گزرے جس کے پاس ایک برتن میں گیہوں تھا تو آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ اس گیہوں میں ڈالا پھر فرمایا : شاید تم نے دھوکا دیا ہے، جو ہمیں دھوکا دے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٨٩، ومصباح الزجاجة : ٧٨١) (ضعیف جدا) (سند میں ابوداؤد نفیع بن الحارث الاعمی متروک الحدیث راوی ہیں، امام+بخاری نے ابوالحمراء کے ترجمہ میں کہا کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ صحابی ہیں، ان کی حدیث صحیح نہیں ہے، یعنی ابوداؤد الاعمی کے متروک الحدیث ہونے کی وجہ سے، نیز ملاحظہ ہو : تہذیب الکمال للمزی ٣٣ / ٢٥٨) ۔

【90】

اناج کے اپنے قبضہ میں آنے سے قبل آگے بیچنے سے ممانعت۔

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو اناج خریدے تو اس پر قبضہ سے پہلے اسے نہ بیچے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥١ (٢١٢٦) ، ٥٤ (٢١٣٥) ، ٥٥ (٢١٣٦) ، صحیح مسلم/البیوع ٧ (١٥٢٦) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٧ (٣٤٩٢) ، سنن النسائی/البیوع ٥٣ (٤٥٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ١٩ (٤٠) ، مسند احمد (١/٥٦، ٦٣، ٢/٣٢، ٥٩، ٦٤، ٧٣، ١٠٨، ١١١، ١١٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٦ (٢٦٠٢) (صحیح )

【91】

اناج کے اپنے قبضہ میں آنے سے قبل آگے بیچنے سے ممانعت۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو گیہوں خریدے تو اس پر قبضہ کے پہلے اس کو نہ بیچے ۔ ابوعوانہ اپنی حدیث میں کہتے ہیں : ابن عباس (رض) نے کہا : میں ہر چیز کو گیہوں ہی کی طرح سمجھتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٤ (٢١٣٢) ، ٥٥ (٢١٣٥) ، صحیح مسلم/البیوع ٨ (١٥٢٥) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٧ (٣٤٩٧) ، سنن الترمذی/البیوع ٥٦ (١٢٩١) ، سنن النسائی/البیوع ٥٣ (٤٦٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٦ ٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥، ٢١، ٢٥١، ٢٧٠، ٢٨٥، ٣٥٦، ٣٥٧، ٣٦٨، ٣٦٩) (صحیح )

【92】

اناج کے اپنے قبضہ میں آنے سے قبل آگے بیچنے سے ممانعت۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اناج کو بیچنے سے منع کیا ہے جب تک اس میں بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کے صاع نہ چلیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٩٤١، ومصباح الزجاجة : ٧٨٢) (حسن) (سند میں محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: بیچنے والے اور خریدنے والے کے صاع (یعنی پیمانہ) چلنے کا مطلب یہ ہے کہ بیچنے والے نے خریدتے وقت اپنے صاع سے اس کو ماپا، اور خریدنے والا جب خریدے تو اس وقت ماپے، جب ماپ لے تو اب دوسرے کے ہاتھ بیچ سکتا ہے۔

【93】

اندازے سے ڈھیر کی خرید و فروخت۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ سواروں سے گیہوں (غلہ) کا ڈھیر بغیر ناپے تولے اندازے سے خریدتے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کے بیچنے سے اس وقت تک منع کیا جب تک کہ ہم اسے اس کی جگہ سے منتقل نہ کردیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٨ (١٥٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٥٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/ البیوع ٥٤ (٢١٣١) ، ٥٦ (٢١٣٧) ، ٧٢ (٢١٦٦) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٧ (٣٤٩٣) ، سنن النسائی/البیوع ٥٥ (٤٦٠٩) ، موطا امام مالک/البیوع ١٩ (٤٢) مسند احمد (٢/٧، ١٥، ٢١، ٤٠، ٥٣، ١٤٢، ١٥٠، ١٥٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٥ (٢٦٠١) (صحیح )

【94】

اندازے سے ڈھیر کی خرید و فروخت۔

عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ میں بازار میں کھجور بیچتا تھا، تو میں (خریدار سے) کہتا : میں نے اپنے اس ٹوکرے میں اتنا ناپ رکھا ہے، چناچہ اسی حساب سے میں کھجور کے ٹوکرے دے دیتا، اور جو زائد ہوتا نکال لیا کرتا تھا، پھر مجھے اس میں کچھ شبہ معلوم ہوا، تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم کہو کہ اس میں اتنے صاع ہیں تو اس کو خریدنے والے کے سامنے ناپ دیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٨٠٧، ومصباح الزجاجة : ٧٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٦٢، ٧٥) صحیح) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٣٣١ )

【95】

اناج ماپنے میں برکت کی توقع۔

عبداللہ بن بسر مازنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اپنا اناج ناپ لیا کرو، اس میں تمہارے لیے برکت ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٠٣، ومصباح الزجاجة : ٧٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣١) (صحیح )

【96】

اناج ماپنے میں برکت کی توقع۔

ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنا اناج ناپ لیا کرو، اس میں تمہارے لیے برکت ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٤٩٠، ومصباح الزجاجة : ٧٨٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٢ (٢١٢٨) ، مسند احمد (٤/١٣١، ٥/٤١٤) (صحیح) (اس سند میں بقیہ بن الولید مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن حدیث متابعت اور شواہد کی وجہ سے صحیح ہے )

【97】

بازار اور ان میں جانا۔

ابواسید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نبی ط کے بازار تشریف لے گئے، اس کو دیکھا تو آپ نے فرمایا : یہ بازار تمہارے لیے نہیں ہے پھر ایک دوسرے بازار میں تشریف لے گئے، اور اس کو دیکھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ بازار بھی تمہارے لیے نہیں ہے، پھر اس بازار میں پلٹے اور اس میں ادھر ادھر پھرے، پھر فرمایا : یہ تمہارا بازار ہے، اس میں نہ مال کم دیا جائے گا اور نہ اس میں کوئی محصول (ٹیکس) عائد کیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١١٩٩، ومصباح الزجاجة : ٧٨٦) (ضعیف) (سند میں اسحاق بن ابراہیم، محمد و علی اور زبیر بن منذر سب ضعیف ہیں )

【98】

بازار اور ان میں جانا۔

سلمان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو صبح سویرے نماز فجر کے لیے گیا، وہ ایمان کا جھنڈا لے کر گیا، اور جو صبح سویرے بازار گیا وہ ابلیس کا جھنڈا لے کر گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٠٤، ومصباح الزجاجة : ٧٨٧) (ضعیف جدا) (سند میں عیسیٰ بن میمون منکر الحدیث اور متروک راوی ہے )

【99】

بازار اور ان میں جانا۔

عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص بازار میں داخل ہوتے وقت دعا یہ پڑھے : لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير كله وهو على كل شيء قدير اکیلے اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے حکمرانی ہے، اور اسی کے لیے ہر طرح کی حمد وثناء ہے، وہی زندگی، اور موت دیتا ہے، اور وہ زندہ ہے، اس کے لیے موت نہیں، اسی کے ہاتھ میں سارا خیر ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھے گا، اور اس کی دس لاکھ برائیاں مٹا دے گا، اور اس کے لیے جنت میں ایک گھر تعمیر کرے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٣٦ (٣٤٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٨٧، ١٠٥٢٨) ، وقد أخرجہ : (١/٤٧) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٥٧ (٢٧٣٤) (حسن) (سند میں عمرو بن دینار ضعیف راوی ہیں لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: بازار میں اس دعا کا ثواب اس واسطے زیادہ ہوا کہ بازار دنیا میں مشغول ہونے اور اللہ سے غفلت کی جگہ ہے تو اس جگہ اللہ کو یاد رکھنا بڑے جواں مردوں کا کام ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ (سورہ النور : 37) دوسری روایت میں ہے کہ شیطان بازار میں اپنی کرسی بچھاتا ہے اور لوگوں کو بھڑکاتا ہے، تو وہاں اللہ کی یاد گویا شیطان کو ذلیل کرنا ہے۔

