101. لعان کا بیان

【1】

بہترین بیوی کی پہچان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی بیوی بہتر ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ عورت جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کو خوش کر دے اور جب شوہر اس کو کوئی حکم دے تو اس کو بجا لائے (بشرطیکہ وہ حکم خلاف شرع نہ ہو) اور اپنی ذات اور اپنے مال میں اس کے خلاف کوئی ایسی بات نہ کرے جس کو وہ پسند نہ کرتا ہو۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ تشریح اس روایت میں ایک اچھی بیوی کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ جب اس کا شوہر اس کی طرف دیکھے یعنی اس کی خوش اخلاقی وخوش اطواری کو دیکھے تو وہ خوش ہوجائے اور اگر کہیں وہ بیوی صورت و سیرت دونوں میں اچھی ہو تو پھر کیا کہنا نور علی نور اور سرور علی سرور ہے اسی طرح ایک پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنی ذات اور اپنے مال میں ایسی کوئی بات نہ کرے جو اس کے شوہر کی نظر میں پسندیدہ نہ ہو۔ یہاں اپنے مال سے خود اس بیوی کا مال بھی مراد ہوسکتا ہے یعنی جس مال کی حقیقت میں وہ خود مالک ہو اس مال کو بھی وہ اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف خرچ نہ کرے اور اس سے وہ مال بھی ہوسکتا ہے جو خود اس کی ملکیت نہ ہو بلکہ حقیقت میں مالک تو اس کا خاوند ہو البتہ اس عورت کے قبضہ و تصرف میں ہو اس صورت میں بھی یہ مطلب ہوگا کہ اس کا خاوند اس کو جو کچھ مال و اسباب اور روپیہ پیسہ دے وہ اس کو ایک امانت کے طور پر اپنے پاس رکھے اس میں نہ تو خیانت کرے اور نہ اپنے خاوند کی مرضی کے خلاف اس کو خرچ کرے۔

【2】

امانت دار بیوی کی فضیلت

اور حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ چار چیزیں ایسی ہیں کہ وہ جس شخص کو مل جائیں اس کو دنیا وآخرت کی بھلائی نصیب ہوجائے اول حق تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنے والا دل، دوم خوشی اور رنج ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنیوالی زبان، سوم بلاؤں پر صبر کرنیوالا جسم اور چہارم وہ عورت جو اپنی ذات اور اپنے خاوند کے مال میں خیانت نہ کرے۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

【3】

خلع اور طلاق کا بیان

خلع کا مطلب خلع خ کے پیش کے ساتھ خلع خ کے زبر کے ساتھ) اسم ہے خلع کے لغوی معنی ہیں کسی چیز کو نکالنا اور عام طور پر یہ لفظ بدن سے کسی پہنی ہوئی چیز مثلا کپڑے اور موزے وغیرہ اتارنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن شرعی اصطلاح میں اس لفظ کے معنی ہیں ملکیت نکاح کو مال کے عوض میں لفظ خلع کے ساتھ زائل کرنا یا ملکیت نکاح ختم کرنے کے لئے لفظ خلع کے ساتھ اپنی عورت سے مال لینا اس شرعی اصطلاح کی توضیح یہ ہے کہ اگر میاں بیوی میں اختلاف ہوجائے اور دونوں میں کسی طرح نباہ نہ ہو سکے اور مرد طلاق بھی نہ دیتا ہو تو عورت کو جائز ہے کہ کچھ مال دے کر اپنا مہر دے کر نجات حاصل کرلے مثلا اپنے مرد سے کہے کہ اتنا روپیہ لے کر خلع کردو یعنی میری جان چھوڑ دو یا یوں کہے کہ جو مہر تمہارے ذمہ ہے اس کے عوض میری جان چھوڑ دو اس کے جواب میں مرد کہے کہ میں نے چھوڑ دی تو اس سے عورت پر ایک طلاق بائن پڑھ جائے گی اور دونوں میں جدائی ہوجائے گی۔ مظہر نے لکھا ہے کہ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ اگر مرد عورت سے کہے کہ میں نے اتنے مال کے عوض تم سے خلع کیا اور بیوی کہے کہ میں نے قبول کیا اور پھر میاں بیوی کے درمیان جدائی واقع ہوجائے تو آیا یہ طلاق ہے یا فسخ ہے، چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ یہ طلاق بائن ہے حضرت امام شافعی کا زیادہ صحیح قول بھی یہی ہے لیکن حضرت امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ یہ فسخ ہے اور حضرت امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے اگر میاں بیوی کے باہمی اختلاف کی بنیاد شوہر کی زیادتی و سرکشی ہو اور شوہر کی اس زیادتی و سرکشی کی وجہ سے بیوی خلع چاہتی ہو تو اس صورت میں شوہر کے لئے یہ مکروہ ہے کہ وہ خلع کے معاوضہ کے طور پر کوئی چیز مثلا روپیہ وغیرہ لے اور اگر میاں بیوی کے باہمی اختلاف کی بنیاد بیوی کی نافرمانی و سرکشی ہو یعنی بیوی کی نافرمانی وبداطواری کی وجہ سے خلع کی نوبت آئی ہو تو اس صورت میں شوہر کے لئے یہ مکروہ ہے کہ وہ اس خلع کے عوض میں اس قدر رقم لے کہ اس نے عورت کے مہر میں جو رقم دی ہے اس سے بھی زیادہ ہو۔

【4】

ناپسند شوہر سے طلاق حاصل کی جاسکتی ہے

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ثابت ابن قیس کی بیوی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ثابت ابن قیس پر مجھے غصہ نہیں آتا اور نہ میں ان کی عادات اور ان کے دین میں کوئی عیب لگاتی ہوں لیکن میں اسلام میں کفر یعنی کفران نعمت یا گناہ کو پسند نہیں کرسکتی، رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم ثابت ابن قیس کا باغ جو انہوں نے تمہیں مہر میں دیا ہے) ان کو واپس کرسکتی ہو ؟ ثابت کی بیوی نے کہا کہ ہاں رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر ثابت سے فرمایا کہ تم اپنا باغ لے لو اور اس کو ایک طلاق دیدو ( بخاری) تشریح ثابت ابن قیس کی بیوی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں اپنے شوہر سے اس لئے جدائی اختیار کرنا نہیں چاہتی کہ وہ بد اخلاق ہیں یا ان کی عادات مجھے پسند نہیں ہیں یا یہ کہ ان کے دین میں کچھ نقصان ہے بلکہ صورت حال یہ ہے کہ مجھے ان سے محبت نہیں ہے اور وہ طبعی طور پر مجھے ناپسند ہیں لیکن بہرحال وہ میرے شوہر ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان کے تئیں میری طرف سے کوئی ایسی حرکت نہ ہوجائے جو اسلامی حکم کے خلاف ہو مثلا مجھ سے کوئی نافرمانی ہوجائے یا ان کی مرضی کے خلاف کوئی فعل سرزد ہوجائے تو ایسی صورت میں گویا کفران نعمت یا گناہ ہوگا جو مجھے گوارہ نہیں ہے اس لئے میں کیوں نہ ان سے جدائی اختیار کرلوں۔ کہا جاتا ہے کہ ثابت ابن قیس بہت بد صورت تھے اور ٹھگنے (پست) قد تھے اور ان کی بیوی کا نام حبیبہ یا جمیلہ تھا جو بہت خوبصورت اور حسین تھیں اسی لئے ان دونوں کا جوڑا بہت ناموزوں تھا اور ان کی بیوی ان کو پسند نہیں کرتی تھیں چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کی عرض کے مطابق حضرت ثابت کو مصلحۃ یہ حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو ایک طلاق دیدیں اس سے معلوم ہوا کہ طلاق دینے والے کے حق میں یہ اولی افضل ہے کہ وہ ایک طلاق دے تاکہ اگر رجوع کرنا منظور ہو تو رجوع کرلے نیز اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ خلع طلاق ہے فسخ نہیں ہے چناچہ صاحب ہدایہ نے اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ سے ایک حدیث بھی نقل کی ہے کہ الخلع تطلیقۃ بائنۃ یعنی خلع طلاق بائن ہے۔

【5】

حالت حیض میں طلاق دینے کی ممانعت

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو حضرت عمر نے اس کا ذکر رسول کریم ﷺ سے کیا، آنحضرت ﷺ اس واقعہ سے بہت غصہ ہوئے اور فرمایا کہ اس گناہ کا تدارک کرنے کے لئے) عبداللہ کو چاہئے کہ وہ اس عورت سے رجوع کرے یعنی مثلا یوں کہے کہ میں نے اس کو اپنے نکاح میں واپس لے لیا) اور پھر اس کو اپنے پاس رکھے یہاں تکہ کہ وہ پاک ہوجائے اور پھر جب وہ حائضہ ہو اور اس کے بعد پاک ہوجائے اور پھر جب وہ حائضہ ہو اور اس کے بعد پاک ہوجائے اور طلاق دینا ضروری ہو تو پاکی کی حالت میں اسے طلاق دے قبل اس کے کہ اس سے جماع کرے، پس یہی وہ عدت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں عورتوں کو طلاق دی جائے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر سے فرمایا کہ عبداللہ کو حکم دو کہ وہ اس عورت سے رجوع کرے اور پھر اس کو پاکی کی حالت میں بشرطیکہ وہ حاملہ نہ ہو اور حیض آتا ہو یا حمل کی حالت میں طلاق دے (بخاری ومسلم) تشریح فتغیظ فیہ (آنحضرت ﷺ اس واقعہ سے بہت غصہ ہوئے) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حالت حیض میں طلاق دینا حرام ہے کیونکہ اگر یہ حرام نہ ہوتا تو آنحضرت ﷺ اس واقعہ پر غصہ نہ ہوتے۔ اور حالت حیض میں طلاق دینا حرام اس لئے ہے کہ ہوسکتا ہے کہ طلاق دینے والے نے حالت حیض میں محض کراہت طبع کے سبب طلاق دی ہو اور وہ مصلحت اس کے طلاق دینے کیوجہ سے نہ ہو جس کی بناء پر طلاق دینا حرام ہو۔ مگر کوئی شخص اگر حالت حیض میں طلاق دیدے تو طلاق پڑھ جائے گی یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عبداللہ کو رجوع کرنے کا حکم دیا اور یہ بالکل ظاہر بات ہے کہ رجوع کرنا طلاق کے بعد ہی ہوتا ہے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں دوسرے طہر (یعنی دوسرے حیض کے بعد پاکی کی حالت) تک طلاق کو مؤخر کرنے میں کیا مصلحت ہے ؟ سیدھی بات تو یہ ہے کہ حکم یہ ہوتا کہ جس حیض میں طلاق دی گئی ہے اور پھر رجوع کیا گیا ہے اسی حیض کے گزرنے کے بعد پاکی کی حالت میں طلاق دی جائے لیکن اس کے برعکس اس کو دوسرے طہر تک مؤخر کیا گیا ہے، چناچہ اس کے بارے میں علماء کہتے ہیں کہ اس کی کئی وجہیں ہیں اول تو یہ کہ رجوع کرنا صرف طلاق کی غرض سے نہ ہو لہذا طلاق دینے کو ایک ایسی مدت تک کے لئے مؤخر کردینا چاہئے جس میں ایک طرف تو طلاق دینا حلال اور دوسری طرف طلاق کے فیصلہ پر نظرثانی کا موقع بھی مل جائے اور شاید کوئی ایسی راہ نکل آئے کہ طلاق دینے کی نوبت ہی نہ آئے اور ظاہر ہے کہ ان دونوں مصلحتوں کی رعایت دوسرے طہر ہی میں ہوسکتی ہے۔ دوم یہ کہ اتنی مدت تک کے لئے طلاق دینے کو مؤخر کرنا دراصل طلاق دینے والے کے اس فعل بد یعنی حالت حیض میں طلاق دینے کی سزا ہے سوم یہ کہ جس حیض کی حالت میں طلاق دی گئی ہے وہ اور اس کے بعد کا طہر یعنی پاکی کی حالت دونوں گویا ایک ہی چیز کے حکم میں ہیں لہذا اگر پہلے طہر میں دی گئی تو گویا حیض ہی کی حالت میں دی لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ ان تینوں وجہوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دوسرے طہر تک طلاق سے باز رہنا واجب نہیں ہے بلکہ اولی ہے۔ طلاق کی قسمیں یہ بات جاننی چاہئے کہ وقت و محل کے اعتبار سے نفس طلاق کی تین قسمیں ہیں ١) احسن ٢) حسن۔ حسن کو سنی بھی کہتے ہیں ٣) بدعی طلاق احسن کی صورت یہ ہے کہ ایک طلاق رجعی ایسے طہر پاکی کی حالت میں دی جائے جس میں جماع نہ کیا ہو اور پھر اس کو اسی حالت میں چھوڑے یعنی پھر نہ تو اس کو اور طلاق دے اور نہ اس سے جماع کرے) یہاں تک کہ اس کی عدت پوری ہوجائے طلاق کی یہ پہلی قسم سب سے بہتر ہے۔ طلاق حسن کی صورت یہ ہے کہ ایک طلاق حسن رجعی ایسے طہر پاکی کی حالت میں دی جائے جس میں جماع نہ کیا ہو بشرطیکہ عورت مدخول بہا ہو اور اگر عورت غیر مدخول بہا ہو تو اس کے لئے ایک طلاق حسن ہے نیز اس کو حیض کی حالت میں بھی طلاق دی جاسکتی ہے اور آئسہ صغیرہ اور حاملہ عورتوں کے لئے طلاق حسن یہ ہے کہ ان کو تین مہینہ تک ہر مہینہ میں ایک طلاق دی جائے نیز ان عورتوں کو جماع کے بعد بھی طلاق دینا جائز ہے طلاق کی یہ دوسری قسم بھی بہتر ہے۔ طلاق بدعی کی صورت یہ ہے کہ مدخول بہا کو ایک ہی طہر میں یا ایک ہی دفعہ میں تین طلاقیں دیدے یا ایسی دو طلاقیں دے جس میں رجعت کی گنجائش نہ ہو یا اس کو اس طہر میں طلاق دے جس میں جماع کرچکا ہو اس طرح اگر کسی شخص نے حیض کی حالت میں طلاق دی تو یہ بھی طلاق بدعی کے حکم میں ہے اور اگر وہ عورت کہ جس کو حیض کی حالت میں طلاق دی ہے مدخول بہا ہو تو صحیح تر روایت کے مطابق اس سے رجوع کرنا واجب ہے جب کہ بعض علماء نے رجوع کرنے کو مستحب کہا ہے، پھر جب وہ پاک ہوجائے اور اس کے بعد دوسرا حیض آئے اور پھر اس سے بھی پاک ہوجائے تب اگر طلاق دینا ضروری ہو تو اس دوسرے طہر میں طلاق دی جائے طلاق کی یہ تیسری قسم شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ ہے گو طلاق واقع ہوجاتی ہے مگر طلاق دینے والا گنہگار ہوتا ہے۔ وقوع کے اعتبار سے طلاق کی دو قسمیں ہیں رجعی۔ بائن طلاق رجعی کی صورت یہ ہے کہ طلاق دینے والا ایک بار یا دو صریح الفاظ میں یوں کہے کہ انت طالق یا طلقتک یا اردو میں یہ کہے تجھ پر طلاق ہے یا میں نے تجھے طلاق دی اس طرح طلاق دینے سے طلاق دینے والا ایام عدت میں بغیر نکاح کے رجوع کرسکتا ہے یعنی اگر وہ یوں کہے کہ میں نے تجھ سے رجوع کیا یا اس کو ہاتھ لگائے یا مساس کرے اور یا اس سے جماع کرے تو اس سے رجوع ہوجاتا ہے جدید نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی۔ طلاق بائن کی صورت یہ ہے کہ طلاق کے صریح الفاظ کی بجائے ایسے الفاظ کے ذریعہ طلاق دی جائے جو اگرچہ صراحۃ طلاق کے لئے استعمال نہ ہوتے ہوں مگر کنایۃ وہ طلاق کا مفہوم بھی ادا کرتے ہوں علاوہ ان تین الفاظ کنایات کے جن کو فقہاء نے صریح طلاقوں کے لئے تسلیم کیا ہے طلاق بائن کا حکم یہ ہے کہ عورت نکاح سے نکل جاتی ہے تجدید نکاح کے بغیر اس عورت کو بیوی بنا کر رکھنا حرام ہے۔ حکم اور نتیجہ کے اعتبار سے بھی طلاق کی دو قسمیں ہیں مغلظہ مخففہ طلاق مغلظہ کی صورت یہ ہے کہ یکبارگی تین طلاقیں دی جائیں مثلا یوں کہے کہ میں نے طلاق دی یا الگ الگ تین طلاقیں دی جائیں مثلا یوں کہے کہ میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی) اس طلاق کے بعد طلاق دینے والا اس عورت کو دوبارہ اپنے نکاح میں بغیر حلالہ نہیں لاسکتا حلالہ کی صورت یہ ہے کہ وہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور دوسرا مرد اس سے جماع کر کے اس کو طلاق دے دے اور پھر جب اس کی عدت پوری ہوجائے تو پہلا شوہر اس سے نکاح کرلے۔ طلاق مخففہ کی صورت یہ ہے کہ یکبارگی یا الگ الگ دو طلاقیں دے یا ایک طلاق دے پھر اگر یہ دو طلاقیں یا ایک طلاق الفاظ صریح کے ساتھ ہو تو عدت کے اندر رجوع کرسکتا ہے تجدید نکاح کی ضرورت نہیں اور اگر الفاظ کنایہ کے ساتھ ہو تو تجدید نکاح کے بعد اس کو اپنی بیوی بنا سکتا ہے حلالہ کی ضرورت نہیں۔ کن لوگوں کی طلاق واقع ہوتی ہے اور کن لوگوں کی واقع نہیں ہوتی ہر عاقل وبالغ کی دی ہوئی طلاق واقع ہوجاتی ہے خواہ وہ آزاد ہو یا غلام اور خواہ وہ اپنی خوشی سے طلاق دے یا کسی کے جبر واکراہ سے دے یا نشہ کی حالت میں دے۔ اسی طرح اگر عاقل وبالغ شوہر گونگاہ و اور وہ اشارہ معہودہ کے ذریہ طلاق دے تو اس کی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے اور لڑکے اور دیوانے کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اسی طرح اگر سویا ہوا شخص طلاق دے اور بیدار ہونے کے بعد کہے کہ میں نے تجھے سوتے میں طلاق دی ہے تو اس کی طلاق بھی واقع نہیں ہوگی اگر کسی مالک نے اپنے غلام کی بیوی کو طلاق دی تو اس کی طلاق دی تو اس کی طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔ طلاق میں اصلی اعتبار عورت کا ہے چناچہ آزاد عورت کے لئے تین طلاقیں ہیں اگرچہ وہ کسی غلام کے نکاح میں ہو اسی طرح لونڈی کے لئے دو طلاقیں ہیں اگرچہ وہ کسی آزاد مرد کے نکاح میں ہو۔

