11. نماز کا بیان

【1】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوامامہ (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) ایک یہودی عالم نے سرور کائنات ﷺ سے پوچھا کہ بہترین جگہ کون سی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ اس کے جواب میں خاموش رہے اور فرمایا کہ جب تک جبرائیل (علیہ السلام) نہیں آجائیں گے میں خاموش رہوں گا۔ چناچہ آپ ﷺ خاموش رہے۔ جب حضرت جبرائیل آگئے تو آپ ﷺ نے ان سے (یہودی عالم کے سوال کا جواب) پوچھا حضرت جبرائیل نے کہا کہ، اس معاملے میں آپ ﷺ سے زیادہ میں بھی نہیں جانتا، البتہ میں اپنے پروردگار بزرگ و برتر سے اس کے بارے میں پوچھوں گا (چنانچہ) پھر حضرت جبرائیل (نے آکر) فرمایا اے محمد ﷺ ! آج میں اللہ تعالیٰ سے اس قدر قریب ہوگیا تھا کہ کبھی بھی اتنا قریب نہیں ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے جبرائیل کس قدر (فاصلہ دونوں کے درمیان رہ گیا تھا) حضرت جبرائیل نے فرمایا میرے اور اللہ کے درمیان ستر ہزار نور کے پردے باقی رہ گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے (اس سوال کے جواب میں) فرمایا کہ بد ترین مقامات بازار ہیں اور بہترین مقامات مساجد ہیں۔ (یہ روایت ابن حبان نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے نقل کی ہے۔ تشریح یہ پردے مخلوق کی نسبت سے ہیں حق تعالیٰ جل شانہ کی نسبت سے نہیں ہیں کیونکہ خداوند قدوس پردے میں نہیں ہے بلکہ اللہ کی مخلوق پردے میں ہے اور جسمانی و نفسانی پردے ہیں اس کی مثال کسی اندھے کے لئے پردہ آفتاب کی سی ہے کہ جس طرح آفتاب پردے میں نہیں ہوتا بلکہ خود اندھے پر پردہ پڑا ہوا ہوتا ہے کہ وہ آفتاب کو نہیں دیکھ سکتا اور آفتاب اس کو دیکھتا ہے یعنی اس پر اپنی روشنی ڈالتا ہے۔ سائل نے تو صرف بہتر جگہ کے بارے میں سوال کیا تھا لیکن جواب میں مقابلے کے طور بہترین اور بدترین دونوں مقامات کو بتلا دیا گیا تاکہ رحمان اور شیطان دونوں کے گھر معلوم ہوجائیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی آدمی سے کوئی ایسا مسئلہ دریافت کیا گیا جو اسے پوری طرح معلوم نہیں ہے تو اسے چاہئے کہ جواب دینے میں جلدی نہ کرے بلکہ جس کے بارے میں جانتا ہو کہ وہ اس سوال کا جواب اچھی طرح جانتا ہے اس سے پوچھ لے اور اپنے سے زیادہ علم والے سے پوچھنے میں کوئی شرم محسوس نہ کرے کو ین کہ یہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ مشکوٰۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ خالی ہے کیونکہ مصنف مشکوٰۃ کو اس کتاب کا نام معلوم نہیں تھا جس سے یہ روایت نقل کی گئی ہے بعد میں بعض علماء نے کتاب کا مذکورہ نام لکھا دیا ہے۔

【2】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی میری اس مسجد میں محض اس غرض سے آئے کہ نیک کام سیکھے اور سکھلائے تو وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے ہم رتبہ ہے اور جو آدمی اس غرض سے نہ آئے (یعنی کسی برے کام مثلاً لہو و لعب کی نیت سے آئے) تو وہ اس آدمی کی مانند ہے جو دوسرے کے اسباب (کو حسرت کی نگاہوں) سے دیکھتا ہے۔ (ابن ماجہ، بیہقی) تشریح آپ ﷺ نے اپنی مسجد یعنی مسجد نبوی کی تخصیص کر کے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ چونکہ میری مسجد اپنی عظمت و فضیلت کے اعتبار سے سب سے اعلیٰ وارفع ہے اور دوسری مسجدیں چونکہ اس کے تابع ہیں اس لئے مذکورہ حکم تمام مساجد کے لئے یکساں ہے۔ نیک کام کو سیکھنے اور سکھلانے کی تخصیص صرف ان کی فضیلت و اہمیت کے اظہار کے طور پر ہے ورنہ تو نماز، اعتکاف اور تلاوت و ذکر سب کا یہی حکم ہے۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں نیک مقصد کے تحت نہیں آئے گا اس کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس کے پاس کوئی چیز نہ تو وہ اس چیز کو کسی دوسرے کے پاس دیکھ کر حسرت و افسوس کا اظہار کرتا ہے چناچہ یہ آدمی بھی جب آخرت میں اس آدمی کے ثواب کو جو نیک مقصد اور نیک نیت کے ساتھ مسجد آیا تھا دیکھے گا اور اسے معلوم ہوجائے گا کہ مسجد تو سعادت و بھلائی کے حصول کی جگہ تھی تو وہ انتہائی رنج و حسرت میں مبتلا ہوجائے گا کہ میں کیوں اس دولت سے محروم رہا۔ یا پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح کسی غیر آدمی کے پاس کوئی چیز دیکھ کر اسے بری نگاہ سے (یعنی اچک لینے کی نیت سے) دیکھنا منع ہے اس طرح مسجد میں بغیر نیک کام کی نیت آنا بھی منع ہے۔

【3】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت حسن بصری (رح) سے مرسلاً روایت ہے کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا لوگوں پر عنقریب ایک ایسا وقت آئے گا کہ وہ اپنی دنیا داری کی باتیں مسجدوں میں کیا کریں گے لہٰذا تم ان کے پاس بھی نہ بیٹھنا (تم ان کی گفتگو میں شریک نہ ہونا کہ ان کے شریک کہلاؤ) کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔ (بیہقی) تشریح یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے بیزار ہے اور وہ اللہ کی پناہ اور اس کی رحمت سے خارج ہیں۔ نیز اس بات سے بھی کنایہ ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں ان کی اطاعت و عبادت قبولیت کا درجہ نہیں پائے گا۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسجد میں دنیاوی امور کی باتیں کرنا مکروہ ہے چناچہ اور بہت سی احادیث میں بھی مسجد میں دنیاوی باتیں کرنے سے منع کیا گیا ہے اور دنیاوی باتوں سے مراد ایسی باتیں ہیں جو عبث، بےفائدہ اور حد سے زیادہ ہوں اور اگر دنیاوی باتیں صرف ایک دو کلمہ تک رہیں یا اس درجے کی نہ ہوں تو وہ اس حکم میں داخل نہیں۔

【4】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ میں (ایک روز) مسجد میں پڑا سو رہا تھا کہ کسی آدمی نے میرے کنکر ماری میں نے دیکھا کہ وہ حضرت عمر ابن خطاب (رض) ہیں۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم جا کر ان دونوں آدمیوں کو میرے پاس لاؤ۔ (جو مسجد میں بلند آواز سے باتیں کر رہے تھے) میں ان کو بلا لایا حضرت عمر فاروق (رض) نے پوچھا تم کون ہو ؟ یا فرمایا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں ! حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اگر تم لوگ مدینہ کے رہنے والے ہوتے تو میں تم کو سزا دیتا (یعنی مارتا۔ لیکن چونکہ تم لوگ یہاں کے رہنے والے نہیں ہو اور آداب مسجد سے واقف نہیں ہو یا یہ کہ مسافر ہو اس لئے عفو و شفقت کے مستحق ہو اور فرمایا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم لوگ رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں زور زور سے باتیں کر رہے ہو۔ (صحیح البخاری ) تشریح جملہ اَوْمِنْ اَیْنَ اَنْتُمَا میں لفظ اَوْ شک کے لئے ہے یعنی راوی کو شک واقع ہو رہا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے یہ فرمایا کہ تم کون ہو ؟ یا یہ فرمایا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو۔ بہر حال مسجد میں بلند آواز سے باتیں کرنا مکروہ ہے اگرچہ موضوع سخن علم ہی کیوں نہ ہو۔

【5】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے مسجد کے ایک گوشہ میں ایک چبوترہ بنوادیا تھا جس کا نام بطیحا تھا اور لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ جو آدمی لغو باتیں کرنا چاہئے یا اشعار پڑھنا چاہے یا (کسی وجہ سے) بلند آواز (سے باتیں) کرنا چاہئے تو اسے چاہئے کہ وہ (مسجد سے نکل کر) اس چبوترہ پر آجائے۔ (موطا)

【6】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (مسجد میں) قبلے کی طرف رینٹھ پڑا ہوا دیکھا تو آپ ﷺ کو بہت ناگوار گذرا یہاں تک کہ اس ناگواری کا اثر آپ کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہو رہا تھا۔ چناچہ آپ کھڑے ہوئے اور اسے خود اپنے دست مبارک سے کھرچ کر پھینکا اور فرمایا کہ، تم میں سے جب کوئی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے سر گوشی کرتا ہے اور اس وقت اس کا پروردگار اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے لہٰذا ہر ایک کو چاہئے کہ قبلے کی طرف ہرگز نہ تھوکے بلکہ اپنے بائیں طرف یا قدموں کے نیچے تھوک لے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنی چادر مبارک کا ایک کونہ لیا اور اس میں کچھ تھوکا اور پھر کپڑے کو آپس میں رگڑ کر فرمایا کہ اس طرح کرلیا کرو۔ (صحیح البخاری ) تشریح اس کا پروردگار اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے۔ کے معنی یہ ہیں کہ جب کوئی آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ قبلے کی طرف متوجہ ہو کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہونے اور اس کے قریب ہونے کا ارادہ کرتا ہے لہٰذا چونکہ اس کا مطلوب اور مقصود اس کے اور قبلے کے درمیان ہے اس لئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ قبلے کی سمت کو تھوک سے بچایا جائے۔ بائیں طرف یا قدموں کے نیچے تھوکنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ کوئی آدمی مسجد میں نماز نہ پڑھ رہا ہو۔ مسجد میں نماز پڑھنے کی صورت میں بائیں طرف اور قدموں کے نیچے بھی تھوکنا نہیں چاہئے کہ اس سے مسجد کے آداب و احترام میں فرق آتا ہے بلکہ اس صورت میں اگر تھوکنے کی ضرورت محسوس ہو تو کسی کپڑے میں تھوک لیا جائے پھر اسے رگڑ کر صاف کرلیا جائے۔

【7】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت سائب ابن خلاد (رض) نے جو رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی ہیں فرمایا۔ ایک آدمی جماعت کی نماز پڑھا رہا تھا اور اس نے قبلہ کی طرف تھوک دیا (اتفاق سے) رسول اللہ ﷺ (اس کی طرف) دیکھ رہے تھے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوگیا تو آپ ﷺ نے اس کے مقتدیوں سے فرمایا کہ آئندہ سے یہ آدمی تمہیں نماز نہ پڑھائے اس کے بعد اس آدمی نے جب ان کو نماز پڑھانی چاہی تو ان لوگوں نے اسے (امامت سے) روک دیا اور اس سے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد بیان کردیا وہ آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں میں نے ہی لوگوں سے تمہیں امام نہ بنانے کے لئے کہا تھا اور راوی فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے اس آدمی سے (امامت سے روک دینے کا سبب بیان کرتے ہوئے یہ بھی) فرمایا تھا کہ تم نے (اس ممنوع فعل کا ارتکاب کر کے) اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے۔ (ابوداؤد)

【8】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ ایک روز سرور کائنات ﷺ نے صبح کی نماز میں تشریف لانے میں (خلاف عادت اتنی) تاخیر فرمائی کہ قریب تھا کہ سورج نکل آئے۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ جھپٹتے ہوئے تشریف لائے چناچہ نماز کے لئے تکبیر کہی گئی اور آپ ﷺ نے (صحابہ کے ہمراہ) نماز پڑھی (اس طرح کہ) نماز میں تخفیف کی (یعنی چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھیں اور سلام پھیرنے کے بعد ہم سے بآواز بلند فرمایا کہ جس طرح تم لوگ بیٹھے ہو اسی طرح اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا پھر آپ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہوشیار ! میں آج صبح کی نماز میں دیر سے آنے کی وجہ بیان کرتا ہوں (وہ یہ ہے) کہ میں نے آج رات (تہجد کی نماز کے لئے اٹھ کر وضو کیا اور جو کچھ میرے مقدر میں نماز تھی پڑھی اور نماز ہی میں مجھے اونگھ آگئی یہاں تک کہ نیند مجھ پر غالب آگئی (اس وقت) اچانک میں نے اپنے پروردگار بزرگ و برتر کو اچھی صورت میں (یعنی اچھی صفت کے ساتھ) دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا، اے محمد ! میں نے عرض کیا پروردگار میں حاضر ہوں ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا (تمہیں معلوم ہے) مقربین فرشتے کس بات پر بحث کر رہے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ پروردگار نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ اسی طرح پوچھا (اور میں یہی جواب دیتا رہا) ۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے کندھوں کے درمیان اپنا ہاتھ رکھا یہاں تک کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی (جس کا اثر یہ ہوا کہ) میرے سامنے ہر چیز ظاہر ہوگئی اور تمام باتیں جان گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد ﷺ ! میں نے عرض کیا کہ پروردگار میں حاضر ہوں فرمایا (اب بتاؤ) مقربین فرشتے کس بات پر بحث کر رہے ہیں ؟ میں نے عرض کی کہ گناہوں کو مٹا دینے والی چیزوں کے بارے میں ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ کون سی چیزیں ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ جماعت کے واسطے (مسجدوں میں) آجانا اور نماز پڑھ کر (اور دعا وغیرہ کے لئے) مسجد میں بیٹھے رہنا اور سختی کے ساتھ (جس وقت کہ سردی یا بیماری کی وجہ سے پانی کو استعمال کرنا تکلیف دہ معلوم ہو) اچھی طرح وضو کرنا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور کس چیز کے بارے میں بحث کر رہے ہیں میں نے عرض کیا کہ درجات کے بارے میں فرمایا وہ کیا ہیں میں نے عرض کیا کہ غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا نرم لہجے میں بات کرنا اور رات کو اس وقت (تہجد کی) نماز پڑھنا جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اچھا اب اپنے لئے جو چاہو دعا کرو۔ چناچہ میں نے دعا کی کہ اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیوں کے کرنے، برائیوں کے چھوڑنے، مسکینوں کی دوستی، اپنی بخشش اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں اور جب تو کسی قوم میں گمراہی ڈالنا چاہئے تو مجھے بغیر گمراہی کے اٹھالے اور میں تجھ سے تیری محبت (یعنی یہ کہ میں تجھے دوست رکھوں یا تو مجھے دوست رکھے) اور اس آدمی کی محبت جو تجھ سے محبت کرتا ہے ( یہ کہ میں اسے دوست رکھوں یا وہ مجھے دوست رکھے) اور ایسے عمل کی محبت کا جو تیری محبت سے نزدیک کر دے گا سوال کرتا ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے (ہم سے) فرمایا کہ یہ خواب بالکل سچ ہے لہٰذا تم اسے یاد کرو اور پھر لوگوں کو سکھلاؤ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی) اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن اسمعیل سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے) ۔ تشریح اس حدیث کی وضاحت اسی باب کی حدیث نمبر ٣٤ کی تشریح میں کی جا چکی ہے اس لئے یہاں اب مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے تاہم اتنی بات سمجھ لیجئے کہ اس حدیث سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا تھا اور یہ سوال و جواب حالت خواب ہی میں ہوئے تھے۔

【9】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن عاص (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ اعوذ باللہ العظیم وبوجھہ الکریم و سلطانہ القدیم من الشیطن الرحیم یعنی میں اللہ عطمت والے بزرگ ذات والے اور ہمیشہ کی سلطنت والے کے ساتھ شیطان مردود سے پناہ مانگتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی آدمی مسجد میں داخل ہونے کے وقت یہ دعا پڑھتا ہے تو شیطان (اس آدمی کے بارے) میں کہتا ہے کہ یہ بندہ تمام دن میرے شر سے محفوظ رہا۔ (ابوداؤد)

【10】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت عطاء ابن یسار (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا (یعنی یہ دعا فرمائی) اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِی وَثَنًا یُعْبَدُ یعنی اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنا کہ لوگ اس کی عبادت کرنے لگیں۔ (اور آپ ﷺ نے فرمایا) جن لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ان پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب (نازل) ہوا۔ (مالک (رح) مرسلاً ) تشریح آپ ﷺ کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ پروردگار ! تو میری قبر کو اس معاملے میں بتوں کی مانند نہ کر کہ میری امت کے لوگ میری قبر کی خلاف شرع تعطیم کرنے لگیں یا باربار زیارت کے لئے میلے کے طور آنے لگیں، یا میری قبر کو سجدہ گاہ قرار دے کر اپنی پیشانیوں کو جو صرف تیری ہی چوکھٹ پر جھکنے کی سزا وار ہے اس پر جھکانے لگیں اور سجدے کرنے لگیں۔ اس حدیث کو اور اس دعا کو بار بار پڑھیے اور ذرا آج کے حالات پر اس کو منطبق کیجئے پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ کی اس دعا کا تعلق آنے والے زمانے سے تھا چناچہ آپ ﷺ کی عرفانی نگاہوں نے اس وقت دیکھ لیا تھا کہ وہ وقت آنے والا ہے۔ کہ جب کہ میری قبر تو الگ رہی اولیاء اللہ کے مزارات پر سجدہ ریزی ہوگی مقبروں پر میلے لگیں گے وہاں عرس قوالیاں ہوں گی، قبروں پر چادریں اور پھولوں کا چڑھاوا چڑھے گا۔ غرض کہ جس طرح ایک بت پرست قوم اللہ کی عبادت و فرمانبرداری سے سرکشی اور تمرد اختیار کر کے بتوں کے ساتھ معاملہ کرتی ہے میری امت کے بدقسمت اور بدنصیب لوگ جو میرے نام کے شیدائی کہلائیں گے، میرے محبت سے سر شاری کا دعوی کریں گے۔ میری لائی ہوئی پاک و صاف شریعت کی آڑ میں میرے دین کے نام پر وہی معاملہ قبروں کے ساتھ کریں گے لہٰذا آپ نے دعا فرمائی کہ اے پروردگار ! تو میری امت کو ایسی گمراہی میں مبتلا نہ کیجئے کہ وہ میری قبر کو پوجنے لگیں۔ جملہ اشتد غضب الخ کا تعلق دعا سے نہیں ہے بلکہ یہ جملہ مستانفہ یعنی ایک الگ جملہ ہے گویا جب آپ ﷺ نے یہ دعا کی تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ دعا آپ ﷺ کیوں کر رہے ہیں تو اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا اشتد الخ یعنی میں اپنی امت پر انتہائی شفقت و مہربانی کے لئے یہ دعا کر رہا ہوں کہ مبادا یہ بھی اس لعنت میں مبتلا نہ ہوجائیں جس طرح کہ یہود وغیرہ اس لعنت میں مبتلا ہو کر اللہ ذوالجلال کے غضب میں گرفتار ہوئے۔

【11】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت معاذ ابن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات حیطان میں نماز پڑھنا پسند فرماتے تھے۔ اس حدیث کے بعض رایوں نے کہا ہے کہ حیطان سے مراد بساتین (یعنی باغات) ہیں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے (کیونکہ) یہ روایت بجز حسن بن ابی جعفر کی سند کے اور کسی سند سے منقول نہیں ہے اور انہیں بھی یحی ابن سعید وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔

【12】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت انس ابن مالک (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا آدمی کی نماز اپنے گھر میں ایک ہی نماز کے برابر اور محلے کی مسجد میں اس کی پچیس نمازوں کے برابر اور اس مسجد میں جہاں جمعہ ہوتا ہے (یعنی جامع مسجد میں) اس کی نماز پانچ سو نمازوں کے برابر اور مسجد اقصی (یعنی بیت المقدس میں) اور میری مسجد (مسجد نبوی ﷺ میں اس کی نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد حرام میں اس کی نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث کے ذریعہ مساجد کے مراتب اور ان میں نماز پڑھنے کے ثواب کے فرق و درجات کا پتہ چلتا ہے۔ چناچہ فرمایا گیا ہے کہ سب سے کم تر درجہ تو خود کسی کے گھر کا ہے یعنی اگر کوئی آدمی مسجد کے بجائے اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے تو اسے صرف اسی ایک نماز کا ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی آدمی اپنے محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرتا ہے تو اسے پچیس نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے اسی طرح جامع مسجد میں نماز پڑھنے والے کو پانچ سو اور بیت المقدس و مسجد نبوی ﷺ میں نماز پڑھنے والے کو اس کی ایک نماز کے بدلے میں پچاس ہزار نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے اور اگر کوئی آدمی مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کرے پھر تو اس کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں یعنی اسے ایک نماز کے عوض ایک لاکھ نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے۔

【13】

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

اور حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! زمین کے اوپر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مسجد حرام میں نے عرض کی کہ پھر اس کے بعد ؟ فرمایا مسجد اقصی (یعنی بیت المقدس) پھر میں نے پوچھا کہ ان دونوں مسجدوں (کی بناء) کے درمیان کتنا فرق تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ چالیس سال پھر اس کے بعد فرمایا اب تو ساری زمین تمہارے لئے مسجد ہے (یعنی اس کا ہر حصہ مسجد کا حکم رکھتا ہے کہ) جہاں نماز کا وقت ہوجائے وہیں نماز پڑھ لو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح یہاں یہ اشکال وارد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کعبۃ اللہ کو بنانے والے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں اور بیت المقدس کی بناء رکھنے والے حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہیں اور تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک ہزار برس سے زیادہ کا فرق ہے لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے یہ کس اعتبار سے فرمایا کہ کعبۃ اللہ اور بیعت المقدس کی بناء کے درمیان صرف چالیس سال کا فرق ہے۔ اس کے جواب میں علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ) اس حدیث میں ان دونوں مسجدوں کی بناء اول کی طرف اشارہ ہے اور یہ ثابت ہے کہ کعبہ کے بانی اولی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہیں ہیں۔ اسی طرح بیت المقدس کے بھی بانی اولی حضرت سلیمان نہیں ہیں بلکہ کعبہ کی بناء سب سے پہلے آدم (علیہ السلام) نے رکھی ہے پھر حضرت آدم کے بعد ان کی اولاد تمام روئے زمین پر پھیل گئی۔ لہٰذا ہوسکتا ہے کہ ان کی اولاد میں سے کسی نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی ہو اور ان دونوں کے درمیان چالیس سال کا فرق رہا ہو۔ پھر اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ کو بنایا اور حضرت سلیمان نے بیت المقدس کی تعمیر کی۔ علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ مجھے اس حدیث کی توثیق علامہ ابن ہشام کے اس مقولہ سے معلوم ہوتی ہے جو انہوں نے کتاب التسبیحات میں لکھا ہے کہ جب حضرت آدم کعبۃ اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوگئے تو انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اب بیت المقدس کی سیر کر کے اسے بناؤ چناچہ انہوں نے اس حکم کی تعمیل میں بیت المقدس بنایا اور اس میں عبادت کی۔ لہٰذا ہوسکتا ہے کہ ان دونوں کی بناء پر چالیس سال کے عرصے کا فرق ہو۔ بعض علماء سے اس حدیث کی توجیہ یہ منقول ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ بنایا تو مسجد کی حد مقرر کردی تھی اسی طرح بیت المقدس کی بھی حد مقرر کردی ہوگی۔ لہٰذا ہوسکتا ہے کہ ان کی حدود کو مقرر کرنے کا درمیانی وقفہ چالیس سال کا ہو۔

【14】

ستر ڈھانکنے کا بیان

نماز صحیح طور پر ادا ہونے کی جہاں اور بہت سی شرائط ہیں ان میں ایک شرط ستر (یعنی شرم) گاہ کا چھپانا بھی ہے۔ چناچہ مشکوٰۃ کے مصنف اس باب میں اسی سلسلہ کی حدیثیں بیان کریں گے اس کے علاوہ اس باب میں مصنف ان لباسوں کے بارے میں بھی احادیث نقل کریں گے جن میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام نے نمازیں میں پڑھیں ہیں۔

【15】

ستر ڈھانکنے کا بیان

حضرت عمر ابن ابی سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات ﷺ کو پاک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت ام سلمہ (رض) کے مکان میں آپ ﷺ اس کپڑے کو اپنے جسم سے اس طرح لپیٹے ہوئے تھے کہ اس کے دونوں کنارے آپ ﷺ کے کندھوں پر تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اشتمال اسے کہتے ہیں کہ کپڑے کا وہ کنارہ جو داہنے کندھے پر ہے بائیں ہاتھ کے نیچے سے نکالا جائے اور پھر وہ کنارا لے کر جو دائیں ہاتھ کے نیچے سے بائیں ہاتھ پر ڈالا گیا ہے دونوں کو ملا کر سینے پر گرہ لگائی جائے لیکن گرہ لگانے کی ضرورت صرف اس صورت میں ہوتی ہے جب کہ کپڑے کے کنارے لمبے نہ ہوں اور ان کے کھل جانے کا خون ہو، اگر کنارے لمبے ہوں تو پھر گرہ لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی جیسا کہ یمن کے سفیروں کے لباس سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض شارحین کی عبارتوں میں گرہ لگانے کی قید ذکر نہیں کی گئی ہے۔ ان احادیث میں مشتمل متوشح اور مخالف بین طرفیہ کے جو الفاظ آئے ہیں سب کے ایک ہی معنی ہیں اور سب کی ایک ہی مذکور بالا صورت ہوتی ہے۔

【16】

ستر ڈھانکنے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا تم میں کوئی آدمی ایک کپڑے میں (اس طرح) نماز نہ پڑھے کہ اس کے کپڑے کا کچھ حصہ کندھوں پر نہ ہو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح مطلب یہ ہے کہ اشتمال کی صورت میں تو نماز پڑھنے کی اجازت ہے کیونکہ اس میں کپڑے کا کچھ حصہ کندھوں پر ہوتا ہے اور اگر کندھے پر کپڑے کا کچھ حصہ بھی نہ ہو تو اس صورت میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی اور اس کی حکمت علماء یہ لکھتے ہیں کہ صرف ایک ہی کپڑا اگر ہو اور اسی کا تہ بند کرلیا جائے اور اس کا کچھ حصہ کندھوں پر ڈالا نہ جائے تو اس صورت میں ستر کھل جانے کا اندیشہ رہتا ہے اور پھر یہ کہ رب ذوالجلال کے دربار میں حاضری کا وقت ہونے کی وجہ سے یہ بےادبی کی شکل ہے۔ حضرت امام اعظم، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور جمہور علماء رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں ہے۔ چناچہ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی صرف ایک کپڑے میں اس طرح نماز پڑھے کہ اس کے کپڑے کا کچھ حصہ کندھوں پر نہ ہو مگر ستر چھپا ہوا ہو تو اس کی نماز ہوجائے گی لیکن کراہت کے ساتھ ہوگی۔ حضرت امام احمد اور دوسرے علماء سلف رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم ظاہر حدیث پر عمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس صورت میں اس آدمی کی نماز نہیں ہوگی۔

【17】

ستر ڈھانکنے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جو آدمی صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو اسے چاہئے کہ اس کپڑے کی دونوں طرفوں میں مخالفت رکھے (یعنی اشتمال کی جو صورت بیان کی گئی ہے وہی اختیار کرے) ۔۔ (صحیح البخاری )

【18】

ستر ڈھانکنے کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے ایک ایسی چادر میں نماز پڑھی جس کے کنارے دوسرے رنگ کے تھے یا اس کے کناروں پر کچھ کام کیا ہوا تھا چناچہ آپ ﷺ نے اس پر کئے ہوئے کام کو دیکھا اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اس چادر کو ابی جہم کے پاس لے جاؤ (اور اسے اس کے حوالہ کر کے) ابی جہم کی انبجانیہ لے آؤ کیونکہ اس چادر نے مجھے میری نماز میں حضوری قلب کی دولت سے باز رکھا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور صحیح البخاری کی ایک روایت میں (یہ بھی منقول ہے کہ) آپ ﷺ نے فرمایا میں نماز کے دوران اس چادر کے نقش و نگار کی طرف دیکھنے لگا اور مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ میری نماز خراب نہ کر دے۔ تشریح خمیصہ ایک چادر کو کہتے ہیں جو خز کی یا صوف کی ہوتی ہے جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے اور دھاری دار ہوتی ہے لہٰذا جملہ لھا اعلام یا تو خمیصہ کی تاکید ہے یا اس کا بیان ہے۔ یہ چادر ایک صحابی حضرت ابوجہم نے تحفہ کے طور پر آپ ﷺ کی خدمت لائے تھے آپ ﷺ نے جب اس کو اوڑھ کر نماز پڑھی اور نماز کے آداب کے دوران آپ ﷺ کی نظر اس کی دھاریوں پر پڑی تو تو قلب مبارک میں کچھ فرق محسوس ہوا، چناچہ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوگئے تو صحابہ سے فرمایا کہ اسے ابوجہم کو واپس کر آؤ، چونکہ آپ ﷺ کو یہ خیال ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ اس چادر کو واپس کردینے سے ایک مخلص صحابی کی دل شکنی ہو اس لئے آپ ﷺ نے یہ فرما دیا کہ اس کے بدلہ میں ان سے انبجانیہ لے آؤ۔ انبجان ایک شہر کا نام ہے اس شہر کی بنی ہوئی چاردیں بالکل سیاہ ہوتی تھیں۔ اس شہر کی مناسبت سے چادر کو انبجانیہ کہا جاتا تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظاہری نقش و نگار پاک نفوس اور صاف قلوب کو بھی متاثر کرتے ہیں اور یہ تاثیر قلب کی انتہائی صفائی اور لطافت کی بناء پر ہوتی ہے جیسے کہ کسی صاف و شفاف اور سفید چادر پر ایک معمولی سیاہ سا نقطہ بھی پڑجاتا ہے تو فوراً ظاہر ہوجاتا ہے اور ناگوار محسوس ہوتا ہے اور چادر جنتی زیادہ سفید ہوتی ہے وہ سیاہ نقطہ اتنا ہی زیادہ ظاہر ہوتا ہے۔ یہی حال ان نفوس قدسیہ کا ہے جس کے قلب و دماغ تعلق مع اللہ اور ریاضت و مجاہدہ کی بناء پر اتنے پاک و صاف ہوجاتے ہیں کہ گناہ و معصیت الگ ہے کسی معمولی مباح چیز کا ادنیٰ سا تصور بھی قلب و دماغ پر اثر انداز ہوجاتا ہے لیکن ان کے مقابلے پر آلود گان تیرہ باطن بھی ہوتے ہیں جن کے دل و دماغ پر بڑے بڑے گناہ کا بھی اثر نہیں ہوتا۔ ہمارا خیال ہے کہ اس حدیث کے ذریعے اصل امت کو یہ تعلیم دینا مقصد ہے کہ نماز کے سلسلے میں ایسی چیزوں سے احتیاط رکھنی چاہئے جو نماز میں دھیان بٹانے کا سبب بنتی ہوں۔

【19】

ستر ڈھانکنے کا بیان

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے اپنے مکان کے ایک حصے میں ایک پردہ ڈال رکھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ (رض) سے کہا کہ اس پردے کو ہمارے سامنے سے ہٹا لو کیونکہ اس کی تصویریں نماز میں برابر میری سامنے رہتی ہیں۔ (صحیح البخاری ) تشریح بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پردہ حضرت عائشہ (رض) نے دیوار گیری کے طور پر دیوار پر لگا رکھا ہوگا مگر بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ پردہ چھپر کھٹ کر طریقے پر تھا۔ بہرحال حضرت عائشہ (رض) نے یہ پردہ اسی وقت سے لگا رکھا ہوگا جب تک کہ انہیں حدیث نہی معلوم نہیں ہوئی ہوگی۔ جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں منع فرما دیا تو انہوں نے وہ پردہ اتار ڈالا۔

【20】

ستر ڈھانکنے کا بیان

اور حضرت عقبہ ابن عامر فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ کی خدمت اقدس میں کسی نے ایک ریشمی قبا تحفہ کے طور پر بھیجی چناچہ آپ ﷺ نے اسے پہن کر نماز پڑھ لی نماز پڑھنے کے بعد آپ ﷺ نے اس قبا کو اس طرح اتار پھینکا جیسے کوئی بہت برا جانتا ہو پھر فرمایا کہ (ریشمی کپڑے شرک و کفر سے) بچنے والوں کے لائق نہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح فروج اس قبا کو کہتے ہیں جس میں پیچھے کی طرف چاک ہوتا ہے۔ یہ فروج رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اکیدر بادشاہ درومہ یا بادشاہ اسکندریہ نے تحفۃ بھیجی تھی۔ چونکہ اس وقت مردوں کو ریشمی کپڑا پہننا حرام نہیں تھا اس لئے آپ ﷺ نے اسے زیب تن فرمالیا اور اس میں نماز پڑھ لی مگر یہ سوچ کر کہ ریشمی کپڑا پہننے سے رعونت پائی جاتی ہے آپ ﷺ نے اسے ناپسند فرما کر اتار دیا۔ اس طرح آپ ﷺ نے اپنے اس عمل سے یہ ظاہر فرما دیا کہ اگرچہ اس کا پہننا مباح ہے لیکن اللہ کے نیک بندے اور متقی و پرہیز گار لوگ چونکہ عزیمت پر عمل کرتے ہیں اس لئے ان کے لئے یہ مناسب اور بہترین نہیں ہے کہ وہ ریشمی کپڑا پہنیں۔ پھر بعد میں ریشم کا پہننا تمام مسلمان مردوں کے لئے خواہ متقی ہوں یا غیر متقی، حرام ہوگیا ہے۔ یا پھر ہوسکتا ہے کہ یہ نہی اس حالت میں ہوئی ہو تو اس صورت میں متقی عن الشرک مراد ہوگا یعنی مسلمانوں کو یہ پہننا نہ چاہئے۔

【21】

ستر ڈھانکنے کا بیان

اور حضرت سلمہ ابن اکوع (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں ایک شکاری آدمی ہوں، کیا میں ایک ہی کرتے میں نماز پڑھ لیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں (پڑھ لیا کرو) لیکن اسے باندھ لیا کرو خواہ اسے کانٹے ہی سے کیوں نہ اٹکا لیا جائے۔ (ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح چونکہ شکاری لوگ شکار میں کم کپڑے پہنتے ہیں اور زیادہ کپڑے پہننے سے شکار کرنے میں رکاوٹ ہوتی ہے اس لئے اس صحابی کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ میں چونکہ شکار کھیلنے والا آدمی ہوں اور شکار کے وقت عموماً صرف ایک کرتا ہی پہنے ہوئے ہوتا ہوں اس کے نیچے لنگی بھی نہیں ہوتی تاکہ شکار کے پیچھے دوڑنے میں آسانی رہے تو کیا میں صرف ایک کرتہ ہی میں نماز پڑھ لیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم ایک کرتہ ہی میں نماز پڑھ سکتے ہو لیکن اس کرتے کا چاک اگر اتنا کھلا ہوا ہو کہ رکوع و سجود کے وقت ستر کھلنے کا اندیشہ رہے تو اس کے چاک کو باندھ لیا کرو۔ اگر اس وقت چاک بند کرنے کی کوئی چیز موجود نہ ہو تو اس میں کانٹا لگا کر ہی اسے بند کرلیا کرو تاکہ ستر نہ کھلے۔

【22】

ستر ڈھانکنے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی ازار لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا سرور کائنات ﷺ نے (یہ دیکھ کر) اس سے فرمایا کہ جاؤ اور وضو کرو ! وہ آدمی جا کر وضو کر آیا۔ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے اس آدمی کو وضو کرنے کے لئے کیوں فرمایا ؟ (حالانکہ وہ باوضو تھا) آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ آدمی اپنا ازار لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا اور جو آدمی ازار لٹکائے ہوئے ہو اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرتا۔ (ابوداؤد) تشریح اسبال اسے فرماتے ہیں کہ کوئی بھی کپڑا اتنا لمبا پہنا جائے کہ وہ نازوتکبر کے طور پر نیچے زمین تک لٹکا ہوا ہو۔ گویہ ازار ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے لیکن اس کا استمال اکثر و بیشتر ازار ہی کے لئے ہوتا ہے۔ لہٰذا پائجامہ، لنگی اور کرتا وغیرہ غرور تکبر کی بناء پر ٹخنوں سے نیچے لٹکانا مکروہ ہے یہی وجہ ہے کہ جب آپ ﷺ نے اس آدمی کو ازار لٹکائے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا کہ جو آدمی ازار لٹکائے ہوئے ہوا اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرتا یعنی اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کی نماز کو کمال قبول نہیں کرتا اور ثواب نہیں دیتا اگرچہ اصل نماز ہوجاتی ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ آدمی باوضو تھا مگر آپ ﷺ نے اسے وضو کرنے کا حکم اس حکمت کی بناء پر دیا تاکہ وہ آدمی اس کا سبب معلوم کرنے میں غور و فکر کرے اور پھر اسے اس فعل شنیع کی برائی کا احساس ہو، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی برکت اور ظاہری طہارت یعنی وضو کی وجہ سے اس کا باطن غرور وتکبر کی آلائش سے پاک و صاف کر دے کیونکہ ظاہری طہارت باطنی صفائی و پاکیزگی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

【23】

ستر ڈھانکنے کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا بالغہ عورت کی نماز بغیر دوپٹے کے (یعنی سر ڈھانکے بغیر) نہیں ہوتی۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی ) تشریح حائض سے مراد بالغہ عورت ہے جو حیض کی عمر کو پہنچ جائے خواہ اسے حیض آتا ہو یا نہ آتا ہو۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کا سر اور اس کے بال ستر میں شامل ہیں لہٰذا اگر کوئی عورت ننگے سر نماز پڑھے گی تو اس کی نماز نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر عورت اتنا باریک کپڑا اوڑھ کر نماز پڑھے کہ اس کپڑے میں سے بال یا بدن کا رنگ دکھائی دیتا ہو تو اس کی نماز نہیں ہوتی لیکن یہ سمجھ لیں کہ یہ حکم آزاد عورت کا ہے لونڈی اس حکم میں داخل نہیں ہے تو اس کی نماز ننگے سر بھی ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس کا سر ستر نہیں اس کا ستر مرد کی طرح ناف کی نیچے سے زانو کے نیچے تک نیز پیٹ، پیٹھ اور پہلو بھی۔

