107. دیت کا بیان

【1】

دیت کے معنی اور اس کی قسمیں :

دیات جمع ہے دیت کی جس کے معنی ہیں مالی معاوضہ گویا دیت اس مال کو کہتے ہیں جو جان کو ختم کرنے یا کسی شخص کے جسمانی اعضاء کو ناقص (مجروح) کرنے کے بدلہ میں دیا جاتا ہے ! عنوان میں جمع کا لفظ دیات دیت کی انواع (قسموں) کے اعتبار سے لایا گیا ہے اس سے یہ اظہار مقصود ہے کہ دیت کی مختلف قسمیں ہیں مثلا ایک دیت تو وہ ہوتی ہے جو کسی کو جان سے مار ڈالنے کے بدلہ میں دی جاتی ہے اور ایک دیت وہ ہوتی ہے جو اعضاء کے نقصان کے بدلے میں دی جاتی ہے۔ پھر نوعیت و حیثیت کے اعتبار سے بھی دیت دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو مغلظہ کہلاتی ہے اور دوسری کو مخففہ کہتے ہیں۔ دیت مغلظہ تو یہ ہے کہ چار طرح کی سو اونٹنیاں ہوں یعنی پچیس بنت مخاض (جو ایک سال کی ہو کر دوسرے سال میں لگی ہو) پچیس بنت لبون (جو دو سال میں لگی ہوں) پچیس حقہ (جو تین سال کی ہو کر چوتھے سال میں لگی ہوں) اور پچیس جذعہ (جو چار سال کی ہو کر پانچویں سال میں لگی ہوں) یہ تفصیل حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت ابویوسف کے مسلک کے مطابق ہے، حضرت امام شافعی اور حضرت امام محمد کے نزدیک دیت مغلظہ یہ ہے کہ تین طرح کی اونٹنیاں ہوں یعنی تیس حقہ، تیس جذعہ اور چالیس مثنہ (جو پانچ سال کی ہو کر چھٹے سال میں لگی ہوں) اور سب حاملہ ہوں۔ دیت مغلظہ اس شخص پر واجب ہوتی ہے جو قتل شبہ عمد کا مرتکب پایا گیا ہو۔ دیت مخففہ یہ ہے کہ اگر سونے کی قسم سے دیت دی جائے تو اس کی مقدار ایک ہزار دینار (اشرفی) ہے اور اگر چاندی کی قسم سے دی جائے تو دس ہزار درہم دیئے جائیں گے اور اگر اونٹ کی قسم سے دے تو پانچ طرح کے سو اونٹ دینے ہوں گے یعنی بیس ابن مخاض (وہ اونٹ جو ایک سال کی ہو کر دوسرے سال میں لگے ہوں) بیس بنت مخاض، بیس بنت لبون، بیس جذعہ دیت مخففہ اس شخص پر واجب ہوتی ہے جو قتل خطاء یا قتل جاری مجریٰ خطا اور یا قتل تسبیب کا س مرتکب پایا گیا ہو۔

【2】

انگلی کا نٹے کی دیت

حضرت ابن عباس نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا یہ اور یہ یعنی (آپ ﷺ نے سب سے چھوٹی انگلی اور انگوٹھے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ) چھنگلیا اور انگوٹھا (دیت کے اعتبار سے) دونوں برابر ہیں۔ (بخاری ) تشریح اگر کوئی شخص کسی کے دونوں ہاتھ یا دونوں پاؤں کاٹ دے تو چونکہ اس نے ایک انسان کو اس کی منفعت ایک بہت بڑے ذریعہ سے محروم کردیا اس لئے اس پر (بطور سزا) پوری دیت واجب ہوگی اس اعتبار سے ہر انگلی کانٹے پر پوری دیت (یعنی سو اونٹ) کا دسواں حصہ دینا واجب ہوگا، اسی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ انگوٹھے اور چھنگلیا کی دیت برابر ہے اگرچہ انگوٹھے میں دو گانٹھ اور چھنگلیا میں تین گانٹھ ہوتی ہیں لیکن اصل میں منفعت میں دونوں انگلیوں کے مساوی ہونے کے اعتبار سے گانٹھ کی کمی زیادتی کا اعتبار نہیں ہوگا جس طرح کہ دائیں اور بائیں میں فرق نہیں ہوتا اور جب ہر انگلی میں پوری دیت کا دسواں حصہ واجب ہوگا تو انگلی کی ہر گانٹھ کی دیت میں اسی حساب کا اعتبار ہوگا کہ انگلی کی دیت میں دسویں حصہ کا تہائی دینا ہوگا اور انگوٹھے کی ہر ایک گانٹھ کی دیت میں دسویں حصہ کا آدھا دینا ہوگا کیونکہ انگوٹھے میں دو گانٹھ ہوتی ہیں اور انگلیوں میں تین تین گانٹھیں ہوتی ہیں۔

【3】

حمل کے بچہ کی دیت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے بنی لحیان کی ایک عورت کے اس بچہ کی دیت میں جو مر کر اس کے پیٹ سے گرپڑا تھا ( عاقلہ پر) غرہ واجب کیا تھا اور غرہ سے مراد غلام یا لونڈی ہے، پھر جب وہ عورت (کہ جس کے عاقلہ پر غرہ واجب کیا تھا) مرگئی تو آپ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ اس کی میراث اس کے بیٹوں اور خاوند کے لئے ہے اور اس کی دیت اس کے عصبہ پر ہے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں اور ان میں سے ایک نے دوسری عورت کے پتھر کھینچ مارا اتفاق سے وہ عورت حاملہ تھی اور پتھر اس کے پیٹ پر لگا، اس کے نتیجہ یہ ہوا کہ جو بچہ اس کے پیٹ میں تھا اس پتھر کی چوٹ سے مر کر پیٹ سے باہر آگیا چناچہ اس کی دیت میں پتھر مارنے والے کے عاقلہ (یعنی اہل خاندان) پر ایک غرہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام واجب کیا گیا اور اگر وہ بچہ زندہ پیدا ہو کر بعد میں مرجاتا یا اگر وہ بچہ زندہ پیدا ہوتا اور اس کے بعد وہ پتھر مارتی اور اس پتھر کی چوٹ سے وہ بچہ مرجاتا تو اس صورت میں پوری دیت واجب کی جاتی۔ غرہ اصل میں تو اس سفیدی کو کہتے ہیں جو گھوڑے کی پیشانی پر ہوتی ہے، پھر سفید رنگ کے غلام یا لونڈی کو بھی غرہ کہا جانے لگا لیکن یہاں مراد مطلق غلام یا لونڈی ہے، ویسے فقہا کے نزدیک غرہ سے دیت کا بیسواں حصہ یعنی پانچ سو درہم مراد ہے۔ اور اس کی دیت اس کے عصبہ پر ہے میں عصبہ سے مراد عاقلہ ہیں اس جملہ سے یہ واضح کرنا مراد ہے کہ اگرچہ اس کی دیت اس کے عاقلہ یعنی خاندان اور برادری والوں پر واجب ہوگی مگر وہ خاندان اور برادری والے پر واجب ہوگی مگر وہ خاندان اور برادری والے اس کی میراث کے وارث نہیں قرار پائیں گے کیونکہ کسی کی دیت کا ذمہ دار ہونے سے اس کی میراث کا حقدار ہونا لازم نہیں آتا، بلکہ اس کی میراث تو انہی لوگوں کو ملے گی جو اس کے شرعی وارث ہیں، اب رہی یہ بات کہ یہاں وارثوں میں صرف بیٹوں اور خاوند کی تخصیص کیوں کی گئی تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں جس عورت کا ذکر ہے اس کے ورثاء میں صرف یہی لوگ موجود ہوں گے اس لئے انہی کا ذکر کیا گیا ورنہ مقصود یہ ہے کہ میراث ہر اس وارث کو ملے گی جو موجود ہو جیسا کہ اگلی حدیث کے الفاظ (ورثھا ولدہا ومن معہم) سے واضح ہے۔