【6】

اختیارکا مسئلہ

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں اختیار دیدیا تھا کہ اگر تم دنیا اور دنیا کی زینت و آسائش کی طلبگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کر چھوڑ دوں اور اگر تم اللہ، اللہ کے رسول اور دارآخرت کی طلبگار ہو تو پھر جان لو کہ تمہارے لئے اللہ کے ہاں بیشمار اجر عظیم ثواب ہے) چناچہ ہم نے دنیا اور دنیا کی زینت و آسائش کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو اختیار کرلیا اور آنحضرت ﷺ نے اس اختیار کو ہمارے لئے طلاق کی اقسام میں کوئی قسم جیسے ایک ایک طلاق یا دو طلاقی یا رجعی یا بائن) کچھ بھی اختیار نہیں کیا (بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے یوں کہے کہ اپنے نفس کو اختیار کرلو یا مجھے اختیار کرلو اور پھر بیوی خاوند کو اختیار کرلے تو اس سے کسی طرح کی طلاق واقع نہیں ہوتی چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور امام شافعی کا یہی مسلک ہے۔ لیکن اگر بیوی اپنے نفس کو اختیار کرلے تو اس صورت میں حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کے نزدیک طلاق رجعی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک طلائق بائن اور حضرت امام مالک کے نزدیک تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔ منقول ہے کہ صحابہ میں سے امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس بات کے قائل تھے کہ بیوی کو شوہر کے محض اختیار دے دینے ہی سے طلاق رجعی واقع ہوجاتی ہے خواہ وہ اپنے شوہر ہی کو کیوں نہ اختیار کرلے۔ اور حضرت زید ابن ثابت اس بات کے قائل تھے کہ طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے چناچہ حضرت عائشہ نے ان دونوں ہی کے اقوال کی تردید میں یہ حدیث بیان کر کے گویا یہ واضح کردیا کہ شوہر کے محض اختیار دینے سے کوئی بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

【7】

کسی چیز کو اپنے اوپرحرام کرلینے سے کفار لازم آتا ہے

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ کسی چیز کو حرام کرلینے پر کفارہ دے اور اس سلسلہ میں تمہارے لئے رسول کریم ﷺ کی پیروی ہی بہتر ہے (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اوپر کسی چیز خواہ وہ اپنی ہو یا کسی دوسری چیز کو حرام کرلے تو اس پر قسم کا کفارہ لازم آتا ہے اور وہ چیز حرام نہیں ہوتی حضرت ابن عباس اسی کے قائل تھے اور حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے اگرچہ وہ چیز بذات خود حرام کیوں نہ ہو یا کسی دوسرے کی ملکیت کیوں نہ ہو مثلا یوں کہے کہ مجھ پر شراب حرام ہے یا فلاں کا مال مجھ پر حرام ہے تو یہ بمنزلہ قسم ہے بشرطیکہ اگر اس نے کسی حرام چیز کے بارے میں یہ کہا کہ یہ چیز مجھ پر حرام ہے اور اس سے اس کا مقصد اس چیز کے حرام ہونے کی خبر دینا نہ ہو لہذا جب وہ اس چیز کو کہ جسے اس نے اپنے اوپر حرام کیا ہے کھائے یا استعمال کرے گا تو وہ گویا حانث یعنی قسم توڑنے والا ہوگا اور اس پر وہی کفارہ لازم ہوگا جو قسم توڑنے پر لازم ہوتا ہے ہاں اگر اس نے اس چیز کو صدقہ کردیا یا کسی کو ہبہ کردیا تو پھر حانث نہیں ہوگا اور اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں آئے گا۔ چنانچہ حضرت ابن عباس نے اپنی اس بات کی تائید میں یہ آیت (وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ ) 33 ۔ الاحزاب 21) پڑھی اور اس طرف اشارہ کیا کہ جب آنحضرت ﷺ نے شہد کو اپنے اوپر حرام کیا تو اس آیت (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ) 66 ۔ التحریم 1) کے ذریعہ آپ ﷺ کو کفارہ دینے کا حکم دیا گیا (جس کا تفصیلی ذکر اگلی روایت میں آئے گا) لہذا تم پر آنحضرت ﷺ کی پیروی لازم ہے کہ اگر تم نے کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلیا اور پھر اس چیز کو استعمال کر کے حانث ہوگئے تو کفارہ ادا کرو۔ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ تمام حلال مال مجھ پر حرام ہے یا اللہ کی حلال کی ہوئی تمام چیزیں مجھ پر حرام ہیں تو ایسے قول کے بارے میں فتوی یہی ہے کہ اس طرح کہنے سے اس کی بیوی پر طلاق پڑھ جائے گی اگرچہ اس نے طلاق کی نیت نہ کی ہو اور اگر اپنی بیوی سے یہ کہے کہ تم مجھ پر حرام ہو تو یہ ایلاء ہوجائے گا بشرطیکہ اس نے واقع حرام کرنے کی نیت کی ہو یا کچھ بھی نیت کی ہو اور اگر اس نے یہ کہتے وقت ظہار کی نیت کی ہوگی تو ظہار ہوجائے گا۔ ہاں اگر اس نے یہ کہتے وقت کہ تم مجھ پر حرام ہو جھوٹ کی نیت کی ہو تو بھی یہ کہنا ہدر (لغو) ہوگا یعنی اس کہنے سے عند اللہ تو کچھ نہیں ہوگا لیکن یہ معاملہ اگر حاکم کے ہاں پہنچا تو حاکم ایلاء کا حکم نافذ کر دے گا اور اگر یہ کہتے وقت اس نے طلاق کی نیت کی تو طلاق بائن پڑھ جائے گی اور اگر تین طلاق کی نیت کی تو تین طلاقیں پڑجائیں گی۔ اور فتوی اسی پر ہے کہ اگر طلاق کی نیت نہ بھی کرے تو تو بھی طلاق بائن پڑھ جائے گی۔ اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنی ایک بیوی حضرت زینب بنت جحش کے پاس ٹہر جایا کرتے تھے اور وہاں شہد پیا کرتے تھے چناچہ ایک دین میں نے اور حفصہ نے آپس میں یہ طے کیا کہ نبی کریم ﷺ ہم میں سے جس کے پاس تشریف لائیں تو وہ یہ کہے کہ آپ ﷺ کے منہ مبارک سے مغافیر کی بو آتی ہے کیا آپ ﷺ نے مغافیر کھایا ہے ؟ چناچہ جب ان دونوں میں سے ایک یعنی حضرت عائشہ یا حضرت حفصہ کے پاس تشریف لائے تو اس نے یہی کہا آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں میں نے زینب بنت جحش کے ہاں شہد پیا ہے اب میں کبھی شہد نہیں پیوں گا۔ میں نے قسم کھالی ہے لیکن تم کسی کو یہ نہ بتانا تاکہ اس بات سے زینب کی دل شکنی نہ ہو کہ اب میں ان کے ہاں شہد نہیں پیوں گا اور اس سے یعنی شہد کو اپنے اوپر حرام کرلینے سے آنحضرت ﷺ کا مقصد اپنی بیویوں کو خوش کرنا تھا چناچہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی آیت (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ ) 66 ۔ التحریم 1) (یعنی اے نبی ﷺ ! آپ محض اپنی بیویوں کی خوشنودی کی خاطر اپنے اوپر اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لئے حلال کردیا ہے۔ تشریح حضرت زینب بنت جحش کے پاس ٹھہر جایا کرتے تھے، یہ ان کی نوبت باری کے دن کا ذکر نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ جب اپنی ازواج مطہرات کے ہاں گشت کے لئے نکلتے اور حضرت زینب کے گھر تشریف لاتے تو اس وقت ان کے پاس ٹھہر جایا کرتے تھے۔ مغافیر ایک درخت کے پھل کا نام ہے جو گوند کے مشابہ ہوتا ہے اس کی بو خراب ہوتی ہے اور ایک گونہ شہد کی بو کی مشابہت رکھتی ہے۔ اس روایت کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو شہد بہت مرغوب تھا جب آپ ﷺ گشت کے وقت حضرت زینب کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آنحضرت ﷺ کو شہد پلایا کرتی تھیں اس کی وجہ سے آنحضرت ﷺ حضرت زینب کے ہاں کچھ زیادہ دیر ٹھہر جایا کرتے تھے یہ بات حضرت عائشہ کو ناگوار گزری اور انہوں نے آنحضرت ﷺ کی ایک اور بیوی حضرت حفصہ سے کہ جو حضرت عائشہ کے بہت قریب تھیں اور اکثر معاملات میں ان سے اتفاق کرتی تھیں مذکورہ بالا بات کہنے کا مشورہ کیا تاکہ آنحضرت ﷺ حضرت زینب کے ہاں ٹھہرنا اور ان کے گھر میں شہد پینا چھوڑ دیں چناچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ ذکر کیا گیا لیکن حق تعالیٰ کے ہاں اس بات کو پسند نہیں کیا گیا کہ آنحضرت ﷺ ایک حلال چیز کو محض اپنی بیویوں کی خوشنودی کے لئے اپنے اوپر حرام کرلیں چناچہ مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی۔

【8】

بلا ضرورت طلاق مانگنے والی عورت کے حق میں وعید

حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو عورت اپنے خاوند سے بلا ضرورت طلاق مانگے اس پر جنت کی بو حرام ہوگی یعنی جب میدان حشر میں اللہ کے نیک اور پیارے بندوں کو جنت کی خوشبو پہنچے گی تو یہ عورت اس خوشبو سے محروم رہے گی ( احمد ترمذی ابوداؤد)

【9】

طلاق کوئی اچھی چیز نہیں ہے

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مباح چیزوں میں سے اللہ کے نزدیک مبغوض ترین چیز یعنی سب سے بری) چیز طلاق ہے (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگرچہ طلاق حلال ومباح ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض و مکروہ ہے چناچہ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو اگرچہ مباح ہیں مگر مکروہ ناپسندیہ سمجھی جاتی ہیں مثلا فرض نماز بلا عذر گھر میں پڑھنا اسی طرح غصب کی ہوئی زمین پر نماز پڑھنا اگرچہ مباح ہے کہ فرض ادا ہوتا ہے لیکن مکروہ ہے۔

【10】

نکاح سے پہلے طلاق دینے کا مسئلہ

اور حضرت علی نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہوتی مالک ہونے سے پہلے غلام کو آزاد نہیں کیا جاسکتا اور پے درپے کے روزے یعنی رات کو افطارکئے بغیر مسلسل وپہیم روزے رکھے چلے جانا) جائز نہیں ہے (یہ صرف آنحضرت ﷺ کے خصائص میں سے تھا اور صرف آپ ﷺ ہی کے لئے جائز تھا) بالغ ہونے کے بعد کوئی یتیم نہیں رہتا یعنی جس کے ماں باپ نہ ہوں اور وہ بالغ ہوجائے تو اسے یتیم نہیں کہیں گے) دودھ پینے کی مدت کے بعد دودھ پینا رضاعت میں شامل نہیں ( یعنی دودھ پینے کی مدت دو سال یا ڈھائی سال ہے اور دودھ پینے کے سبب جو حرمت نکاح ہوتی ہے وہ اس مدت کے بعد دودھ پینے سے ثابت نہیں ہوتی) اور دن بھرچپ رہنا جائز نہیں ہے (یا یہ کہ اس کا کوئی ثواب نہیں ہے) شرح السنۃ۔ تشریح اس روایت میں چند اصولی باتوں کو ذکر کیا گیا ہے چناچہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص نکاح سے پہلے ہی طلاق دے تو وہ طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ طلاق دراصل نکاح کا جزء ہے کہ اگر نکاح کا وجود پایا جائے گا تو اس پر طلاق کا اثر بھی مرتب ہوگا اور جب سرے سے نکاح ہی نہیں ہوگا تو طلاق کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہوگی۔ اسی طرح فرمایا گیا کہ غلام جب تک اپنی ملکیت میں نہ آجائے اس کو آزاد کرنے کے کوئی معنی نہیں ہوں گے، اگر کوئی شخص کسی ایسے غلام کو آزاد کردے جس کا وہ ابھی تک مالک نہیں بنا ہے تو وہ غلام آزاد نہیں ہوگا اس اعتبار سے یہ حدیث حضرت امام شافعی اور امام احمد کے مسلک کی دلیل ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نکاح سے پہلے طلاق کی اضافت سبب ملک کی طرف کرے تو درست ہے مثلا زید کسی اجنبی عورت سے یوں کہے کہ اگر میں تم سے نکاح کروں تو تم پر طلاق ہے یا یہ کہے کہ میں جس عورت سے بھ ] نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو اس صورت میں اگر زید اس عورت سے نکاح کرے گا تو نکاح کے وقت اس پر طلاق پڑجائیگی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص آزادی کی اضافت ملک کی طرف کرے مثلا یوں کہے کہ اگر میں اس غلام کا مالک بنوں تو یہ آزاد ہے یا یہ کہے کہ میں جس غلام کا مالک بنوں وہ آزاد ہے تو اس صورت میں وہ غلام اس شخص کی ملکیت میں آتے ہی آزاد ہوجائگا۔ لہذا یہ حدیث حنفیہ کے نزدیک نفی تنجیز پر محمول ہے یعنی اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طلاق کا کبھی بھی کوئی اثرمرتب نہیں ہوتا بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جس لمحہ اس نے طلاق دی ہے اس لمحہ طلاق نہیں پقینا اس طرح اس حدیث سے طلاق کی تعلیق کی نفی نہیں ہوتی۔ ایک بات یہ فرمائی گئی ہے کہ دن بھر چپ رہنا ناجائز یا لاحاصل ہے اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ پچھلی امتوں میں چپ رہنا عبادت کے زمرہ میں آتا تھا۔ اور دن بھرچپ رہنا تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا چناچہ آنحضرت ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ ہماری امت میں یہ درست نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے کچھ ثواب حاصل نہیں ہوتا ہاں اپنی زبان کو لایعنی کلام اور بری باتوں میں مشغولیت کے بجائے یقینا یہ زیادہ بہتر ہے کہ اپنی زبان کو ہر وقت خاموش رکھاجائے۔

【11】

نکاح سے پہلے طلاق دینے کا مسئلہ

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد حضرت شعیب سے اور حضرت شعیب اپنے دادا حضرت عبداللہ ابن عمرو سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابن آدم کی نذر اس چیز میں صحیح نہیں ہوتی جس کا وہ مالک نہیں ہے نیز اس چیز یعنی لونڈی و غلام کو آزاد کرنا بھی صحیح نہیں جس کا وہ مالک نہیں ہے نیز اس چیز عورت کو طلاق دینا بھی درست نہیں جس کا وہ مالک نہیں ہے (ترمذی ابوداؤد) اور ابوداؤد نے اپنی روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ اس چیز کو فروخت کرنا بھی صحیح نہیں جس کی فروختگی کا معاملہ کرنے کا وہ اصالۃ یا وکالۃ یا دلایۃ مالک نہیں ہے۔ تشریح نذرصحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اللہ کی خوشنودی کے لئے اس غلام کو آزاد کرنے کی نذر مانتاہوں اور حالانکہ یہ نذر ماننے کے وقت وہ غلام اس کی ملکیت میں نہیں تھا تو یہ صحیح نذر نہیں ہوگی اور اگر اس کے بعد وہ اس غلام کا مالک ہوگیا تو وہ غلام آزاد نہیں ہوگا۔ طلاق اور آزاد کرنے کے سلسلے میں اوپر کی حدیث کی تشریح میں وضاحت کی جا چکی ہے۔

【12】

طلاق بت کا مسئلہ

اور حضرت رکانہ ابن عبد یزید کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی سہیمۃ کو طلاق بت دی اور پھر اس کا ذکر رسول کریم ﷺ سے کیا اور کہا کہ اللہ کی قسم میں نے ایک طلاق کی نیت کی تھی آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ کیا واقعی اللہ کی قسم تم نے ایک طلاق کی نیت کی تھی ؟ رکانہ نے کہا کہ ہاں اللہ کی قسم میں نے ایک طلاق کی نیت کی تھی چناچہ رسول کریم ﷺ نے ان کی عورت کو ان کی طرف لوٹا دیا پھر رکانہ نے اس عورت کو دوسری طلاق حضرت عمر کے عہد خلافت میں اور تیسری طلاق حضرت عثمان غنی کے عہد خلافت میں دی اس روایت کو ابوداؤد ترمذی ابن ماجہ اور دارمی نے نقل کیا ہے لیکن ترمذی ابن ماجہ اور دارمی نے اپنی روایت میں دوسری اور تیسری طلاق کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تشریح طلاق بت، کا مطلب یہ ہے کہ حضرت رکانہ نے ان الفاظ میں طلاق دی انت طالق البتۃ یعنی تجھ پر طلاق البتۃ ہے) لفظ البتۃ بت کا اسم مرہ ہے جس کے معنی ہیں کاٹنا قطع کرنا لہذا طلاق بتہ کا مفہوم یہ ہوا کہ ایسی طلاق جو نکاح کا تعلق بالکل باقی نہیں رہنے دیتی اور عورت کو نکاح سے قطعی طور پر نکال دیتی ہے۔ ان کی عورت کو ان کی طرف لوٹا دیا کا مطلب حضرت امام شافعی کے نزدیک تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے رکانہ کو رجوع کرلینے کا حکم دیا اور گویا رکانہ نے رجوع کرلینے کے اس حکم کی بناء پر ان الفاظ راجعتہا الی نکاحی میں نے اس کو اپنے نکاح میں لوٹا لیا) کے ذریعہ اس عورت کو اپنے نکاح میں واپس کرلیا۔ حضرت امام شافعی نے یہ مطلب اس لئے مراد لئے ہیں کہ ان کے نزدیک طلاق بتہ ایک طلاق رجعی ہے ہاں اگر اس کے ذریعہ دو یا تین طلاقوں کی نیت کی گئی ہو تو پھر نیت کے مطابق ہی دو یا تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔ اور حضرت امام اعظم ابوحنفیہ کے نزدیک چونکہ اس لفظ کے ساتھ طلاق دینے سے ایک طلاق بائن پڑتی ہے خواہ ایک طلاق کی نیت کی ہو یا دو طلاق کی یا اور کچھ بھی نیت نہ کی گئی ہو اس لئے ان کے نزدیک اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس عورت کو جدید نکاح کے ذریعہ رکانہ کی طرف لوٹا دیا۔

【13】

نکاح وطلاق کے الفاظ ہنسی میں منہ سے نکالے جائیں تو حکم ثابت ہوجاتا ہے

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تین چیزیں ایسی ہیں جن کا قصد کرنا بھی قصد ہے اور ہنسی مذاق میں منہ سے نکالنا بھی قصد ہے نکاح طلاق رجعت ( ابوداؤد) تشریح جد کے معنی ہیں کسی کام میں سعی و کوشش کرنا لیکن یہاں اس کے یہ معنی مراد ہیں کہ جو لفظ جس معنی کے لئے وضع کیا گیا ہو اس کو زبان سے ادا کرتے وقت وہی معنی مراد لئے جائیں مثلا لفظ نکحت میں نے نکاح کیا زبان سے جب ادا کیا جائے تو اس کے معنی یعنی نکاح کرنا ہی مراد لیا جائے یا جب لفظ طلقت میں نے طلاق دی زبان سے ادا کیا جائے تو اس کے معنی یعنی طلاق دینا ہی مراد لیا جائے اور لفظ ھزل کے معنی یہ ہیں کہ کوئی لفظ زبان سے ادا کیا جائے مگر اس کے معنی مراد نہ ہوں۔ لہذا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو زبان سے ادا ہوتے ہی وقوع پذیر ہوجاتی ہیں خواہ ان کے معنی مراد ہوں یا مراد نہ ہوں۔ چناچہ اگر دو اجنبی مرد و عورت کے درمیان ہنسی ہنسی میں دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول ہوجائے تو بھی نکاح ہوجاتا ہے اور وہ دونوں میاں بیوی بن جاتے ہیں یا اگر کوئی ہنسی مذاق میں طلاق دیدے تو بھی طلاق پڑھ جائے گی اسی طرح طلاق رجعی کے بعد ہنسی ہنسی میں رجوع کرنے سے بھی رجعت ثابت ہوجاتی ہے ان تین چیزوں کے علاوہ اور چیزیں مثلا بیع وشراء وغیرہ اس طرح ہنسی مذاق میں وقوع پذیر نہیں ہوتیں۔

