109. قسامت کا بیان

【1】

قسامت کا بیان

قسامت ق کے زبر کے ساتھ قسم کے معنی میں ہے یعنی سوگند کھانا۔ شرعی اصطلاح میں قسامت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی آبادی ومحلہ میں یا اس آبادی ومحلہ کے قریب میں کسی شخص کا قتل ہوجائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے تو حکومت واقعات کی تحقیق کرے اگر قاتل کا پتہ چل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس آبادی یا محلہ کے باشندوں میں سے پچاس آدمیوں سے قسم لی جائے اس طرح کہ ان میں سے ہر آدمی یہ قسم کھائے کہ اللہ کی قسم ! نہ میں نے اس کو قتل کیا ہے اور نہ اس کے قاتل کا مجھے علم ہے یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے جس کی بنیاد یہ مشہور حدیث ہے کہ (البینہ علی المدعی والیمین علی من انکر) چناچہ اس باب کی تیسری فصل میں حضرت رافع ابن خدیج سے منقول روایت بھی اسی پر دلالت کرتی ہے۔ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کے نزدیک قسامت کا مفہوم یہ ہے کہ جس آبادی ومحلہ میں یا جس آبادی ومحلہ کے قریب میں لاش پائی گئی ہے اگر اس کے باشندوں اور مقتول کے درمیان کوئی عداوت و دشمنی رہی ہو یا کوئی ایسی علامت پائی گئی ہو۔ جس سے یہ ظن غالب ہو کہ اس آبادی ومحلہ کے لوگوں نے اس کو قتل کیا ہے جیسے اس آبادی یا محلہ میں لاش کا پایا جانا، تو مقتول کے وارثوں سے قسم لی جائے یعنی ان سے کہا جائے کہ وہ یہ قسم کھائیں کہ اللہ کی قسم ! تم نے (یعنی اس آبادی یا محلہ کے لوگوں نے) اس کو قتل کیا ہے اگر مقتول کے وارث یہ قسم کھانے سے انکار کردیں تو پھر ان لوگوں سے قسم لی جائے جن پر قتل کا شبہ کیا گیا ہے چناچہ اس باب کی پہلی حدیث جو حضرت رافع سے منقول ہے اسی پر دلالت کرتی ہے۔ قسامت میں قصاص واجب نہیں ہوتا اگرچہ قتل عمد کا دعوی ہو بلکہ اس میں دیت واجب ہوتی ہے خواہ قتل عمد کا دعوی ہو یا قتل خطاء کا۔ لیکن حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ اگر قتل عمد کا دعوی ہو تو پھر قصاص کا حکم نافذ کرنا چاہئے اور حضرت امام شافعی کا قدیم قول بھی یہی ہے، قسامت کے بارے میں ملحوظ رہنا چاہئے کہ قسامت کا یہ طریقہ زمانہ جاہلیت میں بھی رائج تھا، چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس طریقہ کو باقی رکھا اور اسی کے مطابق انصاریوں میں اس مقتول کا فیصلہ کیا جس کے قتل کا انہوں نے خیبر کے یہودیوں پر دعوی کیا تھا۔