【4】

پتھر کے ذریعہ ہونے والے قتل میں دیت واجب ہوگی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) قبیلہ ہزیل کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں اور ان میں سے ایک نے دوسری عورت کے پتھر کھینچ مارا جس سے وہ عورت بھی مرگئی اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی مرگیا۔ چناچہ رسول کریم ﷺ نے حکم دیا کہ مقتولہ کے اس بچہ کی دیت جو اس کے پیٹ میں مرگیا غرہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام ہے اور حکم فرمایا کہ مقتولہ کے دیت، قاتلہ کے خاندان و برادری والوں پر ہے نیز آپ نے اس کی دیت کا وراث اس کے بیٹوں اور ان لوگوں کو بنایا جو بیٹوں کے ساتھ (وراثت میں شریک) تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی دفعہ میں جو واقعہ گزرا ہے وہ کسی اور عورت کا ہے اور اس حدیث میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے وہ کسی اور عورت کا ہے۔ پہلی حدیث میں تو یہ ذکر تھا کہ پتھر مارنے سے عورت مرگئی تھی چناچہ اس حدیث میں اس عورت کی وفات اور اس کی وفات کے بعد جو احکام نافذ ہونے تھے ان کا ذکر کرنا مقصود تھا اور اس حدیث میں اس عورت کا ذکر کیا گیا ہے جو پتھر کی چوٹ کھانے کی وجہ سے مرگئی تھی اور اس کے ساتھ ہی اس کے پیٹ کا بچہ بھی مرگیا تھا چناچہ یہاں اس کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ پتھر کے ذریعہ کسی کو ہلاک کردینا دیت کا موجب ہے نہ کہ قصاص کا، نیز یہ قتل عمد کی قسم سے نہیں ہے بلکہ شبہ عمد کی قسم سے ہے جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے لیکن اس بارے میں یہ حدیث چونکہ دوسرے ائمہ کے مسلک کے خلاف ہے اس لئے وہ حدیث میں مذکورہ پتھر کو چھوٹے پتھر پر محمول کرتے ہیں۔ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ دو عورتیں جو آپس میں سوکنیں تھیں (ایک دن باہم لڑ پڑیں) چناچہ ان میں سے ایک نے دوسری کو (جو حاملہ تھی) پتھر یا خیمے کی چوب سے مارا جس کی وجہ سے اس کا حمل ساقط ہوگیا۔ لہٰذا رسول کریم ﷺ نے پیٹ کے بچہ کی دیت میں غرہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام دینے کا حکم دیا اور دیت کو آپ نے مارنے والی عورت پر واجب کیا۔ یہ ترمذی کی روایت ہے۔ اور مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت مغیرہ نے کہا ایک عورت اپنی سوکن کو جو حاملہ تھی، خیمہ کی چوب سے مارا جس کی وجہ سے وہ مرگئی ( اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی مرگیا) مغیرہ کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے ایک عورت لحیان کے خاندان سے تھی (جو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ ہے) مغیرہ کا بیان ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عاقلہ پر واجب کی اور پیٹ کے بچہ کی دیت میں غرہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام دینے کا حکم فرمایا۔ تشریح یہ حدیث بھی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کی دلیل ہے کیونکہ خیمے چوب سے عام طور انسان کو ہلاک کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود اس عورت کو قتل عمد کا مرتکب قرار دیا گیا بلکہ شبہ عمد کا مرتکب گردانا گیا۔ حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ یہاں پتھر اور چوب سے مراد چھوٹا پتھر اور چوب ہے جس سے عام طور کسی انسان کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں کیا جاتا۔

