1. ایمان کا بیان

【1】

ایمان کے ابواب

ایمان کا مطلب ایمان کے معنی ہیں، یقین کرنا، تصدیق کرنا، مان لینا۔ اصطلاح شریعت میں ایمان کا مطلب ہوتا ہے، اس حقیقت کو تسلیم کرنا اور ماننا کہ اللہ ایک ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود اور پروردگار نہیں، اس کے تمام ذاتی و صفاتی کمالات برحق ہیں۔ محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں، ان کی ذات صادق و مصدوق ہے اور یہ کہ آپ ﷺ کتاب و سنت کی صورت میں اللہ کا جو آخری دین و شریعت لے کر اس دنیا میں آئے اس کی حقانیت و صداقت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ تکمیل ایمان محدثین کے نزدیک ایمان کے تین اجزاء ہیں تصدیق بالقب یعنی اللہ کی وحدانیت، رسول ﷺ کی رسالت اور دین کی حقانیت پر دل سے یقین رکھنا اور اس یقین و اعتماد پر دل و دماغ کا مطمئن رہنا۔ اقرار باللسان یعنی اس دلی یقین و اعتقاد کا زبان سے اظہار، اعتراف اور اقرار کرنا۔ اعمال بالجوارح یعنی دین و شریعت کے احکام و ہدایات کی جسمانی بجا آوری کے ذریعہ اس دلی یقین و اعتقاد کا عملی مظاہرہ کرنا۔ ان تینوں اجزاء سے مل کر ایمان کی تکمیل ہوتی ہے اور جو آدمی اس ایمان کا حامل ہوتا ہے اس کو مومن و مسلمان کہا جاتا ہے۔ ایمان اور اسلام کیا ایمان اور اسلام میں کوئی فرق ہے یا یہ دونوں لفظ ایک ہی مفہوم کو ادا کرتے ہیں ؟ اس سوال کا تفصیلی جواب، تفصیلی بحث کا متقاضی ہے جس کا یہاں موقع نہیں ہے۔ خلاصہ کے طور پر اتنا بتادینا کافی ہے کہ ظاہری مفہوم و مصداق کے اعتبار سے تو یہ دونوں لفظ تقریباً ایک ہی مفہوم کے لئے استعمال ہوتے ہیں لیکن اس اعتبار سے ان دونوں کے درمیان فرق ہے کہ ایمان سے عام طور پر تصدیق قلبی اور احوال باطنی مراد ہوتے ہیں جب کہ اسلام سے اکثر وبیشتر ظاہری اطاعت و فرمانبرداری مراد لی جاتی ہے اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ وحدانیت، رسالت اور شریعت کو ماننے اور تسلیم کرنے کا جو باطنی تعلق دل و دماغ سے قائم ہوتا ہے اس کو ایمان سے تعبیر کرتے ہیں اور اس باطنی تعلق کا جو اظہار عمل جوارح کے ذریعہ ظاہری احوال سے ہوتا ہے اس کو اسلام سے تعبیر کرتے ہیں، ایک محقق کا قول ہے تصدیق قلبی جب پھوٹ کر جوارح اعضاء پر نمودار ہوجائے تو اس کا نام اسلام ہے اور اسلام جب دل میں اتر جائے تو ایمان کے نام موسوم ہوجاتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ حقیقت ایک ہے مواطن کے اعتبار سے اس کو کبھی ایمان کہا جاتا ہے اور کبھی اسلام اسی لئے ایمان اور اسلام ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں، نہ تو ایمان کے بغیر اسلام معتبر ہوگا اور نہ اسلام کے بغیر ایمان کی تکمیل ہوگی۔ مثلاً کوئی آدمی پانچوں وقت کی نماز بھی پڑھے، ہر سال زکوٰۃ بھی ادا کرے، استطاعت ہو تو حج بھی کر ڈالے اور اسی طرح دوسرے نیک کام کر کے اپنی ظاہری زندگی کو اسلام کا مظہر بنائے ہوئے ہو مگر اس کا باطن قلبی تصدیق وانقیاد سے بالکل خالی ہو اور کفر و انکار سے بھرا ہوا ہو تو اس کے یہ سارے اعمال بیکار محض قرار پائیں گے اسی طرح اگر کوئی آدمی ایمان یعنی قلبی تصدیق وانقیاد تو رکھتا ہے مگر عملی زندگی میں اسلام کا مظہر ہونے کے بجائے سرکشی و نافرمانی کا پیکر اور کافرانہ و مشرکانہ اعمال کا مجسمہ بنا ہوا ہے تو اس کا ایمان فائدہ مند نہیں ہوگا۔ بعض اہل نظر نے ایمان اور اسلام کی مثال شہادتین سے دی ہے یعنی جیسے کلمہ شہادت میں دیکھا جائے تو شہادت وحدانیت الگ ہے اور شہادت رسالت الگ ہے۔ لیکن ان دونوں کا ارتباط و اتحاد اس درجہ کا ہے کہ شہادت رسالت کے بغیر شہادت وحدانیت کار آمد نہیں اور شہادت وحدانیت کے بغیر شہادت رسالت کا اعتبار نہیں۔ ٹھیک اسی طرح ایمان اور اسلام کے درمیان دیکھا جائے تو بعض اعتبار سے فرق محسوس ہوتا ہے لیکن ان دونوں کا ارتباط و اتحاد اس درجہ کا ہے کہ اعتقاد باطنی (یعنی ایمان) کے بغیر صرف اعمال ظاہرہ (اسلام) کھلا ہوا نفاق ہیں اور اعمال ظاہرہ کے بغیر اعتقاد باطن کفر کی ایک صورت ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ایمان اور اسلام دونوں کے مجموعہ کا نام دین ہے۔ ایمان کا مدار جاننے پر نہیں ماننے پر ہے ایمان کے بارے میں اس اہم حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ تصدیق یعنی ماننے کا نام ایمان ہے نہ کہ محض علم یا معرفت یعنی جاننے کا۔ مطلب یہ کہ ایک آدمی جانتا ہے کہ اللہ ہے اور اکیلا ہے وہی پروردگار اور معبود ہے، محمد ﷺ اللہ کے سچے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ ﷺ نے جس دین و شریعت اور تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، وہ مبنی برحقیقت و صداقت ہے۔ مگر وہ آدمی دل سے ان باتوں کو نہیں مانتا، ان پر اعتقاد نہیں رکھتا، اس کا قلب ان باتوں کے اذعان و قبول سے خالی ہے تو اس آدمی میں ایمان کا وجود نہیں مانا جائے گا اس کو مومن نہیں کہا جائے گا۔ مومن تو وہی آدمی ہوسکتا ہے جو ان باتوں کو سچ اور حق بھی جانے اور دل سے مانے اور تسلیم بھی کرے۔ جب داعی حق ﷺ نے اسلام کی دعوت پیش کی تو تمام اہل عرب بالخصوص اہل کتاب (یہود و نصاری) الوہیت کے بھی قائل تھے اور یہ بات بھی خوب جانتے تھے کہ محمد ﷺ اللہ کے سچے اور آخری رسول ہیں اور جو دین و شریعت پیش کر رہے ہیں وہ حق اور سچ ہے۔ مگر ان میں سے جو لوگ حسد وعناد رکھنے کے سبب ان حقائق کو مانتے اور تسلیم نہیں کرتے تھے ان کے دل و دماغ میں ایمان کا نور داخل نہیں ہوسکا اور وہ کافر کے کافر ہی رہے، ان حقائق کا جاننا ان کے کسی کام نہ آیا۔ بعض صورتوں میں اقرار باللسان کی قید ضروری ہے جن حقائق کو ایمان سے تعبیر کیا جاتا ہے ان کا زبان سے اقرار کرنا گو وجود ایمان کے لئے ضروری ہے لیکن بعض حالتوں میں یہ زبانی اقرار (اقرار باللسان) ضروری نہیں رہتا۔ مثلاً اگر کوئی آدمی گونگا ہے اور اس کے قلب میں تصدیق تو موجود ہے لیکن زبان سے کوئی لفظ ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو ایسے آدمی کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اس کا ایمان زبانی اقرار کے بغیر بھی معتبر مانا جائے گا، اسی طرح کوئی آدمی جانی خوف یا کسی واقعی مجبوری کی بنا پر زبان سے اپنے ایمان کا اقرار نہیں کرسکتا تو اس کا ایمان بھی زبانی اقرار کے بغیر معتبر ہوگا۔ اعمال کی حیثیت وجود ایمان کی تکمیل کے لئے اعمال بھی لازمی شرط ہیں کیونکہ تصدیق قلب اور زبانی اقرار کی واقعیت و صداقت کا ثبوت اعمال ہی ہیں۔ یہی عملی ثبوت ظاہری زندگی میں اس فیصلہ کی بنیاد بنتا ہے کہ اس کو مومن و مسلمان کہا جائے اسی بنا پر یہ حکم ہے کہ اگر کوئی آدمی دعوائے ایمان و اسلام کے باوجود ایسے اعمال کرتا ہے جو خالصتاً کفر کی علامت اور ایمان و اسلام کے منافی ہیں، یا جن کو اختیار کرنے والے پر کافر ہونے کا یقین ہوتا ہے تو وہ آدمی کافر ہی شمار ہوگا اس کے اور ایمان و اسلام کا دعوی غیر معتبر مانا جائے گا۔

【2】

ایمان کا بیان

حضرت عمر بن الخطاب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن (ہم صحابہ) رسول اللہ ﷺ کی مجلس مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی ہمارے درمیان آیا جس کا لباس نہایت صاف ستھرے اور سفید کپڑوں پر مشتمل تھا اور جس کے بال نہایت سیاہ (چمکدار) تھے، اس آدمی پر نہ تو سفر کی کوئی علامت تھی (کہ اس کو کہیں سے سفر کر کے آیا ہوا کوئی اجنبی آدمی سمجھا جاتا) اور نہ ہم میں سے کوئی اس کو پہچانتا تھا (جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ کوئی مقامی آدمی ہو یا کسی کا مہمان بھی نہیں تھا) بہر حال وہ آدمی رسول اللہ ﷺ کے اتنے قریب آکر بیٹھا کہ آپ ﷺ کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا لئے اور پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھ لئے (جیسے ایک سعادت مند شاگرد اپنے جلیل القدر استاد کے سامنے باادب بیٹھتا ہے اور استاد کی باتیں سننے کے لئے ہمہ تن متوجہ ہوجاتا ہے) اس کے بعد اس نے عرض کیا اے محمد ﷺ ! مجھ کو اسلام کی حققیت سے آگاہ فرمائیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم اس حقیقت کا اعتراف کرو اور گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور پھر تم پابندی سے نماز پڑھو (اگر صاحب نصاب ہو تو) زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور زاد راہ میسر ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔ اس آدمی نے یہ سن کر کہا آپ ﷺ نے سچ فرمایا۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اس (تضاد) پر ہمیں تعجب ہوا کہ یہ آدمی (ایک لاعلم آدمی کی طرح پہلے تو) آپ ﷺ سے دریافت کرتا ہے اور پھر آپ ﷺ کے جواب کی تصدیق بھی کرتا ہے (جیسے اس کو ان باتوں کا پہلے سے علم ہو) پھر وہ آدمی بولا اے محمد ﷺ ! اب ایمان کی حقیقت بیان فرمائیے، آپ ﷺ نے فرمایا (ایمان یہ ہے کہ) تم اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو، اس کے رسولوں کو اور قیامت کے دن کو دل سے مانو اور اس بات پر یقین رکھو کہ برا بھلا جو کچھ پیش آتا ہے وہ نوشتہ تقدیر کے مطابق ہے۔ اس آدمی نے (یہ سن کر) کہا آپ ﷺ نے سچ فرمایا۔ پھر بولا اچھا اب مجھے یہ بتائیے کہ احسان کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر ایسا ممکن نہ ہو (یعنی اتنا حضور قلب میسر نہ ہو سکے) تو پھر (یہ دھیان میں رکھو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ پھر اس آدمی نے عرض کیا قیامت کے بارے میں مجھے بتائیے (کہ کب آئے گی) آپ ﷺ نے فرمایا اس بارے میں جواب دینے والا، سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا (یعنی قیامت کے متعلق کہ کب آئے گی، میرا علم تم سے زیادہ نہیں جتنا تم جانتے ہو اتنا ہی مجھ کو معلوم ہے) اس کے بعد اس آدمی نے کہا اچھا اس (قیامت) کی کچھ نشانیاں ہی مجھے بتادیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا لونڈی اپنے آقا کو مالک کو جنے گی اور برہنہ پا، برہنہ جسم مفلس و فقیر اور بکریاں چرانے والوں کو تم عالی شان مکانات و عمارت میں فخر و غرور کی زندگی بسر کرتے دیکھو گے۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ آدمی چلا گیا اور میں نے (اس کے بارے میں آپ سے فورًا دریافت نہیں کیا بلکہ) کچھ دیر توقف کیا، پھر آپ ﷺ نے خود ہی مجھ سے پوچھا عمر ! جانتے ہو سوالات کرنے والا آدمی کون تھا ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا یہ جبرائیل تھے جو (اس طریقہ سے) تم لوگوں کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ (صحیح مسلم) اس روایت کو حضرت ابوہریرہ (رض) نے چند الفاظ کے اختلاف و فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کی روایت کے آخری الفاظ یوں ہیں۔ (رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی نشانیوں کے بارے میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ) جب تم برہنہ پابرہنہ جسم اور بہرے گونگے لوگوں کو زمین پر حکمرانی کرتے دیکھو (تو سمجھ لینا کہ قیامت قریب ہے) اور قیامت تو ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں رکھتا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ) 31 ۔ لقمان 34) آخر تک پڑھی (جس کا ترجمہ یہ ہے اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور بارش کا کہ کب برسائے گا اور وہی (حاملہ) کے پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے ( کہ لڑکا ہے یا لڑکی) اور کوئی آدمی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور کسی آدمی کو نہیں معلوم کہ کس زمین پر اسے موت آئے گی۔ بیشک اللہ ہی جاننے والا اور خبردار ہے) ۔ (صحیح البخاری ومسلم) تشریح یہ حدیث حدیث جبرائیل کہلاتی ہے کیونکہ یہ حدیث اس سوال و جواب (انٹرویو) پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے بڑی خوبی کے ساتھ اسلام و ایمان کی حقیقت اور دین کی اساسی باتوں کا تعارفی خاکہ پیغمبر ﷺ کی زبان مبارک سے دنیا والوں کے سامنے پیش کرایا ہے۔ حدیث میں سب سے پہلے ایمان اور اسلام کی حقیقت بیان ہوئی ہے جس سے ایمان اور اسلام کے درمیان یہ فرق بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ ایمان کا تعلق تو باطن یعنی تصدیق و اعتقاد سے ہے اور اسلام کا تعلق ظاہر یعنی اعمال اور جسمانی اطاعت و فرمانبرداری سے ہے۔ اللہ کو ماننے کا مطلب اس بات پر یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ اس کی ذات اور اس کی صفات برحق ہیں، عبادت و پرستش کی سزاوار صرف اسی کی ذات ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی اس کا ہمسر و شریک نہیں۔ فرشتوں کو ماننے کا مطلب اس بات میں یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق فرشتوں کے نام سے موجود ہے یہ فرشتے لطیف اور نورانی اجسام ہیں۔ ان کا کام ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام کی تعمیل کرنا ہے۔ کتابوں کو ماننے کا مطلب اس بات پر یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں اور وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبروں پر جو کتابیں نازل فرمائی ہیں اور ان میں چار کتابیں نازل فرمائی ہیں اور جن کی تعداد ایک سو چار ہے۔ وہ سب کلام الٰہی اور احکام و فرامین الٰہی کا مجموعہ ہیں اور ان میں چار کتابیں تو رات، انجیل، زبور اور قرآن مجید سب سے اعلیٰ و افضل ہیں اور پھر ان چاروں میں سب سے اعلیٰ و افضل قرآن مجید ہے۔ رسولوں کا ماننے کا مطلب اس بات پر یقین اور اعتقاد رکھنا ہے کہ اول الانبیاء حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد مصطفے ﷺ تک تمام نبی اور رسول اللہ تعالیٰ کے سب سے سچے، سب سے پیارے اور سب سے افضل بندے ہیں جن کو اس نے اپنے احکام و ہدایات دے کر مختلف زمانوں، مختلف قوموں میں مبعوث کیا اور انہوں نے ان خدائی احکام و ہدایات کے تحت دنیا والوں کو ابدی صداقت و نجات کا راستہ دکھانے اور نیکی و بھلائی پھیلانے کا اپنا فریضہ مکمل طور پر ادا کیا اور یہ کہ ان تمام نبیوں اور رسولوں کے سردار پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفے ﷺ ہیں جو کسی خاص زمانہ، کسی خاص علاقہ اور کسی خاص قوم کی طرف مبعوث نہیں ہوئے، بلکہ اللہ کا ابدی دین اسلام لے کر تمام دنیا اور پوری کائنات کی طرف مبعوث ہوئے اور تا قیامت ان ہی کی نبوت اور انہی کی شریعت جاری و نافذ رہے گی۔ یوم آخرت یعنی قیامت کے دن سے مراد وہ عرصہ ہے جو مرنے کے بعد سے قیامت قائم ہونے اور پھر جنت میں داخل ہونے تک پر مشتمل ہے۔ قیامت کے دن کو ماننے کا مطلب اس بات پر یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ شریعت اور شارع نے مابعد الموت اور آخرت کے بارے میں جو کچھ بتایا ہے یعنی موت کے بعد پیش آنے والے احوال مثلاً قبر اور برزخ کے احوال، نفخ صور، قیامت، حشر و نشر، حساب و کتاب اور پھر جزاء و سزا کا فیصلہ اور جنت و دوزخ یہ سب اٹل حقائق ہیں اور جن کا وقوع پذیر ہونا اور پیش آنا لازمی امر ہے۔ اس میں کوئی شک اور شبہ نہیں۔ تقدیر پر یقین رکھنے کا مطلب اس حقیقت کو دل سے تسلیم کرنا ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب نوشتہ تقدیر کے مطابق اپنے اپنے وقت پر وقوع پذیر ہوتا ہے، آج جو بھی علم واضح ہوتا ہے خواہ وہ نیکی کا ہو یا بدی کا، خالق کائنات کے علم اور تقدیر میں وہ ازل سے موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بندہ مجبور و مضطر ہے۔ کاتب تقدیر نے انسان کو مختار بنایا ہے۔ یعنی اس کے سامنے نیکی و بدی کے دونوں راستے کھول کر اس کو اختیار دے دیا ہے کہ چاہے وہ نیکی کے راستہ پر چلے، چاہے بدی کے راستہ پر اور یہ بھی واضح کردیا ہے کہ نیکی کے راستہ پر چلو گے تو جزاء و انعام سے نوازے جاؤ گے جو اللہ کا فضل و کرم ہوگا اور اگر بدی کے راستہ پر چلو گے تو سزا اور عذاب کے حقدار بنو گے اور دوزخ میں ڈالے جاؤ گے جو عدل الٰہی کے عین مطابق ہوگا۔ احسان سے مراد وہ جو ہر (اخلاص) ہے جس سے ایمان و اسلام کی ظاہری صورت یعنی عبادت الٰہی کا صحیح معیار اور حسن قائم ہوتا ہے اور عبادت کا یہی صحیح معیار اور حسن درحقیقت بندے کو معبود کا کامل تقرب اور عبدیت کا حقیقی مقام عطا کرتا ہے۔ بندہ اپنی عبادتوں کو اس جو ہر سے کس طرح آراستہ و مزین کرسکتا ہے ؟ اس کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب تم اپنے پروردگار کی عبادت کرو تو اس طرح کرو جس طرح کوئی نوکر یا غلام اپنے آقا اور مالک کی خدمت اس کو اپنے سامنے دیکھ کر کرتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے کہ اگر شفیق آقا نظر کے سامنے ہو اور غلام اس کو دیکھ رہا ہو تو اس کے فرض کی انجام دہی کی کیفیت ہی دوسری ہوتی ہے اس وقت غلام نہ صرف یہ کہ پوری طرح چاق و چوبند مؤدب اور پابند ہوتا ہے بلکہ کام کرنے کا اس کا انداز بھی پوری طرح والہانہ اور مخلصانہ ہوتا ہے اس کے برخلاف اگر آقا نظر کے سامنے نہ ہو تو غلام اگرچہ موفوضہ خدمت انجام ضرور دیتا ہے مگر اس صورت میں نہ تو وہ اتنا چاق وچوبند، مؤدب اور پابند ہوتا ہے اور نہ اس کے کام کرنے کے انداز میں اس قدر والہانہ اور مخلصانہ کیفیت موجود ہوتی ہے۔ پس اسی نکتہ کے پیش نظر اگر بندہ عبادت کے وقت ایسی کیفیت و حالات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ تو خشوع و خضوع اور تضرع کی تمام تر کیفیات خودبخود اس کی عبادت میں پیدا ہوجائیں گی اور اس طرح اس کی عبادت حقیقی عبادت کا درجہ پائے گی اور اس عبادت کا بنیادی مقصد بھی حاصل ہوگا۔ عبادت کے اس مرتبہ کو حقیقی احسان کہا گیا ہے جس کو ارباب تصوف مشاہدہ اور استغراق سے تعبیر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عبادت کا یہ سب سے اونچا مرتبہ و مقام ہے جہاں تک رسائی اتنی آسان نہیں ہے اس لئے نسبتاً آسان طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب تم عبادت کرو تو یہ دھیان میں رکھو کہ جس ذات کی عبادت تم کر رہے ہو اس کے سامنے تم کھڑے ہو اور اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھ سکتے مگر وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ تمہاری ایک ایک بات پر اس کی نظر ہے اور تمہاری حرکات و سکنات میں سے کچھ بھی اس سے پوشیدہ نہیں، اس یقین و اعتقاد سے بھی تمہاری عبادت میں خشوع و خضوع اور تضرع بڑی حد تک پیدا ہوجائے گا اور عبادت کا حق ادا ہوگا۔ حدیث میں عبادت کی اسی کیفیت کو احسان سے تعبیر کیا گیا ہے جو حقیقی احسان یعنی مشاہدہ و استغراق کا ثانوی درجہ ہے۔ حدیث میں ان چاروں فرائض کا بھی ذکر ہے جو ہر مسلمان و مومن پر اس تفصیل کے ساتھ عائد ہوتے ہیں کہ نماز اور روزہ تو وہ دو بدنی فرض عبادتیں ہیں جن کا تعلق ہر عاقل و بالغ مسلمان سے ہے جو بھی آدمی ایمان اور اسلام سے متصف ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اس پر فرض ہے کہ وہ پانچوں وقت کی نمازیں پابندی کے ساتھ ادا کرے اور جب رمضان آئے تو اس مہینے کے پورے روزے رکھے۔ باقی دو فرض عبادتیں یعنی زکوٰۃ اور حج وہ مالی عبادتیں ہیں جن کا تعلق صرف اس مومن و مسلمان سے ہے جو ان کے بقدر مالی استطاعت و حیثیت رکھتا ہو۔ مثلاً زکوٰۃ اس مسلمان پر فرض ہوگی جو صاحب نصاب ہو۔ اور حج اس مسلمان پر فرض ہوگا جو صاحب نصاب ہی نہیں بلکہ اپنی تمام ضروریات زندگی سے فراغت کے بعد اتنا سرمایہ رکھتا ہو کہ وہ بغیر کسی تنگی و پریشانی کے آمدورفت اور سفر کے دوسرے تمام اخراجات برداشت کرسکتا ہو۔ علاوہ ازیں سفر حج کی پوری مدت کے لئے اہل و عیال اور لواحقین کے تمام ضروری اخراجات کے بقدر رقم یا سامان و اسباب ان کو دے کر جاسکتا ہو۔ زادراہ اور فرضیت حج کی اس طرح کی دوسری شرائط پوری ہوجائیں تو باقی دشواریاں جیسے سفر کا طویل اور پر صعوبت ہونا، درمیان میں سمندر یا دریا کا حائل ہونا وغیرہ، حج کی فرضیت کو ساقط نہیں کرسکتیں۔ قیامت کی کچھ اہم نشانیاں بتائی گئی ہیں کہ جب یہ آثار ظاہر ہونے لگیں اور یہ علامتیں دیکھ لی جائیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس عالم کے خاتمہ کا وقت قریب آگیا ہے اور یہ دنیا اپنے وجود کے آخری دور سے گزر رہی ہے۔ پہلی علامت یا نشانی تو یہ بتائی گئی ہے کہ لونڈی اپنے آقا یا مالک کو جنے گی اس کا ایک مطلب تو غلامی کے زمانہ اور رواج کے سیاق میں لیا جاسکتا ہے کہ لوگ کثرت سے باندیاں رکھیں گے اور ان باندیوں سے اولاد بھی بہت جنوائیں گے، پھر انہی اولاد میں سے جو لوگ بڑے ہو کر مال و جائیداد اور حکومت و طاقت کے مالک بنیں گے وہ لا علمی میں اپنی انہی ماؤں کو جنہوں نے ان کو جنم دیا ہوگا، باندیوں کے طور پر خریدیں گے۔ اور اپنی خدمت میں رکھیں گے۔ اس جملے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب معاشرے میں جنسی بےراہ روی عام ہوجائے، مرد و زن تمام اخلاقی اور انسانی پابندیوں کو توڑ کر بےمحابہ ناجائز تعلقات پیدا کریں اور اس کے نتیجہ میں ایسے ناجائز بچے کثرت سے پیدا ہونے لگیں جن کو نہ اپنے باپ کی خبر ہو اور نہ اپنی ماں کو جانتے ہوں اور پھر وہی بچے بڑے ہو کر لا علمی میں اپنی ماؤں کو ملازمہ اور نو کر انی بنائیں جنہوں نے ان کو جنا تھا تو سمجھو کہ قیامت قریب آگئی ہے۔ دوسری علامت برہنہ پا، برہنہ جسم، مفلس و فقیر اور بکریاں چرانے والوں کا ایوان حکومت اور عالیشان مکانات و محلات کا مالک ہونا بتایا گیا ہے۔ اس کے مطلب یہ ہے کہ جب تم دیکھو کہ شریف النسل، عالی خاندان اور مہذب و معزز لوگ انقلاب عالم کا شکار ہو کر غربت و افلاس اور بےروز گاری و پریشانی حالی کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں، اپنی حیثیت و وقعت کھو چکے ہیں اور معاشرتی و سماجی سطح پر کسی اثر و رسوخ کے حامل نہیں رہ گئے ہیں اور ان کے مقابلے میں وہ لوگ کہ جو کل تک حسب و نسب، شرافت و نجابت، نسل و خاندان اور تہذیب و شائستگی کے اعتبار سے نہایت بےحیثیت و بےوقعت تھے، تعلیمی و اخلاقی طور پر کم تر و پسماندہ سمجھے جاتے تھے۔ غیر منصفانہ سیاست و انقلاب کی بدولت حکومت و اقتدار کے مالک بن بیٹھیں۔ دغا و فریب کے ذریعہ مال و دولت اور بڑی بڑی جائیدادوں پر قابض اور عالی شان مکانات و محلات کے مکین ہوگئے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ طاقت و حکومت، مال و دولت اور پر عیش زندگی نے ان کو گھمنڈی شیخی خور بنادیا ہے، حقیقی شرافت و نجابت رکھنے والے غریب و مفلس لوگوں کا وہ مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کو ذلیل کرتے ہیں اور ان کی تباہی و رسوائی کے بد سے بدتر حالات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو سمجھنا کہ اب اس دنیا کے خاتمہ کا وقت قریب آگیا ہے۔ اسی تفصیل کو علامہ طیبی نے چند جملوں میں اس طرح بیان کیا ہے کہ قیامت کی علامتیں بتانے والے حدیث کے یہ دونوں جملے دراصل انقلاب حالات سے کنایہ ہیں یعنی جب اتنا انقلاب رونما ہوجائے کہ اپنی اولاد اپنا آقا اور حاکم بن جائے۔ اور شرفاء کی جگہ کمتر و ذلیل لے لیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب تمام عالم پر ایک عظیم انقلاب کا وقت قریب آگیا ہے جسے قیامت کہا جاتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس حدیث میں شریعت محمدی ﷺ کی اساس اور دین کی بنیادی باتوں کو بتایا گیا ہے یعنی ایمان کی تعریف بیان کی گئی ہے کہ یہ ان عقائد و نظریات سے تعبیر ہے جن کو جاننے اور ماننے کے بعد کوئی آدمی دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور مومن بنتا ہے اسلام کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس سے وہ عملی ذمہ داریاں (فرائض) مراد ہیں جو مومن پر عائد ہوتی ہیں اور ان عملی ذمہ داریوں یعنی فرائض کی انجام دہی ہی پیرو اسلام یعنی مسلمان بناتی ہے اس کے بعد احسان کی وضاحت کی گئی جس کو اخلاص سے (یا تصوف سے بھی) تعبیر کیا جاسکتا ہے یہ اس کیفیت کا نام ہے۔ جو صحیح عقائد و نظریات سے وابستگی اور شریعت کی اتباع و فرمانبرداری کے بعد توجہ الی اللہ کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے۔ اور بندے کو اپنے معبود کا تقرب عطا کرتی ہے۔ درحقیقت یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں، اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی خوشنودی اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک اللہ اور اللہ کے رسول کے جاری و نافذ کئے ہوئے احکام و ہدایات پر پوری طرح عمل نہ کیا جائے اور عمل اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک اس وقت تک حسن قبول کا درجہ نہیں پاسکتے جب تک اللہ کی طرف کامل توجہ نہ ہو اور پورے داخلی و خارجی وجود پر خوف و خشیت الہٰی اور حضور قلب کی کیفیت طاری نہ ہو اور ان دونوں کا اس وقت تک کوئی اعتبار نہیں ہوگا جب تک فکر و عقیدہ صحیح نہ ہو۔ اور دل و دماغ ایمان و یقین سے روشن نہ ہوں۔ پس کامل مومن یا کامل مسلمان وہی آدمی مانا جائے گا جس کا دل و دماغ میں ایمان یعنی صحیح اسلامی عقائد و نظریات کا نور موجود ہو، پھر وہ ان فرائض کو پوری طرح ادا کرے اور ان احکام و ہدایات کی کامل اطاعت کرے جو اللہ نے اپنے رسول کے ذریعہ جاری و نافذ کئے اور پھر ریاضیت و مجاہد یعنی ذکر و شغل اور اوراد وظائف کے ذریعہ اخلاص، توجہ الی اللہ اور رضاء مولیٰ کے حصول کی جدوجہد کرے جس سے ایمان و اسلام میں حسن و کمال اور بلند قدری ملتی ہے۔

【3】

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے

اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق (رض) ( آپ اسلام کے دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق کے صاحبزادے اور رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابی ہیں آپ کی پیدائش سال نبوت سے ایک سال پہلے مکہ معظمہ میں ہوئی تھی ٧٣ یا ٧٤ میں وصال فرمایا) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اول اس بات کا دل سے اقرار کرنا اور گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، دوم پابندی کے ساتھ نماز پڑھنا، سوم زکوٰۃ دینا، چہارم حج کرنا، پنجم رمضان کے روزے رکھنا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اسلام کی تشبیہ عمارت سے دی جاسکتی ہے کہ جس طرح کوئی بلند بالا اور خوشنما عمارت اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک کہ اس کے نیچے بنیادی ستون نہ ہوں، اسی طرح اسلام کے بھی پانچ بنیادی ستون ہیں جن کے بغیر کوئی آدمی اپنے اسلام کو وجود و بقا نہیں دے سکتا، ان ہی پانچ ستونوں کو اس حدیث میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ اور وہ ہیں عقیدہ توحید و رسالت، نماز، زکوۃ، حج اور روزہ۔ جو آدمی خود کو مومن و مسلمان بنانا اور قائم رکھنا چاہے اس کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی اعتقادی و فکری اور عملی و اخلاقی زندگی کی اساس ان پانچوں ستونوں کو قرار دے۔ پھر جس طرح کسی عمارت کی شان و شوکت اور دیدہ زیبی و خوشنمائی در و دیوار کے نقش و نگار اور طاق و محراب کی آرائش و زیبائش پر منحصر ہوتی ہے اسی طرح اسلام کے حسن و کمال کا انحصار بھی ان اعمال پر ہے جن کو واجبات و مستحبات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہاں حدیث میں چونکہ اسلام کی بنیادی چیزوں کا ذکر مقصود تھا اس لئے اس موقع پر ان واجبات و مستحبات کا ذکر نہیں کیا گیا۔

【4】

ایمان کی شاخیں

حضرت ابوہریرہ ( آپ کا اصل نام عبدالرحمن بن صخر ہے کنیت ابوہریرہ ہے۔ ٥٧ یا ٥٨ ھ میں آپ نے مدینہ میں وصال فرمایا) ۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ایمان کی شاخیں ستر سے کچھ اوپر ہیں ان میں سب سے اعلیٰ درجہ کی شاخ زبان و دل سے اس بات کا اقرار و اعتراف ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سب سے کم درجہ کی شاخ کسی تکلیف دینے والی چیز کا راستہ سے ہٹا دینا ہے نیز شرم و حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس حدیث میں ایمان کے شعبوں اور شاخوں کی تعداد بتائی گئی ہے یعنی وہ چیزیں مل کر کسی کو ایمان و اسلام کا مکمل پیکر اور خوشنما مظہر بناتی ہیں۔ یہاں تو صرف ان شعبوں اور شاخوں کی تعداد بتلائی گئی ہے لیکن بعض احادیث میں ان کی تفصیل بھی منقول ہے اور وہ اس طرح ہے پہلی چیز تو بنیادی ہے یعنی اس حقیقت کا دل و دماغ میں اعتقاد و یقین اور زبان سے اقرار و اظہار کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اس کی ذات وصفات برحق ہیں۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، بقاء اور دوام صرف اسی کی ذات کے لئے ہے جب کہ کائنات کی تمام چیزیں فنا ہوجانے والی ہیں، ایسے ہی اللہ کے رسولوں، اس کی کتابوں اور فرشتوں کے بارے میں اچھا اعتقاد اور حسن یقین رکھنا اور ان کو برحق جاننا، آخرت کا عقیدہ رکھنا کہ مرنے کے بعد قبر میں برے اور گنہگار لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اور اچھے نیک بندوں پر اس کا انعام و اکرام ہوتا ہے۔ قیامت آئے گی اور اس کے بعد حساب و کتاب کا مرحلہ ضرور آئے گا، اس وقت ہر ایک کے اعمال ترازو میں تولے جائیں گے جن کے زیادہ اعمال اچھے اور نیک ہوں گے ان کو پروانہ جنت دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، جن کے زیادہ اعمال برے ہوں گے، ان کی فردجرم ان کے بائیں ہاتھ میں تھمادی جائے گی۔ تمام لوگ پل صراط پر سے گزریں گے۔ مومنین صالحین ذات باری تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ نیک اور اچھے لوگ بہشت میں پہنچائے جائیں گے اور گنہگاروں کو دوزخ میں دھکیل دیا جائے گا۔ جس طرح جنتی (مومن) بندے جنت میں ہمیشہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام اور اس کی خوشنودی سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے اسی طرح دوزخی لوگ (کفار) ہمیشہ ہمیشہ اللہ کے مسلط کئے ہوئے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ایمان کے شعبوں اور شاخوں میں سے یہ بھی ہے کہ بندہ اللہ سے ہر وقت لو لگائے رہے اور اس سے محبت رکھے اگر کسی غیر اللہ سے محبت کرے تو اللہ کے لئے کرے یا کسی سے دشمنی رکھے تو اللہ کے لئے رکھے۔ رسول اللہ ﷺ سے کامل محبت اور آپ ﷺ کی عظمت و برتری اور آپ ﷺ کی تعلیمات کو روان دینا اور پھیلانا بھی آپ ﷺ سے محبت رکھنے کی دلیل ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کی علامت اس طرح رچ بس جائے کہ اس محبت کے مقابلہ میں دنیا کی کسی بھی چیز اور کسی بھی رشتہ کی محبت کوئی اہمیت نہ رکھے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کی علامت اتباع شریعت ہے۔ اگر کوئی آدمی اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کی تعمیل کرتا ہے اور شریعت کے احکام پر عمل کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے اللہ اور رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے لیکن جو آدمی اللہ اور رسول کے احکام و فرمان کی تابعداری نہ کرتا ہو تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ نعوذ باللہ اس کا دل اللہ و رسول کی پاک محبت سے بالکل خالی ہے۔ یہ بھی ایمان کی ایک شاخ ہے کہ جو عمل کیا جائے خواہ وہ بدنی ہو یا مالی، قولی ہو یا فعلی اور یا اخلاقی وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہو، نام و نمود یا کسی دنیاوی غرض سے نہ ہو پس جہاں تک ہو سکے اعمال میں اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ نفاق اور ریا کا اثر عمل کے حسن و کمال اور تاثیر کو ختم کر دے گا۔ مومن کا دل ہمہ وقت خوف اللہ اور خشیت الٰہی سے بھرا ہوا اور اس کے فضل و کرم اور رحمت کی امیدوں سے معمور رہنا چاہیے، اگر بتقاضائے بشریت کوئی بری بات یا گناہ سرزد ہوجائے تو اس پر فوراً خلوص دل سے توبہ کے بعد آئندہ کے لئے گناہوں سے اجتناب کا عہد کرے اور اللہ کے عذاب سے ڈرتا رہے اور اپنے اچھے عمل اور نیک کام میں اللہ کی رحمت اور اس کے انعام و اکرام کی آس لگائے رہے۔ درحقیقت یہ ایمان کا ایک بڑا تقاضہ ہے کہ جب کبھی کوئی گناہ جان بوجھ کر یا نادانستہ سرزد ہوجائے تو فوراً احساس ندامت و شرمندگی کے ساتھ اللہ کے حضور اپنے گناہ سے توبہ کرے اور معافی و بخشش کا طلبگار ہو، اس لئے کہ ارتکاب گناہ کے بعد توبہ کرنا شرعاً ضروری اور لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہے اگر اس نے اولاد عنایت فرمائی ہو تو فوراً عقیقہ کرے، اگر نکاح کیا ہو تو ولیمہ کرے، اگر قرآن مجید حفظ یا ناظرہ ختم کیا ہو تو خوشی و مسرت کا اظہار کرے، اللہ نے اگر مال دیا ہے تو زکوٰۃ ادا کرے۔ عیدالفطر کی تقریب میں صدقۃ الفطر دے اور بقر عید میں قربانی کرے۔ یہ بھی ایمان کا تقاضہ ہے کہ وعدہ کرے تو اسے پورا کرے، مصیبت پر صبر کرے، اطاعت و فرمانبرداری کے لئے ہر مشقت برداشت کرے، گناہوں سے بچتا رہے۔ تقدیر اور اللہ کی مرضی پر راضی رہے، اللہ پر توکل کرے، بڑوں اور بزرگوں کی تعظیم و احترام، چھوٹوں اور بچوں سے شفقت و محبت کا معاملہ کرے اور کبر و غرور، نخوت وتکبر کو چھوڑ کر کسر نفسی و تواضع اور حلم وبردباری اختیار کرے۔ حسن اسلام اور تکمیل ایمان کے مدارج میں سے یہ بھی ہے کہ برابر کلمہ توحید و شہادت کا ورد رکھے۔ قرآن شریف پڑھے اگر جاہل ہو تو عالم سے علم کی دولت حاصل کرے اگر عالم ہو تو جاہلوں کو تعلیم دے اپنے مقاصد میں کامیابی کے لئے اللہ سے مدد کا طلب گار ہو اور دعا مانگے اور اس کا ذکر کرتا رہے اپنے گناہوں سے استغفار کرے اور فحش باتوں سے بچتا رہے، ہر وقت ظاہری و باطنی گندگیوں سے پاک رہے۔ نمازوں کا پڑھنا خواہ فرض ہوں یا نفل اور وقت پر ادا کرنا، روزہ رکھنا، چاہے نفل ہو یا فرض، ستر کا چھپانا، صدقہ دینا خواہ نفلی ہو یا لازمی، غلاموں کو آزاد کرنا، سخاوت و ضیافت کرنا، اعتکاف میں بیٹھنا، شب قدر اور شب برأت میں عبادت کرنا، حج وعمرہ کرنا، طواف کرنا۔ دارالحرب یا ایسے ملک سے جہاں فسق و فجور، فحش و بےحیائی اور منکرات و بدعات کا زور ہو، دار الاسلام کی طرف ہجرت کر جانا، بد عتوں سے بچنا اپنے دین کو بری باتوں سے محفوظ رکھنا، نذروں کا پورا کرنا، کفاروں کا ادا کرنا، حرام کاری سے بچنے کے لئے نکاح کرنا۔ اہل و عیال کے حقوق پورے طور پر ادا کرنا، والدین کی خدمت کرنا اور ہر طرح ان کی مدد کرنا اور خبر گیری رکھنا، اپنی اولاد کی شریعت کے مطابق تربیت کرنا اپنے ماتحتوں سے حسن سلوک کرنا اپنے حاکموں، افسروں اور مسلمان سرداروں کی تابعداری کرنا بشرطیکہ وہ خلاف شرع چیزوں کا حکم نہ دیں۔ غلام اور باندی سے نرمی اور بھلائی سے پیش آنا، اگر صاحب اقتدار اور حاکم و جج ہو تو انصاف کرنا، لوگوں میں باہم صلح صفائی کرانا، اسلام سے بغاوت کرنے والوں اور دین سے پھرنے والوں سے قتل و قتال کرنا، اچھی باتوں کی تبلیغ کرنا، بری باتوں سے لوگوں کو روکنا، اللہ کی جانب سے مقرر کی ہوئی سزاؤں کا جاری کرنا، دین و اسلام میں غلط باتیں پیدا کرنے والوں اور اللہ و رسول کا انکار کرنے والوں سے حسب قوت و استطاعت خواہ ہتھیار سے خواہ قلم و زبان سے جہاد کرنا، اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت کرنا، امانت کا ادا کرنا، مال غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال میں جمع کرنا، وعدے کے مطابق فرض پورا کرنا، پڑوسی کی دیکھ بھال کرنا اور اس کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا، لوگوں کے ساتھ بہترین معاملہ کرنا، حلال طریقہ سے مال کمانا اور اس کی حفاظت کرنا، مال و دولت کو بہترین مصرف اور اچھی جگہ خرچ کرنا۔ فضول خرچی نہ کرنا، سلام کرنا اور سلام کا جواب دینا، جب کسی کو چھینک آئے تو یرحمک اللہ کہنا، خلاف تہذیب کھیل کود اور برے تماشوں سے اجتناب کرنا، لوگوں کو تکلیف نہ پہنچانا اور راستوں سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹا دینا تاکہ راہ گیروں کو تکلیف و نقصان نہ پہنچے، یہ سب ایمان کے شعبے اور اس کی شاخیں ہیں۔ راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کے ہٹانے کا یہ مطلب ہے کہ اگر راستے میں پتھر یا کانٹے پڑے ہوں جس سے راہ گیر کو تکلیف پہنچ سکتی ہو یا نجاست و غلاظت پڑی ہو یا ایسی کوئی بھی چیز پڑی ہو جس سے راستے پر چلنے والوں کو نقصان پہنچ سکتا ہو تو مومن کا یہ فرض ہے کہ انسانی و اخلاقی ہمدردی کے ناطے اس کو ہٹا دے اور راستہ صاف کر دے۔ اور اسی طرح خود بھی ایسی کوئی چیز راستے میں نہ ڈالے جو راستہ چلنے والوں کے لئے تکلیف کا باعث ہو اور عارفین کی رمز شناس نگاہوں نے تو اس سے یہ مطلب اخذ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کو ایسی تمام چیزوں سے صاف کرلے جو توجہ الی اللہ اور معرفت کے راستہ کی رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں اور اپنے قلب سے برائی و معصیت کے خیال تک کو کھرچ کر پھینک دے۔ بہر حال یہ تمام باتیں ایمان کے شعبے ہیں جن پر مومن کا عمل کرنا نہایت ضروری ہے اس لئے کہ ایمان کی تکمیل اور اسلام کا حسن ان ہی چیزوں سے پیدا ہوتا ہے اگر کوئی آدمی ان باتوں سے خالی ہے اور اس کی زندگی ان کی شعاعوں سے منور نہیں ہے تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے ایمان کی تکمیل نہیں ہوئی اس کو چاہیے کہ اللہ کی مدد اور اس کی توفیق چاہ کر ان اہم باتوں کو اختیار کرے۔

【5】

مومن اور مسلم کا مفہوم

اور حضرت عبداللہ بن عمرو ( حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص جلیل القدر صحابی، رفیع المرتبت عالم، بلند پایہ مجاہد اور بڑے مرتبہ کے متقی و عابد تھے آپ مہاجر ہیں۔ آپ کے سن وفات میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ تذکرۃ الحفاظ کی روایت کے مطابق مصر میں ٧٥ ھ میں آپ کا انتقال ہوا) ۔ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذا) سے مسلمان محفوظ رہیں اور اصل مہاجر وہ ہے جس نے ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیا جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ۔ یہ الفاظ صحیح البخاری کے ہیں اور مسلم نے اس روایت کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ مسلمانوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ ( کے ضرر) سے مسلمان محفوظ رہیں۔ تشریح حدیث کے پہلے جزء میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مومن اور مسلمان محض اس چیز کا نام نہیں ہے کہ کوئی آدمی صرف کلمہ پڑھ لے اور کچھ متعین اعمال و ارکان ادا کرلے بلکہ اسلامی شریعت اپنے پیروؤں سے ایک ایسی بھر پور زندگی کا تقاضا کرتی ہے جس کا حامل ایک طرف عقائد و اعمال کے لحاظ سے اللہ کا حقیقی بندہ کہلانے کا مستحق ہو تو دوسری طرف وہ انسانیت کے تعلق سے پوری طرح امن و آشتی کا نمونہ اور محبت و مروت کا مظہر ہو، امن و امانت، اخلاق و رواداری، ہمدردی و خیر سگالی کا اپنی عملی زندگی میں اس طرح اظہار کرے کہ دنیا کا ہر انسان اس سے خوف زدہ رہنے کے بجائے اس کو اپنا ہمدرد، بہی خواہ اور مشفق سمجھے اور کیا مال کیا جان و آبرو، ہر معاملہ میں اس پر پورا اعتماد اور اطمینان رکھے۔ اس حدیث میں ہاتھ اور زبان کی تخصیص اس لئے ہے کہ عام طور پر ایذار سانی کے یہی دو ذریعے ہیں ورنہ یہاں ہر وہ چیز مراد ہے جس سے تکلیف پہنچ سکتی ہے خواہ وہ ہاتھ ہوں یا زبان یا کوئی دوسری چیز۔ حدیث کے دوسرے جزء میں حقیقی مہاجر کی تعریف کی گئی ہے یوں تو مہاجر ہر اس آدمی کو کہیں گے جس نے اللہ کی راہ میں اپنا وطن، اپنا گھر اور اپنا ملک چھوڑ کر دارالاسلام کو اپنا وطن بنا لیا ہو، اس قربانی کو اسلام عزت و قعت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس مہاجر کو بیشمار جزاء و انعام کا حقدار مانتا ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا اس ہجرت کے علاوہ ایک ہجرت اور ہے جس کا زندگی کے ساتھ دوامی تعلق رہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے جن چیزوں سے منع فرمایا ہے مومن ان سے پرہیز کرتا رہے اور اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نفسانی خواہشات کو بالکل ترک کرکے پاکیزہ نفسی اختیار کرے، پس ایسا آدمی حقیقی مہاجر کہلانے کا مستحق ہے۔

【6】

درجات محبت

اور حضرت انس بن مالک ( حضرت انس بن مالک بن نضر انصاری ہیں اور مدینہ کے اصل باشندے تھے۔ آپ کی عمر جب دس سال کی تھی تو آپ کی والدہ ام سلیم بنت ملحان نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ ٩٦ ھ میں انتقال فرمایا) ۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک (کامل) مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح محبت ایک تو طبعی ہوتی ہے جیسے اولاد کو باپ کی یا باپ کو اولاد کی محبت۔ اس محبت کی بنیاد طبعی وابستگی و پسند اور فطری تقاضہ ہوتا ہے۔ اس میں عقلی یا خارجی ضرورت اور دباؤ کا دخل نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف ایک محبت عقلی ہوتی ہے جو کسی طبعی و فطری وابستگی اور تقاضے کے تحت نہیں ہوتی۔ بلکہ کسی عقلی ضرورت و مناسبت اور خارجی وابستگی کے تحت کی جاتی ہے۔ اس کی مثال مریض اور دوا ہے یعنی بیمار آدمی دوا کو اس لئے پسند نہیں کرتا کہ دوا لینا اس کا طبعی اور فطری تقاضہ ہے بلکہ یہ دراصل عقل کا تقاضا ہوتا ہے کہ اگر بیماری کو ختم کرنا ہے اور صحت عزیز ہے تو دوا استعمال کرنی ہوگی خواہ اس دوا کی تلخی اور کڑواہٹ کا طبیعت پر کتنا ہی بار کیوں نہ ہو، اسی طرح اگر کسی آدمی کے جسم کا کوئی حصہ پھوڑے پھنسی کے فاسد مادہ سے بھر گیا ہو تو وہ آپریشن کے لئے اپنے آپ کو کسی ماہر جراح اور سرجن کے حوالہ اس لئے نہیں کرتا کہ اس کی نظر میں آلات جراحی کی چمک دمک اچھی لگتی ہے یا اس کی طبیعت اپنے جسم کے اس حصہ پر نشتر زنی کو پسند کرتی ہے، بلکہ یہ عقل و دانائی کا تقاضا ہوتا ہے کہ اگر جسم کو فاسد مادہ سے صاف کرنا ہے تو خود کو اس جراح یا سرجن کے حوالے کردینا ضروری ہے۔ کسی چیز کو عقلی طور پر چاہنے اور پسند کرنے کی وہ کیفیت جس کو عقلی محبت سے تعبیر کرتے ہیں، بعض حالات میں اتنی شدید، اتنی گہری اور اتنی اہم بن جاتی ہے کہ بڑی سے بڑی طبعی محبت اور بڑے سے بڑے فطری تقاضے پر بھی غالب آجاتی ہے۔ پس یہ حدیث ذات رسالت سے جس محبت اور وا بستگی کا مطالبہ کر رہی ہے وہ علماء و محدثین کے نزدیک یہی عقلی محبت ہے لیکن کمال ایمان و یقین کی بنا پر یہ عقلی محبت اتنی پر اثر، اتنی بھر پور اور اس کی قدر جذباتی وابستگی کے ساتھ ہو کہ طبعی محبت پر غالب آجائے۔ اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کی کسی ہدایت اور کسی شرعی حکم کی تعمیل میں کوئی خونی رشتہ جیسے باپ کی محبت، اولاد کا پیار یا کوئی بھی اور طبعی تعلق رکاوٹ ڈالے تو اس ہدایت رسول اور شرعی حکم کو پورا کرنے کے لئے اس خون کے رشتے اور طبعی تقاضا و محبت کو بالکل نظر انداز کردینا چاہیے، ایمانیات اور شریعت کے نقطہ نظر سے بہت بڑا مقام ہے اور یہ مقام اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب ایمان و اسلام اور حب رسول ﷺ کا دعوی کرنے والا اپنے نفس کو احکام شریعت اور ذات رسالت میں فنا کر دے اور اللہ کے رسول ﷺ کی رضا و خوشنودی کے علاوہ اس کا اور کوئی مقصد حیات نہ ہو۔ مثال کے طور پر رسول اللہ ﷺ کا فرمان جاری ہوتا ہے کہ اہل ایمان جہاد کے لئے نکلیں، اس حکم کی تعمیل میں اہل ایمان، دشمنان دین سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں پہنچتے ہیں۔ جب دونوں طرف سے صف آرائی ہوتی ہے اور حریف فوجیں آمنے سامنے آتی ہیں تو کسی مسلمان کو اپنا لڑکا دشمن کی صف میں نظر آتا ہے اور کسی کو اپنا باپ۔ اب ایک طرف تو وہ طبعی محبت ہے، جو کیسے گوارا کرلے کہ اس کی تلوار اپنے باپ یا اپنی ہی اولاد کے خون سے رنگی جائے، دوسری طرف حکم رسول ہے کہ دشمن کا کوئی بھی فرد تلوار کی زد سے امان نہ پائے چاہے وہ اپنا باپ یا بیٹا کیوں نہ ہو، تاریخ کی ناقابل تردید صداقت گواہی دیتی ہے کہ ایسے نازک موقع پر اہل ایمان پل بھر کے لئے بھی ذہنی کشمکش میں مبتلا نہیں ہوتے، ان کو یہ فیصلہ کرلینے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں ہوتی کہ حکم رسول ﷺ کے سامنے نہ باپ کی محبت کوئی معنی رکھتی ہے نہ اولاد کی۔ اور پھر میدان جنگ میں باپ کی تلوار بےدریغ اپنی اولاد کا خون بہاتی نظر آتی ہے اور بیٹا اپنے باپ کو موقع نہیں دیتا کہ بچ کر نکل جائے۔ بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ تکمیل ایمان کا مدار حب رسول پر ہے جس آدمی میں ذات رسالت سے اس درجہ کی محبت نہ ہو کہ اس کے مقابلہ پر دنیا کے بڑے سے بڑے رشتے، بڑے سے بڑے تعلق اور بڑی سے بڑی چیز کی محبت و چاہت بھی بےمعنی ہو، وہ کامل مسلمان نہیں ہوسکتا، اگرچہ زبان اور قول سے وہ اپنے ایمان و اسلام کا کتنا ہی بڑا دعوی کرے۔ حضرت عمر فاروق کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے جب یہ حدیث سنی تو عرض کیا یا رسول اللہ ! دنیا میں صرف اپنی جان کے علاوہ آپ ﷺ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں یعنی دنیا کے اور تمام رشتوں اور چیزوں سے زیادہ میں آپ ﷺ کی محبت رکھتا ہوں مگر اپنی جان سے زیادہ نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میری جان ہے تم اب بھی کامل مومن نہیں ہوئے اس لئے کہ یہ مرتبہ اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب کہ میں تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا ہوجاؤں ۔ ان الفاظ نبوت نے جیسے آن واحد میں حضرت عمر فاروق کے دل و دماغ کی دنیا تبدیل کردی ہو، وہ بےاختیار بولے۔ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ پر میری جان قربان آپ ﷺ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے پھر ان کو خوشخبری سنائی کہ اے عمر ! اب تمہارا ایمان کامل ہوا اور تم پکے مومن ہوگئے۔ اور صرف عمر فاروق ہی نہیں، تمام صحابہ اسی کیفیت سے معمور اور حب رسول سے سرشار تھے، ان کی زندگیوں کا مقصد ہی آپ ﷺ کے ایک اشارہ ابرو پر اپنی جانوں کو نچھاور کردینا تھا، بلا شبہ دنیا کا کوئی مذہب اپنے راہنما اور پیروؤں کے باہمی تعلق اور محبت کی ایسی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس بلا شک صحابہ کے لئے شمع کی سی تھی جس پر وہ پروانہ وار نچھاور ہونا ہی اپنی سعادت و خوش بختی تصور کیا کرتے تھے۔ اسلام کے اس دور کی شاندار تاریخ اپنے دامن میں بیشمار ایسے واقعات چھپائے ہوئے ہے جو رسول اکرم ﷺ سے صحابہ کرام اجمعین کی جذباتی وابستگی اور والہانہ محبت وتعلق کی شاندار غمازی کرتے ہیں۔ غزوہ احد کا واقعہ ہے۔ میدان جنگ میں جب معرکہ کار زار گرم ہوا اور حق کی مٹھی بھر جماعت پر باطل کے لشکر جرار نے پوری قوت اور طاقت سے حملہ کیا تو دیکھا گیا ہے کہ ایک انصاری عورت کے شوہر، باپ اور بھائی تینوں نے جام شہادت پیا اور رسول اکرم ﷺ کی ذات پر دیوانہ وار فدا ہوگئے، یہ دل دہلا دینے والی خبر اس عورت کو بھی پہنچائی گئی مگر اللہ پر ایمان کی پختگی اور رسول اکرم ﷺ کی محبت کا اثر کہ بجائے اس کے کہ وہ عورت اپنے لواحقین کی شہادت پر نالہ و شیون اور ماتم و فریاد کرتی اس نے سب سے پہلے سوال کیا خدارا مجھے یہ بتاؤ کہ میرے آقا اور سردار رسول اللہ ﷺ (آپ ﷺ پر میری جان قربان) تو بخیر ہیں ؟۔ لوگوں نے کہا۔ ہاں آپ ﷺ سلامت ہیں مگر اس سے اس کی تسکین نہ ہوئی اور بےتابانہ کہنے لگی اچھا چلو ! میں اپنی آنکھوں سے دیدار کرلوں تو یقین ہوگا اور جب اس نے اپنی آنکھوں سے چہرہ انور کی زیارت کرلی تو بولی کل مصیبۃ بعدک جلل۔ جب آپ زندہ سلامت ہیں تو ہر مصیبت آسان ہے۔ ایک مرتبہ ایک آدمی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! آپ ﷺ مجھے اپنے اہل و عیال اور مال سب سے زیادہ محبوب ہیں، مجھے آپ ﷺ کی یاد آتی ہے تو صبر نہیں آتا جب تک کہ یہاں آکر آپ ﷺ کے روئے انور کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی نہیں کرلیتا۔ مگر اب تو یہی غم کھائے جاتا ہے کہ وفات کے بعد آپ ﷺ تو انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ہوں گے، وہاں میری آنکھیں آپ ﷺ کا دیدار کیسے کرسکیں گی۔ جب ہی یہ آیت نازل ہوئی ومَنْ یُطِعِ ا وَالرَّسُوْلَ فَأُوْلٰائکِ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ ا عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُوْلٰائِکَ رَفِیْقًا۔ (النساء ٦٩) جو لوگ اللہ و رسول کا کہنا مانتے ہیں وہ (آخرت میں) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام ہیں یعنی نبی، صدیق، شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی صحبت بڑی غنیمت ہے۔ آپ ﷺ نے اس صحابی کو یہ خوشخبری سنا دی۔ عبداللہ بن زید بن عبدربہ جو صاحب اذان کے لقب سے مشہور تھے اپنے باغ میں کام کر رہے تھے کہ اسی حالت میں ان کے صاحبزادہ نے آکر پریشانی والی خبر سنائی کہ سرور دو عالم ﷺ وصال فرماگئے۔ عشق نبوی سے سر شار اور محبت رسول سے سر مست، یہ صحابی اس جان گداز خبر کی تاب ضبط نہ لاسکے، بےتابانہ ہاتھ فضا میں بلند ہوئے اور زبان سے یہ حسرت ناک الفاظ نکلے خداوندا اب مجھے بینائی کی دولت سے محروم کر دے تاکہ یہ آنکھیں جو سرکار دو عالم ﷺ کے دیدار سے مشرف ومنور ہوا کرتی تھیں اب کسی دوسرے کو نہ دیکھ سکیں (ترجمہ السنۃ) ۔ ان واقعات سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رسول اللہ ﷺ سے محبت وتعلق کا وہی مقام حاصل تھا جو اس حدیث کا منشاء ہے اس لئے ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اگر وہ ایمان کی سلامتی اور اپنے اسلام میں مضبوطی پیدا کرنا چاہتا ہے تو رسول اللہ ﷺ کی محبت و عقیدت سے اپنے دل کو معمور کرے اور آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے ہی کو مدار نجات جانے کہ رسول اللہ ﷺ سے محبت کا معیار اتباع شریعت اور اتباع رسول ہے جو آدمی شریعت پر عمل نہیں کرتا اور آپ ﷺ کی تعلیمات پر نہیں چلتا، وہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ نعوذ باللہ اسے حضور ﷺ سے محبت نہیں ہے۔

