105. نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان

【1】

نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان

نفقات نفقہ کی جمع ہے اور نفقہ اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو خرچ کی جائے جب کہ شرعی اصطلاح میں طعام لباس اور سکنی مکان کو نفقہ کہتے ہیں چونکہ نفقہ کی کئی نوعیتیں اور قسمیں ہوتی ہیں جیسے بیوی کا نفقہ اولاد کا نفقہ والدین کا نفقہ اور عزیز و اقا رب کا نفقہ وغیرہ اس لئے نفقہ کی ان انواع کے اعتبار سے عنوان میں نفقات یعنی جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے نیز یہاں نفقہ سے اس کا عام مفہوم مراد ہے خواہ واجب ہو یا غیر واجب ہو۔ لونڈی غلام کے حقوق کا مطلب ہے ان کو کھلانا پہنانا اور ان پر ایسے کاموں کا بوجھ نہ ڈالنا جو ان کی طاقت و ہمت سے باہر ہوں۔ بیوی کے نفقہ کے احکام و مسائل مرد پر اپنی بیوی کا نفقہ یعنی کھانے پینے کا خرچ لباس اور مکان دینا واجب ہے چاہے مرد عمر میں اپنی بیوی سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو اور خواہ بیوی مسلمان ہو یا کافرہ ہو خواہ بالغہ ہو یا ایسی نابالغہ ہو جس سے جماع نہ کیا جاسکتا ہو لیکن نفقہ واجب ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس بیوی نے اپنے آپ کو شوہر کے گھر میں شوہر کے سپرد کردیا ہو اگر سپرد نہ کیا ہو تو اس کی وجہ یا تو اس کا کوئی حق ہو کہ جس کو ادا کرنے سے انکار کرتا ہو یا خود شوہر سپرد کرنے کا مطالبہ نہ کرتا ہو۔ بہتر یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو اپنا ہم پیالہ وہم نوالہ بنائے دونوں ایک ساتھ رہیں اور حیثیت کے مطابق جو کچھ میسر ہو اس میں دونوں گزارہ کریں اور جیسا کہ شریف گھرانوں کا قاعدہ ہے شوہر باہر کسب معاش کرے اور بیوی گھر کے انتظامات کی ذمہ دار بنے شوہر جو کچھ کمائے اس کے مطابق جنس و سامان گھر میں مہیا کرے اور بیوی اپنی سلیقہ شعاری کے ذریعہ اس جنس و سامان کو پورے گھر اور متعلقین کی ضرورتوں میں صرف کرے اور اگر کسی وجہ سے شوہر و بیوی کا اس طرح ہم پیالہ وہم نوالہ رہنا ممکن نہ ہو اور بیوی قاضی و حاکم کے یہاں یہ درخواست کرے کہ میرے لئے شوہر پر نفقہ مقرر کردیا جائے تو حاکم و قاضی کی طرف سے بیوی کے لئے ماہانہ نفقہ کھانے پینے کا خرچ مقرر کردیا جائے گا۔ اور وہ مقرر مقدار اس کے سپرد کردیا جائے گا اسی طرح ایک سال میں دو مرتبہ کپڑا دینا مقرر کیا جائے گا اور وہ مقرر کپڑا ہر ششماہی پر اس کے حوالہ کردیا جائے گا اگر قاضی وحاکم نے عورت کے لئے ماہانہ نفقہ مقرر کردیا تو شوہر اس کو ماہانہ ادا کرے گا اور اگر شوہرنے ماھانہ نہ دیا اور عورت نے روزانہ طلب کیا تو شام کے وقت عورت کو مطالبہ کرنے کا اختیار ہوگا۔ نفقہ مقرر کرنے کے سلسلہ میں اس مقدار کا لحاظ رکھا جائے گا جو بیوی کے لئے کافی ہو اور بغیر کسی اسراف و تنگی کے اپنا گزارہ کرسکے۔ رہی معیار کی بات تو اس میں میاں بیوی دونوں کی حالت و حیثیت کا اعتبار ہوگا اگر وہ دونوں مالی طور پر اچھی حالت و حیثیت کے مالک ہیں تو اچھی ہی حیثیت کا نفقہ بھی واجب ہوگا اور اگر وہ دونوں تنگ دست و مفلس ہوں تو نفقہ بھی اسی کے اعتبار سے واجب ہوگا اور اگر یہ صورت ہو کہ میاں تو خوش حال ہو اور بیوی تنگدست ہو یا میاں تنگدست ہو اور بیوی خوشحال ہو تو پھر درمیانی درجہ کا نفقہ واجب ہوگا یعنی وہ نفقہ دیا جائے گا جو خوشحالی کے درجہ سے کم ہو اور تنگدستی کے درجہ سے زیادہ ہو اور بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ بہرصورت شوہر ہی کی حالت کا اعتبار کیا جائے گا وہ جس حالت و حیثیت کا ہوگا اسی کے مطابق نفقہ مقرر کیا جائے گا خواہ بیوی کسی بھی حیثیت وحالت کی مالک ہو۔ اگر شوہر و بیوی کے درمیان خوشحالی و تنگدستی کے بارے میں اختلاف پیدا ہوجائے یعنی شوہر تو کہے کہ میں تنگدست ہوں اس لئے تنگدستی کا نفقہ دوں گا اور بیوی کہے کہ نہیں تم خوشحال ہو اس لئے میں خوشحالی کا نفقہ لوں گی اور پھر یہ معاملہ حاکم وقاضی کی عدالت میں پہنچے اور بیوی اپنے دعوی کے گواہ پیش کر دے تو ان گواہوں کا اعتبار کر کے بیوی کے لئے خوشحالی کا نفقہ مقرر کیا جائے گا اور اگر بیوی نے گواہ پیش نہ کئے تو پھر شوہر کے قول کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر بیوی کے ساتھ کوئی خادم یا خادمہ بھی ہے اور شوہر خوشحال ہے تو عورت کے نفقہ کے ساتھ اس خادم یا خادمہ کا نفقہ بھی شوہر پر واجب ہوگا اور اگر شوہر تنگ دست ہو تو اس خادم یا خادمہ کا نفقہ شوہر پر لازم نہیں ہوگا۔ اگر حاکم و قاضی نے شوہر کی تنگدستی کی وجہ سے اس کی بیوی کے لئے تنگدستی کا نفقہ مقرر کردیا اور پھر شوہر خوش حال ہوگیا اور بیوی نے خوش حالی کے نفقہ کا دعوی کردیا تو اس کے لئے خوشحالی کا نفقہ مقرر کیا جائے گا اور اگر شوہر کی خوش حالی کی وجہ سے بیوی کے لئے خوشحالی کا نفقہ مقرر کیا گیا تھا اور پھر شوہر تنگدست ہوگیا تو اب تنگدستی کا نفقہ مقرر کردیا جائے گا۔ جو عورت شوہر کی وفات کی عدت میں ہو اس کو نفقہ نہیں ملتا خواہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ ہو اسی طرح جو بیوی نافرمان ہوجائے یعنی شوہر کی اجازت کے بغیر اور بلا کسی وجہ کے شوہر کے گھر سے چلی جائے تو اس کا نفقہ بھی شوہر پر واجب نہیں ہوگا۔ نیز جو بیوی کسی دین یعنی قرض وغیرہ کی عدم ادائیگی کی جہ سے قید خانہ میں ڈال دی گئی ہو یا اپنے میکہ میں ایسی بیمار ہو کہ شادی کے بعد شوہر کے گھر نہ بھیجی گئی ہو، یا اس کو کوئی غاصب لے کر بھاگ گیا ہو یا وہ اتنی کم عمر ہو کہ اس کے ساتھ جماع نہ کیا جاسکتا ہو اور یا بغیر شوہر کے حج کو چلی گئی ہو تو اس کا نفقہ بھی شوہر پر واجب نہیں ہوگا ہاں جو بیوی شوہر کے ساتھ حج کو جائے گی اس کا حضر کا نفقہ شوہر پر واجب ہوگا سفر کا خرچ اور سواری کا کرایہ واجب نہیں ہوگا۔ اگر بیوی اپنے میکہ میں بیمار ہوئی اور نکاح کے بعد ہی شوہر کے گھر بھیجی گئی تو اس کا نفقہ بھی شوہر پر واجب نہیں ہوگا البتہ جو بیوی اپنے شوہر کے گھر آ کر بیمار ہوئی ہے اس کا نفقہ شوہر پر واجب ہوگا۔ شوہر کو چاہئے کہ بیوی کے رہنے کا ٹھکانہ و مکان شرعی مقاصد کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق خود مقرر و مہیا کرے اور وہ مکان ایسا ہونا چاہئے جو خود اس کے اہل و عیال اور اس بیوی کے اہل و عیال سے خالی ہو اور اگر خود بیوی ان اہل و عیال کے ساتھ رہنا چاہے تو پھر اس طرح کا مکان بنادینا واجب نہیں رہے گا۔ اگر شوہر کے گھر میں کئی کمرے ہوں اور ان میں سے ایک کمرہ کہ جس میں کواڑ اور تالہ کنجی وغیرہ ہو خالی کر کے بیوی کو دیدے تو یہ کافی ہے بیوی کو دوسرے کمرے کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ اگر شوہر چاہے کہ گھر میں بیوی کے پاس اس کے عزیز و اقا رب کو اگرچہ دوسرے شوہر سے اس بیوی کا لڑکا ہی کیوں نہ ہو) آنے سے منع کر دے تو اس کو اس کا حق ہے ہاں اگر بیوی کے وہ عزیز واقا رب اس کے محرم ہوں تو ان کو بیوی کا سامنا کرنے یا اس سے بات چیت کرنے سے روکنے کا حق اس کو نہیں ہے اسی طرح شوہر کو یہ بھی حق نہیں ہے کہ وہ مہینہ میں ایک بار بیوی کو اپنے والدین کے پاس جانے یا والدین کو اس کے پاس آنے سے روکے یعنی ہفتہ میں ایک بار سے زائد آنے جانے سے روک سکتا ہے) اور والدین کے علاوہ دوسرے ذی رحم محرم رشتہ داروں کے پاس سال بھر میں ایک مرتبہ بیوی کے جانے یا بیوی کے پاس ان کے آنے پر پابندی عائد کرنے کا حق نہیں ہے یعنی سال بھر میں ایک بار سے زائد ان کے آنے پر پابندی عائد کرسکتا ہے۔ جو عورت طلاق کی عدت میں ہو وہ شوہر سے نفقہ اور رہنے کے لئے مکان پانے کی مستحق ہے خواہ طلاق رجعی ہو یا بائن ہو یا مغلظہ ہو اور خواہ عورت حاملہ ہو یا غیرحاملہ ہو، اسی طرح جو عورت ایسی تفریق جدائی کی عدت میں ہو جو کسی معصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی شرعی حق کی وجہ سے واقع ہوئی ہو تو اس کا نفقہ وسکنی بھی شوہر کے ذمہ ہوگا، مثلا کوئی ام ولد یا مدبرہ کسی کے نکاح میں تھی اور پھر خیار عتق کی بناء پر اس نے شوہر سے جدائی اختیار کرلی یا کسی نابالغہ کا نکاح اس کے ولی نے کسی شخص سے کردیا تھا اور پھر اس نے بالغ ہونے کے بعد خیار بلوغ کی بناء پر اس شوہر سے جدائی اختیار کرلی تو ان صورتوں میں بھی عورت نفقہ اور سکنی پانے کی مستحق ہوگی اور اگر عورت کسی ایسی تفریق (جدائی) کی عدت میں ہو جو کسی معصیت کی بناء پر واقع ہوئی ہو اور اس کا نفقہ وسکنی شوہر کے ذمہ نہیں ہوگا، مثلا عورت نعوذ باللہ مرتد ہوگئی یا اس نے شوہر کے بیٹے سے کوئی ایسا برا فعل کرا لیا جس سے شوہر پر حرام ہوگئی جیسے اس سے ہم بستری کرلی یا اس کو شہوت سے چھو لیا یا اس کا بوسہ لیا اور اس کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان جدائی واقع ہوگئی اور وہ عدت میں بیٹھ گئی تو ان صورتوں میں وہ شوہر سے کھانے پینے کا خرچ اور رہنے کے لئے مکان پانے کی مستحق نہیں ہوگی۔ اگر کسی عورت کو تین طلاقیں دی گئیں اور وہ عدت میں بیٹھ گئی نیز نفقہ وسکنی کی حقدار رہی لیکن پھر زمانہ عدت میں نعوذ باللہ مرتد ہوگئی تو اس کے نفقہ وسکنی کا حق ساقط ہوجائے گا اور اگر عورت نے اپنے زمانہ عدت میں شوہر کے لڑکے یا شوہر کے باپ سے ناجائز تعلق قائم کرلیا یا شہوت سے بوس و کنار کرا لیا تو نفقہ وسکنی کی مستحق رہے گی بشرطیکہ وہ عدت طلاق رجعی کی نہ ہو بلکہ طلاق بائن مغلظہ کی ہو۔ اولاد کے نفقہ کے احکام ومسائل نابالغ اولاد جس کی ذاتی ملکیت میں کچھ بھی مال واساب نہ ہو کے اخراجات اس کے باپ کے ذمہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ باپ خود تنگدست ومفلسی کیوں نہ ہو کوئی دوسرا آدمی اس ذمہ داری میں شریک نہیں کیا جائے گا۔ اگر بچہ ابھی دودھ پیتا ہو اور اس کی ماں اس کے باپ کے نکاح میں ہو نیز وہ بچہ دوسری عورت کا دودھ پی لیتا ہو اور اس کی ماں اس کو دودھ پلانا نہ چاہتی ہو تو اس ماں کو دودھ پلانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا ہاں اگر بچہ کسی دوسری عورت کا دودھ پیتا ہی نہ ہو یا ماں کے علاوہ دودھ پلانے والی نہ ملے تو اس صورت میں وہ دودھ پلانے پر مجبور کی جائے گی۔ اگر ماں بچہ کو دودھ پلانے سے انکار کر دے اور کوئی دوسری عورت دودھ پلانے والی ملتی ہو تو یہ حکم ہے کہ باپ دودھ پلانے والی کو مقرر کر دے جو بچہ کو ماں کے پاس آ کر دودھ پلائے اب اگر اس بچہ کی ذاتی ملکیت میں مال موجود ہو تو اس دودھ پلانیوالی کی اجرت اس بچہ کے مال سے دی جائے گی۔ اگر بچہ کی ذاتی ملکیت میں مال موجود نہ ہو تو پھر دودھ پلانے کی اجرت باپ کے ذمہ ہوگی۔ اگر باپ بچہ کی ماں کو دودھ پلانے کے لئے اجارہ پر مقرر کرے اور وہ اس کے نکاح میں ہو یا طلاق رجعی کی عدت میں ہو تو یہ جائز نہیں ہے ہاں اگر وہ ماں طلاق بائن یا طلاق مغلظہ کی عدت میں ہو تو اس کو بھی دودھ پلانے کیلئے اجرت پر رکھنا بعض حضرات کے نزدیک تو ناجائز ہے اور بعض حضرات کے نزدیک جائز ہے اسی طرح عدت گزرنے کے بعد ماں کو دودھ پلانے کے لئے اجرت پر رکھ لینا جائز ہے بلکہ اس صورت میں تو وہ ماں دودھ پلانیوالی کسی دوسری عورت کی بہ نسبت زیادہ اجرت کا مطالبہ نہ کرے تو اس کی حماقت ہوگی۔ اگر کوئی شخص اپنی منکوحہ یا معتدہ کو اپنے اس بچہ کو دودھ پلانے کے لئے اجرت پر رکھے جو دوسری بیوی کے بطن سے ہو تو یہ اجارہ جائز ہے اگر کسی کی بالغ بیٹی بالکل مفلس و تنگدست ہو یا بالغ بیٹا اپاہج و معذور ہو تو ان کے اخراجات بھی باپ ہی کے ذمہ ہوں گی چناچہ فتوی اسی پر ہے جبکہ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ان کے اخراجات کا دو تہائی حصہ باپ کے ذمہ اور ایک حصہ ماں کے ذمہ ہوگا۔ والدین کے نفقہ کے احکام ومسائل اصول یعنی باپ دادا دادی نانا نانی ( خواہ اس کے اوپر کے درجہ کے ہوں) اگر محتاج ہوں تو ان کے اخرجات کی ذمہ داری اولاد پر ہے بشرطیکہ اولاد خوشحال وتونگر ہو اور خوشحال وتونگر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اولاد مالی طور پر اس حیثیت ودرجہ کی ہو کہ اس کو صدقہ وزکوۃ کا مال لینا حرام ہو اگر تونگر اولاد میں مذکر ومؤنث یعنی بیٹا اور بیٹی دونوں ہوں تو اس نفقہ کی ذمہ داری دونوں پر برابر ہوگی۔ محتاج شخص کا نفقہ واجب ہونے کے سلسلے میں قرب وجزئیت کا اعتبار ہے نہ کہ وارث کا مثلا اگر کسی محتاج شخص کی بیٹی اور پوتا دونوں مال دار ہوں تو اس کا نفقہ بیٹی پر واجب ہوگا باوجودیکہ اس شخص کی میراث دونوں کو پہنچتی ہے اسی طرح اگر کسی محتاج شخص کی نواسی اور بھائی دونوں مالدار ہوں تو اس کا نفقہ نواسی پر واجب ہوگا اگرچہ اس شخص کی میراث کا مستحق صرف بھائی ہوگا۔ ذوی الارحام کے نفقہ کے احکام ومسائل ہر مالدار شخص پر اس کے ہر ذی رحم محرم کا نفقہ واجب ہے بشرطیکہ وہ ذی رحم محرم محتاج ہو یا نابالغ ہو یا مفلس عورت ہو یا اپاہج ومعذور ہو یا اندھا ہو یا طالب علم ہو اور یا جہل و بیوقوفی یا کسی اور عذر کی بنا پر کمانے پر قادر نہ ہو اور اگر وہ مالدار شخص ان لوگوں پر خرچ نہ کرے تو اس کو خرچ کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ ذی رحم محرم رشتہ داروں کا نفقہ مقدار میراث کے اعتبار سے واجب ہوتا ہے۔ اور میراث کی مقدار کے اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنی محتاجی و تنگدستی کی وجہ سے اپنے ذی رحم محرم رشتہ داروں سے نفقہ حاصل کرنے کا مستحق ہے اگر اس کو مردہ تصور کرلیا جائے اور اس کی میراث کو اس کے ان ذی رحم محرم وارثوں پر تقسیم کیا جائے تو جس وارث کے حصہ میں میراث کی جو مقدار آئے گی وہی مقدار اس کے نفقہ کے طور پر اس ذی رحم محرم پر واجب ہوگی مثلا زید ایک محتاج و تنگدست شخص ہے اس کے قریبی اعزاء ہیں صرف تین متفرق بہنیں ہیں یعنی ایک تو حقیقی بہن ہے ایک سوتیلی بہن ہے اور ایک اخیافی بہن ہے ان تینوں بہنوں پر زید کا نفقہ واجب ہے جس کو وہ تینوں اس طرح پورا کریں گی کہ زید کا پورا نفقہ پانچ برابر برابر حصوں میں کر کے تین خمس تو حقیقی بہن کے ذمہ ہوگا ایک خمس سوتیلی بہن کے ذمہ ہوگا اور ایک خمس اخیافی بہن کے ذمہ ہوگا مقدار کی یہ تقسیم بالکل اسی طرح ہے جس طرح ید کے ترکہ میں سے ان بہنوں کے حصہ کی میراث کی تقسیم ہوگی۔ نیز اس سلسلہ میں مقدار میراث کا درحقیقت ہر وقت متعین و معلوم ہونا شرط نہیں ہے بلکہ محض وراثت کی اہلیت کا ہونا شرط ہے چناچہ اگر زید (جو محتاج ومفلس ہے) کا ایک ماموں ہے اور ایک چچا زاد بھائی ہے اور وہ دونوں ہی مالدار ہیں تو زید کا نفقہ اس کے ماموں پر واجب ہوگا۔ جو شخص محتاج ومفلس ہو اس پر کسی کا نفقہ واجب نہیں ہوتا خواہ وہ والدین ہوں یا ذی رحم محرم رشتہ دار لیکن بیوی اور اولاد کا نفقہ اس پر ہر حال میں واجب رہے گا۔ دین و مذہب کے اختلاف کی صورت میں ایک دوسرے پر نفقہ واجب نہیں ہوتا لیکن بیوی والدین دادا دادی اور اولاد اور اولاد کی اولاد خواہ مذکر ہوں یا مؤنث یہ لوگ اس حکم سے مستثنی ہیں ان کا نفقہ دین و مذہب کے اختلاف کے باوجود واجب ہوتا ہے۔ محتاج باپ کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے نفقہ کے لئے اپنے لڑکے کا مال یعنی اشیاء منقولہ بیچ سکتا ہے لیکن عقار یعنی اشیاء غیر منقولہ جیسے زمین و باغات کو بیچنے کا اختیار نہیں ہوگا اسی طرح اس لڑکے پر اگر باپ کا نفقہ کے علاوہ کوئی اور دین یعنی قرض و مطالبہ ہو تو اس کے لئے لڑکے کی اشیاء منقولہ کو بھی بیچنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ نیز ماں کو اپنے لڑکے کا بھی کوئی مال خواہ اشیاء منقولہ ہو یا غیرمنقولہ بیچنے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا اور صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک تو باپ کو بھی اشیاء منقولہ کے بیچنے کا اختیار نہیں ہے۔ باندی اور غلام کے نفقہ کے احکام ومسائل آقا پر اپنے غلام اور باندی کے اخراجات کی کفالت ضروری ہے خواہ ان میں ملکیت پوری ہو جسے خالص غلام یا ادھوری ہو جیسے مدبرہ اور ام ولد اور خواہ کمسن ہوں یا بڑی عمر والے اور خواہ اپاہج و معذور ہوں۔ یا بالکل تندرست و توانا ہوں۔ اگر کوئی شخص اپنے غلاموں کی کفالت سے انکار کرے تو وہ غلام اس بات کے مختار ہوں گے کہ محنت و مزدوری کریں اور جو کچھ کمائیں اس سے اپنے اخراجات پورے کریں اور اگر ان کے لئے کوئی مزدوری کا کام نہ ہو اور وہ کما کر اپنے اخراجات پورے نہ کرسکتے ہوں تو پھر قاضی وحاکم کی طرف سے آقا کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ ان غلاموں کو فروخت کر دے۔ اگر کسی شخص نے کوئی جانور خریدا تو اس پر جانور کے چارہ پانی کا انتظام کرنا واجب ہے لیکن اگر ان کو چارہ پانی دینے سے انکار کردیا تو اس کو قانونی طور پر اس جانور کو فروخت کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ لیکن دیانۃً اور اخلاقی طور پر اس کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اس جانور کو فروخت کر دے یا اس کے چارہ پانی کا انتظام کرے۔

【2】

بیوی اور اولاد کا بقدرضرورت نفقہ خاوند پرواجب ہے

ام المؤمنین حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہندہ بنت عتبہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میرا شوہر ابوسفیان بہت بخیل اور حریص ہے وہ مجھ کو اتنا خرچ نہیں دیتا جو مجھے اور میری اولاد کی ضروریات کے لئے کافی ہوجائے البتہ اگر میں اس کے مال میں سے خود کچھ نکال لوں اس طرح اس کو خبر نہ ہو تو ہماری ضروریات پوری ہوجاتی ہیں تو کیا یہ جائز ہے کہ میں شوہر کو خبر کئے بغیر اس کے مال میں سے اپنی اور اولاد کی ضروریات کے بقدر کچھ نکال لوں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی اور اپنی اولاد کی ضروریات کے بقدر کہ جو شریعت کے مطابق ہو یعنی اوسط درجہ کا خرچ اس کے مال میں سے لے لیا کرو ( بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ نفقہ بقدر ضرورت واجب ہے۔ چناچہ تمام علماء کا اس پر اجماع و اتفاق ہے امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے کئی مسئلے ثابت ہوتے ہیں (١) مرد پر اس کی بیوی اور نابالغ اولاد (جس کی ذاتی ملکیت میں مال نہ ہو) کا نفقہ واجب ہے (٢) نفقہ ضرورت و حاجت کے بقدر واجب ہوتا ہے (٣) فتوی دیتے وقت یا کوئی شرعی حق نافذ کرتے وقت اجنبی عورت کا کلام سننا جائز ہے (٤) کسی شخص کے بارے میں ایسی کوئی بات بیان کرنا کہ جس کو اگر وہ سنے تو ناگواری محسوس کرے جائز ہے بشرطیکہ یہ بیان کرنا کہ کوئی مسئلہ پوچھنے یا فتوی لینے کی غرض سے ہو (٥) اگر کسی شخص پر کسی دوسرے شخص کا کوئی مالی مطالبہ ہو اور وہ اس کی ادائیگی نہ کرتا ہو تو مطالبہ والے کے لئے جائز ہے کہ وہ اس شخص کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اپنے مطالب کے بقدر لے لے (٦) بیوی بھی اپنے شوہر کے مال کے ذریعہ اپنی اولاد پر خرچ کرنے اور ان کی کفالت کرنے کی ذمہ دار ہے (٧) بیوی کو اپنی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنا جائز ہے خواہ شوہر نے اس کی صریحًا اجازت دیدی ہو یا بیوی کو اس کی رضا مندی کا علم ہو (٨) قاضی اور حاکم کو یہ اختیار ہے کہ اگر وہ کسی معاملہ میں مناسب سمجھے تو محض اپنے علم اور اپنی معلومات کی بنیاد پر حکم جاری کر دے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے ہندہ سے گواہ طلب نہیں کئے بلکہ اپنی معلومات کی بنیاد پر حکم دیدیا۔

【3】

اللہ کی عطا کی ہوئی دولت کو پہلے اپنے اور اپنے اہل وعیال پر خرچ کرو

اور حضرت جابر ابن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کو مال و دولت عطا کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ پہلے اپنی ذات پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے پھر اس کے بعد حسب مراتب اپنے دیگر متعلقین اور اعزاء اور فقراء و مساکین پر خرچ کرے (مسلم)

【4】

غلام کا نفقہ اس کے مالک پرواجب ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے غلام کے بارے میں فرمایا کہ اس کی روٹی کپڑا اس کے آقا کے ذمہ ہے اور یہ کہ اس سے صرف اتنا کام لیا جائے جو اس کی طاقت وہمت کے مطابق ہو۔ تشریح اس حدیث میں غلام کے بارے میں دو ہدایتیں ہیں ایک تو یہ کہ غلام کا نفقہ چونکہ اس کے مالک پر واجب ہے اس لئے مالک کو چاہئے کہ وہ اپنے غلام کو اس کی حاجت کے بقدر اور اپنے شہر کے عام دستور کے مطابق اس کو روٹی کپڑا دے یعنی اس کے شہر میں عام طور پر غلام کو جس مقدار میں اور جس معیار کا روٹی اور کپڑا دیا جاتا ہے اسی کے مطابق وہ بھی دے، دوسری ہدایت یہ ہے کہ اپنے غلام کو کوئی ایسا کام کرنے کا حکم نہ دیا جائے جس پر وہ مداومت نہ کرسکتا ہو اور جو اس کی ہمت و طاقت سے باہر ہو یا جس کی وجہ سے اس کے جسم میں کوئی ظاہری نقصان پہنچ سکتا ہو۔ گویا اس ہدایت کے ذریعہ یہ احساس دلایا گیا ہے کہ انسان اپنے غلام کے بارے میں یہ حقیقت ذہن میں رکھے کہ جس طرح مالک حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ان کی طاقت و ہمت سے زیادہ کی عمل وفعل کا بار نہیں ڈالا ہے اور ان کو انہی احکام کا پابند کیا ہے جو ان کے قوائے فکر و عمل کے مطابق ہیں اسی طرح بندوں کو بھی جو مالک مجازی ہیں یہی چاہئے کہ وہ اپنے مملوک یعنی غلام پر کہ جو انہی کی طرح انسان ہیں ان کی طاقت وہمت سے باہر کسی کام کا بار نہ ڈالیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ حدیث مرفوع منقول ہے کہ غلام کے تئیں مالک کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں (١) جب غلام نماز پڑھ رہا ہو تو اس کو جلد بازی کا حکم نہ دے (٢) جب وہ کھانا کھا رہا ہو تو اس کو اپنے کسی کام کے لئے نہ اٹھائے ( ٣) اس کو اتنا کھانا دے جس سے اس کا پیٹ اچھی طرح بھر جائے۔

【5】

غلام کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم

اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا غلام تمہارے بھائی ہیں اور دین وخلقت کے اعتبار سے تمہاری ہی طرح ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری آزمائش کے لئے ما تحت بنایا ہے لہذا اللہ تعالیٰ جس شخص کے بھائی کو اس کا ماتحت بنائے یعنی جو شخص کسی غلام کا مالک بنے تو اس کو چاہئے کہ وہ جو خود کھائے وہی اس کو بھی کھلائے اور جو خود پہنے وہی اس کو بھی پہنائے نیز اس سے کوئی ایسا کام نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور اگر کوئی ایسا کام اس سے لئے جائے جو اس کی طاقت سے باہر ہو تو اس کام میں خود بھی اس کی مدد کرے ( بخاری ومسلم) تشریح امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے ذریعہ مالک کو یہ حکم دینا کہ وہ اپنے غلام کو ہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اس کو وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے وجوب کے طور پر نہیں بلکہ بطریق استحباب ہے چناچہ مالک اس کے مملوک کا اسی حیثیت و مقدار کا نفقہ واجب ہے جو عرف عام اور رواج و دستور کے مطابق ہو خواہ وہ مالک کے کھانے کپڑے کے برابر ہو یا اس سے کم و زیادہ ہو یہاں تکہ کہ اگر مالک خواہ اپنے زہد وتقوی کی بناء پر یا ازارہ بخل اپنے کھانے پینے اور پہننے میں اس طرح کی تنگی کرتا ہو جو اس حیثیت کے لوگوں کے معیار کے منافی ہے تو ایسی تنگی مملوک کے حق میں جائز نہیں ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو کام غلام کے لئے مشکل نظر آئے اور وہ اس کو پورا کرنے میں دقت محسوس کرے تو اس کام کی تکمیل میں غلام کی مدد کرو خواہ خود اس کا ہاتھ بٹاؤ یا کسی دوسرے شخص کو اس کی مدد کرنے پر متعین کرو چناچہ بعض بزرگوں کے بارے میں منقول ہے کہ وہ چکی پیسنے میں اپنی لونڈیوں کی مدد کرتے تھے بایں طور کہ ان لونڈیوں کے ساتھ مل کرچکی پیستے تھے۔

【6】

غلام کی روزی روکنا گناہ ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کے بارے میں منقول ہے کہ ایک دن ان کے پاس ان کا کارندہ آیا تو انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے غلام اور لونڈیوں کو ان کا کھانا دیدیا ہے اس نے کہا کہ نہیں انہوں فرمایا کہ فورًا واپس جاؤ اور ان کو ان کا کھانا دو کیونکہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آدمی کے گناہ کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مملوک کو کھانا نہ دے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا آدمی کے گناہ کے لئے یہ کافی ہے کہ جس شخص کی روزی اس کے ہاتھ میں ہے یعنی اپنے اہل و عیال اور غلام لونڈی وہ اس کی روزی ضائع کرے (مسلم)

【7】

اپنے خادم ونوکرکے ساتھ کھنا کھانے میں عارمحسوس نہ کرو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لئے کھانا تیار کرے اور پھر وہ کھانا لے کر اس کے پاس آئے تو جس کھانے کے لئے اس نے گرمی اور دھوپ میں تکلیف اٹھائی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ آقا اس خادم کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھائے اور اس کے ساتھ کھانا کھائے اور اگر کھانا تھوڑا ہو اور کھانے والے زیادہ ہوں تو اس کھانے میں سے ایک دو لقمہ لے کر اس کے ہاتھ پر رکھ دے ( مسلم) تشریح اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے خادموں اور نوکروں کے ساتھ کھانا کھانے میں عار محسوس نہ کرے کیونکہ خادم و نوکر بھی ایک انسان اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کا بھائی ہے پھر اس میں یہ حکمت بھی ہے کہ ایک دستر خوان پر جتنے زیادہ لوگ ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں اس کھانے میں برکت ہوتی ہے چناچہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ افضل کھانا وہ ہے جس میں زیادہ ہاتھ پڑیں یہ بات ملحوظ رہے کہ حدیث میں خادم و نوکر کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھانے یا اس کھانے میں سے اس کو تھوڑا بہت دے دینے کا حکم دیا گیا ہے وہ استحباب کے طور پر ہے۔

