25. وراثت کا بیان

【1】

میراث کا علم سیکھنے سکھانے کی ترغیب۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوہریرہ ! علم فرائض سیکھو اور سکھاؤ، اس لیے کہ وہ علم کا آدھا حصہ ہے، وہ بھلا دیا جائے گا، اور سب سے پہلے یہی علم میری امت سے اٹھایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٥٨، ومصباح الزجاجة : ٩٦٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الفرائض ٢ (٢٠٩١) (ضعیف) (حفص بن عمر ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٤٥٦ )

【2】

اولاد کے حصوں کا بیان۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ سعد بن ربیع (رض) کی بیوی ان کی دونوں بیٹیوں کو لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ دونوں سعد کی بیٹیاں ہیں، جو آپ کے ساتھ غزوہ احد میں تھے اور شہید ہوگئے، ان کے چچا نے ان کی ساری میراث پر قبضہ کرلیا (اب ان بچیوں کی شادی کا معاملہ ہے) اور عورت سے مال کے بغیر کوئی شادی نہیں کرتا تو آپ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ میراث والی آیت نازل ہوئی، اور آپ ﷺ نے سعد بن ربیع (رض) کے بھائی کو طلب کیا اور فرمایا : سعد کی دونوں بیٹیوں کو ان کے مال کا دو تہائی حصہ اور ان کی بیوی کو آٹھواں حصہ دے دو ، پھر جو بچے وہ تم لے لو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفرائض ٤ (٢٨٩١، ٢٨٩٢) ، سنن الترمذی/الفرائض ٣ (٢٠٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٣/٣٥٢) (حسن) (سند میں عبد اللہ بن محمد عقیل منکر الحدیث راوی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٢٥٧٣ - ٢٥٧٤ )

【3】

اولاد کے حصوں کا بیان۔

ہذیل بن شرحبیل (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی ابوموسیٰ اشعری اور سلمان بن ربیعہ باہلی (رض) کے پاس آیا، اور ان سے اس نے بیٹی، پوتی اور حقیقی بہن کے (حصہ کے) بارے میں پوچھا، تو ان دونوں نے کہا : آدھا بیٹی کے لیے ہے، اور جو باقی بچے وہ بہن کے لیے ہے، لیکن تم عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس جاؤ، اور ان سے بھی معلوم کرلو، وہ بھی ہماری تائید کریں گے، وہ عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آیا، اور ان سے بھی مسئلہ معلوم کیا، نیز بتایا کہ ابوموسیٰ اشعری، اور سلمان بن ربیعہ (رض) نے یہ بات بتائی ہے، تو عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : اگر میں ایسا حکم دوں تو گمراہ ہوگیا، اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہ رہا، لیکن میں وہ فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا، بیٹی کے لیے آدھا، اور پوتی کے لیے چھٹا حصہ ہے، اس طرح دو تہائی پورے ہوجائیں، اور جو ایک تہائی بچا وہ بہن کے لیے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفرائض ٨ (٦٧٣٦) ، سنن ابی داود/الفرائض ٤ (٢٨٩٠) ، سنن الترمذی/الفرائض ٤ (٢٠٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٩، ٤٢٨، ٤٤٠، ٤٦٣) ، سنن الدارمی/الفرائض ٧ (٢٩٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ترکہ کے مال کو چھ حصوں میں بانٹ دیا جائے، تین حصہ بیٹی کو، ایک پوتی کو اور دو حصے بہن کو ملیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مرنے والے کی ایک لڑکی کے ساتھ اس کی پوتیاں بھی ہوں یا ایک ہی پوتی ہو تو آدھا حصہ بیٹی کو ملے گا اور دو تہائی ٢ -٣ پوتیوں پر برابر تقسیم ہوجائے گا، اور بہنیں بیٹی کے ساتھ عصبہ ہوجاتی ہیں یعنی بیٹیوں کے حصہ سے جو بچ رہے وہ بہنوں کو مل جاتا ہے، دوسری روایت میں یوں ہے کہ جب ابوموسی اشعری (رض) نے عبداللہ بن مسعود (رض) کا یہ جواب سنا تو کہا کہ مجھ سے کوئی مسئلہ مت پوچھو جب تک یہ عالم تم میں موجود ہے، اور جمہور علماء اس فتوی میں ابن مسعود (رض) کے ساتھ ہیں، لیکن عبداللہ بن عباس (رض) کا قول یہ ہے کہ بیٹی کے ہوتے ہوئے بہن میراث سے محروم ہوجاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشا ہے :يستفتونک قل الله يفتيكم في الکلالة إن امرؤ هلک ليس له ولد وله أخت فلها نصف ما ترک وهو يرثهآ إن لم يكن لها ولد فإن کانتا اثنتين فلهما الثلثان مما ترک وإن کانوا إخوة رجالا ونساء فللذکر مثل حظ الأنثيين (سورة النساء : 176) اے رسول ! لوگ آپ سے (کلالہ کے بارے میں) فتویٰ پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ خود تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے، اگر کوئی آدمی مرجائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ اس بہن کو (حقیقی ہو یا علاتی) ترکہ ملے گا، اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہوگا، اگر اولاد نہ ہو پس اگر دو بہنیں ہوں تو انہیں ترکہ کا دو تہائی ملے گا، اور اگر کئی شخص اس رشتہ کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لیے عورتوں کے دوگنا حصہ ہے) اور ولد کا لفظ عام ہے، بیٹا اور بیٹی دونوں کو شامل ہے، تو معلوم ہوا کہ بہن دونوں سے محروم ہوجاتی ہے۔ جمہور کہتے ہیں کہ ولد سے یہاں بیٹا مراد ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آگے یوں فرمایا : وهو يرثهآ إن لم يكن لها ولد (سورة النساء : 176) ... اور اگر وہ بہن مرجائے تو یہ بھائی اس کا وارث ہوگا، بشرطیکہ اس مرنے والی بہن کی اولاد نہ ہو (اور نہ ہی باپ) ... اور یہاں بالاجماع ولد سے بیٹا مراد ہے، اس لئے کہ اجماعاً مرنے والی کی لڑکی بھائی کو محروم نہیں کرسکتی۔

