100. باری مقرر کرنے کا بیان

【1】

باری مقرر کرنے کا بیان

اگر کسی شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے ساتھ شب باشی کے لئے نوبت باری مقرر کرنا واجب ہے یعنی ان بیویوں کے پاس باری باری سے جانا چاہئے۔ اس سلسلہ میں چند باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ -1 جب باری مقرر ہوجائے تو ایک بیوی کی باری میں دوسری بیوی کے ہاں شب باشی جائز نہیں ہے مثلا جس رات میں پہلی بیوی کے ہاں جانا ہو اس رات میں دوسری بیوی کے ہاں نہ جائے۔ -2 ایک رات میں بیک وقت دو بیویوں کے ساتھ شب باشی جائز نہیں ہے اگر وہ دونوں بیویاں اس کی اجازت دیدیں اور وہ خود بھی اس کے لئے تیار ہوں تو جائز ہے۔ آنحضرت ﷺ کے بارے میں جو یہ منقول ہے کہ آپ ﷺ نے ایک رات میں ایک سے زائد بیویوں سے جماع کیا ہے تو یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کے باری مقرر کرنا واجب نہیں تھا یا یہ کہ اس سلسلہ میں آپ ﷺ کو ان بیویوں کی اجازت حاصل تھی اس کے علاوہ حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ باری مقرر کرنا آنحضرت ﷺ پر واجب نہیں تھا۔ بلکہ آپ ﷺ نے محض اپنے کرم اور اپنی عنایت سے اپنی ہر زوجہ مطہرہ کے ہاں رہنے کی باری مقرر کردی تھی۔ -3 سفر کی حالت میں بیویوں کو باری کا حق حاصل نہیں ہوتا اور نہ کسی بیوی کی باری کا لحاظ رکھنا ضروری ہے بلکہ اس کا انحصار خاوند کی مرضی پر ہے کہ وہ جس بیوی کو چاہے اپنے ساتھ سفر میں لے جائے اگرچہ بہتر اولی یہی ہے کہ خاوند اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈال لے اور جس کا نام قرعہ میں نکلے اس کو سفر میں ساتھ رکھے۔ -4 مقیم کے حق میں اصلی باری کا تعلق رات سے ہے دن رات کا تابع ہے ہاں جو شخص رات میں اپنے کام کاج میں مشغول رہتا ہو مثلا چوکیداری وغیرہ کرتا ہو اور اس کی وجہ سے وہ رات اپنے گھر میں بسر نہ کرسکتا ہو تو اس کے حق میں اصل باری کا تعلق دن سے ہوگا۔ درمختار میں یہ لکھا ہے کہ جس شخص کے ایک سے زائد بیویاں ہوں تو اس پر ان بیویوں کے پاس رات میں رہنے اور ان کے کھلانے پلانے میں برابری کرنا واجب ہے ان کے ساتھ جماع کرنے یا جماع نہ کرنے اور پیار و محبت میں برابری کرنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ کسی عورت کا جماع سے متعلق اس کے شوہر پر حق ہوتا ہے اور وہ ایک بار جماع کرنے سے ساقط ہوجاتا ہے جماع کرنے کے بارے میں شوہر خود مختار ہے کہ جب چاہے کرے لیکن کبھی کبھی جماع کرلینا اس پر دیانۃً واجب ہے اور مدت ایلاء کے بقدر یعنی چار چار مہینہ تک جماع نہ کرنا خاوند کے لئے مناسب نہیں ہے ہاں اگر بیوی کی مرضی سے اتنے دنوں جماع نہ کرے تو پھر کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہر بیوی کے ہاں ایک ایک رات اور ایک ایک دن رہنا چاہئے لیکن برابری کرنا رات ہی میں ضروری ہے چناچہ اگر کوئی شخص ایک بیوی کے ہاں مغرب کے فورًا بعد چلا گیا اور دوسری بیوی کے ہاں عشاء کے بعد گیا تو اس کا یہ فعل برابری کے منافی ہوگا اور اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ اس نے باری کے حکم کو ترک کیا کسی بیوی سے اس کی باری کے علاوہ یعنی کسی دوسری بیوی کی باری میں) جماع نہ کرے اسی طرح کسی بیوی کے پاس اس کی باری کے علاوہ کسی رات میں نہ جائے ہاں اگر وہ بیوی بیمار ہو تو اس کی عیادت کے لئے جاسکتا ہے بلکہ اگر اس کا مرض شدید ہو تو اس کی باری کے علاوہ بھی اس کے پاس اس وقت تک رہنا جائز جب تک کہ وہ شفایاب نہ ہو یا اس کا انتقال ہوجائے لیکن یہ اس صورت میں جائز ہے جب کہ اس کے پاس کوئی اور تیمار داری اور غم خواری کے لئے نہ ہو اور اگر خاوند اپنے گھر میں بیماری کی حالت میں ہو تو وہ اپنی ہر بیوی کو اس کی باری میں بلاتا رہے۔

【2】

آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کی تعداد

-1 حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ جس وقت رسول کریم ﷺ نے وفات پائی اس وقت آپ ﷺ کے نکاح میں نو بیویاں تھیں جن میں سے آٹھ بیویوں کی باری مقرر تھی ( بخاری ومسلم) تشریح یوں تو آنحضرت ﷺ کی گیارہ بیویاں تھیں یہاں صرف ان بیویوں کی تعداد کا ذکر کیا گیا ہے جو آپ ﷺ کی وفات کے وقت آپ ﷺ کے نکاح میں تھیں اور جن کے اسماء یہ ہیں۔ (١) حضرت عائشہ (٢) حضرت حفصہ (٣) حضرت ام حبیبہ (٤) حضرت سودہ (٥) حضرت ام سلمہ (٦) حضرت صفیہ (٧) حضرت میمونہ (٨) حضرت زینب بنت جحش (٩) حضرت جویریہ۔ ان نو بیویوں میں سے آٹھ کی باری مقرر تھی اور نویں حضرت سودہ کے لئے کوئی باری نہ تھی کیونکہ انہوں نے اپنی مرضی سے اپنی باری حضرت عائشہ کو دیدی تھی چناچہ آپ ﷺ ان کی باری میں حضرت عائشہ کے پاس رہتے تھے جیسا کہ اگلی حدیث سے معلوم ہوگا۔

【3】

کوئی اپنی باری اپنی کسی سوکن کودے سکتی ہے

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ حضرت سودہ کی عمر جب زیادہ ہوگئی تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے اپنی باری کا دن جو آپ ﷺ نے میرے لئے مقرر کیا تھا عائشہ کو دیدیا۔ چناچہ اس کے بعد آپ حضرت عائشہ کے ہاں دو دن رہنے لگے ایک دن تو ان کی باری میں اور ایک دن حضرت سودہ کی باری میں (بخاری ومسلم) تشریح حضرت سودہ کے والد کا نام زمعہ اور والدہ کا نام سموس تھا پہلے ان کی شادی حضرت سکران کے ساتھ ہوئی تھی یہ دونوں آنحضرت ﷺ کی بعثت کے ابتدائی ایام میں اسلام لے آئے تھے اور ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے جب ان کے خاوند حضرت سکران کا انتقال ہوگیا تو آنحضرت ﷺ نے حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد مکہ میں ان سے نکاح کیا حضرت عائشہ (رض) آپ ﷺ کا نکاح ان کے نکاح کے بعد ہوا۔ حضرت عمر یا حضرت معاویہ کے زمانہ میں ان کا انتقال ہوا اور مدینہ منورہ میں مدفون ہوئیں۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کی کوئی بیوی اپنی باری اپنی کسی سوکن کو دے تو جائز ہے بشرطیکہ اس میں شوہر کی طرف سے کسی لالچ یا جبر کا دخل نہ ہو نیز اپنی باری اپنی کسی سوکن کو دینے والی عورت کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ جب چاہے اپنی پیش کش کو واپس لے لے۔

【4】

کوئی اپنی باری اپنی کسی سوکن کو دے سکتی ہے

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنی اس بیماری میں کہ جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی (روزانہ) یہ پوچھا کرتے تھے کہ کل میں کہاں رہوں گا کہ کل میں کس بیوی کے گھر رہوں گا اور اس دریافت کرنے سے آپ کا منشاء یہ معلوم ہوتا تھا کہ عائشہ کی باری کس دن ہے کیونکہ آپ ﷺ کو حضرت عائشہ (رض) بہت زیادہ محبت تھی اس لئے آپ ﷺ ان کی باری کے شدت سے منتظر رہتے تھے) چناچہ ازواج مطہرات نے آپ ﷺ کے اس قلبی اضطراب کو محسوس کیا تو سب نے یہ اجازت دیدی کہ آپ ﷺ جس کے ہاں چاہیں رہیں پھر آپ ﷺ حضرت عائشہ ہی کے ہاں مقیم رہے یہاں تک کہ انہیں کے پاس آپ نے وفات پائی (بخاری) تشریح ( یرید یوم عائشۃ) ما قبل جملہ کی وضاحت ہے کہ یعنی آپ ﷺ کا روزانہ پوچھنا ازواج مطہرات سے طلب اجازت کے لئے تھا کہ تمام ازواج مطہرات آپ ﷺ کو حضرت عائشہ ہی کے ہاں رہنے کی اجازت دیدیں چناچہ یہ جملہ (فاذن لہ ازواجہ) ازواج مطہرات نے آپ ﷺ کو اجازت دیدی اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔

【5】

سفر میں ساتھ لے جانے کے لئے کسی بیوی کا انتخاب قرعہ کے ذریعہ کیا جائے

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیوی کے درمیان قرعہ ڈالتے ان میں سے جس کا نام قرعہ میں نکلتا اسی کو آپ ﷺ اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے ( بخاری و مسلم)

【6】

سفر میں ساتھ لے جانے کے لئے کسی بیوی کا انتخاب قرعہ کے ذریعہ کیا جائے

اور حضرت ابوقلابہ تابعی حضرت انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا یہ مسنون ہے کہ جب کوئی شخص ثیبہ کی موجودگی میں کسی باکرہ سے نکاح کرے تو سات رات تک اس کے پاس رہے اور پھر اس میں اور پرانی بیویوں کے درمیان باری مقرر کر دے اور کسی ثیب یعنی کسی بیوہ یا مطلقہ عورت سے نکاح کرے تو اس کے پاس تین رات رہے اور پھر باری مقرر کر دے۔ حضرت ابوقلابہ کہتے ہیں کہ اگر میں چاہتا تو یہ کہتا کہ حضرت انس نے یہ حدیث آنحضرت ﷺ سے نقل کی ہے (بخاری ومسلم) تشریح حضرت امام شافعی نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی شخص کے نکاح میں کئی عورتیں ہوں یا ایک عورت ہو اور پھر وہ ایک عورت سے نکاح کرے تو اگر وہ عورت باکرہ (کنواری) ہو تو اس کے پاس سات رات تک رہے اور اگر وہ ثیبہ (یعنی بیوہ یا مطلقہ ہو) تو اس کے پاس تین رات تک رہے اور پھر نئی اور پرانی بیویوں کے درمیان باری مقرر کر دے کہ ہر ایک کے پاس برابر برابر ایک ایک رات جایا کرے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس سلسلہ میں باکرہ اور ثیب یا نئی اور پرانی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ باری کے اعتبار سے سب برابر ہیں انہوں نے ان دونوں حدیثوں پر عمل کیا ہے جو اس باب کی دوسری فصل میں آئیں گی اور جن میں اس قسم کا فرق و امتیاز بیان نہیں کیا گیا ہے، امام اعظم کے نزدیک اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی ایک یا ایک سے زائد بیویوں کی موجودگی میں کسی باکرہ سے نکاح کرے تو اس کے پاس سات رات تک رہے اور پھر پہلی بیویوں میں سے بھی ہر ایک کے پاس سات سات رات تک رہے اور اگر ثیبہ کے ساتھ نکاح کرے تو اس کے پاس تین رات تک رہے اور پھر پہلی بیویوں سے بھی ہر ایک کے پاس تین تین رات تک رہے۔ روایت کے آخر میں ابوقلابہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں چاہتا تو اس حدیث کو مرفوع کہتا یعنی یہ کہتا کہ اس حدیث کو حضرت انس نے آنحضرت ﷺ سے نقل کیا ہے کیونکہ صحابہ کا یہ کہنا کہ یہ مسنون ہے مرفوع کے حکم میں ہوتا ہے۔

【7】

سفر میں ساتھ لے جانے کے لئے کسی بیوی کا انتخاب قرعہ کے ذریعہ کیا جائے

اور حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جب حضرت ام سلمہ (رض) سے نکاح کیا تو دوسرے دن صبح کو ان سے فرمایا کہ تمہارے خاندان والوں کے لئے تہاری طرف سے اس میں کوئی ذلت نہیں کہ اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس سات رات رہوں اور پھر دوسری تمام بیویوں کے پاس بھی سات سات رات تک رہوں اور اگر تم چاہو تو تمہارے پاس تین رات تک رہوں اور پھر اس کے بعد دورہ کروں (یعنی تمام بیویوں کے پاس بھی تین تین رات تک رہوں) حضرت ام سلمہ نے یہ سن کر کہا کہ آپ ﷺ میرے پاس تین راتیں رہئے۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ام سلمہ (رض) سے فرمایا کہ کنواری کے پاس سات رات تک رہنا چاہئے اور ثیبہ کے پاس تین رات تک (مسلم) تشریح اس میں کوئی ذلت نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہارے پاس جو تین رات رہوں گا تو اس کی وجہ سے تمہارے خاندان و قبیلہ پر کسی حقارت یا ذلت کا داغ نہیں لگے گا کیونکہ تمہارے ساتھ میرا تین رات تک رہنا تمہاری صحبت و اختلاط سے بےرغبتی کے سبب سے نہیں ہے بلکہ شرعی حکم کی بناء پر ہے ان الفاظ کے ذریعہ گو آپ ﷺ نے اس عذر کی تمہید بیان فرمائی ہے جس کی وجہ سے شادی کی ابتداء کے ایام میں حضرت ام سلمہ کے ہاں شب باشی کے لئے صرف تین راتوں پر اکتفاء کرنا پڑا اور وہ عذر یہ شرعی حکم ہے کہ اگر اپنی پہلی بیوی کی موجودگی میں کسی اور عورت سے نکاح کیا جائے۔ تو اس نئی بیوی کے ساتھ مسلسل سات دن تک شب باشی اس صورت میں جائز ہوگی جب کہ وہ باکرہ کنواری ہو لیکن اس کے بعد پہلی بیویوں میں سے بھی ہر ایک کے ہاں سات سات دن تک شب باشی ہونی چاہئے۔ تا کہ باری کے اعتبار سے کسی کے ساتھ بےانصافی اور حق تلفی نہ ہو اور اگر وہ نئی بیوی ثیبہ ( کسی کی بیوہ یا مطلقہ) ہو تو پھر اس کے ساتھ ساتھ تین دین تک شب باشی کی جائے لیکن اس کے بعد پہلی بیویوں میں سے بھی ہر ایک کے ساتھ تین تین دن تک شب باشی کی جائے چناچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ام سلمہ کے سامنے اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو میں تمہارے یہاں بھی سات راتوں تک رہ سکتا ہوں لیکن یہ حق کنواری عورت کے لئے ہے اور تم ثیبہ ہو اور پھر یہ کہ بعد میں مجھے دوری تمام بیویوں کے پاس بھی سات سات راتوں تک رہنا ہوگا اس لئے یہتر یہ ہے کہ ثیبہ کے حق میں جو حکم ہے اسی کے مطابق میں تمہارے پاس تین دن تک شب باشی کروں اور پھر بعد میں ہر ایک بیوی کے ہاں تین تین دن تک شب باشی کر کے تمہارے سب کے درمیان باری مقرر کر دوں لہذا حضرت ام سلمہ نے منشاء شریعت اور مزاج نبوت کے مطابق اسی بات کو قبول کیا کہ آپ ﷺ کے ہاں تین رات تک رہیں۔