【100】

صبح کے وقت میں متوقع برکت۔

صخر غامدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! میری امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما اور جب آپ ﷺ کو کوئی سریہ یا لشکر روانہ کرنا ہوتا تو اسے دن کے ابتدائی حصہ ہی میں روانہ فرماتے ١ ؎۔ راوی کہتے ہیں : غامدی صخر تاجر تھے، وہ اپنا مال تجارت صبح سویرے ہی بھیجتے تھے بالآخر وہ مالدار ہوگئے، اور ان کی دولت بڑھ گئی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجھاد ٨٥ (٢٦٠٦) ، سنن الترمذی/البیوع ٦ (١٢١٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٦، ٤١٧، ٤٣٢، ٤/٣٨٤، ٣٩٠) ، سنن الدارمی/السیر ١ (٢٤٧٩) (صحیح) (حدیث کا پہلا ٹکڑا اللَّهُمَّ بَارِكْ لأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، اور سند میں عمارہ بن حدید کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے، جو مجاہیل کی توثیق کرتے ہیں، اور ابن حجر نے مجہول کہا ہے، حدیث کے دوسرے ٹکڑے کو البانی صاحب نے سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ( ٤١٧٨ ) میں شاہد نہ ملنے کی وجہ سے ضعیف کہا ہے، جب کہ سنن ابی داود میں پوری حدیث کو صحیح کہا ہے، لیکن سنن ابن ماجہ میں تفصیل بیان کردی ہے، نیز اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے) ۔ وضاحت : ١ ؎: سویرے سے مراد یہ ہے کہ صبح کی نماز کے بعد شروع دن میں کرے، یہ وقت برکت کا ہے، جو کام اس وقت کرے گا امید ہے کہ اس میں برکت ہوگی۔

【101】

صبح کے وقت میں متوقع برکت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! میری امت کو جمعرات کی صبح کے وقت میں برکت عطا فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٩١، ومصباح الزجاجة : ٧٨٨) (ضعیف) (ابومروان بعض منکر احادیث روایت کرنے کی وجہ سے ضعیف راوی ہیں، نیز عبدالرحمٰن بن أبی الزناد مضطرب الحدیث ہیں، يَوْمَ الْخَمِيسِ کی زیادتی اس حدیث میں منکر ہے، جس کی زیادتی ضعیف راوی نے کی ہے )

【102】

صبح کے وقت میں متوقع برکت۔

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! میری امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف : ٧٧٥٤) (صحیح) (سند میں عبد الرحمن بن أبی بکر ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے )

【103】

مصراة کی بیع۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے مصّرا ۃ خریدی تو اسے تین دن تک اختیار ہے، چاہے تو واپس کر دے، چاہے تو رکھے، اگر واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی واپس کرے ، سمراء (یعنی گیہوں) کا واپس کرنا ضروری نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٦٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٤ (٢١٤٩) ، ٦٥ (٢١٥١) ، نحوہ دون ثلاثة أیام ، صحیح مسلم/البیوع ٧ (١٥٢٥) ، سنن ابی داود/البیوع ٤٨ (٣٤٤٤) ، سنن النسائی/البیوع ١٢ (٤٤٩٤) ، حصحیح مسلم/٢٤٨، ٣٩٤، ٤٦٠، ٤٦٥، سنن الدارمی/البیوع ١٩ (٢٥٩٥) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٣٣٧ ، ثَلاثَةَ أَيَّامٍ تین دن کی تحدید ثابت نہیں ہے وضاحت : ١ ؎: مصرا ۃ : ایسی بکری یا دودھ والا جانور جس کا دودھ ایک یا دو یا تین دن تک نہ دوہا جائے تاکہ دودھ تھن میں جمع ہوجائے اور خریدار دھوکہ کھا کر زیادہ قیمت میں اس جانور کو اس دھوکہ میں خرید لے کہ یہ بہت دودھ دینے والا جانور ہے۔

【104】

مصراة کی بیع۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! اگر کوئی محفَلہ (مصّرا ۃ ) کو بیچے تو اسے تین دن تک اختیار ہے، اگر وہ اسے واپس کر دے تو اس کے دودھ کے دوگنا یا برابر گیہوں اس کو دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٤٨ (٣٤٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٧٥) (ضعیف) (سند میں جمیع بن عمیر ضعیف راوی ہیں )

【105】

مصراة کی بیع۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں صادق و مصدوق ابوالقاسم ﷺ پر گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے ہم سے بیان کیا، اور فرمایا : محفّلات کا بیچنا فریب اور دھوکہ ہے، اور مسلمان کو دھوکہ دینا حلال اور جائز نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٥٨٣، ومصباح الزجاجة : ٧٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٣٠، ٤٣٣) (ضعیف) (سند میں جابر جعفی ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: محفّلات: جمع ہے محفلہ کی یعنی ایسے جانور جن کو کئی دنوں تک دوہا نہ گیا ہو، اور دودھ ان کے تھنوں میں جمع رہے۔

【106】

نفع ضمان کیساتھ مربوط ہے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ غلام کی کمائی اس کی ہے، جو اس کا ضامن ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٣ (٣٥٠٨، ٣٥٠٩) ، سنن الترمذی/البیوع ٥٣ (١٢٨٥) ، سنن النسائی/البیوع ١٣ (٤٤٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ٤٩، ٢٠٨، ٢٣٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اس مسئلہ کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص نے ایک غلام خریدا، وہ کئی دن تک اس کے پاس رہا، پھر عیب کی وجہ سے یا شرط خیار کی بناء پر اس کو واپس کردیا، تو جتنے دن وہ غلام خریدار کے پاس رہا اتنے دن کی کمائی خریدار ہی کی ہوگی، اس لئے کہ خریدار ہی ان دنوں میں اس کا ضامن تھا، اگر وہ غلام خریدار کے پاس ہلاک ہوجاتا تو اسی کا نقصان ہوتا، بیچنے والے کا نقصان نہ ہوتا۔

【107】

نفع ضمان کیساتھ مربوط ہے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک غلام خریدا، پھر اس سے مزدوری کرائی، بعد میں اسے اس میں کوئی عیب نظر آیا، اسے بیچنے والے کو واپس کردیا، بیچنے والے نے کہا : اللہ کے رسول ! اس نے میرے غلام سے مزدوری کرائی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ فائدہ اسے ضمانت کی وجہ سے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٣ (٣٥١٠) ، سنن الترمذی/البیوع ٥٣ (١٢٨٦ تعلیقاً ) ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨٠، ١١٦) (حسن) (سند میں مسلمہ بن خالد زنجی ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٣١٥ ) وضاحت : ١ ؎: تو وہ اجرت خریدنے والے ہی کا حق ہے، اس لئے کہ وہ اس غلام کا ضامن تھا اگر وہ غلام اس کے پاس مرجاتا تو کیا اس کو قیمت واپس کردیتا۔

【108】

غلام کو واپس کرنے کا اختیار۔

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیچنے والے پر غلام یا لونڈی کو واپس لینے کی ذمہ داری تین دن تک ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف : ٤٦٠٨، ومصباح الزجاجة : ٧٩٠) (ضعیف) (حسن بصری نے یہ حدیث سمرہ بن جندب (رض) سے نہیں سنی ہے، کیونکہ حدیث عقیقہ کے علاوہ کسی دوسری حدیث کا سماع ان سے صحیح نہیں ہے )

【109】

غلام کو واپس کرنے کا اختیار۔

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چار دن کے بعد بیچنے والا ذمہ دار نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٢ (٣٥٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٩١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٣، ١٥٠، ١٥٢) ، سنن الدارمی/البیوع ١٨ (٢٥٩٤) (ضعیف) (سند میں ہشیم مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے )

【110】

معیوب چیز بیچتے وقت عیب ظاہر کردینا۔

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی ایسی چیز بیچے جس میں عیب ہو، مگر یہ کہ وہ اس کو اس سے بیان کر دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عیب بیان کردینے کے بعد خریدار اس مال کو خریدے تو اس کو پھیرنے کا اختیار نہ ہوگا، اگر عیب نہ بیان کرے تو اختیار ہوگا، جب عیب معلوم ہو تو اس کو پھیر دے۔

【111】

معیوب چیز بیچتے وقت عیب ظاہر کردینا۔

واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو کوئی عیب دار چیز بیچے اور اس کے عیب کو بیان نہ کرے، تو وہ برابر اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہے گا، اور فرشتے اس پر برابر لعنت کرتے رہیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ما جة، (تحفة الأشراف : ١١٧٤٠، ١١٧٥٢، ومصباح الزجاجة : ٧٩٢) (ضعیف جدا) (سند میں کئی ضعیف راوی ہیں )

【112】

(رشتہ دار) قیدیوں میں تفریق سے ممانعت۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس جب قیدی (جو آپس میں قریبی عزیز ہوتے) لائے جاتے، تو آپ ان سب کو ایک گھر کے لوگوں کو دے دیتے، اس لیے کہ آپ ان کے درمیان جدائی ڈالنے کو ناپسند فرماتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٣٦٩، ومصباح الزجاجة : ٧٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٩) (ضعیف) (سند میں جابر جعفی ضعیف راوی ہے )

【113】

(رشتہ دار) قیدیوں میں تفریق سے ممانعت۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے دو غلام ہبہ کئے جو دونوں سگے بھائی تھے، میں نے ان میں سے ایک کو بیچ دیا، تو آپ ﷺ نے پوچھا : دونوں غلام کہاں گئے ؟ میں نے عرض کیا : میں نے ایک کو بیچ دیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو واپس لے لو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٥٢ (١٢٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٠٢) (ضعیف) (سند میں حجاج بن أرطاہ ضعیف راوی ہیں، لیکن یہ مختصراً ابوداود میں صحیح ہے )