【7】

ایمان کی لذت

اور حضرت انس راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس آدمی میں یہ تین چیزیں ہوں گی وہ ان کی وجہ سے ایمان کی حقیقی لذت سے لطف اندوز ہوگا، اول یہ کہ اسے اللہ اور اس کے رسول کی محبت دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ ہو، دوسرا یہ کہ کسی بندہ سے اس کی محبت محض اللہ ( کی خوشنودی) کے لئے ہو۔ تیسرے یہ کہ جب اسے اللہ نے کفر کے اندھیرے سے نکال کر ایمان و اسلام کی روشنی سے نواز دیا ہے تو اب وہ اسلام سے پھرجانے کو اتنا ہی برا جانے جتنا آگ میں ڈالے جانے کو ۔ صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح کمال ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مومن کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت اس درجہ رچ بس جائے کہ ان کے ماسوا تمام دنیا اس کے سامنے کم تر ہو۔ اس طرح یہ شان بھی مومن کامل ہی کی ہوسکتی ہے کہ اگر وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو محض اللہ کی خوشنودی اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور اگر کسی سے بغض و عداوت رکھتا ہے تو وہ بھی اللہ کی راہ میں غرض کہ اس کا جو بھی عمل ہو صرف اللہ کے لئے ہو اور اس کے حکم کی تکمیل میں ہو۔ ایسے ہی ایمان کا پختگی کے ساتھ دل میں بیٹھ جانا اور اسلام پر پختگی کے ساتھ قائم رہنا اور کفر و شرک سے اس درجہ بیزاری و نفرت رکھنا کہ اس کے تصور و خیال کی گندگی سے بھی دل پاک و صاف رہے، ایمان کے کامل ہونے کی دلیل ہے۔ اسی لئے اس حدیث میں فرمایا گیا کہ ایمان کی حقیقی دولت کا مالک اور اس پر جزاء و انعام کا مستحق تو وہی آدمی ہے جو ان تینوں اوصاف سے پوری طرح متصف ہو اور ایمان کی حقیقی لذت کا ذائقہ وہی چکھ سکتا ہے جس کا دل ان چیزوں کی روشنی سے منور ہو۔

【8】

ایمان کا لطف

اور حضرت عباس بن عبدالمطلب ( آپ حضرت عبدالمطلب کے صاحبزادے اور رسول اللہ ﷺ کے حقیقی چچا تھے۔ بارہ رجب ٣٢ ھ جمعہ کے دن آپ کا انتقال ہوا) ۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے اللہ تعالیٰ کو اپنا پروردگار، اسلام کو اپنا دین اور محمد ﷺ کو اپنا رسول خوشی سے مان لیا تو (سمجھو کہ) اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا۔ (صحیح مسلم) تشریح اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور اس کی ذات وصفات پر ایمان محمد عربی ﷺ کی رسالت و نبوت پر یقین و اعتقاد، دین و شریعت کی حقانیت و صداقت پر کامل اعتماد اور اسلامی تعلیمات و احکام کی پیروی، اس کیفیت کے ساتھ ہونے چاہیے کہ دل و دماغ کے کسی گوشہ میں کوئی دباؤ، کوئی گھٹن، کوئی تکدر اور کوئی ناگواری ذرہ برابر محسوس نہ ہوتی ہو۔ رضا ورغبت، اطمینان خاطر اور دماغی و ذہنی سکون کی وہ لہر پورے داخلی و خارجی وجود میں سرایت کئے ہوئے ہو، جو کسی انمول چیز کے حاصل ہوجانے پر دل و دماغ اور جسم کے پورے و جود کو مسرت و شادمانی اور احساس سرفرازی سے سر شار کردیتی ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے اس کو ہر حالت میں مد نظر رکھنا چاہیے۔ اس ایمان و یقین اور عمل آوری میں اگر کسی طرح کا کوئی انقباض اور تکدر پیدا ہوا تو سمجھو کہ ایمان کی روح رخصت ہوئی۔ ایسے آدمی پر اگرچہ ظاہری طور سے ایمان و اسلام کے احکام نافذ ہوں گے مگر اخلاص سے خالی ہونے کے سبب نہ اس کا ایمان کامل سمجھا جائے گا اور نہ اس کو حسن اسلام نصیب ہوگا اور نہ ایمان و یقین کی حقیقی لذت سے وہ لطف اندوز ہوسکے گا۔

【9】

اسلام ہی مدارِ نجات ہے

اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کی قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے ! اس امت میں سے جو آدمی بھی خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی، میری نبوت کی خبر پائے اور میری لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے بغیر مرجائے، وہ دوزخی ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جس کے دائرہ اطاعت میں آنا تمام کائنات کے لئے ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجا ہوا ایک ایسا بین الاقوامی قانون ہے جس کی پیروی دنیا کے ہر آدمی پر لازم ہے، اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ کی رسالت اور آپ ﷺ کی نبوت بھی چونکہ عالمگیر اور بین الاقوامی ہے۔ ہر دور کے لئے، ہر قوم کے لئے اور ہر طبقہ کے لئے، اس میں کسی کا استثناء نہیں ہے اس لئے آپ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کرنا سب پر ایک ہی طرح فرض ہے، خواہ کوئی کسی قوم کسی ملک اور کسی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو۔ اس حدیث میں یہودی اور نصرانی یعنی عیسائی کا ذکر اس بنا پر کیا گیا ہے کہ یہ دونوں قومیں خود اپنا ایک دین اور ایک شریعت رکھتی تھیں ان کی اپنی اپنی آسمانی کتابیں تھیں جن کو مدار عمل و نجات ماننے کا ان کو خدائی حکم تھا، اس لئے ان کا ذکر کر کے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ قومیں جو خود اپنے پیغمبروں کی لائی ہوئی شریعت اور اللہ کی جانب سے بھیجی ہوئی کتابوں کی تابع ہیں اور جن کا دین بھی آسمانی دین ہے، جو اللہ تعالیٰ ہی کا اتارا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ کے آخری دین اسلام کے نفاذ اور خاتم النبیین ﷺ کی ہمہ گیر بعثت کے بعد جب ان قوموں کے لئے پیغمبر اسلام ﷺ کی رسالت تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں اور شریعت اسلام کے دائرہ میں آئے بغیر ان کی نجات ممکن نہیں تو پھر وہی قومیں پیغمبر اسلام اور شریعت اسلام پر ایمان و عمل کے بغیر ابدی نجات کیسے پاسکتی ہیں جو کسی آسمانی دین کی پابند بھی نہیں ہیں جن کے پاس کسی پیغمبر کی لائی ہوئی کوئی کتاب بھی نہیں ہے اور جو اللہ کے بھیجے ہوئے کسی نبی و رسول کی پیرو بھی نہیں ہیں۔ ایک بات اور بھی ہے۔ یہودی اور عیسائی کہا کرتے تھے کہ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر موسیٰ اور عیسیٰ کے پیروکار اور اللہ کی اتاری ہوئی کتاب شریعت تو رات و انجیل کے متبع ہونے کی وجہ سے ہم تو خود نجات یافتہ ہیں۔ جنت تو ہمارا پیدائشی حق ہے، ہمیں کیا ضرورت ہے کہ محمد ﷺ کو اپنا رسول مانیں اور اسلام کو اپنا دین، اس حدیث کے ذریعہ ان کے اس غلط عقیدہ و خیال کی بھی تردید کی گئی ہے اور ان پر واضح کردیا گیا کہ پیغمبر اسلام کی بعثت کے بعد تو نجات ان ہی لوگوں کی ہوگی جو دین اسلام کو مانیں گے اور اس پر عمل کریں گے کیونکہ محمد عربی ﷺ کی بعثت کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ سابقہ شریعتیں منسوخ ہوجائیں، تمام مذاہب کا لعدم ہوجائیں اور تمام کائنات کو صرف ایک مذہب دین اسلام کے دائرہ میں لایا جائے جو اللہ کا سب سے آخری اور سب سے جامع و مکمل دین ہے۔

【10】

دوہرا اجرپانے والے

اور حضرت ابوموسیٰ اشعری (آپ جلیل القدر صحابی ہیں، پہلی ہجرت حبشہ میں شریک تھے۔ ذی الحجہ ٤٤ ھ میں مکہ میں انتقال ہوا) ۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کو دو دو اجر ملیں گے۔ اس اہل کتاب (یہودی اور عیسائی) کو جو (پہلے) اپنے نبی پر ایمان رکھتا اور پھر حضرت محمد ﷺ پر بھی ایمان لایا۔ اس غلام کو جو اللہ کے حقوق بھی ادا کرے اور اپنے آقاؤں کے حق کو بھی ادا کرتا رہے۔ اس آدمی کو جسکی کوئی لونڈی تھی اور وہ اس سے صحبت کرتا تھا۔ پہلے اس کو اچھا ہنر مند بنایا پھر اس کو خوب اچھی طرح تعلیم دی اور پھر اس کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرلیا تو یہ بھی دوہرے اجر کا حقدار ہوگا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس ارشاد گرامی کا مقصد ان تین طرح کے لوگوں کو خوشخبری دینا ہے جن کو اوروں کے مقابلہ میں نیک عمل کا دوہرا اجر ملتا ہے۔ ان میں پہلی قسم کے لوگ وہ اہل کتاب (یہودی اور عیسائی) ہیں جو پہلے تو اپنے دین پر تھے اور پھر دعوت اسلام پا کر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ان کو دو ہرے اجر کی خوشخبری اس بنا پر دی گئی ہے کہ ان کا پہلے اپنے نبی کو پختہ دل سے ماننا، اس نبی کی لائی ہوئی کتاب و شریعت پر عمل کرنا اور اس نبی سے اعتقادی وابستگی وتعلق رکھنا اور پھر خاتم النبیین ﷺ کی رسالت و نبوت اور اللہ کے آخری دین اسلام کی دعوت پا کر صدق دل سے اس کے حلقہ بگوش ہوجانا، نہ صرف یہ کہ ان کے کمال انقیاد و اطاعت اور ان کی فکری و ذہنی سلامت روی کی علامت ہے بلکہ اس معنی میں ان کے قلبی و عملی ایثار کا غماز بھی ہے کہ اپنے سابقہ نبی اور سابقہ دین سے عقیدت وتعلق اور زبردست جذباتی لگاؤ کے باوجود انہوں نے دعوت اسلام پا کر اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنی زندگی کا رخ اس طرف موڑ دیا اور اب اپنے اعتقاد کی باگ ڈور دین اسلام کے سپرد کردی، جب تک ان کے سامنے اسلام کی دعوت نہیں آئی تھی وہ اپنے دین ہی کو اللہ کا دین سمجھ کر اس کے حلقہ بگوش رہے اور جب اسلام کی دعوت ان کے سامنے آئی تو انہوں نے اس کو اللہ کا آخری دین جان کر اپنے پچھلے دین کو چھوڑنے میں کسی ضد، ہٹ دھرمی اور تعصب سے کام نہیں لیا بلکہ فطرت سلیم کی آوز پر لبیک کہہ کر محمد عربی ﷺ کے غلاموں میں شامل ہوگئے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعام کے طور پر ان کو ہر نیک عمل پر دوہرے اجر کا مستحق قرار دیا، ایک اجر تو اپنے پہلے نبی پر ایمان رکھنے کے سبب اور دوسرا اجر پیغمبر آخر الزمان ﷺ پر ایمان لانے کا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں یہ خصوصیت اور امتیاز صرف اسلام ہی کو حاصل ہے کہ وہ اپنے تصورات و اعتقادات اور اپنی تعلیمات کی بنیاد انکار پر نہیں اقرار پر رکھتا ہے یعنی وہ آسمانی دینوں میں کسی رقابت یا رسولوں میں کسی تفریق کی خلیج حائل نہیں کرتا وہ تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق پر زور دیتا ہے اور اللہ کی جانب سے بھیجے گئے تمام رسولوں کی رسالت پر ایمان لانے کی تاکید کرتا ہے، اسلام کے برخلاف دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے اعتقادات و نظریات کو دیکھا جائے تو یہ بات جاننے میں دیر نہیں لگتی کہ ان کے یہاں کوئی آدمی اس وقت تک مذہب کا سچا پیرو اور حقیقی تابعدار نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس کے ماسوا دوسرے مذاہب کے اعتقاد و تصورات کی بنیادوں کو بالکل ہی مسمار نہ کر دے اور دوسرے رسولوں و پیغمبروں کی رسالت کا بالکل ہی انکار نہ کر دے، اسلام تو ایمان و اعتقاد کے پہلے ہی مرحلہ میں اپنے پیروؤں سے اس بات کا اقرار کراتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی رسول ﷺ ، اللہ کی جانب سے مخلوق کی ہدایت کے لئے آئے ان میں کسی قسم کی تفریق نہ کی جائے، ان کی لائی ہوئی شریعتوں کو اپنے اپنے زمانہ کے لئے حق اور واجب تسلیم مانا جائے، وہ اپنے متبعین کو احساس صداقت کا یہ شعور بخشتا ہے کہ آسمانی مذاہب میں کوئی پارٹی بندی نہیں ہے سب ایک ہی صداقت کی کڑیاں ہیں نیز وہ اپنے ماننے والوں کو واضح طور پر آگاہ کردیتا ہے کہ ایمان کی تکمیل جب ہی ہوگی کہ دوسرے آسمانی مذاہب کی تصدیق بھی کی جائے اور سابقہ تمام انبیاء کی صداقت کو مانا جائے۔ اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اگر کوئی یہودی یا عیسائی ایمان لائے اور رسول اکرم ﷺ کی رسالت کا صدق دل سے اقرار کرے۔ تو اپنے نبی پر لایا ہوا اس کا پہلا ایمان ضائع نہیں جائے گا بلکہ وہ اس پر اجر وثواب کا مستحق قرار دیا جائے گا لیکن وہ پیغمبر اسلام ﷺ کی رسالت کی اگر تصدیق نہیں کرتا اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان نہیں لاتا تو نہ صرف یہ کہ وہ کفر و انکار کی بنا پر ہمیشگی والے عذاب کا مستحق سمجھا جائے گا بلکہ اس کا اپنے نبی پر لایا ہوا ایمان بھی رائیگاں اور بیکار سمجھا جائے گا اور اس پر کسی قسم کے اجر وثواب کا استحقاق پیدا نہیں ہوگا کیونکہ جس طرح تمام انبیاء پر ایمان لانا اور ان کی رسالت کی تصدیق کرنا لازم ہے اسی طرح عمل اور پیروی پیغمبر اسلام ﷺ کی شریعت پر ضروری ہے اور مدار نجات صرف اسلام کی اطاعت و فرمانبرداری ہی ہے۔ دوسرے آدمی کے لئے دوہرے اجر کی خوشخبری کا سبب بھی واضح ہے یعنی یہ کہ ایک غلام کے لئے نہ صرف سماجی روایتی اور دنیاوی حیثیت سے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے مالک و آقا کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اور اس کے احکام کی پوری پوری تعمیل کرے بلکہ اسلامی تعلیم کا تقاضا بھی یہ ہے کہ وہ مالک و آقا کے عائد شدہ حقوق کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی یا سستی نہ کرے، لہٰذا ایک غلام جب اپنے آقا کے حقوق کی پوری نگہداشت کرتا ہے اور حقوق کی ادائیگی کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے حقیقی مالک اور پروردگار اللہ رب العالمین کے احکام کی بجا آوری بھی پورے حقوق کے ساتھ کرتا ہے اور اس کے عائد کئے ہوئے تمام فرائض کی تکمیل میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتا تو وہ دوہرے اجر کا استحقاق پیدا کرلیتا ہے۔ اب رہ گیا تیسرا آدمی تو اس کو بھی دوہرے اجر کا مستحق اس بنا پر قرار دیا گیا ہے کہ اول تو اس نے ایک لونڈی کو آزاد کیا جو نہ صرف یہ کہ انسانیت اور فطرت کے اعتبار کے تقاضا کو پورا کرنا ہے بلکہ اسلامی اخلاق کے اعلیٰ اصول و قواعد پر عمل کرنا بھی ہے، دوسرے یہ کہ اس لونڈی کو آزاد کرکے اور پھر اس سے شادی کر کے اس نے انسانی ہمدردی، اسلامی مساوات اور بلند اخلاقی کا اس طرح اعلیٰ ثبوت دیا کہ ایسی عورت کو جو سماجی حیثیت سے ایک کمتر، بےوقعت اور ذلیل بن کر رہ گئی تھی، اچھی تربیت، اعلیٰ تعلیم اور پھر آزادی و شادی کی گراں قدر دولت سے نواز کر دنیا کی باعزت اور سوسائٹی و معاشرہ کی شریف و معزز عورتوں کے برابر بھی لا کھڑا کیا، اس طرح اس نے اگر ایک طرف انسانیت اور اخلاق کے تقاضے کو پورا کیا، تو دوسری طرف اسلامی تعلیم کی روح کو بھی اجاگر کیا پس اس کے اس ایثار کی بناء پر شریعت نے اس کو بھی دوہرے اجر کا استحقاق عطا کیا۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے دوہرے اجر کے بارے میں لکھا ہے کہ ان لوگوں کے نامہ اعمال میں جزاء اور ثواب کی یہ دوگنی اضافت اس طرح ہوگی کہ ان کو ہر عمل پر دوسروں کے مقابلہ میں دوہرا ثواب ملے گا، مثلاً اگر کوئی دوسرا آدمی نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے یا کوئی اور نیک کام کرتا ہے تو اس کو عمومی خوشخبری کے تحت دس ثواب ملیں گے لیکن یہی عمل اگر یہ تینوں کریں گے تو ان کو ہر ایک عمل پر بیس بیس ثواب ملیں گے۔

【11】

کفار سے جنگ کا حکم

اور حضرت عبداللہ ابن عمر راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ میں (دین دشمن) لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ اس بات کی گواہی نہ دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے (بھیجے ہوئے) رسول ہیں نیز نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں اور پھر جب وہ ایسا کرنے لگیں تو انہوں نے اپنی جان و مال کو مجھ سے بچا لیا۔ ہاں جو باز پرس اسلامی ضابطہ کے تحت ہوگی وہ اب بھی باقی رہے گی اس کے بعد ان کے باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے (وہ جانے کہ ان کا اسلام صدق دل سے تھا یا محض اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے دکھلاوے کا تھا) (صحیح البخاری و صحیح مسلم) مسلم کی روایت میں الا بحق الا سلام کے الفاظ نہیں ہیں۔ تشریح یہ دنیا اللہ کی حقیقی ملکیت ہے وہی اس زمین کا شہنشاہ اور تمام کائنات کا حاکم مطلق ہے اس کی زمین پر رہنے کا حق اسی کو حاصل ہے جو اس کی حاکمیت کو تسلیم کر کے اس کے قوانین کی پیروی کرتا ہے اس کے احکام کی تابعداری کرتا ہے، اس کے اتارے ہوئے نظام و شریعت کے تحت زندگی گزارتا ہے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول اور پیغمبر کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے۔ اس دنیا میں پیغمبروں کی بعثت کا اصل مقصد روئے زمین پر حقیقی شہنشاہ اور حاکم مطلق ( اللہ تعالیٰ ) کی حاکمیت کا نفاذ کرنا ہوتا ہے، پیغمبر کا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دین و شریعت کی صورت میں حاکمیت الہ کا جو مشن لے کر آیا ہے اس کو ہر ممکن جدوجہد کے ذریعہ پھیلائے لوگوں کو اپنے دین کے دائرہ میں لانے کی پوری پوری کوشش کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی جدوجہد اور سعی کے نیتجہ میں جو معاشرہ بن گیا ہے اس پر دنیا کے کسی غیر دینی روایت و قانوں اور کسی آدمی و گروہی بالادستی کی حکمرانی قائم نہ ہونے پائے بلکہ صرف خدائی حکمرانی یعنی دین و شریعت کی حکومت قائم ہو اور پھر کسی کو اس بات کی اجازت نہ ہو کہ وہ دین و شریعت کا دشمن و مخالف اور باغی بن کر اس معاشرہ (اسلامی ریاست) میں رہ سکے جو لوگ بغاوت و سرکشی اختیار کریں اور خدائی حکمرانوں کے تحت آنے سے منکر ہوں ان کے خلاف وہی کاروائی کی جائے جو کسی بھی معاشرہ میں آئین و حکومت کے باغیوں کے خلاف ہوتی ہے، اسی حقیقت کو رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں خدائی حکمرانی باغیوں اور دین و شریعت کے دشمنوں کے خلاف اس وقت تک جنگ جاری رکھوں جب تک وہ اپنی سرکشی اور دشمنی کو ترک کے کے ہماری معاشرہ یعنی (اسلامی ریاست) میں رہنے کے حقوق حاصل نہ کرلیں اور انہیں یہ حقوق ملنے کی ایک تو یہی صورت ہے کہ وہ کفر و سرکشی کے بجائے ایمان و اسلام اختیار کرلیں یعنی صدق دل سے اس بات کا اقرار اور زبان سے اظہار کریں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، پھر اپنے عمل سے ثابت کریں کہ ان کا یہ اقرار اور زبان سے اظہار مخلصانہ ہے (یعنی اللہ اور اس کے رسول کے تمام احکام کی پیروی کریں) خصوصاً پابندی سے نماز پڑھیں، زکوٰۃ ادا کریں اور دوسرے فرائض پر عمل کریں۔ دوسری صورت (جس کا اس حدیث میں تو ذکر نہیں ہے۔ لیکن دوسری جگہوں پر ثابت ہے) یہ ہے کہ اگر وہ لوگ ایمان وا سلام کے دائرے میں نہیں آتا چاہتے مگر اسلامی ریاست میں اپنی وطنیت اور بودوباش کو باقی رکھنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دینی و مذہبی طور پر نہ سہی مگر سماجی و معاشرتی طور پر اسلامی ریاست کے تابع اور من پسند باشندے بن کر رہنے کا اقرار کریں جس کی علامت اس ٹیکس کی پابندی سے ادائیگی ہے جس کو اصطلاح میں جزیہ کہا جاتا ہے اس ٹیکس کی ادائیگی اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم کے تمام انسانی، سماجی اور شہری حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ اگر کوئی آدمی جزیہ نہ دینا چاہے تو اس کا متبادل یہ ہے کہ وہ اپنی محکومیت و مغلوبیت کا اقرار کر کے کسی خاص معاہدہ کے تحت سربراہ ریاست (رسول) سے صلح کرلے اور پناہ لے کر اسلامی ریاست میں رہے، اسلامی قانون اپنے مخصوص رحم و کرم کی بناء پر اس کے جان و مال اور عزت کے تحفظ کی ذمہ داری لے لے گا۔ بہر حال حدیث سے معلوم ہوا کہ جو آدمی ایمان و اسلام کے دائرہ میں داخل ہوجائے یا جزیہ ادا کر کے اور پناہ لے کر اسلامی ریاست کا باشندہ ہو اس کے جان و مال اور عزت کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کے اوپر ہوگی۔ اور ریاست اپنے اسلامی قانون کے تحت اس کے تمام انسانی، سماجی اور شہری حقوق کی نگہداشت کرے گی لیکن جہاں تک قانونی جرائم، سماجی بےاعتدالیوں اور بشری خطاؤں کا تعلق ہے ان کے بارے ہر حال میں مواخذہ ہوگا خواہ ان کا مرتکب کوئی مسلمان ہو یا ذمی کافر، اس معاملہ میں کسی کے ساتھ رعایت و چشم پوشی نہیں ہوگی، مثلاً اگر کوئی مسلمان یا ذمی کسی کو ناحق قتل کردیتا ہے تو اس کو قصاص (سزا) میں قتل کردیا جائے گا یا ایسے ہی کوئی زنا کرے گا تو اس پر حد جاری کی جائے گی اور اس کو پوری سزا دی جائے گی یا کسی نے کسی کا مال زبردستی ہڑپ کرلیا تو اس سے اس کا مال مالک کو واپس دلایا جائے گا، گویا قانون کی عملداری ہر حال میں قائم کی جائے گی جو آدمی بھی خلاف ورزی کرے گا اس کو ضرور سزادی جائے گی اسلامی حقوق اور قوانین کے نفاذ کے معاملہ میں کسی تخصیص اور رعایت کا سوال پیدا نہیں ہوگا۔ حدیث کے آخر میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے کہ شریعت اپنے قانون کے نفاذ میں ظاہری حیثیت پر حکم لگاتی ہے اور باطنی حالت کو اللہ کے سپرد کردیتی ہے یعنی اگر کوئی آدمی جان و مال کی حفاظت یا کسی غرض کے تحت بظاہر مسلمان بن جاتا ہے اور دل میں کفر و نفاق ہے تو اسلامی قانون اس کو مسلمان ہی تسلیم کرے گا، دل کا معاملہ اللہ کے سپرد رہے گا، اگر واقعی اس کے دل میں کھوٹ ہوگا تو آخرت میں اس کو نفاق کی سزا یقینا ملے گی، وہاں مواخذہ خداوندی سے نہ بچ سکے گا۔ یہ حدیث اس مسئلہ کی بھی دلیل ہے کہ ملحدوں اور زندیقوں کی توبہ قبول کی جاسکتی ہے یعنی اگر کوئی ملحد و زندیق آکر یہ کہے کہ میں الحادو زندقہ سے توبہ کرتا ہوں تو اس کی توبہ قبول کر کے اس کی جان لینے سے اجتناب کیا جائے گا۔ ویسے اس مسئلہ میں متعدد اقوال ہیں، ان میں سے ظاہر تر قول یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے بےدینی کا اظہار کیا اور اپنی زبان سے ایسے الفاظ نکالے جن سے اس کا منکر اللہ اور منکر دین ہونا معلوم ہوتا ہو پھر جلد ہی اس نے الحادو زندیقی سے برأت کی اور برضا ورغبت توبہ کرلی تو اس کی توبہ قبول ہوگی اور اگر اس کی توبہ محض جان پچانے کے لئے اور اسلامی قانون کی سزا سے بچنے کے لئے ہو تو پھر اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔

【12】

مسلمان کون ہے؟

اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی ہماری طرح نماز پڑھے ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرے اور ہمارے ذبیحوں کو کھائے وہ مسلمان ہے اور اللہ اور اللہ کے رسول کے عہد وامان میں ہے۔ پس جو آدمی اللہ کے عہد وامان میں ہے تم اس کے ساتھ عہد شکنی مت کرو۔ (صحیح البخاری ) تشریح اصل ایمان اگرچہ تصدیق قلبی کا نام ہے لیکن یہ ایک اندرونی کیفیت اور قلبی صفت ہے جس کا تعلق باطن سے ہے، اسی طرح اقرار اگرچہ زبان سے متعلق ہے مگر وہ بھی ایک قیمتی چیز ہے لہٰذا دو دینوں میں کھلا ہوا امتیاز ان کے علیحدہ علیحدہ شعار ہی کے ذریعہ ہوسکتا ہے، اسلامی معاشرہ میں نماز پڑھنا اور بیت اللہ کی طرف منہ کر کے عبادت کرنا اہل کتاب کے مقابلہ میں سب سے زیادہ امتیازی عمل ہے، اسی طرح معاشرتی لحاظ سے جس عمل اور طریقہ میں اہل کتاب مسلمانوں سے کھلا ہوا احتراز کرتے تھے وہ ان کا ذبیحہ تھا کہ مسلمانوں کا ذبح کیا ہوا گوشت اہل کتاب نہیں کھاتے تھے لہٰذا اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اگر عبادات میں وہ ہماری طرح قبلہ کی طرف رخ کرنے لگیں اور معاشرتی لحاظ سے وہ ہم سے اتنا قریب آجائیں کہ ہمارے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے لگیں تو یہ اس بات کی کھلی ہوئی شہادت ہوگی کہ وہ ہمارا دین پوری یقین کے ساتھ قبول کرچکے ہیں اور ایمان ان کے دل کی گہرائیوں تک پہنچ گیا ہے جس کا اظہار نہ صرف یہ کہ زبان سے بلکہ ان کے عمل سے بھی ہو رہا ہے کہ وہ دائرہ اسلام میں پوری طرح داخل ہوگئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ ان کا عہد و اقرار ہوگیا ہے ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا ذمہ اللہ اور اللہ کے رسول نے لے لیا ہے اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی بد معاملگی یا برا سلوک نہ کریں، نہ ان کو ستائیں نہ تکلیف دیں اور نہ ان کے ساتھ ایسا طور پر طریقہ رکھیں جس سے ان میں کسی قسم کا خوف و ہر اس یا دل شکستگی پیدا ہو، ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی بدمعاملگی اور بدسلوکی درحقیقت اللہ کے عہد کو توڑ نے اور اس عہد شکنی کا الزام اللہ پر عائد کرنے کے مترادف ہوگی۔

【13】

جنت میں لے جانے والے اعمال

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے کہ جس کے کرنے سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، فرض نماز پڑھو فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کر روزے رکھو یہ سن کر دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں نہ تو اس پر کچھ زیادہ کروں گا اور نہ اس میں سے کچھ کم کروں گا، جب وہ دیہاتی چلا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی کسی جنتی آدمی کو دیکھنے کی سعادت اور مسرت حاصل کرنا چاہے وہ اس آدمی کو دیکھ لے ۔ (صحیح البخاری ) تشریح یہاں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس دیہاتی کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ فرمایا مگر شہادتین کا ذکر نہیں کیا، حالانکہ بغیر شہادتین کے جنت میں داخل ہونا ناممکن ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو وہ دیہاتی یقینا مسلمان ہوگا جو ایمان لانے کے بعد جنت میں داخل کرنے والے عمل کے بارے میں سوال کر رہا تھا دوسرے یہ کہ سب ہی جانتے ہیں کہ بغیر شہادتین کے تمام اعمال بیکار ہیں اور اس کے بغیر جنت میں دخول ہی ممکن نہیں اس لئے شہادتین کے ذکر کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ یہاں صرف تین فرائض ذکر کئے گئے ہیں، بقیہ فرائض کا ذکر نہیں کیا گیا ؟ تو ہوسکتا ہے کہ جس وقت اس دیہاتی نے سوال کیا تھا اس وقت تک یہی تین چیزیں فرض ہوئی ہوں گی اور بقیہ فرائض بعد میں مشروع ہوئے ہوں گے، زیادتی اور کمی نہ کرنے کا عہد درحقیقت اس دیہاتی کے اعتقاد کی پختگی اور قلبی تصدیق کے مضبوط ہونے کی دلیل تھا گویا اس کا مطلب یہ تھا کہ میرے دل میں ایمان و اسلام کی لذت اور اس کی حقانیت و صداقت کی کیفیت اور آپ ﷺ کے احکام و فرمان کی بجا آوری کا داعیہ اس مضبوطی اور پختگی کے ساتھ ہے کہ نہ تو اس سوال پر کسی قسم کی زیادتی کی حاجت ہے اور نہ جواب کی مانعیت و جامعیت اور اس کی اہمیت کسی قسم کی کمی کی روا دار ہے ! چناچہ اس دیہاتی کے یقین کی اسی کیفت اور اس کی اسی شیفتگی و محبت اور احکام و شریعت کے مطابق اس کے اسی جذبہ اطاعت کو دیکھ کر لسان نبوت نے اس مخلص انسان کے جنتی ہونے کی خوشخبری سنائی اور اعلان فرمایا کہ اگر کسی آدمی کو تمنا ہو کہ جنتی آدمی کو دیکھے اور کسی جنتی کو دیکھنے کی مسرت اور سعادت حاصل کرنا چاہے تو اس آدمی کو دیکھ لے۔

【14】

ایمان کامل

حضرت سفیان بن عبداللہ الثقفی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کی خد مت اقدس میں عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھ کو اسلام کی کوئی ایسی بات بتا دیجئے کہ آپ کے بعد پھر مجھ کو کسی دوسرے سے پوچھنے کی ضرورت باقی نہ رہے اور ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ آپ ﷺ کے علاوہ کسی دوسرے سے پوچھنے کی حاجت نہ رہے آپ ﷺ نے فرمایا زبان و دل سے اس بات کا اقرار کرو کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس اعتراف و اقرار پر قائم رہو۔ (صحیح مسلم) تشریح یعنی سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت کی گواہی دو اور اس کی ذات اور تمام صفات پر صدق دل سے اعتراف و اعتقاد کے ساتھ ایمان لاؤ، یہ ایمان باللہ کی اعتقادی صورت ہے اور اس کی عملی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعہ جو شریعت اتاری ہے اس کی صداقت و حقانیت پر کامل یقین رکھو اور اس کو قبول کرکے احکام رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کرو، اللہ اور اللہ کا رسول جس چیز کے کرنے کا حکم دیں اس پر عمل کرو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ پھر یہ کہ اعتقاد و اطاعت کوئی وقتی و عارضی چیز نہ ہو بلکہ ان پر پختگی کے ساتھ قائم و دائم رہو اور زندگی کے کسی بھی لمحہ میں ان سے انحراف نہ کرو۔

【15】

فرائض اسلام

اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ فرماتے ہیں اہل نجد میں سے ایک آدمی رسول کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا جس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے، ہم اس کی آواز گنگناہٹ تو سن رہے تھے لیکن (فاصلہ پر ہونے کی وجہ سے) یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ آپ ﷺ سے کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے بالکل قریب پہنچ گیا تو ہم نے سنا کہ وہ اسلام کے (فرائض کے) بارے میں سوالات کر رہا ہے، رسول اللہ ﷺ نے (اس کے جواب میں) فرمایا رات دن میں پانچ نمازیں (فرض) ہیں ۔ (یہ سن کر) اس آدمی نے کہا کیا ان نمازوں کے سوا مجھ پر کچھ اور نمازیں بھی فرض ہیں آپ نے فرمایا نہیں ! مگر نفل نمازیں تمہیں پڑھنے کا اختیار ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور ماہ رمضان کے روزے (فرض) ہیں ۔ اس آدمی نے کہا کیا ان روزوں کے سوا کچھ اور روزے بھی مجھ پر فرض ہیں آپ نے فرمایا نہیں ! مگر نفل روزے رکھنے کا تمہیں اختیار ہے راوی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد زکوٰۃ کا ذکر فرمایا اس نے عرض کیا، اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی صدقہ فرض ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ! مگر نفل صدقے کا تمہیں اختیار ہے اس کے بعد وہ آدمی یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ اللہ کی قسم ! میں نہ تو اس پر کچھ زیادتی کروں گا اور نہ اس سے کچھ کمی کروں گا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اگر اس آدمی نے سچ کہا ہے تو نجات پا گیا ہے اور کامیاب ہوگیا ۔ (صحیح البخاری، مسلم) تشریح جیسا کہ پہلے ایک حدیث کے فائدہ میں گزرا، یہاں بھی یہی کہا جائے گا کہ جس وقت اس آدمی نے سوال کیا تھا اس وقت تک اتنے ہی فرائض مشروع ہوئے ہوں گے اسی طرح نماز وتر عیدین وغیرہ بھی واجب نہ ہوئی ہوں گی اسی واسطے اس آدمی نے اس میں زیادتی اور کمی نہ کرنے کا وعدہ کیا یا پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ آدمی کسی قوم کا نمائندہ اور ایلچی بن کر اسلام کی حقیقت اور فرائض جاننے آیا تھا تاکہ واپس جا کر اپنی قوم کو بھی اسلامی تعلیمات اور فرائض سے آگاہ کرے اسی لئے اس نے واپسی کے وقت کہا کہ نہ تو میں اس میں زیادتی کروں گا اور نہ کمی کروں گا، یعنی آپ ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے یا جو احکام و فرمان بتلائے ہیں وہ اسی طرح اپنی قوم تک پہنچادوں گا، ان میں نہ تو اپنی طرف سے کوئی زیادتی کروں گا اور نہ کوئی کمی۔

【16】

اسلام میں مبلغ کا مقام

اور حضرت عبداللہ ابن عباس ( حضور ﷺ کے حقیقی چچا حضرت عباس کے صاحبزادے ہیں جو خیر الامت کے لقب سے مشہور ہیں، ستر برس کی عمر میں بمقام طائف وفات پائی) ۔ بیان کرتے ہیں کہ جب وفد عبدالقیس رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں مدینہ پہنچا تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں یا یوں پوچھا کہ یہ کس قبیلے کا وفد ہے ؟ (راوی کو شک ہوا کہ آپ ﷺ نے یہاں، قوم کا لفظ فرمایا یا وفد کا) لوگوں نے جواب دیا کہ قبیلہ ربیعہ کے افراد ہیں آپ ﷺ نے فرمایا خوش آمدید (چونکہ تم لوگ خوشی سے مسلمان ہو کر آئے ہو اس لئے) نہ دنیا میں تمہارے لئے رسوائی ہے اور نہ آخرت کی شرمندگی، اہل وفد نے عرض کیا یا رسول اللہ ! چونکہ ہمارے اور آپ ﷺ کے درمیان کفار مضر کا (مشہور جنگ جو) قبیلہ رہتا ہے اس لئے ہم آپ کی خدمت میں جلد جلد حاضر نہیں ہوسکتے صرف ان مہینوں میں آسکتے ہیں جن میں لڑنا حرام ہے لہٰذا آپ ﷺ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ایسے احکام ہمیں عطا فرما دیجئے جن پر ہم خود بھی عمل کریں اور ان لوگوں کو (بھی) ہم اس سے آگاہ کردیں جن کو اپنے پیچھے (وطن و قوم میں) چھوڑ آئے ہیں اور اس پر عمل کرنے سے ہم جنت میں داخل ہوجائیں (اور اسی کے ساتھ) انہوں نے (ان) برتنوں کی بابت بھی پوچھا (جن میں نبیذ بنائی جاتی تھی کہ کون سے استعمال میں لائے جاسکتے ہیں اور کون سے نہیں) آپ ﷺ نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع کیا اور اول اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے کا حکم دیا اور فرمایا جانتے ہو اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا جانتے ہو اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانا) اس حقیقت کی شہادت دینا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، پابندی سے نماز پڑھنا، زکوٰۃ دینا اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا (ان چار باتوں کے علاوہ بعد میں آپ ﷺ نے) مال غنیمت میں سے پانچویں حصے کے دینے کا حکم بھی فرمایا۔ اور ان چار برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا لاکھ کئے ہوئے برتنوں سے، کدو کے تونبوں سے درخت کی کھوکھلی جڑوں سے بنائے ہوئے برتنوں سے، رال کئے ہوئے برتنوں سے اور فرمایا ان باتوں کو اچھی طرح یاد کرلو اور جن مسلمانوں کو اپنے پیچھے (وطن میں) چھوڑ آئے ہو ان کو بھی باتوں سے آگاہ کردو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم، الفاظ صحیح البخاری کے ہیں) تشریح اسلام کی آواز جب مکہ اور مدینہ کے اطراف سے نکل کر دوسرے علاقوں میں پہنچی تو مختلف مقامات کے قبیلوں اور قوموں کے افراد وفد کی شکل میں اسلامی تعلیمات کی حقیقت اور پیغمبر اسلام ﷺ کی دعوت کی صداقت کو جاننے اور سمجھنے کے لئے دربار سالت میں حاضر ہونے لگے۔ یہ وفود دینی تعلیمات اور اسلامی فرائض کو رسول اللہ ﷺ سے حاصل کرتے۔ احادیث میں ایسے بہت سے وفود کا ذکر آتا ہے جو اس سلسلہ میں دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور اسلام کی آواز کو دور دراز کے علاقوں اور قبیلوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے، ایسا ہی ایک وفد عبدالقیس ہے جس کا تذکرہ اس حدیث میں کیا جا رہا ہے۔ عبدالقیس دراصل سربراہ وفد کا نام تھا انہی کی نسبت سے یہ وفد مشہور ہوا۔ یہ لوگ بحرین کے باشندے تھے۔ اور آپ ﷺ کی خدمت میں دو مرتبہ حاضر ہوئے پہلی مرتبہ فتح مکہ سے پہلے ٥ ھ میں، اس وقت ان کی تعداد ١٣ یا ١٤، تھی، دوسری مرتبہ ٨ یا ٩ ھ میں جب ان کی تعداد چالیس تھی یہی وہ وفد ہے جس کے قبیلہ کی مسجد میں اسلام میں مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلے جمعہ قائم ہوا ہے چناچہ صحیح البخاری کی روایت ہے (حدیث اول جمعۃ بعد جمعۃ مسجد رسول اللہ ﷺ فی مسجد عبدالقیس بجواثی من البجرین) ۔ مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ بحرین کے مقام جواثی میں عبدالقیس کی مسجد میں ادا کیا گیا۔ اس وفد کی آمد کے سلسلہ میں یہ منقول ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا تھا کہ تمہارے پاس ابھی ایک ایسا قافلہ آنے والا ہے جو اہل مشرق میں سب سے بہتر ہے۔ سیدنا عمر ان کو دیکھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو انہیں تیرہ آدمیوں کا قافلہ آتا ہوا نظر آیا جب قافلہ قریب آیا حضرت عمر فاروق نے ان کو رسول اللہ ﷺ کی خوشخبری سنائی اور قافلہ کے ساتھ ساتھ دربار رسالت میں حاضر ہوئے، اہل قافلہ کی نظر جوں ہی روئے انور ﷺ پر پڑی سب کے سب بےتابانہ آپ ﷺ کی طرف دوڑ پڑے اور فرط اشتیاق سے اپنا سامان اسی طرح چھوڑ کر دیوانہ وار آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ کے دست مبارک چومنے لگے، حضرت عبدالقیس جو امیر قافلہ تھے اگرچہ نوعمر تھے لیکن سب سے پیچھے رہ گئے تھے، انہوں نے پہلے سب کے اونٹ باندھے پھر اپنا بکس کھولا، سفر کے کپڑے اتارے اور دوسرا لباس تبدیل کیا پھر سکون و وقار کے ساتھ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے دست مبارک کو بوسہ دیا آدمی بد شکل تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف نظر اٹھائی تو انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! آدمی کی محبت صرف اس ڈھانچہ سے نہیں ہوتی بلکہ اس کی قدر و قیمت اس کے دو چھوٹے اعضاء بتاتے ہیں اور وہ زبان و دل ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا تم میں دو خصلتیں ہیں جن کو اللہ و رسول پسند کرتے ہیں یعنی دانائی اور بردباری۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ خصلتیں مجھ میں پیدائشی ہیں یا کسبی ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پیدائشی ۔ اس قبیلہ کے افراد کو اپنے وطن سے مدینہ آنے کے لئے کفار مضر قبیلے کے پاس سے گزرنا پڑتا تھا اس قبیلہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہت زیادہ جنگ جو تھا۔ ان کی آبادی کے قریب سے جو بھی گزرتا تھا ان سے جنگ ہونی ضرور تھی اس لئے اس وفد نے کہا چونکہ ہمارے لئے عام دنوں میں آنا بہت مشکل ہے، اس لئے بار بار نہیں آسکتے، صرف ان ہی مہینوں میں آسکتے ہیں جو عرب میں اشہر حرام سمجھے جاتے ہیں، اہل وفد کو جن چیزوں کو تعلیم دی گئی وہ چار ہیں (١) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ (٢) نماز۔ (٣) روزہ۔ (٤) حج کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن بعض محدثین نے اس حدیث میں حج البیت کے الفاظ ذکر کئے ہیں جس کو حافظ ابن حجر نے شاذ قرار دیا ہے۔ ان لوگوں کو ایک حکم بعد میں جو بطور خاص دیا گیا وہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ ادا کرنے کا تھا اور ان کو یہ حکم اس لئے دیا گیا تھا کہ یہ لوگ اکثر جہاد کیا کرتے تھے اور کفار سے مقابلہ آرائی کے نتیجہ میں مال غنیمت حاصل کرتے تھے۔ جن چار چیزوں سے ان لوگوں کو منع کیا گیا وہ چار برتن تھے جن کے استعمال کی ان دنوں ممانعت تھی اصل میں یہ مخصوص قسم کے برتن ہوتے تھے جو اہل عرب کے ہاں شراب بنانے اور شراب رکھنے کے کام میں آتے تھے۔ چونکہ شراب حرام ہوچکی تھی اس لئے ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا گیا تاکہ اس سے شراب کی موجودگی یا شراب کے استعمال کا شبہ نہ ہو سکے مگر جب بعد میں شراب کی حرمت مسلمانوں کے دلوں میں پختگی کے ساتھ بیٹھ گئی اور برتنوں کے بارے میں یہ احتمال نہ رہا کہ یہ برتن خاص طور پر شراب ہی کے لئے بنائے جاتے ہیں تو ان کا استعمال مباح قرار دیا گیا، لہٰذا اب یہ حکم منسوخ مانا جائے گا ؛

【17】

احکامات اسلام

اور حضرت عبادہ بن صامت ( مشہور انصاری صحابہ میں سے ہیں جو بیعت عقبہ اولی و ثانیہ میں شریک تھے اہل صفہ کے معلم تھے، آپ نے ٧٢ سال کی عمر پا کر ٤٣ ھ میں وفات پائی ) فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کی اس جماعت کو جو آپ ﷺ کر گرد بیٹھی ہوئی تھی (مخاطب کر کے) فرمایا۔ مجھ سے ان باتوں پر بیعت (عہد و اقرار) کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے (افلاس، بھوک یا غربت کے ڈر سے) اپنے بچوں کو قتل نہ کرو گے، جان بوجھ کر کسی پر بہتان تراشی نہ کرو گے اور شریعت کے مطابق تمہیں جو احکام دوں گا اس کی نافرمانی نہیں کرو گے پس تم میں سے جو آدمی اس عہد و اقرار کو پورا کرے گا اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے (کہ آخرت میں اپنے انعامات سے نوازے گا) اور جو آدمی (سوائے شرک کے) ان میں سے کسی گناہ میں مبتلا ہوجائے اور پھر دنیا میں اس کو اس گناہ کی سزا بھی مل جائے (جیسے حد وغیرہ جاری ہو) تو یہ سزا اس کے (گناہ) کے لئے کفارہ ہوجائے گی۔ اور اگر اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کرنے والے کے گناہ کی ستر پوشی فرمائی (اور دنیا میں اسے سزا نہ ملی) تو اب یہ اللہ کی مرضی پر منحصر ہوگا کہ چاہے تو وہ (ازراہ کرم) آخرت میں بھی درگزر فرمائے اور چاہے اسے عذاب دے (راوی فرماتے ہیں کہ ہم نے ان سب شرطوں پر) آپ ﷺ سے بیعت کی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

【18】

عورتوں کے لئے آپ ﷺ کا فرمان

اور ابوسعید خدری ( آپ کا اصل نام سعد بن مالک بن شیبان ہے، ابوسعید آپ کی کنیت ہے اور خدری کی نسبت سے مشہور ہیں۔ ٧٤ میں جمعہ کے روز ٨٤ سال کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا) ۔ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (ایک مرتبہ) عید الفطر یا بقر عید کی نماز کے لئے عیدگاہ تشریف لائے تو عورتوں کی ایک جماعت کے پاس بھی تشریف لے گئے۔ ( جو نماز کے لئے ایک الگ گوشہ میں جمع تھیں) اور ان کو مخاطب کر کے فرمایا اے عورتوں کی جماعت ! تم صدقہ و خیرات کرو کیونکہ میں نے تم سے اکثر کو دوزخ میں دیکھا ہے (یہ سن کر) ان عورتوں نے کہا، یا رسول اللہ ! اس کا سبب ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم لعن و طعن بہت کرتی ہو اور اپنے شوہروں کی نافرمانی و ناشکری کرتی رہتی ہو اور میں نے عقل و دین میں کمزور ہونے کے باوجود ہوشیار مرد کو بیوقوف بنا دینے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا (یہ سن کر) ان عورتوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہماری عقل اور ہمارے دین میں کیا کمی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کیا ایک عورت کی گواہی آدھے مرد کی گواہی کے برابر نہیں ہے (یعنی کیا ایسا نہیں ہے۔ کہ شریعت میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر سمجھی جاتی ہے) انہوں نے کہا، جی ہاں ایسا ہی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا۔ اس کی وجہ عورت کی عقل کی کمزوری ہے اور کیا ایسا نہیں ہے کہ جس وقت عورت حیض کی حالت میں ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے، انہوں نے کہا جی ہاں ایسا ہی ہے آپ ﷺ نے فرمایا۔ یہ اس کے دین میں نقصان کی وجہ ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اسلام کے ابتدائی زمانہ میں عورتیں بھی مردوں کے ساتھ ہی مسجد میں نماز ادا کرتی تھیں اس لئے عیدالفطر یا بقر عبد کی نماز کے لئے بھی عورتیں عیدگاہ آئیں تھیں اور چونکہ وہ الگ ایک کونہ میں بیٹھی ہوئی تھیں اور خطبہ کی آواز ان تک نہیں پہنچی تھی، اس لئے ضروری ہوا کہ احکام اور دینی ضروریات کی باتیں ان تک پہنچائی جائیں، چناچہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و نصیحت سے مشرف فرمایا۔ اکثر عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ جہاں ایک دو مل کر بیٹھیں، کسی تقریب یا عورتوں کے مجمع میں پہنچیں بس ایک دوسرے کی غیبت کرنا، دنیا بھر کی برائی و بھلائی بیان کرنا اور لعن و طعن کی بوچھاڑ کرنا شروع کردیتی ہیں اور پھر ان کا زیادہ تر وقت ان خرافاتی باتوں میں گزرتا ہے۔ اسی طرح یہ بڑا روگ بھی ان عورتوں میں پایا جاتا ہے کہ ان کا شوہر ان کی آسائش اور ان کے راحت و آرام کے لئے کتنے ہی پاپڑ بیلے، کتنی ہی مشقت و محنت کر کے ان کی ضروریات کی تکمیل کرے۔ اور ان کو خوش رکھنے کے لئے کتنی ہی مصیبتیں اٹھائے مگر ان کی زبان سے کبھی بھی شوہروں کا شکر ادا نہیں ہوتا، ہمیشہ ناشکری ہی کے الفاظ ان کی زبان سے نکلتے ہیں، رہی شوہروں کی نافرمانی کی بات تو یہ برائی بھی عورتوں میں کچھ کم نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں عورتوں کے ایک بہت بڑے عیب کی غمازی کرتی ہیں۔ جس سے ان کے آخرت تباہ ہوتی ہے اور جو ان کو اللہ کے عذاب کا مستوجب بناتا ہے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ان کے اس خاص عیب کی نشان دہی فرمائی اور ان سے فرمایا کہ تمہارے اندر اس قسم کی جو باتیں ہیں ان کو ہلکا مت جانو، بلکہ یہ وہ گناہ ہیں جن کی وجہ سے اللہ کا عذاب تم پر ہوگا اور تم قہر خدواندی میں گرفتار ہو کر دوزخ میں دھکیل دی جاؤ گی اور تمہاری ان ہی باتوں کے سبب دوزخ میں تم عورتوں کی تعداد مردوں کی بنسبت زیادہ ہوگی، لہٰذا تم صدقہ و خیرات کرتی رہا کرو تاکہ ایک طرف تو اس کی برکت سے تمہارے اندر ان باتوں کی کمی آئے اور یہ عیب جاتا رہے دوسری طرف اللہ کی رحمت تمہاری طرف متوجہ ہو اور تمہارے گناہوں کی بخشش ہو۔ لعن (طعن) کے معنی ہیں، اللہ کی رحمت سے دور کرنا، حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کسی کو لعن طعن کرنا انتہائی بری حرکت ہے چناچہ شریعت کا حکم ہے کہ کسی آدمی کو متعین کر کے اس پر لعنت نہ بھیجی جائے چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ کسی متعین کافر پر لعنت بھیجنے کی ممانعت اس بنا پر ہے کہ نہیں کہا جاسکتا کہ کب اس کو ایمان و اسلام کی توفیق ہوجائے اور وہ کفر و شرک کی لعنت سے نکل کر اللہ کی رحمت کے سایہ میں آجائے۔ ہاں جو آدمی کفر کی حالت میں مرگیا ہو اور اس کا کفر پر مرنا یقینی طور پر معلوم ہو تو اس پر لعنت بھیجی جاسکتی ہے اسی طرح نفس برائی پر لعنت بھیجی جاسکتی ہے یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ کفر پر اللہ کی لعنت یا یہ کہ کافروں پر اللہ کی لعنت۔ عورتوں میں عقل کی کمی یا ان کے دینی نقصان کا اظہار عورتوں کی تحقیر کے لئے ہرگز نہیں ہے بلکہ قدرت کے اس تخلیقی توازن کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے جو مردوں اور عورتوں کے درمیان جسمانی و طبعی فرق صنفیت کی بنیاد ہے اور یہ فرق صنفیت دراصل فطرت کا تقاضا ہے جس کے بغیر نوع انسانی کا ذاتی و معاشرتی نظام زندگی برسر اعتدال نہیں رہ سکتا، خالق کائنات نے جسمانی، طبعی، عقلی اور دینی طور پر مرد کو عورت کی بہ نسبت جو برتر درجہ دیا ہے اور جس کا ثبوت اس حدیث سے واضح ہے وہ انسانی معاشرہ کے اعتدال و توازن کی برقراری کے لئے ہے نہ کہ شرف انسانیت میں کسی فرق کے اظہار کے لئے، اس شرف میں مرد و عورت دونوں کی یکساں حیثیت ہے اور دونوں مساوی درجہ رکھتے ہیں۔