【4】

داداکی میراث۔

معقل بن یسار مزنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ کے پاس ترکے کا ایک ایسا مقدمہ لایا گیا جس میں دادا بھی (وراثت کا حقدار) تھا، تو آپ ﷺ نے اسے ایک تہائی یا چھٹا حصہ دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ١١٤٧٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الفرائض ٦ (٢٨٩٧) ، مسند احمد (٥/٢٧) (صحیح) (یونس اور ان کے د ادا میں بعض کلام ہے، لیکن ا گلی سند سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: احمد، ابوداود اور ترمذی نے عمران بن حصین (رض) سے یوں روایت کی کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرا پوتا مرگیا ہے تو مجھ کو اس کے ترکہ میں سے کیا ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : چھٹا حصہ، جب وہ پیٹھ موڑ کر چلا تو اس کو بلا کر فرمایا : ایک چھٹا حصہ سلوک کے طور پر (یعنی اصل میراث تیری صرف سدس (چھٹا حصہ) ہے اور ایک سدس اس صورت خاص کی وجہ سے تجھ کو ملا ہے) بخاری ومسلم نے حسن کی روایت مغفل (رض) سے روایت کی ہے اور دادا کے باب میں صحابہ اور بعد کے علماء کے درمیان اختلاف ہے، بعضوں نے دادا کو باپ کے مثل رکھا ہے اور کبھی اس کو ثلث (ایک تہائی) دلایا ہے کبھی سدس (چھٹا حصہ) کبھی عصبہ بھی کہا ہے، بعضوں نے ہمیشہ اس کے لئے سدس رکھا ہے، اسی طرح اختلاف ہے کہ دادا کے ہوتے ہوئے بہن بھائی کو ترکہ ملے گا یا نہیں تو صحابہ کی ایک جماعت جیسے علی، ابن مسعود اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کا یہ قول ہے کہ دادا بھائیوں کے ساتھ وراثت میں حصہ دار ہوگا اور بعضوں نے کہا : بھائی بہن دادا کی وجہ سے محروم ہوں گے جیسے باپ کی وجہ سے محروم ہوتے ہیں، ان مسائل کی تفصیل فرائض اور مواریث کی کتابوں میں ملے گی۔

【5】

داداکی میراث۔

معقل بن یسار مزنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے خاندان کے ایک دادا کے لیے چھٹے حصہ کا فیصلہ فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفرائض ٦ (٢٨٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧) (صحیح) (ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٢٥٧٦ )