【8】

غلام کے لئے دوہرا اجر

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی غلام اپنے آقا کی خیرخواہی کرتا ہے یعنی اس کی دل وجان سے خدمت کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی اچھی طرح کرتا ہے تو اس کو دوہرا ثواب ملتا ہے ( بخاری ومسلم) تشریح اس کو دوہرا ثواب ملنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک ثواب تو اپنے آقا کی خدمت کی وجہ سے اور ایک ثواب اللہ تعالیٰ کی عبادت کے سبب سے ملتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اپنے آقا کی خیرخواہی یعنی اس کی خدمت کرنا بھی عبادت ہے بلکہ حقیقت میں وہ بھی اللہ کی عبادت ہے۔ کیونکہ عبادت کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کرنا اور چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اپنے آقا کی خدمت و خیرخواہی کی جائے اس لئے جو غلام اپنے آقا کی خدمت کرتا ہے درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کرتا ہے جیسا کہ ماں باپ کی خدمت و فرمانبرداری کرنیوالے کو اسی لئے ثواب ملتا ہے کہ وہ والدین کی خدمت و اطاعت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کرتا ہے بعض حضرات اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ غلام کو اس کے ہر عمل پر دوہرا ثواب ملتا ہے۔

【9】

غلام کے لئے بہتربات کیا ہے؟

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک غلام کے لئے اس سے بہتر کیا بات ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے مالک کی بہترین خدمت اور اپنے پروردگار کی اچھی عبادت کرتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دے (یعنی غلام کے لئے سب سے بڑی سعادت یہی ہے کہ اس کی پوری زندگی اپنے مالک حقیقی کی اطاعت و عبادت اور مالک مجازی کی خدمت و فرمانبرداری میں گزرے (بخاری ومسلم)

【10】

مفرورغلام کی نماز قبول نہیں ہوتی

اور حضرت جریر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب غلام بھاگ جاتا ہے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ایک روایت میں حضرت جریر سے یہ الفاظ منقول ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو غلام بھاگ گیا اس سے ذمہ ختم ہوگیا ایک روایت میں حضرت جریر ہی سے یہ منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو غلام اپنے مالکوں کے ہاں سے بھاگا وہ کافر ہوگیا جب تک کہ ان کے پاس واپس نہ آجائے ( مسلم) تشریح اس سے ذمہ ختم ہوگیا کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی غلام بھاگ کر دار الحرب چلا گیا اور مرتد ہوگیا تو اس سے اسلام کی ذمہ داری ختم ہوگئی اور اس کے مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلام کے درمیان جو عہد وامان تھا اور جس کی وجہ سے اسلامی قانون اس کی جان ومال کی حفاظت کا ضامن تھا وہ منقطع ہوگیا لہذا اس کو قتل کردینا جائز ہوگیا ہاں اگر وہ اپنے مالکوں کے ہاں سے بھاگ کر دار الحرب نہیں گیا بلکہ مسلمانوں ہی کے شہر میں چلا گیا اور مرتد نہیں ہوا تو اس کو قتل کرنا جائز نہیں ہوگا اس صورت میں یہ جملہ اس سے ذمہ ختم ہوگیا کا مطلب یہ ہوگا کہ اس غلام کو بھاگنے کے جرم میں جائے تو نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ اسلامی قانون اس کی کوئی مدافعت نہیں کرے گا۔ وہ کافر ہوگیا کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس نے بھاگنے کو حلال جانا یعنی وہ اس عقیدے کے ساتھ بھاگا کہ وہ مالک کے ہاں سے میرا مفرور ہوجانا کوئی گناہ کی بات نہیں ہے بلکہ یہ جائز ہے تو وہ حقیقۃ کافر ہوگیا اور اگر اس نے بھاگنے کو حلال نہیں جانا تو پھر اس صورت میں اس جملہ کا مطلب یا تو یہ ہوگا کہ وہ کفر کے قریب پہنچ گیا یا یہ کہ اس کے دائرہ کفر میں داخل ہوجانے کا خوف ہے یا اس نے کافروں کا سا عمل کیا اور یا یہ کہ اس نے اپنے مالک کا کفران نعمت کیا۔

【11】

غلام پر زنا کی جھوٹی تہمت لگانے والے کا مسئلہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے سنا ابوالقاسم (نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص اپنے بردہ پر زنا کی تہمت لگائے جبکہ حقیقت میں وہ اس بات سے پاک ہو جو اس کے بارے میں کہی گئی ہے تو قیامت کے دن اس شخص کو کوڑے مارے جائیں گے ہاں اگر وہ غلام واقعۃً ایسا ہو جیسا کہ کہا گیا یعنی اگر تہمت درست ہو تو پھر اس مالک کو کوڑے نہیں مارے جائیں گے ( بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام پر زنا کی جھوٹی تہمت لگائے تو اس کی سزا میں اگرچہ دنیا میں اس کو کوڑے نہیں لگائے جائیں گے لیکن آخرت میں تمام مخلوق کے سامنے اس کو اسطرح ذلیل کیا جائے گا کہ اس کو کوڑے لگائیں جائیں گے اس سے معلوم ہوا کہ غلام کی عزت وآبرو کا بھی اتنا ہی خیال رکھنا چاہئے جتنا ایک آزاد شخص کی عزت و حرمت کا لحاظ کیا جاتا ہے اور وہ لوگ بڑے نادان ہیں جو اپنے زیردستوں نوکروں اور غلاموں کو بےمحابا گالیاں دیتے ہوئے آخرت کے عذاب سے نہیں ڈرتے۔

【12】

غلام کو بلا خطا مارنے کا کفارہ

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو اپنے غلام کو ایسی سزا دے جس کا کوئی جرم ہی نہیں ہے یعنی بےگناہ مارے یا اس کو طمانچہ مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس غلام کو آزاد کر دے ( مسلم) تشریح یوں تو بلا کسی وجہ کے کسی بھی شخص کو طمانچہ مارنا حرام ہے۔ لیکن یہاں بطور خاص غلام کا ذکر کیا گیا ہے کہ اس کو بلا گناہ مارنے یا اس کے منہ پر طمانچہ لگانے کا تاوان یہ ہے کہ وہ اس غلام کو آزاد کر دے۔ اور حضرت ابومسعود انصاری کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے غلام کو پیٹ رہا تھا کہ میں نے اپنی پشت پر یہ آواز سنی ابومسعود ! یاد رکھو اللہ تعالیٰ تم پر اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے جتنی قدرت تم اس غلام پر رکھتے ہو جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رسول کریم ﷺ تھے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے اپنے اس فعل پر ندامت ہے اب میں اس غلام کو اللہ کی راہ میں آزاد کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا یاد رکھو اگر تم اس غلام کو آزاد نہ کرتے تو تمہیں دوزخ کی آگ جلاتی یا فرمایا کہ تمہیں دوزخ کی آگ لگتی (مسلم) تشریح آنحضرت ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ تم نے اپنے غلام کو مار کر ایک بڑا گناہ کیا تھا۔ یہ اچھا ہوا کہ تم نے اس غلام کو آزاد کردیا اور اس گناہ کے بار سے ہلکے ہوگئے ورنہ چونکہ تم نے اس کو ناحق مارا ہے اس لئے اگر یہ تمہارا قصور معاف نہ کرتا تو اس کو آزاد نہ کرنے کی صورت میں تمہیں دوزخ میں ڈالا جاتا۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعہ دراصل اپنے مملوک کے حق میں نرمی کرنے اور ان کے ساتھ حلم ومروت کا معاملہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ جس غلام کو مارا گیا ہے اس کو آزاد کرنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے اور وہ بھی بایں امید کہ آزاد کرنا ناحق مارنے کے گناہ کا کفارہ ہوجائے۔

【13】

اولاد کی کمائی پر باپ کا حق ہے

حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں مالدار ہوں اور میرا باپ میرے مال کا محتاج ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے باپ کے لئے ہیں کیونکہ تمہاری اولاد تمہاری سب سے بہتر کمائی ہے لہذا اپنی اولاد کی کمائی کھاؤ ( ابوداؤد نسائی ابن ماجہ) تشریح تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے باپ کے لئے ہیں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم پر اپنے باپ کی خدمت و اطاعت واجب ہے اسی طرح تم پر بھی واجب ہے کہ اپنا مال اپنے باپ پر خرچ کرو اور اس کی ضروریات زندگی پوری کرو نیز تمہارے باپ کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ تمہارے مال میں تصرف کرے۔ گویا اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ باپ کا نفقہ بیٹے پر واجب ہوتا ہے اس حدیث کے ضمن میں یہ مسئلہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کے مال میں سے کچھ چرا لے یا اس کی لونڈی سے جماع کرلے تو بسبب شبہ ملکیت اس پر حد شرعی سزا جاری نہیں ہوتی۔ تمہاری اولاد تمہاری سب سے بہتر کمائی ہے کا مطلب یہ ہے کہ انسان محنت ومشقت کر کے جو کچھ کماتا ہے اس میں سب سے حلال اور افضل کمائی اس کی اولاد ہوتی ہے لہذا اولاد جو کچھ کمائے وہ باپ کے لئے حلال ہے اور وہ باپ کے حق میں اپنی کمائی کے مثل ہے اولاد کو باپ کی کمائی اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ دراصل اولاد باپ کے ذریعہ اور اس کی سعی وفعل کے نتیجہ میں وجود میں آتی ہے۔

【14】

مربی کے حق میں یتیم کے مال کا حکم

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں ایک مفلس آدمی ہوں میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور میری نگہداشت میں ایک یتیم ہے تو کیا میں اس کے مال میں سے کچھ کھا لوں آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری نگرانی میں جو یتیم ہے تم اس کے مال میں سے کھا سکتے ہو بشرطیکہ اسراف فضول خرچی نہ کرو خرچ کرنے میں عجلت نہ کرو اور نہ اپنے لئے جمع کرو۔ تشریح یتیم بچہ کے مال میں سے یتیم کے مربی کو اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کی اجازت آنحضرت ﷺ نے تین باتوں سے مشروط کیا پہلی شرط تو یہ کہ اس کے مال میں سے صرف اتنا لیا جائے جو اصل ضروریات زندگی کے بقدر ہو اسراف اور اپنی ضرورت حاجت سے زیادہ خرچ کر کے اس یتیم کے مال کو ضائع نہ کیا جائے دوسری شرط یہ کہ اس کے مال میں سے جو کچھ بھی لیا جائے ضرورت کے وقت لیا جائے چناچہ اس خوف سے کہ اگر یتیم بچہ بالغ ہوگیا تو اپنا تمام مال اپنے قبضہ میں لے لے گا ضرورت سے پہلے ہرگز نہ لیا جائے اور تیسری شرط یہ کہ اپنی ضرورت و حاجت کے نام پر اس کے مال میں سے نکال نکال کر اپنے لئے جمع نہ کیا جائے۔ بہرحال حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ یتیم کے مربی کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اگر محتاج ومفلس ہو تو اس یتیم کے مال میں سے اپنی ضرورت و حاجت کے بقدر اپنے اوپر خرچ کرے لیکن جو مربی خود خوشحال ہو اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے چناچہ یہ مسئلہ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے۔

【15】

غلاموں کے حقوق ادا کرنے کی تاکید

اور حضرت ام سلمہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپ ﷺ اپنے مرض الموت میں یہ فرمایا کرتے تھے کہ نماز پر مضبوطی سے قائم رہو اور جو لوگ تمہاری ملکیت میں ہیں یعنی لونڈی غلام ان کے حقوق ادا کرو ( بیہقی اور احمد و ابوداؤد نے اسی طرح کی روایت حضرت علی (رض) سے نقل کی گئی ہے۔ تشریح نماز پر مضبوطی سے قائم رہو کا مطلب یہ ہے کہ نماز پر مداومت اختیار کرو کوئی نماز بلا عذر شرعی قضا نہ کرو اور نماز کے جو حقوق وآداب ہیں ان کو پورے طور پر ادا کرو۔ لونڈی غلام کا یہ حق ہے کہ ان کا مالک ان کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے، حسب حیثیت کپڑے پہنائے ناحق مارنے اور گالی گلوچ سے اجتناب کرے اور برا بھلا نہ کہے۔ اسی طرح جانوروں کا حق ادا کرنے کا بھی حکم ہے کہ جس شخص کی ملکیت میں جانور ہوں ان کے چارہ پانی کا انتظام کرے اور ان کو ناحق مارنے پیٹنے سے پرہیز کرے چناچہ علماء نے لکھا ہے کہ قیامت کے دن ذمی اور جانوروں کی خصومت مسلمانوں کی خصومت سے زیادہ شدید ہوگی۔

【16】

اپنے مملوک کے ساتھ بد سلوکی کرنے والے کے بارے میں وعید

اور ابوبکر صدیق نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے مملوک لونڈی غلام کے ساتھ برائی وبدسلو کی کرنیوالا جنت میں ابتدائی مرحلہ پر نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ داخل نہیں ہوگا۔ (ترمذی ابوداؤد)

【17】

اپنے مملو کے ساتھ حسن سلوک خیروبرکت کا باعث ہے

اور حضرت رافع ابن مکیث نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنے مملوک کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک خیر و برکت کا باعث ہے اور اپنے مملوک کے ساتھ بدسلوکی، بےبرکتی کا باعث ہے (ابوداؤد) اور مشکوۃ کے مصنف فرماتے ہیں کہ میں نے مصابیح کے علاوہ اور کسی کتاب میں وہ الفاظ نہیں دیکھے ہیں جو صاحب مصابیح نے اس حدیث میں نقل کئے ہیں اور وہ زائد الفاظ یہ ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا صدقہ و خیرات بری موت سے بچاتا ہے اور نیکی عمر کو بڑھاتی ہے۔ تشریح اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب مالک اپنے مملوک کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک کرتا ہے تو وہ اپنے مالک وآقا کے بہت زیادہ تابعدار اور خیرخواہ بن جاتے ہیں اور جو کام ان کے سپرد کیا جاتا ہے اسے وہ پوری دلجمعی اور محنت اور ایمان داری کے ساتھ کرتے ہیں اور یہ یچیزیں خیر و برکت کا باعث ہوتی ہیں اور اس کے برعکس اگر اپنے مملوک کے ساتھ بدسلوکی و بدخواہی کا معاملہ کیا جاتا ہے تو ان کے دلوں میں مالک کی طرف سے بغض ونفرت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں اور آخر کار وہ اپنے مالک کی جان و آبرو اور مال و دولت کی ہلاکت و نقصان کے ارتکاب سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بری موت سے مراد یا تو مرگ مفاجات یعنی اچانک موت ہے یا توحید اور یاد حق سے غفلت کے ساتھ مرنا، مراد ہے۔ مرگ مفاجات اس اعتبار سے بری موت ہے کہ انسان یکایک موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے نہ تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے سلسلہ میں سرزد کو تاہیوں کی تلافی کا موقع ملتا ہے اور نہ توبہ کرنے کی مہلت نصیب ہوتی ہے۔ نیکی سے مراد مخلوق کے ساتھ احسان و سلوک کرنا ہے اور خالق کی اطاعت و عبادت بھی مراد ہوسکتی ہے نیکی کی وجہ سے عمر کا بڑھنا حقیقۃ بھی ممکن ہے بایں طور کہ اللہ تعالیٰ کسی کی عمر کو کو معلق کر دے کہ اس بندہ کی عمر اتنے سال ہے لیکن اگر یہ نیکی کرے گا یعنی اپنے پروردگار کی اطاعت و عبادت اور مخلوق اللہ کے ساتھ حسن سلوک و خیرخواہی میں مشغول رہے گا تو اس کی عمر میں اتنے سال کا اضافہ ہوجائے گا لہذا نیکی کرنے کی صورت میں اس کی عمر اتنے ہی سال بڑھ جائے گی۔ یہ وضاحت تو زیادتی عمر کے حقیقی مفہوم مراد لینے کی صورت میں ہے اور اس کا معنوی مفہوم یہ ہے کہ نیکی کی وجہ سے عمر میں خیروبرکت حاصل ہوتی ہے یا نیکی کرنیوالے کو اس کی موت کے بعد لوگ بھلائی کے ساتھ یاد کرتے ہیں پس معنوی طور پر یہ بھی عمر کا بڑھنا ہی ہے۔ روایت کے آخر میں مصنف مشکوۃ نے جو اعتراض کیا ہے وہ میرک (رح) کی تحقیق کے مطابق شیخ جزری کے اس قول سے ختم ہوجاتا ہے کہ اس روایت کو صاحب مصابیح نے جس طرح نقل کیا ہے بالکل اسی طرح پوری روایت امام احمد نے بھی نقل کی ہے۔

【18】

اگر غلام مار کھاتے ہوئے اللہ کا واسطہ دے تو اپنا ہاتھ روک لو

اور حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مثال کے طور پر اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام کو مارنے لگے اور وہ اللہ کو یاد کرے یعنی یوں کہے کہ تمہیں اللہ کا واسطہ مجھے معاف کردو) تو تم اس کو مارنے سے اپنا ہاتھ روک لو اس روایت کو ترمذی اور شعب الایمان میں بیہقی کی روایت میں (فارفعوا ایدیکم) کی بجائے (فلیمسک) نقل کیا گیا ہے اور دونوں لفظ کا مطلب ایک ہی ہے) تشریح طیبی کہتے ہیں کہ تم اپنا ہاتھ روک لو کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ اس غلام کو مالک تادیبًا مار رہا ہو اور اگر اس پر حد جاری کر رہا ہو یعنی شراب پینے یا کسی پر جھوٹی تہمت لگانے کی سزا میں اس کو کوڑے مار رہا ہو تو پھر ہاتھ نہ روکے بلکہ حد پوری کرے۔

【19】

کمسن بردہ کو اس کی ماں وغیرہ سے الگ نہ کرو

اور حضرت ابوایوب کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص ماں اور بیٹے کے درمیان جدائی کرائے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے عزیزوں کے درمیان جدائی کرائے گا ( ترمذی دارمی) تشریح ماں اور بیٹے سے مراد لونڈی اور اس کا بچہ ہے اسی طرح جدائی کرانے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مالک مثلا لونڈی کو تو کسی کے ہاتھ فروخت کر دے یا کسی کو ہبہ کر دے اور بچہ کو اپنے پاس روک لے یا بچہ کو کسی کے ہاتھ فروخت کر دے یا کسی کو ہبہ کر دے اور اس کی ماں کو اپنے پاس رہنے دے لہذا اگر کوئی شخص اسی طرح سے ماں اور بیٹے کو ایک دوسرے سے جدا کرے گا تو قیامت کے دن اس موقف میں کہ جہاں تمام مخلوق اپنے تمام عزیزوں کے ساتھ جمع ہوگی اور لوگ اپنے پروردگار سے ایک دوسرے کی شفاعت کر رہے ہوں گے اللہ تعالیٰ اس شخص اور اس کے عزیزوں میں مثلا ماں باپ یا اولاد وغیرہ کے درمیان جدائی کرا دے گا۔ علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں صرف ماں بیٹے کا ذکر محض اتفاقی ہے ورنہ تو ہر چھوٹے کمسن بردہ اور اس کے ذی رحم محرم رشتہ دار خوا وہ ماں ہو باپ دادا ہو یا دادی اور بھائی ہو یا بہن کے درمیان جدائی کرانے کا یہی حکم ہے حنفیہ کے ہاں دو چھوٹے بھائیوں کو ایک دوسرے سے جدا کردینا جائز ہے۔ مذکورہ بالا ضاحت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ چھوٹے کی قید سے بڑے کا استثناء ہوگیا یعنی اگر بڑے عمر والے بردہ کو اس کی ماں یا اس کے باپ یا کسی اور ذی رحم محرم رشتہ دار سے جدا کردیا جائے تو جائز ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑے کی تعریف کیا ہے تو اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ کس عمر کے بردہ کو بڑا کہیں گے چناچہ حضرت امام شافعی کے نزدیک تو سات برس یا آٹھ برس کی عمر والا بڑا کہلائے گا جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ جو بالغ ہوجائے وہ بڑا کہلائے گا نیز حضرت امام اعظم اور حضرت امام محمد کے نزدیک چھوٹے بچے اور اس کے ذی رحم محرم رشتہ دار کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے بیچنا مکروہ ہے جبکہ حضرت امام ابویوسف یہ فرماتے ہیں کہ اگر ان دونوں یعنی بچہ اور اس کے ذی رحم محرم رشتہ دار میں ولادتی قرابت ہو جیسے وہ دونوں ماں اور بیٹا ہوں یا باپ اور بیٹا ہوں تو اس صورت میں ان دونوں کو جدا کر کے بیچنا سرے سے جائز ہی نہیں ہوگا اور ان کا قول یہ بھی ہے کہ ولادت کی قرابت کے استثناء کے بغیر تمام ذی رحم محرم رشتہ داروں کے بارے میں یہی حکم ہے۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھے دو غلام عطا فرمائے جو آپس میں بھائی بھائی تھے پھر جب میں نے ان میں سے ایک کو بچ دیا تو رسول کریم ﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ علی تمہارا ایک غلام کہاں گیا میں نے آپ ﷺ کو بتادیا کہ ایک غلام میں نے بیچ دیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو واپس کرلو اس کو واپس کرلو (ترمذی ابن ماجہ) تشریح اس کو واپس کرلو کا مطلب یہ تھا کہ تم نے جو بیع کی ہے اس کو فسخ کردو اور اس غلام کو اپنے پاس لے آؤ ! تاکہ دونوں بھائیوں کے درمیان جدائی واقع نہ ہو اس جملہ کو تاکیدا دو مرتبہ فرمانے میں اس طرف اشارہ تھا کہ جو حکم دیا جا رہا ہے وہ وجوب کے طور پر ہے اور بیع مکروہ تحریمی ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کے درمیان جدائی نہ کرانے کا حکم صرف ماں بیٹیوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے ایک لونڈی اور اس کے بیٹے کو ایک دوسرے سے جدا کردیا یعنی ان دونوں میں ایک کو بیچ دیا اور ایک کو اپنے پاس رہنے دیا) چناچہ حضرت نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا اور انہوں نے یعنی حضرت علی نے اس بیع کو فسخ کردیا (ابوداؤد نے اس روایت کو بطریق انقطاع نقل کیا ہے) تشریح مذکورہ بالا دونوں حدیثیں حضرت امام ابویوسف کے اس مسلک کی دلیل ہیں کہ چھوٹے بردے اور اس کی ماں یا اس کے باپ کو ایک دوسرے سے الگ کر کے بیچنا ناجائز ہے۔

【20】

غلام پر احسان کرنے کا اجر

اور حضرت جابر نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی اللہ تعالیٰ اس پر موت کو آسان کر دے گا اور اس کو جنت میں داخل کر دے گا کمزوروں اور ضعیفوں کے ساتھ نرمی کرنا ماں باپ پر شفقت کرنا اپنے مملوک پر احسان کرنا۔ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح ضعیف و کمزور سے ہر وہ شخص مراد ہے جو خواہ جسم و جان کے اعتبار سے ضعیف و نا تو اں ہو یا مالی حالت کے اعتبار سے اور یا عقل و خرد کے اعتبار سے کمزور ہو احسان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مالک پر اس کے غلام کے تئیں جو کچھ واجب ہے اس سے بھی زیادہ اس کے ساتھ سلوک کرے۔

【21】

نمازی کو مارنے کی ممانعت

اور حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ حضرت علی کو ایک غلام عطاء کیا اور یہ حکم دیا کہ اس کو بےحکم شرعی مارنا نہیں کیونکہ میرے رب کی طرف سے مجھے نمازیوں کو مارنے سے منع کیا ہے اور میں نے اس غلام کو نماز پڑھتے دیکھا ہے ( یہ الفاظ جو مشکوۃ میں مذکور ہیں) مصابیح کے ہیں اور دارقطنی کی تصنیف مجتبی میں یہ منقول ہے کہ حضرت عمر ابن خطاب نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں نمازیوں کو مارنے کی ممانعت فرمائی۔ تشریح نمازیوں کو مارنے سے ممانعت اللہ کے نزدیک ان کے شرف و فضیلت کی بناء پر اور مخلوق اللہ کے درمیان ان کی عزت و توقیر کو محفوظ رکھنے کے لئے ہے۔ طیبی نے اس موقع پر یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے دنیا میں نمازیوں کو مارنے سے منع کیا ہے تو اس کے بےپایاں فضل و کرم سے امید ہے کہ وہ آخرت میں ان کو عذاب میں مبتلا کر کے ذلیل و رسوا نہیں کرے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ

【22】

مملوک کی خطائیں معاف کرنے کا حکم

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہم کتنی مرتبہ اپنے غلام لونڈی کی خطائیں معاف کریں آنحضرت ﷺ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا اس شخص نے پھر یہی سوال کیا تو اس مرتبہ بھی خاموش رہے پھر جب اس نے تیسری مرتبہ یہی پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر روز ستر مرتبہ (ابوداؤد ترمذی نے اس روایت کو حضرت عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے۔ تشریح ستر مرتبہ سے یہ خاص عدد مراد نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اہل عرب کے ہاں کسی چیز کی زیادتی اور کثرت کو بیان کرنے کے لئے عام طور پر ستر کا عدد ذکر کیا جاتا تھا آپ ﷺ کا مقصد بھی واضح کرنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ مرتبہ ان کی خطائیں معاف کردو۔ سائل کے سوال پر آنحضرت ﷺ کا خاموش رہنا سوال کی رکاکت کی بناء پر تھا کہ عفو تو مستحب اور پسندیدہ ہے کہ نہ کہ اس کو کسی خاص عدد کے ساتھ مقید کرنا مقصود ہے اور یہ ممکن ہے کہ آپ ﷺ نے وحی کے انتظار میں خاموشی اختیار فرمائی ہو۔

【23】

مملوک کے بارے میں ایک ہدایت

اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے مملوک لونڈی غلام میں سے جو لونڈی غلام تمہاری اطاعت و خدمت تمہاری خواہش کے مطابق کرے اور وہ تمہارے مزاج کے موافق ہو تو اس کو ہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور اس کو وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو کیونکہ جب وہ تمہارا دل خوش کرتا ہے تو تم بھی اس کا دل خوش کرو اور جو لونڈی غلام تمہارے مزاج کے موافق نہ ہو تو اس کو تکلیف نہ دو بلکہ بیچ ڈالو اللہ کی مخلوق کو تکلیف دینا درست نہیں ہے ( احمد ابوداؤد)

【24】

جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم

اور حضرت سہل ابن حنظلیہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ایک اونٹ کے قریب سے گزرے تو دیکھا کہ بھوک و پیاس کی شدت اور سواری وبار برداری کی زیادتی سے اس کی پیٹھ پیٹ سے لگ گئی تھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان بےزبان چوپایوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان پر ایسی حالت میں سواری کرو جب کہ وہ قوی اور سواری کے قابل ہوں اور ان کو اس اچھی حالت میں چھوڑ دو کہ وہ تھکے نہ ہوں ( ابوداؤد) تشریح ان بےزبان چوپایوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کا مطلب یہ ہے کہ یہ بولنے پر قادر نہیں ہیں کہ اپنی بھوک و پیاس وغیرہ کا حال اپنے مالک سے بیان کرسکیں اس لئے ان کے چارہ پانی کے جو بھی اوقات ہوں ان میں ان کو کھلانے پلانے میں کوتاہی نہ کرو اس میں گویا اس بات کی دلیل ہے کہ چوپایوں کا چارہ پانی ان کے مالکوں پر واجب ہے۔ ان پر ایسی حالت میں سواری نہ کر الخ، کا مقصد گھاس دانہ کے ذریعہ کی خبر گیری رکھنے کی ترغیب دلانا ہے کہ ان کے گھاس دانہ میں کمی و کوتاہی نہ کرو تاکہ یہ قوی اور سواری کے قابل رہیں نیز جب یہ تھکنے کے قریب ہوں تو ان کو چھوڑ دو اور گھاس دانہ دو جب وہ کھا پی لیں اور ان میں توانائی آجائے تو اس کے بعد ان پر سواری یا بار برداری کرو کیونکہ اس طرح چوپائے فربہ ہوتے ہیں۔

【25】

مال یتیم کے بارے حکم خداوندی

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نازل ہوا یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر اس عادت کے ساتھ جو نیکی پر مبنی ہے یعنی امانت ودیانت کے ساتھ) اور بلاشبہ جو لوگ یتیموں کا مال ازراہ ظلم بلا استحقاق کھاتے برتتے ہیں تو جن لوگوں کے پاس یعنی جن کی نگرانی و پرورش میں یتیم تھے انہوں نے سخت احتیاط برتنی شروع کی اور ان کے کھانے کے سامان کو اپنے کھانے کے سامان سے اور ان کے پینے کی چیزوں کو اپنے پینے کی چیزوں سے الگ کردیا یہاں تک کہ ان یتیموں کے کھانے پینے کی چیزوں میں سے جو کچھ بچ رہتا اس کو اٹھا کر رکھ دیا جاتا جس کو وہ یتیم یا دوسرے وقت کھا پی لیتا یا وہ خراب ہوجاتا تھا۔ یہ بات ان نگرانوں کو بڑی شاق گزری چناچہ انہوں نے رسول کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور جو لوگ آپ ﷺ سے یتیمی بچوں کا حکم پوچھتے ہیں فرما دیجئے کہ ان کی مصلحت کی رعایت رکھنا زیادہ بہتر ہے اور اگر تم ان کے ساتھ خرچ شامل رکھو تو وہ بچے تمہارے دینی بھائی ہیں چناچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان نگرانوں نے یتیموں کے کھانے پینے کو اپنے کھانے میں ملا لیا ( ابوداؤد نسائی) تشریح حدیث میں مذکورہ دوسری آیت پوری یوں ہے (اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا) 4 ۔ النساء 10) بلاشبہ جو لوگ یتیموں کا مال ازراہ ظلم یعنی بلا استحقاق کھاتے (برتتے) ہیں وہ دراصل اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھر رہے ہیں اور وہ عنقریب جلتی آگ میں داخل ہوں گے۔ آخری آیت یوں ہے (فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَيَسْ َ لُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰي قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَا ءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْ ) 2 ۔ البقرۃ 220) اور لوگ آپ ﷺ سے یتیم بچوں کے (مال کو علیحدہ یا شامل رکھنے) کا حکم پوچھتے ہیں آپ ﷺ ان سے فرما دیجئے کہ ان کی مصلحت کی رعایت رکھنا زیادہ بہتر ہے اور اگر تم ان کے ساتھ خرچ شامل رکھو تو وہ بچے تمہارے دینی بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ مصلحت کے ضائع کرنے والے اور مصلحت کی رعایت رکھنے والے کو الگ الگ جانتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو سخت قانون مقرر کر کے تم کو مصیب میں ڈال دیتے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ یتیموں کے مال کے بارے میں جب قرآن کریم کی مذکورہ ہدایت کے مطابق یتیموں کے نگران اور مربیوں نے سخت احتیاط برتنی شروع کی اور یتیموں کے مال کو اپنے مال و اسباب سے علیحدہ کردینے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ذمہ داریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا بلکہ یتیموں کے مال کا نقصان بھی ہونے لگا تو ان مربیوں کی عرض پر اللہ تعالیٰ نے یہاں اجازت عطا فرمائی کہ یتیموں کے نگران ان یتیموں کے مال و اسباب کو اپنے مال و اسباب میں ملا سکتے ہیں اور آیت (وا اللہ یعلم المفسد) الخ کے ذریعہ اس طرف ارشاد فرمایا کہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ مخلوط تو کرلو لیکن ان کے خیرخواہ اور ہمدرد بہرصورت رہو اپنی نیتوں کو خراب نہ کرو اور ان کے مال کو فریب ودغا کے ذریعہ نقصان نہ پہچاؤ ! کیونکہ اللہ تعالیٰ مصلحت کی رعایت رکھنے والوں اور نہ رکھنے والوں کو خوب جانتا ہے اگر کسی نگران نے بدنیتی بدخواہی اور بددیانتی کے ساتھ یتیم کے مال پر تصرف کیا تو اس کو سخت سزا دی جائے گی۔ منقول ہے کہ حضرت امام محمد کے ایک شاگرد کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے اس کی کتابیں فروخت کر کے اس کی تجہیز وتکفین کا انتظام کیا لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ کے اس شاگرد نے اس کی وصیت تو کی نہیں تھی آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ حضرت امام محمد نے اس کے جواب میں یہی آیت (وَاللّٰهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ) 2 ۔ البقرۃ 220) پڑھی۔

