10. اذان کا بیان

【1】

اذان کا بیان

لغت میں اذان کے معنی خبر دینا ہیں اور اصطلاح شریعت میں چند مخصوص الفاظ کے ساتھ اوقات مخصوصہ میں نماز کا وقت آنے کی خبر دینے کو اذان کہتے ہیں۔ اس تعریف سے وہ اذان خارج ہے جو نماز کے علاوہ دیگر امور کے لئے ہے مسنون کی گئی ہے جیسا کہ بچے کی پیدائش کے بعد اس کے دائیں کان میں اذان کے کلمات اور بائیں کان میں اقامت کے کلمات کہے جاتے ہیں اور اسی طرح اس آدمی کے کان میں اذان کہنا مستحب ہے جو کسی رنج میں مبتلا ہو یا اسے مرگی وغیرہ کا مرض ہو یا وہ غصے کی حالت میں ہو، یا جس کی عادتیں خراب ہوگئی ہوں خواہ وہ انسان ہو یا جانور۔ چناچہ حضرت دیلمی (رح) راوی ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ایک دن سرکار دو عالم ﷺ نے مجھے غمگین دیکھ کر فرمایا کہ اے ابن ابی طالب میں تمہیں غمگین دیکھ رہا ہوں لہٰذا تم اپنے اہل بیت میں سے کسی کو حکم دو کہ وہ تمہارے کان میں اذان کہے جس سے تمہارا غم ختم ہو جاے گا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے تھے کہ میں نے آپ ﷺ ارشاد کے مطابق عمل کیا تو آپ ﷺ کی بات صحیح ثابت ہوئی نیز اس روایت کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک نقل کرنے والے ہر راوی نے کہا ہے کہ ہم نے اس طریقے کو آزمایا تو مجرب ثابت ہوا۔ ایسے ہی حضرت دیلمی (رح) حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کی عادتیں خراب ہوگئی ہوں خواہ وہ انسان ہو یا جانور تو اس کے کان میں اذان کہو ۔ بہر حال۔ فرائض نماز کے لئے اذان کہنا سنت موکدہ ہے تاکہ لوگ نماز کے وقت مسجد میں جمع ہوئیں اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں۔ اذان کی مشروعیت کے سلسلے میں مشہور اور صحیح یہ ہے کہ اذان کی مشروعیت کی ابتداء عبداللہ بن زید انصاری (رض) اور حضرت عمر فاروق (رض) کا خواب ہے جس کی تفصیل آئندہ احادیث میں آئے گی۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اذان کا خواب حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے بھی دیکھا تھا۔ حضرت امام غزالی (رح) فرماتے ہیں کہ دس صحابہ کرام کو خواب میں اذان کے کلمات کی تعلیم دی گئی تھی بلکہ کچھ حضرات نے تو کہا ہے کہ خواب دیکھنے والے چودہ صحابہ کرام ہیں۔ بعض علماء محققین کا قول یہ ہے کہ اذان کی مشروعیت خود رسول اللہ ﷺ کے اجتہاد کے نتیجے میں ہوئی ہے جس کی طرف شب معراج میں ایک فرشتے نے رہنمائی کی تھی چناچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ شب معراج میں جب عرش پر پہنچے اور سدرۃ المنتہیٰ تک جو کبریائی حق جل مجدہ کا محل خاص ہے پہچے تو وہاں سے ایک فرشتہ نکلا آپ ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا کہ یہ فرشتہ کون ہے ؟ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ اس اللہ کی قسم ًجس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے تمام مخلوق سے زیادہ قریب ترین درگاہ عزت سے میں ہوں لیکن میں نے پیدائش سے لے کر آج تک اس وقت کے علاوہ اس فرشتہ کو کبھی نہیں دیکھا ہے چناچہ اس فرشتہ نے کہا اللہ اکبر اللہ اکبر یعنی اللہ بہت بڑا ہے اللہ بہت بڑا ہے۔ پردے کے پیچھے سے آواز آئی کہ میرے بندہ نے سچ کہا انا اکبر انا اکبر (یعنی میں بہت بڑا ہوں میں بہت بڑا ہوں) اس کے بعد اس فرشتے نے اذان کے باقی کلمات ذکر کئے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اذان کے کلمات صحابہ کرام کے خواب سے بھی بہت پہلے شب معراج میں سن چکے تھے۔ چناچہ علماء نے لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں محقق فیصلہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اذان کے کلمات شب معراج میں سن تو لئے تھے لیکن ان کلمات کو نماز کے لئے اذان میں ادا کرنے کا حکم نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ مکہ میں بغیر اذان کے نماز ادا کرتے رہے یہاں تک کہ مدینہ تشریف لائے اور یہاں صحابہ کرام سے مشورہ کیا چناچہ بعض صحابہ کرام نے خواب میں ان کلمات کو سنا اس کے بعد وحی بھی آگئی کہ جو کلمات آسمان پر سنے گئے تھے اب وہ زمین پر اذان کے لئے مسنون کردیئے جائیں۔ وا اللہ اعلم۔

【2】

اذان کا بیان

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے (اذان کی مشروعیت سے پہلے نماز کے وقت کا اعلان کرنے کے سلسلے میں) آگ اور ناقوس کا ذکر کیا۔ بعض لوگوں نے یہود و نصاری کا ذکر کیا (کہ ان کی مشابہت ہوگی) پھر سرور کائنات ﷺ نے حضرت بلال (رض) کو حکم دیا کہ اذان کے کلمات جفت کہیں (یعنی اذان کے شروع میں اللہ اکبر چار مرتبہ کہیں اور باقی کلمات سوائے آخری کلمہ ( لاالہ الا اللہ) کے جو ایک مرتبہ کہا جاتا ہے وہ دو مرتبہ کہیں (اور تکبیر کے کلمات (سوائے اللہ اکبر کے) ایک ایک مرتبہ کہیں) شیخ اسماعیل (رح) (جو اس حدیث کے راوی اور امام بخاری و امام مسلم کے استاذ ہیں) فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کا ذکر ایوب (رح) سے (جو اس حدیث کے راوی ہیں اور جنہوں نے حضرت انس (رض) کو دیکھا ہے) کیا تو انہوں نے فرمایا کہ لفظ قدقامت الصلوۃ دو مرتبہ کہنا چاہئے (یعنی تکبیر کے اول و آخر میں اللہ اکبر کے علاوہ بقیہ کلمات ایک ایک مرتبہ ہیں اور لفظ قد قامت الصلوۃ دو مرتبہ ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے اور یہاں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مسجد بنائی گئی تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا کہ نماز کے وقت اعلان کے لئے کوئی ایسی چیز متعین کی جانی چاہئے جس کے ذریعے تمام لوگوں کو اوقات نماز کی اطلاع ہوجایا کرے تاکہ سب لوگ وقت پر مسجد میں حاضر ہوجائیں اور جماعت سے نماز ہو سکے چناچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ مشورہ دیا کہ نماز کے وقت کسی بلند جگہ پر آگ روشن کردی جایا کرے تاکہ اسے دیکھ کر لوگ مسجد میں جمع ہوجائیں بعض نے رائے دی ناقوس بجانا چاہئے تاکہ اس کی آواز سن کر لوگ مسجد میں حاضر ہوجائیں۔ چند صائب الرائے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے ان تجویزوں کے سلسلے میں عرض کیا کہ آگ تو یہودی اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لئے روشن کرتے ہیں، اسی طرح ناقوس نصاری اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لئے بجاتے ہیں لہٰذا ہمیں یہ دونوں طریقے اختیار نہ کرنے چاہئیں تاکہ یہود و نصاری کی مشابہت لازم نہ آئے، لہٰذا ان کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ سوچنا چاہئے۔ بات معقول تھی اس لئے بغیر کسی فیصلے کے مجلس برخاست ہوئی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اپنے اپنے گھر آگئے۔ ایک مخلص صحابی حضرت عبداللہ ابن زید (رض) نے جب دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اس سلسلے میں بہت فکر مند ہیں اور کوئی بہتر طریقہ سامنے نہیں آتا تو بہت پریشان ہوئے ان کی دلی خواہش تھی کہ یہ مسئلہ کسی طرح جلد از جلد طے ہوجائے تاکہ رسول اللہ ﷺ کا فکر دور ہوجائے چناچہ یہ اسی سوچ و بچار میں گھر آکر سو گئے خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتہ شکل ان کے سامنے کھڑا ہوا اذان کے کلمات کہہ رہا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن زید (رض) فرماتے ہیں کہ اس وقت میں بالکل سویا ہوا نہیں تھا بلکہ غنودگی کے عالم میں تھا اور بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اگر بدگمانی کا خوف نہ ہوتا تو میں کہتا کہ میں اس وقت سویا ہی نہیں تھا۔ اسی بناء پر بعض علماء کرام نے اس واقعہ کو حال اور کشف پر محمول کیا ہے جو ارباب باطن کو حالت بیداری میں ہوتا ہے۔ بہر حال حضرت عبداللہ ابن زید (رض) صبح کو اٹھ کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اپنا خواب بیان کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بلاشبہ یہ خواب سچ ہے اور فرمایا کہ بلال کو اپنے ہمراہ لو، تم انہیں وہ کلمات جو تمہیں خواب میں تعلیم فرمائے گئے ہیں بتاتے رہو وہ انہیں زور سے ادا کریں گے کیونکہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔ چنانچہ جب اس طرح دونوں نے اذان دی اور حضرت بلال (رض) کی آواز شہر میں پہنچی تو حضرت عمر فاروق (رض) دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ابھی جو کلمات ادا کئے گئے ہیں میں نے بھی خواب میں ایسے ہی کلمات سنے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ منقول ہے کہ اسی رات کو دس گیارہ یا چودہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔ ناقوس نصاری کے ہاں عبادت کے وقت کی خبر دینے کے سلسلے میں استعمال ہوتا تھا اور اس کی شکل یہ ہوتی تھی کہ وہ لوگ ایک بڑی لکڑی کو کسی چھوٹی لکڑی پر مارتے تھے اس سے جو آواز پیدا ہوتی تھی وہی عبادت کے وقت کا اعلان ہوتی تھی۔ یہودیوں کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ وہ اپنی عبادت کے وقت سینگ بجایا کرتے تھے چناچہ آگ جلانے کا ذکر صرف حضرت انس (رض) کی اسی حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اور کسی روایت میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کے ہاں دو فرقے ہوں گے ایک فرقہ تو سینگ بجاتا ہوگا اور دوسرا فرقہ آگ جلاتا ہوگا۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اذان کے کلمات (شروع میں اللہ اکبر کے علاوہ) تو جفت ہیں اور اقامت کے کلمات طاق ہیں۔ چناچہ صحابہ کرام وتابعین عظام میں سے اکثر اہل علم اور امام زہری، امام مالک، امام شافعی، امام اوزاعی، امام اسحاق اور امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام اعظم (رح) اور ان کے متبعین کے نزدیک اذان و تکبیر دونوں کے کلمات جفت ہیں ان کی دلیل آگے آئے گی۔

【3】

اذان کا بیان

اور حضرت ابومحذورہ (رض) ( آپ کا اسم گرامی سمرہ بن معبر ہے اور ابومحذورہ کی کنیت سے مشہور ہیں۔ آپ نے ہجرت نہ کی آپ مؤذن تھے اور مکہ ہی میں انتقال کیا ١٢) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے مجھے خود (بغیر واسطے کے) اذان سکھلائی ہے چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کہو ! اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں (یعنی جانتا اور بیان کرتا ہوں) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، پھر فرمایا کہ دوبارہ کہو ! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ آؤ نماز کی طرف آؤ نماز کی طرف، آؤ فلاح کی طرف، آؤ فلاح کی طرف، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح اللہ اکبر کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس چیز سے بہت بلندوبالا ہے کہ کوئی آدمی اس کی کبریائی و عظمت کی حقیقت کو پہچانے۔ یا اللہ تعالیٰ اس حیثیت سے بہت بڑا ہے کہ اس کی ذات پاک کی طرف ان چیزوں کی نسبت کی جائے جو اس کی عظمت و بزرگی کے مناسب نہیں ہیں، یا پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ رب العزت تمام چیزوں سے بہت بڑا ہے۔ اذان و تکبیر میں اللہ اکبر کی حرف را ساکن ہوتی ہے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد اور جمہور علماء رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کے نزدیک یہ کلمہ اذان میں پہلی بار چار مرتبہ کہا جاتا ہے اور حضرت امام مالک (رح) کے نزدیک دو مرتبہ کہا جاتا ہے۔ اس کلمہ کو چار مرتبہ کہنے میں یہ لطیف نکتہ ہے کہ گویا یہ حکم چار دانگ عالم میں جاری و حاوی ہے اور عناصر اربعہ سے مرکب نفس انسانی کی خواہشات کے تزکیہ میں بہت موثر ہے۔ حی علی الفلاح کے معنی یہ ہیں کہ تم ہر مکروہ چیز سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ہر مراد کے ملنے کی طرف آؤ۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ فلاح کے معنی بقا کے ہیں یعنی اس چیز کی طرف دوڑو جو عذاب سے چھٹکارے کا باعث، ثواب ملنے کا سبب اور آخرت میں بقاء کا ذریعہ ہے اور وہ چیز نماز ہے۔ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک اذان میں ترجیع یعنی شہادتین کو دو مرتبہ کہنا سنت ہے۔ ترجیع کی شکل یہ ہوتی ہے کہ پہلے شہادتیں کو دو مرتبہ پست آواز سے کہا جاتا ہے پھر دو مرتبہ بلند آواز سے ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے۔ علمائے حنفیہ فرماتے ہیں کہ یہ تکرار حضرت ابومحذورہ (رض) کی تعلیم کے لئے تھا نہ کہ تشریع کے لئے۔ یعنی پہلی مرتبہ ابومحذورہ (رض) نے جب شہادتین کو پست آواز سے کہا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ان کلمات کو پھر ادا کرو اور بلند آواز سے ادا کرو چناچہ اس سلسلے میں حضرت ابومحذورہ کی جو ایک دوسری روایت منقول ہے اس میں ترجیع نہیں ہے۔ نیز حضرت عبداللہ ابن زید (رض) کی حدیث میں بھی جو اذان کے باب میں اصل کی حیثیت رکھتی ہے ترجیع نہیں ہے۔ اسی طرح حضرت بلال (رض) جو موذنوں کے سردار ہیں، نہ ان کی اذان میں اور نہ ابن ام مکتوم (رض) کی اذان میں جو مسجد نبوی میں اذان کہتے تھے اور نہ ہی حضرت سعد قرط (رض) کی اذان میں جو مسجد قبا کے مؤذن تھے ترجیع منقول ہے۔ پھر یہ کہ اس سلسلے میں حضرت ابی محذورہ (رض) کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ تکرار شہادتین کی تعلیم کے لئے تھا۔

【4】

اذان کا بیان

حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) علنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ کے زمانہ میں اذان کے کلمات دو دو دفعہ اور تکبیر کے کلمات ایک ایک دفعہ (کہے جاتے) تھے البتہ (تکبیر میں) قد قامت الصلوۃ بیشک نماز تیار ہے مؤذن دو مرتبہ کہتا تھا۔ (ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی) تشریح حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے جو یہ فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانے میں اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہے جاتے تھے تو اس سے مراد یہ ہے کہ شروع میں اللہ اکبر چار مرتبہ کہتے تھے اور آخر میں لاالہ الا اللہ ایک مرتبہ کہتے تھے ان دونوں کلمات کے علاوہ باقی کلمات دو دو مرتبہ کہے جاتے تھے۔ اقامت میں جس طرح قد قامت الصلوۃ کا استثناء کیا گیا ہے اسی طرح تکبیر یعنی اللہ اکبر کو بھی مستثنی کرنا مناسب تھا کیونکہ تکبیر بھی بلا اختلاف اول و آخر میں مکرر ہے۔

【5】

اذان کا بیان

اور حضرت ابومحذورہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے انہیں اذان کے انیس کلمات اور تکبیر کے سترہ کلمات سکھلائے تھے۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی، ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی، سنن ابن ماجہ) تشریح حنفی مسلک میں اذان کے پندرہ کلمات ہیں مگر اس حدیث میں انیس ذکر کئے گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انیس کلمات ترجیع سمیت ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک ہے اور حدیث نمبر دو کے فائدے میں بتایا جا چکا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک ترجیع تعلیم پر محمول ہے وہ مشروع نہیں ہے۔ تکبیر کے سترہ کلمات بتائے گئے ہیں بایں طور کہ ترجیع کے چار کلمات الگ کر کے اور دو کلمات قد قامت الصلوٰۃ کے بڑھا کر تکبیر کے کلمات سترہ ہوئے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک بھی یہی ہے لہٰذا یہ حدیث اذان کے بارے میں تو شوافع کے مسلک کی تائید کرتی ہے کہ ان کے ہاں اذان کے کلمات انیس ہوتے ہیں۔ اور تکبیر کے بارے میں حنفیہ کے مسلک کے موافق ہے کہ ان کے یہاں تکبیر کے کلمات سترہ ہوتے ہیں چناچہ تکبیر کے کلمات کی تعیین میں حنفیہ کی جانب سے یہی حدیث بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔ اس سے پہلے والی حدیث میں جس میں حضرت امام شافعی (رح) کے مسلک کے مطابق تکبیر کے کلمات کی تعداد گیارہ ثابت ہوتی ہے اگر صحیح ہے تو اس حدیث سے منسوخ ہے۔

【6】

اذان کا بیان

اور حضرت ابومحذورہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیجئے ! راوی فرماتے ہیں کہ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے ابومحذورہ (رض) کی پیشانی پر ہاتھ پھیرا اور پھر فرمایا کہ کہو اللہ اکبر اللہ اکبر۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ ان کے ساتھ آواز بلند کرو اور پھر کہو، اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھد ان لا الہ الا اللہ۔ اشھد ان محمد الرسول اللہ، اشھد ان محمد الرسول اللہ۔ انہیں آہستہ سے کہہ کر پھر بلند آواز سے شہادت کے کلمات کہو اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھد ان لا الہ الا اللہ۔ اشھد ان محمد الرسول اللہ، اشھد ان محمد الرسول اللہ، حی علی الصلوٰۃ، حی علی الصلوٰۃ، حی علی الفلاح، حی علی الفلاح۔ اگر صبح نماز کے لئے اذان کہنا چاہو تو (اس کے بعد یہ کلمات کہو الصلوٰۃ خیر من النوم، الصلوٰۃ خیر من النوم۔ (یعنی نماز نیند سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہتر ہے، اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ لا الہ الا اللہ۔ (ابوداؤد) تشریح فمسح مقدم راسہ کے معنی یا تو وہی میں جو ترجمہ سے ظاہر ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابومحذورہ (رض) کے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا تاکہ اس کی برکت ابومحذورہ (رض) کے دماغ کو پہنچے اور وہ دین کی باتوں کو یاد رکھ سکیں، چناچہ ایک صحیح نسخہ میں یہ الفاظ اس طرح ہیں، فَمَسَحَ راسی یعنی آپ ﷺ نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا، لہٰذا یہ الفاظ اس معنی کی تائید کرتے ہیں جو ترجمہ میں کئے گئے ہیں۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اتفاقی طور پر اپنا دست مبارک خود اپنے سر اقدس پر پھیرا ہوگا۔ راوی نے پورا واقعہ نقل کرنے کی غرض سے اس کا تذکرہ بھی کردیا۔ بہر حال اس پہلے ترجمہ کی جو توجیہ کی گئی تھی کہ جن احادیث میں اذان میں شہادتین کا تکرار ذکر کیا گیا تو یہ تو تعلیم پر محمول ہے تو وہ توجیہ بظاہر اس حدیث کے منافی ہے لہٰذا اولیٰ یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ اس سلسلے میں ہم نے ان کثیر روایتوں کو ترجیح دی ہے جن میں ترجیع کا ذکر نہیں کیا گیا ہے نیز حضرت ابومحذورہ (رض) کی روایت ہے جس سے ترجیع ثابت ہے وہ پہلے کی ہے اور وہ احادیث جن میں ترجیع مذکور نہیں ہے بعد کی ہیں اس لئے ابومحذورہ (رض) کی روایت ان روایتوں سے منسوخ ہے۔ وا اللہ اعلم۔ الصلوۃ خیر من النوم کا مطلب یہ ہے۔ ارباب ذوق شوق اور عشق الٰہی سے سر شار لوگوں کے نزدیک نماز کی لذت نیند کی لذت سے بدرجہا بہتر ہے۔

【7】

اذان کا بیان

اور حضرت بلال (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ فجر کی نماز کے علاوہ اور کسی نماز میں تثویب نہ کرو۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، ) اور حضرت امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں کہ (اس حدیث کے راوی) ابواسرائیل محدثین کے نزدیک قوی (یعنی قابل اعتبار) نہیں ہیں۔ تشریح تثویب وہ اعلام ہوتا ہے جس سے پہلے کوئی اعلام ہوچکا ہو اور اس کی غرض اور اس سے پہلے کے اعلام کی غرض ایک ہو۔ مثلاً پہلے اعلام سے لوگوں کو نماز کے لئے بلانا مقصود ہو تو اس اعلام سے بھی یہی مقصود ہو۔ تثویب کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ فجر کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کہنا، یہ تثویب اس لئے ہے کہ ایک مرتبہ تو حی علی الصلوۃ کہہ کر لوگوں کو نماز کے لئے بلایا گیا پھر دوبارہ الصلوۃ خیر من النوم سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا۔ یہ تثویب رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں رائج تھی اور مسنون یہی ہے پھر اس کے بعد کوفہ کے علماء نے اذان و تکبیر کے درمیانی وقفے میں حی علی الفلاح کہنا رائج کیا، اس کے بعد ہر فرقہ و طبقہ کے لوگوں نے اپنے اپنے عرف کے مطابق کچھ نہ کچھ طریقہ تثویب کے طور پر رائج کیا مگر یہ تمام تثویبیں فجر کی نماز ہی کے لئے رائج کی گئیں، کیونکہ فجر کا وقت نیند اور غفلت کا وقت ہوتا ہے۔ پھر آخر میں متاخرین علماء نے تمام نمازوں کے لئے تثویب رائج کی اور اسے بنظر استحسان دیکھا حالانکہ متقدمین کے نزدیک یہ مکروہ ہے کیونکہ یہ احداث ہے اور بدعت ہے چناچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی اس کا انکار بایں طور منقول ہے کہ ایک آدمی تثویب کہتا تھا آپ (رض) نے اس کے بارے میں فرمایا کہ اخر جوا ھذا المبتدع من المسجد یعنی اس بدعتی آدمی کو مسجد سے نکال باہر کرو !۔ حضرت عمر فاروق (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک دن جب کہ وہ مسجد میں موجود تھے مؤذن کو غیر فجر میں تثویب کرتے ہوئے سنا تو مسجد سے باہر نکل آئے اور دوسروں سے بھی کہا کہ اس آدمی کے سامنے نہ رہو، باہر نکل آؤ کیونکہ یہ بدعتی ہے۔

【8】

اذان کا بیان

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے حضرت بلال (رض) سے فرمایا کہ جب تم اذان کہو تو ٹھہر ٹھہر کر کہا کرو اور جب تکبیر کہو تو جلدی جلدی کہا کرو اور اذان و تکبیر کے درمیان اتنا وقفہ کیا کرو کہ کھانے والا اپنے کھانے سے، پینے والا پینے سے، قضائے حاجت والا اپنی حاجت سے فارغ ہوجائے اور اس وقت تک نماز کے لئے کھڑے نہ ہو جب تک مجھے (نماز پڑھانے کے لئے آتا ہوا) نہ دیکھ لو۔ اس حدیث کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم اس حدیث کو سوائے عبدالمنعم کے اور کسی سے نہیں جانتے اور اس کی سند مجہول ہے۔ تشریح اذان کو ٹھہر ٹھہر کر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے کلمات کو ایک دوسرے سے جدا جدا کر کے اور خفیف سے سکتہ کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر ادا کرو۔ علامہ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اذان کے کلمات کی ادائیگی میں اتنی ڈھیل کرو کہ کلمات بغیر کھینچے ہوئے تاکہ حد سے تجاوز نہ ہو واضح واضح کہہ سکو۔ اسی وجہ سے موذنوں کے لئے تاکید ہے کہ وہ اذان کے کلمات کی ادائیگی میں احتیاط سے کام لیں اور قواعد کے مطابق اذان کہیں تاکہ غلطیوں کا ارتکاب نہ ہو سکے کیونکہ بعض غلطیاں ایسی ہیں کہ ان کو قصدا کرنے والا کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے جیسے اشھد کے الف کو مد کے ساتھ ادا کرنا کہ یہ استفہام ہوجاتا ہے اور جس کے معنی یہ ہوجاتے ہیں کہ کیا میں گواہی دوں الخ ؟ یا اللہ اکبر میں حرف با کو مد کے ساتھ کھیچ کر (اکبار) پڑھنا کہ یہ لفظ کبر کی جمع ہوجاتی ہے جس کے معنی اس طبلے کے آتے ہیں جس کا ایک منہ ہوتا ہے اور دائرے کی شکل میں ہوتا ہے یا اسی طرح لفظ الہ پر وقف کرنا اور اللہ سے ابتداء کرنا۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب مؤذن تکبیر کے لئے کھڑا ہو تو مجھے مسجد میں آتا ہوا نہ دیکھ لو تو نماز کے لئے کھڑے نہ ہو، کیونکہ امام کی آمد سے پہلے ہی کھڑے ہوجانا خواہ مخواہ کی تکلیف اٹھانا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ غالباً رسول اللہ ﷺ نماز پڑھانے کے لئے اپنے حجرہ مبارک سے اس وقت نکلتے ہوں گے جب کہ مؤذن تکبیر شروع کردیتا ہوگا اور جب مؤذن تکبیر کہتا ہوا حی علی الصلوۃ پر پہنچتا ہوگا تو آپ ﷺ اس وقت محراب میں داخل ہوتے ہوں گے۔ اسی وجہ سے ہمارے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم نے کہا ہے کہ جب مؤذن تکبیر شروع کر دے اور حی علی الصلوۃ پر پہنچتے تو امام اور مقتدیوں کو کھڑے ہوجانا چاہئے اور جب مؤذن قد قامت الصلوہ پر پہنچے تو نماز شروع کر دینی چاہئے۔