【114】

(رشتہ دار) قیدیوں میں تفریق سے ممانعت۔

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو ماں بیٹے، اور بھائی بھائی کے درمیان جدائی ڈال دے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف : ٩١٠٤، ومصباح الزجاجة : ٧٩٥) (ضعیف) (سند میں ابراہیم بن اسماعیل ضعیف راوی ہیں )

【115】

غلام کو خرید لینا۔

عبدالمجید بن وہب کہتے ہیں کہ مجھ سے عداء بن خالد بن ہوذہ (رض) نے کہا : کیا میں تم کو وہ تحریر پڑھ کر نہ سناؤں جو رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے لکھی تھی ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ؟ ضرور سنائیں، تو انہوں نے ایک تحریر نکالی، میں نے جو دیکھا تو اس میں لکھا تھا : یہ وہ ہے جو عداء بن خالد بن ہوذہ نے محمد ﷺ سے خریدا، عداء نے آپ سے ایک غلام یا ایک لونڈی خریدی، اس میں نہ تو کوئی بیماری ہے، نہ وہ چوری کا مال ہے، اور نہ وہ مال حرام ہے، مسلمان سے مسلمان کی بیع ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٩ (٢٠٧٨ تعلیقاً ) ، سنن الترمذی/ البیوع ٨ (١٢١٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٤٨) (حسن )

【116】

غلام کو خرید لینا۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی لونڈی خریدے تو کہے : اللهم إني أسألک خيرها وخير ما جبلتها عليه وأعوذ بک من شرها وشر ما جبلتها عليه اے اللہ ! میں تجھ سے اس کی بھلائی کا طالب ہوں، اور اس چیز کی بھلائی کا جو تو نے اس کی خلقت میں رکھی ہے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس کی برائی سے، اور اس چیز کی برائی سے جو تو نے اس کی خلقت میں رکھی ہے اور برکت کی دعا کرے، اور جب کوئی اونٹ خریدے تو اس کے کوہان کے اوپر کا حصہ پکڑ کر برکت کی دعا کرے، اور ایسا ہی کہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٤٦ (٢١٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٩٩) (حسن )

【117】

بیع صرف اور ان چیزوں کا بیان جنہیں نقد بھی کم وبیش بیچنا درست نہیں۔

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سونے کو سونے سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد، اور گیہوں کو گیہوں سے اور جو کو جو سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد، اور کھجور کا کھجور سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٤ (٢١٣٤) ، ٧٤ (٢١٧٠) ، ٧٦ (٢١٧٤) ، صحیح مسلم/البیوع ٣٧ (١٥٨٦) ، سنن ابی داود/البیوع ١٢ (٣٣٤٨) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٤ (١٢٤٣) ، سنن النسائی/البیوع ٣٩ (٤٥٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٣٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ١٧ (٣٨) ، مسند احمد (١/ ٢٤، ٢٥، ٤٥) ، سنن الدارمی/البیوع ٤١ (٢٦٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت میں چار ہی چیزوں کا ذکر ہے، لیکن ابوسعید کی روایت میں جو صحیحین میں وارد ہے، دو چیزوں چاندی اور نمک کا اضافہ ہے، اس طرح ان چھ چیزوں میں تفاضل (کمی بیشی) اور نسیئہ (ادھار) جائز نہیں ہے، اگر ایک ہاتھ سے دے اور دوسرے ہاتھ سے لے تو درست ہے، اور اگر ایک طرف سے بھی ادھار ہو تو یہ سود ہوجائے گا۔

【118】

بیع صرف اور ان چیزوں کا بیان جنہیں نقد بھی کم وبیش بیچنا درست نہیں۔

مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عبید سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت اور معاویہ (رض) دونوں کسی کلیسا یا گرجا میں اکٹھا ہوئے، تو عبادہ بن صامت (رض) نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں چاندی کو چاندی سے، اور سونے کو سونے سے، اور گیہوں کو گیہوں سے، اور جو کو جو سے، اور کھجور کو کھجور سے بیچنے سے منع کیا ہے۔ (مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عبید ان دونوں میں سے ایک نے کہا ہے : اور نمک کو نمک سے اور دوسرے نے اس کا ذکر نہیں کیا ہے) اور ہم کو حکم دیا ہے کہ ہم گیہوں کو جو سے اور جو کو گیہوں سے نقدا نقد (برابر یا کم و بیش) جس طرح چاہیں بیچیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٤١ (٤٥٦٤) ، ٤٢ (٤٥٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٥١١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٢٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٤١ (٢٦٢١) (صحیح )

【119】

بیع صرف اور ان چیزوں کا بیان جنہیں نقد بھی کم وبیش بیچنا درست نہیں۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چاندی کو چاندی سے، اور سونے کو سونے سے، اور جو کو جو سے اور گیہوں کو گیہوں سے برابر برابر بیچیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٥ (١٥٨٨) ، سنن النسائی/البیوع ٤٤ (٤٥٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٢٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ١٢ (٢٠) ، مسند احمد (٢/٢٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان میں تفاضل (کمی بیشی) درست نہیں ہے۔

【120】

بیع صرف اور ان چیزوں کا بیان جنہیں نقد بھی کم وبیش بیچنا درست نہیں۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمیں مختلف قسم کی مخلوط کھجوریں کھانے کو دیتے تھے، تو ہم انہیں عمدہ کھجور سے بدل لیتے تھے، اور اپنی کھجور بدلہ میں زیادہ دیتے تھے، تو رسول ﷺ نے فرمایا : ایک صاع کھجور کو دو صاع کھجور سے اور ایک درہم کو دو درہم سے بیچنا درست نہیں، درہم کو درہم سے، اور دینار کو دینار سے، برابر برابر وزن کر کے بیچو، ان میں کمی بیشی جائز نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٢٠ (٢٠٨٠) ، صحیح مسلم/البیوع ٣٩ (١٥٨٨) ، سنن النسائی/البیوع ٣٩ (٤٥٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٢٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ١٢ (٢١) ، مسند احمد (٣/٤٩، ٥٠، ٥١) (حسن صحیح )

【121】

ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ سود ادھار ہی میں ہے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) کو کہتے سنا کہ درہم کو درہم سے، اور دینار کو دینار سے برابر برابر بیچنا چاہیئے، تو میں نے ان سے کہا کہ میں نے ابن عباس (رض) کو کچھ اور کہتے سنا ہے، ابوسعید (رض) کہتے ہیں : تو میں ابن عباس (رض) سے جا کر ملا، اور میں نے ان سے کہا : آپ بیع صرف کے متعلق جو کہتے ہیں مجھے بتائیے، کیا آپ نے کچھ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ کتاب اللہ (قرآن) میں اس سلسلہ میں آپ کو کوئی چیز ملی ہے ؟ اس پر وہ بولے : نہ تو میں نے اس کو کتاب اللہ (قرآن) میں پایا ہے، اور نہ میں نے رسول اللہ ﷺ ہی سے سنا ہے، البتہ مجھے اسامہ بن زید (رض) نے بتایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : سود صرف ادھار میں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٩ (٢١٧٨، ٢١٧٩) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٨ (١٥٩٦) ، سنن النسائی/البیوع ٤٨ (٤٥٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٤) ، مسند احمد (٥/٢٠٠، ٢٠٢، ٢٠٤، ٢٠٦، ٢٠٩) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٢ (٢٦٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اہل حدیث اور جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ ان چھ چیزوں میں جن کا ذکر حدیث میں ہے، جب ہر ایک اپنی جنس کے بدلے بیچی جائے تو اس میں کم و بیش، اسی طرح ایک طرف نسیئہ یعنی میعاد ہونا، دونوں منع ہیں، اور دونوں سود ہیں، اور جب ان میں سے کوئی دوسری جنس کے بدل بیچی جائے جیسے چاندی سونے کے بدلے، یا گیہوں جو کے بدلے، تو کمی و بیشی جائز ہے، لیکن نسیئہ حرام ہے۔

【122】

ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ سود ادھار ہی میں ہے۔

ابوالجوزاء کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس (رض) کو بیع صرف کے جواز کا حکم دیتے سنا، اور لوگ ان سے یہ حدیث روایت کرتے تھے، پھر مجھے یہ خبر پہنچی کہ انہوں نے اس سے رجوع کرلیا ہے، تو میں ان سے مکہ میں ملا، اور میں نے کہا : مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس سے رجوع کرلیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں، وہ میری رائے تھی، اور یہ ابوسعید (رض) ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے بیع صرف سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٨، ٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بیع صرف : جب مال برابر نہ ہو یا نقدا نقد نہ ہو، تو وہ بیع صرف کہلاتا ہے، ابن عباس (رض) حدیث سنتے ہی اپنی رائے سے پھرگئے، اور رائے کو ترک کردیا، اور حدیث پر عمل کرلیا، لیکن ہمارے زمانے کے نام نہاد مسلمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی نہیں کرتے، اور ایک حدیث کیا بہت ساری احادیث سن کر بھی اپنے مجتہد کا قول ترک نہیں کرتے، حالانکہ ان کا مجتہد کبھی خطا کرتا ہے کبھی صواب۔