【24】

ستر ڈھانکنے کا بیان

اور حضرت ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے سرور کائنات ﷺ سے پوچھا کہ اگر عورت کے پاس تہمد (یعنی پائجامہ وغیرہ) نہ ہو اور وہ صرف دوپٹہ اور کرتہ میں نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ہوجائے گی یا نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا (ہاں ہوجائے گی) بشرطیکہ کرتہ اتنا لمبا ہو کہ اس سے اس کے پاؤں کی پشت چھپ جاتی ہو۔ (ابوداؤد) اور ابوداؤد نے کہا کہ ایک جماعت نے اس روایت کو ام سلمہ (رض) پر موقوف قرار دیا ہے یعنی انہوں نے کہا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نہیں ہے بلکہ حضرت ام سلمہ (رض) کا قول ہے۔ تشریح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے پاؤں کی پشت بھی ستر میں شامل ہے اس کو نماز میں ڈھا نکنا واجب ہے۔

【25】

ستر ڈھانکنے کا بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے نماز میں سدل کرنے اور مرد کو منہ ڈھانکنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ) تشریح سدل کے معنی یہ ہیں کہ کپڑے کو اپنے سر یا کندھوں پر ڈال کر دونوں طرف سے اسے لٹکا دیا جائے چناچہ کپڑا استعمال کرنے کا یہ طریقہ مطلقاً ممنوع ہے کیونکہ اس سے غرور وتکبر کی شان پیدا ہوتی ہے اور نماز میں تو یہ طریقہ بہت ہی برا ہے۔ اس طرح نماز پڑھنے سے نماز مکروہ ہوجاتی ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ سدل کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی کپڑا اوڑھ کر اپنا ہاتھ اس کے اندر کرے اور اسی طرح رکوع و سجدہ کرتا رہے۔ چونکہ یہ طریقہ یہودیوں کا تھا اس لئے آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے عرب میں پگڑی کے کونہ سے منہ پر ڈھاٹا باندھ لیتے تھے جس سے دہانہ چھپ جاتا تھا آپ ﷺ نے نماز میں اس سے بھی منع فرمایا ہے کیونکہ اس طرح نہ تو قرأت اچھی طرح ہوتی ہے اور نہ سجدہ پورے طور پر ہوتا ہے۔ ہاں اگر نماز میں کسی کو ڈکار آئے یا منہ سے بدبو آئے تو اسے ہاتھ سے منہ ڈھانک لینا مستحب ہے۔

【26】

ستر ڈھانکنے کا بیان

اور حضرت شداد ابن اوس (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا (جوتے اور موزے پہن کر نماز پڑھنے میں) یہودیوں کی مخالفت کرو کیونکہ وہ لوگ جوتے اور موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے۔ (ابوداؤد) تشریح یہودی جوتے اور موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے تھے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ یہودیوں کی مخالفت کرو اور جوتے پہن کر (اگر وہ پاک و صاف ہوں) اور موزے پہن کر نماز پڑھ لیا کرو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گمراہ لوگوں کی مخالفت ظاہر کرنے کی غرض سے کسی مباح چیز پر عمل کرنا بہتر ہے اور وجہ یہ ہے کہ اس طرح چونکہ گمراہ لوگوں کی مخالفت لازم آتی ہے اس لئے وہ مباح چیز بھی عزیمت یعنی اولویت کا حکم پیدا کردیتی ہے۔

【27】

ستر ڈھانکنے کا بیان

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں ایک مرتبہ سرور کائنات ﷺ اپنے اصحاب کو نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ ﷺ نے اچانک اپنے جوتے اتار کر اپنی بائیں طرف (دور ہٹا کر) رکھ لئے جب لوگوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار ڈالے۔ رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا کہ تمہیں جوتے اتارنے پر کس چیز نے مجبور کردیا تھا ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اپنے جوتے اتار ڈالے ہیں اس لئے ہم نے بھی اپنے جوتے اتار ڈالے آپ ﷺ نے فرمایا کہ (اس لئے میں نے تو جوتے اس لئے اتارے تھے کہ) میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے خبر دی کہ میرے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے (اس لئے میں نے جوتے اتاردئیے تھے) تم میں سے جو آدمی مسجد میں آئے تو پہلے وہ اپنے جوتے دیکھ لیا کرے۔ اگر ان میں نجاست لگی ہوئی معلوم ہو تو انہیں صاف کرلے (اور انہیں پہنے ہی پہنے) نماز پڑھ لے۔ (سنن ابوداؤد، دارمی ) تشریح قذر (قاف کے زبر اور دال معجمہ کے ساتھ) اس چیز کو کہتے ہیں جسے طبیعت مکروہ رکھے اس لفظ سے بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے جوتے میں ایسی نجاست نہیں لگی ہوگی جس سے نماز درست نہ ہوتی ہو بلکہ کوئی گھناؤنی چیز جیسے رینٹھ وغیرہ لگی ہوگی کیونکہ اگر نجاست لگی ہوتی تو آپ ﷺ از سر نو نماز پڑھتے حالانکہ آپ ﷺ نے جتنی نماز پڑھ لی تھی نہ آپ ﷺ نے اس کا اعادہ کیا اور نہ از سر نو نماز پڑھی۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا خبر دینا اور پھر اس خبر کی بناء پر آپ ﷺ کا جوتوں کو اتار دینا اس لئے تھا کہ آپ ﷺ کے مزاج اقدس میں چونکہ صفائی اور ستھرائی بہت زیادہ تھی اس لئے جوتوں پر اس گھناؤنی چیز کا لگا رہنا آپ ﷺ کے مزاج کے مناسب نہیں تھا اور بعض شوافع حضرات فرماتے ہیں کہ اگر کسی نمازی کے کپڑے وغیرہ پر نجاست لگی ہوئی ہو اور اسے اس کا علم نہ ہو تو نماز ہوجاتی ہے حضرت امام شافعی (رح) کا یہ قول قدیم ہے۔ بہرحال۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی متابعت واجب ہے کیونکہ صحابہ نے کوئی سبب پوچھے بغیر محض آپ ﷺ کو جوتے اتارتے دیکھ کر اپنے جوتے فوراً اتار ڈالے اور پھر رسول اللہ ﷺ نے بھی اسے جائز رکھا۔

【28】

ستر ڈھانکنے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو تو اپنے جوتے کو نہ اپنی دائیں طرف رکھے اور نہ بائیں طرف ہی رکھے کیونکہ ادھر دوسرے آدمی کی دائیں جانب ہوگی۔ ہاں اگر کوئی بائیں جانب نہ ہو تو ادھر رکھ لے (ورنہ) اسے چاہئے انہیں اپنے دونوں پیروں کے درمیان (یعنی اپنے آگے پیروں کے پاس) رکھ لے اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ یا (اگر جوتے پاک ہوں تو ان کو اتارنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ) انہیں پہنے ہی پہنے نماز پڑھ لے۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ نماز کے دوران جوتے اپنی دائیں طرف نہ رکھے جائیں اور بائیں طرف بھی اس لئے نہ رکھے جائیں کہ جو آدمی اس کے بائیں طرف کھڑا ہوگا یہ جوتا جو اپنے بائیں طرف رکھا گیا ہے اس آدمی کے دائیں طرف پڑے گا۔ لہٰذا جب اپنی دائیں طرف جوتا رکھنا پسند نہ کیا تو اس جوتے کو دوسرے آدمی کے دائیں طرف کیوں رکھا جائے کیونکہ مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ جو چیز اپنے لئے پسند کرتا ہے اپنے ساتھی کے لئے بھی اس چیز کو پسند کرے اور جس چیز کو اپنے لئے ناپسند کرتا ہے اسے اپنے ساتھی کے لئے بھی ناپسند کرے۔

【29】

ستر ڈھانکنے کا بیان

حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ میں سرور کائنات کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ ﷺ ایک بوریہ پر نماز پڑھ رہے ہیں اور اسی پر سجدہ کر رہے ہیں۔ حضرت ابوسعید فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ ایک کپڑا اوڑھے ہوئے جو اپ ﷺ کے جسم پر لپٹا ہوا تھا نماز پڑھ رہے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز ہر اس چیز پر جائز ہے جو نمازی اور زمین کے درمیان حائل ہو خواہ وہ چیز بوریہ وغیرہ کی قسم سے ہو یا کپڑے اور صوف وغیرہ کی قسم سے۔ گو اس حدیث میں صرف بوریے کا ذکر کیا گیا ہے لیکن علماء کے پاس اور دلائل ایسے ہیں جس کی رو سے وہ بوریے کے علاوہ کپڑے وغیرہ پر نماز پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ بغیر کچھ بچھائے ہوئے زمین پر نماز پڑھنا افضل ہے اس لئے کہ خشوع و خضوع نماز کی اصل روح ہے اور یہ چیزیں زمین پر نماز پڑھنے سے حاصل ہوتی ہیں۔ ہاں اگر کوئی مجبوری ہو مثلاً سردی یا گرمی کی وجہ سے بغیر کچھ بچھائے ہوئے زمین پر نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو پھر کچھ بچھا لینا ہی بہتر ہوگا۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جو چیزیں زمین سے اگی ہوئی نہ ہوں اس پر نماز پڑھنا بہتر نہیں ہے یعنی بوری وغیرہ پر نماز پڑھنا تو افضل و بہتر ہے اور کپڑے وغیرہ پر نماز پڑھنا بہتر نہیں ہے۔

【30】

ستر ڈھانکنے کا بیان

اور حضرت عمر و بن شعیب (رض) اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات ﷺ کو کبھی ننگے پاؤں اور کبھی جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ (ابوداؤد)

【31】

ستر ڈھانکنے کا بیان

اور حضرت محمد ابن منکدر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے صرف تہبند باندھ کر جسے انہوں نے اپنی گدی کی طرف باندھ رکھا تھا نماز پڑھی حالانکہ ان کے کپڑے کھونٹی پر لٹکے ہوئے تھے ان سے کسی کہنے والے نے کہا کہ آپ نے صرف تہبند میں نماز پڑھی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے یہ اس واسطے کیا تاکہ تم جیسا احمق مجھے دیکھے بھلا رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم میں سے وہ کون تھا جس کے پاس دو کپڑے تھے۔ (صحیح البخاری) تشریح مشجب کا عام فہم معنی کھونٹی ہی ہوسکتے ہیں کیونکہ مشجب اس چیز کو کہتے ہیں جس پر کپڑے لٹکائے یا رکھے جاتے ہیں یا اس چیز کو کہتے ہیں جس پر کبھی کبھی پانی ٹھنڈا ہونے کے لئے مشک لٹکا دی جاتی تھی۔ بہر حال حضرت جابر (رض) نے اپنے کپڑے اس پر رکھ دیئے تھے اور نماز صرف ایک کپڑے میں اس طرح پڑھ رہے تھے کہ اس کپڑے کا تہبند کر رکھا تھا اور اس کے کونے اوپر کے گلے میں باندھ رکھے تھے چناچہ ایک آدمی نے اس طریقے کو خلاف سنت سمجھتے ہوئے برا خیال کیا اور حضرت جابر (رض) سے پوچھا کہ آپ اتنے سارے کپڑوں کی موجودگی میں بھی صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں تو آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ میں صرف ایک کپڑے میں نماز اس لئے پڑھ رہا ہوں تاکہ تم جیسا کم علم مجھے دیکھے اور جان لے کہ نماز صرف ایک کپڑے میں بھی پڑھی جاسکتی ہے یہ خلاف سنت نہیں ہے۔ چناچہ آپ نے اسی مقصد کے تحت اسے ڈانٹا اور کہا کہ احمق تو اسے برا کیوں سمجھ رہا ہے رسول اللہ ﷺ زمانہ میں ہم میں سے وہ کون تھا جس کے پاس دو کپڑے تھے، ہمارے پاس تو صرف ایک ایک کپڑا ہوتا تھا اسی میں ہم نماز پڑھتے تھے اور اسی کو دوسری ضرورتوں کے لئے استعمال کرتے تھے۔ اس بارے میں علماء کا اتفاق ہے کہ دو کپڑوں میں نماز پڑھنا افضل ہے واجب نہیں ہے کیونکہ اس میں تنگی ہے نیز آپ ﷺ کے صحابہ نے ایک کپڑے میں نماز کبھی تو اس لئے پڑھی کہ ان کے پاس کپڑا ہی صرف ایک تھا اور کبھی بیان جواز کی خاطر ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھ لی۔ الحاصل اگر کوئی آدمی ایک ہی کپڑے میں نماز اس لئے پڑھتا ہے کہ اس کے پاس دوسرا کپڑا موجود نہیں ہے یا بیان جواز کی خاطر پڑھتا ہے تو جائز ہے۔ اور اگر کوئی آدمی سستی و کاہلی اور بہ نیت حقارت پڑھے گا تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔ حضرت جابر (رض) کے ارشاد سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کسی کو صحابہ کے ترک سنت پر لعن و طعن کرنا نہیں چاہئے اور ان کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔ یعنی اگر کسی صحابی سے کوئی ایسا فعل صادر نظر آئے جو بظاہر خلاف سنت معلوم ہوتا ہے تو اس بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے کہ یہ بیان جواز کے لئے ہے یا پھر اس میں کوئی عذر ہوگا۔

【32】

ستر ڈھانکنے کا بیان

اور حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنا سنت ہے کیونکہ سرور کائنات ﷺ کے زمانے میں ہم اسی طرح نماز پڑھتے تھے اور ہمیں کوئی برا نہیں کہتا تھا۔ اس پر حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ یہ (یعنی ایک کپڑے میں نماز پڑھنا) اسی وقت تھا جب کہ کپڑوں کی قلت تھی اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے کپڑوں کے بارے میں وسعت بخش دی ہے تو دو کپڑوں میں ہی نماز پڑھنا بہتر ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

【33】

سترہ کا بیان

سترہ کا بیان یہاں سترہ سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے نمازی کے سامنے کھڑا کیا جائے جیسے دیوار، ستون، یا لکٹری لوہا وغیرہ۔ نماز کے آگے سترہ اس لئے کھڑا کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے سجود کی جگہ متمیز ہوجائے اور نمازی کے آگے سے گزرنے والا آدمی گنہگار نہ ہو۔ سترے کہ لمبائی کم سے کم ایک ہاتھ اور موٹائی کم از کم ایک انگشت ہونا ضروری ہے۔ مقتدیوں کے لئے امام کا سترہ کافی ہے یعنی اگر امام کے آگے سترہ کھڑا ہو تو مقتدیوں کے آگے سے گزرنا جائز ہے اگرچہ ان کے سامنے کوئی چیز حائل نہ ہو۔ امام اور سترہ کے درمیان سے گزر جانا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر ایسی صورت ہو کہ کوئی نمازی پیچھے سے پہلی صف میں خالی جگہ دیکھے تو اس کے لئے جائز ہے کہ پچھلی صفوں کے سامنے سے گزرتا ہوا پہلی صف میں خالی جگہ پہنچ کر کھڑا ہوجائے کیونکہ یہ پچھلی صف والوں کا قصور ہے کہ انہوں نے آگے بڑھ کر پہلی صف میں جگہ کو پر کیوں نہ کیا۔ سترے کے مفصل احکام آگے احادیث کی تشریح کے ضمن میں آئیں گے۔

【34】

سترہ کے بارے میں آنحضور ﷺ کا معمول

حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ صبح کے وقت عیدگاہ تشریف لے جاتے اور آپ ﷺ کے آگے آگے ایک نیزہ (بھی) لے جایا جاتا جو عیدگاہ میں آپ ﷺ کے آگے کھڑا کردیا جاتا تھا اور آپ ﷺ اس کی طرف (منہ کر کے) نماز پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح البخاری ) تشریح معمول یہ تھا کہ سترہ کرنے اور ڈھیلے وغیرہ توڑنے کے لئے اکثر اوقات خدام آپ ﷺ کے ہمراہ ایک نیزہ لے کر چلتے تھے چناچہ عید گاہ میں سامنے چونکہ کوئی دیوار وغیرہ نہیں تھی بلکہ میدان ہی میدان تھا اس لئے وہاں بھی آپ ﷺ کے ساتھ نیزہ جاتا تھا جسے آپ ﷺ اپنے سامنے کھڑا کردیتے تھے۔

【35】

ا اللہ کی تعریف اور سترے کے سامنے سے گزرنے کا حکم

اور حضرت ابوجحیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے مکہ میں ابطح کے مقام پر آقائے نامدار ﷺ کو سرخ چمڑے کے ایک خیمے میں دیکھا اور میں نے حضرت بلال (رض) کو رسول اللہ ﷺ کے وضو کا بچا ہوا پانی لیتے ہوئے دیکھا اور دوسرے لوگوں کو (بھی) میں نے دیکھا کہ وہ پانی حاصل کرنے میں بڑی عجلت کر رہے تھے۔ چناچہ جس آدمی کو اس پانی میں سے کچھ مل گیا اس نے (برکت حاصل کرنے کے لئے) اسے (اپنے بدن اور منہ پر) مل لیا اور جس آدمی کو کچھ نہ ملا اس نے ساتھ والے کے ہاتھ کی تری (ہی) لے کر مل لی پھر میں نے بلال کو دیکھا کہ انہوں نے نیزہ لے کر اسے گاڑ دیا۔ رسول اللہ ﷺ سرخ دھاری دار جوڑا پہنے اور دامن اٹھائے (خیمے سے) نکلے اور نیزے کی طرف کھڑے ہو کر صحابہ کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی اور میں دیکھ رہا تھا کہ آدمی اور چوپائے نیزہ کے سامنے آجا رہے تھے۔ (صحیح مسلم، صحیح البخاری ) تشریح ابطح ایک نالہ کا نام ہے جو منیٰ کے راستہ میں مکہ کے قریب ہی واقع ہے اس نالے کو محصب اور بطحا بھی کہتے ہیں۔ ابطح کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس نالہ میں سنگر یزے ہیں۔ حلہ دو کپڑوں یعنی لنگی اور چادر کو کہتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے جو حلہ زیب تن فرما رکھا تھا وہ سرخ دھاری دار تھا پورا کپڑا سرخ نہیں تھا جو مردوں کو پہننا مکروہ تحریمی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوگیا کہ سترے کے سامنے سے آدمیوں اور چوپاؤں کا گزرنا درست ہے۔

【36】

سواری کے جانور اور کجاوے کی پچھلی لکڑی کو سترہ بنا کر نماز پڑھنا

اور حضرت نافع حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ اپنی سواری کا اونٹ سامنے بٹھا کر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور بخاری نے یہ مزید نقل کیا ہے (نافع فرماتے ہیں کہ) میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر سے پوچھا کہ جب اونٹ چرنے اور پانی پینے چلے جاتے تھے تو رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے (یعنی ایسی شکل میں آپ ﷺ سترہ کس چیز کو قرار دیتے تھے ؟ ) عبداللہ ابن عمر نے فرمایا (ایسے موقع پر) آپ ﷺ کجاوہ کو ٹھیک کر کے سامنے رکھ لیتے تھے اور اس کی پچھلی لکڑی کی طرف (جو بلند ہونے کی وجہ سے سترے کا کام دیتی تھی) منہ کر کے نماز پڑھ لیتے تھے۔

【37】

سواری کے جانور اور کجاوے کی پچھلی لکڑی کو سترہ بنا کر نماز پڑھنا

اور حضرت طلحہ ابن عبیداللہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی کجاوہ کی پچھلی لکڑی کی مانند (کسی چیز کو) سترہ بنا کر رکھ لے تو اسے چاہئے کہ وہ نماز پڑھ لے اور اس (سترے) کے سامنے سے کوئی گزرے تو اس کی پرواہ نہ کرے۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب نمازی سترے کے قابل کسی چیز کو اپنے سامنے رکھ کر نماز پڑھے اور سترہ کے سامنے سے کوئی گزرے تو اس کا خیال نہ کرے کیونکہ سترے کی موجودگی میں سامنے سے کسی کا گزرنا نماز کے خشوع و خضوع پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ یا پرواہ نہ کرے کا تعلق گزرنے والے سے ہوگا۔ یعنی اگر نمازی کے آگے سترہ ہو تو اس کے سامنے گزرنے والا آدمی کچھ پرواہ نہ کرے کیونکہ سترے کی موجودگی میں نمازی کے سامنے سے گزرنے کی وجہ سے وہ گنہ گار نہیں ہوگا۔

【38】

نمازی کے آگے سے گزرجانا بہت بڑا گناہ ہے

اور حضرت ابوجہیم (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا۔ نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر یہ جان لے کہ اس کی کیا سزا ہے تو وہ نمازی کے آگے سے گزرنے کے بجائے چالیس تک کھڑے رہنے کو بہتر خیال کرے۔ (اس حدیث کے ایک راوی) حضرت ابونضر فرماتے ہیں کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال کہا گیا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت امام طحاوی نے مشکل الآثار میں فرمایا ہے کہ، یہاں چالیس سال مراد ہے نہ کہ چایس مہینے یا چالیس دن۔ اور انہوں نے یہ بات حضرت ابوہریرہ (رض) کی اس حدیث سے ثابت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ آدمی جو اپنے بھائی کے آگے سے اس حال میں گزرتا ہے کہ وہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے (یعنی نماز پڑھتا ہے) اور وہ (اس کا گناہ) جان لے تو اس کے لئے اپنی جگہ پر ایک سو برس تک کھڑے رہنا زیادہ بہتر سمجھے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرے۔ بہر حال ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نمازی کے آگے سے گزرنا بہت بڑا گناہ ہے جس کی اہمیت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کسی آدمی کو یہ معلوم ہوجائے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا کتنا بڑا گناہ ہے اور اس کی سزا کنتی سخت ہے تو وہ چالیس برس یا حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کے مطابق ایک سو برس تک اپنی جگہ پر مستقلاً کھڑے رہنا زیادہ بہتر سمجھے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرے۔

【39】

سترے اور نمازی کے درمیان سے گزرنے والے کو زبردستی روکنے کا حکم

اور حضرت ابوسعید (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی کسی ایسی چیز (یعنی سترے) کی طرف نماز پڑھے جو اس کے اور لوگوں درمیان حائل رہے اور کوئی آدمی اس کے آگے سے (یعنی نمازی اور سترے کے درمیان) سے گزرنے کا ارادہ کرے تو اسے روک دینا چاہئے اگر وہ نہ مانے تو اسے قتل کردینا چاہئے کیونکہ وہ ( ایسی صورت میں) شیطان ہے۔ (حدیث کے الفاظ صحیح البخاری کے ہیں اور مسلم نے اس روایت کو بالمعنی نقل کیا ہے) ۔ تشریح قتل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حقیقۃً ایسے آدمی کو موت کے گھاٹ اتار دینا چاہئے بلکہ قتل سے مراد یہ ہے کہ چونکہ نمازی کے آگے سے گزرنا بہت برا ہے اس لئے اگر کوئی آدمی نمازی کے آگے سے گزرنا چاہے تو اسے پوری طاقت و قوت کے ساتھ گزرنے سے روک کر اسے اتنی بڑی غلطی کے ارتکاب سے بچایا جائے۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ ایسے آدمی کو کسی ایسی چیز کے ذریعے روکا جائے جس کا استعمال اس روکنے کے سلسلے میں جائز ہو اور اس روک تھام میں اگر گزرنے ولا آدمی مرجائے تو علماء کے نزدیک متفقہ طور پر اس کا قصاص نہیں ہوگا۔ ہاں دیت کے واجب ہونے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے چناچہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ ایسی شکل میں دیت واجب ہوگی اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ واجب نہیں ہوگی۔ حدیث میں ایسے آدمی کو شیطان کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان نے چونکہ اس آدمی کو بہکا کر اس غلط کام کو کرنے پر مجبور کیا لہٰذا وہ آدمی اس شیطانی کام کرنے کی بناء پر بمنزلہ شیطان کے ہوا۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ ایسا غلط کام کرنے والا آدمی انسانوں کا شیطان ہے اس لئے کہ شیطان کے معنی سرکش کے ہیں خواہ انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے ہو اسی لئے شریر النفس آدمی کو شیطان انس کہا جاتا ہے۔

【40】

سترہ نماز کی محافظت کرتا ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نا مدار ﷺ نے فرمایا عورت، گدھا اور کتا ( نمازی کے آگے سے گزرنے کی صورت میں) نماز کو باطل کردیتے ہیں اور کجاوہ کی پچھلی لکٹری کی مانند کسی چیز کو (نمازی کے آگے سترہ بنا کر) رکھ لینا (نماز کے) اس باطل کردینے کو بچا لیتا ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح نمازی کے آگے سے گزرنا نماز کو باطل نہیں کرتا جمہور علمائے صحابہ وغیرہم کا یہ مذہب ہے کہ کوئی چیز یا کوئی آدمی اگر نمازی کے آگے سے گزر جائے تو نماز باطل نہیں ہوتی خواہ مذکورہ بالا تینوں چیزیں ہوں یا ان کے علاوہ کچھ اور ہوں۔ جہاں تک اس حدیث یا اسی طرح کی دوسری احادیث کا تعلق ہے سب دراصل نمازی کے سامنے سترہ کھڑا کرنے کی اہمیت اور تاکید بیان کرنے میں مبالغے کے طریقے پر ہیں۔ یا اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ یہ تین چیزیں ایسی ہیں جو اگر نمازی کے آگے سے گزریں تو نماز میں خشوع و خضوع اور حضوری قلب کو کھو دیتی ہیں جو درحقیقت نماز کی اصل اور روح ہیں۔ یا پھر اس سے یہ مراد بھی لی جاسکتی ہے کہ نمازی کے آگے سے ان چیزوں کے گزرنے سے چونکہ نمازی کا دل ان کی طرف ہٹ جاتا ہے اور اس کا دل ان چیزوں کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اس لئے نماز بھی بطلان کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ عورت، گدھے اور کتے کی تخصیص کی وجہ حدیث سے بظاہر یہ ملوم ہوتا ہے کہ نمازی کے آگے سے صرف ان تین چیزوں کے گزر جانے سے نماز پر اثر پڑ سکتا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر چیزوں کے گزرنے سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ان مذکورہ تین چیزوں کی تخصیص اسی لئے کی گئی ہے کہ ان کی طرف دل بہت زیادہ متوجہ ہوجاتا ہے چناچہ عورت کی حیثیت تو ظاہری ہے گدھے کا معاملہ بھی یہ ہے کہ گدھے کے ساتھ چونکہ اکثر و بیشتر شیاطین رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کے چیخنے کے وقت اعوذ پڑھنا مستحب ہے اس لئے جب گدھا نمازی کے آگے سے گزرے گا تو نمازی کا دل اس احساس کی بناء پر کہ اس کے ہمراہ شیاطین ہوں گے گدھے کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ یا ایسے ہی کتا نہ صرف یہ کہ نجس عین ہوتا ہے بلکہ اس سے تکلیف پہنچنے کا بھی خطرہ رہتا ہے اس لئے اس کے گزرنے کی صورت میں بھی ذہن پوری تیزی کے ساتھ اس کی طرف بھٹک جاتا ہے۔

【41】

نمازی کے آگے عورت کے آجانے سے نماز باطل نہیں ہوتی

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ رات کی نماز پڑھتے رہتے تھے اور میں آپ ﷺ کے اور قبلے کے درمیان (یعنی آپ ﷺ کے سامنے) اس طرح پڑی رہتی تھی۔ جیسے جنازہ نمازیوں کے آگے رکھا ہوتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح جنازے کی مثال دے کر اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ نماز میں مشغول ہوتے تھے میں اس وقت آپ ﷺ کے سامنے کسی گوشے وغیرہ میں نہیں پڑی رہتی تھی بلکہ آپ ﷺ کے سامنے پوری طرح لیٹی رہتی تھی اور اس کے باوجود آپ ﷺ نماز پڑھتے رہتے تھے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں نمازی کے آگے عورت کے آجانے سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

【42】

نمازی کے آگے سے گدھی وغیرہ کا گزرنا نماز کو باطل نہیں کرتا

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن جب کہ میں بالغ ہونے کے قریب تھا گدھی پر بیٹھا ہوا آیا اور آقائے نامدار ﷺ منیٰ میں لوگوں کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے اور (آپ ﷺ کے) آگے کوئی دیوار نہیں تھی (یعنی آپ ﷺ نے کوئی سترہ نہیں کھڑا کر رکھا تھا، میں بعض صفوں کے سامنے سے گزرا، پھر گدھی سے اتر کر اسے چھوڑ دیا وہ چرنے لگی اور میں صف میں داخل ہوگیا اور مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس واقعہ کو بیان کرنے سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کا یہ بتانا مقصود ہے کہ نمازیوں کے آگے سے گدھی کے گزر جانے سے نماز باطل نہیں ہوئی۔ اس وقت حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) چونکہ بالغ نہیں تھے اس لئے جب وہ نمازیوں آگے سے گزرے تو انہیں کسی نے روکا نہیں۔

【43】

عصا کو سترے کے طور پر گاڑنے کے بجائے سامنے رکھ لینے میں علماء کا اختلاف

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنا چاہے تو اپنے منہ کے سامنے کچھ (مثلاً دیوار و ستون وغیرہ) کرلے اور اگر کچھ نہ ملے تو اپنا عصا (ہی) کھڑا کرلیا کرے اور اگر اس کے پاس عصا بھی نہ ہو تو ایک لکیر ہی کھینچ لیا کرے پھر اس کے آگے سے کوئی گزر جائے تو کچھ نقصان نہ ہوگا (یعنی خشوع و خضوع میں خلل نہیں پڑے گا۔ ( سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح یہ حدیث اس بات کی اجازت دے رہی ہے کہ اگر کسی نمازی کو کوئی ایسی چیز دستیاب نہ ہو جو سترے کے طور پر کام دے سکے تو وہ اپنے عصا کو اپنے سامنے سترہ بنا کر کھڑا کرلے۔ اب اس سلسلہ میں اتنی اور سہولت دی گئی ہے کہ اگر زمین نرم ہو تو عصا کو زمین میں گاڑ دیا جائے اور اگر زمین سخت ہو کہ عصا کو گاڑنا مشکل ہو تو پھر اس شکل میں عصا کو گاڑنے کی بجائے اپنے سامنے طولا رکھ لیا جوے تاکہ گاڑنے کی مشابہت حاصل ہوجائے۔ فقہ کی کتاب شرح منبہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی نمازی اپنے عصا کو سترے کے طور پر بجائے زمین میں گاڑنے کے اپنے سامنے رکھ لے تو بعض علماء کے نزدیک تو اس کے لئے یہ سترے کے طور پر کافی ہوجائے گا۔ یعنی سترے کا حکم پورا ہوجائے گا مگر بعض علماء کے نزدیک یہ سترے کے طور پر کافی نہیں ہوگا۔ کفایہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی نمازی سترے کے طور پر عصا کو بجائے گاڑنے کے سامنے رکھنا چاہئے تو اسے عصا کو طولاً رکھنا چاہئے نہ کہ عر ضا۔ سترے کے لئے کوئی بھی چیز موجود نہ ہونے کی شکل میں سامنے صرف لکیر کھینچ لینے میں علماء کا اختلاف اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہو رہی ہے کہ اگر کسی نمازی کو سترہ بنانے کے لئے کوئی چیز نہ ملے یہاں تک کہ اس کے پاس عصا بھی نہ ہو تو وہ اپنے سامنے صرف لکیر کھنیچ کر نماز پڑھ لے اس کے لئے یہی لکیر سترہ بن جائے گی۔ چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کا قول قدیم اور حضرت امام احمد بن حنبل (رح) کا مسلک یہی ہے بلکہ حنفیہ میں بھی بعد کے بعض علماء نے اس قول کو اختیار کیا ہے۔ حنفیہ کے اکثر علماء اور حضرت امام مالک (رح) اس کے قائل نہیں ہیں کیونکہ ان کے نزدیک لکیر کھینچ لینا معتبر نہیں ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) نے بھی قول جدید میں اپنے پہلے مسلک کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سلسلہ میں جو حدیث وارد ہے وہ ضعیف اور مضطرب ہے۔ نیز یہ کہ نمازی اور سامنے سے گزرنے والے کے درمیان سترے کے طور پر صرف لکیر کا حائل ہونا نہ صرف یہ کہ کوئی اعتبار نہیں رکھتا بلکہ دور سے معلوم و ممیز بھی نہیں ہوتا۔ صاحب ہدایہ (رحمۃ اللہ) علیہ نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ حضرت شیخ ابن الہمام (رح) کے قول کا مفہوم بھی یہی ہے کہ لکیر کھینچنے کے بجائے سترہ کھڑا کرنا ہی اتباع سنت کی بناء پر اولی اور بہتر ہے کیونکہ سامنے کھڑا ہوا سترہ پوری طرح ظاہر ہونے کی وجہ سے امتیاذ بھی رکھتا ہے اور نمازی کے دل کو شک و شبہات سے نکال کر سکون خاطر اور اطمینان قلب کا باعث ہوتا ہے۔ اس کے بعد علماء نے وصف خط میں بھی اختلاف کیا ہے کہ لکیر کس طرح کھینچی جائے چناچہ بعض علماء کے نزدیک لکیر بشکل ہلال کھینچنی چاہئے اور بعض حضرات نے جانب قبلہ طولاً کھینچنے کو لکھا ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ لکیر عرضاً دائیں طرف سے بائیں طرف کو کھینچی جائے اور مختار طولاً ہی کھنیچنا ہے۔

【44】

سترے کو قریب کھڑا کرنا چاہئے

اور حضرت سہل ابن حثمہ (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی سترے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے تو اسے چاہئے کہ وہ سترے کے قریب رہے تاکہ شیطان اس کی نماز نہ توڑے۔ (سنن ابوداؤد) تشریح سترے کے قریب رہنے کا مطلب یہ ہے کہ سترا اتنا نزدیک کھڑا کیا جائے کہ سجدہ اس کے پاس ہو سکے تاکہ شیطان اس کی نماز میں کوئی خلل نہ ڈال سکے کیونکہ نمازی اگر سترے سے دور کھڑا ہوگا تو اس کے سامنے سے کسی کے گزرنے کا احتمال ہوگا۔ چناچہ شیطان ایسی صورت میں اس کے دل میں وسو اس و شبہات کے بیچ بوئے گا جس سے حضوری قلب میں فرق آجائے گا۔ اور نماز میں حضورئ قلب کی دولت میسر نہیں رہی تو گویا اس کی نماز ٹوٹ گئی اس لئے کہ نماز کا کمال اور ثواب بغیر حضوری قلب کے حاصل نہیں ہوتا لہٰذا سترے کے قریب کھڑا ہونے کی وجہ سے اس آفت سے حفاظت حاصل ہوگی۔

【45】

سترہ پیشانی کے عین سامنے کھڑا نہیں کرنا چاہئے

اور حضرت مقداد ابن اسود (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار ﷺ کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ لکڑی، ستون یا درخت کی طرف (منہ کر کے) نماز پڑھتے ہوں اور یہ چیزیں ٹھیک آپ ﷺ کے سامنے کھڑی ہوں بلکہ وہ آپ ﷺ کی داہنی یا بائیں بھو وں (ابروں کے سامنے ہوتی تھیں اور آپ ﷺ ان کی سیدھ کا قصد نہ کرتے تھے۔ (سنن ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب آپ ﷺ سترہ کھڑا کرتے تھے تو اس بات کا بطور خاص خیال رکھتے تھے کہ سترہ پیشانی کے عین سامنے نہ ہو بلکہ آپ ﷺ سترے کو دائیں یا بائیں بھوؤں کے سامنے کھڑا کرتے تھے اور اس سے آپ ﷺ کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ بت پرستی کی مشابہت نہ ہو۔

【46】

نمازی کے سامنے سے کتے اور گدھے وغیرہ کا گزرنا نماز کو باطل نہیں کرتا

اور فضل ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ (ایک دن) ہمارے پاس تشریف لائے جب کہ ہم اپنے جنگل میں (خیمہ زن) تھے حضرت عباس (رض) بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھے چناچہ آپ ﷺ نے جنگل میں نماز (اس طرح) پڑھی کہ آپ ﷺ کے سامنے سترہ نہیں تھا۔ ہماری گدھی اور کتیا آپ ﷺ کے سامنے کھیل رہی تھیں مگر آپ ﷺ نے اس کی کچھ پرواہ نہیں کی۔ (ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح اہل عرب کا دستور تھا کہ وہ لوگ چند دنوں کے لئے جنگل میں خیمہ زن ہو کر جایا کرتے تھے اور وہاں رہا کرتے تھے۔ ہر جماعت کا اپنا اپنا متعین جنگل ہوتا تھا چناچہ حضرت عباس (رض) کا بھی ایک جنگل تھا۔ جن ایام میں وہ اپنے جنگل میں خیمہ زن تھے۔ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے راوی وہی واقعہ کا بیان کر رہے ہیں۔ اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نمازی کے سامنے سے اگر گدھے اور کتے وغیرہ گزر جائیں تو نماز باطل نہیں ہوتی، وہیں یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ گزر گاہ پر نماز پڑھنے کی شکل میں نمازی کو اپنے آگے سترہ کھڑا کرنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔

【47】

نمازی کے سامنے سے کسی کے گزرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی

اور حضرت ابوسعید (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا۔ نمازی کے آگے سے گزرنے والی کوئی چیز نماز کو نہیں توڑتی (تاہم اگر کوئی نمازی کے آگے سے گزرے تو نماز میں خشوع و خضوع برقرار رکھنے کی خاطر، تم حتی الامکان اسے روکو کیونکہ وہ گزرنے والا شیطان ہے۔ (سنن ابوداؤد) تشریح اس حدیث نے بھی بصراحت اس کو واضح کردیا کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والی کوئی بھی چیز نماز کو باطل نہیں کرتی چاہے عورت، کتا اور گدھا ہی کیوں نہ ہو۔ (دیکھئے حدیث نمبر ٧) ۔