【14】

زبردستی دلوائی جانیوالی طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اکراہ کی حالت میں نہ تو طلاق واقع ہوتی ہے اور نہ آزادی (ابوداؤد) اور بیان کیا جاتا ہے کہ اغلاق کے معنی اکراہ کے ہیں۔ تشریح اکراہ کے معنی ہیں زبردستی کرنا لہذا حدیث کا یہ مطلب ہوا کہ اگر کوئی کسی سے زبردستی طلاق دلوا دے یا اس کا غلام آزاد کرا دے تو نہ طلاق پڑے گی اور نہ وہ غلام آزاد ہوگا۔ گویا یہ حدیث حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کے مسلک کی دلیل ہے کیونکہ ان تینوں ائمہ کے نزدیک دونوں چیزیں زبردستی کی حالت میں واقع نہیں ہوتیں جب کہ امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ واقع ہوجاتی ہیں انہوں نے اس کو ہزل پر قیاس کیا ہے جس کا بیان اوپر کی حدیث میں گزر چکا ہے ویسے حضرت امام اعظم نے اپنے مسلک کی دلیل میں جو کچھ پیش کیا ہے وہ فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔ اس موقع پر یہ بتادینا ضروری ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق زبردستی کی حالت میں بھی جن چیزوں کا حکم ثابت ہوجاتا ہے وہ گیارہ ہیں ( نکاح طلاق رجعت ایلاء فئی یعنی ایلاء سے رجوع کرنا ظہار عتاق عفو قصاص یعنی قصاص کو معاف کردینا قسم نذر قبولیت اسلام

【15】

دیوانے کی طلاق واقع نہیں ہوتی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر طلاق واقع ہوجاتی ہے مگر بےعقل اور مغلوب العقل کی طلاق واقع نہیں ہوتی امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی عطاء بن عجلان روایت حدیث میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کے حافظہ میں حدیث محفوظ نہیں رہتی تھی۔ تشریح امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک اس حدیث کے مطابق ہے کیونکہ ان کے نزدیک کبھی دیوانے کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یہاں حدیث میں معتوہ سے دیوانہ مراد ہے یعنی وہ شخص جو کبھی تو مسلوب العقل رہتا ہو اور کبھی اس کی عقل ٹھکانے رہتی ہو قاموس میں لکھا ہے کہ عتہ جو معتوہ کا مصدر ہے کے معنی ہیں کم عقل ہونا مدہوش ہونا اور صراح میں لکھا ہے کہ معتوہ الٹے ہوئے ڈول اور بےعقل شخص کو بھی کہتے ہیں چناچہ فقہ کی کتابوں میں اس کے یہی معنی بیان کئے گئے ہیں اس اعتبار سے حدیث کا یہ جملہ المغلوب علی عقلہ گویا لفظ معتوہ کا عطف تفسیری ہے یعنی اس جملہ میں معتوہ کی وضاحت مقصود ہے اسی لئے بعض روایات میں المغلوب بغیر واؤ کے ہے۔ اس تفصیل سے یہ ثابت ہوا کہ جب معتوہ کی طلاق واقع نہیں ہوتی تو مجنون مطلق یعنی پاگل شخص کہ جو سرے سے عقل و شعور رکھتا ہی نہیں اس کی طلاق بطریق اولی واقع نہیں ہوگی چناچہ زین العرب نے کہا ہے کہ یوں تو معتوہ ناقص العقل اور مغلوب العقل کو کہتے ہیں لیکن مجنون سویا ہوا شخص مدہوش اور ایسا مریض کہ جس کی عقل اس کے مرض کی وجہ سے جاتی رہے وہ بھی اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہیں یعنی ان سب کی بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ لفظ معتوہ کے بارے میں علامہ ابن ہمام نے بعض علماء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ معتوہ اس شخص کو کہتے ہیں جو ناقص العقل وکم سمجھ اور پریشان کلام ہو یعنی بےعقلی اور ناسمجھی کی باتیں کرتا ہو اور فاسد التدبیر یعنی بےعقلی اور بےسمجھی کے کام کرتا ہو لیکن نہ تو مارتا پھرتا ہو اور نہ گالیاں بکتا پھرتا ہو بخلاف مجنوں کے کہ لوگوں کو مارتا اور گالیاں بکتا پھرتا ہے۔ امام ترمذی کے قول کے مطابق اس حدیث کا راوی اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ کل طلاق جائز الا طلاق المعتوہ یعنی ہر طلاق واقع ہوجاتی ہے مگر معتوہ کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

【16】

تین شخص جو مرفوع القلم ہیں

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تین شخص مرفوع القلم ہیں یعنی ان تین شخصوں کے اعمال نامہ اعمال میں نہیں لکھے جاتے کیونکہ ان کے کسی قول وفعل کا کوئی اعتبار نہیں اور وہ مواخذہ سے بری ہیں ایک تو سویا ہوا شخص جب تک کہ وہ بیدار نہ ہو دوسرا لڑکا جب تک وہ بالغ نہ ہو تیسرا بےعقل شخص جب تک کہ اس کی عقل درست نہ ہوجائے ( ترمذی) اور دارمی نے اس روایت کو حضرت عائشہ (رض) اور ابن ماجہ نے حضرت عائشہ (رض) اور حضرت علی (رض) سے نقل کیا ہے۔

【17】

لونڈی کے لئے دو طلاقیں ہیں

اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا لونڈی کے لئے دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت کی مدت دو حیض ہیں۔ ( ترمذی ابوداؤد ابن ماجہ دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس طرح آزاد عورت کی عدت تین حیض ہیں اور اگر اسے حیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت کی مدت تین مہینہ ہے اسی طرح لونڈی کی عدت دو حیض ہیں اور اگر اسے حیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت کی مدت ڈیڑھ مہینہ ہوگی۔ اس طرح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طلاق اور عدت میں عورت کا اعتبار ہے نہ کہ مرد کا لہذا اگر عورت آزاد ہوگی تو اس کی طلاقیں تین ہوں گی اور اس کی عدت کی مدت تین حیض ہوں گی چاہے وہ کسی غلام ہی کے نکاح میں کیوں نہ ہو اور اگر عورت لونڈی ہوگی تو اس کی طلاقیں دو ہوں گی اور اس کی عدت کی مدت دو حیض ہوں گے خواہ اس کا خاوند کوئی آزاد شخص ہی کیوں نہ ہو چناچہ حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے لیکن حضرت امام شافعی کے نزدیک طلاق اور عدت میں مرد کا اعتبار ہے اگر مرد آزاد ہوگا تو اس کی بیوی کی طلاقیں تین ہوں گی اور اس کی عدت تین حیض ہوں گے اگرچہ اس کی بیوی لونڈی ہو اور اگر مرد غلام ہوگا تو اس کی بیوی کی طلاقیں دو ہوں گی اور اس کی عدت کی مدت دو حیض ہوں گے خواہ اس کی بیوی آزاد عورت ہی کیوں نہ ہو۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عدت کی مدت کا تعلق حیض سے ہے نہ کہ طہر سے جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے گویا یہ حدیث اس بات کی دلیل ہوئی کہ عدت کی مدت کے سلسلہ میں قرآن کریم میں جو ثلاثۃ قروء فرمایا گیا ہے تو اس سے تین حیض مراد ہیں تین طہر مراد نہیں ہیں۔

【18】

اپنے خاوند سے طلاق یا خلع چاہنے والی عورت کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنے خاوند کی نافرمانی کرنیوالی اور اپنے خاوند سے خلع چاہنے والی عورتیں منافق ہیں ( نسائی) تشریح مطلب یہ کہ جو عورتیں بلا سبب اپنے شوہروں سے طلاق مانگتی ہیں یا ان سے خلع چاہتی ہیں وہ منافق ہیں منافق کا مطلب یہ ہے کہ وہ ظاہر میں تو احکام اسلام کی مطیع و فرمانبردار ہیں مگر باطنی طور پر گنہگار وعاصی ہیں۔

【19】

عورت کے تمام مال کے عوض خلع کرنا مکروہ ہے

اور حضرت نافع صفیہ بنت ابوعبید کی ایک آزاد کی ہوئی لونڈی سے روایت کرتے ہیں کہ صفیہ نے اپنی ہر اس چیز کے عوض جو ان کے پاس موجود تھی اپنے خاوند حضرت عبداللہ ابن عمر سے خلع کیا اور عبداللہ نے اس سے انکار نہیں کیا ( مالک) تشریح حضرت عبداللہ ابن عمر نے اس لئے انکار نہیں کیا کہ خلع بہرحال جائز تھا اگرچہ اس طرح یعنی عورت کے تمام مال کے عوض خلع کرنا مکروہ ہے۔

【20】

بیک وقت تین طلاق دینا حرام ہیں

اور حضرت محمود ابن لبید کہتے ہیں کہ جب رسول کریم کو اس شخص کے بارے میں بتایا گیا جس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں تو آپ ﷺ غضبناک ہو کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کیا اللہ عزوجل کی کتاب کے ساتھ کھیلا جاتا ہے ( یعنی حکم الٰہی کے ساتھ استہزاء کیا جاتا ہے) درآنحالیکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں یہ سن کر مجلس نبوی میں موجود صحابہ میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا میں اس شخص کو قتل نہ کر دوں ؟ (نسائی) تشریح اللہ عزوجل کی کتاب سے قرآن کریم کی یہ آیت (اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاكٌ بِمَعْرُوْفٍ ) 2 ۔ البقرۃ 229) مراد ہے اس آیت میں یہاں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں نہ دینی چاہئیں بلکہ متفرق طور پر دینی چاہئیں وہیں (وَلَا تَتَّخِذُوْ ا اٰيٰتِ اللّٰهِ ھُزُوًا) 2 ۔ البقرۃ 231) کے ذریعہ یہ تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو لہو لعب کی طرح بےوقعت مت سمجھو چناچہ آپ ﷺ نے اسی آیت کی طرف اشارہ فرمایا کہ متفرق طور پر طلاق دینے کی بجائے ایک ساتھ تینوں طلاقیں دینا حق تعالیٰ کے حکم ومنشاء کی خلاف ورزی ہے اور یہ خلاف ورزی گویا حق تعالیٰ کے احکام کے ساتھ استہزاء ہے۔ کیونکہ جس شخص نے حق تعالیٰ کے حکم کے خلاف کیا اس نے درحقیقت اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ اس کی نظر میں حکم الٰہی کی کوئی وقعت نہیں ہے کہ اس پر عمل نہ کرنا اور کرنا دونوں برابر ہیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک تین طلاق ایک ساتھ دینا بدعت وحرم ہے۔ اور اس حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کسی شخص کے اس فعل پر غضب ناک ہوتے تھے جو گناہ و معصیت کا باعث ہوتا تھا حضرت امام شافعی کے نزدیک تین طلاق ایک ساتھ دینا حرام نہیں ہے بلکہ خلاف اولی ہے۔ علماء لکھتے ہیں کہ تین طلاقیں ایک ساتھ نہ دینے میں فائدہ یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد شاید اللہ تعالیٰ خاوند کے دل کو اس کی بیوی کی طرف مائل کر دے اور اس کے فیصلہ میں کوئی ایسی خوشگوار تبدیلی آجائے کہ وہ رجوع کرلے اور ان دونوں کے درمیان مستقل جدائی کی نوبت نہ آئے۔ علماء کے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یوں کہے کہ انت طالق ثلاثا (یعنی تجھ پر تین طلاق ہیں) تو آیا اس کی بیوی پر ایک طلاق پڑے گی یا تین طلاق واقع ہوں گی چناچہ حضرت امام مالک حضرت امام شافعی حضرت امام ابوحنیفہ حضرت امام احمد اور جمہور علماء یہ فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں پڑیں گی جب کہ طاؤس اور بعض اہل ظاہریہ کہتے ہیں کہ ایک طلاق پڑھ گئ۔ ایک صحابی کا یہ کہنا کہ میں اس شخص کو قتل نہ کر دوں ؟ اس بناء پر تھا کہ رسول کریم ﷺ نے اس شخص کو کتاب اللہ کے ساتھ استہزاء کرنیوالا کہا تھا جو کفر ہے اور اگر کوئی مسلمان کفر کی حد میں داخل ہوجائے تو اس کی سزا قتل ہے حالانکہ ان صحابی نے یہ نہیں جانا کہ رسول کریم ﷺ نے اس شخص کے بارے میں جو الفاظ ارشاد فرمائے ہیں وہ زجروتوبیخ پر مبنی ہیں ان کے حقیقی معنی مراد نہیں ہیں۔ اور حضرت مالک راوی ہیں کہ ان تک یہ حدیث پہنچی کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟ یعنی کیا میری بیوی پر طلاق پڑھ گئی ہے یا نہیں) حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ وہ عورت تین طلاقوں کے ذریعہ تم سے جدا ہوگئی اور جو ستانوے طلاقیں باقی بچیں ان کے ذریعہ تم نے گویا اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا مذاق اڑایا ( مؤطا) تشریح اوپر کی حدیث میں جس آیت (اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ تا وَلَا تَتَّخِذُوْ ا اٰيٰتِ اللّٰهِ ھُزُوًا) 2 ۔ البقرۃ 231-229) کا ذکر کیا گیا ہے حضرت ابن عباس نے اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تم نے اس طرح طلاق دے کر گویا حکم الٰہی کی خلاف ورزی کی ہے۔

【21】

اللہ کے نزدیک طلاق ایک بری چیز ہے

اور حضرت معاذ ابن جبل کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ معاذ ! اللہ تعالیٰ روئے زمین پر جتنی مستحب چیزیں پیدا کی ہیں ان میں سے اس کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ چیز غلام و لونڈی کو آزاد کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر جتنی حلال چیزیں پیدا کی ہیں ان میں سے اس کے نزدیک سب سے زیادہ بری چیز طلاق دینا ہے ( دارقطنی) تشریح غلام و لونڈی کو آزاد کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ اس لئے کہ اس کی وجہ سے ایک انسان کو اس کا پیدائشی اور فطری حق ملتا ہے اس کو ایک ایسی مخلوق کی غلامی سے نجات حاصل ہوجاتی ہے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اسی کے مرتبہ کے برابر ہے اور وہ اپنے پروردگار کی عبادت اور اطاعت کے لئے فارغ ہوجاتا ہے نیز اس کا مالک جس نے اسے آزاد کیا ہے اپنے اس ایثار وفراخ حوصلگی کی وجہ سے دوزخ کی آگ سے پروانہ نجات حاصل کرتا ہے۔ بری طلاق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ طلاق بہت بری ہے جو کسی حاجت و ضرورت کے بغیر محض اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے دی گئی ہو چناچہ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ بعض حالات میں طلاق دینا مستحب بھی ہے مثلا اگر عورت نماز نہ پڑھتی ہو اور بدکار ہو تو اسے طلاق دینا ہی بہتر ہے۔ فتاوی قاضی خان میں لکھا ہے کہ اگر کسی کی بیوی نماز نہ پڑھتی ہو تو اسی لائق ہے کہ اسے طلاق دیدی جائے اگرچہ اس شخص کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ وہ اس کا مہر ادا کرسکے۔ ابوحفص بخاری کا یہ قول منقول ہے کہ اگر کوئی بندہ اس حال میں اللہ سے ملاقات کرے یعنی اس کا انتقال ہوجائے کہ اس کی گردن پر اس کی بیوی کا مہر ہو تو وہ میرے نزدیک اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ وہ ایک ایسی بیوی سے صحبت کرے جو نماز نہ پڑھتی ہو۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نکاح کرنا عبادت کے لئے گوشہ نشینی اختیار کرنے سے افضل ہے۔

【22】

جس عورت کو تین طلاقیں دی جائیں اسکا بیان

جس عورت کو تین طلاقیں دی جائیں اس کا حکم اس باب میں بیان کیا گیا ہے کہ اس عورت کو اگر اس کا خاوند کہ جس نے اسے تین طلاقیں دی پھر اپنی بیوی بنا کر رکھنا چاہے تو اس صورت میں ممکن ہے کہ جب کہ وہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کر کے اس سے ہمبستر ہو پھر وہ مرد اس کو طلاق دے اور وہ عورت اپنی عدت کے دن پورے کر کے ازسر نو پہلے خاوند سے نکاح کرے ان مرحلوں سے گزرنے کے بعد ہی وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال ہوگی۔ مشکوۃ کے بعض نسخوں میں باب المطلقۃ ثلثا کے بعد یہ عبارت بھی لکھی ہے کہ (وفیہ ذکر الظہار والایلاء) یعنی اس باب میں ظہار اور ایلاء کا ذکر بھی کیا گیا ہے ظہار اور ایلاء کے معنی اور ان کے کچھ مسائل انشاء اللہ آگے مذکور ہوں گے۔

【23】

حلالہ کا صحیح ہونا دوسرے خاوند کے جماع کرنے پر موقوف ہے

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دن رفاعہ قرظی کی عورت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کے نکاح میں تھی مگر انہوں نے مجھے طلاق دیدی اور طلاقیں بھی تین دیں چناچہ میں نے رفاعہ کے بعد عبدالرحمن ابن زبیر سے نکاح کرلیا لیکن عبدالرحمن کپڑے کے پھند کی مانند رکھتے ہیں ( یعنی اس عورت نے ازراہ شرم وحیا عبدالرحمن کی نامردی کو کنایۃ ان الفاظ کے ذریعہ بیان کیا کہ وہ عورت کے قابل نہیں ہیں) آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ کیا تم پھر رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو اس نے عرض کیا کہ ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اس وقت تک رفاعہ سے دوبارہ نکاح نہیں کرسکتیں جب تک کہ عبدالرحمن تمہارا مزہ نہ چکھ لے اور تم اس کا مزہ نہ چکھ لو (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تمہارا دوسرا شوہر تمہارے سات جماع نہ کرے اور پھر اس کی طلاق کے بعد تم عدت کے دن پورے نہ کرلو تم اپنے سابق خاوند یعنی رفاعہ سے نکاح نہیں کرسکتیں چناچہ یہ حدیث مشہور اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حلالہ یعنی سابق خاوند کے واسطے حلال ہونے کے لئے کسی دوسرے مرد سے محض نکاح کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ مجامعت بھی ضروری ہے البتہ مجامعت میں صرف دخول کافی ہے انزال شرط نہیں۔