【9】

اذان کا بیان

حضرت زیاد بن حارث صدائی (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے مجھے فجر کی نماز کے لئے اذان کہنے کا حکم دیا۔ چناچہ میں نے اذان کہی، پھر حضرت بلال (رض) نے تکبیر کہنی چاہی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صدائی کے بھائی نے اذان کہی تھی اور جو اذان کہے اسی کو تکبیر بھی کہنی چاہئے۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح اخاء صداء یعنی صدائی کے بھائی سے مراد زیاد ابن حارث صدائی ہیں، عرب میں قاعدہ تھا جو آدمی جس قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اسے اس قبیلہ کا بھائی کہا جاتا ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک اس حدیث کے مطابق غیر مؤذن کو تکبیر کہنا مکروہ ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک مکروہ نہیں ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ اکثر و بیشتر حضرت ابن ام مکتوم (رض) اذان کہتے تھے اور حضرت بلال (رض) تکبیر کہتے تھے۔ امام صاحب (رح) کے نزدیک یہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ اگر غیر مؤذن تکبیر کہنا چاہئے تو مؤذن سے اجازت لے لے۔ اگر مؤذن کو کسی دوسرے کی تکبیر کہنا ناگوار ہو تو پھر غیر مؤذن کو تکبیر کہنا مناسب نہیں ہے۔

【10】

اذان کا بیان

حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ مسلمان مدینہ میں آکر جمع ہوگئے تو نماز کے لئے وقت اور اندازہ معین کرنے لگے (کیونکہ) کوئی آدمی نماز کے لئے بلانے والانہ تھا (ایک روز) جب اس مسئلے پر گفتگو ہوئی تو بعض نے کہا کہ نصاری کی طرح ناقوس بنا لیا جائے اور بعض نے کہا کہ یہود کی طرح سینگ بنا لیا جائے (یہ تمام تجاویز سن کر) حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ ایک آدمی کیوں نہ مقرر کردیا جائے جو نماز کے لئے (لوگوں کو) بلا لیا کرے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بلال ( رض) ! کھڑے ہو کر نماز کے لئے منادی دیا کرو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال (رض) کو منادی کرنے کا جو حکم دیا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ جب نماز کا وقت ہوجائے تو کسی بلند جگہ پر کھڑے ہو کر الصلوۃ جامعۃ کہہ دیا کرو۔ یہ آواز سن کر لوگ نماز کے لئے حاضر ہوجایا کریں گے۔ لہٰذا مناوی سے مراد نماز کے لئے محض اعلان کرنا ہے نہ کہ اس سے شرعی مناوی یعنی اذان مراد ہے۔ اس توجیہ سے پہلی احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے کہ پہلے ایک مجلس میں اس طرح اعلان کرنے کی تجویز پاس ہوئی پھر بعد میں جب دوسری مجلس میں اس پر بحث و مباحثہ ہوا تو حضرت عبداللہ ابن زید (رض) نے اذان کا خواب دیکھا اور رسول اللہ ﷺ نے یا تو وحی آجانے کے بعد یا اپنے اجتہاد سے کام لے کر حضرت عبداللہ ابن زید (رض) کے خواب کے مطابق اذان مشروع فرمائی۔

【11】

اذان کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن زید بن عبدربہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب سرور کائنات ﷺ نے ناقوس بنائے جانے کا حکم دیا تاکہ نماز کی جماعت میں لوگوں کے حاضر ہونے کے لئے اسے بجایا جائے تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی اپنے ہاتھ میں ناقوس لئے ہوئے (جاتا) ہے میں نے اس آدمی سے کہا کہ بندہ خدا ! کیا تم یہ ناقوس بیچو گے ؟ اس آدمی نے کہا کہ تم اس کا کیا کرو گے ؟ میں نے کہا کہ ہم اسے بجا کر لوگوں کو نماز ( کی جماعت) کے لئے بلایا کریں گے۔ اس نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتادوں ؟ میں نے کہا کہ ہاں ضرور بتاؤ ! اس آدمی نے کہا کہ کہو اللہ اکبر تک اس نے اذان بتا کر پھر اسی طرح اقامت بھی بتائی، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور جو کچھ خواب میں دیکھا تھا آپ ﷺ سے بیان کیا، آپ ﷺ نے (خواب سن کر) فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ خواب سچا ہے، اب تم بلال (رض) کے ساتھ کھڑے ہو کر جو کچھ خواب میں دیکھا ہے انہیں بتائے جاؤ اور وہ اذان کہیں کیونکہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔ چناچہ میں بلال (رض) کے ساتھ کھڑا ہو کر انہیں سکھلاتا گیا اور وہ اذان دیتے رہے۔ روای فرماتے ہیں کہ، حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے جب اپنے مکان میں اذان کی آواز سنی تو (جلدی کی بنا پر) اپنی چادر کھینچتے ہوئے مکان سے باہر نکلے اور یہ کہتے ہوئے (رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں) حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا ہے ( یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ الحمد اللہ (یعنی سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں) یہ حدیث ابوداؤد، دارمی اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے مگر ابن ماجہ نے تکبیر کا ذکر نہیں کیا اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے لیکن انہوں نے ناقوس کے قصے کی تصریح نہیں کی۔ تشریح حدیث کے پہلے جزء کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ناقوس بجانے کا حکم دے دیا تھا۔ بلکہ یہاں حکم کا مطلب یہ ہے کہ جب اس سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مشورہ کیا اور کوئی مناسب تجویز ذہن میں نہیں آئی تو آپ ﷺ نے ناقوس بجانے کا حکم دینے کا ارادہ فرمایا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ ابن زید کے (رض) کو خواب کے ذریعے اس کی نوبت نہ آنے دی۔ یہ حدیث حنفیہ کے مسلک کی موید ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تکبیر اور اذان کے کلمات میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح اذان کے کلمات کو سوائے شروع میں اللہ اکبر اور آخر میں لا الہ الا اللہ کے دو دو مرتبہ کہا جاتا ہے اسی طرح تکبیر کے کلمات کو بھی دو مرتبہ کہا جاتا ہے البتہ تکبیر میں صرف قد قامت الصلوۃ کا اضافہ ہے جو اذان میں نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ ابن زید (رض) کے خواب کو سن کر رسول اللہ ﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی کہ یہ خواب سچا ہے اب اس تصدیق کا تعلق یا تو وحی سے ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اس خواب کے سچا ہونے کی خبر دے دی تھی اس لئے آپ ﷺ نے بھی اسے حق کہا یا پھر آپ ﷺ نے اجتہاد کی بناء پر اس خواب کو سچا مانا۔ اس موقعہ پر آپ ﷺ کا انشاء اللہ کہنا برکت اور اظہار طمانیت کے طور پر تھا۔ نہ کہ شک کے لئے۔ اذان کی آواز سن کر حضرت عمر فاروق (رض) نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر جو یہ کہا کہ میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا تھا تو ہوسکتا ہے کہ انہوں نے یہ بات اس وقت کہی ہو جب انہیں معلوم ہوگیا ہو کہ یہ اذان حضرت عبداللہ ابن زید (رض) کے خواب کے نتیجے میں کہی گئی ہے یا پھر انہیں اس خواب کا علم مکاشفہ کے ذریعے ہوگیا ہوگا۔ نووی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ مؤذن کا بلند آواز اور خوش گلو ہونا مستحب ہے۔ آخر میں اتنی بات اور جان لیجئے کہ اذان کی مشروعیت ٢ ھ میں ہوئی ہے مگر کچھ علماء کی تحقیق یہ ہے کہ اذان ہجرت کے پہلے سال مشروع ہوئی ہے۔

【12】

اذان کا بیان

اور حضرت ابی بکرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں سرور کائنات ﷺ کے ہمراہ صبح کی نماز کے لئے نکلا، رسول اللہ ﷺ جس آدمی کے پاس سے گزرتے تھے نماز کے لئے یا تو اسے آواز دیتے تھے یا اس کے پاؤں کو حرکت دے دیتے تھے۔ (ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی نماز کے وقت سو رہا ہو تو اس کو نماز کے لئے جگانا جائز ہے خواہ آواز دے کر جگایا جائے خواہ اس کا پاؤں وغیرہ ہلا کر۔

【13】

اذان کا بیان

اور حضرت امام مالک (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ انہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ مؤذن حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس آکر صبح کی نماز کے لئے انہیں خبردار کردیتا تھا چناچہ (ایک دن) مؤذن نے حضرت عمر فاروق (رض) کو سوتا ہوا پایا تو کہا (الصلوۃ خیر من النوم۔ نماز نیند سے بہتر ہے) حضرت عمر فاروق (رض) نے مؤذن کو حکم دیا کہ یہ کلمہ صبح کی اذان میں شامل کیا جائے۔ (موطا) تشریح بظاہر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز فجر کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کے کلمہ کا حضرت عمر (رض) نے اضافہ کیا تھا حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ فجر کی اذان میں یہ کلمہ کہنا تو شروع ہی سے مسنون تھا۔ اب اس حدیث کی توجیہات کی گئی ہیں لیکن زیادہ مناسب اور بہترین توجیہ یہ ہے کہ جب مؤذن نے حضرت عمر فاروق (رض) کو سوتا ہوا دیکھ کر یہ کلمہ کہا تو انہیں ناگوار ہوا اور فرمایا کہ یہ کلمہ صبح کی اذان میں شامل کیا جائے یعنی یہ کلمہ فجر کی اذان ہی میں کہنا سنت ہے اسی موقع پر تمہیں یہ کلمہ کہنا چاہئے اذان کے سوا سوتے ہوئے کو جگانے کے لئے یہ کلمہ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔

【14】

اذان کا بیان

اور حضرت عبدالرحمن بن سعد بن عمار بن سعد مؤذن رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد سعد نے اور انہوں نے اپنے والد عمار سے اور انہوں نے سعد کے دادا سے جن کا نام بھی سعد تھا سنا کہ سرور کائنات ﷺ نے حضرت بلال (رض) کو حکم دیا تھا کہ وہ (اذان کہتے وقت) اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں دے لیا کریں کیونکہ اس سے آواز زیادہ بلند ہوجاتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح حضرت سعد (رض) صحابی ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مسجد قبا میں مؤذن تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات تک یہ اس مسجد میں اذان کہتے رہے۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت بلال (رض) مسجد نبوی میں اذان کہنا چھوڑ کر شام چلے گئے تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے انہیں مسجد قبا سے بلا کر مسجد نبوی میں اذان کہنے کی خدمت پر مامور فرمایا اور یہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اس باسعادت خدمت کو انجام دیتے رہے۔ حضرت سعد (رض) کے صاحبزادے حضرت عمار (رح) تابعی مقبول ہیں اور ان کے بیٹے یعنی حضرت سعد (رض) کے پوتے کا نام بھی سعد ہے اور ان کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن مسطور ہیں اس طرح عمار کے والد حضرت سعد ان کے لڑکے سعد کے دادا ہوئے۔ چنانچہ یہ حدیث حضرت عبدالرحمن نے اپنے دادا حضرت سعد سے نقل کی ہے اور انہوں نے اپنے والد حضرت عمار سے نقل کی ہے جو تابعی ہیں اور انہوں نے اپنے والد مکرم حضرت سعد (رض) سے سنا ہے جو صحابیت کی سعادت سے مشرف ہیں۔ ابیہ اور جدہ دونوں کی ضمیریں لفظ ابی کی طرف راجع ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں اس لئے دی جاتی ہیں تاکہ آواز زیادہ سے زیادہ بلند ہو سکے اور اس میں شاید یہ حکمت ہے کہ کانوں میں انگلیاں رکھ لینے سے بلند آواز ہی مؤذن کے کان میں آئے گی اس لئے وہ اس کی کوشش کرے گا کہ جہاں تک ہو سکے۔ پورے زور سے چلا کر اذان کہے۔

【15】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اذان اللہ تعالیٰ کے اذکار میں ایک بہت بڑے رتبے کا ذکر ہے اس میں توحید اور رسالت کی شہادت اعلان کے ساتھ ہوتی ہے اس سے اسلام کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اذان دینے کی فضیلت اور اس کا ثواب بہت زیادہ ہے چناچہ اس عنوان کے تحت وہ احادیث ذکر کی جائیں گی جن سے معلوم ہوگا کہ اذان دینا درحقیقت برکت وسعادت سے اپنا دامن بھرنا ہے۔ اب اس میں کلام ہے کہ آیا اذان کہنا زیادہ افضل ہے یا امامت کہنا ؟ چناچہ مختار اور معتمد قول یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو یہ یقین ہو کہ وہ امامت کے پورے حقوق بجا لائے گا تو اس کے لئے امامت کرنا افضل ہوگا ورنہ بصورت دیگر اس کے لئے اذان کہنا ہی افضل ہوگا۔ علماء کا اس معاملے میں اختلاف ہے کہ آیا رسول اللہ ﷺ نے بھی اذان کہی ہے یا نہیں ؟ گو ایک حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اذان کہی ہے مگر بعض حضرات نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دے کر اذان کہلائی ہے۔ آپ ﷺ کے اس حکم کو اس طرح تعبیر کیا گیا ہے جیسے کہ محاورے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں بادشاہ نے قلعہ بنایا ہے حالانکہ بادشاہ خود اپنے ہاتھ سے قلعہ نہیں بناتا بلکہ اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس نے حکم دے کر قلعہ بنوایا ہے۔ دار قطنی کی ایک روایت میں اس کی تصریح بھی ہے کہ آپ ﷺ نے اذان کہنے کا حکم کیا تھا (نہ کہ خود اذان دی تھی) وا اللہ اعلم۔ اذان کا جواب دینا واجب ہے اگر کئی آدمی مل کر اذان دیں تو اس شکل میں حرمت اول کے لئے ہوگی یعنی اس کا جواب دینا چاہئے اور اگر کوئی آدمی کئی طرف سے یعنی مختلف محلوں کی مساجد سے اذان سنے تو صرف اپنی مسجد کے مؤذن کا جواب دینا واجب ہوگا اور اگر کوئی آدمی اذان کے وقت مسجد میں بیٹھا ہوا ہو تو اس کے لئے اذان کا جواب واجب نہیں ہے کیونکہ اس شکل میں تو اسے اجابت فعلی حاصل ہی ہے۔ اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے کہ قرآن پڑھنے والا آدمی اذان کا جواب دے یا نہ دے ! چناچہ اس سلسلے میں مختار قول یہ ہے کہ وہ اذان کا جواب نہ دے۔

【16】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے روز لوگوں میں سے زیادہ اونچی گردنوں والے مؤذن ہوں گے۔ تشریح اونچی گردن کے معنی کے تعین میں مختلف اقوال ہیں چناچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ دنیا میں اذان دیتے تھے وہ قیامت کے روز بہت زیادہ ثواب والے اور مرتبے والے ہوں گے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ مؤذن قیامت کے روز سردار ہوں گے۔ کچھ حضرات فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں قیامت کے روز مؤذن بہت زیادہ ثواب کے امیدوار ہوں گے کیونکہ جو آدمی کسی چیز کے حصول کی امید رکھتا ہے وہ گردن اونچی کر کے اس چیز کو دیکھتا ہے، اسی طرح میدان حشر میں جب کہ تمام لوگ حساب و کتاب کی بناء پر رنج و فکر میں ہوں گے۔ مؤذن آرام و راحت کے ساتھ اس بات کے منتظر ہوں گے کہ اب جنت میں داخلے کا حکم کیا جائے گا۔ بعض حضرات نے اس کے معنی یہ بھی بیان کئے ہیں کہ قیامت کے روز موذنوں کو باری تعالیٰ رب العزت کی بارگاہ میں مقام قرب و عزت حاصل ہوگا۔

【17】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز کے لئے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگ کھڑا ہوتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے، جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو پھر آتا ہے اور جس وقت تکبیر ہوتی ہے تو پھر پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے جب تکبیر ختم ہوجاتی ہے تو واپس آجاتا ہے تاکہ انسان اور اس کے دل کے درمیان خطرات پیدا کرے چناچہ (نمازی سے) کہتا ہے کہ فلاں چیز یاد کرو، فلاں بات یاد کرو (اس طرح نماز شروع کرنے سے پہلے مال و اولاد، حساب و کتاب اور خریدو فروخت کے سلسلے میں) جو باتیں نمازی کو یاد نہیں ہوتیں وہ یاد دلاتا ہے، یہاں تک کہ آدمی (یعنی نمازی کو) کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح بعض فرماتے ہیں کہ شیطان کا گوز مارنا حقیقۃ ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی جسم رکھتا ہے اس لئے ایسا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے چناچہ جس طرح گدھے پر جب وزن رکھ دیا جاتا ہے تو وہ بوجھ کی زیادتی کی وجہ سے گوز مارتا ہے اسی طرح شیطان پر بھی اذان بہت بھاری ہوتی ہے اور وہ گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جب اذان شروع ہوتی ہے تو شیطان ایک آواز نکالتا ہے جو کان میں بھر جاتی ہے اور اس سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اذان نہ سن سکے۔ اس آواز کو اس کی برائی و خرابی بیان کرنے کے لئے یہاں گوز مارنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انسان اور اس کے دل کے درمیان خطرات پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شیطان نمازی اور اس کے دل کے درمیان وساوس و خطرات حائل کردیتا ہے اور اس کے دل کو دنیا کی باتوں کی طرف لگا دیتا ہے تاکہ نماز میں حضوری قلب کی دولت میسر نہ آسکے۔ اگر کوئی یہ پوچھے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ شیطان قرأت قرآن اور عظمت سے تو بھاگتا نہیں مگر اذان سے بھاگتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اذان کے کلمات میں ایسی ہیبت اور عظمت رکھ دی ہے جو شیطان کو خوف و ہر اس میں مبتلا کردیتا ہے۔

【18】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا کہ مؤذن کی انتہائی آواز کو جو بھی سنتا ہے خواہ انسان ہو یا جن اور یا جو بھی چیز وہ سب قیامت کے دن مؤذن (کے ایمان) کی گواہی دیں گے۔ (صحیح البخاری ) تشریح مدی کے معنی انتہا یعنی اخیر ہیں۔ آواز کی انتہا یہ ہے کہ اس کی بھنک میں آجائے اور یہ نہ معلوم ہو کہ آواز دینے والا کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں اگرچہ یہی معنی کافی تھا کہ مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے الخ لیکن مدی بمعنی انتہاء کو ذکر کر کے اس طرف اشارہ مقصود تھا کہ جن کے کان میں اذان کی محض بھنک پڑجائے گی جب وہ مؤذن کے ایمان کی گواہی دیں گے تو وہ لوگ تو بطریقی اولیٰ گواہ ہوں گے جو مؤذن کے قریب ہوں گے اور اذان کو قریب سے سنیں گے۔ علماء لکھتے ہیں کہ درحقیقت اس حدیث سے مؤذن کو ترغیب دلانی مقصود ہے کہ اذان نہایت بلند آواز سے کہا کریں تاکہ ان کے ایمان کی گواہی دینے والے زیادہ سے زیادہ ہوں۔

【19】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن عاص (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جب تم مؤذن کی آواز سنو تو (اس کے جواب میں) اس کے الفاظ کو دہراؤ اور پھر (اذان کے بعد) مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اس کے بدلے میں اللہ اس پر دس مرتبہ رحمت نازل فرماتا ہے پھر (مجھ پر درود بھیج کر) میرے لئے (اللہ سے) وسیلے کی دعا کرو۔ وسیلہ جنت کا ایک (اعلیٰ ) درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ کو ملے گا اور مجھ کو امید ہے کہ وہ بندہ خاص میں ہوں گا لہٰذا جو آدمی میرے لئے وسیلے کی دعا کرے گا (قیامت کے روز) اس کی سفارش کرنا مجھ پر ضروری ہوجائے گی۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب مؤذن اذان کہے تو تم بھی مؤذن کے ساتھ اذان کے کلمات دہراتے جاؤ البتہ چند کلمات ایسے ہیں جن کو بعینہ دہرانا نہیں چاہئے بلکہ ان کے جواب میں دوسرے کلمات کہنے چاہیں جس کی تفصیل آئندہ حدیث میں آرہی ہے چناچہ فجر کی اذان میں جب مؤذن الصلوۃ خیر من النوم کہے تو اس کے جواب میں صَدَقْتَ وَ بَرَرْتَ َو بِالْحَقِّ نَطَقْتَ (یعنی تم نے سچ کہا ہے اور خیر کثیر کے مالک ہوئے اور تم نے سچ بات کہی) کہنا چاہئے۔ وسیلہ اصل میں اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے مطلوبہ چیز کو خاص کیا جائے اور اس کے سبب سے مطلوبہ چیز کا قرب حاصل ہو چناچہ جنت کے ایک خاص اور اعلیٰ درجے کا نام وسیلہ اسی لئے ہے کہ جو آدمی اس میں داخل ہوتا ہے اسے باری تعالیٰ عزاسمہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور اس کے دیدار کی سعادت میسر آتی ہے نیز جو فضیلت اور بزرگی اس درجے والے کو ملتی ہے وہ دوسرے درجے والوں کو نہیں ملتی۔ آپ ﷺ کا ارجو (یعنی مجھ کو امید ہے) فرمانا عاجزی اور انکساری کے طور پر ہے کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ تمام مخلوق سے افضل و بہتر ہیں تو یہ درجہ یقینا آپ ﷺ ہی کے لئے ہے۔ کوئی دوسر اس درجے کے لائق کیسے ہوسکتا ہے ؟ لہٰذا اس لفظ کی تاویل یہ کی جائے گی کہ یہ یقین سے کنایہ ہے یعنی مجھے یہ یقین ہے کہ یہ درجہ مجھے ہی حاصل ہوگا۔

【20】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت عمر فاروق (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جب مؤذن اللہ اکبر اللہ اکبر کہے تو تم میں سے بھی ہر آدمی اللہ اکبر اللہ اکبر کہے، پھر جب مؤذن اشھد ان لا الہ الا اللہ کہے تو تم میں سے بھی ہر آدمی اشھد ان لا الہ الاا اللہ کہے، پھر جب اشھد ان محمد الرسول اللہ کہے تو تم میں سے بھی ہر آدمی اشھد ان محمد الرسول اللہ کہے پھر جب مؤذن حی علی الصلوٰۃ کہے تو تم میں سے ہر آدمی لاحول ولاقوۃ الا باللہ کہے پھر جب مؤذن حی علی الفلاح کہے تو تم میں سے ہر آدمی لاھول ولاقوۃ الا باللہ کہے، پھر جب مؤذن اللہ اکبر، اللہ اکبر کہے تو تم میں سے ہر آدمی کہے اللہ اکبر، اللہ اکبر پھر جب مؤذن کہے لا الہ لا اللہ تو تم بھی کہو لا الہ لا اللہ جس نے (اذان کے جواب میں یہ کلمات) صدق دل سے کہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (صحیح مسلم) تشریح یہاں اللہ اکبر اختصار کی وجہ سے دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ سمجھانے کے لئے دو ہی مرتبہ کہنا کافی تھا اس لئے شہادتین یعنی اشھدان لا الہ الاا اللہ اور اشھد ان محمد الرسول اللہ کو بھی صرف ایک ایک مرتبہ ہی ذکر کیا گیا ہے۔ لا حول ولاقوۃ الا باللہ کے معنی یہ ہیں، برائی سے بچنے اور نیک کام کرنے کی قوت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے، جب مؤذن حی علی الصلوۃ، حی علی الفلاح کہتا ہے تو وہ لوگوں کو نماز کے لئے بلاتا ہے۔ لہٰذا اس کے جواب میں یہ کلمہ کہنے والا گویا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک امر عظیم اور زبردست فرض کی ادائیگی کا معاملہ ہے میں ایک عاجز و کمزور بندہ ہوں۔ میری قوت و طاقت کی کیا مجال کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی کی متحمل ہو سکوں۔ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت ہی ہوتی ہے جو ہم اس امر عظیم کو پورا کرتے ہیں اور چونکہ نماز کے لئے آنے کی طاقت اور قوت اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے ہوتی لہٰذا اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرماتا ہے تو ہم نماز کے لئے آتے ہیں۔ امام نووی (رح) فرماتے ہیں کہ مؤذن جب اذان کہتا ہے تو اس کے کہے ہوئے کلمات کو اسی طرح دہرانا یعنی اس کا جواب دینا مستحب ہے البتہ حیعلتین یعنی حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں لا حول ولاقوۃ الا باللہ پڑھنا چاہئے۔ بعض مقامات پر کچھ حضرات حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں ماشاء اللہ کان ولم یشاء لم یکن فرماتے ہیں یہ غلط اور مسنون طریقے کے خلاف ہے۔ اذان کا جواب ہر سننے والے کو دینا چاہئے خواہ باوضو ہو یا بےوضو اور خواہ جنبی ہو یا حائض، بشر طی کہ جواب دینے میں کوئی چیز مانع نہ ہو مثلاً کوئی بیت الخلا میں ہو یا جماع کرتا ہوا، یا نماز پڑھ رہا ہو یا ایسے ہی کوئی دوسرا مانع ہو تو وہ اس وقت جواب نہ دے لیکن اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ ان امور سے فراغت کے بعد اذان کے کلمات جواب میں کہے۔ صدق دل سے کہے کا تعلق یا تو لاحول ولاقوۃ الا باللہ سے ہے کہ یہ کلمہ صدق دل سے کہا جائے یا پھر اس کا تعلق پوری اذان کے کلمات سے ہے کہ جواب میں تمام کلمات پورے خلوص اور صدق دل کے ساتھ کہے جائیں اور ظاہری طور پر بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق پوری اذان سے ہے۔ جنت میں تو تمام مسلمان ہی داخل ہوں گے چاہے وہ کسی عذاب کے بغیر داخل ہوں یا عذاب کے بعد داخل ہوں۔ لہٰذا یہاں جنت میں داخل ہونے سے مراد یہ ہے کہ ایسا آدمی جو اذان کا جواب صدق دل سے دیتا ہے یعنی زبان سے تو ان کلمات کو ادا کرتا ہے اور دل میں ان کلمات کی صداقت کا پورا اعتقاد رکھتا ہے تو وہ نجات پائے ہوئے لوگوں کے ہمراہ جنت میں داخل ہوگا۔