【48】

نمازی کے سامنے سے کسی کے گزرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں آقائے نامدار ﷺ کے سامنے (اس طرح سوئی رہتی تھی کہ) میرے دونوں پاؤں آپ ﷺ کے قبلے کی طرف (یعنی آپ ﷺ کے سجدہ کرنے کی جگہ) ہوتے تھے۔ جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تھے تو میرے (پاؤں کو) دبا دیتے تھے میں پاؤں کو سمیٹ لیتی تھی اور جب آپ ﷺ کھڑے ہوجاتے تھے تو میں پھر پاؤں پھیلا دیتی تھی۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ان دنوں میں گھر کے اندر چراغ نہیں ہوتے تھے۔ (صحیح البخاری، صحیح مسلم) تشریح حدیث کے آخری جملہ سے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اپنا یہ عذر بیان کرنا چاہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سجدہ کرنے کی جگہ پاؤں اس لئے پھیلائے رکھتی تھی کہ چراغ نہ ہونے کی وجہ سے مجھے کچھ معلوم نہ ہوتا تھا۔ جہاں تک حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے اس عمل کا تعلق ہے کہ جب آپ ﷺ ان کا پاؤں دبا دیتے تھے تو وہ اپنے پاؤں سمیٹ لیتی تھیں اور جب آپ ﷺ کھڑے ہوجاتے تھے تو وہ اپنے پاؤں پھیلا دیتی تھیں تو یہ رسول اللہ ﷺ کی تقریر یعنی ان کے اس عمل پر رسول اللہ ﷺ کی جانب سے نکیر نہ ہونے کی بناء پر تھا۔ نمازی کے آگے سے گزرنا جرم عظیم ہے

【49】

نمازی کے سامنے سے کسی کے گزرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی یہ جان لے کہ اپنے مسلمان بھائی کے سامنے سے جب کہ وہ نماز پڑھ رہا ہو عرضا گزرنا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے لئے سو برس تک کھرے رہنا ایک قدم آگے بڑھانے سے بہتر معلوم ہو۔ (سنن ابن ماجہ)

【50】

نمازی کے سامنے سے کسی کے گزرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی

اور حضرت کعب احبار (رض) فرماتے ہیں کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر یہ جان لے کہ (اس کے جرم کی) سزا کیا ہے تو اس کو اپنا زمین میں دھنسنا یا جانا نمازی کے آگے سے گزرنے سے زیادہ بہتر معلوم ہو۔ اور ایک روایت میں بجائے بہتر کے زیادہ آسان کا لفظ ہے۔ (مالک)

【51】

نمازی کے آگے سے کتنی دوری پر گزرنا چاہئے

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا۔ تم میں سے جو آدمی بغیر سترے کے نماز پڑھے گا تو اس کی نماز اس کے سامنے سے گدھے، خنز یر، یہودی، مجوسی اور عورت کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جائے گی ہاں اگر یہ ایک پتھر پھینکنے کی مسافت کے فاصلے سے گزریں تو کچھ حرج نہیں۔ (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ پھینکنے کے بعد پتھر جتنی دور جا کر گرتا ہے اتنے فاصلے کے بعد سے یہ مذکورہ چیزیں اگر نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزریں تو کچھ حرج نہیں ہے یعنی نماز میں کوئی خلل و قصور نہیں آتا۔ علماء نے لکھا ہے کہ پھتر پھینکنے سے مراد حج میں رمی جمار ہے یعنی حج میں مناروں پر جو کنکر اور جس فاصلے سے مارے جاتے ہیں اور جس کی مقدار تین ہاتھ لکھی ہے وہی یہاں مراد ہے۔ اس حدیث کی تاویل بھی وہی ہوگی جو اسی باب کی حدیث نمبر سات کی تشریح کے ضمن میں کی جا چکی ہے کہ نماز ٹوٹنے سے کیا مراد ہے ؟۔

【52】

صفت نماز کا بیان

اس باب کے ذیل میں وہ احادیث نقل کی جا رہی ہیں جن میں نماز پڑھنے کی ترکیب معلوم ہوگی کہ نماز کس طرح پڑھی جائے ؟ اور نماز کے ارکان و اجزاء کیا ہیں ؟

【53】

نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ مسجد کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا۔ (پہلے) اس نے نماز پڑھی، اس طرح کہ تعدیل ارکان اور قومہ و جلسہ کی رعایت نہیں کی۔ پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا، رسول اللہ ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا جاؤ اور پھر نماز پڑھو اس لئے کہ تم نے نماز نہیں پڑھی وہ چلا گیا اور جس طرح پہلے نماز پڑھی تھی اسی طرح پھر نماز پڑھی اور آپ ﷺ کی خدمت میں آکر سلام عرض کیا، آپ ﷺ نے سلام کا جواب دے کر پھر اس سے فرمایا کہ جاؤ نماز پڑھو اس لئے کہ تم نے نماز پڑھی ہی نہیں (اس طرح تین مرتبہ ہوا) تیسری مرتبہ یا چوتھی مرتبہ اس آدمی نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! مجھے سکھلا دیجئے ( کہ نماز کس طرح پڑھوں) آپ ﷺ نے فرمایا۔ جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو (پہلے) اچھی طرح وضو کرلو۔ پھر قبلے کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو کر تکبیر کہو پھر قرآن کی جو (سورت وغیرہ) تمہیں آسان معلوم ہو اسے پڑھو پھر سکون کے ساتھ رکوع کرو پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاؤ، پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو پھر سر اٹھاؤ اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ جاؤ پھر اطمینان کے ساتھ (دوسرا) سجدہ کرو پھر سر اٹھاؤ اور سکون کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ پھر سر اٹھاؤ اور سیدھے کھڑے ہوجاؤ (اس روایت میں جلسہ استراحت کا ذکر نہیں) پھر اپنی تمام نماز اسی طرح ادا کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح طمانیت کا مطلب یہ ہے کہ رکوع یا سجود وغیرہ میں اس طرح پوری دلجمعی اور سکون خاطر کے ساتھ ٹھہرا جائے کہ بدن کے تمام جوڑ اپنی جگہ اختیار کرلیں اور ان ارکان میں جو تسبیحات پڑھی جاتی ہیں وہ پورے اطمینان کے ساتھ پڑھی جائیں۔ رکوع و سجود وغیرہ میں طمانیت فرض ہے یا واجب ؟ حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد اور حضرت امام ابویوسف رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اس حدیث کے پیش نظر رکوع، سجود، قومہ اور جلسہ میں طمانیت کی فرضیت کے قائل ہیں اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے اطمینان کے فقدان کی بناء پر نماز کی نفی فرمائی ہے اور یہ چیز فرضیت کی علامت ہے کہ ایک فعل اس کے نہ ہونے سے منتفی اور باطل ہوجائے لہٰذا یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے ارکان میں آرام و سکون کو اختیار نہ کیا تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی جس کا اعادہ ضروری ہوگا۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک رکوع و سجود میں طمانیت واجب ہے اور قومہ و جلسہ میں سنت ہے یہ حضرات اس حدیث کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ یہاں نماز کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ نماز کے کمال کی نفی مراد ہے کیونکہ اس حدیث کے آخری الفاظ جو ابوداؤد، جامع ترمذی اور سنن نسائی میں منقول ہیں یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آدمی سے فرمایا کہ اگر تم نے اسے (یعنی طمانیت کو) پورا کیا تو تمہاری نماز مکمل ہوئی اور اس میں سے تم نے جو کچھ کم کیا تو تم نے اپنی نماز ناقص کی۔ لہٰذا اس طرح کا حکم وجوب اور سنت کی علامت ہے کہ اس کے بغیر فعل ناقص و ناتمام ہوتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آدمی کو نماز کا اعادہ کرنے کا حکم اس لئے نہیں دیا تھا کہ اس کی نماز سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی بلکہ اس اعادہ کے حکم کا مطلب یہ تھا کہ نماز پورے کمال اور بغیر کسی کراہیت و نقصان کے ادا ہونی چاہئے۔ اور اگر طمانیت فرض ہوتی تو آپ ﷺ اس کو شروع ہی میں منع کر کے نماز پڑھنے سے روک دیتے اور اس کو بغیر فرائض کے نماز نہ پڑھنے دیتے۔ اس حدیث سے چند باتوں کی طرف اشارہ ملتا ہے پہلی چیز تو یہ کہ عالم اور ناصح کے لئے یہی مناسب ہے کہ وہ کسی جاہل اور غلط کام کرنے والے کو نہایت نرمی اور اخلاق کے ساتھ سمجھائے اور اس کے ساتھ نصیحت کا ایسا نرم معاملہ کرے کہ وہ آدمی اس کی بات کو ماننے اور اس پر عمل پیرا ہونے پر خود مجبور ہوجائے کیونکہ بسا اوقات نصیحت کے معاملے میں بد اخلاقی و ترش روئی اصلاح و سدھار پیدا کرنے کی بجائے اور زیادہ ضد و ہٹ دھرمی اور گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔ دوسری چیز یہ ثابت ہوتی ہے کہ ملاقات اگرچہ مکرر اور تھوڑی دیر کے بعد ہی ہو سلام کرنا مستحب ہے۔ تیسری چیز یہ ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی نماز کے واجبات میں کچھ خلل و نقصان پیدا کرے تو اس کی نماز صحیح ادا نہیں ہوتی اور وہ حقیقی معنی میں نمازی نہیں کہلاتا بلکہ اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ اس آدمی نے نماز نہیں پڑھی۔ پہلی روایت میں جلسہ استراحت یعنی پہلی اور تیسری رکعت میں دوسرے سجدے سے اٹھ کر بیٹھنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے چناچہ امام شافعی (رح) کے نزدیک جلسہ استراحت سنت ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک سنت نہیں ہے اس کی مفصل تحقیق (انشاء اللہ) آگے آئے گی۔

【54】

رسول اللہ ﷺ کی نماز کا طریقہ

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نماز تو تکبیر سے اور قرأت الحمد اللہ رب العالمین سے شروع کرتے اور آپ جب رکوع کرتے تھے تو اپنا سر مبارک نہ تو (بہت زیادہ) بلند کرتے تھے اور نہ (بہت زیادہ) پست بلکہ درمیان درمیان رکھتے تھے (یعنی پیٹھ اور گردن برابر رکھتے تھے) اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بغیر سیدھا کھڑے ہوئے سجدے میں نہ جاتے تھے اور جب سجدے سے سر اٹھاتے تو بغیر سیدھا بیٹھے ہوئے (دوسرے) سجدہ میں نہ جاتے تھے اور ہر دور رکعتوں کے بعد التحیات پڑھتے تھے اور (اور بیٹھنے کے لئے) اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے تھے اور آپ عقبہ شیطان (یعنی شیطان کی بیٹھک) سے منع فرماتے تھے اور مرد کو دونوں ہاتھ سجدے میں اس طرح بچھانے سے بھی منع کرتے تھے جس طرح درندے بچھا لیتے ہیں اور آپ ﷺ نماز کو سلام پر ختم فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا یہ فرمانا کہ رسول اللہ ﷺ نماز تو تکبیر سے شروع فرماتے تھے اور قرأت کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے کرتے تھے۔ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آپ ﷺ بسم اللہ آہستہ سے پڑھتے تھے جیسا کہ حضرت امام اعظم (رح) کا مسلک بھی یہی ہے۔ قعدے میں بیٹھنے کا طریقہ اور اس میں آئمہ کا اختلاف وکان یفرش رجلہ ایسر وینصب رجلہ الیمنی (یعنی آپ ﷺ بیٹھنے کے لئے اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے تھے) اس عبارت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ دونوں قعدوں میں اسی طرح بیٹھتے تھے چناچہ حضرت امام اعظم (رح) کا یہی مسلک ہے کہ دونوں قعدوں میں اسی طرح بیٹھنا چاہئے۔ آئندہ آنے والی حدیث جو حضرت ابوحمید ساعدی (رض) سے منقول ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ پہلے قعدے میں افتراش (یعنی پاوئوں بچھانا ہی اختیار کرتے تھے مگر دوسرے قعدے میں تورک یعنی (کولہوں پر بیٹھنا) اختیار فرماتے تھے چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک یہی ہے کہ پہلے قعدے میں تو افتراش ہونا چاہئے اور دوسرے قعدے میں تورک۔ حضرت امام مالک (رح) کے نزدیک دونوں قعدوں میں تورک ہی ہے اور حضرت امام احمد بن حنبل (رح) کا مسلک یہ ہے کہ جس نماز میں دو تشہد ہوں اس کے آخری تشہد میں تورک ہونا چاہئے اور جس نماز میں ایک ہی تشہد ہے اس میں افتراش ہونا چاہئے۔ امام اعظم (رح) کے مسلک کی دلیل بنیادی طور پر حضرت امام اعظم (رح) کے مسلک کی دلیل یہی حدیث ہے نہ صرف یہی حدیث بلکہ اور بہت سی احادیث وارد ہیں جن میں مطلقاً پاؤں کے بچھانے کا ذکر ہے۔ نیز یہ بھی وارد ہے کہ تشہد میں سنت یہی ہے اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ بغیر پہلے اور دوسرے قعدے کی قید کے تشہد میں اسی طرح بیٹھا کرتے تھے۔ پھر دوسری چیز یہ بھی ہے کہ تشہد میں بیٹھنے کا جو طریقہ امام اعظم نے اختیار کیا ہے وہ دوسرے طریقوں کے مقابلے میں زیادہ بامشقت اور مشکل ہے اور احادیث میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ اعمال میں زیادہ افضل و اعلیٰ عمل وہی ہے جس کے کرنے میں مشقت اور مشکل ہے۔ جن احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں یہ منقول ہے کہ آپ ﷺ دوسرے قعدے میں کو لہوں پر بیٹھتے تھے۔ جیسا کہ امام شافعی (رح) کا مسلک ہے وہ اس بات پر مجمول ہے کہ رسول اللہ ﷺ حالت ضعف اور کبر سنی میں اس طرح بیٹھتے تھے کیونکہ دوسرے قعدے میں زیادہ دیر تک بیٹھنا ہوتا ہے اور کو لہوں پر بیٹھنا زیادہ آسان ہے۔ عقبہ شیطان کا مطلب عقبہ شیطان دراصل ایک خاص طریقے سے بیٹھنے کا نام ہے جس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ دونوں کو ل ہے زمین پر ٹیک کر دونوں پنڈلیاں کھڑی کرلی جائیں پھر دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر بیٹھا جائے جس طرح کے کتے بیٹھا کرتے ہیں۔ قعدے میں بیٹھنے کا یہ طریقہ اختیار کرنا متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک مکروہ ہے۔ علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ عقبہ شیطان کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کو ل ہے دونوں ایڑیوں پر رکھے جائیں۔ یہ معنی لفظ عقبہ کی رعایت سے زیادہ مناسب ہیں۔ آپ ﷺ نے مرد کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ سجدہ کی حالت میں زمین پر اپنے دونوں ہاتھ اس طرح بچھائے جس طرح درندے یعنی کتے وغیرہ بچھاتے ہیں اس سلسلے میں مرد کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ سجدہ کے وقت عورتوں کو اس طرح ہی دونوں ہاتھ بچھانے چاہیں کیونکہ اس طرح عورت کے جسم کی نمائش نہیں ہوتی۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب بالکل صاف ہے کہ آپ ﷺ نماز کا اختتام سلام پر فرماتے تھے۔ مگر اتنی بات سن لیجئے کہ نماز میں سلام پھیرنا حنفیہ کے نزدیک تو واجب ہے مگر حضرت شوافع کے نزدیک فرض ہے۔

【55】

تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کہاں تک اٹھایا جائے؟

اور حضرت ابوحمید ساعدی (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت میں فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے طریقہ نماز کو تم میں سب سے زیادہ جانتا ہوں۔ میں نے آپ ﷺ کو دیکھا ہے کہ جب آپ ﷺ تکبیر کہتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے اور جب رکوع میں جاتے تھے تو اپنے دونوں زانو ہاتھوں سے مضبوط پکڑتے تھے اور اپنی پیٹھ جھکا دیتے تھے (تاکہ گردن کے برابر ہوجائے) اور جب اپنا سر (رکوع سے) اٹھاتے تو سیدھے کھڑے ہوجاتے یہاں تک کہ سارے جوڑ اپنی اپنی جگہ پر آجاتے تھے اور جب سجدے میں جاتے تو دونوں ہاتھ زمین پر (منہ کے بل) رکھ دیتے تھے اور انہیں نہ پھیلاتے تھے اور نہ (پہلو کی طرف) بیٹھتے تھے اور پاؤں کی انگلیاں قبلے کی طرف سامنے رکھتے تھے اور جب دو رکعتیں پڑھنے کے بعد بیٹھتے تھے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے تھے اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے تھے اور جب آخری رکعت پڑھ کہ بیٹھتے تھے تو بائیں پاؤں کو آگے نکال دیتے اور دوسرے (یعنی دائیں) پاؤں کو کھڑا کر کے کو لھے پر بیٹھ جاتے تھے۔ (صحیح البخاری ) تشریح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ جب تکبیر کہتے تھے تو اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے تھے۔ چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک یہی ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کانوں کی لو کے مقابل تک اٹھانا چاہئے کیونکہ دیگر احادیث میں اسی طرح مروی ہے اور چونکہ بعض روایات میں ان دونوں سے الگ ایک تیسرا طریقہ یعنی ہاتھوں کو کانوں کی اوپر کی جانب تک اٹھانا بھی آیا ہے۔ اس لئے امام اعظم (رح) نے نہ تو کانوں کے نیچے یعنی کندھوں تک اٹھانے کے طریقہ کو اختیار کیا اور نہ کانوں کے اوپر کی جانب تک اٹھانے کے طریقہ کو اختیار کیا بلکہ درمیانی طریقہ اختیار کیا ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) نے ان روایات کی تطبیق کے سلسلے میں فرمایا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اس طرح اٹھانا چاہئے کہ ہاتھ کی ہتھیلیاں تو کاندھوں کے مقابل رہیں انگوٹھے کانوں کی لو کے مقابل اور انگلیوں کے سرے کان کے اوپر کے حصے پر رکھے جائیں تاکہ اس طریقے سے تمام احادیث میں عمل ممکن ہوجائے اور روایتوں میں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہ رہ جائے اور ان احادیث میں ایک دوسری تطبیق یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ احادیث مختلف اوقات سے متعلق ہیں یعنی تکبیر تحریمہ کے وقت کبھی تو آپ ﷺ اس طرح ہاتھ اٹھاتے ہوں گے اور کبھی اس طرح۔ آپ ﷺ کے رکوع کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ﷺ دونوں ہاتھوں سے دونوں زانو مضبوطی سے پکڑ لیتے تھے اور انگلیوں کو کشادہ رکھتے تھے اور پھر گردن مبارک کو جھکا کر بالکل پیٹھ کر برابر کردیتے تھے۔ علماء نے لکھا ہے کہ رکوع میں تو انگلیاں کشادہ رکھنی چاہئیں اور سجدے میں ملی ہوں نیز تکبیر تحریمہ اور تشہد میں ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دینا چاہئے۔ سجدے میں زمین پر ہاتھ رکھنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدے کی حالت میں انگلیاں اور ہتھلیاں زمین پر پھیلا دینی چاہئیں اور پہنچے اٹھے ہوئے اور پہلو اس طرح الگ رکھنے چاہئیں کہ اگر بکری کا بچہ چاہے تو نیچے سے گزر جائے۔ اس حدیث میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا کہ قومہ سے سجدہ میں جانے کے وقت زمین پر پہلے زانو رکھے جائیں یا ہاتھ تو اس سلسلہ میں صحیح مسئلہ یہ ہے کہ درست تو دونوں طریقے ہیں لیکن اکثر آئمہ کے نزدیک افضل اور مختار یہی ہے کہ زمین پر پہلے زانو رکھے۔

【56】

رفع بدین

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے نیز جب رکوع سے سرا ٹھاتے تو تب بھی اسی طرح دونوں ہاتھ (کندھوں تک) اٹھاتے اور (رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے) کہتے سمع اللہ لمن حمدہ۔ ربنالک الحمد (ا اللہ نے اس آدمی کو سن لیا (یعنی اس کی تعریف قبول کرلی) جس نے اس کی حمد بیان کی۔ اے ہمارے پروردگار ! تعریف تو تیرے ہی لئے ہے) اور رسول اللہ ﷺ سجدوں میں ایسا نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاری ) تشریح رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کا مطلب یہ کہ اے پروردگار ! دنیا کی تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی کسی آدمی کی تعریف کرتا ہے تو وہ درحقیقت تیری ہی تعریف کرتا ہے کیونکہ سب کو پیدا کرنے والا تو ہی تو ہے اس لئے مصنوع کی تعریف دراصل صانع ہی کی تعریف ہوتی ہے۔ حدیث کے اس جزو سے معلوم ہوا کہ ہر نماز پڑھنے والے کو سمع اللہ لم حمدہ اور رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ دونوں کلمات کہنے چاہئیں۔ مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو اسے یہ دونوں کلمات کہنے چاہئیں مگر جماعت کی صورت میں امام صرف سمع اللہ لم حمدہ کہے اور مقتدی ربنالک الحمد کہیں۔ حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ امام کو دونوں کلمات کہنے چاہئیں اسی قول کو امام طحاوی (رح) نے بھی اختیار کیا ہے۔ بلکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) سے بھی ایک روایت اسی قول کی تائید میں منقول ہے مقتدی کے بارے میں ان کی رائے بھی یہی ہے کہ وہ صرف رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہے۔ وکان لا یفعل ذلک فی السجود (یعنی آپ ﷺ سجدوں میں ایسا نہیں کرتے تھے) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تکبیر تحریمہ کے بعد آپ ﷺ رکوع میں جانے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کرتے تھے اس طرح جب سجدے میں جاتے یا سجدے سے سر اٹھاتے تو رفع یدین نہیں کرتے تھے چناچہ حضرات شوافع کا مختار مسلک یہی ہے کہ ان اوقات میں رفع یدین نہیں کرنا چاہئے۔ ان حضرات کے نزدیک رفع یدین کی جو صورت ہے وہ یہی ہے کہ رفع یدین صرف تکبیر تحریمہ، رکوع میں جانے کے وقت اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت کرنا چاہئے۔ ان تینوں موقعوں کے علاوہ اور کسی موقعہ پر رفع یدین کو یہ حضرات صحیح نہیں مانتے۔

【57】

رفع بدین

اور حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) جب نماز شروع کرتے تو تکبیر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع میں جاتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تب بھی دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) اس حدیث کو رسول اللہ ﷺ تک پہنچی ہوئی نقل کرتے تھے (یعنی وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اسی طرح کیا ہے) ۔ (صحیح البخاری)

【58】

رفع یدین کے مسئلے حنفیہ کی مستدل احادیث و آثار

اور حضرت مالک ابن حویرث (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ جب تکبیر تحریمہ کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا اٹھاتے کہ انہیں کانوں کی سیدھ تک لے جاتے تھے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر اسی طرح کرتے تھے (یعنی دونوں ہاتھ کانوں کی سیدھ تک لے جاتے تھے) اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ دونوں کو اپنے کانوں کے اوپر کی جانب لے جاتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین یعنی ہاتھوں کے اٹھانے میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ تمام علماء وائمہ اس بات پر متفق ہیں۔ کہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا چاہئے۔ تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مواقع پر رفع یدین کا مسئلہ حنفیہ و شوافع کے درمیان ایک معرکۃ الآراء مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا چاہئے اور شوافع کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے علاوہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی رفع یدین کرنا چاہئے۔ حق تو یہ ہے کہ دونوں طرف دلائل کے انبار ہیں اور احادیث و آثار کے ذخائز ہیں جن کی بنیادوں پر طرفین اپنے اپنے مسلک کی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ علمائے حنفیہ نے تمام احادیث میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ان حضرات کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کبھی تو رفع یدین کرتے ہوں اور کبھی نہ کرتے ہوں، یا یہ کہ پہلے تو آپ ﷺ رفع یدین کرتے تھے لیکن بعد میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مواقع کے لئے رفع یدین کو منسوخ قرار دے دیا گیا۔ حنفیہ کے پاس اپنے مسلک کی تائید میں بہت زیادہ احادیث و آثار ہیں انہیں یہاں ذکر کیا جاتا ہے تاکہ حنفی مسلک پوری طرف واضح ہوجائے۔ امام ترمذی (رح) نے ترمذی میں دو باب قائم کئے ہیں۔ پہلا باب تو رکوع کے وقت رفع یدین کا ہے۔ اس کے ضمن میں امام ترمذی (رح) نے عبداللہ ابن عمر (رض) کی حدیث نقل کی ہے جو اوپر مذکور ہوئی۔ دوسرا باب یہ ہے کہ ہاتھ اٹھانا صرف نماز کی ابتداء کے وقت دیکھا گیا ہے اس باب کے ضمن میں امام جامع ترمذی نے حضرت علقمہ (رض) کی وہ حدیث جو عبداللہ ابن مسعود (رض) سے مروی ہے نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) نے اپنے رفقاء سے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی نماز ادا کرتا ہوں چناچہ عبداللہ ابن مسعود (رض) نے نماز ادا کی اور انہوں نے صرف پہلی مرتبہ ہی (یعنی تکبر تحریمہ کے وقت) ہاتھ اٹھائے۔ اسی باب میں امام ترمذی (رح) نے براء بن عازب (رض) سے بھی اسی طرح منقول ہونا ثابت کیا ہے۔ نیز امام موصوف نے کہا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کی حدیث حسن ہے اور صحابہ وتابعین میں سے اکثر اہل علم اس کے قائل ہیں اور سفیان ثوری (رح) و اہل کوفہ کا قول بھی یہی ہے۔ جامع الاصول میں حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کی حدیث کو ابوداؤد و سنن نسائی کے حوالے سے اور براء ابن عازب (رض) کی حدیث کو بھی ابوداؤد کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ ﷺ نماز شروع فرماتے تھے تو (تکبیر تحریمہ کے وقت) دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے قریب تک اٹھاتے تھے اور ایسا دوبارہ نہیں کرتے تھے۔ اور ایک دوسری روایت میں یوں کہ پھر دوبارہ ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوجاتے تھے۔ اس موقع پر اتنی سی بات اور سنتے چلیے کہ اس حدیث کے بارے میں ابوداؤد نے جو یہ کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ تو ہوسکتا ہے کہ ان کے نزدیک صحیح ہونے سے مراد یہ ہو کہ اس خاص سند و طریق سے صحیح ثابت نہیں لہٰذا ایک خاص سند و طریق سے صحیح ثابت نہ ہونا اصل حدیث کی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ یا پھر یہ احتمال ہے کہ ابوداؤد کا مقصد اس حدیث کو حسن ثابت کرنا ہو جیسا کہ ترمذی نے کہا ہے لہٰذا اس صورت میں کہا جائے گا تمام ائمہ و محدثین کے نزدیک حدیث حسن قابل استدلال ہوتی ہے۔ حضرت امام محمد (رح) اپنی کتاب موطا میں حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کی اس روایت کو جس سے رکوع اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین ثابت ہوتا ہے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ۔ یہ سنت ہے کہ ہر مرتبہ جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر کہی جائے لیکن رفع یدین سوائے ایک مرتبہ (یعنی تحریمہ کے وقت) کے دوسرے مواقع پر نہ ہو اور یہ قول امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے اور اس سلسلے میں بہت زیادہ آثار وارد ہیں۔ چناچہ اس کے بعد عاصم ابن کلیب خرمی کی ایک روایت جسے عاصم نے اپنے والد مکرم سے جو حضرت علی المرتضیٰ کے تابعین میں سے ہیں روایت نقل کی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سوائے تکبیر اولیٰ کے رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ عبدالعزیز ابن حکم کی روایت نقل کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کو دیکھا وہ ابتداء نماز میں پہلی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے علاوہ اور کسی موقع پر رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ مجاہد کی روایت نقل کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے پیچھے نماز پڑھی ہے چناچہ وہ صرف تکبیر اولیٰ کے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ اسود سے منقول ہے کہ میں نے حضرت عمر ابن خطاب (رض) کو دیکھا کہ وہ صرف تکبیر اولیٰ کے موقع پر رفع یدین کرتے تھے۔ لہٰذا۔ جب حضرت عمر، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت علی المرتضیٰ (رض) جیسے جلیل القدر صحابہ کرام جو رسول اللہ ﷺ نے نہایت قرب رکھتے تھے ترک رفع یدین پر عمل کرتے تھے تو وہ عمل جو اس کے برخلاف ہے قبول کرنے کے سلسلے میں اولیٰ اور بہتر نہیں ہوگا۔ شرح ابن ہمام میں ایک روایت دار قطنی اور ابن عدی سے نقل کی گئی ہے جسے انہوں نے محمد ابن جابر سے انہوں نے حماد ابن سلیمان سے انہوں نے ابراہیم سے انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے عبداللہ سے روایت کیا ہے۔ عبداللہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر (رض) کے ہمراہ نماز پڑھی ہے چناچہ انہوں نے سوائے تکبیر اولیٰ کے اور کسی موقع پر رفع یدین نہیں کیا۔ منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوحنیفہ اور امام اوزاعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما مکہ کے دارالخیاطین میں جمع ہوئے۔ امام اوزاعی (رح) نے امام صاحب (رح) سے پوچھا کہ آپ ﷺ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟ حضرت امام صاحب نے جواب دیا اس لئے کہ آقاے نامدار ﷺ سے اس سلسلہ میں کچھ صحت کے ساتھ ثابت نہیں ہے ! امام اوزاعی نے فرمایا کہ مجھے زہری نے حضرت سالم کی یہ حدیث بیان کی کہ انہوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تکبیر اولیٰ کے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ حضرت امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ مجھ سے حماد نے ان سے ابراہیم نے اور ان سے علقمہ اور اسود نے اور ان دونوں نے حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ صرف ابتداء نماز میں دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے اور دوبارہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ یہ روایت سن کر امام اوزاعی نے کہا کہ میں نے تو زہری سے نقل کیا اور انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے نقل کیا ہے اور انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے نقل کیا ہے اور آپ اس کے مقابلے میں حماد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابراہیم سے اور انہوں نے عقلمہ سے نقل کیا ہے یعنی میری بیان کردہ سند آپ کی بیان کردہ سند سے عالی اور افضل ہے۔ حضرت امام اعظم نے فرمایا کہ اگر یہی بات ہے تو پھر سنو کہ حماد، زہری سے زیادہ فقیہ ہیں اور ابراہیم سالم سے زیادہ فقیہ ہیں اور اسی طرح علقمہ بھی حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے مقابلہ میں فقہ میں کم نہیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کو رسول اللہ ﷺ کی رفافت و صحابیت کا شرف حاصل ہے۔ نیز اسود کو بھی بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ اور عبداللہ تو خود عبداللہ ہیں۔ یعنی عبداللہ ابن مسعود (رض) کی تعریف و توصیف کیا کی جائے کہ علم فقہ میں اپنی عظمت شان اور رسول اللہ ﷺ کی رفاقت و صحبت کی سعادت و شرف کی وجہ سے مشہور ہیں۔ گویا۔ امام اوزاعی نے تو اسناد کے عالی ہونے کی حیثیت سے حدیث کو ترجیح دی اور حضرت امام اعظم نے راویان حدیث کے فقیہ ہونے کے اعتبار سے حدیث کو ترجیح دی۔ چناچہ حضرت امام اعظم کا اصول یہی ہے کہ وہ فقیہ راوی کو غیر راویوں پر ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ اصول فقہ میں مذکور ہے۔ نہایہ شرح ہدایہ میں عبداللہ ابن زبیر (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو مسجد حرام میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جو رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کر رہا تھا، انہوں نے اس آدمی سے کہا کہ ایسا مت کرو کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کو رسول اللہ ﷺ نے پہلے اختیار کیا تھا اور بعد میں اسے ترک کردیا یعنی ان مواقع پر رفع یدین کا حکم پہلے تھا اب منسوخ ہوگیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رفع یدین کیا تو ہم نے بھی رفع یدین کیا اور جب رسول اللہ ﷺ نے اسے ترک کردیا تو ہم نے بھی ترک کردیا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ عشرہ مبشرہ (یعنی وہ دس خوش نصیب صحابہ جن کو رسول اللہ ﷺ نے ان کی زندگی ہی میں جنتی ہونے کی خوشخبری دی تھی) صرف ابتداء نماز ہی میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ حضرت مجاہد حضرت عبداللہ ابن عمر کا معمول نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر کے پیچھے سالہا سال نماز ادا کی ہے مگر میں نے اس کو سوائے ابتداء نماز کے اور کسی موقع پر رفع یدین کرتے نہیں دیکھا۔ حالانکہ حضرت عبداللہ ابن عمر کی وہ روایت گزر چکی ہے۔ جس سے تینوں مواقع پر رفع یدین کا اثبات ہوتا ہے اور جو شوافع کی سب سے اہم دلیل ہے۔ لہٰذا اصول حدیث کا چونکہ قاعد ہے کہ راوی کا عمل اگر خود اس کی روایت کے خلاف ہو تو روایت پر عمل نہیں کیا جاتا اس لئے حضرت عبداللہ ابن عمر کی وہ روایت ساقط العمل قرار دی جائے گی۔ بہر حال۔ ان روایات وآثار سے معلوم ہوا کہ رفع یدین دونوں کے اثبات میں احادیث و آثار وارد ہیں اور صحابہ کی ایک جماعت خصوصاً حضرت عبداللہ مسعود اور ان کے تابعین رفع یدین نہ کرنے ہی کے حق میں ہیں۔ لہٰذا۔ ان تمام موافق و مخالف احادیث کا محمول یہی ہوسکتا ہے کہ ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اوقات مختلفہ میں دونوں طریقے وجود میں آئے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ کے علم فقہ اور ان کی اسناد کا نطقہ منتہا حضرت عبداللہ ابن مسعود اور ان کے تابعین کی ذات گرامی ہے اور چونکہ ان کا رجحان عدم رفع یدین کی طرف ہے اس لئے امام اعظم ابوحنیفہ کے ترک رفع یدین کے مسلک ہی کو اختیار کیا ہے اور اب تمام حنفیہ اسی مسلک کے حامی اور اس مسلک پر عامل ہیں۔ علمائے حنفیہ صرف اسی قدر نہیں کہتے بلکہ ان حضرات کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفع یدین کا حکم منسوخ ہے کیونکہ جب حضرت عبداللہ ابن عمر کے بارے میں یہ ثابت ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد یہ ترک رفع یدین ہی اختیار کرتے تھے باوجود اس کے کہ رفع یدین کی حدیث کے راوی یہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے تو رفع یدین کا حکم رہا ہوگا مگر بعد میں یہ حکم باوجود کثرت احادیث و آثار کے منسوخ ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) نے اس مسئلے کی پوری تفصیل اپنی کتاب شرح سفر السعادۃ میں نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہاں پیش کیا گیا ہے۔ ان کی تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ ان کے نزدیک رفع یدین اور عدم رفع یدین دونوں ہی سنت ہیں مگر رفع یدین نہ کرنا ہی اولیٰ اور راجح ہے البتہ دیگر علماء حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ رفع یدین کا حکم اور طریقہ منسوخ ہے۔ وا اللہ اعلم۔

【59】

جلسہ استراحت کا مسئلہ

اور حضرت مالک ابن حویرث (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار کو نماز پڑھتے دیکھا ہے چناچہ آپ ﷺ جب اپنی نماز کی طاق رکعت (یعنی پہلی یا تیسری) میں ہوتے تو جب تک سیدھے بیٹھ نہ لیتے اٹھتے نہ تھے۔ (صحیح البخاری ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب آپ ﷺ نماز پڑھتے اور پہلی یا تیسری رکعت میں دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو پہلے بیٹھتے تھے اس کے بعد اگلی رکعت کے لئے اٹھتے تھے اسی کو جلسہ استراحت کہا جاتا ہے۔ جلسہ استراحت سنت ہے یا نہیں ؟ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک جلسہ استراحت سنت ہے اور اس کا طریقہ وہی ہے جو پہلے قعدہ میں بیٹھنے کا ہے۔ نیز یہ کہ بیٹھنے کے بعد دونوں ہاتھوں سے زمین کا سہارا لے کر اٹھنا چاہئے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مختار قول یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا جلسہ استراحت کرنا چونکہ کبر سنی اور ضعف کی وجہ سے تھا اس لئے جس آدمی کو جلسہ استراحت کی حاجت نہ ہو اس کے لئے یہ سنت نہیں ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) کی مستدل یہی حدیث ہے اور حضرت امام اعظم (رح) کی دلیل حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے جس کو ترمذی نے بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ (پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے سے) پشت قدم پر یعنی بغیر بیٹھے ہوئے اٹھتے تھے اگرچہ اس حدیث کے بعض طرق ضعیف ہیں لیکن حدیث صحیح الاصل ہے۔ حضرت ابن ابی شیبہ، حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ وہ اپنے پشت قدم پر بغیر بیٹھے ہوئے اٹھتے تھے نیز انہوں نے حضرت علی المرتضیٰ ، حضرت عمر، حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت ابن زیبر (رض) کے بارے میں بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔ اور حضرت نعمان ابن ابی عباس (رض) کے بارے میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے بہت سے صحابہ کو دیکھا ہے کہ وہ جب پہلی اور تیسری رکعت میں سجدے سے سر اٹھاتے تھے تو جس حالت میں ہوتے تھے اسی حالت میں بغیر بیٹھے ہوئے اٹھ جاتے تھے۔ بہر حال۔ اس سلسلے میں بہت زیادہ احادیث و آثار وارد ہیں اور جو احادیث اس کے برعکس وارد ہیں ان کا محمول کبر سنی اور ضعف ہے جیسا کہ اس حدیث کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کبر سنی اور ضعف کی وجہ سے جلسہ استراحت اختیار فرماتے تھے۔

