24. وصیتوں کا بیان

【1】

کیا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی وصیت فرمائی؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنی وفات کے وقت) دینار، درہم، بکری اور اونٹ نہیں چھوڑے اور نہ ہی کسی چیز کی وصیت کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الوصایا ٦ (١٦٣٥) ، سنن ابی داود/الوصایا ١ (٢٨٦٣) ، سنن النسائی/الوصایا ٢ (٣٦٥١) ، (تحفة الأ شراف : ١٧٦١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی دنیاوی امور کے متعلق، کیونکہ آپ ﷺ نے دنیا میں کوئی مال چھوڑا ہی نہیں، اور فرمایا : جو میں چھوڑ جاؤں وہ میری بیویوں اور عامل کی اجرت سے بچے تو وہ صدقہ ہے، سبحان اللہ، جیسے آپ ﷺ دنیا سے صاف رہ کر دنیا میں آئے تھے ویسے دنیا سے تشریف بھی لے گئے، البتہ دین کے متعلق آپ ﷺ نے وصیت کی ہے جیسے دوسری حدیث میں ہے کہ وفات کے وقت بھی آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ نماز کا خیال رکھو، اور غلام لونڈی کا، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے وفود کی خاطر تواضع کرنے کے لئے وصیت کی، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے مشرکوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دینے کے لئے وصیت کی اور محال ہے کہ آپ اور مومنین کو تو وصیت کی ترغیب دیتے اور خود وصیت نہ فرماتے، آپ ﷺ نے اللہ کی کتاب یعنی قرآن پر چلنے اور اہل بیت سے محبت رکھنے کی وصیت کی۔

【2】

کیا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی وصیت فرمائی؟

طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ نے کسی چیز کی وصیت کی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : نہیں، میں نے کہا : پھر کیوں کر مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا ؟ تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے اللہ کی کتاب (قرآن) پر چلنے کی وصیت فرمائی ١ ؎۔ مالک کہتے ہیں : طلحہ بن مصرف کا بیان ہے کہ ہزیل بن شرحبیل نے کہا : بھلا ابوبکر (رض) رسول اللہ ﷺ کے وصی پر حکومت کرسکتے تھے ؟ ابوبکر (رض) کا تو یہ حال تھا کہ اگر وہ آپ ﷺ کا حکم پاتے تو تابع دار اونٹنی کی طرح اپنی ناک میں (اطاعت کی) نکیل ڈال لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١ (٢٧٤٠) ، المغازي ٨٣ (٤٤٦٠) ، فضائل القران ١٨ (٥٠٢٢) ، صحیح مسلم/الوصایا ٥ (١٦٣٤) ، سنن الترمذی/الوصایا ٤ (٢١١٩) ، سنن النسائی/الوصایا ٢ (٣٦٥٠) ، (تحفة الأ شراف : ٥١٧٠، ١٩٥٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٤، ٣٥٥، ٣٨١) ، سنن الدارمی/الوصایا ٣ (٣٢٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس حکم پر سب سے پہلے ابوبکر (رض) چلتے اس کے بعد اور لوگ، کیونکہ ابوبکر (رض) سب صحابہ سے زیادہ نبی اکرم ﷺ کے مطیع تھے، ان کے بارے میں گمان بھی نہیں ہوسکتا کہ نبی کریم ﷺ نے کسی اور کو خلیفہ بنانے کے لئے فرمایا ہو اور خود خلافت لے لیں، بلکہ ابوبکر (رض) کو تو خلافت کی خواہش ہی نہ تھی، جب ثقیفہ بنو ساعدہ میں صلاح و مشورہ ہوا تو ابوبکر (رض) نے یہ رائے دی کہ دو آدمیوں میں سے ایک کے ہاتھ بیعت کرلو، عمر بن خطاب کے ہاتھ پر یا ابو عبیدہ بن جراح کے ہاتھ پر، اور اپنا نام ہی نہ لیا، لیکن عمر (رض) نے زبردستی ان سے بیعت کی، اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی بیعت کرلی، آسمان گرپڑے اور زمین پھٹ جائے ان بےایمانوں پر جو نبی کریم ﷺ کے جانثار جانباز صحابہ کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں، اور معاذ اللہ یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے صراحۃ علی (رض) کو اپنے بعد خلیفہ بنایا تھا اور صحابہ اس کو جانتے تھے، لیکن عمداً انہوں نے علی (رض) کا حق دبایا اور ابوبکر (رض) کو خلیفہ بنایا : سبحانک هذا بهتان عظيم (سورة النور : 16) اگر صراحت تو کیا نبی کریم ﷺ کا ذرا بھی اشارہ ہوتا کہ آپ ﷺ کے بعد علی (رض) خلیفہ ہیں تو تمام صحابہ جان و دل سے اس حکم کی اطاعت کرتے، اور علی (رض) کو اسی وقت خلیفہ بناتے بلکہ خلافت کے لئے مشورہ ہی نہ کرتے، کیونکہ جو امر منصوص ہو اس میں صلاح و مشورہ کی کیا حاجت ہے، اگر بالفرض ابوبکر صدیق (رض) نے اس حکم کے خلاف بھی کیا ہوتا تو انصار جن کی جماعت بہت تھی وہ کیونکر ابوبکر (رض) کی خلافت قبول کرلیتے بلکہ حدیث پر چلنے کے لئے ان کو مجبور کردیتے، وہ تو حدیث کے ایسے ماننے والے تھے کہ جب ابوبکر (رض) نے یہ حدیث سنائی : الأ ئم ۃ من قریش امام قریش میں سے ہوں گے تو انہوں نے اپنی امامت کا دعوی چھوڑ دیا، پھر وہ دوسرے کی امامت حدیث کے خلاف کیسے مانتے، اور سب سے زیادہ تعجب یہ ہے کہ بنی ہاشم اور خود علی (رض) ابوبکر (رض) کی خلافت کیسے تسلیم کرتے اور ان سے بیعت کیوں کرتے، برا ہو ان کا جو علی (رض) کو ایسا بزدل مانتے ہیں کہ اپنا واجبی حق بھی نہ لے سکے، معاذ اللہ یہ سب دروغ بےفروغ ہے۔