【8】

کوئی شخص اپنی تمام بیویوں سے یکساں محبت کرنے پر مجبور نہیں ہے

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنی بیویوں کے درمیان باری مقرر فرماتے اور عدل سے کام لیتے ( یعنی ان کے پاس رات رہنے کے سلسلہ میں برابری کا خیال رکھتے) اور پھر اس احتیاط و عدل کے باوجود یہ دعا مانگا کرتے کہ اے اللہ جس چیز کا میں مالک ہوں اس میں باری مقرر کردی ہے لہذا جس کا تو مالک ہے میں مالک نہیں ہوں اس پر مجھے ملامت نہ کیجئے ! (ترمذی ابوداؤد نسائی ابن ماجہ دارمی) تشریح دعا کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیویوں کے پاس جانے کی باری مقرر کرنے اور ان کے نان نفقہ کا میں مالک ہوں لہذا ان چیزوں میں عدل و برابری کرنا میری ذمہ داری ہے جسے میں پورا کرتا ہوں اور کسی بھی بیوی کے ساتھ ناانصافی یا اس کی حق تلفی نہیں کرتا ہاں پیار و محبت کا معاملہ دل سے متعلق ہے جس پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں اس میں برابری نہیں کرسکتا اس لئے اگر مجھے کسی بیوی سے زیادہ محبت اور کسی سے کم محبت ہو تو چونکہ میرے قصد و ارادہ کو دخل نہیں ہوگا لہذا اس پر مجھ سے مؤ اخذہ نہ کیجئے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص کے ایک سے زائد بیویاں ہوں تو اس پر یہ لازم ہے کہ وہ ان بیویوں کے پاس جائے ان کے ہاں شب گزارے اور ان کے نان و نفقہ میں پورا پورا عدل کرے اور ان چیزوں میں ان کے درمیان اس طرح برابری کرے کہ کسی بھی بیوی کو فرق و امتیاز کی شکایت نہ ہو ہاں پیار و محبت مباشرت و جماع اور جنسی لطف حاصل کرنے کے بارے میں عدل و برابری لازم نہیں ہوگی کیونکہ یہ چیزیں دل و طیبعت سے متعلق ہیں جس پر کسی انسان کا اختیار نہیں ہوتا۔

【9】

اپنی بیویوں کے درمیان عدل وبرابری نہ کرنیوالے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے نکاح میں ایک سے زائد مثلا) دو بیویاں ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرتا ہو تو وہ قیامت کے دن (میدان حشر میں) اس طرح آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ساقط ہوگا ( ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ) تشریح جس شخص کے ہاں ایک سے زائد بیویاں ہوں خواہو وہ دو ہوں اور خواہ تین یا چار ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرتا ہو تو اس کی اس بےانصافی پر مذکورہ بالا سزا کی دھمکی دی گئی ہے لہذا باری میں برابری کرنا بایں اعتبار سے واجب ہے کہ رات جتنا حصہ ایک بیوی کے ہاں گزارتا ہو اتنا ہی حصہ دوسری بیوی کے ہاں بھی گزارنا چاہئے مثلا اگر ایک بیوی کے ہاں مغرب کے بعد چلا جاتا ہے تو دوسری بیوی کے ہاں بھی مغرب کے بعد ہی چلا جائے اگر اس کے پاس عشاء کے بعد جائے گا تو یہ عدل و انصاف کے خلاف ہوگا یہاں صحبت کے معاملہ میں برابری کرنا واجب نہیں ہے۔ اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ اس حکم میں باکرہ، ثیبہ، نئی، پرانی مسلمان اور کتابیہ سب برابر ہیں اور سب کے حقوق یکساں ہیں البتہ آزاد عورت کی بہ نسبت لونڈی، کا تبہ، مدبرہ اور ام ولد کیلئے آدھی باری ہے یعنی اگر کسی شخص کے نکاح میں ایک آزاد عورت ہو اور کسی کی لونڈی وغیرہ سے بھی اس نے نکاح کر رکھا ہو تو لونڈی وغیرہ کے پاس ایک رات رہے اور آزاد عورت کے پاس دو راتیں رہے ! حرم (باندی) کے لئے باری مقرر کرنا واجب نہیں ہے۔

【10】

آنحضرت ﷺ کی نو ازواج مطہرات میں سے آٹھ کے لئے باری مقرر تھی

حضرت عطاء بن رباح تابعی کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ مقام سرف میں ام المؤمنین حضرت میمونہ کے جنازہ میں شریک ہوئے تو حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ دیکھو یہ رسول کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں جب تم ان کا جنازہ اٹھاؤ تو اس کو زیادہ حرکت و جنبش نہ دینا بلکہ تعظیم و تکریم کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر) نہایت آہستگی سے اٹھانا اس لئے کہ یہ ان ازواج مطہرات میں سے ہیں جن کے لئے آنحضرت ﷺ نے باری مقرر کر رکھی تھی چنانچہ) آنحضرت ﷺ کی نو بیویاں تھیں آپ ﷺ نے ان میں سے آٹھ کے لئے باری مقرر کر رکھی تھی اور ایک کے لئے کوئی باری نہیں تھی، حضرت عطاء کہتے ہیں کہ وہ زوجہ حضرت صفیہ تھیں اور رسول کریم ﷺ کی بیویوں میں حضرت صفیہ کا سب سے آخر میں مدینہ میں انتقال ہوا ہے ( بخاری و مسلم) اور رزین کا بیان ہے کہ عطا کے علاوہ دوسرے ائمہ حدیث سے منقول ہے کہ وہ زوجہ مطہرہ جن کے لئے کوئی باری مقرر نہیں تھی ( حضرت صفیہ نہیں تھیں بلکہ) حضرت سودہ تھیں اور یہی قول زیادہ صحیح ہے اور حضرت سودہ کے لئے باری مقرر نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ) انہوں نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ کو دیدیا تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ) جب رسول کریم ﷺ نے حضرت سودہ کو طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ میں اپنی باری کا دن عائشہ کو دیتی ہوں آپ ﷺ مجھے اپنے نکاح میں رہنے دیجئے تاکہ جنت میں آپ ﷺ کی بیویوں میں شامل رہنے کا شرف مجھے بھی حاصل رہے۔ تشریح حضرت میمونہ جو آنحضرت ﷺ کی ایک زوجہ مطہرہ ہیں حضرت ابن عباس کی خالہ تھیں ان کے والد کا نام حارث تھا ماں کا نام ہندہ تھا خود ان کا نام برہ تھا مگر آنحضرت ﷺ نے میمونہ رکھا یہ پہلے مسعود ابن عمرو کے نکاح میں تھیں پھر ابو وہم کے ساتھ شادی ہوئی ان کا رسول کریم ﷺ کے ساتھ ذی قعدہ سن ٦ ھ میں مقام سرف جو مکہ معظمہ سے آٹھ میل کا فاصلہ ہے وہاں ان کا نکاح ہوا یہیں شب زفاف گزری اور اتفاق کی بات کہ اسی مقام سرف میں وفات پائی اور یہیں مدفون ہوئیں۔ جن زوجہ مطہرہ کے لئے باری مقرر نہیں تھی وہ حضرت صفیہ تھیں یا حضرت سودہ اس بارے میں بظاہر دو متضاد روائتیں ہیں لیکن تحقیقی بات یہی ہے کہ وہ حضرت سودہ تھیں بلکہ خطابی نے تو عطاء کے اس قول کو کہ وہ حضرت صفیہ تھیں کے بارے میں یہ کہا ہے کہ کسی راوی کی چوک ہے یعنی حضرت عطاء نے تو یہاں حضرت سودہ ہی کہا تھا مگر کسی راوی کی چوک سے حضرت صفیہ نقل ہوگیا۔ وکانت اخرہن موتا ماتت بالمدینۃ اور آنحضرت ﷺ کی بیویوں میں حضرت صفیہ کا سب سے آخر میں مدینہ میں انتقال ہوا ہے توضیح سے پہلے یہ جان لیجئے کہ آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کس زوجہ مطہرہ کا انتقال کب ہوا ہے صاحب مواہب نے لکھا ہے کہ حضرت صفیہ کا انتقال سن ٥٠ ھ کے ماہ رمضان میں ہوا ہے اور بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ ان کا انتقال حضرت معاویہ کے زمانہ سن ٥٢ یا ٥٥ ہجری میں ہوا ہے اور بقیع میں مدفون ہوئیں ہیں حضرت میمونہ کا انتقال ٥١ ہجری میں ہوا اور بعض علماء کے قول کے مطابق ٦٦ یا سن ٦٣ ہجری میں ہوا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) نے مدینہ میں ٥٧ ہجری میں وفات پائی جب کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ ان کی وفات سن ٥٨ میں ہوئی ہے۔ حضرت سودہ (رض) نے سن ٥٤ ہجری میں، حضرت حفصہ (رض) نے سن ٥٠ یا بعض علماء کے قول کے مطابق ٤١ ہجری میں، حضرت سلمہ (رض) نے سن ٥٩ ہجری میں، حضرت ام حبیبہ (رض) نے سن ٤٤ ہجری یا بعض علماء کے قول کے مطابق ٤٣ ہجری، حضرت زینب بنت جحش نے سن ٢٠ ہجری میں اور حضرت جویریہ (رض) نے سن ٥٠ ہجری میں انتقال کیا ہے حضرت خدیجہ (رض) کا انتقال ہجرت سے پہلے ہی مکہ میں ہوگیا تھا اور حضرت زینب بنت خزیمہ (رض) بھی آنحضرت ﷺ کے سامنے ہی وفات پا گئی تھیں۔ اب اس تفصیل کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ کہنا کہ حضرت صفیہ (رض) کا سب سے آخر میں انتقال ہوا ہے، صحیح نہیں ہے اور اگر لفظ کانت کی ضمیر کا مرجع حضرت میمونہ (رض) کو قرار دیا جائے تو بھی بات صحیح نہیں ہوتی کیونکہ اگر بعض علماء کے قول کے مطابق حضرت میمونہ (رض) کا سن وفات سن ٦٦ ہجری یا ٦٣ ہجری زیادہ صحیح تسلیم کرلیا جائے تو ازواج مطہرات میں ان کا سب سے آخر میں انتقال ہونا تو ثابت ہوجائے گا مگر یہ بات خود اسی عبارت کے اگلے جملے ماتت باالمدینہ کے مطابق نہیں ہوگی کیونکہ اس بارے میں حدیث نے وضاحت کردی ہے کہ ان کا انتقال مقام سرف میں ہوا ہے۔ لہٰذا اس عبارت کا صحیح مفہوم متعین کرنا بڑا مشکل ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس عبارت میں کیا مفہوم پوشیدہ ہے اور اس کا صحیح مطلب کیا ہے ؟

【11】

عورتوں کے ساتھ صحبت واختلاط اور ہر ایک عورت کے حقوق کا بیان

اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جو عورتوں کے ساتھ صحبت و اختلاط اور حسن معاشرت اور ہر ایک عورت کے حق کے بارے میں منقول ہیں۔ عنوان میں ہر ایک عورت کے حقوق کہنے کی بجائے عورتوں کے حقوق کہنا بظاہر زیادہ مناسب تھا لیکن اس میں نکتہ یہ ہے کہ یہاں عورتوں کی جنس مراد نہیں ہے بلکہ عورتوں کی اقسام مراد ہے یعنی جن عورتوں سے نکاح کیا جاتا ہے وہ کئی قسم کی ہوتی ہیں کوئی تو باکرہ ہوتی ہے اور کوئی ثیبہ ہوتی ہے اور کوئی خوش خلق ہوتی ہے کوئی بد خلق ہوتی ہے اسی طرح کوئی عورت مالدار ہوتی ہے اور کوئی مفلس ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا یہاں چونکہ عورتوں کی یہ اقسام مراد تھیں اس لئے عنوان میں ہر ایک عورت کے حقوق کہا گیا۔