【123】

سونے کو چاندی کے بدلہ فروخت کرنا۔

عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سونے کو چاندی سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد ۔ ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ میں نے سفیان بن عیینہ کو کہتے سنا : یاد رکھو کہ سونے کو چاندی سے یعنی باوجود اختلاف جنس کے ادھار بیچنا ربا (سود) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٢٥٣) (صحیح )

【124】

سونے کو چاندی کے بدلہ فروخت کرنا۔

مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ میں یہ کہتے ہوئے آیا کہ کون درہم کی بیع صرف کرتا ہے ؟ یہ سن کر طلحہ بن عبیداللہ (رض) بولے، اور وہ عمر بن خطاب (رض) کے پاس بیٹھے تھے : لاؤ مجھے اپنا سونا دکھاؤ، اور دے جاؤ، پھر ذرا ٹھہر کے آنا، جب ہمارا خزانچی آجائے گا تو ہم تمہیں درہم دے دیں گے، اس پر عمر (رض) نے کہا : ہرگز نہیں، اللہ کی قسم ! یا تو اس کی چاندی دے دو ، یا اس کا سونا اسے لوٹا دو ، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : چاندی کو سونے سے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٢٥٣) (صحیح )

【125】

سونے کو چاندی کے بدلہ فروخت کرنا۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دینار کو دینار سے، اور درہم کو درہم سے بیچو ان میں کمی بیشی نہ ہو، اور جس کو چاندی کی حاجت ہو تو وہ اس کو سونے سے بھنا لے، اور جس کو سونے کی حاجت ہو اس کو چاندی سے بھنا لے، لیکن یہ نقدا نقد ہو، ایک ہاتھ سے لے دوسرے ہاتھ سے دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٧١، ومصباح الزجاجة : ٧٩٦) (صحیح )

【126】

چاندی کے عوض سونا اور سونے کے عوض چاندی لینا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں اونٹ بیچا کرتا تھا، تو میں چاندی (جو قیمت میں ٹھہرتی) کے بدلے سونا لے لیتا، اور سونا (جو قیمت میں ٹھہرتا) کے بدلے چاندی لے لیتا، اور دینار درہم کے بدلے، اور درہم دینار کے بدلے لے لیتا تھا، پھر میں نے نبی اکرم ﷺ سے اس سلسلے میں پوچھا کہ ایسا کرنا کیسا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم دونوں میں سے ایک لے لو اور دوسرا دیدے تو اپنے ساتھی سے اس وقت تک جدا نہ ہو جب تک کہ حساب صاف نہ ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ١٤ (٣٣٥٤، ٣٣٥٥) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٤ (١٢٤٢) ، سنن النسائی/البیوع ٤٨ (٤٥٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٣، ٥٩، ٨٩، ١٠١، ١٣٩، ١٥٤) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٣ (٢٦٢٣) (ضعیف) (سماک بن حرب کے حفظ میں آخری عمر میں تبدیلی واقع ہوگئی تھی، اور کبھی رایوں کی تلقین قبول کرلیتے تھے اس لئے ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٣٢ ) اس سند سے بھی ابن عمر (رض) سے اسی طرح مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف )

【127】

دراہم اور اشرفیاں توڑنے سے ممانعت۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بغیر ضرورت مسلمانوں کے رائج سکہ کو توڑنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٥٠ ( ٣٤٤٩ ) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٧٣ ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٣ /٤١٩) (ضعیف) (سند میں محمد بن فضاء ضعیف اور ان کے والد مجہول ہیں )

【128】

تازہ کھجور چھوہارے کے عوض بیچنا۔

بنی زہرۃ کے غلام زید ابوعیاش کہتے ہیں کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے پوچھا : سالم جَو کو چھلکا اتارے ہوئے جَو کے بدلے خریدنا کیسا ہے ؟ سعد (رض) نے ان سے کہا : دونوں میں سے کون بہتر ہے ؟ کہا : سالم جو، تو سعد (رض) نے مجھے اس سے روکا، اور کہا : رسول اللہ ﷺ سے جب تر کھجور کو خشک کھجور سے بیچنے کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے آپ ﷺ کو فرماتے سنا : کیا تر کھجور سوکھ جانے کے بعد (وزن میں) کم ہوجاتی ہے ؟ لوگوں نے کہا : ہاں، تو آپ ﷺ نے اس سے منع کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ١٨ (٣٣٥٩، ٣٣٦٠) ، سنن الترمذی/البیوع ١٤ (١٢٢٥) ، سنن النسائی/البیوع ٣٤ (٤٥٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٥٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ١٢ (٢٢) ، مسند احمد (١/١٧٥، ١٧٩) (صحیح )

【129】

مزابنہ اور محاقلہ۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مزابنہ سے منع فرمایا، مزابنہ یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ کی کھجور کو جو درختوں پر ہو خشک کھجور کے بدلے ناپ کر بیچے، یا انگور کو جو بیل پر ہو کشمش کے بدلے ناپ کر بیچے، اور اگر کھیتی ہو تو کھیت میں کھڑی فصل سوکھے ہوئے اناج کے بدلے ناپ کر بیچے آپ ﷺ نے ان سب سے منع کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٥ (٢١٧١) ، ٨٢ (٢١٨٥) ، صحیح مسلم/البیوع ١٤ (١٥٤٢) ، سنن النسائی/البیوع ٣٠ (٤٥٣٧) ، ٣٧ (٤٥٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٧٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/البیوع ١٩ (٣٣٦١) موطا امام مالک/البیوع ١٣ (٢٣) ، مسند احمد (٢/٥، ٧، ١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور یہ آخری صورت محاقلہ کہلاتی ہے، بیع محاقلہ : یہ ہے کہ گیہوں کا کھیت گیہوں کے بدلے بیچے، یا چاول کا کھیت چاول کے بدلے، غرض اپنی جنس کے ساتھ، اور یہ اس لئے منع ہوا کیونکہ اس میں کمی بیشی کا احتمال ہے۔

【130】

مزابنہ اور محاقلہ۔

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٨٣ (٢١٨٩) ، المساقاة ١٧ (٢٣٨٠) ، صحیح مسلم/البیوع ١٦ (١٥٣٦) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٤ (٣٣٧٥) ، ٣٤ (٣٤٠٤) ، سنن الترمذی/البیوع ٥٥ (١٢٩٠) ، ٧٢ (١٣١٣) ، سنن النسائی/الأیمان والنذور ٤٥ (٣٩١٠) ، البیوع ٧٢ (٤٦٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٦١، ٢٦٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٣، ٣٥٦، ٣٦٤، ٣٩١، ٣٩٢) (صحیح )

【131】

مزابنہ اور محاقلہ۔

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٢ ( ٣٤٠٠ ) ، سنن النسائی/المزارعة ٢ ( ٣٩٢١ ) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٧ ) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحرث ١٨ ( ٢٣٣٩ ) ، ١٩ ( ٢٣٤٦ ، ٢٣٤٧ ) ، صحیح مسلم/البیوع ١٨ ( ١٥٤٨ ) ، موطا امام مالک/کراء الأرض ١ ( ١ ) ، مسند احمد ( ٣ /٤٦٤، ٤٦٥ ، ٤٦٦ ) (صحیح )

【132】

بیع عرایا۔

زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عرایا کی بیع میں رخصت دی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٥ (٢١٧٣) ، صحیح مسلم/البیوع ١٤ (١٥٣٩) ، سنن الترمذی/البیوع ٦٢ (١٣٠٠، ١٣٠٢) ، سنن النسائی/البیوع ٣١ (٤٥٤١) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٢٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/البیوع ٢٠ (٣٣٦٢) ، موطا امام مالک/البیوع ٩ (١٤) ، مسند احمد (٥/١٨١، ١٨٢، ١٨٨، ١٩٢) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٤ (٢٦٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بیع عرایا : یہ بیع بھی بیع مزابنہ ہے، لیکن نبی کریم ﷺ نے عرایا کی اجازت فقراء اور مساکین کے فائدے اور آرام کے لئے دی ہے، عرایا جمع ہے عریہ کی، یعنی کوئی آدمی اپنے باغ میں سے دو تین درخت کسی کو ہبہ کر دے، پھر اس کا باغ میں بار بار آنا پریشانی کا سبب بن جائے، اس لئے مناسب خیال کر کے ان درختوں کا پھل خشک پھل کے بدلے اس سے خرید لے، اور ضروری ہے کہ یہ پھل پانچ وسق ( ٧٥٠ کلو) سے کم ہو۔

