8. جنازوں کا بیان

【1】

بیمار کی عیادت

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کی مسلمان پر حسن سلوک کے چھ حقوق ہیں : ١ ۔ جب اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرے، ٢ ۔ جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرے، ٣ ۔ جب وہ چھینکے اور الحمد لله کہے تو جواب میں يرحمک الله کہے، ٤ ۔ جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت (بیمار پرسی) کرے، ٥ ۔ جب اس کا انتقال ہوجائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ جائے، ٦ ۔ اور اس کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ١ (٢٧٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٨، ٨٩، ٢/٣٧٢، ٤١٢) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٥ (٢٦٧٥) (صحیح )

【2】

بیمار کی عیادت

ابومسعود (عقبہ بن عمرو) انصاری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چار حقوق ہیں : جب اسے چھینک آئے اور وہ الحمدلله کہے تو اس کے جواب میں يرحمک الله کہے، جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے، جب اس کا انتقال ہوجائے تو اس کے جنازہ میں حاضر ہو، اور جب بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٧٩، ومصباح الزجاجة : ٥٠٥) ، مسند احمد (٥/٢٧٢) (صحیح )

【3】

بیمار کی عیادت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں : سلام کا جواب دینا، دعوت قبول کرنا، جنازہ میں حاضر ہونا، مریض کی عیادت کرنا، اور جب چھینکنے والا الحمد لله کہے، تو اس کے جواب میں يرحمک الله کہنا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٩٢، ومصباح الزجاجة : ٥٠٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢ (١٢٤٠) ، صحیح مسلم/السلام ٣ (٢١٦٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٢ (١٩٤٠) ، مسند احمد (٢/٣٢١، ٣٣٢، ٣٥٧، ٣٧٢، ٣٨٨) (صحیح )

【4】

بیمار کی عیادت

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) پیدل چل کر میری عیادت کے لیے آئے، اور میں (مدینہ سے دور) قبیلہ بنو سلمہ میں تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٥ (١٩٤) ، التفسیر ٤ (٤٥٧٧) ، المرضی ٥ (٥٦٥١) ، الفرائض ١ (٦٧٢٣) ، الاعتصام ٨ (٣٠١٥) ، صحیح مسلم/الفرائض ٢ (١٦١٦) ، سنن ابی داود/الجنائز ٢ (٢٨٨٦) ، سنن الترمذی/الفرائض ٧ (٢٠٩٧) ، تفسیرالقرآن ٥ (٣٠١٥) ، سنن النسائی/الطہارة ١٠٣ (١٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٢٨) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطہارة ٥٦ (٧٦٠) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٢٧٢٨) (صحیح )

【5】

بیمار کی عیادت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مریض کی عیادت اس کی بیماری کے تین دن گزر جانے کے بعد فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧١٨، و مصباح الزجاجة : ٥٠٧) (موضوع) (اس میں مسلمہ بن علی متروک اور منکر الحدیث ہے، ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں داخل کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٤٥ )

【6】

بیمار کی عیادت

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم مریض کے پاس جاؤ، تو اسے لمبی عمر کی امید دلاؤ، اس لیے کہ ایسا کہنے سے تقدیر نہیں پلٹتی، لیکن بیمار کا دل خوش ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطب ٣٥ (٠٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٩٢) (ضعیف) (موسیٰ بن محمد اس سند میں ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٨٢ )

【7】

بیمار کی عیادت

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک بیمار کی عیادت کی، تو اس سے پوچھا : کیا کھانے کو جی چاہتا ہے ؟ اس نے کہا : گیہوں کی روٹی کھانے کی خواہش ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کے پاس گیہوں کی روٹی ہو، وہ اسے اپنے بیمار بھائی کے پاس بھیج دے پھر آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کا مریض کچھ کھانے کی خواہش کرے تو وہ اسے وہی کھلائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٢٢٤، ومصباح الزجاجة : ٥٠٨) (ضعیف) (اس میں صفوان بن ھبیرہ لین الحدیث ہیں، نیز یہ حدیث ( ٣٤٤٠ ) نمبر پر آرہی ہے )

【8】

بیمار کی عیادت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک مریض کی عیادت کے لیے گئے، تو پوچھا : کیا کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے ؟ کیا کیک کھانا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا : ہاں، تو لوگوں نے اس کے لیے کیک منگوایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٣، ومصباح الزجاجة : ٥٠٩) (ضعیف) (اس میں یزید بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں، نیز ٣٤٤١ نمبر پر یہ حدیث آرہی ہے )

【9】

بیمار کی عیادت

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ، تو اس سے اپنے لیے دعا کی درخواست کرو، اس لیے کہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٤٩، ومصباح الزجاجة : ٥١٠) (ضعیف جدًا) (اس سند میں انقطاع ہے، کیونکہ میمون بن مہران نے عمر (رض) کو نہیں پایا ہے )

【10】

بیمار کی عیادت کا ثواب

علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے آئے وہ جنت کے کھجور کے باغ میں چل رہا ہے یہاں تک کہ وہ بیٹھ جائے، جب بیٹھ جائے، تو رحمت اسے ڈھانپ لیتی ہے، اگر صبح کے وقت عیادت کے لیے گیا ہو تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس کے لیے دعا کرتے ہیں، اور اگر شام کا وقت ہو تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢١١، ومصباح الزجاجة : ٥١١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٧ (٣٠٩٨، ٣٠٩٩) ، سنن الترمذی/الجنائز ٢ (٩٦٩) ، مسند احمد (١/٩٧، ١٢٠) (صحیح )

【11】

بیمار کی عیادت کا ثواب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی مریض کی عیادت کی تو آسمان سے منادی (آواز لگانے والا) آواز لگاتا ہے : تم اچھے ہو اور تمہارا جانا اچھا رہا، تم نے جنت میں ایک ٹھکانا بنا لیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البروالصلة ٦٤ (٢٠٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢٦، ٣٤٤، ٣٥٤) (حسن) (تراجع الألبانی، رقم : ٥٩٣ )

【12】

میّت کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے مردوں کو لا إله إلا الله کی تلقین کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١ (٩١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مردوں سے مراد وہ بیمار ہیں جو مرنے کے بالکل قریب ہوں۔ ٢ ؎: تلقین سے مراد تذکیر ہے یعنی ان کے پاس پڑھ کر انہیں اس کی یاد دہانی کرائی جائے تاکہ سن کر وہ بھی پڑھنے لگیں۔

【13】

میّت کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے مردوں کو (جو مرنے کے قریب ہوں) لا إله إلا الله کی تلقین کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١ (٩١٦) ، سنن ابی داود/الجنائز ٢٠ (٣١١٧) ، سنن الترمذی/الجنائز ٧ (٩٧٦) ، سنن النسائی/الجنائز ٤ (١٨٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣) (صحیح )

【14】

میّت کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنا

عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے مردوں (جو لوگ مرنے کے قریب ہوں) کو یہ کہنے کی تلقین کرو : لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين کی تلقین کرو (ترجمہ) اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، جو حلیم و کریم والا ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے جو عرش عظیم کا رب ہے، تمام حمد و ثنا اللہ تعالیٰ کو لائق و زیبا ہے جو سارے جہاں کا رب ہے لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ دعا زندوں کے لیے کیسی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : بہت بہتر ہے، بہت بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢١٣، ومصباح الزجاجة : ٥١٢) (ضعیف) (اس کی سند میں اسحاق بن عبد اللہ مجہول الحال ہیں، ویسے حدیث کا یہ جملہ لقنوا موتاکم صحیح ہے، جیسا کہ اس سے پہلے والی حدیثوں میں گزرا ہے، ملاحظہ ہو : ٤٣١٧ )

【15】

موت کے قریب بیمار کے پاس کیا بات کی جائے ؟

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم بیمار یا میت کے پاس جاؤ، تو اچھی بات کہو، اس لیے کہ فرشتے تمہاری باتوں پہ آمین کہتے ہیں ، چناچہ جب (میرے شوہر) ابوسلمہ کا انتقال ہوا تو میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی، اور میں نے کہا : اللہ کے رسول ! ابوسلمہ (رض) کا انتقال ہوگیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم یہ کلمات کہو : اللهم اغفر لي وله وأعقبني منه عقبى حسنة اے اللہ مجھ کو اور ان کو بخش دے، اور مجھے ان کا نعم البدل عطا فرما ۔ ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بہتر محمد رسول اللہ ﷺ کو ان کے نعم البدل کے طور پر عطا کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣ (٩١٩) ، سنن ابی داود/الجنائز ١٩ (٣١١٥) ، سنن الترمذی/الجنائز ٧ (٩٧٧) سنن النسائی/الجنائز ٣ (١٨٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٦٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ١٤ (٤٢) ، مسند احمد (٦/٢٩١، ٣٠٦، ٣٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دوسری روایت میں ہے کہ میں نے اپنے دل میں کہا : ابوسلمہ سے بہتر کون ہوگا، پھر اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو دیا، جو ابوسلمہ سے بہتر تھے، ابوسلمہ کی وفات کے بعد ام سلمہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے نکاح کرلیا۔

【16】

موت کے قریب بیمار کے پاس کیا بات کی جائے ؟

معقل بن یسار (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے مردوں کے پاس اسے یعنی سورة يس پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٢٤ (٣١٢١) (تحفة الأشراف : ١١٤٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٦، ٢٧) (ضعیف) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ٦٨٨ ، وسلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٥٨٦١ ، ابوعثمان کے والد مجہول ہیں )

【17】

موت کے قریب بیمار کے پاس کیا بات کی جائے ؟

عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جب ان کے والد کعب (رض) کی وفات کا وقت آیا، تو ان کے پاس ام بشر بنت براء بن معرور (رضی اللہ عنہما) آئیں، اور کہنے لگیں : اے ابوعبدالرحمٰن ! اگر فلاں سے آپ کی ملاقات ہو تو ان کو میرا سلام کہیں، کعب (رض) نے کہا : اے ام بشر ! اللہ تمہیں بخشے، ہمیں اتنی فرصت کہاں ہوگی کہ ہم لوگوں کا سلام پہنچاتے پھریں، انہوں نے کہا : اے ابوعبدالرحمٰن ! کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے نہیں سنا : مومنوں کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں ہوں گی، اور جنت کے درختوں سے کھاتی چرتی ہوں گی ، کعب (رض) کہا : کیوں نہیں، ضرور سنی ہے، تو انہوں نے کہا : بس یہی مطلب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٣ (١٦٤١) ، سنن النسائی/الجنائز ١١٧ (٢٠٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١١١٤٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٤٩) ، مسند احمد (٣/٤٥٥، ٤٥٦، ٤٦٠، ٦/٣٨٦، ٤٢٥) (ضعیف) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے، لیکن مرفوع حدیث صحیح ہے، جو ( ٤٢٧١ ) نمبر پر آرہی ہے )

【18】

موت کے قریب بیمار کے پاس کیا بات کی جائے ؟

محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں جابر بن عبداللہ (رض) کی وفات کے وقت ان کے پاس گیا، تو میں نے ان سے کہا : رسول اللہ ﷺ کو سلام کہئے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٠٩٥، ومصباح الزجاجة : ٥١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٦٩) (ضعیف) (شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے، ضعیف الجامع : ٢٧٥ ، مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے، ملاحظہ ہو : ١١٦٦٠ ، ١٩٤٨٢ )

【19】

مومن کو نزع یعنی موت کی سختی میں اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس گئے، وہاں پر عائشہ (رض) کے ایک رشتہ دار کا موت سے دم گھٹ رہا تھا، جب نبی اکرم ﷺ نے عائشہ (رض) کا رنج دیکھا تو ان سے فرمایا : تم اپنے رشتہ دار پر غم زدہ نہ ہو، کیونکہ یہ اس کی نیکیوں میں سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٨٣، ومصباح الزجاجة : ٥١٤) (ضعیف) ( اس کی سند میں ولید بن مسلم ہیں، جو کثیر التدلیس و التسویہ ہیں، گرچہ یہاں پر صیغہ تحدیث کا ہے، لیکن رواة کے اسقاط سے تدلس التسویة کا احتمال باقی ہے کہ درمیان سے کوئی راوی ساقط کردیا ہو، ملاحظہ ہو : تہذب الکمال : ٣١/٩٧ )

【20】

مومن کو نزع یعنی موت کی سختی میں اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن ایسی حالت میں مرتا ہے کہ اس کی پیشانی پسینہ آلود ہوتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ١٠ (٩٨٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٥ (١٨٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٩٩٢) ، وقد أخرجہ : (حم ٥/٣٥٠، ٣٥٧، ٣٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مومن موت کی شدت سے دو چار ہوتا ہے، یا موت اسے اچانک اس حال میں پا لیتی ہے کہ وہ حلال رزق اور فرائض کی ادائیگی کے لیے اس قدر کوشاں رہتا ہے کہ اس کی پیشانی عرق آلود رہتی ہے۔

【21】

مومن کو نزع یعنی موت کی سختی میں اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : بندے سے لوگوں کی پہچان کب ختم ہوجاتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جب وہ (موت کے فرشتوں کو) دیکھ لیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩١٣٠، ومصباح الزجاجة : ٥١٥) (ضعیف جدًا) ( اس میں نصر بن حماد ہے، جس پر حدیث گھڑنے کی تہمت ہے )

【22】

میّت کی آنکھیں بند کرنا

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ابوسلمہ (رض) کے پاس گئے، ان کی آنکھ کھلی ہوئی تھی، تو آپ ﷺ نے اسے بند کردیا، پھر فرمایا : جب روح قبض کی جاتی ہے، تو آنکھ اس کا پیچھا کرتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٤ (٩٢٠) ، سنن ابی داود/الجنائز ٢١ (٣١١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٠٥) ، مسند احمد (٦/٢٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مردے کی آنکھ اس واسطے کھلی رہ جاتی ہے کہ روح کو جاتے وقت وہ دیکھتا ہے، پھر آنکھ بند کرنے کی طاقت نہیں رہتی اس لئے آنکھ کھلی رہ جاتی ہے،واللہ اعلم۔

【23】

میّت کی آنکھیں بند کرنا

شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم اپنے مردوں کے پاس جاؤ تو ان کی آنکھیں بند کر دو ، اس لیے کہ آنکھ روح کا پیچھا کرتی ہے، اور (میت کے پاس) اچھی بات کہو، کیونکہ فرشتے گھر والوں کی بات پر آمین کہتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٢٨، ومصباح الزجاجة : ٥١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٥) (حسن) (سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٠٩٢ )

【24】

میّت کا بوسہ لینا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون (رض) ١ ؎ کا بوسہ لیا، اور وہ مردہ تھے، گویا کہ میں نبی اکرم ﷺ کے آنسوؤں کو دیکھ رہی ہوں جو آپ کے رخسار مبارک پہ بہہ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٠ (٣١٦٣) ، سنن الترمذی/الجنائز ١٤ (٩٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣، ٥٥، ٢٠٦٧) (صحیح) (دوسری سند سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہیں، تراجع الألبانی، رقم : ٤٩٥ ) وضاحت : ١ ؎: عثمان بن مظعون (رض) نبی اکرم ﷺ کے رضاعی بھائی تھے، اور دونوں ہجرتوں میں شریک تھے، اور بدر کی لڑائی میں حاضر تھے، اور مہاجرین میں سے مدینہ میں سب سے پہلے آپ ہی کی وفات ہوئی، شعبان کے مہینے میں ہجرت کے ڈھائی سال کے بعد، اور جب آپ دفن ہوئے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہمارا پیش خیمہ اچھا ہے ، اور وہ بقیع میں دفن ہوئے، عابد، زاہد اور فضلائے صحابہ میں سے تھے، اور نبی کریم ﷺ نے ایک پتھر خود اٹھایا اور ان کی قبر پر رکھا، (رض) وأرضاہ۔ ٢ ؎: اس حدیث سے میت پر رونے کا جواز ثابت ہوتا ہے، رہی ممانعت والی روایت تو اسے آواز اور جزع و فزع (بےصبری) کے ساتھ رونے پر محمول کیا جائے گا، یا یہ ممانعت عورتوں کے ساتھ مخصوص ہوگی کیونکہ اکثر وہ بےصبری ہوتی ہیں، اور رونے پیٹنے لگتی ہیں، اس لئے سدباب کے طور پر انہیں اس سے منع کردیا گیا ہے۔

【25】

میّت کا بوسہ لینا

عبداللہ بن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے نبی اکرم ﷺ کا بوسہ لیا، اور آپ کی وفات ہوچکی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٨٣ (٤٤٥٥، ٤٤٥٦) ، الطب ٢١ (٥٧٠٩) ، سنن الترمذی/الشمائل ٥٣ (٣٧٣) ، سنن النسائی/الجنائز ١١ ١٨٤١) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٦٠، ١٦٣١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٥٥) (صحیح )

【26】

میّت کو نہلانا

ام عطیہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے، ہم آپ کی بیٹی ام کلثوم (رض) کو غسل دے رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں تین بار، یا پانچ بار، یا اس سے زیادہ اگر تم مناسب سمجھو تو پانی اور بیری کے پتے سے غسل دو ١ ؎، اور اخیر بار کے غسل میں کافور یا کہا : تھوڑا سا کافور ملا لو، جب تم غسل سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے خبر کرو ، لہٰذا جب ہم غسل سے فارغ ہوئے تو ہم نے آپ ﷺ کو خبر کی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف پھینکا اور فرمایا : اسے جسم سے متصل کفن میں سب سے نیچے رکھو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣١ (١٦٧) ، الجنائز ٨ (١٢٥٣) ، ٩ (١٢٥٤) ، ١٠ (١٢٥٥) ، ١١ (١٢٥٦) ، ١٢ (١٢٥٧) ، ١٣ (١٢٥٨) ، ١٤ (١٢٦٠) ، ١٥ (١٢٦١) ، ١٦ (١٢٦٢) ، ١٧ (١٢٦٣) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٢ (٩٣٩) ، سنن ابی داود/الجنائز ٣٣ (٣١٤٦٣١٤٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٢٨ (١٨٨٢) ، ٣٠ (١٨٨٤) ، ٣٦ (١٨٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ١٥ (٩٩٠) ، موطا امام مالک/الجنائز ١ (٢) ، مسند احمد (٦/٤٠٧، ٤٠٨، ٥/٨٤، ٨٥، ٤٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بیری کا پتہ استعمال کرنا مستحب ہے کیونکہ وہ میل کچیل کو صاف کرتا ہے، کیڑوں کو دفع کرتا ہے، اور بدبو کو بھی ختم کرتا ہے۔ ٢ ؎: شعار یعنی (اندر کا کپڑا) عربی میں اس کو کہتے ہیں جو کپڑا جسم سے لگا رہے، بطور تبرک آپ ﷺ نے اپنا کپڑا ام کلثوم (رض) کو دیا، اور اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ غسل میں کافور ملانا بھی مستحب ہے، بہتر یہ ہے کہ اخیر بار جو غسل دیں اس میں کافور ملا ہوا ہو، جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے۔

【27】

میّت کو نہلانا

اس سند سے بھی ام عطیہ (رض) سے محمد بن سیرین کی سابقہ حدیث کی طرح مروی ہے اور حفصہ (رض) کی روایت میں یہ ہے کہ : ان کو طاق بار غسل دو ، اور اس میں یہ بھی ہے کہ : انہیں تین بار یا پانچ بار غسل دو ، اور دائیں طرف کے اعضاء وضو سے غسل شروع کرو ۔ اور اس روایت میں یہ بھی ہے کہ ام عطیہ (رض) نے کہا : ہم نے ان کے بالوں میں کنگھی کر کے تین چوٹیاں کردیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الجنائز ٩ (١٢٥٤) ، ١٣ (١٢٥٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٢ (٩٣٩) ، سنن النسائی/الجنائز ٣٤ (١٨٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨١١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امام ابن القیم نے کہا کہ بالوں میں سنت یہی ہے کہ ان کی تین چوٹیاں کی جائیں، صحیحین میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ان کے بالوں کی تین چوٹیاں کر دو ، ام عطیہ (رض) نے کہا کہ ہم نے ان کا سر گوندھا، دو حصے کر کے دونوں چھاتیوں پر ڈال دیئے۔

【28】

میّت کو نہلانا

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : تم اپنی ران نہ کھولو، اور کسی زندہ یا مردہ کی ران نہ دیکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٣٢ (٣١٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٤٦) (ضعیف جدًا) (بشربن آدم ضعیف ہیں، نیز سند میں دو جگہ انقطاع ہے، ابن جریج اور حبیب کے درمیان، اور حبیب اور عاصم کے درمیان، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٦٩ ) وضاحت :: ١ ؎ اس حدیث کو مؤلف نے اس باب میں اس لئے ذکر کیا ہے کہ مردے کو غسل دینے میں اس کی ران نہ کھولیں اور نہ ستر بلکہ کپڑا ستر پر ڈھانپ کر غسل دیں کیونکہ ستر مردہ اور زندہ کا یکساں ہے۔