【12】

عورت کی کجی کو سخت روی سے دور نہیں کیا جاسکتا

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت قبول کرو، اس لئے کہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں جو ٹیڑھی ہے اور سب سے زیادہ ٹیڑھا پن اس پسلی میں ہے جو اوپر کی ہے لہٰذا اگر تم پسلی کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اس کو توڑ دو گے اور اگر پسلی کو اپنے حال پر چھوڑ دو تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی اس لئے عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت قبول کرو (بخاری و مسلم) تشریح اس ارشاد گرامی نے عورتوں کی خلقت و طبیعت کے بارے میں دو بنیادی نکتے بیان کئے ہیں اول تو یہ کہ عورتوں کی اصل و بنیاد حضرت حوا ہیں جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی اوپر کی پسلی سے پیدا ہوئی ہیں جو بہت زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے لہٰذا عورتوں کی اصل خلقت ہی میں ٹیڑھا پن ہے جسے کوئی درست نہیں کرسکتا۔ دوم یہ کہ جس طرح پسلی کا حال ہے کہ اگر کوئی اسے سیدھا کرنا چاہے تو سیدھی نہیں ہوگی بلکہ ٹوٹ جائے گی اور اگر اس کو اسی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی ٹھیک اسی طرح عورتوں کا حال ہے کہ ان کی اصل خلقت ہی میں چونکہ اعمال و اخلاق کی کجی ہے اس لئے اگر مرد چاہیں کہ ان کی جی کو درست کردیں تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے بلکہ اس کو توڑ ڈالیں گے (توڑنے سے مراد طلاق دینا ہے جیسا کہ اگلی حدیث سے معلوم ہوگا) ۔ لہٰذا عورتوں سے فائدہ اٹھانا اور ان کا کار آمد رہنا اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ ان کو ان کے خلقی ٹیڑھے پن پر چھوڑے رکھا جائے پس حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ عورتوں کی اصلاح و درستگی کا م، عاملہ بہت پیچیدہ اور نازک ہے ان کی غلطیوں اور کو تاہیوں پر سخت روی اور غیظ و غضب کی بجائے ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے اور اس بنیادی نکتہ کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ان کے ٹیڑھے پن کو درست کرنے کے لئے اگر سختی سے کام لیا جائے گا۔ اس کا انجام ان کی توڑ پھوڑ یعنی طلاق کی صورت میں ظاہر ہوگا جو ان عورتوں ہی کے لئے تباہی کا باعث نہی ہوگا بلکہ خود اپنی زندگی کے لئے بھی نقصان دہ اور اضطراب انگیز ہوگا۔ اس لئے اپنی عورتوں کے ساتھ نرم معاملہ رکھو اور ان کے ٹیڑھے پن پر صبر کرو اور یہ طریقہ چھوڑ دو کہ وہ سب باتوں میں تمہاری مرضی اور تمہاری خواہش کے مطابق عمل کریں گی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کا ٹیڑھا پن اگر روز مرہ کی گھریلو زندگی اور معاشرتی امور سے گزر کر گناہ و معصیت کی حدود میں پہنچ جائے تب بھی اس پر صبر کیا جائے بلکہ ان کے ٹیڑھے پن پر صبر کرنا اور اس سے چشم پوشی کرنا اس وقت تک مناسب ہوگا۔ جب تک کوئی گناہ لازم نہ آئے۔ اگر گناہ لازم آئے تو پھر تغافل اور چشم پوشی بالکل مناسب نہیں ہوگی۔

【13】

عورت کی کجی کو سخت روی سے دور نہیں کیا جاسکتا

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عورت کی اصل اور بنیاد یعنی اس کی ماں حوا چونکہ (حضرت آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ اس لئے تمہارے لئے کسی ایک راہ پر ہرگز سیدھی نہیں ہوگی۔ لہٰذا اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اس کے ٹیڑھے پن ہی کی حالت میں اس سے ٹیڑھے پن ہی کی حالت میں فائدہ اٹھاؤ اور اگر تم اس کو سیدھا کرنا چاہو گے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا کہ تم اسے توڑ ڈالو گے اور اس کا توڑنا طلاق دینا ہے (مسلم) تشریح ہرگز سیدھی نہیں ہوگی کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم یہ چاہو کہ کوئی عورت کسی ایک حالت پر ہمیشہ قائم رہے تو یہ ناممکن ہے کیونکہ اس کی خلقت ہی میں چونکہ کجی ہے اسی لئے اس کی حالت بدلتی سدلتی رہے گی کبھی شکر گزاری کی راہ چھوڑ کر ناشکری کا راستہ اختیار کرے گی کبھی طاعت و فرمانبرداری کے راستہ پر چلتے چلتے نافرمانی کی راہ پر پڑھ جائے گی کبھی قناعت کو بالائے طاق رکھ کر طمع و حرص کے جال میں پھنس جائے گی غرضیکہ اسی طرح اس کے مزاج و عمل میں دوسرے تغیرات پیدا ہوتے رہیں گے۔

【14】

عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے بغض نہ رکھے اگر اس کی نظر میں اس عورت کی کوئی خصلت و عادت ناپسندیدہ ہوگی تو کوئی دوسری خصلت و عادت پسندیدہ بھی ہوگی (مسلم) تشریح حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ کسی انسان کے تمام افعال و خصائل برے نہیں ہوتے بلکہ اگر اس کے کچھ افعال و خصائل برے ہوتے ہیں تو اس میں کچھ اچھی عادتیں اور اچھے خصائل بھی ہوتے ہیں لہٰذا ہر مسلمان مرد کو چاہئے کہ وہ اپنی عورت کے ان اچھے افعال و اخلاق کو پیش نظر رکھے جو اس کی نظر میں پسندیدہ ہیں اور جو افعال و اخلاق برے ہوں ان پر صبر و تحمل کرے گویا اس ارشاد کا مقصد اس بات کی ترغیب دلانا ہے کہ عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرو ان کی معیت میں خوشگوار و پُرمسرت زندگی گزارنے کی کوشش کرو اور اگر ان کی طرف سے کوئی ایسی کوتاہی یا غلطی ہوجائے یا ان میں کوئی ایسی بری عادت و خصلت ہو جس سے تکلیف پہنچتی ہے تو اس تکلیف پر صبر کرو۔ اس حدیث میں ایک بہت بڑے لطیف نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ بےعیب یار اور اپنے مزاج کے بالکل موافق ہاتھ نہیں لگا کرتا۔ اگر کوئی شخص بالکل بےعیب یار ڈھونڈھنے لگے تو وہ ہمیشہ بےیار ہی رہے گا کیونکہ ایسا کوئی انسان نہیں ہے جس میں کوئی عیب اور کوئی ناپسندیدہ بات نہ ہو اس طرح کوئی انسان خصوصاً مسلمان اچھے خصائل اور اچھی عادتوں سے بالکل بھی خالی نہیں ہوتا لہٰذا عقل کا تقاضا یہی ہونا چاہئے کہ اس کے ان اچھے خصائل کو تو پیش نظر رکھا جائے اور برے خصائل سے چشم پوشی کی جائے۔

【15】

کجی ہر عورت کو ورثہ میں ملی ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت نہ سڑا کرتا اور اگر حوا نہ ہوتیں تو عورت اپنے شوہر سے خیانت نہ کرتی (بخاری ومسلم) تشریح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وقت میں ان کی قوم بنی اسرائیل یعنی یہودیوں کے لئے جنگل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے من وسلوی ٰ کا خوان نعمت اترا کرتا تھا اور اس کا یہ حکم تھا کہ انہیں جتنی ضرورت ہو اسی کے بقدر اس میں سے لے لیا کریں ضرورت سے زائد لے کر ذخیرہ نہ کریں مگر وہ یہودی کیا جو اپنی کج فطرتی اور اللہ کی نافرمانی سے باز آجائیں چناچہ اس موقع پر بھی انہوں نے حکم الٰہی کی نافرمانی کی اور اس خوان نعمت سے اپنی ضرورت سے زائد لے کر ذخیرہ کرنے لگے، مگر قدرت کا کرنا ایسا ہوتا کہ جب وہ ذخیرہ کرتے تو وہ گوشت سڑ جاتا تھا۔ چناچہ یہ گوشت کا سڑنا ان کے اس فعل بد یعنی اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد نہ کرنے اور محض حرص و طمع کی وجہ سے ذخیرہ کرنے کی سزا کے طور پر تھا اس کے بعد نظام قدرت نے ہمیشہ کے لئے گوشت کا سڑنا لازم کردیا لہٰذا اس کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر بنی اسرائیل اس بری عادت میں مبتلا نہ ہوتے اور ان کو یہ سزا نہ ملتی تو گوشت سڑا نہ کرتا بلکہ جب تک لوگ چاہتے اسے اپنی ضرورت کے مطابق رکھا کرتے۔ یہاں خیانت کے وہ معنی مراد نہیں ہیں جو امانت و دیانت کی ضد ہے بلکہ خیانت سے ناراستی یعنی کجی مراد ہے لہٰذا حضرت حوا کی کجی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو جنت کا وہ درخت کھانے کی ترغیب دی جس سے اللہ تعالیٰ نے روک رکھا تھا۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو کجی حضرت حوا سے سرزد ہوگئی تھی وہ ہر ایک عورت کی سرشت کا جزو بن گئی ہے اگر حضرت حوا سے یہ کجی سرزد نہ ہوتی تو کسی بھی عورت میں کجی کا خمیر نہ ہوتا اور وہ اپنے خاوند کے ساتھ کجروی کا کوئی بھی برتاؤ نہ کرتی۔

【16】

عورت کو مارنے کی ممانعت

اور حضرت عبداللہ بن زمعہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح (بددلی سے) نہ مارے اور پھر دن کے آخری حصہ میں اس سے جماع کرے ( ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تم میں ایک شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح مارتا ہے حالانکہ یہ نہیں سوچتا کہ شاید وہ اسی دن کے آخری حصہ میں اس سے ہم بستر ہو) پھر آپ ﷺ نے ریح خارج ہونے پر ہنسنے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس چیز پر کیوں ہنستا ہے جس کو وہ خود بھی کرتا ہے (بخاری ومسلم) تشریح اور پھر دن کے آخری حصہ میں اس سے جماع کرے۔ اس کے ذریعہ آپ ﷺ نے ایک بڑا نفسیاتی نکتہ بیان فرمایا کہ جو شخص اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرتا ہے اس کے لئے یہ بات کس طرح مناسب ہوسکتی ہے کہ ایک طرف تو اس کے ساتھ ایسا پرکیف معاملہ ہو دوسری طرف اس کے ساتھ اتنا وحشیانہ اور بےدردانہ سلوک کرے ؟ اگرچہ اپنی بیوی کو اس کی مسلسل نافرمانی اور سرکشی پر مارنے کی اجازت ہے لیکن اس طرح نہیں کہ غلاموں کی طرح بےدردی سے اسے مارا پیٹا جائے۔ یہ ایک غیر شرعی فعل ہی نہیں ہے بلکہ ایک انتہائی غیر انسانی اور غیر مہذب حرکت بھی ہے ! اس سے معلوم ہوا کہ اپنی بیوی کے ساتھ پیار و محبت اور اتفاق و سلوک کے ساتھ رہنا چاہئے۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا کسی ایسی عجیب بات پر ہنسنا تو اچھا معلوم ہوتا ہے جو عام طور پر نہ پائی جاتی ہو لیکن جب ایک چیز خود اپنے اندر موجود ہے تو پھر جب وہ کسی دوسرے سے سرزد ہوتی ہے تو اس پر ہنسنے کا کیا موقع ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص کی ریح خاج ہوجائے تو اس سے تغافل کیا جائے تاکہ وہ خجالت اور شرمندگی کر کے کبیدہ خاطر نہ ہو۔ اس سلسلہ میں یہ سبق آموز واقعہ پڑھنے کے قابل ہے کہ ایک بہت بڑے عالم گزرے ہیں جن کا نام اصم تھا یہ اگرچہ حقیقت میں بہرے نہیں تھے لیکن انہوں نے دنیا کی نظروں میں اپنے آپ کو بہرا بنا رکھا تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک دن ایک عورت کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے ان کے پاس آئی جب وہ ان سے مسئلہ پوچھ رہی تھی تو اسی اثناء میں اس کی ریح خارج ہوگئی۔ اصم نے سوچا کہ یہ عورت ذات ہے اب یہ بہت زیادہ شرمندگی و خجالت محسوس کر رہی ہوگی لہٰذا انہوں نے اس کی شرمندگی و خجالت دور کرنے کے لئے کہا کہ ذرا زور سے کہو کیا کہہ رہی ہو ؟ گویا انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ میں اونچا سنتا ہوں وہ عورت بڑی خوش ہوئی اس نے بتایا کہ یہ تو بہرے ہیں انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں اور اس طرح اس کی شرمندگی دور ہوگئی مگر اصم نے پھر اپنی اس بات کو نباہنے کے لئے اپنے آپ کو ہمیشہ بہر بنائے رکھا۔ علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ تنبیہ پوشیدہ ہے کہ ہر عقل مند انسان کو چاہئے کہ جب وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب گیری کا ارادہ کرے تو اپنے دل میں سوچے کہ آیا یہ عیب یا اسی طرح کا کوئی اور عیب میری ذات میں بھی موجود ہے یا نہیں ؟ اگر وہ اپنے آپ کو کسی عیب سے پاک نہ پائے تو پھر اس کے لئے اس مسلمان بھائی کی عیب گیری سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس عیب سے پاک کرنے پر توجہ دے کسی مرد دانا نے کیا خوب کہا ہے کہ میں اکثر لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ دوسروں کے عیوب تو دیکھ لیتے ہیں لیکن خود ان کے اندر جو عیوب ہیں ان سے وہ اندھے ہیں۔

【17】

اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب میں چھوٹی تھی اور میری شادی کا ابتدائی دور تھا تو میں رسول کریم ﷺ کے ہاں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میری ہمجولیاں بھی میرے ساتھ کھیلتی تھیں اور پھر جب رسول کریم ﷺ گھر میں تشریف لاتے تو میری ہم جولیاں شرم کی وجہ سے آپ ﷺ سے چھپ جاتی تھیں لیکن آنحضرت ﷺ ان کو میرے پاس بھیج دیا کرتے تھے اور وہ میرے ساتھ کھیلنے لگتی تھیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث میں گویا اس بات کا بیان ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی رہنا اس کے جائز جذبات و شوق کا لحاظ رکھنا ایک پرمسرت زندگی کا بنیادی باب ہے جس کے بغیر انسان کو اطمینان و سکون کی دولت نصیب نہیں ہوتی۔ گڑیوں سے کھیلنے کے بارے میں جو حکم و تفصیل ہے۔ باب الولی میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔

【18】

اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رسول کریم ﷺ میرے حجرہ مبارک کے دروازہ پر کھڑے تھے اور حبشی لوگ مسجد میں اپنی برچھیوں کے کرتب دکھا رہے تھے اور رسول کریم ﷺ نے اپنی چادر سے میرے لئے پردہ کر رکھا تھا تاکہ میں بھی آپ ﷺ کے کان اور مونڈھے کے درمیان سے ان حبشیوں کا کھیل کرتب دیکھتی رہوں یہاں تک کہ آپ ﷺ اس وقت تک پردہ کئے کھڑے رہے جب تک کہ میں خود وہاں سے نہ ہٹ گئی اس سے تم اس عرصہ کا اندازہ کرلو جس میں ایک صغیر السن لڑکی جو کھیل تماشہ کی شائق ہو کھڑی رہ سکتی ہے (یعنی خیال کرو کہ خورد سال لڑکیاں کھیل تماشہ دیکھنے کی کتنی شائق ہوتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ دیر تک کھڑے رہنا بھی ان کے لئے ایک معمولی بات ہوتی ہے چناچہ میں بھی اس وقت جتنی دیر کھڑی رہی، آپ ﷺ بھی میری وجہ سے پردہ کئے کھڑے رہے، حاصل یہ ہے کہ آپ ﷺ بہت دیر تک وہاں کھڑے ہو کر مجھے ان حبشیوں کا کھیل کرتب دکھاتے رہے) ۔ (بخاری ومسلم) تشریح مسجد سے مراد رحبہ مسجد ہے جو مسجد سے ملا ہوا ایک چبوترہ تھا، یعنی وہ حبشی مسجد میں اپنا کرتب نہیں دکھا رہے تھے بلکہ مسجد سے متصل رحبہ میں اپنے کمالات کا مظاہرہ کر رہے تھے اور اگر نفس مسجد ہی مراد لی جائے یعنی یہ کہا جائے کہ ان کا کھیل کرتب مسجد ہی کے اندر ہو رہا تھا تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ ان کا برچھیوں کا کرتب دکھانا گویا جہاد کی ایک علامتی مشق تھی لہٰذا تیر اندازی کی طرح ان کا یہ کھیل کرتب بھی عبادت کی مانند تھا، ایسے ہی ان کا کھیل دیکھنا بھی پسندیدہ تھا بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پردہ واجب ہونے سے پہلے کا ہے۔