【6】

دادی کی میراث۔

قبیصہ بن ذویب (رض) کہتے ہیں کہ ایک نانی ابوبکر (رض) کے پاس اپنا حصہ مانگنے آئی، تو آپ نے اس سے کہا : کتاب اللہ (قرآن) میں تمہارے حصے کا کوئی ذکر نہیں، اور رسول اللہ ﷺ کی سنت میں بھی مجھے تمہارا کوئی حصہ معلوم نہیں، تم لوٹ جاؤ یہاں تک کہ میں لوگوں سے اس سلسلے میں معلومات حاصل کرلوں، آپ نے لوگوں سے پوچھا، تو مغیرہ بن شعبہ (رض) نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا آپ ﷺ نے اس کو چھٹا حصہ دلایا، ابوبکر (رض) نے کہا : کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی تھا ؟ تو محمد بن مسلمہ انصاری (رض) کھڑے ہوئے، اور وہی بات بتائی جو مغیرہ بن شعبہ (رض) نے بتائی تھی، چناچہ ابوبکر (رض) نے اس کو نافذ کردیا۔ پھر دوسری عورت جو دادی تھی عمر (رض) کے پاس اپنا حصہ مانگنے آئی، تو آپ نے کہا : کتاب اللہ (قرآن) میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، اور جو فیصلہ پیشتر ہوچکا ہے وہ تمہارے لیے نہیں، بلکہ نانی کے لیے ہوا، اور میں از خود فرائض میں کچھ بڑھا بھی نہیں سکتا، وہی چھٹا حصہ ہے اگر دادی اور نانی دونوں ہوں تو دونوں اس چھٹے حصے کو آدھا آدھا تقسیم کرلیں، اور دونوں میں سے ایک ہو تو وہ چھٹا حصہ پورا لے لے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفرائض ٥ (٢٨٩٤) ، سنن الترمذی/الفرائض ١٠ (٢١٠٠، ٢١٠١) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٣٢، ١١٥٢٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الفرائض ٨ (٤) مسند احمد (٤/ ٢٢٥) (ضعیف) (قبیصہ اور ابوبکر (رض) کے مابین سند میں انقطاع ہے، نیز سند میں بھی اختلاف ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٤٢٦ )

【7】

دادی کی میراث۔

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دادی و نانی کو چھٹے حصے کا وارث بنایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٧٤٦، ومصباح الزجاجة : ٩٦٥) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الفرائض ١٨ (٢٩٧٥) (ضعیف الإسناد) (سند میں لیث بن أبی سلیم مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور شریک القاضی میں بھی ضعف ہے )

【8】

کلالہ کا بیان۔

معدان بن ابی طلحہ یعمری سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، یا خطبہ دیا، تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا : اللہ کی قسم ! میں اپنے بعد کلالہ (ایسا مرنے والا جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا) کے معاملے سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں چھوڑ رہا ہوں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے بھی پوچھا، تو آپ ﷺ نے اس قدر سختی سے جواب دیا کہ ویسی سختی آپ نے مجھ سے کبھی نہیں کی یہاں تک کہ اپنی انگلی سے میری پسلی یا سینہ میں ٹھوکا مارا پھر فرمایا : اے عمر ! تمہارے لیے آیت صیف يستفتونک قل الله يفتيكم في الکلالة آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں : آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے (سورۃ النساء : ١٧٦ ) جو کہ سورة نساء کے آخر میں نازل ہوئی، وہی کافی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفرائض ٢ (١٦١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٤٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الفرائض ٩ (٧) ، مسند احمد (١/١٥، ٢٦، ٢٧، ٤٨) (صحیح )

【9】

کلالہ کا بیان۔

مرہ بن شراحیل کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے کہا : تین باتیں ایسی ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ ان کو بیان فرما دیتے تو میرے لیے یہ دنیا ومافیہا سے زیادہ پسندیدہ ہوتا، یعنی کللہ، سود اور خلافت۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٤٠، ومصباح الزجاجة : ٩٦٧) (ضعیف) (سند میں مرہ بن شراحیل اور عمر (رض) کے درمیان انقطاع ہے )

【10】

کلالہ کا بیان۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو میرے پاس رسول اللہ ﷺ عیادت کرنے آئے، ابوبکر (رض) بھی آپ کے ساتھ تھے، دونوں پیدل آئے، مجھ پر بیہوشی طاری تھی، تو رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا، اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا (مجھے ہوش آگیا) تو میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں کیا کروں ؟ اپنے مال کے بارے میں کیا فیصلہ کروں ؟ یہاں تک کہ سورة نساء کے اخیر میں میراث کی یہ آیت نازل ہوئی وإن کان رجل يورث کلالة اور جن کی میراث لی جاتی ہے، وہ مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو (سورۃ النساء : 12) اور يستفتونک قل الله يفتيكم في الکلالة آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں : آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے (سورۃ النساء : ١٧٦ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفرائض ١٣ (٦٧٤٣) ، صحیح مسلم/الفرائض ٢ (١٦١٦) ، سنن ابی داود/الفرائض ٢ (٢٨٨٦) ، سنن الترمذی/الفرائض ٧ (٢٠٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٢٨) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطہارة ٥٥ (٧٣٩) (صحیح )