【29】

میّت کو نہلانا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے مردوں کو امانت دار لوگ غسل دیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٧٣٩، ومصباح الزجاجة : ٥١٧) (موضوع) (اس کی سند میں بقیہ بن الولید مدلس ہیں، نیز ان کے شیخ مبشر بن عبید پر حدیث وضع کرنے کی تہمت ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٣٩٥ )

【30】

میّت کو نہلانا

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی مردے کو غسل دیا، اسے کفن پہنایا، اسے خوشبو لگائی، اور اسے کندھا دے کر قبرستان لے گیا، اس پہ نماز جنازہ پڑھی، اور اگر کوئی عیب دیکھا تو اسے پھیلایا نہیں، تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوگیا جیسے وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠١٣٤، ومصباح الزجاجة : ٥١٨) (ضعیف جدًا) (اس کی سند میں عباد بن کثیر ہے جن کے بارے میں امام احمد نے کہا ہے کہ غفلت کے سبب جھوٹی حدیثیں روایت کرتے ہیں، نیز اس کی سند میں عمرو بن خالد کذاب ہے )

【31】

میّت کو نہلانا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی مردے کو غسل دے وہ خود بھی غسل کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ١٧ (٩٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٢٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٣٩ (٣١٦١) ، مسند احمد (٢/٢٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حکم مستحب ہے، کیونکہ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ليس عليكم في غسل ميتكم إذا اغسلتموه أن ميتكم يموت طاهرًا، وليس بنجس فحسبکم أن يغسلوا أيديكم جب تم لوگ اپنے میت کو غسل دو ، تو تمہارے اوپر کچھ نہیں ہے، سوائے اس کہ تم اپنے ہاتھوں کو دھو لو، کیونکہ تمہارے میت پاک و صاف ہو کر وفات پائے ہیں وہ نجس نہیں ہیں نیز امام خطابی فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ کسی بھی عالم نے میت کو غسل دینے سے یا اسے اٹھانے سے غسل کو واجب کہا ہے۔

【32】

مرد کا اپنی بیوی کو اور بیوی کا خاوند کو غسل دینا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اگر مجھے اپنی اس بات کا علم پہلے ہی ہوگیا ہوتا جو بعد میں ہوا تو نبی اکرم ﷺ کو آپ کی بیویاں ہی غسل دیتیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦١٨٢، ومصباح الزجاجة : ٥١٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٣٢ (٣١٤١) ، مسند احمد (٦/٢٦٧) (صحیح) (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن منتقی ابن الجارو د، صحیح ابن حبان اور مستدرک الحاکم میں تحد یث کی صراحت ہے، دفاع عن الحدیث النبوی ٥٣ -٥٤، والإرواء : ٧٠٠ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے کیونکہ بیوی محرم راز ہوتی ہے، اور اس سے ستر بھی نہیں ہوتا، پس اس کا غسل دینا شوہر کو بہ نسبت دوسروں کے اولیٰ اور بہتر ہے، اور ابوبکر صدیق (رض) کو ان کی بیوی اسماء بنت عمیس (رض) نے غسل دیا، اور کسی صحابی نے اس پر نکیر نہیں کی، اور یہ مسئلہ اتفاقی ہے، نیز ام المؤمنین عائشہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ کو غسل نہ دے سکنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، اگر یہ جائز نہ ہوتا تو وہ افسوس کا اظہار نہ کرتیں، جیسا کہ امام بیہقی فرماتے ہیں : فتلهفت على ذلک ولا يتلهف إلا على ما يجوز۔

【33】

مرد کا اپنی بیوی کو اور بیوی کا خاوند کو غسل دینا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بقیع سے لوٹے تو مجھے اس حال میں پایا کہ میرے سر میں درد ہو رہا تھا، اور میں کہہ رہی تھی : ہائے سر !، تو آپ ﷺ نے فرمایا : بلکہ اے عائشہ ! میں ہائے سر کہتا ہوں ١ ؎، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا کیا نقصان ہوگا اگر تم مجھ سے پہلے مرو گی تو تمہارے سارے کام میں انجام دوں گا، تمہیں غسل دلاؤں گا، تمہاری تکفین کروں گا، تمہاری نماز جنازہ پڑھاؤں گا، اور تمہیں دفن کروں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٣١٣، ومصباح الزجاجة : ٥٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٢٨) ، سنن الدارمی/المقدمة ١٤ (٨١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اے عائشہ ! بلکہ میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔

【34】

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیسے غسل دیا گیا ؟

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ جب لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کو غسل دینا شروع کیا ١ ؎ تو کسی آواز لگانے والے نے اندر سے آواز لگائی کہ رسول اللہ ﷺ کا کرتہ نہ اتارو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩٤٢، ومصباح الزجاجة : ٥٢١) (منکر) (اس کی سند میں ابو بردہ عمر و بن یزید التیمی ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ ﷺ کے کپڑے نکالنے کے سلسلے میں متردد ہوئے۔

【35】

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیسے غسل دیا گیا ؟

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ جب انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو غسل دیا، تو آپ کے جسم مبارک سے وہ ڈھونڈنے لگے جو میت کے جسم میں ڈھونڈتے ہیں ١ ؎ لیکن کچھ نہ پایا، تو کہا : میرے باپ آپ پر قربان ہوں، آپ پاک صاف ہیں، آپ زندگی میں بھی پاک تھے، مرنے کے بعد بھی پاک رہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠١١٥، ومصباح الزجاجة : ٥٢٢) (صحیح) (اس کی سند میں یحییٰ بن خذام مجہول ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے سند صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نجاست وغیرہ۔ ٢ ؎: نبی اکرم ﷺ کے مزاج میں اللہ تعالیٰ نے نہایت نفاست، لطافت اور طہارت رکھی تھی، آپ خوشبو کا بہت استعمال کرتے تھے اور بدبو سے نہایت نفرت کرتے، آپ کے کپڑے اور بدن ہمیشہ معطر رہتے، یہاں تک کہ آپ جس کوچہ اور گلی سے چلے جاتے تو وہ معطر ہوجاتا، اور لوگ پہچان لیتے کہ آپ ادھر سے تشریف لے گئے ہیں، ایک بار آپ ﷺ نے شہد کا استعمال کیا، تو بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے کہا کہ آپ کے منہ سے مغافیر (گوند) کی بو آتی ہے، آپ نے شہد کا استعمال اپنے اوپر حرام کرلیا، غرض آپ اس سے بہت بچتے تھے کہ آپ کے کپڑے یا بدن میں کسی قسم کی بو ہو جو دوسرے کو بری معلوم ہو، اور اسی وجہ سے آپ کچی پیاز یا لہسن نہیں کھاتے تھے، جب نبی اکرم ﷺ منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول سے ملنے گئے، جو بڑا دنیا دار اور مال دار تھا، تو وہ کہنے لگا کہ آپ اپنے گدھے کو مجھ سے ذرا دور رکھئیے اس کی بدبو سے مجھے تکلیف ہوتی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا کہ قسم اللہ کی ! آپ ﷺ کے گدھے کی بو تیرے بدن کی بو سے اچھی ہے، غرض سر سے پاؤں تک آپ لطافت و طہارت اور خوشبو ہی میں ڈوبے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے وفات کے بعد بھی آپ کو پاک و صاف رکھا۔

【36】

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیسے غسل دیا گیا ؟

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب میں انتقال کر جاؤں تو مجھے میرے کنویں (بئر غرس) کے سات مشکیزوں سے غسل دینا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠١٦٤، ومصباح الزجاجة : ٥٢٣) (ضعیف) (اس کی سند میں عباد بن یعقوب متروک ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٢٣٧ )

【37】

نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کفن

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو تین سفید یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا، جس میں کرتہ اور عمامہ نہ تھا، ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا گیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کو دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا ؟ تو عائشہ (رض) نے کہا : لوگ دھاری دار چادر لائے تھے مگر انہوں نے آپ ﷺ کو اس میں نہیں کفنایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١٣ (٩٤١) ، سنن ابی داود/الجنائز ٣٤ (٣١٥٢) ، سنن الترمذی/الجنائز ٢٠ (٩٩٦) ، سنن النسائی/الجنائز ٣٩ (١٩٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٨٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجنائز ١٨ (١٢٦٤) ، ٢٣ (١٢٧١) ، ٢٤ (١٢٧٢) ، ٩٤ (١٣٨٧) ، موطا امام مالک/الجنائز ٢ (٥) مسند احمد (٦/٤٠، ٩٣، ١١٨، ١٣٢، ١٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ سفید کپڑا کفن کے لیے بہتر ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ تین کپڑوں سے زیادہ مکروہ ہے بالخصوص عمامہ جسے متاخرین حنفیہ اور مالکیہ نے رواج دیا ہے، یہ بدعت ہے۔

【38】

نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کفن

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سحول کے بنے ہوئے تین باریک سفید کپڑوں میں کفنائے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٦٧٦، ومصباح الزجاجة : ٥٢٤) (حسن صحیح) (عائشہ (رض) کی سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عمرو بن ابی سلمہ ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: سحول : یمن کے ایک گاؤں کا نام ہے۔

【39】

نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کفن

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تین کپڑوں میں کفنائے گئے، ایک اپنی قمیص میں جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی تھی، اور دوسرے نجرانی ١ ؎ جوڑے میں۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث یزید بن أبي زیاد عن الحکم تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤٨٥) ، وحدث یزید بن أبي زیاد عن مقسم أخرجہ، سنن ابی داود/الجنائز ٣٤ (٣١٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٢) (ضعیف) (اس کی سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: نجران : یمن سے متصل سعودی عرب کے ایک علاقہ کا نام ہے، اور نجران مشہور شہر بھی ہے۔

【40】

مستحب کفن

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے کپڑوں میں سب سے بہتر سفید کپڑا ہے، لہٰذا تم اپنے مردوں کو اسی میں کفناؤ، اور اسی کو پہنو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ١٦ (٤٠٦١) ، سنن الترمذی/الجنائز ١٨ (٩٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣١، ٢٤٧، ٢٧٤، ٣٦٨، ٣٥٥، ٣٦٣) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : (٣٥٦٦) (صحیح )

【41】

مستحب کفن

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہترین کفن جوڑا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٣٥ (٣١٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٥١١٧) (ضعیف) (اس کی سند میں أبونصر اور نسی مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تہبند اور چادر۔

【42】

مستحب کفن

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی تجہیز و تکفین کا ذمہ دار ہو، تو اسے اچھا کفن دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ١٩ (٩٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اچھے کفن سے مراد کپڑے کی صفائی اور سفیدی ہے، قیمتی کپڑا مراد نہیں، اس لئے کہ قیمتی کفن سے آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔

【43】

مستحب کفن

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا : انہیں کفن میں داخل نہ کرنا جب تک کہ میں دیکھ نہ لوں ، پھر آپ ﷺ آئے، اور ان کے اوپر جھک کر روئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٨، ومصباح الزجاجة : ٥٢٥) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں ابو شیبہ یوسف بن ابراہیم منکر الحدیث ہیں، بلکہ یہ صاحب عجائب کے نام سے مشہور ہیں )

【44】

موت کی خبر دینے کی ممانعت

بلال بن یحییٰ کہتے ہیں کہ جب حذیفہ (رض) کا کوئی رشتہ دار انتقال کرجاتا تو کہتے : کسی کو اس کے انتقال کی خبر مت دو ، میں ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ نعی ١ ؎ نہ ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے ان کانوں سے نعی سے منع فرماتے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ١٢ (٩٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٥، ٤٠٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: نعی: کسی کے مرنے کی خبر دینے کو نعی کہتے ہیں، نعی جائز ہے، خود نبی اکرم ﷺ نے نجاشی کی وفات کی خبر دی ہے اسی طرح زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی وفات کی خبریں بھی آپ نے لوگوں کو دی ہیں، جس نعی کی ممانعت حدیثوں میں وارد ہے، یہ وہ نعی ہے جسے اہل جاہلیت کرتے تھے، جب کوئی مرجاتا تو وہ ایک شخص کو بھیجتے جو محلوں اور بازاروں میں پھر پھر کر اس کے مرنے کا اعلان کرتا۔

【45】

موت کی خبر دینے کی ممانعت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنازہ کو جلدی لے کر چلو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو نیکی کی طرف جلدی پہنچا دو گے، اور اگر بد ہے تو بدی کو اپنی گردن سے اتار پھینکو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٥١ (١٣١٥) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٦ (٩٤٤) ، سنن ابی داود/الجنائز ٥٠ (٣١٨١) ، سنن الترمذی/الجنائز ٣٠ (١٠١٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٤ (١٩١١) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٥٦) ، مسند احمد (٢/٢٤٠) (صحیح )

【46】

موت کی خبر دینے کی ممانعت

ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جو کوئی جنازہ کے ساتھ جائے تو (باری باری) چارپائی کے چاروں پایوں کو اٹھائے، اس لیے کہ یہ سنت ہے، پھر اگر چاہے تو نفلی طور پر اٹھائے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٦١٢، ومصباح الزجاجة : ٥٢٦) (ضعیف) (اس سند میں انقطاع ہے، کیونکہ ابو عبیدة (عامر) نے اپنے والد سے کوئی حدیث نہیں سنی ہے )

【47】

موت کی خبر دینے کی ممانعت

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک جنازہ دیکھا جسے لوگ دوڑتے ہوئے لے جا رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اطمینان سے چلو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩١٢٩، ومصباح الزجاجة : ٥٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠٣، ٤٠٦، ٤١٢) (منکر) (اس کی سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں، اور ابوہریرہ (رض) کی سابقہ حدیث کے معارض ہے، اس لئے یہ حدیث منکر ہے )

【48】

موت کی خبر دینے کی ممانعت

رسول اللہ ﷺ کے غلام ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جنازہ میں کچھ لوگوں کو جانوروں پر سوار دیکھا، تو فرمایا : تمہیں شرم نہیں آتی کہ اللہ کے فرشتے پیدل چل رہے ہیں اور تم سوار ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٢٨ (١٠١٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٨١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٨ (٣١٧٧) (ضعیف) (اس کی سند میں ابوبکر بن ابی مریم ضعیف ہیں، اور بقیہ بن ولید مدلس ہیں )

【49】

موت کی خبر دینے کی ممانعت

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : سوار شخص جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل شخص (آگے پیچھے، دائیں، بائیں) جہاں چاہے چلے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٩ (٣١٨٠) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٢ (١٠٣١) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٥ (١٩٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٧، ٢٤٨، ٢٤٩، ٢٥٢) (صحیح )

【50】

جنازہ کے سامنے چلنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر اور عمر (رض) کو دیکھا کہ وہ جنازہ کے آگے چلتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٩ (١١٧٩) ، سنن الترمذی/الجنائز ٢٦ (١٠٠٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٦ (١٩٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٢٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ٣ (٨) ، مسند احمد (٢/٨، ١٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جنازہ کے ساتھ جنازہ سے قریب ہو کر آگے پیچھے دائیں بائیں ہر طرح سے چلنا جائز ہے، البتہ پیچھے چلنا افضل ہے، اور سوار کے لئے آگے چلنا صحیح نہیں۔

【51】

جنازہ کے سامنے چلنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) عنہم جنازہ کے آگے چلتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٢٦ (١٠١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٢) (صحیح )

【52】

جنازہ کے سامنے چلنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنازہ کے پیچھے چلنا چاہیئے، اس کے آگے نہیں چلنا چاہیئے، جو کوئی جنازہ کے آگے ہو وہ اس کے ساتھ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٥٠ (٣١٨٤) ، سنن الترمذی/الجنائز ٢٧ (١٠١١) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٨، ٣٩٤، ٤١٥، ٤١٩، ٤٣٢) (ضعیف) (اس کی سند میں ابو ماجدہ حنفی ضعیف ہیں )

【53】

جنا زے کے ساتھ سوگ کا لباس پہننے کی مما بعت

عمران بن حصین اور ابوبرزہ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازہ میں نکلے، تو آپ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی چادریں پھینک دیں، اور صرف قمیصیں پہنے ہوئے چل رہے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم لوگ دور جاہلیت کا طریقہ اپناتے ہو یا جاہلیت کے طریقہ کی مشابہت کرتے ہو ؟ میں نے ارادہ کیا کہ تم پر ایسی بد دعا کروں کہ تم اپنی صورتوں کے علاوہ دوسری صورتوں میں اپنے گھروں کو لوٹو یہ سنتے ہی ان لوگوں نے اپنی چادریں لے لیں، اور دوبارہ ایسا نہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٦٤، ١١٦٠٢، ومصباح الزجاجة : ٥٢٨) (موضوع) (اس کی سند میں نفیع بن حارث متروک الحدیث اور متہم بالوضع ہے، نیز علی بن الحزور متروک و منکر الحدیث ہے، نیز ملاحظہ ہو : المشکاة : ١٧٥٠ )

【54】

جب جنازہ آجائے تو نماز جنازہ میں تاخیر نہ کی جائے اور جنازے کے ساتھ آگ نہیں ہونی چاہئے۔

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب جنازہ تیار ہو تو اس (کے دفنانے) میں دیر نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٢٧ (١٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٠٥، ١٠٢٥١) (ضعیف) (اس میں سعید بن عبد اللہ اور ان کے شیخ محمد بن عمر بن علی مجہول ہیں )

【55】

جب جنازہ آجائے تو نماز جنازہ میں تاخیر نہ کی جائے اور جنازے کے ساتھ آگ نہیں ہونی چاہئے۔

ابوبردہ (رض) کہتے ہیں کہ جب ابوموسیٰ اشعری (رض) کی وفات کا وقت ہوا، تو انہوں نے وصیت کی کہ میرے جنازے کے ساتھ آگ نہ لے جانا، لوگوں نے پوچھا : کیا اس سلسلے میں آپ نے کچھ سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں، رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩١١٠، ومصباح الزجاجة : ٥٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٧) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں ابو حریز عبد اللہ بن حسین ہیں، جن کے بارے میں ابن حجر نے صدوق یخطی کہا ہے )

【56】

جس کا جنازہ مسلمانوں کی ایک جماعت پڑھے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص کی نماز جنازہ سو مسلمانوں نے پڑھی اسے بخش دیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٤١٢، ومصباح الزجاجة : ٥٣٠) (صحیح )

【57】

جس کا جنازہ مسلمانوں کی ایک جماعت پڑھے۔

عبداللہ بن عباس (رض) کے غلام کریب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس (رض) کے ایک بیٹے کا انتقال ہوگیا، تو انہوں نے مجھ سے کہا : اے کریب ! جاؤ، دیکھو میرے بیٹے کے جنازے کے لیے کچھ لوگ جمع ہوئے ہیں ؟ میں نے کہا : جی ہاں، انہوں نے کہا : تم پر افسوس ہے، ان کی تعداد کتنی سمجھتے ہو ؟ کیا وہ چالیس ہیں ؟ میں نے کہا : نہیں، بلکہ وہ اس سے زیادہ ہیں، تو انہوں نے کہا : تو پھر میرے بیٹے کو نکالو، میں قسم کھاتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اگر چالیس ١ ؎ مومن کسی مومن کے لیے شفاعت کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کو قبول کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١٩ (٩٤٨) ، سنن ابی داود/الجنائز ٤٥ (٣١٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٥٤) ، مسند احمد (١/٢٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اوپر کی حدیث میں سو مسلمان کا ذکر ہے، اور اس حدیث میں چالیس کا، بظاہر دونوں میں تعارض ہے، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ پہلے نبی اکرم ﷺ کو سو کی تعداد بتائی گئی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مزید احسان فرمایا، اور اس تعداد میں تخفیف فرما دی، اور سو سے گھٹا کر چالیس کردی، نیز چالیس کا عدد مغفرت کے لئے کافی ہے، اب اگر سو ہوں گے تو اور زیادہ مغفرت کی امید ہے، ان شاء اللہ العزیز۔

【58】

جس کا جنازہ مسلمانوں کی ایک جماعت پڑھے۔

مالک بن ہبیرہ شامی (رض) (انہیں صحبت رسول کا شرف حاصل تھا) کہتے ہیں کہ جب ان کے پاس کوئی جنازہ لایا جاتا، اور وہ اس کے ساتھ آنے والوں کی تعداد کم محسوس کرتے تو انہیں تین صفوں میں تقسیم کردیتے، پھر اس کی نماز جنازہ پڑھتے اور کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جس کسی میت پہ مسلمانوں کی تین صفوں نے صف بندی کی، تو اس کے لیے جنت واجب ہوگئی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٣ (٣١٦٦) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٠ (١٠٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٧٩) (ضعیف) (اس میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، تراجع الألبانی : رقم : ٣٦٣ )