【26】

باپ بیٹوں یا دو بھائیوں میں جدائی نہ ڈالو

اور حضرت ابوموسی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو باپ اور اس کے بیٹے کے درمیان اور دو بھائیوں کے درمیان جدائی ڈالے ( ابن ماجہ دارقطنی) تشریح جدائی ڈالنے سے مراد ان دونوں میں سے کسی ایک کو بیچ ڈالنا یا ہبہ وغیرہ کردینا ہے بشرطیکہ بیٹا یا ایک بھائی چھوٹا کمسن ہو اس کی تفصیل حضرت ابوایوب کی روایت کی تشریح میں پچھلے صفحات میں گزر چکی ہے۔ یا جدائی ڈالنے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ کسی باپ بیٹے یا دو بھائیوں کے درمیان لگائی بجھائی کے ذریعہ خفگی و ناراضگی اور جدائی پیدا کردی جائے۔ اور حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ جب کسی غزوہ وغیرہ میں قیدی لائے جاتے تو نبی کریم ﷺ پورے گھر کو ہم میں سے کسی ایک شخص کو بطور لونڈی غلام عطا فرما دیتے تھے یعنی قیدیوں میں ایک گھر کے جتنے بھی افراد ہوتے ان سب کو آپ کسی ایک ہی شخص کے حوالے کردیتے تھے) کیونکہ ان کے درمیان جدائی ڈالنا آپ ﷺ کو ناپسند تھا ( ابن ماجہ)

【27】

کون لوگ برے ہیں؟

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتادوں کہ تم میں برے لوگ کون ہیں تو سنو برا وہ شخص ہے کہ جو کھانا تنہا کھائے اپنے غلام کو ناحق مارے اور کسی اپنی بخشش وعطاء سے فائدہ نہ پہنچائے ( رزین) تشریح اس حدیث میں چند ایسی چیزوں کو ذکر کیا گیا ہے جو ناپسندیدہ ہیں اور بری ہیں اور یہ چیزیں جن لوگوں کی خصلت بن جاتی ہیں وہ ناپسندید اور برے سمجھے جاتے ہیں چناچہ سب سے تنہا ہو کر کھانا برا ہے اپنے غلام کو بلا کسی جرم وخطا کے مارنا برا ہے اور کسی کو کچھ نہ دینا برا ہے حاصل یہ کہ جو لوگ بد خلق اور بخیل ہیں وہ برے ہیں۔ جامع صغیر میں ابن عساکر نے حضرت معاویہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں یہ نہ بتادوں کہ لوگوں میں برے کون ہیں ؟ برا وہ شخص ہے جو کھانا تنہا کھائے کسی کو اپنی بخشش وعطا سے فائدہ نہ پہنچائے تنہاء سفر کرے اور اپنے غلام کو ناحق مارے اور کیا تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس سے بھی برا کون شخص ہے ؟ وہ شخص اس سے بھی برا ہے جو لوگوں سے بغض رکھے اور لوگ اس سے بغض رکھیں اور کیا تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس سے بھی برا کون شخص ہے اس سے بھی برا وہ شخص ہے جس کے شر و فتنہ سے لوگ ڈریں اور اس سے کسی بھلائی کی امید نہ رکھیں اور کیا تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس سے بھی برا کون شخص ہے اس سے بھی برا وہ شخص ہے جو اپنی آخرت کو دنیا کے عوض بیچ دے اور کیا تمہیں نہ بتاؤں کہ اس سے بھی برا کون شخص ہے ؟ اس سے بھی برا وہ شخص ہے جو دین کے ذریعہ دنیا کمائے۔

【28】

لونڈی غلاموں کو اپنی اولاد اور اپنے بھائی کیطرح رکھو

اور حضرت ابوبکر صدیق راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اپنے غلام لونڈی کے ساتھ برائی کرنیوالا کبھی جنت میں داخل نہیں ہوگا یہ سن کر صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ ﷺ نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ آپ ﷺ کی امت غلام لونڈی اور یتیموں کے اعتبار سے پچھلی تمام امتوں سے بڑھی ہوئی ہوگی (یعنی آپ ﷺ کی امت میں غلام لونڈی اور یتیم بہت ہوں گے تو کیا اتنی کثرت کی حالت میں سب کے ساتھ خوش خلقی کا برتاؤ کرنا ممکن ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں میری امت میں لونڈی غلام بہت ہوں گے اور اتنی کثرت کی حالت میں سب ہی کے ساتھ خوش خلقی کا برتاؤ کرنا مشکل بھی بہت ہوگا لیکن اگر تم جنت میں داخل ہونا چاہتے ہو تو تم ان کے ساتھ دوسری طرح ایسے حسان کرو جو ان کے ساتھ تمہاری بد خلقی کا بدلہ ہوجائیں اور وہ احسان یہ ہے کہ تم ان کو اپنے کی طرح عزیز رکھ یعنی ان پر بایں طور نرمی و رحم کیا کرو کہ ان پر کسی ایسے کام کا بوجھ نہ ڈالو جو ان کے بس سے باہر ہو اور ان پر ظلم و زیادتی نہ کیا کرو) اور ان کو وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہمیں دنیا میں نفع پہنچانے والی کون سی چیز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک گھوڑا جس کو تم اللہ کی راہ میں لڑنے کے لئے بانجھ رکھو اور ایک غلام جو تمہیں کفایت کرے (یعنی وہ تمہارے دنیاوی امور کو انجام دیتا رہے تاکہ تم فارغ رہ کر آخرت کے امور انجام دے سکو اور اگر تمہارا غلام نماز پڑھے تو وہ تمہارا بھائی ہے، لہذا اس کے ساتھ بھائی جیسا سلوک کرو ( ابن ماجہ) تشریح یہ فرمایا گیا ہے کہ امت میں لونڈی غلام اور یتیم بہت زیادہ ہوں گے تو اس کا سبب یہ ہے کہ جب جہاد کثرت سے ہوگا تو کفار کے قیدی بھی کثرت سے ہاتھ آئیں گے اور جہاد کی کثرت ہی سے مسلمان شہید ہوں گے اور جب مسلمان شہید ہوں گے تو ان کے بچے یتیم ہوجائیں گے۔

【29】

چھوٹے بچوں کی تربیت وپرورش اور ان کے بالغ ہونے کا بیان

اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ لڑکے اور لڑکی کے بالغ ہونے کی علامت اور حد کیا ہے اور یہ کہ بچے کی تربیت و پرورش کرنے کا حق کس پر ہے ؟ بلوغ کی علامت لڑکے کے بالغ ہونے کی علامت یہ کہ اس کو احتلام ہونے لگے اور اس میں عورت کو حاملہ کردینے کی صلاحیت پیدا ہوجائے اور انزال ہوسکتا ہو۔ اسی طرح لڑکی کے بالغ ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کو ماہوری آجائے اور احتلام ہوجائے اور اس کے حمل ہوسکتا ہو اگر یہ علامتیں نہ پائی جائیں تو پھر جب لڑکے اور لڑکی دونوں کی عمر پندرہ سال کی ہوجائے تو وہ بالغ کے حکم میں داخل ہوجائیں گے فتوی اسی قول پر ہے لڑکے کے بالغ ہونے کی کم سے کم مدت بارہ برس کی عمر ہے اور لڑکی کے بالغ ہونے کی کم سے کم مدت نو برس ہے۔ اگر لڑکا لڑکی بالغ ہونے کے قریب ہوں اور وہ یہ کہیں کہ ہم بالغ ہوگئے ہیں تو ان دونوں کی اس بات کو صحیح سمجھا جائے گا اور وہ دونوں حکم میں بالغ کی مانند ہوں گے۔ بچہ کی پرورش کا حق کس کو ہے ؟ چھوٹے بچے کی پرورش کا حق سب سے زیادہ ماں کو ہے خواہ وہ شادی قائم ہونے کی حالت میں ہو یا اس کو طلاق دیدی گئی ہو ہاں اگر ماں مرتد یا بدکار ہے جس سے امن نہ ہو تو پھر اس کو حق سب سے زیادہ نہیں ہوگا اگر ماں طلاق کے بعد بچہ کی پرورش کرنے سے انکار کر دے تو صحیح یہ ہے کہ اس کو مجبور نہیں کیا جائے گا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ عاجز ہو لیکن اگر اس بچہ کا کوئی ذی رحم اس کی ماں کے علاوہ نہ ہو تو بچہ کو ضائع ہونے بچانے کے لئے ماں کو پرورش کرنے کے لئے مجبور کیا جائے گا اگر ماں نے بچہ کے باپ کی وفات یا طلاق کے بعد اس بچہ کے غیر محرم سے شادی کرلی تو پھر اس بچہ کی پرورش کا سب سے زیادہ حق اس کو نہیں ہوگا اور اس نے کسی محرم سے شادی کرلی ہے مثلا بچہ کے چچا سے نکاح کرلیا ہے تو اس صورت میں اس کا یہ حق ساقط نہیں ہوگا اسی طرح ماں نے پہلے کسی غیر محرم سے نکاح کرلیا اور اس کی وجہ سے اس کا حق ساقط ہوگیا مگر پھر ماں نے اس غیر محرم کی وفات یا طلاق کے بعد کسی محرم سے جیسے بچہ کے چچا سے شادی کرلی تو اب اس کو پرورش کا سب سے زیادہ حق مل جائے گا۔ اگر بچہ کی ماں پرورش کا حق نہ رکھتی ہو بایں سبب کہ اس نے غیرمحرم سے شادی کرلی ہے یا مرتد ہوگئی اور یا وہ مر گی ہو تو پھر اس بچہ کی پرورش کا حق سب سے زیادہ نانی کو ہوگا۔ اگر نانی موجود نہ ہو تو اس سے اوپر کے درجہ والی مثلا پڑنانی وغیرہ کو ہوگا نانی و پر نانی وغیرہ کے بعد پرورش کرنے کی سب سے زیادہ مستحق دادی و پردادی وغیرہ ہوگی اگر دادی اور پردادی وغیرہ موجود نہ ہو تو پرورش کا سب سے زیادہ حق بچہ کی حقیقی بہن اس کے بعد اخیافی بہن اور اس کے بعد سوتیلی بہن کو ہوگا اور اگر ان میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو یا پرورش کرنے کی اہلیت نہ رکھتی ہو تو پھر اسی ترتیب کے مطابق پرورش کرنے کا حق سب سے زیادہ بچہ کی خالہ کو اس کے بعد بچہ کی پھوپھی کو ہوگا اور بھانجیاں بھتیجیوں اور بھتیجیاں پھوپھیوں سے اولی ہوں گی۔ استحقاق پرورش کے سلسلہ میں جن عزیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کا آزاد ہونا شرط ہے لہذا باندی اور ام ولد کو پرورش کا کوئی حق نہیں ہے لیکن ذمیہ مسلمہ کے حکم میں ہے کہ ذمیہ کو پرورش کا حق حاصل ہے بشرطیکہ بچہ دین کی سمجھ بوجھ کی عمر کو نہ پہنچ گیا ہو اگر ایسی کوئی بھی عورت موجود نہ ہو جس کو پرورش کا حق پہنچتا ہے تو پھر اس بچہ کی پرورش کا حق عصبات کو ہوگا اور ان کی ترتیب وہی ہوگی جو میراث پانے میں ہوتی ہے لیکن لڑکی کسی ایسے عصبہ کی پرورش میں نہ دی جائے جو غیرمحرم ہو جیسا چچا کا لڑکا یا وہ فاسق و لاپرواہ ہو۔ حق پرورش کی مدت حق پرورش کی مدت نو سال یا سات سال کی عمر مقرر کی گئی ہے اور قدوری نے لکھا ہے کہ جب بچہ تنہا کھانے پینے لگے کپڑا پہننے لگے اور خود استنجا کرنے لگے تو حق پرورش ختم ہوجاتا ہے اس کے بعد اس بچہ کو اس کا باپ زبردستی اپنی تحویل میں اور نگہداشت میں لے سکتا ہے اور لڑکی کی صورت میں ماں اور نانی اس وقت تک مستحق رہیں گی جب تک کہ اس کی لڑکی کو حیض نہ آجائے اور حضرت امام محمد کے نزدیک لڑکی کے قابل شہوت ہونے تک ماں اور نانی کو پرورش کا استحقاق رہتا ہے جیسا کہ ماں اور نانی اور دادی کے علاوہ دوسری عورتوں کے استحقاق کے بارے میں یہ شرط ہے کہ جب لڑکی مرد کے قابل ہوجائے تو وہ ان کی پرورش سے نکل جائے گی۔

【30】

عمر بلوغ پندرہ سال ہے

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ تین ہجری میں غزوہ احد کے موقع پر جہاد میں جانے کے لئے مجھے رسول کریم ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا جب کہ میری عمر چودہ سال تھی مگر آنحضرت ﷺ نے مجھے واپس کردیا یعنی جہاد میں شرکت کے لئے مجھ کو نہ لے گئے) پھر غزوہ خندق کے موقع پر جب کہ میری عمر پندہ سال تھی مجھے آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے مجھے جہاد میں جانے کی اجازت عطاء فرما دی کیونکہ بالغ ہونے کی عمر پندرہ سال ہے) حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ عمر لڑنے والوں اور لڑکوں کے درمیان فرق کرنیوالی ہے (بخاری ومسلم) تشریح جب حضرت عمر بن عبدالعزیز نے یہ حدیث سنی تو مذکورہ بالاجملہ ارشاد فرمایا کہ جس سے ان کی مراد یہ تھی کہ جب لڑکا پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائے اور جو پندرہ سال کی عمر کو نہ پہنچے اس کو نابالغ لڑکوں میں شمار کیا جائے اس سے معلوم ہوا کہ بالغ ہونے کی عمر پندرہ سال ہے۔

【31】

حضرت حمزہ کی صاحبزادی کی پرورش کا تنازعہ اور اس کا تصفیہ

اور حضرت براء ابن عازب کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حدیبیہ کے دن کفار مکہ سے تین باتوں پر صلح کی تھی ایک تو یہ کہ مشرکوں میں جو شخص آپ ﷺ کے پاس آجائے آپ ﷺ اسے واپس فرما دیں گے دوسرے یہ کہ آپ ﷺ آئندہ سال مدینہ سے مکہ تشریف لائیں اور اپنا عمرہ قضا کریں اور ارکان عمرہ کی ادائیگی اور استراحت کے لئے) مکہ میں صرف تین دن قیام فرمائیں چناچہ آئندہ سال جب آپ ﷺ مکہ تشریف لائے اور متعینہ مدت پوری ہوگئی ( یعنی تین دن گزر گئے) اور آپ ﷺ نے مکہ سے واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت حمزہ کی بیٹی اے میرے چچا اے میرے چچا کہتی ہوئی آپ ﷺ کے پیچھے لگ گئی، حضرت علی نے اس کو پکڑنے یعنی اپنے ہمراہ لینے کا ارادہ کیا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا یعنی اپنے ہمراہ لے لیا اس کے بعد حضرت حمزہ کی اس بیٹی کی پرورش کے بارے میں حضرت علی حضرت زید اور حضرت جعفر کے درمیان تنازعہ پیدا ہوگیا حضرت علی تو یہ کہتے تھے کہ پہلے میں نے اس بچی کو لیا ہے اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اس لئے اس کی پرورش کا سب سے زیادہ حق مجھ کو ہے) اور حضرت جعفر یہ کہتے تھے کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے اس لئے اس کی پرورش کا سب سے زیادہ حق مجھ کو ہے) نبی کریم ﷺ نے اس تنازعہ کا فیصلہ اس طرح کیا کہ اس کو اس کی خالہ کے سپرد کردیا جو جعفر کے نکاح میں تھیں) اور فرمایا کہ خالہ ماں کے برابر ہے پھر آپ ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو یعنی ہم دونوں میں کمال اخلاص و یگانگت ہے اور حضرت جعفر سے فرمایا کہ تم میری پیدائش اور میرے خلق میں مشابہ ہو اور حضرت زید سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی اور ہمارے محبوب ہو ( بخاری ومسلم) تشریح حدیبیہ مکہ سے تقریبا پندرہ میل کے فاصلہ پر بجانب جدہ ایک جگہ کا نام ہے ٦ ھ میں آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کی معیت میں عمرہ کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ کو روانہ ہوئے جب حدیبیہ پہنچے تو کفار مکہ نے وہیں سے روک دیا اور مکہ نہ آنے دیا اور پھر اس مقام پر آنحضرت ﷺ اور کفار مکہ کے درمیان ایک معاہدہ کے تحت صلح ہوئی جس کی تین بنیادی دفعات کا ذکر اس حدیث میں کیا گیا ہے یہ صلح حدیبیہ بڑا مشہور واقعہ ہے اور اس کا تفصیلی بیان انشاء اللہ کتاب الجہاد میں آئے گا۔ حضرت حمزہ آنحضرت ﷺ کے چچا اور دودھ شریک بھائی تھے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے اور حضرت حمزہ نے ابولہب کی لونڈی ثوبیہ کا دودھ پیا تھا اسی رشتہ رضاعت کی بناء پر حضرت حمزہ کی بیٹی نے آنحضرت ﷺ کو چچا کہا۔ حضرت جعفر آنحضرت ﷺ کے چچا زاد بھائی یعنی ابوطالب کے لڑکے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بھائی تھے اور عمر میں حضرت علی (رض) سے دس سال بڑے تھے۔ حضرت زید بن ثابت ایک غلام تھے جن کو آنحضرت ﷺ نے آزاد کیا تھا اور اپنا متبنی (منہ بولا بیٹا) بنایا تھا ان سے آنحضرت ﷺ کو بہت محبت تھی چونکہ آپ نے دوسرے صحابہ کی مانند حضرت حمزہ اور حضرت زید کے درمیان بھائی چارہ کا تعلق قائم کردیا تھا اس لئے حضرت زید نے حضرت حمزہ کی بیٹی کو بھتیجی کہا۔ حضرت علی جب حضرت حمزہ کی بیٹی کو مدینہ لے آئے تو اس کی پرورش کے بارے میں مذکورہ بالا تینوں حضرات کے درمیان تنازعہ ہوا ان میں سے ہر ایک یہ دعوی کرتا تھا کہ اس بچی کی پرورش کرنا سب سے زیادہ میرا حق ہے اور ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ یہ میری تربیت و کفالت میں رہے چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس تنازعہ کا فیصلہ اس طرح فرمایا کہ اس بچی کو اس کی خالہ کی پرورش میں دیدیا جو حضرت جعفر کے نکاح میں تھیں اور ان تینوں حضرات کی تسلی اور ان کا دل خوش کرنے کے لئے مذکورہ کلمات ارشاد فرمائے تاکہ وہ آزردہ نہ ہوں۔

【32】

کس بچہ کی پرورش کا سب سے زیادہ حق اس کی ماں کو ہے۔

حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد مکرم (حضرت شعیب) اور وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ ابن عمرو سے نقل کرتے ہیں کہ ایک عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ میرا یہ بیٹا ایک مدت تک میرا پیٹ اس کا برتن رہا میری چھاتی اس کی مشک رہی یعنی مدتوں میری چھاتی سے دودھ پیتا رہا اور میری گود اس کا گہوارہ رہی یعنی مدتوں میں نے اس کو اپنی گود میں پالا ہے اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دیدی ہے اور میرے بیٹے کو بھی مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تک تم کسی سے نکاح نہ کرو اس بچہ کی پرورش کرنے کی تم سب سے زیادہ مستحق ہو۔ (احمد، ابوداؤد) تشریح اس حدیث کے بعد جو حدیث آرہی ہے اس میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے لڑکے کو اختیار دے دیا تھا کہ وہ چاہے تو اپنی تو ماں کے پاس رہے اور چاہے تو اپنے باپ کے ہاں رہے اس طرح دونوں حدیثوں کے مفہوم میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے چناچہ طیبی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جس لڑکے کا ذکر ہے ہوسکتا ہے کہ وہ کم سن رہا ہو اور سن تمیز کو نہ پہنچا ہو اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس کی پرورش کا سب سے زیادہ حق ماں کو دیا جب کہ آگے آنے والی حدیث میں جس لڑکے کا ذکر کیا گیا ہے وہ سن تمیز کو پہنچ چکا تھا اس لئے آپ ﷺ نے اس کو یہ حق دے دیا کہ وہ اپنے اختیار تمیزی کی بنا پر ماں باپ میں سے جس کو چاہے پسند کرے اور اس کے پاس چلا جائے جب تک کہ تم کسی سے نکاح نہ کرو اس بارے میں یہ حدیث مطلق ہے لیکن علماء نے اس مسئلہ کو غیر محرم کے ساتھ مقید کیا ہے یعنی اگر مطلقہ ماں وغیرہ کسی ایسے شخص کے ساتھ شادی کرلے جو لڑکے کا غیر محرم ہے تو اس کو اس لڑکے کی پرورش کا حق نہیں رہتا۔ اور اگر کسی ایسے شخص سے شادی کرے جو لڑکے کا محرم ہے جیسے اس کے چچا سے نکاح، تو اس صورت میں اس کو پرورش کا حق رہتا ہے کیونکہ وہ محرم لڑکے کے حق میں یقینا شفیق و مہربان ثابت ہوگا۔

【33】

مدت پرورش کے بعد لڑکے کو ماں باپ میں سے کسی کے بھی پاس رہنے کا اختیار ہے۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک لڑکے کو یہ اختیار دیا کہ وہ چاہے اپنے باپ کے پاس رہے اور چاہے اپنی ماں کے پاس رہے ۔ (ترمذی) تشریح جیسا کہ اس سے پہلے کی حدیث کی تشریح میں بتایا گیا ہے یہ لڑکا چونکہ سن تمیز کو پہنچ گیا تھا یعنی بالغ ہوگیا تھا۔ اس لئے اس کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ خواہ اپنے باپ کے پاس چلا جائے۔ خواہ وہ اپنی ماں کے پاس رہے لہٰذا اس کا تعلق حضانتہ (یعنی پرورش کرنے) کے باب اور مسئلہ سے نہیں ہے جب کہ پہلی حدیث میں جس لڑکے کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق حضانتہ کے مسئلہ سے ہے اس لئے آپ ﷺ نے حضانتہ یعنی پرورش کرنے کے حق کے بارے میں ماں کو مقدم رکھا۔ چنانچہ حنفیہ کے نزدیک یہی مسئلہ ہے کہ مدت پرورش میں لڑکے کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ چاہے تو اپنی ماں کے پاس رہے اور چاہے تو باپ کے پاس رہے جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک لڑکے کو مدت پرورش میں بھی یہ اختیار حاصل ہوتا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرا خاوند چاہتا ہے کہ میرے بیٹے کو لے جائے حالانکہ وہ مجھے پانی پلاتا ہے اور نفع پہنچاتا ہے ( یعنی وہ اب اس عمر کو پہنچ گیا ہے کہ میں اس کی خدمت سے فائدہ اٹھاتی ہوں) نبی کریم ﷺ نے ( اس لڑکے سے) فرمایا کہ یہ تمہارا باپ اور یہ تمہاری ماں ہے ان میں سے تم جس کو پسند کرو اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ چناچہ اس لڑکے نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ اس کو اپنے ساتھ لے گئی۔ ( ابوداؤد، نسائی، دارمی) حضرت بلال ابن اسامہ حضرت میمونہ سے کہ جن کا نام سلیمان تھا اور اہل مدینہ میں سے کسی کے آذاد کردہ غلام تھے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ( ایک دن) جب کہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) کے ہاں بیٹھا ہوا تھا ان کے پاس فارس کی ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا اور اس کے خاوند نے اس کو طلاق دے دی تھی اور میاں بیوی کے درمیان اس لڑکے کے بارے میں تنازعہ تھا اس عورت نے ابوہریرہ (رض) فارسی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابوہریرہ میرا شوہر میرے بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے ! حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ تم دونوں اس پر قرعہ ڈالو ( جس کے نام قرعہ نکل آئے وہ اس لڑکے کو لے لے) حضرت ابوہریرہ (رض) نے بھی اس عورت کے سامنے اسی مفہوم کو فارسی زبان میں ادا کیا پھر اس عورت کا خاوند آگیا کہ میرے بیٹے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑا کرتا ہے ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ یا اللہ ! میں یہ بات ( اپنی طرف سے) نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ میں ( ایک دن) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک عورت آئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرا شوہر چاہتا ہے کہ میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لے جب کہ یہ مجھے فائدہ پہنچاتا ہے اور ابوعنبہ کے کنوئیں سے مجھ کو پانی اور نسائی میں یہ الفاظ ہیں کہ وہ ( شہر کے باہر کافی فاصلہ سے) میٹھا پانی ( لاکر) مجھ کو پلاتا ہے۔ یہ سن کر رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم دونوں اس پر قرعہ ڈالو خاوند نے کہا کہ میرے بیٹے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑتا ہے ؟ پھر رسول کریم ﷺ نے ( اس لڑکے سے) فرمایا یہ تمہارا باپ ہے اور یہ تمہاری ماں ہے ان دونوں میں سے جس کو تم پسند کرو، اس کو ہاتھ پکڑ لو ! چناچہ اس لڑکے نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ( اور وہ اس کو اپنے ساتھ لے گئی ) ۔ ( ابوداؤد، نسائی، دارمی) تشریح حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس عورت سے جو فارسی زبان میں گفتگو کی اس سے معلوم ہوا کہ بعض صحابہ اہل عجم کے ساتھ میل جول رکھنے اور ان کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے ان کی زبان سیکھ گئے تھے۔ اس حدیث میں جس لڑکے کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی بالغ تھا اور چونکہ بالغ کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ چاہے ماں کے پاس رہے اور چاہے باپ کے ساتھ رہے اسی لئے آنحضرت ﷺ نے اس کو یہ حق دے دیا اور اس نے ماں کے پاس رہنے کو اختیار کیا، اس لڑکے کے بالغ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ شہر کے باہر بہت دور دور سے پانی بھر کر لاتا تھا اگر وہ نابالغ ہوتا تو نہ صرف یہ کہ وہ اپنی کم سنی کی وجہ سے شہر کے باہر اتنی دور سے پانی بھر لانے کی ہمت نہ کرتا بلکہ اس کی ماں بھی اس خوف سے کہ کہیں یہ اپنی نادانی کی وجہ سے کنوئیں میں گر نہ جائے۔ اس کی اتنی دور سے پانی لانے کے لئے ہرگز نہ بھیجتیں۔

【34】

غلام کو آزاد کرنے کا بیان۔

آزادی کی شرعی حیثیت شرعی نقطہ نظر سے آزادی دراصل ایک ایسی قوت حکمیہ کا نام ہے جو انسان کو اس کا یہ فطری اور پیدائشی حق دیتی ہے کہ وہ مالک ہونے، سرپرست بننے اور شہادت ( گواہی) دینے کا اہل بن جائے، چناچہ جس انسان کا یہ فطری اور پیدائشی حق مسلوب ہوتا ہے بایں طور کہ وہ کسی غلامی میں ہوتا ہے اور پھر اسے آزادی کی صورت میں یہ قوت حکمیہ حاصل ہوجاتی ہے تو اس میں نہ صرف مالک ہونے کی لیاقت، سرپرست بننے کی قابلیت اور شہادت دینے کی اہلیت پیدا ہوجاتی ہے بلکہ وہ اس قوت حکمیہ یا یہ کہیے کہ اس آزادی کی وجہ سے دوسروں پر تصرف کرنے اور دوسروں کے تصرف کو اپنے سے روکنے پر قادر ہوجاتا ہے اور وہ آزاد و خود مختار انسانوں کی صف میں آکھڑا ہوتا ہے۔ آزاد کرنے کی شرط کسی بردہ ( غلام باندی) کو آزاد کرنے کے لئے شرط یہ ہے کہ آزاد کرنے والا خود مختار ہو بالغ ہو، عقلمند ہو اور جس بردہ کو آزاد کر رہا ہے اس کا مالک ہو آزاد کرنے کی قسمیں غلام کو آزاد کرنا بعض صورتوں میں واجب ہے جیسے کفارہ، بعض صورتوں میں مستحب ہے اور بعض صورتوں میں گناہ بھی ہے، جیسے اگر یہ ظن غالب ہو کہ اگر اس غلام کو آزاد کردیا جائے گا تو یہ دارالحرب بھاگ جائے گا یا مرتد ہوجائے گا یا یہ خوف ہو کہ چوری قزاقی کرنے لگے گا ! بعض صورتوں میں مباح ہے۔ جیسے کسی شخص کی خاطر یا کسی شخص کو ثواب پہنچانے کے لئے بردہ کو آزاد کردیا جائے اور بعض صورتوں میں عبادت ہے جیسے کسی بردہ کو محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے آزاد کیا جائے۔

【35】

بردہ ( غلام یا باندی) کو آزاد کرنے کا اجر

حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان بردہ کو غلامی سے نجات دے گا اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کو اس بردہ کے ہر عضو کے بدلے دوزخ کی آگ سے نجات دے گا یہاں تک کہ اس کی شرم گاہ کو اس بردہ کی شرم گاہ کے بدلے ( نجات دے گا ) ۔ ( بخاری ومسلم) تشریح مسلمان بردہ میں اسلام کی قید اس لئے لگائی گئی ہے تاکہ اس فعل ( آزاد کرنے) کا ثواب زیادہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ یوں تو کسی بھی بردہ کو آزاد کرنا اجر کا باعث ہے لیکن اگر کسی مسلمان کو آزاد کیا جائے تو اس کے اجر کی حیثیت اور ثواب کی مقدار کہیں زیادہ ہوگی۔ ہر عضو کے ذکر کے بعد پھر شرم گاہ کو بطور خاص اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ وہ زنا کی جگہ ہے اور زنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے لہٰذا وضاحت فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ جسم کے اس حصہ کو بھی نجات دے گا۔ اس کے پیش نظر بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ اس سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ آزاد کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اس غلام کو آزاد کرے جو خصی یا ستر بریدہ نہ ہو نیز یہ اولی ہے کہ اگر آزاد کرنے والا مرد ہو تو وہ مرد ( یعنی غلام) کو آزاد کرے اور اگر آزاد کرنے والی عورت ہو تو وہ عورت ( یعنی باندی) کو آزاد کرے۔