【19】

انسان کو سر کشی زیب نہیں رہتی

اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم (انسان مجھ کو جھٹلاتا ہے اور یہ بات اس کے شایان نہیں اور میرے بارے میں بد گوئی کرتا ہے حالانکہ یہ اس کے مناسب نہیں ہے، اس کا مجھ کو جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اللہ نے مجھ کو (اس دنیا میں) پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے اسی طرح وہ (آخرت میں) مجھ کو دوبارہ ہرگز پیدا نہیں کرسکتا حالانکہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی مرتبہ پیدا کرنے کے مقابلہ میں مشکل نہیں ہے۔ اور اس کا میرے بارے میں بد گوئی کرنا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے، اللہ نے اپنا بیٹا بنایا ہے حالانکہ میں تنہا اور بےنیاز ہوں، نہ میں نے کسی کو جنا ہے اور نہ مجھ کو کسی نے جنا اور نہ کوئی میرا برابری کرنے والا ہے اور عبداللہ ابن عباس کی روایت میں اس طرح ہے اور اس (انسان) کا مجھے برا بھلا کہنا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ کا بیٹا ہے حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ کسی کو بیوی یا بیٹا بناؤں۔ (صحیح البخاری) تشریح جو لوگ یہ فرماتے ہیں کہ قیامت نہیں آئے گی اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک مرتبہ پیدا ہو کر مرجانے والوں اور اس دنیا سے اپنا وجود ختم کردینے والوں کو دوبارہ حیات ملے اور نئی دنیا (آخرت) کے لئے ان کا وجود پھر عمل میں آئے یا اسی طرح جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹا ثابت کرتے ہیں اور اس کا عقیدہ رکھتے ہیں جیسے عیسائیوں کا کہنا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں، یا یہودیوں کا کہنا کہ عزیر (علیہ السلام) اللہ کی اولاد ہیں، درحقیقت فکر و عقیدہ کی بےراہ روی ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ کی نسبت کرنا اور اس کی ذات پر بہتان باندھنا ہے۔ جھوٹ کی نسبت تو اس اعتبار سے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سچی کتابوں اور اپنے سچے پیغمبروں کے ذریعہ قیامت کی واضح خبر دی ہے اور بتایا ہے کہ ہر ذی روح کو مرنا ہے اور پھر آخرت میں دوبارہ زندہ ہو کر ایک نئی حیات پانا ہے جو ابدی ہوگی، اب اگر کوئی آدمی قیامت کا انکار کرتا ہے یا حیات بعد الموت کو ناممکن سمجھتا ہے تو دراصل وہ ظاہر کرتا ہے کہ (نعوذ با اللہ) اللہ جھوٹا ہے جس نے ان غلط باتوں کی ہمیں خبر دی ہے اسی طرح یہ تصور قائم کرنا اور کہنا کہ جو شحص ایک مرتبہ پیدا ہو کر ختم ہوچکا ہے وہ دوبارہ وجود نہیں پاسکتا، درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی صفت قادریت و خالقیت کا انکار کرنا ہے۔ ان نادانوں کی عقل میں یہ موٹی بات نہیں آتی کہ جو خالق کسی چیز کو عدم سے نکال کر وجود کا لباس پہنا سکتا ہے وہ اسی چیز کو جبکہ وہ ٹوٹ پھوٹ کر اپنا قلب کھو چکی ہو، دوبارہ قالب اور وجود عطا کیوں نہیں کرسکتا، محدود قدرت رکھنے والا انسان بھی کسی چیز کی تخلیق میں اگر کوئی دقت اور مشکل محسوس کرتا ہے تو پہلی مرتبہ کی تخلیق میں محسوس کرتا ہے جب کہ اسی چیز کو دوبارہ بنانا اس کے لئے زیادہ مشکل نہیں ہوتا، پھر لا محدود طاقت قدرت رکھنے والے خلاق عالم کو اپنی کسی تخلیق کو دوبارہ وجود دینے میں بھلا کیا دقت ہوسکتی ہے۔ واضح ہو کہ پہلی مرتبہ اور دوسری مرتبہ کی یہ تفصیل انسان کے اعتبار سے اور محض سمجھانے کے لئے ہے اس کا تعلق حق تعالیٰ کی ذات سے ہرگز نہیں ہے وہ تو قادر مطلق ہے، کسی چیز کو پیدا کرنا نہ اس کے لئے پہلی مرتبہ مشکل ہے اور نہ دوسری مرتبہ۔ اللہ کے بارے میں بد گوئی کے ذریعہ اس کی ذات پر بہتان باندھنا اس اعتبار سے ہے کہ جب اس نے واضح طور پر بتایا ہے کہ وہ تنہا، بےنیاز اور بےکفو ہے اور یہ کہ نہ اس کو کسی نے جنا اور نہ اس نے کسی کو جنا ہے تو پھر کسی کو اس کا بیٹا بنانا اس کو کسی کا باپ بتانا اس کی ذات پر بہتان تراشی نہیں تو اور کیا ہے ؟ ، یہ انسان کی ذہنی پستی اور فکر و خیال کی گراوٹ کی بات ہے کہ وہ اپنے خالق اور اپنے پروردگار کی طرف ایسی چیزوں کی نسبت کرے جس سے اس کی ذات پاک ہے، بےنیاز ہے۔

【20】

زمانہ کو برامت کہو

اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم (انسان) مجھے تکلیف دیتا ہے (اس طرح کہ) کہ وہ زمانے کو برا کہتا ہے حالانکہ زمانہ (کچھ نہیں وہ) تو میں ہی ہوں، سب تصرفات میرے قبضہ میں ہیں اور شب و روز کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے ۔ (بخاری، مسلم) تشریح جاہلوں کی عادت ہے کہ وہ انسانوں کو اپنی پیدا کی ہوئی پریشانیوں اور مصیبتوں کو برائی کی صورت میں زمانہ اور وقت کے سر پر ڈال دیتے ہیں اور اپنی زبان سے اس طرح کے الفاظ نکالتے ہیں زمانہ خراب ہے، بہت برا وقت ہے اس طرح وقت اور زمانہ کو برا کہنا نہایت غلط ہے کیونکہ زمانہ اور وقت تو کچھ بھی نہیں ہے، اصل متصرف حق تعالیٰ کی ذات ہے جس کے قبضہ میں لیل و نہار کی تبدیلی ہے اور اسی گردش لیل و نہار کا نام زمانہ اور وقت ہے، اگر زمانہ اور وقت کو متصرف سمجھ کر برا کہا جاتا ہے تو متصرف چونکہ اللہ تعالیٰ ہے اس لئے وہ برائی حق تعالیٰ کی طرف جاتی ہے۔

【21】

اللہ تعالیٰ کا صبر و تحمل

اور حضرت ابوموسی اشعری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تکلیف دہ کلمات سن کر اللہ تعالیٰ سے زیادہ صبر و تحمل کرنے والا کوئی نہیں، لوگ اس کے لئے بیٹا تجویز کرتے ہیں وہ اس پر بھی (ان سے انتقام نہیں لیتا بلکہ) ان کو عافیت بخشتا ہے اور روزی پہنچاتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح رب قدوس کی ذات اس سے پاک اور بالاتر ہے کہ کوئی انسان اگر اپنے قول و فعل سے اس کو تکلیف پہنچانا ہے چاہے، تو وہ کامیاب ہوجائے یا کوئی آدمی اس کو نقصان پہنچانا چاہے تو اسے نقصان پہنچ جائے اس لئے یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ واقعی اس کو انسان کے قول فعل سے تکلیف پہنچتی ہے اور وہ صبر و تحمل کرتا ہے اور نہ اس حدیث کا مقصد اس بات کو ظاہر کرتا ہے۔ اصل منشاء انسانی دل و دماغ کو جھنجوڑنا اور عقل و شعور کو بیدار کرنا ہے کہ جب اللہ کی اپنی بنائی ہوئی مخلوق اسی کے پیدا کئے ہوئے انسان اسی کے خزانہ قدرت سے مستفید ہونے والے لوگ اپنے قول و فعل سے اللہ کو ایذاء پہنچانے کے سامان تیار کرتے ہیں اس کو تکلیف دینے کا ادارہ کرتے ہیں جیسے اس کی نافرمانی کرنا اس کے احکام و ہدایات اور اس کے دین کا مذاق اڑانا اور اس کی طرف ان چیزوں کی نسبت کرنا جن سے اس کی ذات بالکل پاک اور منزہ ہے مثلاً کسی کو اس کا جوڑا قرار دینا تو یہ ایسی باتیں ہیں کہ جن پر اس کا غضب اگر بھڑک اٹھے تو نہ صرف ان لوگوں کا تمام نظام زندگی تباہ و برباد کر کے رکھ دے بلکہ پوری کائنات کو ایک ہی لمحے میں نیست و نابود کر ڈالے۔ مگر اس کے برداشت و تحمل کو دیکھو کہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے کے باوجود کوئی انتقامی کاروائی نہیں کرتا، کسی کی روٹی روزی بند نہیں کرتا، کسی کو زندگی کے وسائل و ذرائع سے محروم نہیں کرتا، جس طرح اس کے نیک اور اطاعت گزار بندے اس کے فضل و کرم کے سایہ میں ہیں اسی طرح بدکار اور سرکش بندے بھی اس کے خزانہ رحمت سے پل رہے ہیں اس کی نعمتوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔

【22】

توحید کی اہمیت

اور حضرت معاذ ( آپ کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے لیکن معاذ بن جبل کے نام سے معروف ہیں انصاری صحابی ہیں۔ ٤٨ سال کی عمر میں ١٨ ھ میں وفات پائی) ۔ فرماتے ہیں کہ (ایک سفر کے دوران سواری کے) گدھے پر میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میرے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان صرف کجاوے کا پچھلا حصہ حائل تھا، آنحضور ﷺ نے (مجھ سے) فرمایا معاذ ! جانتے ہو بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا۔ بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ پر بندوں کا یہ حق ہے کہ جس نے کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرایا ہو، اسے عذاب نہ دے (یہ سن کر) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں یہ خوشخبری لوگوں کو سنا دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ لوگوں کو یہ خوشخبری نہ سناؤ کیونکہ وہ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے (اور عمل کرنا چھوڑ دیں گے) ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح عرب کے گدھے ہماری طرف کے گھوڑوں سے بھی زیادہ تیز اور طاقتور ہوتے ہیں اس لئے وہاں سواری کے لئے گدھے بھی استعمال کئے جاتے تھے اور ان پر سواری کی جاتی تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس نے اللہ کو ایک مان لیا اس کی الوہیت و ربوبیت اور اس کی بھیجی ہوئی رسالت پر ایمان لے آیا اور اس کی عبادت و پرستش میں کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا تو اس پر عذاب نہیں ہوگا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی آدمی اللہ اور اللہ کے رسول پر ایمان لے آیا اور شرک کا مرتکب نہیں ہوا تو اس پر دوزخ کی آگ بالکل حرام ہوجائے گی۔ اگرچہ وہ کتنا ہی بد عمل اور بدکار ہو۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین اور کفار کی طرح اس پر ہمیشہ کے لئے عذاب مسلط نہیں کیا جائے گا اور نہ وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا بلکہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر آخر کار اسے جنت میں داخل کردیا جائے گا۔

【23】

دوزخ سے رہائی

اور حضرت انس راوی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے اس وقت جب کہ (سفر کے دوران) سواری پر تھے اور آپ ﷺ کے پیچھے معاذ بیٹھے ہوئے تھے۔ فرمایا اے معاذ انہوں نے کہا حاضر ہوں یا رسول اللہ آنحضور ﷺ نے پھر فرمایا اے معاذ معاذ نے عرض کیا یا رسول اللہ حاضر ہوں آپ ﷺ نے پھر تیسری مرتبہ مخاطب فرمایا اے معاذ معاذ نے پھر کہا یا رسول اللہ حاضر ہوں آنحضور ﷺ نے اسی طرح تین مرتبہ معاذ کو مخاطب کرنے کے بعد فرمایا اللہ کا جو بندہ سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں تو اس پر اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ حرام کردیتا ہے اور یہ سن کر معاذ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا میں اس (خوشخبری) سے لوگوں کو آگاہ کردوں تاکہ وہ اس خوشخبری کو سن کر خوش ہوجائیں، آپ ﷺ نے فرمایا نہیں لوگ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے (حضرت انس فرماتے ہیں کہ آخر کار معاذ نے اس خوف سے کہ حدیث چھپانے کا) گناہ نہ ہو اپنی وفات کے وقت اس حدیث کو بیان کردیا تھا۔ (بخاری ومسلم) تشریح آنحضور ﷺ نے معاذ کو بار بار اس لئے مخاطب فرمایا تاکہ ان کے دل و دماغ میں مضمون کی اہمیت و عظمت بیٹھ جائے اور وہ جان لیں کہ جو بات کہی جانے والی ہے وہ ایسی نہیں ہے کہ سر سری طور پر سن لی جائے بلکہ اس کی عظمت کا تقاضا ہے کہ اس کو پوری توجہ سے سنا جائے اور دل و دماغ کی گہرائیوں تک اس کو پہنچایا جائے۔ فرمایا گیا کہ جس نے اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کا اقرار صدق دل سے کرلیا اور اس پر دوزخ کی آگ حرام ہوجائے گی لیکن محض یہ تصدیق و اقرار ہی حرمت نار کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ اس شہادت و تصدیق کے ساتھ ساتھ اس کے جو تقاضے ہیں ان کو بھی پورا کیا جائے یعنی دین و شریعت کی پوری پیروی کی جائے اور احکام الٰہی و فرمان رسول کی فرمانبرداری کی جائے اور یہ شہادت و تصدیق جن فرائض کو عائد کرتی ہیں ان پر عمل کیا جائے، اس طرح اللہ کا فضل و کرم اسے دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے گا، اسی لئے جب حضرت معاذ نے رسول اللہ ﷺ سے اس خوشخبری کو عام لوگوں تک پہنچانے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ لوگ اس خوشخبری کو سن کر اسی پر بھروسہ کرلیں گے اور عمل کرنا چھوڑ دیں گے جس کا نیتجہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے یا پھر وہی تاویل کی جائے گی جو پہلے کی گئی ہے کہ دوزخ کے ابدی عذاب سے نجات کا ضامن ہے، یعنی جس طرح کفار و مشرکین دوزخ کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ جلائے جائیں گے۔ اس طرح عقیدہ توحید و رسالت پر ایمان رکھنے والوں کو دوزخ کی آگ میں ہمیشہ کے لئے نہیں ڈالا جائے گا، ان میں سے جس آدمی نے شریعت پر عمل نہیں کیا ہوگا اور فرائض و واجبات کو پورا نہیں کیا ہوگا اس کو اس عرصہ کے لئے جو اللہ چاہے گا دوزخ میں ڈالا جائے گا اور جب وہ اپنی سزا پوری کرلے گا تو پھر اس کو ہمیشہ کے لئے جنت میں بھیج دیا جائے گا۔

【24】

خاتمہ بالا یمان جنت کی ضمانت ہے

اور حضرت ابوذر غفاری (اصل نام جندب بن جنادہ ہے اور بوذر غفار کی کنیت سے مشہور ہیں، آپ مکہ میں بالکل ابتداء اسلام میں ایمان سے بہرہ ور ہوگئے تھے۔ آپ کا انتقال ٣٢ ھ میں ہوا ہے) ۔ فرماتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ ایک سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے (اس وقت تو میں واپس چلا آیا) پھر دوبارہ آپ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ ﷺ بیدار ہوچکے تھے آپ ﷺ نے (مجھ کو دیکھ کر) فرمایا جس آدمی نے صدق دل سے لا الہ الا اللہ (یعنی اللہ کی وحدانیت کا سچے دل سے اعتراف و اقرار کیا) اور اسی عقیدہ پر اس کا انتقال ہوگیا تو وہ ضرور جنت میں داخل کیا جائے گا میں نے عرض کیا اگرچہ اس نے چوری اور زنا (جیسے بڑے گناہوں) کا ارتکاب کیا ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں، خواہ وہ چوری اور زنا کے جرم کا مرتکب کیوں نہ ہو۔ میں نے پھر (تعجب سے) سوال کیا، اگرچہ اس نے چوری اور زنا کا ارتکاب ہی کیوں نہ کیا ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں خواہ وہ چوری اور زنا کے جرم کا مرتکب کیوں نہ ہو ؟ میں نے ( پھر تیسری بار بہت حیرت سے) عرض کیا، اگرچہ اس نے چوری اور زنا کے جرم کا ارتکاب کیا ہو ؟ (تیسری مرتبہ بھی) آپ ﷺ نے یہی فرمایا ہاں خواہ وہ چوری اور زنا کا مرتکب ہی کیوں نہ ہوا ہو اور خواہ ابوذر کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ (راوی فرماتے ہیں کہ) جب بھی حضرت ابوذر یہ حدیث بیان کرتے (بطور فخر) اس آخری فقرہ خواہ ابوذر کو کتنا ہی ناگوار گزرے ضرور نقل کرتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی ذات بےنیاز ہے اور اس کی رحمت بہت وسیع ہے۔ اس کے فضل و کرم سے کوئی بعید نہیں کہ وہ اس آدمی کو جنت میں داخل کر دے جو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا تھا مگر مرتے وقت اس کا دل ایمان و یقین کی روشنی سے منور تھا، تاہم محدثین اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ اس کی بخشش و مغفرت اس کے ایمان کی بنا پر تو ہر حال میں ہوگی یعنی اس کو ابدی نجات سے سرفراز کیا جائے گا مگر دنیا میں اس نے جو گناہ کئے ہوں گے اور جن بداعمالیوں کا مرتکب ہوا ہوگا پہلے ان کی سزا اس کو بھگتنی ہوگی۔ چناچہ ابوذر غفاری کو اسی لئے تعجب ہو رہا تھا اور وہ بار بار پوچھ رہے تھے کہ کیا کوئی آدمی محض اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت پر ایمان و اقرار کے بعد جنت میں داخل کردیا جائے گا خواہ اس نے شریعت کی اطاعت نہ کی ہو اور بڑے بڑے گناہوں کا مرتکب رہا ہو ؟ مگر حقیقت میں نگاہ نبوت اللہ کی وسیع و بہت زیادہ رحمت کو دیکھ رہی تھی کہ بڑے بڑے سرکش اور بدکار انسان جنہوں نے پوری زندگی اللہ و رسول کے احکام سے سرکشی میں گزاری، جن کی عمر کا کوئی حصہ شریعت کی اطاعت میں نہیں گزرا انہوں نے جب آخر میں ندامت و شرمندگی اور خلوص دل سے توبہ کرلی اور مرتے وقت ان کا دل ایمان و یقین کے نور سے منور ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کی بےپایاں رحمت نے اس توبہ وانابت اور ایمان و یقین کی بدولت جس نے سچائی اور اخلاص کے ساتھ ان کے اندر کی دنیا میں لمحہ میں انقلاب برپا کردیا تھا ان کی پوری زندگی کی سرکشی اور بدکاریوں کو معاف کردیا اور اپنے فضل و احسان کے سایہ میں لے کر ان کو ابدی نجات سے سرفراز کردیا۔

【25】

نجات کا دارومدار کس پر ہے

اور عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی اس بات کی گواہی دے (یعنی زبان سے قرار کرے اور دل سے سچ جانے) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ بلا شبہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور (اس بات کی بھی شہادت دے کہ) عیسیٰ (علیہ السلام) (بھی) اللہ کے بندے اور رسول اور اللہ کی لونڈی (مریم) کے بیٹے اور اس کا کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم کی جانب ڈالا تھا اور اللہ کی بھیجی ہوئی روح ہیں اور یہ کہ جنت و دوزخ حق (اور واقعی چیزیں) ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں ضرور داخل کرے گا خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس حدیث کا حاصل یہی ہے کہ ابدی نجات کا دار و مدار ایمان و عقائد کی اصلاح پر ہے اس میں کسی قسم کی کوتاہی قابل معافی نہیں سکتی، ہاں اعمال کی کمزوریاں رحمت الٰہی سے معاف ہوسکتی ہیں۔ ایمان کی بنیاد چونکہ توحید کو ماننا اور اس کی شہادت دینا ہے اس لئے سب سے پہلے اسے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اللہ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت و ربوبیت پر صدق دل سے اعتقاد اور یقین رکھا جائے پھر اس کے بعد رسالت کا درجہ ہے تو ضروری ہے کہ رسول کی رسالت پر ایمان لایا جائے اسی طرح تمام رسولوں کی رسالت پر ایمان رکھنا بھی نجات کے لئے ضروری ہے۔ یہاں صرف حضرت عیسیٰ کا ذکر علامت کے طور پر بھی ہے اور ایک خاص وجہ سے بھی دراصل ان کے بارے میں ایک گروہ (یعنی عیسائیوں) کا عقیدہ یہ ہے کہ عیسیٰ ابن اللہ ہیں۔ اس باطل عقیدہ کی تردید کے لئے ان کا ذکر کیا گیا اور وضاحت کردی گئی کہ عیسیٰ نہ تو اللہ کے بیٹے ہیں اور نہ اللہ ان کے اندر حلول کئے ہوئے ہے بلکہ وہ اللہ بندے اور اس کے رسول ہیں جسے اس نے اپنی ایک باندی مریم کے پیٹ سے پیدا کیا اسی لئے ان کو کلمۃ اللہ کہا جاتا ہے کہ ان کی پیدائش بغیر باپ کے صرف اللہ کے حکم کلمہ کن سے ہوئی۔ روح اللہ ان کو اس لئے نہیں کہا گیا کہ ان کے اندر اللہ کا کوئی جزو یا اللہ کی روح شامل ہے بلکہ روح اللہ آپ کا لقب اس لئے قرار دیا گیا کہ آپ اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے اور مٹی کی چڑیاں بنا کر اور ان میں جان ڈال کر اڑا دیا کرتے تھے۔ عقیدہ توحید و رسالت کے بعد تصور آخرت کا عقیدہ بھی بنیادی ہے یعنی اس بات پر ایمان و یقین رکھنا کہ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا برحق ہے اور جنت دروزخ واقعی چیزیں ہیں، یہ وہ عقائد ہیں جن کا ماننا، صدق دل سے ان پر ایمان رکھنا اور خلوص نیت سے ان کو تسلیم کرنا ابدی نجات کا ضامن ہے۔ ان عقائد کو مانتے ہوئے اگر اعمال کی کو تاہیاں بھی ہوں تو اس صورت میں بھی اس حدیث نے جنت کی خوشخبری دی ہے۔ لیکن جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے یہ بات طے ہے کہ جو عملی کو تاہیاں اور بداعمالیاں رحمت الٰہی سے معاف نہیں ہوں گی ان پر سزا ضرور ملے گی مگر سزا پوری ہونے کے بعد اس کو بھی جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ لہٰذا اس حدیث کو اس مفہوم میں لینا چاہیے کہ اگر ان عقائد کے ماننے کے بعد کسی نے اعمال بھی اچھے کئے، شریعت کی پیروی کرتے ہوئے تمام احکام بجالایا اور خلاف شرع کوئی کام نہیں کیا تو بغیر کسی عذاب و سزا کے اسے جنت میں داخل کیا جائے گا اور اگر کسی نے ان عقائد کو ماننے کے بعد اعمال اچھے نہ کئے شریعت کی پابندی نہیں کی، اللہ اور اللہ کے رسول کے احکام کی فرمانبرداری نہیں کی تو وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتے گا مگر آخر کار اسے جنت میں داخل کردیا جائے گا۔

【26】

قبول اسلام سے سابقہ گناہ مٹ جاتے ہیں

حضرت عمرو بن العاص (آپ مشہور و معروف قریشی صحابی ہیں آپ کی کنیت ابوعبداللہ یا ابومحمد بیان کی گئی ہے آپ کا سن وفات ٤٣ ھ بیان کیا جاتا ہے) ۔ فرماتے ہیں کہ میں (جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی سے میرے قلب و دماغ کو منور کیا تو) رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! لائیے اپنا ہاتھ آگے بڑھائیے میں آپ ﷺ سے اسلام کی بیعت کرتا ہوں، آپ نے (یہ سن کر) اپنا ہاتھ (جب) بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تو آپ ﷺ نے (حیرت سے) فرمایا عمرو یہ کیا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں کچھ شرط لگانی چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا کیا شرط ہے ؟ میں نے عرض کیا (میں چاہتا ہوں) کہ میرے (ان) تمام گناہوں کو مٹا دیا جائے (جو میں نے اسلام سے پہلے کئے تھے) آپ نے فرمایا اے عمرو ! کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام ان تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے جو قبول اسلام سے پہلے کئے گئے ہوں، ہجرت ان تمام گناہوں کو دور کردیتی ہے جو اس (ہجرت) سے پہلے کئے گئے ہوں اور حج ان تمام گناہوں کو مٹا دیا جائے جو اس حج سے پہلے کئے گئے ہوں (صحیح مسلم) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کردہ دونوں حدیثیں یعنی قال اللہ تعالیٰ ان اغنی الشر کاء عن الشرک الخ اور الکبریاء ردائی الخ ریاء اور کبر کے باب میں نقل کی جائیں گی، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ تشریح ایک شخص اگر اپنی زندگی کا ایک اچھا خاصہ کفر وشرک میں گزار کر بعد میں اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوتا ہے، تو کیا اس کے زمانہ اسلام سے پہل کے اعمال پر مواخذہ ہوگا ؟ یعنی کفر و شرک اور گناہ و معصیت جو اس سے پہلے صادر ہوتے رہے ہیں ان پر عذاب ہوگا یا نہیں ؟ اس حدیث نے اس مسئلہ کو صاف کردیا کہ اسلام کی روشنی پہلی تمام تاریکی کو خواہ وہ کفر و شرک کا اندھیرا ہو یا گناہ و معصیت کی ظلمت، آن واحد میں ختم کر ڈالتی ہے اور صرف ایک کلمہ کی بدولت جو خلوص دل سے نکلا ہو، انسان کا قلب و دماغ بالکل مجلی ہوجاتا ہے، نہ وہاں شرک کی ظلمتوں کا کوئی نشان رہ جاتا ہے اور نہ گناہ معصیت پر عذاب کا کوئی خدشہ، لیکن اتنی بات جان لینی چاہیے کہ بخشش اور مغفرت کا تعلق ذنوب اور گناہوں سے ہے، ان حقوق کے ساتھ نہیں ہے جو قرض، امانت، عاریت اور خریدو فروخت کے سلسلے میں اس کے ذمہ ابھی باقی ہیں کیونکہ اسلام ان مطالبات کی ادائیگی کو معطل نہیں کرتا جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے بلکہ اسلام لانے کے بعد بھی اس پر لازم رہے گا کہ وہ ان مطالبات کی ادائیگی کرے جو اس پر اسلام لانے سے پہلے واجب تھے، البتہ اس حدیث تحت ایسے حقوق العباد آسکتے ہیں جو زنا، چوری اور قتل و غارت گری کی صورت میں زمانہ اسلام سے قبل ناحق ضائع کردیئے گئے تھے، اسلام کے بعد ان پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ اسلام کی دولت سے مستفیض ہونے کے بعد بھی چونکہ ایک مسلمان سے بتقاضائے بشریت گناہ سرزد ہوسکتے ہیں اس لئے ان کے کفارہ کے لئے اس حدیث نے حج اور ہجرت دو ایسے عمل بتا دیئے کہ اگر یہ دونوں کام اپنی تمام شرائط کے ساتھ پورے کئے جائیں تو یہ حقوق اللہ کے لئے کفارہ بن جائیں گے بلکہ حج کے بارے میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے یہ حقوق العباد کے لئے بھی کفارہ بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اپنے خزانہ قدرت سے صاحب حقوق کو اس کے حقوق دے کر اس بندہ کو ان حقوق سے دستبرداری دلا دے اور اسے معاف کر دے۔ (ترجمان السنۃ)

【27】

ارکان دین

حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے کوئی عمل ایسا بتا دیجئے جو مجھ کو جنت میں لے جائے اور دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے، آپ ﷺ نے فرمایا حقیقت تو یہ ہے کہ تم نے ایک بہت بڑی چیز کا سوال کیا ہے لیکن جس پر اللہ تعالیٰ آسان کر دے اس کے لئے یہ بہت آسان بھی ہے پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز پابندی کے ساتھ ادا کرو، زکوٰۃ دو ، رمضان کے روزے رکھو اور خانہ کعبہ کا حج کرو، پھر اس کے بعد فرمایا اے معاذ ! کیا تمہیں خیر و بھلائی کے دروازوں تک نہ پہنچادوں (تو سنو) روزہ (ایک ایسی) ڈھال ہے (جو گناہ سے بچاتی ہے اور دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھتی ہے) اور اللہ کی راہ میں کرچ کرنا گناہ کو اس طرح مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے (اور اسی طرح) رات (تہجد) میں مومن کا نماز پڑھنا (گناہ کو ختم کردیتا ہے) پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (جس میں تہجد گزاروں اور رات میں اللہ کی عبادت کرنے والوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اس پوری آیت کا ترجمہ ہے) ان (مومنین صالحین) کے پہلو (رات میں) بستروں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف وامید سے پکارتے اور جو (مال) ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے وہ (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ ان (مومنین صالحین) کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے یہ ان کے اعمال کا صلہ (انعام) ہے جو وہ کرتے تھے، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں اس چیز (یعنی دین) کا سر اور اس کے ستون اور اس کے کوہان کی بلندی نہ بتادوں ؟ میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس چیز (دین) کا سر اسلام ہے، اس کے ستون نماز ہے اور اس کوہان کی بلندی جہاد ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا۔ کیا تمہیں ان تمام چیزوں کی جڑ نہ بتادوں ؟ میں نے عرض کیا ہاں اللہ کے نبی ضرور بتائیے آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور (اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا اس کو بند رکھو۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ہم اپنی زبان سے جو بھی لفظ نکالتے ہیں ان سب پر مواخذہ ہوگا، آپ نے فرمایا معاذ ! (دعا ثکتک امک) (تمہاری ماں تمہیں گم کر دے اچھی طرح جان لو کہ) (یہ ایک محا ورہ ہے جو عربی زبان میں اظہار تعجب کے لئے بولا جاتا ہے) ۔ لوگوں کو ان کے منہ کے بل یا پیشانی کے بل دوزخ میں گرانے والی اسی زبان کی (بری) باتیں ہوں گی۔ (مسند احمد بن حنبل، ترمذی، ابن ماجہ) تشریح اس حدیث میں دین کی تصویر بڑے نفیساتی انداز میں اجاگر کی گئی ہے۔ مطلب یہ کہ جس طرح کسی جسمانی وجود کا مدار سر پر ہوتا ہے کہ اگر سر کو اڑا دیا جائے تو جسمانی وجود بھی باقی نہیں رہے گا، اسی طرح ایمان و اسلام یعنی عقیدہ توحید و رسالت دین کے لئے بمننرلہ سر کے ہیں کہ اگر توحید و رسالت کے اعتقاد کو ہٹا دیا جائے تو دین کا وجود بھی باقی نہیں رہے گا، پھر جس طرح کسی جسمانی وجود کو برقرار رکھنے اور کار آمد بنانے کے لئے ستون اولین اہمیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح دین کا ستون نماز ہے۔ نماز ہی وہ بنیادی طاقت ہے جو دین کے وجود کو وابستہ اور قائم رکھتی ہے اگر نماز کو ہٹا دیا جائے تو دین کو وجود اپنی اصلی حالت کی برقراری سے محروم ہوجائے۔ اور پھر جس طرح کسی جسمانی وجود کو باعظمت بنانے اور اس کی شوکت بڑھانے کے کسی امیتازی اور منفرد وصف و خصوصیت کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح جہاد ضرورت ہے جس پر دین کی عظمت و شوکت اور ترقی و وسعت کا انحصار ہے اگر جہاد کو (خواہ وہ قلم سے ہو یا زبان سے اور خواہ تلوار سے ہو یا تبیلغی جدوجہد سے) اہل اسلام کے ملی وصف سے خارج کردیا جائے تو دین ایک بےشکوہ اور بےاثر ڈھانچہ بن کر رہ جائے۔ حدیث کا آخری حصّہ زبان سے متعلق اس ہدایت پر مشتمل ہے جو دین کو اضمحلال اور دینی گندگی کو گھن سے بچانے کے لئے ایک بڑے نفسیاتی نکتہ کی غماز ہے۔ مطلب یہ کہ دین کے وجود، دین کے بقا اور دین کی عطمت و شوکت کو پہنچانے کی جڑ زبان ہے زبان کو قابو میں رکھنا دین و دنیا کی فلاح و نجات کا پیش خیمہ ہے اور زبان کو بےقابو چھوڑ دینا خود کو دین و دنیا کی تباہی کی طرف دھکیل دینا ہے لہٰذا لازم ہے کہ زبان بند رکھی جائے یعنی منہ سے ایسے الفاظ نہ نکالے جائیں جو برائی فحاشی اور بدکلامی کے حامل ہوں، وہ برے کلام جو کفر امیز یا گناہ اور فحاشی کے ہوں، یا کسی کی غیبت کرنا، جھوٹ بولنا اور یا الزام تراشی کرنا ایسی برائیاں ہیں جن سے زبان و ذہن کی حفاظت نہ کی گئی تو سمجھ لو دوزخ کا عذاب سامنے ہے۔ دین و دنیا کی بھلائی چاہنے والے اور ابدی نجات وسعادت کے طلب گار اسی لئے اپنی زبان پر قابو رکھتے ہیں کہ نہ معلوم کب اس سے کوئی ایسا لفظ و کلام نکل جائے جس سے کفر بکنا یا گناہ و معصیت کی بات کہنا لازم آجائے اور پھر اس کی پاداش میں اللہ کا عذاب بھگتنا پڑے۔ درحقیقت زبان بہت بڑی وجہ سعات بنتی ہے جب اس سے نیک کلام اچھی باتیں، خیر و بھلائی کے الفاظ اور وعظ و نصیحت کے جملے نکلتے ہیں، دنیا و آخرت میں اسی انسان کا رتبہ بلند مانا جاتا ہے جو زبان کی عطمت و تقدیس کو ہر حال میں ملحوظ رکھے۔ بدکلامی اور بری باتوں سے بہر صورت اجتناب کرتا ہوں۔

【28】

ایمان کامل کیا ہے؟

اور حضرت ابی امامہ (اصل نام سدی بن عجلان بن حارث ہے مگر اپنی کنیت ابوامامہ سے مشہور ہیں، آپ قبیلہ باہلہ کی ایک شاخ سہم سے تعلق رکھتے تھے اس لئے آپ باہلی سہمی کہلاتے ٧ تھے آپ کی وفات ٨١ ھ میں بیان کی گئی ہے) ۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی اللہ ہی کے لئے محبت کرے اور اللہ ہی کے لئے بغض و عداوت رکھے اور اللہ ہی کے لئے خرچ کرے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی اللہ ہی کے لئے محبت کرے اور اللہ ہی کے لئے خرچ نہ کرے تو یقینا اس نے ایمان کو کامل کیا (ابوداؤد) اور ترمذی نے اس روایت کو معاذ بن انس سے کسی قدر تقدیم و تاخیر کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جس کے آخری الفاظ یہ ہیں تو یقینا اس نے اپنے ایمان کو کامل کیا۔ تشریح مطلب یہ کہ بندہ جو کام بھی کرے محض اللہ کی خوشنودی اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرے، اس کا کوئی بھی فعل و عمل کسی غرض فاسد، جذبہ نام و نمود اور نمائش و ریا کے تحت نہ ہو۔ مثلاً اگر وہ کسی سے محبت وتعلق رکھتا ہے یا کسی سے دشمنی و عداوت رکھتا ہے تو اس کی بنیاد محض نفس کی خواہش یا کسی دنیاوی مقصد و غرض پر نہ ہو بلکہ یہ دیکھے کہ کس آدمی سے محبت رکھنا اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے اس لئے وہ اس آدمی سے محبت وتعلق رکھے جو نیک، صالح، اطاعت گزار اور مخلص مومن و مسلمان ہوا اور چونکہ ایسے آدمی سے بغض و عداوت رکھنا ہی اللہ کو مطلوب ہے جو سرکش و نافرمانبردار ہو اس لئے اس سے بغض و عداوت رکھے اور اس سے محبت کا تعلق قائم نہ کرے۔ اسی طرح اپنا مال خرچ کرنے اور کرچ نہ کرنے کے بارے میں بھی اللہ ہی کی رضا و خوشنودی کو سامنے رکھے یعنی اگر خرچ کرے تو ایسی جگہ اور ایسے مصارف میں خرچ کرے جہاں خرچ کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہے اور جن مصارف میں خرچ کرنا اللہ کو مطلوب و پسندیدہ ہے، جہاں خرچ کرنا نہ صرف یہ کہ کوئی ثواب کا کام نہیں ہے بلکہ گناہ کو لازم کرتا ہے وہاں خرچ کرنے سے اجتناب کرے اور کسی ایسے آدمی یا جماعت کے ساتھ مالی امداد و معاونت نہ کرے جو اللہ کی نظر میں مقبول و پسندیدہ ہو یہی ہو چیز ہے جس کو تکمیل ایمان کا باعث قرار دیا گیا ہے۔

【29】

سب سے افضل عمل کیا ہے

اور حضرت ابوذر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (باطنی) اعمال میں سب سے افضل مرتبہ اس عمل کا ہے کہ اللہ ہی کے لئے (کسی سے) محبت ہو اور اللہ ہی کے لئے (کسی سے) بغض و عداوت رکھی جائے۔ (ابوداؤد) تشریح اگر بندہ کا احساس اتنا لطیف اور اس جذبہ اتنا پاکیزہ ہوجائے تو ظاہر ہے کہ قدم قدم پر یہی روشنی اس کی راہنمائی کرتی رہے گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ بری باتوں اور گناہوں سے بچتا رہے گا اور اچھی باتیں اور نیک کام کرتا رہے گا اسی لئے جذبہ کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے۔

【30】

سچا مومن کون ہے

اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (کامل اور سچا) مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذاء سے) مسلمان محفوظ رہیں اور (پکا و صادق) مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان و اپنے مال کو مامون سمجھیں (جامع ترمذی و سنن نسائی) اور شعب الایمان میں بیہقی نے فضالہ سے جو روایت نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ بھی ہیں اور (حقیقی) مجاہد وہ ہے جس نے اللہ کی اطاعت و عبادت میں اپنے نفس سے جہاد کیا اور (اصل) مہاجر وہ ہے جس نے تمام چھوٹے اور بڑے گناہوں کو ترک کردیا۔ تشریح صحیح معنی میں مومن وہی ہے جس کا وجود اللہ کی مخلوق کے لئے باعث اطمینان و راحت ہو، لوگوں کو اس پر پورا پورا اعتماد بھروسہ ہو۔ اس کی امانت و دیانت، عدالت و صداقت اور اخلاق و پاکیزگی اس طرح نمایاں ہو کہ نہ تو کسی کو اپنے مال کے ہڑپ کر لئے جانے کا خوف ہو اور نہ کسی کو اس کی طرف سے اپنی جان و آبرو کے نقصان کا خدشہ اور نہ کسی کے دل میں اس کی جانب سے کسی اور طرح کا خوف وہراس ہو۔ حقیقی مجاہد بھی وہ نہیں ہے جو دشمنوں سے جنگ کرتا ہے بلکہ مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس امارہ سے جہاد کرتا ہے اور اللہ کی راہ میں بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی خاطر نفس کی تمام خواہشات کو موت کے گھاٹ اتا دیتا ہے۔ ایسے ہی حقیقی مہاجر بھی وہ ہے جس نے ان تمام چیزوں کو ترک کردیا ہے جن سے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے منع کر رکھا ہو اس لئے کہ ہجرت کی حکمت یہی ہے کہ مومن طاعت الہٰی میں بغیر کسی رکاوٹ کے مصروف رہے اور اللہ نے جن چیزوں سے منع کردیا ہے ان سے بچتا رہے۔ مہاجر کی حقیقی شان یہی ہے۔

【31】

امانت اور ایفاء عہد کی اہمیت

اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا خطبہ کم دیا ہوگا جس میں یہ نہ فرمایا ہو کہ جس آدمی میں امانت نہیں اس کا ایمان بھی کچھ نہیں اور جس میں ایفاء عہد نہیں اس کا دین بھی کچھ نہیں۔ (شعب الایمان) تشریح امانت و دیانت اور ایفاء عہد وہ اعلیٰ اوصاف ہیں جن کا ہر مسلمان و مومن میں ہونا ضروری ہے ان اوصاف کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے یا خطبہ دیا کرتے تھے، تو امانت و دیانت اور ایفائے عہد کے بارے میں ضرور تاکید فرمایا کرتے تھے اس لئے مومن کی فطرت ہی امانت و دیانت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے اندر ان اوصاف کے جوہر فطری طور پر ہوتے ہیں جو زندگی کے ہر موڑ پر نیکی و بھلائی کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ اسی طرح ایفاء عہد بھی فطرت سیلم اور ایمان کا خاصہ ہے اسی لئے فرمایا گیا کہ جس آدمی کے اندر یہ اوصاف ہوں گے وہ دین و ایمان کی حقیقی لذت سے بھی لطف اندوز نہیں ہو سکے گا، تاہم اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا ایمان بالکل ہی ختم ہوجائے گا بلکہ ان اوصاف کی اہمیت و عظمت کی بنا پر مبالغہ سے کام لیا گیا اور تاکیدا اس طرح فرمایا گیا تاکہ ان کی اہمیت دلوں میں بیٹھ جائے۔

【32】

ابدی نجات کی ضمانت

حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس آدمی نے (سچے دل سے) اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ (اپنے فضل و کرم سے) اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دے گا۔ (صحیح مسلم)

【33】

توحید کی اہمیت

اور حضرت عثمان بن عفان (حضور ﷺ کے تیسرے خلیفہ اور مشہور و معروف صحابی ہیں، حضور کی دو بیٹاں یکے بعد دیگرے آپ کے عقد میں آئیں اسی وجہ سے آپ کا لقب ذوالنورین ہے۔ واقدی کے بیان کے مطابق ٨ ذی الحجہ ٣٥ ھ میں بروز جمعہ آپ کو باغیوں نے مدینہ منورہ میں شہید کیا) ۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جس آدمی نے اس (پختہ) اعتقاد پر وفات پائی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ جنتی ہے۔ (صحیح مسلم)

【34】

جنت اور دوزخ کو واجب کرنے والی باتیں

اور حضرت جابر (معروف انصاری صحابی ہیں آپ کے والد کا نام عبداللہ اور آپ کی کنیت ابوعبداللہ بیان کی گئی ہے۔ ٩٤ سال کی عمر میں ٦٢ ھ میں وفات پائی) ۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو باتیں (جنت اور دوزخ کو) واجب کرنے والی ہیں، ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ (جنت و دوزخ کو) واجب کرنے والی وہ دو باتیں کونسی ہیں ؟ آپ نے فرمایا پہلی بات تو یہ کہ جو آدمی اس حال میں مرا کہ اس نے کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا تھا تو وہ دوزخ میں ڈال دیا جائے گا (اور دوسری بات یہ کہ) جس آدمی کی وفات اس حال میں ہوئی کہ اس نے کسی کو اللہ کا شریک نہ کیا تھا تو وہ جنت میں جائے گا۔ (صحیح مسلم) تشریح ان احادیث کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی آدمی ایمان لایا اور اللہ کی وحدانیت اور اس کے ساتھ ساتھ رسول کی رسالت کا عہدو اقرار کیا اور پھر اس عہدواقرار کے تمام تقاضوں کو پورا کیا یعنی شریعت و دین کی پوری پوری پیروی کی اور پھر اسی اعتقاد و اطاعت پر اس کی موت آئی تو یہ یقینا جنتی ہے۔ اس کی نجات میں بظاہر کوئی شبہ نہیں ہوگا لیکن اگر ایمان و اسلام کے بعد اس سے عمل کی کو تاہیاں سرزد ہوئیں یا شریعت پر عمل نہیں کیا مگر خاتمہ اس کا بھی ایمان پر ہوا تو اس کی بھی ابدی نجات تو یقینا ہوگی لیکن اس سے دنیا میں جو کچھ بداعمالیاں ہوئیں یا گناہ سرزد ہوئے ان پر اس کو آخرت کی سزا بھگتنی ہوگی، سزا کے بعد پھر ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابدی نجات کا دار و مدار ایمان پر ہے اگر ایمان صحیح ہے اور اسی حالت میں موت واقع ہوئی ہے تو ابدی نجات میں کوئی شک نہیں۔ اور اگر کسی نے شریعت پر عمل نہیں کیا، احکام ٰخداوندی و احکام رسول کی پیروی نہیں کی تو اس پر سزا کا ہونا بھی یقینی ہے مگر اس سزا کا تعلق بھی ایک محدود مدت سے ہوگا، سزا پوری کرنے کے بعد وہ بھی ابدی نجات کی سعادت سے نوازا جائے گا۔

【35】

عقیدہ توحید پر قائم رہنے والوں کے لئے جنت کی خوشخبری

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) چند صحابہ رسول اللہ ﷺ کے گرد بیٹھے تھے اور ہمارے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق (رض) و حضرت عمر فاروق (رض) بھی تھے کہ رسول اللہ ﷺ اچانک ہمارے درمیان سے اٹھے اور کہیں باہر تشریف لے گئے۔ جب آپ ﷺ کو گئے ہوئے بہت دیر ہوگئی (اور واپس تشریف نہیں لائے) تو ہمیں سخت تشویش ہوئی کہ کہیں ہماری غیر موجودگی میں کسی دشمن کی جانب سے آپ ﷺ کو کوئی ایذاء نہ پہنچ جائے (اس خیال سے) ہم گھبرائے اور اٹھ کھڑے ہوئے، چونکہ سب سے پہلا آدمی میں تھا جو گھبرا اٹھا اس لئے (سب سے پہلے) میں رسول اللہ ﷺ کی تلااش میں باہر نکلا اور ڈھونڈتا ہوا قبیلہ بنی بخار کے ایک انصاری کے باغ کے قریب پہنچ گیا ( اس خیال سے کہ شاید آپ ﷺ اس باغ کے اندر ہوں) میں نے (اندر جانے کے لئے) چاروں طرف دروازہ تلاش کیا مگر (اضطراب اور گھبراہٹ میں) دروازہ نظر نہیں آیا۔ اچانک ایک نالی نظر آئی جو باہر کے کنوئیں سے باغ کے اندر جا رہی تھی لہٰذا میں سمٹ سکٹر کر اس نالی میں داخل ہوا اور اس کے ذریعہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں پہنچ گیا۔ آپ ﷺ نے (اس اچانک اپنے سامنے مجھے دیکھ کر حیرت سے) فرمایا ابوہریرہ تم ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ نے فرمایا کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ ﷺ کو ڈھونڈھتا ہوا اس باغ تک آنکلا (یہاں دروازہ نظر نہیں آیا) تو لومڑی کی طرح سکڑ کر (نالی کے راستہ سے) اندر گھس آیا، بقیہ لوگ بھی میرے پچھے آرہے ہوں گے (یہ سن کر) آپ ﷺ نے اپنی دونوں جوتیاں نکال کر مجھے دیں اور فرمایا اے ابوہریرہ ! جاؤ اور ان جوتیوں کو اپنے ساتھ لے جاؤ (تاکہ لوگ جان لیں کہ تم میرے پاس سے آئے ہو) اور باغ کے باہر جو آدمی صدق دل اور پختہ اعتقاد سے یہ گواہی دیتا ہوا تمہیں ملے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو اس کو جنت کی خوشخبری دے دو (حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اس پیغام کو لے کر میں باہر نکلا تو) سب سے پہلے حضرت عمر (رض) سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پوچھا ابوہریرہ ! یہ جوتیاں کیسی ہیں ؟ میں نے کہا یہ جوتیاں رسول اللہ ﷺ کی ہیں آپ نے مجھے یہ جوتیاں (نشانی کے طور پر) دے کر اس لئے بھیجا ہے کہ جو آدمی صدق دل اور پختہ اعتقاد کے ساتھ یہ گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں تو میں اس کو جنت کی خوشخبری دے دوں (یہ سنتے ہی) عمر فاروق (رض) نے میرے سینے پر اتنے زور سے ہاتھ مارا کہ میں سرین کے بل نیچے گرپڑا اور پھر انہوں نے کہا ابوہریرہ جاؤ واپس جاؤ۔ چناچہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں واپس لوٹ آیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ادھر عمر فاروق (رض) کا خوف مجھ پر سوار ہی تھا اب کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بھی میرے پیچھے پیچھے آپہنچے۔ سرکار دو عالم ﷺ نے (یہ حالت دیکھ کر) فرمایا۔ ابوہریرہ ! کیا ہوا ! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں آپ ﷺ کا پیغام لے کر باہر نکلا تو) سب سے پہلے میری ملاقات عمر فاروق (رض) سے ہوئی۔ میں نے آپ ﷺ کا وہ پیغام ان تک پہنچایا (انہوں نے اس کو سنتے ہی) میرے سینے پر اتنے زور سے ہاتھ مارا کہ میں سیرین کے بل زمین پر آپڑا اور پھر انہوں نے کہا کہ واپس چلے جاؤ، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے (حضرت عمر فاروق (رض) سے بوچھا عمر تم نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ ﷺ پر میرے ماں باپ قربان، کیا واقعی آپ ﷺ نے ابوہریرہ (رض) کو اپنی جوتیاں دے کر اس لئے بھیجا تھا کہ جو آدمی صدق دل اور پختہ اعتقاد کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہتا ہوا ملے اس کو یہ جنت کی خوشخبری دے دیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں ! عمر فاروق (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایسا نہ کیجئے، مجھے ڈر ہے کہ لوگ کہیں اسی خوشخبری پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں (اور عمل کرنا ہی چھوڑ دیں) اس لئے آپ ﷺ انہیں ( زیادہ سے زیادہ) عمل میں لگا رہنے دیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اگر تمہارا یہی مشورہ ہے) تو پھر لوگوں کو عمل میں لگا رہنے دو ۔ (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ نے جنت کی جو خوشخبری حضرت ابوہریرہ (رض) کے ذریعہ لوگوں تک پہنچانا چاہی تھی اس کا تعلق عقیدہ توحید اور ایمان با اللہ میں اخلاص اور پختگی کے ساتھ تھا، مطلب یہ کہ جس آدمی نے اس کیفیت کے ساتھ اللہ کو ایک اور اپنا معبود پروردگار مان لیا اور اسی عقیدہ پر آخر تک قائم رہا کہ نہ تو وہ اپنے دل و دماغ میں کسی قسم کی کوئی گرانی، تنگی اور دباؤ محسوس کرتا ہے اور نہ اس عقیدہ کے تئیں کسی شک و شبہ کا شکار ہوتا ہے بلکہ اس کے قلب و ذہن اور احساس و فکر کی دنیا و اعتماد اور اطیمنان و مسرت سے سر شار رہتی ہے، کسی دنیاوی غرض و مفاد و ریاء، و نمائش اور نفاق کی بجائے خلوص و للّٰہیت اور رضائے الہٰی کا جذبہ اور تقاضا ہی اس کے ایمان اور عقیدہ کی بنیاد ہے تو ایسا آدمی یقینا جنت کی ابدی سعادتوں کا حقدار ہوگا رہا سوال حضرت عمر فاروق (رض) کے رویہ کا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے قاصد حضرت ابوہریرہ (رض) کو اس خوشخبری کی اشاعت سے کیوں روک دیا اور یہ کہ ان کا رویہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں رکاوٹ ڈالنے اور ذات رسالت پناہ کی عظمت و حرمت کے منافی طرز عمل اختیار کرنے کے مترادف تھا یا نہیں ؟ تو اس سلسلہ میں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس خوشخبری کا تعلق دین و شریعت کے کسی حکم و مسئلہ کے نفاذ و اشاعت سے تھا یا کسی خاص جذبہ و احساس کے ظہار سے۔ ظاہر ہے وہ کسی مسئلہ کی مشروعیت کی بات نہیں تھی کسی حلال یا حرام کا حکم بیان کرنا نہیں تھا، کسی فرض یا واجب کو نافذ کرنا نہیں تھا بلکہ وہ تو محض رحمت دو عالم ﷺ کی نہایت شفقت و محبت کا ایک جذبہ تھا جو اہل ایمان کے تئیں بےاختیار امنڈ آیا تھا اور اس (خوشخبری) کی صورت میں ایک ایک صاحب ایمان تک پہنچ جانا چاہتا تھا۔ چناچہ یہ خوشخبری جب حضرت عمر فاروق (رض) تک پہنچی اور انہوں نے فوری طور پر محسوس کیا کہ گو یہ خوشخبری اپنی جگہ ایک اہم حقیقت ہے لیکن مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ اس ابتدائی مرحلہ میں اس کو عام مسلمانوں تک نہ پہنچے دیا جائے اور بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اس مصلحت و حکمت تقاضا یہ ہے کہ اس ابتدائی مرحلہ میں اس کو عام مسلمانوں تک نہ پہنچے دیا جائے اور بارگاہ رسالت حاضر ہو کر اس مصلحت و حکمت کا اظہار کردیا جائے جس پر رحمت عالم ﷺ کی نہایت محبت و شفقت کا شدید جذبہ غالب آگیا ہے، لہٰذا انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کو واپس کردیا اور پھر فوراً رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، صورت حال کی تحقیق کے بعد جب یہ اطیمنان ہوگیا کہ ابوہریرہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مامور تھے اور آپ ﷺ ہی نے یہ خوشخبری عطا فرمائی تھی تو انہوں نے اپنے محسن اور رسول کے مشن کی کامیابی اور مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک مخلص اور بیدار مغز خادم کی حیثیت سے اپنا مشورہ بارگاہ رسالت میں پیش کردیا۔ پھر یہ ہوا کہ جوں ہی حضرت عمر فاروق (رض) نے اپنے مشورے میں اس مصلحت کی طرف توجہ دلائی خود رسول اللہ ﷺ کا ذہن بھی ادھر منتقل ہوگیا اور آپ ﷺ خود بھی فرماہی چکے تھے کہ اگر اس طرح کی خوشخبری عام مسلمانوں تک پہنچ گئی تو وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے اور عمل کرنا چھوڑ دیں گے (دیکھئے اسی باب کی حدیث ٢١) لہٰذا آپ ﷺ نے اپنے ایک صائب الرائے مشیر اور مخلص خادم کے مشورے کی قدر دانی فرمائی اور اس خوشخبری کی اشاعت کا حکم واپس لے لیا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر اس خوشخبری کی جگہ کسی شرعی حکم کی اشاعت کا معاملہ ہوتا یا کسی فرض و واجب چیز کے نفاذ کی بات ہوتی تو خود حضرت عمر فاروق (رض) کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کی نہ جرات ہوتی۔ اور نہ وہ حضرت ابوہریرہ (رض) کو واپس کر کے اس اشاعت کو روک دیتے بلکہ ایک سچے و مخلص مومن اور فرمانبردار خادم کی حیثیت سے سب سے پہلے اس کو قبول کرتے اور اس فرمان رسالت کی اشاعت میں خود لگ جاتے اور بفرض محال حضرت عمر (رض) اگر ایسے معاملہ میں بھی وہی رویہ اختیار کرتے تو پھر بارگاہ رسالت میں نہ ان کے اس رویہ سے چشم پوشی ہوتی اور نہ ان کے کسی مشورے اور رائے کو اہمیت اور قبولیت کا درجہ ملتا۔ کیونکہ دینی احکام اور شرعی ہدایات میں نہ کسی مشورے اور رائے کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ کسی کی رائے اور مشورہ کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے۔ پس یہ بات کہ بارگارہ رسالت میں حضرت عمر (رض) کی رائے کو اہمیت دی گئی اور ان کا مشورہ قبول ہوا، خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے مذکورہ رویہ سے نہ ان کی شان صحابیت پر کوئی فرق پڑا اور نہ رسول اللہ کی حکم عدولی ہوئی لہٰذا اس حدیث سے اگر کوئی آدمی اس طرح کی بات ثابت کرتا ہے تو اس کی اپنی نادانی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس حدیث سے اگر ایک طرف اللہ کی بےپایاں رحمت اور امت کے تئیں رسول اللہ ﷺ کی انتہائی محبت و شفقت کا اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف حضرت عمر (رض) کی اصابت رائے، فہم و فراست، بصیرت و دانائی اور امر حق میں ان کی صاف گوئی اور اظہار خیال کی جرات پر بھی روشنی پڑتی ہے جو ان کا خصوصی وصف کمال ہے۔

【36】

جنت کی کنجی

اور حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا (سچے دل اور پختہ اعتقاد کے ساتھ) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، جنت کی کنجیاں (حاصل کرنا) ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