【60】

تکبیر تحریمہ کے بعد دونوں ہاتھ کہاں اور کس طرح رکھنے چاہئیں

اور حضرت وائل ابن حجر ( حضرت وائل بن حجر حضرمی (رض) ہیں۔ حضرموت کے شمار کردہ رئیسوں میں سے ہیں۔ جب یہ اپنے قبیلے کی طرف سے ایلچی بن کر آپ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے اپنی چارد مبارک زمین پر بچھا دی اور ان کو اس پر بٹھایا۔ پھر انہوں نے اسلام قبول کیا۔ علقمہ اور عبدالجبار ان کے صاحبزادے ہیں) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے نماز شروع کرتے وقت دونوں ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہی پھر ہاتھ کپڑے کے اندر کر لئے اور داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا۔ پھر جب رکوع میں جانے کا ارادہ کیا تو دونوں ہاتھ کپڑے سے نکال کر ان کو اٹھایا اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے گئے اور جب (رکوع سے اٹھتے وقت) سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو (اس وقت بھی) ہاتھوں کو اٹھایا پھر جب سجدہ کیا تو دونوں ہاتھوں کے درمیان کیا (یعنی اپنا سر مبارک دونوں ہتھیلیوں کے درمیان رکھا۔ (صحیح مسلم) تشریح بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے تکبیر تحریمہ کے بعد اپنے دونوں دست مبارک چادر میں ڈھانک لئے اور نیت باندھ لی مگر بعض حضرات فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے چادر میں ہاتھ نہیں ڈھانکے بلکہ اپنی آستینوں میں چھپا لئے۔ بہر حال علماء لکھتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کپڑوں میں جو چھپائے تھے تو اس کی وجہ غالباً سردی کی شدت ہوگی۔ تکبیر تحریمہ کے بعد داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا یوں تو تمام ائمہ کے نزدیک ایک مسئلہ ہے لیکن حضرت امام مالک (رح) کے نزدیک چھوڑنے رکھنا اولی ہے اور باندھنا بھی جائز ہے۔ اس بارے میں آئمہ کے ہاں اختلاف ہے کہ ہاتھ کہاں باندھے جائیں ؟ امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھنا چاہئے اور حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ سینے کے قریب یعنی ناف کے اوپر باندھنے چاہئیں۔ دونوں حضرات کے مطابق حدیثیں وارد ہیں چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ اس سلسلہ میں حکم یہی ہے کہ جہاں چاہے ہاتھ باندھ لے درست ہوگا لیکن اتنی بات جان لینی چاہئے کہ اس مسئلے میں کوئی خاص طریقہ چونکہ احادیث کے ذریعے چونکہ مستحسن نہیں تھا یعنی نہ تو ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے کا طریقہ خاص طور پر ثابت ہے نہ ناف کے نیچے بلکہ دونوں طریقے احادیث کے ذریعہ ثابت ہیں تو حضرت امام اعظم نے ان دونوں صورتوں میں اس صورت کو اختیار کیا جو ادب اور تعظیم کے سلسلہ میں مقرر و متعارف ہے اور وہ ناف کے نیچے باندھنا ہے کیونکہ انتہائی تعظیم و تکریم اور ادب و احترام کے موقع پر ہاتھ ناف کے نیچے ہی باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔

【61】

تکبیر تحریمہ کے بعد دونوں ہاتھ کہاں اور کس طرح رکھنے چاہئیں

اور حضرت سہل ابن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں کو حکم کیا جاتا تھا کہ نمازی کو نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کو اوپر رکھنا چاہئے۔ (صحیح البخاری ) تشریح اس حدیث سے اس طرح اشارہ مقصود ہے کہ احکم الحاکمین اور پروردگار عالم کے سامنے کھڑے ہونے والے کے لئے لازم ہے کہ وہ ادب و احترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے بلکہ انتہائی ادب و احترام کے ساتھ کھڑا رہے جس کا طریقہ یہ ہو کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر ناف کے نیچے رکھا رہے اور جیسا کہ بادشاہوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔

【62】

تکبیر تحریمہ کے بعد دونوں ہاتھ کہاں اور کس طرح رکھنے چاہئیں

اور حضرت ابوہریرۃ (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ جب نماز کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہونے کے وقت تکبیر کہتے پھر رکوع میں جانے کے وقت تکبیر کہتے اور جب رکوع سے اپنی پشت اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے پھر کھڑے ہی کھڑے ربنا لک الحمد کہتے پھر جب (سجدے کے لئے) جھکتے تو تکبیر کہتے اور (سجدے سے) سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے۔ پھر نماز پوری کرنے تک ساری نماز میں یہی کرتے تھے اور جب دو رکعتیں پڑھنے کے بعد اٹھتے تو تکبر کہتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس حدیث میں تکبیر تحریمہ اور رکوع و سجود کے مواقع پر صرف تکبیرات کا ذکر کیا گیا ہے ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

【63】

افضل نماز کون سی ہے؟

اور حضرت جابر راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا سب سے بہتر نماز وہ ہے جس میں قیام طویل (لمبا) ہو۔ (مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں طویل قیام کرنا یعنی زیادہ دیر تک کھڑے رہنا اور لمبی سورتیں پڑھنا افضل اور اعلیٰ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے مشقت و محنت زیادہ ہوتی ہے اور جذبہ خدمت اور اطاعت کا اظہار ہوتا ہے جو عبادت کی روح ہے۔ نماز میں قیام افضل ہے یا سجود ؟ علماء کے ہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ نماز میں آیا قیام افضل ہے یا سجود ؟ چناچہ بعض حضرات تو فرماتے ہیں کہ نماز میں سجود افضل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ قیام افضل ہے ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قیام میں قرآن پڑھا جاتا ہے اور سجدے میں تسبیح پڑھی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ قرآن تسبیح سے افضل ہے۔ حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے۔

【64】

رسول اللہ ﷺ کی نماز کا طریقہ

حضرت ابوحمید ساعدی (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار ﷺ کے دس صحابہ کی جماعت سے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز (کے طریقے) کو تم سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں صحابہ کی جماعت نے کہا کہ اچھا بیان کیجئے۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر کندھوں کے برابر لے جاتے اور تکبیر کہتے پھر قرأت کرتے۔ اس کے بعد تکبیر کہہ کر اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع میں جا کر دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنے پر رکھتے اور کمر سیدھی کرلیتے اور سر کو نہ نیچا کرتے تھے اور نہ بلند کرتے تھے (یعنی پیٹھ اور سربرابر رکھتے تھے) پھر سر اٹھاتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور دونوں ہاتھ اپنے دونوں پہلوؤں سے الگ رکھتے تھے اور اپنے پاؤں کی انگلیوں کو موڑ کر (ان کے رخ قبلے کی طرف) رکھتے تھے پھر سجدے سے سر اٹھاتے اور بایاں پاؤں موڑ کر (یعنی بچھا کر) اس پر سیدھے بیٹھ جاتے تھے یہاں تک کہ ہر عضو اپنی جگہ پر برابر آجاتا تھا۔ پھر تکبیر کہتے ہوئے (دوسرے) سجدے میں چلے جاتے اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے (سجدے سے) اٹھتے اور بایاں پاؤں موڑ کر اس اطمینان سے بیٹھتے (یعنی جلسہ استراحت کرتے) یہاں تک کہ بدن کا ہر عضو اپنی جگہ پر آجاتا تھا پھر دوسری رکعت میں بھی (سوائے ابتدائے رکعت میں سبحانک اللھم اور اعوذ باللہ) پڑھنے کے اسی طرح کرتے تھے اور جب وہ دو رکعت پڑھتے (یعنی تشہد) کے بعد کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے جیسے کہ نماز کو شروع کرنے کے وقت تکبیر کہتے تھے پھر باقی نماز اسی طرح پڑھتے تھے اور جب وہ سجدہ (یعنی آخری رکعت کا دوسرا سجدہ) کر چکتے جس کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے تو اپنا بایاں پاؤں باہر نکالتے اور بائیں طرف کو لھے پر بیٹھ جاتے اور پھر (تشہد وغیرہ پڑھنے کے بعد) سلام پھیرتے تھے۔ (یہ سن کر) وہ سب صحابہ بولے کہ بیشک تم نے سچ کہا ہے آنحضرت ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے (ابوداؤد و دارمی) ترمذی اور ابن ماجہ نے اس روایت کو بالمعنی نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ابوداؤد کی ایک روایت میں جو ابوحمید سے مروی ہے۔ یہ الفاظ ہیں پھر رکوع میں جا کر دونوں ہاتھ زانو پر اس طرح رکھے جیسے انہیں مضبوطی سے پکڑا ہو اور اپنے ہاتھوں کو (کمان کے) چلے کی طرح رکھا اور کہنیوں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے دور رکھا (گویا) کہ کہنیاں چلے کے مشابہ تھیں اور پہلو کمان کے مشابہ اور راوی فرماتے ہیں کہ پھر سجدے میں گئے تو اپنی ناک اور پیشانی کو زمین پر رکھا اور ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھا اور دونوں ہاتھوں کو کندھوں کی سیدھ میں اور دونوں رانوں کو کشادہ رکھا اور اپنے پیٹ کو دونوں سے الگ رکھا یہاں تک کہ سجدے سے فارغ ہوئے اور پھر اس طرح بیٹھے کہ بایاں پیر تو بچھا لیا اور داہنے پاؤں کی پشت قبلے کی طرف کی اور داہنا ہاتھ دائیں گھٹنے پر اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھ لیا اور (اشھد ان لا الہ الا اللہ کہنے کے وقت) اپنی انگلی یعنی سبابہ سے اشارہ کیا۔ (اور ابوداؤد ہی کی ایک اور دوسر روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھتے تو بائیں پاؤں کے تلوے پر بیٹھتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کرلیتے تھے اور جب چوتھی رکعت پڑھ کے بیٹھتے تو بائیں کو لھے کو زمین سے ملاتے اور دونوں پاؤں کو ایک طرف نکال دیتے تھے۔ تشریح انا اعلمکم بصلوۃ رسول اللہ ﷺ ( یعنی میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کے طریقہ کو تم سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں) ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی کسی خاص مصلحت و ضرورت کی بناء پر بغیر کسی غرور وتکبر اور نفسانیت کے اظہار کے طور پر اپنے علم کی زیادتی کا دعوی کرے تو جائز ہے۔ تکبیر تحریمہ سے پہلے ہاتھ اٹھانے چاہئیں حدیث کے الفاظ رفع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ ثم یکبر سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو پہلے رفع یدین کرتے اس کے بعد تکبیر تحریمہ کہتے چناچہ امام اعظم کا مسلک بھی یہی ہے کہ پہلے ہاتھ اٹھائے جائیں اس کے بعد تکبیر تحریمہ کہی جائے۔ سجدے کی تکمیل زمین پر ناک اور پیشانی دونوں رکھنے سے ہوتی ہے فامکن انفہ وجبھتہ الارض سے معلوم ہوا کہ سجدہ پیشانی اور ناک دونوں کو زمین پر رکھ کر کرنا چاہئے کیونکہ رسول اللہ ﷺ مستقل طور پر سجدہ اسی طرح کرتے تھے اور احادیث بھی اس کے موافق وارد ہیں لہٰذا سجدہ مکمل تو جب ہی ہوتا ہے کہ ناک اور پیشانی دونوں کو زمین پر رکھا جائے۔ اگر کسی مجبوری اور عذر کی بناء پر سجدے میں ان دونوں میں سے کسی ایک کو زمین پر نہیں رکھا تو مکروہ نہیں ہے۔ اور اگر بغیر کسی عذر اور مجبوری کے ایسا کیا تو اس میں یہ صورت ہوگی کہ اگر زمین پر پیشانی رکھی ہے ناک نہیں رکھی تو یہ متفقہ طور پر جائز ہوگا البتہ سجدہ مکروہ ہوگا اور اگر پیشانی نہیں رکھی بلکہ ناک رکھی تو امام اعظم کے نزدیک یہ بھی بکراہت جائز ہے مگر حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک جائز نہیں ہے اور اسی پر فتوی ہے۔ سبابہ کی تحقیق سبابہ شہادت کی انگلی کو کہتے ہیں۔ سب کے لغوی معنی گالی کے ہیں ایام جاہلیت میں اہل عرب جب کسی کو گالی دیتے تھے اس انگلی کو اٹھاتے تھے اس مناسب سے اس انگلی کا نام اسی وقت سے سبابہ رائج ہوگیا پھر بعد میں اس انگلی کا اسلامی نام مسبحہ اور سباحہ ہوگیا کیونکہ تسبیح و توحید کے وقت اس انگلی کو اٹھاتے ہیں۔ بہر حال۔ حدیث کے الفاط کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے التحیات میں کلمہ شہادت پڑھتے وقت اس انگلی سے اس طرح اشارہ کیا کہ نفی یعنی اشھد ان لا الہ کہتے وقت انگلی اٹھائی اور اثبات یعنی الا اللہ کہتے وقت انگلی رکھی دی

【65】

تکبیر تحریمہ اور ہاتھ اٹھانے کا طریقہ

اور حضرت وائل ابن حجر (رض) راوی ہیں کہ انہوں نے آقائے نامدار ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ ﷺ نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو اپنے دونوں ہاتھ اتنے اٹھائے کہ کندھوں کے برابر پہنچ گئے اور دونوں انگوٹھوں کو کانوں تک لے گئے پھر تکبیر کہی۔ (سنن ابوداؤد) اور سنن ابوداؤد ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ آپ ﷺ انگوٹھوں کو کانوں تک اٹھاتے تھے۔ تشریح یہ حدیث بھی حضرت امام اعظم کے مسلک کی تائید کر رہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہاتھ اٹھانے کے بعد تکبیر کہتے تھے اور انگوٹھوں کو کانوں کی لو تک اٹھاتے تھے۔

【66】

ہاتھ باندھنے کا طریقہ

اور حضرت قبیصہ ابن ہلب اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ ہم لوگوں کو نماز پڑھاتے تو (قیام میں) اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑتے تھے۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

【67】

تعدیل ارکان کی تعلیم

اور حضرت رفاعہ ابن رافع (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں آیا اور نماز پڑھی، پھر آقائے نامدار ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا، رسول اللہ ﷺ نے (سلام کا جواب دے کر) فرمایا کہ۔ اپنی نماز دوبارہ پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی اس آدمی نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ مجھے نماز پڑھنے کا طریقہ بتا دیجئے کہ نماز کس طرح پڑھوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم قبلے کی طرف متوجہ ہو تو اللہ اکبر (یعنی تکبیر تحریمہ) کہو پھر سورت فاتحہ اور جو کچھ اللہ چاہے پڑھو (یعنی سورت فاتحہ کے ساتھ جو سورت چاہو پڑھو) اور جب تم رکوع میں جاؤ تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے زانوؤں پر رکھو رکوع میں (اطمینان سے) قائم رہو اور اپنی پشت کو ہموار رکھو اور جب تم (رکوع سے) سر اٹھاؤ تو اپنی پشت کو سیدھا کرو اور سر اٹھاؤ (یعنی بالکل سیدھ ہوجاؤ) یہاں تک کہ تمام ہڈیاں اپنی اپنی جگہ پر آجائیں اور جب سجدہ کرو تو اچھی طرح سجدہ کرو اور جب تم سجدے سے سر اٹھاؤ تو اپنی بائیں ران پر بیٹھ جاؤ پھر اسی طرح ہر ایک رکوع و سجدے میں کرو، یہاں تک کہ رکوع، سجود، قومہ اور جلسہ) گویا ہر ایک رکن کی صحیح ادائیگی پر تمہیں اطمینان ہوجائے۔ حدیث کے یہ الفاظ مصابیح کے ہیں اور ابوداؤد نے اسے تھوڑے سے تغیر و تبدل کے ساتھ نقل کیا ہے نیز ترمذی اور نسائی نے بھی اس روایت کو بالمعنی نقل کیا ہے اور ترمذی کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو اس طرح وضو کرو جیسا کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے پھر کلمہ شہادت پڑھو (جیسا کہ وارد ہے کہ وضو کے بعد کلمہ شہادت پڑھنا ہی فضیلت کی بات ہے یا یہ کہ کلمہ شہادت سے مراد اذان ہے) پھر اچھی طرح نماز ادا کرو (یا فاقم کا مطلب یہ ہے کہ تکبیر کہو) اور قرآن میں سے جو کچھ تمہیں یاد ہو اس کو پڑھو اور کچھ یاد نہ تو الحمد اللہ، اللہ اکبر اور لا الہ لا اللہ کہو۔ پھر رکوع کرو۔ تشریح حدیث کے آخری الفاظ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جس آدمی کو قرآن کی کوئی سورت و آیت یاد نہ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ قرأت کی جگہ سبحان اللہ والحمد اللہ ولا الہ الا اللہ وا اللہ اکبر پڑھ لیا کرے۔ چناچہ یہ مسئلہ ہے کہ اگر کوئی کافر مسلمان ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز کا وقت آنے تک قرآن کی کم سے کم اتنی آیتیں جتنی آیات کا پڑھنا نماز میں فرض ہے یاد کرلے۔ اگر اس عرصہ میں اسے کچھ بھی یاد نہ ہوسکے تو وہ قرأت کی جگہ ذکر اور تسبیح و تہلیل کرلیا کرے اس کی نماز ادا ہوجائے گی۔

【68】

نماز کے بعد دعا مانگنی چاہئے

اور حضرت فضل ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا۔ (نفل) نماز دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت میں التحیات ہے اور (نماز کی روح) خشوع، عاجزی اور اظہار غریبی ہے پھر (نماز پڑھنے کے بعد) اپنے پروردگار کی طرف دونوں ہاتھ اٹھاؤ، (حضرت فضل فرماتے ہیں کہ ثم تقنع یدیک سے رسول اللہ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ نماز پڑھنے کے بعد تم) اپنے پروردگار کی طرف اپنے ہاتھوں کو اس طرح اٹھاؤ کہ ہاتھوں کی دونوں ہتھیلیاں منہ کی جانب ہوں (جو دعا کا طریقہ ہے) اور یہ کہو کہ اے میرے رب ! اے میرے رب ! اور جو آدمی ایسا نہ کرے (یعنی مذکورہ بالا طریقے پر عمل نہ کرے اور دعا نہ مانگے) تو اس کی نماز ایسی ہے، ویسی ہے (یعنی ناقص ہے) اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اس کی نماز ناقص ہے۔ (جامع ترمذی ) تشریح اس حدیث سے تین چیزوں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔ یعنی پہلی چیز تو یہ ہے کہ نفل نماز دو رکعت پڑھی جائے خواہ دن ہو یا رات۔ یعنی ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیا جائے چار رکعتوں کے بعد سلام نہ پھیرا جائے چناچہ حضرت امام شافعی (رح) نے اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ نفل نماز دو رکعت کر کے ہی پڑھنا افضل ہے۔ حضرت امام اعظم (رح) فرماتے ہیں کہ چاہے رات ہو چا ہے دن، نفل نماز چار چار رکعتیں کر کے پڑھنا ہی افضل ہے، حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک رات کو دو دو اور دن کو چار چار رکعتیں کر کے پڑھنا افضل ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) کی دلیل تو یہی حدیث ہے۔ حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے تراویح پر قیاس کرتے ہوئے یہ حکم دیا ہے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اپنی دلیل کے طور پر فرماتے ہیں کہ یہ بات صحیح طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کے بعد چار رکعت پڑھتے تھے، نیز ظہر کی نماز میں آپ ﷺ سے چار رکعتیں پڑھنا ثابت ہے۔ پھر اس کے علاوہ ایک چیز یہ بھی ہے کہ چار چار رکعت پڑھنے میں تحریمہ کے اندر زیادہ دیر تک رہنے کی وجہ سے زیادہ مشقت و محنت برداشت کرنی پڑتی ہے اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ جس عبادت میں مشقت زیادہ ہوتی ہے وہ افضل ہوتی ہے۔ امام ابوحنیفہ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد ( الصلوۃ مثنی مثنی) کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس ارشاد کی مراد یہ ہے کہ نفل نماز طاق نہیں ہے بلکہ اولیٰ درجہ دو رکعتیں ہیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ نماز کی روح اور نماز کی معراج خشوع و خصوع اور اظہار عاجزی ہے، بندہ نماز کے اندر جس قدر خشوع کرے گا خضوع سے کام لے گا اور پروردگار کے سامنے کھڑا ہو کر اس کی بڑائی و عظمت اور اپنی انتہائی بےچارگی و محتاجگی کا اظہار کرے گا نماز اسی قدر مقبولیت کے درجات کو پہنچے گی۔ خشوع کا مطلب یہ ہے کہ باطن میں بندہ اپنے عجز کا احساس کرے اپنے نفس کو عاجزی و انکساری کے راستے پر لگائے رہے گویا خشوع عجز باطنی کا نام ہے اور خضوع کا مطلب یہ ہے کہ بندہ ظاہری طور پر اپنے ہر عمل اور ہر زوایے سے اپنے عجز و انکساری کا اظہار کرے گو یا خضوع عجز ظاہری کا نام ہے۔ تیسری چیز یہ کہ نماز کے بعد دعا مانگنی چاہئے۔ یعنی جب بندہ اللہ کے دربار میں حاضری دے اور نماز پڑھ کر اپنی عبودیت و فرما نبرداری کا اظہار کر دے تو اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ نماز کے بعد اللہ کی درگاہ میں اپنے ہاتھوں کو اٹھا دے اور اپنی محتاجگی ولا چارگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی دینی دنیوی بھلائی میں اللہ کی مدد و نصرت کا طلب گار ہو۔

【69】

امام تکبیرات بآواز بلند کہے

اور حضرت سعید ابن حارث ابن معلی فرماتے ہیں کہ حضرت ابوسعید خدری (رض) نے ہمیں نماز پڑھائی چناچہ جب انہوں نے سجدے سے اپنا سر اٹھایا اور جب سجدے میں گئے نیز جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھے تو بلند آواز سے اللہ اکبر کہا اور فرمایا میں نے آقائے نامدار ﷺ کو اسی طرح (بآواز بلند تکبیرات کہتے) دیکھا ہے۔ (صحیح البخاری ) تشریح اس حدیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ امام کو چاہئے کہ وہ درمیان نماز تمام تکبیرات بآواز بلند کہے۔ یہاں صرف ان تین موقعوں کی تکبیرات کا ذکر یا تو اتفاقا کیا گیا ہے یا پھر کچھ لوگوں نے ان اوقات کی تکبیرات کا انکار کیا ہوگا اس لئے راوی نے صرف انہیں تکبیرات کو ذکر کیا۔ ویسے اسماعیل کی روایت میں بقیہ تکبیرات کا ذکر بھی موجود ہے چناچہ ان کی روایت کے ابتداء میں یہ الفاظ بھی مذکور ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) بیمار ہوگئے تھے یا کہیں چلے گئے تھے تو (ان کی عدم موجودگی میں) حضرت ابوسعید نے نماز پڑھائی چناچہ انہوں نے نماز شروع ہونے اور رکوع میں جانے کے وقت تکبیرات بآواز بلند کہیں اس کے بعد بقیہ حدیث بیان کی گئی ہے۔

【70】

امام تکبیرات بآواز بلند کہے

اور حضرت عکرمہ (آپ عبداللہ بن عباس کے آزاد کردہ غلام تھے نام عکرمہ اور کنیت ابوعبدا اللہ تھی ١٠٥ ھ بمعر ٨٠ سال آپ کا انتقال ہوا) ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے مکہ میں ایک بوڑھے آدمی (یعنی حضرت ابوہریرہ (رض) کے پیچھے نماز پڑھی انہوں نے نماز میں بائیس (مرتبہ) تکبیرات کہیں چناچہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے کہا کہ (معلوم ایسا ہوتا ہے) کہ یہ آدمی احمق ہے (جو اتنی زیادہ تکبیریں کہتا ہے) حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے فرمایا تیری ماں تجھے روئے یہ طریقہ تو حضرت ابوالقاسم محمد رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ (صحیح البخاری ) تشریح چار رکعتوں میں مع تکبیر تحریمہ کے بائیس تکبیرات ہوتی ہیں۔ چونکہ اس زمانہ میں مروان اور بنی امیہ نے نماز میں تکبیریں بآواز بلند کہنی چھوڑ دی تھیں اس لئے جب حضرت ابوہریرہ (رض) نے تکبیرات بآواز بلند کہیں تو حضرت عکرمہ (رض) کو سخت تعجب ہوا۔

【71】

امام تکبیرات بآواز بلند کہے

اور حضرت علی بن حسین ابن علی بطریق مرسل روایت فرماتے ہیں کہ۔ آقائے نامدار ﷺ نماز میں جب جھکتے (یعنی رکوع و سجود میں جاتے) اور جب (قومہ، جلسہ اور قیام کے وقت) اٹھتے تو تکبیر کہتے۔ آپ ﷺ ہمیشہ اسی طرح نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے ملاقات فرمائی ( یعنی وفات پائی) ۔ (مالک)

【72】

رفع یدین صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہے

اور حضرت علقمہ (رض) راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) نے ہم سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں آقائے نامدار ﷺ کی سی نماز نہ پڑھاؤں ؟ چناچہ عبداللہ ابن مسعود (رض) نے ہمیں (رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق) نماز پڑھائی اور صرف تکبیر تحریمہ کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے۔ (جامع ترمذی و ابوداؤد، سنن نسائی) اور ابوداؤد نے کہا کہ یہ حدیث اس طرح صحیح نہیں ہے۔ تشریح امام ترمذی (رح) نے اپنی کتاب میں رفع یدین کے مسئلہ سے متعلق دو باب قائم کئے ہیں۔ ایک باب تو رفع یدین کے اثبات میں اور دوسرا باب عدم رفع یدین کے اثبات میں۔ اسی دوسرے باب میں امام موصوف نے یہ حدیث نقل کی ہے اور کہا ہے کہ اس سلسلے میں براء ابن عازب سے بھی حدیث منقول ہے اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کی حدیث حسن ہے اس کے تابع صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت ہے۔ نیز سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا مسلک بھی اسی حدیث کے مطابق ہے۔ البتہ امام موصوف نے پہلے باب میں عبداللہ ابن مبارک (رح) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رفع یدین کی حدیث ثابت ہے اور عدم رفع یدین کے سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کی حدیث جو حنفیہ کی مستدل ہے ثابت نہیں ہے۔ بہر حال اس سے پہلے بتایا جا چکا ہے کہ حنفیہ کے مسلک عدم رفع یدین کے اثبات میں اس حدیث کے علاوہ اور بہت سی احادیث و آثار وارد ہیں جن کو پہلے ذکر بھی کیا جا چکا ہے۔

【73】

رفع یدین صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہے

اور حضرت ابوحمید الساعدی (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو (پہلے) قبلے کی طرف متوجہ ہوتے (پھر) دونوں ہاتھ اٹھاتے اور (اس کے بعد) اللہ اکبر فرماتے۔ (سنن ابن ماجہ)

【74】

رسول اللہ ﷺ کا اپنے پیچھے کی چیزوں کا معجزہ کے طور پر دیکھنا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے (ایک مرتبہ) ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی۔ آخر صف میں ایک آدمی کھڑا تھا جس نے ٹھیک طرح نماز نہیں پڑھی۔ جب اس آدمی نے سلام پھرا (تو رسول اللہ ﷺ نے اسے آواز دے کر فرمایا کہ اے فلاں ! کیا تم اللہ بزرگ و برتر سے نہیں ڈرتے ؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم نے نماز کس طرح پڑھی ہے ؟ تم تو یہ جانتے ہو ہو کہ جو کچھ تم کرتے ہو مجھے معلوم نہیں ہوتا حالانکہ اللہ کی قسم جس طرح میں اپنے سامنے کی چیزیں دیکھتا ہوں اسی طرح اپنے پیچھے کی چیزیں بھی دیکھ لیتا ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم ﷺ کو اس دنیا میں شریعت حق دے کر مبعوث فرمایا تو جہاں آپ ﷺ کی رسالت و نبوت کے دلائل و شواہد میں بہت ساری چیزیں دیں وہیں آپ ﷺ کو کچھ معجزات بھی عنایت فرمائے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کے ذہن و فکر پر رسول اللہ ﷺ کی عظمت و برتری اور آپ ﷺ کی سچائی و صداقت عیاں ہو سکے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ آپ ﷺ جس طرح اپنے سامنے اور آگے چیزوں کو دیکھ لیتے تھے ایسے ہی اپنے پیچھے کی چیزوں کو بھی دیکھنے پر قادر تھے اور یہ دیکھنا خرق عادت یعنی معجزہ کے طور پر ہوتا تھا جس کی راہنمائی الہام کے ذریعے ہوتی تھی۔ مگر اتنی بات یاد رکھ لیجئے کہ اس معجزے سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ آپ ﷺ کو علم غیب حاصل تھا کیونکہ اول تو یہ بتایا جا چکا ہے کہ آپ ﷺ کو یہ خصوصیت صرف معجزے کے طور پر حاصل تھی۔ نیزیہ کہ آپ ﷺ اس وصف پر از خود قادر نہ تھے بلکہ اس سلسلے میں وحی الہام کے ذریعے آپ ﷺ کی رہنمائی کی جاتی تھی۔ پھر یہ کہ آپ ﷺ کو یہ وصف ہمیشہ حاصل نہیں رہتا تھا بلکہ کبھی کبھی ایسا ہوجاتا تھا۔ اگر آپ ﷺ کو علم غیب حاصل ہوتا تو نہ صرف یہ کہ آپ ﷺ وحی الہام کی راہنمائی کے بغیر از خود اس وصف پر قاد ہوتے بلکہ یہ وصف آپ ﷺ کو ہمیشہ ہمیشہ حاصل ہوتا چناچہ اس کی تائید خود ایک روایت سے ہوتی ہے کہ غزوہ تبوک کے موقعہ پر رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کہیں غائب ہوگئی، جب بہت زیادہ تلاش کے بعد بھی اس کا کہیں پتہ نہ چلا تو منافقین نے کہنا شروع کیا کہ محمد ﷺ تو یہ فرماتے ہیں کہ میں آسمان کی باتیں تم تک پہنچاتا ہوں تو کیا وہ اتنا بھی نہیں جان سکتے کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم ! میں تو صرف انہیں چیزوں کو جان سکتا ہوں جن کے بارے میں میرا اللہ مجھے علم دے ! اور اب میرے اللہ نے مجھے (بتا دیا اور) دکھا دیا ہے کہ میری اونٹنی فلاں جگہ ہے اور اس کی مہار ایک درخت کی شاخ میں اٹکی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد منقول ہے کہ میں انسان ہوں، میں تو (ا اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر) یہ بھی نہیں جانتا کہ اس دیوار کے پیچھے کیا ہے ؟ شیخ سعدی (رح) نے اس حقیقت کی ترجمانی اس طرح کی ہے گہے برطارم اعلی نشینم گہے برپشت پائے خود نہ بینم بہر حال۔ رسول اللہ ﷺ کی حالت نماز آپ ﷺ کی دوسری حالتوں کے مقابلے میں زیادہ افضل و اعلیٰ ہوتی تھی اس لئے دوسرے مواقع کی بہ نسبت آپ ﷺ پر حالت نماز میں کائنات کی چیزوں کی حقیقت و معرفت کامل طور پر واضح و ظاہر ہوتی تھی۔ پھر یہ کہ رسول اللہ ﷺ کا نماز میں اللہ کے سامنے حاضر ہونا اور متوجہ الی اللہ ہونے کے یہ معنی نہیں تھے کہ آپ ﷺ کائنات سے بیخبر ہوجاتے تھے بلکہ نماز کی حالت میں آپ ﷺ اشیاء کائنات سے پوری پوری طرح باخبر رہتے تھے اور آپ ﷺ کا احساس و شعور پوری قوت سے اشیائے عالم کا ادراک کرتا تھا، چناچہ اللہ کے وہ نیک و فرمانبردار بندے بھی جو ریاضیت و مجاہدہ اور تعلق مع اللہ کی بناء پر کاملین کے درجے میں ہوتے ہیں حالت نماز میں کائنات کی اشیاء سے باخبر رہتے ہیں۔ اگر ایک طرف ان کے قلوب بارگاہ الٰہی میں پوری طرح حاضر رہتے ہیں تو دوسری طرف ان کے احساس و شعور دنیا کی چیزوں سے بھی مطلع رہتے ہیں اسی وجہ سے مشائخ فرماتے ہیں کہ نماز مقام کشف و حضور ہے نہ کہ محل غیبت اور استغراق !۔ بعض حضرات نے ان تمام مباحث سے ہٹ کر یہ بھی کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان دو سوراخ تھے جن کے ذریعے آپ ﷺ پیچھے کی جانب دیکھتے تھے۔ یہ روایت صحیح نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی ثبوت ہے بلکہ کسی ذہن کی افتراع محض ہے۔

【75】

تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھی جانے والی چیزوں کا بیان

نماز کے شروع میں جن دعاؤں اور اذکار کا پڑھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً انی وجھت الخ یا سبحانک اللھم الخ یا ان کے علاوہ دیگر دعائیں ان سب کو یا بعض کو فرائض و نوافل میں پڑھنا امام شافعی کے نزدیک مستحب ہے، امام اعظم، امام مالک اور امام احمد فرماتے ہیں کہ صرف سبحانک اللہم الح پڑھا جائے اور اس کے علاوہ جو دعائیں ثابت ہیں وہ سب نوافل پر محمول ہیں یعنی رسول اللہ ﷺ ان دعاؤں کو نفلوں میں پڑھا کرتے تھے۔ حضرت امام ابویوسف کے نزدیک سبحانک اللہم الخ اور انی وجہت الخ دونوں دعاؤں کو پڑھنا چاہئے۔ امام طحاوی نے بھی اس کو اختیار کیا ہے ان دونوں دعاؤں کی ترتیب میں نمازی کو اختیار ہے خواہ وہ پہلے سبحانک اللہم پڑھے یا انی وجہت کو پہلے پڑھ لے ویسے مشہور یہی ہے کہ انی وجہت، سبحانک اللہم کے بعد پڑھا جائے۔

【76】

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان رسول اللہ ﷺ کی دعا

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان مکمل خاموشی اختیار کرتے تھے (یعنی بآواز بلند نہ پڑھتے تھے) چناچہ میں نے (ایک دن) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، آپ ﷺ تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان خاموش ہوئے کیا پڑھا کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا میں یہ ( دعا) پڑھا کرتا ہوں۔ اَللّٰھُمَّ بَاعِدْبَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَا یَایَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ اَللّٰھُمَّ نَقِّنِیْ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْاَ بْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ اَللّٰھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِالْمَآءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ اے اللہ ! مجھ میں اور میرے گناہوں میں اتنا فاصلہ پیدا کر دے جیسا کہ تو نے مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ پیدا کر رکھا ہے (یعنی میرے گناہوں کو کمال بخشش عطا کر) اے اللہ ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کر دے جیسے سفید کپڑے سے میل دور کیا جاتا ہے (یعنی مجھے گناہوں سے کمال پاکی عطا کر) اے اللہ ! میرے گناہ پانی، برف اور اولوں سے دھو ڈال۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح دعا کے آخر جملہ (اے اللہ میرے گناہ پانی، برف اور دلوں سے دھو ڈال) سے یہ مراد ہے کہ الہ العالمین ! میرے گناہوں کو اپنے فضل و کرم کے مختلف طریقوں سے بخش دے۔ گویا یہاں بخشش میں مبالغہ مقصود ہے نہ کہ حقیقۃً ان چیزوں سے گناہوں کو دھونا۔