【36】

گراں قیمت اور اپنا پسندیدہ غلام آزاد کرنا زیادہ بہتر ہے

اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ کونسا عمل بہتر ہے ؟ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ابوذر کہتے ہیں کہ پھر میں نے عرض کیا کونسا بردہ آزاد کرنا بہتر ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو گراں قیمت ہو اور اپنے مالک کو بہت پیارا ہو میں نے عرض کیا کہ اگر ایسا نہ کرسکوں ؟ ( یعنی از راہ کسل نہیں بلکہ از راہ عجز و عدم استطاعت ایسا غلام آزاد نہ کرسکوں ؟ ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کام کرنے والے کی مدد کرو یا جو شخص کسی چیز کو بنانا نہ جانتا ہو اس کی وہ چیز بنادو میں نے عرض کیا اگر میں یہ ( بھی) نہ کرسکوں ( تو کیا کروں ؟ ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا لوگوں کو برائی پہنچانے سے اجتناب کرو یاد رکھو یہ ایک اچھی خصلت ہے جس کے ذریعہ تم اپنے نفس کے ساتھ بھلائی کرتے ہو۔ ( بخاری ومسلم) تشریح ایمان کا بہتر ہونا تو بالکل بدیہی بات ہے کہ خیر و بھلائی کی بنیاد ہی ایمان ہے، اگر ایمان کی روشنی موجود نہ ہو تو پھر کوئی بھی عمل مقبول نہیں ہوتا خواہ وہ کتنا ہی اہم ہو اور کتنا ہی افضل کیوں نہ ہو ! اور جہاد اس اعتبار سے بہتر عمل ہے کہ وہ دین کی تقویت اور مسلمانوں کی برتری و عظمت اور غلبہ کا باعث ہوتا ہے۔ جہاں تک نماز روزہ کا تعلق ہے وہ تو دوسری حیثیات اور دوسری وجوہ کی بناء پر ( ایک دوسرے) عمل سے برتر اور بہتر ہیں لہٰذا یہاں جہاد کو نماز و روزہ پر فوقیت دینا مراد نہیں ہے۔ یا پھر یہ کہ اس موقع پر جہاد سے مراد مطلق مشقت برداشت کرنا ہے جس کا تعلق جہاد سے بھی ہے اور دوسری طاعات و عبادات سے بھی، چناچہ مامورات پر عمل کرنے اور منہیات سے بچنے کی نفسانی مشقت اور ریاضت کو جہاد اکبر فرمایا گیا ہے اس صورت میں آنحضرت ﷺ کے مذکورہ بالا جواب کا حاصل یہ ہوگا کہ سب سے بہتر عمل، ایمان لانا اور ایمان کے تقاضوں پر عمل کرنا ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے حدیث (قل اٰمنت باللہ ثم استقم) کام کرنے والے کی مدد کرو میں کام سے مراد ہر وہ چیز ہے جو انسان کے معاش کا ذریعہ ہو خواہ وہ صنعت و کاریگری ہو یا تجارت ہو۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص اپنے کسی پیشہ و کسب میں لگا ہوا ہو اور اس کا وہ پیشہ و کسب اس کی اور اس کے اہل و عیال کی ضروریات کو پورا نہ کرتا ہو وہ شخص اپنے ضعف و مجبوری کی وجہ سے اس کسب و پیشہ کو پوری طرح انجام نہ دے سکتا ہو تو تم اس شخص کی مدد کرو ! اسی طرح جو شخص کسی چیز کو بنانا نہ جانتا ہو الخ کا مطلب بھی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے اپنے پیشے کے کام کو نہ کرسکتا ہو تو تم اس کا کام کردو تاکہ وہ تمہارے سہارے اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرسکے۔ لوگوں کو برائی پہنچانے سے اجتناب کرو کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو برے کام میں مبتلا نہ کرو کسی کو اپنی زبان اور اپنے ہاتھ سے ایذاء نہ پہنچاؤ اور نہ کسی کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچاؤ کیونکہ لوگوں کو برائی پہنچانے سے اجتناب کرنا بھی خیر و بھلائی ہے خصوصًا ایسی صورت میں جب کہ برائی ( یعنی کسی کو ایذاء ونقصان) پہنچانے پر قدرت بھی حاصل ہو۔ مراز خیر تو امید نیست شرمرساں اس موقع پر عبارت کے ظاہری اسلوب کا تقاضہ یہ تھا کہ آپ ﷺ یوں فرماتے کہ یہ ایک اچھی خصلت ہے جس کے ذریعہ تم لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہو لیکن چونکہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا درحقیقت اپنے نفس کے ساتھ بھلائی کرنا ہے بایں طور کے اس بھلائی کے مختلف فوائد اسے حاصل ہوتے ہیں اس لئے آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ جس کے ذریعہ تم اپنے نفس کے ساتھ بھلائی کرتے ہو۔

【37】

بردہ کو آزاد کرنے یا بردہ کی آزادی میں مدد کرنے کی فضیلت

حضرت براء ابن عازب کہتے ہیں کہ ( ایک دن) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے جس کے ذریعہ میں ( ابتدائی مرحلہ میں نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ) جنت میں داخل ہوجاؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اگرچہ تم نے سوال کرنے میں بہت اختصار سے کام لیا ہے لیکن بڑی اہم بات دریافت کی ہے ( پھر آپ ﷺ نے اس کو یہ عمل بتایا کہ) تم جان کو آزاد کرو اور بردہ کو نجات دو دیہاتی نے عرض کیا کہ کیا یہ دونوں باتیں ( یعنی جان کو آزاد کرنے اور غلام کو نجات دینا) ایک ہی نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ! جان کو آزاد کرنا تو یہ ہے کہ تم اس کو آزاد کرنے میں تنہا اور مستقل ہو اور بردہ کو نجات دینا یہ ہے کہ تم اس کی قیمت کی ادائے گی) میں اس کی مدد کرو ( نیز جنت میں داخل کرنے والا یہ بھی عمل ہے کہ) تم کسی محتاج کو) شیردار منحہ دو اور اس ظالم رشتہ دار پر مہربانی اور احسان کرو جو تم پر ظلم کرتا ہے ! اگر تم سے یہ نہ ہو سکے تو بھوکے کو کچھ کھلاؤ اور پیاسے کو پانی پلاؤ۔ نیز ( لوگوں کو) بھلائی کی تلقین و تبلیغ کرو اور برائی سے روکو۔ اور اگر تم یہ ( بھی) نہ کرسکو تو پھر ( کم سے کم اتنا ہی کرو کہ) بھلی بات کے علاوہ اپنی زبان کو بند رکھو۔ ( بیہقی) تشریح جان یعنی بردہ کو آزاد کرنا اور بردہ کو نجات دینا، ان دونوں باتوں میں جو فرق واضح کیا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جان کو آزاد کرنا تو یہ ہے کہ تم خود اپنے بردہ کو آزاد کرو اور بردہ کو نجات دینا یہ ہے کہ تم کسی دوسرے شخص کے بردہ کی آزادی کے لئے سعی و کوشش کرو، بایں طور کہ اس کی قیمت کی ادائیگی میں اس بردہ کی مدد کرو ! مثال کے طور پر زید نے اپنے غلام کو لکھ کر دے دیا کہ جب تم مجھے اتنے روپے ادا کردو گے تو تم آزاد ہوجاؤ گے، اب اس غلام کی روپے پیسے سے امداد کرنا تاکہ وہ متعینہ رقم اپنے مالک زید کو ادا کر کے آزاد ہوجائے، دوسرے شخص کے بردہ کی آزادی کے لئے سعی و کوشش کرنا ہے، یاد رہے کہ ایسے غلام کو مکاتب کہا جاتا ہے۔ منحہ سے مراد وہ بکری یا اونٹنی ہے جو کسی محتاج کو اس مقصد سے عارضی طور پردے دی جائے کہ وہ اس بکری یا او نٹنی کے دودھ یا ان کے بالوں سے نفع حاصل کرے اور وکوف بہت دودھ دینے والے جانور کو کہتے ہیں۔ بھلی بات کے علاوہ اپنی زبان کو بند رکھو اس مضمون کو ایک دوسری حدیث میں یوں فرمایا گیا ہے۔ (من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلیقل خیرا او لیصمت ) جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنی زبان سے بھلائی ( کی بات) نکالے یا خاموشی اختیار کرے۔ ان دونوں فرمودات کا حاصل یہ ہے کہ اپنی زبان پر پوری طرح قابو رکھنا چاہئے۔ یا وہ گوئی اور بدکلامی اور بری باتوں کا زبان سے صدور نہ ہونا چاہئے، زبان جب بھی حرکت میں آئے، اس سے بھلائی ہی کی بات نکلنی چاہئے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر عمل کر کے بہت سی خرابیوں اور دینی و دنیاوی نقصانات سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ علماء لکھتے ہیں کہ ان دونوں حدیثوں میں بھلائی سے مراد وہ چیز ہے جس میں ثواب ہو اس صورت میں وہ کلام جس پر مباح کا اطلاق ہوتا ہو، بھلائی کے زمرہ میں نہیں آئے گا لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ بھلائی سے مراد وہ چیز ہے جو برائی کے مقابل ہو لہٰذا اس صورت میں مباح کلام بھلائی کے زمرہ میں آئے گا ورنہ حصر غیرموزوں رہے گا۔ اور حضرت عمرو ابن عبسہ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص کوئی ( چھوٹی یا بڑی) مسجد ( نام و نمود کے لئے نہیں بلکہ اس نیت سے) بنائے کہ اس میں اللہ کا ذکر کیا جائے تو اس کے لئے جنت میں ایک بڑا مکان بنایا جائے گا اور جو شخص کسی مسلمان بردہ کو آزاد کرے گا تو وہ بردہ اس شخص کے لئے دوزخ کی آگ سے نجات کا سبب ہوگا اور جو شخص اللہ کی راہ میں ( یعنی جہاد میں یا حج میں، یا طلب علم میں اور یا اسلام میں جیسا کہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے) بوڑھا ہوا تو اس کا بڑھاپا قیامت کے دن اس کے لئے نور ہوگا ( جس کے سبب وہ اس دن کی تاریکیوں سے نجات پائے گا) اس روایت کو صاحب مصابیح نے ( اپنی اسناد کے ساتھ) شرح السنتہ میں نقل کیا ہے۔ تشریح ان الفاظ رواہ فی شرح السنتہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ مشکوٰۃ کے مصنف کو یہ حدیث شرح السنتہ کے علاوہ حدیث کی کسی اور کتاب میں نہیں ملی ہے۔ اور حضرت غریف ابن دیلمی ( تابعی) کہتے ہیں کہ ہم حضرت واثلہ ابن اسقع ( صحابی) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم سے کوئی حدیث بیان کیجئے جس میں کمی بیشی نہ ہو۔ حضرت واثلہ ( یہ بات سن کر) غصہ ہوئے اور کہنے لگے کہ تم لوگ ( شب و روز) قرآن کریم پڑھتے ہو اور تمہارا قرآن کریم تمہارے گھر میں لٹکا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود ( ازراہ سہو و خطا) کمی بیشی ہو ہی جاتی ہے ( یعنی جب کوئی شخص قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے تو اس کا قرآن کریم اس کے گھر میں یا اس کے پاس موجود ہوتا ہے اور اس صورت میں اگر اسے کہیں کوئی شبہ ہو تو وہ قرآن دیکھ سکتا ہے لیکن اس کے باوجود تلاوت میں غلطی سے کوئی لفظ چھوڑ دیتا ہے یا کوئی لفظ بڑھا دیتا ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ ضبط و تکرار اور پوری احتیاط کے باوجود نقل روایت میں الفاظ کی کمی بیشی کا ہوجانا ضروری ہے) ہم نے عرض کیا کہ ہمارا مطلب تو صرف یہ ہے کہ آپ نے آنحضرت ﷺ سے جو حدیث سنی ہو ہمیں سنائیے، چناچہ حضرت واثلہ نے یہ حدیث بیان کی کہ ( ایک دن) ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اپنے ایک دوست کا معاملہ لے کر آئے جس نے ( خود کشی کر کے یا کسی دوسرے کو ناحق) قتل کر کے اپنے لئے دوزخ کی آگ کو واجب کرلیا تھا، آنحضرت ﷺ نے ( واقعہ سن کر) فرمایا کہ اس شخص کی طرف سے ( غلام آزاد کردو اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلے قاتل کے ہر عضو کے ( دوزخ) کی آگ سے نجات دے گا۔ ( ابوداؤد) تشریح حضرت واثلہ سمجھے کہ غریف کی مراد یہ ہے کہ حدیث بیان کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کے الفاظ بعینہ روایت کیئے جائیں۔ چناچہ ان کو اس بات پر غصہ آیا اور مذکورہ بالا جواب دیا۔ لیکن حضرت غریف نے اپنی بات کو وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مطلب یہ نہیں تھا جو آپ سمجھے ہیں بلکہ ہماری مراد تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی حدیث اس طرح بیان فرمائیں کہ اس کے مضمون و مفہموم میں کوئی تغیر نہ ہو اگرچہ الفاظ میں کمی بیشی ہوجائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث کو اس طرح بیان کرنا کہ اس کا مضمون و مفہوم بعینہ نقل ہوجائے گو الفاظ میں کچھ تضاد ہو تو جائز ہے۔

【38】

کسی غلام کے حق میں سفارش کرنا بہترین صدقہ ہے

اور حضرت سمرہ ابن جندب کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بہترین صدقہ وہ سفارش ہے جس کے نتیجہ میں ( بردہ کی) گردن کو نجات حاصل ہوجائے۔ ( بیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ سفارش کر کے کسی غلام کو آزاد کرا دینا یا کوئی شخص اپنے غلام کو قتل کردینا چاہتا ہو یا اس کو مارتا دھاڑتا ہو تو سفارش کر کے اس غلام کے بچا دینا بہترین صدقہ ہے۔

【39】

مشترک غلام کو آزاد کرنے، قرابت دار کو خرید نے اور بیماری کی حالت میں آزاد کرنے کا بیان

اس باب میں جن مسائل و احکام سے متعلق احادیث نقل کی جائیں گی ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ اگر کوئی غلام مشترک ہو مثلاً دو شخص زید اور بکر مشترک طور پر ایک غلام کے مالک ہوں اور ان میں سے ایک شریک مثلاً زید اپنا حصہ آزاد کر دے تو دوسرا کیا کرے ؟ چناچہ اس بارے میں جزوی آزادی ( یعنی ایک غلام کا مثلاً آدھا حصہ آزاد ہوجائے اور آدھا غلام ہی رہے) معتبر ہے یا نہیں خود حنفیہ کے ہاں مختلف اقوال ہیں، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ جزوی آزادی معتبر ہے لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کا قول یہ ہے کہ جزوی آ زادی معتبر نہیں ہے، اقوال کے اس ختلاف کا تعلق مسئلہ کے صرف اسی ایک جزو سے نہیں ہے بلکہ اس سے دوسرے احکام و مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں جن کا ذکر آگے آئے گا۔ باب کا دوسرا جزء یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے غلام کو خریدے جو اس کا قرابت دار ہو تو وہ غلام محض خرید لینے ہی سے آزاد ہوجائے گا خواہ وہ شخص اس کو آزاد کرے یا نہ کرے ! البتہ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ قرابت دار سے کس کس رشتہ کے لوگ مراد ہیں اس کی تفصیل بھی آگے آئے گی۔ باب کا تیسرا جزء یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بیماری کی حالت میں غلام کو آزاد کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ چناچہ اس کے متعلق احکام و مسائل بھی حسب موقع احادیث کی تشریح کے ضمن میں بیان کئے جائیں گے۔

【40】

مشترک غلام کو آزاد کرنے کے بارے میں ایک ہدایت

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی ( مشترک) غلام کے اپنے حصہ کو آزاد کرے ( تو اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ) اگر اس کے پاس اتنا مال موجود ہو جو ( اس غلام کے باقی حصوں) کی قیمت کے بقدر ہو تو انصاف کے ساتھ ( یعنی بغیر کمی بیشی کے) اس غلام کے ( باقی ان حصوں) کی قیمت لگائی جائے گی اور وہ اس غلام کے دوسرے شریکوں کو ان کے حصوں کی قیمت دے دے وہ غلام اس کی طرف سے آزاد ہوجائے گا اور اگر اس کے پاس اتنا مال نہ ہو تو پھر اس غلام کا جو حصہ اس شخص نے آزاد کیا ہے وہ آزاد ہوجائے گا ( اور دوسرے شرکاء کے حصے مملوک رہیں گے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث کا ظاہری مفہوم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر ایک غلام کے مثلاً دو مالک ہوں اور ان میں سے ایک حصہ دار اپنا حصہ آزاد کرنا چاہے تو اگر وہ آزاد کرنے والا شخص صاحب مقدور ہو تو وہ دوسرے شریک کو اس کے حصہ کے بقدر قیمت ادا کر دے اس صورت میں وہ غلام اس کی طرف سے آزاد ہوجائے گا اور اگر آزاد کرنے والا شخص صاحب مقدور نہ ہو ( اور دوسرے شریک کو اس کے حصہ کی قیمت ادا نہ کرسکتا ہو) تو اس صورت میں وہ غلام اس شخص کے حصہ کے بقدر تو آزاد ہوجائے گا اور دوسرے شریک کے حصہ کے بقدر غلام رہے گا۔ نیز حدیث کا ظاہری مفہوم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آزادی اور غلامی متجزی ہوسکتی ہیں ( یعنی کسی غلام کا کچھ حصہ آزاد ہوجانا اور کچھ حصہ غلام رہنا جائز رہتا ہے) اور دوسرے شریک کو اپنا حصہ آزاد کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور نہ اس غلام سے استسعاء ( محنت) کرائی جائے ! چناچہ حضرت امام شافعی کا یہی مسلک ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ باوجودیکہ آزادی اور غلامی کے متجزی ہونے کا قائل ہیں لیکن اس صورت میں ان کا مسلک یہ ہے کہ اگر آزاد کرنے والا شخص صاحب مقدور ہو تو وہ دوسرے شریک کا حصہ بھر دے ( یعنی وہ اس کو اس کے حصہ کی قیمت ادا کر دے) یا دوسرا شریک اپنے حصے کے بقدر اس غلام سے استسعاء کرائے یا وہ شریک بھی اپنا حصہ آزاد کر دے اور اگر آزاد کرنے والا شخص صاحب مقدور نہ ہو تو پھر وہ اپنے شریک کو اس کا حصہ نہ پھیر دے۔ بلکہ وہ شریک یا تو اس غلام سے استسعاء کے ذریعہ اپنے حصے کی قیمت وصول کرلے یا اپنا حصہ آزاد کر دے اس صورت میں حق ولاء دونوں کو حاصل ہوگا ! اس بارے صاحبین یعنی حضرت امام ابویو سف اور امام محمد کا یہ قول ہے کہ آزاد کرنے والا شخص اگر صاحب مقدور ہو تو دوسرے شریک کا حصہ پھیر دے اور اگر صاحب مقدور نہ ہو دوسرا شریک اس غلام سے استسعاء کے ذریعہ اپنے حصہ کی قیمت حاصل کرلے اور چونکہ آزادی متجزی نہیں ہوتی اس لئے اس صورت میں حق ولاء صرف آزاد کرنے والے کو حاصل ہوگا۔

【41】

صاحبین کی مستدل حدیث

اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص ( مشترک) غلام کے اپنے حصہ کو آزاد کرے گا تو وہ غلام پورا آزاد ہوجائے گا ( اور یہ آزادی اس آزاد کرنے والے شخص کی طرف سے متصور ہوگی) اور اگر اس شخص کے پاس ( اتنا) مال ہو ( کہ وہ اپنے حصہ کے علاوہ باقی حصوں کی قیمت کی ادائیگی کرسکے تو دوسرے شرکاء کو ان کے حصوں کی قیمت دے دے) اور اگر اس کے پاس اتنا مال نہ ہو تو پھر ہو غلام ( ان باقی حصوں) کے بقدر محنت مزدوری یا دوسرے شرکاء کی خدمت پر مامور کیا جائے لیکن غلام کو ( کسی ایسے کام اور محنت کی) مشقت میں مبتلا نہ کیا جائے ( جو اس کی طاقت سے باہر ہو ) ۔ ( بخاری ومسلم )

【42】

مرض الموت میں اپنے تمام غلام آزاد کر کے اپنے ورثاء کی حق تلفی نہ کرو

اور حضرت عمران ابن حصین راوی ہیں کہ ایک شخص نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلام آزاد کردیئے اور اس شخص کے پاس ان غلاموں کے علاوہ اور کوئی مال نہ تھا ( پھر اس شخص کی وفات کے بعد جب) رسول کریم ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے ان غلاموں کو بلایا اور ( دو دو کی تعداد میں) ان کے تین حصے کئے اور ان کے درمیان قرعہ ڈالا، اس طرح ان سے دو کو تو آزاد کردیا اور چار کو غلام رکھا اور آزاد کرنے والے کے حق میں ( اظہار ناراضگی) کے لئے سخت الفاظ فرمائے۔ اور نسائی کی روایت میں جو حضرت عمران ہی سے منقول ہے، ان الفاظ سخت الفاظ فرمائے کی بجائے یہ الفاظ ہیں کہ میں نے تو یہ ارادہ کرلیا تھا کہ اس شخص کی نماز جنازہ نہ پڑھوں اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس ( شخص کے حق میں بطور تنبیہ وتہدید) یہ فرمایا کہ اگر میں اس کی تدفین سے پہلے اس کے جنازہ پر پہنچتا تو وہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جاتا۔ تشریح دو کو تو آزاد کردیا الخ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے یہ حکم جاری فرمایا کہ جن دو کے نام قرعہ نکلا ہے وہ آزاد ہیں اور باقی چاروں غلام رہیں گے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنے مرض الموت میں اپنے سارے غلاموں کو آزاد کر دے تو اس آزادی کا اجراء ان غلاموں کی صرف تہائی تعداد میں ہوگا کیونکہ مرض الموت میں اس کے مال کے ساتھ اس کے ورثاء کا حق متعلق ہوجاتا ہے، اسی طرح وصیت، صدقہ، ھبہ اور ان کے مثل کا اجراء بھی تہائی مال میں ہوگا۔ زین العرب نے کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ حکم اس لئے جاری فرمایا کہ اس وقت عام طور پر غلام زنگی ہوا کرتے تھے جو قیمت میں مساوی ہوتے تھے۔ اور امام نووی نے حضرت امام ابوحنیفہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ایسی صورت میں ( مساوی سلوک کے پیش نظر) ہر غلام کا تہائی حصہ تو آزاد متصور ہوگا اور باقی دو حصوں کے بقدر اس سے محنت یا خدمت لی جائے گی۔ ا نحضرت ﷺ نے اس شخص پر اس لئے اظہار ناراضگی فرمایا کہ اس نے چھ کے چھ غلاموں کو آزاد کر کے اپنے ورثاء کو بالکل محروم کردیا تھا جو آپ ﷺ کی نظر میں سخت مکروہ عمل تھا، اس لئے آپ ﷺ نے اس کے ورثاء پر اس طرح شفقت و کرم کیا کہ اس شخص کی طرف سے دی گئی آزادی کو دو غلاموں کے حق میں جاری کیا اور باقی چار کو ان کو ورثاء کا حق قرار دے دیا۔ حدیث کے اس جزو سے یہ معلوم ہوا کہ میت کو اس کے کسی نا مشروع اور ظالمانہ عمل پر برا کہہ سکتے ہیں اور یہ اس ارشاد گرامی حدیث (اذکروا امواتکم بالخیر) ( اپنے مرے ہوئے لوگوں کو بھلائی کے ساتھ یاد کرو) کے منافی نہیں ہے۔

【43】

غلام باپ کو خرید نے کا مسئلہ

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی بیٹا اپنے باپ کا بدلہ نہیں اتار سکتا مگر اس صورت میں کہ وہ اپنے باپ کو کسی کا غلام پائے اور اس کو خرید کر آزاد کر دے۔ ( مسلم) تشریح اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ محض بیٹے کے خرید لینے سے ہی آزاد ہوجاتا بلکہ جب اسے اس کا بیٹا خرید کر آزاد کرے تب آزاد ہوتا ہے۔ چناچہ اصحاب ظواہر کا یہی مسلک ہے۔ لیکن جمہور علماء کا یہ مسلک ہے کہ باپ اپنے بیٹے کی محض ملکیت میں آجانے سے آزاد ہوجاتا ہے، اس کی صراحت دوسری فصل کی پہلی حدیث سے بھی ہوتی ہے اور اس حدیث کے معنی بھی یہی ہیں۔ چناچہ حضرت مظہر فرماتے ہیں کہ (فیعتقہ) میں حرف فا سبب کے لئے ہے۔ اس صورت میں حدیث کے آخری جزء کا ترجمہ یہ ہوگا کہ جب کہ وہ اپنے باپ کو کسی کا غلام پائے اور اس کو آزاد کرنے کے لئے خرید لے لہٰذا خریدنے کے بعد اس کی ضرورت نہیں ہوگی کہ بیٹا اس باپ سے یوں کہے کہ میں نے تمہیں آزاد کیا بلکہ وہ محض بیٹے کے خرید لینے ہی سے آزاد ہوجائے گا۔

【44】

مدبر غلام کو بیچنا جائز ہے یا نہیں ؟

اور جابر کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے اپنے غلام کو مدبر کیا اور اس کے پاس اس غلام کے علاوہ اور کوئی مال نہیں تھا، جب نبی کریم ﷺ کو اس کی خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے ؟ چناچہ ایک شخص نعیم ابن نحام نے اس غلام کو آٹھ سو درہم کے عوض خرید لیا۔ ( بخاری ومسلم) مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ چناچہ نعیم ابن عبداللہ عدوی نے اس غلام کو آٹھ سو درہم کے عوض خرید لیا۔ انہوں نے آٹھ سو درہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کئے اور نبی کریم ﷺ نے وہ درہم اس شخص کو دے دیئے ( جس کا وہ غلام تھا) اور فرمایا کہ تم اس رقم کو سب سے پہلے اپنی ذات پر خرچ کرو اور اس کے ذریعہ ثواب حاصل کرو اور اس کے بعد اگر کچھ بچ جائے تو اس کو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو، اگر ان پر خرچ کرنے کے بعد بھی بچ جائے تو رشتہ داروں پر خرچ کرو اور اگر ان پر خرچ کرنے کے بعد بھی کچھ بچ جائے تو اس کو اس طرح اور اس طرح خرچ کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ اس طرح سے مراد یہ ہے کہ اس کو اپنے آگے اپنے دائیں اور اپنے بائیں خرچ کرو ( یعنی تمہارے لئے آگے اور دائیں بائیں جو سائل جمع ہوں ان کو اللہ واسطے دے دو ) ۔ تشریح مدبر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنے غلام سے یہ کہہ دے کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو، چناچہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے مطابق ایسے غلام کو بیچنا حضرت امام شافعی اور حضرت امام محمد کے نزدیک جائز ہے، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ مدبر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو مدبر مطلق اور دوسرا مدبر مقید۔ مدبر مطلق تو وہ غلام ہے جس کا مالک اسے یوں کہے کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو۔ اور مدبر مقید وہ غلام ہے جس سے اس کا مالک یوں کہے کہ اگر میں اس بیماری میں مرجاؤں تو تم آزاد ہو۔ مدبر مطلق کا حکم تو یہ ہے کہ ایسے غلام کو آزادی کے علاوہ کسی اور صورت میں اپنی ملکیت سے نکالنا مالک کے لئے جائز نہیں ہے یعنی وہ مالک اس غلام کو آزاد تو کرسکتا ہے لیکن نہ تو اس کو فروخت کرسکتا ہے اور نہ ہبہ کرسکتا ہے، ہاں اس سے خدمت لینا جائز ہے، اسی طرح اگر لونڈی ہو تو اس سے جماع کرنا بھی جائز ہے اور اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کرنا بھی جائز ہے ایسا غلام اپنے مالک کے مرنے کے بعد اس کے تہائی مال میں سے آزاد ہوجاتا ہے اور اگر تہائی مال میں سے پورا آزاد نہ ہوسکا ہو تو پھر تہائی مال کے بقدر ( جزوی طور پر ہی آزاد ہوگا) مدبر مطلق کے برخلاف مدبر مقید کو بیچنا جائز ہے اور اگر وہ شرط پوری ہوجائے یعنی مالک اس مرض میں مرجائے تو پھر جس طرح مدبر مطلق اپنے مالک کے مرجانے کے بعد آزاد ہوجاتا ہے اسی طرح مدبر مقید بھی آزاد ہوجائے گا ! لہٰذا امام ابوحنیفہ اس حدیث کے مفہوم میں تاویل کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے جس مدبر کو فروخت فرمایا وہ مدبر مقید ہوگا۔ مشکوٰۃ کے تمام نسخوں میں نعیم ابن نحام لکھا ہے لیکن علماء نے یہ وضاحت کی ہے کہ یہ کتابت کی غلطی ہے اصل میں نعیم ہی کا دوسرا نام نحام ہے، اس دوسرے نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں نعیم کی نحمہ ( یعنی آواز سنی) اس مناسبت سے انہیں نحام کہا جانے لگا۔

【45】

ذی رحم محرم ملکیت میں آتے ہی آزاد ہوجاتا ہے

حضرت حسن بصری حضرت سمرہ سے اور وہ رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص خواہ خریدنے کی وجہ سے خواہ ہبہ یا وراثت کے ذریعہ) اپنے ذی رحم محرم کا مالک ہوگا تو وہ آزاد ہوجائے گا۔ ( ترمذی، ابن ماجہ) تشریح مثلاً باپ نے اپنے اس بیٹے کو خریدا جو کسی دوسرے شخص کی غلامی میں تھا یا بیٹے نے اپنے غلام باپ کو خریدا یا بھائی نے غلام خریدا تو محض خرید لینے کی وجہ سے وہ غلام آزاد ہوجائے گا۔ ذی رحم اس قرابت دار کو کہتے ہیں جو ولادت کی قرابت رکھے جس کا تعلق رحم سے ہوتا ہے ذی رحم میں بیٹا، باپ، بھائی چچا، بھتیجا اور اسی قسم کے دوسرے قرابت دار شامل ہیں اور محرم اس قرابت دار کو کہتے ہیں جس سے نکاح جائز نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ چچا کا بیٹا اور اسی قسم کے دوسرے رشتہ دار ذی رحم محرم کے زمرہ میں شامل نہیں ہیں۔ علامہ نووی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں قرابت دار محض ملکیت میں آجانے کی وجہ سے آزاد ہوجاتا ہے یا نہیں ؟ علماء کے اختلافی اقوال ہیں چناچہ اہل ظواہر کا قول یہ ہے کہ ان قرابت داروں میں سے کوئی بھی محض ملکیت میں آجا نے سے آزاد نہیں ہوجاتا بلکہ آزاد کرنا ضروری ہوتا ہے، ان کی دلیل حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے جو پہلی فصل میں گذری ہے۔ جمہور علماء یہ فرماتے ہیں کہ محض ملکیت میں آجانے کی وجہ سے اصول کے درجہ کے قرابت دار ( جیسے باپ داد ا، پڑ دادا وغیرہ) اور فروع کے درجہ کے قرابت دار، ( جیسے بیٹا، پوتا پڑپوتا وغیرہ) آزاد ہوجاتے ہیں، البتہ اصول اور فروع کے علاوہ دوسرے قرابت داروں کے بارے میں جمہور علماء کے بھی مختلف اقوال ہیں، چناچہ حضرت امام شافعی کا مسلک تو یہ ہے کہ یہ خصوصیت صرف اصول و فروع کے قرابت داروں ہی کے حاصل ہے وہ محض ملکیت میں آجانے کی وجہ سے آزاد ہوجاتے ہیں جب کہ حضرت امام مالک نے اس خصوصیت میں بھائی کو بھی شامل کیا ہے، ان کا دوسرا قول یہ ہے کہ تمام ذی رحم محرم آزاد ہوجا تے ہیں۔ نیز ان کی تیسری روایت امام شافعی کے مسلک کے مطابق ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ ہر وہ قرابت دار جو ذی رحم محرم ہو محض ملکیت میں آجانے کی وجہ سے آزاد ہوجاتا ہے۔

【46】

ام ولد، اپنے آقا کی وفات کے بعد آزاد ہوجاتی ہے

اور حضرت عباس نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب کسی شخص کی لونڈی اس کے ( نطفہ) سے بچہ جنے تو وہ لونڈی اس شخص کے مرنے کے پیچھے۔ یا یہ فرمایا کہ اس شخص کے مرنے کے بعد آزاد ہوجائے گی۔ ( دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو لونڈی اپنے مالک کے بچہ کو جنم دے وہ اس مالک کے مرنے کے بعد آزاد ہوجاتی ہے وہ مالک کی زندگی میں آزاد نہیں ہوتی لیکن مالک اس لونڈی کو نہ تو فروخت کرسکتا ہے اور نہ ہبہ کرسکتا ہے اس مسئلہ پر علماء کا اجماع و اتفاق ہے، اس کے برخلاف جو روایت منقول ہے وہ منسوخ ہے اس کی تفصیل اگلی حدیث کے ضمن میں آئے گی۔ اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ہم نے رسول کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق کے زمانہ میں بچوں کی ماؤں کو بیچا لیکن حضرت عمر فاروق خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ہمیں ان کو بیچنے سے منع کردیا اور ہم اس سے باز رہے۔ ( ابوداؤد) تشریح بچوں کی ماؤں سے مراد وہ لونڈیاں ہیں جن سے ان کے مالکوں کی اولاد ہوچکی تھی۔ یہاں ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق کے زمانہ میں ان لونڈیوں کو بیچا جاتا تھا تو حضرت عمر نے اس سے کیوں منع کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس بات کا قوی احتمال ہے کہ ان لونڈیوں کو بیچنے کی اجازت کی منسوخی کا حکم آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں عام لوگوں تک نہ پہنچا ہوگا اور ان لونڈیوں کو بیچے جانے کی خبر آنحضرت ﷺ تک نہ پہنچی ہوگی۔ لہٰذا اس صورت میں حضرت جابر کا یہ ارشاد ایسی لونڈیوں کے بیچنے کے جواز کی دلیل نہیں ہوسکتا۔ دلیل تو جب ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ان لونڈیوں کے بیچے جانے کی اطلاع ہوتی اور آپ ﷺ اس کو جائز رکھتے۔ نیز ایک احتمال یہ بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ان لونڈیوں کو بیچے جانے کا واقعہ اس کی اجازت کی منسوخی سے پہلے کا ہوگا، اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق کے زمانے کے بارے میں بھی یہ احتمال ہے کہ حضرت ابوبکر کا زمانہ خلافت چونکہ بہت قلیل تھا اس میں بھی وہ دوسری مہمات میں مشغول رہے اس لئے انہیں اس کی علم نہ ہوا ہوگا، اگر ان کو اس کی خبر ہوتی تو وہ اس فعل سے ضرور باز رکھتے۔ حضرت ابوبکر کے بعد جب حضرت عمر فاروق خلیفہ ہوئے تو انہوں نے لوگوں کو اس سے روک دیا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ رسول کریم ﷺ نے ام ولد کو بیچنے کی ممانعت فرما دی تھی۔

