104. استبراء کا بیان

【1】

استبراء کا بیان

شریعت میں استبراء کا مطلب ہے لونڈی کے رحم کی حمل سے پاکی صفائی طلب کرنا اس کی فقہی تفصیل یہ ہے کہ جب کسی شخص کی ملکیت میں کوئی لونڈی آئے خواہ اس نے اس کو خریدا ہو یا کسی وصیت میں ملی ہو، یا کسی نے ہبہ کی ہو اور یا میراث میں ملی ہو تو اس شخص کو اس لونڈی سے اس وقت تک جماع کرنا یا مساس کرنا اور یا بوسہ لینا وغیرہ حرام ہے جب تک کہ استبراء نہ کرلے یعنی اس کے قبضہ میں آنے کے بعد ایک حیض نہ آجائے اگر اس کو حیض آتا ہو یا نہ آنے کی صورت میں اس پر ایک مہینہ کی مدت نہ گزر جائے اور یا حاملہ ہونے کی صورت میں ولادت نہ ہوجائے اور یہ استبراء ہر حال میں کرنا ضروری ہے خواہ وہ باکرہ ہی کیوں نہ ہو یا اس کو کسی عورت نے کیوں نہ خریدا ہو یا وہ کسی محرم یا اپنے نابالغ بچہ کے مال سے بذریعہ وراثت وغیرہ کیوں نہ حاصل ہوئی ہو اگرچہ ان صورتوں میں قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ استبراء واجب نہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ استبراء میں حکمت یہ ہے کہ اس طریقہ سے اس کے رحم کا کسی غیر کے نطفہ سے پاک و نامعلوم ہوجائے تاکہ اس کے نطفہ کا کسی غیر کے نطفہ کے ساتھ اختلاط نہ ہو اور ظاہر ہے کہ ان صورتوں میں کسی غیر کے نطفہ کا کوئی احتمال نہیں ہے لیکن چونکہ یہ صریح نص ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اوطاس کے غزوہ کے موقع پر حاصل ہونیوالی لونڈیوں کے بارے میں فرمایا کہ خبردار حاملہ لونڈی سے اس وقت تک صحبت نہ کی جائے جب کہ اس کے ولادت نہ ہوجائے اور غیر حاملہ سے اس وقت تک صحبت نہ کی جائے جب تک کہ اس کو ایک حیض نہ آجائے اور ظاہر ہے کہ ان لونڈیوں میں باکرہ بھی ہوں گی اور ایسی لونڈیاں بھی ہوں گی جو باکرہ کی نطفہ کے اختلاط کا احتمال نہیں رکھتی ہوں گی اس لئے قیاس کو نظر انداز کر کے ان صورتوں میں بھی استبراء کو واجب قرار دیا ہے۔

【2】

استبراء کے بغیر لونڈی سے جماع کرنیوالا لعنت کا مستحق ہے

حضرت ابودرداء کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ ایک عورت کے قریب سے گزرے جس کے جلد ہی ولادت ہونیوالی تھی آپ ﷺ نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا کہ یہ کوئی آزاد عورت ہے یا لونڈی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ فلاں شخص کی لونڈی ہے آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا وہ شخص اس سے صحبت کرتا ہے صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں آپ ﷺ نے فرمایا میں نے ارادہ کیا کہ اس شخص پر ایسی لعنت کروں جو اس کے ساتھ قبر میں بھی جائے یعنی ایسی لعنت جو ہمیشہ رہے بایں طور کہ اس کا اثر اس کے مرنے کے بعد باقی رہے وہ کس طرح اپنے بیٹے سے خدمت کو کہے گا جب کہ بیٹے سے خدمت کے لئے کہنا یا اس کو غلام بنانا حلال نہیں ہے یا اس کو کس طرح اپنا وارث قرار دے گا جب کہ غیر کے بیٹے کو اپنا وارث بنانا حلال نہیں ہے ( مسلم) تشریح آنحضرت ﷺ نے اس شخص پر لعنت کا ارادہ اس لئے فرمایا کہ جب اس نے ایک لونڈی سے جماع کیا جو حالت حمل میں اس کی ملکیت میں آئی تو اس استبراء کو ترک کیا حالانکہ وہ فرض ہے وہ کس طرح اپنے بیٹے سے خدمت کو کہے گا الخ، آپ ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعہ ترک استبراء پر لعنت کے سبب کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس کا حاصل یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی لونڈی سے بغیر استبراء کے صحبت کرے گا اور پھر اس سے بچہ پیدا ہوگا تو اس بچہ کے بارے میں یا یہ احتمال ہوگا کہ وہ اس شخص کے نطفہ سے جس کی ملکیت سے نکل کر یہ لونڈی بغیر استبراء کے صحبت کرنیوالے کی ملکیت میں آئی ہے تو وہ اس صورت میں اگر وہ شخص کہ جس نے بغیر استبراء کے اس لونڈی سے جماع کیا ہے اس بچہ کے نسب کا اقرار کرے گا یعنی یہ کہے گا کہ یہ بچہ میرا ہے جب کہ حقیقت میں وہ اس کے نطفہ سے نہیں ہے تو وہ بچہ اس شخص کا وارث ہوگا لہذا اس طرح ایک دوسرے شخص کے بچہ کا اپنا وارث بنانا لازم آئے گا جو حرام ہے اور اس پر وہ لعنت کا مستحق ہوگا یا پھر یہ صورت ہوگی کہ وہ اس بچہ کے نسب سے انکار کر دے گا جب کہ اس احتمال کے مطابق حققت میں وہ بچہ اس کا بیٹا ہوگا لہذا اس طرح اپنے ہی بیٹے سے غلامی کرانا اور اپنا نسب منقطع کرنا لازم آئے گا اور یہ بھی لعنت کو مستحق کرنیوالی صورت ہے لہذا ثابت ہوا کہ تحقیق حال کے لئے استبراء نہایت ضروری ہے۔