【21】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ جس آدمی نے اذان سن کر (یعنی اذان ختم ہونے اور اس کا جواب دینے کے بعد) یہ دعا پڑھی تو قیامت کے روز مجھ پر اس کی شفاعت لازم ہوگی۔ دعا یہ ہے اَللَّھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَۃِ وَالصَّلٰوۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدنِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابَعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَ نِ الَّذِیْ وَعَدْتَہُ اے اللہ ! مالک اس کامل دعا (اذان) کے اور پروردگار اس نماز قائمہ کے ہمارے سرادر محمد رسول اللہ ﷺ کو وسیلہ (جنت کا سب سے خاص و اعلیٰ درجہ) اور بزرگی عنایت فرما اور پہنچا ان کو مقام محمود پر جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ (بخاری) تشریح اس دعاء میں اذان کو دعا سے تعبیر کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اذان لوگوں کو نماز اور اللہ کے ذکر کی طرف بلاتی ہے۔ نماز کو قائمہ اس لئے کہا گیا ہے کہ نماز ہمیشہ قیامت تک قائم و برقرار رہے گی۔ اس دعاء میں والفضیلۃ کے بعد والدرجۃ الرفیعۃ کے الفاظ بھی پڑھے جاتے ہیں مگر یہ کسی روایت میں مذکور نہیں ہیں۔ مقام محمود شفاعت عظمی کا مقام ہے اور یہ وہ مقام ہوگا جہاں رسول اللہ ﷺ قیامت کے روز عاصیوں کے لئے شفاعت کرنے کے لئے کھڑے ہوں گے۔ میدان حشر میں جب ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہوگا اللہ کی مخلوق حساب و کتاب کی پریشانیوں میں مبتلا ہوگی اور تمام لوگ وہاں کی سختیوں کی بناء پر حیران و سرگرداں ہوں گے تو یکے بعد دیگرے تمام انبیاء و رسل (علیہم السلام) کے پاس شفاعت کے لئے جائیں گے مگر وہ سب ہیبت و دہشت کی بنا پر شفاعت کی جرات نہ کرسکیں گے اور کہیں گے کہ محمد ﷺ کے پاس جاؤ کیونکہ ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہوچکے ہیں، وہی اللہ کی مخلوق کی شفاعت کے حقدار ہیں۔ چناچہ تمام لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گے تب آپ ﷺ بارگاہ رب العزت میں حاضر ہو کر لوگوں کی شفاعت کریں گے۔ اس وقت ہر آدمی کی زبان پر آپ ﷺ کی تعریف ہوگی اور حق تعالیٰ بھی آپ ﷺ کی تعریف کریں گے گویا شان محمدیت کا پورا پورا ظہور ہوگا۔ اور تمام مخلوق آپ ﷺ کی اس عظمت و برتری کو رشک کی نگاہوں سے دیکھے گی۔ وعدتہ (جس کا تو نے وعدہ کیا ہے) اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ آیت (عَسٰ ي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) 17 ۔ الاسراء 79) امید ہے کہ آپ ﷺ کا پروردگار آپ ﷺ کو مقام محمود میں جگہ دے گا۔ خداوند کریم عنقریب آپ کو شافع محشر بنا کر مقام محمود پر کھڑا کرنے والا ہے۔ اور یہ وہ عزت و کرامت ہے جو بنی آدم میں آپ ﷺ کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں اس لئے کہ سب سے زیادہ آپ ﷺ ہی پر عبادت اور شب کا سوز و گداز بھی فرض ہوا ہے۔ دلا بسوز کہ سوزے تو کا رہا بکند دعائے نیم شبی دفع صد بلا بکند بیہقی کی روایت میں اس دعاء میں وَعَدْتہ کے بعد اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادِ (یعنی بیشک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا) بھی مذکور ہے۔ بعض لوگ اس کے آگے یا ارحم الرٰحمین بھی پڑھتے ہیں حالانکہ احادیث میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔

【22】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ (جب لشکر لے کر کسی جگہ جاتے تو) فجر ہوجانے پر (دشمن کے اوپر) حملہ کیا کرتے تھے اور فجر ہوجانے پر) اذان کا انتظار کیا کرتے تھے (اس آبادی میں سے جس کا حملہ کردیتے۔ چناچہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ دشمن پر حملہ کے لئے جا رہے تھے تو ایک مقام پر آپ ﷺ نے ایک آدمی کو اللہ اکبر، اللہ اکبر کہتے ہوئے سنا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ آدمی اسلام کے (طریقہ) پر ہے (کیونکہ اذان تو مسلمان ہی کہتا ہے) پھر اس آدمی نے کہ اشھدان لا الہ الا اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے) رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ تم شرک سے باز آجانے کی وجہ سے دوزخ سے نکل گئے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے (چاروں طرف دیکھ کر معلوم کرنا چاہا کہ اذان دینے والا کون ہے تو) دیکھا کہ وہ توبکریاں چرانے والا ایک آدمی ہے) ۔ تشریح رسول اللہ ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ ﷺ جب دشمنوں پر حملہ کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تو اس بات کا خیال رکھتے کہ صبح کا وقت ہو، تاکہ اس بات کا اچھی طرح پتہ چل جائے کہ جس آبادی پر حملہ کیا جائے گا اس میں مسلمان ہیں یا کافر ہی کافر رہتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت انس (رض) کے ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ (فجر ہوجانے پر) اذان کا انتظار کیا کرتے تھے چناچہ جس آبادی پر حملہ مقصود ہوتا اس میں سے اگر اذان کی آواز آجاتی تو یہ جان کر کہ اس آبادی میں مسلمان ہیں آپ ﷺ حملے سے باز رہتے تھے اور اگر اذان کی آواز نہ آتی تو پھر آپ ﷺ اس آبادی پر حملہ کردیتے تھے۔ اذان کا انتظار آپ ﷺ اس لئے کرتے تھے کہ مبادا اس آبادی میں مسلمان ہوں اور ان جانے میں وہ اسلامی لشکر کی زد میں آجائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اذان کے ہونے اور نہ ہونے کو ایمان اور کفر کی علامت سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے روایت فقیہہ میں آتا ہے کہ جو لوگ اذان کو ترک کردیں گے تو باوجودیکہ اذان سنت ہے ایسے لوگ مستحق قتال ہوں گے کیونکہ اذان اسلامی شعار میں سے ہے۔

【23】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جو آدمی مؤذن (کی اذان) کو سن کر یہ کہے کہ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَحْدَہُ لَا شَرَیْکَ لَہُ وَاَنَّ مُحَمَّدً اعَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ رَضِیْتُ بِا رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا وَ بِا لَّاسْلَامِ دِیْنًا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی شریک ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور میں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد ﷺ کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں تو اس کے (صغیرہ) گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (صحیح مسلم) تشریح اس میں اختیار ہے کہ ان کلمات کو یا تو اس وقت پڑھا جائے جب مؤذن اشھد ان لا الہ الا اللہ کہے یا اذان ختم ہوجانے کے بعد پڑھے۔ مناسب تو یہی ہے کہ اذان ختم ہونے کے بعد یہ کلمات پڑھے جائیں تاکہ اذان کے دوسرے کلمات کے جواب ترک نہ ہوں۔ اور ظاہر تو یہ ہے کہ مذکورہ ثواب اسی وقت ملے گا جبکہ اذان کے کلمات کا جواب دے کر بعد میں ان کلمات کو پڑھا گا۔

【24】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن مغفل (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے، ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے اور پھر تیسری دفعہ میں یہ فرمایا کہ (یہ نماز) اس آدمی کے لئے ہے جو پڑھنا چاہئے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح دو اذانوں سے مراد اذان و تکبیر ہیں یعنی اذان اور تکبیر کے درمیان نماز پڑھنی فلاح وسعادت کی بات ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اذان و تکبیر کے درمیان نوافل پڑھنے کی رغبت دلانے کے لئے یہ جملہ مکرر سہ مکرر فرمایا کیونکہ اذان و تکبیر کے درمیان کا وقت بہت زیادہ بابرکت اور فضیلت کا حامل ہوتا ہے اس لئے اس وقت نماز پڑھ کر جو دعا مانگی جاتی ہے وہ بارگاہ احدیت سے رد نہیں کی جاتی ہے بلکہ قبولیت کا درجہ پاتی ہے اور پھر یہ کہ بابرکت اور با فضیلت وقت میں عبادت کا ثواب بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ حاصل یہ کہ اذان و تکبیر کے درمیان میں نماز پڑھنی سنت ہے مگر آپ نے لمن شاء فرما کر اس طرف اشارہ بھی فرما دیا ہے کہ اس وقت نماز پڑھنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک مغرب میں اذان و تکبیر کے درمیان نفل پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ حضرت بریرہ اسلمی (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ مغرب کے علاوہ (بقیہ اوقات میں) دونوں اذانوں (یعنی اذان و تکبیر) کے درمیان دو دو رکعتیں (نماز) ہیں۔

【25】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا امام ضامن ہوتا ہے اور مؤذن امانت دار ہوتا ہے (پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا فرمائی) اے اللہ ! اماموں کی ہدایت دے (یعنی ان کو نیک علم، صالح علم اور صلاح وتقوی کی توفیق دے) اور مؤذنوں (سے اگر اذان کہنے میں کمی و زیادتی ہوجائے تو ان) کو بخش دے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی) اور امام شافعی (رح) نے دوسری روایت مصابیح کے ہم لفظ نقل کی ہے۔ تشریح ضامن کا مطلب یہ ہے کہ امام دوسروں کی نماز کا ذمہ دار ہوتا ہے بایں طور پر کہ وہ متقدیوں کے امور نماز مثلا قرأت کا اور اگر مقتدی رکوع میں امام کے ساتھ مل جائے تو قیام وغیرہ کا متکفل ہوتا ہے اسی طرح وہ سب کی نمازوں کے افعال و ارکان نیز رکعتوں کی تعداد پر نگاہ رکھتا ہے۔ مؤذنوں کے امانت دار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کے سلسلے میں اذان کی آوازوں پر اعتماد و بھروسہ کرتے ہیں۔

【26】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جو آدمی (مزدوری و اجرت کے لالچ کے بغیر) محض ثواب حاصل کرنے کے لئے سات سال تک اذان دے تو اس کے لئے دوزخ سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

【27】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت عقبہ ابن عامر (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا تمہارا رب راضی ہوتا ہے پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چرانے والے سے جو نماز کے لئے اذان کہتا ہے اور نماز پڑھتا ہے۔ چناچہ اللہ بزرگ و برتر (ملائکہ اور ارواح مقربین سے) فرماتا ہے۔ میرے اس بندے کی طرف دیکھو وہ اذان دیتا ہے اور (پابندی کے ساتھ) نماز پڑھتا ہے اور مجھ سے ڈرتا ہے، چناچہ میں نے بھی اس بندے کے گناہ بخش دیئے ہیں اور میں اسے جنت میں داخل کروں گا۔ (ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح یعنی وہ چرواہا جو لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے اور دنیا کے علائق سے دست بردار ہو کر پہاڑ کی چوٹی پر بسیرا کئے ہوئے ہے جب نماز کا وقت آتا ہے تو اذان کہہ کر اللہ اور اس کے رسول کا نام بلند کرتا ہے اور پابندی سے نماز ادا کر کے اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرتا ہے۔ ابن ملک (رح) فرماتے ہیں کہ اذان دینے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی اذان کے ذریعے ملائکہ اور جنات نماز کے وقت سے مطلع ہوجاتے ہیں، نیز یہ کہ اس کی اذان مخلوقات میں سے جو چیز بھی سنتی ہے قیامت کے روز اس کے ایمان کی گواہی دے گی اور سنت کی اتباع ہوتی ہے اور جماعت کے معاملے میں اسے مسلمانوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے۔ اذان سے اعلام عام یعنی اذان و تکبیر دونوں مراد ہیں۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ایسا آدمی جب اذان و تکبیر کہتا ہے تو ملائکہ اس کے ہمراہ نماز میں شامل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اسے جماعت کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ وا اللہ اعلم۔ مجھ سے ڈرتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس بندے کی عبادت کا مقصد نمائش و ریا نہیں ہے بلکہ وہ میرے عذاب سے چونکہ ڈرتا ہے اس لئے اذان بھی کہتا ہے اور نماز بھی پڑھتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اکیلے آدمی کو بھی اذان و تکبیر کہنا مستحب ہے۔

【28】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا قیامت کے روز تین آدمی مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے۔ (پہلا) وہ غلام جس نے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کر کے اپنے آقا کے حقوق بھی اداء کئے اور (دوسرا) وہ آدمی جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے اور لوگ اس سے خوش ہیں اور (تیسرا) وہ آدمی جو رات دن (یعنی ہمیشہ) پانچوں وقت کے نماز کے لئے اذان کہتا ہے۔ امام ترمذی (رح) نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح عبد سے مراد مملوک ہے خواہ غلام ہو یا لونڈی، امام سے لوگوں کو خوش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی اپنے امام سے اس وجہ سے مطمئن و راضی ہوتے ہیں کہ وہ نماز کے احکام و ارکان اور سنن و آداب کی پوری پوری رعایت کرتا ہے۔ اور قرأت اصول و قواعد کے مطابق نیز عمدہ آواز کے ساتھ کرتا ہے لیکن اتنی بات ملحوظ رہے کہ اس سلسلے میں اعتبار اکثر لوگوں کا ہوگا جو کہ صاحب علم و فراست ہوں۔ بہر حال قیامت کے روز ان تینوں کو مشک کے ٹیلے اس لئے ملیں گے کہ یہ لوگ دنیا میں خواہشات نفسانی کی لذتوں کو اطاعت الہٰی اور فرمانبرداری رسول ﷺ کی سختیوں پر قربان کردیں گے اس لئے پروردگار عالم اس کے صلہ میں انہیں خوشبو کی صورت میں عظیم انعام عطا فرمائے گا تاکہ دوسرے لوگوں پر ان کی عظمت و بزرگی ظاہر ہو سکے۔

【29】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا اذان دینے والے کی بخشش اس کی آواز کی انتہاء کے مطابق کی جاتی ہے۔ ہر خشک و تر چیز اور نماز میں آنے والے آدمی اس کے ایمان کے گواہ ہوجاتے ہیں۔ پچیس نمازوں کا ثواب (اس کے زائد اعمال میں) لکھا جاتا ہے اور نمازوں کے درمیان اس سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں معاف ہوجاتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور نسائی نے اس روایت کو کل رطب و یابس تک نقل کیا ہے اور یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ وَلَہُ مِثْلُ اَجْرٍ مَنْ صَلّٰی یعنی اور اسے نماز پڑھنے والے کے برابر ثواب ملے گا۔ تشریح آواز کی انتہا کے مطابق بخشش کا مطلب یہ ہے کہ مؤذن اذان کہتے وقت جس قدر آواز بلند کرتا ہے اس کی مغفرت اسی قدر ہوتی ہے اور اگر وہ آواز کو انتہائی درجے تک پہنچا دیتا ہے یعنی اس کی جتنی طاقت ہوتی ہے اتنی ہی آواز بلند کرتا ہے تو مغفرت بھی پوری ہی پاتا ہے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اگر گناہ کا جسم فرض کیا جائے اور وہ اتنے ہوں کہ مؤذن کی آواز جہاں تک بھی پہنچے وہاں تک سما جائیں تو اس کے وہ سب گناہ بخشش دیئے جاتے ہیں۔ رطب (تر) سے مراد وہ مخلوق ہیں جن میں نمو ہوتا ہے جیسے انسان اور نباتات وغیرہ اور یا بس (خشک) سے جمادات یعنی پتھر اور مٹی وغیرہ مراد ہیں۔ علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ لفظ وَشَاھِدُ الصَّلٰوۃَ لفظ اَلْمُؤَذِنُ پر عطف کیا گیا ہے اس طرح پورے جملہ کے معنی یہ ہوں گے مغفرت کی جاتی ہے مؤذن کی اور ان لوگوں کی جو جماعت میں حاضر ہوتے ہیں۔ مگر ملا علی قاری (رح) فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اس کا عطف کل رطب پر ہے اور اسے عطف خاص علیٰ عام کہا جاتا ہے یکتب لہ اور عنہ کی ضمیر یا تو شَاھِدُ کی طرف راجع ہے یا پھر مؤذن کی طرف راجع ہوگی۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ مؤذن نمازیوں کا سا ثواب پاتا ہے کیونکہ یہ ان کو نماز کی طرف بلاتا ہے اور حدیث میں وارد ہے کہ جو آدمی بھلی بات کا باعث ہوتا ہے اسے اس بھلائی کے کرنے والے کی مانند ثواب ملتا ہے۔

【30】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت عثمان بن ابی عاص (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے میری قوم کا امام مقرر فرما دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم ان کے امام ہو (یعنی میں نے تمہیں تمہاری قوم کا امام مقرر کردیا مگر یہ یاد رکھو کہ نماز پڑھانے میں) تم ان میں سے بہت زیادہ ضعیف و نا تو اں کی اقتداء کرنا اور ایسا مؤذن مقرر کرنا جو اذان کہنے کی مزدوری نہ لے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح ضعیفوں کی اقتداء کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امامت میں ضعیف و کمزور لوگوں کی رعایت کی جائے یعنی قرأت اتنی لمبی نہ کی جائے اور ارکان نماز اس طرح ادا نہ کئے جائین کہ لوگ تنگ و پریشان ہوجائیں اور جماعت سے نماز پڑھنا چھوڑ دیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام اور مؤذن کے لئے نماز پڑھانے اور اذان دینے کی اجرت حلال نہیں ہے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اذان اقامت اور تعلیم قرآن کے سلسلہ میں معاوضہ لینا جائز نہیں ہے۔ مگر علماء نے یہ لکھا ہے کہ اگر امام اور مؤذن بطور خود اپنی اجرت مقرر نہ کرائیں بلکہ لوگ ان کے پاس ان کی حاجت کے مطابق روپیہ پیسہ از خود بھیج دیا کریں تو یہ جائز و حلال ہوگا۔ لہٰذا لوگوں کو چاہئے کہ وہ امام و مؤذن کی خبر گیری کریں اور ان کے پاس از خود اتنا روپیہ اور مال بھجوا دیا کریں جس سے ان کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ فتاوی قاضی خاں میں مرقوم ہے کہ جو مؤذن اوقات نماز وغیرہ کے سلسلہ میں علم نہیں رکھتا اسے اذان کہنے کا ثواب نہیں ملتا، اس لئے جو مؤذن اجرت لے گا اسے تو بطریق اولیٰ ثواب نہیں ملے گا۔

【31】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے مجھے سکھلایا تھا کہ میں مغرب کی اذان کے وقت یہ دعا پڑھ لیا کروں اَللَّھُمَّ ھَذَا اِقْبَالُ لَیْلِکَ وَاِدْبَارِ نَھَا رِکَ َواَصْوَاتُ دُعَا ئِکَ فَاغْفِرْلِیْ اے اللہ ! یہ وقت ہے تیری رات کے آنے کا اور تیرے دن کے واپس جانے کا اور تیرے پکارنے والوں (یعنی مؤذنوں) کی آوازوں کا ! لہٰذا تو میری مغفرت فرما۔ (ابوداؤد، بیہقی) تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعا یا تو اذان کا جواب دینے کے دوران پڑھ لی جائے یا پھر جواب سے فارغ ہونے کے بعد پڑھی جائے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اذان کا وقت بارگاہ احدیث میں دعاء کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے اس لئے ایسے وقت اپنے گناہوں کی معافی اور خیر و بھلائی کے راستہ پر چلنے کی توفیق کی زیادہ سے زیادہ دعا مانگنی چاہئے تاکہ قبولیت کے مرتبے کو پہنچ سکے۔

【32】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت ابوامامہ (رض) یا سرور کائنات ﷺ کے کوئی اور صحابی فرماتے ہیں کہ حضرت بلال (رض) نے تکبیر کہنی شروع کی۔ جب انہوں نے قد قامت الصلوۃ کہا تو رسول اللہ ﷺ نے (اس کے جواب میں) فرمایا اَقَامَھَا اللہ وَاَدَمَھَا یعنی اللہ تعالیٰ نماز کو قائم و دائم رکھے اور تکبیر کے بقیہ کلمات کے جوابات وہی فرمائے جس کا ذکر حضرت عمر فاروق (رض) کی اذان والی حدیث میں ہوچکا ہے۔ (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اسی باب کی حدیث نمبر پانچ میں اذان کے کلمات اور ان کے جواب کو جس طرح ذکر کیا گیا ہے اسی طرح تکبیر کے وقت مؤذن جو کلمات کہتا گیا۔ آپ بھی ویسے ہی کلمات کو دہراتے رہے البتہ حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں لا حول ولاقوۃ الابا اللہ اور قد قامت الصلوۃ کے جواب میں اَقَامَھَا ا وَاَدَمَھَاکہا۔

【33】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا اذان اور تکبیر کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی۔ (ابوداؤد، الترمذی) تشریح یوں تو پروردگار عالم اپنی رحمت و شفقت کے ناطے ہر وقت ہی اپنے بندوں کی دعا قبول کرتا ہے اور ان کے دامن امید کو اپنے فضل و کرم کے موتیوں سے معمور کرتا ہے مگر اس ارشاد کے ذریعے مسلمانوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اذان و تکبیر کے درمیان کا وقت اتنا بابرکت و با سعادت ہوتا ہے کہ اس وقت پروردگار عالم کے سامنے بندہ اپنی جس حاجت کے لئے بھی دامن پھیلاتا ہے اس کی مراد یقینا پوری کی جاتی ہے اور مانگنے والا جو بھی دعا مانگتا ہے وہ ضرور قبول ہوتی ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس وقت اپنی دینی اور دنیاوی فلاح وسعادت اور کامیابی و کامرانی کے لئے ضرور دعا مانگا کریں۔ اس سلسلے میں ایک روایت یہ بھی منقول ہے کہ دعاء خواہ اذان کے بعد متصلا ہی مانگی جائے یا کچھ دیر کے بعد، ہر صورت میں قبول ہوگی مگر صحیح اور اولیٰ یہ ہے کہ اذان کے فورا بعد مانگ لینی چاہئے۔

【34】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت سہل ابن سعد (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں، یا فرمایا کہ کم رد کی جاتی ہیں۔ ایک تو وہ دعا جو اذان (ہونے کے بعد یا اذان شروع ہونے) کے وقت مانگی جاتی ہے اور دوسری وہ دعا جو (کفار کے ساتھ) جنگ میں مڈھ بھیڑ (یعنی آپس میں قتل و قتال) شروع ہوجانے کے وقت مانگی جاتی ہے۔ ایک دوسری روایت میں (جنگ میں مڈھ بھیڑ کے بجائے) یہ منقول ہے کہ دوسری وہ دعا جو بارش میں (کھڑے ہو کر) مانگی جائے۔ (سنن ابوداؤد، دارمی) مگر دارمی کی روایت میں تحت المطر منقول نہیں ہے۔

