103. عدت کا بیان

【1】

زمانہ عدت میں سوگ کرنے کا حکم

اور حضرت ام حبیبہ اور حضرت زینب بنت جحش نبی کریم ﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو بھی عورت اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے ہاں اپنے شوہر کا سوگ چار مہینے دس دن تک کیا کرے ( بخاری ومسلم) تشریح سوگ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بناؤ سنگھار ترک کر دے اور خوشبو وسرمہ وغیرہ لگانے سے پرہیز کرے چناچہ یہ سوگ کرنا کسی دوسری میت پر تو تین دن سے زیادہ جائز نہیں ہے۔ لیکن اپنے شوہر کی وفات پر چار مہینے دس دن تک یعنی ایام عدت میں سوگ کرنا واجب ہے۔ اب رہی یہ بات کہ چار مہینہ دس دن یعنی عدت کی مدت کی ابتداء کب سے ہوگی تو جمہور علماء کے نزدیک اس مدت کی ابتداء خاوند کی موت کے بعد سے ہوگی لیکن حضرت علی اس کے قائل تھے کہ عدت کی ابتداء اس وقت سے ہوگی جس وقت کہ عورت کو خاوند کے انتقال کی خبر ہوئی ہے لہذا اگر کسی عورت کا خاوند کہیں باہر سفر وغیرہ میں مرگیا اور اس عورت کو اس کی خبر نہیں ہوئی یہاں تک کہ چار مہینے دس دن گزر گئے تو جمہور علماء کے نزدیک عدت پوری ہوگئی جب کہ حضرت علی کے قول کے مطابق اس کی عدت پوری نہیں ہوگی بلکہ اس کو خبر ہونے کے وقت سے چار مہینے دس دن تک عدت میں بیٹھنا ہوگا۔ اور حضرت ام عطیہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی عورت کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ کرے ہاں اپنے شوہر کے مرنے پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے اور ان ایام یعنی زمانہ عدت میں عصب کے علاوہ نہ تو کوئی رنگین کپڑا پہنے نہ سرمہ لگائے اور نہ خوشبو لگائے البتہ حیض سے پاک ہوتے وقت تھوڑا سا قسط یا اظفار استعمال کرے تو قباحت نہیں ( بخاری ومسلم) تشریح رنگین کپڑے سے مراد وہ کپڑا ہے جو کسم، زعفران اور گیرو وغرہ کے تیز اور شوخ رنگ میں رنگا گیا ہو اور عام طور پر زینت و آرائش کے طور پر پہنا جاتا ہو اور کتاب کافی میں لکھا ہے کہ اگر کسی عورت کے پاس رنگین کپڑوں کے علاوہ اور کوئی کپڑا نہ ہو تو وہ رنگین کپڑا بھی پہن سکتی ہے کیونکہ اس کی سترپوشی بہرحال زیادہ ضروری ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ان رنگین کپڑوں کو زیب وزینت کے مقصد سے استعمال نہ کرے۔ عصب اس زمانہ میں ایک خاص قسم کی چادر کو کہتے تھے جو اس طور پر بنی ہوتی تھی کہ پہلے سوت کو جمع کر کے ایک جگہ باندھ لیتے تھے پھر اس کو کسم میں رنگتے تھے اور اس کے بعد اس کو بنتے تھے چناچہ وہ سرخ رنگ کی ایک چادر ہوجاتی تھی جس میں سفید دھاریاں بھی ہوتی تھیں کیونکہ سوت کو باندھ کر رنگنے کی وجہ سے سوت کا وہ حصہ سفید رہ جاتا تھا جو بندھا ہوا ہوتا تھا۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ عدت والی عورت کو رنگین کپڑا پہننے کی جو ممانعت ہے اس کا تعلق اس کپڑے سے ہے جو بننے کے بعد رنگا گیا ہو تو اس کا پہننا بھی درست ہے۔ علامہ ابن ہمام حنفی یہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء حنفیہ کے نزدیک عدت والی عورت کو عصب کا پہننا بھی درست نہیں ہے حضرت امام شافعی کے نزدیک عدت والی عورت کو عصب پہننا جائز ہے خواہ وہ موٹا ہو یا مہین ہو جب کہ حضرت امام مالک مہین عصب کو پہننے سے منع کرتے ہیں موٹے عصب کو منع نہیں کرتے۔ سرمہ لگانے کے سلسلہ میں ائمہ کے جو اختلافی اقوال ہیں وہ پیچھے حضرت ام سلمہ کی روایت کے ضمن میں بیان کئے جا چکے ہیں علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ حنفی مسلک کے مطابق عدت والی عورت کو مجبوری کی حالت میں سرمہ لگانا جائز ہے ویسے جائز نہیں ہے۔ قسط اور اظفار یہ دونوں ایک قسم کی خوشبو ہیں قسط تو عود کو کہتے ہیں جس عام طور پر عورتیں یا بچے دھونی لیتے ہیں کرمانی نے کہا ہے کہ قسط عود ہندی کو کہتے ہیں جسے اگر یا کوٹ کہا جاتا ہے۔ اظفار ایک قسم کا عطر ہوتا تھا یہ دونوں خوشبوئیں اس زمانہ میں عام طور پر عرب کی عورتیں حیض سے پاک ہوتے وقت بدبو دور کرنے کے لئے شرمگاہ میں استعمال کرتی تھیں۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے عدت والی عورت کو خوشبو استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن حائضہ کو حیض سے پاک ہوتے وقت بدبو دور کرنے کے لئے ان دونوں خوشبوؤں کے استعمال کی اجازت دے دی۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس عورت کا خاوند مرگیا ہو اس پر عدت کے زمانہ میں سوگ کرنا واجب ہے چناچہ اس پر تمام علماء کا اجماع و اتفاق ہے البتہ سوگ کی تفصیل میں اختلافی اقوال ہیں۔ حضرت امام شافعی اور جمہور علماء تو یہ کہتے ہیں کہ خاوند کی وفات کے بعد ہر عدت والی عورت پر سوگ کرنا واجب ہے خواہ وہ مدخول بہا ہو یعنی جس کے ساتھ جماع ہوچکا ہو یا غیر مدخول بہا ہو ( یعنی جس کے ساتھ جماع نہ ہوا ہو) خواہ چھوٹی ہو یا بڑی خواہ باکرہ ہو یا ثیبہ خواہ آزاد ہو یا لونڈی اور خواہ مسلمہ ہو یا کافرہ۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک سات قسم کی عورتوں پر سوگ واجب نہیں ہے جس کی تفصیل درمختار کے مطابق یہ ہے کہ (١) کافرہ (٢) مجنونہ (٣) صغیرہ (٤) معتدہ عتق یعنی وہ ام ولد جو اپنے مولیٰ کی طرف سے آزاد کئے جانے یا اپنے مولیٰ کے مرجانے کی وجہ سے عدت میں بیٹھی ہو (٥) وہ عورت جو نکاح فاسد کی عدت میں بیٹھی ہو (٦) وہ عورت جو وطی بالشبہ کی عدت میں بیٹھی ہو یعنی جس سے کسی غیر مرد نے غلط فہمی میں جماع کرلیا ہو اور اس کی وجہ سے عدت میں بیٹھی ہو (٧) وہ عورت جو طلاق رجعی کی عدت میں بیٹھی ہو۔ جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ خاوند کے علاوہ کسی کے مرنے پر عورت کو تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں ہے اور تین دن تک بھی صرف مباح ہے واجب نہیں ہے چناچہ اگر تین دنوں میں بھی خاوند سوگ کرنے سے منع کرے تو اس کو اس کا حق ہے کیونکہ بیوی کے بناؤ سنگار کا تعلق خاوند کے حق سے ہے اگر تین دنوں میں خاوند کی خواہش یہ ہو کہ وہ سوگ ترک کر کے بناؤ سنگار کرے اور بیوی خاوند کا کہنا نہ مانے تو اس بات پر بیوی کو مارنا خاوند کے لئے جائز ہے کیونکہ سوگ کرنے میں خاوند کا حق فوت ہوجاتا ہے۔ سوگ کے احکام و مسائل جس عورت کو طلاق رجعی ملی ہو اس کی عدت تو فقط اتنی ہی ہے کہ وہ مقررہ مدت تک گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اس کے لئے بناؤ سنگھار وغیرہ درست ہے اور جس عورت کو جو مکلفہ مسلمہ یعنی بالغ و عاقل اور مسلمان ہو تین طلاقیں مل گئیں یا ایک طلاق بائن یا اور کسی طرح سے نکاح ٹوٹ گیا یا خاوند مرگیا تو ان سب صورتوں میں اس کے لئے یہ حکم ہے کہ جب تک عدت میں رہے تب تک نہ تو گھر سے باہر نکلے نہ اپنا دوسرا نکاح کرے اور نہ بناؤ سنگھار کرے یہ سب باتیں اس پر حرام ہیں۔ اس سنگھار نہ کرنے اور میلے کچیلے رہنے کو سوگ کہتے ہیں۔ جب تک عدت ختم نہ ہو تب تک خوشبو لگانا کپڑے بسانا زیور گہنا پہننا پھول پہننا سرمہ لگانا پان کھا کر منہ لال کرنا مسی مسلنا سر میں تیل ڈالنا کنگھی کرنا مہندی لگانا اچھے کپڑے پہننا ریشمی اور رنگے ہوئے بہار دار کپڑے پہننا یہ سب باتیں ممنوع ہیں۔ ہاں مجبوری کی حالت میں اگر ان میں سے کوئی چیز اختیار کی گئی تو کوئی مضائقہ نہیں مثلا سر میں درد ہونے کی وجہ سے تیل ڈالنے کی ضرورت پڑے تو بغیر خوشبو کا تیل ڈالنا درست ہے اسی طرح دوا کے لئے سرمہ لگانا بھی ضرورت کے وقت درست ہے۔ جس عورت کا نکاح صحیح نہیں ہوا تھا بلکہ بےقاعدہ ہوگیا تھا اور وہ فسخ کرا دیا گیا یا خاوند مر یا تو ایسی عورت پر سوگ کرنا واجب نہیں ہے۔ اسی طرح جو عورت عتق یعنی آزادی کی عدت میں ہو جیسے ام ولد کو اس کا مولیٰ آزاد کر دے اور وہ اس کیوجہ سے عدت میں بیٹھی ہو تو اس پر سوگ کرنا واجب نہیں ہے۔ جو عورت عدت میں بیٹھی ہو اس کے پاس نکاح کا پیغام بھیجنا جائز نہیں ہے ہاں نکاح کا کنایۃ یعنی یہ کہنا کہ میں اس عورت سے نکاح کرنے کی خواہش رکھتا ہوں یا اس سے نکاح کرنے کا میں ارادہ رکھتا ہوں جائز ہے، مگر یہ بھی اس صورت میں جائز ہے کہ جب کہ وہ عورت وفات کی عدت میں بیٹھی ہو اگر طلاق کی عدت میں بیٹھی ہو تو یہ بھی جائز نہیں ہے۔ جو عورت طلاق کی عدت میں بیٹھی ہو اس کو تو کسی بھی وقت گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے ہاں جو عورت وفات کی عدت میں بیٹھی ہو وہ دن میں نکل سکتی ہے اور کچھ رات تک نکل سکتی ہے مگر رات اپنے گھر سے علاوہ دوسری جگہ بسر نہ کرے لونڈی اپنے آقا کے کام سے گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔ معتدہ (عدت والی عورت) کو اپنی عدت کے دن اسی مکان میں گزارنے چاہئیں جس میں وہ فسخ و طلاق یا خاوند کی موت کے وقت سکونت پذیر ہو ہاں اگر اس مکان سے زبردستی نکالا جائے اس مکان میں اپنے مال و اسباب کے ضائع ہونے کا خوف ہو یا اس مکان کے گر پڑنے کا خطرہ ہو اور یا اس مکان کا کرایہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو ان صورتوں میں کسی دوسرے مکان میں عدت بیٹھنا جائز ہے۔ اسی طرح اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ میاں بیوی ایک ہی مکان میں رہیں اگرچہ وہ طلاق بائن کی عدت میں بیٹھی ہو بشرطیکہ دونوں کے درمیان پردہ حائل رہے ہاں اگر خاوند فاسق اور ناقابل اعتماد ہو یا مکان تنگ ہو تو عورت اس گھر سے منتقل ہوجائے اگرچہ خاوند کا منتقل ہونا اولی ہے اور اگر میاں بیوی کے ایک ہی مکان میں رہنے کی صورت میں وہ دونوں اپنے ساتھ کسی ایسی معتمد عورت کو رکھ لیں جو دونوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے پر قادر ہو تو بہت ہی اچھا ہے۔ اگر مرد عورت کو اپنے ساتھ سفر میں لے گیا اور پھر سفر کے دوران اس کو طلاق بائن یا تین طلاقیں دیدیں یا مرد مرگیا اور عورت کا شہر یعنی اس کا وطن اس جگہ سے کہ جہاں طلاق یا وفات واقع ہوئی ہے سفر شرعی یعنی تین دن کے سفر سے کم مسافت پر واقع ہو تو وہ اپنے شہر واپس آجائے اور اگر اس مقام سے جہاں طلاق یا وفات ہوئی ہے اس کا شہر سفر شرعی ( یعنی تین دن کی مسافت) کے بقدر یا اس سے زائد فاصلہ پر واقع ہے اور وہ منزل مقصود (جہاں کے لئے سفر اختیار کیا تھا) اس مسافت سے کم فاصلہ پر واقع ہے تو اپنے شہر واپس آنے کی بجائے منزل مقصود چلی جائے اور ان دونوں صورتوں میں خواہ اس کا ولی اس کے ساتھ ہو یا ساتھ نہ ہو لیکن بہتر یہ ہے کہ وہ عورت طلاق یا وفات کے وقت کسی شہر میں ہو تو وہاں سے عدت گزارے بغیر نہ نکلے تو کسی محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد یہ فرماتے ہیں کہ اگر اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ ہو تو پھر عدت سے پہلے بھی اس شہر سے نکل سکتی ہے۔