【19】

آنحضرت ﷺ حضرت عائشہ (رض) کی خوشی وناخوشی کو کس طرح پہچانتے تھے

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ مجھ سے فرمانے لگے کہ جس وقت تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو میں جان جاتا ہوں اور جب تم کسی دنیوی معاملہ میں مجھ سے ناراض ہوتی ہو جیسا کہ میاں بیوی کے درمیان کسی بات پر خفگی ہوجاتی ہے تو مجھے وہ بھی معلوم ہوجاتا ہے میں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ یہ کس طرح پہچان لیتے ہیں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس طرح کہ جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اس طرح کہا کرتی ہو یہ بات نہیں محمد ﷺ کے پروردگار کی قسم اور جب تم مجھ سے خفا ہوتی ہو تو اس طرح کہتی ہو کہ یہ بات نہیں ہے ابراہیم (علیہ السلام) کے پروردگار کی قسم یعنی جب تم مجھ سے خفا ہونے کی حالت میں قسم کھاتی ہو تو میرا نام نہیں لیتیں بلکہ ابراہیم (علیہ السلام) کا پروردگار کہتی ہو۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ ! یہ بات ٹھیک ہے، لیکن میں صرف آپ ﷺ کا نام ہی چھوڑتی ہوں۔ (بخاری ومسلم) تشریح لیکن میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی ہوں۔ کا مطلب یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں مغلوب العقل ہوجاتی ہوں اگرچہ میں آپ ﷺ کا نام نہیں لیتی مگر میرے دل میں آپ ﷺ کے لئے پیار و محبت کا جو دریا موجزن ہے اس کے تلاطم میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہوتی، بلکہ میرا دل آپ ﷺ کی محبت میں جوں کا توں مستغرق رہتا ہے۔

【20】

شوہر کی خواہش پر بیوی کو ہم بستر ہونے سے انکار نہ کرنا چاہئے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر کوئی مرد اپنی عورت کو ہم بستر ہونے کے لئے بلائے اور وہ عورت انکار کر دے۔ اور پھر شوہر اس کے انکار کی وجہ سے رات بھر غصہ کی حالت میں رہے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں یعنی جس کے قبضہ و تصرف میں میری جان ہے، جو شخص اپنی عورت کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو وہ جو آسمان میں ہے اس سے اس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اس کا شوہر اس سے راضی نہ ہو۔ تشریح یہ وعید اس صورت میں ہے جب کہ بیوی کوئی شرعی عذر نہ ہونے کے باوجود شوہر کے بستر پر آنے سے انکار کر دے۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ حیض ایسا عذر نہیں ہے جس کی موجودگی میں بیوی کو شوہر کے بستر پر آنے سے انکار کردینے کا حق پہنچتا ہو، کیونکہ جمہور علماء کے نزدیک شوہر کو اس صورت میں بھی کپڑوں کے اوپر سے جنسی لطف حاصل کرنا (یعنی بدن سے بدن ملانا اور بوسہ وغیرہ لینا) جائز ہے اور بعض علماء کے نزدیک شرم گاہ کے علاوہ جسم کے بقیہ حصوں سے لطف اندوزی جائز ہے۔ صبح تک غالب کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے یعنی اکثر یہ صورت حال چونکہ رات میں پیش آتی ہے اس لئے صبح تک کا ذکر کیا گیا ورنہ اگر شوہر کی طرف خواہش اور بیوی کی طرف سے انکار کی یہ صورت حال دن میں پیش آئے اور اس کی وجہ سے شوہر دن بھر ناراض رہے تو فرشتے اسی طرح شام تک اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ وہ جو آسمان میں ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کا حکم آسمانوں میں جاری ہے۔ یا وہ ذات جس کی آسمانوں میں عبادت کی جاتی ہے اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یوں تو اللہ تعالیٰ زمین اور زمین کی ساری مخلوقات کا بھی معبود اور آسمان اور آسمان کی ساری مخلوقات کا بھی معبود ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت (وھو الذی فی السماء الٰہ وفی الارض الہ) اور وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے کہ جو آسمان میں بھی معبود ہے اور زمین میں بھی معبود ہے۔ لیکن حدیث میں صرف آسمان کا معبود اس لئے کہا گیا ہے کہ زمین کی بہ نسبت آسمان زیادہ شرف رکھتا ہے اور صرف آسمان کا ذکر اظہار مقصد کے لئے کافی ہے تاہم یہ بھی احتمال ہے کہ وہ جو آسمان میں ہے سے فرشتے مراد ہوں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاوند کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے اور جب جنسی جذبات کی تسکین کے بارے میں خاوند کی ناراضگی کی یہ اہمیت ہے تو کسی دنیوی معاملہ میں خاوند کی ناراضگی کی کتنی اہمیت ہوگی۔

【21】

کوئی عورت خواہ مخواہ اپنی سوکن کو جلانے کے کام نہ کرے

اور حضرت اسماء (رض) کہتی ہیں کہ ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری ایک سوکن ہے اگر میں اس کے سامنے اپنے خاوند کی کسی ایسی چیز کا اظہار کروں جو اس نے مجھے نہیں دی ہے تو کیا یہ گناہ ہے ؟ یعنی میرا خاوند مجھے جو کچھ دیتا ہے اگر میں اپنی سوکن کو جلانے کے لئے اس کے سامنے اس چیز کو زیادہ کر کے بیان کروں کہ دیکھو مجھے تم سے زیادہ ملتا ہے تو کیا اس میں کوئی برائی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں بہت بری بات ہے کیونکہ نہ دی ہوئی چیز کا اظہار کرنے والا دو جھوٹ موٹ کے کپڑے پہننے والے کے مانند ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح دو کپڑوں سے مراد چادر اور تہبند ہیں اور جھوٹ موٹ کے کپڑے پہننے والے سے وہ شخص مراد ہے جو کسی کا مانگا ہوا یا کسی کی امانت کا کپڑا پہنے اور ظاہر یہ کرے کہ گویا وہ کپڑے اسی شخص کے ہیں یا وہ شخص مراد ہے جو زاہدوں اور بزرگوں کا لباس پہنے حالانکہ واقعۃً اسے زہد و بزرگی سے کوئی نسبت نہ ہو بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ حدیث میں اس شخص کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو ایسا قمیص و کرتہ پہنے جس کی آستینوں کے نیچے دو اور آستینیں لگی ہوئی ہوں تاکہ دیکھنے والے یہ سمجھیں کہ دو کپڑے پہن رکھے ہیں اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ عرب میں ایک شخص تھا جو محض اس لئے وہ بہت عمدہ اور نفیس کپڑے پہنتا تھا تاکہ لوگ اسے عزت و احترام کی نظر دیکھیں اور اگر وہ کوئی جھوٹی گواہی دے تو کوئی آدمی اس کی کسی گواہی کو جھوٹ نہ جانے لہٰذا حدیث میں اسی شخص کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔

【22】

ایلاء کا مطلب

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اپنی بیویوں سے ایک مہینہ کا ایلاء کیا اور اسی زمانہ میں آپ ﷺ کے پاؤں میں موچ آگئی تھی چناچہ آپ ﷺ انتیس راتوں تک بالاخانہ ہی پر رہے پھر جب آپ ﷺ نیچے تشریف لائے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے تو ایک مہینہ کا ایلاء کیا تھا اور مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے پھر آپ انتیس دن کے بعد کیوں اتر آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔ (بخاری) تشریح ایلاء کے لغوی معنی ہیں قسم کھانا اور اصطلاح شریعت میں ایلاء اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اس بات کی قسم کھائے کہ میں چار مہینہ یا اس سے زیادہ تک اپنی بیوی کے پاس نہیں جاؤں گا یعنی اس سے جماع نہیں کروں گا اگر قسم پوری ہوجائے یعنی وہ شخص اپنی قسم کے مطابق چار مہینہ تک یا اس سے بھی زائد اس مدت تک جو اس نے متعین کی ہو، اپنی بیوی کے پاس نہ جائے تو طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے اور اگر وہ قسم پوری نہ کرے یعنی اس مدت کے پوری ہونے سے پہلے بیوی کے پاس چلا جائے تو ایلاء ساقط ہوجاتا ہے اور اس پر قسم پوری نہ کرنے کا کفارہ واجب ہوجاتا ہے یا جزا لازم ہوجاتی ہے اور اگر کسی شخص کے نکاح میں کسی کی لونڈی ہو یعنی اس کی بیوی آزاد عورت نہ ہو بلکہ کسی کی لونڈی ہو اور وہ اس سے ایلاء کرے تو اس کی کم سے کم مدت بجائے چار مہینہ کے دو مہینہ ہوگی اور اگر کسی شخص نے آزاد عورت کے حق میں چار مہینہ سے کم اور لونڈی کے حق میں دو مہینہ سے کم مدت کے لئے قسم کھائی تو یہ ایلاء شرعی نہیں کہلائے گا چناچہ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کی طرف جس ایلاء کی نسبت کی گئی ہے وہ شرعی ایلاء نہیں ہے۔ بلکہ ایلاء لغوی مراد ہے یعنی آپ ﷺ نے یہ قسم کھائی تھی کہ میں اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا جس کا سبب یہ تھا کہ آپ ﷺ کی بیویوں نے آپ ﷺ سے کچھ زیادہ نفقہ کا مطالبہ کیا تھا جس سے آپ ﷺ کو سخت ناگواری ہوئی اور آپ ﷺ نے قسم کے ساتھ یہ عہد کیا کہ میں ان بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا انہیں دنوں میں یہ حادثہ پیش آیا کہ آپ ﷺ گھوڑے سے گرپڑے جس کی وجہ سے آپ ﷺ کے پائے مبارک میں چوٹ آگئی پھر آپ ﷺ ایک مہینہ بالا خانہ پر ہی رہے نیچے نہیں آئے مگر وہ مہینہ غالباً انتیس دن کا تھا اس لئے آپ ﷺ نے انتیس دن پر اکتفا کیا اور نیچے تشریف لے آئے۔