【3】

کیا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی وصیت فرمائی؟

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے قریب جب آپ کا سانس اٹک رہا تھا تو آپ ﷺ کی عام وصیت یہ تھی : لوگو ! نماز اور غلام و لونڈی کا خیال رکھنا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ١٢٢٩، ومصباح الزجاجة : ٩٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٧) (صحیح )

【4】

کیا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی وصیت فرمائی؟

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی آخری بات یہ تھی : نماز کا اور اپنے غلام و لونڈی کا خیال رکھنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٣٣ (٥١٥٦) ، (تحفة الأ شراف : ١٠٣٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نماز کو اپنے وقت پر شرائط اور اداب کے ساتھ پڑھو، بےوقت مت پڑھو، اور اس میں دیر مت کرو، اور غلاموں اور لونڈیوں کا خیال رکھو کہ ان پر ظلم مت کرو، طاقت سے زیادہ ان سے کام نہ لو، ان کو کھانے پہننے کی تکلیف نہ دو ، جو لوگ نماز کا خیال نہیں رکھتے اس کو قضاء کردیتے ہیں یا جلدی بغیر خشوع و خضوع کے پڑھ لیتے ہیں یا طہارت میں احتیاط نہیں کرتے یا اپنے لونڈی غلام اور خادم پر ظلم و ستم کرتے ہیں وہ کس طرح کے مسلمان ہیں، جب آپ ﷺ کی آخری وصیت کا بھی ان کو خیال نہیں ہے۔

【5】

وصیت کرنے کی ترغیب

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس مسلمان کے پاس وصیت کرنے کے قابل کوئی چیز ہو، اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ دو راتیں بھی اس حال میں گزارے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الوصایا ١ (١٦٢٨) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥ (٩٧٤) ، (تحفة الأ شراف : ٧٩٤٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوصایا ١ (٢٧٣٨) ، سنن ابی داود/الوصایا ١ (٢٨٦٢) ، سنن الترمذی/الوصایا ٣ (٢١١٩) ، سنن النسائی/الوصایا ١ (٣٦٤٥) موطا امام مالک/الوصایا ١ (١) ، مسند احمد (٢/٤، ١٠، ٣٤، ٥٠، ٥٧، ٨٠، ١١٣) ، سنن الدارمی/الوصایا ١ (٣٢١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کے پاس مال ہو جس کے لئے وصیت کی ضرورت ہو یا کسی کی امانت ہو تو ضروری ہے کہ ہمیشہ وصیت لکھ کر یا لکھوا کر اپنے پاس رکھا کرے ایسا نہ ہو کہ موت آجائے اور وصیت کی مہلت نہ ملے، اور لوگوں کے حقوق اپنے ذمہ رہ جائیں۔