【47】

اگر آزادی کے وقت غلام کے پاس کچھ مال ہو تو آقا کی اجازت کے بعد ہی وہ اس مال کا مالک ہو گا

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص اپنے غلام کو آزاد کرے اور اس غلام کے پاس کچھ مال ہو تو غلام کا وہ مال اس کے مالک ہی کا ہے ہاں اگر مالک اس کی شرط کر دے ( تو پھر وہ مال اس غلام کا ہوجائے گا۔ ( ابوداؤد و ابن ماجہ) تشریح ظاہر ہے کہ کوئی بھی غلام کسی بھی مال کا مالک ہوتا ہی نہیں تو اس کے پاس مال کہاں سے ہوگا لہٰذا اور اس غلام کے پاس کچھ مال ہو اس سے مراد یہ ہے کہ اس غلام نے اپنے مالک کی اجازت سے جو محنت مزدوری یا تجارت وغیرہ کی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو مال حاصل ہوا ہے اگر وہ مال اس غلام کے پاس ہو تو اس کے بارے میں بھی حکم یہ ہے کہ وہ دراصل اس غلام کے آقا ہی کی ملکیت ہے کیونکہ غلام اور اس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے سب کا مالک اس کا آقا ہی ہوتا ہے لہٰذا یہ گمان نہ کیا جائے کہ غلام جب آزاد ہوجانے کی وجہ سے ملکیت قائم کرنے کا اہل ہوگیا ہے تو وہ مال جو اس کے پاس پہلے سے موجود تھا وہ اس کی ملکیت میں آگیا ہے کیونکہ وہ مال تو پہلے بھی اس کے آقا کی ملکیت تھا اور اب اس کے آقا کی ملکیت رہے گا۔ غلام کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوگا، ہاں اگر اس کا آقا اس کو آزاد کرتے وقت یہ کہہ دے کہ یہ مال غلام کی ملکیت ہے تو اس صورت میں وہ مال اس آقا کی طرف سے اس غلام کے لئے صدقہ اور ہبہ ہوجائے گا اور وہ آزاد ہونے کے بعد اس کا مالک ہوجائے گا۔

【48】

آزادی جزوی طور پر واقع ہوتی ہے یا نہیں ؟

اور حضرت ابوملیح ( تابعی) اپنے والد مکرم ( حضرت اسامہ ابن عمیر صحابی) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے ایک غلام میں سے کچھ حصہ آزاد کیا، جب نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے اور پھر یہ حکم دیا کہ اس غلام کو بالکل آزاد کردیا جائے۔ ( ابوداؤد) تشریح آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ جو بھی کام اللہ تعالیٰ کے لئے کیا جائے اور وہ عبادت کی قسم سے ہو تو اس میں اپنے حصہ کو شریک نہ کرنا چاہئے۔ لہٰذا ایک غلام کے بعض حصوں کو آزاد کردینا اور بعض حصوں کو بدستور غلام رکھنا مناسب نہیں ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ آزادی اور غلامی متجزی نہیں ہوتی، لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ چونکہ متجزی کے قائل ہیں اس لئے ان کے نزدیک ان الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس غلام کو بالکل آزاد کردینے کا حکم دیا بایں طور کہ آپ ﷺ نے اس کے مالک کو اس کی ترغیب دلائی کہ وہ اس غلام کو بالکل آزاد کر دے۔

【49】

مشروط آزادی کا ایک واقعہ

اور حضرت سفینہ کہتے ہیں کہ ( ابتداءً ) میں حضرت ام سلمہ کی ملکیت میں تھا ( ایک دن) انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ میں تمہیں آزاد کرنا چاہتی ہوں، لیکن یہ شرط عائد کرتی ہوں کہ تم جب تک زندہ رہو رسول کریم ﷺ کی خدمت کرتے رہو گے میں نے عرض کیا ( کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت تو میرے لئے سعادت وخوش بختی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے) اگر آپ یہ شرط عائد نہ کرتیں تب بھی میں اپنے جیتے جی رسول کریم ﷺ سے جدا نہ ہوتا چناچہ حضرت ام سلمہ نے مجھے آزاد کردیا اور آنحضرت ﷺ کی خدمت کی شرط مجھ پر عائد کردی۔ ( ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح سفینہ نبی کریم ﷺ کے آزد کردہ غلام تھے، لیکن بعض حضرات یہ فرماتے تھے کہ یہ حضرت ام سلمہ کے غلام تھے جو آپ ﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں، پھر حضرت ام سلمہ نے ان کو مذکورہ بالا شرط کے ساتھ آزاد کردیا تھا سفینہ کا اصل نام مہران یا رومان اور یا رباح تھا ان کی کنیت ابوعبد الرحمٰن یا ابوالبختری تھی، سفینہ ان کا لقب تھا اور اسی نام کے ساتھ زیادہ مشہور تھے، اس لقب کا پس منظر یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کی خدمت کیا کرتے تھے جب غزوات میں جاتے تو لوگوں کا سامان اپنی پیٹھ پر لاد کر ادھر ادھر پہنچاتے تھے۔ سفینہ کشتی کو کہتے ہیں جس طرح کشتی بار برداری کے کام آتی ہے اس طرح یہ بھی لوگوں کے بوجھ ڈھوتے تھے، اسی اعتبار سے ان کا لقب سفینہ ہوگیا۔ منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سفینہ اسلامی لشکر کے ہمراہ تھے کہ قافلہ سے بچھڑ گئے اور جنگل میں راستہ بھول گئے، وہ راستہ کی تلاش میں سر گرداں تھے کہ اتنے میں قریب کی جھاڑیوں سے ایک شیر نمودار ہوا اور ان کے سامنے آگیا، انہوں نے شیر کو دیکھتے ہی کہا کہ ابوالحارث ! میں سفینہ ہوں جو رسول کریم ﷺ کا آزاد کردہ غلام ہے ! یہ سنتے ہی شیر دم ہلانے لگا اور پھر ان کے آگے ہو لیا اور ان کو منزل مقصود تک پہنچا دیا۔

【50】

مکاتب جب تک پورا بدل کتابت ادا نہ کر دے غلام ہی رہے گا

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے اور نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا مکاتب ( اس وقت تک) غلام رہے گا جب تک کہ اس کے بدل کتابت میں سے ایک درہم بھی باقی رہے گا۔ ( ابوداؤد) تشریح مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس کو اس کا مالک یہ لکھ کر دے دے کہ جب تم اتنے روپے ادا کرو گے آزاد ہوجاؤ گے، چناچہ اسی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ مالک نے اس کی آزادی کے لئے جتنے روپے مقرر کئے ہیں جب تک وہ پورے مالک کو ادا نہ ہوجائیں گے وہ مکاتب، غلام ہی رہے گا، اگر اس مقدار میں سے مثلاً ایک روپیہ بھی باقی رہ گیا تو وہ آزاد نہیں ہوگا، یہ نہیں ہوگا کہ اس نے جتنا روپیہ مالک کو ادا کردیا ہے اس کے حساب سے اس کا کچھ حصہ آزاد ہوجائے اور جو روپیہ باقی رہ گیا اس کے مطابق کچھ حصہ غلام رہے۔

【51】

عورتوں کو اپنے مکاتب غلام سے پردہ کا حکم

اور حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ( عورتوں) سے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی ( عورت) کے مکاتب غلام کے پاس اتنا روپیہ ہوجائے جس سے وہ اپنا پورا بدل کتابت ادا کرسکے تو اس ( مالکہ) کو چاہئے کہ وہ اس مکاتب سے پردہ کرے۔ ( ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ مکاتب نے جب تک پورا بدل کتابت ادا نہیں کردیا غلام اور محرم ہے اس سے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے اگر اس کے پاس اتنا مال و زر ہوگیا ہے جس سے وہ اپنا پورا بدل کتابت ادا کرسکتا ہے تو ازراہ تقویٰ و احتیاط اس سے پردہ کرنا چاہئے کیونکہ جب وہ پورا بدل کتابت ادا کرنے کی قدرت واستطاعت رکھتا ہے تو گویا اس نے واقعی اپنے بدل کتابت ادا کردیا ہے اس حدیث کے سلسلہ میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ حکم مخصوص طور پر اپنی ازواج مطہرات کے لئے فرمایا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت (لستن کا حد من النساء) کے مطابق ازواج مطہرات کا پردہ بھی دوسری عورتوں کی بنسبت زیادہ سخت تھا

【52】

مکاتب کی طرف سے بدل کتابت کی جزوی عدم ادائے گی کا مسئلہ

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد ( حضرت شعیب) سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر کسی شخص نے اپنے غلام کو سو اوقیہ کے بدلے مکاتب کیا اور اس غلام نے سب اوقیے ادا کردیئے مگر دس اوقیے ادا نہ کرسکا یا یہ فرمایا کہ دس دینار ادا نہ کرسکا ( یہاں راوی کو شک ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے دس اوقیہ فرمایا تھا یا دس دینار کا ذکر کیا تھا) اور پھر وہ اس باقی کی ادائے گی سے عاجز ہوگیا تو وہ مکاتب ( بدستور) غلام ہی رہے گا۔ ( ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح ابن مالک فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مکاتب کا اپنے بدل کتابت کے کچھ حصے کی ادائے گی سے قاصر رہنا پورے بدل کتابت کی ادائیگی سے قاصر رہنا ہے لہٰذا ایسی صورت میں مالک کو اس کی کتاب فسخ کردینے کا حق حاصل ہوجاتا ہے اور فسخ کتابت کے بعد وہ مکاتب بدستور غلام رہتا ہے، نیز حدیث کے الفاظ (فھو رقیق) سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس مکاتب نے اپنے بدل کتابت کا جو کچھ حصہ مالک کو ادا کردیا ہے وہ اس مالک ہی کی ملکیت رہے گا۔ اور حضرت ابن عباس نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی مکاتب دیت یا میراث کا مستحق ہوجائے تو اس کو ( اس دیت یا میراث کا) صرف اس قدر حصہ ملے گا جس قدر وہ آزاد ہوا ہے۔ ( ابوداؤد، ترمذی) اور ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا مکاتب کو دیت میں اس حصہ کے بقدر مال دیا جائے گا جو وہ اپنی آزادی کی قیمت ( یعنی بدل کتابت) میں سے ادا کرچکا تھا اور اس حصہ کے بقدر قیمت دی جائے گی اور ابھی بطور غلام باقی ہے، اس روایت کو ترمذی نے ضعیف کہا ہے۔ تشریح دیت یا میراث کا مستحق ہوجائے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مکاتب کسی دیت یا کسی میراث کا حقدار ہوجائے تو اس دیت یا میراث میں سے اس کو اسی قدر ملے گا جس قدر وہ آزاد ہوا ہے اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جاتا ہے کہ زید کسی شخص کا غلام تھا اس کے مالک نے اس کو مکاتب کیا اور زید نے ابھی اپنے بدل کتابت میں سے آدھا ہی حصہ اپنے مالک کو ادا کیا تھا کہ اس کا باپ مرگیا جو ایک آزاد شخص تھا لیکن اس نے اپنے اس مکاتب بیٹے یعنی زید کے علاوہ اور کوئی وارث نہیں چھوڑا تو اس صورت میں زید اپنے مرحوم باپ کی وراثت میں صرف آدھے حصے کا حقدار ہوگا۔ یا دوسری صورت جس کو دوسروں نے بیان کیا ہے، یہ ہو کہ اس مکاتب نے اپنے بدل کتابت میں سے آدھا حصہ اپنے مالک کو ادا کیا تھا کہ کسی نے اس ( زید) کو قتل کردیا تھا، اس صورت میں قاتل اس مکاتب کے آدھے آزاد حصہ کی دیت تو اس کے ورثاء کو ادا کرے گا اور اس کے آدھے غلام حصہ کی دیت جو اس کی قیمت کا بھی آدھا حصہ ہے، اس کے مالک کو ادا کرے مثلاً بکر نے اپنے غلام زید کو ایک ہزار کے بدلے مکاتب کیا ویسے زید نے غلام ہونے کی حی ثیت سے سو روپے کی قیمت کا تھا، مکاتب ہونے کے بعد زید اپنے مالک بکر کو اپنے بدلے کتابت کے مقررہ ایک ہزار روپے میں سے پانچ سو روپے ہی ادا کر پایا تھا کہ کسی شخص نے اس کو قتل کردیا، اس صورت میں قاتل زید کے ورثاء کو پانچ سو روپے ادا کرے گا جو اس کی آزادی کی قیمت ( یعنی بدل کتابت) کا نصف حصہ ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کے مالک بکر کو پچاس روپے ادا کرے گا جو اس کی اصل قیمت کا نصف حصہ ہے۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مکاتب اپنے بدل کتابت میں سے جو مقدار مالک کو ادا کر دے گا اس کے بقدر وہ آزاد ہوجائے گا اور جو مقدار ادا نہیں کرے گا اس کے بقدر غلام رہے گا چناچہ اس حدیث پر صرف امام نخعی نے عمل کیا ہے لیکن جمہور علماء یہ فرماتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ یہ حدیث ضعیف ہے جس کو کسی مسلک کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا بلکہ یہ ان دونوں حدیثوں کے معارض بھی ہے جو اس سے پہلے بروایت حضرت عمرو ابن شعیب نقل ہوچکی ہیں جن سے یہ بات بصراحت ثابت ہوتی ہے کہ مکاتب کے ذمہ جب تک بدل کتابت کا کچھ حصہ بھی باقی رہے گا وہ غلام ہی رہے گا۔

【53】

مالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے

حضرت عبد الرحمٰن ابن ابوعمرہ انصاری ( تابعی) کے بارے میں منقول ہے کہ ان کی والدہ نے ( ایک دن) بردے کو آزاد کرنے کا ارادہ کیا مگر وہ اگلی صبح ہونے تک اس ارادہ کو عملی جامہ نہ پہنا سکی تھیں، کہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم ابن محمد سے ( اس صورت حال کو ذکر کیا اور ان سے پوچھا کہ اگر میں اپنی والدہ کی طرف سے ( بردہ کو) آزاد کروں تو کیا اس سے ان کو نفع پہنچے گا ؟ حضرت قاسم نے فرمایا کہ ( ایک مرتبہ) حضرت سعد ابن عبادہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری والدہ کا ( اچانک) انتقال ہوگیا ہے، اگر میں ان کی طرف سے بردہ آزاد کروں تو کیا اس سے ان کو نفع پہنچے گا ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں نفع پہنچے گا۔ ( مالک) تشریح حضرت قاسم ابن محمد، حضرت ابوبکر صدیق کے پوتے تھے، اس وقت مدینہ میں جو سات فقہاء مشہور تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھے ہاں نفع پہنچے گا کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کی طرف سے جو بردہ آزاد کرو گے اس کا ثواب تمہاری والدہ کو پہنچے گا، چناچہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے البتہ بدنی عبادت کے ثواب پہنچنے کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں لیکن زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ بدنی عبادت کا ثواب بھی پہنچتا ہے۔ اور حضرت یحییٰ ابن سعید ( تابعی) کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن ابن ابوبکر سوئے ہوئے تھے کہ اسی سونے کی حالت میں ( اچانک) انتقال کر گئے، چناچہ حضرت عائشہ جو ان کی بہن تھیں ان کی طرف سے بہت سے بردے آزاد کئے۔ ( مالک) تشریح حضرت عائشہ نے جو بہت سے بردے آزاد کئے ان کا سبب یا تو یہ تھا کہ حضرت عبدالرحمن پر کسی وجہ سے بردے آزاد کرنے واجب ہوں گے جس پر وہ اپنی زندگی میں عمل نہ کرسکے اور وہ پھر ناگہانی موت کی وجہ سے اس کی وصیت بھی نہ کرسکے۔ چناچہ حضرت عائشہ نے ازخود ان کی طرف سے بردے آزاد کردیئے، یا پھر یہ کہ بعض حالات میں ناگہانی موت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا، ظاہر ہے کہ اس صورت میں حضرت عائشہ بہت زیادہ غمگین ہوئی ہوں گی، اس لئے انہوں نے بہت سارے بردے آزاد کئے تاکہ اس صورت میں نقصان کا تدارک ہو سکے۔

【54】

غیر مشروط طور پر غلام خرید نے والا اس غلام کے مال کا حق دار نہیں ہو گا

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی غلام کو خریدے اور اس کے مال کو شرط نہ کرے تو خریدنے والے کو اس مال میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ ( دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ کسی شخص نے غلام کو خریدا اور خریداری کے معاملہ میں اس مال کو شامل نہیں کیا جو غلام کے ساتھ ہے تو وہ اس مال کا حق دار نہیں ہوگا کیونکہ وہ مال تو دراصل اس مالک کی ملکیت ہے۔ جس سے اس نے غلام کو خریدا ہے۔

【55】

قسم کی قسمیں اور ان کے احکام

قسم کی تین قسمیں ہیں۔ ١ غموس۔ ٢ لغو۔ ٣ منعقدہ۔ غموس اس قسم کو کہتے ہیں کہ کسی گزشتہ یا حالیہ بات پر جھوٹی قسم کھائی جائے، مثلاً یوں کہا جائے اللہ کی قسم میں نے یہ کام کیا تھا حالانکہ واقعتًا وہ کام نہیں کیا تھا یا یوں کہا جائے اللہ کی قسم میں نے یہ کام نہیں کیا تھا حالانکہ واقعتًا وہ کام کیا گیا تھا ! اسی طرح مثلاً زید نے یہ کہا کہ اللہ کی قسم ! خالد کے ذمہ میرے ہزار روپے ہیں۔ یا اللہ کی قسم ! میرے ذمہ خالد کے ہزار روپے نہیں ہیں حالانکہ حقیقت میں خالد کے ذمہ اس کے ہزار روپے نہیں ہیں یا اس کے ذمہ خالد کے ہزار روپے ہیں۔ غموس کا حکم یہ ہے کہ اس طرح جھوٹی قسم کھانے والا شخص گنہگار ہوتا ہے۔ لیکن اس پر کفارہ واجب نہیں ہوتا البتہ توبہ و استغفار ضروری ہوتا ہے لغو اس قسم کو کہتے ہیں کہ جو کسی گزشتہ یا حالیہ بات پر کھائی جائے اور قسم کھانے والے کو یہ گمان ہو کہ وہ اسی طرح ہے جس طرح میں کہہ رہا ہوں لیکن واقعہ کے اعتبار سے وہ بات اس طرح نہ ہو جس طرح وہ کہہ رہا ہے۔ مثلاً کوئی شخص یوں کہے کہ واللہ ! یہ کام میں نے نہیں کیا تھا حالا ن کہ اس شخص نے یہ کام کیا تھا مگر اس کو یہی گمان ہے کہ میں نے کام نہیں کیا ہے ! یا اس شخص نے دور سے کسی شخص کو دیکھا اور کہا کہ اللہ کی قسم ! یہ زید ہے حالانکہ وہ زید نہیں تھا۔ بلکہ خالد تھا لیکن ! یہ قسم اس شخص نے یہی گمان کر کے کھائی تھی کہ وہ زید ہے۔ قسم کی اس نوعیت کا حکم یہ ہے کہ اس طرح کھانے والے کے بارے میں امید یہی ہے کہ اس سے مواخذہ نہیں ہوگا۔ منعقدہ اس قسم کو کہتے ہیں کہ کسی آئندہ کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں قسم کھائی جائے، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر قسم کے خلاف کیا جائے گا تو کفارہ واجب ہوگا۔ مثلاً زید نے یوں کہا کہ ! اللہ کی قسم، میں آنے والی کل میں خالد کو سو روپے دوں گا۔ اب اگر اس نے آنے والی کل میں خالد کو سو روپے نہیں دیئے تو اس پر قسم کو توڑنے کا کفارہ واجب ہوگا۔ منعقدہ قسم کی بعض صورتیں ایسی ہوتیں ہیں جن میں قسم کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے، جیسے فرائض کے کرنے یا گناہ کو ترک کرنے کی قسم کھائی جائے، مثلاً یوں کہا جائے کہ اللہ کی قسم ! میں ظہر کی نماز پڑھوں گا۔ یا۔ اللہ کی قسم ! میں زنا کرنا چھوڑ دوں گا ان صورتوں میں قسم کو پورا کرنا واجب ہے۔ بعض صورتیں ایسی ہوتیں ہیں جن میں قسم کو پورا نہ کرنا واجب ہوتا ہے، جیسے کوئی نادان کسی گناہ کو کرلے یا کسی واجب پر عمل نہ کرنے کی قسم کھائے تو اس قسم کو توڑنا ہی واجب ہے۔ اسی طرح منعقدہ قسم کی بعض صورتوں میں قسم کو توڑنا واجب تو نہیں ہوتا مگر بہتر ہوتا ہے جیسے کوئی یوں کہے کہ اللہ کی قسم ! میں کسی مسلمان سے ملاقات نہیں کروں گا تو اس قسم کو پورا نہ کرنا بہتر ہے ان کے علاوہ اور صورتوں میں محافظت قسم کے پیش نظر قسم کو پورا کرنا افضل ہے۔ وجوب کفارہ کے سلسلے میں یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ منعقدہ قسم توڑنے پر بہر صورت کفارہ واجب ہوتا ہے۔ قسم خواہ قصداً کھائی گئی ہو اور خواہ قسم کھانے والے کو قسم کھانے پر یا قسم توڑنے پر زبردستی مجبور کیا گیا ہو۔ قسم کا کفارہ قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ بردہ کو آزاد کیا جائے، یا دس مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔ ان دونوں ہی صورتوں میں ان شرائط و احکام کو سامنے رکھا جائے جو کفارہ ظہار میں بردہ کو آزاد کرنے یا مسکینوں کو کھانا کھلانے کے سلسلے میں منقول ہیں اور یا دس مسکینوں کو پہننے کا کپڑا دیا جائے اور ان میں سے ہر ایک کو ایسا کپڑا دیا جائے جس سے بدن کا اکثر حصہ چھپ جائے، لہٰذا اگر صرف پاجامہ دیا جائے گا تو یہ کافی نہیں ہوگا۔ اور اگر کوئی شخص ان تینوں صورتوں میں سے کسی ایک صورت پر بھی قادر نہ ہو یعنی نہ تو بردہ آزاد کرسکتا ہو، نہ دس مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہو اور نہ دس مسکینوں کو لباس دے سکتا ہو تو پھر وہ تین روزے پے درپے رکھے۔ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دے دینا جائز ہے، کافر کی قسم میں کفارہ واجب نہیں ہوتا اگرچہ وہ حالت اسلام میں اس قسم کو توڑے۔ اسی طرح چونکہ بچے، سوئے ہوئے شخص اور دیوانے کی قسم، سرے سے صحیح ہی نہیں ہوتی اس لئے ان پر قسم توڑنے کا کفارہ بھی واجب نہیں ہوتا۔ قسم کے دیگر احکام و مسائل عربی میں قسم کے لئے تین حروف ہیں۔ ١ و۔ ٢ ب ٣ ت مثلاً یوں کہا جائے واللہ یا باللہ یا تاللہ ان تینوں کا مفہوم یہ ہے۔ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں، عربی زبان و اسلوب کے مطابق بسا اوقات یہ حروف مقدر ہوتے ہیں یعنی لفظوں میں تو ان کا ذکر نہیں ہوتا لیکن حقیقت میں ان کے معنی مراد ہوتے ہیں۔ جیسے یوں کہا جائے اللہ افعلہ۔ یہ معنی مفہوم کے اعتبار سے واللہ افعلہ ہے۔ قسم باری تعالیٰ کی اسم ذات اللہ کے ساتھ یا اس کے دوسرے ناموں میں سے کسی اور نام مثلاً ۔ رحمٰن، رحیم اور حق وغیرہ کے ساتھ کھائی جاتی ہے اور ان ناموں میں سے نیت کی ضرورت نہیں ہوتی ہاں اگر ایسے ناموں کے ساتھ قسم کھائی جائے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کی ذات کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں جیسے علیم و حکیم وغیرہ تو ان میں نیت کی احتیاج ہوتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ان صفات کے ساتھ قسم کھانا بھی صحیح ہے جن کے ساتھ عام طور پر قسم کھانے کا رواج ہو جیسے اللہ کی عزت و جلال کی قسم ! اللہ کی بڑائی و بزرگی کی قسم اور اللہ کی عظمت وقدرت کی قسم ! ہاں ان صفات کے ساتھ قسم کھانا صحیح نہیں ہوتا۔ جن کے ساتھ قسم کھانے کا عام طور پر رواج نہ ہو، جیسے رحمت، علم، رضا، غضب اور عذاب۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا جائز نہیں ہے جیسے باپ اور دادا کی قسم، قرآن کی قسم، انبیاء کی قسم، ملائکہ کی قسم کعبہ کی قسم، نماز روزہ کی قسم، مسجد حرام اور زم زم کی قسم اور دیگر تمام شعائر کی قسم یا اسی طرح بعض لوگ اس طرح قسم کھاتے ہیں اپنی جوانی کی قسم اپنے سر کی قسم، تمہاری جان کی قسم، تمہاری قسم اپنے اولاد کی قسم، یہ سب ناجائز ہے، لیکن اگر اس طرح کی کوئی قسم کھائی جائے اور پھر اس کے خلاف کیا جائے تو قسم توڑنے کا کفارہ دینا پڑے گا۔ عربی میں لعمر اللہ قسم ہے، اسی طرح سوگند اللہ یا اللہ کی سوگند کھاتا ہوں بھی قسم ہے، نیز عبداللہ میثاق اللہ قسم کھاتا ہوں، حلف کرتا ہوں اور اشہد ( اگرچہ اس کے ساتھ لفظ اللہ ذکر نہ کیا جائے) یہ سب بھی قسمیں ہیں۔ اسی طرح کہنا مجھ پر نذر ہے یا مجھ پر یمین ہے یا مجھ پر عہد ہے ( اگرچہ اس کی اضافت اللہ کی طرف نہ کرے) بھی قسم ہے ایسے ہی اگر کوئی شخص یوں کہے کہ اگر میں فلاں کام کروں تو کافر ہوجاؤں یا یہودی ہوجاؤں یا عیسائی ہوجاؤں یا یوں کہے کہ اگر میں فلاں کام کروں تو میں اللہ تعالیٰ سے بری ہوں تو اس طرح کہنے سے بھی قسم ہوجاتی ہے، اس کے خلاف کرنے سے قسم توڑنے کا حکم ثابت ہوجاتا ہے لیکن اپنے کہنے کے مطابق وہ کافر یا یہودی یا عیسائی نہیں ہوجاتا۔ خواہ اس فلاں کام کا تعلق گزشتہ زمانہ سے ہو یا آئندہ زمانہ سے، بشرطیکہ اسے یہ علم ہو کہ اس طرح کہنا قسم ہے، ہاں اگر اس طرح کہتے وقت اس کے ذہن میں قسم کا تصور نہ ہو بلکہ واقعتًا کفر ہی کا تصور رکھتا ہو پھر اس صورت میں اس وجہ سے کہ اس نے خود کفر کو اختیار کیا ہے وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اگر فلاں شخص یہ کام کرے تو اس پر اللہ کا غضب ٹوٹے یا اس پر اللہ کی لعنت ہو یا یوں کہے کہ اگر فلاں شخص یہ کام کرے تو وہ زانی ہے، یا چور ہے، یا شرابی ہے، یا سود خور ہے، تو اس کو قسم نہیں کہیں گے، اسی طرح یہ کہنا حقاً یا وحق اللہ بھی قسم نہیں ہے، لیکن اس میں حضرت امام ابویوسف کا اختلافی قول ہے۔ اسی طرح کہنا کہ میں اللہ کی سوگند کھاؤں یا۔ بیوی پر طلاق کی سوگند کھاؤں بھی قسم نہیں ہے، اگر کوئی شخص اپنی کسی مملوکہ چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے تو وہ چیز اس پر حرام نہیں ہوجاتی۔ لیکن اس کو استعمال کرنے سے کفارہ واجب نہیں ہوتا ہے مثلاً کوئی شخص یوں کہے کہ میں نے اپنے اوپر روٹی کو حرام کرلیا ہے، اس طرح کہنے سے روٹی اس پر حرام نہیں ہوجاتی، لیکن اگر وہ اس کے بعد روٹی کھائے گا تو قسم کا کفارہ دینا لازم ہے۔ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ تمام حلال چیزیں مجھ پر حرام ہیں تو اس کا اطلاق کھانے پینے کی تمام چیزوں پر ہوگا یعنی اگر وہ کوئی حلال چیز کھائے گا تو اس پر قسم کا کفارہ واجب ہوجائے گا، نیز اس پر فتویٰ ہے کہ اس طرح کہنے سے بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی اگرچہ اس نے اس کی نیت نہ کی ہو، اسی طرح یوں کہنا کہ حلال چیز مجھ پر حرام ہے یا یہ کہنا کہ اپنے دائیں ہاتھ میں جو چیز بھی لوں وہ مجھ پر حرام ہے۔ کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر کوئی شخص قسم کے ساتھ لفظ انشاء اللہ بھی ادا کرے تو وہ حانث نہیں ہوگا یعنی چونکہ وہ سرے سے قسم ہی نہیں ہوگی اس لئے اس کے خلاف کرنے سے کفارہ بھی واجب نہیں ہوگا۔ یہ تو قسموں کے بارے میں کچھ تفصیل تھی، اب باب کے دوسرے جزو نذر کے متعلق بھی چند باتیں ذہن نشین کرلیجئے۔ نذر اور اس کے احکام نذر منت کو کہتے ہیں یعنی کسی ایسی چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینا جو واجب نہیں تھی مثلاً کوئی شخص یوں کہے کہ اے اللہ ! اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں پانچ روزے رکھوں گا ۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ نذر ماننا صحیح ہے اور اس نذر کو پورا کرنا واجب ہے بشرطیکہ وہ نذر کوئی گناہ کی چیز نہ ہو اور اس نذر کا تعلق کسی گناہ کی چیز سے ہو تو حضرت امام شافعی اور جمہور علماء کے نزدیک وہ نذر صحیح نہیں ہوگی اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ نذر صحیح نہیں ہوگی بلکہ ایسی نذر ماننے والے پر قسم کا کفارہ واجب ہوگا۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد ہے حدیث (لا نذر فی معصیۃ و کفارتہ کفارۃ یمین ) معصیت کی نذر کا کوئی اعتبار نہیں لیکن اس پر قسم کا کفارہ واجب ہوگا۔ ملتقی میں لکھا ہے کہ جس شخص نے نذر مانی یعنی اس نذر کو کسی شرط کے ساتھ معلق نہیں کیا مثلاً یوں کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے روزے رکھوں گا ۔ یا ایسی نذر مانی جو کسی شرط کے ساتھ متعلق ہو اور وہ شرط بھی ایسی ہو جس کے پورے ہونے کی وہ خواہش و ارادہ رکھتا ہو مثلاً یوں کہے کہ اگر میں صحت یاب ہوجاؤں تو روزے رکھوں گا۔ اور پھر وہ شرط پوری ہوجائے۔ یعنی وہ صحت یاب ہوجائے تو ان دونوں ہی صورتوں میں اس نذر کو پورا کرنا ضروری ہوگا اور اگر اس نے اپنی نذر کو کسی ایسی شرط کے ساتھ متعلق کیا جس کے پورا ہونے کی وہ خواہش نہ رکھتا ہو مثلاً یوں کہے کہ اگر میں زنا کروں تو مجھ پر غلام آزاد کرنا واجب ہوگا ۔ تو اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ چاہے تو قسم کا کفارہ دے اور چاہے اس نذر کو پورا کرے یعنی غلام آزاد کرے۔ نذر کے سلسلے میں دیگر مسائل و احکام تفصیل کے ساتھ فقہ کی کتابوں اور فتاویٰ عالمگیری میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں ان میں دیکھے جاسکتے ہیں البتہ اس موقع پر نذر کے سلسلہ میں بڑی اور اہم فائدے کی بات ذکر کردینا یقینا ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کی نذر ماننا جائز نہیں ہے، نہ نبی کی، نہ فرشتے کی، نہ اولیاء اللہ کی نہ کسی اور کی۔ مثلاً یوں کہنا کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو مولود پڑھاؤں گا۔ یا۔ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو فلاں بزرگ کے مزار پر چادر چڑھاؤں گا۔ یا اگر فلاں کام ہوگیا تو مولیٰ مشکل کشا کا روزہ رکھوں گا۔ اسی طرح غیر اللہ کی نذر ماننا بڑے گناہ کی بات ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا محمد اسحاق نے اپنی کتاب ماتہ مسائل، معتبر و مستند کتابوں کے حوالہ سے جو مفید اور کار آمد باتیں لکھی ہیں ان سب کو یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں کہ اس طرح نذر ماننی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میری فلاں حاجت پوری کردی تو میں فلاں بزرگ کے مزار پر اتنے روپے یا اتنے کھانے چڑھاؤں گا درست نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نذر ماننے میں چند ایسی شرائط ہیں جو پائی جائیں تو نذر صحیح ہوتی ہے اور اگر وہ شرائط پوری نہ ہوں تو پھر نذر صحیح نہیں ہوتی۔ ایک شرط تو یہ ہے کہ جو چیز اپنی طرف سے نذر مانی جائے وہ ایسی ہونی چاہئے جس کی جنس شرعی طور پر واجب ہو ( جیسے نماز روزہ وغیرہ) چناچہ اسی لئے اگر کوئی شخص مریض کی عیادت کرنے کی نذر مانے ( یعنی یوں کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں فلاں فلاں مریض کی عیادت کروں گا) تو اس کی نذر صحیح نہیں ہوگی کیونکہ مریض کی عیادت ایسی جنس سے ہے جو شرعاً واجب نہیں ہے۔ تیسری شرط یہ کہ جو چیز نذر مانی جائے وہ فی الحال یا ثانی الحال اس پر واجب نہ ہو جیسے نماز پنجگانہ۔ اور چوتھی شرط یہ کہ جو چیز نذر مانی جائے وہ خود کوئی گناہ کی چیز نہ ہو۔ ان شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ثابت ہوا کہ اس طرح نذر ماننا کہ فلاں بزرگ کے مزار پر اتنے روپے یا اتنے کھانے چڑھاؤں گا، صحیح نہیں ہے کیونکہ کسی مزار پر روپے یا کھانا پہنچانا کوئی عبادت نہیں ہے، ہاں اگر اس طرح نذر مانی گئی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میری فلاں حاجت پوری کردی تو میں فلاں بزرگ کے مزار کے خدام و فقراء کو کھانا کھلاؤں گا تو یہ نذر صحیح ہوگی اور اس کو پورا کرنا لازم ہوگا، لیکن نذر کو پورا کرنے کے لئے اس مزار کے خدام و فقراء کے درمیان تخصیص کرنا ضروری نہیں ہوگا بلکہ جس خادم و فقیر کو بھی کھانا کھلا دے گا تو نذر پوری ہوجائے گی اور اگر یوں کہے کہ اگر میری فلاں حاجت بر آئے گی تو میں فلاں بزرگ کے نام پر یا فلاں بزرگ کے واسطے اتنے روپے یا اتنا کھانا دوں گا ناجائز ہے، اس طرح کی نذر نہ صرف یہ کہ باطل ولغو ہے، بلکہ اس نذر کا روپیہ یا کھانا استعمال کرنا حرام بھی ہے اس مسئلہ کو بحر الرائق میں تفصیل کے ساتھ یوں بیان کیا گیا ہے۔ اور جہاں تک نذر کا سوال ہے تو جیسا کہ مشاہدہ ہے، عام طور پر ( جاہل) لوگ اس طرح نذر مانتے ہیں کہ اگر کسی شخص کا ( کوئی عزیز) غائب ہوجاتا ہے، یا بیمار ہوجاتا ہے اور یا اس کی ضروری مراد ہوتی ہے تو وہ کسی بزرگ کے مزار پر آتا ہے اور اس کا پردہ اپنے سر پر ڈال کر ( یا قبر کی) چادر پکڑ کر یوں کہتا ہے کہ اے میرے فلاں سردار ! اگر میرا وہ عزیز جو غائب ہوگیا ہے واپس ہوگیا، یا اس کو مرض سے صحت یابی ہوگئی اور یا میری فلاں مراد پوری ہوگئی تو میں آپ کے مزار پر اس قدر سونا چڑھاؤں گا یا اس قدر چاندی چڑھاؤں گا، یا اس قدر کھانا چڑھاؤں گا، یا اس قدر پانی چڑھاؤں گا، یا اس قدر شمع یا زیت ( یعنی تیل ( چڑھاؤں گا تو اس طرح نذر ماننا تمام علماء کے نزدیک باطل ہے اور اس کے باطل ہونے کے کئی سبب ہیں، اول تو یہ مخلوق ( یعنی غیر اللہ) کی نذر ہے اور غیر اللہ کی نذر جائز نہیں ہے کیونکہ نذر ( دراصل عبادت ہے) اور مخلوق کی عبادت جائز نہیں ہے، دوم یہ کہ جس کے نام کی ( یعنی صاحب مزار) کی نذر مانی گئی ہے وہ ایک بےجان ہے اور بےجان مالک نہیں ہوتا۔ سوم یہ کہ اگر ( اسطرح نذر ماننے کے وقت) یہ گمان کیا تھا کہ اللہ کے علاوہ یہ میت ( یعنی صاحب مزار) بھی بندوں کے معاملات میں تصرف کرتا ہے تو ایسا اعتقاد کرنا کفر ہے۔ لہٰذا اے اللہ ( اس بات کی ہدایت دے کہ) اس طرح نذر ماننے کی بجائے یوں نذر مانی جائے کہ اے اللہ میں تیری نذر مانتا ہوں کہ اگر تو میرے بیمار کو شفاء بخشے گا۔ یا میرے غائب عزیز کو واپس کرا دے گا، یا میری مراد کو پوری کرے گا تو میں ( مثلاً ) ان فقراء و خدام کو کھانا کھلاؤں گا، جو بی بی نفیسہ کے دروازے ( یعنی مزار) پر ہیں، یا ان فقراء و خدام کو کھانا کھلاؤں گا جو حضرت امام شافعی یا حضرت امام ابواللیث کے دروازے ( یعنی مزار) پر ہیں یا میں ان کی مسجدوں کے لئے بوریے یا ان کی مسجدوں کی روشنی کے لئے تیل خریدوں گا، یا میں ان لوگوں کو روپے دوں گا، جو ان بزرگوں کی مسجدوں کے شعائر قائم رکھتے ہیں ( یعنی مؤذن اور ائمہ ( یا ان کے علاوہ کسی بھی ایسی چیز کا ذکر کرے جس میں فقراء و مساکین کا نفع ہو۔ لہٰذا اس طرح نذر ماننے میں نذر تو دراصل اللہ عزوجل کے لئے ہوگی اور بزرگ کا ذکر کرنا محض نذر کے مصرف کو بیان کرنے کے پیش نظر ہوگا اور وہ مصرف نذر کے وہ مستحقین ہیں جو ان بزرگ کی خانقاہ یا ان کی مسجد اور یا ان کی جامع مسجد میں رہتے ہیں پس اس طرح نذر ماننی درست ہے، کیونکہ نذر کے مصرف فقراء ہی ہیں اور وہ مصرف یہاں پایا گیا، نیز نذر کی ہوئی چیز کو مستطیع ( غیر محتاج) پر خرچ کرنا جائز نہیں ہے اور نہ کسی شریف النسب پر خرچ کرنا جائز ہے کیونکہ جب تک کہ وہ محتاج نہ ہو اس کے لئے نذر کی ہوئی چیز کا لینا درست نہیں ہے اور نہ کسی منصب والے پر خرچ کرنا جائز ہے اس کے منصب کی وجہ سے جب تک کہ وہ محتاج نہ ہو اور نہ کسی اہل علم پر خرچ کرنا جائز ہے، اس کے علم کی وجہ سے جب تک کہ وہ مستحق نہ ہو۔ اور شریعت میں نذر کی ہوئی چیز کا مستطیع لوگوں پر خرچ کرنے کا جواز ثابت نہیں ہے، نیز اس بات پر علماء امت کا اجماع و اتفاق ہے کہ مخلوق کی نذر ماننا حرام ہے اور اگر کوئی شخص کسی مخلوق ( یعنی بزرگ) کی نذر مانے تو وہ نذر صحیح نہیں ہوتی اور نہ اس نذر کو پورا کرنا اس پر واجب ہوتا ہے اور وہ نذر نہ صرف حرام بلکہ رشوت کے حکم میں ہے لہٰذا اس بزرگ کے خادم اور مجاور کے لئے اس نذر کا لینا اس کا کھانا اور اس میں کسی طرح کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے ہاں اگر کوئی خادم یا مجاور محتاج ہو اور اپنے ان نادار بچوں کا کفیل ہو جو کمانے سے معذور ہوں اور وہ حالت اضطرار میں ہوں تو ان کو اس نذر کا مال ابتدائی صدقہ کے طور پر لینا جائز ہے لیکن اس صورت میں بھی اس مال کو اس وقت تک لینا مکروہ ہوگا جب کہ نذر کرنے والے کی نیت اس بزرگ کی نذر سے قطع نظر تقرب الی اللہ اور فقراء پر خرچ کرنے کی نہ ہو ! پس جب کہ تمہیں یہ تفصیل معلوم ہوگئی تو ( جان لو) کہ اولیاء اللہ کے تقرب کی نیت سے جو روپے پیسے اور موم بتی وتیل وغیرہ ان کی قبروں پر چڑھایا جاتا ہے وہ تمام مسلمانوں کے نزدیک متفقہ طور پر حرام ہے جب تک کہ نذر کرنے والا اس کو فقیروں پر خرچ کرنے کی نیت نہ کرے۔ ( النہر الفائق) ۔ اور الدر مختار میں بھی اسی طرح منقول ہے۔ حضرت مولانا محمد اسحاق کے مذکورہ منقولات کے علاوہ اس سلسلہ میں مولانا رشید الدین خان مرحوم نے ایک سوال کا جو جواب لکھا ہے۔ وہ بھی اس قابل ہے کہ اس کو مع سوال کہ یہاں نقل کردیا جائے۔