【37】

کلمہ توحید نجات کا ذریعہ

اور حضرت عثمان غنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو صحابہ کی ایک جماعت پر رنج و حزن کا اتنا غلبہ تھا کہ ان میں بعض لوگوں کے بارے میں تو یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں شک و شبہ میں گرفتار نہ ہوجائیں (یعنی اس واہمہ کا شکار ہوجائیں کہ جب رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوگئے تو دین و شریعت کا قصہ بھی تمام ہوگیا) حضرت عثمان غنی (رض) فرماتے ہیں کہ ان لوگوں میں سے ایک میں بھی تھا۔ چناچہ (اس عظیم حادثہ سے سخت پریشان خیال اور غم واندوہ کا بت بنا) میں بیٹھا تھا کہ (اسی حالت میں) حضرت عمر (رض) میرے پاس سے گزرے اور مجھ کو سلام کیا، (حو اس باختہ ہونے کی وجہ سے) مجھے پتہ نہیں چلا (کہ وہ کب میرے پاس سے گزرے اور کب سلام کیا) حضرت عمر فاروق (رض) نے اس بات کی شکایت حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے کی، حضرت ابوبکر صدیق (رض) حضرت عمر فاروق (رض) کے ساتھ میرے پاس آئے اور دونوں نے مجھے سلام کیا، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مجھ سے پوچھا، تم نے اپنے بھائی عمر فاروق (رض) کے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ میں نے کہا ! ایسا نہیں ہوا۔ (یعنی مجھے اس کا علم نہیں کہ عمر (رض) نے آکر مجھے سلام کیا ہو اور میں نے جواب نہ دیا ہو) حضرت عثمان غنی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے کہا ! واللہ مجھے قطعًا اس کا احساس نہیں کہ آپ میرے پاس آئے تھے اور نہ ہی آپ نے سلام کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا عثمان غنی (رض) سچ فرماتے ہیں، (لیکن معلوم ہوتا ہے کہ) کسی خاص وجہ نے تمہیں اس سے باز رکھا ( کہ نہ تو عمر فاروق (رض) کے آنے کی تمہیں خبر ہوئی اور نہ تم ان کے سلام کا جواب دے سکے) میں نے کہا ! ہاں ہوسکتا ہے، انہوں نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ میں نے کہا (سرکار دو عالم ﷺ کی وفات ہی کیا کم صبر آزما تھی کہ اب یہ غم بھی کھائے لیتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے لیکن ہم آپ ﷺ سے یہ دریافت نہ کرسکے کہ اس معاملہ یعنی عبادت میں وسوسوں کا پیدا ہونا، شیطان کا بہکانا، یا دوزخ کی آگ) سے نجات کا ذریعہ کیا ہے ؟ ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا ! (تم غم نہ کھاؤ) میں اس بارے میں آنحضور ﷺ سے پہلے پوچھ چکا ہوں، حضرت عثمان غنی (رض) فرماتے ہیں کہ) میں ( بےاختیار) کھڑا ہوگیا اور بولا آپ پر میرے ماں باپ قربان، واقعی آپ ہی (آنحضور سے کمال رکھنے اور حصول علم کے غلبہ شوق کی وجہ سے) اس بارے میں سوال کرنے کے لئے لائق تر تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا ! میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اس معاملہ میں نجات کی کیا صورت ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس آدمی نے (خلوص دل کے ساتھ) ہم سے وہ کلمہ توحید قبول کرلیا جسے میں نے چچا ابوطالب کے سامنے پیش کیا تھا اور انہوں نے اس کو قبول نہیں کیا تھا تو وہ کلمہ اس آدمی کی نجات کا ضامن ہوگا۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح گویا کلمہ توحید کے یہ فضائل و برکات ہیں کہ جس آدمی نے اس کلمہ کو صدق دل سے اور پختہ اعتقاد کے ساتھ قبول کرلیا اور اس کے تقاضوں کو پورا کر کے دین کے فرائض پر عمل کیا تو وہ کلمہ آخرت میں اس کی نجات کا ضامن ہوگا اور کلمہ گو اس کی برکتوں سے وہاں کی سعادتوں سے نوازا جائے گا اور اگر اس کلمہ کا ورد رکھا جائے اور اس کو اکثر پڑھا جاتا رہے اور اس کا ذکر پابندی سے رہے تو دنیا میں بھی اس کی برکت اس طرح ظاہر ہوگی کہ اس کلمہ کی بدولت فکر و خیال اور عمل پر شیطان کو تسلط حاصل نہیں ہو پائے گا کہ نہ واہمے اور وسوسے پیدا ہوں گے، نہ نماز و عبادت کے دوران خیالات بھٹکتے پھریں گے اور نہ دل و دماغ شکوک و شبہات کی آماجگاہ بنیں گے بلکہ اس مبارک ورد و ذکر سے ذات الہٰی کی معرفت حاصل ہوگی، آخرت سے لگاؤ ہوگا اور رسول برحق ﷺ سے محبت وتعلق کی خاص کیفیت پیدا ہوگی۔

【38】

پوری دنیا میں کلمہ توحید پہنچے کی پیشگوئی

اور حضرت مقداد ( آپ مقداد بن سود کندی کے نام مشہور ہیں اور قدیم الاسلام ہیں، مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر مقام جرف میں بعمر ٧٠ سال انتقال ہوا نعش مبارک وہاں سے مدینہ منورہ لائی گئی اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے) سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ! زمین کے اوپر کوئی گھر، خواہ وہ مٹی کا ہو یا خیمہ کا، ایسا باقی نہ رہے گا جس میں اللہ تعالیٰ اسلام کے کلمہ کو معزز کی عزت کے ساتھ اور ذلیل کی رسوائی کے ساتھ داخل نہ کرے (چنانچہ جو لوگ اس کلمہ کو بخوشی اور صدق دل سے قبول کرلیں گے) ان کو اللہ تعالیٰ معزز مفتخر بنائے گا اور اس کلمہ کا اہل قرار دے گا اور (جو لوگ بخوشی قبول نہیں کریں گے) ان کو اللہ تعالیٰ ذلیل کرے گا اور وہ لوگ اس کلمہ کے مطیع و فرمانبردار ہونے پر مجبور ہوں گے (بایں طور کہ وہ جزیہ ادا کر کے ہی اسلامی ریاست میں رہ سکیں گے) میں نے ( یہ سن کر) کہا پھر تو چاروں طرف اللہ ہی کا دین ہوگا۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح زمین سے مراد جزیرۃ العرب ہے، اسی طرح مٹی اور خیمہ کے گھر سے مراد جزیرۃ العرب کے شہر اور گاؤں ہیں یعنی پورے عرب میں صرف ایک دین اسلام کا بول بالا ہوگا اور صرف اسی کے پیرو متبعین سر زمین عرب پر ہوں گے کوئی مکان خواہ اس شہر کا ہو یا دیہات کا ایسا باقی نہ رہے گا جس میں اللہ تعالیٰ اسلام کا کلمہ نہ پہنچا دے گا اگر کوئی بخوشی اور برغبت ایمان لے آئے گا اور اسلام قبول کرلے گا تو اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس کا مرتبہ بلند ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت دونوں جگہ اس کو عزت و سرفرازی سے نوازیں گے، لیکن جو لوگ غرور و سرکشی اختیار کریں گے یعنی اس کلمہ کو قبول کر کے دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوں گے اور رضا ورغبت کے ساتھ دین کے تابعدار نہیں ہوں گے وہ ذلت کا طوق خود اپنے گلے میں ڈالیں گے بایں طور پر کہ جب تمام جزیرۃ العرب پر دین اسلام کی عملداری ہوجائے گی تو وہ کافر و سرکش لوگ جزیہ کی ادائیگی کی صورت میں اسلامی نظام حکوت کا تابعدار بننے پر مجبور ہوں گے اور اس طرح نہ صرف اس دنیا میں اللہ تعالیٰ ان کو بےوقعت اور کم تر بنا دے گا بلکہ آخرت میں بھی ان کو اپنی رحمت سے دور رکھے گا اور سخت عذاب میں مبتلا کر کے ذلیل و رسوا کرے گا۔

【39】

جنت کی کنجی

اور حضرت وہب بن منبہ ( وہب بن منبہ تابعی ہیں کنیت ابوعبداللہ ہے۔ ١١٤ ھ میں آپ کی وفات ہوئی) سے مروی ہے کہ کسی نے ان سے سوال کیا، کیا لا الہ الا اللہ جنت کی کنجی نہیں ہے ؟ وہب نے کہا بےشک، لیکن کنجی میں دندانے بھی ضروری ہیں پس اگر تم ایسی کنجی لے کر آئے جس میں دندانے موجود ہیں تو (یقینا) اس سے جنت کے دروازے کھل جائیں گے ورنہ تمہارے جنت کے دروازے نہیں کھلیں گے۔ (بخاری ترجمۃ الباب) تشریح حضرت وہب بن منبہ اپنی مجلس و عظ و نصیحت میں لوگوں کو عمل کی اہمیت بتا رہے تھے اور اس کے ترک پر تنبیہ کر رہے تھے کسی نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد مبارک (حدیث ٣٥) کا سہارا لے کر کہا کہ آپ تو عمل کے بارے میں اس شد و مد کے ساتھ متنبہ فرما رہے ہیں حالانکہ لا الہ الا اللہ جنت کی کنجی ہے یعنی جس نے صدق دل سے اللہ کی وحانیت کا اقرار کرلیا وہ جنت کا حقدار ہوگیا خواہ اس کی علمی زندگی دوسری نیکیوں اور صالح اعمال سے بھر پور ہو یا نہ ہو۔ اس پر وہب بن منبہ نے ارشاد فرمایا کہ بلا شبہ لا الہ الا اللہ جنت کی کنجی ہے، لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کنجی اس وقت کام کرتی ہے جب کہ اس میں دندانے بھی ہوں۔ اگر کسی کنجی میں دندانے نہیں ہیں تو ظاہر ہے اس سے قفل نہیں کھل سکتا، اسی طرح لاالہ الا اللہ اگر جنت کی کنجی ہے تو اس کنجی کے دندانے شریعت کے احکام و فرائض ہیں۔ پس جو آدمی شریعت کے احکام و قوانین پر عمل نہیں کرے گا تو گویا وہ آخرت میں ایسی کنجی لے کر آئے گا جس میں دندانے نہیں ہوں گے اور جب اس کی کنجی میں دندانے نہیں ہوں گے تو وہ جنت کا دروازہ کھول نہیں پائے گا۔ جنت کا دروازہ اسی صورت میں کھلے گا جب کلمہ توحید کی صداقت کا ایمان موجود ہو، زبان سے اس ایمان کا اقرار ہو اور عملی زندگی اس ایمان کی مظہر ہو بایں طور کہ دین و شریعت کی اتباع اور فرمانبرداری ایک ایک عمل سے ظاہر ہو۔ یا پھر دندانوں سے مراد نیک اعمال ہیں۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جب تک اعمال نیک نہ ہوں گے، جنت کے دروزے ابتدا میں نہیں کھل سکتے، ہاں بعد میں جب بد اعمالیوں کی سزا مل جائے گی اور گناہ و معصیت کے دھبے دھل جائیں گے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔

【40】

نیکی کا اجر

اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخض (صدق دل اور اخلاص نیت کی بنا پر) اپنے ایمان کو اچھا بنا لیتا ہے تو وہ بھی جو نیک عمل کرتا ہے اس پر اس کے اعمالنامہ میں اس جیسی دس سے لے کر سات سو تک نیکیوں کا زائد اجر لکھا جاتا ہے اور وہ جو برا عمل کرتا ہے اس پر اس کے نامہ اعمال میں اس ایک ہی عمل کا گناہ لکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ سے ملاقات کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس امت کو اللہ نے اس فضل و کرم اور خصوصی احسان کے تحت جن خاص انعامات سے نوازا ہے ان میں سے ایک بہت بڑا انعام یہ بھی دیا ہے کہ جب کوئی آدمی مخلص اور صادق مومن نیک عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت بےحساب اس کا اجر صرف اسی ایک عمل کے برابر دینے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ اس جیسے دس عمل کا ثواب اس کو دیا جاتا ہے اور اس پر بھی بس نہیں ہوتا بلکہ جوں جوں ایمان میں صدق و استقامت اور عمل میں خلوص و نیک نیتی بڑھتی جاتی ہے اسی قدر اجر و انعامات بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ چناچہ ایک ہی نیک عمل پر سات سو تک بلکہ اس سے بھی زیادہ اجر عنایت فرمائے جاتے ہیں، بلکہ بعض حالات میں تو یہ اضافہ سینکڑوں اور ہزاروں کی حد سے بھی تجاوز ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اگر حرم پاک میں کوئی نیک عمل کیا جائے تو اس مقدس جگہ کی عظمت و فضیلت کے طفیل میں اس پر ایک لاکھ اجر لکھے جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف اگر مومن سے بتقضائے بشریت کوئی برائی سرزد ہوجاتی ہے تو اس کا گناہ اضافہ کے ساتھ نہیں لکھا جاتا بلکہ جیسی برائی سرزد ہوتی ہے ویسا ہی یا اتنا ہی گناہ لکھا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے اس احسان کرم کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

【41】

ایمان کی عظمت

حضرت ابوامامہ راوی ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ) ایمان کی سلامتی کی علامت کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ! جب تمہاری نیکی تمہیں بھلی لگے۔ اور تمہاری برائی تمہیں بری لگے تو (سمجھو کہ) تم (پکے) مومن ہو، پھر اس آدمی نے پوچھا، یا رسول اللہ ! گناہ (کی علامت) کیا ہے ؟ آنحضور صلی اللہ عنہ نے فرمایا ! جب کوئی بات تمہارے دل میں کھٹک اور تردد پیدا کرے (تو سمجھو کہ وہ گناہ ہے) لہٰذا اس کو چھوڑ دو ۔ ( مسند احمد بن حنبل) تشریح سوال کا مقصد یہ تھا کہ کوئی ایسی واضح علامت بتادی جائے جس کے ذریعہ ایمان کی سلامتی و استقامت کا اندازہ کیا جاسکے۔ چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اپنے اندر یہ کیفیت پاؤ کہ جب کوئی اچھا کام کرتے ہر تو تمہارا قلب و دماغ اس کام کی بھلائی کو خود محسوس کرتا ہے اور ایک خاص قسم کی طمانیت اور آسودگی پاتا ہے۔ احساس و شعور کی دنیا اللہ کی طرف سے نیکی کی توفیق اور مدد پانے پر فرحاں و شاداں اور رب کریم کی خوشنودی و قربت کی طلب گاری و امیدواری سے معمور ہوجاتی ہے۔ یا یہ کہ جب بتقضائے بشریت تم سے کوئی ایسا فعل صادر ہوجاتا ہے جو واضح طور پر گناہ و معصیت کا کام سمجھا جاتا ہے تو فوراً تمہارا دل اللہ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور پروردگار کی ناراضگی کا احساس کر کے شرمسار و نادم ہوجانا تو سمجھ لو کہ ایمان تمہارے دل و دماغ میں رچ بس گیا ہے اور تم پکے مومن ہوگئے۔ کیونکہ نیکی اور بدی کے درمیان امتیاز کرنا اور ثواب اور گناہ کا احساس و شعور پیدا کرنا صرف ایمان کے خلاصہ ہے۔ اخروی جزا اور سزا اعتقاد جو قلب مومن میں ہوتا ہے، وہ غیر مومن کے قلب میں نہیں ہوتا۔ دوسرے سوال کا مطلب دراصل یہ تھا کہ مومن کو اپنی روز مرہ زندگی میں بعض ایسی چیزوں سے واسطہ پڑجاتا ہے جن کے بارے میں واضح طور پر علم نہیں ہوتا کہ آیا یہ چیز شرعی نقطہ نظر سے برائی کے حکم میں ہے اور اس سے کوئی گناہ لازم آتا ہے یا اس کو اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے تو ایسے مشتبہ عمل کی برائی یا بھلائی کو پہچاننے کی علامت کیا ہے ؟ اس کے جواب میں سرکار دو عالم ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ سچے اور پاکباز مومن کا قلب دراصل فطرت کی ایسی پاکیزہ لوح ہے جس پر صرف اسلامی اطاعت و فرمانبرداری اور نیکی و بھلائی ہی کے نقوش ابھر سکتے ہیں، اگر گناہ و معصیت کا ہلکا سا دھبہ بھی وہاں پہنچتا ہے تو اس کو کوئی جگہ نہیں ملتی اور وہ کھٹک و ترد کی صورت میں منڈلاتا پھرتا ہے پس کسی بھی عمل اور چیز کے بارے میں اگر یہ کیفیت ظاہر ہو کہ فطرت سلیم اس کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتی، قلب اس کا بوجھ محسوس کرتا ہے اور دماغ میں خلش و ترد پیدا ہوگیا ہے تو جانو کہ وہ عمل برائی کا حامل ہے اور گناہ و معصیت کو لازم کرنے والا ہے اور نجات و فلاح اسی میں ہے کہ اس چیز کو فوراً چھوڑ دیا جائے یہی وجہ ہے کہ ارباب باطن اور اولیاء اللہ قلب و دماغ کی صفائی اور پاگیزگی کی بناء پر کسی عمل کی پوشیدہ ترین برائی کو بھی پہچان لیتے ہیں اور کسی بھی ایسی چیز کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے جو گناہ معصیت کا ہلکا سا شائبہ بھی رکھتا ہو۔ ان کے ہاں مشتبہ عمل سے بھی اس درجہ کا اجتناب برتا جاتا ہے، جتنا اجتناب وہ کھلے ہوئے برے اعمال سے کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کا دل و دماغ برائی کے شائبہ کو بھی بھانپ لیتا ہے اور ان کا اطمینان قلب اور عمل کا سرور صرف اسی صورت میں حاصل ہوتا ہے جب ان کا کوئی قد راہ مستقیم سے ہٹا ہوا نہیں ہوتا اور ان کا کوئی کام دین و شریعت کی روح کے منافی نہیں ہوتا۔

【42】

ایمان و اسلام کی باتیں

حضرت عمرو بن عبسہ (آپ کا نام عمرو ہے عنبسہ کے بیٹے ہیں اور ابونجیح آپ کی کنیت ہے۔ اور حضرت علی کے دور خلاف میں انتقال فرمایا) ۔ راوی ہیں کہ میں سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! دعوت اسلام کے آغاز میں، اس دین (اسلام) پر آپ ﷺ کے ساتھ کون تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ایک آزاد (ابوبکر) اور ایک غلام (بلال) میں نے عرض کیا اسلام کی علامت کیا ہے ؟ فرمایا پاکیزہ کلامی اور (مساکین کو) کھانا کھلانا، میں نے عرض کیا ایمان کی باتیں کیا ہیں ؟ فرمایا ! صبر اور سخاوت (یعنی بری باتوں سے باز رہنا اور طاعت فرمانبرداری پر مستعد ہونا) میں نے کہا کون سا مسلمان بہتر ہے ؟ فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ ( کی ایذاء) سے مسلمان محفوظ رہیں، میں نے کہا ایمان میں بہتر کیا چیز ہے ؟ فرمایا یہ کہ تم اس چیز کو چھوڑ دو جس سے تمہارا پروردگار ناخوش ہوتا ہے میں نے کہا جہاد میں افضل کون ہے ! فرمایا وہ آدمی افضل ہے جس کا گھوڑا مارا جائے اور خود بھی شہید ہوجائے۔ میں نے کہا سب سے افضل کون سا وقت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نصف شب کا آخری حصہ۔ (مسند احمد بن حنبل)

【43】

ایمان اور اسلام پر مرنے والا جنتی ہے

اور حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ! جس آدمی نے اللہ کی طرف اس حال میں کوچ کیا کہ اس نے کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ٹھہرا رکھا تھا۔ پانچوں وقت کی نماز پڑھتا تھا اور رمضان کے روزے رکھتا تھا تو وہ بخش دیا جائے گا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں لوگوں کو خوش خبری سنا دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ! ان کو اپنے حال پر چھوڑ دو اور عمل میں لگا رہنے دو ۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح اس بخشش کا تعلق گناہ صغیرہ سے ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے اس کی بھی امید ہے کہ اگر وہ چاہے گا تو کبیرہ گناہ بھی بخش دے گا۔ ویسے گناہ کبیرہ کی سزا بھگتنے کے بعد ہی بخشش اور جنت کا استحقاق ملے گا۔ اسی لئے جب حضرت معاذ ابن جبل (رض) نے اس خوشخبری کو عام کرنے کی اجازت چاہی تو رسول اللہ ﷺ نے منع فرما دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ اسی خوشخبری پر بھروسہ کر بیٹھیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں یا بد اعمال میں مبتلا ہوجائیں اور گناہ و معصیت کا ارتکاب کرنے لگیں اور پھر عذاب کے مستوجب بن جائیں۔ اس حدیث میں حج اور زکوٰۃ کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا کہ ان فرائض کا تعلق خاص طور پر صاحب استطاعت اور مالدار لوگوں سے ہے چونکہ عمومی طور پر ہر آدمی زکوٰۃ و حج کی ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتا اس لئے صرف ان فرائض کا ذکر کیا گیا ہے جن کا تعلق بلا تخصیص امیر و غریب ہر آدمی سے ہے جیسے نماز روزہ کہ اس میں امیر و غریب کسی کی تخصیص نہیں ہے یہ سب پر فرض ہیں۔

【44】

ایمان اور اسلام پر مرنے والا جنتی ہے

اور حضرت معاذ بن جبل (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ ایمان کی اعلیٰ باتیں کیا ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (کسی سے) تمہاری محبت بھی اللہ کے لئے ہو اور بغض و عداوت بھی اللہ ہی کے لئے ہو اور تم اپنی زبان کو (خلوص دل سے) اللہ کے ذکر میں مشغول رکھو، انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! اس کے علاوہ اور کیا ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا دوسروں کے لئے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ اور جس چیز کو اپنے لئے ناپسند کرتے ہو اس کو دوسروں کیلئے بھی ناپسند کرو۔ (مسند احمد بن حنبل)

【45】

گناہ کبیرہ اور نفاق کی علامتوں کا بیان

گناہ کبیرہ کے معنی ہیں۔ بڑے گناہ ! چناچہ اصطلاح شریعت میں گناہ کبیرہ اس بڑے فعل کو فرماتے ہیں جس کا ارتکاب کرنے والا حد یعنی شریعت کی متعین کردہ سزا کا مسوجب ہوتا ہے، یا جس کے ارتکاب پر قرآن و حدیث میں سخت و عید و تنبیہ مذکورہ ہو، یا جس کے ارتکاب کو شریعت نے بطور مبالغہ ارتکاب کفر سے تعبیر کیا ہو (جیسے قصدا نماز ترک کرنے پر حدیث میں یہ وعید آئی ہے (حدیث من ترک الصلوۃ متعمد افقد کفر) یعنی جس آدمی نے نماز قصدا ترک کردی وہ کافر ہوگیا) یا جس کا فساد و نقصان گناہ کبیرہ کے فساد و نقصان کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، یا جس کی ممانعت دلیل قطعی کے ساتھ ثابت ہو اور جس کا اختیار کرنا حرمت دین کی ہتک کا موجب ہو پس جس فعل اور بات میں ان میں سے کوئی بھی چیز پائی جائے گی اس کو گناہ کبیرۃ یعنی بڑا گناہ کہیں گے اور جس فعل یا بات میں ان میں سے کوئی چیز نہیں پائی جائے گی اور وہ اسلامی تعلیمات اور دینی تقاضا کے خلاف ہوگی اس کو گناہ صغیرہ یعنی چھوٹا گناہ کہا جائے گا یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بعض اعتبار سے اگرچہ گناہ کبیرہ کے مختلف درجات ہیں کہ بعض کبیرہ گناہ تو بہت ہی برے اور نہایت ہی قابل نفرت ہیں اور بعض گناہ نسبۃ کچھ ہلکے درجہ کے ہیں لیکن شریعت کی نظر میں قابل مواخذہ و گرفت اور موجب عذاب ہونے کے اعتبار سے سب یکساں نوعیت رکھتے ہیں۔ احادیث میں ایک جگہ تمام کبیرہ گناہوں کا تعین اور تفصیل کے ساتھ ذکر موجود نہیں ہے، بلکہ موقع محل کی مناسبت یا کسی سائل کو جواب میں آنحضور ﷺ کی طرف سے بیان کردہ کبیرہ گناہوں کی جو فہرست مرتب کی ہے وہ مختصراً یوں ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ کا شریک بنانا یعنی کسی کو اس کی عبادت یا اس کی صفات میں شریک کرنا مثلا استعانت (مدد چاہنے) میں، علم میں، قدرت میں، تصرف میں، تخلیق میں، پکارنے میں، نام رکھنے میں، ذبح کرنے میں، نذر ماننے میں اور لوگوں سے امور سونپنے میں کسی کو بھی وہ درجہ اور حیثیت دینا جو صرف اللہ تعالیٰ کی سزاوار ہے۔ (٢) گناہ پر اصرار و دوام کی نیت رکھنا۔ (٣) ناحق کسی کو قتل کرنا (٤) زنا کرنا۔ (٥) لواطت کرنا۔ (٦) چوری کرنا۔ (٧) جادو سیکھنا اور جادو کرنا (٨) شراب پینا اور نشہ آور اشیاء کا استعمال کرنا۔ (٩) محارم یعنی ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، نانی اور خالہ وغیرہ سے نکاح کرنا۔ (١٠) جوا سیکھنا اور جوا کھیلنا (١١) دار الحرب سے ہجرت نہ کرنا۔ (١٢) دشمناں دین سے ناروا دوستی اور تعلق رکھنا۔ (١٣) طاقت و قوت اور غالب حیثیت رکھنے کے باوجود دشمنان دین سے جہاد نہ کرنا۔ (١٤) سود کھانا۔ (١٥) خنزیر اور مردار کے گوشت کا استعمال کرنا۔ (١٦) نجومی اور کاہن کی تصدیق کرنا۔ (١٨) ناحق کسی کا مال ہڑپ کرلینا۔ (١٨) پاکباز مرد یا پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت دھرنا۔ (١٩) جھوٹی گواہی دینا۔ (٢٠) کسی عذر شرعی کے بغیر قصدا رمضان کا روزہ نہ رکھنا یا روزہ توڑنا۔ (٢١) جھوٹی قسم کھانا۔ (٢٢) قطع تعلق کرنا۔ (٢٣) ماں باپ کو ستانا اور ان کی نافرمانی کرنا۔ (٢٤) جنگ کے موقع پر دشمناں دین کے مقابلہ سے فرار اختیار کرنا۔ (٢٥) یتیموں کا مال ناحق کھانا۔ (٢٦) ناپ تول میں خیانت کرنا۔ (٢٧) نماز کو وقت پر نہ پڑھنا۔ (٢٨) مسلمانوں سے ناحق لڑنا جھگڑنا۔ (٢٩) ذات رسالت مآب ﷺ پر جھوٹا الزام لگانا۔ (٣٠) رسول، کتاب اللہ اور فرشتوں کا انکار کرنا یا ان کا مذاق اڑانا۔ (٣١) احکام دین اور مسائل شریعت کا انکار کرنا۔ (٣٢) فرائض پر عمل نہ کرنا یعنی نماز نہ پڑھنا، زکوٰۃ ادا نہ کرنا، رمضان کے روزے نہ رکھنا اور استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا۔ (صحابہ یا کسی صحابی کو برا کہنا۔ (٣٤) بالعذر کتمان شہادت کرنا۔ (٣٥) رشوت لینا۔ (٣٦) میاں بیوی کے درمیان نفاق ڈلوانا۔ (٣٧) حاکم کے سامنے کسی کی چغل خوری کرنا۔ (٣٨) غیبت کرنا۔ (٣٩) اسراف میں مبتلا ہونا۔ (٤٠) رہزنی کا ارتکاب کرنا۔ (٤١) دین کے نام پر یا کسی دنیوی غرض کے تحت روئے زمین پر فتنہ و فساد پھیلانا۔ (٤٢) گناہ صغیرہ پر اصرار و دوام اختیار کرنا۔ (٤٣) کسی کو گناہ کی طرف راغب کرنا یا گناہ کے ارتکاب میں مدد دینا۔ (٤٤) ہار مونیم، طبلہ اور دوسرے ممنوع باجوں کے ساتھ گانا۔ (٤٥) نہاتے وقت دوسروں کے سامنے ستر کھولنا۔ (٤٦) مالی مطالبات و واجبات کی ادائیگی میں بخل کرنا۔ (٤٧) خود کشی کرنا۔ (٤٨) اپنے اعضاء بدن میں سے کسی عضو کو ضائع کرنا اور تلف کردینا۔ (٤٩) منی اور پیشاب کی گندگی سے صفائی اور پاکی حاصل نہ کرنا۔ (٥٠) تقدیر کو جھٹلانا۔ (٥١) اپنے سردار اور حاکم سے عہد شکنی کرنا۔ (٥٢) کسی کی ذات اور نسب میں طعنہ زنی کرنا۔ (٥٣) غرور اور تکبر کے تحت پائنچے لٹکانا۔ (٥٤) لوگوں کو گمراہی کی طرف بلانا۔ (٥٥) میت پر نوحہ کرنا۔ (٥٦) برے طریقے اور بیہودہ رسمیں رائج کرنا۔ (٥٧) دھار دار آلہ سے کسی مسلمان کی طرف اشارہ کرنا۔ (٥٨) کسی کو خصی کردینا۔ (٥٩) اپنے بدن کے کسی حصہ کو کاٹنا۔ مثلاً داڑھی منڈانا یا ناک وغیرہ تھوڑی سی کاٹ ڈالنا۔ (٦٠) اپنے محسن سے احسان فراموشی کرنا۔ (٦١) حدودحرم میں ان کاموں کو کرنا جن کی ممانعت ہے۔ (٦٢) حدود حرم میں جاسوسی کرنا۔ (٦٣) نرد کھیلنا یا ایسا کوئی بھی کھیل کھیلنا جو بالا تفاق حرام ہو۔ (٦٤) کسی مسلمان کو کافر کہنا یا اس کو کسی ایسے الفاظ سے مخاطب کرنا جو صرف کافر کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ (٦٥) اگر ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے درمیان باری میں عدل نہ کرنا۔ (٦٦) جلق کرنا (مشت زنی کرنا) ۔ (٦٧) غلہ وغیرہ کی گرانی سے خوش ہونا۔ (٦٨) جانوروں کے ساتھ بدفعلی کرنا۔ (٦٩) عالم کا اپنے علم پر عمل نہ کرنا۔ (٧٠) دنیا کی محبت میں مبتلا ہونا۔ (٧١) امرد پر بری نظر رکھنا۔ (٧٢) دوسروں کے گھر میں جھانکنا۔ (٧٣) صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر اس کے گھر کے اندر داخل ہونا۔ (٧٤) دیوثی اور قرم ساقی کرنا۔ (٧٥) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی اچھے کاموں کی تبلیغ و تلقین اور برے کاموں سے روکنے) کا فریضہ باوجود قدرت کے انجام نہ دینا۔ (٧٦) پڑھنے کے بعد قرآن مجید کو بھلا دینا۔ (٧٧) جانوروں کو آگ میں جلانا (٧٨) عورت کا بغیر عذر شرعی اپنے شوہر کی نافرمانی کرنا۔ (٧٩) مرد کا عورت پر ظلم کرنا۔ (٨٠) اللہ کی رحمت و مغفرت سے ناامید ہونا۔ (٨١) اللہ کے عذاب سے بےخوف ہونا۔ (٨٢) علماء اور حفاظ کی توہین و تحقیر کرنا۔ (٨٣) بیوی سے ظہار کرنا، بعض علماء نے کبائز کی فہرست میں کچھ اور گناہوں کا بھی ذکر کیا ہے لیکن یہاں اختصار کی پیش نظر اسی فہرست پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

【46】

سب سے بڑے گناہ

حضرت عبداللہ مسعود ( اسم گرامی عبداللہ بن مسعود اور کنیت ابوعبدالرحمن ہے، آپ کو حضور ﷺ نے جنت کی خوشخبری دی ہے آپ نے ٢٣ ھ بعمر کچھ اوپر ساٹھ سال بمقام مدینہ میں انتقال فرمایا) ۔ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سوال کیا، یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ! یہ کہ جس اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ تم کسی کو اس کا شریک ٹھہراؤ پھر اس آدمی نے پوچھا ! اس کے بعد سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خیال سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی۔ پھر اس نے پوچھا، اس کے بعد سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! یہ کہ تم اپنے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرو (حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ) سرکار ﷺ کے اسی ارشاد کی تصدیق میں یہ آیت نازل ہوئی (جس کا ترجمہ ہے) وہی بندگان خاص ہیں جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود نہیں ٹھہراتے اور جس جاندار کو قتل کرنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں (جو کوئی ایسا کرے گا وہ گناہ کے وبال میں پڑے گا) ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں چند ایسی باتوں کی نشاندہی کی گئی جو اخلاق و انسانیت کے اعتبار سے بھی نہایت پستی اور گراوٹ کی علامت ہیں اور شریعت نے بھی ان کو سب سے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے اور جن کا ارتکاب کرنے والا اللہ تعالیٰ کے سخت عذاب کا مستوجب قرار پاتا ہے۔ سب سے بڑا گناہ جس بات کو بتایا گیا ہے وہ کسی کو اپنے خالق اور پروردگار کا شریک ٹھہرانا ہے اور ان تدعو اللہ ندا کی تشریح میں علماء نے لکھا ہے کہ شریک ٹھہرانے کا مطلب ذات وصفات اور عبادت میں کسی کا اللہ کا ہمسر و ہم تاب بنانا ہے مثلاً عبادت و بندگی اور اظہار عبدیت کے جو طریقے اور جو افعال صرف ذات باری تعالیٰ کی عبادت کے لئے مخصوص ہیں۔ وہ طریقے اور افعال اللہ کے سوا کسی اور کے لئے بھی اختیار کرنا یا جس طرح اللہ کو یا اللہ کہہ کر یاد کیا جاتا ہے، اسی طرح کسی غیر اللہ کو پکارنا اور یاد کرنا اور یا جس طرح اللہ تعالیٰ حاجتوں کو پورا کرنے والا ہے اسی طرح کسی اور کو بھی حاجت روا مان کر یوں فریاد رسی کرنا کہ اے فلاں میری یہ حاجت پوری کر، میری مدد کردو وغیرہ وغیرہ۔ دوسرا بڑا گناہ یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی آدمی اپنی اولاد کو اس خوف سے موت کے گھاٹ اتار دے کہ وہ میرے سر کا بوجھ بنے گی، اس کو کھلانا پلانا پڑے گا اور اس کی پرورش و تربیت کی معاشی ذمہ داریاں برداشت کرنا پڑیں گی، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ظالمانہ طریقہ رائج تھا کہ لوگ افلاس کے خوف سے اپنی اولاد کو موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔ تیسرا بڑا گناہ یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی آدمی اپنے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرے۔ یوں تو مطلقاً زنا ایک گناہ ہے اور اس پر سخت سزا مقرر ہے۔ لیکن پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا بہت ہی بڑا گناہ ہے جس طرح کہ مطلقاً ناحق قتل کرنا ایک بڑا گناہ ہے، لیکن اولاد کو قتل کردینا نہایت ہی بڑا گناہ ہے۔

【47】

والدین کی نا فرمانی اور جھوٹی قسم کھانا

اور حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمائی کرنا، ناحق کسی کو مار ڈالنا اور جھوٹی قسم کھانا بڑے گناہ ہیں (صحیح البخاری) اور حضرت انس کی روایت میں جھوٹی قسم کھانا کے بجائے جھوٹی گواہی دینا کی الفاظ ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح عقوق کے ایک معنی ایذاء دینے کے بھی آتے ہیں، لہٰذا شریعت نے نہ صرف یہ کہ والدین کی نافرمانی کو بڑا گناہ قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ مسلمان ماں باپ کو نہ کوئی اذیت پہنچائی جائے اور نہ ان کو ناحق ستایا جائے، ویسے کافر ماں باپ کو بھی اذیت پہنچانے سے روکا گیا ہے، لیکن ان کو کفر کی لعنت سے نکالنے اور قبول اسلام پر آمادہ کرنے کے لئے ان کے ساتھ تھوڑے بہت سخت برتاؤ کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ سخت برتاؤ قطعی طور پر ناگزیر ہو اور اخلاق و انسانیت سے گرا ہوا نہ ہو۔ تفسیر عزیزی میں ارشاد ربانی (ا یت وبالو الدین احسانا) کی تفیسر میں لکھا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کا حکم بطور خاص تین باتوں کو شامل ہے اور یہ کہ ان کو کسی قسم کی اذیت نہ پہنچائے خواہ ہاتھ سے ہو یا زبان وغیرہ سے، یعنی نہ تو ان کو مار پیٹ کر تکلیف پہنچائے اور نہ ان کے ساتھ بد زبانی و بدکلامی کرے، دوسرے یہ کہ جہاں تک ممکن ہو سکے جان و مال دونوں طرح سے ان کی خدمت کرے اور تیسرے یہ کہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اور وہ جس وقت اور جس ضرورت سے بلائیں فوراً ان کے پاس حاضر ہوجائے۔ تاہم علماء نے یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ والدین کی خدمت کا حکم اس شرط کے ساتھ ہے کہ اگر ماں باپ اولاد کے محتاج ہوں اور اولاد اتنی قوت و استطاعت رکھتی ہو کہ ان کی ہر طرح کی خدمت کرسکے تو ان کی خدمت کرنا اس پر واجب ہے اور اگر یہ صورت ہو کہ نہ تو والدین اس کے محتاج ہوں اور نہ اولاد اس پر قادر ہے تو اس پر ان کی خدمت واجب نہیں اسی طرح والدین کی حکم برداری کا مسئلہ بھی اس وضاحت کے ساتھ ہے کہ اگر وہ اچھے کام کا حکم دیں یا خلاف شرع چیزوں سے روکیں یا شرع کے خلاف حکم نہ دیں تو ان کی اطاعت کرنا ضروری ہے لیکن اگر وہ خلاف شرع چیزوں کا حکم دیں مثلاً واجبات کو ترک کرنے کے لئے کہیں یا فرض حج کرنے سے روک دیں اور منع کریں تو ان چیزوں میں ان کی اطاعت نہ کرنی چاہیے اگر سنت موکدہ کو چھوڑنے کے لئے کہیں مثلاً نماز کی جماعت میں شریک ہونے سے روکیں، یا عرفہ کے روزہ کو منع کریں تو اس میں زیادہ صحیح قول یہ ہے اس طرح کا حکم دو ایک مرتبہ مان لینے اور ان کی اطاعت میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان چیزوں کی اگر وہ عادت ہی ڈلوا دیں یا ہمیشہ منع کرتے رہیں تو ان کا حکم نہ مانے۔ ہاں اگر وہ کسی نفلی عبادت سے روکیں اور کہیں کہ اس کی بجائے ہماری خدمت میں رہو تو ان کی حکم برداری کرنی چاہئے۔ یمین غموس اس جھوٹی قسم کو کہتے ہیں جس کا تعلق گذشتہ چیز سے ہو، مثلاً کوئی آدمی کسی فعل کے بارے میں اس طرح قسم کھائے کہ اللہ کی قسم میں نے فلاں کام نہیں کیا ہے۔ درآنحالیکہ واقع میں اس نے وہ کام کیا ہے تو یہ یمین غموس کہلائے گی اس کی سخت ممانعت ہے کیونکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے اسی طرح جھوٹی گواہی دینا بھی ایک بہت بڑا گناہ ہے جو اللہ کے سخت عذاب کا مستوجب بناتا ہے۔

【48】

ہلاک کردینے والی باتوں سے بچو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (لوگو) سات ہلاک کردینے والی باتوں سے بچو، پوچھا گیا یا رسول اللہ ! وہ سات ہلاک کرنے والی باتیں کون سی ہیں ؟ فرمایا کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا۔ (٢) جادو کرنا۔ (٣) جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو ناحق قتل کرنا۔ (٤) یتیم کا مال کھانا۔ (٥) جہاد کے دن دشمن کو پیٹھ دکھانا۔ (٦) پاکدامن ایمان والی اور بیخبر عورتوں کو زنا کی تہمت لگانا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اسلامی اعتقادت و نظریات اور بد یہی مسلمات کو دل سے ماننا، زبان سے اقرار کرنا اور عائد شدہ فرائض پر عمل کرنا ایمان ہے اور ان پر بدیہی مسلمات میں سے کسی ایک بات کا انکار کردیا جائے خواہ بقیہ سب کا اقرار موجود ہے تو بھی کفر عائد ہوجاتا ہے پھر علماء کی تصریح ہے کہ کفر صرف قول ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ بعض افعال بھی موجب کفر ہوسکتے ہیں، چناچہ فقہاء ایسے افعال پر بھی کفر کا حکم لگا دیتے ہیں جو قلبی و اعتقادی کفر کے صحیح ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔ یوں تو کفر کی ہر قسم انسانیت کے دامن پر سب سے بد نما داغ ہے لیکن اس کی جو قسم سب سے بدتر ہے وہ شرک ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات، اس کی عبادات اور اس کی حدود عظمت میں کسی کو شریک بنا لینا نہ صرف اعتقادی حیثیت سے ایمان و اسلام سے صریح بیزاری کا اظہار ہے، بلکہ فطرت پر ایک بہت بڑا ظلم اور عقل و دانش سے سب سے بڑی بغاوت بھی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کر کے اس کی فطرت کو کفر و شرک کی ہر قسم کی آلودگی سے پاک و صاف رکھا ہے، اب اگر انسان اپنی فطرت کو شرک کی نجاست سے ملوث کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنی فطرت اور اپنے خمیر کی صداقت آمیز آواز کا گلا گھونٹ کر مذہب و انسانیت دونوں حیثیت سے تباہی و بربادی کے غار میں گرتا ہے۔ اس لئے پروردگار عالم کا اٹل فیصلہ ہے کہ اس کی بارگاہ میں ہر کوتاہی و لغزش قابل معافی ہوسکتی ہے۔ مگر شرک کا جرم ہرگز معافی نہیں ہوگا جس کی سخت سزا مشرک کو بھگتنی ہوگی۔ اور اللہ تعالیٰ کی پاک جنت میں اس کے لئے کوئی جگہ نہ ہوگی۔ ارشاد ربانی ہے اِنَّ ا لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرِکَ بِہ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ۔ (القرآن الحکیم، النساء ١١٦) بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس جرم کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے وہاں اس کے سوا اور جس گناہ کو چاہے گا بخش دے گا۔ چونکہ شرک انسانی فطرت سے سعادت و نیک بختی کا تخم جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے اور انسان کی روحانی ترقی کی تمام استعداد کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے نیز خود قرآن کی نظر میں شرک اللہ تعالیٰ پر سب سے بڑا افتراء اور سب سے بڑے کر بےدلیل اور خلاف ضمیربات اور نفس انسان کے لئے ابدی موت ہے اس لئے حدیث میں جن ہلاکت خیز باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں شرک کا جرم سر فہرست ہے۔ شرک کی تعریف اور اقسام اس موقعہ پر مناسب ہے کہ شرک کی تعریف اور اس کی اقسام کی کچھ تفصیل بیان کردی جائے، شرح عقائد میں ہے کہ اصطلاح شریعت میں شرک، اسے فرماتے ہیں کہ خدائی اختیارات میں غیر اللہ کو شریک ٹھہرائے جیسا کہ مجوسی اہرمن ویزداں کو مانتے ہیں یا اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو بھی پرستش و عبادت کے لائق جانے جیسا کہ بت پرست عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ شرک کفر کی ایک قسم ہے اور اسی لئے شریعت میں شرک کفر کے معنی میں بھی آتا ہے۔ چناچہ حضرت شیخ عبدالحق نے اپنے ترجمہ مشکوٰۃ میں شرح عقائد کی بیان کردہ شرک کی ان دونوں قسموں کو ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہاں شرک سے مراد کفر ہے، خیالی میں بھی اس کی تصریح ہے اور مولانا عصمۃ اللہ سے بھی یہی منقول ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ شریعت کی اصطلاح میں شرک اسے فرماتے ہیں کہ جو صفات خاص باری تعالیٰ عزاسمہ کے ساتھ مختص ہیں ان کو اللہ کے علاوہ کسی دوسرے میں بھی ثابت کرے۔ جیسے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو بھی عالم الغیب جانے۔ یا جس طرح دنیا کی ہر چیز پر اللہ کو قادر مانتا ہے کسی دوسرے کو بھی قادر جانے، یا جیسے اللہ تعالیٰ کو اپنے ارادہ کے ساتھ دنیا کی تمام چیزوں پر متصرف جانتا ہے، ایسے ہی کسی دوسرے کو بھی متصرف جانے۔ مثلاً کسی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ فلاں نے نظر کرم کے ساتھ مجھ سے برتاؤ کیا اس لئے مجھ کو مال و زر کی وسعت اور خوشی حاصل ہوگئی یا فلاں نے مجھ کو پھٹکار دیا تھا تو اس کے سبب میں بیمار ہوگیا یا میرا مقدر پھوٹ گیا، وغیرہ وغیرہ۔ اللہ کی ذات اور صفات اور خدائی اختیارات میں شرک کے علاوہ تفسیر عزیزی میں شرک کی اور جو اقسام ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں ایک تو یہی ہے کہ عبادت میں کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرایا جائے، یا کسی کا نام تقرب و فضیلت کے طریقہ پر اللہ کے نام کی طرح لیا جائے اور اس کو اللہ کا ہمسر قرار دیا جائے۔ مثلاً کسی کو اٹھتے بیٹھتے و مصائب و مشکلات میں اس کا نام لے کر اسے یاد کرے ایسے ہی کسی کا نام بجائے عبداللہ یا عبدالرحمن کے بندہ فلاں یا عبد فلاں رکھا جائے اس کو شرک فی التسمیہ فرماتے ہیں یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے اور اس کی نذر مانی جائے، یا بلاوجہ شر کے دفعیہ اور حصول منفعت کے لئے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو پکارا جائے اور ان کی طرف رجوع کیا جائے۔ یا علم وقدرت میں اللہ کے نام کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کیا جائے جیسے کوئی کہے ماشاء اللہ و شئت یعنی جو اللہ چاہے اور تم چاہو وہی ہوگا۔ منقول ہے کہ ایک مرتبہ کسی ناواقف نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اسی طرح کے الفاظ کہے تو آپ ﷺ بہت فروختہ ہوئے اور فرمایا کہ تم نے مجھے اللہ کا شریک ٹھہرا دیا اور فرمایا کہ اس طرح کہو مَا شَآءَ ا ُ وَحدَہُ ۔ یعنی جو صرف اللہ چاہے گا وہی ہوگا۔ بعض کبیرہ گناہوں کو بھی شرک کہا گیا ہے، جیسے حدیث میں وارد ہے کہ جس آدمی نے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی قسم کھائی اور اس نے یقینا شرک کیا، یا کہا جاتا ہے کہ بد شونی لینا شرک ہے یا منقول کہ ریاکاری شرک ہے، یا اسی طرح منقول ہے کہ جو عورت اپنے خاوند کی محبت کے لئے ٹوٹ کہ کرے شرک ہے گویا یہ گناہ اپنے مہلک اثرات کی بنا پر شرک کی طرح ہیں اس لئے ان سے اجتناب بھی اتنا ہی ضروری ہے، جتنا شرک سے۔ اسی طرح وہ افعال جو اگرچہ شرک حقیقی یعنی کفر کے دائرے میں تو نہ آتے ہوں لیکن مشرکین اور بت پرستوں کے افعال و اعمال کے مشابہ اور ان کے ہم مثل سمجھے جاتے ہیں تو ان سے بھی شرک ہی کی طرح پرہیز ضروری ہے، جیسے علماء اور بادشاہ کے آگے جبین سائی کرنا یا ان کے سامنے آکر زمین کو چو سنایا ان کو سجدہ تعظیم کرنا۔ چونکہ یہ افعال حرام اور گناہ کبیرہ ہیں اس لئے ان کا ارتقاب کرنے والا بھی گناہ گار اور مستوجب عذاب ہوگا اور جو لوگ اس طرح کے افعال سے خوش ہوں گے اور قدرت کے باوجود ان افعال کے ارتکاب کو روکنے کی کوشش نہیں کریں گے وہ بھی گناہ گار ہوں گے، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگر علماء یا بادشاہ پیروں کے آگے جبین سائی کرنا اور زمین کو بوسہ دنیا عبادت و تعظیم کی نیت سے ہوگا تو اس کو صریحا کفر کہا جائے گا اگر عبادت و تعظیم کی نیت سے نہیں بلکہ محض اظہار ادب کے لئے ہوگا تو اس پر کفر کا اطلاق نہیں ہوگا لیکن گناہ کبیرہ ضرور کہلائے گا۔ اس حدیث میں دوسرا ہلاکت خیز فعل سحر بتایا گیا ہے۔ سحر کے بارے میں علماء فرماتے ہیں کہ جس طرح سحر اور جادو کرنا حرام اور ہلاکت خیز چیز ہے اسی طرح جادو سیکھنا اور سحر کا علم حاصل کرنا بھی حرام ہے، جو آخرت میں ہلاکت کا موجب بنے گا، شرح عقائد کے حاشیہ خیالی میں لکھا ہے کہ سحر کرنا کفر ہے اور صحابہ وغیرہ کی ایک جماعت تو اس پر متفق ہے کہ ساحر کو فوراً مار ڈالنا چاہیے۔ جب کہ بعض کی رائے یہ ہے کہ اگر ساحر اس طرح کا ہو جس سے کفر لازم آتا ہو اور ساحر اس سے توبہ نہ کرے تو اس کو موت کے گھاٹ اتار دینا چاہیے۔ اسی طرح نجوم، کہانت رمل اور شعبدہ بازی کی تعلیم حاسل کرنا، ان چیزوں کو اختیار کرنا اور ان سے روزی اور پیسہ کمانا اور نجومی و کاہن وغیرہ سے سوالات کرنا اور ان کی بتائی ہوئی باتوں پر اعتقاد رکھنا بھی حرام ہے۔ حدیث میں دشمن کے مقابلہ سے راہ فرار اختیار کرنے کے مذموم فعل کو بھی ہلاکت کا موجب بتایا گیا ہے اس لئے کہ جس آدمی نے اتنی بزدلی اور پست ہمتی دکھائی کہ عین اس موقع پر جب کہ اس کی ایمانی شجاعت و دلیری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، دشمن کو پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑا ہو وہ دراصل اپنی اس مذموم حرکت کے ذریعہ اہل اسلام کی رسوائی کا سبب بنا لہٰذا اس کو آخرت کے عذاب اور ہلاکت کا مستوجب گردانا جائے گا۔ اس سلسلہ میں جہاں تک تفصیلی مسئلہ کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان کے مقابلہ میں دو کافر ہوں تو اس کو ان کے مقابلے سے راہ فرار اختیار کرنا گناہ کبیرہ ہے ہاں اگر مقابلہ پر دشمن دو سے زیادہ کی تعداد میں ہوں تو پھر بھاگنا حرام نہیں ہے بلکہ جائز ہے مگر اس میں اولیٰ اور بہتر یہی ہے کہ وہ اس صورت میں بھی پیٹھ نہ دکھلائے بلکہ مقابلہ کرے خواہ جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔

【49】

وہ بد ترین گناہ جن کے ارتکاب کے وقت ایمان باقی نہیں رہتا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا، شراب پینے والا جب شراب پیتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان نہیں رہتا اور چھینا جھپٹی کرتا ہے اور لوگ اس کو (کھلم کھلا) چھینا جھپٹی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں (لیکن خوف و دہشت کے مارے بےبس ہوجاتے ہیں اور چیخ و پکار کے علاوہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے) تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا پس تم (ان گناہوں سے) بچو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور عبداللہ ابن عباس کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ! قتل کرنے والا جب ناحق قتل کرتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا۔ عکرمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے (یہ حدیث سن کر) پوچھا کہ اس سے ایمان علیحدہ کس طرح کرلیا جاتا ہے، تو انہوں نے کہا اس طرح ( یہ کہہ کر) انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں داخل کیں اور پھر ان انگلیوں کو ایک دوسری سے علیحدہ کرلیا اس کے بعد انہوں نے فرمایا اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو ایمان اس طرح واپس آجاتا ہے اور یہ (کہہ کر) انہوں نے انگلیوں کو پھر ایک دوسری میں داخل کرلیا۔ نیز ابوعبداللہ (یعنی عبداللہ بن اسماعیل بخاری) نے کہا ہے کہ (اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ) وہ آدمی ارتکاب معصیت کے وقت مومن کامل نہیں رہتا اور اس میں سے ایمان کا نور نکل جاتا ہے (بخاری) تشریح جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا، مومن کا قلب ایک ایسے حساس اور پاکیزہ ظرف کی مانند ہے جس میں صرف ایمان کا نور ٹھہر سکتا ہے، ایمان کے منافی کوئی بھی چیز در انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے تو نہ قلب مومن اس کا روا دار ہوتا ہے اور نہ نور ایمان اس کو برداشت کرتا ہے، چناچہ وہ بد ترین اور سنگین گناہ جس کا حدیث بالا میں ذکر ہوا، ایسی منافی ایمان باتیں ہیں جن کا تحمل نور ایمان کسی حالت میں نہیں کرسکتا، ادھر انسان ان میں سے کسی گناہ کا ارتکاب شروع کرتا ہے کہ ادھر نور ایمان اس کے قلب سے رخصت ہوجاتا ہے اور پھر جب تک کہ اس گناہ پر نادم و شرمندہ ہو کر آئندہ کے لئے خلوص دل سے توبہ نہیں کرلیتا ایمان کی وہ نورانی کیفیت جو ارتکاب گناہ سے قبل اس کو حاصل تھی، اس کے قلب میں واپس نہیں آتی، اسی صورت حال کو حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے اپنی انگلیوں کی مثال کے ذریعہ واضح کیا، انہوں نے پہلے اپنے ایک ہاتھ کے پنجہ کو دوسرے ہاتھ کے پنجہ میں داخل کیا اور دکھایا کہ یہ گویا ارتکاب معصیت سے قبل کی حالت ہے کہ نور ایمان مومن کے قلب میں جاگزیں ہے پھر انہوں نے دونوں پنجوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے بتایا کہ جس طرح یہ پنجہ دوسرے پنجہ سے الگ ہوگیا ہے، اسی طرح ارتکاب معصیت کے وقت نور ایمان مومن کے قلب سے علیحدہ ہوجاتا ہے اور پھر انہوں نے دوسرے پنجوں کو ایک دوسرے میں داخل کردیا اور کہا کہ جس طرح یہ پنجے پھر ایک دوسرے میں داخل ہوگئے ہیں اسی طرح اگر مومن ارتکاب معصیت کے بعد توبہ کرلیتا ہے تو اس کا نور ایمان پہلے کی طرح اپنی جگہ واپس آجاتا ہے۔ امام ابن ابی شیبہ نے لکھا ہے کہ ارتکاب معصیت کے وقت ایمان کے باقی نہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ مرتکب معصیت کامل مومن نہیں رہ جاتا اس کا ایمان ناقص ہوجاتا ہے (ترجمان السنتہ) اور یہی حاصل عبداللہ بن اسماعیل بخاری کے قول کا ہے جو روایت کے آخری فقرہ سے معلوم ہوا۔

【50】

منافق کی علامتیں

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا ! منافق کی تین علامتیں ہیں، اس کے بعد مسلم نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرے اس کے بعد صحیح البخاری و صحیح مسلم دونوں متفق ہیں (وہ تین علامتیں یہ ہیں) جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح جب بھی کوئی اصلاحی تحریک انقلابی رفتار سے آگے بڑھنے لگتی ہے اور معاشرہ پر اس کا تسلط پھیلتا جاتا ہے تو اس کے متفقین اور مخالفین کے درمیان ایک تیسرا طبقہ بھی پیدا ہوجاتا ہے، یعنی ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس تحریک کے مکمل ہمنوا بن جاتے ہیں اور کامل ذہنی و جسمانی وابستگی کے ساتھ اس کے دائرہ اثر و اطاعت میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ان کے مقابلہ پر دوسرا طبقہ مخالفین کا ہوتا ہے جو تحریک کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے اور اپنی پوری طاقت اور تمام تر وسائل کے ساتھ علانیہ طور پر تحریک کے داعیوں اور حامیوں کے مد مقابل رہتا ہے اور ان دونوں کے درمیان جو تیسرا طبقہ پیدا ہوتا ہے وہ ان رو باصفت لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جو نہ اس تحریک کے دل سے حامی بنتے ہیں اور نہ کھلم کھلا مخالفت پر خود کو قادر پاتے ہیں اس طرح کے لوگ اپنی ذہنی و قلبی وابستگی اپنے سابقہ عقائد و نظریات ہی کے تئیں رکھتے ہیں لیکن جسمانی طور پر حامیان تحریک کی صفوں میں شامل ہوجاتے ہیں، یہی صورت حال اسلام کو بھی پیش آئی پیغمبر اسلام کی مکی زندگی کے بعد جب مدنی زندگی کا آغاز ہوا اور اسی کے ساتھ دعوت اسلام کی تحریک انقلابی رفتار سے آگے بڑھنے لگی اور اہل اسلام کو بھی طاقت و شوکت میسر آنے لگی تو یہ تیسرا طبقہ پیدا ہوگیا۔ پہلے مکہ میں ایک طرف تو وہ خوش نصیب لوگ تھے جنہوں نے کامل صدق و اخلاص کے ساتھ دعوت اسلام کو قبول کیا۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے فدا کار خادم بنے۔ یہ خوش نصیب تعداد میں بھی کم تھے اور مادی وسائل و ذرائع سے محروم بھی تھے، ان کے مقابلہ پر اکثریت ان لوگوں کی تھی جنہوں نے دعوت اسلام کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا، اس پر بس نہ کر کے دعوت اسلام کی بھر پور مخالفت پر کمر بستہ تھے، ان لوگوں کو طاقت و شوکت بھی حاصل تھی اور تمام تر مادی وسائل و ذرائع کی پشت پناہی بھی۔ چناچہ یہاں ان کو اسلام کی کھلم کھلا دشمنی سے کوئی امر مانع نہیں تھا اور اہل اسلام کی مخالفت سماجی طور پر کسی خطرہ یا نقصان کا باعث بھی نہیں تھی۔ لیکن اب مدینہ آنے کے بعد دعوت اسلام کا ماحول دوسرا ہوگا، تحریک کامیابی سے آگے بڑھتی رہی، متفقین اور ہمنواؤں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ طاقت و شوکت بھی بڑھنے لگی اور سماجی طور پر اہل اسلام کو غلبہ بھی ملنے لگا۔ لہٰذا اب اسلام کے مخالفین اور معاندین کو بھی عداوت کی شکل بدل دینی پڑی۔ انہوں نے یہ مستقل پالیسی بنالی کہ بظاہر تو اسلام کے نام لیوا بن جاؤ اور مسلمانوں کے ساتھ رہنے لگو۔ مگر اندرونی طور پر مخالفین اسلام یعنی کافروں کے ہمنوا رہو اور خفیہ معاندانہ کاروائیوں کے ذریعہ دعوت اسلام کی راہ میں کانٹے بچھاتے رہو، چناچہ یہی سے نفاق کی بنیاد قائم ہوئی اور اس طرح کے لوگوں کو اسلام میں منافق کہا گیا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس طرح کسی بھی تحریک کے لئے نفاق سب سے بڑا گھن ثابت ہوتا ہے اسی طرح اسلام کے حق میں یہ طبقہ منافقین سب سے زیادہ نقصان رساں ثابت ہوا، ابتداء میں تو ان منافقین کا مکروہ چہرہ مسلمانوں کے سامنے چھپا رہا، جب ان کی منافقانہ پالیسی اور عیارانہ کاروائیوں نے اسلام اور مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچانا شروع کیا اور اسلام کے خلاف ان کی خفیہ نقل و حرکت کا علم ہونے لگا تو ان کی شخصیتیں سامنے آنے لگیں اور پھر تو اس طبقہ کی اتنی اہمیت محسوس کی گئی کہ اس کے نام پر مستقل ایک سورت المافقین نازل کی گئی، اس کے علاوہ بھی قرآن کریم میں جا بجا منافقوں سے خبردار کیا گیا اور ان کی ریشہ دوانیوں اور تباہ کاریوں سے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا۔ نفاق کی قسمیں جس طرح ایمان اور کفر کی مختلف قسمیں اور صورتیں ہیں اسی طرح نفاق کی بھی کئی قسمیں ہیں ایک تو اعتقادی نفاق ہے اور یہی حقیقی نفاق ہے یعنی بظاہر اللہ کی تو حید، رسالت، فرشتے اور حشر و نشر کے اعتقاد رکھنے کا دعوی کرنا مگر اندر ان تمام اعتقادی مسلمات کا پورا پورا انکار و انحراف مضمر ہونا۔ یہی وہ نفاق ہے جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں تھا۔ اسی نفاق کو قرآن مجید نے کفر بھی کہا ہے اور اسی نفاق کے بارے میں یہ وعید آئی ہے کہ دوزخ میں منافقین کا ٹھکانا کافروں سے بھی نیچے ہوگا، پھر یہ ہوا کہ ان منافقین کے جو عادات و خصائل اور طور طریقے تھے ان پر بھی نفاق کا اطلاق کیا جانے لگا۔ کیونکہ ان میں سے اکثر باتیں وہی ہیں جو انسان کی اخلاقی اور عملی زندگی کو عیب دار بنا دیتی ہیں جو اسلام کی تعلیمات، اعلیٰ انسانی اقدار اور امانت و دیانت کے صریح منافی ہونے کے سبب ایمان و اسلام سے ذرا بھی میل نہیں کھاتیں۔ چناچہ جب مسلمانوں کی دینی زندگی میں انحطاط کا دور آیا اور انہوں نے ان باتوں کو اختیار کرنا شروع کردیا جو منافقین اسلام کا خاصۃ تھیں تو ارباب اصطلاح نے نفاق کی ایک اور قسم متعین کی اور اس کا نام عملی نفاق رکھا۔ پس حدیث بالا میں جس چیز کے خلاف تنبیہ کرنا مقصود ہے اس سے یہی عملی نفاق مراد ہے۔ مطلب یہ کہ بات چیت میں دروغ گوئی اختیار کرنا، وعدہ کا پورا نہ کرنا اور امانتوں میں خیانت کرنا ان بری عادتوں میں سے ہیں جو ایک منافق میں تو پائی جاتی ہیں لیکن کسی مومن میں ان کا پایا جانا عجوبہ سے کم نہیں۔ لہٰذا اگر مسلمان دانستہ یا نا دانستہ طور پر ان میں سے کسی بری عادت کا شکار ہے تو اس کو فوراً اپنا احتساب کرنا چاہیے اور اس بری عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے ورنہ آخرت میں سخت عذاب بھگتنا ہوگا۔