【2】

معتدہ کو بلاضرورت ایک مکان سے دوسرے مکان میں منتقل ہوناجائز نہیں

حضرت زینب بنت کعب فرماتی ہیں کہ فریعہ بنت مالک بن سنان نے جو حضرت ابوسعید خدری کی بہن ہیں مجھے بتایا کہ وہ فریعہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں یہ پوچھنے کے لئے حاضر ہوئیں کہ کیا وہ اپنی عدت گزارنے کے لئے اپنے میکہ بنی خدرہ میں منتقل ہوسکتی ہیں کیونکہ ان کے شوہر اپنے بھاگے ہوئے غلاموں کی تلاش میں گئے تھے کہ ان غلاموں نے انہیں مار ڈالا چناچہ فریعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ میں اپنے میکے میں آجاؤں کیونکہ میرے شوہر نے مجھے جس مکان میں چھوڑا ہے وہ اس کے مالک نہیں تھے (یعنی میں جس مکان میں رہتی ہوں وہ ان کی ملکیت میں نہیں تھا) اور نہ ہی میرے پاس کھانے پینے کے خرچ کا کوئی انتظام ہے۔ فریعہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ بہتر ہے کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ چناچہ میں یہ اجازت حاصل کر کے واپس ہوئی اور جب حجرہ مبارکہ کے صحن میں یا مسجد نبوی میں پہنچی تو آپ ﷺ نے مجھے پھر بلایا اور فرمایا تم اپنے اسی گھر میں عدت میں بیٹھو جس میں تمہارے شوہر کے مرنے کی خبر آئی ہے اگرچہ وہ تمہارے شوہر کی ملکیت میں نہیں ہے تاآنکہ کتاب یعنی عدت اپنی مدت تک پہنچ جائے فریعہ کہتی ہیں کہ میں آنحضرت ﷺ کے اس حکم کے مطابق چار مہینہ دس دن تک اسی مکان میں عدت میں بیٹھی رہی ( مالک ترمذی ابوداؤد نسائی ابن ماجہ دارمی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معتدہ (یعنی عدت میں بیٹھی ہوئی عورت) کو بلا ضرورت ایک مکان سے دوسرے مکان میں اٹھ آنا درست نہیں ہے۔ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ جو عورت اپنے خاوند کے مرجانے کی وجہ سے عدت میں بیٹھی ہو اس کے لئے سکنی یعنی شوہر ہی کے مکان میں عدت گزارنا) ضروری ہے یا نہیں چناچہ اس سلسلہ میں حضرت امام شافعی کے دو قول ہیں جس میں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس کے لئے سکنی ضروری ہے حضرت عمر حضرت عثمان حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت عبداللہ ابن عمر بھی اسی کے قائل تھے ان کی طرف سے یہی حدیث بطور دلیل پیش کی جاتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے پہلے تو فریعہ کو مکان منتقل کرنے کی اجازت دے دی مگر پھر آپ ﷺ نے ان کو منتقل ہونے سے منع کردیا اور یہ حکم دیا کہ وہ اپنے شوہر کے اسی مکان میں عدت کے دن گزاریں اس سے ثابت ہوا کہ فریعہ کو پہلے آپ ﷺ کا اجازت دینا آپ ﷺ کے اس حدیث (امکثی فی بیتک) الخ تم اپنے اسی گھر میں عدت میں بیٹھو) کے ذریعہ منسوخ ہوگیا۔ حضرت امام شافعی کا دوسرا قول یہ ہے کہ معتدہ وفات کے لئے سکنی ضروری نہیں ہے بلکہ وہ جہاں چاہے عدت میں بیٹھ جائے اور یہی قول حضرت علی حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ کا بھی تھا اس قول کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فریعہ کو مکان میں منتقل ہونے کی اجازت عطا فرما دی تھی اور پھر بعد میں آپ ﷺ نے ان کو اپنے ہی مکان میں عدت گزارنے کا جو حکم فرمایا وہ استحباب کے طور پر تھا اس مسئلہ میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا جو مسلک ہے وہ انشاء اللہ باب النفقات کے ابتداء میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔

【3】

عدت کے دنوں میں بناؤ سنگار کی کوئی بھی چیز استعمال نہ کیجائے

اور حضرت ام سلمہ جو آنحضرت ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں روایت کرتی ہیں کہ جب میرے پہلے شوہر ابوسلمہ کا انتقال ہوا اور میں عدت میں بیٹھی ہوئی تھی تو ایک دن رسول کریم ﷺ میرے گھر تشریف لائے اس وقت میں نے اپنے منہ پر ایلوا لگا رکھا تھا آپ ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ ام سلمہ یہ کیا ہے یعنی تم نے عدت کے دنوں میں منہ پر یہ کیا لگا رکھا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یہ تو ایلوا ہے جس میں کسی قسم کی کوئی خوشبو نہیں ہے آپ ﷺ نے فرمایا مگر ایلوا چہرے کو جوان بنا دیتا ہے یعنی ایلوا لگانے سے چہرہ چمکدار ہوجاتا ہے اور اس کا رنگ نکھر جاتا ہے لہذا تم اس کو نہ لگاؤ ہاں اگر کسی وجہ سے لگانا ضروری ہی ہو تو) رات میں لگا لو اور دن میں صاف کر ڈالو کیونکہ رات میں استعمال کرنے سے بناؤ سنگار کا گمان ہوتا ہے) اسی طرح خوشبو دار کنگھی بھی نہ کرو اور نہ مہندی کے ساتھ کنگھی کرو کیونکہ مہندی سرخ رنگ لئے ہوتی ہے اور اس میں خوشبو ہوتی ہے جب کہ یہ سوگ کی حالت میں ممنوع ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! پھر میں کس چیز کے ساتھ کنگھی کروں یعنی اپنے بالوں کو کس چیز سے صاف کروں ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیری کے پتوں کے ساتھ کنگھی کرو اور ان پتوں سے اپنے سر کو غلاف کی طرح ڈھانپ لو یعنی بیری کے پتے اپنے سر پر اتنی مقدار میں ڈالو کہ وہ تمہارے سر کو غلاف کی طرح ڈھانپ لیں ( ابوداؤد نسائی) تشریح خوشبودار تیل کے بارے میں تو علماء کا اتفاق و اجماع ہے کہ عدت والی عورت اس کا استعمال نہ کرے البتہ بغیر خوشبو کے تیل مثلا روغن زیتون و تل کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں چناچہ امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی تو بغیر خوشبو کا تیل لگانے بھی منع کرتے ہیں البتہ ضرورت و مجبوری کی حالت میں اس کی اجازت دیتے ہیں اور حضرت امام مالک حضرت امام احمد اور علماء ظواہر نے عدت والی عورت کے لئے ایسے تیل کے استعمال کو جائز رکھا ہے جس میں خوشبو نہ ہو۔ اور حضرت ام سلمہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس عورت کا خاوند مرجائے وہ نہ کسم میں رنگا ہوا کپڑا پہنے نہ گیرہ میں رنگا ہوا کپڑا پہنے نہ زیور پہنے نہ ہاتھ پاؤں اور بالوں پر مہندی لگائے اور نہ سرمہ لگائے ( ابوداؤد نسائی) تشریح اگر سیاہ اور خاکستری رنگ کے کپڑے پہنے تو کوئی مضائقہ نہیں اسی طرح کسم میں زیادہ دنوں کا رنگا ہوا کپڑا کہ جس سے خوشبو نہ آتی ہو پہننا بھی درست ہے ہدایہ میں لکھا ہے کہ مذکورہ بالا عورت کو کسی عذر مثلا کھجلی یا جوئیں یا کسی بیماری کیوجہ سے ریشمی کپڑا پہننا بھی جائز ہے۔