【3】

بغیراستبراء لونڈی سے صحبت کرنے کی ممانعت

حضرت ابوسعید خدری نبی کریم ﷺ سے بطریق مرفوع نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے غزوہ اوطاس میں گرفتار ہونیوالی لونڈیوں کے بارے میں فرمایا کہ کسی حاملہ عورت سے اس وقت تک صحبت نہ کی جائے جب تک کہ اس کے ولادت نہ ہوجائے اور غیر حاملہ سے بھی اس وقت تک صحبت نہ کی جائے جب تک کہ اس کو ایک حیض نہ آجائے ( احمد ابوداؤد دارمی) تشریح اگر کسی غیرحاملہ کو اس کی کم عمری کی وجہ سے یا زیادہ عمر ہوجانے کے سبب سے حیض نہ آتا ہو تو اس کا استبراء یہ ہے کہ ایک مہینہ کی مدت تک اس کے پاس جانے سے اجتناب کرے جب ایک مہینہ گزر جائے تب اس سے جماع کر اس صورت کو اس حدیث میں اس لئے ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ یہ قلیل الوجود اور نادر ہے۔ لونڈی حیض کی حالت میں کسی کی ملکیت میں آئے تو استبراء میں اس حیض کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ دوسرے پورے حیض کا اعتبار کیا جائے گا۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ لونڈی کے لئے نئی ملکیت کا پیدا ہوجانا استبراء کو واجب کرتا ہے چناچہ چاروں ائمہ کا یہی مسلک ہے نیز یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دار الحرب سے کسی کافرہ کو بطور لونڈی کے پکڑ لانے سے اس کا پہلا نکاح ختم ہوجاتا ہے یعنی کفار سے جنگ وغیرہ کی صورت میں ان کی جو شادی شدہ عورتیں بطور لونڈی ہاتھ لگیں ان کے شوہروں سے ان کی زوجیت کا تعلق ختم ہوجائے گا) لیکن اس بارے میں حدیث کا ظاہر مفہوم مطلق ہے خواہ ان کے خاوند بھی ان کے ساتھ نہ ہوں چناچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک کا مسلک یہی ہے جب کہ حضرت اما اعظم ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ اگر میاں بیوی دونوں ایک ساتھ پکڑ کر لائے جائیں تو اس صورت میں ان کا نکاح باقی رہتا ہے۔ اور حضرت رویفع ابن ثابت الانصاری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے غزوہ حنین کے دن فرمایا کہ جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کی کھیتی کو اپنے پانی سے سیراب کرے یعنی اس عورت سے جماع کرنا جو بطور باندی کے ہاتھ لگی ہے اور کسی دوسرے کے نطفہ سے حاملہ ہے جائز نہیں ہے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ کفار سے جنگ میں گرفتار شدہ لونڈی سے اس وقت تک جماع کرے جب کہ ایک حیض آنے یا ایک مہینہ گزرنے کا انتظار کر کے اس کا استبراء نہ کرلے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے یہ بھی درست نہیں ہے کہ وہ مال غنیمت کو بیچے جب تک وہ تقسیم نہ ہوجائے (یعنی مال غنیمت میں کسی قسم کا تصرف اور خیانت نہ کرے) ابوداؤد اور امام ترمذی نے اس روایت کو لفظ زرع تک نقل کیا ہے۔