【59】

میّت کی تعریف کرنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے سے ایک جنازہ لے جایا گیا، لوگوں نے اس کی تعریف کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس پر (جنت) واجب ہوگئی پھر آپ کے سامنے سے ایک اور جنازہ لے جایا گیا، تو لوگوں نے اس کی برائی کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس پر (جہنم) واجب ہوگئی ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے اس کے لیے بھی فرمایا : واجب ہوگئی ، اور اس کے لیے بھی فرمایا : واجب ہوگئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کی گواہی واجب ہوگئی، اور مومن زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٥ (١٣٦٧) ، الشہادات ٦ (٢٦٤٢) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٠ (٩٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ٦٤ (١٠٥٨) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٠ (١٩٣٤) ، مسند احمد (٣/١٧٩، ١٨٦، ٧ ١٩، ٢٤٥، ٢٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پکے سچے مسلمان جن کا شیوہ عدل و انصاف ہے، جس شخص کی دینی اور اخلاقی بنیادوں پر تعریف کریں، گویا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جنتی ہے، اور جس کی وہ ہجو اور برائی کریں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برا ہے، کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ موت سے تمام دنیاوی عداوتیں اور دشمنیاں ختم ہوجاتی ہیں، اور دشمن بھی اس وقت دشمن نہیں رہتا، لہذا اب جو کوئی اس کی برائی بیان کرے گا تو اس کا سبب دنیوی عداوت نہ ہوگا، بلکہ حقیقت میں اس کے اخلاق یا دین میں کوئی برائی ہوگی۔

【60】

میّت کی تعریف کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو اس کی اچھی خصلتوں کی تعریف کی گئی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس پر (جنت) واجب ہوگئی پھر آپ کے پاس سے ایک اور جنازہ گزرا، اس کی بری خصلتوں کا تذکرہ ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا : اس پر (جہنم) واجب ہوگئی، تم لوگ زمین میں اللہ کے گواہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٧٤، ومصباح الزجاجة : ٥٣١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٨٠ (٣٢٣٣) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٠ (١٩٣٥) ، مسند احمد (٢/٢٦١، ٤٩٩) (صحیح )

【61】

نماز جنازہ کے وقت امام کہاں کھڑا ہو ؟

سمرہ بن جندب فزاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھائی جو زچگی میں مرگئی تھی ١ ؎، تو آپ اس کے بیچ میں کھڑے ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٩ (٣٣٢) ، الجنائز ٦٢ (١٣٣٢) ، ٦٣ (١٣٣٣) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٧ (٩٦٤) ، سنن ابی داود/الجنائز ٥٧ (٣١٩٥) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٥ (١٠٣٥) ، سنن النسائی/الحیض ٢٥ (٣٩٣) ، الجنائز ٧٣ (١٩٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤، ١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس عورت کی کنیت ام کعب ہے جیسا کہ نسائی کی روایت میں اس کی ہے۔

【62】

نماز جنازہ کے وقت امام کہاں کھڑا ہو ؟

ابوغالب کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے ایک آدمی کی نماز جنازہ پڑھائی تو اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے، پھر ایک دوسرا جنازہ ایک عورت کا لایا گیا، تو لوگوں نے کہا : اے ابوحمزہ ! اس کی نماز جنازہ پڑھائیے، تو وہ چارپائی کے بیچ میں کھڑے ہوئے، تو ان سے علاء بن زیاد نے کہا : اے ابوحمزہ ! کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح مرد اور عورت کے جنازے میں کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا، جس طرح آپ کھڑے ہوئے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور بولے : سب لوگ یاد کرلو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٥٧ (٣١٩٤) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٥ (١٠٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢١) ، وقد أخرجہ : حم (٣/١١٨، ١٥١، ٢٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوحمزہ : انس (رض) کی کنیت ہے۔

【63】

نماز جنازہ میں قرآت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز جنازہ میں سورة فاتحہ پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٣٩ (١٠٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٦٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦٥ (١٢٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہی محققین علماء کا مذہب ہے یعنی چار تکبیریں ہیں اور تکبیر اولیٰ کے بعد سورة فاتحہ اور سورة اخلاص پڑھے۔

【64】

نماز جنازہ میں قرآت

ام شریک انصاریہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم نماز جنازہ میں سورة فاتحہ پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٣٢، ومصباح الزجاجة : ٥٣٢) (ضعیف) (اس سند میں شہر بن حوشب کثیر الارسال ہیں، اور حماد بن جعفر بھی متکلم فیہ ہیں )

【65】

نماز جنازہ میں دعا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب تم میت کی نماز جنازہ پڑھو، تو اس کے لیے خلوص دل سے دعا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٦٠ (٣١٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٩٣) (حسن )

【66】

نماز جنازہ میں دعا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی نماز جنازہ پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے : اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وكبيرنا وذکرنا وأنثانا اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان اللهم لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده اے اللہ ! ہمارے زندوں کو، ہمارے مردوں کو، ہمارے حاضر لوگوں کو، ہمارے غائب لوگوں کو، ہمارے چھوٹوں کو، ہمارے بڑوں کو، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو بخش دے، اے اللہ ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے اس کو اسلام پر زندہ رکھ، اور جس کو وفات دے، تو ایمان پر وفات دے، اے اللہ ! ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ کر، اور اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ کر ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٦٨) (صحیح )

【67】

نماز جنازہ میں دعا

واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مسلمان کے نماز جنازہ پڑھائی، تو میں آپ کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سن رہا تھا : اللهم إن فلان بن فلان في ذمتک وحبل جو ارک فقه من فتنة القبر و عذاب النار وأنت أهل الوفاء والحق فاغفر له وارحمه إنك أنت الغفور الرحيم اے اللہ ! فلاں بن فلاں، تیرے ذمہ میں ہے، اور تیری پناہ کی حد میں ہے، تو اسے قبر کے فتنے اور جہنم کے عذاب سے بچا لے، تو عہد اور حق پورا کرنے والا ہے، تو اسے بخش دے، اور اس پر رحم کر، بیشک تو غفور (بہت بخشنے والا) اور رحیم (رحم کرنے والا) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٦٠ (٣٢٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩١) (صحیح )

【68】

نماز جنازہ میں دعا

عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک انصاری شخص کی نماز جنازہ پڑھائی، میں حاضر تھا، تو میں نے آپ ﷺ کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا : اللهم صل عليه واغفر له وارحمه وعافه واعف عنه واغسله بماء وثلج وبرد ونقه من الذنوب والخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس وأبدله بداره دارا خيرا من داره وأهلا خيرا من أهله وقه فتنة القبر و عذاب النار اے اللہ ! اس پر اپنی رحمت نازل فرما، اسے بخش دے، اس پر رحم کر، اسے اپنی عافیت میں رکھ، اسے معاف کر دے، اور اس کے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو دے، اور اسے غلطیوں اور گناہوں سے ایسے ہی پاک کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے پاک کیا جاتا ہے، اور اس کے اس گھر کو بہتر گھر سے، اور اہل خانہ کو بہتر اہل خانہ سے بدل دے، اور اسے قبر کے فتنہ اور جہنم کے عذاب سے بچا لے ۔ عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ اس وقت میں نے تمنا کی کاش اس میت کی جگہ میں ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٠٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٦ (٩٦٣) ، سنن الترمذی/الجنائز ٣٨ (١٠٢٥) ، سنن النسائی/الطہارة ٥٠ (٦٢) ، الجنائز ٧٧ (١٩٨٥) ، مسند احمد (٦/٢٣، ٢٨) (صحیح )

【69】

نماز جنازہ میں دعا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر اور عمر (رض) نے جس قدر نماز جنازہ میں چھوٹ دی اتنی کسی چیز میں نہ دی یعنی اس کا وقت مقرر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٦٧٨، ومصباح الزجاجة : ٥٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٧) ضعیف) (اس میں حجاج بن أرطاہ ضعیف اور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے )

【70】

جنا زے کے چار تکبیریں

عثمان بن عفان (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ عثمان بن مظعون (رض) کی نماز جنازہ پڑھائی، اور چار تکبیریں کہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٨٢٨، ومصباح الزجاجة : ٥٣٤) (ضعیف) (اس میں خالد بن ایاس ضعیف ہیں )

【71】

جنا زے کے چار تکبیریں

ابراہیم بن مسلم ہجری کہتے ہیں کہ میں نے صحابی رسول عبداللہ بن ابی اوفی اسلمی (رض) کے ساتھ ان کے ایک بیٹے کی نماز جنازہ پڑھی، تو انہوں نے اس میں چار تکبیریں کہیں، چوتھی تکبیر کے بعد کچھ دیر ٹھہرے، (اور سلام پھیرنے میں توقف کیا) تو میں نے لوگوں کو سنا کہ وہ صف کے مختلف جانب سے سبحان الله کہہ رہے ہیں، انہوں نے سلام پھیرا، اور کہا : کیا تم لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ میں پانچ تکبیریں کہوں گا ؟ لوگوں نے کہا : ہمیں اسی کا ڈر تھا، عبداللہ بن ابی اوفی (رض) نے کہا کہ میں ایسا کرنے والا نہیں تھا، لیکن چوں کہ رسول اللہ ﷺ چار تکبیریں کہنے کے بعد کچھ دیر ٹھہرتے تھے، اور جو اللہ توفیق دیتا وہ پڑھتے تھے، پھر سلام پھیرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٥٢، ومصباح الزجاجة : ٥٣٥) وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٦، ٣٨٣) (حسن) (متابعات و شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں ابراہیم بن مسلم الہجری الکوفی ضعیف ہیں )

【72】

جنا زے کے چار تکبیریں

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے چار بار تکبیریں الله أكبر کہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٩١) (صحیح) (دوسری سند سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں حجاج بن أرطاة مدلس ہیں )

【73】

جنازے میں پانچ تکبیریں

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم (رض) ہمارے جنازوں میں چار بار اللہ اکبر کہا کرتے تھے، ایک بار انہوں نے ایک جنازہ میں پانچ تکبیرات کہیں، میں نے ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ پانچ تکبیرات ١ ؎ (بھی) کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٣ (٩٦١) ، سنن ابی داود/الجنائز ٥٨ (٣١٩٧) ، سنن الترمذی/الجنائز ٣٧ (١٠٢٣) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٦ (١٩٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦٨، ٣٧٠، ٣٧١، ٣٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جنازے کی تکبیرات کے سلسلے میں چار سے لے کر نو تک کی حدیثیں اور آثار مروی ہیں، بعض آثار سے پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے بعد تک بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پانچ اور چھ تکبیرات کہی ہیں، خود نبی اکرم ﷺ نے بعض شہداء احد پر نو تکبیرات کہی ہیں، بعض لوگوں نے كان آخر ماکبر رسول الله صلى الله عليه وسلم على الجنازة أربعا چار سے زائد تکبیرات والی حدیثوں کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن اس روایت کے تمام طرق ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں، ان کی وجہ سے صحیح سندوں سے ثابت احادیث رد نہیں کی جا سکتیں، واضح رہے جب پانچ تکبیریں کہی جائیں تو پہلی تکبیر کے بعد دعائے ثنا پڑھے، دوسری کے بعد سورة فاتحہ اور تیسری کے بعد نبی اکرم ﷺ پر صلاۃ (درود) اور چوتھی کے بعد دعا اور پانچویں کے بعد سلام پھیرے۔ (ملاحظہ ہو : الروضہ الندیہ : ١؍٤١٦ -٤١٩، احکام الجنائز للألبانی : ١٤١-١٤٧ )

【74】

جنازے میں پانچ تکبیریں

عمرو بن عوف مزنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچ تکبیرات کہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٨٢، ومصباح الزجاجة : ٥٣٦) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ابراہیم بن علی اور کثیر بن عبد اللہ ضعیف ہیں )

【75】

بچے کی نماز جنازہ

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : بچہ کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٩ (٣١٨٠) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٢ (١٠٣١) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٥ (١٩٤٤) ، ٥٦ (١٩٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٩٠، ١١٤٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٧، ٢٤٨، ٢٤٩، ٢٥٢) (صحیح )

【76】

بچے کی نماز جنازہ

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بچہ (پیدائش کے وقت) روئے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٧٠٨) ، و قد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ٤٣ (١٠٣٢) ، سنن الدارمی/الفرائض ٤٧ (٣١٦٨) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٢٣٦ )

【77】

بچے کی نماز جنازہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے بچوں کی نماز جنازہ پڑھو، کیونکہ وہ تمہارے پیش رو ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤١٢٨، ومصباح الزجاجة : ٥٣٧) (ضعیف جدا) (اس کی سند میں بختری بن عبید متہم بالوضع راوی ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٧٢٥ )

【78】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے کی وفات اور نماز جنازہ کا ذکر

اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے پوچھا : آپ نے رسول اللہ ﷺ کے صاحب زادے ابراہیم کو دیکھا ہے ؟ انہوں نے کہا : ابراہیم بچپن ہی میں انتقال کر گئے، اور اگر نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی کا نبی ہونا مقدر ہوتا تو آپ کے بیٹے زندہ رہتے، لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١٠٩ (٦١٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٥١٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک حدیث میں ہے کہ اگر ابراہیم زندہ رہتے تو نبی ہوتے، اور اس حدیث میں ہے کہ اگر نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی کا نبی ہونا مقدر ہوتا تو ابراہیم زندہ رہتے، ایسا ہونا محال تھا کیونکہ نبی اکرم ﷺ خاتم الانبیاء تھے، آپ ﷺ کے بعد دوسرا کوئی نبی نہیں ہوسکتا، اور تقدیر الٰہی بھی ایسی ہی تھی، جب تو آپ کے صاحبزادوں میں سے کوئی زندہ نہ بچا، جیسے طیب، طاہر اور قاسم، خدیجہ (رض) سے، اور ابراہیم ماریہ (رض) سے، یہ چار صاحبزادے بچپن ہی میں انتقال کر گئے، اگرچہ یہ لازم نہیں ہے کہ نبی کا بیٹا بھی نبی ہی ہو۔

【79】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے کی وفات اور نماز جنازہ کا ذکر

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کے بیٹے ابراہیم کا انتقال ہوگیا، تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، اور فرمایا : جنت میں ان کے لیے ایک دایہ ہے، اور اگر وہ زندہ رہتے تو صدیق اور نبی ہوتے، اور ان کے ننہال کے قبطی آزاد ہوجاتے، اور کوئی بھی قبطی غلام نہ بنایا جاتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤٨٢، ومصباح الزجاجة : ٥٣٨) (صحیح) (اس کی سند میں ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ متروک الحدیث ہے، لیکن عتق کے جملہ کے علاوہ بقیہ حدیث عبد اللہ بن ابی اوفی سے صحیح ہے، تراجع الألبانی : رقم : ٢٣٥ ) وضاحت : ١ ؎: قبطی : ایک مصری قوم ہے، فرعون اسی قوم سے تھا، اور اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ ہاجرہ بھی اسی قوم کی تھیں، نیز نبی اکرم ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کی والدہ ماریہ بھی اسی قوم کی تھیں۔

【80】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے کی وفات اور نماز جنازہ کا ذکر

حسین بن علی (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے قاسم کا انتقال ہوگیا، تو ام المؤمنین خدیجہ (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! قاسم جس پستان سے دودھ پیتے تھے اس میں دودھ جمع ہوگیا ہے، کاش کہ اللہ ان کو باحیات رکھتا یہاں تک کہ دودھ کی مدت پوری ہوجاتی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان کی مدت رضاعت جنت میں پوری ہو رہی ہے تو خدیجہ (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر یہ بات مجھے معلوم رہی ہوتی تو مجھ پر ان کا غم ہلکا ہوگیا ہوتا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں اللہ سے دعا کروں کہ وہ قاسم کی آواز تمہیں سنا دے ، خدیجہ (رض) بولیں : (نہیں) بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق کرتی ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٤١٣، ومصباح الزجاجة : ٥٣٩) (ضعیف جدا) (اس میں ہشام بن أبی الولید متروک راوی ہے )

【81】

شہد اء کا جنازہ پڑھنا اور ان کو دفن کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن شہداء رسول اللہ ﷺ کے پاس لائے گئے، تو آپ دس دس آدمیوں پر نماز جنازہ پڑھنے لگے، اور حمزہ (رض) کی لاش اسی طرح رکھی رہی اور باقی لاشیں نماز جنازہ کے بعد لوگ اٹھا کرلے جاتے رہے، لیکن حمزہ (رض) کی لاش جیسی تھی ویسی ہی رکھی رہی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤٩٧، ومصباح الزجاجة : ٥٤٠) (صحیح) (شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف راوی ہے )

【82】

شہد اء کا جنازہ پڑھنا اور ان کو دفن کرنا

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ غزوہ احد کے شہداء میں سے دو دو تین تین کو ایک کپڑے میں لپیٹتے، پھر پوچھتے : ان میں سے قرآن کس کو زیادہ یاد ہے ؟ جب ان میں سے کسی ایک کی جانب اشارہ کیا جاتا، تو اسے قبر (قبلہ کی طرف) میں آگے کرتے، اور فرماتے : میں ان لوگوں پہ گواہ ہوں، ، اور آپ ﷺ نے انہیں ان کے خونوں کے ساتھ دفن کرنے کا حکم دیا، نہ تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، اور نہ غسل دلایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٧٢ (١٣٤٣) ، ٧٣ (١٢٤٥) ، ٧٥ (١٣٤٧) ، ٧٨ (١٣٥٣) ، المغازي ١٢٦ (٤٠٧٩) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٣١ (٣١٣٨، ٣١٣٩) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٦ (١٠٣٦) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٢ (١٩٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شہداء کو غسل نہیں دیا جائے گا، اس پر سب کا اتفاق ہے، نیز امام احمد کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے شہیدوں کو غسل دینے سے منع کیا، اور فرمایا : اس کا زخم قیامت کے دن مشک کی خوشبو چھوڑے گا اور حنظلہ (رض) جنابت کی حالت میں شہید ہوئے تھے، جب بھی نبی اکرم ﷺ نے ان کو غسل نہیں دیا، اور فرمایا : فرشتے ان کو غسل دیتے ہیں ۔

【83】

شہد اء کا جنازہ پڑھنا اور ان کو دفن کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شہداء احد کے بارے میں حکم دیا کہ ان سے ہتھیار اور پوستین اتار لی جائے، اور ان کو انہیں کپڑوں میں خون سمیت دفنایا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٣١ (٣١٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٧) (ضعیف) (اس کے راوی علی بن عاصم اور عطاء اخیر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٧٠٩ )

【84】

شہد اء کا جنازہ پڑھنا اور ان کو دفن کرنا

جابربن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شہداء احد کے بارے میں حکم دیا کہ وہ اپنی شہادت گاہوں کی جانب لوٹا دئیے جائیں، لوگ انہیں مدینہ لے آئے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٢ (٣١٦٥) ، سنن الترمذی/الجہاد ٣٧ (١٧١٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٨٣ (٢٠٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٣١١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ٢٩٧، ٣٠٣، ٣٠٨، ٣٩٧) ، سنن الدارمی/المقدمة ٧ (٤٦) (صحیح) (متابعات و شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے روای نبی ح لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شہداء اپنی شہادت کی جگہ سے کہیں اور منتقل نہ کئے جائیں، بلکہ جہاں وہ شہید ہوئے ہوں، وہیں ان کو دفن کردیا جائے۔

【85】

مسجد میں نماز جنا زہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص نماز جنازہ مسجد میں پڑھے تو اس کے لیے کچھ نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٥٤ (٣١٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٤٤، ٤٥٥، ٥٠٥) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٦٠ ) وضاحت : ١ ؎: افضل یہ ہے کہ نماز جنازہ مسجد سے باہر ایسی جگہ پڑھی جائے جو اس کے لئے خاص کردی گئی ہو، نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں عام طریقہ یہی تھا، البتہ اگر کوئی عذر ہو تو مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔

【86】

مسجد میں نماز جنا زہ

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضاء (رض) کی نماز جنازہ مسجد ہی میں پڑھی۔ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کی حدیث زیادہ قوی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٥٤ (٣١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٧٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٤ (٩٧٣) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٤ (١٠٣٣) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٠ (١٩٦٩) ، موطا امام مالک/الجنائز ٨ (٢٢) ، مسند احمد (٦/٧٩، ١٣٣، ١٦٩) (صحیح )

【87】

جن اوقات میں میّت کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے اور دفن نہیں کنا چاہئے

عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ ہم کو تین اوقات میں نماز پڑھنے، اور مردوں کو دفن کرنے سے منع فرماتے تھے : ایک تو جب سورج نکل رہا ہو، اور دوسرے جب کہ ٹھیک دوپہر ہو، یہاں تک کہ زوال ہوجائے یعنی سورج ڈھل جائے، تیسرے جب کہ سورج ڈوبنے کے قریب ہو یہاں تک کہ ڈوب جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٥١ (٨٣١) ، سنن ابی داود/الجنائز ٥٥ (٣١٩٢) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤١ (١٠٣٠) ، سنن النسائی/المواقیت ٣٠ (٥٦١) ، ٣٣ (٥٦٦) ، الجنائز ٨٩ (٢٠١٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٢ (١٤٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث عام ہے جس میں نماز جنازہ بھی داخل ہے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی حدیث سے یہی سمجھا ہے، اس لیے بغیر کسی مجبوری کے ان اوقات میں نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔

【88】

جن اوقات میں میّت کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے اور دفن نہیں کنا چاہئے

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو رات میں دفن کیا، اور اس کی قبر کے پاس (روشنی کے لیے) چراغ جلایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٦٣ (١٠٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٨٩) (حسن) (شواہد و متابعات کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں منہال بن خلیفہ ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہو کہ رات کو دفن کرنا جائز ہے۔

【89】

جن اوقات میں میّت کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے اور دفن نہیں کنا چاہئے

جابربن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے مردوں کو رات میں دفن نہ کرو، مگر یہ کہ تم مجبور کر دئیے جاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٦٥٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجنائز ١٥ (٩٤٣) ، سنن ابی داود/الجنائز ٢٤ (٣١٤٨) ، سنن النسائی/الجنائز ٣٧ (١٨٩٦) ، مسند احمد (٣/٢٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بلا ضرورت رات میں دفن نہ کرو، لیکن اگر رات ہوجائے تو بالاتفاق رات کو دفن کرنا جائز اور صحیح ہے، جیسا کہ اس سے پہلے والی حدیث میں ذکر ہوا، نیز واضح رہے کہ فاطمہ (رض) کی نماز جنازہ رات ہی میں پڑھی گئی، اور ان کی تدفین بھی رات ہی میں ہوئی۔

【90】

جن اوقات میں میّت کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے اور دفن نہیں کنا چاہئے

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے مردوں کی نماز جنازہ رات اور دن میں جس وقت چاہو پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٧٨٢، ومصباح الزجاجة : ٥٤٢) وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٣٦، ٣٤٩) (ضعیف) (اس کی سند میں ابن لہیعہ ضعیف اور ولید بن مسلم مدلس راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٩٧٤ )

【91】

اہل قبلہ کا جنازہ پڑھنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جب (منافقین کے سردار) عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوگیا تو اس کے (مسلمان) بیٹے نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے اپنا کرتہ دے دیجئیے، میں اس میں اپنے والد کو کفناؤں گا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اس کا جنازہ تیار کر کے) مجھے اطلاع دینا ، جب آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھنی چاہی تو عمر بن خطاب (رض) نے آپ سے کہا : یہ آپ کے لیے مناسب نہیں ہے، بہرحال نبی اکرم ﷺ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی، اور عمر (رض) سے فرمایا : مجھے دو باتوں میں اختیار دیا گیا ہے استغفر لهم أو لا تستغفر لهم (سورة التوبة : 80) تم ان کے لیے مغفرت طلب کرو یا نہ کرو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی : ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره (سورة التوبة : 84) منافقوں میں سے جو کوئی مرجائے تو نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢٢ (١٢٦٩) ، تفسیرالتوبہ ١٢ (٤٦٧٠) ، ١٣ (٤٦٧٢) ، اللباس ٨ (٥٧٩٦) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢ (٢٤٠٠) ، صفات المنافقین ٣ (٢٧٧٤) ، سنن الترمذی/تفسیر التوبة (٣٠٩٨) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٠ (١٩٠١) ، (تحفة الأشراف : ٨١٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨) (صحیح )

【92】

اہل قبلہ کا جنازہ پڑھنا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ منافقین کا سردار (عبداللہ بن ابی) مدینہ میں مرگیا، اس نے وصیت کی کہ نبی اکرم ﷺ اس کی نماز جنازہ پڑھیں، اور اس کو اپنی قمیص میں کفنائیں، تو نبی اکرم ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، اور اسے اپنے کرتے میں کفنایا، اور اس کی قبر پہ کھڑے ہوئے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی : ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره منافقوں میں سے جو کوئی مرجائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں، اور اس کی قبر پہ مت کھڑے ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٥٥) (منکر) (ملاحظہ ہو : احکام الجنائز : ١٦٠ ، اس حدیث میں وصیت کا ذکر منکر ہے )

【93】

اہل قبلہ کا جنازہ پڑھنا

واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر میت کی نماز پڑھو، اور ہر امیر (حاکم) کے ساتھ (مل کر) جہاد کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥٠، ومصباح الزجاجة : ٥٤٢) (ضعیف) (اس سند میں تین روای : عتبہ بن یقظان ضعیف، حارث بن نبہان اور ابوسعید مصلوب فی الزندقہ دونوں متروک ہیں، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢؍٣٠٩ )

【94】

اہل قبلہ کا جنازہ پڑھنا

جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص زخمی ہوا، اور زخم نے اسے کافی تکلیف پہنچائی، تو وہ آہستہ آہستہ تیر کی انی کے پاس گیا، اور اس سے اپنے کو ذبح کرلیا، تو نبی اکرم ﷺ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تاکہ اس سے دوسروں کو نصیحت ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٥١ (٣١٨٥) ، سنن الترمذی/الجنائز ٦٨ (١٠٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٢١٧٤) ، وقد أخر جہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٨) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٨ (١٩٦٣) ، مسند احمد (٥/٨٧، ٩٢، ٩٤، ٩٦، ٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ امام اور کوئی مقتدیٰ اور پیشوا نہ پڑھے، لیکن دوسرے عام لوگ پڑھ لیں، واضح رہے کہ ایک قرض دار تھا اور اس کا انتقال ہوگیا، تو اس کی بھی نبی کریم ﷺ نے نماز جنازہ نہیں پڑھائی تھی، لیکن لوگوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لیں۔

【95】

قبر پر نماز جنازہ پڑھنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک کالی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی، رسول اللہ ﷺ نے اسے نہیں دیکھا، کچھ روز کے بعد اس کے متعلق پوچھا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ اس کا انتقال ہوگیا، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر مجھے خبر کیوں نہ دی، اس کے بعد آپ اس کی قبر پہ آئے، اور اس پر نماز جنازہ پڑھی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧٤ (٤٥٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٣ (٩٥٦) ، سنن ابی داود/الجنائز ٦١ (٣٢٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٣) (صحیح )

【96】

قبر پر نماز جنازہ پڑھنا

یزید بن ثابت (رض) (وہ زید بن ثابت (رض) کے بڑے بھائی) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نکلے، جب آپ مقبرہ بقیع پہنچے تو وہاں ایک نئی قبر دیکھی، آپ نے اس کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے کہا : فلاں عورت کی ہے، آپ نے اس کو پہچان لیا اور فرمایا : تم لوگوں نے اس کی خبر مجھ کو کیوں نہ دی ؟ ، لوگوں نے کہا : آپ دوپہر میں آرام فرما رہے تھے، اور روزے سے تھے، ہم نے آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا، آپ ﷺ نے فرمایا : اب ایسا نہ کرنا، آئندہ مجھے یہ معلوم نہ ہونے پائے کہ پھر تم لوگوں نے ایسا کیا ہے، جب تم لوگوں میں سے کوئی شخص مرجائے تو جب تک میں تم میں زندہ ہوں مجھے خبر کرتے رہو، اس لیے کہ اس پر میری نماز اس کے لیے رحمت ہے، پھر آپ اس کی قبر کے پاس آئے، اور ہم نے آپ کے پیچھے صف باندھی، آپ نے اس پر چار تکبیریں کہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٩٤ (٢٠٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کی نماز جنازہ پڑھی۔

【97】

قبر پر نماز جنازہ پڑھنا

عامر بن ربیعہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک کالی عورت کا انتقال ہوگیا، اور نبی اکرم ﷺ کو اس کے انتقال کی خبر نہیں دی گئی، پھر جب آپ کو خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگوں نے مجھے اس کے انتقال کی خبر کیوں نہیں دی ؟ اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کہا : اس پہ صف باندھو، پھر آپ نے اس عورت کی نماز جنازہ پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٤٠، ومصباح الزجاجة : ٥٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤٤) (حسن صحیح )

【98】

قبر پر نماز جنازہ پڑھنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک ایسے شخص کا انتقال ہوگیا، جس کی عیادت رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے، لوگوں نے اسے رات میں دفنا دیا، جب صبح ہوئی اور لوگوں نے (اس کی موت کے بارے میں) آپ کو بتایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگوں نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی ؟ لوگوں نے کہا کہ رات تھی اور تاریکی تھی، ہم نے آپ کو تکلیف دینا اچھا نہیں سمجھا، تو آپ ﷺ اس کی قبر کے پاس آئے، اور اس کی نماز جنازہ پڑھی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦١ (٨٥٧) ، الجنائز ٥ (١٢٤٧) ، ٥٤ (١٣٢١) ، ٥٥ (١٣٢٢) ، ٥٩ (١٣٢٦) ، ٦٦ (١٣٣٦) ، ٦٩ (١٣٤٠) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٣ (٩٥٤) ، سنن ابی داود/الجنائز ٥٨ (٣١٩٦) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٧ (١٠٣٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٩٤ (٢٠٢٥، ٢٠٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٤، ٢٣٨، ٣٣٨) (صحیح )

【99】

قبر پر نماز جنازہ پڑھنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک قبر پر دفن کیے جانے کے بعد اس میت کی نماز جنازہ پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٣ (٩٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٠٦، ٣/١٣٠) (صحیح )

【100】

قبر پر نماز جنازہ پڑھنا

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک میت کی اس کے دفن کر دئیے جانے کے بعد نماز جنازہ پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩٤٣، ومصباح الزجاجة : ٥٤٤) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے کیونکہ ابو سنان مہران، اور محمد بن حمید متکلم فیہ راوی ہیں )

【101】

قبر پر نماز جنازہ پڑھنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایک کالی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی، ایک رات اس کا انتقال ہوگیا، جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کو اس کے مرنے کی اطلاع دی گئی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگوں نے مجھے خبر کیوں نہ دی ؟ پھر آپ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ نکلے اور اس کی قبر پر کھڑے ہو کر تکبیر کہی، اور لوگ آپ کے پیچھے تھے، آپ نے اس کے لیے دعا کی پھر آپ لوٹ آئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠٦٩، ومصباح الزجاجة : ٥٤٥) (صحیح) (سابقہ حدیث تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبر پر نماز جنازہ صحیح ہے، سنن ترمذی میں ایک حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے ام سعد کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی، ان کے دفن پر ایک مہینہ گزر چکا تھا، نیز یہ حدیث عام ہے خواہ اس میت پر لوگ نماز جنازہ پڑھ چکے ہوں یا کسی نے نہ پڑھی ہو، ہر طرح اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھنا صحیح ہے۔

【102】

نجاشی کی نماز جنازہ

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نجاشی کا انتقال ہوگیا ہے، پھر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مقبرہ بقیع کی طرف گئے، ہم نے صف باندھی، اور رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے، پھر آپ نے چار تکبیریں کہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤ (١٢٤٥) ، ٥٤ (١٣١٨) ، ٦٠ (١٣٣٤) ، سنن الترمذی/الجنائز ٣٧ (١٠٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٦٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٦٢ (٣٢٠٤) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٢ (١٩٧٣) ، موطا امام مالک/الجنائز ٥ (١٤) ، مسند احمد (٢/٢٣٠، ٢٨٠، ٤٣٨، ٤٣٩) (صحیح )

【103】

نجاشی کی نماز جنازہ

عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے (دینی) بھائی نجاشی کا انتقال ہوگیا ہے، ان کی نماز جنازہ پڑھو عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ آپ کھڑے ہوئے، اور ہم نے آپ ﷺ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی، میں دوسری صف میں تھا، تو دو صفوں نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٤٨ (١٠٣٩) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٢ (١٩٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٢ (٩٥٣) ، مسند احمد (٤/٤٣١، ٤٣٣، ٤٤١) (صحیح )

【104】

نجاشی کی نماز جنازہ

مجمع بن جاریہ انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے (دینی) بھائی نجاشی کا انتقال ہوگیا ہے، تم لوگ کھڑے ہو، اور ان کی نماز جنازہ پڑھو، پھر ہم نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے دو صفیں لگائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٢١٦، و مصباح الزجاجة : ٥٤٦) (صحیح) (سند میں حمران بن أعین ضعیف ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【105】

نجاشی کی نماز جنازہ

حذیفہ بن اسید (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر نکلے تو فرمایا : اپنے (دینی) بھائی پر نماز جنازہ پڑھو جن کی موت تمہارے علاقہ سے باہر ہوگئی ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا : وہ کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ نجاشی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٣٠٠، ومصباح الزجاجة : ٥٤٧) ، مسند احمد (٤/٧) (صحیح )

【106】

نجاشی کی نماز جنازہ

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی، تو چار تکبیرات کہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٤٠٠، ومصباح الزجاجة : ٥٤٨) (صحیح )

【107】

نماز جنازہ پڑھنے کا ثواب اور دفن تک شریک رہنے کا ثواب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز جنازہ پڑھی، اس کو ایک قیراط ثواب ہے، اور جو دفن سے فراغت تک انتظار کرتا رہا، اسے دو قیراط ثواب ہے لوگوں نے عرض کیا : دو قیراط کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : دو پہاڑ کے برابر ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان ٣٥ (٤٧) ، الجنائز ٥٨ (١٣٢٥) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٧ (٩٤٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٩ (١٩٩٦) ، الإیمان ٢٦ (٥٠٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٦٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٥ (٣١٦٨) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٩ (١٠٤٠) ، مسند احمد (٢/٢، ٢٣٣، ٢٤٦، ٢٨٠، ٣٢١، ٣٨٧، ٤٠١، ٤٣٠، ٤٥٨، ٤٧٥، ٤٨٠، ٤٩٣، ٤٩٨، ٥٠٣، ٥٢١، ٥٣١) (صحیح )

【108】

نماز جنازہ پڑھنے کا ثواب اور دفن تک شریک رہنے کا ثواب

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی کی نماز جنازہ پڑھی، تو اس کو ایک قیراط ثواب ہے، اور جو اس کے دفن میں بھی شریک رہا، تو اس کو دو قیراط برابر ثواب ہے ، نبی اکرم ﷺ سے قیراط کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا : قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١٧ (٩٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٢١١٥) ، مسند احمد (٥/٢٧٦، ٢٧٧، ٢٨٢، ٢٨٣، ٢٨٤) (صحیح )

【109】

نماز جنازہ پڑھنے کا ثواب اور دفن تک شریک رہنے کا ثواب

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز جنازہ پڑھی، اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے، اور جو اس کے دفن تک جنازہ میں حاضر رہا اس کے لیے دو قیراط ثواب ہے، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، قیراط اس احد پہاڑ سے بڑا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣، ومصباح الزجاجة : ٥٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٣١) (صحیح) (دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں حجاج بن ارطاہ مدلس ہیں ) وضاحت : ١ ؎: اگرچہ قیراط نہایت ہلکا وزن ہے یعنی دانق کا آدھا، اور دانق ایک درہم کا چھٹا حصہ ہے، تو قیراط درہم کا بارہواں حصہ ہوا، یعنی تقریباً دو رتی، لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ قیراط بہت بڑا ہے وہ جو پہاڑ سے بھی وزن میں زائد ہے۔

【110】

جنازہ کی وجہ سے کھڑے ہوجانا

عامر بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ، یہاں تک کہ وہ تم سے آگے نکل جائے، یا رکھ دیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤٦ (١٣٠٧) ، ٤٧ (١٣٠٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٤ (٩٥٨) ، سنن ابی داود/الجنائز ٤٧ (٣١٧٢) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥١ (١٠٤٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٥ (١٩١٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٤١) ، مسند احمد (٣/٤٤٥، ٤٤٦، ٤٤٧) (صحیح )

【111】

جنازہ کی وجہ سے کھڑے ہوجانا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے سے ایک جنازہ لے جایا گیا، تو آپ کھڑے ہوگئے اور فرمایا : کھڑے ہوجاؤ! اس لیے کہ موت کی ایک گھبراہٹ اور دہشت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٦٦، ومصباح الزجاجة : ٥٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٧، ٣٤٣) (صحیح )

【112】

جنازہ کی وجہ سے کھڑے ہوجانا

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک جنازہ کے لیے کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہوئے، پھر آپ بیٹھ گئے، تو ہم بھی بیٹھ گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٥ (٩٦٢) ، سنن ابی داود/الجنائز ٤٧ (٣١٧٥) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥٢ (١٠٤٤) ، سنن النسائی/الجنائز ٨١ (٢٠٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٧٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ١١ (٣٣) ، مسند احمد (١/٨٢، ٨٣، ١٣١، ١٣٨) (صحیح )

【113】

جنازہ کی وجہ سے کھڑے ہوجانا

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی جنازے کے پیچھے چلتے تو اس وقت تک نہ بیٹھتے جب تک کہ اسے قبر میں نہ رکھ دیا جاتا، ایک یہودی عالم آپ کے سامنے آیا، اور کہا : اے محمد ! ہم بھی ایسے ہی کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے بیٹھنا شروع کردیا، اور فرمایا : ان کی مخالفت کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٧ (٣١٧٦) ، سنن الترمذی/الجنائز ٣٥ (١٠٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٧٦) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ٤٣٧ ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ پہلے نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجانے کا حکم دیا تھا، پھر جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ یہود بھی ایسا کرتے ہیں تو آپ نے ان کی مخالفت کا حکم دیا جس سے سابق حکم منسوخ ہوگیا۔

【114】

قبرستان میں جانے کی دعا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے انہیں یعنی نبی اکرم ﷺ کو (ایک رات) غائب پایا، پھر دیکھا کہ آپ مقبرہ بقیع میں ہیں، اور آپ نے فرمایا : السلام عليكم دار قوم مؤمنين أنتم لنا فرط وإنا بکم لاحقون اللهم لا تحرمنا أجرهم ولا تفتنا بعدهم اے مومن گھر والو ! تم پر سلام ہو، تم لوگ ہم سے پہلے جانے والے ہو، اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں، اے اللہ ! ہمیں ان کے ثواب سے محروم نہ کرنا، اور ان کے بعد ہمیں فتنہ میں نہ ڈالنا ۔

【115】

قبرستان میں جانے کی دعا

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو یہ کہیں : السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين وإنا إن شاء الله بکم لاحقون نسأل الله لنا ولکم العافية اے مومن اور مسلمان گھر والو ! تم پر سلام ہو، ہم تم سے انشاء اللہ ملنے والے ہیں، اور ہم اللہ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٥ (٩٧٥) ، سنن النسائی/الجنائز ١٠٣ (٢٠٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٩٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٣، ٣٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : السلام عليكم يا أهل القبور، يغفر الله لنا ولکم وأنتم سلفنا ونحن بالأثر یعنی سلام ہو تمہارے اوپر اے قبر والو ! اللہ ہم کو اور تم کو بخشے، تم ہمارے اگلے ہو، اور ہم تمہارے پیچھے ہیں۔

【116】

قبرستان میں بیٹھنا

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازہ میں نکلے، تو آپ قبلہ کی طرف رخ کر کے بیٹھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٦٨ (٣٢١٢) ، السنة ٢٧ (٤٧٥٣، ٣٧٥٤) ، سنن النسائی/الجنائز ٨١ (٢٠٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٧، ٢٩٥، ٢٩٧) (صحیح )

【117】

قبرستان میں بیٹھنا

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازہ میں نکلے، جب قبر کے پاس پہنچے تو آپ بیٹھ گئے، اور ہم بھی بیٹھ گئے، گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی خاموش سر جھکا کر بیٹھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم ﷺ کے پاس ہمیشہ اسی طرح با ادب بیٹھتے تھے۔ اور قبرستان میں بھی باکل خاموش اور چپ چاپ بیٹھ جاتے تھے۔

【118】

میّٹ کو قبر میں داخل کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جب مردے کو قبر میں داخل کیا جاتا تو نبی اکرم ﷺ بسم الله وعلى ملة رسول الله اور ابوخالد نے اپنی روایت میں ایک بار یوں کہا : جب میت کو اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا تو آپ بسم الله وعلى سنة رسول الله کہتے، اور ہشام نے اپنی روایت میں بسم الله وفي سبيل الله وعلى ملة رسول الله کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث ہشام بن عمار تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٣١٩) ، وحدیث عبد اللہ بن سعید أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ٥٤ (١٠٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٦٤٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٦٩ (٣٢١٣) ، مسند احمد (٢/٢٧، ٤٠، ٥٩، ٦٩، ١٢٧) (صحیح) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں دو راوی اسماعیل بن عیاش اور لیث بن أبی سلیم ضعیف ہیں )