【5】

قتل خطاء اور شبہ عمد کی دیت

حضرت عبداللہ ابن عمرو کہتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا جاننا چاہئے کہ قتل خطاء جس سے مراد شبہ عمد ہے اور جو کوڑے اور لاٹھی کے ذریعہ واقع ہوا ہو، اس کی دیت سو اونٹ ہیں جن میں سے چالیس ایسی اونٹنیاں بھی ہونی چاہئیں جن کی پیٹ میں بچے ہوں (نسائی، ابن ماجہ، دارمی ، ) ابو داؤد نے اس روایت کو ابن عمرو اور ابن عمر دونوں سے نقل کیا ہے، نیز شرح السنۃ میں یہ روایت ابن عمر سے بالفاظ مصابیح نقل کی گئی ہے۔ تشریح یہ روایت بالفاظ مصابیح یوں ہے (الا ان فی قتل العمد الخطاء بالسوط والعصاء مائۃ من الابل مغلظۃ منہا اربعون خلقۃ فی بطونہا اولادہا) یعنی جاننا چاہئے کہ قتل عمد خطاء جو کوڑے اور لاٹھی کے ذریعہ واقع ہوا ہو اس کی دیت سو اونٹ دیت مغلظہ ہے جن میں چالیس اونٹنیاں ایسی بھی ہونی چاہئیں جن کے پیٹ میں بچے ہوں، گویا اس روایت میں قتل عمد خطا سے مراد قتل خطا شبہ عمد ہے جو اوپر کی روایت میں مذکور ہوا۔ اس بارے میں یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ ارتکاب میں یا عمد کا دخل ہوتا ہے یا شبہ عمد کا اور یا خطاء محض کا۔ قتل عمد سے تو یہ مراد ہوتا ہے کہ کسی شخص کی جان بوجھ کر کسی ایسی چیز (مثلا ہتھیار یا دھار دار آلہ) سے ہلاک کیا جائے جو اعضاء جسم کو جدا کر دے، یا پھاڑ ڈالے اور شبہ عمد کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ کسی شخص کو جان بوجھ کر کسی ایسی چیز سے ہلاک کیا جائے جو دھار دار اور ہتھیار کی قسم سے نہ ہو خواہ عام طور پر اس چیز سے انسان کو ہلاک کیا جاسکتا ہو، یا ہلاک نہ کیا جاسکتا ہو اور قتل خطاء یہ ہے کہ کسی کو خطاء (یعنی بلا قصد قتل یا نشانہ کی خطاء سے) ہلاک کردیا جائے۔ ان تینوں کا ذکر پچھلے صفحات (گذشتہ قسط) میں گذر چکا ہے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق ہے۔ چناچہ وہ اس حدیث میں مذکورہ لاٹھی کو مطلق معنی پر محمول کرتے ہیں کہ خواہ وہ ہلکی ہو یا بھاری، جب کہ دوسرے ائمہ چونکہ یہ کہتے ہیں کہ کسی ایسی بھاری چیز سے قتل کرنا جس سے عام طور پر انسان کو قتل کیا جاسکتا ہو قتل عمد کے حکم میں ہے اس لئے وہ لاٹھی کو ہلکی لاٹھی پر محمول کرتے ہیں یعنی ان کے نزدیک یہاں وہ ہلکی لاٹھی (چھڑی) مراد ہے جس سے عام طور پر انسان کو ہلاک نہ کیا جاسکتا ہو۔ بعض روایتوں میں دیت کے ساتھ مغلظہ کا لفظ بھی منقول ہے جیسا کہ مذکورہ بالا مصابیح کی روایت میں بھی یہ لفظ موجود ہے، چناچہ قتل شبہ عمد میں دیت کی تغلیظ حضرت ابن مسعود، حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت ابویوسف اور حضرت امام احمد، کے نزدیک تو یہ ہے کہ چار طرح کے سو اونٹ واجب ہوں جن کی ابتداء باب میں گذر چکی ہے اور حضرت امام شافعی اور امام محمد کے نزدیک تغلیظ یہ ہے کہ تین طرح کے سو اونٹ واجب ہوں ان کی تفصیل بھی ابتداء باب میں گزر چکی ہے لیکن قتل خطاء میں بالاتفاق دیت مغلظہ واجب نہیں ہوتی بلکہ اس میں پانچ طرح کے سو اونٹ واجب ہوتے ہیں یعنی بیس ابن مخاض، بیس بنت مخاض، بیس بنت لبون بیس حقہ اور بیس جذعہ۔ دیت مغلظہ کی تفصیل کے سلسلہ میں یہ حدیث حضرت امام شافعی اور حضرت امام محمد کے مسلک کی دلیل ہے، لیکن حنیفہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث اس حدیث کے معارض ہے جو حضرت ابن مسعود اور حضرت سائب ابن یزید سے مروی ہے لہٰذا ہم نے متعین پر عمل کیا ہے

