102. عدت کا بیان

【1】

عدت کا بیان

عدت کے معنی لغت میں عدت کے معنی ہیں شمار کرنا اور اصطلاح شریعت میں عدت اسے کہتے ہیں کہ جب کسی عورت کو اس کا خاوند طلاق دیدے یا خلع و ایلاء وغیرہ کے ذریعہ نکاح یا نکاح جیسی چیز مثلا نکاح فاسد ٹوٹ جائے بشرطیکہ اس نکاح میں جماع یا خلوت صحیحہ ہوچکی ہو یا شوہر مرجائے تو وہ مقررہ مدت کہ جس کی تفصیل آگے آئے گی) گھر میں رکی رہے جب تک وہ مدت ختم نہ ہوجائے تب تک نہ کہیں جائے اور نہ کسی دوسرے مرد سے ملاقات کرے جب مدت پوری ہوجائے تو جہاں چاہے جائے اور جس طرح چاہے نکاح کرے۔ عدت کی مدت جس آزاد عورت کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی ہو یا نکاح فسخ ہوگیا ہو اور اس کو حیض آتا ہو تو اس کی عدت کی مدت تین حیض ہے یعنی وہ تین حیض آنے تک شوہر ہی کے گھر میں جہاں طلاق ملی ہو بیٹھی رہے اس گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ کسی سے نکاح کرے اسی طرح جس عورت کے ساتھ شبہ میں جماع ہوگیا ہو اس کی عدت کی مدت بھی تین حیض ہے یعنی کسی مرد نے کسی غیر عورت کو اپنی بیوی سمجھ کر دھوکہ سے صحبت کرلی تو اس عورت کو بھی تین حیض آنے تک عدت میں بیٹھنا ہوگا جب تک عدت ختم نہ ہوجائے تب تک وہ اپنے شوہر کو جماع نہ کرنے دے جس عورت کے ساتھ بےقاعدہ یعنی فاسد نکاح ختم ہوا ہو جیسے موقت نکاح اور پھر تفریق کرا دی گئی یا تفریق کرانے سے پہلے ہی خاوند مرگیا ہو تو اس عدت کی مدت بھی تین حیض ہے۔ ام ولد جب کہ آزاد کردی جائے یا اس کا مولیٰ مرجائے تو اس کی عدت بھی تین حیض ہیں۔ اگر کسی عورت کو کم سن ہونے کیوجہ سے یا بانجھ ہونے کی وجہ سے اور یا بڑھاپے کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت تین مہینہ ہے۔ جس آزاد عورت کا خاوند مرگیا اور اس کی عدت چار مہینہ دس دن ہے خواہ اس عورت سے جماع کیا گیا ہو یا جماع نہ کیا گیا ہو خواہ وہ مسلمان عورت ہو یا مسلمان مرد کے نکاح میں یہودیہ اور نصرانیہ ہو خواہ وہ بالغہ ہو یا نابالغہ اور یا آئسہ ہو خواہ اس کا شوہر آزاد ہو یا غلام ہو اور خواہ اس کی مدت میں اس کو حیض آئے یا نہ آئے۔ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے خواہ اس عورت کو اس کے خاوند نے طلاق دی ہو یا اس کا خاوند مرگیا ہو اور خواہ وہ عورت آزاد ہو یا لونڈی ولادت ہوتے ہی اس کی عدت پوری ہو جائیگی اگرچہ خاوند کے طلاق دینے یا خاوند کے مرنے کے کچھ ہی دیر بعد ولادت ہوجائے یہاں تک کہ کتاب مبسوط میں لکھا ہے کہ اگر حاملہ عورت کا شوہر مرگیا ہو اور وہ ابھی تختہ پر نہلایا جا رہا تھا یا کفنایا جا رہا تھا کہ اس عورت کے ولادت ہوگئی تو اس صورت میں بھی اس کی عدت پوری ہو جائیگی۔ جو عورت آزاد ہو یعنی کسی کی لونڈی ہو اور اس کا خاوند اس کو طلاق دے دے تو اس کی عدت دو حیض ہے بشرطیکہ اس کو حیض آتا ہو اور اگر اس کو حیض نہ آتا ہو تو پھر اس کی عدت ڈیڑھ مہینہ ہوگی اور اگر اس کا خاوند مرجائے تو تو اس کی عدت دو مہینے پانچ دن ہوگی خواہ اس کو حیض آتا ہو یا نہ آتا ہو۔ عدت کی ابتداء کا وقت طلاق کی صورت میں عدت کی ابتداء طلاق کے بعد سے ہوگی یعنی طلاق کے بعد جو تین حیض آئیں گے ان کا شمار ہوگا اگر کسی نے حیض کی حالت میں طلاق دی ہوگی تو اس حیض کا شمار نہ ہوگا بلکہ اس کے بعد کے تین حیض کا اعتبار کیا جائے گا اور وفات میں عدت کا شمار شوہر کی وفات کے بعد سے ہوگا اگر عورت کو طلاق یا وفات کی خبر نہیں ہوئی یہاں تک کہ عدت کی مدت گزر گئی تو اس کی عدت پوری ہوگی عدت کے مسائل کی باقی تفصیل فقہ کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔

【2】

عدت کے دنوں میں شوہر پر نفقہ اور سکنی واجب ہے یا نہیں

ابوسلمہ فاطمہ بن قیس سے نقل کرتے ہیں کہ ابوعمرو بن حفص نے فاطمہ بن قیس کو جو ان کی بیوی تھیں تین طلاقیں دیں جب کہ وہ خود موجود نہیں تھے یعنی عمرو کہیں باہر تھے وہیں سے انہوں نے کسی کی زبانی کہلا کر بھیجا کہ میں نے طلاق دی پھر ابوعمرو کے وکیل کارندے نے بطور نفقہ فاطمہ کے پاس کچھ جو بھیجے فاطمہ کے خیال میں جو کی وہ مقدار بہت کم تھی اس لئے وہ اس پر ناراض ہوئیں وکیل نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم پر تمہارا کوئی حق نہیں ہے (کیونکہ تمہیں تین طلاقیں مل چکی اس کے نفقہ کا کوئی حکم نہیں ہے اس وقت تمہیں جو کی جو بھی مقدار دی گئی ہے وہ محض احسان و سلوک کے طور پر ہے فاطمہ یہ سن کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ ﷺ سے یہ واقعہ بیان کیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا نفقہ ابوعمر پر واجب نہیں ہے پھر آپ ﷺ نے فاطمہ کو یہ حکم دیا کہ وہ ام شریک کے گھر عدت میں بیٹھ جائیں لیکن پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ام شریک کے گھر میں میرے صحابہ جو ام شریک کے عزیز واقا رب اور آل اولاد ہیں آتے جاتے ہیں اس لئے ان کے گھر میں تمہارا بیٹھنا مناسب نہیں ہوگا البتہ تم ابن ام مکتوم کے ہاں عدت کے دن گزار لو کیونکہ وہ اندھے ہیں وہاں تم اپنے کپڑے رکھ سکتی ہو اور جب تم حلال ہوجاؤ یعنی تمہاری عدت کے دن پورے ہوجائیں تو مجھے اطلاع کردینا تاکہ میں تمہارے دوسرے نکاح کی فکر کروں فاطمہ کہتی ہیں کہ پھر جب میں حلال ہوگی تو میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ معاویہ ابن ابی سفیان اور ابوجہم نے میرے پاس نکاح کا پیغام بھیجا ہے (آپ ﷺ کی کیا رائے ہے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا ابوجہم کی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنی لاٹھی اپنے کاندھے سے کبھی رکھتے ہیں نہیں اور معاویہ غریب آدمی ہیں جن کے پاس مال و اسباب نہیں ہے لہذا میری رائے میں تو مناسب یہ ہے کہ تم اسامہ ابن زید سے نکاح کرلو چناچہ میں نے اسامہ سے نکاح کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے اس نکاح اور اسامہ کی رفاقت میں خیر و برکت عطاء فرمائی اور مجھ پر رشک کیا جانے لگا ( یعنی ہم دونوں کی رفاقت اتنی راس آئی اور ہم میں اتنی الفت و محبت پیدا ہوئی کہ جو بھی دیکھتا مجھ پر رشک کرتا) اور ایک روایت میں یوں ہے کہ فاطمہ کے الفاظ یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ابوجہم ایک ایسا مرد ہے جو عورتوں کو بہت مارتا ہے (مسلم) اور مسلم ہی کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ فاطمہ کے شوہر نے ان کو تین طلاقیں دی تھیں چناچہ جب وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا نفقہ تمہارے شوہر کے ذمہ نہیں ہے ہاں اگر تم حاملہ ہوتیں تو اس پر تمہارا نفقہ واجب ہوتا) تشریح وہاں تم اپنے کپڑے رکھ سکتی ہو کا مطلب یہ ہے کہ ابن ام مکتوم چونکہ نابینا ہیں اس لئے تمہیں وہاں پردے کی احتیاط کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور اگر یہ ترجمہ کیا جائے کہ وہاں تم اپنے کپڑے رکھ دو تو پھر مطلب یہ ہوگا کہ وہاں تم جب تک عدت میں رہو زینت و آرائش کے کپڑے نہ پہننا یا پھر اس جمہ کے ذریعہ کنایۃً یہ اظہار مقصود تھا کہ ایام عدت میں گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ عورت کو اجنبی مرد کی طرف دیکھنا جائز ہے بشرطیکہ وہ اجنبی مرد اس کو نہ دیکھے لیکن یہ استدلال کمزور و ضعیف ہے اور صحیح وہی بات ہے جو اکثر علماء کا قول ہے کہ جس طرح اجنبی مرد کو اجنبی عورت دیکھنا حرام ہے اسی طرح اجنبی عورت کو بھی اجنبی مرد کی طرف دیکھنا حرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں کے حق میں یہ حکم دیا ہے کہ ا یت (قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ ) 24 ۔ النور 30) اے محمد آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں (آخر آیت تک) اسی طرح عورتوں کے حق میں بھی یہ حکم دیا گیا ہے ا یت (وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ ) 24 ۔ النور 31) اور مسلمان عورتوں سے بھی یہی کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں (آخر آیت تک) نیز اس سلسلہ میں حضرت ابن ام مکتوم سے متعلق ام المؤمنین حضرت ام سلمہ کی وہ روایت بھی ایک بڑی واضح دلیل ہے جس میں حضرت ام سلمہ نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ وہ اور حضرت میمونہ آنحضرت کے پاس تھیں کہ اچانک حضرت ابن ام مکتوم آگئے تو آنحضرت ﷺ نے ان دونوں سے فرمایا کہ پردہ کرلو حضرت ام سلمہ نے عرض کیا کہ یہ تو نابینا ہیں یہ ہمیں کہاں دیکھ رہے ؟ کہ ہم ان سے پردہ کریں اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا حدیث (افعمیا وان انتما الستما تبصرانہ) کیا تم دونوں بھی اندھی ہو کیا تم ان کو نہیں دیکھ رہی ہو پھر حضرت فاطمہ کی اس روایت سے یہ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابن ام مکتوم کو دیکھنا حضرت فاطمہ کے لئے جائز قرار دیا تھا بلکہ دراصل آنحضرت ﷺ کا مقصد تو صرف یہ ظاہر کرنا تھا کہ تم ابن ام مکتوم کے ہاں امن و حفاظت کے ساتھ رہو گی کیونکہ ان کے ہاں تمہیں کوئی دیکھے گا نہیں اور جہاں تک حضرت فاطمہ کا سوال ہے تو انہیں خود ہی کتاب اللہ کا یہ حکم معلوم تھا کہ اجنبی مرد کو دیکھنا ممنوع ہے اس لء ان سے یہ کیونکہ ممکن تھا کہ وہ حضرت ابن ام مکتوم کو دیکھتی ہوں گی ؟ بہرکیف حضرت فاطمہ کی اس روایت سے بعض علماء نے عورت کو اجنبی مرد کے دیکھنے کا جو جواز ثابت کیا ہے اس کے متعلق اکثر جمہور علماء کی طرف سے یہ جواب دیا جاتا ہے۔ اب رہی بات حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے فقہی مسلک کی تو یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ ان کے نزدیک اجنبی مرد کو اس کے زیر ناف سے زیر زانو تک کے حصہ کے علاوہ دیکھنا عورت کے لئے جائز ہے بشرطیکہ وہ جنسی ترغیب شہوت سے محفوظ و مامون ہو اگر جنسی ترغیب سے مامون نہ ہو تو پھر اجنبی مرد کے پورے جسم کو دیکھنا اس کے لئے حرام ہوگا۔ ابوجہم اپنی لاٹھی اپنے کندھے سے رکھتے ہی نہیں اس سے ابوجہم کی تند خوئی اور درست مزاجی کی طرف اشارہ مقصود تھا کہ ابوجہم بہت سخت گیر اور تند خو ہیں۔ وہ عورتوں کو مارتے ہیں ان سے تمہارا نباہ مشکل ہوگا اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو مرد یا عورت کا کوئی عیب معلوم ہو تو منگنی کے وقت اس کا اظہار کردینا جائز ہے تاکہ شادی کے بعد وہ دونوں ہی کسی تکلیف اور پریشانی میں مبتلا نہ ہوں۔ فاطمہ نے حضرت اسامہ کے انتخاب کو اس لئے ناپسند کیا کہ وہ اول تو آنحضرت ﷺ کے غلام بیٹے تھے، دوسرا ان کا رنگ سیاہ تھا جبکہ حضرت فاطمہ قریشی تھیں اور خوبصورت بھی تھیں لیکن حضرت اسامہ چونکہ آنحضرت ﷺ کو بہت محبوب تھے اور انہیں آنحضرت ﷺ کی بارگاہ میں ایک مخصوص فضیلت اور تقرب حاصل تھا اس لئے آپ ﷺ نے دوبارہ ان کی سفارش کی جس کے بعد فاطمہ نے بھی انکار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور حکم نبوی کے مطابق حضرت اسامہ سے نکاح کرلیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نکاح میں خیر و برکت عطا فرمائی اور ان کو اسامہ کی زوجیت ورفاقت میں چین و آرام نصیب ہوا۔ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ جس عورت کو طلاق بائن دی گئی ہو اور وہ حاملہ نہ ہو تو عدت پوری ہونے تک اس کا نفقہ (کھانے پینے اور کپڑے کا خرچ اور سکنی (رہنے کی جگہ) شوہر کے ذمہ ہے یا نہیں ؟ چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض علماء کے نزدیک شوہر پر اس عورت کا نفقہ اور سکنی واجب ہے سکنی تو آیت سے ثابت ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے آیت (اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ ) 65 ۔ الطلاق 6) تم ان مطلقہ کو اپنی وسعت کے موافق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو اور نفقہ کے اعتبار سے واجب ہے کہ وہ عورت اسی شوہر کی وجہ سے تمام پابندیوں کے ساتھ عدت میں بیٹھی ہوئی ہے۔ حضرت عمر فاروق بھی اسی کے قائل تھے بلکہ وہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے تھے کہ ہم ایک عورت فاطمہ بنت قیس کے کہنے سے کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارا نفقہ اور سکنی تمہارے شوہر کے ذمہ نہیں ہے) کتاب اللہ اور آنحضرت ﷺ کی سنت کو ترک نہیں کرسکتے جس سے نفقہ اور سکنی کا واجب ہونا ثابت ہے ہوسکتا ہے کہ فاطمہ کو اشتباہ ہوا ہو یا نہیں آپ کا اصل ارشاد یاد نہ رہا ہو چناچہ میں نے خود رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس عورت کا نفقہ اور سکنی شوہر کے ذمہ ہے لیکن حضرت ابن ملک کہتے ہیں کہ یہ واقعہ صحابہ کے سامنے پیش آیا تھا ان صحابہ میں سے کسی نے فاطمہ کے قول کی تردید نہیں کی ہے اس لئے یہ بمنزلہ اجماع کے ہوا) حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ اس عورت کے لئے نہ تو نفقہ و اجب ہے اور نہ سکنی اور انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے حضرت امام مالک حضرت امام شافعی اور بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس آیت (اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ ) 65 ۔ الطلاق 6) کے موجب اس عورت کے لئے سکنی واجب ہے نفقہ واجب نہیں ہے ہاں اگر اسے حمل کی حالت میں طلاق دی گئی ہو تو اس حدیث کے مطابق اس کے لئے نفقہ واجب ہوگا۔ اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت قیس جس مقام میں رہتی تھی وہ ایک ویران جگہ تھی اور ہاں اس کے بارے میں اندیشہ رہتا تھا اس لئے نبی کریم ﷺ نے اس کو عدت کے دنوں میں اپنے مکان سے ابن ام مکتوم کے مکان میں منتقل ہونے کی آسانی عطا فرما دی تھی ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضرت عائشہ نے کہا کہ فاطمہ کو کیا ہوا ہے کہ وہ اللہ سے نہیں ڈرتی ؟ اس سے حضرت کی مراد فاطمہ کے اس قول کہ نہ نفقہ واجب ہے اور نہ سکنی کی تردید کرنا ہے ( بخاری) تشریح حدیث کے ابتدائی الفاظ کا مطلب ہے کہ فاطمہ بنت قیس جس مکان میں رہتی تھیں وہ ایک ویران جگہ میں تھا جہاں ہر وقت چور وغیرہ کا اندیشہ رہتا تھا اسی لئے آنحضرت ﷺ نے انہیں اس مکان سے حضرت ابن ام مکتوم کے مکان میں منتقل ہونے کی اجازت مرحمت فرما دی اور اس بیان سے حضرت عائشہ کا مقصد یہ آگاہ کرنا تھا کہ فاطمہ اپنی عدت کے دنوں میں اپنے خاوند کے گھر کو چھوڑ کر غیر کے گھر میں جو بیٹھی تھیں اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ تین طلاقوں والی عورت کے لئے سکنی نہیں ہے اور وہ جہاں چاہے عدت میں بیٹھ جائے بلکہ فاطمہ کا اپنے خاوند کے مکان کو چھوڑ کر ایک دوسرے شخص کے مکان میں عدت گزارنے کا سبب یہ ہے جو بیان کیا گیا ہے۔ دوسری روایت کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت فاطمہ بنت قیس آنحضرت ﷺ سے یہ نقل کیا کرتی تھیں کہ جس عورت کو طلاق بائن دی گئی ہو اس کے لئے نہ تو نفقہ ہے اور نہ سکنی ہے چناچہ حضرت عائشہ نے ان کی اس بات کی تردید کی اور فرمایا کہ فاطمہ اس قول نہ نفقہ اور نہ سکنی ہے کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرتے ہوئے اللہ سے نہیں ڈرتی آنحضرت ﷺ نے اس طرح ہرگز نہیں فرمایا ہوگا بلکہ فاطمہ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ گویا اس مسئلہ میں حضرت عائشہ کا بھی وہی مسلک تھا جو حضرت عمر کا تھا اور یہ حدیث حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کی مؤید ہے کہ طلاق بائن والی عورت کے لئے سکنی بھی ہے اور نفقہ بھی ہے۔ اور حضرت سعید ابن مسیب کہتے ہیں کہ فاطمہ کو عدت کے زمانہ میں اس کے خاوند کے گھر سے اس لئے منتقل کردیا گیا تھا کہ وہ اپنے خاوند کے عزیزوں سے زبان درازی کیا کرتی تھیں ( شرح السنۃ) رکھنے کی کوشش کرو اگر اس پر زبانی نصیحت تنبیہ کا کوئی اثر نہ ہو تو پھر اس کو مارو لیکن بےرحمی کے ساتھ نہ مارو بلکہ ہلکے سے اور تھوڑا سا مارو

【3】

عدت کے زمانے میں کسی ضرورت سے گھر سے باہر نکلنا جائز ہے یا نہیں

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ میری خالہ کو تین طلاقیں دی گئی اور وہ عدت میں بیٹھ گئیں پھر ایک دن انہوں نے ارادہ کیا کہ گھر سے باہر جا کر کھجوریں توڑ لائیں تو ایک شخص نے انہیں گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ واقعہ بیان کیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے جاؤ اور اپنے درخت سے کھجوریں توڑ لاؤ کیونکہ شاید تم وہ کھجوریں اللہ تعالیٰ کی راہ میں دو یا ان کے ذریعہ احسان کرو ( مسلم) تشریح آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اگر وہ کھجوریں اتنی مقدار میں ہوجائیں گی کہ ان پر زکوٰۃ واجب ہوجائے تم ان کی زکوٰۃ ادا کرو گی اور اگر بقدر نصاب نہیں ہوں گی تو پھر تم ان کے ذریعے احسان و سلوک کرو گی بایں طور کہ اپنے ہمسایوں اور فقراء کو نقل صدقہ کے طور پر دو گی یا لوگوں کے پاس بطور تحفہ بھیجو گی اس سے معلوم ہوا کہ اگر وہ صدقہ نہ کرتیں تو ان کے لئے گھر سے باہر نکلنا جائز نہ ہوتا۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو عورت طلاق بائن کی عدت میں بیٹھی ہو اس کو اپنی کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنا جائز ہے اس مسلہ میں حنفیہ کا جو مسلک ہے وہ ام عطیہ کی روایت کے ضمن میں بیان ہوچکا ہے جو آگے آئے گی۔