【133】

بیع عرایا۔

زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عریہ کی بیع میں اجازت دی ہے کہ اندازہ سے اس کے برابر خشک کھجور کے بدلے خریدو فروخت کی جائے۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ عریہ یہ ہے کہ ایک آدمی کھجور کے کچھ درخت اپنے گھر والوں کے کھانے کے لیے اندازہ کر کے اس کے برابر خشک کھجور کے بدلے خریدے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح )

【134】

جانور کو جانور کے بدلہ میں ادھار بیچنا۔

سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار بیچنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ١٥ (٣٣٥٦) ، سنن الترمذی/البیوع ٢١ (١٢٣٧) ، سنن النسائی/البیوع ٦٣ (٤٦٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢، ٢١، ٢٢) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٠ (٢٦٠٦) (صحیح) (حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٤١٦ ) وضاحت : ١ ؎: حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار بیچنا اس وقت منع ہے جب اسی جنس کا ہو جیسے اونٹ کو اونٹ کے بدلے، لیکن اگر جنس مختلف ہو تو ادھار بھی جائز ہے۔

【135】

جانور کو جانور کے بدلہ میں ادھار بیچنا۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک حیوان کو دو حیوان کے بدلے نقد بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور آپ ﷺ نے ایسا ادھار بیچنے کو ناپسند کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٢١ ( ١٢٣٨ ) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٧٦ ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٣ /٣١٠، ٣٨٠ ، ٣٨٢ ) (صحیح) (ترمذی نے حدیث کی تحسین کی ہے، جب کہ حجاج بن أرطاہ ضعیف ہیں، اور ابوزبیر مدلس اور روایت عنعنہ سے کی ہے، تو یہ تحسین شواہد کی وجہ سے ہے، بلکہ صحیح ہے، تفصیل کے لئے دیکھئے الإرواء : ٢٤١٦) ۔

【136】

جانور کو جانور کے بدلہ میں کم وبیش لیکن نقد بیچنا۔

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ام المؤمنین صفیہ (رض) کو سات غلام کے بدلے خریدا ١ ؎۔ عبدالرحمٰن بن مہدی نے کہا : دحیہ کلبی سے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/النکاح ١٤ (١٣٦٥) ، سنن ابی داود/الخراج ٢١ (٢٩٩٧) ، مسند احمد (٣/١١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: غزوہ خیبر کے قیدیوں میں ام المؤمنین صفیہ (رض) بھی تھیں جو ہارون (علیہ السلام) کی اولاد میں سے بڑی خاندانی عورت تھیں، مال غنیمت کی تقسیم کے وقت وہ دحیہ کلبی (رض) کے حصہ میں آئیں، تو لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ صفیہ آپ کے لائق ہیں تو آپ ﷺ نے ان کو بلا کر دیکھا، اور دحیہ کلبی (رض) کو سات غلام دے کر ام المؤمنین صفیہ (رض) کو ان سے لے لیا، اور اپنے نکاح میں لائے۔

【137】

سود سے شدید ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معراج کی رات میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ مکانوں کے مانند تھے، ان میں باہر سے سانپ دکھائی دیتے تھے، میں نے کہا : جبرائیل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا : یہ سود خور ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٤٣، ومصباح الزجاجة : ٧٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٣، ٣٦٣) (ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں )

【138】

سود سے شدید ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سود ستر گناہوں کے برابر ہے جن میں سے سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٧٣، ومصباح الزجاجة : ٧٩٩) (صحیح) (سند میں ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن سندی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: ستر کی تعداد سے مراد گناہ کی زیادتی اور اس فعل کی شناعت و قباحت کا اظہار ہے۔

【139】

سود سے شدید ممانعت۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سود کے تہتر دروازے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٥٦١، ومصباح الزجاجة : ٨٠٠) (صحیح )

【140】

سود سے شدید ممانعت۔

عمر (رض) کہتے ہیں کہ آخری آیت جو نازل ہوئی، وہ سود کی حرمت والی آیت ہے، رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی، اور آپ ﷺ نے اس کی تفسیر ہم سے بیان نہیں کی، لہٰذا سود کو چھوڑ دو ، اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٥٤) ، وقد أخرجہ : (حم (١/٣٦، ٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگرچہ سود کی آیت کے بعد اور کئی آیتیں اتریں، لیکن اس کو آخری اس اعتبار سے کہا کہ معاملات کے باب میں اس کے بعد کوئی آیت نہیں اتری، مقصد یہ ہے کہ سود کی آیت منسوخ نہیں ہے، اس کا حکم قیامت تک باقی ہے، اور نبی کریم ﷺ نے اس کی تفسیر نہیں کی یعنی جیسا چاہیے ویسا کھول کر سود کا مسئلہ بیان نہیں کیا، چھ چیزوں کا بیان کردیا کہ ان میں سود ہے : سونا، چاندی، گیہوں، جو، نمک، اور کھجور، اور چیزوں کا بیان نہیں کیا کہ ان میں سود ہوتا ہے یا نہیں، لیکن مجتہدین نے اپنے اپنے قیاس کے موافق دوسری چیزوں میں بھی سود قرار دیا، اب جن چیزوں کو نبی کریم ﷺ نے بیان کردیا ان میں تو سود کی حرمت قطعی ہے، کسی مسلمان کو اس کے پاس پھٹکنا نہ چاہیے، رہیں اور چیزیں جن میں اختلاف ہے تو تقوی یہ ہے کہ ان میں بھی سود کا پرہیز کرے، لیکن اگر کوئی اس میں مبتلا ہوجائے تو اللہ سے استغفار کرے اور حتی المقدور دوبارہ احتیاط رکھے، اور یہ زمانہ ایسا ہے کہ اکثر لوگ سود کھانے سے بچتے ہیں تو دینے میں گرفتار ہوتے ہیں، حالانکہ دونوں کا گناہ برابر ہے، اللہ ہی اپنے بندوں کو بچائے۔

【141】

سود سے شدید ممانعت۔

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کے کھانے والے پر، کھلانے والے پر، اس کی گواہی دینے والے پر، اور اس کا حساب لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٤ (٣٣٣٣) ، سنن الترمذی/البیوع ٢ (١٢٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٥٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٩ (١٥٩٧) ، سنن النسائی/الطلاق ١٣ (٣٤٤٥) ، مسند احمد (١/٣٩٣، ٣٩٤، ٤٠٢، ٤٥٣) (صحیح )

【142】

سود سے شدید ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یقیناً لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کوئی ایسا نہ بچے گا جس نے سود نہ کھایا ہو، جو نہیں کھائے گا اسے بھی اس کا غبار لگ جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣ (٣٣٣١) ، سنن النسائی/البیوع ٢ (٤٤٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٩٤) (ضعیف) (سعید بن أبی خیرہ مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کی موجود گی میں، اور متابع کوئی نہیں ہے، اس لئے لین الحدیث ہیں، یعنی کمزوری اور ضعیف ہیں، حسن بصری کا سماع ابوہریرہ (رض) سے ثابت نہیں ہے )

【143】

سود سے شدید ممانعت۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے بھی سود سے مال بڑھایا، اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اس کا مال گھٹ جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٢٠٣، ومصباح الزجاجة : ٨٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩٥، ٤٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سودی کاروبار کرنے والا اپنا مال بڑھانے کے لئے زیادہ سود لیتا ہے، لیکن غیب سے ایسی آفتیں اترتی ہیں کہ مال میں برکت نہیں رہتی، سب تباہ و برباد ہوجاتا ہے، اور آدمی مفلس بن جاتا ہے۔ اس امر کا تجربہ ہوچکا ہے، مسلمان کو کبھی سودی کاروبار سے ترقی نہیں ہوتی، البتہ کفار و مشرکین کا مال سود سے بڑھتا ہے، وہ کافر ہیں ان کو سود کی حرمت سے کیا غرض، ان کو تو پہلے ایمان لانے کا حکم ہے۔ اور چونکہ ان کی آخرت تباہ کن ہے، اس لیے دنیا میں ان کو ڈھیل دے دی گئی ہے۔