【6】

مختلف اعضاء جسم کی دیت

اور حضرت ابوبکر ابن محمد ابن عمر و ابن حزم اپنے والد (حضرت محمد بن عمرو) سے اور وہ ابوبکر کے دادا (حضرت عمرو ابن حزم) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اہل یمن کے پاس ایک ہدایت نامہ بھیجا جس میں لکھا ہوا تھا کہ جو شخص قصدًا کسی مسلمان کو ناحق مار ڈالے (یعنی قتل عمد کا ارتکاب کرے) تو اس کے ہاتھوں کے فعل کا قصاص ہے ( یعنی اس نے اپنے ہاتھوں کے فعل اور تقصیر کے ذریعہ جو قتل عمد کیا ہے اس کی سزا میں اس کو بھی قتل کردیا جائے) الاّ یہ کہ مقتول کے ورثاء راضی ہوجائیں (یعنی اگر مقتول کے وارث قاتل کو معاف کردیں یا اس سے خون بہا لینے پر راضی ہوجائیں تو اس کو قتل نہ کیا جائے) اس ہدایت نامہ میں یہ بھی تھا کہ (مقتول) عورت کے بدلے میں (قاتل) مرد کو قصاص میں قتل کیا جائے اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ جان کا خون بہا سو اونٹ ہیں (یعنی جس کے پاس اونٹ ہوں وہ خون بہا میں مذکورہ تفصیل کے مطابق سو اونٹ دے) اور جس کے پاس سونا ہو وہ ایک ہزار دینار دے اور ناک کی دیت (جب کہ وہ سب توڑے گئے ہوں) پوری دیت (یعنی ایک سو اونٹ کی تعداد ہے اور پیٹھ کی ہڈی توڑے جانے کی پوری دیت ہے اور عضو خاص کے کاٹے جانے کی بھی پوری دیت ہے اور دونوں آنکھوں کو پھوڑ دینے کی بھی پوری دیت ہے اور ایک پیر کاٹنے پر آدھی دیت ہے اور سر کی جلد زخمی کرنے پر تہائی دیت ہے اور پیٹ میں زخم پہنچانے پر بھی تہائی دیت ہے اور اس طرح مجروح کرنے پر کہ ہڈی اپنی جگہ سے سرک گئی ہو پندرہ اونٹ دینے واجب ہیں اور ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں میں سے ہر ایک انگلی (کاٹنے) پر دس اونٹ دینے واجب ہیں اور ہر ہر دانت کا بدلہ پانچ پانچ اونٹ ہیں۔ (نسائی، درامی) اور امام مالک کی روایت میں یہ الفاظ ہے کہ ایک آنکھ (پھوڑنے کی دیت پانچ اونٹ ہیں اور ایک ہاتھ اور ایک پیر کی دیت پچاس پچاس اونٹ ہیں اور ایسا زخم پہنچانے کی دیت جس میں ہڈی نکل آئی یا ظاہر ہوگئی ہو پانچ اونٹ ہیں تشریح جان کا خون بہا سو اونٹ ہیں کا مطلب یہ ہے کہ اگر قتل عمد کے مرتکب کو مقتول کے وارث قصاص میں قتل نہ کرنا چاہیں بلکہ اس سے دیت یعنی خون بہا لینے پر راضی ہوجائیں تب دیت واجب ہوگی لیکن قتل شبہ عمد اور قتل خطاء کا مرتکب سرے سے قصاص کا سزاوار ہوتا ہی نہیں بلکہ اس پر صرف دیت واجب ہوتی ہے۔ دیت اونٹ کے ذریعہ بھی ادا کی جاسکتی ہے اور جن کے پاس سونا ہو وہ ایک ہزار دینار اور جن کے پاس چاندی ہو وہ دس ہزار درہم کے ذریعہ بھی دیت کی ادائیگی کرسکتے ہیں۔ لیکن یہاں قیاس پر اکتفا کرتے ہوئے چاندی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جس کا مطلب قطعًا نہیں کہ اگر اونٹ اور سونے کے علاوہ چاندی کے ذریعہ دیت دی جائے تو وہ مقبول و محسوب نہیں ہوگی بلکہ مراد یہ ہے کہ مقتول کے روثاء اور قاتل کے درمیان جس چیز پر اتفاق ہوجائے اسی کو بطور دیت لیا دیا جائے جس کے پاس اونٹ ہوں اور وہ اونٹ دینا چاہے اس سے اونٹ لے لئے جائیں اور جو زر نقد دینا چاہے اس سے زر نقد لے لیا جائے۔ اس سلسلہ میں جہاں تک فقہی مسئلہ کا تعلق ہے تو درہم اور دینار کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آیا دیت میں درہم و دینار قبول کئے جاسکتے ہیں یا نہیں ؟ چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد کا قول یہ ہے کہ اگر دینے والے کے پاس اونٹ موجود ہوں لیکن وہ زر نقد کی صورت میں دیت ادا کرنا چاہتا ہو تو اس سے زر نقد لینا جائز ہے لیکن حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ اونٹوں کی موجودگی میں زر نقد دے کر اونٹوں سے عدول نہ کیا جائے ہاں اگر طرفیں راضی ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اور دونوں آنکھوں کو پھوڑنے کی بھی پوری دیت ہے ملحوظ رہے کہ قطع اعضاء (اعضاء جسم کو کاٹنے یا نقصان پہنچانے کی دیت کے سلسلہ میں اصل ضابطہ یہ ہے کہ اگر اعضاء جسم کی جنس منفعت بالکل ختم کردی جائے یا اس کی موزونیت اور خوبصورتی کو بالکل زائل کردیا جائے جو جسم انسانی میں مقصود ہے تو ایسی صورت میں پوری دیت واجب ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک طرح کا جانی نقصان ہے جسے انسانی عظمت کی وجہ سے مکمل جانی کا درجہ دیا جاتا ہے، اس سے بڑھ کر اصل یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ان مخصوص اعضاء کی کہ جن کی نقصان سے انسان کے جمال و کمال میں فرق آجاتا ہے اور آدمی کی عظمت تخلیق مجروح ہوتی ہے، جیسے ناک، زبان اور آنکھیں وغیرہ ان کی پوری دیت دینے کا حکم فرمایا ہے، پھر اس اصل سے اور بہت سے فروعی مسائل کا استنباط کیا جاتا ہے۔ منقول ہے کہ حضرت عمر نے ایک ایسے شخص پر چار دیتیں واجب کی تھیں جس نے ایک شخص کو اگرچہ ایک ہی زخم پہنچایا تھا مگر اس ایک زخم کی وجہ سے اس کی عقل، اس کی سماعت، اس کی بصارت اور اس کی بول چال یعنی چاروں چیزیں زائل ہوگئی تھیں، نیز یہ مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی داڑھی مونڈ ڈالے اور پھر وہ اس کی وجہ سے مونڈنے والے پر دیت لازم ہوگی کیونکہ اس نے اپنی اس حرکت سے چہرہ انسانی کے جمال وموزونیت کو ختم کردیا، اسی طرح سر کے بال کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حکم فرمایا کہ ایسے زخموں کی دیت جس میں ہڈی ظاہر ہوجائے پانچ پانچ اونٹ ہیں اور دانتوں کی (یعنی ہر ہر دانت) کی دیت بھی پانچ پانچ اونٹ ہیں۔ (ابو داؤد، نسائی، دارمی) ترمذی اور ابن ماجہ نے (اس حدیث کا) پہلا جزو (یعنی جس میں زخموں کی دیت بیان کی گئی ہے) نقل کیا ہے۔ تشریح اگر یہ سوال پیدا ہو کہ جب سب دانتوں کی پوری دیت سو اونٹ ہیں تو ایک دانت کی دیت پانچ اونٹ کیسے ہوئے کیونکہ سب دانتوں کی تعداد بتیس یا اٹھائیس ہوتی ہے اور اس اعتبار سے ایک دانت کی دیت تو کچھ زیادہ تین اونٹ ہونی چاہئے ؟ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ شارع نے جتنے احکام نافذ کئے ہیں عقل ان سب کا ادراک و احاطہ کرلے بہت سے احکام ایسے ہیں جن میں عقل کے دخل کا کام نہیں، چناچہ یہ مسئلہ بھی ایسا ہی ہے کہ جو حکم شارع کے بھی مطابق ہیں اور عقلی بھی ہیں جیسے آنکھوں کی دیت کا معاملہ ہے کہ دونوں آنکھوں کی دیت پوری ہے اور ایک آنکھ کی دیت آدھی ہے حاصل یہ کہ ہر حکم اور ہر مسئلہ کی بنیاد بس شارع کا حکم ہے جو بھی حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرنا ہی عقل کا سب سے بڑا تقاضہ ہونا چاہئے۔

【7】

دیت کے اعتبار سے انگلیاں برابر ہیں

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں کی سب انگلیوں کو مساوی قرار دیا ہے (یہاں تک کہ انگوٹھے اور چھنگلیا کو بھی ایک دوسرے کے برابر قرار دیا ہے، اگرچہ گانٹھوں کے اعتبار سے دونوں میں فرق ہے ) ۔ (ابو داؤد، ترمذی) اور حضرت عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (دیت کے اعتبار سے) تمام انگلیاں برابر ہیں اور تمام دانت برابر ہیں (اگرچہ بعض دانت بڑے ہیں اور بعض چھوٹے ہیں) اور آگے کے دانت اور داڑھیں برابر ہیں (اگرچہ داڑھیں آگے کے دانتوں سے بڑی ہیں مگر دیت دونوں کی برابر ہے) نیز آپ نے انگوٹھے اور چھنگلیا کی طرف سے اشارہ کر کے بتایا کہ) یہ اور یہ برابر ہیں۔ (ابو داؤد)