【35】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) راوی ہیں کہ ایک صحابی نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ ! اذان دینے والے تو بزرگی میں ہم سے بڑھے جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس طرح وہ فرماتے ہیں (ساتھ ساتھ) تم بھی اسی طرح کہتے جاؤ اور جب (اذان کے جواب سے) فارغ ہوجاؤ تو جو چاہو مانگو، دیا جائے گا۔ (ابوداؤد) تشریح صحابی کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ اذان دیتے ہیں وہ تو اذان دینے کی سعادت و برکت کی وجہ سے ہماری بہ نسبت زیادہ ثواب کے حقدار ہوتے ہیں اس لئے ہمیں بھی کوئی ایسا طریقہ بتا دیجئے جس پر چل کر ہم بھی ثواب میں ان کے ہم پلہ ہوجائیں۔ اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے انہیں یہ طریقہ بتادیا کہ جب مؤذن اذان کے کلمات کہے تو تم بھی ان کے ساتھ اذان کے کلمات دہراتے جاؤ (سوائے حی علی الصلوۃ وحی علی الفلاح کے کہ ان کے جواب میں لا حول ولاقوۃ الا باا اللہ کہنا چاہئے) اسی طرح تمہیں بھی ان کے اصل ثواب کی طرح ثواب ملے گا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ایک دوسری چیز اذان کے جواب سے فراغت کے بعد دعاء مانگنے کو بتا کر اس طرف اشارہ کردیا کہ اگر اذان کا جواب دینے کے بعد دعاء مانگی جائے تو فضیلت و بزرگی میں اور اضافہ ہوگا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی اذان کے وقت مسجد میں موجود ہو تو اسے بھی اذان کے کلمات کا جواب دینا چاہئے۔ جو لوگ یہ فرماتے ہیں کہ اذان کے وقت مسجد میں موجود آدمی کو اذان کا جواب دینا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس وقت جب اجابت فعلی حاصل ہے تو اجابت قولی کی کیا ضرورت ہے۔ دل کو لگنے والی بات نہیں۔

【36】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سنا، سرور کائنات ﷺ فرماتے تھے کہ جب شیطان نماز کی اذان سنتا ہے تو بھاگتا ہے یہاں تک کہ مقام روحا تک پہنچ جاتا ہے۔ روای کہتے روحا مدینہ سے چھتیں کوس کے فاصلے پر ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح شیطان سے مراد جنسی شیطان ہے یعنی اذان سن کر یا تو تمام شیطان بھاگ کھڑے ہوتے ہیں یا ان کا سردار بھاگ جاتا ہے اور صحیح یہی ہے۔ حدیث کے آخر جزو کا مطلب یہ ہے کہ اذان سن کر شیطان نماز پڑھنے والے سے اتنا دور ہوجاتا ہے جتنا دور مدینہ سے روحا ہے۔ راوی سے حضرت ابوسفیان، نافع ابن طلحہ (رض) کی ذات مراد ہے جنہوں نے اس حدیث کو حضرت جابر (رض) سے نقل کیا ہے۔

【37】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت علقمہ ابن وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ میں (ایک روز) حضرت امیر معاویہ (رض) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ان کے مؤذن نے اذان دی، چناچہ مؤذن جس طرح کہتا تھا حضرت معاویہ (رض) بھی اسی طرح ( اس کے ساتھ ساتھ) کہتے رہے، جب مؤذن نے حی علی الصلوۃ کہا تو حضرت معاویہ (رض) نے کہا لا حول و لا قوۃ الا باللہ جب مؤذن نے حی علی الفلاح کہا تو حضرت معاویہ (رض) نے لا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم کہا اور اس کے بعد مؤذن جو کچھ کہتا رہا حضرت معاویہ (رض) بھی کہتے رہے۔ (پھر فارغ ہو کر) حضرت معاویہ (رض) نے کہا میں نے سرور کائنات ﷺ کو اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ حی علی الفلاح کے جواب میں لاحول ولاقوۃ الا باللہ کے بعد العلی العظیم کا اضافہ مرویات میں نادر ہے۔

【38】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم سرور کائنات ﷺ کے ہمراہ تھے کہ حضرت بلال (رض) کھڑے ہوئے اور اذان کہنے لگے۔ جب وہ (اذان دے کر) خاموش ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی نے اسی طرح یقینا (یعنی خلوص دل سے) کہا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (سنن نسائی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو آدمی یقین و اعتماد کی پوری قوت اور دل کے پورے خلوص کے ساتھ ان کلمات کو یا تو اذان میں کہے یا اذان کے جواب میں کہے یا مطلقا کہے تو وہ جنت میں داخل ہونے کا مسحتق ہوگا یا نجات پانے والوں کے ہمراہ جنت میں داخل ہوگا۔

【39】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ جب مؤذن کو شہادتین کہتے ہوئے سنتے تو فرماتے اور میں بھی اور میں بھی۔ (ابوداؤد) تشریح یعنی جب مؤذن اذان میں اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھدان محمد الرسول اللہ کہتا ہے تو آنحضرت ﷺ شہادتین کے جواب میں دو مرتبہ فرماتے واناوانا (اور میں بھی اور میں بھی) یعنی جس طرح تم اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ کی رسالت کی گواہی دے رہے ہو اسی طرح میں بھی وحدانیت الٰہی اور رسالت محمد کی گواہی دیتاہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمام امت کی طرح خود آنحضرت صلی اللہ علیہ بھی اپنی رسالت کی گواہی دینے کے مکلف تھے۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ آیا آپ ﷺ امت کے افراد کی طرح اشھد ان محمد رسول اللہ (میں گواہی دیتاہوں کہ محمد اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں) یہ کہہ کر گواہی دیتے تھے یا اشھد انی رسول اللہ (میں گواہی دیتاہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں) کہہ کر گواہی دیتے تھے ؟ چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ امت کے افراد کی طرح اپنی رسالت کی گواہی دیتے تھے جیسا کہ ابھی حدیث نمبر (٢١) میں حضرت معاویہ (رض) کے بارے میں گزرا ہے کہ انہوں اذان کے جواب میں اشھد ان محمد الرسول اللہ کہا اور پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے (یعنی آپ ﷺ بھی اذان کے جواب میں اشھد ان محمد الرسول اللہ ہی کہتے تھے) ۔ اس طرح حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی اس روایت میں اور حضرت معاویہ (رض) کی روایت میں چونکہ تعارض پیدا ہوتا ہے اس لئے کہا جائے گا کہ کبھی تو آپ ﷺ اسی طرح فرماتے ہوں گے جیسا کہ حضرت معاویہ (رض) نے بیان کیا اور کبھی اس طرح فرماتے ہوں گے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) یہاں بتارہی ہیں۔

【40】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جو آدمی بارہ برس تک اذان دے اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے اور اس کے اذان کے بدلے میں (اس کے نامہ اعمال میں) ہر روز (یعنی ہر اذان کے عوض) ساٹھ نیکیاں اور ہر تکبیر کے بدلہ میں تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح اذان کی بہ نسبت تکبیر کا ثواب آدھا غالباً اس لئے ہوتا ہے کہ تکبیر خاص طور پر ان لوگوں کو مطلع کرنے کے لئے ہوتی ہے جو جماعت میں حاضر ہوتے ہیں اور اذان کے ذریعہ عمومی طور پر حاضرین اور غائبین سب ہی کو مطلع کیا جاتا ہے یا پھر اس کی وجہ یہ ہوگی کہ اذان دینے میں زیادہ محنت برداشت کرنی پڑتی ہے اور اس کی بہ نسبت تکبیر میں کم محنت ہوتی ہے۔

【41】

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں مغرب کی اذان کے وقت دعا مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (بیہقی) تشریح غالباً یہاں وہی مراد ہے جس کا تزکرہ حضرت ام سلمہ (رض) کی حدیث نمبر پانچ میں آچکا ہے (یعنی اللھم ھذا اقبال لیلک و ادبار نھارک الخ) ۔

【42】

اذان کا بعض احکام کا بیان

حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا بلال (فجر کی اذان خاص) رات کو دے دیتے ہیں لہٰذا جب تک ابن ام مکتوم اذان دیں تم (رمضان میں سحری) کھاتے پیتے رہا کرو۔ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ابن ام مکتوم (رض) ایک نابینا آدمی تھے، جب تک ان سے کوئی یہ نہ کہتا تھا کہ تم نے صبح کردی، تم نے صبح کردی، وہ اذان نہ دیتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے دو مؤذن تھے، ایک مؤذن تو فجر کے وقت سے پہلے رات کو اذان دیتا تھا اور دوسرا نماز فجر کا وقت شروع ہونے کے بعد اذان دیتا تھا۔ چناچہ حضرات شوافع کے یہاں دو مؤذن مقرر کرنا سنت ہے ایک فجر سے پہلے اخیر آدھی رات کو اذان دینے کے لئے اور دوسرا فجر کے اول وقت پر اذان دینے کے لئے۔ حضرات حنفیہ فرماتے ہیں کہ پہلا مؤذن سحر کے لئے یا تہجد کے لئے تھا، اس کا تعلق نماز فجر کی اذان سے نہیں تھا کیونکہ ایک روایت میں خود رسول اللہ ﷺ نے صبح کی اذان وقت سے پہلے دینے سے منع فرمایا ہے، چناچہ اسی لئے حنفیہ کے ہاں فجر کی نماز کے لئے وقت سے پہلے رات کو اذان دینا جائز نہیں ہے۔ حدیث کے آخری جملے اصبحت اصبحت (یعنی تم نے صبح کردی، تم نے صبح کردی) سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت ابن ام مکتوم (رض) صبح ہوجانے کے بعد اذان دیتے تھے تو اس وقت تک سحری کھانا پینا کیسے جائز ہوا ؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اصبحت کے معنی یہ ہیں کہ صبح ہونے والی ہے اسی کو بطور مبالغہ اصبحت سے تعبیر کیا گیا ہے۔

【43】

اذان کا بعض احکام کا بیان

اور حضرت سمرہ ابن جندب (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا بلال کی اذان تمہیں تمہاری سحری کھانے سے نہ رو کے (کیونکہ وہ رات کو اذان دیتے ہیں) اور نہ فجر دراز (یعنی صبح کا ذب) البتہ افق پر پھیلی ہوئی فجر (یعنی صبح صادق نمودار ہو جاے تو کھانا پینا چھوڑ دو ) (صحیح مسلم) الفاظ جامع ترمذی کے ہیں۔

【44】

اذان کا بعض احکام کا بیان

اور حضرت مالک ابن حویرث (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور میرے چچا کے صاحبزادے (ہم دونوں) سرور کائنات ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم سفر میں جاؤ تو (نماز کے لئے) اذان و تکبیر کہا کرو اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ (صحیح البخاری ) تشریح غالباً یہ دونوں حضرات علم و ورع میں ہم پلہ ہوں گے اس لئے آپ ﷺ نے امام بننے کا حقدار اسے قرار دیا جو عمر فاروق (رض) میں بڑا ہو، یا پھر اکبر (یعنی بڑے) سے مراد افضل ہے کہ دونوں میں سے جوا فضل ہو وہ امامت کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فضیلت کی شرط اذان میں نہیں ہے، تاہم چاہیے یہی کہ اذان وہ آدمی دے جو اقامت نماز کا علم رکھتا ہو، نیک اور دیندار ہو، بلند آواز اور خوش گلو ہو اور اذان کے کلمات صحیح صحیح ادا کرسکتا ہو۔

【45】

اذان کا بعض احکام کا بیان

اور حضرت مالک ابن حویرث (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ تم مجھے جس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو اسی طرح تم بھی پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے کوئی اذان دے دیا کرے اور جو تم میں بڑا ہو وہ امام بن جایا کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ امامت کا مستحق وہی آدمی ہوگا جو علم و فضل میں سب سے بڑھا ہوگا اور اگر علم و فضل کے اعتبار سے سب برابر ہوں تو جو آدمی عمر میں سب سے بڑا ہوگا وہ امام بنے گا۔ عمر سے مراد وہ عمر ہے جو ایمان و اسلام کی حالت میں گزری ہو یعنی جس آدمی کو اسلام قبول کئے ہوئے بہت عرصہ ہوگیا ہو وہ حکمًا ان لوگوں سے بڑا قرار دیا جائے گا جو اس کے بعد ایمان و اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئے ہیں خواہ وہ عمر میں ان سب سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ پہلے اسلام قبول کرنے والے آدمی کو دین و شریعت کا علم بعد میں اسلام کے حلقہ بگوش ہونے والوں سے زیادہ ہوتا ہے۔

【46】

اذان کا بعض احکام کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ جب غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر سفر کرتے رہے یہاں تک کہ (جب) آپ ﷺ پر غنودگی طاری ہونے لگی تو آپ ﷺ آرام کرنے کے لئے آخر رات میں ایک جگہ اتر گئے اور حضرت بلال (رض) سے فرمایا کہ تم ہمارا خیال رکھنا (یعنی صبح ہوجائے تو ہمیں جگا دینا) یہ فرما کر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو سو گئے اور حضرت بلال (رض) نے (تہجد کی) نماز جس قدر ہوسکی پڑھی۔ جب صبح صادق ہونے کو ہوئی، تو حضرت بلال (رض) اپنے کجاوے سے تکیہ لگا کر فجر (مشرق) کی جانب منہ کر کے بیٹھ گئے (تاکہ صبح صادق ہوجائے تو رسول اللہ ﷺ حضرت بلال (رض) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی بھی بیدار نہ ہوا یہاں تک کہ جب ان کے اوپر دھوپ آگئی اور اس کی گرمی پہنچی) تو سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی آنکھ کھلی اور آپ ﷺ نے گھبرا کر فرمایا کہ بلال یہ کیا ہوا ؟ حضرت بلال (رض) (بھی گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور انہوں نے عرض) کیا یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے بھی اس چیز نے پکڑ لیا جس نے آپ ﷺ کو پکڑ لیا تھا (یعنی نیند نے) آپ ﷺ نے فرمایا یہاں سے روانہ ہوجاؤ ! چناچہ سب لوگ تھوڑی دور تک اپنی اپنی سواریاں لے کر چلے، پھر رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور حضرت بلال (رض) کو تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ چناچہ انہوں نے نماز کے لئے تکبیر کہی اور رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صبح کی نماز پڑھائی، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا جو آدمی (نیند وغیرہ کی بناء پر) نماز پڑھنی بھول جائے تو یاد آتے ہی فوراً اسے پڑھ لے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ ) 20 ۔ طہ 14) یعنی میرے یاد کرنے کے وقت نماز پڑھ لو۔ (صحیح مسلم) تشریح خیبر مدینہ سے تقریباً سو میل کے فاصلے پر ہے، بنو نضیر کے یہودی جب مدینہ سے اجڑے تو خیبر جا بسے اور پھر خیبر یہودیوں کی سازشوں کا اڈا اور مرکز بن گیا۔ لہٰذا اسلام کی حفاظت کی خاطر اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ان کے اس شر انگیز ٹھانے کو توڑ دیا جائے چناچہ سات ہجری میں تقریباً سولہ سو مسلمان مجاہدین کا لشکر سرکار دو عالم ﷺ کی قیادت میں خیبر روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اس کا محاصرہ کرلیا گیا۔ یہ محاصرہ تقریباً دس روز تک جاری رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اور خیبر کے تمام قلعوں پر قبضہ ہوگیا۔ اس غزوہ کی کامیابی کا سہرا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر رہا اور انہیں فاتح خبیر کے عظیم لقب سے نوازا گیا کہ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسلامی لشکر کا جھنڈا انہی کے ہاتھ دیا تھا۔ اور یہی اسلامی لشکر کے کمانڈکر رہے تھے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک خاص بہادری ظاہر کرائی کہ خیبر کا پھاٹک جو ستر آدمیوں سے بھی نہیں اٹھتا تھا انہوں نے تنہا اسے اکھاڑ پھینکا۔ جب فتح خیبر ہوگئی تو مسلمانوں اور وہاں کے یہودیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کی دو خاص دفعات یہ تھیں۔ (١) جب تک مسلماں چاہیں گے یہودیوں کو خیبر میں رہنے دیں گے اور جب نکالنا چاہیں گے تو ان کو خیبر سے نکلنا ہوگا۔ (٢) پیداوار کا ایک حصہ مسلمانوں کو دیا جائے گا۔ بہر حال۔ حدیث میں مذکورہ واقعہ اسی غزوے سے واپسی کے وقت پیش آیا تھا۔ اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طلوع آفتاب کے بعد جب آنکھ کھل گئی تھی تو اسی جگہ رسول اللہ ﷺ نے قضا نماز کیوں نہ پڑھ لی ؟ اور صحابہ کرام (رض) کو وہاں سے روانہ ہونے کا حکم دینے کا سبب کیا تھا ؟ چناچہ اس سلسلے میں علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں حنفی علماء جن کے نزدیک طلوع آفتاب کے وقت قضا نماز پڑھنا منع ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس جگہ سے کوچ کرنے کا حکم اس وجہ سے دیا تھا تاکہ آفتاب بلند ہوجائے اور نماز کے لئے وقت مکروہ نکل جائے۔ شافعی علماء جن کے ہاں طلوع آفتاب کے وقت قضاء پڑھنی جائز ہے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ وہاں سے قضا نماز پڑھے بغیر فوراً اس لئے روانہ ہوئے کہ وہ جگہ شیاطین کا مسکن تھی جیسا کہ دوسری روایتوں میں اس کی تصریح موجود ہے چناچہ صحیح مسلم ہی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ دھوپ پھیل جانے پر رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم دیا کہ ہر آدمی اپنی سواری کی عیال پکڑ لے (اور روانہ ہوجائے) اس لئے کہ اس جگہ ہمارے پاس شیطان آگیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال (رض) کو صرف تکبیر کہنے کا حکم دیا، اذان کے لئے نہیں فرمایا اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قضاء نماز کے لئے اذان دینا ضروری نہیں ہے جیسا کہ قول جدید کے مطابق حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک یہی ہے۔ لیکن شافعی علماء کے نزدیک قول قدیم کے مطابق صحیح اور معتد مسلک یہی ہے کہ قضاء نماز کے لئے بھی اذان کہنی چاہئے۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت نماز کے لئے اذان کہی گئی تھی چناچہ ہدایہ میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لیلۃ التعریس (یعنی مذکورہ رات) کی صبح کو نماز فجر کی قضا اذان و تکبیر کے ساتھ پڑھی تھی۔ شیخ ابن الہمام (رح) نے اس سلسلے میں صحیح مسلم اور سنن ابوداؤد کی کئی حدیثیں نقل کی ہیں اور فرمایا ہے کہ صحیح مسلم کی اس روایت میں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال (رض) کو تکبیر کہنے کا حکم دیا چناچہ انہوں نے تکبیر کہی۔ غر مرادف نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں صحیح طور پر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ آپ ﷺ نے اس وقت اذان و تکبیر کے ساتھ نماز پڑھی تھی، لہٰذا اس روایت میں فاقام الصلوۃ کے معنی یہ ہیں کہ چناچہ انہوں نے نماز کے لئے اذان کے بعد تکبیر کہی ۔ یہاں ایک ہلکا سا خلجان اور پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل بیدار رہتا ہے۔ تو دل کے جاگتے رہنے کے باوجود اس کی کیا وجہ تھی کہ صبح صادق طلوع ہوجانے پر آپ ﷺ مطلع نہیں ہوئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آفتاب کے طلوع و غروب کو دیکھنا آنکھوں کا کام ہے دل کا کام نہیں ہے لہٰذا دل کی بیداری کے باوجود صبح صادق کے طلوع ہوجانے پر آپ ﷺ اس لئے مطلع نہیں ہوئے کہ آپ ﷺ کی آنکھیں سو رہی تھی۔ اور اگر کوئی یہ سوال کے بیٹھے کہ آپ ﷺ کو کشف یا وحی کے ذریعہ اطلاع کیوں نہ دی گئی ؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف تھا، نیز اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ اس طریقے سے امت کو قضا کے احکام معلوم ہوگئے۔

【47】

اذان کا بعض احکام کا بیان

اور حضرت ابوقتادہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ جب نماز کے لئے تکبیر کہی جائے تو جب تک تم مجھے حجرہ سے نکلتا ہوا نہ دیکھ لو نماز کے لئے کھڑے نہ ہوا کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح فقہاء نے لکھا ہے کہ تکبیر کہنے والا جب حی علی الصلوۃ کہے تو مقتدیوں کو اس وقت کھڑا ہونا چاہئے چناچہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی وقت اپنے حجرہ سے نکلتے ہوں گے۔

【48】

اذان کا بعض احکام کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جب نماز کی تکبیر ہوجائے تو تم (جماعت میں شامل ہونے کے لئے) دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ وقار و طمانیت کے ساتھ اپنی چال آؤ، جس قدر نماز تم کو (امام کے ساتھ) مل جائے پڑھ لو اور جو فوت ہوجائے (امام کے سلام کے بعد اٹھ کر) اسے پوری کرلو (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں اس لئے کہ جب تم میں سے کوئی نماز کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس کو (حکماً ) نماز ہی میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ تشریح عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب نماز کھڑی ہوجاتی ہے تو وہ لوگ جو دیر سے مسجد پہنچتے ہیں نماز میں شامل ہونے کے لئے اور خصوصاً اس وقت جب کہ امام رکوع میں چلا جاتا ہے بہت بےت کے طریقے سے بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور نماز میں شریک ہوجاتے ہیں ایسے لوگوں کو اس حدیث سے متنبہ ہونا چاہئے کہ ان کا یہ طریقہ سراسر منشاء شریعت کے خلاف ہے۔ چناچہ نہ صرف یہ کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جماعت کھڑی ہوجانے پر بھاگ کر آنا جائز نہیں ہے بلکہ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ نماز کے لئے دوڑ کر آنا کمزوری عقل اور غفلت کی علامت ہے کیونکہ نماز کے لئے مستعدی اور چستی اس طرح تو شریعت کی نظر میں قابل تعریف ہوگی کہ اگر کسی کو تکبیر اولیٰ کے فوت ہونے یا کسی رکعت کے چھوڑ جانے کا خوف ہو تو وہ پہلے ہی جلدی کرلیا کرے اور جماعت شروع ہونے سے پہلے مسجد پہنچ جایا کرے۔ (حضرت شیخ عبدالحق) ۔ ملا علی قاری (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کرام کے ہاں اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر کسی آدمی کو تکبیر اولیٰ کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو تو وہ دوڑتا ہوا آئے یا نہیں ؟ چناچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ ایسا آدمی دوڑ کر آسکتا ہے کیونکہ حضرت عمر فاروق (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بقیع میں تھے کہ انہوں نے مسجد سے تکبیر کی آواز سنی تو دوڑتے ہوئے مسجد کی طرف آئے۔ اور بعض علماء نے یہ مناسب قرار دیا ہے کہ ایسے آدمی کو اس حدیث کے پیش نظر وقار و طمانیت کے ساتھ ہی چل کر مسجد آنا چاہئے کیونکہ جو آدمی نماز کا ارادہ کرتا ہے تو گویا وہ نماز ہی میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہوگا جو نادانستہ یا کسی مجبوری و معذوری کی بناء پر لیٹ ہوجائے ورنہ اگر کوئی آدمی دانستہ نماز میں آنے کے لئے دیر کرے تو وہ اس میں شامل نہیں۔ بہر حال اس سلسلے میں صحیح اور مناسب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی تاخیر سے مسجد میں پہنچے تو اسے چاہئے کہ وہ جماعت میں شریک ہونے کے لئے وقار و طمانیت کے ساتھ تیز تیز چل کر آئے بالکل بےت کے طریقے سے دوڑتا ہوا نہ آئے تاکہ اس حدیث پر عمل بھی ہوجائے اور تکبیر اولیٰ کا ثواب بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ اسی طرح نماز جمعہ کا حکم بھی یہی ہے کہ اگر کسی آدمی کو مسجد پہنچنے میں دیر ہوجائے اور اس بات کا یقین ہو کہ اگر جلدی نہ کی تو امام سلام پھیر دے گا اور میں نماز سے رہ جاؤں گا تو اسے تیزی سے آکر امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوجانا چاہئے۔