【23】

آنحضرت ﷺ کے ایلاء کا واقعہ

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ جس زمانہ میں آنحضرت ﷺ اپنی بیویوں سے ایک مہینہ کی علیحدگی اختیار کئے ہوئے مکان میں گوشہ نشین تھے تو ایک دن حضرت ابوبکر (رض) آئے اور رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت کے طلب گار ہوئے انہوں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کے دروازہ پر لوگ جمع ہیں۔ اور کسی کو حاضر ہونے کی اجازت نہیں مل رہی مگر حضرت ابوبکر (رض) کو اجازت مل گئی اور وہ آپ ﷺ کی خدمت میں چلے گئے پھر حضرت عمر فاروق (رض) آئے اور انہوں نے حاضر ہونے کی اجازت مانگی ان کو بھی اجازت مل گئی چناچہ حضرت عمر (رض) جب آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ ﷺ کو اس حالت میں پایا کہ آپ ﷺ کے اردگرد آپ ﷺ کی بیویاں بیٹھی ہوئی تھیں اور آپ ﷺ اس وقت غمگین اور خاموش تھے حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے یہ صورت حال دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ اس وقت مجھے کوئی ایسی بات کہنی چاہئے۔ جس سے نبی کریم ﷺ ہنس پڑیں، چناچہ انہوں کہا کہ یا رسول اللہ ! اگر آپ دیکھیں کہ خارجہ کی بیٹی یعنی میری بیوی مجھ سے روٹی پانی کا خرچ معمول سے زیادہ طلب کرے تو میں کھڑا ہو کر اس کی گردن پر مار لگاؤں۔ حضرت عمر نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ آنحضرت ﷺ ہنس پڑے اور پھر فرمایا کہ یہ میری عورتیں جنہیں تم میرے اردگرد بیٹھی دیکھ رہے مجھ سے معمول سے زیادہ خرچ مانگ رہی ہیں یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر کھڑے ہوئے اور اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ کی گردن پر مارنے لگے، اسی طرح حضرت عمر بھی کھڑے ہوئے اور وہ بھی اپنی صاحبزادی حضرت حفصہ کی گردن پر مارنے لگے اور پھر ان دونوں یعنی حضرت ابوبکر و عمر (رض) نے کہا کہ کیا تم آنحضرت ﷺ سے اس چیز کا مطالبہ کر رہی ہو جو آپ ﷺ کے پاس موجود نہیں ہے یعنی یہ بات کتنی غیر مناسب ہے کہ تم آنحضرت ﷺ کی مالی حالت جانتی ہو اور اس کے باوجود آپ ﷺ سے اتنے خرچ کا مطالبہ کرتی ہو جس کو آپ ﷺ پورا کرنے پر قادر نہیں ہیں کیا تمہارا یہ مطالبہ آنحضرت ﷺ کو پریشانی میں مبتلا کرنے کے مترادف نہیں ہے ان عورتوں نے کہا کہ بیشک ہم نے بےجا مطالبہ کیا تھا جس پر ہم نادم ہیں اور آئندہ کے لئے ہم عہد کرتی ہیں کہ اللہ کی قسم اب ہم کبھی بھی آپ ﷺ سے اس چیز کا مطالبہ نہیں کریں گی جو آپ ﷺ کے پاس نہ ہو۔ لیکن آپ ﷺ نے چونکہ علیحدگی کی قسم کھالی تھی اس لئے اس قسم کو پورا کرنے کے لئے آپ ﷺ ایک مہینہ تک یا انتیس دن تک اپنی بیویوں سے علیحدہ رہے (اس جگہ حدیث کے کسی راوی کو شک ہوا کہ حضرت جابر نے یہاں ایک مہینہ کہا تھا یا انتیس دن کہا تھا) پھر یہ آیات۔ (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا 28 وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا 29) 33 ۔ الاحزاب 28 ۔ 29) ۔ تک نازل ہوئی حضرت جابر کہتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ ﷺ نے سب سے پہلے حضرت عائشہ (رض) رابطہ قائم کیا کیونکہ تمام ازواج مطہرات میں وہی سب سے زیادہ عقل مند اور افضل تھیں۔ چناچہ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ عائشہ میں تمہارے سامنے ایک بات پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تم اس کا جواب دینے میں جلدی نہ کرو بلکہ اس کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کرلو۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! فرمائیے وہ کیا بات ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے ان کے سامنے مذکورہ بالا آیت پڑھی، حضرت عائشہ نے یہ آیت سن کر کہا کہ یا رسول اللہ ! کیا میں آپ ﷺ کے معاملہ میں اپنے والدین سے مشورہ لوں یعنی مشورہ تو اس معاملہ میں کیا جاتا ہے جس میں کوئی تردد ہو جب کہ اس معاملہ میں مجھے کوئی تردد نہیں ہے۔ بلکہ میں اللہ اور اللہ کے رسول اور آخرت کے گھر کو اختیار کرلیا یعنی میں اس معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مرضی و خواہش کے سامنے سر تسلیم خم کرتی ہوں کہ اسی میں میرے لئے دنیا کی بھی بھلائی ہے اور آخرت کی کامیابی بھی ہے مگر میں آپ ﷺ سے یہ درخواست کرتی ہوں کہ اس وقت میں نے آپ ﷺ سے جو کچھ عرض کیا ہے اس کا ذکر اپنی کسی اور بیوی سے نہ کریں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ بات ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی بیوی مجھ سے یہ پوچھے گی تو میں اس کے سامنے ضرور ذکر کروں گا، اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ میں کسی کو رنج پہنچاؤں یا کسی کو خواہ مخواہ تکلیف میں مبتلا کروں بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ میں مخلوق اللہ کو دین کے احکام سکھاؤں اور آسانی (یعنی دینی دنیوی راحت) سے ہمکنار کروں (مسلم) تشریح حضرت عمر (رض) نے آپ ﷺ کو اس حال میں پایا الخ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پردہ واجب ہونے سے پہلے کا ہے کیونکہ اگر پردہ واجب ہوچکا ہوتا تو نہ حضرت عمر (رض) اس طرح زنانہ خانہ میں عورتوں کے سامنے جاتے اور نہ عورتیں ان کے سامنے ہوتیں۔ جس سے نبی کریم ﷺ ہنس پڑیں اس سے حضرت عمر (رض) کا مقصد یہ تھا کہ میں کوئی دلچسپ بات کہہ دوں جس سے آنحضرت ﷺ کا غم و ملال زائل ہوجائے اور آپ ﷺ خوش ہوجائیں اس سے معلوم ہوا کہ یہ مستحب ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی دوست و عزیز کو غمگین دیکھے تو وہ اس کے سامنے کوئی بات ذکر کرے جس سے وہ ہنس پڑے اور خوش ہوجائے اور خود بھی اس بات میں شریک ہو کر اپنا رنج و غم بھول جائے چناچہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ جب اپنے کسی صحابی کو غمگین دیکھتے تو اس کو خوش طبعی اور ہنسی مذاق کے ذریعہ خوش کردیتے تھے۔ حدیث میں جس آیت کا ذکر کیا گیا ہے وہ پوری یوں ہے ا یت (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا 28 وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا 29) 33 ۔ الاحزاب 29-28) ۔ اے پیغمبر ﷺ ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ (میں نے تو فقر کو اختیار کیا ہے) اگر تم میرے فقر پر راضی نہیں ہو بلکہ دنیا کی آرام دہ زندگی اور اس کی زینت و آرائش کی خواستگار ہو تو مجھے بتادو اور آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح رخصت کر دوں (یعنی ہمیشہ کے لئے تم سے علیحدگی اختیار کرلوں) اور اگر تم میرے فقر پر راضی ہو اور یہ چاہتی ہو کہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا مندی حاصل ہو اور جنت تمہارا ٹھکانا بنے تو سن لو کہ تم میں جو نیکو کاری کرنے والی ہیں ان کے لئے اللہ نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے (یعنی تمہاری اس مشقت کے عوض جو تمہیں میری فقروفاقہ کی زندگی کی رفیق بننے میں اٹھانی پڑے گی اللہ تعالیٰ تمہیں بےاندازہ اجر وثواب عطا کرے گا۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ نے اپنی بیویوں میں سب سے پہلے حضرت عائشہ (رض) رابطہ قائم کیا اور ان کے سامنے اس آسمانی ہدایت کو رکھنے سے پہلے ان پر واضح کردیا کہ میں تمہارے سامنے جو ہدایت و ضابطہ رکھنے والا ہوں میں چاہتا ہوں کہ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے والدین سے مشورہ کا حکم اس لئے دیا کہ حضرت عائشہ اگرچہ سب سے زیادہ سمجھدار اور عقل مند تھیں مگر بہرحال صغیر السن تھیں آپ ﷺ کو یہ خوف تھا کہ کہیں عائشہ کم عمری کے جذبات میں نہ بہہ جائیں اور وہ دنیا کی عیش و عشرت کی خاطر مجھے چھوڑ کر آخرت کی ابدی سعادتوں سے منہ نہ موڑ لیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس سے صرف عائشہ ہی کو نقصان اور تباہی سے دو چار ہونا نہیں پڑے گا، بلکہ ان کے والدین کو بھی سخت اذیت اور تکلیف پہنچے گی لیکن اگر اس معاملہ میں اپنے والدین سے مشورہ کریں تو وہ انہیں وہی صلاح دیں گے جو ان کی دنیا اور ان کے دین کی بھلائی اور بہتری کے مطابق ہوگی۔ مگر یہ حجرت عائشہ کی فطری سعادت کی بات تھی کہ انہوں نے اپنے والدین کے مشورہ کے بغیر اپنا یہ فیصلہ سنا دیا کہ میں دنیا کی آرام دہ زندگی پر آخرت کی ابدی سعادتوں کو ترجیح دیتی ہوں اور اللہ اور اس کے رسول کی مرضی و منشا ہی کو اختیار کرتی ہوں۔ حضرت عائشہ نے آنحضرت ﷺ سے یہ جو درخواست کی کہ میں نے آپ ﷺ کو جو کچھ جواب دیا ہے وہ آپ ﷺ اپنی کسی اور بیوی سے ذکر نہ کریں تو ان کا یہ خیال تھا کہ شاید اس موقعہ پر کوئی بیوی آپ ﷺ کے فقر پر راضی نہ ہو کہ دنیا کی آرام دہ زندگی کے لئے آپ ﷺ سے علیحدہ ہوجائے اس لئے انہوں نے سوچا کہ اگر کسی بیوی کو میرے اس ایمان و یقین سے بھرپور فیصلہ کا علم ہوا تو شاید اسے بھی راہنمائی مل جائے اور وہ بھی ایسا ہی فیصلہ کرے لیکن اگر میرے اس فیصلہ سے لاعلمی رہے گی تو بہت ممکن ہے کہ کوئی بیوی دنیا کے عیش و آرام کو آنحضرت ﷺ کی پر مشقت رفاقت پر ترجیح دے اس لئے اچھا ہی ہوگا اگر کوئی بیوی آنحضرت ﷺ کے نکاح سے نکل جائے گویا حضرت عائشہ کی اس خواہش کا محرک آنحضرت ﷺ سے ان کی وہ بےپناہ محبت تھی جس میں وہ کسی دوسری عورت کو شریک دیکھنا گوارا نہیں کرتی تھیں۔ لیکن بہرحال رسول کریم ﷺ کی نظر میں تمام بیویوں کی بھلائی و برائی یکساں حیثیت رکھتی تھی، آپ ﷺ یہ کیسے گوارا کرسکتے تھے کہ ایک بیوی تو آخرت کی سعادتوں سے نوازی جائے اور دوسری بیوی دنیا کو اختیار کر کے تباہی کے راستہ پر لگ جائے چناچہ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ کی اس درخواست کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور ان پر واضح کردیا، کہ مجھ سے جو بھی بیوی پوچھے گی میں اس کو بتادوں گا کیونکہ اس کی بھلائی اسی میں پوشیدہ ہے اگر میں کسی کو نہ بتاؤں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اس تئیں شفقت کا رویہ نہیں اپنایا اور اس کو وہ راستہ نہیں دکھایا جو اس کی راحت، اس کی بھلائی اور اس کی اخروی فلاح کے لئے ضروری ہے حالانکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث نہیں کیا ہے کہ میں لوگوں کے حق میں بدخواہی کروں یا کسی کو تکلیف و مصیبت اور رنج و غم میں مبتلا کروں اس دنیا میں اس لئے آیا ہوں کہ کائنات انسانی کے ہر فرد کو دنیا و آخرت کی بھلائی کی تعلیم دوں اور ہر انسان کو اس کے دینی دنیاوی معاملات میں آسانی و سہولت کی راہ دکھاؤں۔

【24】

آنحضرت ﷺ کے ایلاء کا واقعہ

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں ان عورتوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھی جو اپنے نفس کو رسول اللہ کے لئے ہبہ کردیتی تھیں چناچہ میں کہا کرتی تھی کہ کوئی عورت اپنا نفس ہبہ کرسکتی ہے ؟ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی۔ اے محمد ! ان عورتوں میں سے جس کو آپ چاہیں علیحدہ کردیں اور جس کو چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور جن عورتوں کو آپ نے علیحدہ کردیا ہے اگر ان میں سے کسی کو آپ بلائی تو کوئی گناہ نہیں۔ تو میں نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ میں دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ کا پروردگار آپ ﷺ کی مرضی و خواہش کو جلد پورا کردیتا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح جو عورتیں اپنا نفس آنحضرت ﷺ کو ہبہ کردیتی تھیں ان کو حضرت عائشہ اس لئے اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھیں کہ کسی عورت کا اپنے نفس کو کسی غیر مرد کو ہبہ کردینا گویا عورت کی عزت و شرف کے منافی ہے اور اس کی حرص و قلت حیاء پر دلالت کرتا ہے اگرچہ جو عورتیں آنحضرت ﷺ کو اپنا نفس ہبہ کردیتی تھیں ان عورتوں کے نقطہ نظر سے اور واقعۃً بھی ان کا یہ ہبہ ان کے لئے باعث عزت ہوتا تھا جسے وہ اپنی خوش قسمتی تصور کرتی تھیں۔ کوئی عورت اپنا نفس ہبہ کرسکتی ہے حضرت عائشہ یہ بات ان عورتوں کے ہبہ کی مخالفت میں کہا کرتی تھیں جس سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ کسی عورت کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنا نفس کسی غیر مرد کو ہبہ کر دے اور ایک روایت میں حضرت عائشہ کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ کیا عورت اپنا نفس ہبہ کرتے ہوئے کوئی شرم و حیاء محسوس نہیں کرتی ؟ مذکورہ آیت کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آپ ﷺ اپنی ازواج میں سے جس کو چاہیں اپنا ہم بستر بنائیں اور جس کو چاہیں اپنے سے الگ رکھیں یا یہ مطلب ہے کہ آپ ﷺ اپنی ازواج میں سے جس کو چاہیں اپنے نکاح میں باقی رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نکاح سے الگ کردیں یعنی طلاق دے دیں اور یا یہ مطلب ہے کہ آپ ﷺ اپنی امت کی عورتوں میں جس سے چاہیں نکاح کرلیں اور جس سے چاہیں نکاح نہ کریں۔ اور امام بغوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت دراصل اس آیت (لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَا ءُ مِنْ بَعْدُ ) 33 ۔ الاحزاب 52) کی ناسخ ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی وفات تک آپ ﷺ کے لئے ازواج مطہرات کے علاوہ اور بھی عورتیں مباح رکھی تھیں۔ مشہور مفسر امام بغوی یہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ آیت کے بارے میں سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ آیت دراصل آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کی باری کے سلسلہ میں نازل ہوئی تھی جس کی تفصیل یہ ہے کہ اپنی بیویوں کے لئے باری مقرر کرنا پہلے آنحضرت ﷺ پر بھی واجب تھا لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہ وجوب آپ کے حق میں ساقط ہوگیا اور آپ ﷺ کو اختیار مل گیا کہ اپنی بیویوں کو آپ ﷺ نے باری سے الگ کردیا ہے اور ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلانا اور ہم بستر ہونا چاہیں تو آپ ﷺ ایسا کرسکتے ہیں اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے امت کے دوسرے مردوں پر آپ ﷺ کی فضیلت و برتری ظاہر کرتے ہوئے اپنی بیویوں کے لئے باری مقرر کرنے کے حکم پر عمل نہ کرنا آپ کے لئے مباح کردیا کہ جس بیوی کے بارے میں آپ ﷺ کی خواہش ہو اسے آپ ﷺ اس کی باری کے و علاوہ بھی اپنا ہم بستر بنا سکتے ہیں اور اگر ﷺ اپنی کسی بیوی کو اس باری میں بھی اپنے پاس سلانا نہ چاہیں تو آپ ﷺ کے لئے اس کی بھی اجازت ہے۔ ( ما اریٰ ربک) الخ کے معنی یہ ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ آپ ﷺ جس چیز کی خواہش کرتے ہیں آپ ﷺ کا پروردگار اسے جلد پورا کردیتا ہے۔ علامہ نووی کہتے ہیں اس بات سے حضرت عائشہ کی مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ بعض احکام کی پابندی کو آپ ﷺ کے حق میں نرم کردیتا ہے اور آپ ﷺ کو اس پر عمل نہ کرنے کی آسانی فرما دیتا ہے اسی لئے مذکورہ بالا معاملہ میں بھی آپ ﷺ کو اپنی مرضی و خواہش کے مطابق عمل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون خاتون تھیں جنہوں نے اپنا نفس آپ ﷺ کو ہبہ کیا تھا ؟ چناچہ بعض علماء کے قول کے مطابق حضرت میمونہ تھیں اور بعضوں نے کہا ہے کہ حضرت ام شریک تھیں بعض حضرات کہتے ہیں کہ وہ حضرت زینب بنت خزیمہ تھیں اور بعض نے کہا ہے کہ خولہ بنت حکیم تھیں لیکن اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ کوئی ایک خاتون نہیں تھیں بلکہ وہ کئی عورتیں تھیں۔ وحدیث جابر (اتقوا اللہ فی النساء ذکر فی قصۃ حضۃ الوداع) ۔ اور حضرت جابر کی حدیث (اتقو اللہ فی النساء) الخ حجۃ الوداع کے بیان میں نقل کی جا چکی ہے۔