【8】

ذمی کافر کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد (حضرت شعیب) سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فتح مکہ کے سال ایک خطبہ دیا اور اس (میں حمد ثناء) کے بعد فرمایا کہ لوگو ! اسلام میں قسم اور عہد و پیمان کرنا جائز نہیں ہے لیکن وہ عہد وقسم جس کا رواج زمانہ جاہلیت میں تھا، اس کو اسلام مضبوطی سے قائم کرتا ہے (یاد رکھو) تمام مسلمان اپنے غیر (یعنی کفار) کے مقابلے پر (بھلائیوں کو پھیلانے اور آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہونے میں) ایک ہاتھ کی طرح ہیں ایک ادنیٰ ترین مسلمان بھی تمام مسلمانوں کی طرف سے پناہ دے سکتا ہے اور وہ مسلمان بھی حق رکھتا ہے جو سب مسلمانوں سے کہیں دور ہو اور مسلمانوں کا لشکر ان مسلمانوں کو بھی (مال غنیمت کا) حقدار بناتا ہے جو (لشکر کے ساتھ نہ گئے ہوں بلکہ) بیٹھے رہے ہوں، (خبردار) کوئی مسلمان کسی (حربی) کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے (امام شافعی کہتے ہیں کہ ذمی کافر کے بدلے میں بھی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے) اور (ذمی کافر کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے اور ( زکوٰۃ وصول کرنے والے کارکن بطور خاص سن لیں کہ) زکوٰۃ کے مویشوں کو نہ کھنچوا منگایا جائے اور ( زکوٰۃ دینے والے بھی سن لیں کہ وہ) مویشوں کو کہیں دور لے کر نہ چلیں جائیں، ( زکوٰۃ وصول کرنے والے کو چاہئے کہ) زکوٰۃ ان کے گھروں پر ہی لی جائے۔ اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ عہد والے کی دیت، آزاد کی دیت کا نصف ہے ۔ (ابو داؤد ) تشریح (لاحلف فی الاسلام) اصل میں حلف کے معنی ہیں عقد باندھنا زمانہ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے عہد و پیمان باندھ لیا کرتے تھے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے لڑائی جھگڑے کے موقع پر ایک دوسرے کی مدد کی جائے گی اور اگر کسی معاملہ میں ایک پر کوئی تاوان واجب ہوگا تو دوسرا تاوان کو ادا کرے گا۔ چناچہ رسول کریم ﷺ نے اپنے ارشاد گرامی (لاحلف فی الاسلام) کے ذریعہ اس قسم کی عہد و پیمان سے منع کیا کہ یہ ایک خالص غیر منصفانہ اور غیر معقول رواج ہے جس کے لئے اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن زمانہ جاہلیت ہی میں عہد و پیمان کی ایک یہ بھی صورت ہوتی ہے کہ لوگ آپس میں اس بات کا عہد کرتے تھے کہ وہ مظلوم کی مدد کریں گے، قرابتداروں سے حسن سلوک کریں اور انسانی حقوق کی حفاظت و تائید کریں گے۔ یہ عہد و پیمان چونکہ سماجی اور معاشرتی نقطہ نظر سے باہمی محبت وموانست اور انسانی بہبود و بھلائی کے لئے ایک بہترین صورت تھی اس لئے آنحضرت ﷺ نے (ما کان من حلف) الخ کے ذریعہ اس کو اسلام میں بھی جائز رکھا۔ (یرد سرایاہم علی قعیدہم) یہ دراصل پہلے جملہ (ویرد علیہم واقصاہم) کا بیان اور وضاحت ہے، اس عبارت کی تشریح کتاب القصاص کی دوسری فصل میں حضرت علی کی روایت کے تحت کی جا چکی ہے اسی طرح (لا یقتل مؤمن بکافر) کی وضاحت بھی اسی حدیث کے ضمن میں کی جا چکی ہے۔ کافر کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے یہ حضرت امام مالک کے مسلک کی دلیل ہے، حضرت امام شافعی اور ایک قول کے مطابق حضرت امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ کافر کی دیت، مسلمان کی دیت کا ثلث (یعنی تہائی) ہے، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ کافر کی دیت، مسلمان کی طرح پوری دیت ہے، ملحوظ رہے کہ یہ ساری بحث ذمی و کافر کے بارے میں ہے حربی کافر کی کوئی دیت نہیں ہے۔ ہدایہ کی ایک حدیث نقل کی گئی ہے کہ ہر ذمی کی جس سے اسلامی مملکت کا معاہدہ ہو، جب تک کہ وہ معاہدہ باقی رہے اس کی دیت ایک ہزار دینار ہیں۔ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان، کا عمل بھی اسی حدیث کے مطابق رہا ہے لیکن جب حضرت امیر معاویہ کا زمانہ آیا تو اس کو نصف کردیا گیا۔ ہدایہ نے حضرت علی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ذمی اسی لئے جزیہ دیتے ہیں کہ ان کا خون ہمارے خون کی طرح اور ان کا مال ہمارے مال کی طرح محفوظ ومامون ہے گویا صاحب ہدایہ نے ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ اصل یہی ہے کہ ذمی کی دیت بھی مسلمان کی دیت کی طرح پوری ہو۔ چناچہ انہوں نے یہ لکھا ہے کہ دوسرے صحابہ سے اس کے خلاف جو کچھ منقول ہے وہ ان مشہور و مستند ترین آثار و اقوال کے معارض نہیں ہوسکتا۔ (لا جلب ولا جنب) کے متعلق کتاب الزکوۃ میں بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے، یہاں بھی اجمالی طور پر اتنا سمجھ لیجئے کہ جلب کے معنی یہ ہیں کہ زکوٰۃ وصول کرنے والا مویشیوں کی زکوٰۃ لینے کے لئے جائے تو وہ کسی ایسی جگہ مقام کرے جو مویشیوں کے مالکوں کے مکانات سے دور ہو اور ان کو حکم دے کہ اپنے اپنے جانور لے کر اس کے پاس حاضر ہوں۔ جنب کے معنی یہ ہیں کہ مویشیوں کے مالک اپنے اپنے مویشی لے کر زکوٰۃ وصول کرنے والے کی قیام گاہ سے دور چلے جائیں اور اس سے کہیں کہ وہ ان کے پاس پہنچ کر زکوٰۃ کے مویشی حاصل کرے۔ آپ ﷺ نے ان دونوں باتوں سے منع فرمایا کیونکہ پہلی صورت میں مویشیوں کے مالکوں کو تکلیف ہوگی اور دوسری صورت میں زکوٰۃ وصول کرنے والا تکلیف ومشقت میں مبتلا ہوگا۔ (لا یؤخذ صدقاتہم) الخ دراصل پہلے جملہ (لاجلب ولا جنب) کی توضیح و تاکید کے طور پر ہے۔