【119】

میّٹ کو قبر میں داخل کرنا

ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سعد (رض) کو ان کی قبر کے پائتانے سے سر کی طرف سے قبر میں اتارا، اور ان کی قبر پہ پانی چھڑکا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠١٤، ومصباح الزجاجة : ٥٥١) (ضعیف جدا) (اس کی سند میں مندل بن علی اور محمد بن عبید اللہ بن أبی رافع بہت زیادہ منکر الحدیث ہیں، نیز ملاحظہ ہو : المشکاة : ١٧٢١٩ ) وضاحت : ١ ؎: سنت یہی ہے کہ میت کو قبر کے پائتانے سے قبر کے اندر اس طرح کھینچا جائے کہ پہلے سر کا حصہ قبر میں داخل ہو، اور قبر میں اسے دائیں پہلو لٹایا جائے، اس طرح پر کہ چہرہ قبلہ کی طرف ہو اور سر قبلہ کے دائیں ہو، اور پیر اس کے بائیں۔

【120】

میّٹ کو قبر میں داخل کرنا

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو قبلہ کی طرف سے (قبر میں) اتارا گیا، اور کھینچ لیا گیا، آپ کا چہرہ قبلہ کی طرف کیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢١٨، ومصباح الزجاجة : ٥٥٢) (منکر) (اس کی سند میں عطیہ العوفی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : احکام الجنائز : ١٥٠ )

【121】

میّٹ کو قبر میں داخل کرنا

سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ میں ابن عمر (رض) کے پاس ایک جنازے میں آیا، جب انہوں نے اسے قبر میں رکھا تو کہا : بسم الله وفي سبيل الله وعلى ملة رسول الله اور جب قبر پر اینٹیں برابر کرنے لگے تو کہا : اللهم أجرها من الشيطان ومن عذاب القبر اللهم جاف الأرض عن جنبيها وصعد روحها ولقها منک رضوانا اے اللہ ! تو اسے شیطان سے اور قبر کے عذاب سے بچا، اے اللہ ! زمین کو اس کی پسلیوں سے کشادہ رکھ، اور اس کی روح کو اوپر چڑھا لے، اور اپنی رضا مندی اس کو نصیب فرما میں نے کہا : اے ابن عمر ! یہ دعا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، یا اپنی طرف سے پڑھی ہے ؟ انہوں نے کہا : اگر ایسا ہو تو مجھے اختیار ہوگا، جو چاہوں کہوں (حالانکہ ایسا نہیں ہے) بلکہ اسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ٧٠٨٤، ومصباح الزجاجة : ٥٥٣) (ضعیف) (اس کی سند میں حماد بن عبد الرحمن بالاتفاق ضعیف ہیں، ابتدائی حدیث صحیح ہے، کما تقدم : ١٥٥٠ )

【122】

لحد کا اولیٰ ہونا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بغلی قبر (لحد) ہمارے لیے ہے، اور صندوقی اوروں کے لیے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٦٥ (٣٢٠٨) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥٣ (١٠٤٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٨٥ (٢٠١١) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٤٢) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٥٨٥ ) وضاحت : ١ ؎: بغلی قبر کو لحد کہتے ہیں اور ضرح اور شق صندوقی قبر کو جو بہت مشہور ہے، اس حدیث سے لحد کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اس وجہ سے کہ اس میں مردے پر مٹی گرانی نہیں ہوتی، جو ادب و احترام کے خلاف ہے، نیز اس سے صندوقی قبر کی ممانعت مقصود نہیں ہے۔

【123】

لحد کا اولیٰ ہونا

جریر بن عبداللہ بجلی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بغلی قبر (لحد) ہمارے لیے ہے، اور صندوقی اوروں کے لیے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٢٠٩، ومصباح الزجاجة : ٥٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٧، ٣٥٩، ٣٦٢) (صحیح) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ابوالیقظان عثمان بن عمیر ضعیف ہیں )

【124】

لحد کا اولیٰ ہونا

سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے (اپنے انتقال کے وقت) کہا : میرے لیے بغلی قبر (لحد) بنانا، اور کچی اینٹوں سے اس کو بند کردینا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے کیا گیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٩ (٩٦٦) ، سنن النسائی/الجنائز ٨٥ (٢٠١٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦٩، ١٧٣، ١٨٤) (صحیح )

【125】

قش ( صند وقی قبر)

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ کا انتقال ہوگیا، تو مدینہ میں قبر بنانے والے دو شخص تھے، ایک بغلی قبر بناتا تھا، اور دوسرا صندوقی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : ہم اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرتے ہیں، اور دونوں کو بلا بھیجتے ہیں (پھر جو کوئی پہلے آئے گا، ہم اسے کام میں لگائیں گے) اور جو بعد میں آئے اسے چھوڑ دیں گے، ان دونوں کو بلوایا گیا، تو بغلی قبر بنانے والا پہلے آگیا، لہٰذا آپ ﷺ کے لیے بغلی قبر بنائی گئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٩، ومصباح الزجاجة : ٥٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٣٠/١٣٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوطلحہ (رض) لحد بناتے تھے اور عبیدہ (رض) صندوقی۔

【126】

قش ( صند وقی قبر)

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوگیا، تو لوگوں نے بغلی اور صندوقی قبر کے سلسلے میں اختلاف کیا، یہاں تک کہ اس سلسلے میں باتیں بڑھیں، اور لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں، تو عمر (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے پاس زندگی میں یا موت کے بعد شور نہ کرو، یا ایسا ہی کچھ کہا، بالآخر لوگوں نے بغلی اور صندوقی قبر بنانے والے دونوں کو بلا بھیجا، تو بغلی قبر بنانے والا پہلے آگیا، اس نے بغلی قبر بنائی، پھر اس میں رسول اللہ ﷺ کو دفن کیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٤٦، ومصباح الزجاجة : ٥٥٦) (حسن) (متابعات و شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عبید بن طفیل مجہول اور عبد الرحمن بن أبی ملیکہ ضعیف راوی ہیں) (تراجع الألبانی : رقم : ٥٩٠ )

【127】

قبر گہری کھودنا

ادرع سلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک رات آیا، اور میں نبی اکرم ﷺ کی پہرہ داری کیا کرتا تھا، ایک شخص بلند آواز سے قرآن پڑھ رہا تھا، نبی اکرم ﷺ باہر نکلے، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو ریاکار معلوم ہوتا ہے، پھر اس کا مدینہ میں انتقال ہوگیا، جب لوگ اس کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہوئے، تو لوگوں نے اس کی لاش اٹھائی تب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کے ساتھ نرمی کرو ، اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ نرمی کرے، یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا تھا، ادرع (رض) کہتے ہیں کہ اس کی قبر کھودی گئی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کی قبر کشادہ کرو، اللہ اس پر کشادگی کرے ، یہ سن کر بعض صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا اس کی وفات پر آپ کو غم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨١، ومصباح الزجاجة : ٥٥٧) (ضعیف) (موسیٰ بن عبیدة ضعیف راوی ہیں )

【128】

قبر گہری کھودنا

ہشام بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قبر کو خوب کھودو، اسے کشادہ اور اچھی بناؤ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٧١ (٣٢١٥، ٣٢١٦، سنن الترمذی/الجہاد ٣٣ (١٧١٣) ، سنن النسائی/الجنائز ٨٦ (٢٠١٢) ، ٨٧ (٢٠١٣) ، ٩٠ (٢٠١٧) ، ٩١ (٢٠٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٩، ٢٠) (صحیح )

【129】

قبر پر نشانی رکھنا

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون (رض) کی قبر کو ایک پتھر سے نشان زد کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٠، و مصباح الزجاجة : ٥٥٨) (حسن صحیح )

【130】

میّت کی تعریف کرنا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کو پختہ بنانے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٢ (٩٧٠) ، سنن ابی داود/الجنائز ٧٦ (٣٢٢٥) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥٨ (١٠٥٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٩٦ (٢٠٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٥، ٣٣٢، ٣٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قبروں کے پختہ بنانے میں ایک تو فضول خرچی ہے اس سے مردے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا دوسرے اس میں مرنے والوں کی ایسی تعظیم ہے جو انسان کو شرک کی طرف لے جاتی ہے اس لئے اس سے منع کیا گیا ہے۔

【131】

قبر پر عمارت بنانا اس کو پختہ بنانا اس پر کتبہ لگانا ممنوع ہے

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبر پر کچھ لکھنے سے منع کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٩٦ (٢٠٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٧٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٧٦ (٣٢٢٦) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥٨ (١٠٥٢) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ١٩٦، ٥٨٦ ) وضاحت : ١ ؎: قبر پر لکھنے سے مراد وہ کتبہ ہے جو لوگ قبر پر لگاتے ہیں، جس میں میت کی تاریخ وفات اور اوصاف و فضائل درج کئے جاتے ہیں، بعض علماء نے کہا ہے کہ ممانعت سے مراد اللہ یا رسول اللہ کا نام لکھنا ہے، یا قرآن مجید کی آیتیں لکھنا ہے کیونکہ بسا اوقات کوئی جانور اس پر پاخانہ پیشاب وغیرہ کردیتا ہے جس سے ان چیزوں کی توہین ہوتی ہے۔

【132】

قبر پر عمارت بنانا اس کو پختہ بنانا اس پر کتبہ لگانا ممنوع ہے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے قبر پر عمارت بنانے سے منع کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٧٧، ومصباح الزجاجة : ٥٥٩) (صحیح) (تر اجع الألبانی : رقم : ١٩٦ ) وضاحت : ١ ؎: قبروں پر قبہ اور گنبد کی تعمیر کا معاملہ بھی یہی ہے یہ بلاوجہ کا اسراف ہے جس سے مردوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، اور مرنے والوں کی ایسی تعظیم ہے جو شرک کی طرف لے جاتی ہے۔

【133】

قبر پر مٹی ڈالنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک نماز جنازہ پڑھی، پھر میت کی قبر کے پاس تشریف لا کر اس پر سرہانے سے تین مٹھی مٹی ڈالی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٠٢، ومصباح الزجاجة : ٥٦٠) (صحیح )

【134】

قبروں پر چلنا اور موبیٹھنا منع ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسی کا آگ کے شعلہ پر جو اسے جلا دے بیٹھنا اس کے لیے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٣ (٩٧١) ، سنن ابی داود/الجنائز ٧٧ (٣٢٢٨) ، سنن النسائی/الجنائز ١٠٥ (٢٠٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣١١، ٣٨٩، ٤٤٤، ٥٢٨) (صحیح )

【135】

قبروں پر چلنا اور موبیٹھنا منع ہے

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میں انگارے یا تلوار پہ چلوں، یا اپنا جوتا پاؤں میں سی لوں، یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں کسی مسلمان کی قبر پر چلوں، اور میں کوئی فرق نہیں سمجھتا کہ میں قضائے حاجت کروں قبروں کے بیچ میں یا بازار کے بیچ میں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٦٤، ومصباح الزجاجة : ٥٦١) (صحیح) (الإرواء : ٦٣ ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ لوگوں سے شرم کی وجہ سے بازار میں آدمی کسی طرح پاخانہ نہیں کرسکتا، پس ایسا ہی مردوں سے بھی شرم کرنی چاہیے، اور قبرستان میں پاخانہ نہیں کرنا چاہیے، اور جو کوئی قبروں کے درمیان پاخانہ کرے وہ بازار کے اندر بھی پیشاب پاخانہ کرنے سے شرم نہیں کرے گا۔

【136】

قبر ستان میں جوتے اتارلینا

بشیر ابن خصاصیہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا کہ آپ نے فرمایا : اے ابن خصاصیہ ! تجھے اللہ سے کیا شکوہ ہے (حالانکہ تجھے یہ مقام حاصل ہوگیا ہے کہ) تو رسول اللہ کے ساتھ چل رہا ہے ؟ میں نے کہا، اے اللہ کے رسول ! مجھے اللہ تعالیٰ سے کوئی شکوہ نہیں۔ مجھے اللہ نے ہر بھلائی عنایت فرمائی ہے۔ (اسی اثناء میں) آپ مسلمانوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا : انہیں بہت بھلائی مل گئی ۔ پھر مشرکوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا : یہ بہت سی بھلائی سے محروم رہ گئے ۔ اچانک آپ کی نگاہ ایسے آدمی پر پڑی جو قبروں کے درمیان جوتوں سمیت چل رہا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اے جوتوں والے ! انہیں اتار دے ۔ امام ابن ماجہ نے اپنے استاذ محمد بن بشار سے بیان کیا کہ ابن مہدی کہتے ہیں، عبداللہ بن عثمان کہا کرتے تھے یہ حدیث عمدہ ہے اور اس کا راوی خالد بن سمیر ثقہ ہے۔

【137】

زیارت قبور

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قبروں کی زیارت کیا کرو، اس لیے کہ یہ تم کو آخرت کی یاد دلاتی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٦) ، سنن ابی داود/الجنائز ٨١ (٣٢٣٤) ، سنن النسائی/الجنائز ١٠١ (٢٠٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٧/٤٤١) (صحیح )

【138】

زیارت قبور

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت کی اجازت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٦٦، ومصباح الزجاجة : ٥٦٢) (صحیح) (ملاحظہ ہو : الأحکام : ١٨١) ۔

【139】

زیارت قبور

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روک دیا تھا، تو اب ان کی زیارت کرو، اس لیے کہ یہ دنیا سے بےرغبتی پیدا کرتی ہے، اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٥٦٢، ومصباح الزجاجة : ٥٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٥٢) (ضعیف) (ایوب بن ہانی میں کلام ہے، لیکن فإنها تزهد في الدنيا کے جملہ کے علاوہ دوسری احادیث سے یہ ثابت ہے ) وضاحت : ١ ؎: پہلے نبی اکرم ﷺ نے شرک کا زمانہ قریب ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو قبروں کی زیارت سے منع فرما دیا تھا، جب ایمان خوب دلوں میں جم گیا اور شرک کا خوف نہ رہا، تو آپ نے اس کی اجازت دے دی، ترمذی کی روایت میں ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو بھی اپنی ماں کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت اللہ تعالیٰ نے دے دی اب یہ حکم عام ہے، عورت اور مرد دونوں کے لئے، یا صرف مردوں کے لئے خاص ہے، نیز صحیح یہ ہے کہ عورتیں بھی قبروں کی زیارت کرسکتی ہیں، اس لئے کہ قبروں کی زیارت سے ان کو موت اور آخرت کی یاد اور دنیا سے بےرغبتی کے فوائد حاصل ہوں گے، البتہ زیارت میں مبالغہ کرنے والی عورتوں پر حدیث میں لعنت آئی ہے، اس لئے عورتوں کو محدود انداز سے زیارت قبور کی اجازت ہے، موجودہ زمانہ میں قبروں اور مشاہد کے ساتھ مسلمانوں نے اپنی جہالت کی وجہ سے جو سلوک کر رکھا ہے، اس میں قبروں کی زیارت کا اصل مقصد اور فائدہ ہی اوجھل ہوگیا ہے، اس لئے تمام مسلمانوں کو زیارت قبور کے شرعی آداب کو سیکھنا اور اس کا لحاظ رکھنا چاہیے، اور صحیح طور پر مسنون طریقے سے قبروں کی زیارت کرنی چاہیے۔

【140】

مشرکوں کی قبروں کی زیارت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی تو آپ روئے، اور آپ کے گرد جو لوگ تھے انہیں بھی رلایا، اور فرمایا : میں نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ اپنی ماں کے لیے استغفار کروں، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی اجازت نہیں دی، اور میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو اس نے مجھے اجازت دے دی، لہٰذا تم قبروں کی زیارت کیا کرو اس لیے کہ وہ موت کو یاد دلاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٦) ، سنن ابی داود/الجنائز ٨١ (٣٢٣٤) ، سنن النسائی/الجنائز ١٠١ (٢٠٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٤١) (صحیح )

【141】

مشرکوں کی قبروں کی زیارت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور کہا : اللہ کے رسول ! میرے والد صلہ رحمی کیا کرتے تھے، اور اس اس طرح کے اچھے کام کیا کرتے تھے، تو اب وہ کہاں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ جہنم میں ہیں اس بات سے گویا وہ رنجیدہ ہوا، پھر اس نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ کے والد کہاں ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی مشرک کی قبر کے پاس سے گزرو، تو اس کو جہنم کی خوشخبری دو اس کے بعد وہ اعرابی (دیہاتی) مسلمان ہوگیا، اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے مجھ پر ایک ذمہ داری ڈال دی ہے، اب کسی بھی کافر کی قبر سے گزرتا ہوں تو اسے جہنم کی بشارت دیتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٨٠٣، ومصباح الزجاجة : ٥٦٤) (صحیح) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٨ )

【142】

عورتوں کے لئے قبروں کی زیارت کرنا منع ہے

حسان بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٤٠٣، ومصباح الزجاجة : ٥٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤٢، ٤٤٣) (حسن) (نیز ملاحظہ ہو : الإرواء ) وضاحت : ١ ؎: یہ اور اس معنی کی دوسری احادیث سے یہ امر قوی ہوتا ہے کہ عورتوں کو قبروں کی زیارت کرنا منع ہے، اس حدیث میں زوارات مبالغہ کا صیغہ ہے، اس لئے عام عورتوں کے لئے زیارت قبور کی اجازت اوپر کی (حدیث نمبر ١٥٧١ ) سے حاصل ہے، جس میں رسول اکرم ﷺ نے ممانعت کے بعد مسلمانوں کو زیارت قبور کا اذن عام دیا ہے، تاکہ وہ اس سے عبرت و موعظت حاصل کریں، اور عورتیں بھی اس سے عبرت و موعظت کے حصول میں مردوں کی طرح محتاج اور حقدار ہیں۔ اس سلسلے میں متعدد احادیث بھی ہیں۔ ١ ۔ ام المومنین عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو قبروں کی زیارت کی اجازت دی۔ (سنن الاثرم ومستدرک الحاکم) ٢ ۔ صحیح مسلم میں ام المومنین عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! جب میں قبروں کی زیارت کروں تو کیا کہوں ؟۔ آپ ﷺ نے یوں فرمایا : کہو السلام على أهل الديار من المؤمنين۔ ٣ ۔ حاکم نے روایت کی ہے کہ فاطمہ الزہراء (رض) اپنے چچا حمزہ (رض) کے قبر کی زیارت ہر جمعہ کو کیا کرتیں تھیں۔ ٤ ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک عورت پر سے گزرے جو ایک قبر پر رو رہی تھی، لیکن آپ ﷺ نے اس پر قبر کی زیارت کی وجہ سے نکیر نہیں فرمائی۔ اجازت اور عدم اجازت میں یوں مطابقت ہوسکتی ہے کہ ان عورتوں کے لئے ممانعت ہے جو زیارت میں مبالغہ سے کام لیں، یا زیارت کے وقت نوحہ وغیرہ کریں، اور ان عورتوں کے لئے اجازت ہے جو خلاف شرع کام نہ کریں۔ قرطبی نے کہا کہ لعنت ان عورتوں سے خاص ہے جو بہت زیادہ زیارت کو جائیں، کیونکہ حدیث میں زوارات القبور مبالغہ کا صیغہ منقول ہے، اور شاید اس کی وجہ یہ ہوگی کہ جب عورت اکثر زیارت کو جائے گی تو مرد کے کاموں اور ضرورتوں میں خلل واقع ہوگا۔

【143】

عورتوں کے لئے قبروں کی زیارت کرنا منع ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٨٢ (٣٢٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٢ (٣٢٠) ، سنن النسائی/الجنائز ١٠٤ (٢٠٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٩، ٣٢٤، ٣٣٧) (حسن) (سابقہ حدیث سے یہ حسن ہے، لیکن زائرات کے لفظ کی روایت ضعیف ہے )

【144】

عورتوں کے لئے قبروں کی زیارت کرنا منع ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٦٢ (١٠٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٣٧، ٣٥٦) (حسن) (شواہد و متابعات کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں محمد بن طالب مجہول ہیں، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٧٦٢ )

【145】

عورتوں کا جنازہ میں جانا

ام عطیہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم عورتوں کو جنازے کے ساتھ جانے سے منع کردیا گیا، لیکن ہمیں تاکیدی طور پر نہیں روکا گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢٩ (١٢٧٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ١١ (٩٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٣٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٤ (٣١٦٧) ، مسند احمد (٦/٤٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ یہ ممانعت تنزیہی ہے، یعنی جنازہ میں نہ جانا زیادہ بہتر ہے، جمہور علماء کا یہی قول ہے، اور بعضوں کے نزدیک یہ امر حرام ہے۔

【146】

عورتوں کا جنازہ میں جانا

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نکلے اور کئی عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، آپ نے پوچھا : تم لوگ کیوں بیٹھی ہوئی ہو ؟ انہوں نے کہا : ہم جنازے کا انتظار کر رہی ہیں، آپ نے پوچھا : کیا تم لوگ جنازے کو غسل دو گی ؟ انہوں نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے پوچھا : کیا اسے اٹھاؤ گی ؟ انہوں نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تم بھی ان لوگوں کے ساتھ جنازہ قبر میں اتارو گی جو اسے اتاریں گے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ گناہ گار ہو کر ثواب سے خالی ہاتھ (اپنے گھروں کو) واپس جاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٦٩، ومصباح الزجاجة : ٥٦٦) (ضعیف) (اس کی سند میں دینار ابو عمر اور اسماعیل بن سلمان ضعیف ہیں، ابن الجوزی نے اس حدیث کو العلل المتناہیہ میں ذکر کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو : ١ لضعیفہ : ٢٧٤٢ )