【24】

محلل اور محلل لہ پر آنحضرت ﷺ کی طرف سے لعنت

حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم نے محلل اور محلل لہ پر لعنت فرمائی ہے (دارمی) ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت علی حضرت ابن عباس اور حضرت عقبہ ابن عامر سے نقل کیا ہے۔ تشریح فرض کیجئے کہ دو شخص ہیں ایک کا نام زید ہے اور دوسرے کا نام بکر ہے زید نے اپنی بیوی خالدہ کو تین طلاقیں دیدیں اور اس کی عدت کے دن پورے ہوگئے ہیں اب زید پھر چاہتا ہے کہ وہ خالدہ کو دوبارہ اپنی زوجیت میں لائے۔ لہذا دوسرا شخص یعنی بکر خالدہ سے اس شرط یا ارادہ کے ساتھ نکاح کرتا ہے کہ جماع کے بعد خالدہ کو طلاق دیدی جائے گی تاکہ خالدہ کا پہلا شوہر زید کہ جس نے اس کو تین طلاقیں دی تھیں اس سے دوبارہ نکاح کرسکے اور خالدہ کا پہلا شوہر محلل لہ یعنی جس کے لئے حلالہ کیا گیا) کہلائے گا۔ حدیث میں انہی دونوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ان پر لعنت فرمائی ہے حلالہ کرنیوالے پر لعنت فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے زبان سے تحلیل کی شرط کا اظہار و اقرار کرنے کے بعد اور محض جدائی اختیار کرنے کے قصد سے اس عورت سے نکاح کیا جب کہ نکاح اس لئے شروع ہوا ہے کہ اس کے ذریعہ مرد و عورت ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے رفیق حیات ودمساز رہیں، لہذا اس صورت میں نہ صرف یہ کہ نکاح کے اصل مقصد ومنشاء پر زد پڑتی ہے بلکہ عورت کی حرمت و عزت بھی مجروح ہوتی ہے اسی لئے ایک حدیث میں اس کو مستعار بکری سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور محلل لہ یعنی پہلے خاوند پر لعنت فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت حال اور اس نکاح کا اصل باعث وہی بنا ہے لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس صورت میں عقد باطل ہوتا ہے بلکہ حدیث کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ عقد صحیح ہوجاتا ہے کیونکہ حدیث میں اس نکاح کرنیوالے کو محلل کہا گیا ہے اور یہ ایک ظاہر بات ہے کہ کوئی شخص محلل اسی صورت میں ہوتا ہے جب کہ عقد صحیح ہو عقد فاسد سے محلل نہیں ہوتا لہذا ثابت ہوا کہ اس ارشاد گرامی میں لعنت کا حقیقی مفہوم مراد نہیں ہے بلکہ یہاں مراد محلل اور محلل لہ کی خساست طبع کو ظاہر کرنا ہے اور یہ واضح کرنا ہے کہ یہ ایک قبیح فعل ہے جس کو کوئی سلیم الطبع انسان پسند نہیں کرسکتا۔ حلالہ کے مکروہ تحریمی ہونے کی صورت ہدایہ اور فقہ کی دیگر کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حلالہ کو زبان سے مشروط کیا گیا ہو یعنی محلل اس عورت سے کہ جس کو اس کا خاوند تین طلاقیں دے چکا ہے یہ کہے کہ میں تم سے اس لئے نکاح کرتا ہوں کہ تمہیں اس خاوند کے لئے کہ جس نے تمہیں طلاق دی ہے حلال کر دوں یعنی میں تم سے صرف اس لئے نکاح کرتا ہوں کہ میں جماع کے بعد تمہیں طلاق دیدوں تاکہ تمہارے پہلے خاوند کے لے تم سے دوبارہ نکاح کرنا حلال ہوجائے یا وہ عورت محلل سے یوں کہے کہ میں تم سے اس لئے نکاح کرتی ہوں کہ میں اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجاؤں تو اس صورت میں حلالہ مکروہ تحریمی ہوگا۔ ہاں اگر زبان سے یہ نہ کہا جائے مگر نیت میں یہ بات ہو تو پھر محلل نہ قابل مواخذہ ہوگا اور نہ لعنت کا مورد ہوگا کیونکہ اس صورت میں یہی کہا جائے گا کہ اس کا مقصد دراصل اصلاح احوال ہے۔ ابن ہمام نے کہا ہے کہ اس عورت نے کہ جس کو تین طلاقیں دی جا چکی ہیں غیر کفو سے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا اور پھر اس نے اس کے ساتھ جماع بھی کرلیا تو اس صورت میں وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی چناچہ فتوی اسی قول پر ہے۔

【25】

ایلاء کا مسئلہ

اور حضرت سلیمان ابن یسار تابعی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کے دس بلکہ اس سے بھی زیادہ صحابیوں کو پایا ہے وہ سب یہ فرمایا کرتے تھے کہ ایلاء کرنیوالے کو ٹھہرایا جائے ( شرح السنۃ) تشریح ایلاء اس کو کہتے ہیں کہ کوئی مرد یہ قسم کھائے کہ میں چار مہینہ یا اس سے زائد مثلا پانچ مہینہ یا چھ مہینہ) تک اپنی بیوی سے جماع نہیں کروں گا لہذا اگر اس مرد نے اپنی بیوی سے جماع نہیں کیا یہاں تکہ کہ چار مہینے گزر گئے تو اس صورت میں اکثر صحابہ کے قول کے مطابق اس مرد کی بیوی پر محض چار مہینے گزر جانے سے طلاق نہیں پڑے گی بلکہ ایلاء کرنیوالے کو ٹھہرایا جائے گا یعنی حاکم وقاضی اس کو محبوس کرے گا اور اس سے یہ کہے گا کہ یا تو اپنی عورت سے رجوع کرو یعنی اس سے جماع کرلو اور اپنی قسم پوری نہ کرنے کا کفارہ دو یا اپنی بیوی کو طلاق دیدو۔ چناچہ حضرت امام مالک حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا مسلک یہی ہے نیز حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ مرد حاکم وقاضی کی اس بات پر عمل نہ کرے یعنی نہ تو عورت سے رجوع کرے اور نہ طلاق دے تو حاکم کو اختیار ہے کہ وہ اس کی بیوی کو طلاق دیدے۔ اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اس صورت میں اگر اس مرد نے چار مہینے کے اندر اپنی بیوی سے جماع کرلیا تو اس کا ایلاء ساقط ہوجائے گا۔ مگر اس پر قسم پوری نہ کرنے کا کفارہ لازم آئے گا اور اگر اس نے جماع نہ کیا یہاں تک کہ چار مہینے گزر گئے تو اس کی بیوی پر ایک طلاق بائن پڑھ جائے گی ایلاء کے دیگر مسائل اور اس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔

【26】

ظہار کا حکم

اور حضرت ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ایک صحابی سلمان ابن صخر نے کہ جن کو سلمہ ابن صخر بیاضی کہا جاتا تھا اپنی بیوی کو اپنے لئے اپنی ماں کی پشت کی مانند قرار دیا تاوقتیکہ رمضان ختم ہو (یعنی انہوں نے بیوی سے یوں کہا کہ ختم رمضان تک کے لئے تو مجھ پر میری ماں کی پشت کے مثل ہے گویا اس طرح انہوں نے اپنی بیوی کو رمضان کے ختم تک کے لئے اپنے اوپر حرام قرار دیا) مگر ابھی آدھا ہی رمضان گزرا تھا کہ انہوں نے اسی رات اپنی بیوی سے صحبت کرلی پھر جب صبح ہوئی تو وہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ ماجرا بیان کیا آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک غلام آزاد کرو انہوں نے عرض کیا کہ میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا دو مہینے یعنی پے درپے روزے رکھو انہوں نے عرض کیا کہ مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے کیونکہ حکم الٰہی تو یہ ہے کہ دو مہینے مسلسل اس طرح روزے رکھے جائیں کہ ان مہینوں میں جماع سے کلیۃ اجتناب کیا جائے اور میں اپنے جنسی ہیجان کی وجہ سے اتنے دنوں تک جماع سے باز نہیں رہ سکتا) آنحضرت ﷺ نے فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ! انہوں نے عرض کیا میں اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا، آنحضرت ﷺ نے ایک اور صحابی حضرت فروہ ابن عمرو سے فرمایا کہ ان کو کھجوروں کا فرق دیدو فرق کھجور کے درخت کے پتوں سے بنے ہوئے تھیلے چھابے) کو کہتے ہیں جس میں پندرہ صاع یا سولہ صاع (یعنی تقریبا ساڑھے باون سیریا چھپن سیر) کھجور سماتی ہیں ( ترمذی ابوداؤد) اور دارمی نے اس روایت کو سلیمان ابن یسار سے اور انہوں نے حضرت سلمہ ابن صخر سے اسی طرح نقل کیا ہے جس میں حضرت سلمہ کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ میں اپنی عورتوں سے اس قدر قربت کیا کرتا تھا کہ کوئی اور شخص میری برابر قربت نہیں کرتا تھا چناچہ جنسی ہیجان کے اتنے زیادہ غلبہ ہی کی وجہ سے میں اپنی بیوی سے صحبت کرنے سے نہ رک سکا) اور ان دونوں میں یعنی ابوداؤد اور دارمی کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ فرمانے کی جگہ یہ فرمایا کہ ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق کھجوریں کھلاؤ۔ تشریح اس حدیث میں ظہار کا حکم بیان کیا گیا ہے ظہار اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو اس اس کے جسم کے کسی ایسے حصے کو کہ اس کو بول کر پورا بدن مراد لیا جاتا ہو اور یا اس کے جسم کے کسی ایسے حصہ کو جو شائع غیر متعین ہو محرمات ابدیہ یعنی ماں بہن اور پھوپھی وغیرہ) کے جسم کے کسی ایسے عضو سے تشبیہ دے جس کی طرف نظر کرنا حلال نہ ہو جیسے وہ اپنی بیوی سے یوں کہے کہ تم مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہو یا تمہارا سر یا تمہارے بدن کا نصف حصہ میری ماں کی پیٹھ یا پیٹ کے مانند ہے یا میری ماں کی ران کے مانند ہے یا میری بہن یا میری پھوپھی کی پیٹھ کے مانند ہے اس طرح کہنے سے اس بیوی سے جماع کرنا یا ایسا کوئی بھی فعل کرنا جو جماع کا سبب بنتا ہے جیسے مساس کرنا یا بوسہ لینا اس وقت تک کے لئے حرام ہوجاتا ہے جب تک کہ کفارہ ظہار ادا نہ کردیا جائے اور اگر کسی شخص نے کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کرلیا تو اس پر پہلے کفارہ کے علاوہ کچھ اور واجب نہیں ہوگا ہاں اسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے اور پھر جب تک کفارہ ادا نہ کرے دوبارہ جماع نہ کرے۔ یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ کہ ظہار صرف بیوی سے ہوتا ہے اور بیوی خواہ آزاد عورت ہو اور خواہ کسی کی لونڈی ہو اسی طرح خواہ وہ مسلمان ہو یا کتابیہ یعنی عیسائی و یہودی ہو ظہار کے باقی مسائل فقہ کی کتابوں میں دیکھنے چاہئیں۔ علامہ طیب فرماتے ہیں کہ حدیث الفاظ (حتی یمضی رمضان) (جب تک کہ رمضان ختم ہو) کہ ظاہر موقت صحیح ہوجاتا ہے اور قاضی خان نے کہا ہے کہ جب کوئی شخص موقت یعنی کسی متعین مدت وعرصہ کے لئے ظہار کرتا ہے تو وہ اسی وقت ظہار کرنیوالا ہوجاتا ہے اور جب وہ متعینہ عرصہ گزر جاتا ہے تو ظہار باطل ہوجاتا ہے۔ محقق علام حضرت ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ظہار کرے اور مثلا جمعہ کے دن استثناء کر دے تو صحیح نہیں ہوتا اور اگر ایک دن یا ایک مہینہ کے لئے ظہار کر دے (یعنی کسی مدت متعین کے لئے ظہار کرے) تو اس مدت کی قید لگانی صحیح ہے اور پھر اس مدت کے گزرے جانے کے بعد ظہار باقی نہیں رہتا۔ حدیث (اطعم ستین مسکینا) یعنی ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ سے دونوں باتیں مراد تھیں کہ یا تو تم ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلا دو یا ان میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار کے برابر کچا اناج یا اس کی قیمت دیدو اور جس طرح کفارہ ادا کرنے کے لئے غلام آزاد کرنے کی صورت میں جماع سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ضروری ہے یا کفارہ ادا کرنے کے لئے دو مہینے کے روزے رکھنے کی صورت میں جماع سے پہلے دو مہینے مسلسل روزے رکھنا ضروری ہے اس طرح ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا بھی جماع کرنے سے پہلے ضروری ہے۔ حدیث کے اس جملہ تاکہ یہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دیں کے بارے میں بظاہر ایک اشکال پیدا ہوسکتا ہے وہ یہ کہ آپ ﷺ نے ساٹھ مسکینوں کو کھلانے کے لئے حضرت سلمہ ابن صخر کو جو کھجوریں دلائیں ان کی مقدار خود روایت کی وضاحت کے مطابق پندرہ یا سولہ صاع تھی اس سے معلوم ہوا کہ ہر مسکین کو ایک ایک صاع دینا واجب نہیں ہے جب کہ فقہ کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ اگر کھجوریں دی جائیں تو صدقہ فطر کی قدار کے برابر یعنی ایک ایک صاع دی جائیں۔ گویا حدیث کے اس جملہ اور فقہی حکم میں تعارض واقع ہوگیا لیکن اگر اس جملہ کا یہ ترجمہ کیا جائے گا کہ تاکہ یہ ان کھجوروں کو ساٹھ مسکینوں کو کھلانے میں صرف کردیں۔ تو پھر کوئی تعارض باقی نہیں رہے گا کیونکہ اس طرح اس ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کھجوروں میں اپنے پاس سے بھی کھجوریں ملا کر ساٹھ مسکینوں میں تقسیم کردو۔ اس کے علاوہ ابوداؤد دارمی کی دوسری روایت کے یہ الفاظ کہ ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق کھجوریں کھلاؤ) بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ اس جملہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ صرف یہی کھجوریں ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کھجوروں میں اپنے پاس سے کھجوریں ملا کر ایک وسق کی مقدار پوری کرلو اور پھر ہر ایک مسکین کو ایک ایک صاع کھجور دے دو واضح رہے کہ ایک وسق ساٹھ صاع کے برابر ہوتا ہے۔

【27】

اگراظہار کرنیوالا کفارہ دینے سے پہلے جماع کرلے تب بھی ایک ہی کفارہ واجب ہوگا

اور حضرت سلیمان ابن یسار تابعی حضرت سلمہ ابن صخر سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس ظہار کرنیوالے کے بارے میں کہ جو کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کرلے فرمایا کہ اس پر ایک ہی کفارہ واجب ہوگا ( ترمذی ابن ماجہ) تشریح اکثر علماء کا یہی مسلک ہے کہ اگر کوئی شخص ظہار کرے اور پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کرلے تو اس پر بھی ایک ہی کفارہ واجب ہوگا لیکن بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کرلینے کی صورت میں دو کفارے واجب ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی ایک سے زائد دو یا تین اور چار بیویوں سے ظہار کرے یعنی ان سب سے یوں کہے کہ تم سب مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی مانند حرام ہو تو اس صورت میں متفقہ طور پر تمام علماء یہ کہتے ہیں کہ وہ شخص ان سب سے ظہار کرنیوالا ہوجاتا ہے البتہ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ اس پر کفارہ ایک واجب ہوگا یا کئی واجب ہوں گے۔ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی کے نزدیک تو اس پر کئی کفارے واجب ہونگے یعنی وہ ان بیویوں میں سے جس کسی کے ساتھ بھی جماع کا ارادہ کرے گا پہلے کفارہ ادا کرنا واجب ہوگا حسن، زہری اور ثوری وغیرہ کا بھی یہی قول ہے جبکہ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ اس پر ایک ہی کفارہ واجب ہوگا یعنی وہ پہلے ایک کفارہ ادا کر دے اس کے بعد ہر بیوی کے ساتھ جماع کرنا جائز ہوگا۔ حضرت عکرمہ، حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کرلیا اس کے بعد وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے یہ واقعہ ذکر کیا آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے پر آمادہ کیا یعنی کیا وجہ پیش آئی کہ تم کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کر بیٹھے اس نے عرض کیا کہ چاندنی میں اس کی پازیب کی سفیدی پر میری نظر پڑگئی اور میں جماع کرنے سے پہلے اپنے آپ کو نہ روک سکا۔ یہ سن کر آنحضرت ﷺ ہنس دیئے۔ اور اس کو یہ حکم دیا کہ اب دوبارہ اس سے اس وقت تک جماع نہ کرنا جب تک کفارہ ادا نہ کرو (ابن ماجہ، ) ترمذی نے بھی اسی طرح کی یعنی اس کے ہم معنی روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، نیز ابوداؤد اور نسائی نے اس طرح کی روایت مسند اور مرسل نقل کی ہے اور نسائی نے کہا ہے کہ مسند کی بہ نسبت مرسل زیادہ صحیح ہے۔