【11】

کیا اہل اسلام مشرکین کے وارث بن سکتے ہیں۔

اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوگا، اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤٤ (١٥٨٨) ، المغازي ٤٨ (٤٢٨٣) ، الفرائض ٢٦ (٦٧٦٤) ، صحیح مسلم/الفرائض ١ (١٦١٤) ، سنن ابی داود/الفرائض ١٠ (٢٩٠٩) ، سنن الترمذی/الفرائض ١٥ (٢١٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الفرائض ١٣ (١٠) ، مسند احمد (٥/٢٠٠، ٢٠١، ٢٠٨، ٢٠٩) ، سنن الدارمی/الفرائض ٢٩ (٣٠٤١) (صحیح )

【12】

کیا اہل اسلام مشرکین کے وارث بن سکتے ہیں۔

اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ مکہ میں اپنے گھر میں ٹھہریں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عقیل نے ہمارے لیے گھر یا زمین چھوڑی ہی کہاں ہے ؟ عقیل اور طالب دونوں ابوطالب کے وارث بنے اور جعفر اور علی (رض) کو کچھ بھی ترکہ نہیں ملا اس لیے کہ یہ دونوں مسلمان تھے، اور عقیل و طالب دونوں (ابوطالب کے انتقال کے وقت) کافر تھے، اسی بناء پر عمر (رض) کہا کرتے تھے کہ مومن کافر کا وارث نہیں ہوگا۔ اور اسامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہ مسلمان کافر کا وارث ہوگا، اور نہ ہی کافر مسلمان کا ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث لایرث المسلم الکافر تقدم تخریجہ بالحدیث السابق (٢٧٢٩) ، وحدیث وہل ترک لنا عقیل أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٤٤ (١٥٨٨) ، الجہاد ١٨٠ (٣٠٥٨) ، المغازي ٤٨ (٤٢٨٢) ، صحیح مسلم/الحج ٨٠ (١٣٥١) ، سنن ابی داود/المناسک (٢٠١٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الفرائض ١٣ (١٠) ، مسند احمد (٢/٢٣٧، سنن الدارمی/الفرائض ٢٩ (٣٠٣٦) (صحیح )

【13】

کیا اہل اسلام مشرکین کے وارث بن سکتے ہیں۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو مذہب والے (جیسے کافر اور مسلمان) ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفردبہ ابن ماجہ : (تحفة الأشراف : ٨٧٨٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الفرائض ١٠ (٢٩١١) ، سنن الترمذی/الفرائض ١٦ (٢١٠٩) ، مسند احمد (٢/١٧٨، ١٩٥) (حسن صحیح )