【147】

نوحہ کی ممانعت

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت کریمہ : ولا يعصينک في معروف (سورة الممتنحة : 12) نیک باتوں میں تمہاری نافرمانی نہ کریں کی تفسیر کے سلسلہ میں فرمایا : اس سے مراد نوحہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٦٠ (٣٣٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٢٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: نوحہ کہتے ہیں چلا چلا کر میت پر رونے، اور اس کے فضائل بیان کرنے کو، یہ جاہلیت کی رسم تھی، اور اب تک جاہلوں میں رائج ہے اس لئے نبی کریم ﷺ نے اس سے منع کیا، لیکن آہستہ سے رونا جو بےاختیاری اور رنج کی وجہ سے ہو وہ منع نہیں ہے، جیسا کہ آگے آئے گا۔

【148】

نوحہ کی ممانعت

معاویہ (رض) کے غلام حریز کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) نے حمص میں خطبہ دیا تو اپنے خطبہ میں یہ ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے نوحہ (چلّا کر رونے) سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٤٠٣، ومصباح الزجاجة : ٥٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٠١) (صحیح) (دوسری سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ” عبد اللہ بن دینار “ ضعیف اور حریز مجہول راوی ہیں )

【149】

نوحہ کی ممانعت

ابو مالک اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نوحہ (ماتم) کرنا جاہلیت کا کام ہے، اور اگر نوحہ (ماتم) کرنے والی عورت بغیر توبہ کے مرگئی، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے تارکول (ڈامر) کے کپڑے، اور آگ کے شعلے کی قمیص بنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢١٦٠، ومصباح الزجاجة : ٥٦٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجنائز ١٠ (٩٢٤) ، مسند احمد (٥/٣٤٢) (صحیح )

【150】

نوحہ کی ممانعت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میت پر نوحہ کرنا جاہلیت کا کام ہے، اگر نوحہ کرنے والی عورت توبہ کرنے سے پہلے مرجائے، تو وہ قیامت کے دن اس حال میں اٹھائی جائے گی کہ تارکول کی قمیص پہنے ہوگی، اور اس کو اوپر سے جہنم کی آگ کے شعلوں کی ایک قمیص پہنا دی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٢٤٧، ومصباح الزجاجة : ٥٦٩) (صحیح) (دوسری سند سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ” عمر بن راشد “ ضعیف راوی ہے، اور اس کی حدیث یحییٰ بن ابی کثیر سے مضطرب ہے )

【151】

نوحہ کی ممانعت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے جنازے کے ساتھ جانے سے منع فرمایا جس کے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی عورت ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤٠٥، ومصباح الزجاجة : ٥٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩٢) (حسن) (لیث نے مجاہد سے روایت کرنے میں ابویحییٰ القتات کی متابعت کی ہے، اس لئے یہ حدیث حسن ہے، تراجع الألبانی : رقم : ٥٢٨ )

【152】

چہرہ پیٹنے اور گریبان پھاڑ نے کی مما نعت

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص (نوحہ میں) گریبان پھاڑے، منہ پیٹے، اور جاہلیت کی پکار پکارے، وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث علی بن محمد ومحمد بن بشار قد أخرجہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٥ (١٢٥٤) ، سنن الترمذی/الجنائز ٢٢ (٩٩٩) ، سنن النسائی/الجنائز ١٧ (١٨٦١) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٥٩) ، وحدیث علی بن محمد وابو بکربن خلاّد قد أخرجہ : صحیح البخاری/المناقب ٨ (٣٥١٩) ، الجنائز ٣٨ (١٢٩٧) ، ٣٩ (١٢٩٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٤ (١٠٣) ، سنن النسائی/الجنائز ١٧ (١٨٦١) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٦، ٤٣٢، ٤٤٢، ٤٦٥) (صحیح )

【153】

چہرہ پیٹنے اور گریبان پھاڑ نے کی مما نعت

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عورت پر لعنت کی جو اپنا (نوحہ میں) چہرہ نوچے، اپنا گریبان پھاڑے اور خرابی بربادی اور ہلاکت کے الفاظ پکارے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٢٢، ومصباح الزجاجة : ٥٧١) (صحیح )

【154】

چہرہ پیٹنے اور گریبان پھاڑ نے کی مما نعت

عبدالرحمٰن بن یزید اور ابوبردہ (رض) کہتے ہیں کہ جب ابوموسیٰ اشعری (رض) کی بیماری شدید ہوگئی، تو ان کی بیوی ام عبداللہ چلّا چلّا کر رونے لگیں، جب ابوموسیٰ (رض) کو ہوش آیا تو انہوں نے بیوی سے کہا : کیا تم نہیں جانتی کہ میں اس شخص سے بری ہوں جس سے رسول اللہ ﷺ بری ہوئے، اور وہ اپنی بیوی سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اس سے بری ہوں جو مصیبت کے وقت سر منڈائے، روئے چلائے اور کپڑے پھاڑے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٤ (١٠٤) ، سنن النسائی/الجنائز ٢٠ (١٨٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٢٠، ٩٠٨١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٢٩ (٣١٣٠) ، مسند احمد (٤/٣٩٦، ٤٠٤، ٤٠٥، ٤١١، ٤١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جیسے جاہلوں کی عادت ہوتی ہے، بلکہ ہندوؤں کی رسم ہے کہ جب کوئی مرجاتا ہے تو اس کے غم میں سر بلکہ داڑھی مونچھ بھی منڈوا ڈالتے ہیں۔

【155】

میّت پر رونے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک جنازہ میں تھے، عمر (رض) نے ایک عورت کو (روتے) دیکھا تو اس پر چلائے، یہ دیکھ کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عمر ! اسے چھوڑ دو ، اس لیے کہ آنکھ رونے والی ہے، جان مصیبت میں ہے، اور (صدمہ کا) زمانہ قریب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ١٦ (١٨٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١١٠، ٢٧٣، ٣٣٣، ٤٠٨، ٤٤٤) (ضعیف) (کیونکہ اس کی سند میں محمد بن عمرو بن عطاء اور ابوہریرہ (رض) کے درمیان انقطاع ہے، جیسا کہ بعد والی حدیث کی سند سے واضح ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٦٠٣ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اسے ابھی صدمہ پہنچا ہے اور ایسے وقت میں دل پر اثر بہت ہوتا ہے اور رونا بہت آتا ہے، آدمی مجبور ہوجاتا ہے خصوصاً عورتیں جن کا دل بہت کمزور ہوتا ہے، ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ عورت آواز کے ساتھ روئی ہوگی، لیکن بلند آواز سے نہیں، تب بھی عمر (رض) نے اس کو منع کیا تاکہ نوحہ کا دروازہ بند کیا جاسکے جو منع ہے اور نبی کریم ﷺ خود اپنے بیٹے ابراہیم کی موت پر روئے اور فرمایا : ” آنکھ آنسو بہاتی ہے، اور دل رنج کرتا ہے، لیکن زبان سے ہم وہ نہیں کہتے جس سے ہمارا رب ناراض ہو “ اور امام احمد نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی صاحب زادی زینب وفات پا گئیں تو عورتیں رونے لگیں، عمر فاروق (رض) ان کو کوڑے سے مارنے لگے، نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے ان کو پیچھے ہٹا دیا، اور فرمایا : ” عمر ٹھہر جاؤ! “ پھر فرمایا : ” عورتو ! تم شیطان کی آواز سے بچو … “ اخیر حدیث تک۔ اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی معنی کی حدیث آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف) (اس کی سند میں سلمہ بن أزرق مجہول الحال ہیں )

【156】

میّت پر رونے کا بیان

اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی کسی بیٹی کا ایک لڑکا مرنے کے قریب تھا، انہوں نے آپ ﷺ کو بلا بھیجا تو آپ ﷺ نے انہیں جواب میں کہلا بھیجا : جو لے لیا وہ اللہ ہی کا ہے، اور جو دے دیا وہ بھی اللہ ہی کا ہے، اور اس کے پاس ہر چیز کا ایک مقرر وقت ہے، انہیں چاہیئے کہ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں لڑکی نے آپ ﷺ کو دوبارہ بلا بھیجا، اور قسم دلائی کہ آپ ﷺ ضرور تشریف لائیں، رسول اللہ ﷺ اٹھے، آپ کے ساتھ میں بھی اٹھا، آپ کے ساتھ معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم بھی تھے، جب ہم گھر میں داخل ہوئے تو لوگ بچے کو لے آئے، اور نبی اکرم ﷺ کو دے دیا، بچے کی جان اس کے سینے میں اتھل پتھل ہو رہی تھی، (راوی نے کہا کہ میں گمان کرتا ہوں یہ بھی کہا :) گویا وہ پرانی مشک ہے (اور اس میں پانی ہل رہا ہے) : یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ رو پڑے، عبادہ بن صامت (رض) نے آپ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان میں رکھی ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے رحم دل بندوں ہی پر رحم کرتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٢ (١٢٨٤) ، المرضی ٩ (٥٦٥٥) ، القدر ٤ (٦٦٠٢) ، الأیمان والنذور ٩ (٦٦٥٥) ، التوحید ٢ (٧٣٧٧) ، ٢٥ (٧٤٤٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ٦ (٩٢٣) ، سنن ابی داود/الجنائز ٢٨ (٣١٢٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٢٢ (١٨٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٠٤، ٢٠٦، ٢٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ رونا اور رنج کرنا خلاف شرع نہیں ہے بلکہ یہ دل کے نرم اور مزاج کے معتدل ہونے کی نشانی ہے، اور جس کسی کو ایسے موقعوں پر رنج بھی نہ ہو اس کا دل اعتدال سے باہر ہے اور وہ سخت دل ہے، اور یہ کچھ تعریف کی بات نہیں ہے کہ فلاں بزرگ اپنے بیٹے کے مرنے سے ہنسنے لگے، واضح رہے کہ عمدہ اور افضل نبی کریم ﷺ کا طریقہ ہے۔

【157】

میّت پر رونے کا بیان

اسماء بنت یزید (رض) کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کے صاحب زادے ابراہیم کا انتقال ہوگیا، تو رسول اللہ ﷺ رو پڑے، آپ سے تعزیت کرنے والے نے (وہ یا تو ابوبکر تھے یا عمر رضی اللہ عنہما) کہا : آپ سب سے زیادہ اللہ کے حق کو بڑا جاننے والے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آنکھ روتی ہے، دل غمگین ہوتا ہے، اور ہم کوئی ایسی بات نہیں کہتے جس سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہو، اور اگر قیامت کا وعدہ سچا نہ ہوتا، اور اس وعدہ میں سب جمع ہونے والے نہ ہوتے، اور بعد میں مرنے والا پہلے مرنے والے کے پیچھے نہ ہوتا، تو اے ابراہیم ! ہم اس رنج سے زیادہ تم پر رنج کرتے، ہم تیری جدائی سے رنجیدہ ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٧٢، ومصباح الزجاجة : ٥٧٢) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں کلام ہے ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٧٣٢ ) وضاحت : ١ ؎: ابراہیم ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ آنکھ سے آنسوں کا نکلنا اور غمزدہ ہونا صبر کے منافی نہیں بلکہ یہ رحم دلی کی نشانی ہے البتہ نوحہ اور شکوہ کرنا صبر کے منافی اور حرام ہے۔

【158】

میّت پر رونے کا بیان

حمنہ بنت حجش (رض) سے روایت ہے کہ ان سے کہا گیا : آپ کا بھائی قتل کردیا گیا ہے تو انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے، إنا لله وإنا إليه راجعون ہم اللہ کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں لوگوں نے بتایا : آپ کے شوہر قتل کر دئیے گئے، یہ سنتے ہی انہوں نے کہا : ہائے غم، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیوی کو شوہر سے ایک ایسا قلبی لگاؤ ہوتا ہے جو دوسرے کسی سے نہیں ہوتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢٢ ومصباح الزجاجة : ٥٧٣) (ضعیف) (اس کی سند میں عبد اللہ بن عمرالعمری ضعیف ہیں )

【159】

میّت پر رونے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (قبیلہ) عبدالاشہل کی عورتوں کے پاس سے گزرے، وہ غزوہ احد کے شہداء پر رو رہی تھیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لیکن حمزہ پر کوئی بھی رونے والا نہیں ، یہ سن کر انصار کی عورتیں آئیں، اور حمزہ (رض) پر رونے لگیں، رسول اللہ ﷺ نیند سے بیدار ہوئے، تو فرمایا : ان عورتوں کا برا ہو، ابھی تک یہ سب عورتیں واپس نہیں گئیں ؟ ان سے کہو کہ لوٹ جائیں اور آج کے بعد کسی بھی مرنے والے پر نہ روئیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤٩١، ومصباح الزجاجة : ٥٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٠، ٨٤، ٩٢) (حسن صحیح) (اسامہ بن زید ضعیف الحفظ ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے )

【160】

میّت پر رونے کا بیان

عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں پر مرثیہ خوانی سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٥٣، ومصباح الزجاجة : ١٥٧٥) (ضعیف) (اس کی سند میں ابراہیم الہجری ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: جاہلیت میں دستور تھا کہ جب کوئی مرجاتا تو اس کے عزیز و اقارب اس کی موت پر مرثیہ کہتے یعنی منظوم کلام جس میں اس کے فضائل بیان کرتے اور رنج و غم کی باتیں کرتے، اسلام میں اس کی ممانعت ہوئی، لیکن جاہل اس سے باز نہیں آئے، اب تک مرثیے کہتے، مرثیے سناتے اور سنتے ہیں إنا لله وإنا إليه راجعون۔

【161】

میّت پر نوحہ کی وجہ سے اس کو عذاب ہوتا ہے

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میت پر نوحہ کرنے کی وجہ سے اسے عذاب دیا جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٣ (١٢٩٢) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٢٧) ، سنن النسائی/الجنائز ١٥ (١٨٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٣٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ٢٤ (١٠٠٢) ، مسند احمد (١/٢٦، ٣٦، ٤٧، ٥٠، ٥١، ٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: میت پر آواز کے ساتھ رونے کو نوحہ کہتے ہیں۔ یہ عذاب اس شخص پر ہوگا جو اپنے ورثاء کو اس کی وصیت کر کے مرا ہو یا اس کا عمل بھی زندگی میں ایسا ہی رہا ہو اور اس کی پیروی میں اس کے گھر والے بھی اس پر نوحہ کر رہے ہوں۔

【162】

میّت پر نوحہ کی وجہ سے اس کو عذاب ہوتا ہے

ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مردے کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، جب لوگ کہتے ہیں : واعضداه واکاسياه . واناصراه واجبلاه ہائے میرے بازو، ہائے میرے کپڑے پہنانے والے، ہائے میری مدد کرنے والے، ہائے پہاڑ جیسے قوی و طاقتور اور اس طرح کے دوسرے کلمات، تو اسے ڈانٹ کر کہا جاتا ہے : کیا تو ایسا ہی تھا ؟ کیا تو ایسا ہی تھا ؟ اسید کہتے ہیں کہ میں نے کہا : سبحان اللہ، اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے : ولا تزر وازرة وزر أخرى کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا تو انہوں (موسیٰ ) نے کہا : تمہارے اوپر افسوس ہے، میں تم سے بیان کرتا ہوں کہ ابوموسیٰ اشعری (رض) نے مجھ سے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بیان فرمائی، تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ابوموسیٰ (رض) نے نبی اکرم ﷺ پر جھوٹ باندھا ہے ؟ یا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں نے ابوموسیٰ (رض) پر جھوٹ باندھا ہے ؟۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣١، ومصباح الزجاجة : ٥٧٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ٢٤ (١٠٠٣) ، مسند احمد (٤/ ٤١٤) (حسن )

【163】

میّت پر نوحہ کی وجہ سے اس کو عذاب ہوتا ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک یہودی عورت کا انتقال ہوگیا، تو نبی اکرم ﷺ نے یہودیوں کو اس پر روتے ہوئے سنا، تو فرمایا : اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں جب کہ اسے قبر میں عذاب ہو رہا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٥٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٢ (١٢٨٩) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٣٢) ، سنن الترمذی/الجنائز ٢٥ (١٠٠٤) ، سنن النسائی/الجنائز ١٥ (١٨٥٧) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٢ (٣٧) ، مسند احمد (٦/١٠٧، ٢٥٥) (صحیح )

【164】

مصیبت پر صبر کرنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صبر تو وہ ہے جو مصیبت کے اول وقت میں ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ١٣ (٩٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣١ (١٢٨٣) ، ٤٢ (١٣٠٢) ، الأحکام ١١ (٧١٥٤) ، صحیح مسلم/الجنائز ٨ (٩٢٦) ، سنن ابی داود/الجنائز ٢٧ (٣١٢٤) ، سنن النسائی/الجنائز ٢٢ (١٨٧٠) ، مسند احمد (٣/١٣٠، ١٤٣، ٢١٧) (صحیح )

【165】

مصیبت پر صبر کرنا

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے آدمی ! اگر تم مصیبت پڑتے ہی صبر کرو، اور ثواب کی نیت رکھو، تو میں جنت سے کم ثواب پر تمہارے لیے راضی نہیں ہوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩١١، ومصباح الزجاجة : ٥٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٥٨) (حسن) (شواہد کی بنا پر حسن ہے )

【166】

مصیبت پر صبر کرنا

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ ابوسلمہ (رض) نے ان سے بیان کیا : انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس مسلمان کو کوئی مصیبت پیش آئے، تو وہ گھبرا کر اللہ کے فرمان کے مطابق یہ دعا پڑھے : إنا لله وإنا إليه راجعون اللهم عندک احتسبت مصيبتي فأجرني فيها وعضني منها ہم اللہ ہی کی ملک ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں، اے اللہ ! میں نے تجھی سے اپنی مصیبت کا ثواب طلب کیا، تو مجھے اس میں اجر دے، اور مجھے اس کا بدلہ دے جب یہ دعا پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کا اجر دے گا، اور اس سے بہتر اس کا بدلہ عنایت کرے گا ۔ ام سلمہ (رض) کہتی ہیں : جب (میرے شوہر) ابوسلمہ (رض) کا انتقال ہوگیا، تو مجھے وہ حدیث یاد آئی، جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر مجھ سے بیان کی تھی، چناچہ میں نے کہا : إنا لله وإنا إليه راجعون اللهم عندک احتسبت مصيبتي فأجرني فيها وعضني منها اور جب وعضني خيرا منها مجھے اس سے بہتر بدلا دے کہنے کا ارادہ کیا تو دل میں سوچا : کیا مجھے ابوسلمہ (رض) سے بہتر بدلہ دیا جاسکتا ہے ؟ پھر میں نے یہ جملہ کہا، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے محمد ﷺ کو ان کے بدلہ میں دے دیا اور میری مصیبت کا بہترین اجر مجھے عنایت فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٨٤ (٣٥١١) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٧) (صحیح) (سند میں عبد الملک بن قدامہ ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے )

【167】

مصیبت پر صبر کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (مرض الموت میں) ایک دروازہ کھولا جو آپ کے اور لوگوں کے درمیان تھا، یا پردہ ہٹایا تو دیکھا کہ لوگ ابوبکر (رض) کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں، آپ ﷺ نے ان کو اچھی حالت میں دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا، اور امید کی کہ اللہ تعالیٰ اس عمل کو ان کے درمیان آپ کے انتقال کے بعد بھی باقی رکھے گا، اور فرمایا : اے لوگو ! لوگوں میں سے یا مومنوں میں سے جو کوئی کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے، تو وہ میری وفات کی مصیبت کو یاد کر کے صبر کرے، اس لیے کہ میری امت میں سے کسی کو میرے بعد ایسی مصیبت نہ ہوگی جو میری وفات کی مصیبت سے اس پر زیادہ سخت ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٤، ومصباح الزجاجة : ٥٧٨) (صحیح) (سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١١٠٦ ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے کہ مومن وہی ہے جس کو نبی کریم ﷺ کی محبت اولاد اور والدین اور سارے رشتہ داروں سے زیادہ ہو، پس جب وہ نبی کریم ﷺ کی وفات کو یاد کرے گا تو ہر طرح کے رشتہ داروں اور دوست و احباب کی موت اس کے سامنے بےحقیقت ہوگی۔