【4】

مطلقہ کی عدت کے بارے میں ایک بحث

حضرت سلیمان ابن یسار کہتے ہیں کہ احوص نے ملک شام میں اس وقت وفات پائی جب کہ ان کی بیوی کا تیسرا حیض شروع ہوچکا تھا اور احوص نے اپنے مرنے سے پہلے ان کو طلاق دیدی تھی چناچہ حضرت معاویہ ابن ابوسفیان نے اس مسئلہ کو دریافت کرنے کے لئے حضرت زید ابن ثابت کو خط لکھا، حضرت زید نے حضرت معاویہ کو جواب میں لکھا کہ جب اس عورت کا تیسرا حیض شروع ہوگیا تو وہ احوس سے الگ ہوگئی اور احوس اس سے الگ ہوگئے نہ تو احوس اس کے وارث ہوئے اور نہ وہ احوص کی وارث ہوئی ( مالک) تشریح صورت مسئلہ یہ تھی کہ حضرت احوص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور وہ تین حیض آنے تک کے لئے عدت میں بیٹھ گئیں جیسا کہ طلاق کی عدت کا حکم ہے پھر ابھی ان کی عدت پوری نہیں ہوئی تھی اور تیرا حیض شروع ہوا تھا کہ احوص کا انتقال ہوگیا اس صورت میں انہیں چار مہینے دس دن تک وفات کی عدت میں بیٹھنا چاہئے تھا چناچہ حضرت معاویہ نے حضرت زید ابن ثابت سے یہ مسئلہ پوچھا کہ اس صورت میں عورت خاوند کی وارث ہوگی یا نہیں ؟ حضرت زید نے حضرت معاویہ کو لکھا کہ جب تیسرا حیض شروع ہوگیا تو محض تیسرے حیض کا خون دیکھتے ہی اس کا تعلق منقطع ہوگیا۔ اور زوجیت کی پابندی سے آزاد ہوگئی کیونکہ اس صورت میں طلاق کی عدت یا تو اس اعتبار سے کہ اس کی عدت کا زیادہ حصہ گزر گیا ہے یا اس اعتبار سے کہ تیسرا حیض شروع ہوگیا پوری ہوگئی ہے اس صورت میں وفات کی عدت ساقط ہوگئی لہذا جس طرح طلاق کی عدت پوری ہوجانے پر اگر مرد زندہ ہوتا تو وہ عورت کا وارث نہیں ہوسکتا تھا اسی طرح اب مذکورہ مسئلہ میں جب کہ مرد مرگیا ہو تو عورت اس کی وارث نہیں ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت معاویہ کا مقصد صرف یہ معلوم کرنا تھا کہ وہ عورت احوص کی وارث ہوگی یا نہیں ؟ جبکہ یہ احتمال بھی ہے کہ حضرت معاویہ کا مقصد عدت کے بارے میں معلوم کرنا تھا کہ آیا یہ عورت اپنی طلاق کی عدت جاری رکھے یعنی تیسرا حیض جو شروع ہوچکا ہے اس سے پاک ہو کر عدت سے نکل آئے یا اب وفات کی عدت بیٹھ جائے۔ ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ اس موقع پر طیبی (شافعی) نے لکھا ہے کہ اس سے صریحا یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مطلقہ عورت کی عدت کے بارے میں جو یہ حکم دیا ہے کہ ا یت (والمطلقت یتربصن بانفسہن ثلثۃ قروء) اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنے آپ کو روکے رکھیں تین حیض ختم ہونے تک تو اس میں قروء سے مراد طہر ہیں گویا طیبی کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ یہ حدیث شوافع کی دلیل ہے کیونکہ ان کے نزدیک مطلقہ کی عدت تین حیض نہیں بلکہ تین طہر ہیں حالانکہ طیبی کی یہ بات کہ اس حدیث سے شوافع کا مسلک ثابت ہوتا ہے کوئی مضبوط بات نہیں ہے کیونکہ اول تو یہ ایک صحابی حضرت زید بن ثابت کا مسلک ہے دوسرے یہ کہ خود انہی حضرت زید سے اس امر کے برخلاف بھی منقول ہے چناچہ ان سے یہ منقول ہے کہ حدیث (عدۃ لامۃ حیضتان) یعنی لونڈی کی عدت دو حیض ہیں پھر اس کے علاوہ یہ قطعا معلوم نہیں ہوتا کہ حضرت معاویہ نے حضرت زید کے قول پر عمل بھی کیا تھا یا نہیں۔ حنفیہ کے نزدیک ثلثۃ قروء سے مراد تین حیض ہیں چناچہ خلفاء راشدین اور اکثر صحابہ کا بھی یہ قول ہے نیز تیرہ صحابیوں سے منقول ہے کہ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ بیوی طلاق کی عدت میں جب تک تیسرے حیض سے پاک نہ ہوجائے مرد یعنی خاوند کہ جس نے اس کو طلاق دی ہے اس کا زیادہ حق رکھتا ہے (مطلب یہ کہ تیسرے حیض سے پاک ہونے کے بعد ہی عدت کی مدت پوری ہوتی ہے اور اس بیوی سے مرد کا مکمل انقطاع ہوجاتا ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ قروء سے حیض مراد ہیں ملا علی قاری نے اپنی کتاب میں اس موقع پر تفصیلی بحث کی ہے اور حنفیہ کے بہت سے دلائل لکھے ہیں۔

【5】

مطلقہ کی عدت کا ایک مسئلہ

اور سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا جس عورت کو طلاق دی گئی ہو اور اس کو ایک یا دو بار حیض آ کر پھر موقوف ہوگیا ہو تو وہ نو مہینے تک انتظار کرے اگر اس عرصہ میں حمل ظاہر ہوجائے تو اس کا حکم ظاہر ہے کہ جب ولادت ہوگی تو عدت پوری ہوگی اور حمل ظاہر نہ ہو تو پھر نو مہینے کے بعد تین مہینہ تک عدت کے دن گزارے اور اس کے بعد حلال ہو یعنی عدت سے نکل آئے) مالک)