【9】

قتل خطاء کی دیت

اور حضرت خشف ابن مالک، حضرت ابن مسعود (رض) نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ کہا رسول کریم ﷺ نے خطاء کی دیت یہ مقرر فرمائی کہ بیس اونٹنیاں وہ ہوں جو دوسرے سال میں لگی ہوں اور بیس اونٹ وہ ہوں جو دوسرے سال میں لگے ہوں اور بیس اونٹنیاں وہ ہوں جو تیسرے سال میں لگی ہوں اور بیس اونٹنیاں وہ ہوں جو پانچویں سال میں لگی ہوں۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی) اس حدیث کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود پر موقوف ہے یعنی ان کا اپنا قول ہے اور (اس کے راوی) خشف ایک غیر معروف راوی ہیں جو صرف اس حدیث کے ذریعہ پہنچانے جاتے ہیں (یعنی اس کے علاوہ اور کوئی روایت ان سے منقول ہی نہیں) بغوی نے شرح السنۃ میں یوں نقل کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اس شخص کی دیت میں کہ جو خیبر میں قتل کردیا گیا تھا (اور جس کا تفصیلی واقعہ باب القسامت میں بیان ہوگا) زکوٰۃ میں آئے ہوئے اونٹوں میں سے سو اونٹ دیئے تھے اور زکوٰۃ کے ان اونٹوں میں کوئی اونٹ ایک سال کا نہیں تھا بلکہ دو دو سال کے تھے۔ تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قتل خطاء کی دیت میں جو سو اونٹ دیئے جائیں وہ پانچ طرح کے ہونے چاہئیں، چناچہ اس بارے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن ان کی تقسیم میں البتہ اختلاف ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک میں تو وہ سو اونٹ اس طرح کے دیئے جاتے ہیں جس طرح اس حدیث میں مذکور ہیں، لیکن امام شافعی کے مسلک میں اتنا سا فرق ہے کہ بیس ابن مخاض (پورے ایک سال کے بیس اونٹ) کی بجائے بیس ابن لبون (پورے دو سال کے بیس اونٹ) ہیں۔ اس اعتبار سے یہ حدیث حضرت امام شافعی کے خلاف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی دلیل ہے چناچہ شوافع کی طرف سے اس حدیث میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس کا جواب ملا علی قاری نے بڑی عمدگی سے دیا ہے اہل علم ان کی کتاب مرقات میں دیکھ سکتے ہیں، ان کے جوابات کے خلاصہ کے طور پر یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے مذکورہ شخص کی جو دیت دی تھی وہ بطریق وجوب یا بطور حکم نہیں تھی بلکہ آپ ﷺ نے محض از راہ احسان دی تھی۔ آخر میں بغوی کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس کا مقصود پہلی روایت کی تردید ہے جس میں ابن مخاض کا اثبات ہے اور بغوی کی روایت میں ابن لبون کا اثبات ہے اور گویا یہ حضرت امام شافعی کے مسلک کی دلیل ہے، ملاعلی قاری اس کا جواب بھی بڑی عمدگی کے ساتھ لکھا ہے۔

【10】

دیت کی بنیاد اونٹ پر ہے

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں دیت (دیت کے سو اونٹوں) کی قیمت آٹھ سو دینار یا آٹھ ہزار درہم تھے، نیز اس زمانہ میں اہل کتاب (یعنی عیسائی اور یہودی) کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف تھی۔ ان کے دادا کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کے خلیفہ ہونے تک اسی کے مطابق عمل درآمد ہوتا رہا۔ چناچہ عمر (خلیفہ ہونے کے بعد) خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اونٹ کی قیمت بڑھ گئی ہے راوی کا بیان ہے کہ (اس کے بعد) حضرت عمر نے جو دیت مقرر کی تھی اس کی تفصیل یہ ہے کہ سونا رکھنے والوں پر ایک ہزار دینار، چاندی رکھنے والوں پر بارہ ہزار درہم، گائے کے مالکوں پر دو سو گائیں، بکری کے مالکوں پر دو ہزار بکریاں اور کپڑے کے جوڑوں (کی تجارت کرنے) والوں پر دو سو جوڑے۔ راوی نے کہا کہ حضرت عمر نے ذمیوں کی دیت جوں کی توں رکھی تھی (یعنی آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ذمیوں کی دیت چار ہزار درہم تھی حضرت عمر نے اسی کو برقرار رکھا اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا جیسا کہ اور دیتوں میں اضافہ ہوا۔ (ابو داؤد ) تشریح بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ دیت کی بنیاد اونٹ پر ہے، چناچہ دیت میں سونا اور چاندی کی جو مقدار بیان کی گئی ہے وہ اس زمانہ میں سو اونٹ کی قیمت کا حساب لگا کر بیان کی گئی تھی، اسی لئے قول جدید کے مطابق شافعی مسلک یہ ہے کہ اختلاف قیمت کے اعتبار سے ان دونوں کی مقدار میں فرق ہوسکتا ہے۔ ابن ملک کہتے ہیں کہ کپڑے کے جوڑے سے مراد ایک تہبند اور ایک چادر ہے۔ اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا الخ کے بارے میں طیبی کہتے ہیں کہ جب مسلمان کی دیت بارہ ہزار درہم مقرر ہوئی اور ذمی کی دیت وہی رہی جو پہلے تھی یعنی چار ہزار درہم تو اس اعتبار سے ایک ذمی کی دیت، ایک مسلمان کے دیت کا ثلث (تہائی) ہوئی۔ چنانچہ اس سے شوافع اور ان کے ہمنوا یہ استدلال کرتے ہیں کہ ذمی کی دیت، مسلمان کی دیت کا ثلث ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک میں ذمی کی وہی دیت ہے جو مسلمان کی ہے۔ شمنی (رح) نے کہا ہے کہ (اس بارے میں جو فقہی مسئلہ ہے اور جس پر عمل ہے وہ یہ ہے کہ) سونے کی دیت ایک ہزار دینار، چاندی کی دیت دس ہزار درہم اور اونٹ کی دیت سو اونٹ ہیں لیکن امام شافعی کے نزدیک چاندی کی دیت بارہ ہزار درہم ہیں۔

【11】

امام شافعی کی مستدل حدیث

اور حضرت ابن عباس نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے بارہ ہزار درہم کی دیت مقرر فرمائی۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، دارمی ، )

【12】

دیت مقتول کے ورثاء کا حق ہے

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ بستیوں والوں پر قتل خطاء کی دیت چار سو دینار یا اس کے مساوی قیمت (یعنی چاندی کے چار ہزار درہم) مقرر فرماتے اور یہ مقدار اونٹوں کی قیمت کے مطابق ہوتی تھی۔ چناچہ جب اونٹوں کی قیمت میں اضافہ ہوتا تو آپ ﷺ دیت کی مقدار میں بھی اضافہ کرتے تھے اور جب اونٹوں کی قیمت میں کمی واقع ہوتی تو آپ ﷺ دیت کی مقدار میں کمی کردیتے تھے، یہی وجہ سے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں دیت کی مقدار چار سو دینار سے آٹھ سو دینار یا اس کی مساوی قیمت (چاندی کے آٹھ ہزار درہم) تک رہی۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے گائے والوں پر دو سو گائیں اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں (بطور دیت) مقرر فرمائی تھیں۔ نیز رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ دیت کا مال مقتول کے ورثاء کا حق ہے۔ اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت کی دیت اس کے عصبات پر ہے اور قاتل (نے اگر اپنے مورث ہی کو قتل کیا ہے تو وہ) مورث کی وراثت سے محروم رہے گا (نہ اسے مقتول کی دیت میں سے کوئی حصہ ملے گا اور نہ وہ اس کے ترکے میں سے کسی چیز کا حقدار ہوگا ) ۔ (ابو داؤد، نسائی ) تشریح طیبی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بھی اب اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دیت کی بنیاد اونٹ پر ہے یعنی دیت اصل میں تو اونٹ ہی کی صورت میں اور اس کی مذکورہ تعداد میں واجب ہوگی جیسا کہ قول جدید کے مطابق امام شافعی کا مسلک ہے۔ عورت کی دیت اس کے عصبات پر ہے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عورت جنایت کی مرتکب ہوئی اور اس نے کسی کو مارا تو اس کی دیت اس کے عصبات یعنی اس کے مددگار اور خاندان والوں پر ہوگئی جیسا کہ مرد کے بارے میں حکم ہے گویا یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اس بارے میں عورت غلام کے مانند نہیں ہوگی کہ جس طرح غلام کی دیت خود اس پر واجب ہوتی ہے اس کے عصبات پر واجب نہیں ہوتی۔ اس طرح عورت کی دیت خود اس پر واجب نہیں ہوگی بلکہ اس کے عصبات پر واجب ہوگی۔