【6】

وصیت کرنے کی ترغیب

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : محروم وہ ہے جو وصیت کرنے سے محروم رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ١٦٨٥، ومصباح الزجاجة : ٩٥٥) (ضعیف) (یزید بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں )

【7】

وصیت کرنے کی ترغیب

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص وصیت کر کے مرا، وہ راہ (راہ راست) پر اور سنت کے مطابق مرا، نیز پرہیزگاری اور شہادت پر اس کا خاتمہ ہوا، اس کی مغفرت ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ٣٠٠٠، ومصباح الزجاجة : ٩٥٦) (ضعیف) (بقیہ مدلس ہیں، اور حدیث عنعنہ سے روایت کی ہے )

【8】

وصیت کرنے کی ترغیب

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسلمان کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں بھی اس طرح گزارے کہ اس کی وصیت لکھی ہوئی اس کے پاس نہ ہو، جب کہ اس کے پاس وصیت کرنے کے لائق کوئی چیز ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ٧٦٦٣ ألف) (صحیح )

【9】

وصیت میں ظلم کرنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے وارث کو میراث دلانے سے بھاگے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جنت کی میراث نہ دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ٨٤٣، ومصباح الزجاجة : ٩٥٧) (ضعیف) (سند میں زید العمی اور ان کے لڑکے عبد الرحیم دونوں ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : المشکاة : ٣٠٧٨ )

【10】

وصیت میں ظلم کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی ستر سال تک نیک عمل کرتا رہتا ہے، پھر وصیت کے وقت اپنی وصیت میں ظلم کرتا ہے، تو اس کا خاتمہ برے عمل پر ہوتا ہے اور جہنم میں جاتا ہے، اسی طرح آدمی ستر سال تک برے اعمال کا ارتکاب کرتا رہتا ہے لیکن اپنی وصیت میں انصاف کرتا ہے، اس کا خاتمہ بالخیر ہوتا ہے، اور جنت میں جاتا ہے ۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا : اگر تم چاہو تو اس آیت کریمہ : تلک حدود الله (سورۃ النساء : ١٣ - ١٤) کو پڑھو یعنی یہ حدود اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتیوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے، اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٩٥، ومصباح الزجاجة : ٩٥٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الوصایا ٣ (٢٨٦٧) ، سنن الترمذی/الوصایا ٢ (٢١١٧) ، مسند احمد (٢/٢٧٨) (ضعیف) (ترمذی میں سبعين سنة ہے، اور سند میں شہر بن حوشب ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : ضعیف أبی داود : ٤٩٥ )

【11】

وصیت میں ظلم کرنا

قرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے موت کے وقت اللہ کی کتاب (قرآن) کے موافق وصیت کی تو یہ وصیت اس کی اس زکاۃ کا کفارہ ہوجائے گی جو اس نے اپنی زندگی میں ادا نہ کی ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ١١٠٨٦، ومصباح الزجاجة : ٩٥٩) (ضعیف) (بقیہ بن الولید مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور ابوحلبس مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٠٣٣ )