【14】

ولاء کی میراث۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رباب بن حذیفہ بن سعید بن سہم نے ام وائل بنت معمر جمحیہ سے نکاح کیا، اور ان کے تین بچے ہوئے، پھر ان کی ماں کا انتقال ہوا، تو اس کے بیٹے زمین جائیداد اور ان کے غلاموں کی ولاء کے وارث ہوئے، ان سب کو لے کر عمرو بن العاص (رض) شام گئے، وہ سب طاعون عمواس میں مرگئے تو ان کے وارث عمرو (رض) ہوئے، جو ان کے عصبہ تھے، اس کے بعد جب عمرو بن العاص (رض) شام سے لوٹے تو معمر کے بیٹے عمرو بن العاص (رض) کے خلاف اپنی بہن کے ولاء (حق میراث) کا مقدمہ لے کر عمر (رض) کے پاس پہنچے، عمر (رض) نے کہا : میں نے جو رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے اسی کے مطابق تمہارا فیصلہ کروں گا، میں نے آپ ﷺ کو فرماتے سنا : جس ولاء کو لڑکا اور والد حاصل کریں وہ ان کے عصبہ کو ملے گا خواہ وہ کوئی بھی ہو ، اس کے بعد عمر (رض) نے ہمارے حق میں فیصلہ کردیا، اور ہمارے لیے ایک دستاویز لکھ دی، جس میں عبدالرحمٰن بن عوف، زید بن ثابت (رض) اور ایک تیسرے شخص کی گواہی درج تھی، جب عبدالملک بن مروان خلیفہ ہوئے تو ام وائل کا ایک غلام مرگیا، جس نے دو ہزار دینار میراث میں چھوڑے تھے، مجھے پتہ چلا کہ عمر (رض) کا کیا ہوا فیصلہ بدل دیا گیا ہے، اور اس کا مقدمہ ہشام بن اسماعیل کے پاس گیا ہے، تو ہم نے معاملہ عبدالملک کے سامنے اٹھایا، اور ان کے سامنے عمر (رض) کی دستاویز پیش کی جس پر عبدالملک نے کہا : میرے خیال سے تو یہ ایسا فیصلہ ہے جس میں کسی کو بھی شک نہیں کرنا چاہیئے، اور میں یہ نہیں سمجھ رہا تھا کہ مدینہ والوں کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ وہ اس جیسے (واضح) فیصلے میں شک کر رہے ہیں، آخر کار عبدالملک نے ہماری موافقت میں فیصلہ کیا، اور ہم برابر اس میراث پر قابض رہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفرائض ١٢ (٢٩١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: ولاء کا قاعدہ یہ ہے کہ اس غلام یا لونڈی کے ذوی الفروض سے جو بچ رہے گا وہ آزاد کرنے والے کو ملے گا، اگر ذوی الفروض میں سے کوئی نہ ہو اور نہ قریبی عصبات میں سے تو کل مال آزاد کرنے والے کو مل جائے گا، اور جب ایک مرتبہ ام وائل کے غلاموں کی ولاء اس کے بیٹوں کی وجہ سے سسرال والوں میں آگئی تو وہ اب کبھی پھر ام وائل کے خاندان میں جانے والی نہیں تھی جیسے عمر (رض) نے فیصلہ کیا۔

【15】

ولاء کی میراث۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک غلام کھجور کے درخت پر سے گر کر مرگیا، اور کچھ مال چھوڑ گیا، اس نے کوئی اولاد یا رشتہ دار نہیں چھوڑا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کی میراث اس کے گاؤں میں سے کسی کو دے دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفرائض ٨ (٢٩٠٢) ، سنن الترمذی/الفرائض ١٣ (٢١٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٧، ١٧٤، ١٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ میراث رسول اکرم ﷺ کی تھی مگر انبیاء کسی کے وارث نہیں ہوتے اور نہ ان کا کوئی وارث ہوتا ہے اس لیے آپ نے میراث نہیں لی، بیت المال میں ایسی میراث رکھنے کا امام کو اختیار ہے، آپ نے یہی مناسب سمجھا کہ اس کی بستی والے اس کے مال سے فائدہ اٹھائیں۔

【16】

ولاء کی میراث۔

عبداللہ بن شداد کی اخیافی بہن بنت حمزہ کہتی ہیں کہ میرا ایک غلام فوت ہوگیا، اس نے ایک بیٹی چھوڑی، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا مال میرے اور اس کی بیٹی کے درمیان تقسیم کیا، اور مجھے اور اس کی بیٹی کو آدھا آدھا دیا، (بیٹی کو بطور فرض اور بہن کو بطور عصبہ) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٧٢، ومصباح الزجاجة : ٩٦٦) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الفرائض ٣١ (٣٠٥٦) (حسن) (سند میں ابن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٦٩٦ )

【17】

قاتل کو میراث نہ ملے گی۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قاتل وارث نہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفرائض ١٧ (٢١٠٩) ، (تحفة الأ شراف : ١٢٢٨٦) وقد مضی برقم : (٢٦٤٥) (صحیح )

【18】

قاتل کو میراث نہ ملے گی۔

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے، اور فرمایا : عورت اپنے شوہر کی دیت اور مال دونوں میں وارث ہوگی، اور شوہر بیوی کی دیت اور مال میں وارث ہوگا، جب کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل نہ کیا ہو، لیکن جب ایک نے دوسرے کو جان بوجھ کر قتل کردیا ہو تو اس دیت اور مال سے کسی بھی چیز کا وارث نہیں ہوگا، اور اگر ان میں سے ایک نے دوسرے کو غلطی سے قتل کردیا ہو تو اس کے مال سے تو وارث ہوگا، لیکن دیت سے وارث نہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٦٦، ومصباح الزجاجة : ٩٦٨) (موضوع) (سند میں محمد بن سعید ابو سعید مصلوب فی الزند قہ ہے، جو حدیثیں وضع کرتا تھا، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٦٧٤ )