【13】

قتل شبہ عمد کے مرتکب کو سزائے موت نہیں دی جاسکتی

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنی والدہ سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قتل شبہ عمد کی دیت قتل عمد کی دیت کی طرح سخت ہے لیکن شبہ عمد کے مرتکب کو قتل نہ کیا جائے۔ (ابو داؤد) تشریح حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی کو بطریق شبہ عمد قتل کیا تو اس قصاص میں قتل نہیں کیا جائے ! یہ بات اس شبہ کو دور کرنے کے لئے فرمائی گئی ہے کہ حدیث کے پہلے جملہ کے مطابق قتل شبہ عمد کا مرتکب قتل عمد کے مرتکب کے مشابہ ہو تو چاہے کہ جس طرح قتل عمد کے مرتکب کو سزاء موت دی جاتی ہے اسی طرح شبہ عمد کا مرتکب بھی سزاء موت کا مستوجب ہو لہٰذا اس شبہ کو دور کردیا گیا کہ اس مشابہت کا یہ مطلب قطعا نہیں ہے کہ اس کو قصاص میں قتل بھی کیا جائے۔

【14】

زخم خوردہ آنکھ کی دیت

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم نے ایسی آنکھ کے بارے میں کہ جو زخمی ہونے کے بعد اپنی جگہ باقی رہے لیکن روشنی محروم ہوجائے یہ حکم فرمایا کہ اس کی دیت (پوری دیت کا ثلث) (تہائی) ہے مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی آنکھ کو زخم پہنچایا گیا اور اس کی وجہ سے روشنی جاتی رہی مگر آنکھ اپنی جگہ سے باہر نہیں آئی اور اس کے چہرہ موزونیت و جمال میں کوئی خلل نہیں پڑا تو زخم پہنچانے والے پر تہائی دیت واجب ہوگی اور یہ پہلے گزر چکا ہے کہ دونوں آنکھ کے تلف ہوجانے کی صورت میں پوری دیت ( کہ جس کی مقدار سو اونٹ ہے) واجب ہوگی اور اگر ایک آنکھ تلف ہوگی تو نصف دیت واجب ہوگی۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں زخم خوردہ آنکھ کی دیت تہائی ہے اور بعض علماء کا مسلک بھی یہی ہے لیکن بعض علماء اس صورت میں عدل کی حکومت کو واجب قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ زخم پہنچانے کی یہ وہ صورت ہے جس میں منفعت بالکلیہ زائل نہیں ہوئی لہٰذا اس کی دیت بھی اس شخص کی ہونی چاہئے جس کو مارا گیا ہو اور اس مار کی وجہ سے (نہ تو اس کا کوئی عضو تلف ہوا ہو اور نہ کوئی زخم پہنچا ہو) بلکہ اس کے بدن کا رنگ سیاہ ہوگیا ہو۔ حکومت دیت کے بارے میں ایک اصطلاحی لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ فرض کیجئے جو شخص زخمی ہوا ہے اگر وہ غلام ہوتا تو اس زخم کی وجہ سے اس کی قیمت میں سے کسی قدر کمی واقع ہوجاتی پس اسی قدر اس شخص کی دیت زخمی کرنے والے پر واجب ہوگی لہٰذا بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حکومت پر محمول ہے یعنی آنحضرت ﷺ نے یہاں تہائی دیت کا جو حکم فرمایا ہے وہ بطریق حکومت ہے نہ بطریق قاعدہ کلیہ۔ تورپشتی نے اس حدیث کے سلسلہ میں جو بحث کی ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس حدیث کی صحت میں کلام ہے۔

【15】

پیٹ کے بچہ کی دیت

اور حضرت محمد ابن عمرو، حضرت ابوسلمہ سے اور وہ حضرت ابوہریرہ (رض) نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (حاملہ کے) پیٹ کے بچہ کا خون بہا غرہ مقرر فرمایا اور غرہ سے مراد ایک لونڈی یا ایک گھوڑا یا ایک خچر ہے ابوداؤد نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس روایت کو حماد ابن سلمہ اور خالد واسطی نے محمد ابن عمرو سے نقل کیا ہے لیکن ان دونوں میں سے کسی نے بھی لفظ فرس اور بغل (یعنی گھوڑا اور خچر) ذکر نہیں کیا ہے ( لہذا اس روایت میں فرس اور بغل کا اضافہ شاذ ہے اور بایں اعتبار یہ حدیث ضعیف ہے ( ابوداؤد نسائی) تشریح علامہ نووی فرماتے ہیں کہ یوں تو غرہ نہایت نفیس چیز کو کہتے ہیں لیکن اس باب میں اس لفظ کا اطلاق انسان پر بایں طور اعتبار کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے بعض علماء کا قول ہے کہ اس حدیث میں غرہ کے مفہوم میں فرس اور بغل کو شامل کرنا راوی کا اپنا وہم ہے کیونکہ غرہ کا اطلاق صرف اس انسان پر ہوتا ہے جو کسی کا مملوک ہو یعنی غلام یا لونڈی۔

【16】

جعلی طبیب اگر کسی کی موت کا باعث بنے تو وہ ضامن ہوگا

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے طبیب ظاہر کرے درآنحالیکہ اس کا طبیب ہونا معلوم نہ ہو (یعنی وہ فن طب میں کوئی مہارت نہ رکھتا ہو) اور پھر کوئی اس کے ہاتھ سے مرگیا تو وہ ضامن ہوگا۔ (ابو داؤد، نسائی ) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص علم طب سے کورا ہو اور اس کے قواعد وفن سے وقفیت نہ رکھتا ہو اس کے باوجود وہ کسی مریض کا علاج کرے اور علاج خواہ ہاتھ کے ذریعہ کرے جیسے فصد کھولے یا آپریشن وغیرہ کرے اور خواہ کرنے کے ذریعہ کرے تو اگر وہ مریض مرجائے گا تو متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک وہ جعلی حکیم یا ڈاکڑ ضامن ہوگا۔ یعنی اس کی دیت اس کے عاقلہ پر واجب ہوگی مگر اس کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ بہرحال خود اس مریض کی اجازت اور اس کی رضامندی ہی سے اس نے علاج کیا ہوگا۔