【12】

زندگی میں خرچ سے بخیلی اور موت کے وقت فضول خرچی سے ممانعت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بتائیے کہ لوگوں میں کس کے ساتھ حسن سلوک کا حق مجھ پر زیادہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، تمہارے والد کی قسم، تمہیں بتایا جائے گا، (سب سے زیادہ حقدار) تمہاری ماں ہے ، اس نے کہا : پھر کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تمہاری ماں ہے ، اس نے کہا : پھر کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر بھی تمہاری ماں ہے ، اس نے کہا : پھر کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تمہارا باپ کہا : مجھے بتائیے کہ میں اپنا مال کس طرح صدقہ کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اللہ کی قسم ! یہ بھی تمہیں بتایا جائے گا، صدقہ اس حال میں کرو کہ تم تندرست ہو، مال کی حرص ہو، زندہ رہنے کی امید ہو، فقر و فاقہ کا اندیشہ ہو، ایسا نہ کرو کہ تمہاری سانس یہاں آجائے (تم مرنے لگو) تو اس وقت کہو : میرا یہ مال فلاں کے لیے اور یہ مال فلاں کے لیے ہے، اب تو یہ مال ورثاء کا ہے گرچہ تم نہ چاہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٢ (٥٩٧١) ، صحیح مسلم/البر والصلة ١ (٢٥٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٢/٣٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مرتے وقت وہ تمہارا مال ہی کہاں رہا جو تم کہتے ہو کہ میرا یہ مال فلاں اور فلاں کو دینا۔ جب آدمی بیمار ہوا اور موت قریب آپہنچی تو دو تہائی مال پر وارثوں کا حق ہوگیا، اب ایک تہائی پر اختیار رہ گیا اس میں جو چاہے وہ کرلے، لیکن ایک تہائی سے زیادہ اگر صدقہ دے گا تو وہ صحیح نہ ہوگا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عادت کے طور پر غیر اللہ کی قسم کھانا منع نہیں ہے، کیونکہ نبی کریم نے اس کے باپ کی قسم کھائی، اور بعضوں نے کہا یہ حدیث ممانعت سے پہلے کی ہے، پھر آپ ﷺ نے باپ دادوں کی قسم کھانے سے منع فرمایا، نیز حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ماں کے ساتھ باپ سے تین حصے زیادہ سلوک کرنا چاہیے کیونکہ ماں کا حق سب پر مقدم ہے، ماں نے بچہ کے پالنے میں جتنی تکلیف اٹھائی ہے اتنی باپ نے نہیں اٹھائی گو باپ کا حق بھی بہت بڑا ہے۔

【13】

زندگی میں خرچ سے بخیلی اور موت کے وقت فضول خرچی سے ممانعت

بسر بن جحاش قرشی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ہتھیلی پر لعاب مبارک ڈالا، اور اس پر شہادت کی انگلی رکھ کر فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے ابن آدم ! تم مجھے کس طرح عاجز کرتے ہو، حالانکہ میں نے تمہیں اسی جیسی چیز (منی) سے پیدا کیا ہے پھر جب تمہاری سانس یہاں پہنچ جاتی ہے، آپ نے اپنے حلق کی جانب اشارہ فرمایا تو کہتا ہے کہ میں صدقہ کرتا ہوں، اب صدقہ کرنے کا وقت کہاں رہا ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ٢٠١٨، ومصباح الزجاجة : ٩٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢١٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: بلکہ صدقہ کا عمدہ وقت وہ ہے جب آدمی صحیح اور تندرست ہو، اور وہ مال کا محتاج ہو بہت دنوں تک جینے کی توقع ہو، لیکن ان سب باتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور اپنا عمدہ مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرے۔

【14】

تہائی مال کی وصیت

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال ایسا بیمار ہوا کہ موت کے کنارے پہنچ گیا، رسول اللہ ﷺ میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے، تو میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! میرے پاس بہت سارا مال ہے، اور ایک بیٹی کے علاوہ کوئی وارث نہیں ہے، تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کر دوں ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا : نہیں ، میں نے کہا : پھر آدھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ، میں نے کہا : تو ایک تہائی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، تہائی، حالانکہ یہ بھی زیادہ ہی ہے ، تمہارا اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ کر جانا، انہیں محتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٦ (١٢٩٥) ، الوصایا ٢ (٢٧٤٢) ، ٣ (٢٧٤٤) ، مناقب الأنصار ٤٩ (٣٩٣٦) ، المغازي ٧٧ (٤٣٩٥) ، النفقات ١ (٥٣٥٤) ، المرضی ١٣ (٥٦٥٩) ، ١٦ (٥٦٦٨) ، الدعوات ٤٣ (٦٣٧٣) ، الفرائض ٦ (٦٧٣٣) ، صحیح مسلم/الوصایا ٢ (١٦٢٨) ، سنن ابی داود/الوصایا ٢ (٢٨٦٤) ، سنن الترمذی/الجنائز ٦ (٩٧٥) ، الوصایا ١ (٢١١٧) ، سنن النسائی/الوصایا ٣ (٣٦٥٦) ، (تحفة الأ شراف : ٣٨٩٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الوصایا ٣ (٤) ، مسند احمد (١/١٦٨، ١٧٢، ١٧٦، ١٧٩) ، سنن الدارمی/الوصایا ٧ (٣٢٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ وصیت تہائی مال سے زیادہ میں نافذ نہ ہوگی، اور دو تہائی وارثوں کو ملے گا اگرچہ وصیت تہائی سے زیادہ یا کل مال کی ہو، جمہور علماء کا یہی قول ہے، لیکن اگر موصی کا کوئی وارث نہ ہو توثلث مال سے زیادہ کی وصیت درست ہے۔