【51】

منافق بنانے والی چار باتیں

اور حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس آدمی میں چار باتیں ہوں گی وہ پورا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک بات بھی پائی جائے گی (تو سمجھ لو) اس میں نفاق کی ایک خصلت پیدا ہوئی تاوقتیکہ اس کو چھوڑ نہ دے (اور وہ چار باتیں یہ ہیں) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب قول و اقرار کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب جھگڑے تو گالیاں بکے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) فائدہ یہاں بھی نفاق سے مراد عملی نفاق ہے یعنی اگر کوئی مومن و مسلمان ان چار بری باتوں کا شکار ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ پورے طور پر عملی نفاق میں مبتلا ہے اور عملاً منافق بن گیا ہے اور اگر ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت و عادت اس کے اندر پیدا ہوجائے تو جانو کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت پیدا ہوگئی ہے، لہٰذا متنبہ کیا جاتا ہے کہ جس کے نادر خواہ یہ تمام خصلتیں جمع ہوگئی ہوں یا ایک خصلت ہو وہ جان لے کہ اب اس کا نقشہ زندگی منافق ہوتا جا رہا ہے۔ اگر وہ ایمان کا دعوی کرتا ہے تو اس کے اندر ان خصلتوں کا ہونا مناسب نہیں ہے اور اگر وہ اپنی دنیا و آخرت کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کو فورًا چھوڑ دے۔

【52】

منافق کی مثال

حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی سی ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان (ماری ماری) پھرتی ہے کہ (اپنے نر کی تلاش میں) کبھی اس طرف مائل ہوجاتی ہے اور کبھی اس طرف۔ (صحیح مسلم) تشریح منافق کی مثال اس بکری سے دی گئی ہے جو اپنے نر کی تلاش میں ادھر ادھر ماری ماری پھرتی ہے اسی طرح منافق کی حالت ہوتی ہے کہ اس کے سامنے چونکہ صرف دنیا کا لالچ اور مال و جاں کی حفاظت کا مقصد ہوتا ہے اس لئے وہ مادہ صفت بن کر کبھی تو مسلمانوں کی آغوش میں آکر پناہ لیتا ہے اور کبھی کافروں کے گروہ میں جا کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے، نفاق سے نفرت پیدا کرنے کے لئے ظاہر ہے کہ یہ تشبیہ بہت موثر ہے۔

【53】

منافق کی مثال

حضرت صفواں بن عسال ( صفوان بن عسال مرادی کی نسبت سے مشہور ہیں حضرت علی المرتضیٰ کے دور خلافت میں آپ کا انتقال ہوا) ۔ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ایک یہودی نے اپنے ایک (یہودی) ساتھی سے کہا کہ آؤ اس نبی ﷺ کے پاس چلیں ! اس کے ساتھی نے کہا ! انہیں نبی نہ کہو، کیونکہ اگر انہوں نے سن یا (کہ یہودی بھی مجھے نبی فرماتے ہیں) تو ان کی چار آنکھیں ہوجائیں گی (یعنی خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے) بہر حال وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ ﷺ سے نو واضح احکام کے بارے میں سوال کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہراؤ، چوری نہ کرو، جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کا ناحق قتل نہ کرو، کسی بےگناہ کو قتل کرانے کے لئے ( اس پر غلط الزام عائد کر کے) حاکم کے پاس مت لے جاؤ، جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ پاک دامن عورت کو (زنا کی) تہمت نہ لگاؤ، میدان جنگ میں دشمن کو پیٹھ نہ دکھاؤ اور اے یہودیو ! تمہارے لئے خاص طور پر واجب ہے کہ یوم شنبہ کے معاملہ میں (حکم الہٰی سے) تجاوز نہ کرو، راوی فرماتے ہیں کہ (یہ سن کر) دونوں یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پیر چوم لئے اور بولے ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ واقعی نبی ہیں۔ سرکار ﷺ نے فرمایا (جب تمہیں میری رسالت پر یقین ہے تو) میری اتباع سے تم کو کون سا امر مانع ہے ؟ انہوں نے کہا حقیقت یہ ہے کہ داؤد (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ نبی ہوا کرے لہٰذا ہم ڈرتے ہیں کہ اگر آپ ﷺ کی پیروی کریں تو یہودی ہمیں مار ڈالیں گے۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے اللہ کی جانب سے دنیا میں تشریف لائے تھے۔ نبوت کی دلیل طور پر ان کو جو دو بڑے معجزے عطا کئے گئے تھے ان میں ایک عصا تھا عصا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا سب سے بڑا معجزہ تھا جس کے ذریعہ وہ بڑے بڑے کام انجام دیا کرتے تھے۔ چناچہ جب فرعون کی جانب سے ان کے اور اس زمانہ کے مشہور ساحروں اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ ہوا تو اللہ نے ان کو عصا ہی کے ذریعے اس طرح کامیابی عنایت فرمائی کہ ان جادو گروں نے جب اپنے سحر و جادو کے بل بوتہ پر رسیوں کو سانپ بنا کر زمین پر ڈالا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا جس نے دیکھتے دیکھتے ایک عظیم اور ہیبت ناک اژدھے کا روپ دھار کر تمام سانپوں کو نگل لیا۔ اس طرح ان کا دوسرا بڑا معجزہ یدبیضا تھا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنا دست مبارک بغل میں ڈال کر باہر نکالتے تو وہ آفتاب کی مانند شعاعیں بکھیرنے لگتا تھا۔ اتنے بڑے معجزوں کے باوجود جب ان کی قوم راہ راست نہیں آئی تو اللہ نے ان کو بلائے عام میں اس طرح مبتلا کردیا کہ ان پر قحط مسلط کردیا اور ان کے پھلوں کی پیداوار میں کمی کردی پھر بعد میں جب ان کی سرکشی اور نافرمانیاں اور زیادہ بڑھیں تو ان پر مختلف قسم کے عذاب بھیجے جانے لگے۔ مثلاً بارش اتنی کثرت سے برسادی گئی کہ طوفان نے ان کو آگھیرا، ان کے کھیتوں پر ٹڈیاں بھیج دی گئیں جس کی وجہ سے ان کی تیار فصلیں تباہ و برباد ہونے لگی، یا ان کے غلوں میں گھن کا کیڑا لگا دیا جس نے ان کے غلوں کے انبار کو ختم کرنا شروع کردیا، ان پر مینڈک کا عذاب بھیج دیا گیا کہ ان کی ہر چیز میں خواہ کھانے کی ہو یا پینے کی مینڈک ہی مینڈک ہوگئے اور پھر ان کا پانی خون کردیا گیا کہ جب بھی وہ پانی پیتے وہ خون کی شکل اختیار کرلیتا۔ بہر حال یہ نو چیزیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے اور ان کی نبوت کی خاص نشانیاں تھیں۔ اس حدیث میں ان دونوں یہودیوں نے جن نو واضح احکام کے بارے میں سوال کیا، ان سے یا تو وہی احکام مراد تھے جو رسول اللہ ﷺ نے ان سے ارشاد فرمائے یا پھر ان کی مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے انہی نو معجزات اور نشانیوں کے بارے میں سرکار دو عالم ﷺ کی زبان مقدس سے آگاہی اور توثیق حاصل کرنا تھی اس صورت میں کہا جائے گا کہ یا تو خود رسول اللہ ﷺ نے ان کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ یہ قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں اور جو ضروری احکام تھے ان کا حکم ان کو بتادیا، یا یہ کہ ان کے سوال کے جواب میں ان نو چیزوں کا ذکر فرما کر پھر ان کو اپنی طرف سے یہ احکام دیئے اور راوی نے ان کے مشہور ہونے کی وجہ سے ان کا ذکر نہیں کیا۔ راہی اس خاص حکم کی بات جو رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ نو احکام کے علاوہ خاص طور پر یہودیوں کو دیا تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ جس طرح تمام قوموں کے لئے ہفتہ میں ایک دن عبادت کے لئے مخصوص تھا اسی طرح یہودیوں کے لئے بھی شنبہ کا دن عبادت کے لئے متعین کردیا گیا تھا اور ان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس دن اللہ کی عبادت میں مشغول رہا کریں چونکہ یہ قوم شکار کا خاص ذوق اور شغف رکھتی تھی اس لئے ان کو اس دن شکار سے بھی منع کردیا گیا، لیکن اس قوم نے اس حکم کو کوئی اہمیت نہیں دی اور سخت ممانعت کے باوجود اس دن مچھلی وغیرہ کا شکار کرنے لگے، اللہ کی جانب سے ان کو بار بار متنبہ کیا گیا لیکن جب نہیں مانے تو آخر کار ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا گیا ! اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ان یہودیوں کو اس کے بارے میں بطور خاص تاکید کی کہ تم اس معاملہ میں اللہ کی قائم کی ہوئی حد سے تجاوز نہ کرو اور چونکہ تمہیں اس دن شکار کھیلنے سے منع کردیا گیا ہے اس لئے اس ممانعت پر عمل کرو اور اس حکم کی نافرمانی مت کرو۔ ان یہودیوں کا رسول اللہ ﷺ سے احکام سن کر آپ ﷺ کی رسالت کی گواہی دینا بطور قبول اور صدق دل سے نہیں تھا بلکہ اپنے علم کے اظہار اور اعتراف کے طور پر تھا۔ مطلب یہ کہ یہودیوں نے اپنی مذہبی کتابوں میں رسول اللہ ﷺ کا نبی مرسل ہونا پڑھ لیا تھا اور وہ خوب جانتے تھے کہ محمد واقعۃً اللہ کے بھیجے ہوئے نبی اور رسول ہیں۔ مگر یہ ان کی بدبختی تھی کہ اس صحیح علم کے باوجود ان کو قبول اسلام کی توفیق نہیں ہوتی تھی اور تعصب و ہٹ دھرمی نے ان کو اتنا اندھا کردیا تھا کہ ان کو بالکل سامنے کی راہ حق نظر نہیں آتی تھی۔ چناچہ ان دونوں یہودیوں نے بھی اس موقع پر بس اتنا ہی کیا کہ اپنے علم کا اعتراف کرلیا اور گواہی دی کہ آپ ﷺ واقعۃً اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔ ظاہر ہے کہ محض علم ہونا یا اپنے علم کا اعتراف کرنا وجود ایمان کے لئے کافی نہیں ہوسکتا ہے۔ رہا ان دونوں یہودیوں کا یہ کہنا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے یہ دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ ایک نبی ہوا کرے اور ان کی یہ دعا چونکہ یقینا قبول ہوئی ہوگی اس لئے ان کی اولاد میں سے کسی کا نبی ہونا بھی یقینی ہے اور جب وہ نبی ظاہر ہوگا اور تمام یہودی اس نبی کے تابع و مطیع ہو کر شوکت و غلبہ پائیں گے تو پھر ہماری شامت آجائے گی۔ یعنی تمام یہودی ہمیں اس جرم میں مار ڈالیں گے کہ ہم نے آپ کا دین کیوں قبول کیا۔ اس خوف سے ہم آپ ﷺ پر ایمان نہیں لا رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ان دونوں یہودیوں کا حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرف ایک غلط بات کی نسبت کرنا اور یقینی طور پر کہ ایک مفروضہ اور واہمہ تھا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے ہرگز یہ دعا نہیں کی تھی اور وہ اس طرح کی دعا کرتے بھی کیسے، انہوں نے تو خود تو رات اور زبور میں پڑھ رکھا تھا کہ محمد ﷺ خاتم النبیین ہیں اور ان کا دین تمام دینوں کا ناسخ ہے۔

【54】

وہ تین باتیں جو ایمان کر جڑ ہیں

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! تین باتیں ایمان کی جڑ ہیں (١) جو آدمی لا الہ اللہ کا اقرار کرے اس سے جنگ و مخاصمت ختم کردینا، اب کسی گناہ کی وجہ سے اس کو کافر مت کہو اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اس پر اسلام سے خارج ہونے کا فتوی لگاؤ (٢) جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے جہاد ہمیشہ کے لئے جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ اس امت کے آخر میں ایک آدمی آکر دجال سے جنگ کرے گا۔ کسی عادل (بادشاہ) کے عدل یا کسی ظالم کے ظلم کا بہانہ لے کر جہاد ختم نہیں کیا جاسکتا (٣) اور تقدیر پر ایمان لانا۔ (ابوداؤد) تشریح کسی مسلمان کو کافر کہنے کی ممانعت اس حدیث نے واضح طور پر ثابت کردی ہے، مطلب یہ ہے جس طرح اچھے کام کرنے والے کافر کو مسلمان کہنا منع ہے تاوقتیکہ وہ توحید و رسالت کا اقرار نہ کرے اسی طرح کسی مسلمان کو صرف اس کی بداعمالیوں کی بنا پر کافر کہنا بھی سخت جرم ہے جب تک کہ وہ عقیدہ کفریہ کا اعلان نہ کرے پس لَا تُکَفِّرْہُ بِذَنْبٍ ( کسی گناہ کی وجہ سے اس کو کافر مت کہو) کے الفاظ ہیں تو خارجیوں کی تردید ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ مومن اگر گناہ کا مرتکب ہوجائے خواہ وہ گناہ صغیرہ ہی کیوں نہ ہو تو وہ وہ کافر ہوجاتا ہے اور وَلَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِ سْلَامِ بِعَمَلٍ ( اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اسے خارج اسلام قرار دو ) کے الفاظ میں (معتزلہ) کی تردید ہے جو فرماتے ہیں کہ بندہ گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے خارج از اسلام ہوجاتا ہے اگرچہ کافر نہیں ہوتا۔ مرتکب گناہ کبیرہ کے لئے وہ ایک درمیانی درجہ مانتے ہیں، یعنی نہ تو اس کو مسلمان فرماتے ہیں اور نہ کافر۔ بہرحال خارجیوں اور معتزلہ سے قطع نظر موجودہ دور کے ان مسلمانوں کو بھی اس حدیث کے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے جو کفر سازی کے کارخانے چلاتے ہیں اور اپنے مکتب فکر کے علاوہ دوسرے تمام مسلمانوں کو بےدریغ کافر قرار دیتے ہیں۔ یہ شقی القلب محض ذاتی اغراض اور نفساتی خواہشات کے تحت نہ صرف عام مسلمانوں کو بلکہ علماء حق اور اولیاء اللہ تک کو کافر کہنے سے ذرا نہیں جھجکتے۔ ان لوگوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا چاہیے کہ جب لسان نبوت نے عاصی مسلمان کو بھی کافر کہنے سے سخت منع فرمایا ہے تو پھر ان بزرگان دین اور پیشوا اسلام کا کافر کہنا کہ جن کی زندگیوں کا تمام حصہ مذہب کی خدمت و اشاعت میں گزرتا ہے اور جو ان کو کافر نہ کہے اس کو بھی کافر کہنا احکام شریعت اور فرمان رسالت سے کتنا مضحکہ خیز معاملہ ہے جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور خسران آخرت کے علاوہ اور کچھ نکل سکتا۔ حدیث میں جن باتوں کو ایمان کی جڑ فرمایا گیا ہے ان میں سے پہلی بات تو وہی ہے جس کی وضاحت اوپر ہوئی۔ دوسری بات جہاد ہے، اس بارے میں ارشاد نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اب روئے زمین پر دین حق (جو اللہ کا آخری اور کامل دین ہے) کے ظاہر ہوجانے اور رسول اللہ کی رسالت کا اعلان ہوجانے کے بعد سے اس وقت تک کہ آخر میں قیامت کے قریب دجال مارا نہ جائے، یاجوج ماجوج ظاہر ہو کر فنا کے گھاٹ نہ اترجائیں اور یہ روئے زمین دین کے ایک ایک دشمن اور منکر سے پاک نہ ہوجائے، جہاد برابر جاری رہے گا۔ جہاد کی فرضیت اور اہمیت اس صورت میں بھی ختم نہیں ہوگی جب کہ کوئی اسلامی سربراہ مملکت ظالم و جابر ہو اگر دشمنان دین کے خلاف وہ جہاد کا اعلان کر دے تو اس کو ماننا اور اس کے ساتھ جہاد میں شریک ہونا شرعی طور پر ضروری ہوگا۔ یہ نہیں کہ اس کے ظلم و جبر کا بہانہ لے کر جہاد میں شریک اور مددگار بننے سے انکار کردیا جائے اسی طرح اگر کسی دشمن دین قوم کا سربراہ اور بادشاہ اتفاق سے عادل اور منصف مزاج ہو تو ہرچند کہ بادشاہ کا عدل امن و انصاف کا باعث ہوتا ہے، لیکن اسلام کی شوکت بڑھانے اور دین کا بول بالا کرنے کے لئے اس عادل بادشاہ کی قوم کے خلاف بھی جہاد کو غیر ضروری نہیں دیا جاسکتا۔ تیسری بات تقدیر پر اعتقاد و یقین رکھنا ہے یعنی ایمان کی سلامتی کے لئے یہ یقین رکھنا اشد ضروری ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو بھی حادثات و واقعات پیش آتے ہیں وہ سب قضا و قدر الہٰی کے تحت ہے۔

【55】

ارتکاب زنا کے وقت ایمان باہر آجاتا ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! جب بندہ زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے اور اس کے سر پر سائبان کی طرح معلق ہوجاتا ہے اور پھر جب وہ اس معصیت سے فارغ ہوجاتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ ( جامع ترمذی، سنن ابوداؤد) تشریح حافظ ابن تیمیہ نے اس موقع پر بڑی اچھی مثال دی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک گناہ گار کی مثال ایسی ہے۔ جیسی آنکھیں بند کرنے کے بعد ایک بینا آدمی اپنی آنکھیں بند کرے تو اسے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ اور اس لحاظ سے یہ بینا اور ایک نابینا دونوں برابر ہوجاتے ہیں، نہ یہ دیکھتا ہے نہ وہ، لیکن فرق یہ ہے کہ نابینا آنکھوں کی روشنی ہی نہیں رکھتا اور بینا اگرچہ روشنی تو رکھتا ہے مگر غلاف چشم کی وجہ سے وہ روشنی کام نہیں کرتی اسی طرح ایک مومن کے نور بصیرت پر جب بہیمیت و ضلالت کا حجاب پڑجاتا ہے تو وہ بھی کافر کی طرح معصیت اور طاعت کا فرق نہیں پہنچانتا۔ اس لئے یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ مومن جس حالت میں زنا کرتا ہے اس کا نور ایمانی بہیمیت و معصیت کی تاریکی سے ایسا مدہم پڑجاتا ہے کہ اسے بھی معصیت کرنے میں کوئی باق نہیں رہتا اور جب بندہ اس معصیت کے بعد صدق دل سے توبہ کرلیتا ہے تو یہ حجاب بہیمیت پر چاک ہوجاتا ہے اور نور ایمانی پھر جگمگانے لگتا ہے۔ (ترجمان السنۃ)

【56】

حضرت معاذ کو دس باتوں کی وصیت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے دس باتوں کی وصیت فرمائی، چناچہ فرمایا (١) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اگرچہ تمہیں جان سے مار ڈالا جائے اور جلا دیا جائے (٢) اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرو اگرچہ وہ تمہیں اپنے اہل اور مال چھوڑ دینے کا حکم دیں (٣) جان بوجھ کر کوئی فرض نماز نہ چھوڑو کیونکہ جو آدمی عمداً نماز چھوڑ دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں (٤) شراب مت پیو کیونکہ شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے (٥) اللہ کی نافرمانی اور گناہ سے بچو کیونکہ نافرمانی کرنے سے اللہ کا غصہ اتر آتا ہے۔ (٦) جہاد میں دشمنوں کو ہرگز پیٹھ نہ دکھلاؤ اگرچہ تمہارے ساتھ کے تمام لوگ ہلاک ہوجائیں۔ (٧) جب لوگوں میں موت (وباء کی صورت میں) پھیل جائے اور تم ان میں موجود ہو تو ثابت قدم رہو یعنی ان کے درمیان سے بھاگو مت (٨) اپنے اہل و عیال پر اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرتے رہو۔ (٩) تادیباً اپنا ڈنڈا ان سے نہ ہٹاؤ (١٠) اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں انہیں ڈراتے رہو یعنی اہل و عیال میں سے کسی کو سزاء یا تا دیبا کچھ مارنا پیٹنا ضروری ہو تو اس سے پہلو تہی نہ کرو اور ان کو اچھی اچھی باتوں کی نصیحت و تلقین کرتے رہا کرو اور دین کے احکام و مسائل کی تعلیم دیا کرو اور ان کو بری باتوں سے بچانے کی کوشش کرو۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح شرک اپنی برائی کے اعتبار سے کس قدر خطرناک ہے اور اخروی حیثیت سے کتنی ہلاکت خیزی رکھتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت معاذ کو وصیت فرمائی کہ اگر تمہیں جان سے مار ڈالے جانے کا بھی خطرہ ہو یا تمہیں آگ میں ڈالا جا رہا ہو تو بھی تم توحید کے معاملہ میں اپنے عقیدہ سے ایک انچ نیچے مت اترنا بلکہ موت کی پروا کئے بغیر اپنے اعتقاد پر پختگی کے ساتھ قائم رہنا، تاہم جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے تو کہا جاتا ہے کہ حضرت معاذ (رض) چونکہ اپنی فطرت کے اعتبار سے شریعت کی پیروی میں انتہائی سخت تھے اور کسی بھی مسئلہ کے اسی پہلو کو اختیار کرتے تھے جو اولیٰ ہوتا تھا۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ان کے مزاج اور ذوق کے مطابق اس قدر اہمیت کے ساتھ ان کو حکم دیا، ورنہ ایسے موقع پر جب کہ اپنے ایمان واسلام کا اظہار اپنی موت کو دعوت دینے والا اور کفر و شرک کا کلمہ زبان سے ادا کئے بغیر جان نہ بچتی ہو تو اس کی اجازت ہے کہ کفر و شرک کا کوئی کلمہ زبان سے ادا کرے بشرطیکہ دل میں ایمان پوری طرح موجود رہے۔ والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کی بھی اہمیت و تاکید ہی کو ظاہر کرنے کے لئے بطور مبالغہ فرمایا گیا کہ اگر ماں باپ تمہیں تمہارے اہل و عیال سے الگ ہوجانے یا تمہیں تمہارے مال و اسباب اور املاک و جائیداد سے دستبردار ہوجانے کا بھی حکم دیں تو اس حکم کی اطاعت کرو، اس بارے میں بھی اصل مسئلہ یہ ہے کہ ماں باپ کا یہ حکم ماننا واجب نہیں ہے تاکہ حرج و نقصان میں مبتلا ہونا لازم نہ آئے۔ فرض نماز کی اہمیت جتلانے کے لئے فرمایا گیا کہ اگر تم جان بوجھ کر فرض نماز چھوڑ دو گے تو پھر اپنے آپ کو دنیا اور آخرت میں اللہ کی ذمہ داری سے باہر سمجھو، دنیا میں تم اس اعتبار سے کہ اسلامی نظام اور اسلامی حکومت کے قانون کے تحت جس تعزیر کے مستوجب قرار پاؤ گے اس میں اللہ کی طرف سے کوئی امن و عافیت تمہیں نہیں ملے گی اور آخرت میں اس اعتبار سے کہ وہاں ترک نماز کے سبب خود اللہ تمہیں عذاب میں گرفتار کرے گا۔ دشمن کو پیٹھ دکھانے کے بارے میں جیسا کہ پہلے بھی گزرا ۔ یہ مسئلہ ہے کہ اگر دشمن دو تہائی تک بھی زائد ہوں یعنی ایک مسلمان کے مقابلہ پر دو دشمن دین ہوں تو اس صورت میں مقابلہ سے ہٹ جانا اور راہ فرار اختیار کرنا کسی مسلمان کو ہرگز جائز نہیں ہے ہاں اگر ایک کے مقابلہ میں دو سے زائد ہوں تو پھر تباہی کا خطرہ دیکھ کر مقابلہ سے ہٹ جانا اور جان بچانے کے لئے راہ فرار اختیار کرلینا جائز ہوگا۔ پس رسول اللہ ﷺ نے معاذ (رض) کو یہ حکم مبالغہ کے طور پر دیا کہ تم کسی بھی صورت میں اپنے دشمن کو پیٹھ مت دکھانا خواہ تمہارے تمام ساتھی شہید ہوجائیں اور دشمن کے مقابلہ پر تم تنہا ہی کیوں نہ رہ جاؤ اس حدیث میں ایک اعتقادی کمزوری کی بھی نشان دہی کی گئی ہے اور اس کے خلاف حضرت معاذ (رض) کو متنبہ کیا گیا ہے۔ یعنی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی آبادی میں کوئی وبا پھیل جاتی ہے اور موتیں کثرت سے واقع ہونے لگتی ہیں تو عوام دہشت زدہ ہو کر اپنے گھر بار چھوڑ دیتے ہیں اور اس آبادی سے نکل بھاگتے ہیں۔ اس بارے میں بھی اصل مسئلہ یوں ہے کہ جو لوگ اس آبادی میں پہلے سے مقیم نہ ہوں بلکہ دوسری جگہوں پر ہوں تو ان کے لئے جائز ہے کہ وہ اس آبادی سے دور رہیں اور وہاں نہ آئیں لیکن جو لوگ پہلے ہی سے آبادی میں مقیم ہوں ان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ موت کے خوف سے اس آبادی کو چھوڑ دیں اور وہاں سے نکل بھاگیں، کیونکہ وباء زدہ آبادی سے نکل بھاگنا ایسا ہی گناہ ہے جیسا دشمن کے مقابلہ سے بھاگ کھڑا ہونے کا بلکہ جو آدمی اس اعتقاد سے بھاگے گا کہ اگر یہاں رہا تو مرجاؤں گا اور یہاں سے نکل بھاگنے پر موت سے بچ جاؤں گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔

【57】

اب کفر ہے یا ایمان

اور حضرت حذیفہ (رض) (آپ کا اسم گرامی حذیفہ بن یمان ہے اور کنیت ابوعبداللہ عیسیٰ ہے۔ آپ کی وفات حضرت عثمان کی شہادت کے بعد چالیسوں دن ٣٦ ھ میں ہوئی) ۔ فرماتے ہیں کہ نفاق کا حکم رسول اللہ ﷺ کے عہد پر ختم ہوگیا لہٰذا اب تو (دوہی صورتیں ہوں گی کہ) کفر ہوگا یا ایمان۔ (صحیح البخاری ) تشریح عہد رسالت میں بعض مصلحتوں کی بنا پر منافقین کو مسلمانوں ہی کے حکم میں رکھا جاتا تھا اور ان کی ریشہ دوانیوں و سازشوں سے چشم پوشی کی جایا کرتی تھی، لیکن اب یہ حکم باقی نہیں رہا، فرض کرو اگر کسی مسلمان کے بارے میں یہ ظاہر ہوجائے کہ یہ آدمی مومن نہیں ہے، بلکہ حقیقی منافق ہے تو اس پر کفر و ارتداد کا حکم لاگو ہوگا اور اسلامی حکومت اس کو سزائے موت دے دے گی۔

【58】

یہ و سوسہ کے بیان میں ہے

وسوسہ گناہ یا کفر سے متعلق اس خیال کو کہتے ہیں جو دل میں گزرے یا شیطان دل و دماغ میں ڈالے اس کے مقابلہ پر الہام اس اچھے اور نیک خیال کو فرماتے ہیں جو اللہ کی طرف سے دل و دماغ میں ڈالا جاتا ہے۔ وسوسہ کی قسمیں وسوسہ کی مختلف صورتیں اور نوعیتیں ہوتی ہیں اور اسی اعتبار سے علماء نے اس کی الگ الگ قسمیں متعین کی ہیں چناچہ وسوسہ کی ایک قسم تو ضروری یعنی اضطراری ہے اور دوسری قسم اختیاری ہے۔ ضروری یا اضطراری وسوسہ اس کو فرماتے ہیں کہ کسی گناہ کا یا ایمان و یقین کے منافی کسی بات کا خیال اچانک اور بےاختیار دل و دماغ میں گزر جائے اس کو اصطلاحی طور پر ہاجس سے تعبیر کیا جاتا ہے اس (ہاجس) کی معافی گزشتہ امتوں میں بھی رہی ہے اور اس امت میں بھی ہے اور اگر وہی برا خیال دل و دماغ میں ٹھہر جائے اور خلجانی کیفیت پیدا ہوجائے تو اس کو خاطر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ (خاطر) بھی امت سے معاف ہے۔ اختیاری و سوسہ اس کو فرماتے ہیں کہ کسی گناہ یا ایمان و یقین کے منافی کسی بات کا خیال دل و دماغ میں پیدا ہو، ٹھہرا رہے، لگاتار رہے۔ مستقل خلجان کرتا رہے، طبیعت کی خواہش بھی اس کے کرنے کی ہو اور ایک گونہ لذت و محبت بھی اس کے تئیں محسوس ہو۔ اختیاری وسوسہ کی یہ صورت ہم کہلاتی ہے اور یہ بھی صرف اس امت سے معاف ہے، اس پر کوئی مواخذہ نہیں اور جب تک یہ عملی صورت اختیار نہ کرے اس پر کوئی گناہ نامہ اعمال میں نہیں لکھا جاتا۔ بلکہ اگر عمل کا قصد ہوجائے اور پھر اپنے آپ کو عمل سے باز رکھے تو اس کے عوض نیکی لکھی جاتی ہے۔ ہم کے مقابلہ پر اختیاری وسوسہ کی دوسری صورت کا نام عزم ہے یعنی انسانی طبیعت اور نفس کا کسی برے خیال اور بری بات کو اپنے اندر کرنا اور جما لینا اور نہ صرف یہ کہ اس خیال سے نفرت و کراہیت نہ ہو بلکہ اس پر عمل کرنے کا ایسا پختہ ارادہ کرلینا کہ اگر کوئی خارجی مانع نہ ہو اور اسباب و ذرائع مہیا ہوں تو وہ یقینی طور پر عملی صورت اختیار کرلے وسوسہ کی یہ صورت ایسی ہے جو قابل مواخذہ ہے لیکن اس مواخذہ کی نوعیت عملی طور پر ہونے والے مواخذہ سے ہلکی ہوگی، مطلب یہ کہ وسوسہ جب تک اندر رہے گا اس پر کم گناہ ہوگا اور جب اندر سے نکل کر عملی صورت اختیار کرے گا تو گناہ زیادہ ہوگا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ وسوسہ کی مذکورہ بالا تقسیم ان افعال و اعمال کی نسبت سے ہے جن کے وقوع اور صدور کا تعلق ظاہری اعضاء جسم سے جیسے زنا اور چوری وغیرہ وغیرہ جو باتیں دل و دماغ کا فعل کہلاتی ہیں جیسے برا عقیدہ اور حسد وغیرہ وغیرہ تو وہ اس تقسیم میں داخل نہیں ہیں ان کے ہمیشہ استمرار پر بھی مواخذہ ہوتا ہے

【59】

وسوسوں کی معافی

حضرت ابوہریرۃ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لوگوں کے ان وسوسوں کو معاف کردیا ہے جو ان کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں جب تک کہ وہ ان وسوسوں پر عمل نہ کریں اور ان کو زبان پر نہ لائیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

【60】

وسوسہ کو برا سمجھنا ایمان کی علامت ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ کے چند صحابی بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم اپنے دلوں میں بعض ایسی باتیں (یعنی وسوسے) پاتے ہیں جس کا زبان پر لانا بھی ہم برا سمجھتے ہیں۔ سرکار نے پوچھا ! کیا تم واقعی ایسا پاتے ہو۔ (کہ جب کوئی ایسا وسوسہ تمہارے اندر پیدا ہوتا ہے تو خود تمہارا دل اس کو ناپسند کرتا ہے اور اس کا زبان پر لانا بھی تم برا جانتے ہو ؟ ) صحابہ نے عرض کیا ! جی ہاں تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ کھلا ہوا ایمان ہے۔ (صحیح مسلم)

【61】

شیطان وسو سے پیدا کرے تو اللہ کی پناہ مانگو

اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! تم میں سے بعض آدمیوں کے پاس شیطان آتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ فلاں فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا اور اس چیز کو کس نے پیدا کیا ؟ تاآنکہ پھر وہ یوں کہتا ہے کہ تیرے پروردگار کو کس نے پیدا کیا ؟ جب نوبت یہاں تک آجائے تو اس کو چاہیے کہ اللہ سے پناہ مانگے اور اس سلسلہ کو ختم کر دے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح شیطان انسان کے روحانی ارتقاء کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس کا بنیادی نصب العین ہی یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کو، جو اللہ کی ذات وصفات پر ایمان و یقین رکھتے ہیں، ورغلانے اور بہکانے میں لگا رہے ہیں، یہی نہیں کہ وہ فریب کاری کے ذریعہ انسان کے نیک عمل اور اچھے کاموں میں رکاوٹ اور تعطل پیدا کرنے کی سعی کرتا رہے بلکہ اس زبردست قدرت کے بل پر کہ جو حق اللہ تعالیٰ نے تکوینی مصلحت کے تحت اس کو دی ہے۔ وسوسہ اندازی کے ذریعہ انسان کی سوچ فکر اور خیالات کی دنیا میں مختلف انداز کے شبہات اور برائی بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن جن لوگوں کی سوچ فکر اور خیالات کے سر چشموں پر ایمان و یقین کی مضبوط گرفت ہوتی ہے وہ اپنے ایمان کی فکری اور شعوری طاقت سے شیطان کے وسوسوں کو ناکارہ بنا دیتے ہیں، چناچہ اس حدیث میں جہاں بعض شیطانی وسوسوں کی نشان دہی کی گئی ہے وہیں اس پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جو ان وسوسوں کو غیر موثر اور ناکارہ بنانے سے تعلق رکھتا ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ پہلے تو شیطان اللہ کی مخلوقات اور موجودات کے بارے میں وسوسہ اندازی کرتا ہے، مثلاً فکر و خیال میں یہ بات ڈالتا ہے کہ انسان کو وجود کس نے بنایا، یہ زمین و آسمان کی تخلیق کس کا کارنامہ ہے، چونکہ اللہ کی ذات وصفات پر ایمان رکھنے والوں کی عقل سلیم کائنات کی تمام مخلوقات و موجودات کی تخلیقی و تکوینی نوعیت کا بدیہی شعور و ادراک رکھتی ہے اس لئے مخلوقات کی حد تک شیطان کی وسوسہ اندازی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی لیکن معاملہ وہاں نازک ہوجاتا ہے جب یہ سلسلہ نازک ہو کر ذات باری تعالیٰ تک پہنچ جائے اور وسوسہ شیطانی دل و دماغ سے سوال کرے جب یہ زمین و آسمان اور ساری مخلوقات اللہ کی پیدا کردہ ہیں تو پھر خود اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ فرمایا گیا کہ جوں ہی یہ وسوسہ پیدا ہو اپنے اللہ سے پناہ مانگو اور اپنے ذہن سے اس فاسد خیال کو فوراً جھٹک دو تاکہ وسوسہ شیطانی کا سلسلہ منقطع ہوجائے اللہ کی پناہ چاہنے کا مطلب محض زبان سے چند الفاظ ادا کرلینا نہیں ہے بلکہ یہ کہ ایک طرف تو اپنے فکر و خیال کو یکسو کر کے اس عقیدہ یقین کی گرفت میں دے دو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم ہے، وہ واجب الوجود ہے اس کو کسی نے پیدا نہیں کیا، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اور دوسری طرف ریاضیت و مجاہدہ اور ذات باری تعالیٰ کے ذکر و استغراق کے ذریعہ اپنے نفس کے تزکیہ اور ذہن و فکر کے تحفظ اور سلامتی کی طرف متوجہ رہو۔ وسوسہ کی راہ روکنے کا ایک فوری موثر طریقہ علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ مجلس بدل دی جائے۔ یعنی جس جگہ بیٹھے یا لیٹے ہوئے اس طرح کا وسوسہ پیدا ہو وہاں سے فورا ہٹ جائے اور کسی دوسری جگہ جا کر کسی کام اور مشغلہ میں لگ جائے اس طرح دھیان فوری طور پر ہٹ جائے گا اور وسوسہ کی راہ ماری جائے گی۔

【62】

شیطان وسو سے پیدا کرے تو اللہ کی پناہ مانگو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ! لوگ ہمیشہ اپنے دل میں مخلوقات وغیرہ کے بارے میں خیالات پکارتے رہیں گے، یہاں تک کہ کہا جائے گا (یعنی دماغ میں یہ وسوسہ آئے گا) کہ اس تمام مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا ہے (تو) اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ پس جس آدمی کے دل و دماغ میں اس قسم کا کوئی خیال اور وسوسہ پیدا ہو تو وہ یہ کہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر اور اس رسول پر ایمان لایا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح شیطان کی وسوسہ اندازی اور گمراہ کن خیالات کی روش سے بچنے کے لئے ایک طریقہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایسے موقع پر (میں اللہ پر اس کے رسول پر ایمان لایا) پڑھنا چاہیے، اس کلمہ کے ورد کے ذریعہ زبان یہ اقرار و اعتراف کرے گی کہ میں اللہ کی ذات پر اور اس کے سچے رسول پر ایمان رکھتا ہوں جس نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ اس کی ذات واجب الوجود ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کو کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ تمام جہاں کا اور تمام چیزوں کا وہی خالق ہے وہی دل و دماغ میں ان باتوں کی صحت و صداقت کا یقین راسخ ہوگا اور ذہن و فکر کو برے خیالات سے تحفظ و سلامتی حاصل ہوگی جس کے سبب شیطان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

【63】

ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان اور ایک فرشتہ مقرر کیا گیا ہے

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ ایک ہمزاد جنوں (شیطان میں سے اور ایک ہمزاد فرشتوں میں سے مقرر نہ کیا گیا ہو، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ ﷺ کے ساتھ بھی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں میرے ساتھ بھی لیکن اللہ نے مجھ کو اس (جن موکل) سے مقابلہ کرنے میں مدد دے رکھی ہے اس لئے میں اس (کے مکر و فریب اور اس کی گمراہی) سے محفوظ رہتا ہوں، بلکہ یہاں تک کہ) وہ بھی مجھے بھلائی کا مشورہ دیتا ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کے ساتھ موکل ہوتے ہیں ان میں سے ایک تو فرشتہ ہے جو نیکی و بھلائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور انسان کو اچھی باتیں و نیک کام سکھاتا ہے اور اس کے قلب میں خیر و بھلائی کی چیزیں ڈالا رہتا ہے، اس کو ملہم کہتے ہیں، دوسرا ایک جن (شیطان) ہوتا ہے، جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کو برائی کے راستہ پر ڈالتا رہے۔ چناچہ وہ گناہ و معصیت کی باتیں بتاتا ہے اور دل میں برے خیالات و غلط وسوسے پیدا کرتا رہتا ہے اس کا نام وسواس ہے۔

【64】

شیطان انسان کی رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انسان کے اندر شیطان اس طرح دوڑتا پھرتا ہے جیسے رگوں میں خون گردش کرتا رہتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ کہ شیطان انسان کو بہکانے کی کامل قدرت رکھتا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ وہ مختلف صورتوں میں اچھے انسانوں اور نیک بندوں کو نیکی و بھلائی کے راستہ پر چلنے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے بلکہ انسان کی داخلی کائنات میں گھس کر اس کے ذہن و فکر اور اس کے قلب و دماغ کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

【65】

ولادت کے وقت بچہ کا رونا شیطانی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بنی آدم کے یہاں جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے شیطان اس کو چھوتا ہے جس کی وجہ سے بچہ چیخ اٹھتا ہے لیکن ابن مریم (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) اور ان کی ماں کو شیطان نے نہیں چھوا۔ (صحیح البخاری و مسلم) تشریح شیطان کے چھونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ولادت کے وقت بچہ کی کوکھ میں اپنی انگلیاں اس طرح مارتا ہے کہ بچہ تکلیف محسوس کرتا ہے اور چلا چلا کر رونے لگتا ہے۔ اس شیطانی ایذاء کا شکار ہر بچہ ہوتا ہے۔ صرف حضرت مریم (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس شیطانی عمل سے محفوظ رہے تھے ان دونوں کا محفوظ رہنا بظاہر اس دعا کی مقبولیت کا نتیجہ تھا جو حضرت مریم کی والدہ نے کی تھی اور جس کو قرآن نے یوں نقل کیا ہے۔ (ا یت اِنِّیْ اُعِیْذُھَابِکَ وَذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ۔ (ال عمران ٣٦) (اے خدا) میں اس مریم کو اس کی اولاد کو شیطان مردود سے آپ کی پناہ دیتی ہوں۔ یہاں یہ اشکال بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اگر شیطان کو اتنی قدرت ہو تو وہ سب کو ہلاک کر دے۔ کیونکہ شیطان کو صرف اتنی ہی قدرت دی گئی ہے وہ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کرسکتا اور نہ اس کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی کو اس سے زیادہ تکلیف پہنچا کر ہلاک کر دے، دوسرے شیطان کے مقابلہ میں ملائکہ بھی تو ہوتے ہیں جو نگہبانی کرتے ہیں اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کو جتنی قدرت دی گئی ہے اس سے تجاوز کر جائے اور اپنے کسی مہلک ارادہ میں کامیاب ہوجائے۔

【66】

ولادت کے وقت بچہ کا رونا شیطانی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ! ولادت کے وقت بچہ اس لئے چلاتا ہے کہ شیطان اس کو کچوکے لگاتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

【67】

میاں بیوی کے درمیان شیطان کا پسند یدہ کام

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابلیس اپنا تخت حکومت پانی (یعنی سمندر) پر رکھتا ہے۔ پھر وہاں سے اپنی فوجوں کو روانہ کرتا ہے تاکہ لوگوں کو فتنہ اور گمراہی میں مبتلا کریں۔ اس کی فوجوں میں ابلیس کا سب سے بڑا مقرب وہ ہے جو سب سے بڑا فتنہ انداز ہو۔ ان میں سے ایک واپس آکر کہتا ہے۔ میں نے فلاں فلاں فتنے پیدا کئے ہیں۔ ابلیس اس کے جواب میں کہتا ہے تو نے کچھ نہیں کیا، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ پھر ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے ! میں نے (ایک بندہ کو گمراہ کرنا شروع کیا اور) اس وقت تک اس آدمی کا پیچھا نہیں چھوڑا جب تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈالو دی۔ رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ابلیس ( یہ سن کر) اس کو اپنے قریب بٹھا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو نے اچھا کام کیا (حدیث کے ایک راوی) اعمش فرماتے ہیں میرا خیال ہے جابر (رض) نے بجائے (فیدنیہ کے) فیلتذمہ (پس ابلیس اس کو گلے لگا لیتا ہے) کے الفاظ نقل کئے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح جدائی ڈلوانے سے مراد لڑائی جھگڑے کے ذریعہ مرد کی زبان سے ناسمجھی میں ایسے الفاظ ادا کردینا ہے جس سے اس کی بیوی پر طلاق بائن پڑجائے۔ طلاق بائن میں عورت اپنے خاوند پر حرام ہوجاتی ہے، اس سے شیطان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرد اپنی جہالت کے سبب اس عورت کو اپنے نکاح میں داخل سمجھتے ہوئے اس سے صحبت کرتا رہے جو دراصل حرام کاری ہوتی ہے اور اس طرح کے لوگوں کی حرام کاری کے نتیجہ میں ناجائز اولاد پیدا ہوتی رہے، جس سے روئے زمین پر ناجائز اولاد کی تعداد بڑھتی رہے اور وہ ناجائز پیدا ہونے والے لوگ دنیا میں فسق و فجور اور گناہ و معصیت زیادہ سے زیادہ پھیلاتے رہیں۔

【68】

جزیرۃ العرب میں توحید کی مضبوط بنیاد سے شیطان مایوسی کا شکار!

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! شیطان اس بات سے مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرہ عرب میں مصلی (یعنی مسلمان) اس کی پرستش کریں لیکن ان کے درمیان فتنہ و فساد پھیلانے سے مایوس نہیں ہوا ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ کہ جزیرۃ العرب میں ایمان و اسلام کی جڑیں اتنی مضبوط ہوگئیں ہیں اور توحید کا کلمہ یہاں کے لوگوں کے دل و دماغ میں اس طرح جم گیا ہے کہ اب اس خطہ ارض میں بت پرستی جیسی لعنت کبھی نظر آئے گی چناچہ اس بارے میں شیطان نے بھی اپنی شکست تسلیم کرلی ہے اور وہ اس بات سے قطعا مایوس ہوگیا ہے کہ یہاں کے مومن و مسلمان اس کے بہکاوے میں آکر بت پرستی اور دوسری کھلی ہوئی مشرکانہ حرکتوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں، لیکن بہر صورت بہکانا اور ورغلانا چونکہ شیطان کی فطرت ہے اس لئے اس نے جزیرۃ العرب کے لوگوں میں اپنا مشن ختم نہیں کیا ہے اور اس بات میں پر امید ہے کہ ان کے درمیان طرح طرح جذبات ابھار کر ان کو آپس میں لڑایا جاسکتا ہے۔ ان کو افتراق و انتشار کے فتنوں میں مبتلا کیا جاسکتا ہے۔ اس حدیث کے پس منظر میں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ زمانہ رسالت سے لے کر آج تک کبھی بھی جزیرۃ العرب میں بت پرستی نہیں ہوئی۔ کھلے ہوئے مشرکانہ اعمال کا کبھی مظاہرہ نہیں ہوا۔ یہ دوسری بات ہے کہ شیطان کمزور عقیدہ لوگوں کو ایمان و اسلام سے منحرف کرنے میں کامیاب ہوگیا، کچھ لوگ مرتد ہوگئے ہوں لیکن ان میں سے بھی کوئی بت پرست ہوگیا ہو ایسا ہرگز نہیں ہوا۔

【69】

شیطانی وسوسہ سے محفوظ رہنے پر اللہ کا شکر ادا کرو

حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک صحابی نے حاضر ہو کر عرض کیا ( یا رسول اللہ) میں اپنے اندر ایسا (برا) خیال پاتا ہوں کہ زبان سے اس کے اظہار کی بجائے جل کر کوئلہ ہوجانا مجھ کو زیادہ پسند ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا ! اللہ کا شکر ادا کرو جس نے اس خیال کو وسوسہ کی حد تک رکھا۔ (سنن ابوداؤد) تشریح شیطان نے ان صحابی کے اندر کوئی برا خیال ڈال دیا ہوگا جس سے ان کے ایمان کی حسیاتی کیفیت بےچین ہوگئی ہوگی اور وہ بھاگتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کو تسلی دی کہ اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہ تو اللہ کا بڑا فضل ہے کہ تمہارا ایمانی احساس و شعور پوری طرح بیدار رہے اور اس برے خیال کو خود تمہارے دل و دماغ نے قبول نہیں کیا اور وہ وسوسہ کی حد سے آگے بڑھنے نہیں پایا۔ اس طرح کے وسوسہ پر نہ کوئی مواخذہ ہے اور نہ کسی نقصان کا خدشہ، اس کو تو اللہ تعالیٰ نے معاف قرار دیا ہے، ہاں اگر وہ برا خیال وسوسہ کی حد سے آگے بڑھ کر تمہاری زبان یا عمل سے ظاہر ہوجاتا تو پھر تمہارے لئے خطرہ کی بات تھی۔

【70】

اپنے اندر نیکی کی تحریک پر اللہ کا شکر ادا کرو اور شیطان کی وسوسہ اندازی کے وقت اللہ کی پناہ چاہو

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ! حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان پر ایک تصرف تو شیطان کا ہوا کرتا ہے اور ایک تصرف فرشتہ کا شیطان کا تصرف تو یہ ہے کہ وہ برائی پر ابھارتا ہے اور حق کو جھٹلاتا ہے اور فرشتہ کا تصرف یہ ہے کہ وہ نیکی پر ابھارتا ہے اور حق کی تصدیق کرتا لہٰذا جو آدمی (نیکی پر فرشتہ کے ابھارنے کی) یہ کیفیت اپنے اندر پائے تو اس کو سمجھنا چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے (ہدایت) ہے اس پر اس کو اللہ کا شکر بجا لانا چاہیے اور جو آدمی دوسری کیفیت (یعنی شیطان کی وسوسہ اندازی) اپنے اندر پائے تو اس کو چاہیے کہ شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرے پھر آپ ﷺ نے یہ قرآنی آیت پڑھی (جس کا ترجمہ ہے) شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے اور گناہ کے لئے اکساتا ہے۔ اس روایت کو جامع ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح فرشتہ کے ابھارنے کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ نیکی کی اہمیت اور نیکی پر ملنے والے اجر و انعام کی کشش ظاہر کرتا ہے اور انسان کے احساس و شعور میں یہ بات ڈالتا ہے کہ اللہ کا سچا دین ہی انسانیت کی بقا و ترقی کا ضامن ہے اللہ کے رسول جو شریعت لے کر آئے ہیں اسی میں بنی آدم کی دنیاوی اور آخروی نجات پوشیدہ ہے۔ اگر اپنی فلاح و نجات چاہتے ہو تو برائی کے راستہ سے بچو اور نیکی کے راستہ کو اختیار کرو۔ شیطان کا ابھارنا یہ ہوتا ہے کہ وہ راہ حق کو تاریک کر کے دکھاتا ہے وسوسہ اندازی کے ذریعہ دین کی بنیادی باتوں مثلاً تو حید، نبوت آخرت اور دوسرے معتقدات میں تردد و تشکیک پیدا کرتا ہے۔ نیکی کو بدنما صورت میں اور بدی کو اچھی شکل و صورت میں پیش کرتا ہے، انسانی دماغ یہ میں بات بٹھانے کی سعی کرتا ہے کہ اگر ان چیزوں کو اختیار کرو گے جو نیکی سے تعبیر کی جاتی ہیں تو پریشانیاں اٹھاؤ گے، تکلیفیں، برداشت کرو گے، مثلاً توکل و قناعت کی زندگی اختیار کرو گے اور اپنے اوقات کو دنیا سازی میں صرف کرنے کی بجائے اللہ کی عبادت اور دین کی خدمت میں لگاؤ گے تو تم نہ مال دولت حاصل کر پاؤ گے اور نہ دنیا کی کوئی آسائش و راحت اٹھا پاؤ گے، الٹے فقر و محتاجگی میں مبتلا ہوجاؤ گے۔

【71】

وسوسے پیدا ہوں تو شیطان کو تھتکار دو اور اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ! لوگ (پہلے تو مخلوقات وغیرہ کے بارے میں) پوچھا پوچھی کریں گے۔ اور پھر آخر میں یہ سوال کھڑا کیا جائے گا کہ ساری مخلوقات کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو خود اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ جب یہ سوال کھڑا کیا جائے تو تم کہو اللہ ایک ہے، اللہ بےنیاز ہے نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ کسی نے اس کو جنا ہے۔ اور کوئی اس کا ہمسر (یعنی جوڑا نہیں ہے) پھر اپنی بائیں طرف تین بار تھتکار دو ۔ اور شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو۔ (ابوداؤد) اور (صاحب مشکوۃ فرماتے ہیں) کہ عمرو بن احوص کی روایت (جس کو صاحب مصابیح نے یہاں نقل کیا تھا) ہم اس کو خطبہ یوم النحر) کے باب میں نقل کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ( کیونکہ وہ روایت اسی باب کے موضوع سے تعلق رکھتی ہے) ۔

【72】

شیطانی وسوسوں سے چوکنا رہو

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! لوگ آپس میں پوچھا پوچھی کرتے رہیں گے (یعنی شیطانی وسوسوں کی صورت میں ان کے اندر اس طرح کے خیالات پیدا ہوتے رہیں گے) کہ جب ہر چیز کو اللہ نے پیدا کیا (تو) اللہ بزرگ و برتر کو کس نے پیدا کیا ؟ (صحیح البخاری و صحیح مسلم کی روایت میں یوں ہے ! انس (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ ﷺ کی امت کے لوگ (اگر شیطان کے وسوسہ اندازی سے چوکنا نہ رہے تو پہلے) یوں کہیں گے کہ یہ کیا ہے ؟ اور یہ کیسے ہوا ؟ ( یعنی مخلوقات کے بارے میں تحقیق و تجسس کریں گے) اور پھر آخر میں یہ کہیں گے کہ تمام چیزوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو اللہ بزرگ و برتر کو کس نے پیدا کیا ؟۔

【73】

نماز کے دوران شیطان کی خلل اندازی

اور حضرت عثمان ابن ابی العاص ( عثمان بن ابی العاص کی کنیت ابوعبداللہ ہے قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے تقفی کہلاتے ہیں آپ قبیلہ ثقیتف کے وفد کے ہمراہ دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کر کے ہدایت سے مشرف ہوئے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کو اپنے قبیلہ کا امیر مقرر کردیا تھا وفات نبوی کے بعد جب اہل طائف ارتداد کی طرف مائل ہونے لگے تو عثمان بن ابی العاص ہی کی ذات تھی جس نے ان کو ارتداد سے باز رکھا آپ نے بصرہ میں ٥١ ھ میں وفات پائی) ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میرے اور میری نماز اور میری قرأت کے درمیان شیطان حائل ہوجاتا ہے اور ان چیزوں میں شبہ ڈالتا رہتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ وہ شیطان ہے جس کو خنزب کہا جاتا ہے۔ پس جب تمہیں اس کا احساس ہو ( کہ شیطان وسو اس و شبہات میں مبتلا کرے گا) تو تم اس (شیطان مردود) سے اللہ کی پناہ مانگو اور بائیں طرف تین دفعہ تھتکار دو ۔ حضرت عثمان غنی (رض) فرماتے ہیں کہ (رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق) میں نے اسی طرح کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے وسو اس و شبہات سے محفوظ رکھا۔ (صحیح مسلم)