【56】

قسم کی قسمیں اور ان کے احکام

سوال جو کھانا بزرگوں کی نذر ونیاز کے طور پر مانا جاتا ہے اس کو کھانا اور اس طرح ( یعنی بزرگوں کی نذر ماننا اور ان کی نیاز کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جائز ہے تو کس طرح ؟ نیز بعض نذر بشرط حاجت براری مانی جاتی ہے اور بعض نذر بلاشرط مانی جاتی ہے ان دونوں میں کچھ فرق ہے یا نہیں ؟ جواب شریعت میں نذر کا مفہوم ہے اپنے اوپر کسی غیر واجب کو واجب کرلینا، چناچہ جامع الرموز میں لکھا ہے کہ (النذر ایجاب علی النفس ما لیس علیھا بالقبول ) کسی ایسی چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینے کو نذر کہتے ہیں جس پر عمل کرنا اس کے لئے ضروری نہیں تھا۔ اور امام رازی نے تفسیر کبیر میں آیت کریمہ (او نذرتم من نذر) کی تفسیر کے تحت فرمایا ہے کہ (النذر ما الزمہ الانسان علی نفسہ) ۔ نذر وہ ہے جس کو انسان اپنے اوپر لازم کرے۔ نذر کی مختصر توضیح تو یہ ہے اور اس کی تفصیل فقہ اور اصول فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔ نیاز فارسی کا لفظ ہے جس کے کتنے ہی معنی ہیں ان میں سے ایک معنی یہ بھی ہیں تحفہ درویشاں وکذافی البرہان القاطع ان دونوں لفظوں یعنی نذر ونیاز کے ان لغوی اور اصطلاحی معنی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کا شرعی حکم ماننا چاہئے کے نذر اللہ کے علاوہ اور کسی کے لئے جائز نہیں ہے اور اگر کوئی شخص غیر اللہ کی نذر مانے تو وہ صحیح نہیں ہوگی، نیز ایسی نذر کی چیز کو لینا یا کھانا صحیح ومستند فقہی روایات کے بموجب قطعاً ناروا ہے یہ تو نذر کا حکم ہے اب رہا نیاز کا معاملہ تو جیسا کہ معلوم ہوا لفظ نیاز کے معنی ہیں، تحفہ درویشاں اور وہ بر و صلہ ہے ( یعنی بخشش و ہدیہ ہے) لہٰذا اگر کوئی شخص کسی زندہ بزرگ کی خدمت میں کوئی چیز بطریق نیاز یعنی عطاء و ھدیہ اور تحفہ کے طور پر پیش کرے تو وہ نیاز جائز ہے اور اس بزرگ کو وہ چیز کھانا یا استعمال کرنا جائز ہے۔ اسی طرح اگر کسی مرحوم بزرگ کی نیاز یعنی فاتحہ وایصال ثواب کی جائے تو یہ نیاز بھی جائز ہے لیکن اس نیاز کی چیز کو کھانے کے سلسلے میں کچھ تفصیل ہے اور وہ یہ کہ اگر نیاز دینے والے نے وفات پائے ہوئے بزرگ کو صدقہ ماکولی کا ثواب پہنچانے کی نیت کی ہو تو اس چیز کو کھانا صرف فقراء کے لئے جائز ہے مستطیع لوگوں کے لئے جائز نہیں ہے، اگر نیاز دینے والے نے مسلمانوں کے حق میں اباحت ماکولی کا ثواب اس بزرگ کو پہنچانے کی نیت کی ہو تو اس صورت میں اس چیز کو کھانا ہر بھوکے کے لئے جائز ہے خواہ وہ فقیر ہو یا مستطیع ہو۔ حاصل یہ ہے کہ کسی بزرگ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے یا حاجت براری کی شرط کے ساتھ اس بزرگ کی جو نذر مانی جاتی ہے وہ منقولات بالا کی روشنی میں ناجائز ہے اور اس نذر کی چیز کو کھانا یا استعمال کرنا ناروا ہے۔ ہاں جس نذر کا تعلق نہ تو بزرگ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ہوتا ہے اور نہ وہ کسی حاجت براری کے ساتھ مشروط ہوتی ہے بلکہ پہلے وہ چیز اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لئے صدقہ کی جاتی ہے اور پھر اس بزرگ کو پہنچایا جاتا ہے تو اس چیز کو کھانا اور استعمال کرنا مستطیع لوگوں کے لئے تو جائز نہیں ہے بشرطیکہ نذر ماننے والے نے اس بزرگ کو صدقہ ماکولی کا ثواب پہنچانے کی نیت کی ہو اور اگر نذر ماننے والے نے اس بزرگ کو اباحت ماکولی کا ثواب پہنچانے کی نیت کی ہو تو اس چیز کا کھانا اور استعمال کرنا مستطیع لوگوں کے لئے بھی جائز ہے اور فقراء کے لئے بھی جائز ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اسی طرح نیاز کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ بزرگوں کی نیاز اگر محض ایصال ثواب کے طور پر ہو تو جائز ہے اور ان کا تقرب یا ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے کسی چیز کو ان کے نام پر اپنے اوپر واجب کرنا جائز نہیں ہے۔ خواہ اس چیز کو اپنے اوپر واجب کرنا کسی حاجت براری کے ساتھ معلق ہو اور خواہ اس کے بغیر ہو، کیونکہ یہ نذر ہے اور نذر اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے۔ لہٰذا واضح ہو کہ خواہ حاجت براری کے ساتھ معلق کر کے اور خواہ اس کے بغیر کسی چیز کو اپنے اوپر اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام پر واجب کرنا دونوں ہی صورتوں میں ناجائز ہے۔ ہاں بزرگوں کی نیاز اس معنی میں جائز ہے کہ اس سے کسی بزرگ کا تقرب یا حاجت براری کی نیت نہ ہو بلکہ اس کا مقصد محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول اور اس کا ثواب اس بزرگ کو پہنچانا ہو اور نیاز کی ہوئی چیز کو مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں کھانا اور استعمال کرنا جائز ہے۔ دلیل الضالین میں لکھا ہے کہ نذر صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتی ہے اور کسی کے لئے نہیں ہوتی، لہٰذا اگر کسی شخص نے انبیاء میں سے کسی نبی یا اولیاء میں سے کسی ولی کی نذر مانی تو اس پر کچھ واجب نہیں ہوتا یعنی اس نذر کو پورا کرنا اس شخص پر لازم نہیں ہوتا، نیز اگر وہ شخص اس نذر کی چیز کو اپنی اسی نیت کے ساتھ کسی آدمی کو دے دے تو اس آدمی کو وہ چیز لینا جائز ہے اگر وہ کھانے کی کوئی چیز ہو تو اس کو کھانا حلال نہیں ہے اور اگر وہ چیز کوئی ذبح کیا ہوا جانور ہو تو وہ مردار کے حکم میں ہے بلکہ اگر لوگ اس کو بسم اللہ کر کے کھائیں تو سب کافر ہوجائیں گے، ہاں اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے لئے نذر مانے اور پھر نذر کی ہوئی چیز کو لوگ کھائیں اور اس کا ثواب کسی میت کا بخشیں تو یہ جائز ہے۔ اور حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ اکثر اس طرح قسم کھایا کرتے تھے قسم ہے دلوں کو پھیرنے والے کی۔ ( بخاری) تشریح یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت کی قسم کھانا جائز ہے۔

【57】

غیر اللہ کی قسم کھانے کی ممانعت

اور حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے منع فرماتا ہے کہ تم اپنے باپوں کی قسم کھاؤ ! جس شخص کو قسم کھانا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ ( کے نام یا اس کی صفات) کی قسم کھائے یا چپ رہے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح باپ کی قسم کھانے سے منع کرنا مثال کے طور پر ہے، اصل مق صد تو یہ ہدایت دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی قسم نہ کھایا کرو۔ بطور خاص باپ کو ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی عادت ہے کہ وہ باپ کی قسم بہت کھاتے ہیں ! نیز عبداللہ کی قسم کھانے کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کمال عظمت و جلالت کے سبب چونکہ قسم اسی ذات کے ساتھ مخت ص ہے، اس لئے کسی غیر اللہ کو اللہ کے مشابہ نہ قرار دیا جائے، چناچہ حضرت ابن عباس کے بارے میں منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں سو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھاؤں اور پھر اس کو توڑ ڈالوں، اس کو اس سے بہتر سمجھتا ہوں کہ کسی غیر اللہ کی قسم کھاؤں اور اس کو پورا کروں۔ ہاں جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا سوال ہے تو اس کو سزاوار ہے کہ وہ اپنی عظمت و جلالت کے اظہار کے لئے اپنی مخلوقات میں سے جس کی چاہے قسم کھائے۔ اس حدیث کے ضمن میں ایک اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ ایک موقع پر آنحضرت ﷺ سے یوں منقول ہوا ہے (افلح وابیہ) یعنی آپ ﷺ نے باپ کی قسم کھائی جب کہ یہ حدیث اس کے سراسر خلاف ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا باپ کی قسم کھانا اس ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہوگا۔ اس صورت میں دونوں حدیثوں میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا، یا پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ نے یہ باپ کی قسم قصدًا نہ کھائی ہوگی بلکہ قسم کہ یہ الفاظ قدیم عادت کی بناء پر اضطرارًا آپ ﷺ کی زبان سے نکل گئے ہوں گے۔ اور حضرت عبد الرحمٰن ابن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا نہ بتوں کی قسم کھاؤ اور نہ اپنے باپوں کی قسم کھاؤ۔ ( مسلم) تشریح ایام جاہلیت میں عام طور پر لوگ بتوں اور باپوں کی قسم کھایا کرتے تھے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو قبولیت اسلام کے بعد اس سے منع فرمایا تاکہ وہ اس بارے میں احتیاط رکھیں اور قدیم عادت کی بنا پر اس طرح کی قسمیں ان کی زبان پر نہ چڑھیں۔ اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص قسم کھائے اور اپنی قسم میں یہ الفاظ ادا کرے میں لات و عزیٰ کی قسم کھاتا ہوں تو اسے چاہئے کہ وہ لاالہ الا اللہ کہے۔ اور جو شخص اپنے کسی دوست سے یہ کہے کہ آؤ ہم دونوں جوا کھیلیں تو اس کو چاہئے کہ وہ صدقہ و خیرات کرے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح وہ لا الہ الا اللہ کہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرے۔ اس حکم کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اگر لات و عزیٰ کے نام کسی نو مسلم کی زبان سے سہواً نکل جائیں تو اس کے کفارہ کے طور پر کلمہ پڑھے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ا یت (فان الحسنات یذھبن السیاٰت ) بلا شبہ نیکیاں، برائیوں کو دور کر دیتیں ہیں۔ پس اس صورت میں غفلت و سہو سے توبہ ہوجائے گی۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر ان کی زبان سے لات و عزیٰ کے نام ان بتوں کی تعظیم کے قصد سے نکلے ہوں گے تو یہ صراحتاً ارتداد اور کفر ہے لہٰذا اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ تجدید ایمان کے لئے کلمہ پڑھے اس صورت میں معصیت سے توبہ ہوگی۔ صدقہ و خیرات کرے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے دوست کو جوا کھیلنے کی دعوت دے کر چونکہ ایک بڑی برائی کی ترغیب دی ہے، لہٰذا اس کے کفارہ کے طور پر وہ اپنے مال میں سے کچھ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس نے جس مال کے ذریعہ جوا کھیلنے کا ارادہ کیا تھا اسی مال کو صدقہ و خیرات کر دے ! اس سے معلوم ہوا کہ جب محض جوا کھیلنے کی دعوت دینے کا کفارہ یہ ہے کہ صدقہ و خیرات کرنے چاہیے تو یہ شخص واقعتا کھیلے گا تو اس کا کیا حشر ہوگا۔

【58】

اسلام کے خلاف کسی دوسرے مذہب کی قسم کھانے کا مسئلہ

اور حضرت ثابت ابن ضحاک کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اسلام کے خلاف کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم کھائے تو وہ ایسا ہی ہوجاتا ہے جیسا کہ اس نے کہا اور کسی انسان پر اس چیز کی نذر پوری کرنا واجب نہیں جس کا وہ مالک نہ ہو اور جس شخص نے ( دنیا میں) اپنے آپ کو کسی چیز ( مثلاً چھری وغیرہ) سے ہلاک کرلیا تو وہ قیامت کے دن اسی چیز کے عذاب میں مبتلاء کیا جائے گا (یعنی اگر کسی شخص نے چھری گھونپ کر خود کشی کرلی تو قیامت میں اس کے ہاتھ میں وہی چھری دی جائے گی جس کو وہ اپنے جسم میں گھونپتا رہے گا اور جب تک کہ حق تعالیٰ کی طرف سے نجات کا حکم نہ ہوگا وہ مسلسل اسی عذاب میں مبتلا رہے گا اور جس شخص نے کسی مسلمان پر لعنت کی تو وہ (اصل گناہ کے اعتبار سے) ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے اس مسلمان کو قتل کردیا ہو اور اسی طرح جس شخص نے کسی مسلمان پر کفر کی تہمت لگائی تو گویا اس نے اس مسلمان کو قتل کردیا (کیو ن کہ کفر کی تہمت لگانا اسباب قتل سے ہے لہٰذا کفر کی تہمت قتل کردینے کی مانند ہے) اور جھوٹا دعوی کرے تاکہ اس کے مال و دولت میں اضافہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے مال و دولت میں کمی کر دے گا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص نے مثلاً یوں قسم کھائی کہ اگر میں فلاں کام کروں تو یہودی یا نصرانی ہوں، یا دین اسلام سے یا پیغمبر اسلام سے اور یا قرآن سے بیزار ہوں۔ اور پھر اس نے اس کے برخلاف کیا یعنی قسم کو جھوٹی کردیا، بایں طور کہ اس نے وہ کام کرلیا جس کے نہ کرنے کی اس نے قسم کھائی تھی تو وہ ایسا ہی یہودی و نصرانی ہوگیا یا دین اسلام یا پیغمبر اسلام یا قرآن سے بیزار ہوگیا کیونکہ قسم دراصل اس کام کو روکنے کے واسطے ہوتی ہے جس کے لئے وہ قسم کھائی گئی ہے۔ لہٰذا قسم کا سچ ہونا تو یہ ہے کہ قسم کھانے والا وہ کام نہ کرے اور اگر وہ اس کام کو کرے گا تو اپنی قسم میں جھوٹا ہوگا تو لا محالہ ویسا ہی ہوگا جیسا کہ اس نے کہا ہے۔ حدیث کے اس ظاہری مفہوم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی قسم کھانے والا محض قسم کھانے کی وجہ سے اس قسم کو توڑنے کے بعد کافر ہوجاتا ہے کیونکہ وہ اس طرح کی قسم کھا کر ایک صریح حرام فعل کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر اس قسم کو جھوٹی کر کے گویا کفر کو برضا ورغبت اختیار کرتا ہے۔ لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ اس ارشاد گرامی کی مراد یہ بتانا ہو کہ اس طرح کی قسم کھانے والا واقعۃً یہودی وغیرہ ہوجاتا ہے بلکہ اس کی مراد بطور تہدید و تنبیہ یہ ظاہر کرنا ہو کہ وہ شخص یہودیوں وغیرہ کی مانند عذاب کا مستوجب ہوتا ہے، چناچہ اس کی نظیر آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ (من ترک الصلوۃ فقد کفر) ( یعنی جس شخص نے نماز چھوڑ دی وہ کافر ہوگیا) اس ارشاد کا بھی یہی مطلب ہے کہ نماز چھوڑنے والا کافروں کے عذاب سے مستوجب ہوتا ہے۔ اب ہی یہ بات کہ اس طرح قسم کھانا اگرچہ حرام ہے لیکن اگر کوئی شخص اس طرح قسم کھا ہی لے تو کیا شرعی طور پر اس کو قسم کہیں گے اور کیا اس قسم کو توڑنے کا کفارہ واجب ہوگا یا نہیں ؟ تو اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض علماء کا قول تو یہ ہے کہ یہ قسم ہے اور اگر اس قسم کو توڑا جائے گا تو اس شخص پر کفارہ واجب ہوگا، ان کو دلیل ہدایہ وغیرہ میں منقول ہے۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس طرح کہنے پر قسم کا اطلاق نہیں ہوگا یعنی شرعی طور پر اس کو قسم نہیں کہیں گے اور جب یہ قسم ہی نہیں ہے تو اس کو توڑنے پر کفارہ بھی واجب نہیں ہوگا، ہاں اس طرح کہنے والا سخت گناہگار ہوگا خواہ وہ اپنی بات کو پورا کرے یا توڑ ڈالے۔ درمختار میں لکھا ہے کہ ( مذکورہ بالا مسئلہ میں) زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس طرح کی قسم کھانے والا ( اس قسم کے برخلاف عمل کرنے کی صورت میں کافر نہیں ہوجاتا خواہ وہ اس طرح کا تعلق گذرے ہوئے زمانہ سے ہو یا آنے والے زمانہ سے ہو بشرطیکہ وہ اس طرح کہنے کے بارے میں قسم ہی کا اعتقاد رکھتا ہو لیکن اگر وہ اس قسم کے ہونے سے لا علم ہو اور اس اعتقاد کے ساتھ یہ الفاظ ادا کرے کہ اس طرح کہنے والا اپنی بات کو جھوٹا ہونے کی صورت میں کافر ہوجاتا ہے تو خواہ وہ اس بات کا تعلق گذرے ہوئے زمانہ سے ہو یا آنے والے زمانہ میں کسی شرط کے پورا ہونے کے ساتھ وہ دونوں ہی صورتوں میں کفر کو خود برضا ورغبت اختیار کرنے کی وجہ سے کافر ہوجائے گا۔ اور کسی انسان پر اس چیز کی نذر پوری کرنا واجب نہیں جس کا وہ مالک نہ ہو کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً اگر کوئی شخص یوں کہے اگر میرا فلاں عزیز صحت یاب ہوجائے تو میں فلاں غلام آزاد کر دوں گا جب کہ ہو فلاں غلام درحقیقت اس کی ملکیت میں نہ ہو، تو اس صورت میں اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے، اگر اس کے بعد وہ غلام اس کی ملکیت ہی میں کیوں نہ آجائے ہاں اگر اس نے آزادی کو ملکیت کے ساتھ مشروط کردیا یعنی یوں کہا کہ اگر میرا فلاں عزیز صحت یاب ہوگیا اور فلاں غلام میری ملکیت میں آگیا یا فلاں غلام کو میں نے خرید لیا تو میں اس کو آزاد کر دوں گا تو اس صورت میں وہ غلام ملکیت میں آنے کے بعد یا خریداری کے بعد اس نذر کے مطابق آزاد ہوجائے گا۔ تاکہ اس کے مال و دولت میں اضافہ ہو یہ اکثر کے اعتبار سے دعویٰ کی علت و سبب کی طرف اشارہ ہے کہ اکثر لوگ محض اپنے مال و دولت میں اضافہ کی خاطر جھوٹے وعدے کرتے ہیں مذکورہ ثمرہ ( یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے مال میں کمی کردیا جانا) مرتب ہوگا۔ جھوٹے وعدے کا مذکورہ ثمرہ محض مال و دولت ہی سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہی ثمرہ ان لوگوں کے حق میں بھی مرتب ہوتا ہے جو اپنے احوال و فضائل اور کمالات کے بارے میں محض اس مقصد سے جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں کہ عام انسانوں کی نظروں میں ان کا جاہ و مرتبہ زیادہ سے زیادہ بڑھے جیسا کہ نام نہاد اور بناوٹی صوفیوں اور پیروں کا شیوہ ہے۔