【144】

مقررہ ناپ تول میں مقررہ مدت تک سلف کرنا۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے، اس وقت اہل مدینہ دو سال اور تین سال کی قیمت پہلے ادا کر کے کھجور کی بیع سلف کیا کرتے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : جو کھجور میں بیع سلف کرے یعنی قیمت پیشگی ادا کر دے تو اسے چاہیئے کہ یہ بیع متعین ناپ تول اور مقررہ میعاد پر کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/السلم ١ (٢٢٣٩) ، ٢ (٢٢٤٠، ٢٢٤١) ، ٧ (٢٢٥٣) ، صحیح مسلم/المساقاہ ٢٥ (١٦٠٤) ، سنن ابی داود/البیوع ٥٧ (٣٤٦٣) ، سنن الترمذی/البیوع ٧٠ (١٣١١) ، سنن النسائی/البیوع ٦١ (٤٦٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٧، ٢٢٢، ٢٨٢، ٣٥٨) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٥ (٢٦٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بیع سلف اور سلم دونوں ایک ہیں یعنی ایک آدمی دوسرے آدمی کو روپیہ نقد دے، لیکن مال لینے کے لئے ایک میعاد مقرر کرلے، اہل حدیث کے نزدیک اس میں دو ہی شرطیں ہیں : ایک یہ کہ جس مال کے لینے پر اتفاق ہوا ہے اس کی کیفیت، جنس اور نوع واضح طور پر بیان کر دے، اگر ناپ تول کی چیز ہو تو ناپ تول صراحت سے مقرر کردی جائے، مثلاً سو من گیہوں سفید اعلیٰ قسم کا، فلاں کپڑا اس قسم کے اتنے گز اور میٹر، دوسرے یہ کہ مال کے لینے کی میعاد مقرر ہو، مثلاً ایک مہینہ، دو مہینہ، ایک سال۔ اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط نہ ہو تو بیع سلم فاسد ہوگی، کیونکہ اس میں نزاع کی صورت پیدا ہوگی، بعضوں نے اور شرطیں بھی رکھیں ہیں لیکن ان کی دلیل ذرا مشکل سے ملے گی، اور شاید نہ ملے۔

【145】

مقررہ ناپ تول میں مقررہ مدت تک سلف کرنا۔

عبداللہ بن سلام (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس نے آ کر عرض کیا : فلاں قبیلہ کے یہودی مسلمان ہوگئے ہیں، اور وہ بھوک میں مبتلا ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ مرتد نہ ہوجائیں، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی کے پاس کچھ نقدی ہے (کہ وہ ہم سے بیع سلم کرے) ؟ ایک یہودی نے کہا : میرے پاس اتنا اور اتنا ہے، اس نے کچھ رقم کا نام لیا، میرا خیال ہے کہ اس نے کہا : میرے پاس تین سو دینار ہیں، اس کے بدلے میں بنی فلاں کے باغ اور کھیت سے اس اس قیمت سے غلہ لوں گا، آپ ﷺ نے فرمایا : قیمت اور مدت کی تعیین تو منظور ہے لیکن فلاں کے باغ اور کھیت کی جو شرط تم نے لگائی ہے وہ منظور نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٢٩، ومصباح الزجاجة : ٨٠٣) (ضعیف) (سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ احتمال ہے کہ اس باغ یا کھیت میں کچھ نہ ہو یا وہاں کا غلہ تباہ ہوجائے تو یہ شرط لغو اور بیکار ہے، البتہ یہ شرط قبول ہے کہ اس بھاؤ سے اتنے کا غلہ فلاں وقت اور تاریخ پردے دیں گے۔

【146】

مقررہ ناپ تول میں مقررہ مدت تک سلف کرنا۔

عبداللہ بن ابی مجالد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن شداد اور ابوبرزہ (رض) کے درمیان بیع سلم کے سلسلہ میں جھگڑا ہوگیا، انہوں نے مجھے عبداللہ ابن ابی اوفی (رض) کے پاس بھیجا، میں نے جا کر ان سے اس کے سلسلے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں اور ابوبکرو عمر (رض) کے عہد میں گیہوں، جو، کشمش اور کھجور میں ایسے لوگوں سے بیع سلم کرتے تھے جن کے پاس اس وقت مال نہ ہوتا، پھر میں نے ابن ابزیٰ (رض) سے سوال کیا، تو انہوں نے بھی ایسے ہی کہا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/السلم ٢ (٢٢٤٢) ، ٣ (٢٢٤٤) ، ٧ (٢٢٥٤، ٢٢٥٥) بلفظ : ما کنا نسألھم مکان ماعندھم ، سنن ابی داود/البیوع ٥٧ (٣٤٦٤، ٣٤٦٥) ، سنن النسائی/البیوع ٥٩ (٤٦١٨) ، ٦٠ (٤٦١٩) ، (تحفة الأشراف : ٥١٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٤، ٣٨٠) (صحیح )

【147】

ایک مال میں سلم کی تو اسے دوسرے مال میں نہ پھیرے۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی چیز میں بیع سلف کرو تو اسے کسی اور چیز کی طرف نہ پھیرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٥٩ (٣٤٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٠٤) (ضعیف) (سند میں عطیہ العوفی ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٣٧٥ ) اس سند سے بھی ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، پھر آگے راوی نے اسی کے مثل ذکر کیا، اور اس کے راویوں میں سعد کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٠٠) (ضعیف) (ملاحظہ ہو : حدیث سابق )

【148】

معین کھجور کے درخت میں سلم کی اور اس سال اس پر پھل نہ آیا تو ؟

نجرانی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے کہا : کیا میں کسی درخت کے کھجور کی ان کے پھلنے سے پہلے بیع سلم کروں ؟ انہوں نے کہا : نہیں، میں نے کہا : کیوں ؟ کہا : ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں کھجور کے ایک باغ کے پھلوں میں ان کے پھلنے سے پہلے بیع سلم کی، لیکن اس سال کھجور کے درخت میں پھل آیا ہی نہیں، تو خریدار نے کہا : یہ درخت میرے رہیں گے جب تک ان میں کھجور نہ پھلے، اور بیچنے والے نے کہا : میں نے تو صرف اسی سال کا کھجور تیرے ہاتھ بیچا تھا، چناچہ دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں معاملہ لے گئے تو آپ ﷺ نے بیچنے والے سے کہا : کیا اس نے تمہارے کھجور کے درختوں سے کچھ پھل لیے ؟ وہ بولا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تم کس چیز کے بدلے اس کا مال اپنے لیے حلال کرو گے، جو تم نے اس سے لیا ہے، اسے واپس کرو اور آئندہ کھجور کے درختوں میں بیع سلم اس وقت تک نہ کرو جب تک اس کے پھل استعمال کے لائق نہ ہوجائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٥٨ (٣٤٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٩٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ٢١ (٤٩) ، مسند احمد (٢/٢٥، ٤٩، ٥١، ٥٨، ١٤٤) (ضعیف) (اس کی سند میں نجرانی مبہم راوی ہے )

【149】

جانور میں سلم کرنا۔

ابورافع (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے ایک جوان اونٹ کی بیع سلم کی یعنی اسے قرض کے طور پر لیا، اور فرمایا : جب صدقہ کے اونٹ آئیں گے تو ہم تمہارا اونٹ کا قرض ادا کردیں گے ، چناچہ جب صدقہ کے اونٹ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ابورافع ! اس کے اونٹ کا قرض ادا کر دو ، ابورافع (رض) کہتے ہیں : میں نے ڈھونڈا تو مجھے ویسا اونٹ نہیں ملا، سوائے ایک ایسے اونٹ کے جس نے اپنے سامنے کے چاروں دانت گرا رکھے تھے، جو اس کے اونٹ سے بہتر تھا، میں نے نبی اکرم ﷺ کو بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسی کو دے دو کیونکہ لوگوں میں بہتر وہ ہے جو اپنے قرض کی ادائیگی میں بہتر ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٤٣ (١٦٠٠) ، سنن ابی داود/البیوع ١١ (٣٣٤٦) ، سنن الترمذی/البیوع ٧٥ (١٣١٨) ، سنن النسائی/البیوع ٦٢ (٤٦٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ٤٣ (٨٩) ، مسند احمد (٦/٣٩٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٣١ (٢٦٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ جو مال بغیر شرط کے قرض لیا تھا اس سے افضل دیتے ہیں، اگر قرض سے بہتر یا زیادہ مال دیا جائے تو مستحب اور اس کا لینا جائز ہے، لیکن شرط کے ساتھ جائز نہیں، کیونکہ وہ ربا (سود) ہے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بیع سلم بلکہ قرض لینا بھی جانور کا درست ہے۔

【150】

جانور میں سلم کرنا۔

عرباض بن ساریہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس تھا کہ ایک اعرابی نے آ کر عرض کیا : میرا جوان اونٹ مجھے دیجئیے، آپ ﷺ نے اس کو ایک اونٹ دیا جو اس سے بڑا تھا، اعرابی (دیہاتی) بولا : اللہ کے رسول ! اس کی عمر تو اس سے زیادہ ہے ! آپ ﷺ نے فرمایا : بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنے قرض کی ادائیگی میں بہتر ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٦٢ (٤٦٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٨) (صحیح )

【151】

شرکت اور مضاربت۔

سائب (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! زمانہ جاہلیت میں آپ میرے شریک تھے، تو آپ بہت بہترین شریک ثابت ہوئے نہ آپ میری مخالفت کرتے تھے نہ جھگڑتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ٢٠ (٤٨٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (/٤٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ نبوت سے پہلے سائب مخزومی نبی کریم ﷺ کے شریک تھے، فتح مکہ کے دن وہ آئے، اور کہا : مرحباً ، (خوش آمدید) میرے بھائی، میرے شریک، ایسے شریک کہ نہ کبھی انہوں نے مقابلہ کیا نہ جھگڑا، اس حدیث کے اور بھی کئی طریق ہیں، سبحان اللہ نبی کریم ﷺ کے اخلاق شروع سے ایسے تھے کہ تعلیم و تربیت اور ریاضت کے بعد بھی ویسے اخلاق حاصل ہونا مشکل ہے۔