【77】

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان رسول اللہ ﷺ کی دعا

رسول اللہ ﷺ کس کس موقع پر کون کون سی دعائیں پڑھتے تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ جب نماز پڑھنے کھڑتے ہوتے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جب نماز شروع کرتے تو (پہلے) تکبیر (تحریمہ) کہتے۔ پھر یہ دعا پڑھتے۔ ( انی وجھت وجھی للذی فطر السموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ وبذلک امرت وانا من المسلمین اللھم انت الملک لا الہ الا انت انت ربی وانا عبدک ظلمت نفسی و اعترفت بذنبی فاغفرلی ذنوبی جمیعا انہ لا یغفر الذنوب الا انت واھدنی لا حسن الاخلاق لا یھدی لا حسنھا الا انت واصرف عنی سیھا لا یصرف عنی سیھا الا انت لبیک وسعدیک والخیر کلہ فی یدیک و الشر لیس الیک انا بک والیک تبارکت و تعالیبت استغفرک واتوب الیک) ترجمہ میں نے اپنا منہ اس ذات کی طرف متوجہ کیا جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے درحالی کہ میں حق کی طرف متوجہ ہونے والا اور دین باطل سے بیزار ہوں اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو شرک کرتے ہیں، میری نماز، میری عبادت میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہے جو دونوں جہانوں کا پروردگار ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اسی کا مجھے حکم کیا گیا ہے اور میں مسلمانوں (یعنی فرما نبرداروں) میں سے ہوں۔ اے اللہ ! تو بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو ہی میرا رب ہے اور میں تیرا ہی بندہ ہوں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں (چونکہ تو نے فرمایا ہے کہ جو بندہ اپنے گناہوں کا اعتراف و اقرار کرتا ہوا میری بارگاہ میں آئے میں اسے بخش دوں گا) لہٰذا تو میرے تمام گناہوں کو بخش دے کیونکہ تیرے علاوہ اور کوئی گناہ نہیں بخش سکتا اور بہترین اخلاق کی طرف میری رہنمائی کر کیونکہ تیرے سوا اور کوئی بہترین اخلاق کی طرف رہنمائی نہیں کرسکتا اور برے اخلاق کو مجھ سے دور کر دے کیونکہ بجز تیرے اور کوئی بد اخلاقی سے مجھے نہیں بچا سکتا۔ میں تیری خدمت میں حاضر ہوں اور تیرا حکم بجا لانے پر تیار ہوں۔ تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں اور برائی تیری جانب منسوب نہیں کی جاتی، میں تیرے ہی سبب سے ہوں اور تیرا حکم ہی کی طرف رجوع کرتا ہوں تو بابرکت ہے اور اس بات سے بلند ہے (کہ تیری ذات وصفات کی حقیقت و کنہ تک کسی عقل کی رسائی ہوسکے) میں تجب سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیرے ہی سامنے توبہ کرتا ہوں۔ اور جب آپ ﷺ رکوع میں جاتے تو یہ (دعا) پڑھتے۔ (اللھم لک رکعت وبک امنت ولک اسلمت خشع لک سمعی وبصری ومخی وعظمی وعصبی ) ترجمہ اے اللہ ! میں نے تیرے ہی لی رکوع کیا اور تجھ پر ایمان لایا اور تیرے ہی لئے اسلام لایا اور میری سماعت، میری بینائی، میرا ذہن میری ہڈی اور میرے پٹھے جھکے ہوئے ہیں۔ اور جب (رکوع سے) سر اٹھاتے تو یہ (دعا) پڑھتے۔ اللھم ربنا لک الحمد ملا السموت والارض وما بینھما دملا ما شت من شی بعد اے اللہ ! رب ہمارے ! تیرے ہی لئے حمد ہے آسمانوں اور زمینوں کے برابر اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کے برابر اور اس چیز کے برابر جو بعد میں تو پیدا کرے یعنی آسمانوں اور زمین وغیرہ کے بعد اور جو معدوم چیزیں پیدا کرنا چاہئے۔ اور جب سجدہ میں جاتے تو یہ (دعا) پڑھتے۔ اللھم لک سجدت وبک امنت ولک اسلمت سجد وجھی للذی خلقہ وصورہ وشق سمعہ وبْصرۃ تبارک اللہ احسن الخالقین اے اللہ ! میں نے تیرے لئے سجدہ کیا، تجھ پر ایمان لایا اور تیرے ہی لئے اسلام سے بہرہ ور ہوا، میرے منہ نے اسی ذات کو سجدہ کیا جس نے اس کو پیدا کیا اس کو صورت دی، اس کے کان کھولے اور اس کی آنکھ کھولی۔ اللہ بہت بابرکت اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔ اور پھر سب سے آخری دعا جو التحیات اور سلام پھیرنے کے درمیان ہوتی یہ ہے۔ اللھم اغفرلی ما قدمت وما اخرت وما اسررت وما اعلنت وما اسرفت وما انت اعلم بہ منی انت المقدم وانت الموخر لا الہ الا انت اے اللہ ! میرے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دے اور ان گناہوں کو بخش دے جو میں نے پوشیدہ اور اعلانیہ کئے ہیں اور (اس) زیادتی کو بخش دے (جو میں نے اعمال اور مال خرچ کرنے میں کی ہے) اور ان گناہوں کو بھی بخش دے جن کا علم مجھ سے زیادہ تجھ کو ہے اور تو اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے عزت و مرتبہ میں آگے کرنے والا اور جس کو چاہے پیچھے ڈالنے والا ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ (صحیح مسلم) اور امام شافعی کی روایت میں (پہلی دعا میں یدیک) کے بعد یہ الفاظ ہیں۔ والشر لیس الیک والمہدی من ھدیت انا بک والیک لا منجا منک ولا ملجا الا الیک تبارکت یعنی برائی تیری طرف منسوب نہیں ہے اور ہدایت یافتہ وہی ہے جس کو تو نے ہدایت بخشی اور میں تیری ہی قوت کے ذریعے ہوں اور تیری طرف رجوع کرنے والا ہوں۔ نہیں ہے نجات (اور بےپروائی) تیری ذات سے اور نہیں ہے پناہ مگر تیری طرف اور تو ہی بابرکت ہے۔ تشریح والشر لیس الیک (یعنی برائی تیری طرف منسوب نہیں ہے) کا مطلب یہ ہے کہ از راہ ادب و تعظیم برائی کی نسبت تیری طرف نہیں کی جاتی اگرچہ برائی و بھلائی کا خالق تو ہی ہے اگر تو نے ایک طرف بھلائی کو پیدا کیا ہے تو دوسری طرف برائی کی بھی تخلیق کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر حق تعالیٰ نے برائی کو پیدا کیا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ اگر کوئی قباحت و برائی ہے تو وہ بندہ کے ارتکاب میں ہے جیسا کہ ارشاد ہے۔ من شر ماخلق یعنی میں مخلوق کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ والشر لیس الیک کے معنی یہ ہیں کہ برائی وہ چیز ہے جو تیرے تقرب اور تیری خوشنودی کے حصول کا ذریعہ نہیں ہے یا یہ کہ برائی تیری طرف صعود نہیں کرتی تیری بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی۔ جیسا کہ بھلائی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ الیہ یصعد الکلم الطیب یعنی (اس پروردگار) کی طرف نیک و پاکیزہ باتیں صعود کرتی ہیں یعنی مقبولیت کا درجہ پاتی ہیں) ۔

【78】

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان رسول اللہ ﷺ کی دعا

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ( ایک دن) ایک آدمی آیا اور نماز کی صف میں شامل ہوگیا۔ اس کا سانس چڑھا ہوا تھا اس نے کہا اللہ اکبر، الحمد اللہ حمد طیبا مبارکا فیہ (یعنی اللہ بہت بڑا ہے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ایسی تعریفیں جو بہت زیادہ پاکیزہ اور بابرکت ہیں) جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ چکے تو پوچھا کہ تم میں سے یہ کلمات کس نے کہے تھے ؟ سب لوگ (جو نماز میں حاضر تھے اس خوف سے کہ شاید ہم سے کوئی خطا سرزد ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار ہے) خاموش رہے، آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہ تم میں سے کس نے یہ کلمات کہے تھے ؟ پھر بھی کسی نے جواب نہیں دیا، آپ ﷺ نے پھر (تیسری مرتبہ) فرمایا کہ تم میں سے کس نے یہ کلمات کہے تھے (اور خوف نہ کرو کیونکہ) جس نے یہ کلمات کہے تھے اس نے کوئی بری بات نہیں کی ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ جب میں آیا تو میرا سانس چڑھا ہوا تھا اور میں نے یہ کلمات کہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ میں نے دیکھا کہ بارہ فرشتے جلدی کر رہے تھے کہ ان کلموں کو (پروردگار کی بارگاہ میں) پہلے کون لے جائے۔ (صحیح مسلم) تشریح اس آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے استفسار پر جو یہ کہا کہ جب میں آیا تو میرا سانس چڑھا ہوا تھا اور میں نے یہ کلمات کہے تھے تو اس کا یہ کہنا بیان حقیقت اور اظہار واقعہ کے طور پر تھا۔ ان کلمات کے کہنے کے سلسلہ میں کسی عذر کا بیان کرنا مقصود نہیں تھا۔

【79】

تکبیر تحریمہ کے بعد کی دعا

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ جب نماز شروع کرتے تو (تکبیر تحریمہ کے بعد) یہ پڑھا کرتے تھے۔ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَ تَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکْ اللہ تو پاک ہے اور ہم تیری پاکی تیری تعریف کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ تیرا نام بابرکت ہے، تیری شان بلندو برتر ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کی ہے نیز ابن ماجہ نے (بھی) اس روایت کو ابوسعید (رض) سے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو ہم سوائے (بواسطہ) حارثہ راوی کے نہیں جانتے اور اس میں قوت حافظہ کے فقدان کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے۔ تشریح علامہ طیبی شافعی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ یہ حدیث حسن مشہور ہے اور اس حدیث پر خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر فاروق (رض) نے عمل کیا ہے نیز یہ حدیث مسلم میں بھی منقول ہے۔ اس موقعہ پر علامہ موصوف نے اس حدیث کی تقویت کے بارے میں بہت لمبی چوڑی بحث کی ہے جسے اہل علم و نظر ان کی کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔

【80】

تکبیر تحریمہ کے بعد کی دعا

اور حضرت جبیر ابن مطعم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے چناچہ آپ (تکبیر تحریمہ کے بعد کہتے تھے اَ اَکْبَرُ کَبِیْرًا اَ اَکْبَرُ کَبِیْرًا اللہ اَکْبَرُ کَبِیْرًا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَسُبْحَانَ ا بُکْرَۃَ وَّاصِیْلَا (یعنی اللہ بہت بڑا و برتر ہے اللہ بہت بڑا و برتر ہے، اللہ بہت بڑا و برتر ہے، اللہ کے واسطے بہت تعریف ہے۔ اللہ کے واسطے بہت تعریف ہے میں اور پاکی بیان کرتا ہوں اللہ کی صبح و شام، تین مرتبہ پہلے کلمات کی طرح وَسُبْحَانَ ا بُکْرَۃَ وَّاصِیْلَا کو بھی تین مرتبہ کہتے تھے اور پھر اس کے بعد یہ کہتے تھے) اَعُوْذُ بِا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ نَفْخِہ وَنَفَثِہ وَھَمَزِہ (یعنی شیطان کے تکبر، اس کے شعروں اور اس کے وسوسوں سے پناہ مانگتا ہوں، اس حدیث کو ابوداؤد اور سنن ابن ماجہ نے نقل کیا ہے البتہ ابن ماجہ نے وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا ذکر نہیں کیا ہے اور آخر میں مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ذکر کیا ہے۔ نیز حضرت عمر (رض) فرماتے تھے کہ شیطان کے نفخ سے تکبر، اس کے نفث سے شعر اور اس کے ہمز سے جنون مراد ہے۔ تشریح نفح شیطان سے مراد تکبر و خود پسندی ہے جس میں شیطان آدمی کو اس طرح پھنساتا ہے کہ اس کو خود اس کی نظر میں اس حیثیت سے دکھاتا ہے کہ وہ آدمی اپنے آپ کو اچھا اور اعلیٰ سمجھ کر تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے اس طرح شیطان آدمی سے تکبر کا ارتکاب کراتا ہے۔ گویا نفح شیطان کا مطلب یہ ہوا کہ شیطان آدمی میں تکبر کی لہر پھونک دیتا ہے۔ نفث سے جس کے معنی دم کرنے یعنی پھونکنے کے ہیں سحر مراد لیا گیا ہے جو شیطان آدمی پر کرتا ہے یا آدمی سے کسی دوسرے پہ کراتا ہے یہ معنی ارشاد ربانی آیت ( وَمِنْ شَرِّالنَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ ) سورت الناس) کی مناسبت سے زیادہ اولیٰ ہے کیونکہ اس آیت کریمہ میں نَفّٰثٰتِ سے مراد سحر کرنے والی عورتیں ہیں۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ نفثت سے مراد غیر سنجیدہ اور برے مضمون کے اشعار ہیں جنہیں شیطان آدمی کے تخیل میں ڈالتا ہے اور پھر انہیں اس کی زبان سے صادر کراتا ہے جیسے برے منتر یا وہ غلط اشعار جن میں مسلمانوں کی ہجو اور کفر و فسق کے الفاظ ہوتے ہیں۔ ھمز سے مراد غیبت کرنا اور لعن و طعن کرنا ہے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ ہمز شیطان سے اس کا وسوسہ مراد ہے جیسا کہ اس آیت (وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ ) 23 ۔ المومنون 67) میں ہمزات سے مراد شیطان کے وسو سے لئے گئے ہیں۔ بہر حال یہ معانی اسی وقت مراد لئے جائیں گے جب کہ یہ ثابت ہوجائے کہ حدیث میں حضرت عمر (رض) سے ان تینوں الفاظ کی جو توضیح نقل کی گئی ہے وہ حضرت عمر فاروق (رض) کا قول نہیں ہے بلکہ کسی راوی کا ہے۔ اگر یہ توضیح صحیح طور پر حضرت عمر فاروق (رض) سے ثابت ہو تو پھر وہی معنی مراد ہوں جو حضرت عمر فاروق (رض) سے منقول ہیں اور ان کے علاوہ دوسرے معنی مراد نہیں لئے جائیں گے۔

【81】

رسول اللہ ﷺ نماز میں دو جگہ خاموشی اختیار کرتے تھے

اور حضرت سمرۃ ابن جندب (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار ﷺ سے دو سکتے (یعنی چپ رہنا) یاد رکھے ہیں۔ ایک سکتہ تو تکبیر تحریمہ کہہ لینے کے بعد اور ایک سکتہ آپ ﷺ اس وقت کرتے تھے جب آیت (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ ) پڑھ کر فارغ ہوتے تھے۔ حضرت ابی ابن کعب نے (بھی سمرہ کے) اس قول کی تصدیق کی ہے۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، دارمی) تشریح تکبیر تحریمہ کے بعد خاموشی اختیار کرنے سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ اس وقت بآواز بلند نہیں پڑھتے تھے چناچہ اس موقعہ پر دعائے استفتاح (یعنی سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ الخ) پڑھنے کے لئے خاموشی اختیار کرنا تمام آئمہ کے نزدیک متفق علیہ مسئلہ ہے۔ دوسری جگہ یعنی سورت فاتحہ ختم کرنے کے بعد خاموشی اختیار کرنا حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک سنت ہے تاکہ مقتدی اس عرصے میں سورت فاتحہ پڑھ لیں اور امام کے ساتھ منازعت لازم نہ آئے جو ممنوع ہے حنفیہ اور مالکیہ مسلک میں سورت فاتحہ پڑھنے کے بعد خاموشی اختیار کرنا مکروہ ہے۔

【82】

رسول اللہ ﷺ نماز میں دو جگہ خاموشی اختیار کرتے تھے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ جب دوسری رکعت پڑھنے کے بعد اٹھتے تو الحمد اللہ رب العالمین شروع کردیتے تھے اور خاموش نہ رہتے تھے (صحیح مسلم) اس روایت کو حمیدی نے اپنی کتاب افراد میں ذکر کیا ہے۔ نیز صاحب جامع الاصول نے بھی اس روایت کو مسلم سے نقل کیا ہے۔ تشریح چونکہ یہ وہم ہوسکتا تھا کہ دوسری رکعت کے بعد دوسرا شفعہ شروع ہونے کے وقت شاید سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ پڑھنے کے لئے خاموشی اختیار کرتے ہوں اس لئے حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس کی وضاحت کردی کہ جب آپ ﷺ دوسری رکعت کے بعد دوسرے شفعہ کے لئے اٹھتے تھے تو سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ نہیں پڑھتے تھے بلکہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ شروع کردیتے تھے۔ یہ بھی محتمل ہے کہ اس کے معنی یہ ہوں کہ جب آپ دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے تھے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ کردیتے تھے۔ واللہ اعلم۔

【83】

تکبیر تحریمہ کے بعد کی دعا

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ جب نماز شروع کرتے تو (پہلے) تکبیر تحریمہ (یعنی اللہ اکبر) کہتے پھر یہ دعا پڑھتے اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہ، وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَ عْمَالِ وَاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَا یَھْدِیْ لِاَ حْسَنِھَا اِلَّا اَنْتَ وَقِنِیْ سَیِّئَ الْاَعْمَالِ وَسَیِّئَ الْاَ خْلَاقِ لَا یَقِیْ سَیِّئَھَا اِلاَّ اَنْتَمیری نماز میری عبادت میری زندگی اور میری موت (سب کچھ) پروردگار عالم ہی کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان (یعنی فرما نبردار) ہوں۔ اے اللہ ! نیک اعمال اور حسن اخلاق کی طرف میری رہنمائی کر کیونکہ بہترین اعمال و اخلاق کی طرف تو ہی رہنمائی کرسکتا ہے اور مجھے برے اعمال و بد اخلاقی سے بچا کیونکہ برے اعمال و اخلاق سے تو ہی بچا سکتا ہے۔ (سنن نسائی) تشریح اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنْ (یعنی میں سب سے پہلا مسلمان ہوں) کی تشریح میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ خصوصیت صرف رسول اللہ ﷺ کو ہی حاصل ہے کہ سب سے پہلا اسلام آپ ﷺ کا ہے کیونکہ پیغمبر اپنی امت میں سب سے پہلا مسلمان ہوتا ہے چونکہ قرآن میں رسول اللہ ﷺ کو اس کا حکم دیا گیا ہے کہ اس طرح کہیں اس لئے آپ ﷺ کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے یہ بات کہ وہ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنْ کہنادرست نہیں ہے بلکہ ایک قسم کو جھوٹ ہوگا چناچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اگر کوئی آدمی نماز میں اس طرح کہے تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ لیکن اس سلسلے میں صحیح یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی ان الفاظ کو آیت قرآن کی تلاوت کی نیت سے نہ کہ اپنی حالت کی خبر دینے کی نیت سے ادا کرے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔ اس مسئلے میں ایک خیال یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اس جملے کو خبر قرار نہ دے بلکہ اس کا مقصد تجدید ایمان و اسلام کی انشاء اور اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے جیسا کہ امراء و سلاطین کے تابعدار لوگ کسی حکم کے صادر ہونے کے وقت کہتے ہیں کہ جو بھی حکم ہو اس کی اطاعت پہلے جو کرے گا وہ میں ہوں گا۔ گویا اس طرح اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔

【84】

تکبیر تحریمہ کے بعد کی دعا

اور حضرت محمد بن مسلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ جب نماز نفل پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو یہ کہتے اللہ اَکْبَرُ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ترجمہ اللہ بہت بڑا ہے۔ میں نے اپنا منہ اس ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے در حالیکہ میں توحید کو ماننے والا ہوں اور مشرکین میں سے نہیں ہوں۔ (اس کے بعد راوی نے) حضرت جابر ( کی مذکورہ بالا حدیث) کی مانند حدیث بیان کی ہے لیکن محمد نے (وَ اَنَا اَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَ کی جگہ) وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ کے الفاظ ذکر کئے ہیں۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ ﷺ یہ فرماتے ہیں اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْمٰلِکُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ اے اللہ ! تو ہی بادشاہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے اور تیرے ہی لئے تعریف ہے۔ اس کے بعد (تعوذ و بسملہ پڑھ کر) قرأت کرتے تھے۔ (سنن نسائی )

【85】

نماز میں قراءت کا بیان

کتنی رکعتوں میں قرأت فرض ہے نماز میں قرأت یعنی قرآن کریم پڑھنا تمام علماء کے نزدیک متفقہ طور پر فرض ہے البتہ اس میں اختلاف ہے کہ کتنی رکعتوں میں پڑھنا فرض ہے ؟ چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک پوری نماز میں قرأت فرض ہے۔ حضرت امام مالک (رح) کے ہاں للا کثر حکم الکل (اکثر کل کے حکم میں ہے) کے کلیہ کے مطابق تین رکعت میں فرض ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کے مطابق در رکعتوں میں قرأت فرض ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل (رح) کا مسلک قول مشہور ہے کے مطابق امام شافعی (رح) کے مسلک کے موافق ہے۔ حضرت حسن بصری اور حضرت زفر رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک صرف ایک رکعت میں قرأت فرض ہے۔

【86】

نماز میں سورت فاتحہ پڑھنے کا بیان

حضرت عبادہ بن صامت (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے (نماز میں) سورت فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز پوری نہیں ہوئی۔ (صحیح البخاری، مسلم) اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں اس آدمی کی نماز نہیں ہوتی جو سورت فاتحہ اور اس کے بعد قرآن سے کچھ نہ پڑھے۔ تشریح صحیح مسلم کی آخری روایت کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں سورت فاتحہ کے ساتھ قرآن کی کوئی اور سورت یا اور کچھ آیتیں پڑھنا بھی ضروری ہے۔ نماز میں سورت فاتحہ پڑھنے کے مسئلے میں آئمہ کے مسلک اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں سورت فاتحہ پڑھنا فرض ہے اگر کوئی آدمی سورت فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوگی۔ چناچہ اسی حدیث سے امام شافعی (رح) نے اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل (رح) نے یہ استدلال کیا ہے کہ نماز میں سورت فاتحہ پڑھنا فرض ہے کیونکہ حدیث نے صراحت کے ساتھ ایسے آدمی کی نماز کی نفی کی ہے جس نے نماز میں سورت فاتحہ نہیں پڑھی۔ حضرت امام اعظم (رح) کے نزدیک نماز میں سورت فاتحہ پڑھنا فرض نہیں ہے بلکہ واجب ہے۔ اس حدیث کے بارے میں امام صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ یہاں نفی کمال مراد ہے یعنی سورت فاتحہ کے نماز ادا تو ہوجاتی ہے مگر مکمل طور پر ادا نہیں ہوتی۔ اس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے آیت ( فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ) 73 ۔ المزمل 20) (یعنی قران میں سے جو پڑھنا آسان ہو وہ پڑھو، اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں سورت فاتحہ پڑھنا فرض نہیں بلکہ مطلق قرآن کی کوئی بھی سورت یا آیتیں پڑھنا فرض ہے۔ اس کے علاوہ خود رسول اللہ ﷺ نے بھی ایک اعرابی کی نماز کے سلسلے میں یہ تعلیم فرمائی تھی کہ فاقرؤ ماتیسر معک من القران (یعنی تمہارے لئے قرآن میں سے جو کچھ پڑھنا آسان ہو وہ پڑھو) بہر حال۔ حنفیہ مسلک کے مطابق نماز میں فرض کہ جس کے بغیر نماز ادا نہیں ہوتی قرآن کی ایک آیت یا تین آیتوں کا پڑھنا ہے خواہ سورت فاتحہ ہو یا دوسری کوئی سورت اور سورت فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے اس کے بغیر نماز ناقص ادا ہوتی ہے۔

【87】

سورت فاتحہ نہ پڑھنے سے نماز ناقص ادا ہوتی ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا جو آدمی نماز پڑھے اور اس میں سورت فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی وہ نماز ناقص ہے (آپ ﷺ نے یہ) تین مرتبہ (فرمایا کہ وہ نماز ناقص ہے) حضرت ابوہریرہ (رض) سے (یہ سن کر) کسی نے پوچھا کہ جب ہم امام کے پیچھے ہوں (تو اس وقت بھی پڑھیں ؟ ) انہوں نے کہا کہ (ہاں ! مگر) اپنے دل میں آہستہ سے پڑھو کہ بس تم ہی سن سکو اس لئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ میں نے نماز (یعنی سورت فاتحہ) اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے۔ (اس طرح کہ حمد و ثنا تو میرے لئے ہے اور دعا بندے کے لئے) اور بندہ جو کچھ مانگے وہ اسے دیا جائے گا چناچہ جب بندہ کہتا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ (یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو سارے جہان کا پروردگار ہے) تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے نے میری تعریف بیان کی، جب بندہ کہتا ہے الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ (یعنی اللہ بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے) تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہے کہ میرے بندے نے میری ثنا بیان کی جب بندہ کہتا ہے ملک یوم الدین کہ اللہ انصاف کے دن کا مالک ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعظیم کا اظہار کیا ہے جب بندہ کہتا ہے ایاک نَعْبُدُ وَاِیاکَ نَسْتَعِینُ یعنی (اے پروردگار ! ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے (یعنی عبادت اللہ کے لئے ہیں اور مدد مانگنا بندے کے لئے ہے) اور میرا بندہ جو مانگے گا وہ اسے ملے گا۔ جب بندہ کہتا ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ صِرَاطَ الَّذِینَ اَنْعَمْتَ عَلَیھِمْ غَیرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیھِمْ وَلَا الضَّآلِّینَ یعنی ( اے پروردگار) ہم کو سیدھے راستے پر چلا ان لوگوں کے راستے جن پر تیرا فضل و کرم رہا ہے نہ کہ ان کے راستے پر جن پر تیرا غضب رہا ہے اور نہ گمراہوں کے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے بندہ کے لئے ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور بندہ جو مانگے گا وہ اسے ملے گا۔ (صحیح مسلم) تشریح قسمت الصلوۃ بینی و بین عبدی نصفین (میں نے نماز اپنے اور بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے) میں نے نماز سے مراد سورت فاتحہ ہے جیسے کہ ترجمے میں ظاہر کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے مقتدی کو بھی سورت فاتحہ پڑھنے کے لئے کہا اور مابعد کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جب سورت فاتحہ کی ایسی فضیلت ہے تو مقتدی کو بھی سورت فاتحہ پڑھنی چاہئے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ سورت فاتحہ کی سات آیتیں ہیں۔ تین آیتیں یعنی الحمد سے ملک یوم الدین تک تو خالص اللہ تعالیٰ کی مدح و ثنا میں ہیں اور ایک آیت یعنی ایاک نعبد وایاک نستعین میں بندے کی جانب سے حاجت کی طلب اور مدد کی درخواست ہے اور بعد کی جو تین آیتیں ہیں وہ صرف بندے کی دعا پر مشتمل ہیں۔ بسم اللہ سورت فاتحہ کا جزء نہیں ہے ۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بسملہ (یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم) داخل فاتحہ اور اس کا جزء نہیں ہے جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے کیونکہ اگر بسم اللہ کو سورت فاتحہ کا جزء قرار دے کر بجائے ساتھ کے آٹھ آیتیں شمار کی جائیں تو تقسیم صحیح نہیں ہوگی اور ایک طرف تو ساڑھے چار آیتیں ہوجائیں گی اور ایک طرف ساڑھے تین رہ جائیں گی لہٰذا اس صورت میں نصف نصف تقسیم صحیح نہیں رہے گی۔ نیز یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سورت فاتحہ کی سات آیتوں میں سے صراط الذین انعمت علیھم بھی ایک آیت ہے۔ سورت فاتحہ کے سلسلے میں اس باب کے پہلی حدیث کے فائدہ کے ضمن میں آئمہ کے مذاہب کو نقل کیا گیا تھا اور حنفی مسلک کی وضاحت کی گئی تھی لیکن اس موقعہ پر اس بحث میں کچھ تشنہ رہ گئی تھی اس لئے ہم یہاں کچھ وضاحت کے ساتھ اس بحث کو پیش کرتے ہیں۔ مقتدی کو سورت فاتحہ پڑھنی چاہئے یا نہیں سورت فاتحہ کے سلسلے میں ائمہ کے ہاں دو بحثیں چلتی ہیں اول تو یہ کہ مطلقاً سورت فاتحہ پڑھا فرض ہے یا نہیں ؟ چناچہ اس بحث کی توضیح پہلے کی جا چکی ہے کہ امام شافعی (رح) کے نزدیک سورت فاتحہ پڑھنا فرض ہے اور امام اعظم کے نزدیک واجب ہے۔ دوسری بحث یہ ہے کہ سورت فاتحہ مقتدی کو پڑھنی چاہئے یا نہیں ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) کے اس قول سے تو یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ مقتدی کو سورت فاتحہ پڑھنی چاہئے چناچہ حضرت امام شافعی (رح) سے صحیح روایت میں منقول ہے کہ مقتدی پر سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے خواہ بلند آواز کی نماز ہو یا آہستہ آواز کی۔ اور یہی حضرت امام احمد کا بھی مسلک ہے، امام مالک کے نزدیک فرض نہیں مگر آہستہ آواز کی نماز میں مستحب ہے ہمارے امام اعطم ابوحنیفہ اور صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف و امام محمد کا مذہب یہ ہے کہ آہستہ آواز اور بلند آواز دونوں قسم کی نمازوں میں سورت فاتحہ پڑھنا مقتدی پر فرض نہیں ہے بلکہ حنفی فقہاء تو اس کو مکروہ تحریمی لکھتے ہیں۔ امام محمد کے مسلک کی تحقیق ابھی ہم نے اوپر لکھا ہے کہ حضرت امام اعظم اور صاحبین کا متفقہ طور پر یہ مسلک ہے کہ مقتدی پر سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض نہیں ہے مگر اس سلسلے میں کچھ غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے جس کی بنیاد پر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امام محمد کا مسلک امام اعظم اور امام ابویوسف سے کچھ مختلف ہے چناچہ ملا علی قاری نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اور کچھ دوسرے علماء نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ امام محمد اس کے قائل ہیں کہ آہستہ آواز کی نماز میں مقتدی پر سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے ہم سمجھتے ہیں کہ امام محمد کی طرف اس قول کی نسبت کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کیونکہ امام محمد کی کتابوں سے بالکل صاف طریقہ یہ پر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلہ میں شیخین یعنی امام اعظم اور امام ابویو سف سے بالکل متفق ہیں۔ چناچہ امام محمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ لا قرأَۃَ خلف الا مام فیما جھر فیہ ولا فیما لم یجھر بذلک جاءت عامۃ الاثار وھو قول ابی حنیفہ (رح) ۔ نماز خواہ بلند آواز کی ہو یا آہستہ آواز کی کسی حال میں بھی امام کے پیچھے قرأت نہیں ہے اسی کے مطابق ہمیں بہت سے احادیث پہنچی ہیں اور یہی قول امام ابوحنیفہ کا ہے۔ نیز امام موصوف نے اپنی دوسری تصنیف کتاب الاثار میں قرأت خلف الامام کے عدم اثبات میں احادیث و آثار کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرمایا وبہ ناخذلانری القراء ۃ خلف الا مام شیء من الصلوۃ یجھر فیہ او لا یجھر فیہ۔ اور یہی (یعنی عدم قرأت خلف الامام) ہمارا بھی مسلک ہے ہم قرأت خلف الامام کو کسی بھی نماز میں خواہ وہ بلند آواز کی نماز ہو یا آہستہ آواز کی نماز روا نہیں رکھتے۔ بہر حال مذکورہ بالا مذہب کو دیکھتے ہوئے یہ بات ظاہر ہوئی کہ سورت فاتحہ کے سلسلہ میں حنفیہ دو چیزوں کے قائل ہیں۔ اول تو یہ مقتدی پر سورت فاتحہ کا پڑھنا کسی بھی حال میں فرض نہیں خواہ وہ نماز بلند آواز کی ہو یا آہستہ آواز کی اور دوسری یہ کہ اگر کوئی مقتدی سورت فاتحہ پڑھتا ہے تو گویا وہ مکروہ تحریمی کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس موقعہ پر ہم صرف اتنی بات صاف کریں گے کہ مقتدی پر سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض کیوں نہیں ہے اور اس کے دلائل کیا ہیں۔ تو جانتا ہے کہ جو حضرات یہ فرماتے ہیں کہ مقتدی پر سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے اس کی سب سے بڑی دلیل اس باب کی پہلی حدیث ہے یعنی لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب ان حضرات کے نزدیک امام کا پڑھنا مقتدی کے حق میں کافی نہیں بلکہ ہر ایک آدمی کو بطور خود پڑھنا ضروری ہے۔ امام اعظم فرماتے ہیں کہ امام کا پڑھنا مقتدی کے لئے کافی ہے۔ جب امام نے پڑھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری جماعت نے پڑھا، چناچہ وہ اپنے اس قول کی تائید میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں من کان لہ امام فقراء ۃ الا مام قراء ۃ لہ (یعنی جو آدمی کسی امام کے پیچھے نماز پڑھے۔ تو اس امام کی قرأت اس (مقتدی) کی بھی قرأت سمجھی جائے گی) گو بعض علماء نے اگرچہ اس حدیث کی صحت میں کلام کیا ہے۔ مگر حقیقت میں ان کا کلام صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث بہت سی اسناد سے ثابت ہے جن میں سے بعض اسناد تو اس درجے کی صحیح وسالم ہیں کہ اس میں کسی کلام کی گنجائش ہی نہیں۔ بہر حال اس حدیث سے یہ بات بصراحت ثابت ہوتی ہے۔ کہ مقتدی کو قرأت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ تو سورت فاتحہ کی اور نہ کسی اور سورت کی۔ اس موقع پر یہ احتمال بھی پیدا نہیں کیا جاسکتا کہ شاید اس حدیث کا تعلق بلند آواز کی نماز سے ہو کیونکہ یہ بات بھی صحیح طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد عصر کی نماز کے وقت تھا۔ جو آہستہ آواز کی نماز ہے اور جب آہستہ آواز کی نماز میں یہ حکم ہے تو بلند آواز کی نماز میں تو بدرجہ اولی یہی حکم ہوگا۔

【88】

بسم اللہ بآواز بلند پڑھنی چاہئے یا آہستہ

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ آقاء نامدار ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق (رض) نماز الحمد اللہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح بظاہر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز شروع کرتے وقت سورت فاتحہ سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے لیکن سورت فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا تمام ائمہ کے نزدیک متفق علیہ ہے کیونکہ دوسری احادیث سے بسم اللہ کا پڑھنا ثابت ہوتا ہے خواہ بسم اللہ کو سورت فاتحہ کا جزء مانا جائے جیسا کہ شوافع فرماتے ہیں خواہ نہ مانا جائے جیسا کہ حنفیہ فرماتے ہیں۔ حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہاں الحمد اللہ رب العالمین سے مراد سورت فاتحہ ہے یعنی آپ ﷺ سورت فاتحہ سے نماز شروع کرتے تھے جیسا کہ یہ کہا جائے کہ فلاں آدمی نے الم پڑھا تو اس سے مراد سورت بقرہ ہی لی جاتی ہے اور یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ امام شافعی کے نزدیک بسم اللہ سورت کا جزء ہے لہٰذا اس قول سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے۔ حنفیہ کی جانب سے اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ یہاں مطلق نفی مراد نہیں ہے بلکہ اس قول کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ بسم اللہ بآواز بلند نہیں پڑھتے تھے بلکہ آہستہ سے پڑھتے تھے اور بآواز بلند نماز کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے کرتے تھے کیونکہ یہ بات پوری صحت کی ساتھ ثابت ہوچکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ، خلفاء راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بسم اللہ بآواز بلند نہیں پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ بآواز بلند پڑھی جانے والی نماز میں بھی آہستہ سے پڑھتے تھے۔ حضرت شیخ ابن ہمام نے بعض حفاظ حدیث (یعنی وہ لوگ جن کو بہت زیادہ احادیث زبانی یاد رہتی تھیں) سے نقل کیا ہے کہ کوئی بھی ایسی حدیث ثابت نہیں ہے جس میں بسم اللہ کا بآواز بلند پڑھنا بصراحت ثابت ہو تو وہاں اگر کوئی ایسی حدیث ثابت بھی ہے کہ جس سے بسم اللہ بآواز بلند پڑھنا ثابت ہوتا ہے تو اس کی اسناد میں کلام کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ صحابہ وتابعین اور تبع تابعین کی ایک بڑی جماعت سے بسم اللہ آہستہ پڑھنا بکثرت منقول ہے اور اگر اتفاقی طور پر کسی کے بارے میں بآواز بلند پڑھنا ثابت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو انہوں نے لوگوں کی تعلیم کے لئے بسم اللہ بآواز بلند پڑھی ہوگی یا پھر ان مقتدیوں کی روایت ہے جو ان کے بالکل قریب نماز میں کھڑے ہوتے تھے کہ اگر وہ، بسم اللہ آہستہ سے بھی پڑھتے تھے تو مقتدی سن لیتے تھے اور اسی کو انہوں نے بآواز بلند پڑھنے سے تعبیر کیا۔ امام ترمذی (رح) نے اپنی کتاب جامع ترمذی میں اس مسئلے سے متعلق دو باب قائم کئے ہیں ایک باب میں تو ان احادیث کو نقل کیا ہے جن سے بسم اللہ بآواز بلند پڑھنا ثابت ہے اور دوسرے باب میں وہ احادیث نقل کی ہیں جو آہستہ آواز سے پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں اور امام موصوف نے ترجیح انہیں احادیث کو دی ہے جن سے بآواز آہستہ پڑھنا ثابت ہوتا ہے اور کہا ہے کہ اس طرف ( یعنی بسم اللہ آہستہ پڑھنے کے مسلک کے حق میں) اکثر اہل علم مثلاً صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان غنی، حضرت علی (رض) اور تابعین کرام وغیرہ ہیں۔

【89】

آمین کہنے کے حکم

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ آقائے نا مدار ﷺ نے فرمایا جب امام ( سورت فاتحہ کی قرأت کے بعد) آمین کہے تو (چونکہ اس وقت فرشتے آمین کہتے ہیں اس لئے) تم بھی آمین کہو۔ کیونکہ جس آدمی کی آمین فرشتوں کے آمین سے مل جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے سارے پچھلے گناہ بخش دیتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب امام غیر المغضوب علیھم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس آدمی کا (آمین) کہنا فرشتوں کے کہنے سے مل جاتا ہے اس کے پہلے سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ یہ الفاظ صحیح البخاری کے ہیں مسلم کی حدیث کے الفاظ بھی اس کے مثل ہیں۔ اور صحیح البخاری کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب قرآن کا پڑھنے والا (یعنی) امام یا کوئی بھی مطلقاً پڑھنے والا آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ (اس وقت) فرشتے آمین فرماتے ہیں اور جس آدمی کی آمین فرشتوں کی آمین سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے تو اس کے پہلے سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ تشریح آمین کے معنی یہ ہیں کہ اے اللہ ! میری دعا قبول کر ! چناچہ جب امام غیر المغضوب علیھم ولا الضالین پڑھے تو مقتدیوں کو چاہئے کہ وہ آمین کہیں۔ آمین کہنے والے فرشتوں سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اعمال کو لکھتے ہیں لیکن بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں ان کے علاوہ دوسرے فرشتے مراد ہیں۔