【28】

کفارہ ظہار میں جو بردہ آزاد کیا جائے اس کا مؤمن ہونا ضروری ہے یا نہیں؟

حضرت معاویہ ابن حکم کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میری ایک لونڈی ہے جو میرا ریوڑ چراتی ہے میں جب اس کے پاس گیا اور ریوڑ میں اپنی بکری کم پائی تو میں نے اس بکری کے بارے میں پوچھا کہ کیا ہوئی ؟ اس نے کہا کہ بھیڑیا لے گیا مجھ کو اس پر غصہ آگیا اور چونکہ میں بنی آدم میں سے ہوں یعنی ایک انسان ہوں اور انسان بتقاضائے بشریت مغلوب الغضب ہوجاتا ہے اس لئے میں نے اس لونڈی کے منہ پر ایک تھپڑ مار دیا اور اس وقت کفارہ ظہار یا کفارہ قسم کے طور پر اور یا کسی اور سبب سے مجھ پر ایک بردہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام آزاد کرنا واجب ہے تو کیا میں اس لونڈی کو آزاد کر دوں تاکہ میرے ذمہ سے وہ کفارہ بھی ادا ہوجائے اور اس کو تھپڑ مار دینے کیوجہ سے میں جس ندامت و شرمندگی میں میں مبتلا ہوں اس سے بھی نجات پا جاؤں آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ میں کون ہوں ؟ اس نے کہا کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس کو آزاد کردو (مالک) مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت معاویہ نے کہا کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد پہاڑ اور جوانیہ کے اطراف میں میرا ریوڑ چرایا کرتی تھی جوانیہ احد پہاڑ کے قریب ہی ایک جگہ کا نام ہے ایک دن جو میں نے اپنا ریوڑ دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ بھیڑیا میری ایک بکری کو ریوڑ میں سے اٹھا کرلے گیا ہے میں بنی آدم کا ایک مرد ہوں اور جس طرح کسی نقصان واتلاف کی وجہ سے اولاد آدم کو غصہ آجاتا ہے اسی طرح مجھے بھی غصہ آگیا ( چناچہ اس غصہ کی وجہ سے میں نے چاہا کہ اس لونڈی کو خوب ماروں لیکن میں اس کو ایک ہی تھپڑ مار کر رہ گیا پھر میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کے سامنے یہ سارا ماجرا بیان کیا آنحضرت ﷺ نے اس واقعہ کو میرے حق میں ایک امر اہم جانا اور فرمایا کہ تم نے یہ بڑا گناہ کیا ہے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! تو کیا میں اس لونڈی کو آزاد کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو میرے پاس بلاؤ میں لونڈی کو آنحضرت ﷺ کے پاس بلا لایا، آنحضرت ﷺ نے اس سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے اس نے جواب دیا کہ آسمان میں پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ میں کون ہوں ؟ اس نے کہا کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس لونڈی کو آزاد کردو کیونکہ یہ مسلمان ہے۔ تشریح اس باب میں اس حدیث کو نقل کرنے سے مصنف کتاب کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ ظہار میں بطور کفارہ جو بردہ یعنی غلام یا لونڈی آزاد کیا جائے اس کا مسلمان ہونا ضروری ہے چناچہ حضرت امام شافعی کا مسلک یہی ہے لیکن حنفی مسلک میں چونکہ یہ ضروری نہیں ہے اس لئے حنفیہ اس حدیث کو فضیلت پر محمول کرتے ہیں یعنی ان کے نزدیک اس حدیث کی مراد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ کفارہ ظہار میں آزاد کیا جانیوالا بردہ اگر مسلمان ہو تو یہ افضل اور بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ کہاں ہے ؟ ان الفاظ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کا مقصد اللہ تعالیٰ کے مکان کے بارے میں سوال نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ تو مکان وزمان سے پاک ہے بلکہ اس موڑ پر آنحضرت ﷺ کا مقصد یہ سوال کرنا تھا کہ بتاؤ اللہ تعالیٰ کا حکم کہاں جاری وساری ہے اور اس کی بادشاہت وقدرت کس جگہ ظاہر و باہر ہے اور اس سوال کی ضرورت یہ تھی کہ اس وقت عرب کے کفار بتوں ہی کو معبود جانتے تھے اور جاہل لوگ ان بتوں کے علاوہ اور کسی کو معبود نہیں مانتے تھے لہذا آپ ﷺ نے یہ جاننا چاہا کہ آیا یہ لونڈی موحدہ یا مشرکہ ہے گویا آپ ﷺ کی مراد دراصل ان بیشمار معبودوں کی نفی کرنی تھی جو زمین پر موجود تھے نہ کہ آسمان کو اللہ تعالیٰ کا مکان ثابت کرنا تھا چناچہ جب اس لونڈی نے مذکورہ جواب دیا تو آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوگیا کہ یہ موحدہ ہے مشرکہ نہیں ہے۔ مالک کی روایت میں تو حضرت معاویہ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ ایک بردہ آزاد کرنا مجھ پر کسی اور سبب سے واجب ہے تو کیا میں اس لونڈی کو آزاد کر دوں تاکہ وہ کفارہ بھی ادا ہوجائے جو واجب ہے اور اس کو مارنے کی وجہ سے مجھے جو پشیمانی اور شرمندگی ہے وہ بھی جاتی رہے لیکن مسلم نے جو روایت نقل کی ہے اس کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ نے اس لونڈی کو محض اس وجہ سے آزاد کرنا چاہا کہ انہوں نے اس کو غصہ میں مار دیا تھا۔ گویا دونوں روایتوں کے مفہوم میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ان دونوں میں قطعا کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ مالک کی روایت میں تو اس مفہوم کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ یوں تو کسی اور سبب سے مجھ پر بردہ آزاد کرنا واجب ہے لیکن مارنے کی وجہ سے بھی اس کو آزاد کرنا میرے لئے ضروری ہوگیا ہے تو اگر میں اس کو آزاد کر دوں تو ان دونوں سبب کا تقاضا پورا ہوجائے گا اس کے برخلاف مسلم کی روایت اس بارے میں مطلق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں باتوں پر محمول کیا جاسکتا ہے لہذا یہی کہا جائے گا کہ مسلم کی روایت کا مطلق مفہوم مالک کی روایت کے مقید مفہوم پر محمول ہے یعنی مسلم کی روایت کے الفاظ کا مطلب بھی وہی ہے جو مالک کی روایت کے الفاظ کا ہے کہ اگر میں اس لونڈی کو آزاد کر دوں تو کیا دونوں سبب پورے ہوجائیں گے یا نہیں ؟ کفارہ ظہار کے کچھ مسائل حنفی مسلک کے مطابق ظہار کے کفارہ میں سب سے پہلا درجہ بردہ لونڈی یا غلام) کو آزاد کرنے کا ہے بردہ خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان مرد ہو یا عورت چھوٹا ہو یا بڑا اور خواہ کانا ہو بہرا ہو لیکن اسی قدر بہرا ہو کہ اگر اس کو بآواز بلند مخاطب کیا جائے تو سن لے اور اگر کوئی ایسا بردہ ہو کہ اس کا ایک ہاتھ اور ایک پیر کٹا ہوا ہو تو اس کو آزاد کرنا بھی درست ہوگا بشرطیکہ یہ دونوں عضو مختلف جانب کے کٹے ہوئے ہوں مثلا اگر دایاں ہاتھ کٹا ہوا ہو تو پیر بایاں کٹا ہوا ہو اسی طرح اس مکاتب کو آزاد کرنا بھی درست ہے جس نے اپنا بدل کتابت کچھ بھی ادا نہ کیا ہو۔ جو بردہ گونگا ہو یا ایسا بہرا ہو کہ سرے سے کچھ سن ہی نہ سکتا ہو (خواہ اسے کتنی ہی بلند آواز میں مخاطب کیا جائے) تو اس کو آزاد کرنے سے کفارہ ظہار ادا نہیں ہوگا اسی طرح جس بردہ کے دونوں ہاتھ کٹے ہوئے ہوں یا دونوں پیر یا دونوں پیروں کے دونوں انگوٹھے کٹے ہوئے ہوں یا ایک ہاتھ اور ایک پیر دونوں ایک ہی طرف کے کٹے ہوئے ہوں مثلا دایاں ہاتھ بھی کٹا ہوا ہو اور دایا پیر بھی کٹا ہوا ہو تو ایسے بردہ کو آزاد کرنا بھی کافی نہیں ہوگا ایسا بردہ جو مجنون ہو یعنی جس پر ہمیشہ دیوانگی طاری رہتی ہو یا جو مدبریا ام ولد ہو یا ایسا مکاتب ہو جس نے بدل کتابت میں سے کچھ ادا کردیا ہو تو ان میں سے بھی کسی کو آزاد کرنے سے کفارہ ظہار ادا نہیں ہوگا۔ دوسرا درجہ پے درپے روزے رکھنے کا ہے یعنی اگر ظہار کرنیوالے کو بردہ نہ ملے تو پھر وہ دو مہینے مسلسل روزے رکھے اس طور پر کہ ان دونوں مہینوں میں نہ تو رمضان کا مہینہ آئے اور نہ وہ دن آئیں جن میں روزہ رکھنا ممنوع ہے جیسے عید اور بقرہ عید کا دن اور ایام تشریق اور جب تک روزے ختم نہ ہوجائیں یعنی دو مہینے کے مسلسل روزے پورے نہ ہوجائیں) تب تک عورت سے صحبت نہ کرے اگر روزے ختم ہونے سے پہلے اس عورت سے کہ جس سے ظہار کیا ہے صحبت کرلی تو اب سب روزے پھر سے رکھے چاہے دن میں اس عورت سے صحبت کی ہو یا رات میں اور چاہے قصدا ایسا کیا ہو یا بھولے سے سب کا ایک ہی حکم ہے اسی طرح اگر کسی عذر کی وجہ سے یا بلاعذر روزہ افطار کرلیا تو بھی ازسرنو سب روزے رکھے۔ تیسرا درجہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا ہے یعنی اگر کوئی شخص مذکورہ بالا شرائط وقیود کے ساتھ روزے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر وہ ساٹھ مسکینوں اور فقیروں کو دو وقت کا کھانا کھلائے یا ان کو کچا اناج دیدے کچا اناج دینے کی صورت میں یہ ہے کہ ہر مسکین و فقیر کو نصف صاع پونے دو سیر یعنی ایک کلو ٦٢٣ گرام گیہوں یا ایک صاع ساڑھے تین سیر یعنی تین کلو ٦٦ ب ٢ گرام جو یا کھجوریں یا ان میں سے کسی ایک مقدر کی قمیت دیدے اسی طرح اگر ان میں سے کوئی چیز دینے کی بجائے دو چیزیں دی جائیں تو بھی جائز ہے مثلا چودہ چھٹانک یعنی ٨١٧ گرام گیہوں کے ساتھ پونے دو سیر یعنی ایک کلو ٦٣٣ گرام جو دیا جاسکتا ہے۔ کفارہ میں اباحت جائز ہے اباحت کا مطلب یہ ہے کہ کھانا پکا کر فقیر کے سامنے رکھ دیا جائے تاکہ وہ اس میں سے جس قدر کھانا چاہے کھالے چناچہ یہ اباحت کفارات اور رمضان کے روزے کے بدلے میں دیئے جانیوالے) فدیہ میں تو جائز ہے لیکن صدقات واجبہ مثلا زکوٰۃ وغیرہ میں جائز نہیں ہے کیونکہ صدقات واجبہ یعنی زکوٰۃ وغیرہ میں فقیر کو مال کا مالک بنادینا ضروری ہے اس وضاحت کے بعد اب سمجھئے کہ ظہار کے کفارہ میں ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے خواہ ایک ہی دن میں دو وقت یعنی دوپہر اور رات میں کھلا دیا جائے۔ اسی طرح کھلانے میں پیٹ بھرنے کا اعتبار ہے خواہ کتنے ہی تھوڑے کھانے میں ان کا پیٹ بھر جائے جہاں تک کھانے کی نوعیت کا سوال ہے تو اس کا انحصار کھلانے والے کی حیثیت واستطاعت پر ہے کہ وہ جیسا کھانا کھلا سکتا ہو کھلائے اگر کھانے میں جو کی روٹی ہو تو اس کے ساتھ سالن ہونا ضروری ہے البتہ گیہوں کی روٹی کے ساتھ سالن ضروری نہیں ہے اگر دو وقت ساٹھ فقیروں کو کھلانے کی بجائے ایک ہی فقیر کو ساٹھ دن تک دونوں وقت کھلائے تو بھی جائز ہے لیکن ایک ہی فقیر کو ایک ہی دن ساٹھ فقیروں کا کھانا دیدیا تو یہ جائز نہیں ہوگا اس صورت میں صرف ایک ہی دن کا ادا ہوگا۔ ظہار کرنیوالے نے اگر کھانا کھلانے کے درمیان جماع کرلیا تو اس صورت میں اگرچہ وہ گنہگار ہوگا مگر ازسرنو کھانا کھلانا نہ پڑے گا اگر کسی شخص پر دو ظہار کے دو کفارے واجب ہوں اور وہ ساٹھ فقیروں کو مثلا گیہوں نصف صاع فی کفارہ کا اعتبار کر کے ایک ایک صاع دے تو دونوں ظہار کا کفارہ ادا نہیں ہوگا بلکہ ایک ہی ظہار کا کفارہ ادا ہوگا۔ ہاں اگر کسی شخص پر ایک ایک کفارہ تو ظہار کا اور ایک کفارہ روزہ توڑنے کا واجب ہو اور وہ ہر فقیر کو ایک ایک صاع گیہوں دے تو یہ جائز ہوگا اور دونوں کفارے ادا ہوجائیں گے۔

【29】

لعان کا بیان

لعان کے معنی و تعریف لعان اور ملاعنہ کے معنی ہیں ایک دوسرے پر لعنت کرنا، شرعی اصطلاح میں لعان اس کو کہتے ہیں کہ جب شوہر اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے یا جو بچہ پیدا ہو اس کے بارے میں یہ کہے کہ یہ میرا نہیں نہ معلوم کس کا ہے اور بیوی اس سے انکار کرے اور کہے کہ تم مجھ پر تہمت لگا رہے ہو پھر وہ قاضی اور شرعی حاکم کے پاس فریاد کرے قاضی شوہر کو بلا کر اس الزام کو ثابت کرنے کے لئے کہے چناچہ اگر شوہر گواہوں کے ذریعہ ثابت کر دے تو قاضی اس کی بیوی پر زنا کی حد جاری کرے اور اگر شوہر چار گواہوں کے ذریعہ الزام ثابت نہ کرسکے تو پھر قاضی پہلے شوہر کو اس طرح کہلائے کہ میں اللہ کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ میں نے جو زنا کی نسبت اس کی طرف کی ہے اس میں سچا ہوں عورت کی طرف اشارہ کر کے چار دفعہ شوہر اسی طرح کہے پھر پانچویں دفعہ مرد کی طرف اشارہ کر کے یوں کہے کہ اس مرد نے میری طرف جو زنا کی نسبت کی ہے اگر اس میں یہ سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب ٹوٹے۔ جب دونوں اس طرح ملاعنت کریں تو حاکم دونوں میں جدائی کرا دے گا اور ایک طلاق بائن پڑھ جائے گی اور وہ عورت اس مرد کے لئے ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی ہاں اگر اس کے بعد مرد خود اپنے کو جھٹلائے یعنی یہ اقرار کرلے کہ میں نے عورت پر جھوٹی تہمت لگائی تھی تو اس صورت میں اس پر حد تہمت جاری کی جائے گی اور عورت سے پھر نکاح کرنا اس کے لئے درست ہوجائے گا لیکن حضرت امام ابویوسف یہ فرماتے ہیں کہ اگر مرد خود اپنے کو جھٹلائے تب بھی عورت اس کے لئے ہمیشہ کو حرام رہے گی۔

【30】

دربار رسالت میں لعان کا ایک واقعہ

حضرت سہل ابن سعد ساعدی کہتے ہیں کہ ایک صحابی عویمر عجلانی نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اس شخص کے بارے میں بتائیے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو پائے اور اسے یہ یقین ہو کہ اس مرد نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کیا ہے کیا وہ اس مرد کو قتل کر ڈالے ؟ اگر وہ اس کو مار ڈالے گا تو مقتول کے وارث اس کو قتل کردیں گے ایسی صورت میں وہ کیا کرے آیا اس عار پر صبر کرے یا کوئی اقدام کرے) رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر اس سے فرمایا کہ تم میاں بیوی کے قضیہ میں و حی نازل کی گئی ہے جاؤ اپنی بیوی کو بلا لاؤ حضرت سہل کہتے ہیں کہ عویمر اپنی بیوی کو بلا لائے اور میاں بیوی نے مسجد نبوی میں لعان کیا اور میں بھی اس وقت دوسرے لوگوں کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے پاس ہی موجود تھا چناچہ جب وہ دونوں میاں بیوی لعان سے فارغ ہوئے تو عویمر (یعنی میاں نے کہا کہ اگر میں اس عورت کو اپنے پاس رکھوں تو گویا میں نے اس پر تہمت لگائی ہے اس کے بعد انہوں نے اس عورت کو تین بار طلاق دی پھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر یہ عورت اپنے موجودہ حمل سے ایسا بچہ جنے جس کا رنگ سیاہ آنکھیں بہت کالی ہوں کو ل ہے بڑے ہوں اور دونوں پنڈلیوں کا گوشت بھرا ہو تو میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھوں گا کہ عویمر نے اس عورت کے بارے میں جو کہا ہے وہ سچ کہا ہے کیونکہ عویمر نے جس مرد کی طرف زنا کی نسبت کی وہ اسی رنگ و صورت کا ہے اور جب اسی کی شباہت کا بچہ پیدا ہوگا تو یہی کہا جائے گا کہ وہ اسی کے نطفہ سے ہے اور اگر اس عورت نے ایسا بچہ جنا جس کا رنگ سرخ ہو اور بامنی کے رنگ کا معلوم ہوتا ہو تو پھر میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھوں گا کہ عویمر نے اس کے بارے میں جھوٹ بولا ہے یعنی عویمر چونکہ سرخ رنگ کے ہیں اس لئے بچہ کی رنگت بھی سرخ ہوئی تو سمجھا جائے گا کہ بچہ عویمر ہی کے نطفہ سے ہے اور عویمر نے اپنی بیوی کو جھوٹی تہمت لگائی ہے) چناچہ جب اس عورت کا بچہ پیدا ہوا تو وہ اسی صورت کا تھا جس کو رسول کریم ﷺ نے عویمر کی تصدیق کے لئے ذکر کیا تھا (یعنی وہ بچہ اسی مرد کی شباہت کا تھا جس کی طرف سے عویمر نے زنا کی نسبت کی تھی گویا عویمر کی بات سچ ثابت ہوئی اس کے بعد وہ بچہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق) اپنی ماں کی طرف منسوب کیا گیا ( بخاری ومسلم) تشریح اگر کوئی شخص کسی غیر مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ منہ کالا کرتا ہوا پائے اور وہ شخص اس مرد کو جان سے مار ڈالے تو اس کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آیا وہ شخص جس نے اپنی بیوی کے ساتھ منہ کالا کرنے والے کو جان سے مار ڈالا ہے) اسلامی قانون کے مطابق قصاص یعنی سزائے موت کا مستوجب ہے یا نہیں ؟ چناچہ جمہور علماء کا قول یہی ہے کہ اس کو سزائے موت دی جائے ہاں اگر وہ شخص اس بات کے ثبوت میں کہ مقتول نے اس کی بیوی کے ساتھ منہ کالا کیا تھا چار گواہ پیش کر دے یا خود مقتول کے ورثاء اس بات کا اقرار کرلیں تو اس صورت میں اس کو سزائے موت نہیں دی جائے گی تاہم یہ ملحوظ رہے کہ اگر چار پیش نہ کرنے یا مقتول کے ورثاء کے اقرار نہ کرنے کی صورت میں اسے سزائے موت دے دی گئی تو واقع کے اعتبار سے وہ سچا تھا تو اللہ کے نزدیک گنہگار نہیں سمجھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس مسئلہ میں یہ آیتیں نازل ہوئیں ہیں۔ ا یت (وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَا ءُ اِلَّا اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍ بِاللّٰهِ اِنَّه لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ ۔ وَالْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَيْهِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ ) 24 ۔ النور 7-6) اور جو لوگ اپنی بیویں پر زنا کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس بجز اپنے ہی دعوی کے اور کوئی گواہ نہ ہو تو ان کی شہادت جو کہ ان کو حد قذف سے بچا سکتی ہے یہی ہے وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر یہ کہہ دے بیشک میں سچا ہوں اور پانچویں بار یہ کہے کہ مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اگر میں جھوٹا ہوں (آخرتک) بعض مفسرین کے قول کے مطابق یہ آیات کریمہ ٩ ھ کے ماہ شعبان میں نازل ہوئیں ہیں ابن ملک فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ لعان کے بارے میں مذکورہ بالا آیت حضرت عویمر کے واقعہ پر نازل ہوئی ہے اور اسلام میں سب سے پہلا لعان انہی کی طرف سے ہوا تھا جب کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایک دوسرے صحابی حضرت ہلال ابن امیہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور اسلام میں سب سے پہلے ہلال ہی نے لعان کیا ہے چناچہ آگے حضرت ابن عباس کی جو روایت آئے گی اس سے یہی ثابت ہوتا ہے لہذا اس صورت میں ارشاد گرامی تم میاں بیوی کے قضیہ میں وحی نازل کی گئی ہے کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہارے قضیہ جیسے ایک قضیہ میں وحی نازل کی گئی ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ بھی احتمال ہے کہ یہ آیت دونوں ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہو جس کی صورت یہ ہوئی ہوگی کہ پہلے ان میں سے کسی ایک نے آنحضرت سے اپنے بارے میں سوال کیا ہوگا پھر بعد میں دوسرے کا قضیہ پیش آیا ہوگا اور اس نے بھی آنحضرت ﷺ سے سوال کیا ہوگا یہاں تک کہ ان دونوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی لیکن ان دونوں میں حضرت ہلال نے پہلے لعان کیا۔ گویا میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے یہ حضرت عویمر نے دراصل تین طلاق دینے کا سبب بیان کیا ہے کہ اس صورت حال کے بعد بھی اگر میں اس عورت کو اپنے نکاح میں رکھو اور طلاق نہ دوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ میں نے اس کی طرف زنا کی جھوٹی نسبت کی ہے کیونکہ اس کو نکاح میں رکھنے کا مطلب یہی ہوگا کہ گویا میں نے جو کچھ کہا ہے سب جھوٹ ہے اور یہ عورت بدکاری کے گناہ سے پاک ہے۔