【59】

اگر قسم کو توڑ دینے ہی میں بھلائی ہو تو اس قسم کو توڑ دینا چاہئے

اور حضرت ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم اگر میں کسی چیز پر قسم کھاؤں اور پھر اس قسم کے خلاف کرنے ہی کو بہتر سمجھوں تو میں اپنی قسم توڑ دوں گا اور اس کا کفارہ ادا کر دوں گا اس طرح اس چیز کو اختیار کروں گا جو بہتر ہو۔ ( بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کام کے بارے میں قسم کھاؤں کہ وہ کام نہ کروں گا مگر پھر سمجھوں کہ اس کام کو کرنا ہی بہتر ہے تو میں قسم کو توڑ کر کفارہ ادا کروں گا اور اس کام کو کرلوں گا، اس مسئلہ کی مثالیں آگے آنے والی حدیث کی تشریح میں بیان ہونگی۔ اور حضرت عبد الرحمٰن ابن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ( ایک دن مجھ سے) فرمایا کہ عبد الرحمٰن ! سرداری کی خواہش نہ کرو ( یعنی اس بات کی طلب نہ کرو کہ مجھے فلاں جگہ کا حاکم و سردار بنادیا جائے) کیونکہ اگر تمہاری طلب پر تمہیں سرداری دی جائے گی تو تم اس سرداری کے سپرد کر دئے جاؤ گے اور اگر بغیر طلب کے کہیں سرداری ملے گی تو اس میں تمہاری مدد کی جائے گی، نیز اگر تم کسی بات پر قسم کھاؤ اور پھر دیکھو کہ اس قسم کا خلاف کرنا ہی اس قسم کو پوری کرنے سے بہتر ہے، تو تم اس قسم کا کفارہ دے دو اور وہی کام کرو جو بہتر ہے۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اس چیز کو عمل میں لاؤ جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دو ۔ ( بخاری ومسلم) تشریح سرداری کی خواہش نہ کرو کا مطلب یہ ہے کہ سرداری وسیاست کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ ایک بہت ہی دشوار اور سخت ذمہ داری کی چیز ہے اس کے فرائض اور حقوق کی ادائیگی ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ صرف چند ہی لوگ اس کا بار اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا نفس کی حرص میں مبتلا ہو کر سرداری وسیاست کی خواہش نہ کرو کیونکہ اگر تم اپنی طلب پر سرداری وسیاست پاؤ گے تو پھر تمہیں اسی کے سپرد کردیا جائے گا بایں معنی کہ اس کے فرائض کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری مدد نہیں کی جائے گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر چہار طرف شر و فساد برپا ہوں گے اور تم مخلوق اللہ کی نظروں میں بڑی بےآبروئی کے ساتھ اس منصب کے نااہل قرار دے دیئے جاؤ گے، ہاں اگر بلا طلب تمہیں سرداری وسیاست کے مرتبہ سے نوازا جائے گا تو اس صورت میں حق تعالیٰ کی طرف سے تمہاری مدد کی جائے گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارے معاملات انتظام و انصرام درست ہوں گے اور مخلوق اللہ کی نظروں میں تمہاری بہت زیادہ عزت و وقعت ہوگی۔ اور وہی کام کرو گے جو بہتر ہے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کسی گناہ کی بات پر قسم کھاؤ مثلاً یوں کہو کہ اللہ کی قسم ! میں نماز نہیں پڑھوں گا۔ یا۔ اللہ کی قسم میں فلاں شخص کو جان سے مار ڈالوں گا۔ یا۔ اللہ کی قسم میں اپنے باپ سے کلام نہیں کروں گا۔ تو اس صورت میں اس قسم کو توڑ ڈالنا ہی واجب ہوگا اور اس قسم کے توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا۔ اور اگر کسی ایسی بات پر قسم کھائی جائے جس کے خلاف کرنا، اس سے بہتر ہو مثلاً یوں کہا جائے کہ اللہ کی قسم ! میں اپنی بیوی سے ایک مہینہ تک صحبت نہیں کروں گا یا اسی طرح کی کسی اور بات پر قسم کھائی جائے تو اس صورت میں اس قسم کو توڑ دینا محض اولیٰ ہوگا۔ اس بارے میں زیادہ تفصیل ابتداء باب میں گذر چکی ہے۔ یہاں جو روایتیں نقل کی گئی ہیں ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی روایت سے تو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ ادا کردینا چاہئے۔ جب کہ دوسری روایت سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ کفارہ قسم توڑنے کے بعد ادا کرنے چاہئے، چناچہ اس مسئلہ پر تینوں ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ کفارہ قسم توڑنے سے پہلے ادا کردینا جائز ہے لیکن حضرت امام شافعی کے ہاں یہ جواز اس تفصیل کے ساتھ ہے کہ اگر کفارہ کی ادائیگی روزہ کی صورت میں ہو تو قسم توڑنے سے پہلے کفارہ ادا کرنا جائز نہیں ہوگا اور اگر کفارہ کی ادائیگی غلام آزاد کرنے، یا مستحقین کو کھانا کھلانے اور یا کپڑا پہنانے کی صورت میں ہو تو پھر قسم توڑنے سے پہلے کفارہ کی ادائیگی جائز ہوگی، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ کی ادائیگی کسی صورت میں جائز نہیں ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جن احادیث سے تقدیم کفارہ مفہوم ہوتا ہے ان میں حرف واو محض جمع کے لئے ہے اس سے تقدیم و تاخیر کا مفہوم مراد نہیں ہے اور نہ حقیقتا وہ احادیث تقدیم و تاخیر پر دلالت کرتی ہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص کسی بات پر قسم کھائے اور پھر وہ یہ سمجھے کہ ( اس کے خلاف کرنا ہی) قسم پوری کرنے سے بہتر ہے تو اسے چاہیے کہ وہ کفارہ ادا کر دے اور اس کام کو کرلے ( یعنی قسم توڑ دے ) ۔ ( مسلم) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم ! تم میں سے کسی شخص کا اپنی قسم پر اصرار کرنا ( یعنی اس قسم کو پوری کرنے ہی کی ضد کرنا) جو اپنے اہل و عیال سے متعلق ہو، اللہ تعالیٰ کے نزیک اس کو زیادہ گناہگار بناتا ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ اس قسم کو توڑ دے اور اس کا کفارہ ادا کر دے جو اس پر فرض کردیا گیا ہے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر قسم توڑنے میں بظاہر حق تعالیٰ کے نام کی عزت و حرمت کی ہتک ہے اور قسم کھانے والا بھی اس کو اپنے خیال کے مطابق گناہ ہی سمجھتا ہے لیکن اس قسم کو پوری کرنے ہی پر اصرار کرنا جو اہل و عیال کی کسی حق تلفی کا باعث ہوتی ہے زیادہ گناہ کی بات ہے ! گویا اس حدیث کا مقصد بھی یہ واضح کرنا ہی کہ قسم کے برخلاف عمل کی بھلائی ظاہر ہونے کی صورت میں قسم کو توڑ دینا اور اس کا کفارہ ادا کرنا لازم ہے۔

【60】

کسی تنازعہ کی صورت میں قسم دینے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہاری قسم اس وقت صحیح ہوتی ہے جب تمہارا ساتھی ( یعنی قسم دینے والا) تمہیں سچا سمجھے۔ ( مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ قسم سچی ثابت ہونے کے سلسلے میں اس شخص کی نیت و ارادہ کا اعتبار ہوگا جس نے تمہیں قسم دی ہے اس میں قسم کھانے والے کی نہ تو نیت کا اعتبار ہوگا اور نہ اس کے توریہ و تاویل کا اعتبار کیا جائے گا لیکن اس حکم کا تعلق کسی تنازعہ کی اس صورت سے ہے جب کہ، قسم دینے والے کا کوئی حق و مطالبہ قسم کھانے والے پر ہو اور قسم کھانے والے کے توریہ و تاویل سے اس کا حق ساقط ہوتا ہو یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی مقدمہ کے سلسلہ میں اگر قاضی وحاکم مدعا علیہ کو قسم دلائے تو اس میں قاضی وحاکم کی نیت کا اعتبار ہوتا ہے، ہاں اگر کسی کی حق تلفی کا کوئی معاملہ نہ ہو یا کوئی قسم دینے والا نہ ہو تو پھر توریہ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بطور خاص جب کہ اس توریہ کی وجہ سے کسی کا فائدہ ہوتا ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم کی مراد یہ تھی کہ یہ میری دینی بہن ہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قسم کا اعتبار، قسم دینے والے کی نیت پر ہوتا ہے۔ ( مسلم )

【61】

لغو قسم پر مواخذہ نہیں ہو گا

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ یہ آیت (لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْ اَيْمَانِكُمْ ) 2 ۔ البقرۃ 225) یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرتا۔ اس شخص کے حق میں نازل ہوئی ہے جو لا واللہ اور بلی واللہ کہتا ہے۔ ( بخاری) شرح السنۃ میں یہ روایت بلفظ مصابیح نقل کی گئی ہے، نیز شرح السنۃ میں کہا گیا ہے کہ بعض راویوں نے یہ حدیث حضرت عائشہ (رض) مرفوعاً نقل کی ہے ( یعنی ان راویوں کے مطابق یہ حدیث آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ) ۔ تشریح اہل عرب کی عادت تھی کہ وہ آپس میں گفتگو کرتے وقت بات بات پر یہ کہا کرتے تھے کہ لا واللہ ( اللہ کی قسم ہم نے یہ کام نہیں کیا) یا اور بلی واللہ ( اللہ کی قسم ہم نے یہ کام کیا ہے) ان الفاظ سے ان کا مقصود قسم کھانا نہیں ہوتا تھا بلکہ اپنی بات پر زور پیدا کرنے کے لئے یا بطور تکیہ کلام وہ ان الفاظ کو بیان کرتے تھے، چناچہ اس صورت میں قسم واقع نہیں ہوتی اور اس کو لغو قسم کہتے ہیں۔ حضرت امام شافعی نے اس بات پر عمل کیا ہے، ان کے نزدیک لغو قسم اس قسم کو کہتے ہیں جو بلا قصد زمانہ ماضی یا زمانہ مستقبل، زبان سے صادر ہو جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک لغو قسم اس قسم کو کہتے ہیں جو کسی ایسی بات پر کھائی جائے جس کے بارے میں قسم کھانے والے کا گمان یا تو یہ ہو کہ وہ صحیح ہے لیکن واقعتا وہ صحیح نہ ہو، چناچہ اس کی تفصیل ابتداء باب میں گذر چکی ہے۔

【62】

غیر اللہ کی قسم کھانے کی مما نعت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم نہ تو اپنے باپوں کی قسم کھاؤ اور نہ اپنی ماؤں کی اور نہ بتوں کی اور اللہ کی قسم بھی تم اس صورت میں کھاؤ جب کہ تم سچے ہو ( یعنی جھوٹی قسم نہ کھاؤ خواہ اس کا تعلق گذشتہ زمانہ سے ہو یا آئندہ زمانہ سے ) ۔ ( ابوداؤد، نسائی) ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا جس نے اللہ کے غیر کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔ روایت کیا اس کو ترمذی نے۔ ( ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے غیر اللہ کی قسم اس کی تعظیم کے اعتقاد کے ساتھ کھائی اس نے شرک جلی یا شرک خفی کا ارتکاب کیا، کیونکہ اس طرح اس نے اس تعظیم میں غیر اللہ کو شریک کیا جو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔ عام طور پر لوگوں کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے کسی عزیز یا تعلق والے کی انتہائی محبت میں اس کی قسم کھاتے ہیں جیسے یوں کہتے ہیں کہ بیٹے کی قسم، یا اس کے سر کی یا اس کی جان کی قسم تو یہ بھی گناہ سے خالی نہیں اگرچہ اس پر شرک کا حکم عائد نہ ہوتا ہو ہاں اگر قدیم عادت کی بنا پر کسی کی زبان سے بلا قصد مثلاً یوں نکل گیا کہ اپنے باپ کی قسم، یا اپنے بیٹے کی قسم میں نے یہ کام نہیں کیا ہے تو اس پر گناہ اور شرک کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے امانت کی قسم کھائی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ( ابوداؤد و نسائی) حضرت امام اعظم ابوحنیفہ چونکہ اس کو تسلیم کرتے ہیں بایں وجہ کہ امین اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہونے کی بنا پر امانت اس کی صفات میں سے ہے اس لئے ان کے نزدیک اس میں کفارہ واجب ہوتا ہے یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ امانت اللہ سے مراد کلمہ توحید ہے۔

【63】

اسلام سے بیزاری کی قسم کا مسئلہ

اور حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص یوں کہے کہ ( اگر میں نے ایسا کیا ہو یا ایسا نہ کیا ہو تو) میں اسلام سے بری ہوں، لہٰذا اگر وہ اپنی بات میں جھوٹا ہے، یعنی واقعتا اس نے وہ کام کیا ہے تو وہ اسلام سے بیزار ہوگیا۔ گویا یہ ارشاد تو اس طرح قسم کھانے کی شدید ممانعت کو ظاہر کرنے کے لئے بطور مبالغہ فرمایا گیا ہے۔ اگر وہ شخص اپنی بات میں سچا ہے یعنی واقعتا اس نے وہ کام نہیں کیا ہے تو اس صورت میں بھی اس کا اس طرح کہنا گناہ سے خالی نہیں ہے کیونکہ اس طرح کی قسم کھانے سے مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے اس روایت میں مذکورہ قسم کو منعقدہ قسم پر محمول کیا ہے جیسا کہ انہوں نے حضرت ثابت کی روایت نمبر پانچ) میں مذکور قسم کو بھی منعقدہ قسم پر محمول کیا ہے چناچہ اس کی وضاحت حضرت ثابت کی روایت کی تشریح میں گذر چکی ہے، لیکن ملا علی قاری نے اس کو غموس قسم پر محمول کیا ہے، اس کتاب کے مؤلف کے نزدیک یہ دونوں قسمیں منعقدہ پر بھی محمول ہوسکتی ہیں اور غموس پر بھی۔

【64】

آنحضرت ﷺ بعض مواقع پر کس طرح قسم کھاتے تھے

اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب ( بعض مواقع پر) اپنی قسم میں زور پیدا کرنا چاہتے تو اس طرح قسم کھاتے تھے نہیں ! قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں ابوالقاسم کی جان ہے ( یہ بات نہیں بلکہ یہ بات ہے ) ۔ ( ابوداؤد) تشریح ابوالقاسم سرکار دو عالم ﷺ کی کنیت مبارک تھی۔ آنحضرت ﷺ کی قسم کے ان الفاظ میں زور بیان اور شدت و تاکید بایں معنی ہے کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے کمال وقدرت اور آنحضرت ﷺ کی عبودیت کامل نیز آپ ﷺ کے نفس مبارک کے مسخر ومطیع ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب قسم کھاتے تھے تو آپ ﷺ کی قسم اس طرح ہوتی تھی۔ لا واستغفر اللہ۔ ( ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح ان الفاظ کو قسم کہنا بایں وجہ ہے کہ یہ الفاظ اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے قسم ہی کہ مشابہ ہیں، کیونکہ ان الفاظ کے معنی ہیں اگر یہ بات اس کے برخلاف ہو تو میں اللہ سے بخشش چاہتا ہوں اور ظاہر ہے کہ اس طرح کہنا اپنی بات اور اپنے مطلب کو مضبوط و مؤ کد کرنا ہے لہٰذا یہ قسم ہی کہ حکم میں ہوا۔

【65】

قسم کے ساتھ|" انشاء اللہ |" کہنے کا مسئلہ

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو کسی بات پر قسم کھائے اور قسم کے ساتھ ہی انشاء اللہ بھی کہہ دے تو اس پر حنث ( کا اطلاق) نہیں ہوگا۔ ( ترمذی) ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) نیز امام ترمذی نے کچھ محدثین کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اس روایت کو حضرت ابن عمر پر موقوف کیا ہے ( یعنی ان محدثین کے نزدیک یہ روایت حضرت ابن عمر کا ارشاد ہے ) ۔ تشریح حنث کے معنی ہیں گناہ اور قسم توڑنا چناچہ قسم توڑنے والے کو حانث کہا جاتا ہے، حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جس قسم کے الفاظ کے ساتھ لفظ انشاء اللہ کہہ دیا جائے وہ قسم منعقد نہیں ہوگی اور جب وہ قسم منعقد ہی نہیں ہوگی تو اس کو توڑنے پر کفارہ بھی واجب نہیں ہوگا، اسی طرح تمام عقد و معاملات کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر الفاظ عقد کے ساتھ لفظ انشاء اللہ متصل ہو تو وہ عقد والا معاملہ منعقد نہیں ہوگا، چناچہ اکثر علماء اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے البتہ حضرت ابن عباس کا قول یہ تھا کہ اگر لفظ انشاء اللہ متصل ہو تو بھی یہی حکم ہے۔ اس بارے میں متصل اور منفصل کی حد یہ ہے کہ قسم کے الفاظ کے بعد کسی اور بات میں مشغول ہوئے بغیر فوراً انشاء اللہ کہا گیا تو یہ متصل ہے اور اگر اس قسم کے الفاظ کے بعد کسی دوسری بات میں مشغول ہو تو پھر انشاء اللہ کہا تو منفصل ہے ! بعض علماء نے متصل کی حد کچھ اور بھی بیان کی ہے جس کی تفصیل مرقات میں دیکھی جاسکتی ہے۔

【66】

غیر مناسب قسم توڑ دو اور اس کا کفارہ ادا کر و

اور ابواحوص عوف ابن مالک اپنے والد ( حضرت مالک) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ میرے چچا کے بیٹے کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں کہ جب میں ( اپنی کسی ضرورت کے موقع پر) اس سے ( کچھ مال و اسباب) مانگتا ہوں تو وہ مجھ کو ( کچھ) نہیں دیتا اور میرے ساتھ حسن سلوک نہیں کرتا ہے۔ لیکن جب خود اس کو مجھ سے کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے مانگتا ہے مگر میں نے ( اس کو اس کے عمل کی سزا دینے کے لئے کے خود تو مجھ کو کچھ دیتا نہیں، لیکن مجھ سے مانگنے کے لئے آجاتا ہے) اس بات پر قسم کھالی ہے کہ میں نہ تو اس کو کچھ دوں گا اور نہ اس سے حسن سلوک کروں گا۔ آنحضرت ﷺ نے ( یہ سن کر) مجھے حکم فرمایا کہ میں وہ کام کروں جو بہتر ہے ( یعنی اس کی ضرورت پوری کروں اور اس کے ساتھ حسن سلوک کروں) اور قسم توڑنے کا کفارہ دوں۔ ( نسائی، ابن ماجہ) اور ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ملک نے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے چچا کا بیٹا میرے پاس ( کچھ مانگنے) آتا ہے تو میں قسم کھا لیتا ہوں کہ نہ تو میں اس کو کچھ دوں گا اور نہ اس کے ساتھ حسن سلوک کروں گا آپ ﷺ نے ( یہ سن کر) فرمایا تم اپنی قسم ( توڑ دو اور اس) کا کفارہ دو ۔

【67】

نذر کی ممانعت

حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن عمر دونوں راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم نذر نہ مانو کیونکہ نذر تقدیر کی کسی چیز کو دور نہیں کرتی البتہ نذر کے ذریعہ بخیل کا ( کچھ مال ضرور) خرچ ہوتا ہے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری الفاظ کے ذریعہ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کے سلسلہ میں سخی و بخیل کے درمیان ایک بڑا لطیف فرق بتایا گیا ہے کہ سخی کی شان تو یہ ہوتی ہے کہ وہ بلاواسطہ نذر، ازخود اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتا ہے لیکن بخیل کو اس کی توفیق نہیں ہوتی، اگر اسے کچھ مال خرچ کرنا ہوتا ہے تو اس کے لئے نذر کو واسطہ بناتا ہے اور یہ کہتے ہے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اللہ کے نام پر اتنا مال خرچ کروں گا، اس طرح سخی تو ایثار کا وصف اختیار کرتا ہے اور بخیل غرض کی راہ اختیار کرتا ہے۔ اس حدیث کی بنا پر بعض علماء نے نذر کے ماننے کو بالکل مکروہ قرار دیا ہے، لیکن قاضی نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عام طور پر لوگوں کی عادت ہے کہ وہ نذر ( یعنی اللہ کی راہ میں اپنا کچھ مال خرچ کرنے) کو کسی فائدہ کے حصول اور کسی ضرورت و حاجت کے پوری ہونے پر معلق کردیتے ہیں۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس سے منع فرمایا کیونکہ یہ بخیلوں کا کام ہے، سخی تو جب اللہ تعالیٰ کا تقرب اور اس کی خو شنودی حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اس میں عجلت کرتا ہے اور فوراً ہی اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا ہے، لیکن اس کے برخلاف بخیل کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس کا دل یہ گوارا نہیں کرتا کہ اپنے ہاتھ سے اپنا مال کسی کو دے ہاں اس کی کوئی غرض ہوتی ہے تو وہ اپنا مال خرچ کرتا ہے چناچہ یا تو وہ اپنی حاجت پوری ہونے کے بعد اللہ کے نام پر اپنا کچھ مال نکال دیتا ہے یا اللہ کی راہ میں اپنا کچھ مال نکالنے کو حصول نفع یا دفع مضرت پر معلق کردیتا ہے یعنی یہ نذر مانتا ہے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا یا مجھے فلاں نقصان نہ پہنچا تو میں اپنا اتنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کروں گا اور ظاہر ہے کہ اس بات سے تقدیر کا فیصلہ نہیں بدل جاتا لہٰذا اس صورت میں بھی اس کو مال خرچ کرنے کی نوبت نہیں آتی، ہاں کبھی اس کی نذر، تقدیر کے فیصلہ کے موافق ہوجاتی ہے تو گویا وہ نذر اس بخیل کو اپنا وہ مال خرچ کرنے پر مجبور کردیتی ہے جس کو وہ خرچ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں نذر سے منع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نذر ماننے کے بعد اس کو پورا کرنے میں سستی وکاہلی نہ کی جائے کیونکہ جب کسی نے نذر مانی تو اس نذر کو پورا کرنا اس کے ذمہ واجب ہوگیا لہٰذا اس واجب کی ادائیگی میں تاخیر مناسب نہیں ہے۔ اور بعض علماء کے نزدیک یہاں نذر کی ممانعت سے مراد یہ ہے کہ اس اعتقاد و خیال کے ساتھ نذر مانی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کام کو مقدر نہیں کیا ہے وہ نذر سے ہوجائے گا۔ لہٰذا نذر سے منع کرنا اس اعتبار سے ہے نہ کہ مطلق نذر سے منع کرنا مقصود ہے۔

【68】

جس نذر کو پورا کرنے میں گناہ ہوتا ہو اسے پورا نہ کرو

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص ایسی نذر مانے جس سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس کی اطاعت کرے ( یعنی اس نذر کو پورا کرے) اور جو شخص ایسی نذر مانے جس سے اللہ تعالیٰ کی معصیت ( نافرمانی) ہوتی ہو تو وہ اس کی معصیت نہ کرے ( یعنی ایسی نذر کو پورا نہ کرے ) ۔ ( بخاری) اور حضرت عمران ابن حصین سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو نذر گناہ کا باعث ہو اس کو پورا کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس چیز کی نذر پوری کرنا جائز ہے جس کا وہ بندہ مالک نہ ہو۔ ( مسلم) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس نذر سے اللہ تعالیٰ کی معصیت ( نافرمانی) ہوتی ہو اس کو پورا کرنا جائز نہیں۔ تشریح حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ کرنے کی نذر مانے مثلاً یوں کہے کہ اگر میری فلاں حاجت پوری ہوگئی تو میں ناچ گانے کی محفل منعقد کروں گا یا یوں کہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کرنے کے لئے قوالی کرنے کو اپنے اوپر واجب کرتا ہوں تو ایسی نذر کو پورا کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس صورت میں نذر کو پوری نہ کرنے میں کفارہ واجب ہوگا۔ چناچہ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کا قول یہی ہے، جب کہ اس صورت میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک قسم کا کفارہ واجب ہوگا۔ حدیث کے دوسرے جزو کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کی نذر ماننا جو اپنی ملکیت میں نہ ہو اس نذر کو پورا کرنے کو جائز نہیں رکھتا۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے غلام یا کسی دوسرے شخص کی کسی چیز کے بارے میں یہ نذر مانے کہ میں اللہ کی راہ میں اس غلام کو آزاد کرتا ہوں یا اللہ کے واسطے اس چیز کو دینا اپنے اوپر واجب کرتا ہوں تو اس صورت میں اس نذر کے صحیح نہ ہونے کی وجہ سے اس غلام کو آزاد کرنا یا اس چیز کو اللہ کے واسطے دینا اس کے ذمہ لازم نہیں ہوگا۔

【69】

نذر کا کفارہ

اور حضرت عقبہ ابن عامر رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا نذر کا کفارہ قسم کے کفارے جیسا ہے۔ ( مسلم) تشریح اگر کوئی شخص کسی چیز کا نام لئے بغیر محض نذر مانے مثلاً صرف یوں کہے کہ میں نذر مانتا ہوں تو اس پر کفارہ واجب ہوگا اور اگر وہ نذر میں بلا تعیّن عدد کے روزے کی نیت کرے تو اس پر تین روزے رکھنے واجب ہوں گے اور اگر میں صدقہ کی نیت کرے تو صدقہ فطر کی مانند دس مسکینوں کو کھانا کھلانا واجب ہوگا۔

【70】

نذر کی جن باتوں کو پورا کرنا ممکن نہ ہو ان کو پورا نہ کرنے کی اجازت

اور حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ( ایک دن) نبی کریم ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک آپ ﷺ کی نظر ایک شخص پر پڑی جو کھڑا تھا آپ ﷺ نے اس شخص کے بارے میں دریافت فرمایا ( اس کا نام کیا ہے اور یہ اس وقت کیوں کھڑا ہے ؟ ) تو لوگوں نے بتایا کہ اس کا نام ابواسرائیل ہے اور اس نے یہ نذر مانی ہے کہ کھڑا رہے گا، نہ بیٹھے گا، نہ سائے میں آئے گا اور نہ ( بالکل) بولے گا اور ( ہمیشہ) روزے رکھے گا رسول کریم ﷺ نے ( یہ سن کر) فرمایا کہ اس سے کہو، بولے، سایہ میں آئے، بیٹھے اور اپنا روزہ پورا کرے۔ ( بخاری) تشریح اس شخص نے جن باتوں کی نذر مانی تھی ان میں سے جس بات پر عمل کرنا اس کے لئے ممکن تھا اس کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا اور جن باتوں پر عمل کرنا کسی وجہ سے ممکن نہ تھا ان کو پورا نہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ چناچہ آپ ﷺ نے اس کو حکم دیا کہ وہ روزے کو پورا کرے یعنی اپنی نذر کے مطابق ہمیشہ روزے رکھا کرے، کیونکہ اطاعات و عبادات کی نذر کو پورا کرنا لازم ہے اور ہمیشہ روزے رکھنا اس شخص کے لئے ایک بہتر عمل ہے جو اس پر قادر ہو، لیکن واضح رہے کہ اس صورت میں وہ پانچ روزے مستثنیٰ ہوتے ہیں جو شرعاً وعرفاً ممنوع ہیں اور اگر وہ ان پانچ روزوں کی بھی نیت کرے گا تو ان روزوں کو توڑنا اس پر واجب ہوگا اور حنفیہ کے نزدیک روزہ توڑنے کا کفارہ اس پر واجب ہوگا۔ جن باتوں پر عمل کرنا ممکن نہ تھا ان میں سے ایک تو بولنا تھا جو شرعی طور پر یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص بالکل ہی نہ بولے کیونکہ بعض مواقع پر بولنا واجب ہے ،۔ جیسے نماز میں قرأت، سلام کا جواب دینا اور اس کو ترک کرنا گناہ ہے، چناچہ آپ ﷺ نے اس کو بولنے کا حکم دیا، اسی طرح بالکل نہ بیٹھنا اور سایہ میں نہ آنا انسان کے بس سے باہر ہے، اس لئے آپ ﷺ نے اس کو بیٹھنے اور سایہ میں آنے کا حکم دیا۔ اور حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ( بیت اللہ کے سفر کے دوران) ایک بوڑھے کو دیکھا جو ( ضعف اور کمزوری کی وجہ سے) اپنے دو بیٹوں کے درمیان ( ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھے) راستہ چل رہا تھا آپ ﷺ نے پوچھا کہ اسے کیا ہوا ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اس شخص نے ( بیت اللہ کو) پیادہ پا جانے کی منت مان رکھی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس طرح اپنے آپ کو عذاب ( تکلیف) میں ڈالنے کی اللہ کو پرواہ نہیں ہے پھر آپ ﷺ نے اس شخص کو سواری پر چلنے کا حکم دیا۔ ( بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے اس بوڑھے سے فرمایا کہ بڑے میاں ! سواری پر چلو کیونکہ اللہ تعالیٰ تم سے اور ( تمہیں تکلیف میں ڈالنے والی) تمہاری اس منت سے بےنیاز ہے۔ تشریح چونکہ وہ شخص اپنے بڑھاپے اور ضعف کی وجہ سے پیادہ پا چلنے سے عاجز و معذور تھا اس لئے آپ ﷺ نے اس کو سواری پر چلنے کا حکم فرمایا۔ حضرت امام شافعی نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسی منت کی صورت میں سواری پر چلنے کی وجہ سے منت ماننے والے پر ( بطور کفارہ) کوئی چیز واجب نہیں ہوتی لیکن امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اس پر جانور ( یعنی بکری یا اس کے مثل) ذبح کرنا واجب ہوتا ہے کیونکہ اس طرح ایک چیز کو اپنے اوپر لازم کرلینے کے بعد اس کو پورا کرنے سے قاصر رہنا ہے، حضرت امام شافعی کا دوسرا قول بھی یہی ہے۔ مظہر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ نظر مانے کہ میں پیادہ پا بیت اللہ جاؤں گا تو اس کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں چناچہ حضرت امام شافعی تو یہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ شخص بیت اللہ کا سفر پیادہ پا طے کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ پیادہ پا جائے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو بطور کفارہ جانور ذبح کرے اور سواری پر سفر طے کرے۔ اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص خواہ پیادہ پا چلنے پر قادر ہو یا نہ قادر ہو، بہر صورت سواری کے ذریعہ سفر کرے اور جانور ذبح کرے۔ حنفی علماء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ میں پیادہ پا بیت اللہ جانا اپنے اوپر لازم کرتا ہوں تو اس پر حج یا عمرہ واجب ہوتا ہے، اب وہ اپنی نیت کے مطابق ان دونوں میں سے جس کو چاہے پورا کرے۔ ( یعنی اگر اس نے یہ کہتے وقت حج کی نیت کی تھی تو حج کرے اور اگر عمرہ کی نیت کی تھی تو عمرہ کرے) اور اگر یوں کہے کہ میں پیادہ پا حرم جانا یا پیادہ پا مسجد حرام جانا اپنے اوپر لازم کرتا ہوں۔ تو حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر کچھ واجب نہیں ہوتا مگر صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک اس پر حج یا عمرہ واجب ہوجاتا ہے۔ اور اگر یوں کہے کہ میں بیت اللہ جانا اپنے اوپر لازم کرتا ہوں تو اس صورت میں متفقہ طور پر مسئلہ یہ ہے کہ اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا یعنی اس پر حج یا عمرہ واجب نہیں ہوگا۔ اگر کوئی شخص پیادہ پا حج کو جانے کی نذر مانے تو اس پر واجب ہے۔ کہ وہ گھر سے پیادہ پا روانہ ہو اور جب تک کہ طواف زیارت سے فارغ نہ ہوجائے کوئی سواری استعمال نہ کرے اور اگر پیادہ پا عمرے کو جانے کی نذر مانی ہو تو جب تک کہ سر نہ منڈالے سواری پر نہ چڑھے۔ اور اگر نذر ماننے والے نے کسی عذر کی وجہ سے یا بلا عذر پورا راستہ یا آدھے سے زیادہ سواری پر طے کیا تو جانور ذبح کرنا اس پر واجب ہوگا اور اگر آدھے راستہ سے کم سواری کا استعمال کیا تو اس کے بقدر ایک بکری کی قیمت میں سے صدقہ کرنا واجب ہوگا۔

【71】

نذر ماننے والے کے ورثاء پر نذر پوری کرنا واجب ہے یا نہیں ؟

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے رسول کریم ﷺ سے اس نذر کے بارے میں مسئلہ پوچھا جو ان کی ماں نے مانی تھی اور اس کو پورا کرنے سے پہلے وہ مرگئی تھیں چناچہ آنحضرت ﷺ نے سعد کو یہ فتویٰ دیا کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے اس نذر کو پورا کریں۔ ( بخاری ومسلم) تشریح حضرت سعد کی والدہ کی نذر کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مطلق نذر مانی تھی، بعض تو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے روزے کی نذر مانی تھی، بعض کا قول یہ ہے کہ ان کی نذر غلام کو آزاد کرنے کی تھی اور بعض یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے صدقہ کی نذر مانی تھی، لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ انہوں نے یا تو مالی نذر مانی تھی یا ان کی نذر مبہم تھی چناچہ اس کی تائید دار قطنی کی روایت کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا کہ ان کی طرف سے پانی پلاؤ۔ اگر کسی شخص نے کوئی نذر مانی ہو اور اس نذر کو پورا کرنے سے پہلے مرگیا ہو تو اس کے بارے میں جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ اس شخص کے وارث پر اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے جب کہ وہ نذر غیر مالی ہو، اسی طرح اگر نذر مالی ہو اور اس میت نے کچھ ترکہ نہ چھوڑا ہو تو اس صورت میں بھی اس کے وارث پر اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہوگا، البتہ مستحب ہوگا، لیکن علماء ظواہر اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے بموجب یہ کہتے ہیں کہ وارث پر اس نذر کو پورا کرنا واجب ہوگا۔ جمہور علماء کی دلیل یہ ہے کہ اس نذر کو خود وارث نے اپنے اوپر لازم نہیں کیا ہے کہ اس کو پورا کرنا واجب ہوگا۔ البتہ مستحب ہوگا۔ لیکن علماء ظواہر اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے بموجب یہ کہتے ہیں کہ وارث پر اس نذر کو پورا کرنا واجب ہوگا۔ جمہور علماء کی دلیل یہ ہے کہ اس نذر کو خود وارث نے اپنے اوپر لازم نہیں کیا ہے کہ اس کو پورا کرنا اس پر واجب ہو اور جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے تو اول تو یہ حدیث وجوب پر دلالت ہی نہیں کرتی دوسرے یہ کہ ہوسکتا ہے کہ حضرت سعد کی والدہ نے ترکہ چھوڑا ہو اور اس ترکہ سے ان کی نذر پوری کرنے کا حکم دیا گیا ہو یا یہ کہ محض تبرعاً یہ حکم دیا گیا ہو۔