【49】

اذان کا بعض احکام کا بیان

حضرت زید ابن اسلم (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ مکہ معظمہ کے راستے میں (آرام کرنے کے لئے) آخر رات میں ٹھہرے اور حضرت بلال (رض) کو حکم دیا کہ (صبح کی) نماز کے لئے سب کو جگا دیں اور جب سب لوگ سو گئے۔ (تھوڑی دیر کے بعد نیند کے غلبے کی وجہ سے) حضرت بلال (رض) کی بھی آنکھ لگ گئی۔ (پہلے تو رسول اللہ ﷺ اور ان کے بعد) تمام لوگ اس وقت جاگے جب کہ آفتاب طلوع ہوچکا تھا۔ سب لوگ (نماز قضاء ہوجانے کی وجہ سے) گھبرا گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ سوار ہو کر اس جنگل سے باہر نکل چلیں اور فرمایا کہ یہ ایک ایسا جنگل ہے جس پر شیطان مسلط ہے چناچہ سب لوگ سوار ہو کر اس جنگل سے نکل آئے۔ (ایک جگہ پہنچ کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (یہاں) اتر جاؤ اور وضو کرلو۔ اور حضرت بلال (رض) کو نماز کے لئے اذان و تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ (صبح کی) نماز (قضاء باجماعت) پڑھی جب نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو گھبرایا ہوا دیکھا تو (تسلی دینے کے لئے) فرمایا کہ لوگو ! اللہ تعالیٰ نے (سونے کے وقت) ہماری روحیں قبض کرلیں تھیں اگر وہ چاہتا تو ہماری روحوں کو دوسرے وقت (یعنی آفتاب طلوع ہونے سے پہلے) واپس کردیتا۔ لہٰذا اگر تم میں سے کوئی نماز کے وقت غافل سو جائے یا نماز پڑھنی بھول جائے اور (اس غفلت و نسیان سے) گھبرائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو اسی طرح (یعنی اذان و تکبیر اور جماعت کے ساتھ نیز نماز کی تمام شرائط و آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے) پڑھ لے جس طرح اسے اس کے وقت میں پڑھتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ بلال (رض) کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے کہ شیطان ان کے پاس آیا اور انہیں (کجاوے کا) سہارا لینے پر مجبور کردیا اور جس طرح بچوں کو (سلانے کے لئے) تھپکی دی جاتی ہے شیطان انہیں تھپکتا رہا۔ یہاں تک کہ بلال (رض) پر نیند طاری ہوگئی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال (رض) کو بلایا۔ حضرت بلال (رض) نے آکر آپ ﷺ سے ویسا ہی بیان کیا جیسے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے بیان فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے (حضرت بلال (رض) کا بیان سن کر فرمایا) ، کہ میں اس بات کی (پوری یقین کے ساتھ) گواہی دیتا ہون کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ (یہ روایت امام مالک نے (رح) مرسلاً نقل کی ہے) ۔ تشریح اس قسم کا ایک واقعہ حدیث نمبر پانچ میں ذکر کیا جا چکا ہے مگر بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پہلے واقعہ سے الگ کوئی دوسرا واقعہ ہے کیونکہ وہ واقعہ تو مدینہ اور خیبر کے راستے اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے مکہ اور مدینہ کے درمیان رونما ہوا تھا۔ حدیث کے الفاظ ینادی للصلوۃ او یقیم میں لفظ او جمع کا مفہوم ادا کر رہا ہے جیسا کہ حرف واو دو چیزوں کو جمع کرنے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح اس کے معنی جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے یہ ہوں گے کہ آپ ﷺ نے حضرت بلال (رض) کو اذان اور تکبیر کہنے کا حکم دیا، یا پھر لفظ او اپنے حقیقی مفہوم یعنی شک کو ظاہر کر رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال (رض) کو اذان یا تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ مگر صحیح اور اولیٰ پہلے ہی معنی ہیں کیونکہ اس کی تائید ابوداؤد کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں الحدیث ( اَنَّہُ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَرَ بِلاَ لاً بِالَا ذَانِ وَالْاَ قَامَۃِ ) (رسول اللہ ﷺ نے بلال کو (رض) کو اذان و تکبیر کہنے کا حکم دیا) ۔ فلیصلھا کما کان یصلیھا فی وقتھا (وہ اس نماز کو اس طرح پڑھ لے جس طرح اسے اس کے وقت میں پڑھتا تھا) یہ الفاظ بظاہر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اگر جہری نماز قضا ہوئی ہو تو اس کی قضا میں جہر ہی کے ساتھ پڑھائی جائے اور اگر سری نماز قضا ہوئی ہے تو اس کی قضا بھی سری ہی کے ساتھ پڑھ دی جائے۔ مگر بعض حنفی علماء نے اس سلسلے میں اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ قضاء نماز کو بہر صورت سر یعنی خاموشی کے ساتھ پڑھنا واجب ہے۔ اَضْجَحَہُ اسندہ کے مفہوم میں ہے یعنی شیطان نے بلال (رض) کو اس طرح سہارا دیا کہ ان پر غفلت طاری ہوگئی، جیسا کہ پہلے واقعہ کے سلسلے میں گزر چکا ہے کہ حضرت بلال (رض) تہجد کی نماز سے فارغ ہو کر اپنے کجاوے سے سہارا لگا کر سو گئے تھے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قضاء نماز پڑھنے کے بعد صحابہ کرام (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے ان اللہ قبض ارواحنا ( اللہ تعالیٰ نے ہماری روحیں قبض کرلی تھیں) فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا تھا کہ ہم سب کا اس موقعہ پر سو جانا درحقیقت تقدیر الہٰی کی بناء پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر اس طرح غفلت کی نیند مسلط کردی کہ ہم نماز کے وقت جاگ نہ سکے۔ مگر بعد میں آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے پیش آمدہ صورت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے نیند کی اس غفلت کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی کہ شیطان نے ایسا طریقہ اختیار کیا کہ بلال (رض) غافل ہو کر سوئے رہے اور وقت پر نہ اٹھ سکے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب لوگ سوتے رہے اور نماز قضاء ہوگئی۔ تو اس سے بظاہر دونوں باتوں میں تعارض نظر آتا ہے کہ پہلے تو غفلت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی پھر بعد میں اس غفلت کی نسبت شیطان کی طرف کی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مسئلہ خلق افعال سے متعلق ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اندر نسیان اور غفلت پیدا کرنے کا ارادہ کیا چناچہ اس نے شیطان کو اس بات پر قادر کردیا کہ مذکورہ طریقوں یعنی حضرت بلال (رض) کو تھپکنے وغیرہ سے لوگوں کو غفلت کی نیند میں مبتلا کر دے۔ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی اعجاز شان کی زبردست غمازی کرتی ہے کہ آپ ﷺ نے معجزے کے طور پر حضرت بلال (رض) کے سو جانے کی پوری حقیقت و کیفیت بیان کردی باوجودیکہ آپ ﷺ نے اپنی ظاہری آنکھوں سے اس حقیقت کا مشاہدہ نہیں کیا تھا چناچہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اشھد انک رسول اللہ کہہ کر آپ ﷺ کی اسی اعجاز شان کی تصدیق فرمائی۔

【50】

اذان کا بعض احکام کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ مسلمانوں کی دو چیزیں مؤذنوں کی گردنوں میں لٹکی ہوئی ہیں۔ ایک تو ان کے روزے اور دوسری ان کی نمازیں۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے دو اہم اور بنیادی اعمال ایسے ہیں جو مؤذن پر موقوف ہیں یعنی مؤذن ان اعمال کی صحت و تکمیل کے ذمہ دار ہیں۔ پہلی چیز تو روزہ ہے کہ مسلمان مؤذنوں کی اذان ہی پر اعتماد کرتے ہوئے افطار کرتے ہیں۔ اور دوسری چیز نماز ہے جس کی ادائیگی مؤذنوں کی اذان کے تحت ہوتی ہے۔ بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ مؤذنوں کو چاہئے کہ وہ اپنی عظیم ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بڑے احتیاط کے ساتھ اور اوقات کی پوری رعایت کرتے ہوئے اذان کہا کریں تاکہ مسلمانوں کے ان دونوں اعمال میں خلل واقع نہ ہو۔

【51】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

یہاں نماز کے مقامات سے جگہیں مراد ہیں جہاں جہاں نماز پڑھنا مکروہ یا غیر مکروہ ہے۔ چناچہ ایسے مقامات کی وضاحت آئندہ احادیث میں کی جائے گی۔ مساجد کی فضائل و برکات کے سلسلہ میں بہت زیادہ احادیث منقول ہیں ان میں سے جن احادیث کو صاحب مشکوٰۃ نے منتخب کیا ہے وہ اس عنوان کے تحت نقل کی جائیں گی البتہ وہ احادیث جنہیں صاحب مشکوٰۃ نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ حدیث کی دوسری کتابوں میں نقل ہیں حصول سعادت و برکت کی خاطر ان میں بعض کے ترجمے یہاں نقل کئے جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے ذہنوں میں مساجد کی عظمت و فضیلت کا احساس جاگزیں ہو جس کی وجہ سے وہ خدائے تعالیٰ کی عبادت کے لئے مسجد میں جانے کو دینی اور دنیاوی فلاح و کامرانی کا ذریعہ سمجھیں۔ حضرت ابوذر غفاری (رض) نے اپنے صاحبزادہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا میرے بیٹے ! مسجد تمہارا گھر ہونا چاہئے، کیونکہ میں نے سرور کائنات ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسجدیں پرہیز گاروں کا گھر ہیں لہٰذا جس کا گھر مسجد ہو اللہ تعالیٰ اس کی راحت و رحمت کا اور پل صراط سے جنت کی طرف اس کے گزرنے کا ضامن ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مغفل (رض) فرماتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا جاتا ہے کہ شیطان سے بچنے کے لئے مسجد ایک مضبوط قلعہ ہے۔ حضرت عمر فاروق (رض) راوی ہیں کہ مساجد زمین کے اوپر اللہ تعالیٰ کا گھر ہیں اور جس کی زیارت کی گئی ہے اس پر یہ حق ہے کہ وہ اپنی زیارت کرنے والے کا اعزازو اکرام کرتا ہے یعنی جو آدمی مسجد میں جاتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کی زیارت کرتا ہے۔ اس طرح مسجد میں جانے والا بندہ تو زیارت کرنے والا ہوا اور جس کی زیارت کی گئی وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہوئی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ مسجد میں آنے والے بندوں کا عزاز و اکرام کرتا ہے اور انہیں اپنے فضل و کرم کی سعادتوں سے نوازتا ہے۔ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا جب کوئی آدمی مسجد میں نماز پڑھنے یا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لئے جگہ پکڑتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف رحمت و شفقت کی نظر فرماتا ہے جس طرح اس آدمی کے اہل خانہ جو مدت کے بعد اپنے گھر لوٹا ہو اس کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آتے ہیں اتنی بات سمجھ لیجئے کہ جن احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں جگہ پکڑنا ممنوع ہے تو اس کی شکل یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی مسجد میں کسی مخصوص جگہ کو ایسا اختیار کرتا ہے کہ اس جگہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ نہیں بیٹھتا تو یہ ممنوع ہے خواہ اس کا کسی مخصوص جگہ کو اختیار کرنا نماز پڑھنے اور ذکر اللہ ہی کے لئے کیوں نہ ہو کیونکہ اس طرح ریا و نمائش کا شبہ ہوجانے کا خطرہ ہے۔ اور اس قسم کی وہ احادیث جن سے مسجد میں جگہ پکڑنے کی فضیلت کا اظہار ہوتا ہے اس بات پر محمول ہیں کہ مسجد کو کسی دنیاوی غرض و منفعت سے قطع نظر محض نماز پڑھنے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنے کی نیت سے جائے قیام قرار دیا جائے۔

【52】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے دن) جب سرور کائنات ﷺ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس کے چاروں کونوں میں جا کر دعا کی اور بغیر نماز پڑھے باہر نکل آئے اور پھر باہر آکر کعبہ کے سامنے آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا کہ یہی قبلہ ہے۔ (صحیح البخاری ) صحیح مسلم نے اس روایت کو عبداللہ ابن عباس (رض) سے اور انہوں نے اسامہ بن زید سے روایت کیا ہے۔ تشریح کعبہ کی طرف اشارہ کر کے یہ فرمانا کہ یہی قبلہ ہے اس بات کا اعلان کرنا تھا کہ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دائمی طور پر ہوگیا ہے اور یہ قبلہ معین و مقرر ہوچکا ہے جو اب کسی حالت میں منسوخ نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ قبلہ اسی اگلی سمت ہے دوسری سمتوں سے اس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے اور نہ اس کا مطلب یہ تھا کہ صرف باہر کی سمت سے قبلہ کی طرف متوجہ ہونا معتبر ہے اندر کے حصہ میں نماز درست نہیں ہے جیسا کہ حضرت امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ قبلہ کے اندر فرض نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ کعبہ کے اندر نفل پڑھنا متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک جائز ہے کیونکہ آگے آنے والی حضرت عبداللہ بن عمر فاروق کی (رض) کی حدیث اس کے جواز کی واضح دلیل ہے۔ البتہ فرض پڑھنے کے سلسلہ میں علماء کے یہاں اختلاف ہے چناچہ اکثر علماء کعبہ کے اندر فرض نماز پڑھنے کو بھی جائز قرار دیتے ہیں مگر حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کعبہ کے اندر فرض نماز کی ادائیگی سے منع کرتے ہیں۔

【53】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے روز) سرور کائنات ﷺ ، اسامہ ابن زید، عثمان ابن طلحہ حجبی اور بلال ابن رباح (رض) خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور حضرت بلال یا حضرت عثمان (رض) نے اندر سے دروازہ بند کرلیا (تاکہ لوگ ہجوم نہ کریں) رسول اللہ ﷺ تھوڑی دیر تک اندر (دعا وغیرہ میں مشغول رہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال (رض) سے جب کہ وہ یا (رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ سے باہر آئے تو پوچھا کہ سرکار دو عالم ﷺ (خانہ کعبہ کے اندر) کیا کر رہے تھے ؟ بلال (رض) نے کہا کہ آپ نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی ایک ستون آپ کے بائیں طرف تھا، دو داہنی طرف تھے تین پیچھے تھے ان دنوں خانہ کعبہ میں چھ ستون تھے (اور اب تین ستون ہیں) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھی تھی مگر اس سے پہلے اس مضمون کی حضرت اسامہ ابن زید (رض) سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی روایت کردہ جو حدیث گزری ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے خانہ کعبہ کے اندر نماز نہیں پڑھی تھی۔ لہٰذا ان دونوں حدیثوں میں تطبیق اسی طرح ہوگی کہ یہ کہا جائے گا کہ جب رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ یہ حضرات خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور دروازہ بند کرلیا گیا تو رسول اللہ ﷺ کو دعا مانگتے ہوئے دیکھ کر حضرت اسامہ بھی کسی دوسرے کو نہ میں جا کر دعا میں مشغول ہوگئے، رسول اللہ ﷺ جس کو نہ میں کھڑے تھے وہاں سے حضرت اسامہ تو دور تھے مگر حضرت بلال آپ ﷺ کے قریب ہی تھے اس لئے حضرت بلال نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور چونکہ حضرت اسامہ اول تو آپ ﷺ سے فاصلہ پر تھے دوسرے وہ خود بھی نماز میں مشغول تھے، پھر یہ کہ آپ ﷺ نے وہ نماز بھی جلد ہی پڑھ لی تھی۔ اس لئے وہ رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔ پھر اس کے علاوہ یہ بھی منقول ہے کہ بیت اللہ کی دیواروں سے تصویریں مٹانے کے واسطے رسول اللہ ﷺ نے حضرت اسامہ کو پانی لانے کے لئے باہر بھیج دیا تھا اس لئے ہوسکتا ہے کہ جس وقت وہ باہر گئے ہوں رسول اللہ ﷺ نے اس عرصے میں نماز پڑھ لی ہو۔ بہر حال حضرت اسامہ اور حضرت بلال دونوں نے اپنے علم و مشاہدہ کے مطابق خبر دی ہے اور بہر صورت ادائیگی نماز کو ثابت کرنا ہی مختار ہے اس کی نفی نہیں۔

【54】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں نماز پڑھنا دوسری مسجدوں میں ہزار نمازیں پڑھنے سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح مسجد حرام کو مستثنیٰ اس لئے کیا گیا ہے کہ مسجد حرام نہ صرف یہ کہ دوسری مساجد کے مقابلے میں زیادہ بابرکت ہے بلکہ اپنی عظمت و برکت اور فضیلت کے اعتبار سے مسجد نبوی سے بھی افضل ہے چناچہ منقول ہے کہ مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ہوتا ہے۔ اب اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ حرم شریف میں وہ کون سی جگہ ہے جہاں نماز ادا کرنے پر اتنا ثواب ملتا ہے، چناچہ پہلا قول یہ ہے کہ کوئی متعین جگہ نہیں ہے بلکہ پورا حرام اس فضیلت و برکت کا حامل ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جس جگہ جماعت ہوتی ہے۔ علماء حنفیہ کے اقوال سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ اسی قول کو بعض شافعی علماء نے بھی اختیار کیا ہے۔ علماء حنفیہ کے نزدیک ثواب کی اس زیادتی کی فضیلت خاص طور پر فرائض سے متعلق ہے نوافل سے نہیں۔ تیسرا قول یہ ہے کہ وہ جگہ خانہ کعبہ ہے۔ یہ چوتھا قول ان چاروں اقوال میں سب سے ضعیف ہے۔

【55】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا تین مسجدوں کے علاوہ (کسی دوسری جگہ کے لئے) تم اپنے کجاو وں کو نہ باندھو (یعنی سفر نہ کرو) مسجد حرام، مسجد اقصی، (یعنی بیت المقدس اور میری مسجد (یعنی مسجد نبوی) ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح حدیث سے ظاہری طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان تین مسجدوں کے علاوہ کہ خدا نے ان کی عظمت و بزرگی کی زیادتی کے سبب انہیں ایک امتیازی شان عطا فرمائی ہے۔ کیس دوسری جگہ کا سفر جائز نہیں ہے لیکن یہ سمجھ لیجئے کہ اس ممانعت اور نہی کا تعلق تقرب و عبادت سے ہے یعنی تقرب الی اللہ اور عبادت سمجھ کر ان تینوں جگہوں کے علاوہ اور کسی جگہ کا سفر نہ کرنا چائے۔ ہاں اگر کسی دوسری جگہ تحصیل علم، ادائے حقوق، تجارت یا ایسی ہی کسی دوسری ضرورت کی بناء پر سفر کرنا ہو تو یہ الگ چیز ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے البتہ اولیاء اللہ کی قبروں کی زیارت کرنے اور متبرک مقامات پر جانے کے سلسلے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے۔ چناچہ بعض حضرات نے تو اسے مباح قرار دیا ہے اور بعض حضرات کی رائے ہے کہ یہ حرام ہے یعنی محض اولیاء اللہ کے مزارارت کی زیارت کرنے اور متبرک مقامات پر پہنچ کر حصول برکت کی خاطر مستقل سفر کرنا مطلقا جائز نہیں ہے۔ بعض حضرات نے اس حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی دوسری جگہ نذر و منت کی نیت سے سفر کا قصد کرنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ان تینوں مسجدوں کے علاوہ کسی دوسری جگہ پہنچنے کی نذر مانی جائے تو اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس نہی کا تعلق صرف مساجد سے ہے یعنی حصول برکت اور زیارت کے ارادے سے ان تینوں مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کے لئے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث میں مساجد کے علاوہ دیگر مقامات خارج از مفہوم ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان تینوں مقامات کے علاوہ دوسری جگہوں کا سفر کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ اس ارشاد کا مقصد دراصل ان تینوں مساجد کی اہمیت و عظمت اور فضیلت اور ان کے لئے سفر کرنے کی سعادت و خوش بختی ظاہر کرنا ہے یعنی آپ ﷺ کے اس ارشاد کا مطمح نظریہ ہے کہ مسلمانوں کے ذہن میں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ اگر وہ سفر کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان تینوں مساجد کی زیارت کے لئے سفر کریں یہ مساجد سب سے زیادہ باعظمت و فضیلت اور متبرک ترین مقامات ہیں۔ ان کے علاوہ کسی دوسری جگہ کا سفر کرنا کوئی فلاح وسعادت کی بات نہیں ہے بلکہ بےفائدہ صعوبت و پریشانیوں کو برداشت کرنا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے اپنی مشہور معرکۃ الآر تصنیف حجۃ اللہ البالغۃ میں اس حدیث کی وضاحت کے دوران تحریر فرمایا ہے کہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کچھ مقامات کو اپنے گمان و خیال کے مطابق باعظمت و بابرکت تصور کر کے وہاں کا سفر کرتے تھے اور ان مقامات کی زیارت کرنے کو سعادت و برکت کے حصول کا ذریعہ جانتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح اپنے وہم و گمان کے مطابق کسی جگہ اور مقام کو باعث برکت و فضیلت سمجھنا اور پھر خاص طور پر اس کی زیارت کے لئے وہاں جانا نہ صرف یہ کہ حقیقت سے انحراف اور عقیدہ اور ذہن و فکر کی کمزوری کی علامت ہے بلکہ فتنہ و فساد کا سبب بھی ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے عقیدہ و عمل کو راہ راست پر قائم رکھنے کی خاطر اس غلط طریقے کو بند فرما دیا تاکہ اسلامی شعائر کے ساتھ غیر شعائر جمع نہ ہوجائیں اور یہ طریقہ غیر اللہ کی عبادت و پرستش کا سبب نہ بن جائے، چناچہ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ مزارات اولیاء اللہ کی عبادت کرنے کی جگہیں یہاں تک کہ کوہ طور پر یہ سب اس سلسلہ میں برابر ہیں کہ خاص طور پر زیارت یا حصول برکت وسعادت کے جذبہ سے ان مقامات کا سفر کرنا مناسب نہیں ہے۔

【56】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا میرے مکان اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض (یعنی حوض کوثر) کے اوپر ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی میرے مکان اور (مسجد نبوی میں) میرے منبر کے درمیان واقع جگہ پر عبادت کرے گا تو اسے اس عظیم سعادت کے صلے میں جنت کا ایک باغ ملے گا اور جو آدمی میرے منبر کے نزدیک عبادت میں مشغول رہے گا تو قیامت کے دن وہ حوض کوثر سے سیراب ہوگا۔ حضرت امام امالک (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اپنے ظاہری معنی ہی پر محمول ہے کیونکہ روضہ کے معنی ٹکرے کے ہیں لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ کے مکان و منبر کے درمیان کی جگہ وہ ٹکڑا ہے جو جنت سے زمین پر اس جگہ منتقل کیا گیا ہے اور یہ ٹکڑا زمین کے دوسرے حصوں کی طرح قیامت کے روز فنا نہیں ہوگا بلکہ جوں کا توں جنت میں واپس چلا جائے گا۔ علامہ تور پشتی (رح) فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کے منبر اور حجرہ رسول کے درمیان کی جگہ کو روضہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس جگہ رسول اللہ ﷺ کی تربت مبارک کی زیارت کرنے والے، وہاں کے حاضرباش ملائکہ اور جن وانس ہمیشہ عبادت اور ذکر اللہ میں مشغول رہتے ہیں ایک جماعت جاتی ہے تو دوسری جماعت آجاتی ہے اس طرح لگاتار وہاں عبادت کرنے والوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے لہٰذا اس مناسبت سے اس جگہ کو روضہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے جیسا کہ ذکر کے حلقوں کو ریاض جنت فرمایا گیا ہے۔

【57】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ ہر ہفتے کو پیدل یا سواری پر مسجد قبا تشریف لے جاتے تھے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح قبا ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے تین کوس کے فاصلے پر واقع ہے یہی وہ جگہ ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمانے کے وقت مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے قیام فرمایا تھا اور یہیں آپ ﷺ نے ایک مسجد بنائی تھی جو مسجد قبا کے نام سے مشہور ہے۔ اس مسجد کی فضیلت بہت زیادہ ہے، چناچہ علامہ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ صریح ارشاد منقول ہے کہ مسجد قبا میں نماز پڑھنا عمرہ ادا کرنے کے مانند ہے۔ جلیل القدر اور باعظمت صحابی حضرت سعد ابن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ بیت المقدس میں دو مرتبہ حاضری دینے سے زیادہ میں اسے پسند کرتا ہوں کہ مسجد قبا میں نماز پڑھوں اور اگر لوگ جان لیں کہ مسجد قبا میں نماز پڑھنے کا کتنا ثواب ہے تو وہ سفر کی مصیبت و مشقت جھیل کر دور دراز سے اس مسجد میں آنے لگیں۔ بہر حال۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ معمول تھا کہ آپ ﷺ ہر ہفتے کے روز مسجد قبا جاتے تھے اور اس میں دو رکعت تحیۃ المسجد یا کوئی دوسری نماز جو تحیۃ المسجد کے قائم مقام ہوتی ہوگی پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ کے اس مبارک عمل سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہفتے کے روز علماء، صلحاء اور بزرگوں سے ملاقات کرنا سنت ہے۔

【58】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا اللہ کے نزدیک تمام شہروں میں محبوب و پسندیدہ مقامات مساجد ہیں اور بدترین و ناپسندیدہ مقامات بازار ہیں۔ (صحیح مسلم) تشریح مسجدیں اللہ کی عبادت کرنے کی جگہ ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مساجد محبوب و پسندیدہ مقامات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں ہوتا ہے رب قدوس اس پر اپنی رحمت کا سایہ کرتا ہے اور اسے خیر و بھلائی کی سعادت سے نوازتا ہے اس کے مقابلے میں بازار وہ جگہ ہے جہاں شیطان کا سب سے زیادہ تسلط رہتا ہے۔ حرص و طمع، خیانت و بددیانتی، جھوٹ اور اللہ کی یاد سے غفلت وہ چیزیں ہیں جو بازار کا جزو لاینفک اور شیطان کی خوشی کا ذریعہ ہیں۔ چناچہ اللہ کے نزدیک بازار بد ترین و ناپسندیدہ مقامات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اپنی ناگزیر ضروریات کی تکمیل کے علاوہ محض سیر و تفریح کی غرض سے بازاروں میں رہتا ہے اس پر محرومی و برائی کا سایہ رہتا ہے اور وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوتا ہے۔ یہاں ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ بت خانے، شراب خانے اور چکلے وغیرہ تو بازار سے بھی بد ترین ہیں پھر انہیں اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ اور مبغوض ترین مقامات کیوں نہیں کہا گیا ہے ؟ بازار کو کیوں کہا گیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بازاروں کو قائم کرنے کا حکم شارع کی جانب سے ہے اور یہ چیزیں ایسی ہیں جن کو بنانے اور رکھنے کا حکم شارع کی جانب سے نہیں ہے لہٰذا ارشاد کا مطلب یہ ہے جن مقامات کو بنانا اور قائم رکھنا جائز ہے ان میں سے بد ترین اور ناپسند یدہ مقام بازار ہے۔