【4】

حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔

اور حضرت مسور ابن مخرمہ کہتے ہیں کہ سبیعہ اسلمیہ کے ہاں ان کے خاوند کی وفات کے کچھ دنوں ہی کے بعد ولادت ہوئی تو وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ ﷺ سے دوسرا نکاح کرنے کی اجازت مانگی آپ ﷺ نے ان کو اجازت عطا فرما دی اور انہوں نے نکاح کرلیا ( بخاری) تشریح سبیعہ اسلمیہ اپنے خاوند کی وفات کے وقت حاملہ تھیں چناچہ خاوند کی وفات کے چند ہی دنوں بعد ان کے ہاں ولادت ہوگئی تو آنحضرت ﷺ نے ان کو دوسرا نکاح کرنے کی اجازت عطا فرما دی۔ علماء لکھتے ہیں کہ اگر خاوند کی وفات یا طلاق کے بعد عورت کے ہاں ولادت ہوجائے تو وہ عدت سے نکل آتی ہے اور اس کے لئے دوسرا نکاح کرنا جائز ہوجاتا ہے اگرچہ ولادت یا وفات کے تھوڑی ہی دیر بعد ہو۔

【5】

عدت کے دنوں میں سرمہ لگانے کی ممانعت

اور حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میری لڑکی کا خاوند مرگیا ہے جس کی وجہ سے وہ عدت میں ہے اور اس کی آنکھیں دکھتی ہیں تو کیا میں اس کی آنکھوں میں سرمہ لگا دوں ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا نہیں اس عورت نے یہ دو بار یا تین بار پوچھا اور آپ ﷺ ہر بار یہی جواب دیتے تھے کہ نہیں پھر فرمایا کہ عدت چار مہینہ اور دس دن ہے جب کہ ایام جاہلیت میں تم میں کی ایک عورت یعنی بیوہ سال بھر کے بعد مینگنیاں پھینکتی تھی (بخاری ومسلم) تشریح یہ حدیث بظاہر امام احمد کی دلیل ہے کہ کیونکہ ان کے نزدیک اس عورت کو سرمہ لگانا جائز نہیں ہے جس کا خاوند مرگیا ہو اور وہ عدت میں بیٹھی ہو خواہ آنکھیں دکھنے کی وجہ سے اس کو سرمہ لگانے کی ضرورت ہو اور خواہ وہ محض زینت یا عادت کی بناء پر لگانا چاہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کے نزدیک مجبوری کی حالت میں مثلا آنکھ دکھنے کی صورت میں سرمہ لگانا جائز ہے اور حضرت امام شافعی بھی آنکھیں دکھنے کی صورت میں سرمہ لگانے کی اجازت دیتے ہیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ رات میں لگائے اور دن میں پونچھ لے۔ اس حدیث کے بارے میں حنفی علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس عورت نے زینت کے لئے سرمہ لگانا چاہا ہوگا مگر بہانہ کیا ہوگا آنکھ دکھنے کا اور چونکہ آپ ﷺ کو اس بات کا علم ہوگا اس لئے آپ ﷺ نے سرمہ لگانے کی اجازت دینے سے انکار فرما دیا۔ حدیث کے آخری جملہ کی وضاحت یہ ہے کہ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں یہ رسم تھی کہ جس عورت کا خاوند مرجاتا وہ ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں بیٹھی رہتی اور بہت خراب کپڑے جو اکثر و بیشتر ٹاٹ اور نمدے کی صورت میں ہوتا تھا پہنے رہا کرتی تھی زینت کی کوئی چیز استعمال نہیں کرتی تھی خوشبو بھی نہیں لگاتی تھی غرض کہ پورے ایک سال تک اسی حالت میں رہتی پھر جس دن سال ختم ہوتا اس دن اس کے پاس گدھا یا بکری اور یا کوئی بھی جانور و پرندہ لایا جاتا جس سے وہ اپنی شرمگاہ رگڑتی اور اس کے بعد اس کوٹھڑی سے باہر نکلتی پھر اس کے ہاتھ میں چند مینگنیاں دی جاتیں جن کو وہ پھینکتی اور اس کے ساتھ ہی عدت سے نکل آتی۔ لہذا آنحضرت ﷺ نے اسی رسم کی طرف اشارہ فرمایا کہ پچھلے زمانہ میں عدت کی مدت بھی بہت زیادہ تھی اور اس میں خرابیاں اور پریشانیاں بھی بہت تھیں جب کہ اسلام میں عدت کی مدت بھی بہت کم ہے یعنی چار مہینہ دس دن زیادہ تھی اور اس میں خرابی اور پریشانی بھی نہیں ہے تو پھر اتنا اضطراب کیوں ہے ؟