【72】

اپنا سارا مال خیرات کردینے کی ممانعت

اور حضرت کعب ابن مالک کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری مکمل اور پوری طرح توبہ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ میں اپنے سارے مال سے دست کش ہوجاؤں اور اس کو اللہ اور اس کے رسول کے لئے خیرات کر دوں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے حق میں بہتر یہ ہے کہ تم کچھ مال روک لو۔ میں نے عرض کیا ( اچھا ! ) میں اپنا خیبر کا حصہ روک لیتا ہوں۔ ( بخاری ومسلم) یہ روایت ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے۔ تشریح جب رسول کریم ﷺ غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے تو تین صحابہ، حضرت کعب ابن مالک، حضرت مرارہ ابن ربیع اور حضرت ہلال ابن امیہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ نہ گئے، جب آنحضرت ﷺ واپس تشریف لائے تو ان تینوں صحابہ پر بہت خفاء ہوئے اور لوگوں کو ان تینوں سے بات چیت کرنے سے منع فرما دیا، یہ اس صورت حال سے سخت پریشان ہوئے اور اپنی اس کوتاہی اور ندامت و شرمساری کے ساتھ بارگاہ حق جل مجدہ میں دعا وزاری اور توبہ و استغفار کرنے لگے، چند دنوں کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے حق میں یہ آیت (وَّعَلَي الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا) 9 ۔ التوبہ 118) نازل ہوئی چناچہ اسی موقع پر حضرت مالک نے جناب رسالت مآب (علیہ الصلوۃ والسلام) میں عرض کیا کہ میں اس معافی کے شکرانہ کے طور پر اور اپنی توبہ کو کامل کرنے کے لئے یہ چاہتا ہوں کہ میرے پاس جو کچھ مال ہے سب صدقہ و خیرات کر دوں جس پر انہیں یہ حکم دیا گیا کہ کچھ مال بچا کر رکھ لو۔ بظاہر اس حکم کا مقصد یہ تھا کہ دو تہائی مال روک کر ایک تہائی مال صدقہ کردو۔ نیز آنحضرت ﷺ نے ان کو سارا مال صدقہ کرنے سے اس لئے منع کیا کہ مبادا انہیں اپنی ضروریات زندگی کے لئے کچھ مال کی احتیاج ہو اور اس صورت میں صبر و توکل کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹ جائے، اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ ایسے معاملات میں ہر شخص کے مرتبہ ومقام کو مد نظر رکھ کر ہی کوئی حکم دیتے تھے، چناچہ ایک طرف تو حضرت کعب کا یہ واقعہ ہے کہ آپ ﷺ نے ان کو اپنا سارا مال صدقہ کرنے سے منع کردیا، دوسری طرف حضرت ابوبکر صدیق کی مثال ہے کہ جب انہوں نے اپنا سارا مال و اسباب آنحضرت ﷺ کے قدموں میں لا کر ڈال دیا اور سب کچھ اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا تو آپ ﷺ نے ان کو اس سے منع نہیں کیا کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق کی شان بالکل جدا گانہ تھی، وہ صبر و توکل برضاء مولیٰ کے جس اونچے مرتبہ پر فائز تھے اس کی بنا پر اس کا ہلکا سا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ وہ کسی بھی مرحلہ پر اپنی اور اپنی کسی بھی سخت سے سخت ضرورت کے موقع پر صبر و توکل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں گے۔ کتاب کے مؤلف نے اس حدیث کو اس باب میں شاید اس لئے نقل کیا ہے کہ حضرت کعب کا مذکورہ قول نذر کے مشابہ ہے بایں طور کہ حضرت کعب نے اپنے اوپر ایک ایسے امر کو ( یعنی اپنا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کو) واجب کیا۔ جو ایک مخصوص صورت حال ( یعنی قبولیت توبہ) کی وجہ سے ان پر مطلقاً واجب نہیں تھا۔

【73】

گناہ کی نذر کو پورا کرنا جائز نہیں

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا گناہ کی نذر کو پورا کرنا جائز نہیں ہے اور اس نذر کا کفارہ قسم کے کفارہ جیسا ہے۔ ( بو داؤد، ترمذی، نسائی) تشریح گناہ کی نذر کے بارے میں تفصیلی بحث پچھلے صفحات میں گذر چکی ہے، یہ حدیث اس مسئلہ میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کی دلیل ہے اور حضرت امام شافعی کے مسلک کے برخلاف ہے۔

【74】

غیر معین نذر کا کفارہ

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص غیر معین نذر مانے ( یعنی صرف یہ کہے کہ میں نذر مانتا ہوں اور اس بات کا تعین نہ کرے کہ کس چیز کی نذر مان رہا ہے۔ مثلاً روزے کی نذر مان رہا ہے یا صدقہ کی ؟ ) تو اس نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ( یعنی غیر معین نذر کی صورت میں اس کو وہ کفارہ ادا کرنا ہوگا جو قسم توڑنے کی صورت میں دیا جاتا ہے) اسی طرح جو شخص کسی ایسی چیز کی نذر مانے جو گناہ ہے تو ( اس کو پورا کرنا جائز نہیں اور) اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے نیز جو شخص ایسی چیز کی نذر مانے جس کو پورا کرنے کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو ( جیسے کوئی شخص پہاڑ اٹھانے پاپیادہ بیت اللہ جانے کی نذر مانے یا اسی طرح کی ناممکن العمل کسی بھی چیز کو اپنے اوپر بطور نذر واجب کرے) تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے اور جو شخص ایسی چیز کی نذر مانے جس کو پورا کرنے کی ہو طاقت رکھتا ہو تو اس کو چاہئے کہ اس نذر کو پورا کرے ( ابوداؤد، ابن ماجہ) بعض راویوں نے اس حدیث کو حضرت ابن عباس پر موقوف کیا ہے۔

【75】

صرف اس نذر کو پورا کرو جو جائز ہے

اور حضرت ثابت ابن ضحاک کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں ایک شخص نے یہ نذر مانی کہ وہ بوانہ میں ( جو مکہ کے نشیبی علاقہ میں واقع ایک جگہ کا نام تھا) اونٹ ذبح کرے گا، پھر وہ شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ کو اپنی ( نذر کی) خبر دی۔ رسول کریم ﷺ نے ( صحابہ سے) دریافت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں اس مقام پر کوئی بت تھا جس کی پرستش کی جاتی تھی ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا وہاں کفار کے میلوں میں سے کوئی میلہ لگتا تھا ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں ! اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے ( اس شخص کو مخاطب) کر کے فرمایا کہ تم اپنی نذر کو پورا کرو، نیز ابن آدم اس چیز کی نذر کو پورا کرنا بھی ضروری نہیں ہے جو اس کی ملکیت میں نہ ہو۔ ( ابوداؤد) تشریح اس جگہ کے بارے میں آپ ﷺ کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ اگر وہاں زمانہ جاہلیت میں کوئی بت تھا جس کی پرستش کی جاتی تھی یا وہاں کفار کا کوئی میلہ لگتا تھا جہاں وہ سیر تماشے اور ناچ گانے میں مشغول ہوتے تھے تو اس صورت میں اس شخص کو اپنے نذر پوری کرنے کی اجازت نہ دی جائے تاکہ اس طرح کفار کے ساتھ مشابہت نہ ہو لیکن جب آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ وہاں ان دونوں میں سے کوئی چیز بھی نہیں تھی تو آپ ﷺ نے اس شخص کو نذر پوری کرنے کا حکم دیا۔

【76】

دف بجانے کی نذر کو پورا کرنے کا حکم

اور حضرت ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے ( حضرت عبداللہ ابن عمر) سے رویت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میں نے نذر مانی ہے کہ ( جب آپ ﷺ جہاد سے واپس تشریف لائیں تو) تو میں آپ ﷺ کے سامنے دف بجاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اپنی نذر پوری کرو ۔ ( ابوداؤد) اور رزین نے اس روایت میں یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ اس عورت نے ( یہ بھی) کہا کہ اور میں نے یہ نذر مانی ہے کہ میں فلاں فلاں مقام پر جہاں زمانہ جاہلیت میں لوگ ذبح کرتے تھے، جانور ذبح کروں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا وہاں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا ؟ اس عورت نے کہا کہ نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا وہاں کفار کے میلوں میں سے کوئی میلہ لگتا تھا ؟ عورت نے کہا کہ نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا اپنی نذر پوری کرو۔ تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دف بجانا مباح ہے ! جو حضرات یہ فرماتے ہیں کہ صرف اس چیز کی نذر ماننی چاہئے جو اطاعت ( یعنی بھلائی) کی قسم سے ہو وہ اس حدیث کے بارے میں یہ وضاحت کرتے ہیں کہ اگرچہ دف بجانا کوئی اطاعت نہیں ہے بلکہ مباح ہے لیکن اس عورت نے چونکہ آنحضرت ﷺ کے لئے اپنے جذبات عقیدت و محبت کی بنا پر یہ نذر مانی تھی کہ آنحضرت ﷺ جب جہاد کے معرکوں سے فارغ ہو کر خیر و عافیت کے ساتھ واپس تشریف لائیں گے تو میں دف بجاؤں گی، لہٰذا اس اعتبار سے اس دف کا بجانا بھی گویا طاعت کی قسم سے ہوا۔

【77】

تہائی مال سے زیادہ صدقہ کرنے کی ممانعت

اور حضرت ابولبابہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میری تمام و کمال توبہ یہ ہے کہ میں اپنی قوم کا گھر چھوڑ دوں جہاں مجھ سے گناہ سرزد ہوا ہے اور یہ کہ میں اپنے تمام مال کو خیرات کرنے کے لئے اس سے دست کش ہوجاؤں آپ ﷺ نے فرمایا تہائی مال کا صدقہ تمہارے لئے کافی ہے ۔ ( رزین) تشریح حضرت ابولبابہ کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک بہت بڑا عجیب، سبق آموز اور عدیم المثال واقعہ ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے بنو قریظہ کا محاصرہ کیا جو یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا۔ تو بنو قریظہ نے یہ پیغام بھیجا کہ آپ اپنے صحابی ابولبابہ کو ہمارے پاس بھیج دیجئے تاکہ ہم اپنے بارے میں ان سے مشورہ کریں آنحضرت ﷺ نے اس پیغام کو منظور فرما لیا اور ابولبابہ کو ان کے پاس بھیج دیا، جب بنو قریظہ نے ابولبابہ کو دیکھا تو ان کے مرد و عورت اور بچے بوڑھے سب ہی ان کے آگے رونے اور گڑ گڑانے لگے ان کی اس کیفیت کو دیکھ کر ابولبابہ کا دل پسیج گیا، پھر انہوں نے ابولبابہ سے پوچھا کہ اگر ہم حکم محمدی کو مان لیں اور اپنے آپ کو ان کے حوالہ کریں تو ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟ اس کے جواب میں ابولبابہ نے اپنے حلق پر ہاتھ پھیر کر ظاہر کیا کہ تمہیں ذبح کر ڈالیں گے۔ ابولبابہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات کہی اور ہنوز وہاں سے قدم نہیں اٹھایا تھا کہ میں متنبہ ہوا اور اس بات پر سخت نادم ہوا کہ تو نے اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں خیانت کی۔ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ (يٰ اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْ ا اَمٰنٰتِكُمْ ) 8 ۔ الانفال 27) اے ایمان والو ! نہ تو اللہ اور رسول کی امانت ( یعنی ان کے پیغام و احکام) میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو۔ پھر کیا تھا، ایسا لگا جیسے احساس ندامت و شرمندگی نے ابولبابہ کے قلب و شعور پر بجلی گرا دی ہو، وہ بےتاب ہوگئے اور دیوانہ وار مسجد نبوی ﷺ پہنچے اور اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا اور یہ اعلان کیا کہ جب تک میں توبہ نہ کرلوں اور پھر جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہ کرلے مجھ پر کھانا پینا حرام ہے ! جب نماز کا وقت آتا تو ان کے بیٹے آتے اور ان کو کھول دیتے پھر جب وہ نماز پڑھ لیتے ان کے ہاتھ باندھ دیتے لوگ ان کے پاس آتے تو کھولنے کے لئے کہتے تو انکار کردیتے اور فرماتے کہ جب تک رسول کریم ﷺ خود آ کر نہ کھولیں گے میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا، چناچہ مسلسل سات دن تک اسی طرح اس ستون سے بندھے کھڑے رہے یہاں تک کہ غش کھا کر گرپڑے، آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی، اس کے بعد لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول کرلی ہے۔ اب تو اپنے آپ کو کھول ڈالو، انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! جب تک رسول کریم ﷺ اپنے دست مبارک سے مجھے نہیں کھولیں گے میں خود اپنے آپ کو ہرگز نہیں کھولوں گا، چناچہ آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے انہیں کھولا اسی موقع پر حضرت ابولبابہ نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ اپنی توبہ کو کامل کرنے کے لئے میں یہ محسوس کرتا ہوں مجھے اپنے سارے اثاثہ سے دست کش ہونا چاہئے چناچہ اول تو میں اپنا وہ آبائی اور قومی گھر چھوڑتا ہوں جو بنی قریظہ کے قبیلہ میں واقع ہے اور دوسرے میں اپنا وہ تمام مال و اسباب اللہ کی راہ میں خیرات کردینا چاہتا ہوں۔ گھر چھوڑنے کے لئے ابولبابہ نے اس لئے کہا کہ وہ اس جگہ سے دور ہوجائیں جہاں شیطان نے ان پر غلبہ حاصل کر کے ان کو گناہ میں مبتلا کیا اور اس گناہ کا ظاہری سبب بنو قریظہ کے تئیں ان کا جذبہ ہمدردی تھا اور اس جذبہ ہمدردی کا اظہار انہوں نے اس لئے کیا کہ ان کے اہل و عیال اور مال و اسباب سب کچھ بنو قریظہ کے قبضہ میں تھا۔ گھر چھوڑنے کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے حکم دیا اس کا حدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے، بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ ابولبابہ کا گھر چھوڑ دینا طاعت کی قسم سے تھا اس لئے آپ ﷺ نے اس کو جائز رکھا، البتہ صدقہ کے بارے میں آپ ﷺ نے یہ حکم دیا کہ سارا مال خیرات کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے سارے مال کا تہائی حصہ خیرات کرنا حصول مقصد کے لئے کافی ہے۔

【78】

کسی خاص جگہ نماز پڑھنے کی نذر مانی جائے اور پھر اس نماز کو -r-nدوسری جگہ پڑھ لیا جائے تو نذر پوری ہوجائے گی

اور حضرت جابر ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن ایک شخص مسجد نبوی ﷺ میں کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے عز وجل سے یہ نذر مانی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مکہ کی فتح عطاء کرے گا تو میں بیت المقدس میں دو رکعت نماز پڑھوں گا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم اسی جگہ ( مسجد حرام میں) نماز پڑھ لو ( کیونکہ یہاں نماز پڑھنا افضل ہے باوجودیکہ بیت المقدس جا کر وہاں نماز پڑھنے کی بہ نسبت یہاں نماز پڑھ لینا زیادہ آسان وسہل ہے) اس شخص نے پھر یہی عرض کیا آنحضرت ﷺ نے یہی جواب دیا کہ اس جگہ نماز پڑھ لو، جب اس نے تیسری مرتبہ بھی یہی عرض کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب تمہیں اختیار ہے ( یعنی اگر تم یہاں نماز پڑھنا نہیں چاہتے تو تم جانو، تمہیں اپنی نذر کے مطابق بیت المقدس میں نماز پڑھنے کا اختیار ہے۔ ( ابوداؤد، دارمی) تشریح شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی نذر مانے اور پھر اس نماز کو مسجد حرام میں پڑھ لے تو اس کی نذر پوری ہوجائے گی لیکن اگر اس نماز کو وہ مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس میں پڑھے گا تو نذر پوری نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی نذر مانے اور پھر اس نماز کو مسجد حرام یا مسجد نبوی میں پڑھ لے تو اس کی نذر پوری ہوجائے گی ! گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی جگہ نماز پڑھنے کی نذر مانی جائے اور اس نماز کو کسی ایسی دوسری جگہ پڑھ لیا جائے جو اس جگہ سے زیادہ فضیلت کی حامل ہو تو نذر پوری ہوجائے گی۔ لیکن حنفی علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں ہمارا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جگہ نماز پڑھنے کی نذر مانے اور پھر اس نماز کو کسی ایسی دوسری جگہ پڑھے جو اس جگہ سے کم فضیلت کی حامل ہو تو بھی نذر پوری ہوجائے گی۔

【79】

نذر کا کوئی جزو اگر ناممکن العمل ہو تو اس کا کفارہ

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ عقبہ ابن عامر کی بہن نے یہ نذر مانی کہ وہ پیدل حج کریں گی لیکن وہ اس کی طاقت نہیں رکھتی تھی چناچہ نبی کریم ﷺ نے ( حضرت عقبہ سے) فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو تمہاری بہن کے پیدل جانے کی پرواہ نہیں ہے، لہٰذا انہیں چاہئے کہ وہ ( جب پیدل نہ چل سکیں تو) سوری پر بیٹھ جائیں اور اس کے مال کا کفارہ کے طور پر بدنہ ذبح کریں ( حنفیہ کے نزدیک بدنہ سے مراد اونٹ یا گائے ہے۔ لیکن شوافع کے نزدیک بدنہ کا اطلاق صرف اونٹ پر ہوتا ہے) ( ابوداؤد، دارمی) ابوداؤد ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ چناچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری بہن کو اس کی مشقت کا کوئی ثواب نہیں دے گا ( یعنی تمہاری بہن جو اس طرح مشقت برداشت کریں گی اس کا انہیں کچھ ثواب نہیں ملے گا) لہٰذا انہیں چاہئے کہ وہ ( جب پیدل نہ چل سکیں تو) سوری پر بیٹھ کر حج کا سفر پورا کریں اور اپنی قسم کا کفارہ دیں۔ تشریح ہدی اس جانور کو کہتے ہیں کہ جو ذبح کرنے کے لئے حرم بھیجا جائے ! ہدی کا کم سے کم درجہ بکری ہے اور اس کا اعلیٰ درجہ بدنہ یعنی اونٹ یا گائے ہے۔ اس حدیث میں بدنہ ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ بطور استحباب ہے ! قاضی کہتے ہیں کہ پیادہ پا حج کے لئے جانا چونکہ طاعات کی قسم سے ہے اس لئے اس کی نذر پوری کرنا واجب ہے اور اس کے ساتھ ہر وہ عمل لاحق ہوجاتا ہے جس کو ترک کرنا جائز نہیں ہے الاّ یہ کے کوئی شخص اس کی ادائیگی سے عاجز ہو۔ لہٰذا ترک کی صورت میں فدیہ ( کفارہ) واجب ہوا گا۔ اب اس بارے میں اختلاف ہے کہ بطور کفارہ کس جانور کو ذبح کرنا واجب ہوگا ؟ چناچہ حضرت علی کا قول ہے کہ اس حدیث کے بموجب بدنہ واجب ہوگا، بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ جس طرح میقات سے تجاوز کر جانے کی وجہ سے بکری واجب ہوتی ہے اسی طرح اس صورت میں بھی بکری واجب ہوگی، انہوں نے اس حدیث میں بدنہ ذبح کرنے کے حکم کو استحباب پر محمول کیا ہے، یہی قول امام مالک کا بھی ہے۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حضرت امام شافعی کا قول بھی یہی ہے۔ اور اپنے قسم کا کفارہ دیں کے بارے میں زیادہ صحیح یہ ہے کہ اس حکم میں کفارہ سے مراد کفارہ جنایت ہے اور وہ ہدی ہے، یا روزہ ہے جو ہدی کا قائم مقام ہے اور جس کا ذکر بھی اگلی حدیث میں کیا گیا ہے کفارہ کے با رہے میں یہ تاویل اس لئے کی جاتی ہیں تاکہ یہ روایت اس بارے میں منقول دوسری روایتوں کے مطابق ہوجائے، حاصل یہ کہ یہاں قسم کے کفارہ سے وہ کفارہ مراد نہیں ہے جو قسم توڑنے کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے۔ اور حضرت عبداللہ ابن مالک کہتے ہیں کہ جب عقبہ ابن عامر نے ( سفر حج کے دوران) اپنی بہن کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے پوچھا جنہوں نے نذر مانی تھی کہ وہ پیادہ پا، ننگے پاؤں اور ننگے سر حج کو جائیں گی، تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ان کو حکم دو کہ وہ اپنا سر ڈھانکیں اور سواری پر بیٹھ جائیں، نیز انہیں چاہئے کہ وہ تین روزے رکھیں۔ ( ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) تشریح سر ڈھانکنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ عورت کا سر اور بال ستر ہیں۔ یعنی اس کے جسم کے یہ وہ حصے ہیں جس کو چھپانا اس پر واجب ہے اور اس کا کھلا رکھنا گناہ ہے اور سواری پر بیٹھنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ وہ پیدل چلنے سے عاجز تھیں اور اس کی وجہ سے وہ سخت مشقت و تکلیف میں مبتلا تھیں۔ چونکہ اوپر کی حدیث میں ہدی کا ذکر ہے اس لئے یہاں وہ تین روزے رکھیں کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر وہ ہدی ( یعنی جانور ذبح کرنے) سے عاجز ہوں تو تین روزے رکھ لیں۔ یا پھر روزے رکھنے کے لئے اس لئے فرمایا گیا کہ قسم کے کفارہ کی جو کئی قسمیں ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص کفارہ کی قسموں سے عاجز ہو تو وہ تین روزے رکھے اب ان تین روزوں کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر تین روزے قسم کے کفارہ کے طور پر رکھے جائیں تو تین دن پے در پے رکھنے واجب ہیں اس کے علاوہ کی صورت میں اختیار ہے کہ جس طرح چاہے رکھے گا۔

【80】

ناجائز نذر کا کفارہ دینا واجب ہے

اور حضرت سعید ابن مسیب کہتے ہیں کہ دو انصاری بھائیوں کو کسی کی میراث ملی تھی ( جسے ان دونوں کے درمیان تقسیم ہونا باقی تھا) چناچہ ان دونوں میں سے ایک بھائی نے ایک دوسرے بھائی سے اس میراث کو تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا تو اس دوسرے بھائی نے کہا کہ ( میں یہ نذر مانتا ہوں کہ) اگر اب تم پھر مجھ سے تقسیم کا مطالبہ کرو گے تو میرا سارا مال کعبہ میں خرچ کیا جائے گا۔ جب یہ صورت حال حضرت عمر فاروق ( کے علم میں آئی تو انہوں) نے فرمایا کہ کعبہ تمہارے مال سے بےپرواہ ہے۔ ( یعنی کعبہ کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ تم اپنا مال اس کی نذر کرو) اور چونکہ تمہارے اوپر اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے اس لئے) تم اپنی قسم کا ( یعنی اس ناجائز نذر کا) کفارہ ادا کرو اور ( جب تمہارا بھائی اس میراث کو تقسیم کرنے کا مطالبہ کرے تو اس معاملہ میں) تم اپنے بھائی سے بات چیت کرو ( یعنی اس میراث کو تقسیم کر کے اس کا مطالبہ پورا کرو) کیونکہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم پر اس قسم ( یعنی اس طرح کی نذر) کو پورا کرنا واجب نہیں ہے اور پروردگار کی معصیت کی نذر جائز نہیں ہے ( یعنی جس نذر کا تعلق پروردگار کی نافرمانی اور کسی گناہ سے ہو اس کو پورا نہ کرنا چاہئے) اور نہ اس نذر کو پورا کرنا چاہئے جو قرابت داری کو منقطع کرنے سے متعلق ہو اور جس چیز کا انسان مالک نہ ہو، اس کی نذر پوری کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ ( بلکہ جو نذر ناجائز ہونے کی وجہ سے پوری نہ کی جائے اس کا کفارہ دینا واجب ہے ) ۔ ( ابوداؤد) تشریح تاج الکعبہ کا لفظی ترجمہ ہے کعبہ کا دروازہ کیونکہ تاج بڑے دروازہ ( پھاٹک) کو کہتے ہیں لیکن تاج کعبہ سے کعبہ کا دروازہ مراد نہیں ہے، بلکہ نفس کعبہ مراد ہے۔

【81】

جائز اور ناجائز نذر

حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ نذر دو قسم کی ہے ( ایک تو یہ کہ) کوئی شخص طاعت ( یعنی حق تعالیٰ کی بندگی) کی نذر مانے، یہ نذر خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہے، اس طرح کی نذر کو پورا کرنا واجب ہے اور دوسری یہ کہ کوئی شخص گناہ کی نذر مانے، یہ نذر شیطان کے لئے ہے، اس طرح کی نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے، بلکہ ایسی صورت میں وہ کفارہ ادا کیا جائے جو قسم توڑنے کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ ( نسائی )

【82】

جان قربان کرنے کی نذر کا مسئلہ

اور حضرت محمد ابن منتشر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ اس کو دشمن سے نجات دلا دے تو وہ اپنے آپ کو ذبح کر ڈالے گا، چناچہ جب اس کو اپنے دشمن سے نجات مل گئی تو ( اس نے اس مسئلہ میں حضرت ابن عباس (رض) سے دریافت کیا حضرت ابن عباس نے اس سے فرمایا کہ یہ مسئلہ مسروق ( تابعی) سے پوچھو، اس شخص نے مسروق سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم اپنے آپ کو ذبح نہ کرو، کیونکہ اگر تم مسلمان ہو تو ( اس صورت میں) تم ایک مسلمان کو قتل کرنے کے مرتکب ہو گے اور اگر تم کافر ہو تو ( اس صورت میں گویا) تم دوزخ میں جانے میں جلدی کرو گے، لہٰذا اگر تمہارے بارے میں یہ حکم ہے کہ ( تم دنبہ خرید کر مسکینوں کے لئے اس کو ذبح کرو، حضرت اسحاق تم سے بہتر تھے جن کا بدلہ ایک دنبہ کو قرار دیا گیا، جب اس شخص نے حضرت ابن عباس کو ( حضرت مسروق کے اس فتویٰ سے آگاہ کیا) تو انہوں نے فرمایا کہ حقیقت یہی ہے، میں خود تمہیں یہ فتویٰ دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ( رزین) تشریح حضرت مسروق ابن اجدع کا شمار اونچے درجہ کے تابعین میں ہوتا ہے۔ ان کی علمی فضیلت اور فقہی حیثیت اپنے زمانہ میں ایک امتیازی شان رکھتی تھی۔ مرہ ابن شرحبیل کا قول ہے کہ کسی ہمدانی عورت نے مسروق جیسا سپوت نہیں جنا، انہوں نے آنحضرت ﷺ کی وفات سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا۔ مگر دربار رسالت میں حاضری کی سعادت سے محروم رہے تھے، چناچہ انہوں نے چاروں خلفاء راشدین اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے تحصیل علم کیا تھا اس لئے جب اس شخص نے حضرت ابن عباس (رض) سے مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے اپنی جلالت علم کے باوجود اس شخص کو حضرت مسروق سے مسئلہ پوچھنے کے لئے کہا، اس سے جہاں حضرت مسروق کی فضیلت کا اظہار ہوتا ہے، وہیں حضرت ابن عباس کے جذبہ احتیاط اور ان کے کمال صبر ودیانت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ حدیث میں جس شخص کا ذکر کیا گیا ہے اس کو اپنے دشمن کے ہاتھوں مرنا نہایت شدید اور فضیحت ناک معلوم ہوتا تھا، چناچہ اس نے التجا کی کہ پروردگار ! اصل موت مجھ پر سخت نہیں ہے اور نہ میں اپنے زندگی کے خاتمہ سے گبھراتا ہوں، میں اپنی جان اپنے ہاتھوں تجھے سونپتا ہوں اور اپنے آپ کو تیرے نام پر قربان کرتا ہوں لیکن دشمن کے ہاتھوں مرنا مجھ پر سخت شاق ہے اس لئے اگر تو مجھے دشمن سے نجات دے گا تو میں اپنے آپ کو تیرے نام پر قربان کر دوں گا یہ تو گویا اس کا جذبہ اور اس کی ایک طبعی خواہش تھی لیکن اس نے یہ نہیں جانا کہ اپنے آپ کو ہلاک کرلینا اس سے کہیں زیادہ سخت اور حرام ہے۔ چناچہ حضرت مسروق نے اس کے سامنے اس مسئلہ کو بڑے لطیف انداز میں واضح کیا کہ اگر تم مسلمان ہو اور اپنے آپ کو قتل کر ڈالتے ہو تو اس طرح درحقیقت تم ایک مسلمان کو قتل کرنے کے مرتکب گردانے جاؤ گے اور یہ معلوم ہونا چاہئے کہ نفس مؤمن کو قتل کرنے والے کے بارے میں اس آیت کریمہ ( وَلَا تَقْتُلُوْ ا اَنْفُسَكُمْ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا) 4 ۔ النساء 29) کے بموجب دوزخ کے دائمی عذاب کی وعید بیان کی گئی ہے اور اگر تم کافر ہو تو اس صورت میں تمہارا اپنے آپ کو قتل کردینا، اس بات کے مترادف ہوگا کہ تم دوزخ میں جانے میں جلدی کر رہے ہو، کیونکہ اگر تم بقید حیات رہتے ہو تو عجب نہیں کہ حق تعالیٰ تمہیں راہ ہدایت سے نوازے اور تم اسلام قبول کر کے دائمی نجات پاؤ۔ بہر حال کسی بھی صورت میں تمہارا اپنے آپ کی قتل کردینا نہ صرف یہ کہ نامشروع ہے بلکہ غیر معقول بھی ہے۔ حدیث کا یہ جملہ حضرت اسحاق تم سے بہتر تھے جن کا بدلہ ایک دنبہ کو قرار دیا گیا تھا بعض علماء کے اس قول پر مبنی ہے کہ حضرت ابراہیم نے جو خواب دیکھا تھا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہوں تو وہ بیٹے حضرت اسحاق تھے۔ لیکن اس بارے میں مشہور و مختار اور صحیح قول یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کو خواب میں جس بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہ حضرت اسماعیل تھے۔ چناچہ جلال الدین سیوطی نے وضاحت کی ہے کہ اس واقعہ میں اہل کتاب نے سخت تحریف و تکذیب سے کام لیا ہے، سابقہ آسمانی کتابوں میں اصل نام اسماعیل تھا جس کو اہل کتاب نے حذف کر کے اسحاق بنادیا۔ در مختار میں لکھا ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی نذر مانی تو حضرت ابراہیم کے واقعہ کی موافقت میں اس پر بکری ذبح کرنا واجب ہوگا لیکن حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام شافعی کہتے ہیں کہ ایسی نذر لغو ہوگی، اسی طرح اپنے آپ کو یا اپنے غلام کو ذبح کرنے کی نذر بھی لغو ہوگی لیکن حضرت امام محمد کے نزدیک اس صورت میں ایک بکری ذبح کرنا واجب ہوگا ! اور اگر کسی نے اپنے باپ یا اپنے دادا کو اور یا اپنی ماں کو ذبح کرنے کی نذر مانی تو تمام علماء کے نزدیک اس کی نذر لغو ہوگی۔