【17】

دیت کی معافی کا ایک واقعہ

اور حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ ایک لڑکے نے جو مفلس خاندان سے تعلق رکھتا تھا، ایک ایسے لڑکے کا کان کاٹ ڈالا جو ایک دولت مند خاندان سے تھا، چناچہ جس لڑکے نے کان کاٹا تھا اس کے خاندان والے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم محتاج ومفلس ہیں (لہٰذا ہم پر دیت مقرر نہ کی جائے) رسول کریم ﷺ نے (ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے) ان پر کوئی چیز مقرر نہیں فرمائی۔ (ابو داؤد، نسائی ) تشریح اگر کسی لڑکے سے کوئی جنایت (یعنی کسی کو نقصان یا تکلیف پہنچانے کا کوئی قصور) سرزد ہوجائے تو اختیار صحیح کے فقدان کی وجہ سے وہ جنابت خطائی کے حکم میں ہوتی ہے اور اس کا تاوان لڑکے کے عاقلہ (یعنی اس کے خاندان و برادری والوں پر واجب ہوتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی لڑکا کسی شخص کو قتل کر دے تو اس کو قصاص میں قتل نہیں کیا جاتا۔ حدیث میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اس میں قاعدہ کے اعتبار سے لڑکے کے عاقلہ پر تاوان واجب ہونا چاہئے تھا لیکن عاقلہ چونکہ غریب ومفلس تھے اور غریب ومفلس کسی تاوان کے متحمل نہیں ہوسکتے اس لئے رسول کریم ﷺ نے کان کاٹنے والے لڑکے کے خاندان والوں پر کوئی دیت واجب نہیں فرمائی۔ حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس لڑکے نے کان کاٹا تھا وہ آزاد تھا کیونکہ وہ غلام ہوتا تو اس کی جنایت و دیت خود اس کی ذات کے ساتھ متعلق کی جاتی اور اس کے مالکوں کا فقیر ومفلس ہونا اس کے وجوب کو اس کی ذات سے ختم نہ کرتا۔

【18】

قتل شبہ عمد اور قتل خطاء کی دیت

حضرت علی سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا قتل شبہ عمد کی دیت میں (سو) اونٹنیاں دینی واجب ہیں بایں تفصیل تینتیس اونٹنیاں وہ ہوں جو چوتھے برس میں لگی ہوں اور تینتیس اونٹنیاں وہ ہوں جو پانچویں برس میں لگی ہوں اور چو نتیس اونٹنیاں وہ جو چھٹے برس میں ہی ہوں آٹھ برس تک وہ جو نویں برس میں لگی ہوں اور سب حاملہ ہوں۔ ایک اور روایت میں حضرت علی (رض) سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا قتل خطاء کی دیت میں چار طرح کی (سو) اونٹنیاں دینی واجب ہیں، بایں تفصیل کہ پچیس وہ ہوں جو تین تین برس کی ہوں اور پچیس وہ ہوں جو چار چار برس کی ہوں اور پچیس وہ ہوں جو دو دو برس کی ہوں اور پچیس وہ ہوں جو ایک ایک برس کی ہوں۔ (ابو داؤد) اور حضرت مجاہد (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق نے قتل شبہ عمد کی دیت میں تیس اونٹنیاں تین تین برس کی اور تیس اونٹنیاں چار چار برس کی اور چالیس اونٹنیاں حاملہ جو پانچ برس کی ہوں دینے کا حکم فرمایا۔ (گویا یہ روایت حضرت امام شافعی کے مسلک کے موافق ہے ) ۔ (ابو داؤد)

【19】

پیٹ کے بچہ کی دیت

اور حضرت سعید ابن مسیب کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے پیٹ کے بچہ کی دیت جو مارا جائے ایک غرہ یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی مقرر فرمائی۔ جس شخص پر یہ دیت واجب کی گئی تھی اس نے عرض کیا کہ اس شخص کا تاوان کس طرح بھروں جس نے کوئی چیز پی اور نہ کھائی ہو اور نہ بولا نہ چلایا، اس قسم کا قتل تو ساقط کیا جاتا ہے رسول کریم ﷺ نے (اس شخص کی یہ بات سن کر حاضرین سے) فرمایا کہ اس کے علاوہ اور کیا کہا جائے کہ یہ شخص کاہنوں کا بھائی ہے ۔ (امام مالک اور امام نسائی نے تو اس روایت کو بطریق ارسال (یعنی راوی صحابی کا ذکر کئے بغیر) نقل کیا ہے لیکن ابوداؤد نے حضرت سعید سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) بطریق اتصال نقل کیا ہے۔ تشریح کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو غیب دانی کا دعوی کرتا ہے اور لوگوں کی غیب کی باتیں بتاتا ہے اور وہ لوگوں کو فریفتہ کرنے کے لئے اپنی جھوٹی اور غلط سلط باتوں کو مسجع اور مقفی عبارتوں کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ حدیث میں مذکورہ شخص نے بھی چونکہ اپنے ایک غلط خیال کو بڑے مسجع اور مقفی الفاظ کے ذریعہ پیش کیا تھا اس لئے آپ ﷺ نے اس مناسبت سے اس کو کاہنوں کا بھائی فرمایا ورنہ تو جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے مطلق مسجع ومقفی عبارتیں بذات خود مذموم نہیں ہیں بلکہ انسان کے کلام کی فصاحت و بلاغت اور قابلیت کا پر تو ہوتی ہیں چناچہ خود رسول کریم ﷺ کا انداز بیان اور آپ کا کلام بڑی مسجع ومقفی عبارتوں سے مزین ہوتا تھا۔ بطور خاص آپ سے جو دعائیں منقول ہیں ان کے الفاظ کی جامعیت مسجع ومقفی عبارتوں کی بہترین مثال ہیں جیسے یہ دعا ہے (اللہم انی اعوذ بک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع) الخ اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس علم سے جو نافع نہ ہو اور اس قلب سے جو ترساں نہ ہو الخ حاصل یہ کہ وہ مسجع عبارت مذموم ہے جو بہ تکلف زبان وقلم سے ادا ہو اور جس کا مقصد باطل کو رواج دینا ہو جیسا کہ مذکورہ شخص نے کہا۔ شمنی (رح) فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ مسئلہ کے بارے میں فقہی مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی حاملہ کے پیٹ پر مارے اور اس کی وجہ سے اس کے پیٹ کا بچہ مردہ ہو کر باہر آجائے تو اس کی دیت میں غرہ یعنی پانچ سو درہم مارنے والے کے عاقلہ پر واجب ہوں گے وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء نے غرہ سے مراد پانچ سو درہم لئے ہیں اور وہ اس لئے اکثر روایتوں میں غرہ کی توضیح یہی کی گئی ہے اور اگر حاملہ کے پیٹ مارنے کی وجہ سے زندہ بچہ باہر آجائے اور پھر مرجائے تو اس صورت میں پوری دیت واجب ہوگئی۔