【74】

وہم اور سوسہ کو نظر انداز کر کے اپنی نماز جاری رکھو

اور حضرت قاسم بن محمد ( آپ حضرت ابوبکر صدیق کے پوتے اور محمد بن ابوبکر صدیق کے صاحب زادے ہیں، مدینہ کے سات مشہور فقہاء میں سے ایک آپ بھی ہیں اکابر اور جلیل القدر تابعین میں آپ کا شمار ہوتا ہے یحییٰ بن سعید کا قول ہے کہ ہم نے مدینہ میں قاسم بن محمد سے زیادہ افضل کسی کو نہیں پایا بعمر ٧٠ سال ١٠١ ھ میں آپ کا انتقال ہوا) ۔ سے ایک آدمی نے عرض کیا کہ مجھے اپنی نماز میں وہم ہوتا رہتا ہے (یعنی کبھی تو یہ شک ہوتا ہے کہ میری نماز درست ادا نہیں ہوئی کبھی یہ وہم ہوجاتا ہے کہ ایک رکعت پڑھنے سے رہ گئی ہے) اس کی وجہ سے مجھے گرانی ہوتی ہے ؟ انہوں نے فرمایا (تم اس طرح کے خیال پر دھیان نہ دو اور) اپنی نماز پوری کرو، اس لئے کہ وہ (شیطان) تم سے جب ہی دور ہوگا کہ تم اپنی نماز پوری کرلو اور کہو کہ ہاں میں نے اپنی نماز پوری نہیں کی۔ (مالک) تشریح نماز ہی وہ سب سے اہم عبادت ہے جس میں اللہ کے نیک بندوں کا بہکانے اور ورغلانے کے لئے شیطان اپنی سعی و کوشش سب سے زیادہ صرف کرتا ہے یہ شیطان کی تخریب کاری ہوتی ہے۔ جو عام لوگوں کو نماز کے دوران پوری ذہنی یکسوئی سے محروم رکھتی ہے اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نماز کی نیت باندھتے ہیں دل و دماغ میں دنیا بھر کے خیالات کا اجتماع ہونا شروع ہوجاتا ہے وہ باتیں جو کبھی یاد نہیں آتیں نماز ہی کے دوران ذہن میں کلبلانے لگتی ہیں۔ شیطان طرح طرح کے وسوسے اور خیالات پیدا کرتا رہتا ہے، کبھی تو یہ پھونک دیتا ہے کہ نماز مکمل نہیں ہوئی ہے بلکہ ایک رکعت یا دو رکعت چھوٹ گئی ہے، کبھی یہ وہم گزار دیتا ہے کہ نماز صحیح نہیں ہوئی ہے۔ فلاں رکن ترک ہوگیا ہے۔ قرأت میں فلاں آیت چھوٹ گئی ہے۔ اس وسوسہ اندازی سے شیطان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی نماز کا سلسہ منقطع کر دے اور نیت توڑ دے شیطان کی اس تخریب کاری سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب شیطانی اثر سے اس طرح کے واہمے اور شکوک پیدا ہوں تو اپنی نماز کا سلسلہ منقطع نہ کرو، نیت نہ توڑو، بلکہ نماز پوری کرو اور شیطان سے کہو کہ ہاں میں غلطی کر رہا ہوں، نماز میری درست نہیں ہو رہی ہے لیکن میں نماز پڑھوں گا اور تیرے کہنے پر عمل نہیں کروں گا۔ علماء لکھتے ہیں کہ یہ طریقہ شیطانی اثرات سے محفوظ رہنے کے لئے بہت ہی کارگر ہے۔ اس لئے کہ اس طرح شیطان نمازی سے مایوس ہوجاتا ہے اور جب وہ یہ جان لیتا ہے کہ یہ میرے قبضے میں آنے والا نہیں ہے تو اس کے پاس سے ہٹ جاتا ہے۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب کہ نمازی کو یقین ہے کہ میں نماز ٹھیک پڑھ رہا ہوں، نماز کے ارکان و افعال اور قرأت میں کوئی کوتاہی یا غلطی واقع نہیں ہو رہی ہے اور اگر واقعی اس کی نماز میں کوئی کوتاہی واقع ہو رہی ہے یا ارکان کی ادائیگی میں غلطی ہو رہی ہے اور اس کا احساس ہو رہا ہے تو اس غلطی و کوتاہی کو دور کرنا اور نماز کی صحت و درستی کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے۔ دراصل اس حکم ( کہ شیطانی خلل اندازی سے صرف نظر کر کے اپنی پوری کرو) کا بنیادی مقصد اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ شیطان سے چوکنا رہو، اس کو اثر انداز ہونے کا موقع نہ دو اپنے دل و دماغ کو اتنا پاکیزہ اور مجلی رکھو کہ شیطانی وسوسوں اور واہموں کو راہ نہ ملے۔ نماز اس قدر ذہنی یکسوئی توجہ اور حضور قلب کے ساتھ پڑھو کہ شیطان تمہارے پاس آنے کا ارادہ ہی نہ کرے اس حکم کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ غیر درست عمل کو درست نہ کرو اور سہل انگاری دکھاؤ۔

【75】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

تقدیر پر ایمان لانا فرض اور لازم ہے یعنی وجود ایمان کے لئے یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ بندوں کے تمام اعمال خواہ وہ نیک ہوں یا بد، ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لوح محفوظ میں لکھ دیئے گئے ہیں، بندہ سے جو عمل بھی سر زد ہوتا ہے وہ اللہ کے علم و اندازہ کے مطابق ہوتا ہے، لیکن اللہ نے انسان کو عقل و دانش کی دولت سے نواز کر اس کے سامنے نیکی اور بدی دونوں راستے واضح کردیئے ہیں اور ان پر چلنے کا اختیار دے دیا اور بتادیا کہ اگر نیکی کے (راستہ کو) اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث ہوگا جس پر جزاء و انعام سے نوازے جاؤ گے اور اگر بدی کے راستہ کو اختیار کرو گے تو یہ اللہ کے غضب اور اس کی ناراضگی کا باعث ہوگا جس کی وجہ سے سزا اور عذاب کے مستحق گردانے جاؤ گے۔ اب اس واضح اور صاف ہدایت کے بعد جو آدمی نیکی و بھلائی کے راستہ کو اختیار کرتا ہے تو وہ ازراہ فضل و کرم اللہ کی رحمت سے نوازا جائے گا اور اس پر اللہ کی جانب سے فلاح وسعادت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اگر کوئی عقل کا اندھا اپنے کسب و اختیار سے برائی کے راستہ کو اختیار کرتا ہے تو وہ ازراہ عدل سزا کا مستوجب ہوگا اور اسے عذاب و تباہی کے غار دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ تقدیر کا مسئلہ عقل و فکر کی رسائی سے باہر ہے کیونکہ یہ اللہ کا ایسا ایک راز ہے جس کا انسانی عقل میں آنا تو درکنار اسے نہ تو کسی مقرب فرشتہ پر ظاہر کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا بھید کسی پیغمبر اور رسول کو معلوم ہے۔ اس لئے اس مسئلہ میں زیادہ غور و فکر کرنا اور اس میدان میں عقل کے گھوڑے دوڑانا جائز نہیں ہے بلکہ تحقیق و جستجو کے تمام راستوں سے ہٹ کر صرف یہ اعتقاد رکھنا ہی فلاح وسعادت کا ضامن ہے کہ اللہ نے یہ مخلوق پیدا کر کے ان کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا ہے، ایک گروہ وہ ہے جو اچھے اعمال اور نیک کام کرنے کی بنا پر اللہ کی جنت اور اس کی نعمتوں کا مستحق ہوگا جو محض اس کا فضل و کرم ہوگا۔ اور دوسرا گروہ وہ ہے جو برے اعمال کرنے کی وجہ سے دوزخ میں ڈالا جائے گا جو عین عدل ہوگا۔ منقول ہے کہ ایک آدمی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے قضا وقدر کے بارے میں سوال کیا، حضرت علی (رض) نے فرمایا یہ ایک بڑا راستہ ہے اس پر نہ چلو اس آدمی نے پھر یہی سوال کیا انہوں نے فرمایا یہ ایک گہرا دریا ہے، اس میں نہ اترو وہ آدمی نہ مانا اور اس نے پھر سوال کیا۔ آخر میں حضرت علی (رض) نے فرمایا یہ اللہ کا ایک راز ہے جو تم سے پوشیدہ ہے اس لئے اس کی تفتیش و تحقیق میں مت پڑو ۔ لہٰذا اخروی سعادت اسی میں ہے کہ اس مسئلہ کے بارے میں اللہ اور اللہ کے رسول نے جو کچھ بتایا ہے اور جن اعتقادات کو ماننے کے لئے کہا ہے اس پر عمل پیرا ہوجائے، ورنہ اپنی عقل کے تیر چلانا درحقیقت گمراہی کا راستہ اختیار کرنا اور تباہی و بربادی کی راہ پر لگنا ہے۔

【76】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے مخلوقات کی تقدیروں کو لکھا ہے۔ اور فرمایا (اس وقت) اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ (صحیح مسلم) تشریح ظاہر ہے کہ اللہ کی ذات اجسام ظاہری اور مادیات کی ثقاوت سے پاک ہے اس لئے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ نے خود اپنے ہاتھ سے تقدیریں لکھ دی تھیں، بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ خدا نے تمام مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ہی ان کی تقدیریں قلم کو جاری ہونے کا حکم دے کر اس کے ذریعہ لوح محفوظ میں ثبت کردی تھیں، یا یہ کہ فرشتوں کو حکم دے کر ان سے تقدیریں لکھوادی تھیں۔ منقول ہے کہ زمین و آسمان اور تمام مخلوق کے پیدا ہونے سے پہلے پانی ہی پانی تھا اور کہا جاتا ہے کہ پانی کا استقرار ہوا پر تھا اور ہوا اللہ کی قدرت پر قائم تھی۔ اس لئے فرمایا گیا کہ اس عالم میں ازل سے لے کر ابد تک ہونے والے تمام واقعات و اعمال اسی وقت اللہ کے علم میں تھے۔ جب کہ یہ زمین و آسمان بھی پیدا نہیں ہوئے تھے اور اس کا عرش پانی پر تھا جس کے درمیان کوئی دوسری چیز حائل نہیں تھی۔

【77】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر چیز تقدیر سے ہوتی ہے، یہاں تک کہ دانائی اور نادانی۔ (صحیح مسلم)

【78】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا (عالم رواح میں) آدم و موسیٰ علیہما السلام نے اپنے پروردگار کے سامنے مناظرہ کیا اور حضرت آدم (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا آپ وہی آدم ہیں جن کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا آپ میں اپنی روح پھونکی تھی، فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا تھا اور اپنی جنت میں آپ کو رکھا تھا اور پھر آپ نے اپنی خطاء سے لوگوں کو زمین پر اتروا دیا تھا (یعنی اگر آپ خطا نہ کرتے تو یہاں زمین پر نہ اتارے جاتے اور آپ کی اولاد اس دنیا میں نہ پھیلتی بلکہ جنت میں رہتی) آدم (علیہ السلام) نے کہا تم وہی موسیٰ ہو جن کو اللہ نے اپنے منصب رسالت سے نواز کر برگزیدہ کیا اور ہم کلامی کے شرف سے مشرف فرمایا تھا اور تم کو وہ تختیاں دی تھیں جن میں ہر چیز کا بیان تھا اور پھر تم کو سر گوشی کے لئے تقرب کی عزت بخشی تھی اور کیا تم جانتے ہو اللہ نے میری پیدائش سے کتنے عرصہ پہلے تورات کو لکھ دیا تھا ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا چالیس سال پہلے ! آدم علیہ ا السلام نے پوچھا کیا تم نے تورات میں یہ لکھے ہوئے الفاظ نہیں پائے (ا یت وعصی آدم ربہ فغوی) (یعنی آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور گمراہ ہوگیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہاں ہاں۔ آدم (علیہ السلام) نے کہا پھر تم مجھ کو میرے اس عمل پر کیوں ملامت کرتے ہو جس کو اللہ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میرے لئے لکھ دیا تھا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس دلیل سے) آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر غائب آگئے۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت آدم (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے جو دلیل پیش کی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے چونکہ میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے یہ لکھ دیا تھا کہ میں شیطان کے گمراہ کرنے کی وجہ سے بہک جاؤں گا اور اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے شجر ممنوع کا استعمال کرلوں گا۔ لہٰذا اس میں میرے کسب و اختیار کو کوئی دخل نہیں ہے بلکہ یہ گمراہی میرے مقدر میں لکھی گئی تھی اس لئے اس کا مجھ سے صادر ہونا لازم و ضروری تھا لہٰذا میں مورد الزام نہیں ٹھہر سکتا۔ علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس گمراہی کو میری پیدائش سے بھی پہلے میرے لئے لوح محفوظ میں مقدر فرما دیا تھا جس کا ملطب یہ تھا کہ وہ ضرور بروقت وقوع پذیر ہوگی، لہٰذا جب وقت مقدر آپہنچا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ امر مقدر اور اللہ تعالیٰ کے علم کے خلاف دہ عمل ممنوع سر زد نہ ہوتا چناچہ تم مجھ پر یہ الزام تو ڈال رہے ہو اور تمہیں سبب ظاہری یعنی میرا کسب و اختیار تو یاد رہا لیکن اصل چیز یعنی مقدر سے تم صرف نظر کر گئے۔ حضرت آدم و موسیٰ علیہما السلام کا مناظرہ اس عالم دنیا میں نہیں ہوا جہاں اسباب سے قطع نظر درست نہیں ہے بلکہ یہ مناظرہ عالم بالا میں ان دونوں کی روجوں کے درمیان ہوا تھا۔ اسی لئے یہاں یہ بات بطور خاص ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر کوئی عاصی و گناہ گار اس قسم کی دلیل کا سہارا لینے لگے تو وہ اس کے لئے کار آمد نہیں ہوگی، کیونکہ حضرت آدم کا معاملہ اس جہاں میں تھا جہاں وہ اسباب کے مکلف نہیں تھے اور پھر ان کی یہ خطاء بارگارہ الوہیت سے معاف بھی کردی گئی تھی، لہٰذا یہاں تو کسب و اختیار اور ابواب کی بنا پر مواخذہ ہوگا کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ پر جو تختیاں اتری تھیں وہ زمرد کی تھیں اور ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ستر اونٹوں پر لادی جاتی تھیں، ان تختیوں میں ان کی قوم کے لئے اللہ کی جانب سے احکام و مسائل لکھے ہوئے تھے، ان تختیوں میں جو مضامین مذکور تھے وہ قدیم ہیں لہٰذا چالیس سال کی تحدید ان مضامین کے بارے میں نہیں ہوگی بلکہ یہ کہا جائے گا کہ وہ مضامین جو ان تختیوں پر لکھے گئے تھے، ان کے لکھنے کی مدت آدم کی پیدائش سے چالیس سال قبل ہے۔

【79】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) راوی ہیں کہ صادق و مصدوق سرکار دو عالم ﷺ نے ہم سے فرمایا۔ تم میں سے ہر آدمی کی تخلیق اس طرح ہوتی ہے کہ (پہلے) اس کا نطفہ ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتا ہے، پھر اتنے ہی دنوں یعنی چالیس دن کے بعد وہ جما ہوا خون بنتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں کے بعد وہ لوتھڑا ہوجاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ کو چار باتوں کے لکھنے کے لئے بھیجتا ہے، چناچہ وہ فرشتہ اس کے عمل اس کی موت (کا وقت) اس کے رزق (کی مقدار) اور اس کا بدبخت و نیک بخت ہونا اللہ کے حکم سے اس کی تقدیر میں لکھ دیتا ہے قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تم میں سے ایک آدمی جنت والوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا ہوا آگے آتا ہے۔ اور وہ دوزخیوں کے سے کام کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں داخل ہوجاتا ہے اور تم میں ایک آدمی دوزخیوں کے سے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان ہاتھ بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا سامنے آتا ہے اور وہ جنت والوں کے سے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح ایسا کم ہوتا ہے کہ لوگ بھلائی کے راستہ کو چھوڑ کر برائی کا راستہ اختیار کرتے ہوں لیکن اللہ کی رحمت کاملہ کے صدقے اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جو لوگ بدبختی و برائی کے راستہ کو اختیار کئے ہوئے ہوتے ہیں وہ بھلائی کی طرف آجاتے ہیں اور نیکی کے راستہ کو اختیار کرلیتے ہیں۔ اس حدیث نے اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ ابدی نجات و عذاب کا دار و مدار خاتمہ پر ہے، اگر کسی کی پوری زندگی گناہ و معصیت یا کفر و شرک میں گزری لیکن اس نے آخر وقت میں صدق دل سے اپنی بداعمالیوں اور گمراہی پر نادم و شرمسار ہو کر نیک بختی وسعادت کے راستہ کو اختیار کرلیا تو وہ نجات پا جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی آدمی تمام عمر نیکی و بھلائی کرتا رہا اور اس کی تمام زندگی اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزری لیکن آخر وقت میں وہ شیطان کی گمراہی یا اپنے نفس کی شرارت سے گمراہ ہوگیا اور اس نے اپنی حیات کے آخری لمحوں کو برائی و بدبختی کی بھینٹ چڑھا دیا تو وہ اپنی زندگی بھر کی نیکیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ لہٰذا اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ بھلائی و بہتری اور اخروی نجات اسی میں ہے کہ بندہ ہمیشہ اطاعت الہٰی اور فرمان نبوی ﷺ کی بجا آوری میں مصروف رہے، اس کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی حدود شریعت سے تجاوز کرنے نہ پائے اور ہر آنے والے لمحہ کو یہ سوچ کر کہ شاید میری زندگی کا یہ آخری لمحہ ہو نیکی و بھلائی میں صرف کرتا رہے تاکہ خاتمہ بالخیر کی سعادت سے نوازا جائے۔ اس موقع پر اتنی بات اور بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جو لوگ قضا و قدر کے مسئلوں کو دیکھ کر یہ نظریہ قائم کر بیٹھے ہیں کہ جب نجات و عذاب، نیک بختی و بدبختی اور جنت و دوزخ کا ملنا تقدیری چیز ہے تو عمل کی کیا ضرورت ہے ؟ وہ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں چناچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی جو اس مسئلہ کی حقیقت کو نہیں سمجھ پائے تھے سرکار دو عالم ﷺ کے سامنے اس قسم کی بات کہی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم عمل کئے جاؤ کیونکہ جس کے مقدر میں جو کچھ لکھا ہے اس پر اس کو اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یعنی قضا و قدر پر بھروسہ کر کے تمہارا عمل میں توقف کرنا یا عمل سے انکار کرنا کوئی کار آمد نہیں ہوگا اس لئے کہ احکام شارع کی جانب سے وارد ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی تم کو سوچنے سمجھنے کی قابلیت اور نیکی و بدی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت بھی دی گئی ہے، نیز تمہارے اندر قصد و جہد کا مادہ بھی پیدا کیا گیا ہے تاکہ تم ان اسباب کے ذریعہ عمل کرسکو، لہٰذا اب اگر تم قضا و قدر کا سہارا لے کر اسباب سے قطع نظر کرو گے اور اعمال کو چھوڑ دو گے تو تباہی و بربادی کے غار میں جا گرو گے۔ ہاں یہ اللہ کی یقینا کوئی مصلحت ہوگئی جس کی حقیقت و حکمت کو تو وہی جانتا ہے کہ ایک طرف تو اس نے قضا و قدر کے مسئلہ کو سامنے کردیا دوسری طرف اعمال و افعال کے کرنے کا حکم دیا اور پھر اس مسئلہ میں تحقیق و تفتیش کرنے سے بھی منع فرما دیا اور پھر قضا و قدر کے سہارے اعمال کی ضرورت سے انکار کردیا جائے تو اس کا کیا جواب ہوگا کہ اللہ کی جانب سے شریعت کا اتارنا، احکام بھیجنا اور رسولوں کی بعثت جن کا مقصد احکام الٰہی پر عمل کرنے کی ترغیب دینا ہوتا تھا بلا وجہ ہوئی کیونکہ جب محض تقدیر پر بھروسہ ہوگا کہ جس کے مقدر میں جنت میں جانا لکھا ہوگا وہ جنت میں یقینا جائے گا اور جس کے مقدر میں دوزخ لکھی ہوگی اور دوزخ میں یقینا جائے گا تو ان رسولوں کی بعثت اور احکام و اعمال کی بجا آوری کی تاکید کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی، لہٰذا اس حیثیت سے بھی دیکھا جائے تو یہ خیال غلط ثابت ہوگا۔ بہر حال جس طرح اور بہت سے اسرار الہٰی ہیں کہ ان کی بندوں کو خبر نہیں ہے اسی طرح یہ بھی ایک راز ہے جو بندوں سے پوشیدہ رکھا گیا ہے، اس لئے کسی کے ظاہری عمل کو دیکھ کر اس کے جنتی یا دوزخی ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا بلکہ یہ اللہ کی مرضی پر موقوف ہے کہ (ا یت یعذب من یشاء و یرحم من یشاء) ( یعنی وہ جس کو چاہے (بداعمالیوں کی بنا پر) عذاب میں مبتلا کر دے اور جس کو چاہے اپنے فضل و کرم سے بخش دے) ۔

【80】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت سہل بن سعد ( سہل بن سعد بن مالک کا پہلا نام حزن تھا لیکن بعد میں رسول اللہ ﷺ نے سہل رکھا، کنیت ابوالعباس اور بعض نے ابویحیی بھی لکھی ہے مدینہ میں ٨٨ ھ میں بعمر ٩٦ سال آپ کا انتقال ہوا) ۔ راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا بندہ دوزخیوں کے سے کام کرتا رہتا ہے لیکن وہ جنتی ہوتا ہے اور جنت والوں کے سے کام کرتا ہے لیکن وہ دوزخی ہوتا ہے کیونکہ (نجات و عذاب کا) دار و مدار خاتمہ کے عمل پر ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث نے پہلی حدیث کی توثیق کردی ہے کہ اعمال سابق کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ ان اعمال کا اعتبار ہوگا جس پر کا خاتمہ ہوا ہے اس لئے کسی کی نجات و عذاب کا دار و مدار اس کے خاتمہ پر ہوگا، خاتمہ بالخیر ہوگا تو اللہ کی نعمتوں اور اس کی جنت کی سعادت سے نوازا جائے گا اور اگر خدانخواستہ خاتمہ خیر پر نہیں ہوا تو پھر عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ چنانچہ اس حدیث نے صراحۃً یہ بات واضح کردی کہ بندہ کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اطاعت الہٰی میں مصروف رہے اور ہر وقت معاصی و گناہ سے بچتا رہے اس لئے کہ نامعلوم اس کا وقت آخر کب آجائے اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہو کہ اچانک موت کا زبردست پنجہ اس کا گلا دبوچ لے اور اسے توبہ کی بھی مہلت نہ ملے جس کے نتیجہ میں وہاں کے دائمی خسران و عذاب میں گرفتار ہوجائے۔

【81】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عائشہ ( ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت ابوبکر صدیق کی ذی شان صاحبزادی اور سرکار دو عالم ﷺ کی سب سے چہیتی اور محبوب زوجہ مطہرہ ہیں جن کا لقب صدیقہ ہے۔ آپ کی وفات کے وقت حضرت عائشہ کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی۔ ٥٧ ھ، ٥٨ میں آپ کا انتقال ہوا ہے اور جنت البقیع میں مدفون ہیں (رض) ۔ فرماتی ہیں کہ ایک انصاری بچہ کے جنازہ پر سرکار دوعالم ﷺ کو بلایا گیا، میں نے کہا، یا رسول اللہ ! اس بچہ کو خوشخبری ہو، یہ تو جنت کی چڑیوں میں کی ایک چڑیا ہے، جس نے کوئی برا کام نہیں کیا اور نہ برائی کی حد تک پہنچا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عائشہ ! کیا اس کے سوا کچھ اور ہوگا ؟ یعنی اس کے جنتی ہونے کا جزم و یقین نہ کرو کیونکہ اللہ نے جنت کے لئے مستحق لوگوں کو پیدا کیا ہے جب کہ وہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے اور دوزخ کے لئے بھی مستحق لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ جب کہ وہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح بظاہر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جنت اور دوزخ میں داخل ہونا نیک و بد عمل پر موقوف نہیں ہے بلکہ یہ تقدیری معاملہ ہے اللہ نے ایک جماعت کے لئے ازل ہی سے جنت لکھ دی ہے اس لئے وہ جنت میں جائے گی خواہ وہ نیک اعمال کریں یا نہ کریں، اسی طرح ایک گروہ دوزخ کے لئے پیدا کیا گیا ہے جو دوزخ میں یقینا جائے گا خواہ اس کے اعمال بد ہوں یا نہ ہوں۔ لہٰذا یہ لڑگا اگر دوزخ کے لئے پیدا کیا گیا تھا تو وہ دوزخ میں یقینا جائے گا اگرچہ اس سے اب تک اعمال بد صادر نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے برخلاف اکثر آیات و احادیث اور علماء کے متفق علیہ اقوال ایسے ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مسلمان بچہ اگر کمسنی کی حالت میں انتقال کر جائے تو وہ یقینا جنتی ہے بلکہ کفار و مشرکین کے کمسن بچوں کے بارے میں بھی صحیح یہی مسئلہ ہے کہ وہ بھی جنت میں داخل کئے جائیں گے۔ لہٰذا اب اس حدیث کی توجیح یہی کی جائے گی کہ چونکہ حضرت عائشہ نے اس کے جنتی ہونے پر اس عزم و یقینی کے ساتھ حکم لگایا تھا کہ گویا انہیں غیب کا علم ہے اور اللہ کی مصلحت ومرضی کی راز دان ہیں، اس لئے سرکار دو عالم ﷺ نے ان کے اس جزم و یقین پر یہ تنبیہ فرمائی کہ تم اپنے اس وثوق کی بنیاد پر گویا غیب دانی کا اقرار کر رہی ہو، جو کسی بندہ کے لئے مناسب نہیں ہے یا زیادہ صحیح توجیہ اس حدیث کی یہ ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد اس وقت تک ہوگا جب تک بچوں کے جنتی ہونے کا حکم وحی کے ذریعہ معلوم نہیں ہوا تھا ( اللہ علم)

【82】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت علی کرم وجہہ ( امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سرکار دو عالم ﷺ کے چچا زاد بھائی، آپ کی سب سے لاڈلی صاحب زادی حضرت فاطمہ کے شوہر اور چوتھے خلیفہ راشد ہیں ان کی کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہے آخر عشرہ رمضان ٣٠ ھ میں آپ نے انتقال فرمایا اور شہادت کا درجہ پایا۔ اس وقت آپ کی عمر واقدی کی تحقیق کے مطابق ٦٣ برس کی تھی تین دن کم پانچ سال تک آپ خلیفہ رہے۔ (رض) ۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر آدمی کی جگہ اللہ تعالیٰ نے جنت اور دوزخ میں لکھ دی ہے۔ (یعنی یہ معین ہوگیا کہ کون لوگ جنتی ہیں اور کون لوگ دوزخی ہیں) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم اپنے نوشتہ تقدیر پر بھروسہ کر بیٹھیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم عمل کرو اس لئے کہ جو آدمی جس چیز کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس پر اسے آسانی اور توفیق دی جاتی ہے لہٰذا جو آدمی نیک بختی کا اہل ہوتا ہے اللہ اس کو نیک بختی کے اعمال کی توفیق دیتا ہے اور جو آدمی بدبختی کا اہل ہوتا ہے اس کو بدبختی کے اعمال کا موقع دیا جاتا ہے اس کے بعد آنحضور ﷺ نے یہ آیت پڑھی (ترجمہ) جس نے اللہ کر راہ میں دیا، پرہیزگاری کی اور اچھی بات (دین و اسلام) کو سچ مانا، اس کے لئے ہم آسانی کی جگہ (جنت) آسان کردیں گے لیکن جس نے بخل کیا اور (خواہشات نفسانی و دنیاوی چمک دمک میں پھنس کر) آخرت کی نعمتوں سے بےپروائی کی، نیز عمدہ بات (دین و اسلام) کو جھٹلایا تو اس کے لئے ہم مشکل جگہ (دوزخ کی راہ) آسان کردیں گے۔ الخ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ کے جواب کا منشاء یہ تھا کہ تم لوگ تقدیر پر بھروسہ کر کے عمل چھوڑنے کو جو کہتے ہو وہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ جنت و دوزخ کا پہلے مقدر میں لکھا جانا اور ہر ایک کے بارے میں معین ہوجانا کہ کون نیک بخت ہے اور کون بدبخت، اعمال کو ترک کرنے کا باعث نہیں ہے اس لئے کہ اللہ نے اپنی ربوبیت و الوہیت کے اظہار کے طور پر جو کچھ احکام دیئے ہیں اور جو فرائض بندوں پر عائد کئے ہیں اس پر عمل کرنا اور احکام کی پیروی کرنا بمقتضائے عبودیت بندوں پر لازم و ضروری ہے کیونکہ عمل ہی کو نیک بختی و بدبختی کا نشان قرار دیا گیا ہے کہ جو کوئی عمل کرے گا اس کو نیک بخت سمجھا جائے اور جو عمل نہیں کرے گا اس کو بدبخت سمجھا جائے گا اور پھر یہ بھی تقدیری معاملہ ہے کہ اللہ نے جس کے مقدر میں نیک بخت ہونا لکھ دیا ہے وہ یقینا اعمال کو پورا کرے گا اور جس کے مقدر میں بدبخت ہونا لکھا گیا ہے وہ اعمال کو چھوڑ کر گمراہی میں جا پڑے گا۔ جہاں تک ثواب و عذاب کا معاملہ ہے وہ اللہ کی مرضی اور اس کی مصلحت پر موقوف ہے وہ جو بھی معاملہ کرے گا اس پر اسے اختیار ہوگا اس میں کسی کے جبر واکراہ کو دخل نہیں ہوگا۔

【83】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ نے انسان کی تقدیر میں جتنا حصہ زنا کا لکھ دیا ہے وہ ضرور اس سے عمل میں آئے گا، آنکھوں کا زنا تو نامحرم کی طرف دیکھنا ہے اور زبان کا زنا نامحرم عورتوں سے شہوت انگیز باتیں کرنا اور نفس آرزو و خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس آرزو کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) کی ایک روایت ہے کہ آدمی کی تقدیر میں زنا کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا ہے اس کو وہ ضرور عمل میں لائے گا۔ آنکھوں کا زنا (نامحرم کی طرف) دیکھنا ہے، کانوں کا زنا (نامحرم عورت سے شہوت انگیز باتیں سننا ہے اور زبان کا زنا نامحرم عورت سے شہوت انگیز) باتیں کرنا ہے اور ہاتھوں کا زنا (نامحرم عورت کو برے ارادہ سے) چھونا ہے اور پاؤں کا زنا (بدکاری کی طرف) جانا ہے اور دل خواہش و آرزو کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ تشریح اصل زنا تو یہی ہے کہ کسی نا محرم عورت سے بدکاری میں مبتلا ہو، لیکن اصطلاح شریعت میں ان حرکات و اعمال کو بھی مجازاً زنا کہا جاتا ہے جو حقیقی زنا کے لئے اسباب کا درجہ رکھتے ہیں جو اس تک پہنچاتے ہیں، مثلاً کسی نامحرم عورت سے شہوت انگیز باتیں کرنا، یا بری نظر سے اس کی طرف دیکھنا، یا گندے خیال کے ساتھ اس کی باتیں سننا، یا برے ارادہ سے اس کا ہاتھ چھونا، یا اسی طرح گندے خیالات کے ساتھ کسی نامحرم عورت کے پاس جانا، یہ سب چیزیں چونکہ حقیقی زنا کی محرک بنتی ہیں جو آگے چل کر بدکاری میں مبتلا کرا دیتی ہیں اس لئے ان کو بھی مجازا زنا کہا جاتا ہے، تاکہ ان حرکات و اسباب کی نفرت و کراہت دلوں میں بیٹھ جائے اور لوگ ان سے بھی بچتے رہیں۔ بہر حال حدیث سے معلوم ہوا کہ جس آدمی کے مقدر میں زنا کا جنتا حصہ لکھ دیا جاتا ہے وہ اسے عمل میں لاتا ہے، اب چاہے تو اس کے مقدر میں محض مجازی زنا لکھا ہو یا حقیقی زنا، لیکن اللہ جن کو ان قبیح افعال سے محفوظ رکھتا ہے وہ ان سے باز رہتے ہیں اور وہ ان چیزوں سے بھی پرہیز کرتے رہتے ہیں جن کی موجودگی میں کسی معصیت و گناہ کے خیال کا بھی شائبہ پایا جاتا ہو جو گناہ و معصیت کی طرف لے جانے کا سبب بنتے ہوں۔ شرم گاہ کی تصدیق و تکذیب کا مطلب یہ ہے کہ جب نفس انسانی ہوا و ہوس کا غلام بن جاتا ہے اور وہ غلط و حرام فعل کی خواہش کرتا ہے تو اگر شرم گاہ اس کے اس غلط و ناجائز خواہش پر عمل کرتی ہے اور زنا میں مبتلا ہوجاتی ہے تو یہی اس کی تصدیق ہوتی ہے، یا اگر کسی احساس و شعور اور ضمیر اللہ کے عذاب سے لرزاں اور اس کے خوف سے بھرا ہوا ہوتا ہے تو شرمگاہ نفس کی خواہش کی تکمیل سے انکار کردیتی ہے اور وہ بدکاری میں مبتلا نہیں ہوتا یہ اس کی تکذیب ہوتی ہے۔

【84】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عمران بن حصین ( آپ کا اسم گرامی عمران ابن حصین اور کنیت ابونجید ہے آپ فتح خیبر کے سال اسلام کی نعمت سے مشرف ہوئے تھے بمقام بصرہ ٥١ ھ میں وفات پائی) ۔ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ قبیلہ مزینہ کے دو آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمیں یہ بتائیے کہ آج (دنیا میں) لوگ عمل کرتے ہیں اور اعمال کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ کیا یہ وہی چیز ہے جس کا حکم ہوچکا ہے اور نوشتہ تقدیر بن چکا ہے یا یہ عمل ان احکام کے موافق ہیں جو آئندہ ہونے والے ہیں جن کو اس کا نبی ﷺ لایا ہے اور جن پر دلیل قائم ہوچکی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں یہ وہی چیز ہیں جس کا فیصلہ ہوچکا ہے اور نوشتہ تقدیر بن چکا ہے اور اس کی تصدیق کتاب اللہ کی اس آیت سے ہوتی ہے وَنَفْسِ وَّمَا سَوّٰھَا فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوَاھَا (القران الحکیم، پارہ ٣٠۔ رکوع ١٦) ۔ قسم ہے (انسان کی) جان کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو بنایا پھر اس کی بد کرداری اور پرہیزگاری (دونوں کا) القاء کیا۔ (صحیح مسلم) تشریح سوال یہ تھا کہ یا رسول اللہ ہمیں یہ بتلا دیجئے کہ دنیا میں لوگ جتنے اعمال کرتے ہیں خواہ وہ اعمال خیر ہوں یا عمال بد کیا یہ وہی ہیں جو ان کے لئے ازل ہی میں مقدر ہوچکے تھے اور اب وقت پر وقوع پذیر ہوتے ہیں یا یہ وہ چیزیں ہیں جو ازل میں تو ان کے لئے نوشتہ تقدیر نہیں بنی تھیں بلکہ اب جب رسول آئے اور انہوں نے اللہ کی جانب سے دیئے گئے معجزات کے ذریعہ اپنی صداقت کا اعلان اور ان احکام و اعمال کے کرنے کا حکم دیا تو یہ اعمال وقوع پذیر ہونے لگے تو ایسی شکل میں کیا یہ کہا جائے گا کہ یہ اعمال بندوں کے مقدر میں پہلے سے نہیں لکھے ہوئے تھے بلکہ اپنے اختیار سے یہ اعمال کرتے ہیں چاہے وہ اچھے اعمال ہوں یا برے اعمال ؟ بارگاہ رسالت سے جواب دیا گیا کہ یہ اعمال وہی ہیں جو ازل ہی سے بندوں کے مقدر میں لکھ دیئے گئے ہیں اور اب اسی نوشتہ تقدیر کے مطابق اپنے اپنے وقت پر صادر ہوتے رہتے ہیں۔

【85】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ سے عرض کیا، یا رسول اللہ میں ایک جوان مرد ہوں اور میں اپنے نفس سے ڈرتا ہوں کہ بدکاری کی طرف مائل نہ ہوجائے اور میرے اندر اتنی استطاعت نہیں ہے کہ کسی عورت سے شادی کرلوں گویا ابوہریرہ (رض) اپنے اندر سے قوت مردمی ختم کردینے کی اجازت مانگتے تھے ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے یہ سن کر سکوت فرمایا میں نے دوبارہ یہی کہا تو آپ ﷺ پھر خاموش رہے، میں نے پھر عرض کیا اس مرتبہ بھی آپ ﷺ نے کچھ نہیں فرمایا میں نے پھر اسی طرح عرض کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ابوہریرہ ! جو کچھ ہونا ہے (اسے تمہارے مقدر میں لکھ کر) قلم خشک ہوچکا ہے لہٰذا تمہیں اختیار ہے کہ قوت مردمی ختم کرو یا نہ کرو۔ (صحیح البخاری ) تشریح سرکار دو عالم ﷺ کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ تمہارے مقدر میں جو کچھ ہونا لکھا ہے وہ پورا ہوگا، اگر خدانخواستہ کسی بدکاری میں مبتلا ہونا تمہارے لئے نوشتہ تقدیر بن چکا ہے تو یہ قبیح فعل تم سے ضرور ہوگا اور اگر قضا و قدر نے تمہاری پاکدامنی اور معصیت سے حفاظت لی ہے تو چاہے تم اپنی قوت مردمی ختم کر کے نامرد بن جاؤ، یا اس فعل سے باز رہو، تمہارا نفس تمہیں نہیں بہکا سکتا اور تم پاک دامن رہو گے اسی طرف جف القلم کہہ کر اشارہ فرمایا گیا۔ اس حدیث میں اصل میں اس طرف تنبیہ اور تہدید مقصود ہے کہ اسباب و تدبیر کو تقدیر کے مقابلہ پر لانا اور نوشتہ تقدیر سے لاپرواہ ہو کر اس سے بھاگنا جائز نہیں ہے۔

【86】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمام انسانوں کے دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کی درمیان اس طرح ہیں جیسے ایک انسان کا دل ہے اور وہ (اپنی انگلیوں سے) جس طرح چاہتا ہے قلوب کو گردش میں لاتا ہے اس کے بعد آنحضور ﷺ نے دعا کے طور پر یہ فرمایا۔ اے دلوں کو گردش میں لانے والے خدا ! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے اللہ کے کمال قدرت کا اظہار مقصود ہے کہ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے اور سب پر متصرف ہے یہاں تک کہ قلوب کے رخ اور دل کی دھٹرکنیں تک بھی اسی کے اختیار میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے انگلیوں کا استعمال یہاں مجازا ہوا ہے کیونکہ اس کی پاک و صاف ذات مادیات اور اجسام کی ثقالت سے پاک ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تمام قلوب اللہ کے قبضہ و تصرف میں ہیں، وہ جس طرف چاہتا ہے دلوں کو پھیر دیتا ہے کسی قلب کو گناہ و معصیت اور بدکاری کی طرف مائل کردینا بھی اسی کی صفت ہے اور کسی قلب کو عصیان و سرکشی کے جال سے نکال کر اطاعت و فرمانبرداری اور نیکوکاری کے راستہ پر بھی اسی کا کام ہے وہ جس طرح چاہتا ہے گمراہی و ضلالت کے اندھیرے میں پھینک دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے، ہدایت و راستی کے مرغزاروں میں چھوڑ دیتا ہے۔

【87】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا۔ جو بچہ پیدا ہوتا ہے اس کو فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے (یعنی امر حق کو قبول کرنے کی اس میں صلاحیت ہوتی ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح ایک چار پایہ جانور پورا چار پایہ بچہ دیتا ہے، کیا تم اس میں کوئی کمی پاتے ہو پھر آپ نے یہ آیت تلاوتی فرمائی (ترجمہ) یہ اللہ تعالیٰ کی اس بنائی کے موافق ہے جس پر اللہ نے آدمیوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی خلقت میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا یہ دین مستحکم ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق فطرت پر کی ہے اور فطرت صرف امر حق یعنی ایمان و اسلام کو قبول کرسکتی ہے۔ لہٰذا جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے۔ تو وہ اس فطرت پر ہوتا ہے لیکن خارجی اثر سے وہ فطرت کے تقاضوں سے دور ہوجاتا ہے اور خلاف اصول و فطرت طریقوں پر چلنے لگتا ہے یعنی اگر اس کے ماں باپ مجوسی ہوتے ہیں تو وہ بھی ان کے مذہب میں رنگ جاتا ہے۔ چنانچہ مثال کے طور پر فرمایا کہ جس طرح کسی جانور کے کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنی اصلی حالت میں پیدا ہوتا ہے اس کے اندر کسی قسم کی کوئی کمی یا کوئی نقصان نہیں ہوتا، ہاں اگر خارجی طور پر کوئی اس کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالے یا اس کے جسم میں کوئی عیب پیدا کر دے تو وہ اپنی اصلی اور تخلیقی حالت کھو دیتا ہے، اسی طرح انسان پیدا کے وقت اپنی اصلی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کا ماحول، اس کی سوسائٹی یعنی ماں باپ وغیرہ اس کے احساسات و شعور اور اس کے عقائد پر اپنے مذہب کا رنگ چڑھا کر اس کے ذہن و فکر اور قلب و دماغ کو غلط راستہ پر موڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی اصلی اور تخلیقی فطرت پر قائم نہیں رہتا بلکہ کافر ہوجاتا ہے، ہاں اگر ایسا نہیں ہوتا اور اس کے ماں باپ مسلمان ہوتے ہیں تو وہ بھی مسلمان رہتا ہے۔

【88】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابوموسی (رض) راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم ﷺ نے خطبہ دیا اور پانچ باتیں ارشاد فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ سوتا نہیں ہے اور سونا اس کی شان کے مناسب نہیں ہے۔ وہ ترازو کو بلندو پست کرتا ہے، دن کے عمل سے پہلے رات کے عمل اور رات کے عمل سے پہلے دن کے عمل اس کے پاس پہنچا دیئے جاتے ہیں اور اس کا حجاب نور ہے جسے اگر وہ اٹھا دے تو اس کی ذات پاک کا نور مخلوقات کی تاحد نگاہ تمام چیزوں کو جلا کر خاکستر کر دے۔ (صحیح مسلم) تشریح ترازو کو بلندو پست کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ پر رزق کی وسعت کرتا ہے اور اسے مال و زر کی فراوانی سے نوازتا ہے اور کس پر اسباب معیشت اور رزق کے دروازے تنگ کر کے اسے محتاجی و تنگدستی میں مبتلا کردیتا ہے، اسی طرح کسی بندہ کو وہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور نیکوکاری کی بدولت عزت و عظمت اور شرف و فضیلت سے نوازتا ہے اور کسی گناہ گار بندہ کو اس کی سرکشی و نافرمانی اور بدکاری کی بنا پر اسے ذلیل و خوار کردیتا ہے اور اسے تباہی و بربادی کے غار میں ڈال دیتا ہے۔ ایسے ہی دن کے عمل سے پہلے رات کے عمل سے پہلے دن کے عمل اس کے پاس پہنچا دیئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ سے جو کوئی عمل سرزد ہوتا ہے وہ فوراً بلا تاخیر بارگاہ الوہیت تک پہنچ جاتا ہے یعنی ابھی سورج بھی نہیں نکلتا اور کوئی عمل صادر ہونے بھی نہیں پاتا کہ رات کے عمل جو بندہ سے سرزد ہوئے ہیں اوپر پہنچ چکے ہوتے ہیں، اسی طرح رات شروع بھی نہیں ہوتی کہ دن کے عمل وہاں پہنچ جاتے ہیں، اب جو نیک عمل اور اچھا ہوتا ہے اسے قبولیت کے شرف سے نواز کر اس پر جزاء و انعام کا پروانہ صادر کردیا جاتا ہے اور اس پر عذاب و سزا کا حکم دے دیا جاتا ہے۔

【89】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ (یعنی اس کا خزانہ) بھرا ہوا ہے، دن اور رات ہر وقت خرچ کرنا بھی اس میں کمی پیدا نہیں کرتا، کیا تم نہیں دیکھتے ؟ کہ جب سے کہ اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور جب کہ اس کا عرش (بھی) پانی پر تھا، کتنا خرچ کیا ہے، لیکن (اتنا زیادہ) خرچ کرنے کے باوجود جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے (یعنی اس کا خزانہ) اس میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ اور اس کے ہاتھ میں ترازو ہے جسے وہ بلندو پست کرتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور مسلم کی روایت ہے اللہ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوا ہے ۔ اور ابن نمیر کی روایت میں ہے (اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا اور ہمیشہ دینے والا ہے، رات اور دن خرچ کرنے کے باوجود) اس میں کوئی چیز کمی نہیں کرتی۔ تشریح ابن نمیر حضرت امام مسلم کے استاد ہیں، ان کی سند سے جو حدیث ہے اس میں بجائے ملای کے ملان کا لفظ ہے اور ان الفاظ میں کچھ تقدیم و تاخیر بھی ہے ویسے ازروئے لغت ملای ہی صحیح ہے اور یہی الفاظ مناسب ہے۔

【90】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ سے مشرکوں کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا ( کہ مرنے کے بعد دوزخ میں جائیں گے یا جنت میں) آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے (اگر زندہ رہتے تو وہ کیا عمل کرتے) ۔ ( صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح یعنی یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اگر وہ اس صغر سنی کی حالت میں نہ مرتے اور زندہ رہتے تو بڑے ہو کر کیا عمل کرتے، لہٰذا اب ان کے ساتھ جو معاملہ ہوگا اسی کے مطابق ہوگا اور یہ کہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ آیا وہ جنت میں جاتے ہیں یا دوزخ میں، وہاں کی حالت کسی بندہ کو کیا معلوم !۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے یہ اس وقت فرمایا ہوگا جب کہ ابھی تک مشرکوں کی اولاد کے بارے میں وحی کے ذریعہ کچھ معلوم نہیں ہوا تھا۔ اس مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں لیکن صحیح اور اولیٰ یہی ہے کہ اس بارے میں توقف کرنا چاہیے یعنی نہ تو ان کو دوزخی کہا جائے اور نہ جنتی۔

【91】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

حضرت عبادہ بن صامت (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ نے سب سے پہلے جس چیز کو پیدا کیا وہ قلم تھا، پھر اس (قلم) کو لکھنے کا حکم دیا۔ قلم نے کہا، الہٰ العالمین ! کیا لکھوں بارگاہ الوہیت سے جواب ملا تقدیر لکھو ! لہٰذا اس قلم نے ان چیزوں کو لکھا جو (اب تک) ہوچکی ہیں اور ان چیزوں کو لکھا جو آئندہ ہونے والی ہیں۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے غریب ہے۔

【92】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت مسلم بن یسار راوی ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) سے اس آیت (وَاِذْاَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بنی ادم من ظہورھم ذریتھم ؟ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْ ایَوْاَم الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غَافِلِیْنَ ۔ (الاعراف ١٧٢) ترجمہ اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کا نکالا اور (سب کچھ سمجھ عطا کر کے) ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کہ کیوں نہیں ! ہم سب (اس واقعہ کے) گواہ بنتے ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس (توحید سے محض بیخبر تھے) کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب اس آیت کے بارے میں سرکار دو عالم ﷺ سے سوال کیا گیا تو میں نے آپ ﷺ کو فرماتے سنا کہ۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا پھر ان کی پیٹھ پر داہنا ہاتھ پھیرا اور اس میں سے ان کی اولاد نکالی اور فرمایا کہ میں نے ان کو جنت کے لئے اور جنت والوں کے سے اعمال کرنے کے لئے جو وہ کریں گے پیدا کیا ہے۔ پھر اپنا ہاتھ آدم کی پشت پر پھیرا اور اس میں سے ان کی اولاد نکالی اور فرمایا کہ میں نے ان کو دوزخ کے لئے اور دوزخیوں کے سے کام کرنے کے لئے جو وہ کریں گے پیدا کیا ہے۔ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! پھر عمل کی کیا ضرورت ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو جنت کے لئے پیدا کرتا ہے تو اس سے جنت والوں ہی کے سے عمل کراتا ہے یہاں تک کہ اس (بندہ) کی وفات جنت والوں جیسے اعمال پر ہوجاتی ہے چناچہ اللہ تعالیٰ ان اعمال کی بنا پر اسے جنت میں داخل کردیتا ہے اور جب کسی بندہ کو دوزخ کے لئے پیدا کرتا ہے تو اس سے دوزخیوں کے سے اعمال صادر کراتا ہے یہاں تک کہ وہ اہل دوزخ جیسے اعمال پر مرجاتا ہے لہٰذا اسے ان اعمال کی بناء پر دوزخ میں ڈال دیتا ہے۔ (مؤطامالک، جامع ترمذی، ابوداؤد) تشریح یہ عہد میثاق عالم ارواح میں ہوا تھا جیسا کہ دیگر احادیث میں آتا ہے کہ رب قدوس نے تمام روحوں کو جو ازل سے لے کر ابد تک دنیا میں آنے والی تھیں ننھی ننھی چیونٹیوں کی شکل میں جمع کیا اور پھر ان کو عقل و دانائی بھی عنایت فرمائی اور اپنی ربوبیت و الوبیت کا سب سے اقرار کرایا۔ اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ ازل سے ابد تک دنیا میں جتنے بھی انسان پیدا ہوں گے سب کی پشت سے ان کی اولاد نکالی گئی تھی مثلاً رسول اللہ ﷺ کی پشت سے ان کی اولاد نکالی گئی ان کی پشت سے ان کی اولاد اسی طرح قیامت تک جتنے انسان پیدا کئے جائیں گے سب کی پشت سے ان کی اولاد نکالی گئی۔ داہنے ہاتھ کے پھیرنے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتہ کو داہنا ہاتھ پھیرنے کا حکم دیا تھا ورنہ اللہ تعالیٰ کی نورانی ذات ہاتھ پیر کی ظاہری ثقالت سے پاک و صاف ہے۔ یا پھر یہ کہا جائے کہ اس سے اپنی قوت وقدرت کا اظہار مقصود ہے۔

【93】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم ﷺ باہر تشریف لائے آپ ﷺ کے ہاتھوں میں دو کتابیں تھیں اور (صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے) فرمایا جانتے ہو یہ دونوں کتابیں کیا معلوم آپ ﷺ ہی بتا دیجئے (یہ کتابیں کیا ہیں) آپ ﷺ نے اس کتاب کے بارے میں فرمایا جو داہنے ہاتھ میں تھی کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے جس میں اہل جنت ان کے باپ اور ان کے قبیلوں کے نام لکھے ہوئے ہیں پھر آخر میں جمع بندی کردی گئی ہے لہٰذا اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی، اس کے بعد بائیں ہاتھ والی کتاب کے متعلق فرمایا کہ یہ اللہ کی جانب سے ایک ایسی کتاب ہے جس پر اہل دوزخ ان کے باپ اور ان کے قبیلوں کے نام لکھے ہیں پھر آخر میں جمع بندی کردی گئی ہے۔ لہٰذا اب نہ تو اس میں کمی ہوتی ہے اور نہ زیادتی۔ یہ (سن کر) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگرچہ یہ چیز پہلے سے ہی طے ہوچکی ہے (کہ جنت و دوزخ کا مدار نوشتہ تقدیر پر ہے تو پھر عمل کی کیا ضرورت ہے ؟ ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (دین و شریعت کے مطابق اپنے اعمال کو) اچھی طرح مضبوط کرو اور (حق تعالیٰ کا) تقرب حاصل کرو۔ اس لئے کہ جنتی کا خاتمہ اہل جنت کے اعمال پر ہوتا ہے خواہ (زندگی میں) اس نے کیسے ہی (نیک یا بد) عمل کئے ہوں اور دوزخمی کا خاتمہ اہل دوزخ کے عمل پر ہوتا ہے خواہ اس کے اعمال جیسے بندوں کے بارے میں یہ پہلے سے طے کرچکا ہے کہ ایک جماعت جنتی ہے اور ایک جماعت دوزخی ہے۔ (جامع ترمذی) تشریح کتابوں کو پیچھے ڈال دینا اہانت کے طور پر نہیں تھا بلکہ اس طرف اشارہ مقصود تھا کہ بارگاہ الوہیت سے اس معاملہ میں کہ دوزخی و جنتی کون کون لوگ ہیں ازل ہی میں حکم ہوچکا ہے اور جو نوشتہ تقدیر بن چکا ہے۔ ظاہری طور پر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سرکار دو عالم ﷺ کے دست مبارک میں واقعی کتابیں تھیں جن کو آپ ﷺ نے صحابہ کو دکھلا بھی دیا تھا۔ لیکن ان کے اندر جو مضمون لکھے ہوتے تھے وہ نہیں دکھلائے تھے، لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ حقیقت میں کتابیں نہیں تھیں بلکہ آپ ﷺ نے مثال کے طور پر اس انداز سے فرمایا تاکہ یہ مسئلہ صحابہ کے ذہن نشین ہوجائے۔

【94】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور ابی خزامہ ( ابی خزامہ تابعی ہیں ان کے والد کا نام عمیر ہے جو صحابی ہیں اور جن سے ابوخزامہ روایت کرتے ہیں ابی خزامہ سے زہری روایت کرتے ہیں) اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ عملیات جن کو ہم (شفاء کے لئے) پڑھواتے ہیں اور وہ دوائیں جن کو ہم (حصول صحت کے لئے) استعمال کرتے ہیں اور وہ ہر چیزیں جن سے ہم حفاظت حاصل کرتے ہیں (مثلاً ڈھال اور زرہ وغیرہ ان کے بارے میں مجھے بتائیے کہ کیا یہ سب چیزیں نوشتہ تقدیر میں کچھ اثر انداز ہوجاتی ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ یہ چیزیں بھی نوشتہ تقدیر ہی کے مطابق ہیں) ۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) تشریح جواب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بیماری وغیرہ امر مقدر ہیں، اسی طرح ان کا علاج اور ان سے حفاظت کے اسباب بھی نوشتہ تقدیر ہی کے مطابق ہوتے ہیں یعنی جس طرح کسی آدمی کے مقدر میں کوئی بیماری لکھ دی گئی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نوشتہ تقدیر بن چکا ہے کہ یہ بیمار فلاں وقت میں اپنی بیماری کا علاج کرے گا اور یہ بھی طے ہوچکا ہے کہ اس علاج و معالجہ سے اسے فائدہ ہوگا یا نہیں، اگر فائدہ ہونا لکھا ہے تو فائدہ ہوجائے گا اور فائدہ ہونا نہیں لکھا ہے تو نہیں ہوگا، اس لئے اگر کسی بیمار نے اپنی بیماری کا علاج کیا اور اسے فائدہ نہیں ہوا تو اسے سمجھنا چاہیے کہ تقدیر میں شفا نہیں لکھی تھی ! لہٰذا معلوم ہوا کہ بیماری میں علاج کرنا، یا اپنی حفاظت کے لئے خارجی اسباب کا سہارا لینا نوشتہ تقدیر کے خلاف نہیں ہے۔ تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک کا مسئلہ یہ ہے کہ تعویذ گناہ ہے اگر قرآن کی آیتوں اور احادیث کی دعاؤں کے مطابق ہوں یا جھاڑنا، پھونکنا اور دم کرنا اگر اسماء وصفات الہٰی اور قرآن و حدیث کے مطابق ہو۔ نیز ان کو موثر حقیقی سمجھنے کا عقیدہ بھی نہ ہو یعنی یہ یقین نہ رکھتا ہو کہ ان چیزوں سے یقینا فائدہ ہوگا خواہ مرضی الہٰی ہو یا نہ ہو بلکہ یہ عقیدہ ہو کہ شفا و صحت کا عطا کرنے والا تو اللہ ہے یہ صرف اسباب و تبرک کے درجہ میں ہیں تو ایسی شکل میں یہ چیزیں جائز ہوں گی، اگر اس کے برخلاف ہو کہ جھاڑنا پھونکنا اور تعویذ گنڈے غیر شرعی ہوں یعنی اس میں غیر اللہ کی مدد لی جاتی ہو تو یہ حرام ہوگا۔