【4】

غیرحائضہ لونڈی کے حق کے استبراء کی مدت

حضرت امام مالک کہتے ہیں کہ مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول کریم ﷺ ایک حیض کے ذریعہ لونڈیوں کے استبراء کا حکم فرماتے تھے بشرطیکہ ان لونڈیوں کو حیض آتا ہو اور اگر کوئی لونڈی ایسی ہوتی تھی جس کو حیض نہیں آتا تھا تو اس کے لئے تین مہینہ مدت کے ذریعہ استبراء کا حکم دیتے تھے یعنی آپ ﷺ نے یہ حکم جاری فرمایا تھا کہ جن لونڈیوں کو حیض آتا ہے ان سے ان کے نئے مالک اس وقت تک جماع نہ کریں جب تک تین مہینہ کی مدت نہ گزر جائے نیز آپ ﷺ نے غیر کو اپنا پانی پلانے سے منع کیا۔ تشریح حدیث کے آخری جملہ میں حاملہ لونڈی کے استبراء کا حکم ہے کہ اگر کوئی لونڈی حمل کی حالت میں اپنی ملکیت میں آئے تو اس سے اس وقت تک جماع نہ کیا جائے جب تک کہ وہ ولادت سے فارغ نہ ہوجائے تاکہ اس لونڈی کے رحم میں جو ایک دوسرے شخص کے نطفہ کا حمل ہے اس سے اپنے نطفہ ونسب کا اختلاط نہ ہو۔ غیرحائضہ لونڈی کے بارے میں جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ جس لونڈی کو حیض نہ آتا ہو اس کا استبراء یہ ہے کہ اس کے ساتھ اس وقت جماع کیا جائے جب کہ اپنی ملکیت میں آنے کے بعد اس پر پورا ایک یا اس سے زائد عرصہ گزر جائے اور بعض حضرات نے اس حدیث کے پیش نظر یہ کہا ہے کہ غیر حائضہ کا استبراء یہ ہے کہ اس سے اس وقت جماع کیا جائے جب کہ اپنی ملکیت میں آنے کے بعد اس پر تین مہینے یا اس سے زائد عرصہ گزر جائے۔

【5】

باکرہ لونڈی کے لئے استبراء واجب ہے

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب کوئی ایسی لونڈی جس سے جماع کیا جاتا تھا ہبہ کی جائے یا فروخت کی جائے یا آزاد کی جائے تو اس کو چاہئے کہ ایک حیض کے ذریعہ اپنے رحم کو پاک صاف کرے البتہ باکرہ کنواری کو پاک صاف کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ دونوں روایتیں رزین نے نقل کی ہیں۔ تشریح اس حدیث پر ابن شریح نے عمل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ باکرہ لونڈی کے لئے استبراء واجب نہیں ہے جب کہ جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ اس کے لئے بھی استبراء واجب ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے غزوہ اوطاس میں گرفتار ہونیوالی لونڈیوں کے بارے میں استبراء کا جو حکم دیا تھا وہ عام ہے اس میں باکرہ کا کوئی استثناء نہیں ہے۔ ام ولد کی عدت صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ جس ام ولد کا آقا مرجائے یا اس کو اس کا آقا آزاد کرے تو اس کی عدت کی مدت تین حیض ہیں اور اگر اس کو حیض نہ آتا ہو تو اس کی مدت تین مہینے ہوگی۔ اور علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ وہ ام ولد نہ تو حاملہ ہو نہ کسی دوسرے شخص کے نکاح میں ہو اور نہ کسی کی عدت میں ہو چناچہ اگر وہ حاملہ ہوگی تو پھر اس کی عدت تاوضع حمل ہوگی اور اگر وہ کسی دوسرے شخص کے نکاح میں ہوگی یا کسی کی عدت میں ہوگی تو چونکہ ان صورتوں میں اس مولیٰ کے ساتھ اس کے جنسی اختلاط کا کوئی سوال ہی نہیں اس لئے آقا کے آزاد کردینے کی وجہ سے یا آقا کے مرجانے کے سبب سے اس پر عدت واجب نہیں ہوگی یہ حنفیہ کا مسلک ہے اور حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ آقا کی طرف سے آزاد کئے جانے یا آقا کے مرجانے کی صورت میں ام ولد کی عدت ایک حیض ہے حنفیہ میں سے حضرت امام محمد کا بھی یہی قول ہے۔