【59】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت عثمان غنی (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جو آدمی اللہ کے لئے مسجد بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں مکان بنا دیتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اللہ کے لئے مسجد بنانے کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا حاصل کرنے کے لئے مسجد بناتا ہے، نہ کہ لوگوں کو دکھانے سنانے کے لئے اور اپنا نام پیدا کرنے کے لئے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس آدمی کے لئے جنت میں مکان بنا دیتا ہے اسی لئے یہ کہا گیا ہے کہ جو آدمی مسجد بنا کر اس پر اپنا نام لکھتا ہے تاکہ تشہیر کا ذریعہ بنے تو یہ اس کے عدم اخلاص کی دلیل ہے۔ لفظ مسجدا میں تنکیر (عمومیت) تقلیل کے لئے ہے۔ یعنی اگرچہ کوئی آدمی مسجد کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ بنائے اسے اس کا بدلہ اسی طرح دیا جائے گا۔ جس طرح کسی بڑی اور عالی شان مسجد بنانے والے کو۔ چناچہ روایت میں یہ الفاظ ہیں اگرچہ وہ مسجد بیٹر کے گھونسلے کی مانند ہو۔ یہ مسجد کی تنگی و اختصار میں مبالغہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو نیت کو دیکھتا ہے اگر کوئی آدمی دنیا کی شہرت اور نمائش کے جذبے سے بالا تر ہو کر محض اللہ کی رضا و خوشنودی کی غرض سے اور اپنی نیت کے پورے اخلاص کے ساتھ مسجد بناتا ہے تو وہ جنت میں اللہ کی طرف سے ایک مکان کا حقدار ہوگا اگرچہ اس کی بنائی ہوئی مسجد کتنی چھوٹی اور مختصر کیوں نہ ہو۔

【60】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جو آدمی دن کے اول حصہ میں یا آخری حصہ میں مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمان نوازی کا سامان تیار کرتا ہے خواہ وہ صبح کو جائے یا شام کو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسجد گویا اللہ کا گھر ہے چناچہ جو آدمی مسجد میں جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی زیارت کرنے والوں کی ضیافت کرتا ہے اور انہیں اپنی رحمت سے محروم نہیں رکھتا۔ مسجد میں جانے کی بہت سی نیتیں ہوسکتی ہیں ان میں سے ایک نیت یہ بھی ہوسکتی ہے۔ اس کتاب کی ابتداء میں حدیث انما الا اعمال بالنیات کے فائدہ کے ضمن میں نیت کے اس مسئلے اور اس کی اقسام کو مفصل طریقے سے ذکر کیا جا چکا ہے۔

【61】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوموسیٰ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا نماز کا سب سے زیادہ اجر اس آدمی کو ملتا ہے جو باعتبار مسافت کے سب سے زیادہ دور ہو (یعنی جس آدمی کا گھر مسجد سے جتنا دور ہوگا اور وہ گھر سے چل کر نماز کے لئے مسجد آئے گا اسے اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا) اور جو آدمی نماز کے انتظار میں مسجد کے اندر (بیٹھا) رہتا ہے تاکہ امام کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کا ثواب اس آدمی سے زیادہ ہے جو (تنہا) اپنی نماز پڑھ کر سو جائے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کے دوسرے جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی نماز میں اس لئے تاخیر کرے کہ امام کے ساتھ نماز پڑھ سکے تو اسے اس آدمی کے مقابلے میں جو انتظار کئے بغیر تنہا نماز پڑھ کر سو جائے اگرچہ وہ وقت مختار ہی میں نماز کیوں نہ پڑھ لے زیادہ ثواب ملتا ہے اسی طرح ایک آدمی تو وہ ہے جو چھوٹی اور مختصر جماعت کے ہمراہ نماز پڑھ لیتا ہے یا کسی امام کے ساتھ نماز ادا کرلیتا ہے جو درحقیقت امام بننے کا حق نہیں رکھتا اور دوسرا وہ آدمی ہے جو انتظار کے بعد بڑی جماعت کے ہمراہ نماز پڑھنا ہے یا ایسے امام کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے جو امامت کا حق رکھتا ہے تو اس دوسرے آدمی کو پہلے آدمی کے مقابلے میں خصوصاً جب وہ کسل و جلد بازی کے جذبہ سے ایسا کرتا ہے اسے زیادہ ثواب ملے گا۔

【62】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کے قریب کچھ مکان خالی ہوئے تو بنوسلمہ نے یہ ارادہ کیا کہ وہ مسجد کے قریب آجائیں۔ سرور کائنات ﷺ کو جب ان کے اس ارادے کی خبر ملی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ تم مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ ! ہم نے یہی ارادہ کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا بنو سلمہ ! تم اپنے مکانوں ہی میں رہو تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں تم اپنے مکانوں ہی میں رہو تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں۔ (صحیح مسلم) تشریح بنو سلمہ انصار مدینہ کا ایک خاندان ہے اس خاندان کے افراد مسجد نبوی سے دور رہتے تھے۔ جب مسجد نبوی کے قریب رہنے والوں میں سے کچھ لوگوں کا انتقال ہوجانے یا کسی دوسری جگہ چلے جانے کی وجہ سے ان کے مکانات خالی ہوئے تو بنو سلمہ نے مسجد نبوی کے قریب رہنے کی سعادت حاصل کی غرض سے ان خالی مکانات میں منتقل ہونے کا ارادے کیا۔ جب رسول اللہ ﷺ کو ان کے اس ارادہ کی خبر ملی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اس وقت تم لوگ جہاں آباد ہو وہی جگہ سعادت و بھلائی کے اعتبار سے تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ تم لوگ مسجد سے جتنا دور رہو گے مسجد آنے کے لئے تمہیں اتنا ہی چلنا پڑے گا اور نماز کے لئے تم جتنے زیادہ قدم اٹھاؤ گے تمہارے نامہ اعمال میں ان کے بدلے اتنا ہی ثواب لکھا جائے گا اس لئے بھلائی و بہتری اسی میں ہے کہ تم اپنی سابق جگہ آباد رکہو۔

【63】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اس روز (یعنی قیامت کے دن) اپنے سائے میں رکھے گا جس روز اللہ کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (١) انصاف کرنے والا حاکم۔ (٢) وہ جوان جو اپنی جوانی کو اللہ کی محبت میں صرف کر دے۔ (٣) وہ آدمی جو مسجد سے نکلتا ہے تو جب تک وہ دوبارہ مسجد میں نہیں چلا جاتا اس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے۔ (٤) وہ دو آدمی جو محض اللہ کے لئے آپس میں محبت رکھتے ہیں اگر یکجا ہوتے ہیں تو اللہ کی عبادت میں اور جدا ہوتے ہیں تو اللہ کی محبت میں یعنی حاضر و غائب خالص لوجہ اللہ محبت رکھتے ہیں۔ (٥) وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرتا ہے اور (خوف اللہ سے) اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ (٦) وہ آدمی جس کو کسی شریف النسب اور حسین عورت نے (برے ارادے سے) بلایا اور اس نے (اس کی خواہش کے جواب میں) کہہ دیا ہو کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (٧) وہ آدمی جس نے اس طرح مخفی طور پر صدقہ دیا ہو کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ معلوم ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہاں ان سات قسم کے خوش نصیب شخص کی وضاحت کی گئی ہے جو اپنے اعمال و کردار کی بناء پر قیامت کی روز میدان حشر میں اللہ کے سائے میں ہوں گے یعنی رب قدوس ان لوگوں کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دے گا اور انہیں آخرت کی سختیوں سے بچائے گا۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ سایہ الٰہی سے مراد عرش کا سایہ ہے۔ یعنی قیامت کے روز جب کہ تمام لوگ پریشان و حیران ہوں گے تو یہ سات قسم کے لوگ عرش کے سائے میں رحمت الٰہی کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوں گے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ سا تو اں آدمی وہ جو اللہ کی راہ میں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنا مال اتنی پوشیدگی سے خرچ کرتا ہے کہ جب وہ اپنے دائیں طرف کے آدمی کو کوئی چیز یعنی روپیہ پیسہ یا مال وغیرہ دیتا ہے تو اس کے بائیں طرف بیٹھے ہوئے آدمی کو بھی اس کی خبر نہیں ہوتی اور اس طرح اس کے چھپانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کہیں ریا اور نمائش کا جذبہ نہ پیدا ہوجائے جس کی وجہ سے ثواب سے محرومی رہے۔ بعض علماء نے اس کے حقیقی معنی ہی مراد لئے ہیں یعنی وہ آدمی اتنے مخفی طریقے سے صدقہ و خیرات کرتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ دائیں ہاتھ نے کس کو کیا دیا ہے ؟ اس صورت میں یہ جملہ کمال پوشیدگی کے لئے کنایہ ہوگا۔

【64】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جماعت کے ساتھ آدمی کی نماز اس نماز سے جو گھر میں یا (تجارت وغیرہ کی مشغولیت کی بناء پر) بازار میں پڑھی جائے پچیس درجے فضیلت رکھتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی آدمی اچھی طرح (یعنی آداب و شرائط کو ملحوظ رکھ کر) وضو کرتا ہے اور (کسی غرض کی وجہ سے نہیں بلکہ) صرف نماز ہی کے لئے مسجد آتا ہے تو وہ جو قدم اٹھاتا ہے اس کے ہر قدم کے عوض اس کے نامہ اعمال میں سے ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ کم ہوجاتا ہے (یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے) اور جب تک وہ نماز پڑھ کر اپنے مصلے پر بیٹھا رہتا ہے فرشتے برابر اس کے لئے یہ دعا کرتے رہتے ہیں۔ اَلَّلھُمَّ صَلِّی عَلَیْہِ اَللَّھُمَّ اَرْحَمْہُ اے اللہ ! اس کی بخشش کر ! اے اللہ اس پر رحم کر، جب تک تم میں سے کوئی نماز کے انتظار میں رہتا ہے تو اس کا وہ وقت نماز ہی میں شامل سمجھا جاتا ہے اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب کوئی مسجد میں گیا اور نماز ہی کی وجہ سے وہاں رک گیا (تو گویا وہ نماز ہی میں ہے) اور فرشتوں کی دعاء میں یہ الفاظ زیادہ ہیں اَلَّلھْمَّ اَغْفِرْلَہُ اَلَّلھْمَّ تَبْ عَلَیْہِ (یعنی اے اللہ ! اس بندے کی بخشش فرما، اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما) اور (یہ اس وقت تک ہوتا رہتا ہے) جب تک کہ وہ کسی (مسلمان) کو (اپنی زبان یا ہاتھ سے) ایذاء نہ پہنچائے اور باوضو رہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پچیس درجے زیادہ ثواب کی فضیلت اسی وقت حاصل ہوگی جب کہ نماز جماعت کے ساتھ اور مسجد میں پڑھی جائے۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ فرشتے نمازی کے حق میں اللہ کی رحمت و برکت کی دعا اس وقت تک کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ مسلمان کو اپنے کسی عمل یا اپنے کسی قول سے ایذاء نہیں پہنچاتا۔ گویا فرشتوں کے دعا کرنے کے حق میں یہ حدیث معنوی ہے۔ اس کے بعد حدث ظاہری کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب تک نمازی باوضو رہے یعنی اگر کوئی نمازی کسی مسلمان کو ایذاء پہنچائے گا یا اس کا وضو ٹوٹ جائے گا تو فرشتے اس کے لئے رحمت و برکت اور مغفرت کی دعا نہیں کریں گے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتوں کی دعا کی فضیلت اسی وقت حاصل ہوگی جب کہ نمازی نماز پڑھ کر وہیں مصلٰی پر بیٹھا رہے اگر وہاں سے اٹھ کر دوسری جگہ جا بیٹھے گا تو یہ فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔ بعض مشائخ اور بزرگ نماز پڑ کر ریاء و نمائش وغیرہ کے خوف سے مصلی سے اٹھ جاتے ہیں اور کسی گوشے وغیرہ میں بیٹھ کر ذکر و تسبیح میں مشغول ہوجاتے ہیں، گو ان کی نیت صحیح اور ان کا یہ طریقہ قابل جزاء و انعام ہے کہ انہیں ذکر و تسبیح کی فضیلت حاصل ہوتی ہے مگر نماز پڑھ کر مصلی ہی پر بیٹھے رہنے کی جو فضیلت ہے وہ انہیں حاصل نہیں ہوتی۔

【65】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوسید ( حضرت ابواسید مالک بن ربیعہ کے صاحبزادے اور ساعدی انصاری ہیں، بدری صحابہ میں شامل اور سب سے بعد میں ٦٠ ھ میں بعمر ٧٨ سال وفات پائی ١٢) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو۔ تو اسے یہ دعا پڑھنی چاہئے۔ اَلَّلھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَبَ رَحْمَتِکَ (اے اللہ اپنی رحمت کے دروازے میرے لئے کھول دے) اور جب مسجد سے نکلے تو یہ دعا پڑھ لیا کرے۔ اَلَّلھُمَّ اِنِّی اَسْلئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ (اے اللہ ! میں تیراہی فضل چاہتا ہوں) ۔ (صحیح مسلم) تشریح پہلی دعا کا مطلب تو یہ ہے کہ اے اللہ ! اس مقدس و محترم جگہ کی برکت سے یا اس مسجد میں نماز پڑھنے کی توفیق دینے کے سبب سے یا نماز کے حقائق ظاہر کرنے کے سبب سے مجھ پر اپنی رحمتوں، اپنی نوازشوں اور اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دے۔ دوسری دعا میں فضل سے مراد حلال رزق ہے کیونکہ نماز سے فارغ ہو کر بندہ اسباب معیشت ہی کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔

【66】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوقتادہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ حدیث حضرت امام شافعی (رح) کے مسلک کی دلیل ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ تحیۃ المسجد یعنی مسجد میں داخل ہونے کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے اس لئے کہ اس حدیث میں امر وجوب کے لئے ہے۔ حنفیہ کے نزدیک چونکہ تحیۃ المسجد واجب نہیں مستحب ہے اس لئے وہ حضرات کہتے ہیں کہ یہاں امر (حکم) وجوب کے لئے نہیں بلکہ استحباب کے لئے ہے۔

【67】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت کعب ابن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ (کی عادت تھی کہ) جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو چاشت کے وقت آتے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور وہاں دو رکعت نماز پڑھ کر (تھوڑی دیر تک) بیٹھے رہتے۔ (پھر مکان میں تشریف لے جاتے) (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح سفر سے واپسی کے بعد آپ ﷺ مسجد میں دو رکعت نماز پڑھ کر وہاں تھوڑی دیر تک اس لئے بیٹھے رہتے تھے تاکہ وہ صحابہ کرام جو آپ ﷺ کی عدم موجودگی کی وجہ سے آپ کی صحبت سے محروم رہتے تھے۔ اس موقعہ پر آپ ﷺ سے شرف ملاقات اور آپ ﷺ کی خدمت کی سعادت حاصل کرسکیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسافر کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ سفر سے واپس آکر گھر جانے سے پہلے مسجد میں آکر نماز پڑھے اور تھوڑی دیر تک وہاں بیٹھا رہے۔

【68】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ جو آدمی یہ سنے (یاد دیکھے) کہ کوئی آدمی مسجد میں اپنی کوئی گم شدہ چیز تلاش کر رہا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کے جواب میں یہ کہہ دے کہ اللہ کرے تیری گم شدہ چیز تجھے نہ ملے۔ اس لئے کہ مسجدوں کو اس لئے نہیں بنایا گیا ہے (کہ ان میں جا کر گم شدہ چیزوں کو تلاش یا دریافت کیا جائے۔ (صحیح مسلم) تشریح اس سلسلہ میں بظاہر تو مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موقعہ پر یہ کلمات اس آدمی کی تنبیہ و توبیخ کے لئے صرف زبان سے ادا کئے جائیں دل سے بد دعا نہ کی جائے اور نہ درحقیقت یہ خواہش ہو کہ ایک مسلمان کی گمشدہ چیز اسے واپس نہ ملے۔ اور اگر کوئی آدمی درحقیقت دلی خواہش پر یہی کھتا ہے کہ ایسے آدمی کو اس کی گم شدہ چیز نہ ملے تاکہ آئندہ کے لئے اسے عبرت ہو اور اپنے اس نا مناسب فعل کی سزا پائے اور یہ کہ پھر آئندہ وہ ایسی حرکت نہ کرنے پائے تو ایک حد تک یہ بھی صحیح ہوگا۔ اس سلسلہ میں مسجد کی عظمت و تقدس کا تقاضا تو یہ ہے کہ صرف گم شدہ چیز تلاش کرنے ہی کی تخصیص نہیں بلکہ ہر وہ چیز ممنوع ہے جس کو اختیار کرنا مسجد کی بناء غرض کے منافی ہو جیسے خریدو فروخت وغیرہ۔ چناچہ عہد سلف کے بعض علماء اسی بناء پر کہ مسجدیں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ہیں اور کسی مقصد کی تکمیل کے لئے نہیں مسجد میں کسی سائل کو صدقہ وغیرہ دینا بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے۔

【69】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جو آدمی کہ اس بدبودار درخت (یعنی پیاز، لہسن وغیرہ) میں سے کچھ کھائے تو ہماری مسجد کے قریب بھی نہ آئے کیونکہ جس (بدبو) سے انسان کو تکلیف ہوتی ہے اس سے فرشتوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس طرح بدبوردار چیزوں سے انسانوں کو تکلیف پہنچتی ہے اسی طرح فرشتے بھی ان سے تکلیف محسوس کرتے ہیں لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ پیاز و لہسن وغیرہ کھا کر مسجدوں میں نہ آئیں کیونکہ مسجد میں فرشتوں کے حاضر ہونے کی جگہیں ہیں اس لئے انہیں تکلیف ہوگی اس حکم میں ہر وہ چیز داخل ہے جو بدبودار ہو اس کا تعلق خواہ کھانے پینے سے ہو یا رہن سہن سے مثلا منہ غلاظت و بدبو، بغل وغیر کی گندگی و تعفن وغیرہ وغیرہ۔ پھر مسجد ہی کی طرح ان دوسری جگہوں کا بھی یہی حکم ہے جہاں مجالس عبادت و وعظ منعقد ہوتی ہوں یا جہاں قرآن و حدیث کی تعلیم ہوتی ہو یا جہاں ذکر و تسبیح کے حلقے ہوتے ہوں کہ ان مقامات پر بھی بد بودار چیزوں کے ہمراہ نہ جانا چاہئے۔

【70】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ مسجد نبوی میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس تھوک کو زمین میں دبا دیا جائے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح مسجد کے تقدس و احترام کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں تھوک کر گندگی و غلاظت نہ پھیلائی جائے اور اگر اتفاقاً ایسا غلطی کا ارتکاب ہوجائے تو اس گناہ کے دفعیہ کا طریقہ یہ ہے کہ اس تھوک کو زمین دوز کر کے اسے دور کردیا جائے۔

【71】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوذر (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ میرے سامنے میری امت کے اچھے برے اعمال پیش کئے گئے ہیں میں نے اس کے نیک اعمال میں تو راستہ سے تکلیف دینے والی چیز کو دور کردینا پایا اور برے اعمال میں مسجد کے اندر تھوکنا دیکھا جس کو دبایا نہ گیا ہو۔ (صحیح مسلم)

【72】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے سامنے نہ تھوکے اس لئے کہ وہ جب تک نماز کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے مناجات (سرگوشی) کرتا ہے اور اسے اپنے دائیں طرف بھی نہیں تھوکنا چاہیے کیونکہ دائیں طرف ایک فرشتہ ہوتا ہے ہاں بائیں طرف یا قدموں کے نیچے تھوک لے اور پھر اسے زمین میں دبا دے۔ ابوسعید کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ بلکہ اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوک لے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں نمازی کو اس آدمی سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنے مالک کے سامنے کھڑا ہو کر اس سے سر گوشی کرتا ہے لہٰذا جس طرح اس موقع پر وہ آدمی اپنے مالک کی عزت احترام کے تمام آداب کو ملحوظ رکھتا ہے اسی طرح نمازی کے لئے بھی واجب ہے کہ جب وہ اپنے پروردگار حقیقی کے سامنے نماز کے لئے کھڑا ہو تو حضوری کے تمام شرائط و آداب کو پورار پورا خیال رکھے۔ اور اس سلسلے میں ایک اہم ادب یہ ہے کہ اپنے سامنے نہ تھوکے، گو رب قدوس کی ذات پاک جہت و سمت کی قیود سے پاک ہے تاہم سامنے نہ تھوکنے کی قید لگا کر آداب حضوری کے راستے سے روشناس کرایا جا رہا ہے کہ پروردگار عالم کے دربار میں حاضری کے وقت ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔ جو رب ذوالجلال کی شان و عظمت وکبریائی کی منافی ہو۔ فرشتے سے مراد یا کراما کا تبین کے علاوہ وہ فرشتہ ہے جو خاص طور پر نماز کے وقت نمازی کی تائید اور اس کی رہبری اور اس کی دعا پر آمین کہنے کے لئے حاضر ہوتا ہے لہٰذا نمازی پر واجب ہے کہ اس فرشتے کی مہمانی کا خیال کرتے ہوئے کر اماکا تبین سے زیادہ اس کا اکرام و احترام کرے کیونکہ کراما کا تبین تو ہر وقت ہی ساتھ رہتے ہیں اور اس کے اکرام و احترام کی شکل یہی ہوسکتی ہے کہ دوران نماز اپنی دائیں طرف نہ تھوکے کہ یہ فرشتہ اسی سمت رہتا ہے۔ یا پھر فرشتے سے مراد کراماً کا تبین ہے کہ اس صورت میں کہ کہا جائے گا کہ آپ ﷺ نے صرف دائیں طرف تھوکنے سے اس لئے منع فرمایا تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ دائیں طرف کا فرشتہ جو بندے کے نیک اعمال لکھنے پر مقرر ہے بائیں طرف کے فرشتے سے جو بندہ کے برے اعمال لکھنے پر متعین ہے رتبے کے اعتبار سے زیادہ افضل ہے جس طرح کہ دائیں سمت بائیں سمت سے افضل ہوتی ہے یا رحمت کا فرشتے عذاب کے فرشتہ سے زیادہ افضل ہوتا ہے۔

【73】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے اس بیماری میں جس سے اٹھ نہ سکے (یعنی مرض وفات میں) فرمایا۔ عیسائیوں اور یہودیوں پر اللہ کی لعنت ہو انہوں نے اپنے انیباء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا رکھا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح سرکار دو عالم ﷺ کا پیمانہ حیات جب لبریز ہونے لگا اور آپ ﷺ کو یقین ہوگیا کہ اب اس دنیا سے رخصت ہونے کا وقت قریب آگیا ہے تو آپ ﷺ نے اس خوف سے کہ مبادا میری امت کے لوگ بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنائیں اس فعل شنیع کی ممانعت کا اظہار یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت کرتے ہوئے فرمایا کیونکہ ان امتوں کے لوگ اپنے انبیاء کی کرام قبروں پر سجدہ کیا کرتے ہیں۔ قبروں کو سجدہ گاہ بنانا دو طریقوں سے ہوتا ہے ایک تو یہ کہ صاحب قبر یا محض اپنی قبر کی عبادت و پرستش کے مقصد سے قبروں پر سجدہ کیا جائے جیسا کہ بت پرست بتوں کو پوجتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سجدہ تو قبر کو کیا جائے مگر اس سے مقصد اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت و پرستش ہو اور یہ اعتقاد ہو کہ اس طرح قبر کی طرف نماز پڑھنا اور سجدہ کرنا درحقیقت پروردگار حقیقی کی عبادت کرنا ہے اور یہ کہ اس طریقے سے پروردگار کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور اس کا قرب میسر ہوتا ہے۔ یہ دونوں طریقے غیر مشروع اور اللہ و رسول کی نظر میں ناپسندیدہ ہیں۔ پہلا طریقہ تو صریحا کفر و شرک ہے۔ دوسرا طریقہ بھی حرام ہے کیونکہ اس میں اللہ کی پرستش و عبادت میں دوسرے کو شریک کرنا لازم آتا ہے اگرچہ شرک خفی ہے یہ دونوں طریقے اللہ کی لعنت کا سبب ہیں۔ یہ بات بھی سمجھ لیجئے کہ نبی کی قبر یا کسی بزرگ و ولی کی قبر کی طرف ازراہ بزرگ و تعظیم نماز پڑھنا حرام ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

【74】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت جندب (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ آگاہ رہو ! تم سے پہلے (یعنی دوسری امتوں کے) لوگوں نے اپنے انبیاء اور اولیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔ لہٰذا خبردار ! تم لوگ قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم)