【90】

مقتدی کی نماز کا طریقہ

اور حضرت ابوموسی اشعری (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا جب تم (با جماعت) نماز پڑھو تو (پہلے) اپنی صفوں کو سیدھی کرو پھر (تم میں سے) ایک آدمی تمہارا امام بنے، چناچہ جب وہ امام تکبیر تحریمہ یعنی) اللہ اکبر کہے تو تم (بھی اللہ اکبر) کہو، جب امام غیر المغضوب علیھم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول کرے گا اور جب امام (رکوع میں جانے کے لئے) اللہ اکبر کہے اور رکوع میں جائے تم بھی اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں چلے جاؤ اور امام تم سے پہلے رکوع کرتا ہے اور تم سے پہلے سر اٹھاتا ہے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ امام کا پہلے سر اٹھانا پہلے رکوع کرنے کا بدلہ ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللہم ربنا لک الحمد کہو اللہ تمہاری تعریف سنتا ہے۔ اور صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ (آپ ﷺ نے فرمایا) جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔ (صحیح مسلم) تشریح حدیث کے الفاظ فتلک بتلک یعنی امام سے پہلے سر اٹھانا پہلے رکوع کرنے کا بدلہ ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ امام مقتدی سے پہلے رکوع سے سر اس لئے اٹھاتا ہے تاکہ امام اور مقتدی کے رکوع کی مقدار برابر ہوجائے۔ گویا آپ ﷺ کا یہ ارشاد واضح طور پر یوں ہے کہ جب امام رکوع میں تم سے پہلے گیا تو گویا اس وقت تمہارے اور امام کی رکوع کی مقدار برابر نہ رہی مگر جب امام نے رکوع سے تم سے پہلے سر اٹھایا اور تم نے اس کے بعد سر اٹھایا تو گویا تمہاری اس تاخیر سے وہ لمحہ پورا ہوگیا جس میں امام نے رکوع میں جانے میں تم سے پہل کی تھی اور جس طرح تم رکوع میں امام کے بعد گئے اس طرح رکوع سے اٹھے بھی امام کے بعد ہی لہٰذا امام اور مقتدی دونوں کے رکوع کی مقدار پوری ہوگئی۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب امام سمع اللہ لمن حمد کہے تو مقتدی اللہم ربنا لک الحمد کہیں مگر ایک دوسری روایت میں ربنا و لک الحمد ( واؤ کے ساتھ) کے الفاظ مروی ہیں۔ نیز ایک روایت میں اللہم ربنا ولک الحمد بھی مروی ہے۔ یہ حدیث حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کی اس مسئلے میں مستدل ہے کہ امام رکوع سے اٹھتے ہوئے صرف سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی ربنا لک الحمد کہیں حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک امام، مقتدی اور منفرد تینوں ہی کو یہ دونوں کلمات کہنے چاہئیں صاحبین سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے لیکن اس قید کے ساتھ کہ امام ربنا لک الحمد آہستہ آواز سے کہے۔ منفرد یعنی تنہا نماز پڑھنے والے آدمی کے بارے میں متفقہ طور پر یہ حکم ہے کہ وہ دونوں کلمات کہے اگرچہ صرف ایک پر اکتفا کرنا بھی جائز ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اکتفاء ربنا لک الحمد پر کیا جائے۔ دونوں کلمات کہنے کی صورت میں سمع اللہ اٹھتے ہوئے اور ربنا لک الحمد حالت قیام میں کہا جائے۔ حدیث کا آخری جملہ واذا قرأ فانصتوا (یعنی جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو) حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کی دلیل ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے خاموش رہنا چاہئے قرأت نہ کرنی چاہئے خواہ نماز بلند آواز کی ہو یا آہستہ آواز کی۔

【91】

نماز میں قراءت کا طریقہ

اور حضرت ابوقتا دہ (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ ظہر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ اور دو سورتیں (یعنی ہر رکعت میں سورت فاتحہ اور ایک سورۃ) پڑھتے تھے اور بعد کی دونوں رکعتوں میں صرف سورت فاتحہ پڑھتے تھے اور کبھی کبھی ہمیں (بھی) آیت سنا دیا کرتے تھے اور دوسری رکعت کی بہ نسبت پہلی رکعت کو زیادہ طویل کرتے تھے اسی طرح عصر اور فجر کی نماز میں بھی کرتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح ظہر کی نماز میں یوں تو قرأت سری (یعنی آہستہ آواز سے) سے ہوتی ہے اور اسی طرح رسول اللہ ﷺ بھی پڑھتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ بسا اوقات ظہر کی نماز میں کوئی آیت یا سورت بآواز بھی پڑھ دیا کرتے تھے اور اس سے آپ ﷺ کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگ جان لیں کہ سورت فاتحہ کے بعد کوئی سورت یا کوئی آیت بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ یا لوگوں کو اس بات کا علم ہوجائے کہ آپ ﷺ فلاں سورت کی قرأت کر رہے ہیں۔ اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ یہاں ظہر کی تخصیص تقیدی ہیں ہے بلکہ اتفاقی ہے۔ یعنی آپ ﷺ ہر نماز میں ایسا ہی کرتے تھے۔ پہلی رکعت کو طویل کرنے کا مسئلہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی رکعت کو دوسری رکعتوں سے زیادہ طویل کرنا چاہئے چناچہ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک یہی ہے کہ تمام نمازوں میں پہلی رکعت کو دوسری رکعت کی بہ نسبت زیادہ طویل کرنا چاہئے۔ حنفیہ میں سے حضرت امام محمد (رح) کا بھی مسلک یہی ہے، ان حضرات نے ظہر، عصر اور صبح کی نمازوں میں پہلی رکعت کو طویل کرنے کے مسئلے کو احادیث سے ثابت کیا ہے اور مغرب و عشاء کو ان تینوں پر قیاس کیا ہے۔ عبدالرزاق نے اس حدیث کے آخر میں معمر سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ہمارا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ پہلی رکعت کو اس لئے طویل کرتے تھے کہ لوگ پہلی رکعت پالیں، امام ابوداؤد اور ابن خزیمہ رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے بھی یہی لکھا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک پہلی رکعت کو طویل کرنا صرف فجر کی نماز کے ساتھ خاص ہے کیونکہ وہ وقت نیند و غفلت کا ہوتا ہے۔ ورنہ تو دونوں رکعتیں چونکہ استحقاق قرأت میں برابر ہیں۔ اس لئے مقدار قرأت میں بھی برابر ہونی چاہئیں چناچہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر رکعت میں تیس آیتوں کی مقدار قرأت کیا کرتے تھے جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے کہ جس سے پہلی رکعت کو طویل کرنے کا اثبات ہوتا ہے تو یہ اس بات پر محمول ہے کہ چونکہ پہلی رکعت میں دعا کے استفتاح (یعنی سبحانک اللہم اور اعوذ باللہ و بسم اللہ پڑھی جاتی ہے اس لئے پہلی رکعت طویل معلوم ہوتی تھی نیز یہ کہ طوالت تین آتیوں سے بھی کم کی مقدار میں ہوتی تھی۔ خلاصہ میں لکھا ہے کہ حضرت امام محمد (رح) کا مسلک احب یعنی اچھا ہے۔

【92】

نماز میں رسول اللہ ﷺ کے قیام کی مقدار

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ ہم ظہر اور عصر کی نماز میں آقائے نامدار ﷺ کے قیام (کی مقدار) کا اندازہ کرتے، چناچہ ہم نے اندازہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں الم تنزیل السجدہ پڑھنے کے بقدر قیام کرتے تھے اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہر رکعت میں تیس آیتیں پڑھنے کے بقدر قیام کرتے تھے اور (ظہر کی) آخری دو رکعتوں میں اس کے نصف کے بقدر قیام کا ہم نے اندازہ کیا۔ (صحیح مسلم) تشریح الم تنزیل السجدہ کے بقدر کا مطلب یا تو یہ ہے کہ دونوں رکعتوں میں آپ ﷺ کے مجموعی قیام کی مقدار سورت الم تنزیل السجدہ ہوتی تھی یا اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ ہر رکعت میں الم السجدہ پڑھنے کے بقدر قرأت کرتے تھے اس آخری مطلب کی تائید دوسری روایت بھی کرتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر رکعت میں تیس آیتوں کے بقدر قرأت کرتے تھے اور الم تنزیل السجدہ میں انتیس آیتیں ہیں، اگر پہلے مطلب کو صحیح مانا جائے تو یہ دوسری روایت کے خلاف ہوگا لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ یہ کہا جائے کہ آپ ﷺ ہر رکعت میں سورت ا الم تنزیل السجدہ کی بقدار قرأت کرتے تھے۔ آخری رکعتوں میں قرأت کا مسئلہ حدیث کی ان الفاظ و حزرنا قیامہ فی الا خرین یعنی (ظہر) کی آخری دو رکعتوں میں اس سے نصف کا ہم نے انداز کیا ہے۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ظہر کی آخری دونوں رکعتوں میں بھی سورت فاتحہ کے ساتھ کوئی دوسری سورت جو پہلی دونوں رکعتوں کی سورتوں سے مختصر ہوتی تھی پڑھتے تھے چناچہ امام شافعی (رح) کا مسلک قول جدید کے مطابق یہی ہے لیکن ان کے ہاں فتوے ان کے قول قدیم پر ہے جو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کے مطابق ہے کہ آخری دونوں رکعتوں میں سورت فاتحہ کے ساتھ کوئی دوسری سورت پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث کی تاویل یہ ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ فعل سنت پر محمول نہیں بلکہ بیان جواز پر محمول ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ آخری دونوں رکعتوں میں سورت فاتحہ کے ساتھ کبھی کبھی کوئی اور سورت بھی ملا کر قرأت کرتے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اس طرح پڑھنا بھی جائز ہے لیکن اتنی بات جان لینی چاہئے کہ تمام ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ آخری دونوں رکعتوں میں صرف سورت فاتحہ پڑھنا ہی سنت ہے بلکہ حنفیہ کا کہنا تو یہ کہ اگر کوئی آدمی سورت فاتحہ بھی نہ پڑھے بلکہ صرف تسبیح (یعنی سبحان اللہ وغیرہ کہہ لے تو بھی جائز ہے لیکن قرأت افضل ہے، امام نخعی، امام ثوری اور کوفہ کے تمام علماء کرام کا قول بھی یہی ہے۔ محیط میں یہ لکھا کہ اگر کوئی آدمی آخری دونوں رکعتوں میں سورت فاتحہ پڑھنے کے بجائے قصدًا سکوت اختیار کرے تو یہ خلاف سنت ہونے کی وجہ سے ایک غلط فعل ہوگا۔ حسن بن زیاد نے حضرت امام اعظم (رح) کی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ آخری دونوں رکعتوں میں قرأت کرنا واجب ہے۔ ابن شیبہ نے حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت ابن مسعود (رض) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ پہلی دونوں رکعتوں میں قراءت کرو اور آخری دونوں رکعتوں میں تسبیح پر اکتفاء کرو اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی آدمی آخری دونوں رکعتوں میں سورت فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت بھی پڑھ لے تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا اور یہی صحیح بھی ہے کیونکہ آخری دونوں رکعتوں میں سورت فاتحہ کا پڑھنا سنت ہے اور کسی دوسری سورت کا ترک کرنا واجب نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ سجدہ سہو کسی واجب کو چھوڑ دینے یا واجب پر عمل نہ کرنے ہی کی وجہ سے ضروری ہوتا ہے۔ حضرت امام احمد (رح) کے ہاں اولی اور صحیح یہ ہے کہ آخری دونوں رکعتوں میں سورت فاتحہ کے ساتھ کسی دوسری سورت کا پڑھنا مکروہ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ ﷺ آخری دونوں رکعتوں میں کبھی کبھی سورت فاتحہ کے علاوہ اور کوئی سورت یا کچھ آیتیں بھی پڑھ لیا کرتے تھے لیکن سورت فاتحہ کے ساتھ کسی دوسری سورت کا نہ پڑھنا ہی مستحب ہے۔

【93】

ظہر کی نماز کی قراءت

اور حضرت جابر ابن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ ظہر کی نماز میں سورت واللیل اذا یغشی پڑھا کرتے تھے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ سورت سبح اسم ربک الاعلی پڑھا کرتے تھے اور عصر کی نماز میں بھی اسی قدر (کوئی آیت یا سورۃ) پڑھتے تھے اور صبح کی نماز میں اس سے لمبی قرأت کرتے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح جس طرح دیگر احادیث میں مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فلاں نماز میں فلاں سورت پڑھتے تھے اور اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ وہ سورت پہلی رکعت میں پڑھتے تھے یا دوسری میں۔ یا ایک رکعت میں بغیر پہلی دوسری کے تعین کے پڑھتے تھے۔ اس طرح اس حدیث میں بھی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ آپ ﷺ ظہر کی نماز میں سورت واللیل اذا یغشی کس رکعت میں پڑھتے تھے آیا پہلی رکعت میں یا دوسری میں ؟ اس سلسلہ میں دوہی احتمال ہوسکتے ہیں یا تو یہ کہ آپ ﷺ ایک ہی سورت کو دونوں رکعتوں میں پڑھتے تھے یا یہ کہ ایک سورت کا کچھ حصہ تو پہلی رکعت میں پڑھتے تھے اور کچھ حصہ دوسری رکعت میں (پہلے احتمال میں تکرار لازم آئے گا اور دوسرے میں تبعیض (یعنی کسی ایک سورت کا کچھ حصہ پہلی رکعت میں اور کچھ حصہ دوسری رکعت میں پڑھنا لازم آئے گا اور یہ دونوں یعنی تکرار و تبعیض غیر اولی ہیں اگرچہ جائز ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے تکرار و تبعیض ثابت نہیں ہے۔ چناچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ ایک رکعت میں پوری سورت پڑھنا اگرچہ وہ چھوٹی ہو افضل ہے۔ بہ نسبت اس کے کہ ایک رکعت میں کسی سورت کا کچھ حصہ پڑھا جائے اگرچہ وہ سورت طویل ہو۔ ہاں اس مسئلے میں تراویح مثتثنیٰ ہے کیونکہ اس میں تو پورا قرآن سارے مہینہ میں ختم کرنا افضل ہے لہٰذا ان سے دونوں احتمالات اور ان میں پیدا شدہ اشکالات کو دیکھتے ہوئے کوئی ایسا تیسرا حتمال پیدا کیا جائے گا جو حدیث کی منشاء کے مطابق اور اس سے مناسب ہو اور وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ مذکورہ سورت کے علاوہ کوئی دوسری سورت بھی پڑھتے تھے خواہ پہلی رکعت میں پڑھتے ہوں یا دوسری میں۔

【94】

مغرب کی نماز کی قراءت

اور حضرت جبیر ابن مطعم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار ﷺ کو مغرب کی نماز میں سورت طور پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

【95】

فقہاء کی جانب سے نمازوں میں تعین قراءت کی دلیل

اور حضرت ام فضل بنت حارث (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے آقائے نامدار ﷺ کو مغرب کی نماز میں سورت والمرسلات عرفا پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح یہ احادیث اور وہ حدیث جس میں منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ مغرب کی نماز میں سورت اعراف، سورت انفال اور سورت دخان پڑھتے تھے یا اسی قسم کی دوسری احادیث سب اسی بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نمازوں میں کسی خاص اور متعین سورت کا پڑھنا ضروری نہیں ہے بلکہ نمازی کی آسانی و سہولت پر موقوف ہے کہ وہ جس نماز میں جو بھی سورت چاہے پڑھ سکتا ہے۔ فقہا جو یہ لکھتے ہیں کہ فجر و ظہر میں طوال مفصل، عصر و عشاء میں او ساط مفصل اور مغرب میں قصار مفصل پڑھنا چاہئے تو ان کے تعین قرأت کی اصلی دلیل یہ ہے کہ حضرت امیر المومنین عمر فاروق (رض) نے حضرت ابوموسی اشعری (رض) کو جو اس زمانہ میں کوفہ کے گورنر تھے ایک خط لکھا تھا اس میں یہ مذکورہ تفصیل لکھی تھی اس کے مطابق نمازوں میں قرأت کا اس طرح تعین قرار پایا۔ اس مسئلہ کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ اقدس میں طول و قصر کے سلسلے میں قرأت کا مسئلہ اختلاف احوال و اوقات اور مصلحت جواز کے ساتھ مختلف تھا پھر بعد میں حضرت عمر فاروق (رض) کے اس مکتوب گرامی کی روشنی میں قرأت کا ایک نہج اور اصول مقرر کیا گیا جس کو فقہاء کی اصطلاح میں طوال مفصل ( طوال مفصل سورت حجرات سے سورت والسماء ذات البروج تک اور اوساط مفصل سورت والسماء ذات البروج سے سورت لم یکن (البینۃ) تک اور قصار مفصل سورت لم یکن کے بعد سے سورت الناس تک کی سورتوں کو کہا جاتا ہے ١٢) ۔ اور اوساط مفصل اور قصار مفصل کا نام دیا گیا اور ہوسکتا ہے کہ اس سلسلے میں حضرت عمر فاروق (رض) کو کوئی دلیل براہ راست رسول اللہ ﷺ کے کسی قول و فعل سے ہاتھ لگی ہو اور رسول اللہ ﷺ اسی طریقہ کے مطابق کبھی کبھی قرأت کرتے ہوں جس کو حضرت عمر فاروق (رض) نے اپنے مکتوب گرامی میں تحریر فرمایا ہے اور کبھی کبھی اس کے برعکس آپ ﷺ کا وہی معمول رہتا ہو جو ان احادیث میں مذکور ہے۔ بہر حال ہم تو سمجھتے ہیں کہ فقہاء کے مقرر کردہ اس اصول کے لئے حضرت عمر فاروق (رض) کا یہ قول ہی دلیل کے لئے کافی ہے ؟

【96】

فرض نماز پڑھنے والے کو نفل نماز پڑھنے والے کی اقتدارء کرنا جائز ہے یا نہیں؟

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ ابن جبل (رض) آقائے نامدار ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ کر آتے اور پھر اپنی قوم کو نماز پڑھایا کرتے تھے چناچہ ( ایک دن) انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ عشاء کی نماز پڑھی اور پھر آکر اپنی قوم کی امامت کی اور (نماز میں) سورت بقرہ شروع کردی (جب قرأت طویل ہوئی تو) ایک آدمی سلام پھیر کر جماعت سے نکل آیا اور تنہا نماز پڑھ کر چلا گیا لوگوں نے (جب یہ دیکھا تو اس سے کہا کہ فلا نے ! کیا تو منافق ہوگیا ہے (کیونکہ جماعت سے جان بچا کر نکل بھاگنا تو منافقوں ہی کا کام ہے) اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم (میں منافق نہیں ہوا ہوں) میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر حقیقت حال بیان کروں گا چناچہ وہ آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم اونٹوں والے ہیں، دن کو کام کرتے ہیں (یعنی) اونٹوں کے ذریعے پانی کھینچ کر درختوں کی آبپاشی کرتے ہیں اور دن بھر محنت و مشقت میں لگے رہتے ہیں) معاذ رات کو آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ کر آئے اور ہمیں نماز پڑھائی اور سورت بقرہ شروع کردی (لمبی قرأت ہونے اور اپنے تھکے ہوئے ہونے کی وجہ سے میں بددل ہوگیا) یہ سن کر رسول اللہ ﷺ حضرت معاذ (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا معاذ ! کیا تم فتنے پیدا کرنے والے ہو ؟ (یعنی کیا تم لوگوں سے جماعت ترک کرا کر انہیں دین سے بیزار اور فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہو ؟ بہتر یہ ہے کہ) تم سورت والشمس وضحھا سورت والضحی سورت واللیل اذا یغشی اور سورت سبح اسم ربک الا علی پڑھا کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ آدمی نعوذ باللہ جماعت یا نماز سے متنفر نہیں ہوا تھا بلکہ چونکہ دن بھر کی محنت و مشقت کی وجہ سے تھکا ماندہ تھا اس لئے جب قرأت لمبی ہوئی اور نماز نے طوالت اختیار کی تو یہ مجبور ہو کر جماعت سے نکل آیا اور اپنی نماز تنہا پڑھ لی۔ اسی وجہ سے جماعت سے نکلتے ہوئے باوجود اس کے کہ سلام پھیرنے کا کوئی موقعہ و محل نہ تھا اس نے سلام پھیرا کیونکہ اس نے سوچا کہ نماز سے سلام پھیر کر نکلے تاکہ کم سے کم نماز پوری ہونے کی مشابہت تو ہو ہی جائے۔ ایک دوسری روایت میں سبح اسم ربک الاعلی کے بعد کچھ اور سورتیں بھی ذکر کئی گئی ہیں مثلاً اذا السماء انفطرت اذا السماء انشقت اور سورت بروج و سورت طارق۔ حضرات شوافع نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ فرض نماز پڑھنے والے کو نفل نماز پڑھنے والے کی اقتدا کرنا جائز ہے اس لئے کہ حضرت معاذ ابن جبل جب رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے تو ان کی فرض نماز ادا ہوجاتی تھی اور اپنی جماعت کے ساتھ جو نماز پڑھتے تھے نفل رہتی تھی اور ان کے مقتدیوں کی نماز فرض ہوتی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ (رض) کے اس عمل کو جائز رکھا انہیں اس عمل سے منع نہیں کیا۔ علماء حنفیہ کے نزدیک چونکہ فرض نماز پڑھنے والے کے لئے نفل نماز پڑھنے والے کی امامت میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اس لئے حضرات سوافع کو جواب دیا جاتا ہے کہ نیت ایک ایسی چیز ہے جس پر کوئی دوسرا آدمی مطلع نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ خود نیت کرنے والا یہ نہ بتائے کہ اس نے کیا نیت کی تھی۔ لہٰذا یہ غالب ہے کہ حضرت معاذ ابن جبل رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بہ نیت فرض نہیں بلکہ آپ ﷺ سے طریقہ نماز سیکھنے اور آپ ﷺ کی نماز کی برکت و فضیلت حاصل کرنے نیز تہمت نفاق سے بچنے کی خاطر بہ نیت نفل نماز پڑھتے ہوں پھر اپنی قوم کے پاس آکر انہیں فرض نماز پڑھاتے ہوں گے تاکہ دونوں فضیلتیں حاصل ہوجائیں لہذا حضرت معاذ (رض) کے اس عمل کو اس صورت پر محلول کرنا اولیٰ ہے کیونکہ یہ شکل تو بالا تفاق سب علماء کے نزدیک جائز ہے بخلاف پہلی شکل کے کہ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام کو مقتدیوں کی رعایت کرنی چاہئے یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام کے لئے ضعیف و کمزور مقتدیوں کی رعایت کے پیش نظر نماز میں تخفیف کرنا سنت ہے اگر اسے اس بات کا احساس ہو کہ پیچھے مقتدی ضعیف و کمزور ہیں یا دن بھر کی محنت و مشقت سے تھکے ماندے ہیں یا نہیں کوئی دوسری مجبوری و تکلیف لا حق ہے تو اسے نماز ہلکی پھلکی پڑھانی چاہے اتنی لمبی قرأت نہ کرنی چاہئے جس سے ضعیف و کمزور لوگ تکلیف و پریشانی محسوس کریں اور اس بناء پر جماعت کو ترک کرنے پر مجبور ہوجائیں۔

【97】

نماز عشاء کی قراءت

اور حضرت براء (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار ﷺ کو عشاء کی نماز میں سورت والتین و الزیتون پڑھتے ہوئے سنا اور میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سے اچھی کوئی آواز نہیں سنی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح سرکار دو عالم ﷺ جس طرح باطنی طور پر دنیا کے سب سے مکمل و اکمل انسان تھے اسی طرح مبداء فیاض نے آپ ﷺ کو ظاہری جسمانی حس و خوبصورتی کے بھی سب سے اعلیٰ وارفع مرتبے پر فائز کیا تھا پھر یہ کہ جس طرح اللہ نے آپ ﷺ کو حسن صورت کا سب سے اعلیٰ نمونہ بنایا تھا اسی طرح آپ ﷺ کو حسن آواز میں بھی سب سے امتیازی درجہ عنایت فرمایا تھا۔ چناچہ حضرت براء ابن عازب (رض) کی یہ شہادت کہ میں نے آپ ﷺ کی آواز سے زیادہ کوئی اچھی آواز نہیں سنی محض ایک جذباتی عقیدت کا تاثر یا مبالغہ آرائی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی حقیقت کی شہادت ہے جس کی صداقت کو اپنے تو الگ رہے کبھی بیگانوں نے بھی چیلنج کرنے کی جرات نہیں کی۔ جیسا کہ ابھی حدیث نمبر ٨ کی تشریح کے ضمن میں ذکر کیا جا چکا ہے۔ یہاں بھی اس حدیث جس کی یہی وضاحت ہے کہ آپ ﷺ عشاء کی نماز میں سورت والتین و الزیتوں ایک رکعت میں پڑھتے تھے اور دوسری رکعت میں کسی دوسری سورت کی قرأت فرماتے تھے۔

【98】

نماز فجر کی قرأت

اور حضرت جابر ابن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ فجر کی نماز میں سورت ق والقران المجید یا ایسی ہی (طویل) کوئی دوسری سورت پڑھتے تھے اور آپ ﷺ فجر کی نماز کے بعد کی دوسری نماز ہلکی پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ فجر کی نماز کے علاوہ اوقات کی نمازیں زیادہ لمبی نہیں پڑھتے تھے اور فجر کی نماز میں طویل قرأت کیا کرتے تھے کیونکہ ہنگام صبح گا ہی بارگاہ الوہیت میں دعاوئوں کے قبول ہونے اور برکت وسعادت حاصل ہونے کا وقت ہوتا ہے۔

【99】

نماز فجر کی قرأت

اور حضرت عمرو ابن حریث (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار ﷺ کو فجر کی نماز میں واللیل اذا عسعس (یعنی سورت اذا الشمس کورت) پڑھتے سنا ہے۔ (صحیح مسلم)

【100】

نماز فجر کی قرأت

اور حضرت عبدا اللہ ابن سائب (رض) فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے بعد ایک مرتبہ) آقائے نامدار ﷺ نے ہمیں مکہ میں فجر کی نماز پڑھائی اور سورت مومن یعنی قدافلح المومنون شروع کی جب آپ موسیٰ و ہارون یا عیسیٰ کے ذکر پر پہنچے تو آپ ﷺ کو کھانسی اٹھی ( جس کی وجہ سے سورت پوری کئے بغیر) آپ ﷺ رکوع میں چلے گئے۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے قرأت میں سورت قدا فلح المومنوں شروع کی اور جب آپ ﷺ اس آیت (ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَاَخَاهُ هٰرُوْنَ ) 23 ۔ المومنون 45) پر کہ جس میں حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کا ذکر ہے یا اس آیت (وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّه) 23 ۔ المومنون 50) پر کہ جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہے پہنچے تو ان جلیل القدر پیغمبروں کے ذکر سے آپ ﷺ کا دل بھر آیا اور رونے لگے جس کی وجہ سے کھانسی کا غلبہ ہوگیا چناچہ آپ ﷺ اس گریہ و کھانسی کی وجہ سے سورت پوری نہ کرسکے اور اس آیت پر قرأت ختم کر کے رکوع میں چلے گئے۔

【101】

جمعہ کے روز نماز فجر کی قراءت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ جمعہ کے روز نماز فجر کی پہلی رکعت میں الم تنزیل اور دوسری رکعت میں ھل اتی علی الانسان پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرات شوافع اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جمعہ کے روز نماز فجر میں حدیث میں مذکورہ سورتیں ہی پڑھنی چاہئیں مگر حنفیہ چونکہ تعین سورت سے منع کرتے ہیں اس لئے فرماتے ہیں کہ یہ اولیٰ نہیں ہے کہ کسی خاص سورت کو کسی روز خاص نماز کے ساتھ اس طرح متعین کرلیا جائے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسری سورت پڑھی ہی نہ جائے۔ ان حضرات کے نزدیک تعین قرأت و سورت کی ممانعت کی وجہ صرف یہ ہے کہ اگر کسی خاص نماز کے ساتھ کسی خاص سورت کو متعین کردیا جائے گا تو لوگ اسی ایک سورت کو لازم و واجب سمجھ کر پڑھیں گے اور اس کے علاوہ دوسری سورتوں کو پڑھنا مکر وہ سمجھیں گے۔ ہاں اگر کوئی آدمی مثلاً اس حدیث کے مطابق جمعہ کے روز نماز فجر کی پہلی رکعت میں الم تنزیل سورت السجدہ) اور دوسری رکعت میں ھل اتی علی الانسان (سورۃ دہر) حضرت ﷺ کی قرأت کی برکت حاصل کرنے اور اتباع سنت کے جذبے سے پڑھا کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ ان سورتوں کے علاوہ کبھی کبھی کوئی دوسری سورت بھی پڑھ لیا کرے تاکہ کم علم اور عوام یہ نہ سمجھیں کہ ان سورتوں کے علاوہ کوئی دوسری سورت پڑھنی جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ حنفیہ کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس عمل پر رسول اللہ ﷺ کا دوام ثابت نہیں ہے بلکہ آپ ﷺ کبھی کبھی یہ سورتیں پڑھا کرتے تھے لہٰذا کبھی کبھی پڑھنا تو ہر آدمی کے لئے افضل ہے۔ اس موقعہ پر یہ مسئلہ بھی سن لیجئے کہ اگر کوئی آدمی صبح کی نماز میں سورت سجدہ پڑھے تو اسے سجدہ تلاوت بھی کرنا چاہئے اگرچہ شوافع کے کچھ علماء نے بعض ایام میں امام کے لئے اس کو ترک کرنا ہی اولیٰ قرار دیا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ سے سجدہ تلاوت کرنا ہی ثابت ہے۔

【102】

نماز جمعہ کی قراءت

اور حضرت عبیداللہ ابن رافع (رض) فرماتے ہیں کہ مروان نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو مدینہ میں خلیفہ (یعنی اپنا قائم مقام گورنر) مقرر کیا اور خود مکہ چلا گیا چناچہ (اس کی عدم موجودگی میں) حضرت ابوہریرہ (رض) نے ہمیں جمعہ کی نماز پڑھائی اور انہوں نے پہلی رکعت میں سورت جمعہ اور دوسری رکعت میں سورت اذا جائک المنافقون پڑھی اور فرمایا کہ میں نے آقائے نامدار ﷺ کو جمعہ کے روز (یعنی نماز جمعہ) ان دونوں سورتوں کو پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ (صحیح مسلم)

【103】

نماز عیدین و جمعہ کی قراءت

اور حضرت نعمان بن بشیر (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ عیدین و جمعہ کی نماز میں سبح اسم ربک الاعلی اور ھل اتاک حدیث الغاشیۃ (یہ سورتیں) پڑھا کرتے تھے۔ اور حضرت نعمان فرماتے ہیں کہ جب عید اور جمعہ ایک دن جمع ہوجاتے تو آپ ﷺ (عید و جمعہ میں) کی دونوں نمازوں میں یہی دونوں سورتیں پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کی عیدین اور جمعہ کی نماز میں ان دونوں سورتوں کا پڑھنا مستحب موکدہ ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آپ ﷺ نماز جمعہ میں سورت جمعہ اور سورت منافقون ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے۔

【104】

نماز عیدین و جمعہ کی قراءت

اور حضرت عبیدا اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے حضرت ابو وا قد لیثی سے پوچھا کہ آقائے نامدار ﷺ عید اور بقر عید کی نماز میں کیا پڑھتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ ان دونوں نمازوں میں سورت ق والقران المجید اور سورت اقتربت الساعۃ پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت عمر فاروق (رض) رسول اللہ ﷺ سے کمال قرب رکھتے تھے اور آپ ﷺ کے احوال و کوائف سے بخوبی واقف تھے اس لئے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے حضرت ابو واقد لیثی سے یہ سوال اس لئے کیا تھا تاکہ ان نمازوں میں رسول اللہ ﷺ کی قرأت کے بارے میں جان سکیں البتہ یہ کہا جائے گا کہ اس سوال سے ان کا مقصد یہ تھا کہ حاضرین اس سوال و جواب سے رسول اللہ ﷺ کی قرأت کا علم بخوبی حاصل کرسکیں اور اس واقفیت کو اپنے ذہن میں قائم رکھ سکیں۔

【105】

فجر کی نماز سنت کی قراءت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ فجر کی دونوں سنت رکعتوں میں سورت قل یا ایھا الکافرون و قل ھو اللہ احد پڑھتے تھے۔ (رواہ صحیح مسلم)

【106】

فجر کی نماز سنت کی قراءت

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ فجر کی دونوں سنت رکعتوں میں سورت بقرہ کی یہ آیت قولوا امنا باللہ وما انزل الینا اور (سورۃ آل عمران کی) یہ آیت قل یا اھل الکتب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح پہلی آیت جو سورت بقرہ کی ہے پورے طور پر یوں ہے۔ آیت (قُوْلُوْ ا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَا اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَا اُنْزِلَ اِلٰ ى اِبْرٰھ مَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَا اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَا اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ڮ وَنَحْنُ لَه مُسْلِمُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ 163) (مسلمانو ! ) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسحق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو (کتابیں) موسیٰ اور عیسیٰ کو عطا ہوئیں ان پر اور جو دیگر پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں ان سب پر (ایمان لائے) ہم ان پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (خدا واحد) کے فرمانبردار ہیں۔ دوسری آیت جو سورت آل عمران میں ہے وہ پوری یہ ہے۔ آیت ( قُلْ یَاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدُ اِلَّا اللہ وَلَا نُشْرِکَ بِہ شَیْأً وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ ا فَاِنْ تَوَلَوْا فَقُوْلُوْا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ۔ (ال عمران ٣ ٦٤) (اے محمد ﷺ فرما دیجئے کہ اے اہل کتاب (یہودیو اور عیسائیو جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم) کی گئی ہے اس کی طرف آؤ۔ وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے۔ اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (اللہ کے) فرما نبردار ہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ فجر کی سنتوں میں کبھی کبھی تو یہ دونوں آیتیں پڑھتے ہوں گے اور اکثر بیشتر قل یا ایہا لکافرون اور قل ھو اللہ احد پڑھتے ہونگے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں سورت کا کچھ حصہ خاص طور سے سورت کے درمیان سے پڑھنا مکروہ نہیں ہے۔

【107】

ابتداء نماز میں بسم اللہ پڑھنا

حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں آقائے نامدار ﷺ اپنی نماز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کرتے تھے اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد قوی نہیں ہے۔ تشریح بسم اللہ سے شروع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ ابتدا نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم آہستہ آواز سے پڑھتے اس کے بعد قرأت شروع کرتے تھے۔ آہستہ آواز کی قید اس لئے لگائی ہے تاکہ یہ حدیث پہلے گذرنے والی احادیث کے خلاف نہ رہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اپنی نماز کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے فرمایا کرتے تھے۔ میرک شاہ نے کہا ہے کہ امام جامع ترمذی کا اس کو ضعیف الاسناد کہنا محل غور ہے کیونکہ یہ حدیث حسن ہے اور اس کی اسناد بالکل صحیح ہے۔

【108】

آمین بآواز بلند کہی جاے یا آہستہ

اور حضرت وائل ابن حجر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار ﷺ کو سنا کہ آپ ﷺ نے (نماز میں) غیر المغضوب علیھم ولا الضالین پڑھا اور پھر دراز آواز سے آمین کہی۔ (ابوداؤ، دارمی، جامع ترمذی ) تشریح دراز آواز سے آمین کہنے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آپ ﷺ نے آمین بآواز بلند کہی یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے لفظ آمین میں الف کو مد کے ساتھ یعنی کھینچ کر کہا۔ آمین کہنے کا مسئلہ بھی ائمہ کے یہاں مبحث فیہ ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے یہ بات جاننی چاہیے کہ اس مسئلے میں تو سب ائمہ متفق ہیں کہ سورت فاتحہ کے بعد آمین کہنا ہر نمازی کے لئے سنت ہے خواہ منفرد ہو یا امام کے ساتھ اسی طرح مقتدی کو بھی آمین کہنا سنت ہے خواہ امام کہے یا نہ کہے۔ اب اختلاف اس چیز میں ہے کہ آیا آمین بآواز بلند کہی جائے یا آہستہ آواز سے ؟ چناچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک آمین بآواز بلند کہنی چاہئے۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک آمین آہستہ آواز سے کہنی چاہئے چناچہ وہ ان احادیث کے بارے میں جن سے آمین بآواز بلند کہنا ثابت ہے اور جو شافع وغیرہ کی مستدل ہیں یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام احادیث اس بات پر محمول ہیں کہ ابتداء اسلام میں آپ ﷺ تعلیم کی خاطر آمین بآواز بلند کہتے تھے تاکہ صحابہ کرام یہ جان لیں کہ سورت فاتحہ کے بعد آمین کہنا چاہئے۔ صحابہ جب یہ سیکھ گئے تو آپ ﷺ آمین آہستہ آواز سے کہنے لگے چناچہ حضرت ابن ہمام (رح) نے کہا ہے کہ احمد، ابویعلی، طبرانی، دارمی اور حاکم نے شعبہ کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ علقمہ ابن عائل اپنے والد مکرم حضرت وائل سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے (یعنی وائل) نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی چناچہ رسول اللہ ﷺ جب غیر المغضوب علیھم ولا الضالین پر پہنچے تو آہستہ آواز سے آمین کہی۔ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا چار چیزیں ایسی ہیں جنہیں امام کو آہستہ آواز سے پڑھنا چاہئے۔ (١) اعوذ با اللہ (٢) بسم اللہ (٣) سبحانک اللہم (٤) آمین حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بھی آمین آہستہ آواز سے کہتے تھے اس کے علاوہ یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ کلمات دعا کو آہستہ آواز سے پڑھنا ہی اولی اور صحیح ہے کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ) 7 ۔ الاعراف 55) یعنی اپنے رب سے دعا گڑ گڑا کر اور چپکے سے کرو۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آمین بھی دعا ہی ہے لہٰذا آمین کو آہستہ سے کہنا اس آیت عمل پر کرنا ہے۔ نیز یہ کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ آمین قرآن کا لفظ نہیں ہے اس لئے مناسب یہی ہے کہ اس کی آواز قرآن کے الفاظ کی آواز سے ہم آہنگ نہ ہو جس طرح کی مصحف (یعنی اوراق قرآن) میں لکھنا جائز نہیں ہے۔

【109】

آمین کی برکت

اور حضرت ابوزہیر نمیری فرماتے ہیں کہ ایک رات کو ہم آقائے نامدار ﷺ کے ہمراہ (باہر) نکلے اور ایک ایسے آدمی کے پاس آئے جو دعا کرنے میں از حد ازاری کر رہا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا واجب کیا اگر ختم کیا ایک آدمی نے پوچھا کہ (یا رسول اللہ ﷺ کس چیز کے ساتھ ختم کرے ؟ فرمایا آمین کے ساتھ۔ (ابوداؤد) تشریح واجب کیا اگر ختم کیا کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ آدمی اپنی دعا پر آمین کہہ کر مہر لگا دے یا آمین پر ختم کر دے تو اس کے لئے جنت و مغفرت واجب ہوگئی یعنی یہ جنت و مغفرت کا حق دار ہوگیا یا اس کی دعا قبول ہوگئی۔ ختم کے دو معنی نقل کئے گئے ہیں مہر لگانا یا ختم کرنا۔ پہلے معنی اس حدیث امین خاتم رب العالمین کی مناسب سے زیادہ اولی و بہتر ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آمین اللہ رب العالمین کی مہر ہے اس کی وجہ سے آفات و بلائیں ختم ہوتی ہیں جس طرح سے کہ مہر سے خط محفوظ رہتا ہے یا وہ چیزیں قابل اعتماد ہوتی ہیں جن پر مہر لگی ہوئی ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنے پروردگار سے دعا مانگے تو اس کو چاہئے کہ دعائیہ کلمات کہنے کے بعد آمین بھی کہے تاکہ اس کی برکت کی وجہ سے وہ بارگاہ قاضی الحاجات میں مقبولیت کے مرتبے سے نوازی جائے اور وہ دعا کامل رہے کیونکہ آمین بمنزلہ مہر کے ہے۔