【152】

شرکت اور مضاربت۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں سعد اور عمار تینوں بدر کے دن مال غنیمت میں شریک ہوئے، تو مجھ کو اور عمار کو کچھ نہ ملا، البتہ سعد کافروں کے دو آدمی پکڑ لائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٠ (٣٣٨٨) ، سنن النسائی/الأیمان ٤٧ (٣٩٦٩) ، البیوع ١٠٣ (٤٧٠١) ، (تحفة الأشراف : ٩٦١٦) (ضعیف) (سند میں ابوعبیدہ اور ابن مسعود (رض) کے درمیان انقطاع ہے، اس لئے کہ ابوعبیدہ کا اپنے والد سے سماع نہیں ثابت ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٤٧٤ )

【153】

شرکت اور مضاربت۔

صہیب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزوں میں برکت ہے : پہلی یہ کہ مقررہ مدت کے وعدے پر بیع کرنے میں، دوسری : مضاربت میں، تیسری : گیہوں اور جو ملانے میں جو کہ گھر کے کھانے کے لیے ہو، نہ کہ بیچنے کے لیے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٦٣، ومصباح الزجاجة : ٨٠٤) (ضعیف جدا) (سند میں صالح صہیب، عبد الرحمن بن داود اور نصر بن قاسم وغیرہ سب مجہول راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢١٠٠ )

【154】

مرد اپنی اولاد کا مال کس حدتک استعمال کرسکتا ہے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے کھانوں میں سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو تمہارے ہاتھ کی کمائی کا ہو، اور تمہاری اولاد بھی تمہاری ایک قسم کی کمائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٩ (٣٥٢٨) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٢ (١٣٥٨) ، سنن النسائی/البیوع ١ (٤٤٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣١، ٣٢، ١٢٧، ١٦٢، ١٩٣، ٢٢٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٦ (٢٥٧٩) (صحیح )

【155】

مرد اپنی اولاد کا مال کس حدتک استعمال کرسکتا ہے۔

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے پاس مال اور اولاد دونوں ہیں، اور میرے والد میرا مال ختم کرنا چاہتے ہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا : تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے والد کے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٠٩٣، ومصباح الزجاجة : ٨٠٥) (صحیح )

【156】

مرد اپنی اولاد کا مال کس حدتک استعمال کرسکتا ہے۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا : میرے والد نے میری دولت ختم کردی (اس کے بارے میں فرمائیں ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا : تم اور تمہاری دولت دونوں تمہارے والد کے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے لہٰذا تم ان کے مال میں سے کھاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٦٧٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٩ (٣٥٣٠) ، مسند احمد (٢/١٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باپ اپنے بیٹے کے مال میں ضرورت کے مطابق تصرف کرسکتا ہے اور اگر ماں باپ بیٹے کا مال لے بھی لیں تو بھی بیٹے کو چاہیے کہ وہ ماں باپ سے مقابلہ نہ کرے، نہ ان سے سخت کلامی کرے اور اس وقت کو یاد کرے جب ماں باپ نے اسے محبت سے پالا پوسا تھا، پیشاب و پاخانہ دھویا، پھر کھلایا، پلایا، پڑھایا اور سکھایا، یہ سب احسانات ایسے ہیں کہ اگر ماں باپ کے کام میں بیٹے کا چمڑہ بھی آئے تو ان کا احسان نہ ادا ہو سکے اور یہ سمجھ لے کہ ماں باپ ہی کی رضامندی پر ان کی نجات منحصر ہے، اگر ماں باپ ناراض ہوئے تو دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوگی، تجربہ سے معلوم ہوا کہ جن لڑکوں نے ماں باپ کو راضی رکھا ان کو بڑی برکت حاصل ہوئی اور انہوں نے چین سے زندگی بسر کی اور جنہوں نے ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی کی وہ ہمیشہ دنیا میں جلتے اور کڑھتے ہی رہے، اگر ماں باپ بیٹے کا مال لے لیں تو کمال خوشی کرنا چاہیے کہ ہماری یہ قسمت کہاں تھی کہ ہمارا روپیہ ماں باپ کے کام آئے یا روپیہ اپنے موقع پر صرف ہوا، اور ماں باپ سے یوں کہنا چاہیے کہ روپیہ تو کیا میرا بدن اور میری جان بھی آپ ہی کی ہے، آپ اگر چاہیں تو مجھ کو بھی بازار میں بیچ لیں، میں آپ کا غلام ہوں۔

【157】

بیوی کیلئے خاوند کا مال لینے کی کس حد تک گنجائش ہے؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہند (رض) نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئیں، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! ابوسفیان بخیل آدمی ہیں، مجھے اتنا نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو سوائے اس کے جو میں ان کی لاعلمی میں ان کے مال میں سے لے لوں (اس کے بارے میں فرمائیں ؟ ) تو آپ ﷺ نے فرمایا : مناسب انداز سے اتنا لے لو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کے لیے کافی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأقضیة ٤ (١٧١٤) ، سنن ابی داود/البیوع ٨١ (٣٥٣٢) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٣٠ (٥٤٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٦١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٩٥ (٢٢١١) ، المظالم ١٨ (٢٤٦٠) ، النفقات ٥ (٥٣٥٩) ، ٩ (٥٣٦٤) ، ١٤ (٥٣٧٠) ، الأیمان ٣ (٦٦٤١) ، الأحکام ١٤ (٧١٦١) ، ٢٨ (٧١٨٠) ، مسند احمد (٦/٣٩، ٥٠، ٢٠٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٤ (٥٣٦٤) (صحیح )

【158】

بیوی کیلئے خاوند کا مال لینے کی کس حد تک گنجائش ہے؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب عورت اپنے شوہر کے گھر میں سے خرچ کرے (کی روایت میں خرچ کرے کے بجائے جب عورت کھلائے ہے) اور اس کی نیت مال برباد کرنے کی نہ ہو تو اس کے لیے اجر ہوگا، اور شوہر کو بھی اس کی کمائی کی وجہ سے اتنا ہی اجر ملے گا، اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے، اور خازن کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کچھ کمی ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١٧ (١٤٢٥) ، ٢٥ (١٤٣٧) ، ٢٦ (١٤٣٩، ١٤٤٠) ، البیوع ١٢ (٢٠٦٥) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٥ (١٠٢٤) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٤ (٦٧٢) ، سنن ابی داود/الزکاة ٤٤ (١٦٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٠٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الزکاة ٥٧ (٢٥٤٠) ، مسند احمد (٩/٤٤، ٩٩، ٢٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگرچہ عورت کو اپنے شوہر کا اور خادم کو اپنے مالک کا مال بغیر ان کی اجازت کے صدقہ میں دینا جائز نہیں ہے، لیکن یہاں وہ مال مراد ہے جس کے خرچ کی عادتاً عورتوں کو اجازت دی جاتی ہے جیسے کھانے میں سے ایک روٹی فقیر کو دے دینا، یا پیسوں میں سے ایک پیسہ کسی مسکین کو، اور بعضوں نے کہا : اہل حجاز اپنی عورتوں کو صدقہ اور مہمانی کی اجازت دیا کرتے تھے، تو یہ حدیث ان سے خاص ہے، اور بعضوں نے کہا : مراد وہ مال ہے جو شوہر اپنی بیوی کو اس کے خرچ کے لئے دیتا ہے اس میں سے تو عورت بالاتفاق خرچ کرسکتی ہے۔

【159】

بیوی کیلئے خاوند کا مال لینے کی کس حد تک گنجائش ہے؟

ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : عورت اپنے گھر میں سے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ نہ کرے لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کھانا بھی کسی کو نہ دے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، کھانا بھی نہ دے، یہ تو ہمارے مالوں میں سب سے بہتر مال ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٣٤ (٦٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٦٧) (حسن )

【160】

غلام کیلئے کس حد تک دینے اور صدقہ کرنے کی گنجائش ہے؟

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غلام کی دعوت قبول کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٣٢ (١٠١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٨) ، (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ٤١٧٨) (ضعیف) (سند میں مسلم الملائی ضعیف راوی ہیں )

【161】

غلام کیلئے کس حد تک دینے اور صدقہ کرنے کی گنجائش ہے؟

عمیر مولی آبی اللحم (رض) کہتے ہیں کہ میرے مالک مجھے کوئی چیز دیتے تو میں اس میں سے اوروں کو بھی کھلا دیتا تھا تو انہوں نے مجھ کو ایسا کرنے سے روکا یا کہا : انہوں نے مجھے مارا، تو میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : یا اسی مالک نے آپ ﷺ سے پوچھا : میں نے عرض کیا : میں اس سے باز نہیں آسکتا، یا میں اسے چھوڑ نہیں سکتا (کہ مسکین کو کھانا نہ کھلاؤں) تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم دونوں کو اس کا اجر ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٢٦ (١٠٢٥) ، سنن النسائی/الزکاة ٥٦ (٢٥٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٩٩) (صحیح )

