19. شفعہ کا بیان

【1】

غیر منقولہ جائیداد فروخت کرے تو اپنے شریک کو اطلاع دے

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس کھجور کے درخت ہوں یا زمین ہو تو وہ اسے اس وقت تک نہ بیچے، جب تک کہ اسے اپنے شریک پر پیش نہ کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٧٨ (٤٦٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٦٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢٨ (١٦٠٨) ، سنن ابی داود/البیوع ٧٥ (٣٥١٣) ، مسند احمد (٣/٣١٢، ٣١٦، ٣٥٧) (صحیح )

【2】

غیر منقولہ جائیداد فروخت کرے تو اپنے شریک کو اطلاع دے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس کو بیچنا چاہے تو اسے چاہیئے کہ وہ اسے اپنے پڑوسی پر پیش کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦١٣١، ومصباح الزجاجة : ٨٨٣) (صحیح) (سند میں سماک ہیں، جن کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے، لیکن سابق شواہد سے تقویت پاکر حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: باب کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر پڑوسی یا شریک نہ خریدنا چاہے تب دوسروں کے ہاتھ بیچے۔

【3】

پڑوس کی وجہ سے شفعہ کا استحقاق

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پڑوسی اپنے پڑوسی کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، اس کا انتظار کیا جائے گا اگر وہ موجود نہ ہو جب دونوں کا راستہ ایک ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٥ (٣٥١٨) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٢ (١٣٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٣٤) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/البیوع ٨٣ (٢٦٦٩) (صحیح )

【4】

پڑوس کی وجہ سے شفعہ کا استحقاق

ابورافع (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پڑوسی اپنے نزدیکی مکان کا زیادہ حقدار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشفعة ٢ (٢٢٥٨) ، الحیل ١٤ (٦٩٧٧) ، ١٥ (٦٩٨١، ٦٩٧٨) ، سنن ابی داود/البیوع ٧٥ (٣٥١٦) ، سنن النسائی/البیوع ١٠٧ (٤٧٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٨٩، ٣٩٠، ٦/١٠، ٣٩٠) (صحیح )

【5】

پڑوس کی وجہ سے شفعہ کا استحقاق

شرید بن سوید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ایک زمین ہے جس میں کسی کا حصہ نہیں اور نہ کوئی شرکت ہے، سوائے پڑوسی کے (تو اس کے بارے میں فرمائیے ؟ !) آپ ﷺ نے فرمایا : پڑوسی اپنی نزدیکی زمین کا زیادہ حقدار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ١٠٧ (٤٧٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٤٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جابر (رض) کی حدیث اور اس حدیث میں بظاہر تعارض ہے، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ان دونوں میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شفعہ کی دو قسمیں ہیں : ایک شعفہ یہ ہے کہ مالک کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ شفیع پر پیش کرے، اور دوسروں پر اسے ترجیح دے، اور اس شفعہ پر قضاء میں وہ مجبور نہ کیا جائے، اور یہی اس پڑوسی کا حق ہے جو شریک نہیں ہے، اور دوسری قسم یہ ہے کہ اس شفعہ پر اسے قضاء میں مجبور کیا جائے گا، اور یہ اس پڑوسی کے حق میں ہے جو شریک بھی ہے، (حجۃ اللہ البالغۃ ٢ /١١٣) ۔

【6】

جب حد مقرر ہوجائے تو شفعہ نہیں ہوسکتا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسی جائیداد میں شفعہ کا حکم دیا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، لیکن جب تقسیم ہوجائے اور حد بندی ہو تو شفعہ نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٤١، ١٥٢٤٩) ، مصباح الزجاجة : ٨٨٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٥ (٣٥١٥) (صحیح ) اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح مروی ہے۔ ابوعاصم کہتے ہیں : سعید بن مسیب کی روایت مرسل ہے، اور ابوسلمہ کی روایت ابوہریرہ (رض) سے متصل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٤١، ١٥٢٤٩، ومصباح الزجاجة : ٨٨٥ )

【7】

جب حد مقرر ہوجائے تو شفعہ نہیں ہوسکتا

ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شریک (ساجھی دار) اپنی قریبی جائیداد کا زیادہ حقدار ہے، خواہ کوئی بھی چیز ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظرحدیث رقم : (٢٤٩٥) (صحیح )

【8】

جب حد مقرر ہوجائے تو شفعہ نہیں ہوسکتا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شفعہ ہر اس جائیداد میں ٹھہرایا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، اور جب حد بندی ہوجائے اور راستے جدا ہوجائیں تو اب شفعہ نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٩٦ (٢٢١٣) ، ٩٧ (٢٢١٤) ، الشفعة ٢ (٢٢٥٧) ، الحیل ١٤ (٧٦ ٦٩) ، الشرکة ٨ (٩٥ ٢٤) ، سنن ابی داود/البیوع ٧٥ (٣٥١٤) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٣ (١٣٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٣١٥٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/البیوع ١٠٧ (٤٧٠٨) ، موطا امام مالک/الشفعة ١ (١) ، مسند احمد (٣/٣٧٢، ٣٩٩) ، سنن الدارمی/البیوع ٨٣ (٢٦٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ وہ جائیداد جو تقسیم کے قابل نہ ہو، اس میں بھی شفعہ نہیں ہے، جیسے حمام اور کنواں وغیرہ۔

【9】

طلب شفعہ

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شفعہ اونٹ کی رسی کھولنے کے مانند ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٢٩٢، ومصباح الزجاجة : ٨٨٦) (ضعیف جدا) (سند میں محمد بن الحارث ضعیف ہے، اور محمد بن عبد الرحمن البیلمانی متہم بالکذب ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٥٤٢ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جیسے اونٹ کے کھٹنے کی رسی کھول دی جائے تو اونٹ فوراً اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسی طرح بیع کی خبر ہوتے ہی اگر شفیع شفعہ لے تو ٹھیک ہے، اور اگر دیر کرے تو شفعہ کا حق باطل ہوگیا، یہ حدیث حنفیہ کی دلیل ہے جن کے نزدیک شفیع کو جب بیع کی خبر پہنچے تو فوراً اس کو طلب کرنا چاہیے، فقہ حنفی میں ہے کہ مجلس علم میں شفعہ طلب کرنا کافی ہے، اگرچہ مجلس دیر تک رہے، پس احناف کے نزدیک اگر شفیع فوراً یا اس مجلس میں شفعہ کا مطالبہ نہ کرے تو اس کا حق باطل ہوجاتا ہے۔ اور اہل حدیث کے نزدیک دیر کرنے سے شفعہ کا حق باطل نہیں ہوتا کیونکہ شفعہ کی احادیث مطلق ہیں، اور ابن عمر (رض) سے مروی یہ حدیث جس سے حنفیہ نے استدلال کیا ہے سخت ضعیف ہے۔