【110】

رسول اللہ ﷺ مغرب میں طویل قراءت بھی کرتے تھے

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے مغرب کی نماز میں سورت اعراف (اس طرح) پڑھی کہ اسے دونوں رکعتوں میں تقسیم کردیا۔ (سنن نسائی) تشریح یوں تو رسول اللہ ﷺ مغرب کی نماز میں قرأت مختصر کرتے تھے مگر کبھی کبھی آپ ﷺ بیان جواز کے لئے طویل قرأت بھی کرتے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ مغرب کی نماز میں طویل قرأت کرنا جائز ہے۔ چناچہ مغرب کی نماز میں سورت اعراف پڑھنا اسی مقصد کے تحت تھا جہاں تک تنگی وقت کا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مغرب کا وقت طویل قرأت کی گنجائش رکھتا ہے خصوصاً جب شفق کا اطلاق سفیدی پر کیا جائے۔ دونوں رکعتوں میں تقسیم کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس سورت کا کچھ حصہ تو پہلی رکعت میں پڑھا اور کچھ حصہ دوسری رکعت میں۔ اس طرح پوری سورت کو دونوں رکعتوں میں ختم کیا۔

【111】

معوذتین کی فضیلت

اور حضرت عقبہ ابن عامر (رض) فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں آقائے نامدار ﷺ کی اونٹنی کی مہار پکڑے چل رہا تھا کہ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا عقبہ ! کیا میں تمہیں دو بہترین سورتیں جو پڑھی گئی ہیں (یعنی مجھ پر نازل کی گئی ہیں) نہ بتلا دوں ؟ چناچہ آپ ﷺ نے مجھے (معوذتین یعنی) قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس سکھائیں۔ عقبہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ان دونوں سورتوں سے زیادہ خوش نہیں دیکھا۔ پھر جب آپ ﷺ صبح کی نماز پڑھنے کے لئے اترے تو لوگوں کو نماز میں یہی دونوں سورتیں پڑھائیں۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوگئے تو میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا عقبہ ! تم نے (ان کی فضیلت کو) دیکھا ؟۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح بہترین سورتوں کا مطلب یہ ہے کہ شیطان مردود کے مکر و فریب اور نفس کی گمراہی سے اللہ کی پناہ مانگنے کے سلسلہ میں معوذتین بہترین سورتیں ہیں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عقبہ (رض) کو یہ سورتیں سکھانے کے بعد جب دیکھا کہ وہ ان سورتوں کو دیکھ کر کچھ زیادہ خوش نہیں ہوئے کیونکہ دوسری سورتوں کی طرح ان سورتوں میں اللہ کی وحدانیت اور پاکیزگی کا بیان نہیں ہے تو رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز میں انہیں سورتوں کو پڑھ کر فرمایا کہ عقبہ ! تم نے اس سورتوں کی فضیلت دیکھی کہ میں نے ان کو فجر کی نماز میں جو تمام نمازوں سے افضل نماز ہے اور جس میں طویل قرأت کرتا مستحب ہے پڑھا۔

【112】

جمعہ کے روز نماز مغرب کی قراءت

اور حضرت جابر ابن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ جمعہ کے روز مغرب کی نماز میں قل یا ایھا الکافرون اور قال ھو اللہ احد پڑھا کرتے تھے یہ حدیث شرح السنتہ میں منقول ہے اور ابن ماجہ نے یہ حدیث عبداللہ ابن عمر سے (رض) نقل کی ہے لیکن اس میں لیلۃ الجمعۃ کے الفاظ نہیں ہیں۔ تشریح حدیث میں مغرب سے مغرب کی فرض نماز مراد ہے یعنی آپ جمعہ کے روز مغرب کی فرض نماز میں یہ دونوں سورتیں پڑھا کرتے تھے اور یہ بھی احتمال ہے کہ نماز مغرب سے مغرب کی سنتیں مراد ہوں۔ وا اللہ اعلم ابن حبان نے قل ھو اللہ کے الفاظ کے بعد یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ وفی العشاء سورت الجمعۃ والمنافقون یعنی شب جمعہ میں آپ ﷺ عشاء کی نماز میں سورت جمعہ اور سورت منافقون پڑھا کرتے تھے۔ ابن مالک نے کہا ہے کہ یہ حدیث یا اسی قسم کی دوسری حدیث دوام پر محمول نہیں ہیں یعنی آپ ﷺ کا یہ ہمیشہ کا معمول نہیں تھا۔ بلکہ کبھی آپ دوسری سورتیں پڑھا کرتے تھے اور کبھی ان سورتوں کی قرأت کرتے تھے تاکہ لوگ یہ جان لیں کہ ہر ایک سورت کو پڑھنا جائز ہے۔ کسی خاص سورت کو پڑھنا ضروری نہیں ہے۔

【113】

جمعہ کے روز نماز مغرب کی قراءت

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں شمار نہیں کرسکتا کہ میں نے کتنی مرتبے آقائے نامدار ﷺ کی مغرب کی نماز کے بعد اور فجر کی نماز سے پہلے دونوں سنتوں میں قل یا ایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد پڑھتے سنا ہے اس حدیث کو ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا مگر ان کی روایت میں بعد المغرب کے الفاظ نہیں ہیں۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ مغرب کی دونوں سنتوں اور فجر کی دونوں سنتوں میں قل یا ایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد دونوں سورتیں اتنی کثرت سے پڑھا کرتے تھے کہ میں ان کا شمار نہیں کرسکتا۔

【114】

جمعہ کے روز نماز مغرب کی قراءت

اور حضرت سلیمان ابن یسار (رح) (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) فرمایا کرتے تھے کہ میں نے کسی آدمی کے پیچھے آقائے نامدار ﷺ کی نماز کے مشابہ نماز نہیں پڑھی مگر فلاں آدمی کے پیچھے سلیمان فرماتے ہیں کہ میں نے بھی اس آدمی کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ وہ ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں کو طویل پڑھتے تھے اور آخری دونوں رکعتوں کو ہلکی پڑھتے تھے، عصر کی نماز میں تخفیف کرتے تھے۔ مغرب کی نماز میں قصار مفصل اور عشاء میں اوساط مفصل اور فجر کی نماز میں طوال مفصل پڑھا کرتے تھے اور ابن ماجہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے مگر ان کی روایت صرف و یخفف العصر تک ہے (سنن نسائی ) تشریح فلاں آدمی کے تعین کے سلسلے میں بعض حضرات تو یہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات مراد ہے اور بعض حضرات کی رائے ہے فلاں آدمی سے مراد وہ آدمی ہے جس کو خلیفہ مروان نے مدینہ میں حاکم مقرر کر رکھا تھا۔ اس حدیث میں ظہر اور عصر کی قرأت کا اجمالی طور پر ذکر کیا ہے یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آپ ﷺ ظہر کی نماز میں طوال مفصل پڑھتے تھے۔ بلکہ صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ ظہر کی نماز میں طویل قرأت کرتے تھے۔ اسی طرح عصر کی نماز کے بارے بھی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اس میں قصار مفصل پڑھتے تھے یا اوساط مفصل ؟ صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ عصر کی نماز میں تخفیف کرتے تھے بہر حال نمازوں کی قرأت کے سلسلے میں فقہاء نے ایک اصول و نہج بنایا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ نمازوں میں قرأت کرنے کے سلسلے میں عملی طور پر کوئی خلجان واقع نہ ہو اور وہ یہ کہ فجر اور ظہر کی نماز میں طوال مفصل و عصر اور عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب قصار مفصل پڑھی جائیں۔ اس مسئلہ کی وضاحت اس سے پہلے بھی ایک حدیث کی تشریح کے ضمن میں کی جا چکی ہے اور وہاں اس کے اصطلاحی ناموں کی تعریف بھی کی گئی ہے چناچہ ایک مرتبہ پھر سمجھ لیجئے کہ فقہاء کی اصطلاح میں مفصل سے سورت حجرات سے سورت والناس تک کی سورتیں مراد ہیں ان سورتوں کو مفصل اس لئے کہا گیا ہے کہ فصل کے معنی جدا ہونے کے ہیں چناچہ سورت حجرات سے ان چھوٹی چھوٹی سورتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو ایک دوسری سے درمیان میں بسم اللہ ہونے کی وجہ سے جدا ہوتی چلی جاتی ہیں۔ پھر مفصل یعنی سورت حجرات سے سورت و الناس تک کی سورتوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ (١) چھوٹی سورتیں (٢) متوسط سورتین (٣) بڑی سورتیں۔ سورت حجرات سے سورت بروج تک کو طوال مفصل یعنی مفصل کی بڑی سورتیں فرماتے ہیں۔ سورت بروج سے سورت لم یکن (البینہ) تک کو او ساط مفصل یعنی مفصل کی متوسط سورتیں فرماتے ہیں۔ اور سورت لم یکن سے سورت و الناس تک کو قصار مفصل کی چھوٹی سورتیں کہتے ہیں۔

【115】

امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کا بیان

اور حضرت عبادہ بن صامت (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ہم لوگ فجر کی نماز میں آقائے نامدار ﷺ کے پیچھے تھے آپ ﷺ نے جب قرأت شروع کی تو آپ ﷺ پر پڑھانا بھاری ہوگیا۔ پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم لوگ امام کے پیچھے قرأت کیا کرتے ہو ؟ ہم نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ نے فرمایا سوائے سورت فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو اس لئے کہ جو آدمی یہ سورت نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی) نسائی نے یہ روایت بالمعنی نقل کی ہے اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ ﷺ نے (صحابہ کا جواب سن کر) فرمایا جب ہی تو میں یوں کہتا تھا کہ یہ کیا ہوگیا ہے کہ قرأت مجھ پر بھاری ہو رہی ہے، جب میں بآواز بلند پڑھا کروں تو تم لوگ بجز سورت فاتحہ کے اور کچھ مت پڑھا کرو۔ تشریح رسول اللہ ﷺ نماز میں بآواز بلند قرأت کر رہے تھے، آپ ﷺ کے پیچھے مقتدی صحابہ کرام بجائے اس کے کہ خاموشی اختیار کر کے آپ ﷺ کی قرأت سنتے خود بھی قرأت کرنے لگے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مقتدیوں کی قرأت رسول اللہ ﷺ کی قرأت پر اثر انداز ہوئی اور آپ ﷺ کی نماز میں خربطہ پیدا ہوا جس کی وجہ سے آپ ﷺ کے لئے قرأت کرنا مشکل ہوگیا کیونکہ بسا اوقات کامل چیز پر ناقص چیز بھی اثر انداز ہوجاتی ہے جیسا کہ کتاب الطہارت کی ایک حدیث میں گذر چکا ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز میں قرأت شروع کی اور پھر اچانک رک گئے اور پھر اس رکنے کا سبب یہ بیان کیا کہ کچھ ایسے لوگ میرے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں جو ٹھیک طرح سے وضو نہیں کرتے یعنی ان کا وضو نا قص رہ جاتا ہے جو میری نماز و قرأت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے لیکن جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ ائمہ کے ہاں (اس مسئلے میں) اختلاف ہے چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ امام اور منفرد یعنی تنہا نماز پڑھنے والے کے لئے سورت فاتحہ پڑھنا واجب ہے مگر مقتدی کے لئے واجب نہیں ہے خواہ نماز بلند آواز کی ہو یا آہستہ آواز کی۔ اس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے آیت ( وَاِذَا قُرِي َ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَه وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف 204) (نماز میں) جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموشی اختیار کرو۔ امام صاحب اس حدیث کو ابتداء پر محمول کرتے ہیں یعنی یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا پھر بعد میں منسوخ ہوگیا۔

【116】

امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) آقائے نامدار ﷺ (جہری) نمازی سے جس میں قراءت بآواز بلند کی جاتی ہے فارغ ہوئے (اور نمازیوں کی طرف متوجہ ہو کر) فرمایا ابھی تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرأت کی ہے ؟ ایک آدمی نے عرض کیا ہاں ! یا رسول اللہ ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ( میں جبھی تو دل میں) کہتا تھا کہ کیا ہوگیا ہے کہ میں قرآن پڑھنے میں الجھتا ہوں حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب لوگوں نے یہ سنا تو ان نمازوں میں جن میں رسول اللہ ﷺ قرأت بآواز بلند کرتے تھے آپ کے ساتھ قرأت کرنے سے رک گئے۔ (مالک، مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث سے بصراحت سے معلوم ہوگیا ہے کہ صحابہ جہری نماز میں امام کے پیچھے مطلقاً کچھ نہیں پڑھتے تھے نہ تو سورت فاتحہ کی قراءت کرتے تھے اور نہ کسی دوسری سورت و آیت کی لہٰذا حنفیہ کا مسلک ثابت ہوا کہ امام کے پیچھے مقتدیوں کے لئے قرأت کرنا جائز نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ یہ حدیث اس سے پہلے گذرنے والی حدیث کے لئے ناسخ ہو جس میں کہا گیا ہے کہ امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنی چاہئے کیونکہ حضرت ابوہریرہ (رض) بعد میں اسلام لائے ہیں اس لئے ان کی روایت کردہ حدیث بھی اس حدیث کے بعد کی ہوئی اور ظاہر ہے کہ بعد کا حکم پہلے حکم کے لئے ناسخ ہوا کرتا ہے۔

【117】

امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) اور حضرت بیاضی روایت کرتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا نمازی اپنے پروردگار سے (حالت نماز میں) مناجات کرتا ہے لہٰذا اسے چاہئے کہ جو مناجات وہ کرتا ہے اس پر غور کرے (یعنی ذکر و قرأت حضور قلب اور خشوع اور خضوع کے ساتھ کرے) اور قرآن کو پڑھنے میں تم میں سے کوئی ایک دوسرے سے اونچی آواز نہ کرے۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی قرآن پڑھے خواہ نماز میں پڑھے یا نماز کے علاوہ پڑھے تو اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس کی آواز دوسرے نمازی یا دوسرے قاری کی آواز سے اونچی نہ ہو۔ اس طرح کسی ذکر کرنے والے یا سونے والے کے سامنے بھی اونچی آواز سے نہ پڑھے تاکہ ان لوگوں کو اس کی وجہ سے تکلیف نہ پہچنے

【118】

امام کی متابعت ضروری ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا امام اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، لہٰذا جب امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) تشریح فاذا اکبر فکبروا کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ ابن حجر عسقلانی (رح) نے فرمایا ہے کہ مقتدی تکبیر، امام کے تکبیر کہنے کے بعد کہیں۔ نہ تو اس کے ساتھ ساتھ کہیں اور نہ اس سے پہلے کہیں اور یہ حکم تکبیر تحریمہ میں تو واجب ہے البتہ دوسری تکبیرات میں مستحب ہے۔ حدیث کے دوسرے جزء فاذا قرا سے مراد مطلق ہے یعنی خواہ امام بلند قراءت کرے یا آہستہ سے پڑھے۔ دونوں صورتوں میں مقتدیوں کو خاموشی سے اس کی قرأت سننا چاہئے اس کے لئے آپ ﷺ نے فانصتوا یعنی چپ رہو فرمایا۔ فا ستمعوا یعنی سنو نہیں فرمایا ارشاد ربانی ہے۔ آیت (وَاِذَا قُرِي َ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَه وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف 204) یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو (بلند آواز سے پڑھنے کی صورت میں) اسے سنو اور آہستہ آواز سے پڑھنے کی صورت میں) خاموش رہو۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ امام کے پیچھے مقتدیوں کے لئے کچھ پڑھنا مطلقاً ممنوع ہے خواہ نماز جہری (بآواز بلند ہو یا سری بآواز آہستہ) سورت فاتحہ کی قراءت میں ائمہ کے مسلک حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ مقتدی کو سورت فاتحہ پڑھنا خواہ نماز جہری ہو یا سری واجب ہے اور سورت فاتحہ کے علاوہ کوئی سورت وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔ حضرت امام احمد، حضرت امام مالک اور ایک قول کے مطابق خود حضرت امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا بھی مسلک یہ ہے کہ مقتدی کے لئے سورت فاتحہ کا پڑھنا صرف سری نماز میں واجب ہے جہری نماز میں محض امام کی قرأت سننا کافی ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے ہاں خواہ نمازی سری ہو یا جہری دونوں صورتوں میں مطلقاً قرأت مقتدی کے لئے ممنوع ہے نیز صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک بھی مقتدی کو پڑھنا مکروہ ہے۔ حضرت امام محمد جو حضرت امام اعظم کے جلیل القدر شاگرد اور فقہ حنفیہ کے امام ہیں فرماتے ہیں کہ صحابہ کی ایک جماعت کے قول کے مطابق امام کے پیچھے مقتدی اگر سورت فاتحہ کی قرأت کرے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ عمل اس دلیل پر کیا جائے جو زیادہ قوی اور مضبوط ہو، چناچہ حنفیہ کی دلیل یہ حدیث ہے۔ الحدیث ( مَنْ کَانَ لَہ اِمامٌ فَقِرَاءَ ۃٌ الْاِ مَام قِرَاءَ ۃٌ لَہ،۔ یعنی (نماز میں) جس آدمی کا امام ہو تو امام کی قرأت ہی اس (مقتدی) کی قرأت ہوگی۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ البخاری و مسلم کے علاوہ سب ہی نے اسے نقل کیا ہے اور ہدایہ میں تو یہاں تک مذکورہ ہے علیہ اجماع الصحابۃ یعنی اسی پر صحابہ کا اتفاق تھا۔

【119】

جو آدمی قراءت پر قادر نہ ہو وہ کیا پڑھے

اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی آقائے نامدار ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں (فوری طور پر) قرآن میں سے کچھ یاد کرلینے پر قادر نہیں ہوسکتا اس لئے آپ ﷺ مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئے جو میرے لئے کافی ہو آپ ﷺ نے فرمایا تم یہ پڑھ لیا کرو سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر و لا حول ولا قوۃ الا باللہ یعنی اللہ پاک ہے اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اللہ بہت بڑا ہے، گناہوں سے بچنے کی توفیق اور عبادت کرنے کی طاقت صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اس آدمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! یہ تو اللہ کے لئے ہے میرے لئے کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا (اپنے لئے) تم یہ پڑھ لیا کرو۔ اللھم ارحمنی وعافنی واھدنی وارزقنی یعنی اے پروردگار مجھ پر رحم فرما، مجھ کو عافیت سے رکھ ! مجھے ھدایت عطا کر ! اور مجھے رزق دے پھر اس آدمی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کیا اور ان کو بند کیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس آدمی نے اپنے دونوں ہاتھ نیکی سے بھر لئے۔ (سنن نسائی کی روایت الا باللہ تک ختم ہوگئی ہے) ۔ تشریح حدیث کے آخری جملوں کا مطلب یہ ہے کہ جب سائل نے قرأت کا کوئی بدل دریافت کیا اور رسول اللہ ﷺ نے اسے بتادیا تو اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا اور ان کو بند کیا اور اپنے اس عمل سے گویا اس بات کا اقرار کیا کہ آپ ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے میں نے اسے سچ و برحق جانا اور اسے یقین و اعتماد کے ساتھ اپنے دل و دماغ میں جا گزین کرلیا ہے جس طرح کہ جب کسی آدمی کو کوئی قیمتی و اعلی چیز ہاتھ لگتی ہے تو وہ اس چیز کو اپنی مٹھی میں بند کرلیتا ہے۔ مصنف مشکوٰۃ (علیہ الرحمتہ) نے اس حدیث کو باب القرائۃ میں نقل کیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سائل قرآن میں سے اتنا بھی یاد نہ کرسکتا تھا جس سے اس کی نماز درست ہوجاتی۔ مگر یہاں ایک اشکال واقع ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بات کچھ بعید ہی معلوم ہوتی ہے کہ ایک آدمی جو عربی زبان سے پوری طرح واقف تھا کیا وہ اتنا بھی یاد نہ کرسکتا تھا کہ وہ نماز میں پڑھ سکے۔ پھر یہ کہ جتنے کلمات اسے بتائے گئے ہیں۔ اگر وہ ان کلمات کی بقدر بھی قرآن میں سے کچھ یاد کرلیتا تو اس کی نماز کی ادائیگی کے لئے کافی تھا۔ اس اشکال کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ سائل اسی وقت مسلمان ہوا تھا کہ نماز کا وقت آگیا اور چونکہ وہ فوری طور پر اس قادر نہیں ہوسکتا تھا کہ قرآن میں سے کچھ یاد کرسکے اس لئے آسانی و سہولت کے پیش نظر یہ کلمات سکھا دئیے گئے۔ یا پھر اس حدیث کو ابتدائے اسلام پر محمول کیا جائے گا کہ ان دونوں احکام و مسائل کے نفاذ کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ آسانی و سہولت کو پیش نظر رکھا گیا تھا یہ توجیہ زیادہ اولیٰ ہے۔

【120】

احکام الہیٰ پر رسول اللہ ﷺ کے عمل کی ایک مثال

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نا مدار ﷺ جب (کسی نماز میں) سبح اسم ربک الا علی پڑھا کرتے تھے تو سبحان ربی الاعلی کہتے تھے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد) تشریح رسول اللہ ﷺ احکام الہٰی پر کس قدر عمل کرتے تھے ؟ اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے آپ ﷺ کی زندگی کا بنیادی اصول یہی تھا کہ پروردگار عالم جو حکم دے فوراً اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور اس کے بعد اس حکم پر اپنے متبعین کو بھی عمل کرائیں۔ چناچہ آپ ﷺ جب بھی نماز میں سورت اعلیٰ پڑھا کرتے تھے چونکہ اس سورت کے ابتدائی الفاظ سبح اسم ربک الاعلی کا مطلب ہے کہ اپنے پروردگار کی پاکی بیان کرو جو بلند مرتبہ ہے اس لئے آپ اس حکم کی بجا آواری یہ کہہ کر کیا کرتے تھے کہ سبحان ربی الاعلی میں اپنے پروردگار کی پاکی بیان کرتا ہوں جو بلند مرتبہ ہے۔

【121】

نماز میں کن آیتوں کی قراءت کے بعد کہنا چاہئے؟

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ آقائے نا مدار ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جو آدمی سورت وا لتین و الزیتوں پڑھے اور (اس آیت) (اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ ) 95 ۔ التین 8) یعنی کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ پر پہچنے تو یہ الفاظ کہا کرے بلی و انا علی ذلک من الشھدین (یعنی ہا ! اور میں اس کی شہادت دینے والوں میں سے ہوں) اور جو آدمی سورت لا اقسم بیوم القیمۃ پڑھے اور (اس آیت) الیس ذلک بقدر علی ان یحییٰ الموتی (یعنی کیا اس اللہ) کو اس بات پر قدرت نہیں کہ مردوں کو جلا اٹھائے) پر پہچنے تو کہے بلی (یعنی ہاں وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے) اور جو آدمی سورت والمرسلات پڑھے اور اس (آیت) فبای حدیث بعدہ یومنون یعنی اس کے بعد یہ کون سی بات پر ایمان لائیں گے) تو کہے امنا باللہ (یعنی ہم اللہ پر ایمان لائے) ابوداؤد اور ترمذی نے اس روایت کو (والتین کی آیت) وانا علی ذلک من الشاھدین تک نقل کیا ہے۔ تشریح ان آتیوں یا اس قسم کی دوسری آیتوں کے جواب دینے کے سلسلے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے چناچہ حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ خواہ یہ آیتیں نماز میں پڑھی جائیں یا نماز سے باہر پڑھی جائیں بہر صورت ان کے جواب میں مذکورہ الفاظ کہنے چاہئیں اور نماز خواہ نفل ہو یا فرض۔ حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ نماز سے باہر پڑھنے اور نفل نمازوں میں قرأت کرنے کی شکل میں تو جواب دینا چاہیے فرض نمازوں میں نہیں ! حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ صرف نماز سے باہر پڑھنے کی صورت میں جواب دیا جائے نماز میں نہیں، خواہ فرض ہو یا نفل تاکہ یہ وہم نہ ہوجائے کہ یہ الفاظ بھی قرآن ہی کے ہیں۔ علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی حدیث کے ظاہری اطلاق پر نظر کرتے ہوئے کہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم تو نمازی کے بارے میں ہے (لہٰذا چاہیے کہ یہ جواب نماز میں بھی دیئے جائیں) تو ہم کہیں گے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ حکم نفل نمازوں کے بارے میں ہو، فرض نمازوں کے بارے میں نہ ہو۔ کیونکہ خود آقائے نامدار ﷺ کے بارے میں حضرت حذیفہ (رض) کی یہ روایت منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات (یعنی تہجد، کی نماز میں جب کسی آیت پر پہنچتے جس میں رحمت الٰہی کا ذکر ہوتا تھا تو آپ ﷺ اس جگہ قرأت روک کر پروردگار سے طلب رحمت کی درخواست کیا کرتے تھے اور جب کسی آیت پر پہنچتے جس میں عذاب الہٰی کا ذکر ہوتا تھا تو آپ ﷺ اس جگہ قرأت روک کر پروردگار کے عذاب سے پناہ مانگتے تھے نیز یہ کہ آپ ﷺ کے اس معمول یا حکم کو کسی صحابی نے بھی جہری فرائض نماز کے سلسلے میں روایت نہیں کیا ہے۔

【122】

نماز میں کن آیتوں کی قراءت کے بعد کہنا چاہئے؟

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ ( ایک دن) آقائے نامدار ﷺ اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے پاس تشریف لائے اور ان کے سامنے سورت رحمن اول تا آخر پڑھی صحابہ خاموشی اختیار کئے رہے۔ آپ ﷺ نے (جب سورت ختم کرلی تو) فرمایا کہ یہ سورت میں نے جنات کے سامنے اس رات میں پڑھی تھی جبکہ وہ اسلام قبول کرنے اور قرآن سننے کے لئے) جمع ہوئے تھے اور وہ جواب دینے میں تم سے بہتر تھے چناچہ جب میں اس آیت (فَبِاَيِّ اٰلَا ءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ) 55 ۔ الرحمن 13) (یعنی اللہ کی کون سے نعمتوں کو تم جھٹلاتے ہو ؟ ) پر پہنچتا تو وہ یہ جواب دیتے لا بشی من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد (یعنی اے پروردگار ! ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے اور تمام تعریفیں تیرے لئے ہی ہیں اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【123】

دونوں رکعتوں میں ایک سورت پڑھنا

حضرت معاذ ابن عبدا اللہ جہنی (رح) (تابعی) فرماتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کے ایک آدمی نے مجھ سے بیان کیا کہ اس نے آقائے نامدار ﷺ کو فجر کی دونوں رکعتوں میں سورت اذازلزلت الارض پڑھتے سنا ہے اور میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ نے قصد ایسا کیا تھا یا آپ ﷺ بھول گئے تھے۔ (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ فجر کی دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت اذا زلزلت الارض اس طرح پڑھی کی پہلی رکعت میں پوری سورت پڑھی پھر دوسری رکعت میں بھی وہی سورت پوری پڑھی اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ایسا قصدا بیان جواز کے لئے کیا تھا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اصل سنت اس طرح بھی ادا ہوجاتی ہے۔ ویسے جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو بات یہی ہے کہ افضل عدم تکرار ہے۔ یعنی ایک ہی سورت دو رکعتوں میں مکرر نہ پڑھی جائے اور خصوصا فرائض میں تو اس کا خیال رکھنا چاہئے۔

【124】

دونوں رکعتوں میں ایک سورت پڑھنا

اور حضرت عروہ ابن زبیر (رح) (تابعی) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فجر کی نماز پڑھی اور دونوں رکعتوں میں سورت بقرہ پڑھی۔ (مالک) تشریح دونوں رکعتوں میں سورت بقرہ پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سورت کا کچھ حصہ تو آپ ﷺ نے ایک رکعت میں پڑھا اور کچھ حصہ دوسری رکعت میں اور یہ بھی بیان جواز کے لئے کیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے اس پر مداومت ثابت نہیں ہے آپ ﷺ اکثر ایک رکعت میں پوری سورت ہی پڑھتے تھے دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت اس طرح متفرق طور پر پڑھانا نادر ہے۔

【125】

حضرت عثمان نماز فجر میں سورت یوسف کثرت سے پڑھتے تھے

اور حضرت فرافصہ (رح) ( فرافصہ مدینہ طیبہ کے رہنے والے اور مشہور تابعی ہیں۔ آپ قبیلہ بنی حنفیہ کی طرف نسبت کی وجہ سے حنفی کہے جاتے ہیں) ابن عمیر حنفی (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے سورت یوسف، حضرت عثمان بن عفان (رض) سے (سن سن کر) یاد کی ہے کیونکہ وہ اس سورت کو فجر کی نماز میں کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ (مالک) تشریح اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ علماء تو نمازوں میں کسی خاص متعین سورت پر مداوت کرنے کو مکروہ لکھتے ہیں تاکہ قرآن کی بقیہ سورتوں کا ترک کرنا لازم نہ آئے حالانکہ حضرت عثمان (رض) کا یہ معمول اس کے منافی ہے تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ علماء جو مکروہ لکھتے ہیں اس سے ان کی مراد تمام نمازوں میں کسی متعین سورت پر مداومت کرنا ہے اور حضرت عثمان (رض) کا جو معمول ثابت ہے وہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ تو صرف فجر کی نماز ہی میں سورت یوسف بہت کثرت سے پڑھتے تھے تمام نمازوں میں نہیں۔ بعض علماء نے سورت یوسف کا یہ اثر نقل کیا ہے کہ سورت یوسف کے پڑھنے پر مداومت کرنا شہادت کی سعادت حاصل ہونے کا سبب ہے جس کا واضح ثبوت خود حضرت عثمان (رض) کی ذات گرامی ہے کہ آپ شہید ہوئے۔

【126】

حضرت عثمان نماز فجر میں سورت یوسف کثرت سے پڑھتے تھے

اور حضرت عامر ابن ربیعہ ( حضرت عامر آل خطاب کے حلیف تھے۔ آپ کی کنیت ابوعبداللہ ہے آپ بدر اور دوسرے غزوات میں شریک رہے اور ٣٢ ھ میں آپ کی وفات ہوئی) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) ہم نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) کے پیچھے صبح کی نماز پڑھی۔ انہوں نے دونوں رکعتوں میں سورت یوسف اور سورت حج کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا۔ کسی نے حضرت عامر سے پوچھا کہ حضرت عمر (رض) فجر کے طلوع ہوتے ہی (نماز کے لئے) کھڑے ہوجاتے ہوں گے ؟ (یعنی وہ اول وقت میں نماز شروع کردیتے ہوں گے کیونکہ اتنی طویل قرأت جب ہی ممکن ہے) انہوں نے فرمایا کہ ہاں۔ (مالک) تشریح فجر کی نماز کے لئے اول وقت کھڑے ہوجانا متفقہ طور پر سب کے نزدیک جائز ہے لہٰذا یہ حدیث جواز پر محمول ہے مختار یعنی اولیت پر نہیں۔ اس لئے کہ اس حدیث سے کسی طرح بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عمر (رض) ہمیشہ اول وقت کھڑے ہوتے تھے۔

【127】

حضرت عثمان نماز فجر میں سورت یوسف کثرت سے پڑھتے تھے

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا ( حضرت عبدا اللہ) سے نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ مفصل کی کوئی بھی چھوٹی بڑی سورت ایسی نہیں ہے جو میں نے آقائے نامدار ﷺ سے لوگوں کو فرض نماز پڑھاتے وقت نہ سنی ہو۔ (مالک) تشریح رسول اللہ ﷺ نے بیان جواز کے طور پر مفصل کی سورتیں مختلف اوقات میں نمازوں میں پڑھ کر لوگوں کو بتادیا کہ نماز میں ہر سورت کا پڑھنا جائز ہے۔

【128】

حضرت عثمان نماز فجر میں سورت یوسف کثرت سے پڑھتے تھے

اور حضرت عبدا اللہ ابن عتبہ ابن سعود (تابعی) فرماتے ہیں کہ آقائے نا مدار ﷺ نے مغرب کی نماز میں سورت حم دخان پڑھی ہے اس روایت کو نسائی نے مرسلاً نقل کیا ہے (کیونکہ عبدا اللہ ابن عتبہ تابعی ہیں) ۔ تشریح یہاں دونوں ہی احتمال ہیں کہ یا تو آپ ﷺ نے مغرب کی دونوں رکعتوں میں حم دخان پوری سورت پڑھی یا پھر یہ کہ اس کا کچھ حصہ تھوڑا تھوڑا کر کے دونوں رکعتوں میں پڑھا۔ وا اللہ اعلم

【129】

رکوع کا بیان

لغت میں رکوع کے معنی جھکنا ہیں اور اصطلاح شریعت میں یہ نماز کا ایک رکن ہے یعنی وہ حالت ہے جب کہ قیام میں قرأت سے فارغ ہو کہ جھکتے ہیں جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے اس بارے میں یہ امتیاز امت محمدیہ کو ہی حاصل ہے کہ رکوع صرف اسی امت کی نماز میں مشروع ہے دوسری امتوں کی نمازوں میں مشروع نہیں تھا۔

【130】

رکوع و سجود کو ٹھیک طریقے سے ادا کرنا چاہیے

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ آقاء نامدار ﷺ نے فرمایا مسلمانو ! رکوع اور سجود ٹھیک طریقے سے کیا کرو، اللہ کی قسم میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھ لیا کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اقیموا الرکوع والسجود کا مطلب یہ ہے کہ رکوع و سجود قاعدہ کے مطابق اور ٹھہر ٹھہر کر نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ کیا کرو۔ ان ارکان کو جلدی جلدی ادا نہ کیا کرو کہ جس سے نہ رکوع ہی پوری طرح ادا ہو اور اور نہ سجدہ ہی حقیقی معنے میں کہلانے کا مستحق ہو۔ اپنے پیچھے سے دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم لوگ میرے سامنے ہونے کی صورت میں نظر آتے ہو اسی طرح ازراہ معجزہ تم لوگ میرے پیچھے رہنے کی حالت میں بھی میری نظروں میں رہتے ہو اور تمہاری حرکات و سکنات سب پر میری نظر رہتی ہے۔ اس مسئلے کی وضاحت اچھے طریقے پر باب صفۃ الصلوۃ کی تیسری فصل میں کی جا چکی ہے۔

【131】

رسول اللہ ﷺ کا قومہ و سجدہ

اور حضرت براء ابن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ قیام و قعود کے علاوہ آقائے نامدار ﷺ کا رکوع، سجدہ، دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور رکوع سے سر اٹھانا یہ چاروں چیزیں مقدار میں تقریباً برابر ہوتی تھیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے ارکان نماز کی مقدار اس طرح بیان کی جاری ہے کہ چار ارکان یعنی رکوع، قومہ، سجدہ اور جلسہ سب آپس میں تقریباً برابر ہوتے تھے البتہ قیام میں چونکہ قرأت کرتے تھے اور قعود میں التحیات پڑھتے تھے اس لئے یہ دونوں ارکان بقیہ ارکان کے مقابلہ میں طویل ہوتے تھے۔

【132】

رسول اللہ ﷺ کا قومہ و سجدہ

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نا مدار ﷺ جب سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر (رکوع سے) کھڑے ہوتے تو (اتنی دیر تک ٹھہرے رہتے کہ ہم (اپنے دل میں) کہنے لگتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت چھوڑ دی پھر آپ سجدے میں جاتے اور دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر تک بیٹھے رہتے کہ ہم (اپنے دل میں) کہتے کہ آپ ﷺ نے یہ سجدہ چھوڑ دیا ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت انس (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ رکوع سے سر اٹھاتے تو قومہ میں کافی دیر تک کھڑے رہا کرتے تھے یہاں تک کہ بسا اوقات آپ ﷺ کا اتنی دیر تک قومہ میں رہنا ہمیں اس گمان میں مبتلا کردیتا تھا کہ شاید رسول اللہ ﷺ نے اس رکعت کو کہ جس کے رکوع سے آپ ﷺ فارغ ہوئے ہیں ختم کردیا ہے اور اب از سر نو نماز شروع کردی ہے اس طرح آپ ﷺ سجدے سے اٹھ کر دونوں سجدوں کے درمیان جلسہ میں اتنی دیر تک بیٹھے رہتے کہ ہمیں خیال گزرتا کہ شاید رسول اللہ ﷺ نے اس سے پہلے سجدے کو کہ جس سے ابھی آپ ﷺ نے سر اٹھایا ہے ختم کردیا ہے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ قومہ و جلسہ میں اتنی طوالت نفل نمازوں میں کرتے ہوں گے اور یہ بھی امکان ہے کہ بیان جواز کی خاطر فرض نمازوں میں بھی کبھی کبھی کرلیتے ہوں گے۔

【133】

رسول اللہ ﷺ کا قومہ و سجدہ

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ قرآن کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے رکوع و سجود میں یہ دعا بہت کثرت سے پڑھتے تھے۔ سبحانک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی اے اللہ تو پاک ہے، اے ہمارے پروردگار ! میں تیری تعریف بیان کرتا ہوں، اے اللہ تو میرے گناہ بخش دے۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ قرآن میں چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ فسبح بحمد ربک واستغفرہ یعنی اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ پاکی بیان کرو اور اس سے مغفرت مانگو اس لئے رسول اللہ ﷺ اللہ کے اس حکم کی بجا آوری کے لئے رکوع و سجود میں اپنے پروردگار کی تسبیح و تعریف کرتے اور اس سے مغفرت مانگتے تھے کیونکہ خشوع و خضوع کے تمام مواقع و احوال میں رکوع و سجود ہی افضل ترین مواقع و محل ہیں۔ بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ رکوع و سجود کے علاوہ بھی اس دعا کا ورد کرتے تھے چناچہ بعض احادیث میں مذکور ہے کہ سورت اذاجاء کہ جس میں یہ آیت مذکور ہے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ کا آخر عمر میں یہی ذکر تھا۔

【134】

رسول اللہ ﷺ کا قومہ و سجدہ

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ اپنے رکوع و سجود میں یہ کہا کرتے تھے۔ سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح فرشتوں اور روح (یعنی جبرائیل) کا پروردگار بہت پاک ہے اور نہایت پاک ہے۔ (صحیح مسلم)