【162】

جانور کے گلہ یا باغ سے گزر ہو تو دودھ یا پھل کھانے کیلئے لینا۔

ابوبشر جعفر بن أبی ایاس کہتے ہیں میں نے عباد بن شرحبیل (رض) جو بنی غبر کے ایک فرد ہیں کو کہتے سنا کہ ایک سال قحط ہوا تو میں مدینہ آیا، وہاں اس کے باغوں میں سے ایک باغ میں گیا، اور اناج کی ایک بالی اٹھا لی، اور مل کر اس میں سے کچھ کھایا، اور کچھ اپنے کپڑے میں رکھ لیا، اتنے میں باغ کا مالک آگیا، اس نے مجھے مارا اور میرا کپڑا چھین لیا، میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے واقعہ بیان کیا تو آپ ﷺ نے باغ والے سے کہا : تم نے اس کو کھانا نہیں کھلایا جبکہ یہ بھوکا تھا، اور نہ تم نے اس کو تعلیم دی جبکہ یہ جاہل تھا، پھر نبی اکرم ﷺ نے اس کے کپڑے واپس کرنے اور ساتھ ہی ایک وسق یا نصف وسق غلہ دینے کا حکم دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٩٣ (٢٦٢٠، ٢٦٢١) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٢٠ (٥٤١١) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٦، ١٦٧) (صحیح )

【163】

جانور کے گلہ یا باغ سے گزر ہو تو دودھ یا پھل کھانے کیلئے لینا۔

رافع بن عمرو غفاری (رض) کہتے ہیں کہ میں اور ایک لڑکا دونوں مل کر اپنے یا انصار کے کھجور کے درخت پر پتھر مار رہے تھے، تو مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا : لڑکے ! (ابن کا سب کا قول ہے کہ آپ ﷺ نے یوں فرمایا : میرے بیٹے ! ) تم کیوں کھجور کے درختوں پر پتھر مارتے ہو ؟ ، رافع بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں (کھجور) کھاؤں، آپ ﷺ نے فرمایا : درختوں پر پتھر نہ مارو جو نیچے گرے ہوں انہیں کھاؤ پھر آپ ﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا : اے اللہ ! اسے آسودہ کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٩٤ (٢٦٢٢) ، سنن الترمذی/البیوع ٥٤ (١٢٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٩٥) (ضعیف) (سند میں ابن ابی الحکم مستور اور جدتی (دادی) مبہم روایہ ہیں نیز ملاحظہ ہو : ضعیف أبی داود : ٤٥٣ )

【164】

جانور کے گلہ یا باغ سے گزر ہو تو دودھ یا پھل کھانے کیلئے لینا۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی چرواہے کے پاس آؤ تو تین بار اسے آواز دو ، اگر وہ جواب دے تو بہتر، ورنہ اپنی ضرورت کے مطابق بغیر خراب کئے دودھ دوہ کر پی لو، اور جب تم کسی باغ میں آؤ تو باغ والے کو تین بار آواز دو ، اگر وہ جواب دے تو بہتر، ورنہ اپنی ضرورت کے مطابق پھل توڑ کر کھالو، البتہ خراب مت کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٤٢، ومصباح الزجاجة : ٨٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٧، ٢١، ٨٥) (صحیح) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٥٢١ )

【165】

جانور کے گلہ یا باغ سے گزر ہو تو دودھ یا پھل کھانے کیلئے لینا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کسی باغ سے گزرے تو (پھل) کھائے، اور کپڑے میں نہ باندھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٥٤ (١٢٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جن احادیث میں مالک کی اجازت کے بغیر دودھ یا پھل لینے کی اجازت ہے، اکثر علماء کے نزدیک یہ منسوخ ہیں، اور ان کی ناسخ وہ احادیث ہیں جن میں مسلمان کی اجازت کے بغیر اس کا مال لینا حرام ہے، اور بعضوں نے کہا کہ یہ حدیثیں اس حالت پر محمول ہیں کہ جب آدمی بھوک کے مارے بےتاب ہو یعنی مرنے کے قریب ہو، مخمصہ کی حالت ہو تو ایسی حالت میں حرام حلال ہوجاتا ہے، پھر پھل یا دودھ بھی بےاجازت کھا پی لینا جائز ہوگا، لیکن ضروری ہے کہ صرف اتنا لے جس سے جان بچ جائے، اور ضرورت سے زیادہ اس کا مال خراب نہ کرے نہ اپنے ساتھ باندھ کرلے جائے۔

【166】

مالک کی اجازت کے بغیر کوئی چیز استعمال کرنے سے ممانعت۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا : کوئی کسی کے جانور کا دودھ بغیر اس کی اجازت کے نہ دوہے، کیا کوئی یہ پسند کرے گا کہ اس کے بالاخانہ میں کوئی جائے، اور اس کے غلہ کی کوٹھری کا دروازہ توڑ کر غلہ نکال لے جائے ؟ ایسے ہی ان کے جانوروں کے تھن ان کے غلہ کی کوٹھریاں ہیں، تو کوئی کسی کے جانور کو اس کی اجازت کے بغیر نہ دوہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللقطة ٢ (١٧٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٠٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللقطة ٤٨ (٢٤٣٥) ، سنن ابی داود/الجہاد ٩٥ (٢٦٢٣) ، موطا امام مالک/الإستئذان ٦ (١٧) (صحیح )

【167】

مالک کی اجازت کے بغیر کوئی چیز استعمال کرنے سے ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ اتنے میں ہم نے خاردار درختوں کی آڑ میں ایک اونٹنی دیکھی، جس کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے تو اس ہم (کا دودھ دوہنے کے لیے) اس کی طرف لپکے، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے ہم کو آواز دی تو ہم آپ کی طرف پلٹ آئے، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ اونٹنی کسی مسلمان گھرانے کی ہے، اور یہی ان کی روزی ہے، اور اللہ تعالیٰ کے بعد یہی ان کے لیے خیر و برکت کی چیز ہے، کیا تم اس بات کو پسند کرو گے کہ تم اپنے توشہ دانوں کے پاس واپس آؤ تو جو کچھ ان میں ہے اس سے ان کو خالی پاؤ، کیا تم اس کو انصاف سمجھو گے ؟ لوگوں نے عرض کیا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : بس یہ بھی ایسا ہی ہے ، ہم نے عرض کیا : اگر ہم کھانے پینے کے حاجت مند ہوں تو کیا تب بھی یہی حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : (ایسی حالت میں) کھا پی لو لیکن اٹھا کر نہ لے جاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٩٢ ، ومصباح الزجاجة : ٨٠٧ ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٢ /٤٠٥) (ضعیف) لأن ھذا السند فیہ سلیط بن عبد اللہ، قال فیہ البخاری : إسنادہ لیس بالقائم وحجاج بن أرطاة مدلس وقد رواہ بالعنعنة۔ وضاحت : ١ ؎: یعنی یہ اونٹنی ان کی توشہ دان ہیں، اس کے تھن میں ان کے کھانے ہیں۔

【168】

جانور رکھنا۔

ام ہانی (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : تم بکریاں پالو، اس لیے کہ ان میں برکت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٠٨، ومصباح الزجاجة : ٨٠٨) ، وقد أخرجہ : ٦/٤٢٤) (صحیح )

【169】

جانور رکھنا۔

عروہ بارقی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اونٹ ان کے مالکوں کے لیے قوت کی چیز ہے، اور بکریاں باعث برکت ہیں، اور گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لیے بھلائی بندھی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤٣ (٢٨٥٠) ، ٤٤ (٢٨٥٢) ، الخمس ٨ (٣١١٩) ، المناقب ٢٨ (٣٦٤٢) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٦ (١٨٧٣) ، سنن الترمذی/الجہاد ١٩ (١٦٩٤) ، سنن النسائی/الخیل ٦ (٩٨٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٧٥، ٣٧٦) سنن الدارمی/الجہاد ٣٤ (٢٤٧٠) (صحیح )

【170】

جانور رکھنا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بکری تو جنت کے جانوروں میں سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤٣٩، ومصباح الزجاجة : ٨١٠) (صحیح) (سند میں زربی بن عبد اللہ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١١٢٨ )

【171】

جانور رکھنا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مالدار لوگوں کو بکریاں اور محتاج لوگوں کو مرغیاں رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا ہے : جب مالدار مرغیاں پالنے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس بستی کو تباہ کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٩٩، ومصباح الزجاجة : ٨١١) (موضوع) (سند میں علی بن عروہ متروک بلکہ متہم با لوضع راوی ہے، نیز عثمان بن عبد الرحمن مجہول ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١١٩ )