【15】

تہائی مال کی وصیت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہاری وفات کے وقت تم پر تہائی مال کا صدقہ کیا ہے، (یعنی وصیت کی اجازت دی ہے) تاکہ تمہارے نیک اعمال میں اضافہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ١٤١٨٠، ومصباح الزجاجة : ٩٦١) (حسن) (سند میں طلحہ بن عمرو ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے حسن ہے )

【16】

تہائی مال کی وصیت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے ابن آدم ! میں نے دو ایسی چیزیں عنایت کیں جن میں سے ایک پر بھی تمہارا حق نہیں تھا، میں جس وقت تمہاری سانس روکوں اس وقت تمہیں مال کے ایک حصہ (یعنی تہائی مال کے صدقہ کرنے) کا اختیار دیا، تاکہ اس کے ذریعے سے میں تمہیں پاک کروں اور تمہارا تزکیہ کروں، دوسری چیز تمہارے مرنے کے بعد میرے بندوں کا تم پر نماز (جنازہ) پڑھنا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ٨٤٠٧، ومصباح الزجاجة : ٩٦٢) (ضعیف) (سند میں صالح بن محمد بن یحییٰ مجہول ہیں، اور مبارک بن حسان ضعیف اور منکر الحدیث )

【17】

تہائی مال کی وصیت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میری تمنا ہے کہ لوگ تہائی مال کے بجائے چوتھائی مال میں وصیت کریں، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک تہائی حصہ بھی بڑا ہے یا زیادہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٣ (٢٧٤٣) ، صحیح مسلم/الوصایا ١ (١٦٢٩) ، سنن النسائی/الوصایا ٣ (٣٦٦٤) ، (تحفة الأ شراف : ٨٤٠٤) ، وقد آخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٠، ٢٣٣) (صحیح )

【18】

وارث کے لئے وصیت درست نہیں۔

عمرو بن خارجہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو اس حال میں خطبہ دیا کہ آپ اپنی سواری (اونٹنی) پر تھے، وہ جگالی کر رہی تھی، اور اس کا لعاب میرے مونڈھوں کے درمیان بہہ رہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کے لیے میراث کا حصہ متعین کردیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں، بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی، اور زنا کرنے والے کے لیے پتھر ہے، جو شخص اپنے باپ دادا کے علاوہ دوسرے کی طرف نسبت کا دعویٰ کرے یا (غلام) اپنے مالک کے علاوہ دوسرے شخص کو مالک بنائے، تو اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا نفل قبول ہوگا، نہ فرض یا یوں کہا کہ نہ فرض قبول ہوگا نہ نفل ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الوصایا ٥ (٢١٢١ مطولاً ) ، سنن النسائی/الوصایا ٤ (٣٦٧١) ، (تحفة الأ شراف : ١٠٧٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨٦، ١٨٧، ٢٣٨، ٢٣٩) ، سنن الدارمی/الوصایا ٢٨ (٣٣٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شروع اسلام میں یہ حکم تھا کہ جب کوئی مرنے لگے اور اس کے پاس مال ہو تو وہ اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے اور وصیت کے مطابق اس کا مال تقسیم کیا جائے، پھر اللہ تعالیٰ نے ترکہ کی آیتیں اتاریں اور ہر ایک وارث کا حصہ مقرر کردیا۔ اب وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں رہا کیونکہ اس میں دوسرے وارثوں کا نقصان ہوگا، البتہ اجنبی شخص کے لئے یا جس کو ترکہ میں سے کچھ حصہ نہ ملتا ہو موجودہ وارثوں کے سبب سے وصیت کرنا درست ہے، وہ بھی تہائی مال میں سے۔

【19】

وارث کے لئے وصیت درست نہیں۔

ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ حجۃ الوداع کے سال اپنے خطبہ میں فرما رہے تھے : اللہ تعالیٰ نے (میت کے ترکہ میں) ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٩٠ (٣٥٦٥) ، سنن الترمذی/الوصایا ٥ (٢١٢٠) ، (تحفة الأ شراف : ٤٨٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٦٧) (صحیح )

【20】

وارث کے لئے وصیت درست نہیں۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کے نیچے کھڑا تھا، اس کا لعاب میرے اوپر بہہ رہا تھا، میں نے آپ ﷺ کو فرماتے سنا : اللہ تعالیٰ نے (میت کے ترکہ میں) ہر ایک حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے، تو سنو ! کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ٨٦٣، ومصباح الزجاجة : ٩٦٣) (صحیح )