【25】

اپنی بیویوں کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا حسن مباشرت

حضرت عائشہ جو ایک سفر میں رسول کریم ﷺ کے ہمراہ تھیں کہتی ہیں کہ اس سفر میں ایک موقع پر میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ اپنے پیروں کے ذریعہ دوڑی یعنی ہم دونوں نے دوڑ میں باہم مقابلہ کیا اور میں آپ ﷺ سے آگے نکل گئی پھر جب میں عرصہ دراز کے بعد فربہ ہوگئی تو پھر ہم دونوں کی دوڑ ہوئی اور اس مرتبہ آنحضرت ﷺ مجھ سے آگے نکل گئے چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس مرتبہ میرا آگے نکل جانا پہلی مرتبہ تمہارے آگے نکل جانے کے بدلہ میں ہے۔ یعنی پہلی مرتبہ تم جیت گئی تھیں اس مرتبہ میں جیت گیا لہٰذا دونوں برابر رہے۔ (ابو داؤد) تشریح اپنے پیروں کے ذریعہ سے اس بات کو مؤ کد کرنا مقصود ہے کہ میں کسی سواری پر بیٹھ کر نہیں دوڑی تھی بلکہ اپنے پیروں پر دوڑی تھی چناچہ طیبی نے یہی فرمایا ہے کہ اس جملہ سے تاکید مقصود ہے جیسا کہ کوئی یوں کہے کہ میں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے یا میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے۔ یہ روایت اپنی بیویوں کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے حسن معاشرت کی ایک مثال ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی ازواج کے ساتھ ایک پر مسرت اور خوشگوار زندگی بسر کرتے تھے اور اپنی بیویوں کے حق میں انتہائی مہربان اور ہنس مکھ تھے۔ نیز اس روایت میں امت کے لئے بھی یہ سبق ہے کہ اپنی عائلی زندگی میں آنحضرت ﷺ کے اس حسن معاشرت کی پیروی کی جائے اور اپنی بیویوں کے ساتھ ہنسی خوشی اور باہمی پیار و محبت کے ساتھ رہا جائے۔ قاضی خان (رح) فرماتے ہیں کہ سباق یعنی باہمی دوڑ وغیرہ کا مقابلہ چار چیزوں میں جائز ہے اونٹ میں، گھوڑے خچر میں، تیر اندازی میں اور پیادہ پا چلنے دوڑے نے میں۔ نیز یہ مقابلہ اگر کسی شخص سے کسی شرط کے ساتھ ہو تو وہ ایسی صورت میں جائز ہوگا جب کہ دونوں مقابل میں سے صرف ایک طرف سے شرط ہو یعنی مثلا زید اور بکر کے درمیان مقابلہ ہوا اور زید بکر سے یہ کہے کہ اگر میں جیت گیا تو میں اتنے روپیہ یا فلاں چیز لے لوں گا اور اگر میرے مقابلہ تم جیت گئے تو تمہیں کچھ نہیں ملے گا اور اگر دونوں طرف سے شرط ہو یعنی دونوں مقابل ایک دوسرے کے ساتھ یہ شرط کریں کہ ہم دونوں میں سے جو بھی جیت جائے گا اسے اتنے روپے یا فلاں چیز ملے گی تو یہ حرام ہے کیونکہ یہ جوا ہوجاتا ہے ہاں اگر دونوں مقابل ایک محلل کو یعنی دونوں کی شرط حلال کرانے والے ایک تیسرے شخص کو اپنے میں شامل کریں تو اس صورت میں دونوں طرف سے شرط بھی جائز ہوجائے گی۔ محلل کو اپنے میں شامل کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا زید اور بکر آپ میں یہ شرط کریں کہ ہماری باہمی دوڑ میں ہم دونوں سے جو بھی آگے نکل جائے گا تو اپنے روپے یا فلاں چیز اسے مل جائے گی اور اس کے ساتھ ہی وہ ایک تیسرے شخص مثلاً خالد کو بھی اپنی دوڑ میں شامل کرلیں اور یہ طے ہوجائے کہ اگر یہ تیسرا شخص یعنی خالد آگے نکل جائے گا تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔ لہٰذا یہ صورت جائز ہے اور حلال ہے لیکن جائز ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں جیتنے والے کو جو چیز ملے گی وہ اس کے حق میں حلال اور طیب مال ہوگا نہ یہ کہ وہ اس چیز کا شرعی طور پر کوئی استحقاق رکھے گا کیونکہ شریعت کی نظر میں جیتنے والا محض اس مقابلہ سے اس روپیہ پر کوئی قانونی حق نہیں رکھتا دوڑ کے انعامی مقابلے جائز ہیں یعنی کسی فرد یا ادارہ کی طرف سے بطور انعام کچھ روپے یا کوئی چیز مقرر کر کے دوڑنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ تم میں سے جو شخص بھی آگے نکل جائے گا اسے یہ روپے یا چیز دی جائے گی فقہاء نے اسے جائز کہا ہے۔

【26】

اپنے اہل وعیال کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا بہترین شخص ہے

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل بیوی بچوں اقرباء اور خدمت گاروں کے حق میں بہترین ہو اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں یعنی اپنے اہل و عیال سے جتنا بہتر سلوک میں کرتا ہوں اپنے اہل و عیال کے ساتھ اتنا بہتر سلوک تم میں سے کوئی بھی نہیں کرتا اور جب تمہارا صاحب مرجائے تو اس کو چھوڑ دو ۔ (ترمذی ودارمی) اور ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت ابن عباس (رض) سے لفظ لاھلی تک نقل کیا ہے۔ تشریح حدیث کے پہلے جزو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اور اللہ کی مخلوق کے نزدیک تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی اپنے بچوں اپنے عزیزوں واقا رب اور اپنے خدمت گاروں و ماتحتوں کے ساتھ بھلائی اور اچھا سلوک کرتا ہے کیونکہ اس کا بھلائی اور اچھا سلوک کرنا اس کی خوش اخلاقی وخوش مزاجی پر دلالت کرتا ہے۔ اور جب تمہارا صاحب مرجائے الخ کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہارا کوئی عزیز و رشتہ دار یا دوست وغیرہ مرجائے تو اس کی برائیوں کو ذکر کرنا چھوڑ دو ۔ گویا اس جملہ کے ذریعہ یہ تعلیم مقصود ہے کہ جو لوگ اس دنیا سے اٹھ چکے ہیں ان کی غیبت نہ کرو۔ جیسا کہ ایک روایت میں اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے مرے ہوئے لوگوں کو بھلائی کے ساتھ یاد کرو یعنی صرف ان کی خوبیاں ہی ذکر کرو ان کی برائیوں کا تذکرہ نہ کرو۔ بعض علماء نے اس جملہ کی یہ مراد بیان کی ہے کہ جب کوئی شخص مرجائے تو اس کی محبت اور اس کی موت پر رونا دھونا چھوڑ دو اور یہ سمجھ لو کہ اب اس کے ساتھ تمہارا کوئی جسمانی تعلق باقی نہیں رہا ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس جملہ میں صاحب سے اپنی ذات مبارک مراد رکھی ہے جس کا مطلب امت کو یہ تلقین کرنا ہے کہ جب میں اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں تو تم تاسف اور تحیر و اضطراب کا اظہار نہ کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارا کا رساز ہے جس ذات پاک نے میری حیات کو تمہاری ہدایت وسعادت کا ذریعہ بنایا تھا، وہی ذات پاک میرے انتقال کے بعد بھی تمہیں اسی ہدایت وسعادت پر قائم رکھے گی۔ بعض حضرات نے اس جملہ کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جب میں اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں تو تم مجھے چھوڑے رکھنا بایں معنی کہ میرے اہل بیت، میرے صحابہ اور میری شریعت کے متبعین یعنی علماء و اولیاء کو ایذاء پہنچا کر مجھے ایذاء پہنچانے کا سبب نہ بننا کیونکہ اگر تم انہیں تکلیف و ایذاء پہنچاؤ گے تو ان کی تکلیف سے مجھے تکلیف پہنچے گی۔

【27】

فرمانبردار بیوی کو جنت کی بشارت

حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس عورت نے اپنی پاکی کے دنوں میں پابندی کے ساتھ پانچوں وقت کی نماز پڑھی، رمضان کے ادا اور قضاء روزے رکھے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی یعنی فواحش اور بری باتوں سے اپنے نفس کو محفوظ رکھا اور اپنے خاوند کی ان چیزوں میں فرمانبرداری کی جن میں فرمانبرداری کرنا اس کے لئے ضروری ہے تو اس عورت کے لئے یہ بشارت کہ وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے، اس روایت کو ابونعیم نے حلیۃ الابراء میں نقل کیا ہے۔

【28】

اگر غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو خاوند کو بیوی کا مسجود قرار دیا جاتا

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ وہ کسی غیر اللہ کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ رب معبود کے علاوہ اور کسی کو سجدہ کرنا درست نہیں ہے اگر کسی غیر اللہ کو سجدہ کرنا درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے کیونکہ بیوی پر اس کے خاوند کے بہت زیادہ حقوق ہیں جن کی ادائیگی شکر سے وہ عاجز ہے گویا اس ارشاد گرامی میں اس بات کی اہمیت و تاکید کو بیان کیا گیا ہے کہ بیوی پر اپنے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری واجب ہے۔

【29】

شوہر کی خوشنودی کی اہمیت

حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی وخوش ہو، تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی) تشریح جو شوہر عالم و متقی ہو اس کی رضا مندی اور خوشنودی کا یہ اجر بیان کیا گیا ہے، فاسق و جاہل شوہر کی رضامندی خوشنودی کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔

【30】

شوہر کی اطاعت کرو

حضرت طلق بن علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے (یعنی جماع کے لئے) بلائے تو بیوی کو شوہر کے پاس پہنچ جانا چاہئے اگرچہ وہ چولہے کے پاس ہو۔ (ترمذی) تشریح اگرچہ وہ چولہے کے پاس ہو کا مطلب یہ ہے کہ اگر بیوی کسی ضروری کام میں مشغول ہو اور کسی چیز کے نقصان کا احتمال بھی ہو تب بھی شوہر کی اطاعت کی جائے اور اس کے بلانے پر فوراً اس کے پاس پہنچ جانا چاہئے مثلاً بیوی چولہے کے پاس ہو اور روٹی توے پر ڈال رکھی اور اسی حالت میں شوہر جماع کے لئے بلائے تو اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ آٹے روٹی کا نقصان ہوجائے گا شوہر کے حکم کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اس کے پاس پہنچ جائے۔

【31】

شوہر کو تکلیف مت پہنچاؤ

حضرت معاذ (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب کوئی عورت دنیا میں اپنے شوہر کو تکلیف پہنچاتی ہے تو اس کی جنت والی بیوی یعنی بڑی آنکھوں والی حور کہتی ہے کہ تجھ پر اللہ کی مار پڑے (یعنی اللہ تجھے جنت اور اپنی رحمت سے دور رکھے) اپنے شوہر کو تکلیف نہ پہنچا کیونکہ وہ دنیا میں تیرا مہمان ہے جو جلد ہی تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس جنت میں آئے گا۔ (ترمذی اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث غریب ہے) تشریح ایک دوسری روایت میں یوں فرمایا گیا ہے کہ حدیث (لعن الملائکۃ لعاصیۃ الزوج) یعنی فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے ہیں جو اپنے شوہر کی نافرمانی کرتی ہے ان دونوں روایتوں سے جہاں شوہر کی نافرمانی کرنے یا اس کو تکلیف پہنچانے کی سخت برائی ثابت ہو رہی ہے وہیں یہ بھی واضح ہوا کہ اس دنیا میں انسان جو کچھ کرتا ہے وہ ملاء اعلیٰ یعنی آسمان کے رہنے والوں کے علم میں آجاتا ہے۔

【32】

شوہر پر بیوی کا حق

حضرت حکیم بن معاویہ قشیری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس کے شوہر پر کیا حق ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کہ جب تم کھاؤ تو اس کو بھی کھلاؤ جب تم پہنو تو اس کو بھی پہناؤ یعنی جس طرح تم کھاؤ پہنو اسی طرح اپنی بیوی کو بھی کھلاؤ پہناؤ۔ اس کے منہ پر نہ مارو نہ اس کو برا کہو اور نہ یہ کہو کہ اللہ تیرا برا کرے اور اس سے صرف گھر کے اندر ہی علیحدگی اختیار کرو۔ (احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح بطور خاص منہ پر نہ مارنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ تمام اعضا میں منہ ہی افضل ہے اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ کہ کسی معقول وجہ کی بنیاد پر مثلاً فواحش کے صدور پر یا فرائض ترک کردینے پر اور یا مصلحت تادیب کے پیش نظر منہ کے علاوہ کسی اور جگہ پر مارے تو جائز ہے اور منہ پر مارنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔ خاوند اپنی بیوی کو تادیباً مار سکتا ہے یا نہیں ؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مرد و عورت انسانی نقطہ نظر سے یکساں مرتبہ کے حامل ہیں اور اسلام کی نظر میں عورت کو بھی وہ شرف و مرتبہ حاصل ہے جو ایک مرد کو ہوتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جب ایک مرد اور ایک عورت آپس میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر ایک دوسرے کے رفیق حیات بن جاتے ہیں تو ان دونوں کی شرعی اور معاشرتی حیثیت میں تھوڑا سا فرق ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ خاوند کو قدرتی طور پر ایک مخصوص قسم کی برتری حاصل ہوجاتی ہے جس کا تعلق انسانی شرف و مرتبہ کے فرق و امتیاز سے نہیں ہوتا بلکہ ان کے باہمی رشتہ کے تقاضوں اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی سے ہوتا ہے چناچہ شوہر اپنی اسی مخصوص برتری کی بنیاد پر بیوی کو ان معاملات میں اپنے حکم کا پابند بنانے کا اختیار رکھتا ہے جن کا شریعت نے اسے استحقاق عطا کیا ہے یا جن کا تعلق شرع فرائض و واجبات کی ادائیگی سے ہے لہٰذا اگر کوئی بیوی ان معاملات میں اپنے شوہر کے حکم کی پابندی نہ کرے اور شوہر کے کہنے سننے کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا ہے، یعنی زبانی نصیحت و تنبیہ کا کوئی اثر قبول نہ کرتی ہو اور شوہر کو یقین ہوجائے کہ اب یہ بغیر سختی کے راہ راست پر نہیں آئے گی تو اسے بیوی کو مارنے کی اجازت ہوگی لیکن اس بارے میں یہ بات ملحوظ ہونی چاہئے کہ بیوی کی ایسی نافرمانی کہ جس پر اس کا شوہر اس کو مار سکتا ہے صرف انہی امر میں معتبر ہوگی جن کی شریعت نے وضاحت کردی ہے چناچہ فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو چار باتوں پر مار سکتا ہے۔ ١۔ شوہر کی خواہش وحکم کے باوجود بیوی زینت و آرائش نہ کرے۔ ٢۔ شوہر جماع کا خواہش مند ہو مگر بیوی کوئی عذر جیسے حیض وغیرہ نہ ہونے کے باوجود انکار کر دے۔ ٣۔ اسلامی فرائض جیسے نماز پڑھنا چھوڑ دے، جنابت و ناپاکی کے بعد بیوی کا نہ نہانا بھی ترک فرائض کے حکم میں ہے یعنی اگر بیوی ناپاکی اور حیض کا غسل کرنے سے انکار کرتی ہو تو شوہر اس پر بھی مار سکتا ہے۔ 4 ۔ بیوی اپنے شوہر کی اجازت و رضامندی کے بغیر گھر سے باہر جاتی ہو۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر بیوی کی کسی نافرمانی یا اس کی کسی بات پر ناراضگی کی وجہ سے اس سے جدائی اختیار کرنے ہی میں مصلحت ہو تو ہمیشہ کے لئے جدائی اختیار کرنے کی بجائے یہ زیادہ بہتر ہے کہ اپنے بستر پر اس سے جدائی اختیار کرلو یعنی اس کے ساتھ لیٹنا چھوڑ دو اور رات کو گھر میں نہ رہو تاکہ وہ تمہارے اس طرز عمل کو اپنے حق میں سزا سمجھ کر راہ راست پر آجائے اور ہمیشہ کی جدائی یعنی طلاق کی نوبت نہ آئے چناچہ قرآن کریم میں اس بات کو یوں فرمایا گیا ہے۔ آیت (واللاتی تخافون نشوزہن فعظوہن واہجروہن فی المضاجع واضربوہن) ۔ (النساء ٤ ٣٤) اگر جو عورتیں ایسی ہوں کہ تم کو ان کی بد دماغی یعنی نافرمانی کا احتمال ہو تو ان کو پہلے زبانی نصیحت کرو اور پھر ان کو ان کے لیٹنے کی جگہوں میں تنہا چھوڑ دو ۔ یعنی ان کے پاس مت لیٹو۔ اور پھر اعتدال سے ان کو مارو۔