【31】

لعان کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق کا مسئلہ

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص اور اس کی بیوی کے مابین لعان کا حکم فرمایا چناچہ اس لعان کی وجہ سے وہ شخص اس عورت کے بچہ سے دور ہوگیا یعنی بچہ کا نسب اس شخص سے ہٹا دیا گیا نیز آنحضرت ﷺ نے میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دی اور بچہ کو عورت کے حوالے کردیا (بخاری مسلم) اور حضرت ابن عمر کی ایک روایت میں جو بخاری ومسلم ہی نے نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس شخص کو نصیحت کی اور آخرت کا عذاب یاد دلایا (تاکہ وہ جھوٹ نہ بولے اور عورت اپنے الزام کو ناحق ثابت نہ کرے) اور اس کو اس بات سے آگاہ کیا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے پھر آپ ﷺ نے عورت کو بلایا اس کو بھی نصیحت کی اور آخرت کا عذاب یاد دلایا اور آگاہ کیا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے۔ تشریح تفریق کرا دی کا مطلب یہ ہے کہ لعان کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق جدائی حاکم وقاضی کے حکم ہی سے ہوتی ہے نہ کہ محض لعان سے چناچہ حضرت امام ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے نیز ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر نفس لعان ہی سے تفریق واقع ہوجاتی تو پھر تین طلاقیں کیوں دی جاتیں جیسا کہ اوپر کی حدیث میں گزرا ہے کہ حضرت عویمر نے لعان کے بعد اپنی بیوی کو تین طلاق دی۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد یعنی شرعی سزا ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر مرد کسی عورت کو چاہے وہ اس کی بیوی ہی کیوں نہ ہو) زنا کی تہمت لگائے اور اس کی تہمت جھوٹی ثابت ہوجائے تو شرعی قانون کے مطابق اس پر حد جاری کی جائیگی یعنی اس کو ایک پاکدامن عورت پر زنا کی جھوٹ تہمت لگانے کے جرم میں اسی کوڑے مارے جائیں گے اور اگر وہ مرد سچا ثابت ہوجائے یعنی یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے کہ اس عورت نے بدکاری کرائی ہے تو پھر اس عورت پر حد جاری ہوگی کہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں اس کو سنگسار کردیا جائے گا اور غیرشادی شدہ ہونے کی صورت میں سو کوڑے مارے جائیں گے اس صورت میں یہ امکان ہوسکتا ہے کہ مرد نے کسی غلط فہمی کی بناء پر یا کسی خاص جذبہ کے تحت عورت کو تہمت لگا دی ہو اور پھر اسے یہ یقین ہوگیا ہو کہ میں نے عورت پر جو الزام لگایا ہے وہ بےبنیاد ہے مگر اب اس خوف سے کہ ایک پاکدامن عورت پر جھوٹی تہمت لگائی تھی یا یہ کہ واقعۃ عورت نے بدکاری کرائی ہو مگر اس خوف سے کہ میں سنگسار کردی جاؤں گی یا سو کوڑے ماری جاؤں گی اپنے اس گناہ کا اعتراف و اقرار نہیں کرتی بلکہ ملاعنت پر تیار ہوجاتی ہے لہذا آنحضرت ﷺ نے اس امکانی صورت کے خلاف دونوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں دنیا کا عذاب یعنی یہاں کی سزا کہیں آسان اور سہل ہے اس لئے جو صورت حال ہو اور جو سچ بات ہو اس کا اعتراف و اقرار کرلو اور اس دنیا کے آسان عذاب کو اختیار کر کے آخرت کے سخت ترین عذاب سے بچو۔

【32】

لعان کرنیوالوں کا محاسبہ آخرت میں ہوگا

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے لعان کرنیوالے مرد و عورت سے فرمایا ہم صرف ظاہری احوال و وجوہ کی بنیاد ہی پر کوئی حکم نافذ کرسکتے ہیں اور وہ ہم نے لعان کی صورت میں نافذ کردیا ہے البتہ) تمہارا حساب اللہ کے ہاں ہوگا کیونکہ نفس الامر اور حقیقت کے اعتبار سے تم دونوں میں سے کوئی ایک ضرور جھوٹا ہے (پھر آپ ﷺ نے مرد سے فرمایا کہ) اب عورت کے بارے میں تمہارے لئے کوئی راہ نہیں ہے (یعنی لعان کے بعد اس عورت کے ساتھ رہنا تمہارے لئے جائز نہیں ہے کیونکہ یہ تمہارے لئے ہمیشہ حرام ہوگئی ہے) مرد نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! اور میرا مال یعنی میں نے اس عورت کو جو مہر دیا ہے کیا وہ مجھ سے جاتا رہے گا) اپ ﷺ نے فرمایا اس مال پر تمہارا کوئی حق نہیں ہے یعنی دیئے ہوئے مہر کو واپس لینے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے کیونکہ اگر تم نے اس عورت کے بارے میں سچ کہا ہے کہ یعنی تمہارے کہنے کے مطابق اگر اس عورت نے واقعۃ بدکاری کرائی ہے) تو وہ مال اس چیز کا بدلہ ہوگیا کہ تم نے اس کی شرم گاہ کو حلال کیا ہے اگر تم نے اس عورت کے بارے میں بولا ہے تو وہ اس صورت میں مہر کا واپس لے لینا اس سے بھی بعید ہے اور تم سے بھی بہت بعید ہے یعنی جب سچ کی صورت میں مہر کو واپس لینے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے تو جھوٹ کی صورت میں تو بدرجہ اولی تمہیں وہ مہر واپس نہ لینا چاہئے ( بخاری ومسلم) تشریح تمہارا حساب اللہ کے ہاں ہوگا کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں تو ہم نے تمہارے اس تنازعہ کو لعان کی صورت میں ختم کرا دیا ہے مگر تم دونوں کا حقیقی محاسبہ آخرت میں ہوگا کہ وہاں تمہارے معاملہ کی تحقیق کی جائے گی اور پھر تم میں سے جو جھوٹا ہوگا اس کو اس کی سزا اللہ تعالیٰ دے گا۔ تو وہ مال اس چیز کا بدل ہوگی الخ اس بات کی دلیل کہ لعان کرنیوالا مہر واپس نہ لے بشرطیکہ اس عورت کے ساتھ اس نے دخول کیا ہو چناچہ اس بارے میں تمام علماء کا متفقہ طور پر یہی مسلک ہے البتہ عدم دخول کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک کا قول یہ ہے کہ اگر لعان کرنیوالے نے اس عورت کے ساتھ دخول نہ کیا ہو تو اس صورت میں وہ آدھے مہر کی حقدار ہوگی۔

【33】

آیت لعان کا شان نزول

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک صحابی ہلال ابن امیہ نے نبی کریم ﷺ کے سامنے اپنی بیوی شریک ابن سحماء صحابی کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی یعنی ہلال نے کہا کہ شریک ابن سحماء نے میری بیوی کے ساتھ زنا کیا ہے) نبی کریم ﷺ نے ہلال سے فرمایا کہ اپنے الزام کے ثبوت میں گواہ پیش کرو ورنہ جھوٹی تہمت لگانے کے جرم میں تمہاری پیٹھ پر حد جاری کی جائے گی یعنی اسی کوڑے مارے جائیں گے ہلال نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اگر ہم میں سے کوئی کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری میں مبتلا دیکھے تو کیا وہ گواہ ڈھونڈھنے چلا جائے ؟ یعنی اول تو ایسی صورت میں اتنا موقع کہاں کہ کسی کو گواہ کرے پھر یہ کہ کسی کو گواہ کرنے کی وہ جگہ کیا ہے لیکن نبی کریم ﷺ یہی فرمائے جا رہے تھے کہ گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری کی جائے گی پھر ہلال نے عرض کیا کہ قسم ہے اس پاک ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا میں سچا ہوں مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا حکم ضرور نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو حد سے بری رکھے گا، آخر کا کچھ ہی عرصہ بعد حضرت جبرائیل تشریف لائے اور آنحضرت ﷺ پر یہ آیتیں نازل کی گئی ہیں آیت (وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ ) 24 ۔ النور 26) ( یعنی اور جو لوگ کہ اپنی بیویوں کو تہمت لگاتے ہیں الخ پھر اس کے بعد کی آیتوں (اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ) 24 ۔ النور 26) تک تلاوت کی اس کے بعد ہلال دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور گواہی دی یعنی لعان کی جو تفصیل پیچھے بیان کی جا چکی ہے اس کے ساتھ انہوں نے پانچ مرتبہ گواہی کے ذریعہ لعان کیا اور نبی کریم ﷺ فرماتے تھے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں تم سے کوئی ایک جھوٹا ہے سو تم میں سے کون ہے جو توبہ کرے اس کے بعد ہلال کی بیوی کھڑی ہوئی اور لعان کیا یعنی چار مرتبہ اپنی پاکدامنی کی شہادت دی اور جب وہ پانچویں مرتبہ گواہی دینے چلی تو صحابہ نے اس کو روکا اور کہا کہ اچھی طرح سوچ سمجھ لو یہ پانچویں گواہی تم دونوں کے درمیان جدائی کو واجب کردے گی یا اگر تم جھوٹی ہوگی تو آخرت میں عذاب کو واجب کر دے گی ابن عباس کہتے ہیں یہ سن کر وہ عورت ٹھہر گئی اور پیچھے ہٹی یعنی وہ پانچویں مرتبہ کچھ گواہی دینے میں متامل ہوئی جس سے ہمیں یہ گمان ہوا کہ یہ اپنی بات سے پھر جائے گی لیکن پھر اس نے کہا کہ میں لعان سے بچ کر اور اپنے خاوند کے الزام کی تصدیق کر کے اپنی قوم کو ساری عمر کے لئے رسوا نہیں کروں گی یہ کہہ کر اس نے پانچویں گواہی کو بھی پورا کیا اس طرح جب لعان پورا ہوگیا اور آنحضرت ﷺ نے دونوں میاں بیوی کے درمیان جدائی کرا دی تو آپ نے فرمایا کہ اس کو دیکھتے رہنا اگر اس نے ایسے بچے کو جنم دیا جس کی آنکھیں سرمئی کو ل ہے بھاری اور پنڈلیاں موٹی ہوں تو وہ بچہ شریک ابن سحماء کا ہوگا کیونکہ شریک اسی طرح کے ہیں چناچہ جب اس عورت نے ایسے ہی بچہ کو جنم دیا جو شریک کے مشابہ تھا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر کتاب اللہ کا مذکورہ حکم نہ ہوتا جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لعان کرنیوالوں پر تعزیر جاری نہیں ہوگی) تو پھر میں اس عورت کے ساتھ دوسرا ہی معاملہ کرتا یعنی شریک کے ساتھ اس بچہ کی مشابہت اس عورت کی بدکاری کا ایک واضح قرینہ ہے اس لئے اس کی اس بدکاری پر میں اس کو ایسی سزا دیتا کہ دیکھنے والوں کو عبرت ہوتی (بخاری) تشریح اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے حضرت ہلال نے لعان کیا ہے اور اس موقع پر لعان کے سلسلہ میں مذکورہ آیت نازل ہوئی اس بارے میں جو تحقیقی تفصیل ہے وہ حضرت سہل کی روایت کی تشریح میں بیان ہوچکی ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے الخ، بظاہر زیادہ صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بات ان دونوں کے لعان سے فارغ ہونے کے بعد ارشاد فرمائی اور اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ جو بھی شخص کوئی جھوٹی بات کہے یا کسی پر جھوٹی تہمت لگائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ توبہ کرے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ بات لعان سے پہلے ان دونوں کو جھوٹ کے عواقب سے ڈرانے کے لئے ارشاد فرمائی تھی۔ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ حاکم و قاضی کسی بھی معاملہ میں اپنے گمان و خیال قرائن اور کسی علامت کی بنیاد پر کوئی حکم نہ دے بلکہ وہی حکم دے جس کے دلائل و شواہد تقاضا کریں۔

【34】

زنا کی تہمت چار گواہوں کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک صحابی سعد نے کہا کہ اگر میں کسی غیر مرد کو اپنی بیوی کے پاس پاؤں تو جب تک کہ چار گواہ فراہم نہ کرلوں اس کو ہاتھ نہ لگاؤں۔ یعنی نہ اس کو ماروں اور نہ قتل کروں) رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہاں سعد نے کہا کہ ہرگز نہیں قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں قبل اس کے کہ چار گواہ فراہم کروں فوری طور پر تلوار سے اس کا خاتمہ کر دوں گا۔ آنحضرت ﷺ نے حاضرین مجلس کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سنو تمہارا سردار یعنی سعد کیا کہہ رہا ہے بلاشبہ وہ غیرت مند ہے میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے (مسلم) تشریح آنحضرت ﷺ کا یہ جواب سن کر حضرت سعد نے جو کچھ کہا اس سے نہ تو آنحضرت ﷺ کے قول کی تردید مقصود تھی اور نہ آنحضرت ﷺ کے حکم کی مخالفت منظور تھی بلکہ انہوں نے اپنی اس بات کے ذریعہ دراصل اپنی طبیعت اور اپنے مزاج کے بارے میں بتایا۔ کہ میرا حال تو یہ ہے کہ میرے غصہ اور میری غیرت کا یہ عالم ہے کہ اگر میں اپنی بیوی کے پاس کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو اس کو فورًا قتل کر دوں جب کہ اس بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب تک چار گواہ فراہم نہ کرلو اس کو کچھ نہ کہو تو اس صورت میں میرے لئے کونسا راستہ ہے ؟ اس لئے آنحضرت ﷺ نے حضرت سعد کی یہ بات سن کر لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کیا کہ سنو تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے گویا آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کہ سنو تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے ؟ کی مراد حضرت سعد کے وصف کی تعریف کرنا ہے اور اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ طبیعت و مزاج میں اتنی غیرت کا ہونا بزرگوں کی صفات اور سرداروں کی عادات میں سے ہے اگرچہ اس معاملہ میں شریعت کا حکم دوسرا ہے جس پر عمل کرنا غیرت مندی کے تقاضا پر عمل کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعہ حضرت سعد کی بات کی تقریر یعنی تائید و توثیق نہیں فرمائی بلکہ آپ ﷺ نے ان کا عذر بیان کیا کہ حضرت سعد نے جو بات کہی ہے اور جس سے بظاہر میرے حکم کی خلاف ورزی معلوم ہوتی ہے وہ دراصل ان کی غیر معمولی غیرت مندی کی وجہ سے سے ان کی زبان سے نکل گئی ہے۔ حضرت مظہر فرماتے ہیں کہ حضرت سعد کا آنحضرت ﷺ کو مذکورہ جواب دینا آنحضرت کے حکم کی مخالفت یا آپ ﷺ کے ارشاد کو قبول کرنے سے انکار کردینے کے طور پر نہیں تھا بلکہ درحقیقت ان کی اس خواہش کے اظہار کے طور پر تھا کہ اگر کوئی غیرت مند کسی غیر مرد کو اپنی بیوی کے پاس پائے تو اس کو قتل کردینے کی اجازت عطا ہوجائے چناچہ جب آنحضرت نے یہ اجازت دینے سے ایک بلیغ انداز میں انکار کردیا تو انہوں نے سکوت اختیار کرلیا۔ غیرت آدمی کی اندرونی کیفیت و حالت کے اس تغیر کو کہتے ہیں جو اپنے اہل میں کسی ناگوار چیز کو دیکھنے پر پیدا ہوتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کی نسبت اسی معنی کے اعتبار سے محال و ناممکن ہے لہذا اللہ تعالیٰ کے غیرت مند ہونے کی معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے بندوں کو گناہوں سے روکنے والا ہے تاکہ وہ اس کی بارگاہ کی قربت و مقبولیت سے دور نہ جا پڑیں۔

【35】

اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں ہے

اور حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد نے یہ کہا کہ اگر میں کسی غیر مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھوں تو میں اس کو تلوار سے مار دوں اور تلوار کی پشت کی جانب سے نہیں بلکہ دھار والی جانب سے ماروں حاصل یہ کہ میں تلوار سے اس کا خاتمہ کر دوں جب رسول کریم ﷺ تک یہ بات پہنچی کہ سعد اس طرح کہتے ہیں) تو آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ تمہیں سعد کی اس غیر معمولی غیرت مندی پر تعجب ہے ؟ اللہ کی قسم میں یقینًا ان سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے اور اللہ نے اپنی غیرت ہی کی وجہ سے تمام گناہوں کو حرام کیا ہے خواہ وہ ظاہری گناہ ہوں یا پوشیدہ گناہ ہوں اور عذر کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں رکھتا اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ڈرانے والوں اور بشارت دینے والوں یعنی پیغمبروں کو بھیجا ہے نیز تعریف کرنے کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی پسند نہیں کرتا اور اسی کے سبب اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے ( بخاری ومسلم) تشریح اور اللہ تعالیٰ نے اپنی غیرت ہی کی وجہ سے گناہوں کو حرام کیا ہے یہ جملہ دراصل اللہ تعالیٰ کی غیرت کی وضاحت کے لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کے معنی یہ ہیں کہ اس نے لوگوں کو حرام امور اختیار کرنے سے منع کیا ہے اور حرام امور کو اختیار کرنے پر عذاب مقرر کیا ہے چناچہ اصل میں غیرت کا مطلب یہی ہے کہ آدمی اس بات کو ناپسند کرے اور اس پر ناراض ہو کہ کوئی اس کی ملکیت میں تصرف کرے۔ اور غیرت کا مشہور معنی یہ ہے کہ آدمی اس شخص پر غصہ کرے جو اس کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرے یا اس کو نظر بد سے دیکھے لہذا اللہ تعالیٰ کی غیرت یہ ہے کہ وہ اس شخص پر غصہ کرے جو گناہ کا مرتکب ہو۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ عذر کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں رکھتا میں عذر اعزار یعنی ازالہ عذر کے معنی میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ عذر ختم کردینے کو پسند کرتا ہے اس طرح کوئی اور عذر کو ختم کرنے کو پسند نہیں کرتا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پیغمبروں اور رسولوں کو بھیجا ہے تاکہ اس طرف سے اتمام حجت ہوجائے اور بندوں کو عذر کرنے کا موقع نہ ملے۔ جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ا یت (لئلا یکون علی اللہ حجۃ بعد الرسل) تاکہ لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے سامنے پیغمبروں کے بعد کوئی عذر باقی نہ رہے تعریف کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی پسند نہیں کرتا، کا مطلب یہ ہے کہ تعریف کرنے کو جتنا اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اتنا کوئی اور پسند نہیں کرتا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تعریف بھی فرمائی ہے اور اپنے محبوب بندوں کی بھی تعریف کی ہے اور ان لوگوں کو جنت میں داخل کرنے کا وعدہ کیا ہے جو اس کی حمد و تعریف کرتے ہیں اور اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔

【36】

اللہ تعالیٰ غیرت کا تقاضا کیا ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ غیرت مند ہے اور مؤمن بھی غیرت مند ہے (یعنی غیرت دراصل اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جو مؤمن میں بھی موجود ہے) اور اللہ تعالیٰ کی غیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ مؤمن وہ کام نہ کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ( بخاری و مسلم)

【37】

محض معمولی علامتوں کی بناء پر اپنے بچہ کا انکار نہ کرو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری بیوی نے ایک ایسے بچے کو جنم دیا ہے جس کا رنگ کالا ہے اور اس وجہ سے کہ وہ میرا ہم رنگ نہیں ہے) میں نے اس کا انکار کردیا ہے (یعنی یہ کہہ دیا ہے کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے) رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں، اس نے عرض کیا کہ ہاں ان میں خاکسری رنگ کے بھی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ خاکستری رنگ کے اونٹ کہاں سے آگئے ( یعنی ان میں خاکستری رنگ کہاں سے آیا جب کہ ان کے ماں باپ خاکستری رنگ کے نہیں ہیں ؟ ) اس نے عرض کیا کہ کوئی ٰرگ ہوگی جس نے انہیں کھینچ لیا ( یعنی ان کی اصل میں کوئی خاکستری کا رہا ہوگا جس کے مشابہ یہ بھی ہوگئے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو پھر یہ بچہ بھی کسی ایسی رگ کے سبب کالا ہوا ہے جس نے اس کو کھینچ لیا ہے یعنی اس بچہ کی اصل میں بھی کوئی شخص کالے رنگ کا رہا ہوگا جس کے مشابہ یہ بچہ ہوگیا ہے اور اس طرح آنحضرت ﷺ نے اس دیہاتی کو اس بچہ کا انکار کرنے کی اجازت نہیں دی ( بخاری و مسلم) تشریح طیبی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ محض معمولی اور ضعیف علامتوں کی بناء پر اپنے بچہ کا انکار کرنا یعنی یہ کہنا کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے ممنوع ہے بلکہ اس صورت میں مضبوط دلائل و وجوہ کا ہونا ضروری ہے مثلا بیوی سے صحبت نہ کی ہو اور اس کے باوجود بچہ کی ولادت ہوئی ہو یا صحبت کی ہو مگر صحبت کے بعد چھ مہینہ سے کم مدت میں بچہ پیدا ہوا ہو اور ان صورتوں میں اس بچہ کا انکار کردینا جائز ہے۔

【38】

زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالے بچہ کا نسب زانی سے ثابت نہیں ہوتا

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرے نطفہ سے ہے تم اس کو لے لینا چناچہ فتح مکہ کے سال سعد نے اس لڑکے کو لے لیا اور کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے جبکہ ابن زمعہ نے کہا کہ یہ میرا بھائی ہے پھر وہ دونوں اپنا معاملہ رسول کریم ﷺ کے پاس لے گئے اور سعد نے کہا کہ یہ لڑکا میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے جو میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے دونوں کی بات سن کر فرمایا کہ عبد بن زمعہ اس بچہ کے تم ہی حقدار ہو کیونکہ بچہ صاحب فراش کی طرف منسوب ہوتا ہے اور زانی کے لئے نسب و میراث سے محرومی ہے یا یہ کہ زانی سنگساری کا مستوجب ہے) پھر آنحضرت ﷺ نے حضرت سودہ بنت زمعہ سے فرمایا کہ تم اس لڑکے سے پردہ کیا کرو کیونکہ اس میں عتبہ کی شباہت نظر آتی ہے چناچہ حضرت سودہ اس لڑکے کے سامنے کبھی نہیں آئیں یہاں تک کہ وہ واصل بحق ہوگیا) ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عبد بن زمعہ وہ لڑکا تمہارا بھائی ہے اس لئے کہ وہ لڑکا ان کے باپ کے بستر پر پیدا ہوا تھا (بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث میں جو چند نام ذکر ہوئے ہیں پہلے ان کے بارے میں بتادینا ضروری ہے تاکہ صورت واقعہ کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ عتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص کا حقیقی بھائی تھا حضرت سعد کو تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دولت سے بہرور کیا اور وہ ایک جلیل القدر صحابی ہوئے مگر عتبہ کفر کے اندھیرے سے نہ نکل سکا یہاں تک کہ کفر کی حالت میں مرگیا اور یہی وہ بدبخت تھا اور یہی وہ بدبخت تھا جس نے غزوہ احد کے موقع پر رحمت دو عالم ﷺ کے داندان مبارک شہید کئے تھے۔ زمعہ حضرت سودہ کے باپ تھے اور عبد ان زمعہ کے بیٹے یعنی حضرت سودہ کے حقیقی بھائی تھے حضرت سودہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں۔ اب حدیث کی طرف آئیے کہ عتبہ نے زمعہ کی لونڈی سے زنا کیا جس کے نتیجہ میں لڑکا پیدا ہوا چونکہ زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ زانی کے دعوی پر ولد الزنا (حرامی بچہ) کا نسب اسی زنی سے ثابت ہوتا تھا اس لئے عتبہ نے اس قدیم دستور کے مطابق اس لڑکے کے بارے میں دعوی کیا کہ یہ میرا ہے اور اپنے بھائی حضرت سعد کو وصیت کی کہ تم اس لڑکے کو اپنی تحویل میں لے لینا اور اس کی پرورش کرنا چناچہ حضرت سعد نے فتح مکہ کے سال اپنے بھائی کی وصیت کے مطابق اس لڑکے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور یہ اعلان کیا کہ یہ میرا بھتیجا ہے ادھر زمعہ کے بیٹے عبد نے یہ دعوی کیا کہ یہ میرا بھائی ہے کیونکہ اس کو میرے باپ نے اپنی لونڈی سے جنوایا ہے غرضیکہ ان دونوں کے درمیان ایک تنازعہ کی صورت ہوگئی تو وہ دونوں اس معاملہ کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لے کر آئے آنحضرت ﷺ نے عبد بن زمعہ سے فرمایا کہ یہ تمہارا بھائی ہے کیونکہ بچہ صاحب فراش ہی سے ثابت ہوتا ہے اور زانی اس سے محروم رہتا ہے۔ (بچہ صاحب فراش کی طرف منسوب ہوتا ہے اور زانی کے لئے محرومی ہے) کی تفصیلی وضاحت باب الوصایا کی پہلی فصل میں حضرت ابوامامہ کی روایت کے ضمن میں کی جا چکی ہے۔ ام المؤمنین حضرت سودہ کو آنحضرت ﷺ کے اس حکم کہ تم اس لڑکے سے پردہ کیا کرو) کا مطلب یہ تھا کہ اگرچہ یہ لڑکا شرعی حکم کے مطابق تمہارا بھائی ہوا بایں طور کہ اس کا نسب تمہارے باپ زمعہ سے ثابت ہوگیا ہے اور یہ بھی اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ شرعی معاملات میں مشابہت اور قیافہ و قرائن کا اعتبار نہیں لیکن وہ لڑکا چونکہ عتبہ کے مشابہ ہے اور عتبہ کے دعوی کیوجہ سے اس کا عتبہ کے نطفہ سے ہونا ایک حد تک حقیقت کے مطابق بھی ہے اس لئے احتیاط وورع کا تقاضا یہی ہے کہ تم اس کے سامنے نہ آؤ۔ دوسری روایت کے آخری الفاظ (انہ ولد علی فراش ابیہ) ( اس لئے کہ وہ لڑکا ان کے باپ کے بستر پر پیدا ہوا تھا) دراصل حدیث کے راوی کا اپنا قول ہے یعنی راوی نے ان الفاظ کے ذریعہ یہ واضح کیا کہ آنحضرت ﷺ نے عبد بن زمعہ کے حق میں یہ حکم کہ وہ لڑکا تمہارا بھائی ہے اس لئے صادر فرمایا تھا کہ وہ ان کے باپ (زمعہ) کے بستر پر پیدا ہوا تھا) ان کے بستر پر پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ استقرار حمل اور بچہ کی ولادت کے زمانہ میں وہ لونڈی زمعہ کی ملکیت میں اور ان کے تصرف میں تھی نیز وہ لڑکا انہی کے گھر میں پیدا ہوا تھا۔

【39】

اثبات نسب میں قیافہ شناس کا قول معتبر ہے یا نہیں؟

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ بہت خوش میرے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ عائشہ ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ آج مجزر مدلجی مسجد نبوی میں آیا) اور جب اس نے اسامہ اور زید کو دیکھا جو اس طرح چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے اور ان کے سر چھپے ہوئے تھے اور پیر کھلے ہوئے تھے تو اس نے کہا کہ ان دونوں کے پیر ایک دوسرے کے مطابق ہیں یعنی یہ پیر جن دو آدمیوں کے ہیں وہ آپس میں باپ بیٹے ہیں ( بخاری و مسلم) تشریح حضرت زید بن حارثہ جو آنحضرت ﷺ کے متبنی (لے پالک) تھے بہت گورے اور خوبصورت تھے جب کہ ان کے صاحبزادے حضرت اسامہ کالے تھے اور اپنی ماں کے ہم رنگ تھے ان کی ماں جن کا نام ام ایمن تھا ایک لونڈی اور کالے رنگ کی تھیں باپ بیٹے رنگت کے اس فرق کی وجہ سے منافق حضرت اسامہ کے نسب میں عیب لگاتے تھے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ ایسے حسین اور خوبصورت باپ کا بیٹا اتنا کالا کیسے ہوسکتا ہے ؟ چناچہ آنحضرت ﷺ منافقوں کی اس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوتے تھے کہ اسی دوران میں یہ واقعہ پیش آیا۔ مجزر مدلجی عرب کا ایک مشہور قیافہ شناس اور اپنے فن میں یگانہ روزگار تھا وہ آدمی کی صورت دیکھ کر اس کے حالات و کوائف اور اوصاف و خصوصیات معلوم کرلیا کرتا تھا چناچہ مسجد نبوی میں آیا اور اس نے حضرت زید اور حضرت اسامہ کے پیر دیکھے تو اس نے علم قیافہ کی رو سے یہ فیصلہ کیا کہ یہ پیر جن دو آدمیوں کے ہیں ان دونوں کو آپس میں باپ بیٹا ہونا چاہئے۔ آنحضرت ﷺ اس بات سے بہت خوش ہوئے کیونکہ اہل عرب کے ہاں قیافہ شناس کا قول معتبر ہوتا تھا اور اس کے فیصلہ کو سند کا درجہ دیا جاتا تھا لہذا آنحضرت ﷺ کو یہ بھی اطمینان ہوگیا کہ اب جب کہ اسامہ کا نسب اس سند سے ثابت ہوگیا ہے تو منافقین بھی ان کے نسب کے بارے میں طعن کرنے کی ہمت نہیں کریں گے۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ اس حدیث سے لازم نہیں آتا کہ شرعی احکام اور اثبات نسب میں قیافہ شناس کا قول معتبر ہوتا ہے چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے البتہ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ قیافہ شناس کے قول کو معتبر مانتے ہیں یہاں تک کہ ان کے مسلک میں یہ مسئلہ ہے کہ اگر کوئی لونڈی دو آدمیوں کی مشترک ملکیت ہو اور اس کے بچہ پیدا ہو اور پھر وہ دونوں شریک اس بچہ کے نسب کا دعوی کریں یعنی ہر ایک یہ کہے کہ یہ میرا بچہ ہے تو اس صورت میں ان دونوں کو قیافہ شناس کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ اور وہ قیافہ شناس اپنے قیافہ کی بنیاد پر جو فیصلہ کرے اس کو قبول کرلینا چاہئے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس صورت میں وہ بچہ شرعی حکم کے اعتبار سے دونوں کا ہوگا اگرچہ واقعہ کے اعتبار سے وہ کسی ایک کا ہوگا اور وہ لونڈی دونوں کی ام ولد ہوگی۔

【40】

اپنے باپ کا انکار کرنیوالے کے بارے میں وعید

اور حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابوبکرہ دونوں راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے آپ کو اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے شخص کی طرف منسوب کرے اور وہ یہ جانتا بھی ہو کہ یہ میرا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے ( بخاری و مسلم) تشریح اس پر جنت حرام ہے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کی بجائے کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کرتا ہے اور وہ اس بات کو برا نہیں جانتا بلکہ اس کا اعتقاد ہے کہ اپنے نسب میں اس طرح خلط ملط کرنا حلال ہے تو ایک حرام چیز کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے وہ کفر کی حد میں پہنچ گیا اور جب وہ کفر کی حد میں پہنچ گیا اور اسی حال میں مرگیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس پر جنت کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند رہیں گے اور اگر وہ شخص کفریہ عقیدہ نہیں رکھتا ( یعنی باپ کی بجائے کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کرنے کو حلال نہیں جانتا بلکہ حرام ہی جانتا ہے تو اس صورت میں اس پر جنت حرام ہے کا مطلب یہ ہوگا کہ اس وقت اس پر جنت کے دروازے بند رہیں گے جب تک کہ وہ اپنے اس گناہ کی سزا نہ بھگت لے گا۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد کہ اس پر جنت حرام ہے زجر یعنی تنبیہ کے طور پر ہے جس کا مقصد لوگوں کو اس برائی سے روکنا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم غیر شخص سے اپنا نسب جوڑ کر اپنے باپ سے منہ نہ پھیرو کیونکہ جس شخص نے اپنے باپ سے منہ پھیرا یعنی اس سے اپنے نسب کا انکار کیا) تو اس نے درحقیقت کفران نعمت کیا (بخاری ومسلم) تشریح زمانہ جاہلیت میں یہ ایک عام برائی تھی کہ لوگ اپنے اصل باپ سے اپنے نسب کا انکار کر کے دوسروں کو اپنا باپ قرار دیتے تھے چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس برائی سے منع فرمایا۔ اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ جان بوجھ کر اصل باپ کی بجائے کسی غیر شخص سے اپنا نسب قائم کرنا حرام ہے اور اگر کسی شخص نے غیر شخص سے اپنا نسب قائم کرنے کو مباح جانا اور اس کا عقیدہ رکھا تو وہ کافر ہوجائے گا کیونکہ ایسی چیز کے حلال و مباح ہونے کا عقیدہ رکھنا جس کو پوری امت نے حرام قرار دیا ہے کفر ہے اس صورت میں حدیث کے الفاظ فقد کفر اپنے حقیقی معنی پر محمول ہوں گے اور اگر کرنیوالا مباح ہونے کا یقین نہیں رکھتا تو اس صورت میں کفر کے دو معنی ہوں گے ایک تو یہ کہ اس شخص نے کفار کے فعل کی مشابہت اختیار کی دوسرے یہ کہ اس نے کفران نعمت کیا ہے اور حضرت عائشہ کی حدیث ( ما من احد غیر من اللہ) باب صلوۃ الخسوف میں نقل کی جا چکی ہے۔

【41】

اپنے بچہ کا انکار کرنیوالا اللہ تعالیٰ کے دیدار سے محروم رہے گا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ انہوں نے لعان کی آیت نازل ہونے کے موقع پر رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو عورت کسی کو اس قوم میں داخل کرے جس میں سے وہ نہیں ہے (یعنی کسی عورت نے بدکاری کرائی اور پھر اس بدکاری کے نتیجہ میں بچہ کو جنم دیا اور اس بچہ کو اپنے خاوند کی طرف منسوب کردیا) تو وہ اللہ کے نزدیک کسی درجہ میں نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو اپنے مقرب اور نیک بندوں کے ساتھ ہرگز اپنی جنت میں داخل نہیں کرے گا اور جو شخص اپنے بچہ کا انکار کرے یعنی اس کی بیوی نے جس بچہ کو جنم دیا ہے اس کے بارے میں کہے کہ میرا نہیں ہے درآنحالیکہ وہ اس کی طرف دیکھتا ہے یعنی وہ جانتا ہے کہ بچہ میرا ہی ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے پردہ کرے گا یعنی اس کو اللہ کا دیدار نصیب نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس کو تمام اگلے و پچھلے لوگوں میں رسوا کرے گا یعنی جب میدان حشر میں تمام اگلی پچھلی مخلوق جمع ہوگی تو ان کے درمیان اس کو ذلیل و رسوا کرے گا ( ابوداؤد نسائی درامی) تشریح حدیث کا حاصل یہ ہے کہ نہ تو عورت کو چاہئے کہ وہ بدکاری کرائے اور اپنے حرامی بچہ کو اپنے خاوند کی طرف منسوب کرے اور نہ مرد کو چاہئے کہ دیدہ دانستہ اپنے بچہ کا انکار کرے اور اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے۔

【42】

بد کار بیوی کو طلاق دے دینا اولیٰ ہے

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ میری بیوی کسی چھونے والے ہاتھ کو جھٹکتی نہیں (یعنی جو بھی شخص اس سے بدکاری کا ارادہ کرتا ہے اس کو وہ انکار نہیں کرتی) نبی کریم ﷺ نے فرمایا اسے طلاق دیدو اس نے عرض کیا یہ ممکن نہیں کیونکہ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر اس کی نگہبانی کرو تاکہ وہ بدکاری میں مبتلا نہ ہو سکے) ابوداؤد نسائی اور نسائی نے کہا ہے کہ اس روایت کے راویوں میں سے ایک راوی نے تو اس کو حضرت ابن عباس تک پہنچایا ہے اور وصل کیا ہے اور ایک راوی نے اس کو ابن عباس تک نہیں پہنچایا ہے اور وصل نہیں کیا ہے نیز نسائی نے کہا ہے کہ یہ حدیث ثابت نہیں ہے ( یعنی یہ حدیث متصل نہیں ہے بلکہ منقطع ہے) تشریح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بدکار بیوی کو طلاق دیدینا اولی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے طلاق دینے کا حکم پہلے دیا اور نگہبانی کرنے کا حکم بعد میں دیا ہاں اگر کسی وجہ سے طلاق دینا آسان نہ ہو مثلا اس سے اتنی زیادہ محبت ہو کہ اس کو اپنے سے جدا کرنا ناممکن ہو یا اس کے بطن سے کوئی بچہ ہو جو ماں کی جدائی کو برداشت نہ کرسکتا ہو اور یا اس بیوی کا اپنے اوپر کوئی ایسا قرض و مطالبہ مثلا مہر واجب ہو کہ جس کو ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو ایسی صورتوں میں جائز ہے کہ اس کو طلاق نہ دے لیکن یہ شرط ہے کہ وہ اس کو بدکاری سے روکے اور اگر وہ اس کو بدکاری سے نہ روک سکا تو پھر طلاق نہ دینے کی صورت میں گنہگار ہوگا۔