【95】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ (ایک دن) ہم قضا و قدر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے کہ سرکار دو عالم ﷺ تشریف لے آئے (ہمیں اس مسئلہ میں الجھا ہوا دیکھ کر) آپ ﷺ کا چہرہ انور غصہ کی وجہ سے سرخ ہوگا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا انار کے دانے آپ ﷺ کے رخسار مبارک پر نچوڑ دیئے گئے ہیں ( اسی حالت میں) آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں اس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور میں اسے لئے تمہارے پاس (رسول بنا کر بھیجا) گیا ہوں ؟ جان لو ! تم سے پہلے کے لوگ اس لئے ہلاکت کی وادی میں پھینک دئیے گئے کہ انہوں نے اس سلسلہ میں الجھنا اپنا مشغلہ بنا لیا تھا لہٰذا میں تمہیں بات کی قسم دیتا ہوں (اور پھر دو بار) قسم دیتا ہوں کہ تم اس مسئلہ پر بحث نہ کیا کرو (جامع ترمذی) اور ابن ماجہ نے اسی طرح کی روایت عمر و بن شعیب سے نقل کی ہے جو انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے ۔ تشریح صحابہ آپس میں تقدیر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے بعض صحابہ تو یہ کہہ رہے تھے کہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے نوشتہ تقدیر کے مطابق ہیں تو پھر ثواب و عذاب کا ترتب کیوں ہوتا ہے ؟ جیسا کہ معتزلہ کا مذہب ہے اور کچھ حضرات یہ کہہ رہے تھے کہ اس میں اللہ کی کیا مصلحت و حکمت ہے کہ بعض انسانوں کو تو جنت کے لئے پیدا کیا اور بعض انسانوں کو دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے ؟ کچھ صحابہ نے اس کا جواب دیا کہ یہ اس لئے ہے کہ انسانوں کو کچھ اختیارات بھی اعمال کے کرنے اور نہ کرے کا دے دیا ہے، کچھ نے کہا یہ اختیار کس نے دیا ؟ بہر حال اس قسم کی گفتگو ہو رہی تھی اور اپنی عقل و دانش کے بل بوتہ پر اللہ کے اس رازو مصلحت کے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ سرکار دو عالم ﷺ نے جب ان کو اس بحث مباحثہ میں مشغول پایا تو غصہ و غضب سے چہرہ مقدس سرخ ہوگیا اس لئے صحابہ کو بتلا دیا گیا کہ یہ تقدیر کا مسئلہ اللہ کا ایک راز و بھید ہے جو کسی پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے لہٰذا اس میں اپنی عقل لڑانا اور غور و تحقیق گمراہی کی راہ اختیار کرنا ہے، چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس لئے دنیا میں نہیں بھیجا گیا ہوں کہ تقدیر کے بارے میں بتاؤں اور تم اس میں بحث و مباحثہ کرو، میری بعثت کا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ و تعالیٰ کے احکام تم لوگوں تک پہنچا دوں اور اطاعت فرمانبرداری کی راہ پر تمہیں لگاؤں۔ دین و شریعت کے فرائض و اعمال کے کرنے کا تمہیں حکم دوں، لہٰذا ایک سچے و مخلص ہونے کے ناطے پر صرف اتنا ہی فرض ہے کہ تم ان احکام فرائض پر عمل کرو اور جن اعمال کے کرنے کا تمہیں حکم دوں اس کی بجا آوری میں لگے رہو، تم اس تقدیر کے مسئلہ میں مت پڑو پس اتنا ہی اعتقاد تمہارے لئے کافی ہے کہ یہ اللہ کا ایک راز ہے جس کی حقیقت و مصلحت وہی جانتا ہے، اس کو اسی کی مرضی پر چھوڑ دو ۔ آخر حدیث میں صاحب مشکوۃ نے ابن ماجہ کی اسی طرح کی روایت کردہ حدیث کی سند کا ذکر کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حدیث شعیب نے اپنے دادا سے نقل کی ہے جو عبداللہ بن عمرو بن العاص ہیں اور شعیب سے ان کے صاحبزادے عمرو روایت کرتے ہیں اس طرح عن ابیہ کی ضمیر عمرو بن شعیب کی طرف راجع ہوگی اور عن جدہ کی ضمیر شعیب کی طرف راجع ہوگی اس لئے کہ عمر اپنے دادا سے روایت نہیں کرتے ہیں کیونکہ ان کے دادا محمد بن عبداللہ سے وہ روایت منقول نہیں ہے، یہ سلسلہ نسب اس طرح ہے عمر بن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص۔ اس کی فائدہ اس لئے یہاں ضروری ہے کہ دوسری احادیث میں اس طرح کی عبارات میں عن جدہ کی ضمیر عمرو بن شعیب کی طرف راجع ہوتی ہے لیکن یہاں سے اس کے برخلاف ہے۔

【96】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابوموسی راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق ایک مٹھی (مٹی) سے کی جو ہر جگہ کی زمین سے لی گئی تھی لہٰذا آدم کی اولاد (انہیں) زمین کے موافق پیدا ہوئی چناچہ (انسانوں میں) بعض سرخ، بعض سفید، بعض کالے، بعض درمیانہ رنگ کے، بعض نرم مزاج، بعض تند مزاج بعض پاک اور بعض ناپاک ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی، سنن ابوداؤد) تشریح حضرت آدم کی تخلیق کے وقت ایک فرشتہ حضرت عزرائیل کو حکم دیا گیا کہ وہ ایک مٹھی بھر کے مٹی لے آئیں چناچہ وہ تمام روئے زمین سے ہر خطہ و ہر جگہ کی تھوڑی مٹی اپنی مٹھی میں بھر لائے اسی سے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کی گئی اسی لئے آدم کی اولاد میں مختلف رنگ و نسل اور مختلف طبائع کے انسان پیدا ہوتے ہیں کوئی کالا ہوتا ہے تو کوئی گورا اور کسی کا رنگ گندمی ہوتا ہے اسی طرح کچھ انسان اپنی طبیعت و مزاج کے اعتبار سے نرم خو، خوش اخلاق اور میٹھی زبان کے ہوتے ہیں کچھ لوگوں کی طبیعت سخت و تیز اور غیر معتدل ہوتی ہے، بعض انسان فطرتاً پاک و صاف ہوتے ہیں اور بعض گندگی و نجاست سے ملوث رہتے ہیں اور یہ فرق و اختلاف اسی بنیادی مادہ کی وجہ سے ہے جس سے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کی گئی تھی۔

【97】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار عالم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق (جن وانس) کو اندھیرے میں پیدا کیا اور پھر ان پر اپنے نور کا پر تو ڈالا، لہٰذا جس کو اس نور کی روشنی میسر آگئی وہ راہ راست پر لگ گیا اور جو اس کی مقدس شعاعوں سے محروم رہا وہ گمراہی میں پڑا رہا، اسی لئے میں کہتا ہوں کہ تقدیر الہٰی پر قلم خشک ہوچکا ہے (کہ اب تقدیر میں تغیر و تبدل ممکن نہیں۔ (مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی ) تشریح اندھیرے سے مراد نفس امارہ کی ظلمت ہے کہ انسان کی جبلت میں خواہشات نفسانی اور غفلت کا مادہ رکھا تھا لہٰذا جس کا قلب و دماغ ایمان و احسان کی روشنی سے منور ہوگیا اور اس نے طاعت الہٰی سے اللہ کی ذات کا عرفان حاصل کرلیا تو وہ نفس امارہ کے مکر و فریب اور اس کی ظلمت سے نکل کر اللہ پرستی و نیکو کاری کے لالہ زار میں آگیا اور جو اپنے نفس کے مکر و فریب میں پھنس کر طاعت الہٰی کے نور سے محروم رہا وہ گمراہی میں پڑا رہ گیا۔

【98】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت انس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ اکثر بیشتر بطور دعا کے یہ فرمایا کرتے تھے۔ اے قلوب کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ ! میں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین و شریعت پر بھی ایمان لائے تو کیا اب بھی ہمارے بارے میں آپ ﷺ ڈرتے ہیں (کہ کہیں ہم گمراہ نہ ہوجائیں) آپ ﷺ نے فرمایا بیشک قلوب اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں ( یعنی اس کے تصرف و اختیار میں ہیں اور جس وہ طرح چاہتا ہے ان کو گردش میں لاتا رہتا ہے) ۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) فائدہ حضرت انس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ ﷺ تو بالک معصوم اور محفوظ ہیں۔ نعوذ باللہ کسی گمرائی کا شائبانہ بھی آپ ﷺ کے اندر نہیں آسکتا ظاہر ہے کہ یہ دعا آپ ﷺ ہمارے لئے ہی کرتے ہوں گے کہ کہیں ہم دنیا کے چمک دمک میں پھنس کر اپنے دین و ایمان سے گمراہ نہ ہوجائیں تو کیا ایسی شکل میں جب کہ آپ ﷺ ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہم آپ ﷺ کی رسالت اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کی صداقت کا اعتقاد رکھتے ہیں، نیز ہمارے قلوب ایمان و ایقان کی حقیقی کیفیت سے سر شار ہیں ہمارے گمراہ ہونے کا کیا خدشہ ہوسکتا ہے اس پر سرکار دو عالم ﷺ نے جواب دیا کہ قلوب کے رخ اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور جس طرح چاہتا ہے ان کو پھیرتا رہتا ہے، نہ معلوم کس کے قلب کا رخ گمراہی کی طرف کب ہوجائے اس لئے دعا مانگی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ دل کو ہمیشہ سلامتی کی راہ پر لگائے رہے اور گمراہی کی طرف نہ مڑنے دے۔

【99】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابوموسی راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا دل کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی پرَ کسی میدان میں پڑا ہو اور ہوائیں اس کی پیٹھ سے پیٹ اور پیٹ سے پیٹھ کی طرف پھرتی رہتی ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح اسی طرح دلوں کا حال ہے کہ کبھی وہ برائی سے بھلائی کی طرف رخ کرلیتے ہیں اور کبھی بھلائی سے برائی کے راستہ پر جا لگتے ہیں۔

【100】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ چار چیزوں پر ایمان نہ لائے۔ (١) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ (٢) اور میں بلاشبہ اللہ کی جانب سے بھیجا ہوا رسول ہوں اور حق (دین اسلام) لے کر اس دنیا میں آیا ہوں۔ (٣) موت اور مرنے کے بعد (میدان حشر میں) اٹھنے پر ایمان لانا۔ (٤) اور تقدیر پر ایمان لانا۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) تشریح موت پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کو یقینی جانے کہ اس دنیا کی تمام زندگی عارضی اور فانی ہے جو اپنے وقت پر ختم ہوجائے گی۔ اور اس دنیا میں جو کچھ ہے سب ایک دن فنا کے گھاٹ اتر جائے گا یا اس سے یہ مراد ہے کہ اس بات پر صدق دل سے یقین و اعتقاد رکھا جائے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ خداوند کے حکم سے آتی ہے کوئی بیماری، حادثہ یا تکلیف موت کا حقیقی سبب نہیں ہے بلکہ یہ چیزیں بادی النظر میں ظاہری اسباب ہوتے ہیں کسی انسان کی زندگی اور موت کلیۃً اللہ کے ہاتھ میں ہے جب تک اس کا حکم ہوتا ہے زندگی رہتی ہے اور جب وہ چاہتا ہے موت بھیج کر زندگی ختم کردیتا ہے۔

【101】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عباس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا میری امت میں دو فرقے ایسے ہیں جن کو اسلام کا کچھ بھی حصہ نصیب نہیں ہے اور وہ مرجیہ و قدریہ ہیں، جامع ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح اسلام میں ایک گروہ مرجیہ کے نام سے مشہور ہے، یہ فرقہ اعمال کے سلسلہ میں اسباب کا قائل نہیں ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ کسی عمل اور فعل کی نسبت بندہ کی جانب ایسی ہی ہے جیسے کسی فعل کی نسبت جمادات کی طرف کردی جائے یعنی جس طرح ایک لکڑی پتھر، روڑہ ہے کہ اس کو جس طرف پھینک دیجئے یا جدھر کو لڑھکا دیجئے وہ لڑھکتا چلا جائے گا اس کو اپنے پھینکے جانے اور لڑھکائے جانے میں کوئی دخل و اختیار نہیں ہے، بلکہ وہ پھینکنے والے اور لڑھکانے والے کے قبضہ وقدرت میں ہے، اسی طرح ایک بندہ ہے کہ اس کو اپنے کسی عمل اور فعل میں کوئی دخل اور اختیار نہیں ہے بلکہ وہ محض اور بےاختیار ہے، قدرت اس سے جیسے عمل صادر کراتی ہے وہ کرتا ہے وہ نہ کسی عمل کے از خود کرنے پر قادر ہے اور نہ کسی عمل سے باز رہنا اس کے اختیار میں ہے۔ اس کے مد مقابل ایک دوسرا فرقہ قدریہ ہے جو سرے سے تقدیر ہی کا منکر ہے، اس جماعت کا مسلک یہ ہے کہ بندہ کے اعمال میں تقدیر الہٰی کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ بندہ خود اپنے اعمال کا خالق اور اپنے افعال میں مختار و قادر ہے۔ وہ جو کچھ عمل کرتا ہے اپنی قدرت و اختیار کی بنا پر کرتا ہے۔ یہی مسلک معتزلہ اور روافض کا بھی ہے یہ دونوں فرقے اسلامی نقطہ نظر سے اپنے اپنے مسلک میں راہ اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں اس لئے کہ اگر مرجیہ کے اعتقادات کو مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب بندہ سے اختیار وقدرت اور ارادہ و مشیت کی نفی کر کے اسے اینٹ پتھر اور لکڑی اور غیرذی ارادہ مخلوق کی طرح مان لیا گیا اور بندہ کے ہر فعل میں اختیار وقدرت کلیۃ اللہ کا مانا گیا یا صاف لفظوں میں یہ کہا جائے کہ گویا صفات خالق کو سامنے رکھ کر صفات عبد سے انکار کردیا گیا تو قدرتی طور پر یہ بات ماننی پڑے گی کہ بندہ سے سرزد شدہ افعال خود بندہ کے نہیں کہلائے جائیں گے بلکہ ان کو اللہ کے افعال کہا جائے گا خواہ وہ فعل کسی قسم کا ہو اور کسی بھی عضو سے صادر ہوا ہو لہٰذا جب بندہ دیکھے گا تو کہا جائے گا کہ وہ نہیں دیکھ رہا ہے بلکہ اللہ دیکھ رہا ہے جب بندہ کھائے گا تو ماننا پڑے گا کہ وہ نہیں کھا رہا ہے، بندہ جب سنے گا تو تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ نہیں سن رہا ہے بلکہ اللہ سن رہا ہے، بندہ جب سوئے گا تو یہی کہا جائے گا کہ وہ نہیں سو رہا ہے بلکہ اللہ سو رہا ہے تو گویا بندہ سے کوئی فعل بھی جب سرزد ہوگا تو یہی کہنا ہوگا کہ وہ اس بندہ سے نہیں بلکہ درحقیقت اللہ سے سرزد ہو رہا ہے۔ اور چونکہ یہ سب وجود کے آثار ہیں جن سے غافل کے موجود ہونے کا پتہ چلتا ہے تو خلاصہ یہ نکلے گا کہ بندہ اگرچہ موجود ہے لیکن حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے، بلکہ وہ خالق اور افعال کے درمیان ایک ایسا ذریعہ ہے جو ان افعال کے اظہار کے لئے واسطہ بن رہا ہے بلکہ موجود تو صرف اللہ کی ذات ہے ورنہ تمام کا تمام کالعدم ہے۔ لہٰذا یہ ساری حجت وحدۃ الوجود اور کثرت موجودات کی نفی پر آکر ختم ہوجائے گی جس کو بعض جاہل صوفیاء کی اصطلاح میں ہمہ اوست فرماتے ہیں جس کا حاصل کثرت موجودات اور اعیان ثابت کا برملا انکار اور ساری کثرتوں کو ایک فرضی اور وقتی کارخانہ تصور کرلینا نکل آتا ہے اور ثابت ہوجاتا ہے کہ گویا اس کائنات میں ہر چیز موجود ہو کر بھی کالعدم اور معدوم ہی ہے، موجود صرف ذات واحد ہی ہے اور کوئی نہیں اس کا نتیجہ اصطلاحی الفاظ میں یہ ہے کہ دائرہ وجود کی صرف ایک ہی نوع رہ جائے جسے واجب الوجود فرماتے ہیں اور ممکن الوجود کو کوئی نشان و پتہ ہی نہ رہے بلکہ وہ ہمیشہ کے لئے معدوم محض ہو کر رہ جائے۔ اب ظاہر ہے کہ ایجاد الٰہی یا فیضان وجود جسے تخلیق فرماتے ہیں ممکن ہی پر ہوسکتا ہے اس لئے کہ اسی میں قبول وجود کی صلاحیت ہے لیکن چونکہ وہ معنی معدوم محض ہوگیا ہے جس پر آثار وجود اور آثار زندگی ظاہر نہیں ہوسکتے، تو اب ایجاد کس پر واقع ہو اور تخلیق کس چیز کی عمل میں آئے ؟ نیز ایجاد کے بعد ابقاء الٰہی یعنی تدبیر و تصرف اور ربوبیت وغیرہ ایسی وہ تمام صفات حق جن کا تعلق مخلوق سے تھا کس پر واقع ہوں گی ؟ اور کہاں اپنی تجلیات دکھلائیں گی ؟ جب کہ ذات الٰہی کے سوا کسی غیر کا پتہ نہیں کہ وہ ان صفات کا مورد و مظہر بن سکے، لہٰذا اس شکل میں مانند پڑے گا کہ ایجاد و ابقاء کی تمام صفات معاذ اللہ معطل و بیکار ثابت ہوگئیں ہیں اور تعطل اگر عدم نہیں تو کالعدم ضرور ہے، یا بالفاظ دیگر افعال باری کا عدم ہے جو انتہائی نقص ہے۔ اور جب کہ یہ تمام فعلی کمالات صفات وجود کے آثار تھے جو ذات حق سے منتفی ہوگئے تو بلا شبہ اللہ کا وجود ان کی نفی سے ناقص ٹھہرا اور اللہ کی بےعیب ذات کتنے ہی کمالات مثلا ظہور صفات اور افعال سے کو ری رہ گئی جن پر معبودیت کا کارخانہ قائم تھا اور ظاہر ہے کہ نقص صفات اور نقص افعال کے ساتھ خدائی جمع نہیں ہوسکتی، تو ایسی ناقص ذات کو اللہ نہیں کہہ سکتے، نتیجہ یہ نکلا کہ نہ خالق رہا اور نہ مخلوق رہی۔ غور کیجئے کہ مرجیہ کے نظریات نے بندہ کو مجبور محض اور بےاختیار تصور کیا اور اس کے تمام افعال و اعمال کی ذمہ داری تقدیر الہٰی کے سر ڈال دی، نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے بندہ کے اختیار وقدرت کا انکار کیا تھا تو انجام کار اللہ کی صفات افعال ایجاد، ترزیق اور قیومیت و تدبیر وغیرہ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اب ذرا قدریہ کے مسلک کی تنقیح بھی کرلیجئے اس جماعت نے مرجیہ کا رد عمل کرتے ہوئے اس سلسلہ میں محض صفات عہد کو سامنے رکھا اور صفات معبود سے صرف نظر کرلیا، یعنی بندہ کے اختیارت وقدرت، ارادہ مشیت اور فعل اور عمل کو اس درجہ میں مستقل اور آزاد بتلایا کہ اس میں اللہ کے ارادہ قدرت اور اختیار و فعل کو دخل ہی نہیں حتی کہ بعض غالی قدریہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ کو بندہ کے افعال کا علم بھی اس وقت ہوتا ہے جب بندہ اسے کرلیتا ہے، گویا بندہ کے استعمال اختیار کی حد تک نہ اللہ میں ارادہ ہے، نہ قدرت کو اختیار ہے نہ مشیت، حتی کہ نہ سابق علم نہ خبر۔ لہٰذا مرجیہ نے تو تقدیر سے مثلاً صفات خالق ارادہ، علم، قدرت، اختیار وغیرہ کو اللہ سے وابستہ کر کے بندے کو ان سے کورا مان لیا اور قدریہ نے ان صفات کو بندہ سے مستقلاً وابستہ کر کے اللہ کو ان سے خالی مان لیا۔ غور کیجئے ! اس لئے کہ اتنی بات تو ظاہر ہے کہ بندہ منٹ بھر میں سینکڑوں اچھے برے افعال اور حرکات و سکنات مختلف اندازوں سے کر گزرتا ہے جس کے عمر بھر کے افعال و حرکات کی گنتی ناممکن ہے، پھر انسانی تصرفات کی حدود اسی عالم تک نہیں ہیں، اس لئے کہ بعض ایسے متعدی افعال بھی ہیں جن میں انسان دوسری اشیاء کائنات کو مفعول بناتا ہے ظاہر ہے ان اشیاء عالم میں جو اس کے تسخیر و تصرف میں آتی ہیں، زمین سے لے کر آسمان تک ساری ہی مخلوقات داخل ہیں۔ لہٰذا سارے انسانوں کے یہ تمام افعال جو سارے ہی عالموں میں پھیلے ہوئے ہیں اور بقول قدریہ یہ انسانوں کی ایسی مخلوقات ہیں جن کی ایجاد و تخلیق میں اللہ کا دخل تو کیا ہوتا ان پر اس کا نہ زور چل سکتا ہے اور نہ ہی اسے ان کی پیدائش سے پہلے ان کا علم ہی ہوتا ہے گویا انسان جو خود اپنی تخلیق میں بےبس ہے اسے تو ان کی تخلیق کا ارادہ کرتے وقت علم ہوجاتا ہے کہ اسے کیا اور کب پیدا کرنا ہے، مگر نعوذ باللہ اللہ اتنا بیخبر اور لا علم کہ اسے یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ کون سی چیز کب پیدا ہوئی اور کون سا فعل کب صادر ہوا۔ اس صورت میں یقینا انسان کی تخلیق کا شمار اللہ کی مخلوقات کے شمار سے بڑھ جائے گا، اس لئے کہ اللہ تو انسان کا خالق ہے اور انسان تمام افعال و اشیاء کا خالق ہے اور ظاہر ہے کہ انسان کی نسبت سے ان کا افعال بلا شبہ کروڑوں گنا زیادہ ہیں، اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ انسانی مخلوقات اللہ کی مخلوقات سے زیادہ نہیں نہ ہوجائے اور پھر مخلوقات بھی ایسی کہ خدائی سرحد سے بالکل خارج جس پر اس کو کوئی بس نہ ہو بلکہ علم قدیم بھی نہ ہو پس اس معاملہ میں کہنا پڑے گا کہ اللہ تو بےبس ہوگیا اور انسان مختار کل ہوگیا، بندہ تو خدائی حدود میں آگیا اور اللہ بندوں کی صف میں جا بیٹھا، یعنی بندہ کا زور تو اللہ کی خدائی پر چل گیا کہ اس نے افعال و اشیاء کی تخلیقات کر ڈالیں اور اللہ کا بس اپنی خدائی پر بھی نہ رہا کہ اس ان مخلوقات کے وجود میں آنے کا علم بھی نہ ہوسکا اور اس مقام پر آکر اس کا ارادہ، قدرت، مشیت اور اختیار وغیرہ سب بےکار اور معطل ہو کر رہ گئے۔ (ماخوذاز مسئلہ تقدیر مصنفہ حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحب مدظلہ) یہ ہے ان دونوں فرقوں کے مسلک کی حقیقت اور اس کا انجام ظاہر ہے کہ یہ دونوں نظریے اپنی اپنی جگہ اسلامی نقطہ نظر سے نہ صرف یہ کہ حد اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں بلکہ گمراہی کی طرف بڑھے ہوئے بھی ہیں جس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور خسران آخرت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ان دونوں کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت کا مسلک بالکل صاف اور صحیح ہے علماء حق فرماتے ہیں کہ تمام افعال و اعمال کا خالق رب قدوس ہے اور کا سب بندہ ہے یعنی دنیا میں جتنی چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں یا ہونے والی ہیں وہ سب اللہ کے حکم اور اس کے ارادہ و علم سے ہوتی ہیں، اسی طرح بندوں سے جو کچھ افعال سرزد ہوتے ہیں خواہ وہ افعال نیک ہوں یا افعال بد سب نوشتہ تقدیر کے مطابق دونوں راستے واضح کردیئے ہیں اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کردیا کہ اگر نیکی و بھلائی کے راستے کو اختیار کرو گے تو سعادت و نیک بختی سے نوازے جاؤ گے اور اگر کوئی برائی و بدی کے راستے کو اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار کئے جاؤ گے لہٰذا بندہ اسباب کسب کے اعتبار سے اپنے ہر عمل و فعل میں مختار ہے۔ گویا اہل سنت والجماعت بندہ کو بیک وقت مختار بھی فرماتے ہیں اور مجبور بھی مگر درمیانی انداز سے کہ اسے نہ مختار مطلق جانتے ہیں نہ مجبور محض یعنی ایک طرف سے اسے مختار مان کر زنجیر تقدیر سے پابستہ بھی فرماتے ہیں اور دوسری طرف اسے مجبور کہہ کر اینٹ و پتھر کی طرح بےحس بھی تسلیم نہیں کرتے۔ بہر حال اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں فرقے یعنی مرجیہ اور قدریہ کافر ہیں لیکن حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی تحقیق کے مطابق علماء کا قول مختار یہ ہے کہ یہ دونوں فرقے کافر نہیں ہیں البتہ فاسق ہیں کیوں کہ یہ فرقے بھی قرآن و حدیث ہی سے تمسک کرتے ہیں اور اپنے نظریات میں تاویل و توضیح کر کے کفر کے دائرہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ لہٰذا اس حدیث کے بارے میں کہا جائے گا کہ اس سے ان فرقوں کی زجر و ملامت مقصود ہے اور ان کے غلط عقائد کی گمراہی کو واضح کرنا ہے جس میں اس شدت و سختی کے ساتھ ان کے مذہب کا رد کیا جارہا ہے۔ بعض حضرات اس حدیث کی صحت میں بھی کلام کیا ہے۔ حضرت شاہ اسحق کی تحقیق اس کے برخلاف ہے وہ فرماتے ہیں کہ علماء محققین ان فرقوں پر کفر کا حکم لگاتے ہیں اور ان کو خارج الاسلام مانتے ہیں لیکن اس میں اختلاف ہے کہ ان کا کفر آیا تاویلی ہے یا ارتدادی۔

【102】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، کہ میری امت میں (اللہ کے درد ناک عذاب) زمین میں دھنس جانا اور صورتوں کا مسخ ہوجانا بھی ہوگا اور یہ عذاب ان لوگوں پر ہوگا جو تقدیر کے منکر ہیں (ابوداؤد) امام جامع ترمذی نے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ تشریح زمین میں دھنس جانا اور صورتوں کا مسخ ہوجانا اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہت سخت عذاب ہیں جو اس امت سے پہلے دوسری امتوں پر ان کی سرکشی اور حد سے زیادہ نافرمانی کی بنا پر ہوچکے ہیں، اس امت میں بھی آخر زمانہ میں اللہ سے تمرود سرکشی اور بغاوت و نافرمانی حد سے زیادہ بڑھ جائے گی تو ان فرقوں پر یہ عذاب ہوسکتا ہے۔ لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسخ و خسف جیسے درد ناک عذاب میری امت پر ہوئے تو ان دونوں فرقوں پر ہوں گے۔

【103】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا فرقہ قدریہ اس امت کے مجوس ہیں لہٰذا اگر وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کے لئے نہ جاؤ اور اگر وہ مرجائیں تو ان کے جنازہ میں شریک مت ہونا۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے قدریہ کی صریح گمراہی اور ان کی ضلالت واضح ہے کہ ان کو اس امت کا مجوس قرار دیا گیا مجوس ایک آتش پرست قوم ہے جو دو اللہ مانتی ہے ایک وہ اللہ جو نیکی و بھلائی کا پیدا کرنے والا ہے، اس کو یزداں کہتے ہیں۔ دوسرا وہ اللہ جو برائی و بدی کا پیدا کرنے والا ہے، اس کو اہرمن یعنی شیطان فرماتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح مجوسی تعداد الٰہ کے قائل ہیں اسی طرح قدریہ بھی بےانتہا خالقوں کے قائل ہیں اس لئے کہ ان کے نزدیک ہر بندہ اپنے افعال کا خالق ہے اسی طرح جتنے بندے ہوں گے اتنے بھی خالق ہی ہوں گے، نیز جس طرح قدریہ خالق خیر الگ اور خالق شر الگ مانتے ہیں اسی طرح قدریہ بھی فرماتے ہیں کہ خیر و بھلائی کا پیدا کرنے والا تو اللہ ہے اور شر و برائی کا پیدا کرنے والا شیطان اور انسانی نفس ہے۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اس فرقہ سے کلیۃ اجتناب کرنا ضروری ہے اگر وہ بیمار ہوجائیں تو ان کی عیادت کے لئے نہیں جانا چاہیے اگر وہ مرجائیں تو ان کے جنازہ میں شریک نہ ہونا چاہیے گویا غمی خوشی کسی موقع پر بھی ان کے ساتھ نہ رہنا چاہیے اور نہ ان کے ساتھ کسی قسم کا معاشرتی میل جول رکھنا جائز ہے۔ چنانچہ وہ حضرات جو اس جماعت کو کافروں کے زمرہ میں داخل کرتے ہیں اس حدیث کو اپنے ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں یعنی مسلمانوں کو ان کے ساتھ میل جول رکھنے سے منع کرتے ہیں۔ اور جو حضرات ان کو کافر نہیں بلکہ فاسق فرماتے ہیں وہ اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس حدیث کا مقصد اس جماعت کی گمراہی و ضلالت کو بیان کرنا اور ان کی زجر و ملامت میں شدت کا اظہار کرنا ہے۔ لیکن حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی فرماتے ہیں کہ محققین کا قول یہی ہے کہ نہ تو ان کی عیادت میں جائے اور نہ ان کے جنازہ میں شریک ہوا اور جہاں تک ہو سکے ان سے قطع تعلق رکھے۔

【104】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

حضرت عمر فاروق (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ قدریہ کی ہم نشینی اختیار نہ کرو اور نہ ان کو اپنا حکم (ثالث) بناؤ۔ (ابوداؤد) تشریح قدریہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ان سے مجالست کرنا اور ان کی ہم نشینی اختیار کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اس لئے کہ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ان کی مجلسوں میں شریک ہونے سے یہ ظاہر ہوگا کہ ان سے محبت و موانست ہے اور یہ مسلمانوں کے لئے مناسب نہیں ہے کہ کسی گمراہ جماعت سے تعلق قائم کریں اور ان سے انس و محبت کا برتاؤ کریں۔ اس لئے کہ جب ان کے ساتھ رہنا سہنا ہوگا اور ان کی ہم نشینی اختیار کی جائے گی تو ان کے غلط نظریات اور گمراہ اعتقادات کا اثر ان پاس بیٹھنے والوں پر بھی ہوگا اور ان کی گمراہی اہل مجلس کی اعتقاد و اعمال پر بھی اثر انداز ہوگی۔ اور ہوسکتا ہے کوئی شیطانی مکر و فریب میں آکر ان کے اعتقادات کو تسلیم کرے، اس لئے بنیادی طور پر ان کی مجالست و موانست سے بھی منع فرما دیا گیا ہے۔ اسی طرح حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کسی تنازعہ میں اہل قدر کو حاکم نہ بنائیں اور نہ ان کو اپنا ثالث مقرر کریں لاتفاتحوھم کے معنی بعض حضرات یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو نہ پہلے سلام کرو اور نہ از خود ان سے بات چیت شروع کرو۔ واللہ اعلم۔

【105】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ چھ آدمی ایسے ہیں جن پر میں لعنت بھیجتا ہوں اور اللہ نے بھی ان کو ملعون قرار دیا ہے اور ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے۔ (پہلا) کتاب اللہ میں زیادتی کرنے والا (دوسرا) تقدیر الہٰی کو جھٹلانے والا۔ (تیسرا) وہ آدمی جو زبردستی غلبہ پانے کی بنا پر ایسے آدمی کو معزز بنائے جس کو اللہ نے ذلیل کر رکھا ہو اور اس آدمی کو ذلیل کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے عزت و عظمت کی دولت سے نواز رکھا ہو۔ (چوتھا) وہ آدمی جو (حدود اللہ سے تجاوز کر کے اس چیز کو حلال جانے جسے اللہ نے حرام کیا ہو۔ (پانچواں) وہ جو میری اوالاد سے وہ چیز (قتل) حلال جانے جو اللہ نے حرام کی ہے۔ اور (چھٹا) وہ آدمی جو میری سنت کو چھوڑ دے۔ (بیہقی، رزین) تشریح حدیث میں جن اشخاص کا ذکر کیا گیا ہے وہ اپنے ان غلط عقائد اور گمراہ کن اعمال کی بنا پر شریعت کی نظر میں اتنے مجرم ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ان پر لعنت فرمائی ہے اور نہ صرف یہ کہ دربار رسالت سے ان پر پھٹکار برسائی گئی ہے بلکہ وہ بارگاہ الوہیت سے بھی راندہ درگاہ کردیئے گئے۔ چناچہ کسی آدمی نے آپ ﷺ سے سوال کیا ہوگا کہ آپ ﷺ ان لوگوں پر لعنت کیوں بھیجتے ہیں ؟ تو اس پر آپ ﷺ نے یہ جواب دیا کہ چونکہ خدواند قدوس نے ان کو اپنے اعمال کی بنا پر ملعون قرار دیا ہے اس لئے یہ اسی کے مستحق ہیں کہ رسول بھی ان کو ملعون قرار دے اور ظاہر ہے نبی کی لسان مقدس سے نکلی ہوئی ہر دعا اور ہر بدعا باب قبولیت تک پہنچ کر رہتی ہے اس لئے جس پر سرکار دو عالم ﷺ لعنت بھیجیں اس کی دنیا بھی برباد ہوگئی اور دین میں تباہ ہوجائے گا اسی طرف کل نبی یجاب کہہ کر اشارہ فرمایا گیا ہے۔ ویسے تو اس حدیث میں جس ترکیب کے اعتبار سے یہ جملہ معترضہ واقع ہو رہا ہے اور اس کے مقصدلعنت میں شدت ہے۔ پہلا آدمی جسے ملعون قرار دیا جارہا ہے وہ قرآن میں زیادتی کرنے والا ہے، خواہ وہ قرآن میں الفاط کی زیادتی کرے یا قرآن کی آیتوں کے ایسے معنی بیان کرے جو کتاب اللہ کے مفہوم کے خلاف اور منشاء الہٰی کے برعکس ہوں۔ تیسرا آدمی وہ ہے جو زبردستی غلبہ حاصل کرے اور اپنی ظاہری شان و شوکت کے بل بوتہ پر ان لوگوں کو معزز کرے جو اللہ کی نظروں میں ذلیل ہیں اور ان لوگوں کو ذلیل کرے جو اللہ کے یہاں بڑا مرتبہ رکھتے ہیں اور اس تیسرے آدمی سے مراد ایسے بادشاہ اور ظالم حاکم ہیں جو اپنے اغراض و مقاصد کی بنا پر حکومت و دولت کے نشہ میں اللہ کے ان صالح و نیک بندوں اور مسلمانوں کو ذلیل خوار کرتے ہیں جو اللہ کے نزدیک بڑی عزت و عظمت کے مالک ہوتے ہیں اور ایسے کافروں، جاہلوں اور بدکار لوگوں کو عزیز رکھتے ہیں جو اللہ کی نظر میں سخت ذلیل ہوتے ہیں۔ چوتھا آدمی وہ ہے جو اللہ کی قائم کی ہوئی حدود سے تجاوز کرتا ہے یعنی ان چیزوں کو حلال سمجھتا ہے جو اللہ کی جانب سے حرام کردی گئی ہیں مثلاً بیت اللہ مکہ میں جن باتوں کو اللہ نے ممنوع قرار دیا ہے جیسے کسی جانور کا شکار کرنا، درخت وغیرہ کاٹنا، یا بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا، ان کو وہ حلال سمجھتا ہو، ایسے ہی سرکار دو عالم ﷺ کی اولاد کے بارے میں جن چیزوں کو اللہ نے حرام کیا ہے ان کو حرام کرتا ہو یعنی رسول اللہ صلی اللہ عنہ کی اولاد کی عزت و تعظیم کرنا ضروری ہے لیکن کوئی آدمی نہ کرنے کو جائز سمجھے یا ان کو تکلیف پہنچانا حرام قرار دیا گیا ہے ان کو تکلیف پہنچانا حلال جانے تو اس پر بھی لعنت فرمائی گئی۔ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی میری اولاد میں سے ہونے کے باو جو ان افعال کو حلال جان کر کرتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے اس طرح اس کا مقصد سیدوں کو تنبیہ کرنا ہے کہ یہ لوگ سرکار دو عالم ﷺ کی اولاد میں ہونے کے ناطے گناہ و معصیت سے بچتے رہیں، اس لئے کہ دوسری قوموں کے مقابلہ میں اس قوم کو گناہ و معصیت زیادہ برائی و تباہی کا باعث ہیں کیونکہ ان کا نسبی تعلق براہ راست رسول اللہ ﷺ سے ہے۔ اسی طرح پانچواں ملعون وہ آدمی قرار دیا گیا ہے جو ان چیزوں کو حرام سمجھتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہو۔ چھٹا ملعون آدمی کو قرار دیا گیا ہے جو سنت نبوی کو ترک کرتا ہو۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ جو آدمی سستی اور کسل کی بنا پر سنت کو ترک کرتا ہو وہ گناہ گار ہے اور جو آدمی سنت کو نعوذ باللہ ناقابل اعتناء سمجھ کر چھوڑتا ہو تو وہ کافر ہے لیکن اس لعنت میں دونوں شریک ہیں۔ مگر یہ کہا جائے گا کہ جو آدمی ازراہ کسل و سستی سنت چھوڑتا ہے اس پر لعنت کرنا زجر و توبیخ کے لئے ہے اور جو آدمی ناقابل اعتناء سمجھ کر سنت کو ترک کرتا ہے اس پر حقیقۃ لعنت ہوگی ہاں اگر کوئی آدمی کسی وجہ سے کسی وقت سنت کو ترک کر دے تو اس پر گناہ نہیں ہوگا لیکن یہ بھی مناسب نہیں ہے۔ حضرت شاہ محمد اسحق دہلوی فرماتے ہیں کہ یہ وعید سنت موکدہ کے ترک کرنے پر ہے۔

【106】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت مطر بن عکامس ( مطر ابن عکامس السلمی کا شمار کو فیوں میں ہوتا ہے ان سے صرف یہی ایک حدیث منقول ہے، ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے) ۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی آدمی کی موت کو کسی زمین پر مقدر کردیتا ہے تو اس زمین کی طرف اس کی حاجت کو بھی پورا کردیتا ہے تاکہ وہاں جانے پر مجبور ہو اور وہاں جا کر موت کا شکا ہو۔ (مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی )

【107】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ سے عرض کیا، یا رسول اللہ (جنت و دوزخ کے سلسلہ میں) مسلمان بچوں کا کیا حکم ہے آپ ﷺ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے تابع ہیں یعنی وہ اپنے باپوں کے ساتھ جنت میں ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ بغیر کسی عمل کے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ وہ بچے جو کچھ کرنے والے تھے، میں نے پھر پوچھا اچھا مشرکوں کی اولاد کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ بھی اپنے باپوں کے تابع ہیں۔ میں نے (تعجب سے) پوچھا، بغیر کسی عمل کے ؟ آپ نے فرمایا اللہ ہی بہتر جانتا ہے وہ بچے جو کچھ کرنے والے تھے۔ (ابوداؤد) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا منشاء ان مومنین اور مشرک بچوں کے بارے میں معلوم کرنا تھا جو حالت کمسنی میں اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے اور جن سے کوئی عمل خیر یا عمل بد صادر نہیں ہوا تھا۔ سرکار دو عالم ﷺ کے جواب کے بعد حضرت عائشہ کو تعجب ہوا کہ مسلمان بچے بغیر کسی عمل کے بہشت میں کس طرح داخل ہوجائیں گے تو اس پر رسول اللہ ﷺ نے واللہ اعلم بما کانواعاملین (یعنی اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے) کہہ کر قضا و قدر کی طرف اشارہ فرما دیا کہ وہ جو کچھ عمل کرنے والے تھے وہ نوشتہ تقدیر میں محفوظ ہوچکا ہے، گو اس وقت بالفعل ان سے عمل سرزد نہیں ہوئے ہیں لیکن جو کچھ عمل وہ زندگی کی حالت میں کرتے وہ اللہ کے علم میں ہوں گے اس لئے ان کے جنتی ہونے پر تعجب نہ کرو۔ مشرک بچوں کے بارے میں علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ یہاں سرکار دو عالم ﷺ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنے باپوں کے تابع ہیں، آخرت کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور وہی جانتا ہے کہ وہاں ان کے ساتھ کیسا برتاؤ ہوگا اس لئے ان کے بارے میں کوئی حکم یقین کے ساتھ نہیں لگایا جاسکتا۔

【108】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ زندہ بچہ کو گاڑنے والی (عورت) اور وہ جس کو گاڑا گیا دونوں دوزخ میں ہیں۔ (سنن ابوداؤد) تشریح زمانہ جاہلیت میں زندہ بچوں کو دفن کردینے کا درد ناک طریقہ جاری تھا، خصوصاً لڑکی کو تو پیدا ہوتے ہی منوں مٹی کے نیچے اندوہ ناک طریقہ پر دبا دیا جاتا تھا جب اسلام کی مقدس روشنی نے ظلم و جہل کی تمام تاریکیوں کو دور کیا تو یہ غیر انسانی طریقہ بھی ختم کردیا گیا، اس کے بارے میں یہ حدیث وعید ہے اور زندہ بچوں کو دفن کردینے والوں کو دوزخی قرار دے رہی ہے۔ گاڑنے والی سے مراد وہ عورت ہے جس نے بچہ کو زمین میں دفن کیا مثلاً دائی یا نو کر انی وغیرہ اور موؤدہ، جس کو گاڑا گیا، سے مراد وہ عورت ہے جس نے اسے جنا ہے یعنی اس بچہ کی ماں جس کے حکم سے اس کو زمین میں دفن کیا گیا ہو۔ یا اس سے مراد وہی بچی ہے جس کو گاڑ دیا گیا ہے کہ جس طرح اس کے والدین دوزخی ہیں اسی طرح جب وہ بھی کمسنی کی حالت میں اس دنیا سے ختم کردی گئی تو اپنے باپ کی طرح دوزخی ہوئی جیسا کہ اس سے پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ حالت کمسنی میں جو بچہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے وہ اپنے باپ کے تابع ہوتا ہے۔

【109】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابودرداء ( آپ کا نام عویمر ہے لیکن اس میں بہت اختلاف ہے۔ بعض نے کہا ہے اصل نام عامر بن مالک ہے اور عویمر لقب ہے لیکن یہ اپنی کنیت ابودرداء سے مشہور ہیں۔ حضرت عثمان کی شہادت سے دو سال قبل دمشق میں آپ کی وفات ہوئی ہے) ۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر ایک بندے کے متعلق پانچ باتوں سے (تقدیر لکھ کر) فارغ ہوگیا۔ (١) اس کی موت (کہ کب آئے گی) (٢) اس کے (نیک و بد) اعمال۔ (٣) اس کے رہنے کی جگہ۔ (٤) اس کی واپسی کی جگہ۔ (٥) اس کا رزق۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح ہر انسان کی پیدائش سے بھی بہت پہلے ازل ہی میں اس کے مقدر میں پانچ چیزیں لکھ دی گئی ہیں جن میں اب نہ کمی بیشی ہوسکتی ہے اور نہ ہی کوئی تغیر و تبدل ممکن ہے چناچہ ہر انسان کی تقدیر میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اس کی عمر کتنی ہے اور موت کب آئے گی اب جو وقت اور جو لمحہ موت کا لکھ دیا ہے اس میں ایک سیکنڈ اور ایک پل بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی، اسی طرح انسان کے نیک و بد اعمال بھی اس کی پیدائش سے پہلے ہی نوشتہ تقدیر ہوچکے ہوتے ہیں، کہ اس سے اعمال کیسے صادر ہوں گے، جتنے نیک اعمال لکھ دئیے گئے ہیں وہ یقینا صادر ہوں گے اور جتنے بد اعمال لکھ دیئے گئے ہیں وہ بھی اپنے وقت پر وقوع پذیر ہوں گے۔ ہر انسان کے قیام کی جگہ اور اس کے حرکات و سکنات کا مقام بھی پہلے سے متعین ہوچکا ہوتا ہے کہ کس زمین اور کس خطہ میں اس کا وجود و قیام ہوگا اور کس روئے زمین پر اس کی زندگی کے اعمال و افعال صادر ہوں گے، انسان کا رزق بھی اس کی نوشتہ تقدیر کے مطابق ہی حصہ میں آتا ہے جس کے مقدر میں جتنا اور جس قسم کا رزق لکھ دیا گیا ہے وہ ضرور اس تک پہنچے گا اگر تھوڑا ہی رزق لکھا ہے تو کم ہی ملے گا اور زیادہ لکھ دیا گیا ہے تو زیادہ ملے گا اسی طرح کسی کے مقدر میں حلال رزق لکھا گیا ہے تو وہ حلال رزق ہی کھائے گا اور اگر حرام رزق لکھ دیا گیا ہے تو وہ حرام رزق کھائے گا۔ یا رزق سے مراد یہ ہے کہ بندہ کو اس کی زندگی میں جو کچھ منافع و آسانیاں اور راحت و آرام سے پہنچنے والے ہیں سب اس کی تقدیر میں پہلے ہی لکھ دیئے گئے ہیں۔

【110】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے سرکار دوعالم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص تقدیر کے مسئلے میں بحث و مباحثہ کرے گا قیامت میں اس سے باز پرس ہوگی اور جو (شخص اس پر ایمان لا کر) خاموشی اختیار کرے گا وہ اس مواخذہ سے بچ جائے گا۔ تشریح اس حدیث کا مقصد تقدیر کے مسئلہ میں غور و فکر اور تحقیق و تجسس سے منع کرنا ہے کہ اللہ کے اس راز میں جو بندوں پر ظاہر نہ کرنا ہی مصلحت الٰہی ہے زیادہ بحث و مباحثہ کرنا یا اپنی عقل کی پیروی کرنا آخرت کے لئے کوئی کار آمد نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ میں کسی قسم کا غور و فکر یا تحقیق و تجسس خسران آخرت اور قیامت میں باز پرس کا باعث ہے اس لئے فلاح وسعادت اسی میں ہے کہ تقدیر پر ایمان لایا جائے اور خاموشی اختیار کر کے عمل میں مصروف رہے۔

【111】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابن دیلمی (رح) (تابعی) ( حضرت ابن دیلمی (رح) تابعی ہیں اسم گرامی ضحاک بن فیروز دیلمی ہے آپ کا شمار یمن کے تابعین میں ہوتا ہے) ۔ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابی کعب (صحابی) (حضرت ابی بن کعب انصاری و خزرجی ہیں کنیت ابوالمنذر ہے جو سرکار دو عالم ﷺ نے رکھی تھی آپ کی وفات حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہوئی) ۔ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہات پیدا ہو رہے ہیں (کہ جب تمام چیزیں نوشتہ تقدیر کے مطابق ہیں تو پھر یہ ثواب یا عذاب کیسا ؟ ) اس لئے آپ کوئی حدیث بیان کیجئے تاکہ (اس کی وجہ سے) شاید اللہ تعالیٰ میرے دل کو اس شبہ (کی گندگی) سے پاک کر دے۔ (یہ سن کر) انہوں نے فرمایا۔ اگر اللہ تعالیٰ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب میں مبتلا کرے تو وہ ان پر کسی طرح کا ظلم کرنے والا نہیں ہے (یعنی وہ اہل زمین اور اہل آسمان کو کتنا ہی عذاب دے اسے ظالم نہیں کہا جائے گا) اور اگر وہ ان کو اپنی رحمت سے نواز دے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے یقینا بہتر ہوگی اور اگر تم اللہ کی راہ میں احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو تمہارا یہ عمل خیر اللہ کے نزدیک اس وقت تک قبول نہیں ہوگا جب تک کہ تم تقدیر پر کامل اعتقاد و ایمان نہ رکھو اور یہ سمجھ لو کہ جو کچھ تم کو پہنچا ہے وہ (رکنے) اور خطا کرنے والا نہ تھا اور جو چیز رک گئی اور تمہیں نہیں پہنچی تو (سمجھو کہ) وہ تمہارے مقدر میں نہیں تھی اور اگر تم اس حالت میں مرجاؤ کہ اس کے خلاف عقیدہ ہو (یعنی تقدیر پر کامل ایمان نہ ہو) تو یقینا دوزخ میں جاؤ گے، ابن دیلمی فرماتے ہیں کہ ابی بن کعب کا یہ بیان سن کر میں عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہوں نے بھی یہی بیان کیا پھر حذیفہ بن یمان کے پاس گیا تو انہوں نے بھی یہی کہا اور پھر میں زید بن ثابت کے پاس پہنچا انہوں نے اس قسم کی حدیث کو رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح حدیث کے الفاظ اَنَّ مَا اَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ الخ کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو کچھ حاصل ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ اسے میں نے اپنی سعی و کوشش سے حاصل کیا ہے اور اگر کوئی چیز تمہیں نہ ملے تو یہ مت کہو کہ اگر یہ کوشش اور جدوجہد کرتا تو ضرور اسے حاصل کرلیتا اس لئے کہ جو کچھ تم تک پہنچا ہے اس میں تمہاری سعی و کوشش کو دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ نوشتہ تقدیر کے مطابق پہنچتا ہے اور جو چیز تمہیں نہیں ملی وہ چونکہ ہمارے تمہارے مقدر میں نہیں تھی اس لئے وہ تمہاری کوشش سے بھی نہیں ملتی اس لئے یہ جان لینا چاہیے کہ کسی چیز کا حاصل ہونا اور نہ ملنا سب تقدیر الہٰی کے مطابق ہے۔

【112】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت نافع (رض) ( حضرت نافع کا شمار جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے ١١٠ ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے) ۔ کی روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ فلاں آدمی نے آپ کو سلام کہا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے فرمایا۔ مجھے معلوم ہے کہ اس آدمی نے دین میں (کوئی) نئی بات نکالی ہے اگر واقعی اس نے دین میں (کوئی) نئی بات پیدا کی ہے۔ تو میری طرف سے (جواب میں) اسے سلام نہ پہنچاؤ، اس لئے کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں سے یا یہ فرمایا کہ اس امت میں سے (اللہ کے درد ناک عذاب زمین میں دھنس جانا اور صورت کا مسخ ہوجانا یا سنگساری اہل قدر) (یعنی تقدیر کا انکار کرنے والوں) پر ہوگا۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح و غریب ہے۔ تشریح آنے والے نے حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) تک جس آدمی کا سلام پہنچایا تھا اس کے بارے میں حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کو معلوم ہوا ہوگا کہ اس نے اپنی طرف سے دین میں نئی باتیں پیدا کی ہیں یعنی وہ تقدیر کا انکار کرتا ہے۔ لہٰذا حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ اس کے سلام کے جواب میں میرا سلام اس تک نہ پہنچانا کیونکہ ہمیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم ایسے لوگوں سے سلام کلام نہ کریں اور نہ ان سے تعلقات قائم کریں جو بدعتی ہوں اور خدا، اللہ کے رسول کے قائم کی ہوئی حدود سے تجاوز کرتے ہوں۔ چنانچہ علماء اسی حدیث کی بنا پر اس بات کا حکم لگاتے ہیں کہ فاسق و فاجر و اہل بدعت کے سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے بلکہ سنت بھی نہیں ہے اور چونکہ ان کے ساتھ یہ معاملہ ان کی تنبیہ کے لئے ہے اس لئے ان سے ترک ملاقات بھی جائز ہے

【113】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ حضرت خدیجہ ( ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری خدیجہ بنت خویلد قریشیہ اور اسدیہ سرکار دو عالم ﷺ کی سب سے پہلی زوجہ مطہرہ ہیں حضرت خدیجہ کا سب سے بڑا امتیازی شرف یہ ہے کہ آپ تمام مردوں اور عورتوں میں سب سے پہلے اسلام لائیں ہیں۔ آپ کا انتقال ہجرت سے تین سال پہلے مکہ مکرمہ رمضان کے مہینہ میں ٦٥ سال کی عمر میں ہوا) ۔ آپ نے سرکار دو عالم ﷺ سے اپنے دونوں بچوں کے بارے میں پوچھا جو زمانہ جاہلیت میں (اسلام سے پہلے) فوت ہو گے تھے (کہ وہ جنتی ہیں یا دوزخی) سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ وہ دونوں (بچے) دوزخ میں ہیں، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ کے چہرہ کا رنگ (اپنے بچوں کے بارے میں سن کر) بد لا ہوا (یعنی ان کو رنجیدہ) دیکھا تو فرمایا اگر تم ان (بچوں) کے ٹھکانے اور ان کا حال دیکھو کہ وہ کس طرح اللہ کی رحمت سے دور ہیں تو تم کو ان (بچوں) سے نفرت ہوجائے، پھر حضرت خدیجہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! اچھا میری وہ اولاد جو آپ ﷺ سے پیدا ہوئی ہے (قاسم اور عبدا اللہ) آپ نے فرمایا وہ جنت میں ہیں، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا کہ مومنین اور ان کی اولاد جنت میں ہیں اور مشرکین کی اولاد دوزخ میں ہیں، اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّ تُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَ قْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ ) (52 ۔ الطور 21) ترجمہ جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ان کی اطاعت کی (تو) ہم ان کی اولاد کو (جنت میں) انہیں کے ساتھ رکھیں گے۔ (مسند احمد بن حنبل)

【114】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا (تو ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا (یعنی فرشتہ کو ہاتھ پھیرنے کا حکم دیا) چناچہ اس کی پشت سے وہ تمام جانیں نکل پڑیں جن کو آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں اللہ تعالیٰ قیامت تک پیدا کرنے والا تھا اور ان میں سے ہر ایک آدمی کی دونوں آنکھوں کے درمیان نور کی چمک رکھی، پھر ان سب کو آدم (علیہ السلام) کے رو برو کھڑا کیا ( ان سب کو دیکھ کر) آدم (علیہ السلام) نے پوچھا، پروردگار ! یہ کون ہیں ؟ پروردگار نے فرمایا یہ سب تمہاری اولاد ہیں۔ آدم (علیہ السلام) نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا جس کی آنکھوں کے درمیان غیر معمولی چمک ان کو بہت بھلی لگ رہی تھی، پوچھا پروردگار ! یہ کون ہے ؟ فرمایا یہ داؤد (علیہ السلام) ہیں۔ آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا، میرے پروردگار ! تو نے ان کی عمر کتنی مقرر کی ہے ؟ فرمایا ساٹھ برس حضرت آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا، میرے پروردگار ! اس کی عمر میں میری عمر سے چالیس سال زیادہ کر دے راوی فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم نے فرمایا جب حضرت آدم کی عمر میں چالیس سال باقی رہ گئے تو موت کا فرشتہ ان کے پاس آیا، حضرت آدم نے اس سے کہا، کیا ابھی میری عمر میں چالیس سال باقی نہیں ہیں ؟ ملک الموت نے کہا، کیا آپ ﷺ نے اپنی عمر میں سے چالیس سال اپنے بیٹے داؤد کو نہیں دیئے تھے ؟ چناچہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اس سے انکار کیا اور ان کی اولاد بھی انکار کرتی ہے اور آدم (علیہ السلام) (اپنے عہد کو) بھول گئے اور انہوں نے شجر ممنوعہ کو کھالیا اور ان کی اولاد بھی بھولتی ہے اور حضرت آدم (علیہ السلام) نے خطاء کی تھی اور ان کی اولاد بھی خطاء کرتی ہے۔ (جامع ترمذی )

【115】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابودرداء راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ جس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا تو ان کے داہنے مونڈھے پر ہاتھ (دست قدرت) مارا یا (مارنے کا حکم دیا) اور اس سے سفید اولاد نکالی جیسے کہ وہ چیونٹیاں تھیں، پھر بائیں مونڈھے پر ہاتھ مارا اور اس سے سیاہ اولاد نکالی جیسے کہ وہ کوئلہ تھے، پھر اللہ نے دائیں طرف والی اولاد کے بارے میں فرمایا کہ جنتی ہیں اور مجھ کو اس کی پرواہ نہیں ہے اور ان (آدم) کے بائیں مونڈھے والی اولاد کے بارے میں فرمایا کہ یہ دوزخی ہیں اور مجھ کو اس کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