【19】

ذوی الارحام۔

ابوامامہ بن سہل بن حنیف (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو تیر مارا، جس سے وہ مرگیا، اور اس کا ماموں کے علاوہ کوئی اور وارث نہیں تھا تو ابوعبیدہ بن جراح (رض) نے عمر (رض) کو سارا قصہ لکھ بھیجا، جس کے جواب میں عمر (رض) نے انہیں لکھا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کا کوئی مولیٰ نہیں اس کا مولیٰ اللہ اور اس کے رسول ہیں، اور جس کا کوئی وارث نہیں اس کا وارث اس کا ماموں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفرائض ١٢ (٢١٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٨، ٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وأولوا الأرحام بعضهم أولى ببعض (سورة الأنفال : 75) یعنی رشتے ناتے والے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، اور یہ شامل ہے ذوی الارحام کو بھی اور جمہور اسی کے قائل ہیں کہ ذوی الارحام وارث ہوں گے اور وہ بیت المال پر مقدم ہوں گے، اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ عصبات اور ذوی الفروض نہ ہوں تو ذوی الارحام وارث ہوں گے اور وہ بیت المال پر مقدم ہیں۔ (الروضۃ الندیۃ )

【20】

ذوی الارحام۔

مقدام ابوکریمہ (رض) (جو اہل شام میں سے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے تھے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جو شخص بوجھ (قرض یا محتاج اہل و عیال) چھوڑ جائے تو وہ ہمارے ذمہ ہے ، اور کبھی آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ ہے، جس کا کوئی وارث نہ ہو، اس کا وارث میں ہوں، میں ہی اس کی دیت دوں گا، اور میں ہی میراث لوں گا، اور ماموں اس شخص کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو، وہی اس کی طرف سے دیت دے گا، اور وہی اس کا وارث بھی ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفرائض ٨ (٢٨٩٩، ٢٩٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٦٩) (حسن صحیح )

【21】

عصبات کامیراث۔

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سگے بھائی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے، علاتی کے نہیں، آدمی اپنے سگے بھائی کا وارث ہوگا علاتی بھائیوں کا نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفرائض ٥ (٢٠٩٤، ٢٠٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٤٣) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الفرائض ٢٨ (٣٠٢٧) ، وقد مضی برقم : ٢٧١٥ (حسن) (سند میں ابو بحرالبکراوی اور الحارث الاعور دونوں ضعیف ہیں، لیکن سعد بن الاطول (رض) کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے ) وضاحت : حقیقی (سگے) بھائی یعنی وہ جن کے ماں اور باپ دونوں ایک ہوں، اور علاتی سے مراد وہ بھائی ہیں جن کے باپ ایک ہو، اور ماں الگ الگ ہو، اور جن کی ماں ایک ہو باپ الگ الگ ہوں، انہیں اخیافی بھائی کہتے ہیں۔

【22】

عصبات کامیراث۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مال کو اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق ذوی الفروض (میراث کے حصہ داروں) میں تقسیم کرو، پھر جو ان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مرد کا ہوگا جو میت کا زیادہ قریبی ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفرائض ٥ (٦٧٣٢) ، صحیح مسلم/الفرائض ١ (١٦١٥) ، سنن ابی داود/الفرائض ٧ (٢٨٩٨) ، سنن الترمذی/الفرائض ٨ (٢٠٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٩٢، ٣١٣، ٣٢٥) ، سنن الدارمی/الفرائض ٢٨ (٣٠٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جیسے بھائی چچا کے بہ نسبت اور چچا زاد بھائی کی بہ نسبت اور بیٹا پوتے کی بہ نسبت میت سے زیادہ قریب ہے۔

【23】

جس کا کوئی وارث نہ ہو۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص مرگیا، اور اس نے کوئی وارث نہیں چھوڑا سوائے ایک غلام کے، جس کو اس نے آزاد کردیا تھا تو آپ نے اس کی میراث اسی غلام کو دلا دی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفرائض ٨ (٢٩٠٥) ، سنن الترمذی/الفرائض ١٤ (٢١٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢١، ٣٥٨) (ضعیف) (سند میں عوسجہ کی وجہ سے ضعف ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٦٦٩ )