【168】

مصیبت پر صبر کرنا

حسین بن علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جسے کوئی مصیبت پیش آئی ہو، پھر وہ اسے یاد کر کے نئے سرے سے : إنا لله وإنا إليه راجعون کہے، اگرچہ مصیبت کا زمانہ پرانا ہوگیا ہو، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اتنا ہی ثواب لکھے گا جتنا اس دن لکھا تھا جس دن اس کو یہ مصیبت پیش آئی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٤١٤، ومصباح الزجاجة : ٥٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠١) (ضعیف جدا) (سند میں ہشام بن زیاد متروک اور ان کی والدہ مجہول ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٥٥١ ) وضاحت : ١ ؎: مثلاً نبی کریم ﷺ کی وفات کی مصیبت یاد کرکے ہم اس وقت إنا لله وإنا إليه راجعون کہیں تو وہی ثواب ہم کو ملے گا جو صحابہ کو نبی کریم ﷺ کی وفات کے وقت ملا تھا، بعض لوگوں نے کہا کہ حدیث خاص ہے اس مصیبت سے جو خود اسی شخص پر گزر چکی ہو۔ واللہ اعلم

【169】

مصیبت زدہ کو تسلی دیئے کا ثواب

محمد بن عمرو بن حزم (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو کسی مصیبت میں تسلی دے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عزت کا جوڑا پہنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : (ابو عمارہ قیس میں کلام ہے، اور عبد اللہ بن أبی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم عن أبیہ عن جدہ میں جد (دادا) محمد بن عمر و بن حزم ہیں، جن کو رویت حاصل ہے، لیکن صرف صحابہ کرام سے ہی سماع ہے، رسول اکرم ﷺ سے سماع نہیں ہے، لیکن انس (رض) کے شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٧٦٤، وسلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٩٥، تراجع الألبانی : رقم : ٥٥ )

【170】

مصیبت زدہ کو تسلی دیئے کا ثواب

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی مصیبت زدہ کو تسلی دے، تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ملے گا (جتنا مصیبت زدہ کو ملے گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٧٢ (١٠٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٩١٦٦) (ضعیف) (سند میں علی بن عاصم ضعیف ہے، ابن الجوزی نے اس حدیث کو الموضوعات میں داخل کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٧٦٥ )

【171】

جس کا بچہ مرجائے اس کا ثواب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص کے تین بچے انتقال کر جائیں، وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا مگر قسم پوری کرنے کے لیے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦ (١٢٥١) ، الأیمان والنذور ٩ (٦٦٥٦) ، صحیح مسلم/البروالصلة ٤٧ (٢٦٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٣٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ٦٤ (١٠٦٠) ، سنن النسائی/الجنائز ٢٥ (١٨٧٦) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٣ (٣٨) ، مسند احمد (٢/٢٤٠، ٢٧٦، ٤٧٣، ٤٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس وعدہ کو پورا کرنے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے، وَإِن مِّنكُمْ إِلا وَارِدُهَا (سورة مريم : 71) یعنی کوئی تم میں سے ایسا نہیں ہے جس کا گزر جہنم سے نہ ہو، اور یہ وعدہ تب ہے کہ وہ ان بچوں کی موت پر صبر کرے۔

【172】

جس کا بچہ مرجائے اس کا ثواب

عتبہ بن عبد سلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس مسلمان کے تین بچے (بلوغت سے پہلے) مرجائیں، تو وہ اس کو جنت کے آٹھوں دروازوں سے استقبال کریں گے، جس میں سے چاہے وہ داخل ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٧٥٤، ومصباح الزجاجة : ٥٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨٣، ١٨٤) (حسن) (لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، شرحبیل بن شفعہ مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یعنی باپ کو اختیار ہوگا کہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس دروازہ سے چاہے اندر جائے، اس کے چھوٹے بچے جو بچپن میں مرگئے تھے اس کو اندر لے جائیں گے، اور اس دروازہ پر اپنے باپ سے ملیں گے، سبحان اللہ اولاد کا مرنا بھی مومن کے لئے کم نعمت نہیں ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے بچے جنتی ہیں، نووی کہتے ہیں کہ معتبر اہل اسلام نے اس پر اجماع کیا ہے، اور بعض نے اس کے بارے میں توقف کیا ہے۔

【173】

جس کا بچہ مرجائے اس کا ثواب

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس مسلمان مرد و عورت کے تین بچے (بلوغت سے پہلے) مرجائیں، تو اللہ تعالیٰ ایسے والدین اور بچوں کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦ (١٢٤٨) ، ٩١ (١٣٨١) ، سنن النسائی/الجنائز ٢٥ (١٨٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٥٢) (صحیح )

【174】

جس کا بچہ مرجائے اس کا ثواب

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے تین نابالغ بچے آگے بھیجے، تو وہ اس کے لیے جہنم سے بچاؤ کا مضبوط قلعہ ہوں گے ابوذر (رض) نے کہا : میں نے دو بچے آگے بھیجے ہیں، آپ نے فرمایا : اور دو بھی ، پھر قاریوں کے سردار ابی بن کعب (رض) نے کہا : میں نے تو ایک ہی آگے بھیجا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اور ایک بھی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٦٥ (١٠٦١) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٥، ٤٢٩، ٤٥١) (ضعیف) (سند میں ابو محمد مجہول ہیں )

【175】

جس کسی کا حمل ساقط ہوجائے ؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ناتمام بچہ جسے میں آگے بھیجوں، میرے نزدیک اس سوار سے زیادہ محبوب ہے جسے میں پیچھے چھوڑ جاؤں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٣١، ومصباح الزجاجة : ٥٨٢) (ضعیف) (یزید بن رومان کا سماع ابوہریرہ (رض) سے نہیں ہے، اور یزید بن عبد الملک ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٣٠٧ ) وضاحت : ١ ؎: عربی میں سقط اس ادھورے اور ناقص بچے کو کہتے ہیں جو مدت حمل تمام ہونے سے پہلے پیدا ہو اور اس کے اعضاء پورے نہ بنے ہوں، اکثر ایسا بچہ پیدا ہو کر اسی وقت یا دو تین دن کے بعد مرجاتا ہے۔

【176】

جس کسی کا حمل ساقط ہوجائے ؟

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ساقط بچہ اپنے رب سے جھگڑا کرے گا ١ ؎، جب وہ اس کے والدین کو جہنم میں ڈالے گا، تو کہا جائے گا : رب سے جھگڑنے والے ساقط بچے ! اپنے والدین کو جنت میں داخل کر، وہ ان دونوں کو اپنی ناف سے کھینچے گا یہاں تک کہ جنت میں لے جائے گا ١ ؎۔ ابوعلی کہتے ہیں : يُراغم ربه کے معنی (یغاضب ) یعنی اپنے رب سے جھگڑا کرنے کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠١٣٢، ومصباح الزجاجة : ٥٨٣) (ضعیف) (اس کی سند میں مندل بن علی ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: جھگڑا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے با اصرار سفارش کرے گا، اور اپنے والدین کو بخشوانے کی جی جان سے کوشش کرے گا یہاں تک کہ اس کی سفارش قبول کی جائے گی۔

【177】

جس کسی کا حمل ساقط ہوجائے ؟

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ساقط بچہ اپنی ماں کو اپنی ناف سے جنت میں کھینچے گا جب کہ وہ ثواب کی نیت سے صبر کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٣٠، ومصباح الزجاجة : ٥٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٤١) (صحیح) (لیکن شاہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، اس کی سند میں یحییٰ بن عبید اللہ بن موھب ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی : رقم : ٥٩٧ )

【178】

میّت کے گھر کھانا بھیجنا

عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ جعفر کی موت کی جب خبر آئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، اس لیے کہ ان کے پاس ایسی خبر آئی ہے جس نے ان کو مشغول کردیا ہے، یا ان کے پاس ایسا معاملہ آپڑا ہے جو ان کو مشغول کئے ہوئے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٢٦ (٣١٣٢) ، سنن الترمذی/الجنائز ٢١ (٩٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٢١٧) (حسن )

【179】

میّت کے گھر کھانا بھیجنا

اسماء بنت عمیس (رض) کہتی ہیں کہ جب جعفر (رض) قتل کر دئیے گئے، تو رسول اللہ ﷺ اپنے گھر والوں کے پاس آئے، اور فرمایا : جعفر کے گھر والے اپنی میت کے مسئلہ میں مشغول ہیں، لہٰذا تم لوگ ان کے لیے کھانا بناؤ۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا کہ یہ طریقہ برابر چلا آ رہا تھا یہاں تک کہ اس میں بدعت آ داخل ہوئی، تو اسے چھوڑ دیا گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٦، ومصباح الزجاجة : ٥٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٧٠) (حسن) (سند میں ام عیسیٰ اور ام عون مجہول ہیں، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ میت والوں کو کھانا بھیجنا پہلے سنت تھا پھر لوگوں نے اس میں فخر و مباہات کے جذبہ سے تکلف شروع کیا اور بلاضرورت انواع و اقسام کے کھانے پکا کر بھیجنے لگے، دوسرے یہ کہ میت والوں کے پاس ساری برادری اور کنبے والوں نے جمع ہونا شروع کیا، اور کھانا بھیجنے والوں کو ان سب لوگوں کے موافق کھانا بھیجنا پڑا۔ اس لئے یہ امر بدعت سمجھ کر ترک کردیا گیا، چناچہ امام احمد اور ابن ماجہ نے باسناد صحیح جریر (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم میت والوں کے پاس جمع ہونا، اور میت کے دفن کے بعد کھانا بھیجنا دونوں کو نوحہ میں شمار کرتے تھے، اس پر بھی صحابی یا تابعی کا قول حدیث مرفوع کے مقابل نہیں ہوسکتا، اور محدثین نے میت والوں کے پاس کھانا بھیجنا مستحب رکھا ہے۔ واللہ اعلم۔

【180】

میّت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونے کی ممانعت اور کھانا تیار کرنا

جریر بن عبداللہ بجلی (رض) کہتے ہیں کہ ہم میت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونے اور ان کے لیے ان کے گھر کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٢٣٠، ومصباح الزجاجة : ٥٨٦) ، مسند احمد (٢/٢٠٤) (صحیح )

【181】

جو سفر میں مر جائے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پردیسی کی موت شہادت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦١٤٧، ومصباح الزجاجة : ٥٨٧) (ضعیف) (ہذیل بن الحکم منکر الحدیث ہیں )

【182】

جو سفر میں مر جائے

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ مدینہ ہی میں پیدا ہونے والے ایک شخص کا مدینہ میں انتقال ہوگیا، تو نبی اکرم ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایا : کاش کہ اپنی جائے پیدائش کے علاوہ سر زمین میں انتقال کیا ہوتا ایک شخص نے پوچھا : کیوں اے اللہ کے رسول ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب آدمی کا انتقال اپنی جائے پیدائش کے علاوہ مقام میں ہوتا ہے، تو اس کی پیدائش کے مقام سے لے کر موت کے مقام تک جنت میں اس کو جگہ دی جاتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٨ (١٨٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٧) (حسن) (سند میں حُيَيُّ بن عبد اللہ المعافری ضعیف ہیں، اور ان کی احادیث منکر ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جنت میں ادنی جنتی کو اس دنیا کے برابر جگہ ملے گی جیسے دوسری حدیث میں وارد ہے پھر اس حدیث کا مطلب کیا ہوگا۔ بعض نے کہا : یہاں جنت سے مراد قبر ہے، اس کی قبر میں اتنی وسعت ہوجائے گی۔ بعض نے کہا : یہ ثواب کا اندازہ ہے یعنی اتنا ثواب ملے گا جو پیدائش سے لے کر موت کے مقام تک سما جائے۔ واللہ اعلم۔

【183】

بیاری میں وفات

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بیمار ہو کر مرا وہ شہید مرا، اور وہ قبر کے فتنہ سے بچایا جائے گا، صبح و شام جنت سے اس کو روزی ملے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٢٧، ومصباح الزجاجة : ٥٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٠٤) (ضعیف جدا) (اس کی سند میں ابراہیم بن محمد سخت ضعیف ہیں، اور حدیث کو ابن الجوزی نے موضوعات میں ذکر کیا ہے )

【184】

میّت کی ہڈی توڑنے کی ممانعت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مردے کی ہڈی کو توڑنا زندہ شخص کی ہڈی کے توڑنے کی طرح ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٦٤ (٣٢٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ٥٨، ١٠٠، ١٠٥، ١٦٩، ٢٠٠، ٤٦٤) (صحیح )

【185】

میّت کی ہڈی توڑنے کی ممانعت

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مردہ کی ہڈی کے توڑنے کا گناہ زندہ شخص کی ہڈی کے توڑنے کی طرح ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٧٧) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن زیاد مجہول ہیں، لیکن فِي الإِثْمِ کے لفظ کے علاوہ بقیہ حدیث بطریق عائشہ (رض) صحیح ہے، کماتقدم، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٣ /٢١٥ )

【186】

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری کا بیان

عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : اماں جان ! مجھ سے رسول اللہ ﷺ کی بیماری کا حال بیان کیجئے تو انہوں نے بیان کیا : آپ ﷺ بیمار ہوئے تو (اپنے بدن پر) پھونکنا شروع کیا، ہم نے آپ کے پھونکنے کو انگور کھانے والے کے پھونکنے سے تشبیہ دی ١ ؎، آپ ﷺ اپنی بیویوں کا باری باری چکر لگایا کرتے تھے، لیکن جب آپ سخت بیمار ہوئے تو بیویوں سے عائشہ (رض) کے گھر میں رہنے کی اجازت مانگی، اور یہ کہ بقیہ بیویاں آپ کے پاس آتی جاتی رہیں گی۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس دو آدمیوں کے سہارے سے آئے، اس حال میں کہ آپ کے پیر زمین پہ گھسٹ رہے تھے، ان دو میں سے ایک عباس (رض) تھے۔ عبیداللہ نے کہا کہ میں نے یہ حدیث عبداللہ بن عباس (رض) سے بیان کی تو انہوں نے پوچھا : کیا تم جانتے ہو کہ دوسرا آدمی کون تھا، جن کا عائشہ (رض) نے نام نہیں لیا ؟ وہ علی بن ابی طالب (رض) تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٩ (٦٦٥) ، ٤٦ (٦٧٩) ، ٤٧ (٦٨٣) ، ٥١ (٦٨٧) ، ٦٧ (٧١٢) ، ٦٨ (٧١٣) ، ٧٠ (٧٩٦) ، المغازي ٨٣ (٤٤٤٢) ، الاعتصام ٥ (٧٣٠٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢١ (٤١٨) ، سنن النسائی/الإمامة ٤٠ (٨٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٠٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصرالصلاة ٢٤ (٨٣) ، مسند احمد (٦/٣٤، ٩٦، ٩٧، ٢١٠، ٢٢٤، ٢٢٨، ٢٤٩، ٢٥١) ، دي الصلاة ٤٤ (١٢٩٢) (صحیح) (زبیب کے جملہ کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی انگور کھانے والا منہ سے بیج نکالنے کے لیے جس طرح پھونکتا ہے اس طرح آپ پھونک رہے تھے۔

【187】

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ان کلمات کے ذریعہ حفاظت و عافیت کی دعا کرتے تھے أذهب الباس رب الناس . واشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما اے لوگوں کے رب ! بیماری دور کر دے، اور شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، شفاء تو بس تیری ہی شفاء ہے، تو ایسی شفاء عنایت فرما کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے جب آپ ﷺ کی وہ بیماری سخت ہوگئی جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کے جسم پر پھیرتی تھی، اور یہ کلمات کہتی جاتی تھی، تو آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے نکال لیا، اور فرمایا : اللهم اغفر لي وألحقني بالرفيق الأعلى اے اللہ ! مجھے بخش دے، اور رفیق اعلیٰ سے ملا دے) یہی آخری کلمہ تھا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٨٤ (٤٤٣٧) ، المرضی ١٨ (٥٦٧٥) ، الدعوات ٢٩ (٦٣٤٨) ، صحیح مسلم/الطب ١٩ (٢١٩١) ، سنن الترمذی/ الدعوات ٧٧ (٣٤٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٤٦) ، مسند احمد (٦/٤٤، ٤٥، ١٠٩، ١٢٧) ، (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے : ٣٥٢٠) (صحیح) (صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں یعوذ کے لفظ سے ہے، اور وہی محفوظ ہے) ۔

【188】

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو نبی بھی بیمار ہوا اسے دنیا یا آخرت میں رہنے کا اختیار دیا گیا جب آپ ﷺ اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو آپ کو ہچکی آنے لگی، میں نے سنا آپ ﷺ کہہ رہے تھے : مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے احسان کیا، انبیاء، صدیقین شہداء، اور صالحین میں سے تو اس وقت میں نے جان لیا کہ آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٨٤ (٤٤٣٥، ٤٤٣٦) ، تفسیر سورة النساء ١٣ (٤٥٨٦) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٧٦، ٢٠٥، ٢٦٩) (صحیح )

【189】

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی بیویاں اکٹھا ہوئیں اور ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہی، اتنے میں فاطمہ (رض) آئیں، ان کی چال رسول اللہ ﷺ کی چال کی طرح تھی، آپ ﷺ نے فرمایا : میری بیٹی ! خوش آمدید پھر انہیں اپنے بائیں طرف بٹھایا، اور چپکے سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں، پھر چپکے سے آپ ﷺ نے کوئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں، عائشہ (رض) کہتی ہیں : میں نے ان سے پوچھا کہ تم کیوں روئیں ؟ تو انہوں نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کے راز کو فاش نہیں کرنا چاہتی، میں نے کہا : آج جیسی خوشی جو غم سے قریب تر ہو میں نے کبھی نہیں دیکھی، جب فاطمہ روئیں تو میں نے ان سے کہا : رسول اللہ ﷺ نے کوئی خاص بات تم سے فرمائی ہے، جو ہم سے نہیں کہی کہ تم رو رہی ہو، اور میں نے پوچھا : آخر آپ ﷺ نے کیا فرمایا ؟ انہوں نے یہی جواب دیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کا راز فاش کرنے والی نہیں، رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے بعد میں نے ان سے پھر پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا فرمایا تھا ؟ تو انہوں نے کہا کہ پہلے آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ جبرائیل مجھ سے ہر سال ایک بار قرآن کا دور کراتے تھے اب کی سال دو بار دور کرایا، تو میں سمجھتا ہوں کہ میری موت کا وقت قریب آگیا ہے، اور تم میرے رشتہ داروں میں سب سے پہلے مجھ سے ملو گی، اور میں تمہارے لیے کیا ہی اچھا پیش رو ہوں یہ سن کر میں روئی پھر آپ ﷺ نے آہستہ سے مجھ سے فرمایا : کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم مومنوں کی عورتوں کی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہوگی، یہ سن کر میں ہنسی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٦٢٣) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٥ (٢٤٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دوسری روایت میں یوں ہے کہ جب آپ نے فرمایا : میری وفات ہونے والی ہے تو میں روئی، آپ نے پھر فرمایا : تم سب سے پہلے مجھے ملو گی تو میں ہنسی۔

【190】

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے کسی پر مرض الموت کی تکلیف اتنی سخت نہیں دیکھی جتنی کہ رسول اللہ ﷺ پر دیکھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المرضی ٢ (٥٦٤٦) ، صحیح مسلم/البروالصلة ١٤ (٢٥٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٠٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزہد ٥٦ (٢٣٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ سکرات کی شدت اور موت کی سختی بری چیز نہیں ہے، بلکہ اس سے درجے بلند ہوتے ہیں۔

【191】

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو موت کے وقت دیکھا، آپ ﷺ کے پاس پانی کا ایک پیالہ تھا، آپ اپنا ہاتھ پیالہ میں داخل کرتے، اور پانی اپنے منہ پر ملتے، پھر فرماتے : اے اللہ ! موت کی سختیوں میں میری مدد فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٨ (٩٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٤، ٧٠، ٧٧، ١٥١) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن سرجس مستور ہیں )

【192】

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا آخری دیدار مجھے دوشنبہ کے دن ہوا، آپ نے (اپنے حجرہ کا) پردہ اٹھایا، میں نے آپ کا چہرہ مبارک دیکھا، تو گویا مصحف کا ایک ورق تھا، لوگ اس وقت ابوبکر (رض) کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، ابوبکر (رض) نے اپنی جگہ سے ہٹنے کا ارادہ کیا، لیکن آپ ﷺ نے ان کو اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو، اور پردہ گرا دیا، پھر اسی دن کی شام کو آپ کا انتقال ہوگیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢١ (٤١٩) ، سنن الترمذی/الشمائل ٥٣ (٣٨٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٧ (١٨٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٠، ١٦٣، ١٩٦، ١٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ہرچند نماز میں التفات کرنا (یعنی ادھر ادھر دیکھنا) منع ہے، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرم ﷺ سے اس قدر محبت تھی کہ نماز کی حالت میں بےاختیاری کی وجہ سے آپ کے دیدار میں محو ہوگئے، دوسری روایت میں یوں ہے کہ قریب تھا کہ ہم فتنہ میں پڑجائیں، یعنی نماز بھول جائیں آپ کے دیدار کی خوشی میں، سبحان اللہ۔ ایمان صحابہ ہی کا ایمان تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں ایسے غرق تھے جیسے حدیث شریف میں وارد ہے کہ کوئی مومن نہیں ہوتا جب تک نبی کریم ﷺ کی محبت ماں باپ اور تمام اعزہ و اقارب سے زیادہ نہ ہو، افسوس اس زمانہ میں ایسے کامل الایمان لوگ کہاں ہیں ؟ اب تو دنیا کے حقیر فائدہ کے لئے اور ادنی ادنی امیروں اور نوابوں کو خوش کرنے کے لئے سنت نبوی سے اعراض اور تغافل کرتے ہیں۔