【43】

اثبات نسب کے سلسلہ میں ایک واضح ہدایت وضابطہ

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے یہ حکم دینے کا فیصلہ کیا کہ جس لڑکے کا نسب اس کے اس باپ کے مرنے کے بعد کہ جس کی طرف نسبت کی گئی ہے ملایا گیا ہے اور اس کا دعوی اس باپ کے وارثوں نے کیا ہے (یعنی مثلا زید کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں نے ایک لڑکے بکر کے بارے میں کہا کہ یہ زید کا بیٹا ہے لہذا یہ بھی ہماری طرح زید کا وارث ہے تو اس کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے حکم صادر فرمایا کہ اگر وہ لڑکا جس کا نسب ملایا گیا ہے ایسی لونڈی کے بطن سے ہو جو صحبت کے دن اس کے باپ کی ملکیت میں تھی (یعنی اس لونڈی سے اس کے باپ کا جائز طریقہ پر جماع ہوا ہو) تو وہ اس شخص کے ساتھ نسب میں مل جائے گا جس نے اس کو ملایا ہے (یعنی جو وارث اس کو ملائیں گے وہ ان وارثوں میں مل جائے گا اور ان کے ساتھ میراث کا حقدار ہوگا بایں طور کہ اگر اس کو سبھی وارث ملائیں گے تو سب کے حق میں وارث ہوگا اور اگر بعض وارثوں نے ملایا ہوگا تو انہی بعض کے حق میں وارث ہوگا اور جو میراث اس کو ملنے سے پہلے تقسیم ہوچکی ہوگی اس میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا ہاں جو میراث ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی اس میں سے اس کو حصہ ملے گا اور وہ لڑکا ایسا ہو کہ اس کی نسبت جس باپ کی طرف جاتی ہے اس نے اس کا انکار کردیا تھا (یعنی اس باپ نے اپنی زندگی میں اس کے اپنا بیٹا ہونے کا انکار کردیا تھا) تو وہ لڑکا اس کے مرنے کے بعد وارثوں کے ملانے سے نہیں ملے گا اور اس باپ کا وارث نہیں ہوگا اسی طرح اگر وہ لڑکا کسی ایسی لونڈی کے بطن سے ہو جو صحبت کے دن اس باپ کی ملکیت میں نہ رہی ہو (یعنی اس نے کسی دوسرے شخص کی لونڈی سے زنا کیا تھا اور اس زنا کے نتیجہ میں یہ لڑکا پیدا ہوا تھا) یا کسی ایسی آزاد عورت کے بطن سے ہو جس سے اس باپ نے زنا کیا تھا تو وہ لڑکا اس باپ کے وارثوں میں شامل نہیں ہوگا اور نہ اسے میراث ملے گی اگرچہ خود اس شخص یعنی باپ نے کہ جس کی طرف اس لڑکے کی نسبت کی جاتی ہے اس کا دعوی کیا ہو (یہ جملہ گویا پہلے حکم کی تاکید کے طور پر ہے کہ وہ لڑکا ولد الزنا ہو تو اس کو اس باپ یعنی زانی کے وارثوں میں کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اگر خود وہ زانی اپنی زندگی میں اس کے نسب کا دعوی کرتا ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے تب بھی اس کے ساتھ اس لڑکے کا نسب نہ ملتا چہ جائیکہ اس کے مرنے کے بعد اس کے وارث اس لڑکے کو اپنے میں شامل کریں لہذا وہ لڑکا حرام ہے خواہ وہ لونڈی کے بطن سے ہو یا آزاد عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو ( ابوداؤد) تشریح خطابی کہتے ہیں کہ یہ وہ احکام ہیں جو شروع زمانہ اسلام میں آنحضرت ﷺ نے نافذ فرمائے تھے اس زمانہ میں لوگوں کی بدکار لونڈیاں تھیں جو زنا کراتی پھرتی تھیں اور ان کے مالک بھی ان سے صحبت کرتے تھے اور پھر جب ان کے کوئی بچہ ہوتا تو اس کا دعوی مالک بھی کرتا اور زانی بھی اس قسم کے تنازعہ کو شرعی طور پر ختم کرنے کے لئے آپ ﷺ نے مذکورہ بالا حکم صادر فرمائے، چناچہ اس بارے میں آپ ﷺ نے جو شرعی ضابطہ مقرر فرمایا اور جس کا ذکر اس حدیث میں کیا گیا ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ مثلا ایک شخص زید کا انتقال ہوگیا اس کے بعد زید کے وارثوں کا یہ دعوی تسلیم کرلیا جائے گا اور اس لڑکے کا نسب زید سے قائم کر کے اس کی میراث کا حصہ دار قرار دے دیا جائے گا لیکن یہ اسی صورت میں ہوگا جب کہ وہ لڑکا کسی ایسی لونڈی کے بطن سے ہو جو زید کی ملکیت میں رہی ہو اور زید کا اس کے ساتھ جائز طور پر جماع ہوا ہو یا وہ کسی آزاد عورت کے بطن سے ہو جو زید کے نکاح میں رہی ہو اور خود زید نے بھی اپنی زندگی میں یہ اقرار و اعلان کیا ہو کہ یہ میرا لڑکا ہے۔ پھر جیسا کہ حدیث میں وضاحت ہے یہ لڑکا انہی وارثوں کے حق میں حصہ دار ہوگا جنہوں نے مذکورہ بالا دعوی کیا ہو اگر سب ہی وارثوں نے یہ دعوی کیا ہوگا تو وہ لڑکا سب وارثوں کے حق میں حصہ دار ہوگا اور اگر بعض وارثوں نے دعوی کیا ہوگا تو صرف انہی بعض وارثوں کے حق میں حصہ دار ہوگا۔ نیز یہ لڑکا صرف اس میراث میں حصہ دار ہوگا جو ابھی تقسیم نہیں ہوئی ہے جو میراث اس دعوی سے پہلے تقسیم ہوچکی ہوگی اس میں اسے کوئی حصہ نہیں ملے گا اور اگر یہ صورت ہو کہ زید نے اپنی زندگی میں اس لڑکے کے نسب کا انکار کردیا یعنی یہ کہا تھا کہ یہ لڑکا میرا نہیں ہے تو پھر اس کے مرنے کے بعد اگر اس کے وارث اس لڑکے کو اپنے میں شامل کرنا چاہیں تو وہ شامل نہیں ہو سکے گا اور نہ اس کو زید کی میراث میں سے کوئی حصہ ملے گا۔ اگر اسی طرح وہ لڑکا کسی ایسی لونڈی کے بطن سے ہو جو زید کی ملکیت میں نہیں تھی جیسا کہ حضرت عائشہ کی روایت میں زمعہ کے بیٹے کے بارے میں گزر چکا ہے یا کسی ایسی آزاد عورت کے بطن سے جو زید کے نکاح میں نہیں تھی یعنی وہ لڑکا زید کے زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوا تو اس صورت میں بھی وہ زید کے وارثوں میں شامل نہیں ہو سکے گا اور نہ اس کو زید کی میراث میں سے کچھ ملے گا بلکہ اگر زید اپنی زندگی میں خود بھی یہ چاہے کہ اس کے ساتھ اپنا نسب جوڑ کر اس کو اپنے وارثوں میں شامل کر دے تو بھی وہ شامل نہیں کیا جائے گا کیونکہ ولد الزنا کا نسب زانی سے قائم نہیں ہوتا اور نہ وہ زانی کا وارث نہیں ہوتا ہے۔

【44】

غیرت بعض صورتوں میں پسندیدہ اور بعض صورتوں میں ناپسندیدہ ہے

اور حضرت جابر ابن عتیک کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنی بیوی اور لونڈی کے بارے میں) بعض غیرت کو تو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے اور بعض غیرت کو ناپسند کرتا ہے چناچہ جس غیرت کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے وہ شک و شبہ کی جگہ پیدا ہونے والی غیرت ہے ( مثلا بیوی یا لونڈی غیر مردوں کے سامنے آتی ہے یا غیر مرد اس کے پاس آتے ہیں اور وہ ان سے ہنسی مزاق کرتی ہے تو اس موقع پر خاوند جو غیرت محسوس کرتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور جس غیرت کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے وہ غیرت ہے جو کسی شک و شبہ کی وجہ کے بغیر پیدا ہوئی ہو (مثلا کسی قرینہ وسبب کے بغیر خاوند کے دل میں بیوی کے کردار کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوجائے اور پھر اس پر غیرت محسوس کرے) اسی طرح بعض تکبر کو تو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور بعض کو ناپسند فرماتا ہے چناچہ جس تکبر کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے وہ لڑائی کے وقت آدمی کا تکبر کرنا ہے ( یعنی جہاد میں جب کفار سے مقابلہ ہو تو اپنی قوت و برتری اور کفار کی حقارت و کمتری کے اظہار کے لئے خوب اکڑے اور اپنی بڑائی و شجاعت کو بڑے فخر و غرور کے ساتھ بیان کرے) اور وہ تکبر بھی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے جو اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کے سلسلہ میں ہو (یعنی جب صدقہ و خیرات دے تو خوشدلی اور بےپروائی کے ساتھ دے اور زیادہ سے زیادہ دینے کو بھی تھوڑا جانے) اور جس تکبر کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند کرتا ہے وہ اپنے نسب پر فخر کا تکبر ہے اور ایک روایت میں فی الفخر کی بجائے فی البغی ہے یعنی جس تکبر کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے وہ ظلم کا تکبر ہے یعنی وہ تکبر جو بلا کسی حق استحقاق کیا جائے جس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں) (احمد ابوداؤد نسائی) تشریح اپنے نسب پر فخر کا تکبر یہ ہے کہ جو شخص اعلی حسب و نسب اور اچھے خاندان کا ہو وہ یہ کہتا پھرے کہ مجھے نسب میں برتری اور امتیاز حاصل ہے اور میرے باپ دادا اعلی نسل و خاندان کے افراد ہونے کی وجہ سے بزرگ و افضل ہیں یہ ایسا تکبر ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تو برتری و فوقیت اور بزرگی و فضیلت اسی شخص کو حاصل ہے جو دین کے اعتبار سے سب میں ممتاز ہو چناچہ ارشاد ربانی ہے ا یت (ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم) اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے زیادہ بزرگ وبلند مرتبہ وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے مشکوۃ کے ایک نسخہ میں اس روایت میں فی الفخر کی بجائے فی الفقر ہے یعنی جس تکبر کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے وہ فقر کا تکبر ہے مطلب یہ کہ اللہ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ کوئی شخص حالت فقر میں اپنی قناعت اور اپنے صبر و توکل پر تکبر کرے چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ یہ تکبر اس تکبر سے بدتر ہے جو اپنے غنا اور اپنی ثروت پر کیا جاتا ہے لیکن فقر کا تکبر اس صورت میں برا اور اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے جب کہ وہ فقراء کے مقابلہ پر کیا جائے ہاں اگر وہ تکبر امراء و اغنیاء کے مقابلہ پر ہو تو اچھا اور پسندیدہ ہے کیونکہ ایسے تکبر کو تو صدقہ کہا گیا ہے

【45】

ولد الزنا کا نسب زانی سے ثابت نہیں ہوتا

حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد حضرت شعیب سے اور حضرت شعیب اپنے دادا حضرت عبداللہ ابن عمرو) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص مجلس نبوی میں کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! فلاں میرا لڑکا ہے میں نے زمانہ جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا رسول کریم ﷺ نے فرمایا زمانہ جاہلیت کی گئی گزری بات زمانہ اسلام میں دعوی نہیں ہوسکتا ( یعنی یہ بات زمانہ جاہلیت ہی کے ساتھ مخصوص تھی اور جو بچہ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوا کرتا تھا اس کا نسب زانی اپنے ساتھ جوڑ لیتا تھا اب زمانہ اسلام میں یہ بات درست نہیں بچہ صاحب فراش کا ہے اور زانی کے لئے پتھر یعنی محرومی ہے یا سنگساری (ابوداؤد) تشریح صاحب فراش سے وہ شخص مراد ہے جو ولد الزنا کی ماں کا خاوند یا مالک ہو مطلب یہ ہے کہ جو عورت کسی کے نکاح میں ہو یا لونڈی ہونے کی صورت میں کسی کی ملک میں ہو تو اس کے زنا کے نتیجے میں جو بچہ پیدا ہوگا اس کا نسب اس کے خاوند یا مالک سے ثابت ہوگا اور اگر وہ عورت کسی کے نکاح یا کسی کی ملک میں نہ ہو تو پھر بچہ ماں ہی کی طرف منسوب ہوگا بہرصورت زانی کا اس بچہ سے کوئی نسبی تعلق نہیں ہوگا۔

【46】

وہ چار عورتیں جن سے لعان نہیں ہوتا

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا چار طرح کی عورتیں ہیں کہ ان کے اور ان کے شوہروں کے درمیان لعان نہیں ہوتا ایک تو وہ نصرانیہ عورت یعنی عیسائی عورت جو کسی مسلمان کے نکاح میں ہو اور دوسری یہودیہ یعنی یہودی عورت جو کسی مسلمان کے نکاح میں ہو اور تیسری وہ آزاد عورت جو کسی غلام کے نکاح میں ہو اور چوتھی وہ لونڈی جو کسی آزاد کے نکاح میں ہو (ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عیسائی یا یہودی عورت کسی مسلمان کی نکاح میں ہو اور اس کا خاوند اس پر زنا کی تہمت لگائے اور وہ اس کی تردید کرے تو اس صورت میں ان دونوں کے درمیان لعان نہیں کرایا جائے گا اسی طرح اگر کوئی آزاد عورت کسی غلام کے نکاح میں ہو یا کوئی لونڈی کسی آزاد کے نکاح میں ہو تو اس کے درمیان بھی لعان نہیں ہوگا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لعان دراصل شہادت و گواہی ہے اس لئے لعان کی صورت میں مرد و عورت دونوں کا اہل شہادت کہ جن کی شہادت شرعی طور پر معتبر ہوتی ہے ہونا ضروری ہے جب کہ مملوک یعنی غلام و لونڈی اور کافر اہل شہادت نہیں ہیں یعنی کسی معاملہ میں ان کی شہادت و گواہی شرعی طور پر معتبر نہیں ہے لہذا ان کے درمیان لعان کی کوئی صورت نہیں۔

【47】

آنحضرت ﷺ حتی الامکان لعان سے باز رکھنا چاہتے تھے

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب نبی کریم ﷺ کے حکم پر دو لعان کرنے والے یعنی میاں بیوی لعان کر رہے تھے تو آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ پانچویں گواہی کے وقت لعان کرنیوالے کے منہ پر ہاتھ رکھ دے اور فرمایا کہ پانچویں گواہی واجب کرنیوالی ہے (نسائی) تشریح کسی خاوند نے اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائی ہوگی اور بیوی نے اس کی تردید کی ہوگی اور صورت حال کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے لعان کا ارادہ کیا ہوگا چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کو لعان کا حکم دیا اور اسی وقت ایک دوسرے شخص کو یہ حکم فرمایا کہ جب پانچویں گواہی کی باری آئے تو لعان کرنیوالے کے منہ پر ہاتھ رکھ دینا تاکہ وہ پانچویں گواہی دے کر لعان کو پورا نہ کرے۔ اس حکم کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ جب اس کے منہ پر ہاتھ رکھا جائے گا تو اسے تنبہ اور اسح اس ہوگا اور جو سچ بات ہوگی اس کا اقرار کر کے پانچویں گواہی سے باز رہے گا اور جب پانچویں گواہی پوری نہیں ہوگی تو لعان واقع نہیں ہوگا یہ گویا اس بات کی علامت ہے کہ آنحضرت ﷺ حتی الامکان لعان سے روکنے کی کوشش کرتے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ جو سچ بات ہو میاں بیوی اس کا اقرار کریں اور اس دنیا کے آسان عذاب یعنی زنا یا تہمت کی حد) کو اختیار کر کے آخرت کے سخت ترین عذاب سے محفوظ رہے۔

【48】

شیطان، میاں بیوی کو ایک دوسرے سے بدظن کرنے کی کوشش کرتا ہے

اور حضرت عائشہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ شعبان کی پندرہویں رات کو نبی کریم ﷺ ان کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے تو حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ مجھے آپ ﷺ پر بڑی غیرت آئی پھر جب آنحضرت ﷺ واپس تشریف لائے اور میں جس کیفیت میں مبتلا تھی اس کو دیکھا تو فرمایا کہ عائشہ ! تمہیں کیا ہوا ؟ کیا تم مجھ پر غیرت کرتی ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ بھلا میری جیسی عورت کو آپ ﷺ جیسے مرد پر غیرت کیوں نہ آئے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا دراصل تمہارے پاس تمہارا شیطان آگیا ہے یعنی شیطان نے تمہیں شک وشبہ میں مبتلا کردیا میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا میرے ساتھ شیطان ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ ﷺ کے ساتھ بھی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر حاوی کردیا ہے یہاں تک کہ میں اس وسوسہ سے سالم محفوظ رہتا ہوں حتی اسلم کا ترجمہ یہ ہے کہ یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوگیا ہے یعنی میرا تابع ہوگیا ہے ( مسلم) تشریح ایک مرتبہ شعبان کی پندرہویں شب میں آنحضرت ﷺ چپکے سے حضرت عائشہ کے پاس سے اٹھ کر جنت البقیع تشریف لے گئے تاکہ وہاں مردوں کے لئے ایصال ثواب اور دعا و مغفرت کریں لیکن حضرت عائشہ یہ سمجھیں کہ آپ ﷺ میرے پاس سے اٹھ کر اپنی کسی اور بیوی کے ہاں چلے گئے ہیں، یہ گویا شیطان کا فریب تھا جس نے انہیں اس شک میں مبتلا کردیا اس کی وجہ سے ان کو بڑی غیرت آئی ان کی قلبی کیفیت متغیر ہوگئی چناچہ وہ بھی گھبرا کر اٹھیں اور آنحضرت ﷺ کے پیچھے پیچھے چل پڑیں پھر انہوں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کی منزل کسی دوسری بیوی کا مکان نہیں ہے بلکہ جنت البقیع مدینہ کا قبرستان ہے) جہاں آپ ﷺ اس دنیا سے چلے جانیوالے مسلمانوں کے لئے دعاء مغفرت میں مشغول ہیں یقینی بات ہے کہ جس شک وشبہ نے حضرت عائشہ کو اتنا اکسایا اور گھبراہٹ میں مبتلا کیا کہ وہ آنحضرت ﷺ کے واپس پہنچنے سے پہلے ہی گھر میں پہنچ جانا چاہتی ہوں گی چناچہ وہ وہاں سے بھاگی دوڑتی گھر کی طرف چلیں جب گھر میں داخل ہوئی تو کچھ دوڑنے کی وجہ سے اور کچھ ندامت کے سبب سینہ دھونکنی بن گیا اور دم پھولنے لگا ان کے بعد ہی آنحضرت ﷺ گھر میں آئے اور حضرت عائشہ کی یہ کیفیت دیکھی کہ دم چڑھ رہا ہے اور گھبراہٹ طاری ہے تو فرمایا آخر اتنی گھبراہٹ تم پر کیوں طاری ہوگی کیا تم نے محض اس وجہ سے غیرت محسوس کی کہ میں اس طرح کیوں چلا گیا اس کے جواب میں حضرت عائشہ نے جو کچھ کہا وہ دراصل عورت کے جذبات فطرت کی بڑی حسین اور دلچسپ ترجمانی تھی انہوں نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ مجھ جیسی عورت آپ ﷺ جیسے مرد پر غیرت نہ کرے ؟ یعنی اگرچہ مجھے آپ ﷺ کی بےپناہ محبت حاصل ہے لیکن میری سوکنیں بھی کئی ہیں اور پھر آپ ﷺ تمام ظاہری و باطنی جمال و کمال سے متصف ہیں ایسی صورت میں کیوں کر رشک و غیرت میں مبتلا نہ ہوں۔