【24】

عورت کو تین شخصوں کی میراث ملتی ہے۔

واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عورت تین میراث حاصل کرتی ہے، ایک تو اپنے اس غلام یا لونڈی کی میراث جس کو وہ آزاد کرے، دوسرے اس بچے کی میراث جس کو راستہ میں لاوارث پا کر پرورش کرے، تیسرے اس بچے کی میراث جس پر اپنے شوہر سے لعان کرے ۔ محمد بن یزید کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہشام کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفرائض ٩ (٢٩٠٦) ، سنن الترمذی/الفرائض ٢٣ (٢١١٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩٠، ٤/١٠٦، ١٠٧) (ضعیف) (سند میں عمر بن رؤبہ التغلبی کی وجہ سے ضعف ہے )

【25】

جو انکار کردے کہ یہ میرا بچہ نہیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب لعان کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس عورت نے کسی قوم میں ایسے (بچہ) کو ملا دیا جو ان میں سے نہیں تھا، تو اس کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں، اور وہ اس کی جنت میں ہرگز داخل نہ ہوگی، اسی طرح جس شخص نے اپنے بچے کو پہچان لینے کے باوجود انکار کردیا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے پردہ کرے گا، اور سب کے سامنے اس کو ذلیل و رسوا کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٧٥، ومصباح الزجاجة : ٩٦٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطلاق ٢٩ (٢٢٦٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٧ (٣٥١١) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٢ (٢٢٨٤) (ضعیف) (سند میں یحییٰ بن حرب مجہول، اور موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہیں )

【26】

جو انکار کردے کہ یہ میرا بچہ نہیں

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی شخص کا ایسے نسب کا دعویٰ کرنا جس کو وہ پہچانتا نہیں کفر ہے یا اپنے نسب کا انکار کردینا گرچہ اس کا سبب باریک (دقیق) ہو یہ بھی کفر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ٨٨١٧ ألف، ومصباح الزجاجة : ٩٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢١٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں پر کفر سے مراد نسب کی ناشکری ہے، کیونکہ وہ اپنے باپ کو چھوڑ کر جو کہ اس کے وجود کا سبب ہے، دوسرے کا بیٹا بنا چاہتا ہے۔

【27】

بچہ کا دعوی کرنا۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے کسی لونڈی یا آزاد عورت سے زنا کیا، پھر اس سے بچہ پیدا ہوا تو وہ ولدالزنا ہے، نہ وہ مرد اس بچے کا وارث ہوگا، نہ وہ بچہ اس مرد کا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الفرائض ٢١ (٢١١٣) (حسن) (سند میں مثنی بن الصباح ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد سے تقو یت پاکر یہ حسن ہے )

【28】

بچہ کا دعوی کرنا۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس بچے کا نسب اس کے والد کے مرنے کے بعد اس سے ملایا جائے مثلاً اس کے بعد اس کے وارث دعویٰ کریں (کہ یہ ہمارے مورث کا بچہ ہے) تو آپ ﷺ نے اس میں یہ فیصلہ فرمایا : اگر وہ بچہ لونڈی کے پیٹ سے ہو لیکن وہ لونڈی اس کے والد کی ملکیت رہی ہو جس دن اس نے اس سے جماع کیا تھا تو ایسا بچہ یقیناً اپنے والد سے مل جائے گا، لیکن اس کو اس میراث میں سے حصہ نہ ملے گا جو اسلام کے زمانے سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں اس کے والد کے دوسرے وارثوں نے تقسیم کرلی ہو، البتہ اگر ایسی میراث ہو جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو تو اس میں سے وہ بھی حصہ پائے گا، لیکن اگر اس کے والد نے جس سے وہ اب ملایا جاتا ہے، اپنی زندگی میں اس سے انکار کیا ہو یعنی یوں کہا ہو کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے، تو وارثوں کے ملانے سے وہ اب اس کا بچہ نہ ہوگا، اگر وہ بچہ ایسی لونڈی سے ہو جو اس مرد کی ملکیت نہ تھی، یا آزاد عورت سے ہو جس سے اس نے زنا کیا تھا تو اس کا نسب کبھی اس مرد سے ثابت نہ ہوگا، گو اس مرد کے وارث اس بچے کو اس مرد سے ملا دیں، اور وہ بچہ اس مرد کا وارث بھی نہ ہوگا، (اس لیے کہ وہ ولدالزنا ہے) گو کہ اس مرد نے خود اپنی زندگی میں بھی یہ کہا ہو کہ یہ میرا بچہ ہے، جب بھی وہ ولدالزنا ہی ہوگا، اور عورت کے کنبے والوں کے پاس رہے گا، خواہ وہ آزاد ہو یا لونڈی ۔ محمد بن راشد کہتے ہیں : اس سے مراد وہ میراث ہے جو اسلام سے پہلے جاہلیت میں تقسیم کردی گئی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧١٢ ألف، ومصباح الزجاجة : ٩٧١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطلاق ٣٠ (٢٢٦٥) ، مسند احمد (٢/١٨١، ٢١٩) ، سنن الدارمی/الفرائض ٤٥ (٣١٥٤) (حسن) (بوصیری نے کہا کہ ابوداود اور ترمذی نے بعض حدیث ذکر کی ہے )