【193】

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری کا بیان

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اس مرض میں کہ جس میں آپ کا انتقال ہوگیا، فرما رہے تھے : الصلاة وما ملکت أيمانکم نمسش کا، اور لونڈیوں اور غلاموں کا خیال رکھنا آپ برابر یہی جملہ کہتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی زبان مبارک رکنے لگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٤، ومصباح الزجاجة : ٥٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٠، ٣١١، ٣١٥، ٣٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کو نماز کا بڑا خیال تھا کیونکہ نماز توحید باری تعالیٰ کے بعد اسلام کا سب سے اہم اور بنیادی رکن ہے، اسی لئے وفات کے وقت بھی آپ نے اس کے لئے وصیت فرمائی، مطلب یہ تھا کہ نماز کی محافظت کرو، وقت پر پڑھو، شرائط اور ارکان کے ساتھ ادا کرو، دوسرا اہم مسئلہ لونڈی اور غلام کا تھا، آپ کی وصیت کا مقصد یہ تھا کہ لوگ لونڈیوں اور غلاموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں اور ان پر ظلم نہ کریں۔ جو لوگ غلامی کی وجہ سے اسلام پر تنقید کرتے ہیں ان کو یہ خبر نہیں ہوئی کہ درحقیقت غلامی کیا ہے گویا فرزندی میں لینا ہے اور اپنی اولاد کی طرح ایک بےوارث شخص کی پرورش کرنا ہے، اس میں عقلاً کون سی قباحت ہے ؟ بلکہ قیدیوں کے گزارے کے لئے اس سے بہتر دوسری کوئی صورت عقل ہی میں نہیں آتی، البتہ اس زمانہ میں بعض جاہل لوگ لونڈیوں اور غلاموں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کرتے تھے تو یہ بری بات ہے، مگر دین اسلام پر یہ تنقید صحیح نہیں ہے کیونکہ اسلام نے تو ایسے برتاؤ سے منع کیا ہے، اور ان کے ساتھ بار بار نیک سلوک کرنے کی وصیت کی ہے یہاں تک نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک اسی پر بےقابو ہوگئی، اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ﷺ ۔

【194】

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری کا بیان

اسود کہتے ہیں کہ لوگوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے بیان کیا کہ علی (رض) رسول اللہ ﷺ کے وصی تھے، تو عائشہ (رض) نے کہا : آپ نے ان کو کب وصیت کی ؟ میں تو آپ کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھی، یا گود میں لیے ہوئے تھی، آپ ﷺ نے طشت منگوایا، پھر آپ میری گود میں لڑھک گئے، اور وفات پا گئے، مجھے محسوس تک نہ ہوا، پھر آپ نے وصیت کب کی ؟۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١ (٢٧٤١) ، المغازي ٨٣ (٤٤٥٩) ، صحیح مسلم/الوصیة ٥ (١٦٣٦) ، سنن الترمذی/الشمائل ٥٣ (٣٨٦) ، سنن النسائی/الطہارة ٢٩ (٣٣) ، الوصایا ٢ (٣٦٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٢، ٣٢) (صحیح )

【195】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات اور تدفین کا تذکرہ

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو اس وقت ابوبکر (رض) اپنی بیوی کے ساتھ جو کہ خارجہ کی بیٹی تھیں عوالی مدینہ میں تھے، لوگ کہنے لگے کہ نبی اکرم ﷺ کا انتقال نہیں ہوا بلکہ وحی کے وقت جو حال آپ کا ہوا کرتا تھا ویسے ہی ہوگیا ہے، آخر ابوبکر (رض) آئے، آپ کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا، اور کہا : آپ اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ معزز و محترم ہیں کہ آپ کو دو بار موت دے ١ ؎، قسم اللہ کی ! رسول اللہ ﷺ وفات پاچکے ہیں، اس وقت عمر (رض) مسجد کے ایک گوشہ میں یہ کہہ رہے تھے کہ اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ مرے نہیں ہیں، اور نہ آپ مریں گے، یہاں تک کہ بہت سے منافقوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹیں گے، آخر ابوبکر (رض) کھڑے ہوئے، منبر پر چڑھے اور کہا : جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے، مرا نہیں، اور جو کوئی محمد کی عبادت کرتا تھا تو محمد وفات پا گئے، (پھر یہ آیت پڑھی) : وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابکم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاکرين (سورة آل عمران : 144) محمد صرف ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول آئے، اگر آپ کا انتقال ہوجائے یا قتل کر دئیے جائیں، تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے، اور جو پھر جائے گا وہ اللہ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائے گا، اور اللہ شکر کرنے والوں کو بدلہ دے گا ۔ عمر (رض) نے کہا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس دن سے پہلے کبھی اس آیت کو میں نے پڑھا ہی نہیں تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣ (١٢٤١) ، المغازي ٨٣ (٤٤٥٢) ، سنن النسائی/الجنائز ١١ (١٨٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١١٧) (صحیح) (البانی صاحب کہتے ہیں کہ وحی کے جملہ کے علاوہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہ کہہ کر ابوبکر (رض) نے ان لوگوں کا رد کیا جو کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ پھر دنیا میں لوٹ کر آئیں گے، اور منافقوں کے ہاتھ پیر کاٹیں گے کیونکہ اگر ایسا ہو تو اس کے بعد پھر وفات ہوگی، اس طرح دو موتیں جمع ہوجائیں گی۔ اور بعض لوگوں نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اب آپ ﷺ کو کوئی تکلیف نہ ہوگی، ایک دنیا کی موت تھی جو ہر بشر کو لازم تھی وہ آپ کو بھی ہوئی نیز اس کے بعد پھر آپ کو راحت ہی راحت ہے۔ اور بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ آپ کا نام اور آپ کا دین ہمیشہ قائم رہے گا، کبھی ختم ہونے والا نہیں، حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میت کا بوسہ لینا جائز ہے، اور میت کو موت کے بعد ایک چادر سے ڈھانپ دینا چاہیے تاکہ لوگ اس کی صورت دیکھ کر گھبرائیں نہیں۔

【196】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات اور تدفین کا تذکرہ

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کے لیے قبر کھودنے کا ارادہ کیا، تو ابوعبیدہ بن جراح (رض) کو بلوا بھیجا، وہ مکہ والوں کی طرح صندوقی قبر کھودتے تھے، ابوطلحہ (رض) کو بھی بلوا بھیجا، وہ مدینہ والوں کی طرح بغلی قبر کھودتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دونوں کے پاس قاصد بھیج دئیے، اور دعا کی کہ اے اللہ ! تو اپنے رسول کے لیے بہتر اختیار فرما، بالآخر ابوطلحہ (رض) ملے، اور ان کو لایا گیا، ابوعبیدہ بن جراح (رض) نہیں ملے، لہٰذا نبی اکرم ﷺ کے لیے بغلی قبر کھودی گئی، عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب لوگ منگل کے دن آپ کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہوگئے، تو آپ اپنے گھر میں تخت پر رکھے گئے، اور لوگوں نے جماعت در جماعت اندر آنا شروع کیا، لوگ نماز جنازہ پڑھتے جاتے تھے، جب سب مرد فارغ ہوگئے، تو عورتیں جانے لگیں جب عورتیں بھی فارغ ہوگئیں، تو بچے جانے لگے، اور آپ کے جنازے کی کسی نے امامت نہیں کی۔ پھر لوگوں نے اختلاف کیا کہ آپ کی قبر کہاں کھودی جائے، بعض نے کہا کہ آپ کو مسجد میں دفن کیا جائے، بعض نے کہا کہ آپ کو آپ کے ساتھیوں کے پاس مقبرہ بقیع میں دفن کیا جائے، ابوبکر (رض) نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جس نبی کا بھی انتقال ہوا اسے وہیں دفن کیا گیا جہاں پہ اس کا انتقال ہوا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ حدیث سن کر آپ ﷺ کا بستر اٹھایا جس پر آپ کا انتقال ہوا تھا، لوگوں نے آپ کے لیے قبر کھودی، پھر آپ کو بدھ کی آدھی رات میں دفن کیا گیا، آپ کی قبر میں علی بن ابی طالب، فضل بن عباس، ان کے بھائی قثم بن عباس، اور رسول اللہ ﷺ کے غلام شقران رضی اللہ عنہم اترے۔ ابولیلیٰ اوس بن خولہ (رض) نے علی بن ابی طالب (رض) سے کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم اور اپنی اس صحبت کی قسم دیتا ہوں جو ہم کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاصل ہے، (مجھ کو بھی قبر میں اترنے دیں) تو علی (رض) نے ان سے کہا : اتر جاؤ، اور شقران جو آپ کے غلام تھے، نے ایک چادر لی جس کو آپ اوڑھا کرتے تھے، اسے بھی آپ کے ساتھ قبر میں دفن کردیا اور کہا : قسم اللہ کی ! اس چادر کو آپ کے بعد کوئی نہ اوڑھے، چناچہ اسے بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دفن کردیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٠٢٢، ومصباح الزجاجة : ٥٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨، ٢٦٠، ٢٩٢) (ضعیف) (سند میں حسین بن عبد اللہ متروک ہے، لیکن شقاق اور لاحد کا قصہ ثابت ہے، اور ایسے ہی مَا قُبِضَ نَبِيٌّ إِلا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ کا لفظ ثابت ہے، نیز ملاحظہ ہو : احکام الجنائز : ١٣٧ - ١٣٨ )

【197】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات اور تدفین کا تذکرہ

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے موت کی سختی محسوس کی تو فاطمہ (رض) کہنے لگیں : ہائے میرے والد کی سخت تکلیف ١ ؎، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آج کے بعد تیرے والد پر کبھی سختی نہ ہوگی، اور تیرے والد پر وہ وقت آیا ہے جو سب پر آنے والا ہے، اب قیامت کے دن ملاقات ہوگی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٠، ومصباح الزجاجة : ٥٩٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المغازي ٨٣ (٤٤٤٨) ، مسند احمد (٣/١٤١) (حسن صحیح) (سند میں عبد اللہ بن الزبیر مقبول ہیں، اور مسند احمد میں مبارک بن فضالہ نے ان کی متابعت کی ہے، اصل حدیث صحیح البخاری میں ہے، صحیح البخاری میں :إِنَّهُ قَدْ حَضَرَ کا جملہ نہیں ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٧٣٨ ) وضاحت : ١ ؎: فاطمہ (رض) کے یہ الفاظ نوحہ میں داخل نہیں ہیں کیونکہ یہ الفاظ اس وقت کے ہیں جب آپ ابھی زندہ تھے، اور جان کنی کے عالم میں تھے جیسا کہ اس سے پہلے کی روایت سے ظاہر ہے، اور بعض لوگوں نے کہا کہ میت میں جو خوبیاں فی الواقع موجود رہی ہوں ان کو بیان کرنا نوحہ نہیں ہے، بلکہ نوحہ میت میں ایسی خوبیاں ذکر کرنے کا نام ہے جو اس میں نہ رہی ہوں۔ ٢ ؎: حالانکہ ملاقات مرنے کے بعد ہی عالم برزخ میں ہوجاتی ہے جیسا کہ دوسری حدیثوں سے ثابت ہے، پھر اس کا کیا مطلب ہوگا ؟ یہاں یہ اشکال ہوتا ہے، اور ممکن ہے کہ ملاقات سے دنیا کی طرح ہر وقت کی یکجائی اور سکونت مراد ہو اور یہ قیامت کے بعد ہی جنت میں ہوگی جیسے دوسری روایت میں ہے کہ ایک بار نبی کریم ﷺ فاطمہ (رض) کے مکان میں تشریف لے گئے، علی (رض) کو سوتا پایا، ارشاد ہوا کہ یہ سونے والا، اور میں اور تو جنت میں ایک مکان میں ہوں گے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علی (رض) کا درجہ آخرت میں بہت بلند ہوگا کیونکہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک مکان میں رہیں گے، اور ظاہر ہے نبی کریم ﷺ کا مقام جنت الفردوس میں سب سے بلند ہوگا، واللہ اعلم۔

【198】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات اور تدفین کا تذکرہ

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے فاطمہ (رض) نے کہا : اے انس ! تمہارے دل کو کیسے گوارا ہوا کہ تم رسول اللہ ﷺ پر مٹی ڈالو ؟

【199】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات اور تدفین کا تذکرہ

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جس دن رسول اللہ ﷺ مدینہ میں داخل ہوئے اس دن مدینہ کی ہر چیز روشن ہوگئی، اور جس وقت آپ کا انتقال ہوا ہر چیز پر اندھیرا چھا گیا، اور ہم لوگوں نے ابھی آپ کے کفن دفن سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑا تھا کہ ہم نے اپنے دلوں کو بدلہ ہوا پایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ١ (٣٦١٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٨) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/المقدمة ١٤ (٨٩) (صحیح ) انس (رض) نے کہا : جب نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی، تو فاطمہ (رض) نے کہا : ہائے میرے والد، میں جبرائیل کو ان کے مرنے کی خبر دیتی ہوں، ہائے میرے والد، اپنے رب کے کتنے نزدیک ہوگئے، ہائے میرے والد، جنت الفردوس میں ان کا ٹھکانہ ہے، ہائے میرے والد، اپنے رب کا بلانا قبول کیا۔ حماد نے کہا : میں نے ثابت کو دیکھا کہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد روئے یہاں تک کہ ان کی پسلیاں اوپر نیچے ہونے لگیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٨٣ (٤٤٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٢) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/المقدمة ١٤ (٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد ا ٓ پ کی صاحبزادی فاطمہ (رض) کا انتقال ا ٓ پ کی پیش گوئی کے مطابق ہوگیا، اور چہیتی بیٹی اپنے باپ سے جا ملیں، اب کوئی یہ نہ سمجھے کہ فاطمہ (رض) نے جو یہ کلمات سخت رنج کی حالت میں فرمائے یہ نیاحت میں داخل ہیں جب کہ وہ منع ہے واضح رہے کہ نیاحت وہ ہے جو چلا کر بلند ا ٓ واز سے ہو، نہ وہ جو ا ٓ ہستہ سے کہا جائے، اور اگر یہ نیاحت ہوتی تو فاطمہ (رض) اسے ہرگز نہ کرتیں۔

【200】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات اور تدفین کا تذکرہ

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اپنی عورتوں سے باتیں کرنے اور ان سے بہت زیادہ بےتکلف ہونے سے پرہیز کرتے تھے کہ ہمارے سلسلے میں کہیں قرآن نہ اتر جائے، جب رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوا تو ہم باتیں کرنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٨٠ (٥١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٧١٥٦) (صحیح )

【201】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات اور تدفین کا تذکرہ

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، تو ہم سب ایک رخ تھے، لیکن جب آپ کا انتقال ہوگیا تو پھر ہم ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١، ومصباح الزجاجة : ٥٩٣) (ضعیف) (اس کی سند میں حسن بصری مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، نیز اس سند میں حسن بصری اور ابی بن کعب (رض) کے درمیان انقطاع ہے )

【202】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات اور تدفین کا تذکرہ

ام المؤمنین ام سلمہ بنت ابی امیہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں لوگوں کا حال یہ تھا کہ جب مصلی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا تو اس کی نگاہ اس کے قدموں کی جگہ سے آگے نہ بڑھتی، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی، تو لوگوں کا حال یہ ہوا کہ جب کوئی ان میں سے نماز پڑھتا تو اس کی نگاہ پیشانی رکھنے کے مقام سے آگے نہ بڑھتی، پھر ابوبکر (رض) کی وفات کے بعد عمر (رض) کا زمانہ آیا تو لوگوں کا حال یہ تھا کہ ان میں سے کوئی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا تو اس کی نگاہ قبلہ کے سوا کسی اور طرف نہ جاتی تھی، پھر عثمان (رض) کا زمانہ آیا اور مسلمانوں میں فتنہ برپا ہوا تو لوگوں نے دائیں بائیں مڑنا شروع کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٢١٣، ومصباح الزجاجة : ٥٩٤) (ضعیف) (اس کی سند میں موسیٰ بن عبداللہ مجہول ہیں )

【203】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات اور تدفین کا تذکرہ

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد عمر (رض) سے کہا : چلئے، ہم ام ایمن (بر کہ) (رض) سے ملنے چلیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ ان سے ملنے جایا کرتے تھے، انس (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم ام ایمن (رض) کے پاس پہنچے، تو وہ رونے لگیں، ان دونوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں رو رہی ہیں ؟ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسول کے لیے بہتر ہے، انہوں نے کہا : میں جانتی ہوں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے اس کے رسول کے لیے بہتر ہے، لیکن میں اس لیے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی کا سلسلہ بند ہوگیا، انس (رض) نے کہا : تو ام ایمن (رض) نے ان دونوں کو بھی رلا دیا، وہ دونوں بھی ان کے ساتھ رونے لگے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٠٢، ومصباح الزجاجة : ٥٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ابوبکر (رض) نے اپنی خلافت میں نبی کریم ﷺ کے طرز عمل سے ذرہ برابر بھی انحراف کرنا گوارا نہ کیا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ جن لوگوں سے ملنے جاتے ابوبکر (رض) بھی ان سے ملنے گئے، پس ابوبکر (رض) کی خلافت گویا زمانہ نبوت کی تصویر تھی اور یہی وجہ تھی کہ ابوبکر (رض) نے فدک اور بنو نضیر وغیرہ سے حاصل مال کو فاطمہ (رض) کی طلب پر ان کے حوالہ نہیں کیا بلکہ جس طرح نبی کریم ﷺ ان اموال کو خرچ کرتے تھے اسی طرح خرچ کرتے رہے، اور ذرہ برابر آپ ﷺ کے طریق کار کو بدلنا گوارا نہ کیا، اصل بات یہ ہے، نہ وہ کہ ابوبکر (رض) نے معاذ اللہ طمع و لالچ سے ایسا کیا، اور فاطمہ (رض) کو تکلیف پہنچائی، یہ سب لغو اور بیہودہ الزام ہے، ابوبکر (رض) دنیا کی ایک بڑی حکومت کے سربراہ تھے، خود انہوں نے نبی کریم ﷺ پر اپنا سارا مال نچھاور کردیا، اور آپ کی محبت میں جان کو خطرے میں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا، کیا ایسے شخص کے بارے میں یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ کھجور کے چند درختوں کو ناحق لے لے گا اور نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی کو ناراض کرے گا ؟

【204】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات اور تدفین کا تذکرہ

اوس بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا ہوئے، اسی دن صور پھونکا جائے گا، اور اسی دن لوگ بیہوش ہوں گے، لہٰذا اس دن کثرت سے میرے اوپر درود (صلاۃ وسلام) بھیجا کرو، اس لیے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، تو ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا ؟ جب کہ آپ بوسیدہ ہوچکے ہوں گے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کا جسم کھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٧ (١٠٤٧) ، ٣٦١ (١٥٣١) ، سنن النسائی/الجمعة ٥ (١٣٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٦ (١٦١٣) (صحیح )

【205】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات اور تدفین کا تذکرہ

ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ جمعہ کے دن میرے اوپر کثرت سے درود بھیجو، اس لیے کہ جمعہ کے دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور جو کوئی مجھ پر درود بھیجے گا اس کا درود مجھ پر اس کے فارغ ہوتے ہی پیش کیا جائے گا میں نے عرض کیا : کیا مرنے کے بعد بھی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، مرنے کے بعد بھی، بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کا جسم کھائے، اللہ کے نبی زندہ ہیں ان کو روزی ملتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٤٧، ومصباح الزجاجة : ٥٩٦) (حسن) (سند میں زید بن ایمن اور عبادہ کے درمیان نیز عبادہ اور ابو الدرداء (رض) کے درمیان انقطاع ہے، لیکن اکثر متن حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١ / ٣٥، تراجع الألبانی : رقم : ٥٦٠ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جنت کے کھانے ان کو کھلائے جاتے ہیں جو روحانی ہیں، یہاں زندگی سے دنیوی زندگی مراد نہیں ہے۔ اس لئے کہ دنیاوی زندگی قبر کے اندر قائم نہیں رہ سکتی، یہ برزخی زندگی ہے جس میں اور دنیاوی زندگی میں فرق ہے، مگر ہر حال میں نبی کریم ﷺ اپنی قبر شریف کے پاس درود وسلام سنتے ہیں، بلکہ یہ برزخی زندگی بہت باتوں میں دنیاوی زندگی سے زیادہ قوی اور بہتر ہے، صلے اللہ علیہ وسلم وآلہ و اصحابہ و بارک وسلم تسلیما کثیراً