【2】

قسامت میں مدعی سے قسم لی جائے یا مدعا علیہ سے

حضرت رافع ابن خدیج اور حضرت سہل ابن حثمہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ ابن سہل اور محیصہ ابن مسعود خیبر آئے تو (ایک دن سیر کرتے ہوئے) دونوں کھجور کے درختوں میں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوگئے (یعنی ایک کسی سمت کو نکل گیا اور دوسرا کسی اور سمت چلا گیا) چناچہ عبداللہ ابن سہل کو (اکیلا پا کر) کسی نے قتل کردیا (اس حادثہ کے بعد) عبدالرحمن ابن سہل (جو مقتول کے حقیقی بھائی تھے) اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصہ اور محیصہ (جو مقتول کے چچا زاد بھائی تھے) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے عزیز مقتول کے بارے میں مقدمہ پیش کیا، جب عبدالرحمن نے گفتگو کی ابتداء کی (جو مقتول کے حقیقی بھائی تھے اور) تینوں میں سب سے چھوٹے تھے تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اپنے بڑے کی بڑائی کو ملحوظ رکھو، یعنی تم تینوں میں جو شخص سب سے بڑا ہے اس کو گفتگو کی ابتداء کرنے دو ) حضرت یحییٰ ابن سعید (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کہتے کہ اس ارشاد گرامی سے آپ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ جو شخص سب سے بڑا ہو وہ ذمہ دار ہو، چناچہ (اس کے بعد) انہوں نے (یعنی ان کے بڑے بھائی نے) گفتگو کی نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم میں سے پچاس آدمی قسم کھا لیں تو تم اپنے مقتول یا (اپنے مقتول کی بجائے) یہ فرمایا کہ اپنے ساتھی کا خون بہا یا قصاص لینے کے مستحق ہو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ تو ایسی چیز ہے جس کو ہم نے نہیں دیکھا ہے (یعنی ہم یہ قطعا نہیں جانتے کہ مقتول کو کس شخص نے قتل کیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا پچاس یہودی قسم کھا کر (تمہارے اس شبہ سے) تمہیں پاک کردیں گے (یعنی وہ قسم کھا لیں گے کہ مقتول کو ہم نے قتل نہیں کیا ہے اور اس طرح ان پر جو قتل کا شبہ یا الزام ہے اس کو وہ ختم کردیں گے) انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ تو کافر ہیں (ان کی قسموں کا کیا اعتبار) چناچہ رسول کریم ﷺ نے (فتنہ دفع کرنے کے لئے) مقتول کے ورثاء کو اپنی طرف سے خون بہا ادا کردیا اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (آپ ﷺ نے فرمایا) تم پچاس قسمیں کھاؤ اور اپنے مقتول۔ یا یہ فرمایا کہ اپنے ساتھی کے خون بہا کے مستحق ہوجاؤ (اس کے بعد) آپ ﷺ نے اپنی طرف سے سو اونٹ خون بہا میں ادا کر دئیے۔ (بخاری ومسلم ) تشریح جو شخص سب سے بڑا ہو وہ گفتگو کا ذمہ دار ہو سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جو شخص عمر میں سب سے بڑا ہو اس کا اکرام و احترام ضروری ہے اور گفتگو کی ابتداء اسی کی طرف سے ہونی چائیے۔ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حدود میں وکالت جائز ہے، نیز اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ حاضر کی وکالت بھی جائز ہے کیونکہ مقتول کے خون کے ولی ان کے حقیقی بھائی یعنی عبدالرحمن ابن سہل تھے اور حویصہ اور محیصہ ان کے چچا زاد بھائی تھے۔ اس حدیث سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ قسامت میں پہلے مدعی سے قسم لی جائے جب کہ حنفی مسلک یہ ہے کہ پہلے مدعا علیہ سے قسم لی جائے۔ وہذا الباب خال عن الفصل الثانی۔ اور اس باب میں دوسری فصل نہیں ہے

【3】

قسم کی ابتداء مدعاعلیہ سے ہونی چاہئے

حضرت رافع ابن خدیج کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص (یعنی عبداللہ ابن سہل) خیبر میں قتل کر دئیے گئے چناچہ ان کے ورثاء (یعنی ان کے بیٹے اور چچا زاد بھائی) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مقدمہ پیش کیا، آنحضرت ﷺ نے (ان) سے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس دو گواہ ہیں جو تمہارے مقتول کے بارے میں گواہی دیں انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! وہاں کوئی مسلمان تو موجود نہیں تھا البتہ یہود تھے (جو ظلم کرنے، فتنہ و فساد پھیلانے اور حیلہ گری میں بہت مشہور ہیں) وہ تو اس سے بھی بڑے کام کی جرأت رکھتے ہیں (جیسے انبیاء کو قتل کردینا، کلام اللہ میں تحریف کرنا اور احکام الٰہی سے صریحا سرکشی کرنا) آپ نے فرمایا اچھا تو ان میں پچاس آدمیوں کو منتخب کرلو اور ان سے قسمیں لو لیکن مقتول کے ورثاء نے یہودیوں سے قسم لینے سے انکار کردیا (کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اتنے مکار ہیں کہ جھوٹی قسمیں کھا لیں گے) چناچہ رسول کریم ﷺ نے اس مقتول کا خون بہا اپنے پاس سے دے دیا ۔ (ابو داؤد) تشریح ملا علی قاری کہتے ہیں کہ اس حدیث کا ظاہری مفہوم حنیفہ کے اس مسلک کی واضح دلیل ہے کہ قسامت میں پہلے مدعا علیہ سے قسم لینی چاہئے۔ ملا علی قاری نے اس موقع پر تمام ائمہ کے مسلک کو نقل کرنے کے بعد حنیفہ ملک کے دلائل بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کئے ہیں۔