【29】

حق ولاء فروخت کرنے اور ہبہ کرنے سے ممانعت۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حق ولاء (میراث) کو بیچنے اور اس کے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العتق ١٠ (٢٥٣٥) ، الفرائض ٢١ (٦٧٥٦) ، صحیح مسلم/العتق ٣ (١٥٠٦) ، سنن ابی داود/الفرائض ١٤ (٢٩١٩) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٠، (١٢٣٦) ، سنن النسائی/البیوع ٨٥ (٤٦٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٧١٥، ٧١٨٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العتق والولاء ١٠ (٢٠) ، مسند احمد (٣/٩، ٧٩، ١٠٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٦ (٢٦١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ ولاء (میراث) ایک طرح کی رشتہ داری ہے اس کا بیچنا اور ہبہ کرنا کیونکر جائز ہوگا، جمہور علماء اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔

【30】

حق ولاء فروخت کرنے اور ہبہ کرنے سے ممانعت۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حق ولاء (میراث) کو بیچنے اور اس کو ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأ شراف : ٨٢٢٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٢٠ (١٢٣٦) ، ٥٤ (١٢٨٧) ، (صحیح) (سند میں محمد بن عبدالملک صدوق ہیں، اس لئے یہ اسناد حسن ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【31】

ترکوں کی تقسیم۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو میراث زمانہ جاہلیت میں تقسیم ہوچکی، وہ بدستور اس تقسیم پر رہے گی، اور جو میراث زمانہ اسلام آنے تک تقسیم نہیں ہوئی اسے اسلامی دستور کے مطابق تقسیم کیا جائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٢٣٢، ومصباح الزجاجة : ٩٧٢) (صحیح) (سند میں ابن لہیعہ ضعیف الحفظ راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٧١٧، تراجع الألبانی : رقم : ٤٨٦ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے کیسا عمدہ مسئلہ حل ہوا کہ ہر قانون کا عمل اس کے نفاذ کے بعد سے جو مقدمات پیدا ہوں ان پر ہوتا ہے اور جن مقدمات کے فیصلے قانون کے نفاذ سے پہلے ہوچکے ہوں ان میں اس قانون کے نفاذ سے کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔

【32】

جب نومولود میں آثار حیات مثلاً روناچلّاناوغیرہ معلوم ہوں تو وہ بھی وارث ہوگا۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بچہ پیدائش کے وقت رو دے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٧٠٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ٤٣ (١٠٣٢) ، سنن الدارمی/الفرائض ٤٧ (٣١٦٨) ، وقد مضی برقم : (١٥٠٨) (صحیح )

【33】

جب نومولود میں آثار حیات مثلاً روناچلّاناوغیرہ معلوم ہوں تو وہ بھی وارث ہوگا۔

جابر بن عبداللہ اور مسور بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (ولادت کے وقت) بچہ وارث نہیں ہوگا جب تک کہ وہ زور سے استہلال نہ کرے ١ ؎۔ راوی کہتے ہیں : بچے کے استہلال کا مطلب یہ ہے کہ وہ روے یا چیخے یا چھینکے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٥٧، (الف) ١٢٦٦ (الف) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٥٨٤ ) وضاحت : ١ ؎: غرض کوئی کام ایسا کرے جس سے اس کی زندگی ثابت ہو تو وہ وارث ہوگا۔

【34】

ایک مرددوسرے کے ہاتھوں اسلام قبول کرے۔

عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ میں نے تمیم داری (رض) کو کہتے سنا کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اہل کتاب کا کوئی آدمی اگر کسی کے ہاتھ پر مسلمان ہوتا ہے تو اس میں شرعی حکم کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : زندگی اور موت دونوں حالتوں میں وہ اس کا زیادہ قریبی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفرائض ١٣ (٢٩١٨) ، سنن الترمذی/الفرائض ٢٠ (٢١١٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٠٤، ١٠٣) ، سنن الدارمی/الفرائض ٣٤ (٣٠٧٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ظاہر حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر نو مسلم کا کوئی وارث نہ تو اس کی میراث کا حق دار وہ شخص ہے جس نے اس کو مسلمان کیا۔