【21】

قرض وصیت پر مقدم ہے۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وصیت سے پہلے قرض (کی ادائیگی) کا فیصلہ فرمایا، حالانکہ تم اس کو قرآن میں پڑھتے ہو : من بعد وصية يوصي بها أو دين یہ حصے اس وصیت (کی تکمیل) کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو، یا ادائے قرض کے بعد (سورۃ النساء : ١١ ) ١ ؎ اور حقیقی بھائی وارث ہوں گے، علاتی نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفرائض ٥ (٢٠٩٤، ٢٠٩٥) ، (تحفة الأ شراف : ١٠٠٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٧٩، ١٣١، ١٤٤) ، سنن الدارمی/الفرائض ٢٨ (٣٠٢٧) (حسن) (سند میں الحارث الاعور ضعیف ہے، لیکن سعد بن الاطول کے شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : حدیث نمبر ٢٤٣٣ ، و الإرواء : ١٦٦٧ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب کوئی مرجائے اور سگے بہن بھائی چھوڑ جائے اور علاتی یعنی سوتیلے بھی جن کی ماں جدا ہو، لیکن باپ ایک ہی ہو تو سگوں کو ترکہ ملے گا اور سوتیلے محروم رہیں گے، اس مسئلہ کی پوری تفصیل علم الفرائض میں ہے۔

【22】

جو وصیت کیے بغیر مرجائے اس کی طرف سے صدقہ کرنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ مال چھوڑ گئے ہیں، انہوں نے وصیت نہیں کی ہے، کیا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کر دوں تو ان کے گناہ معاف ہوجائیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٤٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الوصیة ٢ (١٦٣٠) (صحیح )

【23】

جو وصیت کیے بغیر مرجائے اس کی طرف سے صدقہ کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا، اور اس نے عرض کیا : میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا، اور وہ وصیت نہیں کرسکیں، میرا خیال ہے کہ اگر وہ بات چیت کر پاتیں تو صدقہ ضرور کرتیں، تو کیا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو انہیں اور مجھے اس کا ثواب ملے گا یا نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں (ملے گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ١٥ (١٠٠٤) ، الوصیة ٢ (١٦٣٠) ، (تحفة الأ شراف : ١٦٨١٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوصایا ١٩ (٢٩٦٠) ، سنن ابی داود/الوصیة ١٥ (٢٨٨١) ، سنن النسائی/الوصیة ٧ (٣٦٧٩) ، موطا امام مالک/الأقضیة ٤١ (٥٣) ، مسند احمد (٦/٥١) (صحیح )

【24】

اللہ کے ارشاد اور جو نادار ہو تو وہ یتیم کا مال دستور کے موافق کھاسکتا ہے کی تفسیر

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا : میرے پاس کچھ بھی نہیں اور نہ مال ہی ہے، البتہ میری پرورش میں ایک یتیم ہے جس کے پاس مال ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : یتیم کے مال میں سے فضول خرچی کئے اور بغیر اپنے لیے پونجی بنائے کھاؤ میرا خیال ہے آپ ﷺ نے فرمایا : اپنا مال بچانے کے لیے اس کا مال اپنے مصرف میں نہ خرچ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الوصایا ٨ (٢٨٧٢) ، سنن النسائی/الوصایا ١٠ (٣٦٩٨) ، (تحفة الأ شراف : ٨٦٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٦، ٢١٦) (حسن صحیح ) وضاحت : مثلاً کسی نے آپ سے قرض مانگا تو یتیم کا مال دے دیا، اور اپنے مال کو رکھ چھوڑا یہ جائز نہیں، مقصد یہ ہے کہ یتیم کے مال میں اس شخص کو اس قدر تصرف کی اجازت ہے جو یتیم کی پرورش کرتا ہو اور بالکل محتاج ہو کہ ضرورت کے مطابق اس میں سے کھالے، لیکن مال برباد کرنا اور اسراف کرنا یا ضرورت سے زیادہ خرچ کردینا یہ کسی طرح صحیح نہیں ہے، ہر حال میں بہتر یہی ہے کہ اگر محتاج بھی ہو تو محنت کر کے اس میں سے کھائے، اور یتیم کے مال کو محفوظ رکھے، صرف یتیم پر ضرورت کے مطابق خرچ کرے، قرآن شریف میں ہے کہ جو یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