【116】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابونضرہ (حضرت ابونضرہ بن منذر بن مالک العبدی کا شمار بصرہ کے جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے آپ کا انتقال حضرت حسن بصری (رح) سے کچھ دنوں پہلے ہوا ہے) ۔ راوی کہتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک آدمی جن کا نام عبداللہ تھا، ان کے پاس ان کے دوست ان کی عیادت کے لئے گئے (تو انہوں نے دیکھا) کہ وہ (ابوعبدا اللہ) رو رہے تھے۔ انہوں نے کہا، کہ آپ کو کس چیز نے رونے پر مجبور کیا (کیونکہ) آپ سے سرکار دو عالم ﷺ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا تھا کہ تم اپنے لب (مونچھوں) کے بال پست کرو اور اسی پر قائم رہو یہاں تک کہ تم مجھ سے (جنت میں) ملاقات کرو۔ ابوعبداللہ نے کہا، ہاں ! لیکن میں نے سرکار دو عالم ﷺ کو یہ (بھی) فرماتے سنا ہے کہ اللہ بزرگ و برتر نے اپنے داہنے ہاتھ کی مٹھی میں ایک جماعت لی اور فرمایا کہ یہ (داہنے ہاتھ کی جماعت) جنت کے لئے ہے اور بائیں ہاتھ کی جماعت دوزخ کے لئے ہے اور مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے، یہ کہہ کر ابوعبداللہ نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ میں کس مٹھی میں ہوں (یعنی داہنی مٹھی ہوں یا باہنی مٹھی میں ہوں) ۔ (مسند احمد بن حنبل) فائدہ حضرت ابوعبداللہ صحابی بیمار ہوئے ان کے کچھ دوست و احباب مزاج پرسی کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں، ان لوگوں نے یہ کیفت دیکھ کر کہا کہ آپ کو تو سرکار دو عالم ﷺ کی صحابیت کا شرف حاصل ہے اور پھر مزید یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ تم اپنی مونچھوں کو پست ہلکی کراتے رہنا اور اسی پر قائم رہنا یہاں تک کہ حوض کوثر پر یا جنت میں مجھ سے تم ملاقات کرو تو گویا آپ کو جنت میں سرکار دو عالم ﷺ سے ملاقات کی خوشخبری دی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ جنت میں داخل ہونا اور اس عظیم سعادت سے بہرہ ور ہونا بغیر اسلام کے ہو نہیں سکتا، تو معلوم ہوا کہ آپ کا خاتمہ بالخیر ہوا اور آپ ایمان و اسلام کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کریں گے، لہٰذا پھر رونا کیوں ؟ اور یہ فکر و غم کیسا ؟ اس کو جواب مرد حق آگاہ نے یہ دیا کہ صحیح اور بجا ہے اور اس خوشخبری کی صداقت کا اعتقاد بھی لیکن پروردگار عالم بےنیاز ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کی مرضی میں کسی کا دخل نہیں ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا ہے کہ میں جس کو چاہوں جنت کی سعادت سے نوازدوں اور جس کو چاہوں دوزخ کے حوالہ کر دوں اور مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ تو مجھے بھی یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ نامعلوم میرا کیا حشر ہو ؟ اور دل اس خوف سے لرزاں اور آنکھیں ڈر سے اشک بار ہیں کہ نہ جانے اللہ نے میرے مقدر میں کیا لکھ رکھا ہے۔ یہ ان کے جواب کا حاصل تھا، لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخرت کے تصور اور خوف اللہ کے غلبہ سے اس خوشخبری کو بھول گئے ہوں اور انہیں اس کا احساس نہ رہا ہو کہ لسان نبوت نے مجھے اس خوشخبری جیسی عظیم سعادت سے بھی نواز رکھا ہے۔ علامہ طیبی علیہ الرحمۃ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مونچھیں ہلکی کرانا سنت موکدہ ہے اور اس عمل پر قائم رہنا اور ہمیشہ اس کو کرتے رہنا جنت میں دخول اور وہاں سرکار دو عالم ﷺ کے زیر سایہ ہونے کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اس ایک سنت کو ترک کرنے سے یعنی مونچھیں پست و ہلکی نہ کرانے سے ایسی عظیم سعادت اور اتنی بڑی فلاح ہاتھ سے جاتی ہے چہ جائیکہ سنت کو ہمیشہ ترک کرتا رہے، اس لئے کہ ترک سنت پر اصرار، الحادو زندقہ تک پہنچاتا ہے۔ (نعوذ با اللہ ) ۔

【117】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عباس راوی ہیں کہ سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے میدان عرفہ کے قریب مقام نعمان میں آدم کی اس اولاد سے جو ان کی پشت سے نکلی تھی عہد لیا چناچہ آدم کی پشت سے ان کی ساری اولاد کو نکالا جن کو (ازل سے ابد) تک پیدا کرنا تھا اور ان سب کو چیونیٹوں کی طرح آدم کے سامنے پھیلا دیا پھر اللہ نے ان سے روبرو گفتگو کی، فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ آدم کی اولاد نے کہا، بیشک آپ ہمارے رب ہیں پھر اللہ نے فرمایا یہ شہادت میں نے تم سے اس لئے لی ہے کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہنے لگو کہ ہم اس سے غافل و ناواقف تھے یا تم یہ نہ کہہ دو کہ ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے شرک کیا تھا اور ہم ان کی اولاد تھے ہم نے ان کی اطاعت کی تھی، کیا تو باطل پرستوں کے اعمال کے سبب ہلاک کرتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ تم قیامت میں یہ دلیل نہیں دے سکتے کہ چونکہ ہمارے باپ دادا نے شرک کیا تھا اس لئے ہم بھی انہیں کے ساتھ رہے، یا ہم تو اپنے باپ دادا کے پیروکار اور ان کے تابع ہیں انہوں نے جو راستہ اختیار کیا ہوا تھا ہم بھی اسی پر چل رہے تھے لہٰذا اس کفر و شرک کے اصل ذمہ دار ہمارے باپ دادا ہیں جنہوں نے ہمیں اس راستہ پر ڈالا اس اعتبار سے مورد الزام وہ ٹھہر سکتے ہیں، ہم ان کی وجہ سے عذاب و دوزخ کے مستحق نہیں ہوسکتے اس لئے کہ عذاب کے حقیقی مستحق تو وہی لوگ ہیں جو اس راہ کے پیش رو تھے۔ پس اے شرک و کفر کرنے والو ! جان لو کہ قیامت کے دن یہ حجت تمہارے لئے کار آمد نہیں ہو سکے گی کیونکہ اسی لئے ہم نے تم سے اپنی توحید کا اقرار پہلے ہی کر الیا ہے اور تم اس پر شہادت دے چکے ہو، نیز اسی عہد و اقرار کی توثیق اور اس کی یاد دہانی کے لئے ہر دور میں دنیا کے تمام حصوں اور تمام طبقوں میں انبیاء (علیہم السلام) تشریف لائے تاکہ وہ بنی نوع انسان کو اس کا اپنا عہدہ اقرار یاد دلائیں اور ان کو صحیح راستہ پر لگائیں۔

【118】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابی بن کعب اس آیت (وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِيْ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ ) 7 ۔ الاعراف 172) (جب تمہارے پروردگار نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد نکالی) ۔ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ نے (اولاد آدم کو) جمع کیا اور ان کو طرح طرح کا قرار دیا (یعنی کسی کو مالدار کسی کو غریب کرنے کا ارادہ کیا پھر ان کو شکل و صورت عطا کی اور پھر گویائی بخشی اور انہوں نے باتیں کیں پھر ان سے عہد و پیمان کیا اور پھر ان کو اپنے اوپر گواہ قرار دے کر پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ اولاد آدم نے کہا، بیشک ! (آپ ہمارے رب ہیں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں سات آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو تمہارے سامنے گواہ بناتا ہوں اور تمہارے باپ آدم کو بھی شاہد قرار دیتا ہوں اس لئے کہ قیامت کے دن کہیں تم یہ نہ کہنے لگو کہ ہم اس سے ناواقف تھے (اس وقت) تم اچھی طرح جان لو کہ نہ تو میرے سوا کوئی معبود ہے اور نہ میرے سوا کوئی پروردگار ہے، (اور خبردار) کسی کو میرا شریک قرار نہ دینا، میں تمہارے پاس عنقریب اپنے رسول بھیجوں گا، جو تمہیں میرا عہد و پیماں یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں نازل کروں گا (یہ سن کر) اولاد آدم نے کہا، ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ تو ہمارا رب ہے اور تو ہی ہمارا معبود ہے، تیرے سوا نہ تو ہمارا کوئی پروردگار ہے اور نہ تیرے علاوہ ہمارا کوئی معبود ہے، چناچہ آدم کی ساری اولاد نے اس کا اقرار کیا اور حضرت آدم کو ان کے اوپر بلند کردیا گیا وہ (اپنی نگاہیں بلند کئے ہوئے) اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ آدم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کی اولاد امیر بھی ہیں اور فقیر بھی اور خوبصورت بھی ہیں اور بد صورت بھی (یہ دیکھ کر انہوں نے عرض کیا، پروردگار اپنے تمام بندوں کو تو نے یکساں کیوں نہیں بنایا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں اسے پسند کرتا ہوں کہ میرے بندے میرا شکر ادا کرتے ہیں پھر آدم نے انبیاء کو دیکھا جو چراغ کی مانند روشن تھے اور نور ان کے اوپر جلوہ گر تھا ان سے خصوصیت کے ساتھ رسالت و نبوت کے لئے عہدو پیماں لئے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے آیت (واذاخذ من النبین میثاقہم ومنک ومن نوح و ابراہیم وموسی و عیسی بن مریم) (قرآن حکیم) ترجمہ اور جب ہم نے پیغمبروں سے ان کا عہد و پیمان لیا اور آپ محمد ﷺ سے اور نوح اور ابراہیم سے اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے (بھی) عہد و پیمان لیا، ان روحوں کے درمیان حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی تھے چناچہ ان کی روح کو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعہ حضرت مریم (علیہا السلام) کے پاس بھیج دیا۔ حضرت ابی بیان کرتے ہیں کہ یہ روح حضرت مریم (علیہا السلام) کے منہ کی طرف سے ان کے جسم میں داخل ہوگئی۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح حضرت آدم (علیہ السلام) نے جب ان ارواح میں فرق دیکھا کہ انہیں کی اولاد میں سے کوئی تو سرمایہ دار اور صاحب دولت ہے اور کوئی غریب و مفلس تو انہیں حیرت ہوئی اور انہوں نے بارگاہ الوہیت میں عرض کیا کہ الہ العلمین ! سب میری اوالاد میں سے ہیں اور یہ سبھی تیرے بندے ہیں پھر ان میں یہ فرق کیوں ؟ کوئی صاحب حیثیت ہے او کوئی لاچار، کسی کو عزت و دولت دے رکھی ہے اور کسی کو غربت و مفلسی !۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان میں فرق پیدا کرنے کی ایک حکمت ہے اور اس میں ایک مصلحت ہے اور وہ یہ کہ اگر میں سب کو یکساں پیدا کردیتا تو یہ شکر ادا نہ کرتے اور جب ایک انسان میں وہ صفات و خصائل پیدا کردیئے جائیں گے جو دوسرے انسانوں میں نہیں ہوں گے تو وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر شکر ادا کیا کریں گے مثلاً تنگدست اور مفلس میں تقوی، اطاعت الٰہی کا مادہ، سکون قلب و دماغ اور دنیا سے بےفکری ہوتی ہے، جو کسی غنی اور مالدار میں نہیں ہوتی اسی طرح غنی و مالدار کو دولت کی فراوانی اور اسباب معیشت کی آسانیاں حاصل ہوتی ہیں جو غریب و محتاج کو میسر نہیں۔ لہٰذا ! جس کے اندر جو خصائل ہوں گے اور وہ ان کی لذت سے نا آشنا ہوگا، دوسرے کے اندر اس کا فقدان دیکھ کر اس نعمت پر شکر گزار ہوگا جس کی بناء پر اللہ کی رحمت کا مستحق قرار دیا جائے گا۔

【119】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ابودرداء فرماتے ہیں کہ ہم سرکار دو عالم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے آئندہ وقوع پذیر ہونے والی باتوں پر گفتگو کر رہے تھے رسول اللہ ﷺ نے (ہماری باتوں کو سن کر) فرمایا۔ جب تم سنو کہ کوئی پہاڑ اپنی جگہ سے سرک گیا ہے تو اسے سچ مان لو لیکن جب تم یہ سنو کہ کسی آدمی کی خلقت بدل گئی ہے تو اس کا عتبار نہ کرو اس لئے کہ انسان اسی چیز کی طرف جاتا ہے جس پر وہ پیدا کیا گیا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح صحابہ آپس میں بیٹھے ہوئے یہ بحث کر رہے تھے کہ جو چیز آئندہ ہونے والی یا جو باتیں وقوع پذیر ہونے والی ہیں، کیا وہ نوشتہ تقدیر کے مطابق ہوتی ہیں یا از خود بغیر قضاء قدر کے واقع ہوتی ہیں، سرکار دو عالم ﷺ بھی اس مجلس میں تشریف فرما تھے آپ ﷺ نے ان کی بحث سن کر فرمایا کہ ہر چیز نوشتہ تقدیر کے مطابق بر وقت وقوع پذیر ہوتی ہے اور مثال کے طور پر فرمایا کہ ایک انسان اپنی جس جبلت اور خلقت پر پیدا ہوتا ہے اسی پر ہمیشہ قائم رہتا ہے اور اسی کی طرف اس کا حقیقی میلان رہتا ہے۔ مثلا جس کو اللہ نے عقلمند و دانا پیدا کیا اور اس کی سرشت و فطرت میں عقل و دانش کا مادہ و دیعت فرمایا اور اس کی تقدیر میں فہم و فراست کے جوہر رکھ دیئے گئے تو وہ کبھی بیوقوف احمق نہیں ہوسکتا، اسی طرح جس آدمی کی جبلت و حماقت کے سانچے میں ڈھلی ہو اور جس کو فطرتا بیو قوف وپلید پیدا کیا گیا ہو وہ عقل مند و دانشور نہیں ہوسکتا۔ ہاں ایسے افراد جو اپنی ریاضت و مشقت اور ذاتی محنت و کوشش کی بنا پر عقل کی دولت حاصل کرلیتے ہیں یا اصحاب عقل و دانش کی صحبت اختیار کر کے ان اوصاف کے حامل ہوجاتے ہیں وہ اس سے مستثنیٰ ہیں، اس لئے کہ یہاں بحث جبلت اور خلقت کی ہے کہ جس انسان کو جس خصلت و فطرت پر پیدا کردیا گیا وہ اس سے الگ نہیں رہ سکتا اور نہ اس جبلت و خصلت میں تغیر و تبدل ممکن ہے۔ رہا اپنی ذاتی محنت و کوشش یا اصحاب عقل و فہم کی صحبت، تو یہ ایک دوسری چیز ہے کیونکہ یہ بھی نوشتہ تقدیر کے مطابق ہی ہے یعنی جس آدمی کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے کہ یہ اپنی محنت و کوشش یا کسی عقل مند و دانشور کی صحبت و قربت کی بنا پر صاحب عقل بنے گا وہ یقینا اس وصف کو حاصل کرلے گا لیکن جس کی تقدیر میں بیوقوف رہنا ہی لکھ دیا گیا ہے یا جس کی جبلت میں حماقت رکھ دی گئی ہے اس میں نہ اپنی محنت و کوشش کام کرتی ہے اور نہ کسی عقل مند کی قربت و صحبت۔

【120】

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت ام سلمہ (ام المومنین ام سلمہ (رض) قریشیہ اور مخزومیہ ہیں سرکار دو عالم ﷺ کی زوجہ مطھرہ ہیں ٥٩ ھ میں آپ کا انتقال ہوا اور جنت البقیع میں دفن کی گئیں) ۔ سے مروی ہے کہ انہوں نے سرکار دو عالم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ نے جو زہر آلود بکری کھائی تھی ( جو خیبر میں ایک یہودیہ نے کھلائی تھی) ہر سال اس کی وجہ سے آپ ﷺ کو تکلیف ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا جو چیز (یعنی اذیت و تکلیف یا بیماری) مجھ کو پہنچتی ہے وہ میرے لئے اسی وقت لکھی گئی تھی جب کہ آدم مٹی کے اندر تھے (یعنی میری تقدیر میں یوں ہی لکھا تھا) ۔ (ابن ماجہ)

【121】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

عذاب قبر قرآن و احادیث سے ثابت ہے اس میں کوئی شبہ اور کلام نہیں، یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ یہاں قبر سے مراد محض ڈیڑھ دو گز کا گڑھا نہیں ہے بلکہ قبر کا مطلب عالم برزخ ہے جو آخرت اور دنیا کے درمیان ایک عالم ہے اور یہ عالم ہر جگہ ہوسکتا ہے جیسے بعض لوگ ڈوب جاتے ہیں، جلا دیئے جاتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو ان پر بھی عذاب مسلط کیا جاتا ہے یہ نہیں ہے کہ جن لوگوں کو زمین میں دفن کیا جاتا ہے صرف ان پر ہی عذاب ہوتا ہے اور جو لوگ دوسرے طریقے اختیار کرتے ہیں وہ عذاب سے بچ جاتے ہیں۔ عذاب قبر کی تصدیق کے درجات میں صحیح اور اولی مرتبہ اس بات کا اعتقاد و یقین رکھنا ضروری ہے کہ قبر میں دفن کرنے کے بعد اللہ کے نیک بندوں پر اللہ تعالیٰ کی بیشمار رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور جو لوگ بدکار و گناہ گار ہوتے ہیں ان پر اللہ کا سخت عذاب نازل کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں منکر نکیر، عذاب دینے والے فرشتے اور سانپ و بچھو جو بد کر دار و لوگوں پر مسلط کئے جاتے ہیں اور جن کا وجود احادیث سے ثابت ہے۔ یہ سب صحیح اور واقعی چیزیں ہیں ان پر ایمان لانا ضروری ہے۔ یہ جان لینا چاہئے کہ کسی چیز کو دیکھ لینا اور اس کا مشاہدہ میں آجانا ہی اس کی صداقت کی دلیل نہیں ہوتا، اس لئے ان چیزوں کے بارے میں یہ بات دل میں جاگزیں کرلینا کہ جب ان چیزوں کو آنکھ سے دیکھا نہیں جاتا اور یہ مشاہدہ میں نہیں آتیں تو ان کا اعتبار کیسے کیا جائے ؟ بالکل غلط اور خلاف عقل ہے، اس لئے کہ اتنی بات تو ظاہر ہے کہ عالم بالا کی چیزوں کا مشاہدہ کرلینا، عالم ملکوت کو بچشم دیکھ لینا ان ظاہری آنکھوں کے بس کی بات نہیں ہے، ان کو مشاہدہ کرنے کے لئے چشم حقیقت کی ضرورت ہے ہاں یہ بات بھی ناممکن نہیں ہے کہ اگر اللہ چاہے تو ان دونوں ظاہری آنکھوں سے بھی عالم ملکوت کو دکھلا سکتا ہے۔ پھر دوسرے یہ کہ اسی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ہم بظاہر دیکھ نہیں پاتے اور نہ آنکھیں ان کا مشاہدہ کرتی ہیں، لیکن اس کے باوجود اس کا ادراک بھی ہوتا ہے اور اس کی حقیقت بھی تسلیم ہوتی ہے مثلاً ایک آدمی عالم خواب میں دنیا بھر کی چیزیں دیکھ اور سن لیتا ہے، ہر طرح کے غم و مصیبت اور لذت و آرام محسوس کرتا ہے لیکن دوسرا اسے نہیں دیکھ سکتا، یا اسی طرح کسی آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا اسے لذت حاصل ہوتی ہے یا وہ کسی غم و چین کا احساس کرتا ہے لیکن اس کے پاس ہی بیٹھا ہوا ایک دوسرا آدمی اس سے بیخبر رہتا ہے اور وہ اس کا ادراک و احساس نہیں کرسکتا۔ نیز زمانہ نبوت میں سرکار دو عالم ﷺ کے پاس وحی آتی تھی اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے تھے لیکن وہیں مجلس میں بیٹھے ہوئے صحابہ نہیں دیکھتے تھے اور نہ ان کی ظاہری آنکھیں حضرت جبرائیل کا مشاہدہ کرتی تھیں، لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام ان پر ایمان لاتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح عذاب قبر کا معاملہ ہے، وہاں جو کچھ بندے کے ساتھ ہوتا ہے اس دنیا میں اس کا ادراک کیا جاسکتا ہے اور نہ ان آنکھوں سے اسے دیکھا جاسکتا ہے، بس یہ ایمان لانا ضروری ہے کہ عذاب قبر کے بارے میں اللہ اور اللہ کے رسول نے جو کچھ بتایا ہے وہ سب مبنی برحقیقت اور یقینی چیزیں ہیں۔

【122】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

حضرت براء بن عازب ( اسم گرامی براء بن عازب اور کنیت ابوعمارہ ہے مدینہ کے باشندہ اور انصاری ہیں جنگ بدر میں آپ شریک نہیں ہوسکے تھے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے صغر سنی کی وجہ سے روک دیا تھا سب سے پہلے غزوہ احد میں شریک ہوئے ہیں) ۔ راوی ہیں کہ سرکار کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا جس وقت قبر میں مسلمان سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلا شبہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور یہی مطلب ہے اس ارشاد بانی کا یُثَبِّتُ ا ُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فَی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وِفِیْ الْاٰخِرَۃِ (القرآن) ترجمہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ثابت و قائم رکھتا ہے جو ایمان لاتے ہیں مضبوط و محکم طریقہ پر ثابت رکھنا دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ آیت (يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ ) 14 ۔ ابراہیم 27) عذاب قبر کے بیان میں نازل ہوئی ہے (چنانچہ قبر میں مردہ سے) سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی محمد ﷺ ہیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح آیت مذکورہ میں بالقول الثابت سے مراد کلمہ شہادتے ہے یعنی جب مومن سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا پروردگار کون ہے اور تیرا پیغمبر کون ہے اور تیرا دین کیا تو ان تینوں سوالوں کا جواب اسی کلمہ شہادت میں ہے۔ آیت کے دوسرے جز کا مطلب یہ ہے جو لوگ ایمان و یقینی کی روشنی سے اپنے قلوب کو منور کرلیتے ہیں اور جن کے دل میں ایمان و اسلام کی حقانیت راسخ اور پختہ ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دونوں جگہ ان پر رحمت الٰہی کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ دنیاوی زندگی کا اس کا فضل تو یہ ہے کہ وہ اپنے ان نیک بندوں کو کلمہ اسلام کی حقانیت کے اعتقاد پر قائم رکھتا ہے اور ان کے دل میں ایمان و اسلام کی وہ روح اور طاقت بھر دیتا ہے کہ دنیاوی امتحان و آزامائش کے سخت سے سخت موقع پر بھی ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آتی وہ اپنی جانوں کو قربان کردینا اور آگ میں ڈالے جانا پسند کرتے ہیں لیکن اپنے ایمان و اعتقاد میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ اخروی زندگی میں اس کی رحمت اس طرح ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی بیشمار نعمتوں سے نوازے جاتے ہیں اور عالم برزخ میں جب قبر کے اندر ان سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ ٹھیک ٹھیک جواب دیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کی نجات اور اکرام الٰہی کے مستحق قرار دے دیئے جاتے ہیں۔

【123】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

اور حضرت انس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب بندہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے اعزا و احباب واپس آتے ہیں تو وہ (مردہ) ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے اور اس کے پاس (قبر میں) دو فرشتے آتے ہیں اور ان کو بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ تم اس آدمی محمد ﷺ کے بارہ کیا کہتے تھے ؟ اس کے جواب میں بندہ مومن کہتا ہے، میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ محمد ﷺ بلاشبہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر اس بندہ سے کہا جاتا ہے کہ تم اپنا ٹھکانا دوزخ میں دیکھو جس کو اللہ نے بدل دیا ہے اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں جگہ دی گئی ہے۔ چناچہ وہ مردہ دونوں مقامات (جنت و دوزخ) کو دیکھتا ہے۔ اور جو مردہ منافق یا کافر ہوتا ہے اس سے بھی یہی سوال کیا جاتا ہے کہ اس آدمی (یعنی محمد ﷺ کے بارے میں تو کیا کہتا تھا ؟ وہ اس کے جواب میں کہتا کہ میں کچھ نہیں جانتا، جو لوگ (مومن) کہتے تھے وہی میں بھی کہہ دیتا تھا اس سے کہا جاتا ہے نہ تو نے عقل سے پہچانا اور نہ تو نے قرآن شریف پڑھا ؟ یہ کہہ کر اس کو لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے کہ اس کے چیخنے اور چلانے کی آواز سوائے جنوں اور انسانوں کے قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم الفاظ صحیح البخاری کے ہیں) تشریح جب انسان اس دنیا کی عارضی زندگی ختم کر کے دوسری دنیا میں پہنچتا ہے تو اس کی سب سے پہلی منزل قبر ہوتی ہے، جسے عالم برزخ بھی کہا جاتا ہے، مردہ کو قبر میں اتارنے کے بعد جب اس کے عزیز و اقا رب واپس لوٹتے ہیں تو اس میں اللہ کی جانب سے وہ قوت سماعت دے دی جاتی ہے جس کے ذریعہ وہ ان لوٹنے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا رہتا ہے اس کے بعد منکر نکیر قبر میں آتے ہیں اور اس سے دوسرے سوالات کے علاوہ سرکار دو عالم ﷺ کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ ان کے متعلق تمہارا اعتقاد کیا ہے، اگر مرد مومن صادق ہوتا ہے تو وہ صحیح جواب دے دیتا ہے اور اگر وہ کافر ہے تو جواب نہیں دے پاتا بعد میں نتیجہ سنا دیا جاتا ہے کہ صحیح جواب دینے والا اللہ کی رحمت اور اس کی نعمتوں کا مستحق قرار دے دیا گیا ہے چناچہ اس کی آخری منزل جنت کی طرف اس کی راہنمائی کردی جاتی ہے، غلط جواب دینے والا اللہ کے غضب کا مستحق قرار دے دیا جاتا ہے اور اسے اس کی آخری منزل دوزخ کی راہ دکھا دی جاتی ہے۔ حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ مردہ سے پوچھتے ہیں کہ تم اس آدمی محمد ﷺ کے بارے میں کیا کہتے تھے تو اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آنحضور ﷺ کی شہرت کی وجہ سے آپ ﷺ کی طرف معنوی اشارہ ہوتا ہے یا پھر یہ اس وقت سرکار دو عالم ﷺ کو مثالی صورت میں مردہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ ایک مومن کے لئے موت کی آرزو سب سے بڑی نعمت ہوگی اس لئے کہ وہ اس کی وجہ سے اس عظیم سعادت سے بہرہ ور ہوگا اور سرکار دو عالم ﷺ کے دیدار سے منور و مشرف ہوگا اور حقیقت تو یہ ہے کہ عاشقان رسول کے بےتاب و بےچین قلوب کے لئے اس کے اندر ایک زبردست بشارت ہے۔ بقول شاعر شب عاشقان بیدل چہ قدر دراز باشد تو بیا کہ اول شب در صبح باز باشد ترجمہ عشاق کی شب ہجر کس قدر طویل ہوتی ہے۔ تو جلدی آ۔ یہ اول شب ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ صبح ہوجائے۔ اس سوال و جواب کے بعد کامیاب مردہ یعنی مسلمانوں کو دونوں جگہیں یعنی جنت و دوزخ دکھلائی جاتی ہیں اور وہ دونوں مقامات دیکھتا ہے تاکہ اسے یہ معلوم ہوجائے کہ اگر اللہ کی رحمت اس کے شامل حال نہ ہوتی اور وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا تو اس دوزخ میں ڈال دیا جاتا جہاں اللہ کے درد ناک عذاب میں مبتلا ہوتا لیکن اس نے دنیا میں چونکہ نیک کام کئے اور سچا مخلص مومن بن کر رہا اس کے نتیجے میں اللہ کے فضل و کرم سے اسے جنت کی نعمت عظمی سے نوازا جا رہا ہے نیز ایک طرف تو وہ دوزخ اور اس کے ہیبت ناک منظر کی طرف دیکھے گا دوسری طرف جنت اور اس کی خوشگوار و مسرور کن فضا کی طرف نظر اٹھائے گا تاکہ اس کے دل میں جنت کی نعمت کی قدر ہو۔ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب قبر میں معذب مردہ پر عذاب نازل کیا جاتا ہے یعنی فرشتے لوہے کے گرزوں سے اس کو مارتے ہیں تو اس کے چیخنے چلانے کی آواز انسان نہیں سن پاتے، اس کی حکمت یہ ہے کہ جن وانس غیب کی چیزوں پر ایمان لانے کے مکلّف ہیں اگر ان کو آواز سنائی دے، یا وہاں کے حالات کا علم اس دنیا میں ہوجائے تو پھر ایمان با لغیب جاتا رہے گا۔ نیز اگر قبر کے حالات کا احساس انسانوں کو ہونے لگے تو خوف و ہیب ناکی کی وجہ سے دنیا کے کاروبار میں ہلچل مچی رہے گی اور سلسلہ معیشت منقطع ہوجائے گی۔ صحیح احادیث میں مومنین کی نجات اور کافروں و منافقین کے عذاب کے بارے میں یہی ذکر کیا جاتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے کہ اس نجات کا تعلق مومنین صالحین سے ہے لیکن فاسق و گناہ گار مومنین کے بارے میں احادیث میں کچھ مذکور نہیں ہے کہ آیا ان پر عذاب کیا جاتا یا ان کی بھی نجات ہوجاتی ہے، البتہ علماء فرماتے ہیں کہ فاسق مومن جواب میں تو مومن صالحین کا شریک ہے لیکن نعمتوں کی خوشخبری، جنت کے دروازے کھلنے وغیرہ میں ان کا شریک نہیں ہے یا اگر ان چیزوں میں بھی ان کا شریک ہو تو پھر مرتبہ و درجہ میں ان سے کم تر ہوگا بلکہ اس پر تھوڑا بہت عذاب بھی ہوسکتا ہے۔ ہاں جس فاسق و گناہ گار کو اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے بخش دے اور اس کی مغفرت کر دے۔

【124】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

اور عبداللہ بن عمر راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو (قبر کے اندر) صبح اور شام اس کا ٹھکانہ اس کے سامنے لایا جاتا ہے اگر وہ جنتی ہوتا ہے تو جنت میں اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ ہے تیرا ٹھکانہ اس کا انتظار کر، یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھے اٹھا کر وہاں بھیجے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

【125】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور اس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا اور پھر اس نے حضرت عائشہ (رض) کہا عائشہ ! اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے ! حضرت عائشہ نے سرکار دو عالم ﷺ سے عذاب قبر کا حال پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں قبر کا عذاب حق ہے ! حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس واقعہ کے بعد میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ نے کوئی نماز پڑھی ہو اور قبر کے عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ کو عذاب قبر کا حال معلوم نہیں ہوگا چناچہ جب اس یہودی عورت نے ان سے اس کا تذکرہ کیا تو وہ بڑی حیران ہوئیں اور سرکار دو عالم ﷺ سے اس کے بارے میں سوال کیا جس کا جواب دیا گیا کہ قبر کا عذاب حق اور یقینی ہے، یعنی اس بات کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ قبر میں گناہ گار لوگوں پر اللہ کی جانب سے طرح طرح کے عذاب مسلط کئے جاتے ہیں اور اس کا احساس و ادراک اس دنیا میں نہیں کیا جاسکتا۔ سرکار دو عالم ﷺ کے پناہ مانگنے کے بارے میں احتمال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ کو بھی پہلے سے قبر کے عذاب کا حال معلوم نہ ہوا ہو، اس کے بعد بذریعہ وحی آپ ﷺ کو اس کا علم ہوا ہو جس کے بعد سے آپ ﷺ نے پناہ مانگنی شروع کردی اور ظاہر ہے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تو قبر میں اس قسم کو کوئی معاملہ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لئے کہا جائے گا کہ آپ ﷺ کا پناہ مانگنا محض امت کی تعلیم کے لئے تھا کہ جب اللہ کا محبوب و برگزیدہ بندہ اور اس کا پیارا رسول بھی عذاب قبر سے پناہ مانگ رہا ہے تو امت کے تمام لوگوں کو چاہئے کہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ عذاب قبر کا حال رسول اللہ ﷺ کو پہلے سے معلوم تھا اور پوشیدہ طور پر اس سے پناہ بھی مانگتے ہوں گے جس کی حضرت عائشہ کو خبر نہیں ہوگی، بعد میں حضرت عائشہ کے سوال کے بعد آپ ﷺ نے کھلے طور پر پناہ مانگنی شروع کردی ہوتا کہ دوسرے بھی متنبہ ہوں اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں۔

【126】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

اور حضرت زید بن ثابت ( زید بن ثابت انصاری خزرجی ہیں آپ کاتب وحی ہیں۔ آپ کی وفات ٤٢ ھ یا ٤٥ میں ہوئی) ۔ راوی ہیں کہ (ایک روز) جب کہ رسول اللہ ﷺ بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھے کہ اچانک خچر بدک گیا اور قریب تھا کہ آپ ﷺ کو گرادے، ناگہاں پانچ چھ قبریں نظر آئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ان قبر والوں کو کوئی جانتا ہے ؟ ایک آدمی نے کہا، میں جانتا ہوں ! آپ ﷺ نے فرمایا۔ یہ کب مرے ہیں ؟ (یعنی حالت کفر میں مرے ہیں یا ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں) اس آدمی نے عرض کیا۔ یہ تو شرک کی حالت میں مرے ہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے (یعنی ان لوگوں پر ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے) اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب قبر (کی اس آواز) کو سنا دے جس کو میں سن رہا ہوں، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا قبر کے عذاب سے خدا کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ عذاب قبر سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ ہم دجال کے فتنہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ (صحیح مسلم) تشریح نبی کا احساس و شعور اور اس کی قوت ادراک دنیا کے تمام لوگوں سے بہت زیادہ قوی ہوتی ہے چونکہ اس کے احساس ظاہری و باطنی میں وہ قدرتی طاقت ہوتی ہے جس کی بناء پر وہ اس دنیا سے بھی آگے عالم غیب کی چیزوں کا ادراک کرلیتا ہے اس لئے اس کی ظاہری آنکھوں کے ساتھ ساتھ باطنی آنکھیں بھی اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ غیب کی ان چیزوں کو بھی دیکھ لیتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اسے دکھانا چاہتا ہے۔ چانچہ سرکار دو عالم ﷺ کہیں سفر میں جا رہے تھے جب آپ ﷺ کا گزر ایک قبرستان پر ہوا تو وہاں آپ کی چشم بصیرت نے ادراک کرلیا کہ قبروں میں مردوں پر عذاب ہو رہا ہے اور پھر آپ ﷺ نے صحابہ کو تلقین کی کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں عذاب قبر کی شدت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اگر تمہاری آنکھیں اس کا مشاہدہ کرلیں اور تمہارے کان اس کو سن لیں تو تم اپنی عقل و دماغ سے ہاتھ دھو بیٹھو اور تم اس کی شدت و سختی کا محض احساس ہی کر کے بےہوش ہوجاؤ گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اس خوف و ہر اس کی وجہ سے مردوں کو دفن کرنا بھی چھوڑ دو گے اگر مجھے اس کا خدشہ نہ ہوتا تو میں یقینا تمہیں اس عذاب کا مشاہدہ بھی کر ا دیتا اور تمہیں سنوا بھی دتیا۔

【127】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

اور حضرت ابوہریرۃ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب مردہ کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کالی کیری آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں جن میں سے ایک کو منکر اور دوسرے نکیر کہتے ہیں وہ دونوں اس مردہ سے پوچھتے ہیں کہ تم اس آدمی یعنی محمد ﷺ کی نسبت کیا کہتے تھے ؟ اگر وہ آدمی مومن ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور اس کے بھیجے ہوئے (رسول) ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بلاشبہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، (یہ سن کر) وہ دونوں فرشتے فرماتے ہیں۔ ہم جانتے تھے کہ تو یقینًا یہی کہے گا، اس کے بعد اس کی قبر کی لمبائی اور چوڑائی میں ستّر ستّر گز کشادہ کردی جاتی ہے اور اس مردہ سے کہا جاتا ہے کہ (سو جاؤ) مردہ کہتا ہے (میں چاہتا ہوں) کہ اپنے اہل و عیال میں واپس چلا جاؤں تاکہ ان کو (اپنے اس حال سے) باخبر کردوں۔ فرشتے اس سے فرماتے ہیں تو اس دولہا کی طرح سوجا جس کو صرف وہی آدمی جگا سکتا ہے جو اس کے نزدیک سب سے محبوب ہو یعنی ہر کسی کا جگانا اچھا نہیں لگتا کیونکہ اس سے وحشت ہوتی ہے البتہ جب محبوب جگاتا ہے تو اچھا لگتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جگہ سے اٹھائے۔ اور اگر وہ مردہ منافق ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ میں نے لوگوں کو جو کچھ کہتے سنا تھا وہی میں کہتا تھا لیکن میں (اس کی حقیقت کو) نہیں جانتا (منافق کا یہ جواب سن کر) فرشتے فرماتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یقینًا تو یہی کہے گا، (اس کے بعد) زمین کو مل جانے کا حکم دیا جاتا ہے، چناچہ زمین اس مردہ کو اس طرح دباتی ہے کہ اس کی دائیں پسلیاں بائیں اور بائیں پسلیاں دائیں نکل آتی ہیں اور اسی طرح ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جگہ سے اٹھائے۔ (جامع ترمذی ) تشریح قبر میں فرشتے ہیبت ناک اور خوفناک شکل میں آتے ہیں تاکہ ان کے خوف اور شکل کی وجہ سے کافروں پر ہیبت طاری ہوجائے اور وہ جواب دینے میں بد حو اس ہوجائیں لیکن یہ مومنوں کے لئے آزمائش و امتحان ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ ان کو ثابت قدم رکھتا ہے اور وہ نڈر ہو کر صحیح جواب دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کامیاب ہوجاتے ہیں اس لئے کہ وہ دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قبر میں ہر قسم کے خوف و ہر اس سے نڈر ہوجاتے ہیں۔ مردہ کے جواب میں فرشتوں کا یہ کہنا کہ ہم جانتے ہیں کہ تو یقینًا یہی کہے گا یا تو اس بناء پر ہوگا کہ پروردگار عالم کی جانب سے ان کو خبر دی جاتی ہوگی کہ فلاں مردہ یہ جواب دے گا اور فلاں مردہ وہ جواب دے گا، یا وہ مردہ کی پیشانی اور اس کے آثار سے یہ معلوم کرلیتے ہیں۔ کہ مومن کی پیشانی پر نور ایمانی کی چمک اور سعادت و نیک بختی کا نشان ہوتا ہے اور کافر و منافق کے چہرہ پر پھٹکار برستی ہے۔ مومن جب صحیح جواب دے دیتا ہے اور اس پر اللہ کی رحمت اور اس کی نعمتوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں تو اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو اس اچھے معاملہ اور عظیم نعمت کی خبر دے دے جیسا کہ جب کوئی مسافر کسی جگہ راحت و سکون پاتا ہے اور وہاں عیش و آرام کے سامان اسے ملتے ہیں تو اس کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ کاش اس وقت میں اپنے اہل و عیال اور اعزا و اقرباء کے پاس جاتا تاکہ انہیں اپنے اس آرام و راحت سے اور چین و سکون سے مطلع کردیتا۔ اس لئے مومن مردہ اپنے اہل و عیال کے پاس واپس جانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔

【128】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

اور حضرت براء بن عازب راوی ہیں رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں، کہ آپ ﷺ نے فرمایا (قبر میں) مردے کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ ہے ! پھر فرشتے پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ جواب میں کہتا ہے، میرا دین اسلام ہے پھر فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں، جو آدمی (اللہ کی طرف سے) تمہارے پاس بھیجا گیا تھا وہ کون ہے ؟ وہ کہتا ہے وہ اللہ کے رسول ہیں پھر فرشتے اس سے پوچھتے ہیں یہ تجھے کس نے بتایا وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ جانا، (یعنی جو کلام اللہ پر ایمان لائے گا وہ رسول اللہ ﷺ پر پہلے ایمان لائے گا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا۔ آیت (يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ ) 14 ۔ ابراہیم 27) (الایۃ) یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ثابت قدم رکھتا ہے جو ثابت بات پر ایمان لائے (اخیر آیت تک) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ آسمان سے پکارنے والا (یعنی اللہ تعالیٰ یا اس کے حکم سے فرشتہ) پکار کر کہتا ہے میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا اس کے لئے جنت کا فرش بچھاؤ اور اس کو جنت کی پوشاک پہناؤ اور اس کے واسطے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو ، چناچہ جنت کی طرف دروزاہ کھول دیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ( جنت کے دروازہ سے) اس کے پاس جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آتی ہیں اور حد نظر تک اس قبر کو کشادہ کردیا جاتا ہے اب رہا کافر ! تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی موت کا ذکر کیا اور اس کے بعد فرمایا کہ پھر اس کی روح اس کے جسم میں ڈالی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھا کر پوچھتے ہیں، تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے، ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا، پھر وہ پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے، ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا پھر وہ پوچھتے ہیں، یہ آدمی کون ہے (جو اللہ کی جانب سے) تم میں بھیجا گیا تھا، وہ کہتا ہے ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا پھر آسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا، یہ جھوٹا ہے اس کے لئے آگ کا فرش بچھاؤ، آگ کا لباس اسے پہناؤ اور اس کے واسطے ایک دروازہ دوزخ کی طرف کھول دو آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ دوزخ سے اس کے پاس گرم ہوائیں اور لوئیں آتی ہیں اور فرمایا اور اس کی قبر اس کے لئے تنگ کردی جاتی ہے، یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی پسلیاں ادھر نکل آتی ہیں، پھر اس پر ایک اندھا اور بہرا فرشتہ مقرر کیا جاتا ہے جس کے پاس لوہے کا ایسا گرز ہوتا ہے کہ اس کو اگر پہاڑ پر مارا جائے تو پیھاڑ مٹی ہوجائے اور وہ فرشتہ اس کو اس گرز سے اس طرح مارتا ہے کہ (اس کے چیخنے چلانے کی آواز مشرق سے مغرب تک تمام مخلوقات سنتی ہے مگر جن و انسان نہیں سنتے اور اس مارنے سے وہ مردہ مٹی ہوجاتا ہے اس کے بعد پھر اس کے اندر روح ڈالی جاتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد) فائدہ ہاہ ہاہ ایک لفظ ہے جو عربی میں دہشت زدہ اور متحیر آدمی بولتا ہے جیسے اردو میں حیرت و دہشت کے وقت آہ، ہائے اور وائے وائے بولا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ اس وقت کافر اتنا خوف زدہ ہوجاتا ہے کہ اس کی زبان سے ہیبت ناکی سے خوف و حسرت کے الفاظ نکلتے ہیں اور وہ صحیح جواب نہیں دے پاتا اور وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا اس کے اس جواب پر ندائے غیب سے اس کو جھوٹا قرار دیا جاتا ہے، اس لئے کہ دین اسلام کی آواز مشرق سے لے کر مغرب تک پہنچی اور پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنا مشن چار دانگ عالم میں پھیلایا اور تمام دنیا اس آفاقی و آسمانی مذہب سے باخبر تھی، اس کے باوجود اس کا یہ کہنا کہ میں کچھ نہیں جانتا یا مجھے کچھ معلوم نہیں ہوا، سراسرکذب اور جھوٹ ہے۔ قبر میں عذاب کے جو فرشتے مقرر کئے جاتے ہیں وہ اندھے اور بہرے ہوتے ہیں، اس کی حکمت یہ ہے کہ وہ نہ تو مردہ کے چیخنے چلانے کی آواز سن سکیں اور نہ اس کے حال کو دیکھ سکیں تاکہ رحم نہ آسکے۔ نیز اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ معذب مردہ کے جسم میں بار بار روح ڈالی جاتی ہے تاکہ اس پر عذاب شدید سے شدید ہو سکے اور یہ اس چیز کا انجام ہے کہ وہ دنیا میں عذاب قبر کا انکار کیا کرتا تھا اور اس کو جھٹلایا کرتا تھا۔ (نعوذ با اللہ ) ۔

【129】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

اور حضرت عثمان (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ جب وہ کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو (خوف اللہ سے) اس قدر روتے کہ ان کی ڈاڑھی (آنسوؤں) سے تر ہوجاتی، ان سے کہا گیا کہ آپ جب جنت اور دوزخ کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور اس جگہ کھڑے ہو کر روتے ہیں (اس کے جواب میں) انہوں نے کہا کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا ہے، آخرت کی منزلوں میں سے قبر پہلی منزل ہے لہٰذا جس نے اس منزل سے نجات پائی اس کو اس کے بعد آسانی ہے اور جس نے اس منزل سے نجات نہیں پائی اس کو اس کے بعد سخت دشواری ہے حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے کبھی کوئی منظر قبر سے زیادہ سخت نہیں دیکھا۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ اور جامع ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث غریب ہے) ۔ فائدہ؛ یعنی قبر پر کھڑے ہو کر انسان عیش و عشرت کو بھول جاتا ہے اور دنیا کی بےثباتی پر اس کا ایمان مضبوط ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خوف اللہ سے اپنے قلب کو لرزاں پاتا ہے اور آخرت سے لگاؤ محسوس کرتا ہے نیز قبر عیش و عشرت سے متنفر کرتی ہے اور محنت و مشقت اور یاد الہٰی میں مصروف رکھتی ہے۔ اسی کو فرمایا گیا ہے سب سے زیادہ سخت جگہ قبر ہے۔

【130】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

اور حضرت عثمان (رض) ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو قبر کے پاس کھڑے ہو کر (لوگوں سے) فرماتے اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اور اس کے ثابت قدم رہنے کی دعا مانگو، یعنی اللہ تعالیٰ اس وقت اس کو ثابت قدم رکھے اس لئے کہ اس وقت اس سے سوال کیا جاتا ہے۔ (ابوداؤد) فائدہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زندوں کی طرف سے مردہ کے لئے دعائے استغفار کارآمد اور مفید ہے چناچہ اہل سنت والجماعت کا یہی مسلک ہے۔ یہ دعا نیز مردہ کی استقامت و اثبات کے لئے دعا، تلقین میت کے علاوہ ہیں جو دفن کرنے کے بعد کرتے ہیں تلقین میت کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ تلقین اکثر حنفیہ کے یہاں ثابت نہیں ہے لیکن اکثر شافعیہ اور حنفیہ کے نزدیک مستحب ہے، چناچہ دفن کرنے کے بعد تلقین میت کے سلسلے میں ایک حدیث ابوامامہ صحابی سے وارد ہوئی ہے جسے علامہ سیوطی نے جمع الجوامع میں طبرانی سے ذکر کیا ہے اور ابن نجار، ابن عساکر اور دیلمی نے بھی ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی انتقال کر جائے اور اسے دفن کر چکو تو ایک آدمی قبر کے سرہانے کھڑا ہو اور کہے اے فلاں ابن فلاں مردہ یہ الفاظ سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا، وہ آدمی پھر کہے اے فلاں ابن فلاں اس مرتبہ مردہ کہتا ہے اللہ آپ رحم کرے، ارشاد فرمائیے، لیکن تم اسے نہیں سنتے۔ اس کے بعد اس آدمی کو کہنا چاہئے، اے فلاں ! اس کلمہ کو یاد کرو جس پر تم اس دنیا سے سدھارے اور وہ لا الہ الا اللہ وان محمدا عبدہ ورسول کی شہادت ہے نیز تم اس پر راضی ہوئے کہ اللہ تمہارا پروردگار ہے محمد ﷺ تمہارے ساتھی پیغمبر ہیں، اسلام تمہارا دین ہے اور قرآن تمہارا راہبر امام ہے جب یہ کہا جاتا ہے تو منکر و نکیر میں سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ چلو اس بندہ کے سامنے باہر نکلو ! اس سے ہمیں کیا سروکار کیونکہ حق تعالیٰ کی جانب سے اس کو تلقین کی جار ہی ہے۔ ایک صحابی نے عرض کیا ! یا رسول اللہ اگر ہم میت کی ماں کا نام نہ جانتے ہوں تو کیا کہیں اور اس کی نسبت کس طرف کریں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حوا کی طرف نسبت کرو اس لئے کہ وہ سب کی ماں ہیں۔ نیز تلقین میت کے سلسلہ میں اس کے علاوہ قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر سورت بقرہ کا مفلحون اور آمن الرسول سے آخر سورت تک پڑھنا بھی منقول ہے اور اگر قرآن شریف پورا پڑھا جائے تو یہ سب سے افضل و بہتر ہے بعض علماء نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر وہاں کسی بھی مسئلہ کا ذکر کیا جائے تو یہ بھی فضیلت کا باعث اور رحمت الٰہی کے نزول کا سبب ہوگا۔

【131】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

اور حضرت ابوسعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کافر کے اوپر اس کی قبر میں ننانوے اژدھا مسلّط کئے جاتے ہیں جو اس کو قیامت تک کاٹتے اور ڈستے ہیں اور وہ اژدھا ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک اژدہا زمین پر پھنکار مارے تو زمین سبزہ اگانے سے محروم ہوجائے، دارمی اور جامع ترمذی سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے لیکن اس میں بجائے ننانوے کے ستّر کا عدد ہے۔

【132】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ (رض) کی وفات کے بعد ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ان کے جنازہ پر گئے، جب رسول اللہ ﷺ جنازہ کی نماز پڑھ چکے اور حضرت سعد (رض) کو قبر میں اتار کر قبر کی مٹی برابر کردی گئی تو سرکار دو عالم ﷺ تسبیح (یعنی سبحان اللہ) پڑھتے رہے پھر آپ ﷺ نے تکبیر (یعنی اللہ اکبر) کہی ہم نے بھی تکبیر کہی، پھر رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ یا رسول ﷺ آپ نے تسبیح کیوں پڑھی اور پھر تکبیر کیوں کہی ؟ فرمایا اس بندہ صالح پر اس کی قبر تنگ ہوگئی تھی پھر اللہ نے ہماری تسبیح و تکبیر کی وجہ سے اسے کشادہ کردیا۔ (مسند احمد بن حنبل) فائدہ تسبیح و تکبیر سے اللہ کا غضب رحمت میں اور اس کا غصہ شفقت میں بدل جاتا ہے اور وہاں مقدس کلموں کی بدولت اپنی رحمت و نعمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ چنانچہ اسی لئے خوف و دہشت کے موقع پر یا کسی خوفناک چیز کو دیکھ کر تکبیر مستحب ہے۔ تسبیح و تکبیر کا جنتا ورد رکھا جائے گا اتنا ہی اللہ کی رحمت سے قریب ہوتا جائے گا اور دنیاوی آفات و بلا نیز غضب الٰہی سے دور ہوتا ہوجائے گا۔

【133】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ (یعنی سعد ابن معاذ (رض) عنه) وہ آدمی ہیں جن کے لئے عرش نے حرکت کی (یعنی ان کی جب پاک روح آسمان پر پہنچی تو اہل عرش نے خوشی و مسرت کا اظہار کیا) اور ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے اور ان کے جنازے پر ستر ہزار فرشتے حاضر ہوئے اور ان کی قبر تنگ کی گئی۔ پھر یہ تنگی دور ہوئی اور رسول اللہ ﷺ کی برکت سے ان کی قبر کشادہ ہوگئی۔

【134】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

اور حضرت اسماء بنت ابی بکر راوی ہیں کہ ایک دن سرکار دو عالم ﷺ خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور قبر کے فتنہ کا ذکر فرمایا جس میں انسانوں کو مبتلا کیا جاتا ہے چناچہ اس ذکر سے مسلمان (خوف زدہ ہو کر روتے) اور چلاتے رہے، یہ روایت صحیح البخاری کی ہے اور سنن نسائی نے اتنا اور زیادہ بیان کیا ہے کہ (خوف و دہشت کی وجہ سے) مسلمانوں کے چیخنے اور چلانے کے سبب میں رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کو نہ سن سکی، جب یہ چیخنا چلانا بند ہوا تو میں نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے پوچها، اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے (یعنی تمہارے علم و حلم میں زیادتی ہو، آخر میں آپ ﷺ نے کیا فرمایا ؟ ) اس آدمی نے کہا آپ ﷺ نے فرمایا مجھ پر یہ وحی آئی ہے کہ تم قبروں کے اندر فتنہ میں ڈالے جاؤ گے یعنی تم کو آزمایا جائے گا اور یہ آزمائش و امتحان فتنہ دجال کے قریب قریب ہوگا۔ فائدہ مطلب یہ ہے کہ جس طرح فتنہ دجال اپنی تباہی و بربادی اور نقصان و خسران کی بناء پر سخت ہلاکت آفریں اور تباہ کن ہوگا، اسی طرح فتنہ قبر بھی ہول و دہشت اور اپنی شدت و سختی کی بنا پر بہت زیادہ خوفناک ہوگا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہئے کہ وہ ایسے سخت و نازک وقت میں اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور اس امتحان و آزمائش میں ثابت قدم رکھے۔

【135】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب مردہ (مومن) کو قبر کے اندر دفن کردیا جاتا ہے تو اس کے سامنے غروب آفتاب کا وقت پیش کیا جاتا ہے، چناچہ وہ مردہ ہاتھوں سے آنکھوں کو ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے اور کہتا ہے مجھے چھوڑ دو تاکہ میں نماز پڑھ لوں۔ (سنن ابن ماجہ) فائدہ با عمل مومن مردہ جس وقت قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو وہ جس طرح دنیا میں ایمان و اسلام پر قائم رہا اور فرائض اسلام کی ادائیگی سے کبھی غافل نہ رہا، اسی طرح قبر میں بھی اسے سب سے پہلے نماز ہی یاد آتی ہے چناچہ جب منکر و نکیر اس کے پاس قبر میں حاضر ہوتے ہیں تو وہ سوال و جواب سے پہلے نماز ادا کرنے کے لئے کہتا ہے کہ پہلے نماز پڑھ لوں اس کے بعد تمہیں جو کچھ کہنا سننا ہو کہو سنو یا سوال و جواب کے بعد وہ یہ الفاظ کہتا ہے اور وہ یہ خیال کرتا ہے کہ میں اپنے گھر والوں کے درمیان بیٹھا ہوں، اس کے شعور و احساس میں سب سے پہلے نماز ہی آتی ہے۔ یہ حالت اس کی رعایت حال پر دلالت کرتی ہے کہ گویا وہ ہنوز دنیا میں ہی ہے اور سو کر ابھی اٹھا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو بندہ دنیا میں پکا نمازی ہوگا اور جس کی نماز کبھی قضا نہیں ہوتی ہوگی، قبر میں بھی حسب عادت اسے پہلے نماز ہی یاد آئے گی۔ دفن کے بعد مردہ کے سامنے غروب آفتاب کا وقت پیش کرنا اس کی حالت مسافر اور تنہائی کی مناسبت کی وجہ سے ہے چناچہ جب کوئی مسافر کسی شہر میں شام کو پہنچتا ہے تو وہ حیرانی و پریشانی کے عالم میں چاروں طرف دیکھتا ہے کہ کہاں جاؤں اور کیا کروں ؟ جیسا کہ شام غریباں مشہور ہے۔ تو زلف راکشا دی و تاریک شد جہاں اکنوں فتاد شام غریباں کجا روند اور نماز شام غریباں چوگریہ آغازم بہائے ہائے غریبانہ گر بہ پردازم

【136】

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

حضرت ابوہریرہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب مردہ قبر کے اندر پہنچتا ہے (یعنی اسے دفن کردیا جاتا ہے) تو (نیک) بندہ قبر کے اندر اس طرح اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے کہ نہ تو وہ لمحہ بھر خوفزدہ ہوتا اور نہ گھبرایا ہوا، پھر اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تم کس دین میں تھے ؟ وہ کہتا ہے میں دین اسلام میں تھا ! پھر اس سے پوچھا جاتا ہے یہ آدمی محمد ﷺ کون ہیں ؟ وہ کہتا ہے محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں جو اللہ کے پاس سے ہمارے لئے کھلی ہوئی دلیلیں لے کر آئے اور ہم نے ان کی تصدیق کی۔ پھر اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا تم نے اللہ کو دیکھا ہے ؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تو کوئی نہیں دیکھ سکتا ! اس کے بعد اس کے لئے ایک روشن دان دوزخ کی طرف کھولا جاتا ہے اور وہ ادھر دیکھتا ہے اور آگ کے شعلوں کو اس طرح بھڑکتا ہوا پاتا ہے گویا اس کی لپیٹیں ایک دوسرے کو کھا رہی ہیں اور اس سے کہا جاتا ہے، اس چیز کو دیکھو جس سے اللہ نے تجھے بچایا ہے، پھر اس کے لئے ایک کھڑکی جنت کی طرف کھول دی جاتی ہے، وہ جنت کی تروتازگی اور اس کی چیزوں کو دیکھتا ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے، یہ تمہارا ٹھکانہ ہے کیونکہ ( تمہارا اعتقاد مضبوط اور اس پر) تمہیں کامل یقین تھا اور اسی (یقین وا عتماد) کی حالت میں تمہاری وفات ہوئی اور اسی حالت میں تمہیں (قیامت کے دن) اٹھایا جائے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ اور بدکار بندہ اپنی قبر میں خوف زدہ اور گھبرایا ہوا اٹھ کر بیٹھتا ہے پس اس سے پوچھا جاتا ہے تو کس دین میں تھا ؟ وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا، پھر اس سے پوچھا جاتا ہے یہ آدمی محمد ﷺ کون تھے وہ کہتا ہے میں لوگوں کو جو کچھ کہتے سنتا تھا وہی میں کہتا تھا، اس کے بعد اس کے لئے بہشت کی طرف ایک روشن دان کھولا جاتا ہے جس سے وہ بہشت کی تروتازگی اور اس کی چیزوں کو دیکھتا ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے، اس چیز کی طرف دیکھ جسے اللہ نے تجھ سے پھر لیا ہے پھر اس کے لئے دوزخ کی طرف ایک کھڑکی کھولی جاتی ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ آگ کے تیز شعلے ایک دوسرے کو کھا رہے ہیں۔ اور اس سے کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانہ ہے اس شک کے سبب جس میں تو مبتلا تھا اور جس پر تو مرا اور اسی پر تو اٹھایا جائے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ (سنن ابن ماجہ)