【33】

خاوند اپنی بیوی کو تادیباً مار سکتا ہے یا نہیں ؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مرد و عورت انسانی نقطہ نظر سے یکساں مرتبہ کے حامل ہیں اور اسلام کی نظر میں عورت کو بھی وہ شرف و مرتبہ حاصل ہے جو ایک مرد کو ہوتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جب ایک مرد اور ایک عورت آپس میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر ایک دوسرے کے رفیق حیات بن جاتے ہیں تو ان دونوں کی شرعی اور معاشرتی حیثیت میں تھوڑا سا فرق ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ خاوند کو قدرتی طور پر ایک مخصوص قسم کی برتری حاصل ہوجاتی ہے جس کا تعلق انسانی شرف و مرتبہ کے فرق و امتیاز سے نہیں ہوتا بلکہ ان کے باہمی رشتہ کے تقاضوں اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی سے ہوتا ہے چناچہ شوہر اپنی اسی مخصوص برتری کی بنیاد پر بیوی کو ان معاملات میں اپنے حکم کا پابند بنانے کا اختیار رکھتا ہے جن کا شریعت نے اسے استحقاق عطا کیا ہے یا جن کا تعلق شرع فرائض وواجبات کی ادائیگی سے ہے لہٰذا اگر کوئی بیوی ان معاملات میں اپنے شوہر کے حکم کی پابندی نہ کرے اور شوہر کے کہنے سننے کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا ہے، یعنی زبانی نصیحت و تنبیہ کا کوئی اثر قبول نہ کرتی ہو اور شوہر کو یقین ہوجائے کہ اب یہ بغیر سختی کے راہ راست پر نہیں آئے گی تو اسے بیوی کو مارنے کی اجازت ہوگی لیکن اس بارے میں یہ بات ملحوظ ہونی چاہئے کہ بیوی کی ایسی نافرمانی کہ جس پر اس کا شوہر اس کو مار سکتا ہے صرف انہی امر میں معتبر ہوگی جن کی شریعت نے وضاحت کردی ہے چناچہ فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو چار باتوں پر مار سکتا ہے۔ ١۔ شوہر کی خواہش وحکم کے باوجود بیوی زینت و آرائش نہ کرے۔ ٢۔ شوہر جماع کا خواہش مند ہو مگر بیوی کوئی عذر جیسے حیض وغیرہ نہ ہونے کے باوجود انکار کر دے۔ ٣۔ اسلامی فرائض جیسے نماز پڑھنا چھوڑ دے، جنابت وناپا کی کے بعد بیوی کا نہ نہانا بھی ترک فرائض کے حکم میں ہے یعنی اگر بیوی ناپاکی اور حیض کا غسل کرنے سے انکار کرتی ہو تو شوہر اس پر بھی مار سکتا ہے۔ 4 ۔ بیوی اپنے شوہر کی اجازت و رضامندی کے بغیر گھر سے باہر جاتی ہو۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر بیوی کی کسی نافرمانی یا اس کی کسی بات پر ناراضگی کی وجہ سے اس سے جدائی اختیار کرنے ہی میں مصلحت ہو تو ہمیشہ کے لئے جدائی اختیار کرنے کی بجائے یہ زیادہ بہتر ہے کہ اپنے بستر پر اس سے جدائی اختیار کرلو یعنی اس کے ساتھ لیٹنا چھوڑ دو اور رات کو گھر میں نہ رہو تاکہ وہ تمہارے اس طرز عمل کو اپنے حق میں سزا سمجھ کر راہ راست پر آجائے اور ہمیشہ کی جدائی یعنی طلاق کی نوبت نہ آئے چناچہ قرآن کریم میں اس بات کو یوں فرمایا گیا ہے۔ آیت (واللاتی تخافون نشوزہن فعظوہن واہجروہن فی المضاجع واضربوہن) ۔ (النساء ٤ ٣٤) اگر جو عورتیں ایسی ہوں کہ تم کو ان کی بددماغی یعنی نافرمانی کا احتمال ہو تو ان کو پہلے زبانی نصیح کرو اور پھر ان کو ان کے لیٹنے کی جگہوں میں تنہا چھوڑ دو ۔ یعنی ان کے پاس مت لیٹو۔ اور پھر اعتدال سے ان کو مارو۔

【34】

بدزبان بیوی کو طلاق دے دو

حضرت لقیط بن صبرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری ایک عورت ہے جس کی زبان میں کچھ ہے یعنی وہ زبان دراز ہے اور فحش بکتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا۔ اگر تم اس کی زبان درازی اور فحش گوئی کی ایذاء پر صبر نہیں کرسکتے تو بہتر یہ ہے کہ تم اس کو طلاق دے دو گویا آپ ﷺ نے یہ حکم بطور اباحت دیا میں نے عرض کیا کہ اس کے بطن سے میرے ہاں اولاد ہے اور اس کے ساتھ پرانی رفاقت اور صحبت ہے اس لئے اس کو طلاق دینا بھی میرے لئے مشکل ہے آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر اس کو حکم کرو، یعنی اس کو زبان درست کرنے اور اپنی عادات واطوار ٹھیک کرنے کی نصیحت کرو، اگر اس میں کچھ بھی بھلائی ہوگی تو وہ تمہاری نصیحت کو قبول کرلے گی اور اس کو لونڈی کی مار نہ مارو۔ (ابو داؤد) تشریح (یقول عظہا) کے الفاظ راوی کے ہیں جن کے ذریعہ وضاحت مقصود ہے کہ اس ارشاد فمرہا (تو پھر اس کو حکم کرو) سے مراد آنحضرت ﷺ کی یہ تھی کہ اس کو نصیحت کرو۔ حدیث کے آخری جملہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ پہلے اپنی بیوی کو زبانی نصیحت و تنبیہ کے ذریعہ زبان درازی اور فحش گوئی سے باز رکھنے کی کوشش کرو اگر اس پر زبانی نصیحت و تنبیہ کا کوئی اثر نہ ہو تو پھر اس کو مارو لیکن بےرحمی کے ساتھ نہ مارو بلکہ ہلکے سے تھوڑا سا مارو۔

【35】

عورتوں کو مارنے کی ممانعت

اور حضرت ایاس ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی لونڈیوں ( یعنی اپنی بیویوں) کو نہ مارو پھر اس حکم کے کچھ دنوں بعد حضرت عمر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ ﷺ نے چونکہ عورتوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے اس لئے عورتیں اپنے خاوندوں پر دلیر ہوگئیں ہیں آپ ﷺ نے عورتوں کو مارنے کی اجازت عطا فرما دی اس کے بعد بہت سی عورتیں رسول کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے پاس جمع ہوئیں اور اپنے خاوندوں کی شکایت کی کہ وہ ان کو مارتے ہیں رسول کریم ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ محمد ﷺ کی بیویوں کے پاس بہت سی عورتیں اپنے خاوندوں کی شکایت لے کر آئی ہیں یہ لوگ جو اپنی بیویوں کو مارتے ہیں تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں ( ابوداؤد ابن ماجہ دارمی) تشریح حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں کو مارتے ہیں یا مطلق مارتے ہیں تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں بلکہ بہتر لوگ وہی ہیں جو اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ان کی ایذاء اور تکلیف دہی پر صبر و تحمل کرتے ہیں یا ان کو اتنا زیادہ نہیں مارتے جو ان کی شکایت کا باعث ہو بلکہ بطور تادیب تھوڑا سا مارتے ہیں۔ شرح السن میں لکھا ہے کہ اس روایت سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی بیوی اپنے شوہر کے حقوق نکاح کی ادائیگی سے انکار کرے تو اس کو مارنا مباح ہے لیکن بہت نہیں مارنا چاہئے۔ پچھلے صفحات میں حضرت حکیم ابن معاویہ کی جو روایت ٢٠ گزری ہے اور اس کی تشریح میں جو آیت نقل کی گئی ہے اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بطور تادیب اپنی بیویوں کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے جب کہ اس روایت سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ؟ گویا دونوں میں بظاہر تضاد وتعارض معلوم ہوتا ہے لہذا اس تضاد وتعارض کو حضرت امام شافعی سے منقول اس وجہ تطبیق کے ذریعہ ختم کیا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے عورتوں کو مارنے سے منع کیا ہوگا پھر جب عورتیں شوہروں پر غالب ہوگئیں اور ان کی جرات ودلیری بڑھ گئی تو آپ ﷺ نے ان کو مارنے کی اجازت دیدی اور آپ ﷺ کے حکم کی توثیق میں یہ آیت نازل ہوئی لیکن اس کے بعد جب عورتوں کی طرف سے یہ شکایت کی گئی کہ ان کے خاوند ان کو بہت مارتے ہیں تو آپ نے اعلان کیا کہ اگرچہ بیوی کی بداطواری پر اس کو مارنا مباح ہے لیکن اس کی بداطواری پر صبر و تحمل کرنا اور ان کو نہ مارنا ہی بہتر و افضل ہے۔

【36】

بیوی کو اسکے خاوند کے خاوند کے خلاف بہکانے کی مذمت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص ہمارے تابعداروں میں سے نہیں ہے جو کسی عورت کو اس کے خاوند کے خلاف یا کسی غلام کو اس کے آقا کے خلاف بدراہ کرے ( ابوداؤد) تشریح کسی بیوی کو اس کے خاوند کے خلاف یا کسی غلام و لونڈی کو اس کے مالک کے خلاف گمراہ کرنا انتہائی نازیبا فعل ہے چناچہ اس حدیث کا یہی مطلب ہے کہ وہ شخص ہمارے تابعداروں میں سے نہیں ہے جو کسی بیوی کا دل اس کے خاوند کی طرف سے برا کرے مثلا بیوی کے سامنے اس کے خاوند کی برائی کرے یا اس کے سامنے کسی اجنبی شخص کی خوبیاں اور بڑائیں بیان کرے۔ یا اس کو بہکائے کہ اپنے خاوند سے زیادہ مال و اسباب کا مطالبہ کرو یا اپنے شوہر کی خدمت و اطاعت نہ کرو اسی طرح کسی غلام و نوکر کو بہکائے کہ تم اپنے مالک کا گھر چھوڑ کر چلے جاؤ یا اس کی خدمت میں کوتاہی کرو اسی طرح بیوی کے خلاف خاوند کو یا لونڈی کو اس کے مالک کے خلاف یا مالک کو اس کے غلام و لونڈی کے خلاف بہکانا بھی اسی حکم میں داخل ہے۔

【37】

اپنے اہل وعیال کے حق میں کمال مہربانی، کمال ایمان کی دلیل ہے

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مؤمنین میں کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو خوش اخلاق ہو اور اپنے اہل و عیال پر بہت مہربان ہو ( ترمذی) تشریح خوش اخلاق اور اپنے اہل و عیال پر بہت مہربان مسلمان کو کامل ترین مؤمن اس لئے فرمایا گیا ہے کہ کمال ایمان خوش اخلاقی اور مخلوق اللہ بالخصوص اپنے اہل و عیال کے حق میں سراپا مہربان وخوش اخلاق ہوگا۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مؤمنین میں کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں بہت زیادہ خوش اخلاق ہو (یعنی پوری مخلوق اللہ کے ساتھ خوش اخلاقی کا برتاؤ کر) اور تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے ( کیونکہ عورتیں اپنے عجز و کمزوری کی بناء پر زیادہ مہربانی اور مروت کی مستحق ہیں) امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے نیز امام ابوداؤد نے اس روایت کو لفظ خلقا تک نقل کیا ہے۔