【75】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ تم کچھ نمازیں اپنے گھروں میں بھی پڑھ لیا کرو اور گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح گھروں کو قبریں نہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے گھروں میں قبریں نہ بناؤ اور اپنے کسی مردے کو گھر کے اندر دفن نہ کردیا کرو اس سے یہ مراد ہے کہ قبروں کو گھروں کی مانند نہ سمجھو یعنی جس طرح کسی حاجت و ضرورت کے وقت لوگ اپنے گھروں ہی کا رخ کرتے ہیں تاکہ اس حاجت و ضرورت کو پوری کرسکیں۔ اسی طرح اگر کسی کو کوئی حاضت و ضرورت پیش ہو تو وہ قبروں پر دوڑا ہوا نہ چلا جائے اور صاحب قبر سے مرادیں نہ مانگنے لگے بلکہ جب کوئی حاجت و ضرورت پیش ہو تو اللہ ہی سے مانگے اور اسی کے سامنے دست سوال دراز کرے کہ سب اسی کے محتاج ہیں یہاں تک کہ جس پیر و صاحب کو حاجت روا اور مرادیں پوری کرنے والا سمجھا جاتا ہے وہ بھی اللہ ہی کے رحم و کرم اور اس کے فضل کا محتاج ہے۔ یا پھر اس سے یہ مراد ہے کہ جس طرح مقبروں میں نماز نہیں پڑھی جاتی اسی طرح اپنے گھروں کو بھی بےذکر الہٰی نہ چھوڑو بلکہ اپنے گھروں میں بھی نمازیں پڑھا کرو تاکہ نماز اور ذکر الہٰی کی برکت سے گھر میں رحمت الٰہی کا نزول ہو۔ اسی لئے علماء نے لکھا ہے کہ سوائے فرض نماز کے سنت و نوافل وغیرہ مسجد کی بہ نسبت گھروں میں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔

【76】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث کا تعلق مدینہ منورہ کے باشندوں سے ہے کیونکہ مدینہ منورہ سے قبلہ جانب جنوب واقع ہے نیز اس حدیث کا تعلق ان اطراف کے لوگوں سے بھی ہے جن کا قبلہ مدینہ کے موافق جانب جنوب واقع ہے لہٰذا اس اعتبار سے ان لوگوں کا قبلہ مشرق و مغرب کے درمیان ہوا۔

【77】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت طلق ابن علی (رض) فرماتے ہیں کہ ہم ایک جماعت کی شکل میں سرور کائنات ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم سب نے آپ ﷺ سے (اسلام کی) بیعت کر کے آپ ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی اور پھر یہ بھی عرض کردیا کہ ہماری سر زمین پر ہمارا ایک گرجا بنا ہوا ہے (اس کو کیا کریں) اس کے بعد ہم نے آپ ﷺ کے وضو کا بچا ہوا پانی مانگا۔ آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور وضو کیا اور (وضو کے بعد بقیہ پانی سے) کلی کی اور اس کلی کا پانی ہماری چھاگل میں ڈال دیا اور فرمایا کہ جاؤ ! جب تم اپنے ملک میں پہنچو تو اس گرجے کو توڑ کر اس کی جگہ یہ پانی چھڑک دینا (تاکہ دین و اسلام کے انوار و برکات وہاں پھیل جائیں) اور پھر وہاں مسجد بنا لینا۔ ہم نے عرض کیا کہ ہمارا شہر تو بہت دور ہے اور گرمی سخت ہے لہٰذا یہ پانی (وہاں پہنچتے پہنچتے) خشک ہوجائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس میں اور پانی ملا لینا اس سے اس کی پاکیزگی و برکت ہی میں اضافہ ہوگا۔ (سنن نسائی ) تشریح (بیعۃ) نصاری کے عبادت خانے کو کہتے ہیں جسے ہمارے ہاں گرجا کہا جاتا ہے۔ یہ حضرات جو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف باسلام ہوئے تھے نصاری قوم سے تھے چناچہ جب یہ لوگ ایمان و اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوگئے تو ان کی خواہش ہوئی کہ اپنے گرجے کو جو پہلے مذہب کی یادگار عبادت گاہ ہے توڑ ڈالیں اور اس جگہ برکت حاصل کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کے وضو کا بچا ہوا دھان مقدس سے نکلا ہوا متبرک پانی چھڑک ڈالیں تاکہ اس جگہ ایک دوسرے مذہب کی عبادت گاہ ہونے کی وجہ سے وہاں کفر و شرک کے جو جراثیم پیداہو گئے ہیں وہ اس پانی کی برکت سے ختم ہوجائیں اور وہاں دین اسلام کے فیوض و برکات پھیل جائیں۔ چناچہ لفظ فاستوہبناہ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر دھوپ و گرمی کی شدت اور طویل مسافت کی وجہ سے یہ پانی خشک ہونے لگے اور تمہیں اس بات کا خدشہ ہو کہ منزل مقصود تک پہنچے پہنچتے یہ پانی بالکل ہی خشک ہوجائے گا تو اس پانی میں دوسرا پانی ملا لینا لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ اور پانی ملا لینے سے اس پانی کی برکت و فضیلت ختم ہوگئی ہے یا کم ہوگئی ہے بلکہ یہ تو پہلا پانی جو چھاگل میں تھا بعد میں ڈالے جانے والے اس پانی میں خیر و برکت کی زیادتی کرے گا یا پھر بعد میں ڈالے جانے والے اس دوسرے پانی میں منجاب اللہ یہ شرف و فضیلت پیدا ہوجائے گی کہ اس پانی کی وجہ سے چھاگل میں موجود پہلے پانی میں مزید خیر و برکت ہوجائے گی اور حاصل یہ کہ مزید پانی ملا لینے سے خیر و برکت زیادہ ہی ہوگی کم نہ ہوگی یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آب زم زم کو باعث خیر و برکت جاننا اور پھر اسے بطور تبرک دوسری جگہ لے جانا جائز ہے۔ نیز اس پر قیاس کیا جاتا ہے کہ علماء و مشائخ اور اولیاء اللہ کے استعمال کردہ کھانے اور پانی یا ان کے بدن کے اترے ہوئے کپڑوں کو خیر و برکت کا باعث جاننا اور انہیں متبرک سمجھ کر استعمال کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں حدود شرع سے تجاوز نہ ہو یعنی ان چیزوں کو متبرک و مقدس سمجھ کر ان کی حدیث سے زیادہ تعظیم و تکریم یا نعوذ باللہ ان کی پرستش نہ ہونے لگے۔

【78】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے محلوں میں مسجد بنانے کا حکم فرمایا ہے اور یہ کہ (وہ مسجدیں) پاک و صاف رکھی جائیں اور ان میں خوشبوئیں رکھی جائیں۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی، ابن ماجہ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محلوں میں مسجدیں بنانا اشد ضروری ہیں کیونکہ مسجدوں کا قیام نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی دینی و مذہبی حمیت اور قوی و ملی بیداری کا ثبوت ہے بلکہ ان کی وجہ سے اہل محلہ پر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ مسجدوں کو محض بنا ڈالنا ہی ایمانی حرارت اور دینی و مذہبی بیداری کا ثبوت نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ مسجدوں کو آباد بھی رکھا جائے۔ وہاں کسی قسم کی کوئی غلاظت و گندگی نہ ڈالی جائے اور نہ وہاں رہنے دی جائے اور اگر بتی وغیرہ اور خوشبوؤں کے ذریعے انہیں معطر رکھا جائے۔ اور اگر ان چیزوں کے کرنے کے وقت اس مقدس و محترم جگہ کی تعظیم و تکریم کی نیت کی جائے اور یہ نیت بھی کی جائے کہ پاکی و صفائی اور خوشبو کی وجہ سے مسجد میں آنے والے فرشتے اور مسلمان بھائی خوش ہوں گے تو ثواب میں بہت زیادتی ہوگی۔

【79】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ مجھ کو مسجدوں کے بلند کرنے او آراستہ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جس طرح یہود و نصاری ( اپنے عبادت خانوں کی) زینت کرتے ہیں اسی طرح تم بھی (مساجد) کی زینت کرو گے۔ (ابوداؤد) تشریح زخرف کہتے ہیں علماء کو اور کسی چیز کی کمال خوبی کو حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ لوگ مسجدوں میں نقش و نگار کریں گے اور ان کے درودیوار پر سونا چڑھائیں گے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کا یہ قول رسول اللہ ﷺ کے بعد حسب عادت، انسانی لوگوں کے افعال کی خبر دینے کے مترادف ہے یعنی آئندہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو مسجدوں کو منقش و مزین کریں گے اور ان کے درودیوار پر سونا چڑھائیں گے حالانکہ ان کا یہ طریقہ خلاف سنت ہوگا کیونکہ اسلام کی سادگی پسند فطرت اس قسم کی چیزوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ مزید یہ کہ اس طریقے سے یہود و نصاری کی مشابہت ہوتی ہے۔ متاخرین علماء نے مساجد کی زیب وزینت اور ان میں نقش و نگار کی اجازت دی ہے اور کہا کہ لوگ اپنے مکانوں کو بلندو مطلا بناتے ہیں اور انہیں منقش و مزین کرتے ہیں اگر مسلمان اپنی مسجدوں کو لکڑی و مٹی سے بالکل سادہ بنائیں تو ہوسکتا ہے کہ عوام کی نظروں میں ان کی دقعت و عظمت نہ ہو اس لئے مسجدوں کو ایسے ڈھنگ سے بنانے کی اجازے دے دی گئی ہے جو موجودہ زمانے کے معیار پر دقیع و محترم سمجھی جائیں۔ مسجد نبوی زمانہ رسول اللہ ﷺ میں بالکل سادہ اور کچی تھی دیواریں اینٹوں کی اور چھت کھجور کی ٹہنیوں کی تھی اور اس کے ستون کھجور کی لکڑی کے تھے، پھر جب حضرت عمر (رض) نے اس کو دوبارہ بنوایا تو انہوں نے بھی اسی طرح مسجد کو سادہ رکھا۔ اس کے بعد حضرت عثمان غنی (رض) نے اپنے دور خلافت میں اس مسجد کو از سر نونئے طرز پر تعمیر کروایا چناچہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ مسجد کو وسیع تر بنادیا بلکہ اس کی دیواروں میں منقش پتھر اور چھت میں سال استعمال کیا اس طرح مسجد نبوی رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے مقابلے میں بہت بڑی اور خوبصورت ہوگئی۔

【80】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ قیامت کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگ مساجد کے بارے میں فخر کیا کریں گے۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی، سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ قرب قیامت لوگ بڑی بڑی مسجدیں بنائیں گے اور انہیں آراستہ کریں گے اور اس سے ان لوگوں کا مقصد اللہ کی رضا و خوشنودی اور ان کی نیت خالصۃ اللہ کیلئے نہیں ہوگی بلکہ ان کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ بڑے فخر و مباہات کے ساتھ اپنے اس کار نامے کو دنیا کے سامنے پیش کرسکیں اور دنیا والے ان کی تعریف و بڑائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیں۔

【81】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت انس راوی (رض) ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ میری امت کے ثواب میرے سامنے پیش کئے گئے۔ یہاں تک کہ اس کوڑے اور خاک کا ثواب بھی (پیش کیا گیا) جسے کسی آدمی نے مسجد سے (جھاڑو دے کر) نکالا ہو، نیز میرے سامنے میری امت کے گناہ بھی پیش کئے گئے۔ ان گناہوں میں مجھ کو اس سے بڑا کوئی گناہ نظر نہیں آیا کہ کسی کو قرآن کی کوئی سورت یا آیت یاد ہو پھر اس نے اس کو بھلا دیا ہو۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد) تشریح کسی کو قرآن کی سورت یا آیت کا یاد ہوجانا اللہ کی بڑی نعمت ہے اور جس نے یاد کر کے اسے بھلا دیا گویا اس آدمی نے اس نعمت کی سخت بےقدری و ناشکری کی اور اس کی قدر نہ جانی لہٰذا ایسا آدمی سخت گناہ گار ہوگا۔

【82】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت حضرت بریدہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ جو لوگ اندھیرے میں مسجدوں کی طرف جاتے ہیں انہیں یہ خوشخبری پہنچا دو کہ قیامت کے دن (اس کے سبب سے) ان کو کامل روشنی نصیب ہوگی۔ ( جامع ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح اس ارشاد میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ آیت (نُوْرُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا) 66 ۔ التحریم 8) ان کا نور ان کے داہنے اور ان کے سامنے دوڑتا ہوگا (اور) یوں دعا کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمارے لئے اس نور کو اخیر تک رکھیے۔

【83】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ جب تم کسی آدمی کو مسجد کی خبر گیری کرتے ہوئے دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو اس لئے کہ ارشاد ربانی ہے۔ آیت (اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ) 9 ۔ التوبہ 18) اللہ کی مسجدوں کو وہی آدمی آباد کرتا ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لایا۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، دارمی) تشریح اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ تم اگر کسی ایسے آدمی کو دیکھو جو اللہ کے گھر کی خبر گیری کرتا ہو یعنی اس کی حفاظت و مرمت کرتا ہے اس میں جھاڑو وغیرہ دے کر اس کی صفائی و ستھرائی رکھتا ہے اس میں نماز پڑھتا ہے اور عبادت کرتا ہے اور اس میں دینی علوم کے درس و تدریس میں مشغول رہتا ہے تو تم اس کے حق میں گواہی دو کہ وہ مرد مومن اور اللہ و رسول کا اطاعت گذارو فرمانبردار بندہ ہے۔

【84】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت عثمان ابن مظعون (رض) ( اسم گرامی عثمان بن مظعون اور کنیت ابوسائب ہے۔ جلیل القدر صحابی اور چودھویں مرد مسلمان ہیں۔ ہجرت حبشہ میں وہ اور ان کے صاحبزادے سائب شامل ہے اور ہجرت مدینہ میں شریک ہوئے مہاجرین میں سے پہلے صحابی ہیں جنہوں نے مدینہ میں ٢ ھ میں وفات پائی، رسول اللہ ﷺ نے آپ کی نعش کو بوسہ دیا تھا) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! مجھ کو خصی (نامرد) ہونے کی اجازت دیجئے (تاکہ زنا میں مبتلا ہونے کا خدشہ نہ رہے) آپ ﷺ نے فرمایا۔ وہ آدمی ہم میں سے نہیں ہے (یعنی ہماری سنت کے راستے سے ہٹا ہوا ہے) جو کسی کو خصی کرے یا خود خصی ہوجائے (بلکہ) میری امت کے لئے خصی ہونا روزہ رکھنا ہے (کیونکہ روزہ رکھنے سے شہوت جاتی رہتی ہے) حضرت عثمان نے عرض کیا کہ پھر مجھے سیر و سیاحت کی اجازت عنایت فرمائی جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ میری امت کی سیاحی یہ ہے کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کیا جائے۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ اچھا تو پھر مجھے راہب بننے کی اجازت دے دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا میری امت کا راہب بننا یہی ہے کہ مسجدوں میں نمازوں کے انتظار میں بیٹھا جائے۔ (شرح النسۃ) تشریح حضرت عثمان ابن مظعون (رض) کی خواہش یہ تھی کہ وہ ایسے طریقے اختیار کریں کہ جس سے دنیا کی لذتوں، نفسانی خواہشات اور شیطانی حرکات میں نہ مبتلا ہو سکیں تاکہ اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہو، چناچہ سب سے پہلے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کی اجازت طلب کی کہ وہ اپنی قوت مردانگی کو ختم کر کے بالکل نامرد بن جائیں تاکہ زنا جیسے بڑے گناہ میں ملوث ہونے کا خدشہ نہ رہے رسول اللہ ﷺ نے ان کی اس خواہش کو انسانی فطرت اور اسلامی روح کے منافی سمجھتے ہوئے انہیں اس فعل سے باز رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگر تم یہی چاہتے ہو کہ نفسانی خواہشات ختم ہوجائیں اور روحانی و عرفانی جذبات غالب رہیں تو اس کا آسان علاج یہ ہے کہ روزہ رکھا کرو کیونکہ روزہ شہوت کو ختم کرتا ہے اور تعلق مع اللہ کے جذبات کو جلا بخشتا ہے۔ پھر انہوں نے سیر و سیاحت کی اجازت طلب کی تاکہ اس مشغلے سے نفسانی خواہشات میں کمی آجائے۔ آپ ﷺ نے اس سے بھی منع فرمایا کیونکہ زمین پر گھومنا پھرنا اور دور دراز کا سفر اختیار کرنا صرف جہاد فی سبیل اللہ میں مطلوب و محمود ہے، محض سیر و سیاحت کی خاطر خواہ مخواہ دنیا کے چکر کاٹنا جیسا کہ بعض فقیر قسم کے لوگ کرتے ہیں عقلمندی کی بات نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی اخروی منفعت و بھلائی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے راہب بن جانے کی خواہش ظاہر کی جیسا کہ اہل کتاب میں وہ لوگ جو دیندار اور مذہبی قسم کے ہوتے ہیں دنیاوی علائق سے گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں اور دنیا کی تمام لذتوں اور مشغولیات کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ نہ عورتوں کے پاس جاتے ہیں اور نہ دوسرے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان کی اس خواہش کو بھی رد کردیا کیونکہ رہبانیت اہل کتاب کا شیوہ ہے یہ اسلام کی تعلیمات اور اسلام کی فطرت کے بالکل منافی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہماری امت میں رہبانیت صرف اسی قدر ہے کہ مسجدوں میں نمازوں کے انتظار میں بیٹھا جائے کیونکہ اس طرح تمام لوگوں اور دنیا کی تمام چیزوں سے منہ پھیر کر پروردگار کی طرف توجہ ہوتی ہے اور اس پر بیشمار اجر و انعام ملتے ہیں اس کے مقابلے میں اہل کتاب کی جو رہبانیت ہے وہ بالکل بےفائدہ اور بےکار محض ہے کہ اس کا انجام دینی اور دنیوی اعتبار سے اچھا نہیں ہوتا۔

【85】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت عبدالرحمن بن عائش (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا میں نے اپنے پروردگار بزرگ و برتر کو (خواب میں) بہت ہی اچھی صورت میں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا کہ مقربین فرشتے کس معاملے میں بحث کر رہے ہیں میں نے عرض کی پروردگار ! تو ہی بہتر جانتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ (یہ سن کر) اللہ تعالیٰ نے میرے کندھوں کے درمیان اپنا ہاتھ رکھا جس کے ٹھنڈک مجھے اپنے سینہ پر محسوس ہوئی (اور اس کی وجہ سے) میں زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو جان گیا، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی۔ آیت (وَكَذٰلِكَ نُرِيْ اِبْرٰهِيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِيَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ ) 6 ۔ الانعام 75) ترجمہ اور اس طرح ہم نے ابراہیم کو زمین و آسمانوں کا تصرف دکھایا تاکہ وہ یقین کرنے والے لوگوں میں شامل ہوجائے۔ (دارمی مرسلا) اور ترمذی نے یہ بھی روایت بعض الفاظ کے اختلاف کے ساتھ عبدالرحمن بن عائش، عبداللہ ابن عباس اور معاذ ابن جبل (رض) سے نقل کی ہے اور اس میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (یعنی آپ کو زمین و آسمانوں کا علم دینے کے بعد سوال فرمایا کہ اے محمد ﷺ آپ کو معلوم ہے کہ مقریبن فرشتے کس معاملے میں بحث کر رہے ہیں ؟ (آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ) میں نے عرض کیا، ہاں ! میں جانتا ہوں کفارات (یعنی گناہوں کو ختم کرنے والی چیزوں) کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں اور وہ کفارات (یہ) ہیں کہ نمازوں کے بعد مسجدوں میں (دوسرے وقت کی نماز کے انتظار میں یا ذکر و تسبیح کے لئے) بیٹھا جائے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے پیدل چلا جائے اور سختی کے وقت (مثلاً بیماری یا سردی میں اعضائے وضو پر) وضو کا پانی اچھی طرح پہنچا یا جائے (لہٰذا) جس نے یہ کیا (یعنی مذکورہ اعمال کئے) وہ بھلائی پر زندہ رہے گا اور بھلائی ہی پر مرے گا اور گناہوں سے ایسا پاک ہوجائے گا گویا اس کی ماں نے آج ہی اس کو جنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اے محمد ! جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہو لیں تو یہ دعا پڑھ لیا کیجئے۔ اَللّٰھُمَّ اِنِی اَسْئَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرَکَ الْمُنْکَرَاتِ وَ حُبَّ الْمَسَاکِیْنِ فَاِذَا اَرْدْتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِی اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ یعنی اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیوں کے کرنے اور برائیوں کے چھوڑنے اور مسکینوں کی دوستی کا سوال کرتا ہوں اور جب تو بندوں میں گمراہی ڈالنے ( یا انہیں سزا دینے) کا ارادہ کرے تو مجھے بغیر گمراہی کے اٹھا لیجئے۔ اور اللہ تعالیٰ ( رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں زیادتی کے لئے) فرماتا ہے (یا خود رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں) کہ درجات (یعنی وہ اعمال جن سے بندے کے درجات بارگاہ حق میں بلند ہوتے ہیں) یہ ہیں کہ (ہر مسلمان کو خواہ وہ آشنا ہو یا نا آشنا) سلام کیا جائے۔ (اللہ کی راہ میں مسکینوں کو) کھانا کھلایا جائے اور رات کو اس وقت جب کہ لوگ سو رہے ہوں نماز پڑھی جائے۔ (صاحب مشکوٰۃ فرماتے ہیں) کہ میں نے یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ جیسا کہ مصابیح میں عبدالرحمن (رض) منقول ہے سوائے شرح السنۃ کے اور کسی کتاب میں نہیں دیکھی۔ تشریح اگر رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا تھا جیسا کہ ایک دوسری روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ تو اس میں کچھ اشکال نہیں ہے کیونکہ انسان خواب میں بسا اوقات شکل دار چیز کو بغیر شکل دیکھتا ہے اور کبھی غیر شکل دار کو شکل دار صورت میں دیکھتا ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کو آپ ﷺ نے عالم بیداری میں دیکھا تھا تو پھر اس کی تاویل کرنا ضروری ہوگی۔ اور تاویل یہ ہوگی کہ صورت سے مراد صفت ہے کہ حق تعالیٰ جل مجدہ نے صفت جمال اور لطف و کرم کے ساتھ تجلی فرمائی۔ یہ تاویل حقیقت و محاورہ سے بالکل قریب ہے کیونکہ اکثر و بیشتر صورت کا اطلاق صفت پر ہوتا ہے جیسا کہ روز مرہ کی بول چال میں کسی چیز کی حقیقت و کیفیت کے بیان کے وقت کہا جاتا ہے کہ صورت حال یہ ہے یا اس مسئلے کی صورت یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ بھی بہتر ہے کہ صورت کے معنی کا محمول رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہی کو قرار دیا جائے۔ اس طرح آپ ﷺ کے ارشاد کے معنی یہ ہوں گے کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا اور اس وقت میں اچھی صورت میں تھا۔ رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ مقربین فرشتے کون سے اعمال کی فضیلت و عظمت کے بارے میں بحث کر رہے ہیں ؟ یا یہ کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن کو مقام قبولیت تک پہنچانے میں فرشتے آپس میں تنازعہ کر رہے ہیں۔ بایں طور کہ ایک فرشتہ تو کہتا ہے کہ اس عمل کو مقام قبولیت تک پہلے میں پہنچاؤں اور دوسرا کہتا ہے کہ پہلے میں لے کر جاؤں۔ رسول اللہ ﷺ کے کندھوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کا ہاتھ رکھنا حقیقی معنی میں نہیں ہے کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ آپ ﷺ کے کندھوں کے درمیان رکھا تھا کیونکہ ذات الٰہی ظاہری اجسام کی ثقالت سے پاک و صاف ہے بلکہ دراصل یہ اس چیز سے کنایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے فضل و کرم اور جزاء و انعام کی زیادتی و کثرت کے ساتھ خاص کیا جیسا کہ دنیاوی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی بادشاہ یا امیر اپنے کسی خاص خادم پر بہت زیادہ مہربان ہوتا ہے اور اس سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے تو وہ اس خادم کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا ہے اس کی گردن میں با ہیں ڈال دیتا ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ اس خادم سے بہت زیادہ خوش ہے اور اس پر انعام و اکرام کی بارش کرنے والا ہے۔ سینے میں سردی محسوس ہونا فیض ربانی کا اثر پہنچے سے کنایہ ہے چناچہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جب فیض ربانی سینہ میں پہنچا تو زمین و آسمان کے تمام پردے اٹھ گئے اور تمام چیزوں کا علم مجھے حاصل ہوگیا چناچہ آپ ﷺ نے اس موقعہ و حال کی مناسبت اور اس کے امکان پر گواہی دینے کے ارادہ سے مذکورہ آیت پڑھی جس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد ﷺ جس طرح ہم نے آپ کے سامنے زمین و آسمانوں کے پردے اٹھا دیئے جس کے نتیجے میں آپ کو تمام چیزوں کا علم حاصل ہوگیا ہے اسی طرح ہم نے اپنے جلیل القدر پیغمبر و خلیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر بھی دوعالم ربوبیت والوہیت کی حقیقتوں کو واشفگاف کردیا تھا اور انہیں زمین و آسمانوں کی تمام چیزوں کا مشاہدہ کرا دیا تھا تاکہ وہ اللہ کی ربوبیت و الوہیت پر یقین کامل کرنے والوں میں سے ہوجائیں اس طرح آیت کے آخری الفاظ ولیکون من الموقنین کا معطوف علیہ محذوف ہوگا اور پوری عبارت یوں ہوگی کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو عالم ربوبیت و الوہیت دکھلادیئے تھے تاکہ وہ اس کے ذریعہ ہماری ذات کے وجود کے بارے میں دلیل پکڑ سکے اور یقین کرنے والوں سے ہوجائے۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ غرور وتکبر کی بری عادتوں سے یکسر ہٹ کر اپنے اندر تواضع و انکساری جود و بخشش اور عبادت و ریاضت کے جذبات و اوصاف پیدا کرے اور ان عرفانی اصولوں کی روشنی سے پہلے دل و دماغ کو منور کرکے نہ صرف یہ کہ اللہ کا حقیقی بندہ بن جائے بلکہ پوری انسانیت کے لئے باعث رحمت و راحت ہوجائے۔ شرف مردے جو دست و کرامت بسجود ہرکہ ایں ہر دو ندارد عدمش بہ ز وجود