【38】

حضرت عائشہ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا ایک پرلطف واقعہ

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ غزوہ تبوک یا غزوہ حنین سے واپس گھر تشریف لائے تو اس وقت ان کے یعنی حضرت عائشہ کے گھر کے دریچہ پر پردہ پڑا ہوا تھا جب ہوا چلی تو اس پردہ کا ایک کونا کھل گیا جس سے عائشہ کے کھیلنے کی گڑیاں نظر آئیں جو اس دریچہ میں رکھی ہوئی تھیں) آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ عائشہ یہ کیا ہے ؟ عائشہ نے کہا کہ یہ میری گڑیاں ہیں ان گڑیوں میں آنحضرت ﷺ نے ایک گھوڑا بھی دیکھا جس کے کپڑے یا کاغذ کے دو پر تھے چناچہ آپ ﷺ نے پھر پوچھا کہ ان گڑیوں کے درمیان جو چیز میں دیکھ رہا ہوں یہ کیا بات ہے ؟ حضرت عائشہ نے کہا کہ کیا آپ ﷺ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس جو گھوڑے تھے ان کے پر تھے) حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ میرا یہ جواب سن کر ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کی کچلیاں دیکھیں ( ابوداؤد) تشریح تبوک یا حنین میں حرف یا راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے یعنی راوی کو یقین کے ساتھ یاد نہیں ہے کہ حضرت عائشہ نے اس موقع پر غزہ تبوک کا ذکر کیا تھا یا غزوہ حنین کا ؟ تبوک ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ سے ٤٦٥ میل کے فاصلہ پر دمشق اور مدینہ کے درمیانی راستہ پر واقع ہے ٩ ھ میں نبی کریم ﷺ یہاں فوج لے کر گئے تھے لیکن دشمن کو مقابلہ کی ہمت نہ ہوئی اس لئے جنگ نہیں ہوسکی۔ حینین ایک وادی کا نام ہے جو مکہ مکرمہ سے شمال مشرقی جانب طائف کے راستہ میں واقع ہے اس کو وادی اوطاس بھی کہا جاتا ہے ٨ ھ میں فتح مکہ کے کچھ ہی دنوں بعد مشہور غزوہ حنین یہیں ہوا تھا گڑیوں سے بچیوں کے کھیلنے کا جو شرعی حکم ہے اس کی تفصیل باب الولی میں گزر چکی ہے۔

【39】

غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے

حضرت قیس ابن سعد کہتے ہیں کہ میں کوفہ کے قریب ایک شہر حیرہ پہنچا تو میں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ رسول کریم ﷺ بہت زیادہ اس کے مستحق ہیں کہ آپ ﷺ کو سجدہ کیا جائے چناچہ جب میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا کہ میں حیرہ گیا تو وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں لہذا آپ ﷺ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپ ﷺ کو سجدہ کیا جائے آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے بتاؤ اگر تم میری قبر پر جاؤ تو کیا تم میری قبر کو سجدہ کرو گے ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر میری زندگی میں بھی ایسا نہ کرو اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرے تو میں عورتوں کو حکم کرتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر مردوں کا بہت زیادہ حق مقرر کیا ہے (ابوداؤد) اس روایت کو احمد نے بھی معاذ ابن جبل سے نقل کیا ہے۔ تشریح حضرت قیس ابن سعد نے جب حیرہ میں لوگوں کو اپنے سردار کو سجدہ کرتے دیکھا تو ان کے دل میں یہ خیال گزرا کہ اگر یہ لوگ اپنے سردار کی عظمت و مرتبہ کے پیش نظر اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں تو کائنات انسانی میں سرکار دو عالم ﷺ سے زیادہ عظمت و مرتبہ کا حامل کون شخص ہوسکتا ہے تو کیوں نہ آپ ﷺ کو سجدہ کیا جائے چناچہ ان کے اس خیال نے بارگاہ رسالت میں عرض کی صورت اختیار کرلی جہاں اس عرض کو بڑے لطیف انداز میں رد کردی گیا اور یہ واضح کردیا گیا کہ انسان کی پیشانی اتنی مقدس ہے کہ وہ نہ صرف اپنے خالق ہی کے سامنے سجدہ ریز ہوسکتی ہے کسی مخلوق کے سامنے نہیں جھک سکتی خواہ وہ مخلوق کتنی ہی باعظمت وبافضلیت ذات کیوں نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ا یت (لا تسجدوا للشمس ولا للقمر واسجدوا للہ الذی خلقہن ان کنتم ایاہ تعبدون) ( فصلت ٤١ ٣٧) نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو سجدہ کرو بلکہ صرف اللہ ہی کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے اگر تم اللہ کی عبادت کرتے ہو۔

【40】

نا فرمان بیوی کو مارنے پر مواخذہ نہیں ہوگا

اور حضرت عمر نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر مرد اپنی عورت و کسی معقول چیز پر مارے تو قابل مواخذہ نہیں ہوتا ( ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح قابل مواخذہ نہیں ہوتا کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیوی کو مارنے سے کوئی گناہ لازم نہیں ہوتا کہ جس پر اس سے دنیا اور آخرت میں باز پرس ہو بشرطیکہ بیوی کو مارنے کی جو قیود و شرائط ہیں ان کو ملحوظ رکھا جائے اور حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ لفظ علیہ کی ضمیر مجرور حرف ما کی طرف راجع ہے اور ما سے مراد نشوز نافرمانی ہے جو اس آیت (وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ ) 4 ۔ النساء 34) میں مذکور ہے لہذا اس جملہ اس چیز پر مارنے کا حاصل یہ ہوگا جو مرد اپنی بیوی کو اس کی نافرمانی پر مارے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔

【41】

بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزہ نہ رکھے

اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرا شوہر صفوان ابن معطل جب میں نماز پڑھتی ہوں تو مجھے مارتا ہے اور جب روزہ رکھتی ہوں تو میرا روزہ تڑوا دیتا ہے اور وہ خود فجر کی نماز اس وقت پڑھتا ہے جب کہ سورج یا تو نکلنے کے قریب ہوتا ہے یا نکل چکا ہوتا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ جس وقت صفوان کی بیوی یہ شکایت کر رہی تھی اس وقت صفوان آنحضرت ﷺ کے پاس ہی موجود تھے راوی کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے صفوان سے ان کی بیوی کی ذکر کردہ باتوں کے بارے میں پوچھا تو صفوان نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میری بیوی کا کہنا کہ جب میں نماز پڑھتی ہوں تو مجھ کو مارتا ہے اس کیوجہ یہ ہے کہ یہ نماز کی ایک ہی رکعت میں یا دو رکعتوں میں دو لمبی لمبی سورتیں پڑھتی ہے حالانکہ میں نے اس کو لمبی لمبی سورتیں پڑھنے سے منع کیا ہے، راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے صفوان کی تصدیق کے لئے فرمایا سورت فاتحہ کے بعد ایک سورت پڑھنا لوگوں کے لئے کافی ہوتا ہے پھر صفوان نے کہا اور اس کا کہنا کہ جب میں روزہ رکھتی ہوں تو میرا روزہ تڑوا دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ روزے رکھے چلی جاتی ہے ( یعنی ہمیشہ نفلی روزے رکھتی ہے رہتی ہے) اور میں ایک جوان آدمی ہوں اور چونکہ رات میں مجھے مباشرت کا موقع نہیں ملتا۔ اس لئے اگر دن میں مجھے جماع کی خواہش ہوتی ہے تو میں صبر نہیں کرسکتا آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزہ نہ رکھے پھر صفوان نے کہا کہ اور اس کا یہ کہنا کہ میں سورج نکلنے کے وقت نماز پڑھتا ہوں اس کا سبب یہ ہے کہ ہم کام کاج والے لوگ ہیں زیادہ رات گئے تک اپنے کھیتوں اور باغوں میں پانی دیتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے رات میں سونا میسر نہیں ہوتا) اور ہم لوگوں کی یہ عادت ہوگئی ہے کہ جب ہم رات کے آخری حصہ میں سوتے ہیں تو اس وقت جاگتے ہیں جب سورج یا تو نکلنے کے قریب ہوتا ہے یا نکل چکا ہوتا ہے آپ ﷺ نے یہ عذر سن کر فرمایا کہ صفوان جس وقت آنکھ کھلے نماز پڑھ لو (ابوداؤد ابن ماجہ) تشریح صفوان زراعت پیشہ آدمی تھے اور بہت رات گئے تک اپنے کھیتوں اور باغوں میں پانی دیتے تھے اور پھر وہیں پڑ کر سو جاتے تھے اور چونکہ وہاں جگانے والا کوئی نہیں ہوتا تھا اس لئے ان کی آنکھ دیر سے کھلتی تھی اس اعتبار سے وہ گویا معذور تھے لہذا آپ ﷺ نے ان کے عذر کی بناء پر ان کو حکم دیا کہ اگر تمہاری آنکھ وقت پر نہ کھل سکے تو جب بھی جاگو پہلے نماز پڑھو اس کے بعد کسی اور کام میں لگو

【42】

سخت سے سخت حکم میں بھی شوہر کی اطاعت کرو

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم ﷺ مہاجرین و انصار کی ایک جماعت کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک اونٹ آپ اور آپ ﷺ کے سامنے سجدہ ریز ہوگیا ( یہ دیکھ کر) آپ ﷺ کے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ جب چوپایہ جانور اور درخت آپ ﷺ کو سجدہ کرتے ہیں جو ناسمجھ ہیں اور آپ ﷺ کی تعظیم و احترام کے مکلف بھی نہیں ہیں) تو ہم ان سے زیادہ اس لائق ہیں کہ آپ ﷺ کو سجدہ کریں آپ ﷺ نے فرمایا اپنے رب کی عبادت کرو اور اپنے بھائی کی یعنی میری تعظیم کرو اگر میں کسی کو کسی غیر اللہ کا سجدہ کرنے کا حکم دے سکتا تو یقینا عورت کو یہ حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے اگر اس کا شوہر اس کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید پہاڑ پر لے جائے تو اس عورت کے لئے یہی لائق ہے کہ وہ اپنے شوہر کا یہ حکم بجا لائے ( احمد) تشریح اپنے پروردگار کی عبادت کرو کا مطلب یہ ہے کہ سجدہ دراصل عبادت ہے اور عبادت کا مستحق صرف پروردگار ہے اللہ کے علاوہ کوئی بھی ذات خواہ نبی ہی کیوں نہ ہو کسی کا معبود نہیں بن سکتی تو مجھے اپنا مسجود بنا کر گویا مجھے اللہ کی بندگی میں شریک کرنا چاہتے ہو حالانکہ اللہ نے مجھے نبی بنا کر تمہارے درمیان اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ میں تم سے اپنی عبادت کرا کر تمہیں شرک کی آلائش میں مبتلا کروں بلکہ میں تو اس دنیا میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں شرک کی ظلمت سے نکال کر خدائے واحد کی بندگی کے راستہ پر لگا دوں اور تمہیں یہ تعلیم دوں کہ تمہاری اس مقدس پیشانی کو صرف اللہ کے سامنے جھکنا چاہئے چناچہ آپ ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعہ گویا قرآن کریم کی تلاوت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ا یت (وما کان لبشر ان یؤ تیہ اللہ الکتاب والحکم والنبوۃ ثم یقول للناس کونوا عبادا لی من دون اللہ ولکن کونوا ربانیین) ( آل عمران ٣ ٧٩) کسی آدمی کو شایاں نہیں کہ اللہ تو اسے کتاب دین کا فہم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے ہوجاؤ بلکہ اس کو کہنا چاہئے کہ اے لوگو تم اللہ والے بن جاؤ ! جہاں تک آپ ﷺ کو اونٹ کے سجدہ کرنے کا سوال ہے تو اس میں کوئی خلجان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اونٹ کا سجدہ کرنا خرق عادت یعنی عادت او قانون قدرت کے خلاف ایک انوکھی بات ہونے کے طور پر تھا جو اونٹ کو اللہ تعالیٰ کے مسخر کردینے کے سبب واقع ہوا تھا اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم وفعل میں آنحضرت ﷺ کا کوئی دخل نہیں تھا پھر یہ کہ اونٹ معذور محض تھا کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں اور فرشتوں کا حق حضرت (علیہ السلام) کو سجدہ کرنا اس وجہ سے محل اشکال نہیں ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری پر مجبور تھے اسی طرح اونٹ کو بھی حق تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ آپ ﷺ کو سجدہ کرے اور وہ اس حکم کی تعمیل پر مجبور تھا۔ اور اپنے بھائی کی یعنی میری تعظیم کرو کا مطلب یہ ہے کہ میری ذات اور میرے منصب کے تئیں تمہاری عقیدت و محبت کا بس اتنا تقاضہ ہونا چاہئے کہ تم اپنے دل میں میری محبت رکھو اور ظاہر و باطن میں میری اطاعت کرو۔ پہاڑوں کے رنگ کا مقصد ان پہاڑوں کے درمیان فاصلہ کی مسافت ودوری کو زیادہ سے زیادہ بیان کرنا ہے کیونکہ اس طرح کے پہاڑ ایک دوسرے کے قریب نہیں پائے جاتے لہذا اس جملہ کا مطلب یہ ہوا کہ اگر دو پہاڑ ایک دوسرے سے بہت دور واقع ہوں اور خاوند اپنی بیوی کو یہ حکم دے کہ ایک پہاڑ سے پتھر اٹھا کر دوسرے پہاڑ پر جاؤ تو بیوی کو اس سخت حکم کی تعمیل کرنی چاہئے۔ حاصل یہ کہ اگر خاوند اپنی بیوی کو اتنا سخت ترین حکم بھی دے تو بیوی کے یہی لائق ہے کہ وہ اس حکم کو بجا لائے۔

【43】

جس عورت کا خاوند ناراض ہو اس کی نماز پوری طرح قبول نہیں ہوتی

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا ایسے تین شخص ہیں جن کی نماز پوری طرح قبول نہیں ہوتی اور نہ ان کی کوئی نیکی اوپر یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف جاتی ہے ایک تو بھاگا ہوا غلام جب تک کہ وہ اپنے مالکوں کے پاس واپس آ کر ان کے ہاتھ اپنا ہاتھ نہ رکھ دے یعنی جب تک واپس آ کر اپنے آپ کو اپنے مالکوں کے حوالے نہ کر دے اور ان کی اطاعت نہ کرنے لگے اس کی نماز پوری طرح قبول نہیں ہوتی دوسری وہ عورت جس کا خاوند اس سے ناراض ہو اور تیسرا نشہ باز جب تک ہوش میں نہ آئے ( اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے) تشریح مالکوں یعنی جمع کے صیغہ میں گویا مالک اور اس کی اولاد کی طرف اشارہ ہے کہ غلام کو صرف اپنے مالک ہی کی نہیں بلکہ اس کی اولاد کی بھی وفاداری کرنی چاہئے۔ ایک اور روایت میں لفظ (زوجہا) کے بعد (حتی یرضاعنہا) کے الفاظ بھی منقول ہیں یعنی جس عورت کا خاوند اس سے ناراض ہو اس کی نماز اس وقت تک پوری طرح قبول نہیں ہوتی اور اس کی کوئی نیکی اوپر نہیں چڑھتی جب تک کہ اس کا خاوند اس سے خوش نہ ہوجائے اس روایت میں ان الفاظ کو اس لئے نقل نہیں کیا کہ یہ مفہوم خود بخود واضح ہے اور مراد یہ ہے کہ یا تو اس کا خاوند اس سے خوش ہوجائے یا اس کو طلاق دیدے۔