【86】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

” اور حضرت ابوامامہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ دنیا وآخرت کی آفات و مصیبتوں سے محفوظ رکھے گا۔ ایک تو وہ شخص جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلے چناچہ وہ اللہ کی ذمہ داریوں میں ہے کہ یا تو اسے موت یعنی شہادت کا درجہ دے کر جنت میں پہنچادے یا اس کو ثواب و مال غنیمت دے کر گھر واپس پہنچادے پہلی اور دوسری صورت یعنی شہادت وثواب میں تو اسے دین کی سعادت حاصل ہوتی ہے اور تیسری یعنی مال غنیمت میں دنیا کی سعادت و بھلائی ملتی ہے اور وہ دوسرا شخص ہے جو مسجد جائے تو اللہ اس کا بھی ضامن ہے کہ عبادت کے لئے اس کی کوشش اور اس کا ثواب ضائع نہ کرے گا۔ اور تیسرا وہ شخص ہے جو اپنے گھر میں سلام کرتا ہوا داخل ہو تو وہ بھی اللہ کی ذمہ داری میں ہے۔ (ابوداؤد) ۔ تشریح اللہ تعالیٰ پر پہلے شخص کے لئے جو ذمہ ہے اسے تو بیان کردیا گیا کہ اسے دین ودنیا دونوں جگہ کیا کیا انعامات ملیں گے لیکن دوسرے اور تیسرے شخص کے لئے جو ذمہ ہے اللہ تعالیٰ پر ہے چونکہ وہ ظاہر تھا اس لئے اس کو بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی گھر میں سلام کرتا ہوا داخل ہو اس کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ گھر میں داخل ہو سلام کرتا ہوا چناچہ اس صورت میں اس کے لئے اللہ پر ذمہ ہے کہ اس کو اور اس کے گھر والوں کو خیر و برکت سے نوازے گا اور ان پر اپنی رحمتوں اور عنایتوں کے دروازے کھول دے گا دوسرے معنی یہ ہیں کہ جب گھر میں داخل ہوجائے تو لوگوں کی صحبت سے امن و سلامتی حاصل کرنے کے لئے گھر ہی میں رہنا اپنے اوپر لازم کرلے اور گھر سے باہر نہ نکلے چناچہ اس صورت میں اس کے لئے اللہ پر یہ ذمہ ہے کہ وہ اسے مصائب و آفات سے محفوظ و سلامت رکھے گا۔

【87】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوامامہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جو شخص وضو کرکے گھر سے نکلے گا اور فرض نماز ادا کرنے کے لئے مسجد جائے تو اس کو اتناثواب ملے گا جتنا احرام باندھ کر حج کرنے والے کو ملتا ہے اور جو شخص چاشت کی نفل نماز ہی کے لئے تکلیف اٹھا کر گھر سے نکلے یعنی بغیر کسی غرض اور ریا کے محض چاشت کی نماز پڑھنے کے قصہ سے گھر سے نکلے۔ تو اس کا ثواب عمرہ کرنے والے کے ثواب کے برابر ہے اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز پڑھنا اور ان دونوں نمازوں کے درمیانی وقت لغو بیہودہ باتیں نہ کرنا ایسا عمل ہے جو علیین میں لکھا جاتا ہے۔ (احمد، ابودادؤد) ۔ تشریح۔ اس حدیث میں وضو کو احرام سے اور نماز کو حج سے مشابہت دی گئی ہے اور وہ دونوں میں تشبیہ کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح حاجی حج کے ارادہ سے گھر سے نکلتا ہے اور احرام باندھتا ہے تو اسی وقت سے اسے ثواب ملنا شروع ہوجاتا ہے اور اس کے ثواب کا سلسلہ اس کے واپس آجانے تک جاری رہتا ہے اسی طرح جب کوئی شخص محض نماز کے ارادہ سے نکلتا ہے تو وہ جس وقت گھر سے نکلتا ہے اسے بھی اسی وقت سے ثواب ملنا شروع ہوجاتا ہے اور جب تک وہ نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر گھر واپس نہیں آجاتا اس کو ثواب برابر ملتارہتا ہے لیکن اتنی بات بھی سمجھ لیجیے کہ نمازی اور حاجی کے ثواب میں یہ برابری بہمہ وجوہ نہیں ہے ورنہ تو حج کرنے کے کوئی معنی نہیں رہ جائیں گے یعنی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ثواب دونوں بالکل برابر ہیں کیونکہ حاجی کا ثواب نمازی کے ثواب سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حج کی نسبت عمرہ کو وہی حثییت حاصل ہے جو فرض نماز کی بہ نسبت نفل نماز کو حاصل ہے کتاب فی علیین سے حدیث کے آخری جزو کا مطلب کنایتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص نماز کی مداومت و محافظت کرے یعنی تمام نمازوں کو پابندی سے ادا کرتا رہے اور نماز کو اس کی تمام شرائط وآداب کا لحاظ کرتے ہوئے اس طرح پڑھتا رہے کہ اس کے اس عمل اور نیت میں نماز کے منافی کسی چیز کا دخل نہ ہو تو یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے اعلی اور بہتر کوئی عمل نہیں ہے۔ جو فرشتے نیکیاں لکھنے پر مامور ہیں ان کے دفتر کا نام علیین ہے کہ تمام نیک اعمال وہیں جمع ہوتے ہیں۔

【88】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

” اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جب تم جنت کے باغوں میں جایا کرو تو وہاں میوہ کھایا کرو آپ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ دنیا میں جنت کے باغ کہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایا مسجدیں۔ پھر پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ میوہ کھانا کیا ہے آپ نے فرمایا سبحان اللہ والحمدللہ و لا الہ الا اللہ واللہ اکبر۔ مسجدوں میں ان کلمات کا ورد میوہ کھانا ہے۔ (ترمذی) تشریح۔ مساجد کو جنت کے باغ اس لئے کہا گیا ہے کہ ان میں عبادت کرنا اور نماز پڑھنا جنت کے باغوں کے حاصل ہونے کا سبب ہے۔ رتع دراصل اسے کہتے ہیں کہ باغ میں جا کر اچھی طرح میوے اور لذیذ چیزیں کھائی جائیں اور نہر وغیرہ کی سیر کی جائے جیسا کہ باغوں میں جانے والے لوگ یہ کیا کرتے ہیں پھر یہ لفظ ثواب عظیم کے مرتبہ پر پہنچنے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ بہرحال اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جب تم مسجدوں میں جاؤ تو مذکورہ تسبیحات پڑھا کرو کیونکہ اس سے بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے۔

【89】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

” اور حضرت ابوہریرہ (رض) روای ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جو شخص دنیا یا دین کے جس کام کے لئے مسجد میں آئے گا اسے اسی میں سے حصہ ملے گا۔ (ابودؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں جس غرض سے آئے گا وہی اس کا نصیب ہوگا۔ یعنی اگر عبادت کے لئے آئے گا تو اسے ثواب ملے گا اور اگر کسی دینوی زندگی کی غرض سے آئے گا تو گرفتار وبال ہوگا۔ گویا یہ حدیث مضمون کے اعتبار سے نیت کی مشہور حدیث انما الا عمال بالنیات کا ایک جزو ہے۔

【90】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت فاطمہ بنت حسین ابن علی المرتضیٰ اپنی دادی فاطمہ کبریٰ (رض) (زہرا) سے روایت کرتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ جب مسجد میں تشریف لاتے تو محمد ﷺ پر درود وسلام بھیجتے، یعنی یہ الفاظ فرماتے صلی اللہ علی محمد یا فرماتے اَللَّھُمَّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ اور پھر یہ دعا پڑھتے رَبِّ اغْفَرْلِیْ ذَنُوْبِیْ وَاَفْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ یعنی اے میرے پروردگار، میرے گناہ بخش دے اور میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اور جب مسجد سے باہر آتے تو پھر محمد ﷺ پر درود وسلام بھیج کر یہ دعا پڑھتے۔ رَبِّ اغْفَرْلِیْ ذَنُوْبِیْ وَاَفْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ فَضْلِکَ یعنی اے میرے پروردگا ! میرے گناہ بخش دے اور میرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔ یہ روایت ترمذی، احمد، ابن ماجہ نے نقل کی ہے اور احمد بن حنبل و ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (حضرت فاطمہ فرماتی ہیں کہ) رسول اللہ ﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے اور اسی طرح جب باہر نکلتے تو صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ کے بجائے یہ الفاظ فرماتے بسم اللہ والسلام علی رسول اللہ یعنی میں اللہ کے نام کے ساتھ داخل ہوتا ہوں اور نکلتا ہوں اور سلامتی ہو رسول پر۔ امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے کیونکہ حضرت حسین ابن علی المرتضیٰ (رض) کی دختر فاطمہ رحمہا اللہ تعالیٰ علیہا نے حضرت فاطمہ کبری بنت رسول اللہ ﷺ کا زمانہ نہیں پایا اور ان سے نہیں ملی۔ تشریح آپ ﷺ نے درود وسلام وغیرہ کے الفاظ اس طرح نہیں فرمائے کہ اللَّھُمَّ صِلِّ عَلٰی یَا اَغْفِرْلَمُحَمَّدٍ کیونکہ درود وسلام کے ساتھ اسم شریف کو مناسبت ہے اسی طرح رَبِّ اغْفِرْلِیْ ارشاد فرمانے میں آپ ﷺ کی تواضع و انکساری کا اظہار ہوتا ہے یا پھر کہا جائے گا کہ آپ ﷺ نے یہ الفاظ امت کی تعلیم کے لئے فرمائے تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ درود وسلام کن الفاظ کے ذریعے بھیجا جاتا ہے۔ فاطمہ صغری جو اس حدیث کی راوی اور حضرت امام حسین ابن علی (رض) کی صاحبزادی ہیں انہوں نے اپنی دادی حضرت فاطمہ زہراء (رض) بنت رسول ﷺ کا زمانہ نہیں پایا کیونکہ ان کے وقت میں حضرت امام حسین ابن علی المرتضیٰ (رض) کی عمر صرف آٹھ سال کی تھی لہٰذا اس حدیث کی سند متصل نہیں ہوئی کیونکہ درمیان کا ایک راوی متروک ہے۔

【91】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت عمرو ابن شعیب (رض) اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ مسجد میں اشعار پڑھنے، خریدو فروخت کرنے اور جمعہ کے روز نماز سے پہلے لوگوں کو حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے (خواہ حلقہ باندھ کر بیٹھنا مذاکرہ علم اور ذکر و تسبیح کے لئے کیوں نہ ہو) منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی ) تشریح اشعار سے مراد ایسے اشعار ہیں جن میں جھوٹ اور لغو باتیں ذکر کی گئی ہوں کیونکہ مسجد اللہ کی عبادت کرنے کی جگہ ہے وہاں خلاف شرع اور جھوٹ و لغو باتوں کو بیان کرنا ناجائز ہے البتہ ایسے اشعار جن میں اللہ کی توحید و مناجات اور رسول اللہ ﷺ کی یا آپ ﷺ کے مخلص متبعین اور فرمانبردار امتیوں کی تعریف و توصیف، دین و مذہب اور اخلاق و کردار کو بخشنے والی باتوں کا ذکر ہو تو ان کا پڑھنا ہر جگہ جائز اور مستحسن ہے چناچہ رسول اللہ ﷺ شاعر اسلام حضرت حسان (رض) کے لئے جو اپنے اشعار کے ذریعے آپ ﷺ کی نعت اور کفار کی ہجو بیان کیا کرتے تھے مسجد نبوی میں منبر بچھواتے تھے اور حضرت حسان اس منبر پر کھڑے ہو کر اس قسم کے پاکیزہ اشعار پڑھا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حسان (رض) کی تائید کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اشعار کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کی جانب سے کفار سے مقابلہ کرتے ہیں۔ مسجد میں جس طرح خریدوفروخت ممنوع ہے اسی طرح وہاں دنیا کے دوسرے معاملات طے کرنا منع ہیں۔ جمعہ کے روز نماز پڑھنے سے پہلے مسجد میں حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے آپ ﷺ نے جو منع فرمایا ہے علماء اس کی مختلف وجوہ بیان کرتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھنا نمازیوں کی ہیت اجتماعی کے خلاف ہے نیز یہ کہ جمعہ کے روز نماز جمعہ کے لئے مسجد میں جمع ہونا خود ایک مستقل اور عظیم الشان کام ہے جب تک اس کام یعنی نماز جمعہ سے فارغ نہ ہو لیں، دوسرے کام میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہے۔ نیز یہ کہ حلقہ باندھ کر بیٹھنا غفلت کا سبب ہے۔ ان دونوں صورتوں میں اس نہی کا تعلق خاص طور پر خطبے کے وقت سے نہیں ہوگا۔ تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ وقت خاموش اور چپ رہنے کا ہے اور نہایت توجہ کے ساتھ امام کا خطبہ سننے کا ہے اور چونکہ حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے امام کے خطبے کی طرف توجہ کم ہوجاتی ہے لہٰذا یہ درست نہیں ہے۔ اس صورت میں اس ممانعت کا تعلق صرف خطبہ کے وقت سے ہوگا۔ لہٰذا پہلی اور دوسری توجیہ کی صورت میں یہ نہی تنزیہی ہوگی اور تیسری توجیہ کی صورت میں نہی تحریمی ہوگی۔

【92】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ جب تم مسجد میں کسی آدمی کو خریدو فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ اللہ کرے تیری سوداگری میں نفع نہ ہو اور جب تم (مسجد میں) کسی آدمی کو بلند آواز سے گمشدہ چیز ڈھونڈھتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ اللہ کرے تیری چیز نہ ملے ۔ (جامع ترمذی، دارمی)

【93】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت حکیم بن حزام (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے مسجد میں قصاص لینے (یعنی قاتل کا خون بہانے) اور اشعار پڑھنے اور (زنا کرنے، شراب پینے وغیرہ کی) حدو دقائم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابوداؤد) اور اس روایت کو صاحب جامع الاصول نے (اپنی کتاب) جامع الاصول میں حکیم سے (یعنی بغیر لفظ ابن حزام) روایت کیا ہے۔ نیز یہ روایت مصابیح میں جابر سے منقول ہے (اور یہ اصول میں موجود نہیں ہے) ۔

【94】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت معاویہ ابن قرۃ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے دو درختوں یعنی پیاز، لہسن کے کھانے) سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ جو آدمی ان کو کھائے وہ ہماری ( مسلمانوں کی) مسجدوں کے قریب نہ آئے نیز فرمایا کہ اگر تم انہیں کھانا ضروری ہی سمجھو تو انہیں پکا کر ان کی بدبو دور کردو (اور کھالو) ۔ (ابوداؤد) تشریح جملہ مَنْ اَکَلَھُمَا پہلے جملے کا بیان ہے۔ آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ جو آدمی ان کو کھائے۔ وہ ہماری مسجدوں کے قریب نہ آئے۔ پیاز و لہسن کھا کر مسجد میں داخلے کی ممانت کو مبالغے کے طور پر بیان کرنا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی ان بدبو دار چیزوں کو کھائے اسے چاہئے کہ وہ مسجد کی عظمت و احترام کے پیش نظر مسجد کے نزدیک بھی نہ آئے چہ جائیکہ مسجد میں داخل ہو۔ یا پھر قریب نہ آئے، کنایہ ہے مسجد میں داخل نہ ہونے سے کہ جو آدمی پیاز و لہسن کھائے ہوئے ہو وہ مسجد میں داخل نہ ہو۔

【95】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوسعید (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا مقبرہ اور حمام کے علاوہ ساری زمین مسجد ہے، کہ (ہر جگہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ (جامع ترمذی، دارمی)

【96】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے سات مقامات پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (١) جہاں ناپاک چیزیں ڈالی جاتی ہوں۔ (یعنی کوڑی) ۔ (٢) جہاں جانور ذبح کئے جاتے ہوںَ (٣) راستے کے درمیان۔ (٤) مقبرے میں۔ (٥) حمام کے اندر۔ (٦) اونٹوں کے بندھنے کی جگہ پر۔ (٧) اور خانہ کعبہ ( کعبۃ اللہ کی چھت پر بلا ضرورت چڑھنا مکروہ ہے البتہ ضرورت کے لئے چھت پر چڑھنا جائز ہے ١٣) کی چھت پر۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) تشریح بعض علماء سلف تو حدیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھتے ہوئے یہی فرماتے ہیں کہ مقبرے کے اندر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور بعض علماء کے نزدیک مقبرہ میں نماز پڑھنا جائز ہے لیکن قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا متفقہ طور پر علماء کے نزدیک حرام ہے مزبلہ اور مجزرہ (یعنی کوڑی اور مذبح) میں نماز پڑھنا اس لئے مکروہ ہے کہ ان دونوں جگہوں میں نجاست و گندنگی پھیلی رہتی ہے۔ چناچہ ان مقامات میں اگر کسی ایسی جگہ نماز پڑھی جائے جو صاف ہو مگر اس کے قریب ہی نجاست بھی پڑی ہو یا نجاست ہی پر مصلی بچھا کر نماز پڑھی جائے۔ یہ مکروہ ہے اس سے دین کی حقارت و بےوقعتی ظاہر ہوتی ہے اور نماز کی رفعت شان اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے بالکل پاک و صاف جگہ ادا کیا جائے نہ کہ ایسی جگہ جہاں گندگی و نجاست پھیلی ہوئی ہو۔ راستہ کے درمیان نماز پڑھنا اس لئے ممنوع ہے کہ وہاں لوگوں کے آنے جانے کی وجہ سے دھیان بٹتا ہے اور یکسوئی حاصل نہیں ہوتی نیز اس سے لوگوں کو آنے جانے میں تکلیف ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ عام گزر گاہ ہونے کی وجہ سے اگر لوگ مجبوری کی بناء پر نمازی کے آگے سے گزریں گے تو ان کے گزرنے سے نمازی گناہگار ہوگا اور اگر لوگ بےضرورت ہی گزریں گے۔ تو وہ گناہگار ہوں گے۔ حمام میں نماز پڑھنا اس لئے مکروہ ہے کہ وہ ستر کھلنے اور شیطان کے رہنے کی جگہ ہے کعبہ کی چھت پر بھی نماز پڑھنا اس لئے مکروہ ہے کہ اس سے کعبۃ اللہ کے بےادبی ہوتی ہے۔ اب علماء کے ہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ ان ساتوں جگہوں پر نماز پڑھنے کو مکروہ کہا گیا ہے تو آیا یہ مکروہ تنزیہی ہے یا مکروہ تحریمی ؟ چناچہ بعض علماء کے نزدیک تو ان ساتوں جگہ نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ مکروہ تحریمی ہیں۔

【97】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ بکریوں کے بندھنے کی جگہ نماز پڑھو، البتہ اونٹوں کے بندھنے کی جگہ مت پڑھو۔ (جامع ترمذی) تشریح اونٹوں کے بندھنے کی جگہ نماز پڑھنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ اونٹوں کے پاس نماز پڑھنے میں یہ اندیشہ ہے کہ کہیں وہ کھل کر نمازی کو لات وغیرہ نہ مار دیں اس سے نہ صرف یہ کہ نمازی کو تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہے بلکہ اس طرح نماز دلجمعی اور سکون خاطر سے ادا نہیں ہوسکتی البتہ بکریوں سے چونکہ اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا اس لئے ان کے بندھنے کی جگہ نماز پڑھنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

【98】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں کو مسجد بنا لینے یعنی قبروں پر سجدہ کرنے والوں) اور قبروں پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی ) تشریح رسول اللہ ﷺ نے ابتدائے اسلام میں قبروں کی زیارت کرنے سے منع فرمایا تھا پھر بعد میں آپ ﷺ نے اس کی اجازت دے دی تھی، چناچہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کے حق میں تھی لہٰذا عورتوں کو پہلے تو قبروں کی زیارت کرنے کی اجازت نہیں تھی مگر اب اس عام اجازت کے پیش نظر درست و جائز ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس اجازت کا تعلق صرف مردوں سے ہے عورتوں کے حق میں وہ نہی اب بھی باقی ہے اور وجہ اس کی یہ بیان کرتے ہیں کہ عورتیں چونکہ کمزور دل اور غیر صابر ہوتی نیز ان کے اندر جزع و فزغ کی عادت ہوتی ہے اس لئے ان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ قبروں پر جائیں۔ چناچہ یہ حدیث بھی بظاہر ان ہی علماء کی تائید کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کی زیارت جمہور علماء کے نزدیک اس حکم سے مستثنیٰ ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کی زیارت مرد ہو یا عورت سب کے لئے جائز ہے۔ قبر پر چراغ جلانا اس لئے حرام ہے کہ اس سے بےجا اسراف اور مال کا ضیاع ہوتا ہے۔ البتہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اگر قبر کے پاس کوئی گزر گاہ ہو تو راہ گیروں کی آسانی کے لئے چراغ جلانا یا وہاں روشنی میں کوئی کام کرنے کے لئے چراغ جلانا جائز ہے کیونکہ اس سے قبر پر چراغ جلانا مقصود نہیں ہوگا بلکہ دوسری ضرورت و حاجت پیش نظر ہوگی۔ مولانا محمد اسحق محدث دہلوی کی تحقیق یہ ہے کہ صحیح اور معتمد قول کے مطابق عورتوں کو قبر کی زیارت کرنا مکروہ تحریمی ہے چناچہ مستملی میں لکھا ہوا ہے کہ قبروں کی زیارت مردوں کے لئے مستحب ہے اور عورتوں کے لئے مکروہ ہے۔ کتاب مجالس و اعظیہ میں مذکور ہے کہ عورتوں کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ قبروں پر جائیں کیونکہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ انہ (علیہ الصلوۃ والسلام) لعن ذوارات القبور یعنی رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ نصاب الاحتساب میں منقول ہے کہ عورتوں کے قبروں پر جانے کے جواز اور اس کی خرابی و قباحت کے بارے میں قاضی سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کا جواز اور اس کا فساد نہ پوچھو بلکہ یہ پوچھو کہ اس پر جو لعنت و پھٹکار برستی ہے اس کی مقدار کیا ہے ؟ چناچہ جان لو ! کہ جب عورت قبر پر جانے کا ارادہ کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی لعنت میں گرفتار ہوجاتی ہے اور جب وہ قبر پر جانے لگتی ہے تو اس کو ہر طرف سے شیاطین چمٹ جاتے ہیں اور جب قبر پر پہنچ جاتی ہے تو مردے کی روح اس پر لعنت بھیجتی ہے اور جب قبر سے واپس ہوتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی لعنت میں گرفتار ہوتی ہے۔ حدیث میں وارد ہے کہ جو عورت مقبرے پر جاتی ہے ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں چناچہ وہ اللہ تعالیٰ کی لعنت میں مقبرہ کا راستہ طے کرتی ہے اور جو عورت اپنے گھر میں بیٹھ کر میت کے لئے دعائے خیر کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو حج اور عمرہ کا ثواب دیتا ہے۔ حضرت سلمان اور ابوہریرہ (رض) کی ایک روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ مسجد سے نکل کر اپنے مکان کے دروازے پر کھڑے تھے کہ (باہر سے) حضرت فاطمہ الزہرا (رض) آئیں آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کہاں سے آر ہی ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں عورت کا انتقال ہوگیا ہے اس کے مکان پر گئی تھی۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم اس کی قبر پر بھی گئی تھیں ؟ حضرت فاطمہ (رض) نے کہا معاذ اللہ ! کیا میں اس عمل کو کرسکتی ہوں جس (کی ممانعت) کے بارے میں آپ ﷺ سے میں سن چکی ہوں ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (تم نے یہ اچھا ہی کیا کہ اس کی قبر پر نہ گئیں کیونکہ اگر تم اس کی قبر پر چلی جاتیں تو تمہیں جنت کی بو (بھی) میسر نہ ہوتی۔ حضرت قاضی ثناہ اللہ پانی پنی نے اپنی کتاب مالا بد منہ میں لکھا ہے کہ زیارت قبور مرداں را جائز است نہ زناں را یعنی قبروں کی زیارت مردوں کے لئے تو جائز ہے عورتوں کے لئے نہیں۔