【135】

رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے کی ممانعت

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا لوگو خبردار رہو ! مجھے اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ میں اس حالت میں رکوع یا حالت سجدہ میں قرآن پڑھوں ! لہٰذا تم رکوع میں اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کرو اور سجدے میں دعا کی پوری پوری کوشش کیا کرو۔ مناسب ہے کہ یہ دعا تمہارے لئے قبول کی جائے۔ (صحیح مسلم) تشریح بعض حضرات تو فرماتے ہیں کہ یہ نہی تنزیہی ہے اور بعض حضرات کا خیال ہے کہ نہی تحریمی ہے اور قیاس بھی یہی کہتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز کی تمام حالتوں (ہیتوں میں سے ہر حالت وہیبت کو ذکر کی انواع میں سے ہر ایک نوع کو ذکر کے لئے مقرر کیا ہے مثلاً قیام کو جو کہ نماز کی تمام حالتوں وہیتوں میں سب سے زیادہ افضل اور رکن اعظم ہے قرآن پڑھنے کے لئے مقرر کیا ہے جو تمام اذکار میں سے سب سے افضل و اعلیٰ درجے کا ذکر ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی جانب سے حالت قیام کو صرف قرآن پڑھنے کے لئے مقرر کرنے کے بعد کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اس کے خلاف کیا جائے اور اگر کوئی اس کے خلاف کرے گا تو وہ یا فعل حرام کا مرتکب ہوگا یا اس کا یہ فعل مکروہ ہوگا۔ اسی طرح دوسرے ارکان کے بارے میں قیاس کیا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ میں رکوع و سجود میں قرآن پڑھوں کیونکہ رکوع و سجود اس لئے مقرر کئے گئے ہیں کہ ان میں پروردگار عالم کی بڑائی بیان کی جائے اور دعا مانگی جائے۔ رکوع میں بڑائی بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سبحان ربی العظیم پڑھو۔ سجدہ میں دعا مانگنے کا حکم دیا گیا ہے تو سمجھ لیجئے کہ دعا کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ دعا کی ایک قسم تو یہ ہوتی ہے کہ پروردگار سے اپنے مطلب و مراد کے لئے درخواست کی جائے اور دعا کی دوسری قسم یہ ہوتی ہے کہ پروردگار کی حمد و ثنا اور تکبیر کی جائے اور اس کے ذکر میں مشغول رہا جائے کیونکہ رحیم و کریم کی تعریف وغیرہ بیان کرنا اور اس کے ذکر میں مشغول رہنا بھی حقیقت میں دعا ہی ہے۔ لہٰذا سجدے میں کثرت سے دعا کرنے کا جو حکم فرمایا گیا ہے وہ دونوں قسم کی دعاؤں پر شامل ہے اس سے معلوم ہوا کہ حنفیہ کا ذکر پر اکتفا کرنا اور صریحا دعا سے منع کرنا بھی دعا کے حکم میں عین بجا آوری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ من شغلہ ذکری عن مسلتی اعطیتہ افضل اعطی السائلین (یعنی جس آدمی کو میرے ذکر نے مجھ سے سوال کرنے سے روکا (اس طرح کہ وہ آدمی میرے ذکر میں مشغول ہونے کی وجہ سے مجھ سے سوال نہ کرسکا) تو میں اس آدمی کو اس چیز سے کہ جو مانگنے والوں کو دیتا ہوں (بہتر (چیز) بخشتا ہوں۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ آدمی اس وقت پروردگار کے ذکر میں خلوص دل سے مشغول رہے۔ بعض محققین حنفیہ نے ان دونوں چیزوں میں یہ تطبیق دی ہے کہ نوافل میں تو صریح دعا مانگنی چاہئے اور فرائض میں صرف تسبیحات پر اکتفاء کرنا چاہئے۔

【136】

رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے کی ممانعت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا۔ جب امام (رکوع سے اٹھتے ہوئے) سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللہم لک الحمد کہو کیونکہ جس آدمی کا یہ کہنا فرشتوں کے کہنے کے ہم آہنگ ہوجائے تو اس کے پہلے کئے ہوئے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس موضوع سے متعلق باب القرائۃ کی پہلی فصل میں اچھی طرح وضاحت کی جا چکی ہے۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی عمل اختیار کرے گا تو انشاء اللہ اس وعدے کے مطابق اس کے تمام صغیرہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ کبیرہ گناہوں کا معاملہ یہ ہے کہ اگر اللہ چاہے گا تو انہیں بھی ازراہ فضل و کرم بخش دے گا کیونکہ اس کی ذات بڑی رحیم و کریم اور غفور ہے۔

【137】

قومہ کی دعا

اور حضرت عبداللہ ابن ابی اوفیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ جب رکوع سے اپنی پشت مبارک اٹھاتے تو یہ کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اس آدمی کی حمد کو جس نے اس کی حمد و ثنا کی۔ اے اللہ اور اے ہمارے پروردگار ! تیرے ہی لئے تمام تعریف ہے آسمانوں بھرنے، زمین بھرنے اور بقدر بھر نے اس چیز کو جس کو تو آسمانوں اور زمینوں کے بعد پیدا کرنا چاہئے۔ (صحیح مسلم) تشریح حنفیہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ کلمات میں ربنا لک الحمد کے بعد کے کلمات یعنی ملا السموت سے آخر تک صرف نفل نمازوں میں پڑھنے چاہئیں۔ فرائض میں نہیں

【138】

قومہ کی دعا

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو یہ کہتے تھے اے اللہ اور اے ہمارے پروردگار ! تیرے ہی لئے تمام تعریف ہے آسمانوں بھرنے زمین بھرنے اور اس چیز کے بھرنے کی بقدر جس کو تو آسمانوں اور زمین کے بعد پیدا کرنا چاہے۔ اے ہر قسم کی تعریف اور بزرگی کے مستحق تیری ذات اس تعریف سے بالاتر ہے جو بندہ کرتا ہے ہم سب تیرے ہی بندے ہیں۔ اے اللہ ! تو نے جو چیز عطا فرما دی ہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس چیز کو تو نے دینے سے روک دیا اس کو کوئی دینے والا نہیں اور دولتمند کو اس کی دولتمندی تیرے عذاب سے کوئی نفع نہیں دیتی (یعنی عذاب سے نہیں بچا سکتی ) ۔ (صحیح مسلم)

【139】

قومہ کی دعا

اور حضرت رفاعہ ابن رافع (رض) فرماتے ہیں کہ ہم آقائے نامدار ﷺ کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے چناچہ آپ ﷺ جب رکوع سے سر مبارک اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ (یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کی حمد و ثنا کو قبول کیا جس نے اس کی حمد و ثنا کی) کہتے (ایک دن آپ ﷺ نے جب رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے یہ کلمات کہے تو) ایک آدمی نے جو آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا کہا ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ (یعنی اے ہمارے پروردگار ! تیرے لئے ہی تعریف اور بہت تعریف ہے (ایسی تعریف) جو (شرک و ریا کی آمیزش سے) پاک اور (کثرت اخلاص و حضوری قلب کی وجہ سے) بابرکت ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ ابھی (ان کلمات کو) کون پڑھ رہا تھا ؟ اس آدمی نے عرض کیا کہ میں تھا ! آپ ﷺ نے فرمایا میں نے کچھ اوپر تیس فرشتوں کو دیکھا جو آپس میں اس بات میں جلدی کر رہے تھے کہ ان کلمات کے ثواب کو پہلے کون لکھے۔ (صحیح البخاری )

【140】

تعدیل ارکان کا حکم اور ائمہ کے مسلک

اور حضرت ابومسعود انصاری (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا کسی آدمی کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ رکوع اور سجدے میں اپنی کمر کو سیدھا نہ کرے۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی) اور امام ترمذی نے فرمایا ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تشریح شرح منیۃ المصلی میں لکھا ہے کہ تعدیل ارکان یعنی رکوع و سجود میں اتنا ٹھہرنا کہ جسم کے تمام اعضاء بدن اپنی اپنی جگہ آجائیں۔ اس حدیث کی بنا پر حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک، حضرت امام احمد بن حنبل اور حنفیہ میں حضرت امام بو یوسف رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کے نزدیک فرض ہے اور اس کی ادنیٰ مقدار ایک تسبیح کے بقدر ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک تعدیل ارکان واجب ہے۔ پھر منیۃ المصلی میں یہ بھی لکھا ہے کہ رکوع سے اٹھ کر کھڑے ہونا یعنی قومہ اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا یعنی جلسہ اور طمانیت یہ سب چیزیں بھی حضرت امام ابویوسف کے نزدیک فرض اور حضرت امام ابوحنفیہ و حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک سنت ہیں۔ علامہ ابن ہمام (رح) کی رائے یہ ہے کہ قومہ اور جلسہ کے بارے میں مناسب اور بہتر یہ ہے کہ ان دونوں کو واجب کہا جائے۔ وا اللہ اعلم۔

【141】

رکوع و سجود کی تسبیحات

اور حضرت عقبہ ابن عامر (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ 56 ۔ الواقعہ 74) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ اس کو (سبحان ربی العظیم) کی صورت میں اپنے رکوع میں شامل کرلو اور جب یہ آیت سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى 87 ۔ الاعلی 1) نازل ہوئی تو فرمایا کہ اس کو (سبحان ربی الاعلی کی صورت میں) اپنے سجدوں میں داخل کرو۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ، دارمی)

【142】

رکوع و سجود کی تسبیحات

اور حضرت عون ابن عبداللہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو اس کو رکوع میں سبحان ربی العظیم تین مرتبہ کہنا چاہئے تب اس کا رکوع پورا ہوگا اور یہ ادنیٰ درجہ ہے اور جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اسے سجدے میں سبحان ربی الاعلی تین مرتبہ کہنا چاہئے تب اس کا سجدہ پورا ہوگا اور یہ ادنیٰ درجہ ہے۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح رکوع میں ان تسبحیات کو تین مرتبہ کہنا ادنیٰ درجہ کمال سنت کا ہے ورنہ تو اصل سنت ایک مرتبہ میں ادا ہوجاتی ہے اور کمال سنت کا اوسط درجہ پانچ مرتبہ ہے اور اعلیٰ درجہ سات مرتبہ کہنا ہے اور انتہائے کمال کی کوئی حد نہیں ہے گو بعض حضرات نے دس مرتبہ کہا ہے اور بعض حضرات نے تو تقریباً قیام کی مقدار تک کہا ہے لیکن بہر صورت میں امام کو مقتدیوں کی رعایت لازم ہوگی۔ فنی طور پر اتنی بات بھی سمجھ لیجئے کہ حدیث منقطع کو مستدل بنانا غلط نہیں ہے کیونکہ متفقہ طور پر سب کے نزدیک فضائل اعمال کے سلسلہ میں حدیث منقطع پر بھی عمل کرنا جائز ہے۔

【143】

رکوع و سجود کی تسبیحات

اور حضرت حذیفہ (رض) راوی ہیں کہ میں نے آقائے نامدار ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی چناچہ آپ ﷺ رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدے میں سبحان ربی الاعلی پڑھتے تھے اور جب بھی آپ ﷺ (قرأت میں) کسی آیت رحمت پر پہنچتے تو وہاں رک جاتے اور طلب رحمت کی دعا کرتے اور جب کسی آیت عذاب پر پہنچتے تو وہاں رک کر عذاب سے پناہ مانگتے۔ ( ترمذی، سنن ابوداؤد، دارمی، سنن نسائی اور ابن ماجہ نے اس روایت کو سبحان ربی الاعلی تک نقل کیا ہے اور جامع ترمذی نے کہا ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تشریح علماء حنفیہ اور علماء مالکیہ اس حدیث کو رسول اللہ ﷺ کی نفل نماز پر محمول کرتے ہیں کیونکہ ان حضرات کے نزدیک فرض نماز میں درمیان قرأت دعا مانگنی اور پناہ مانگنی جائز نہیں ہے لیکن اس حدیث کو جواز پر حمل کرنا بھی ممکن ہے کیونکہ ہوسکتا ہے رسول اللہ ﷺ نے کبھی بیان جواز کی خاطر فرض نماز میں بھی ایسا کیا ہو۔ شیخ جزری (رح) نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو مسلم نے بھی نقل کیا ہے لہٰذا مؤلف مشکوٰۃ کو یہ حدیث دوسری فصل کی بجائے پہلی فصل میں نقل کرنی چاہئے تھی۔

【144】

رکوع و سجود کی تسبیحات

اور حضرت عوف ابن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی چناچہ جب آپ رکوع میں گئے تو سورت بقرہ پڑھنے کے) بقدر ٹھہرے اور (رکوع میں) یہ کہتے جاتے تھے۔ قہر و باد شاہت اور بڑائی و بزرگی کا ملک (خدا) پاک ہے۔ (سنن نسائی) تشریح یہ فرض نماز کا ذکر نہیں ہے بلکہ بعض حضرات کے قول کے مطابق یہ تہجد کی نماز تھی اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ نماز کسوف تھی۔

【145】

رکوع و سجود کی تسبیحات

اور حضرت ابن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس ابن مالک (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے آقائے نامدار ﷺ کی وفات کے بعد اس نوجوان یعنی حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کے علاوہ کسی کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو رسول اللہ ﷺ کی نماز کے مشابہ ہو۔ راوی فرماتے ہیں کہ حضرت انس (رض) نے فرمایا ہم نے ان کے (یعنی آنحضرت ﷺ کے یا حضرت عمر (رض) کے، رکوع کا دس تسبیحات ( کے بقدر) اور سجدے کا دس تسبیحات (کے بقدر) اندازہ کیا۔ (ابوداؤد، سنن نسائی ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جتنی دیر میں وہ رکوع یا سجدہ کرتے تھے ہم دس تسبیحیں پڑھ لیا کرتے تھے لہٰذا وہ بھی دس یا دس سے کم و بیش تسبیحات پڑھتے ہوں گے۔

【146】

رکوع و سجود کی تسبیحات

اور حضرت شفیق (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ (نماز میں) اپنے رکوع و سجود کو پوری طرح ادا نہیں کر رہا تھا چناچہ جب وہ نماز پڑھ چکا تو حضرت حذیفہ (رض) نے اسے بلایا اور کہا کہ تم نے پوری (طرح) نماز نہیں پڑھی۔ حضرت شفیق (رح) فرماتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) نے اس آدمی سے یہ بھی کہا کہ اگر تم (ایسی نماز سے بغیر توبہ کئے ہوئے) مرجاؤ تو تم غیر فطرت پر (یعنی اس طریقہ اسلام کے خلاف) مرو گے جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو پیدا کیا۔ (صحیح البخاری )

【147】

رکوع و سجود کی تسبیحات

اور حضرت ابوقتادہ (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا چوری کرنے کے اعتبار سے سب سے بڑا چور وہ ہے جو اپنی نماز کی چوری کرے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! نماز کی چوری کیسے ہوتی ہے ؟ فرمایا رکوع و سجود کا پورا نہ کرنا۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح مال کی چوری کرنے والے سے نماز کی چوری کرنے والا آدمی اس لئے برا ہے کہ مال چرانے والا کم سے کم چوری کے مال سے دنیا میں فائدہ تو اٹھا لیتا ہے اور پھر یہ کہ مالک سے معاف کرنے کے بعد یا سزا کے طور پر (اسلامی قانون کے مطابق) اپنے ہاتھ کٹوا کر وہ مواخذہ آخرت سے بچ جاتا ہے لیکن اس کے برخلاف نماز کی چوری کرنے والا آدمی ثواب کے معاملے میں خود اپنے نفس کا حق مارتا ہے اور اس کے بدلہ میں عذاب آخرت کو لے لیتا ہے لیکن اس نقصان و خسران کے علاوہ اس کے ہاتھ اور کچھ نہیں لگتا۔

【148】

رکوع و سجود کی تسبیحات

حضرت نعمان بن مرہ (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے (صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا شراب پینے والے، زنا کرنے والے اور چوری کرنے والے کے بارے میں تم لوگوں کا کیا خیال ہے (کہ وہ کس قدر گناہ گار ہیں ؟ ) آپ ﷺ نے یہ سوال حدود نازل ہونے سے پہلے کیا تھا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اللہ اور رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ گناہ کبیرہ ہیں جن کی سزا بھی ہے اور بد ترین چوری وہ چوری ہے جو انسان اپنی نماز میں کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ انسان اپنی نماز میں چوری کیسے کرتا ہے فرمایا رکوع و سجود کو پوری طرح ادا نہیں کرتا۔ (مالک، دارمی) تشریح نقل کردہ روایت میں لفظ ترون تا کے زبر کے ساتھ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تم کیا اعتقاد کرتے ہو ؟ لیکن ایک نسخے میں تا کے پیش کے ساتھ بھی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارا کیا خیال ہے ؟ راوی کے الفاظ میں یہ سوال حدود نازل ہونے سے پہلے کیا تھا۔ وجہ سوال کو ظاہر کر رہے ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ سوال صحابہ کرام (رض) سے اس وقت کیا تھا جب کہ ان افعال کی برائی صحابہ کرام کو اچھی طرح معلوم نہ تھی جب ان افعال بد کی حدود (سزائیں) متعین ہوگئیں تو پھر سب کے ذہن میں ان کی برائی راسخ ہوگئی اور ان میں کوئی شبہ نہ رہا۔

【149】

سجدہ کی کیفیت اور اس کی فضیلت کا بیان

زمین پر سر ٹیکنا اور عاجزی کا اظہار کرنا سجدہ کے لغوی معنی ہیں۔ اصطلاح شریعت میں سجدہ کہتے ہیں اللہ کے سامنے اپنی عبودیت اور کمال عجز و انکساری کے اظہار کے طور پر بندے کا اپنے سر کو زمین پر ٹیک دینا۔

【150】

اعضاء سجدہ

حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا مجھے (جسم کی) سات ہڈیوں یعنی پیشانی، دونوں ہاتھ، گھٹنے اور دونوں پاؤں کے پنجوں پر سجدے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ ممنوع ہے کہ ہم کپڑوں اور بالوں کو سمیٹیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ سجدے میں جسم کے کس کس عضو کو زمین پر ٹیکنا چاہئے چناچہ حکم دیا گیا ہے کہ سجدے کے وقت پیشانی، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے پنجوں کو زمین پر ٹیکنا چاہئے۔ اکثر ائمہ کے نزدیک سجدہ ناک اور پیشانی دونوں سے کرنا چاہیے بغیر ان دونوں کو زمین پر لگائے سجدہ جائز نہیں ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنفیہ اور صاحبیں رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم فرماتے ہیں کہ اگر محض پیشانی ہی ٹیک کر سجدہ کرلیا جائے تو جائز ہے البتہ بغیر عذر کے ایسا کرنا مکروہ ہے۔ حضرت امام شافعی اور صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک محض ناک کو زمین پر ٹیک کر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے ہاں اگر کوئی ایسا عذر پیش ہو کہ پیشانی کو زمین پر ٹیکنا ممکن نہ ہو تو جائز ہے، اس سلسلے میں حضرت امام اعظم (رح) کے دو قول ہیں۔ ایک قول تو یہ ہے کہ جائز نہیں ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ جائز ہے لیکن کراہت کے ساتھ۔ سجدے میں دونوں پاؤں کو زمین پر رکھنا ضروری ہے۔ اگر کوئی آدمی سجدے میں دونوں پاؤں زمین سے اٹھالے گا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی اور ایک پاؤں اٹھالے گا تو سجدہ مکروہ ہوگا۔ سجدے میں پاؤں کی انگلیوں کو قبلے کی طرف رکھنا فرض ہے خواہ ایک ہی انگلی رکھی جائے۔ اگر انگلیاں قبلہ کی سمت نہ ہوں گی تو جائز نہیں ہوگا۔ در مختار میں ایک جگہ مذکور ہے کہ پیشانی اور دونوں پاؤں کے ساتھ سجدہ کرنا فرض ہے اور دونوں پیروں میں کم سے کم ایک انگلی زمین پر رکھنا شرط ہے اور ہاتھوں اور زانوؤں کو زمین پر رکھنا سنت ہے، حنفیہ اور شافعیہ کا مسلک یہی ہے۔ سجدے میں بال اور کپڑے کو ہٹانے اور سمیٹنے کی ممانعت حدیث جملے کا مطلب یہ ہے کہ سجدے میں جاتے ہوئے بالوں اور کپڑوں کو اس غرض سے سمیٹنا اور ہٹانا تاکہ وہ خاک آلود اور گندے نہ ہوں ممنوع ہے، ویسے بھی بغیر اس مقصد کے یوں ہی کپڑوں اور بالوں کو سمیٹنا یا دامن وغیرہ کا باندھ لینا ممنوع ہے۔ بالوں کو سمیٹنے کا مطلب یہ ہے کہ سر کے بالوں کو جمع کر کے دستار وغیرہ کے اندر کرلیا جائے تاکہ سجدے میں لٹکنے نہ پائیں۔ اس سے بھی منع کیا گیا ہے۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ بالوں کو ایسے ہی چھوڑ دینا چاہئے تاکہ وہ بھی سجدہ کریں۔

【151】

سجدہ میں طمانیت کا حکم

اور حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رحمت دو عالم ﷺ نے فرمایا سجدے میں (اطمینان سے) ٹھہرو ! اور تم میں سے کوئی آدمی (سجدے میں) اپنے دونوں ہاتھوں کو کتے کی طرح نہ پھیلائے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سجدے میں اعتدال یعنی ٹھہرنے سے مراد یہ ہے کہ سجدہ میں طمانیت یعنی خاطر جمعی سے ٹھہرا جائے اور سجدہ میں جو تسبیح پڑھی جاتی ہے اسے اطمینان سے پڑھا جائے۔ علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ سجدہ میں اعتدال سے مراد یہ ہے کہ پشت کو ہموار رکھا جائے۔ دونوں ہاتھ زمین پر رکھے جائیں، کہنیاں زمین سے اوپر اٹھی رہیں اور پیٹ زانوں سے الگ رہے۔

【152】

سجدہ میں ہاتھوں اور کہنیوں کو رکھنے کا طریقہ

اور حضرت براء ابن عازب (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا جب تم سجدہ کرو تو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھو اور کہنیوں کو زمین سے اونچا رکھو۔ (صحیح مسلم) تشریح سجدہ میں ہاتھوں کو رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی ہتیھیلیاں زمین پر کانوں کے سامنے رکھی رہیں۔ انگلیاں آپس میں ملی ہوں اور یہ کہ ہاتھ کھلے رہیں کسی کپڑے وغیرہ کے اندر انہیں چھپانا مکروہ ہے۔ کہنیوں کو اونچا رکھنے کے دو ہی معنی ہوسکتے ہیں یا تو یہ کہ دونوں کہنیاں زمین سے اونچی رہیں یا پھر یہ کہ دونوں پہلوؤں سے اونچی رہیں۔ بہر صورت یہ حکم خاص طور پر مردوں کے لئے ہے عورتیں اس حکم میں شامل نہیں ہیں کیونکہ عورتوں کو تو سجدے میں کہنیوں کو زمین پر پہلوؤں سے ملی ہوئی رکھنے کا حکم ہے اس لئے کہ اس طرح جسم کی نمائش نہیں ہوتی اور پردہ اچھی طرح ہوتا ہے۔

【153】

سجدہ میں ہاتھوں اور کہنیوں کو رکھنے کا طریقہ

اور ام الومنین حضرت میمونہ (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ جب سجدے میں جاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان اتنا فرق رکھتے تھے کہ اگر بکری کا بچہ آپ ﷺ کے ہاتھوں کے نیچے سے گذرنا چاہئے تو گذر سکتا تھا۔ یہ الفاط ابوداؤد کے ہیں جیسا کہ خود بغوی نے شرح السنتہ میں اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے اور مسلم نے یہ حدیث بالمعنی نقل کی ہے (جس کے الفاظ یہ ہیں) کہ حضرت میمونہ نے (رض) فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ (اس طرح) سجدے کرتے تھے کہ اگر بکری کا بچہ آپ ﷺ کے ہاتھوں میں سے نکلنا چاہتا تو نکل جاتا۔ تشریح ہاتھوں کے درمیان فرق رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ سجدہ میں اپنے دونوں بازو پہلو سے اور پیٹ اور ران سے الگ رکھتے تھے۔ حدیث میں بکری کے بچے کے لئے بھمۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ بھمۃ بکری کے اس بچہ کو کہتے ہیں جو بڑا ہو کر اپنے پاؤں چلنے لگتا ہے اور جب بکری کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس وقت اسے سخلۃ کہتے ہیں۔ ہذا لفظ ابی داؤد سے مصنف مشکوٰۃ کا مقصد صاحب مصابیح پر اعتراض کرنا ہے کہ اس حدیث کو جس کے الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ پہلی فصل میں نقل کرنا نہیں چاہئے تھا کیونکہ پہلی فصل میں تو صرف شیخین یعنی البخاری و مسلم کی روایت کردہ احادیث ہی نقل کی جاتی ہیں۔

【154】

سجدہ میں ہاتھوں اور کہنیوں کو رکھنے کا طریقہ

اور حضرت عبداللہ ابن مالک ابن بحینہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو اتنا کشادہ رکھتے تھے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہوجاتی تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح بحینہ حضرت عبدا اللہ کی والدہ کا نام ہے اور مالک ان کے والد کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مالک اور ابن کے درمیان کے الف کو باقی رکھ کر مالک کو تنوین کے ساتھ پڑھتے ہیں تاکہ لوگوں کو یہ غلط فہمی نہ ہوجائے کہ مالک بحینہ کے بیٹے کا نام ہے بلکہ یہ جانیں کے بحینہ کے لڑکے حضرت عبداللہ ہی ہیں اور ابن مالک و ابن بحینہ دونوں نسبتیں انہیں کی ہیں۔ بہر حال۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبدا اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو جب نماز پڑھتے دیکھا تھا اس وقت آپ ﷺ کے بدن مبارک پر کپڑا نہ تھا، یا ان کی مراد یہ ہوگی کہ آپ ﷺ کی بغل کی جگہ معلوم ہوتی تھی اور بغلوں کی سفیدی اس لئے کہا ہے کہ آپ ﷺ کی بغل مبارک بالکل سفید اور صاف و شفاف تھی جیسا کہ آپ ﷺ کا پورا بدن ہی آئینہ کی طرح سفید اور صاف و شفاف تھا، دوسرے لوگوں کی طرح آپ ﷺ کی بغلیں سیاح اور مکدر نہ تھیں۔

【155】

سجدے میں رسول اللہ ﷺ کی دعا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ اپنے سجدے میں یہ کہتے تھے۔ ( اللھم اغفرلی ذنبی کلہ دقہ وجلہ واولہ واخرہ وعلانیتہ وسرہ) اے اللہ ! میرے تمام چھوٹے بڑے، پہلے پچھلے، کھلے ہوئے اور چھپے ہوئے گناہ بخش دے۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ سجدے میں کبھی کبھی یہ دعا بھی پڑھا کرتے تھے۔ پھر یہ احتمال بھی ہے کہ یا تو آپ ﷺ اس دعا کو تسبیح یعنی سبحان ربی الاعلی کے ساتھ پڑھتے ہوں گے یا بغیر تسبیح کے صرف اسی دعا پر اکتفاء فرماتے ہوں گے۔ چھپے ہوئے گناہوں سے مراد وہ گناہ ہیں جو انسان کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں ورنہ تو اللہ کے نزدیک چھپے ہوئے کھلے ہوئے گناہ دونوں یکساں ہیں۔ یعلم السر و اخفی یعنی وہ (خدا) پو شیدہ سے پوشیدہ چیزوں کو بھی جانتا ہے۔

【156】

سجدے میں رسول اللہ ﷺ کی دعا

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رحمت عالم ﷺ کو بستر پر موجود نہ پایا، میں آپ ﷺ کو تلاش کر رہی تھی کہ میرا ہاتھ آپ ﷺ کے پاؤں کو جا لگا (چنانچہ میں نے دیکھا کہ) آپ ﷺ بار گاہ الہٰی میں سجدہ ریز تھے اور آپ ﷺ کے دونوں پاؤں مبارک کھڑے ہوئے تھے اور آپ ﷺ یہ کہہ رہے تھے اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِرَضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَا فَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِہ ثَنَا ئً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَاَ اَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ اے اللہ ! میں تیری خوشنودی کے ذریعے تیرے غیظ و غضب سے (یعنی ان افعال سے مجھ پر یا میری امت پر تیرے غضب کا ذریعہ بنیں پناہ مانگتا ہوں، تیری معافی کے ذریعے تیرے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں اور تجھ سے (یعنی تیری رحمت کے ذریعے تیرے قہر سے) پناہ کا طلبگار ہوں۔ میں تیری تعریف کا شمار و احاطہ نہیں کرسکتا۔ تو ایسا ہی ہے جیسا کہ خود تو نے اپنی تعریف کی ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے چھونے سے مرد کا وضو نہیں ٹوٹتا جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے کہ عورت کو چھونا ناقص وضو نہیں ہے۔ لا احصہ ثناء علیک کا مطلب یہ ہے کہ پروردگار ! مجھ میں اتنی طاقت و قوت نہیں ہے کہ تیری ایسی تعریف کرسکوں جو تیری شان کے لائق ہو۔ تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنی تعریف میں کہا ہے کہ۔ آیت (فَلِلّٰهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَرَبِّ الْاَرْضِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 36 وَلَهُ الْكِبْرِيَا ءُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَ كِيْمُ 37) 45 ۔ الجاثیہ 36 ۔ 37) تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو پروردگار ہے آسمانوں کا اور پروردگار ہے زمین کا، پروردگا جہانوں کا ہے اور زمین و آسمانوں میں اسی کے لئے بڑائی و بزرگی ہے اور وہ غالب و دانا ہے۔ (قرآن)

【157】

سجدہ پروردگار سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا بندے کا اللہ سے قریب ترین ہونا اس وقت شمار ہوتا ہے جب کہ وہ سجدہ میں ہو اس لئے تم (سجدے میں) بہت زیادہ دعا کیا کرو۔ (صحیح مسلم) تشریح یوں تو اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر حال میں اپنے بندوں سے نزدیک رہتا ہے مگر سب سے زیادہ نزدیک اس وقت ہوتا ہے جب بندہ سجدہ میں ہوتا ہے یعنی سجدے کی حالت میں اللہ بندہ سے راضی ہوتا ہے اور دعا قبول کرتا ہے اسی لئے آپ ﷺ نے حکم دیا ہے کہ سجدہ میں کثرت سے دعا مانگنی چاہئے تاکہ وہ قبولیت کے درجے کو پہنچے۔

【158】

سجدہ تلاوت کے وقت شیطان کی آہ و بکاہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا جب ابن آدم (یعنی بندہ مومن) سجدے کی آیت پڑھتا ہے اور (پڑھنے والا یا سننے والا) سجدہ کرتا ہے تو اس وقت شیطان لعین روتا ہوا ایک طرف ہٹ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ واحسرتا ! ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کیا اور (اس کے بدلے میں) وہ جنت کا حقدار ہے اور مجھے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو میں نے (سجدہ نہ کر کے پروردگار کی) نافرمانی کی چناچہ (اس کے نیتجے میں) مجھے آگ ملی۔ (صحیح مسلم)

【159】

کثرت سجدہ جنت میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کا ذریعہ ہے

اور حضرت ربیعہ ابن کعب ( حضرت ربیعہ بن کعب نام اور ابوفراس کنیت ہے۔ آپ سفر و حضر میں حضور ﷺ کے ساتھ رہے اور ٢٣ ھ میں آپ کا انتقال ہوا) فرماتے ہیں کہ میں رات کو رحمت عالم ﷺ کے ساتھ رہا کرتا تھا اور وضو کا پانی دوسری ضروریات (مثلاً مسواک، جائے نماز وغیرہ) پیش کیا کرتا تھا (ایک روز) سرکار دو عالم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ (دین و دنیا کی بھلائیوں میں سے جو کچھ مانگنا چاہتے ہو) مانگو ! میں نے عرض کیا میری درخواست تو صرف یہ ہے کہ جنت میں مجھ کو آپ ﷺ کی رفاقت نصیب ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ (جس مرتبے کو تم پہنچنا چاہتے ہو یہ تو بہت عظیم ہے اس کے سوا) کچھ اور مانگو۔ میں نے عرض کیا میری درخواست تو بس یہی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا سو اس مرتبے کو حاصل کرنے کے لئے) تم کثرت سے سجود کے ذریعے اپنی ذات سے میری مدد کرو۔ (صحیح مسلم) تشریح ربیعہ چونکہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہا کرتے تھے اور آپ ﷺ کی ضروریات پیش کرنے پر معمور تھے۔ اس لئے ان کی اس خدمت اور جذبہ اطاعت و فرمانبردای کے صلہ میں آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم دین و دنیا کی جو بھی بھلائی چاہتے ہو مانگ لو۔ ظاہر ہے کہ ایک وفادار خادم اور جاں قربان کرنے والا غلام اس سے بڑی اور کیا تمنا رکھ سکتا ہے کہ اس کا وہ آقا جس کی خدمت نے اس کو دین و دنیا کی عظیم سعادتوں سے نواز رکھا ہے جنت میں بھی اسے ان کی رفاقت کی سعادت حاصل ہوجائے چناچہ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میری سب سے بڑی تمنا اور سب سے بڑی خواہش تو بس یہی ہے کہ جس طرح آپ ﷺ نے مجھے اس دنیا میں اپنے قدموں میں جگہ دے رکھی ہے اسی طرح جنت کی پر سعادت فضا میں بھی آپ ﷺ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوجائے، پہلے تو رسول اللہ ﷺ نے چاہا کہ یہ اس کے علاوہ کچھ اور مانگ لیں مگر جب دیکھا کہ انہیں اپنی اس خواہش پر اصرار ہے تو فرمایا کہ اس عظیم مرتبے اور اس بڑی سعادت کو حاصل کرنے کے لئے تم کثرت سجود کے ذریعے اپنی ذات سے میری مدد کرو۔ یعنی اگر تمہارا یہی اصرار ہے اور تم اسی خواہش کی تکمیل چاہتے ہو تو پھر آؤ تم کو میں ایک ایسا راستہ بتادیتا ہوں جو تمہاری منزل مقصود تک جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارا اپنا تو کام یہ ہونا چاہئے کہ نماز پڑھتے رہو اور بارگاہ الٰہی میں کثرت سے سجدے کر کے اپنی عجز و بےچارگی کا اظہار کیا کرو اور سجدہ میں دعا کرتے رہا کرو، ادھر میں بھی تمہارے لئے دعا کرتا ہوں اور حصول مقصد اور تمہاری اس خواہش کی تکمیل کے لئے کوشش کرتا ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ میں تمہیں جو بتاؤں یعنی جو حکم دوں اس پر پورا پورا عمل کرتے رہو کہ راہ سعادت حاصل ہونے کی تدیبر یہی ہے اور انشاء اللہ اس کے بعد تم منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے۔ فتح قفل ارچہ کلید است اے عزیز جنبش از دست تو می خواہند نیز یعنی عزیز من ! قفل اگرچہ کنجی ہی سے کھلتا ہے لیکن تمہارے ہاتھ کی حرکت بھی تو ضروری ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کی خدمت کرنا اور ان کی رضا اور خوشنودی کو پوری کرنا در حقیقت فضیلت وسعادت کے حصول کا ذریعہ ہے خاص طور پر سرکار دو عالم ﷺ کی رضا کو مد نظر رکھنا تو دین و دنیا کی سب سے بڑی سعادت و بھلائی ہے۔ اس حدیث میں اس بات پر تنبیہ بھی ہے کہ طالب صادق کو چاہئے کہ اس کا مطلوب صرف آخرت کی نعمتیں ہوں کہ جن کو دوام وبقاء حاصل ہے دنیا کی لذتوں کی طرف التفات نہ کرے کہ جو فانی اور ختم ہوجانے والی ہیں۔ لیکن شرط یہ بھی ہے کہ بندگی میں اپنی طرف سے کوئی قصور نہ ہو کیونکہ محض آرزو اور تمنا ہی منزل مقصود تک نہیں پہنچاتی بلکہ اس میں اپنی طرف سے کوشش وسعی کو بھی دخل ہوتا ہے جیسا کہ بڑوں نے کہا ہے کہ کسی تمنا اور آرزو کے ہوتے ہوئے کوشش وسعی نہ کرنا بلکہ بیکار بیٹھنا ٹھنڈے لوہے کو کوٹنا ہے۔ کارکن کار بگزرار گفتار کاندریں راہ کار دار دکار یعنی عمل کرو زبانی جمع خرچ سے بچو، کیونکہ اس راستے میں تو صرف عمل ہی عمل ہے۔

【160】

کثرت سجدہ جنت میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کا ذریعہ ہے

اور حضرت معدان بن طلحہ (رح) (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے رحمت عالم ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان (رض) سے ملاقات کی اور ان سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے کہ اس کے کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر دے۔ ثوبان (میرا سوال سن کر) خاموش رہے، میں نے دوبارہ عرض کیا وہ پھر بھی خاموش رہے جب میں نے تیسری مرتبہ عرض کیا انہوں نے فرمایا کہ یہی سوال میں نے سرکار دو عالم ﷺ سے کیا تھا، چناچہ آپ ﷺ نے (میرے سوال کے جواب میں) فرمایا تھا کہ تم کثرت سے بارگاہ الٰہی میں سجدہ کیا کرو، تم ایک سجدہ اللہ کے حضور میں کرو گے تو اس کی وجہ سے اللہ تمہارا ایک درجہ بلند کر دے گا اور اس کی وجہ سے ایک گناہ کم کر دے گا۔ معدان فرماتے ہیں کہ میں نے پھر حضرت ابودردا (رض) ، سے ملاقات کی اور ان سے بھی وہی سوال کیا (جو ثوبان سے کیا تھا) چناچہ انہوں نے بھی مجھے وہی جواب دیا جو ثوبان نے دیا تھا۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت معدان کے دو مرتبہ سوال کرنے پر بھی حضرت ثوبان (رض) نے جواب اس لئے نہ دیا تاکہ سائل کو رغبت زیادہ ہو اور آتش شوق بھڑک کر جواب کی اہمیت و عظمت کا احساس کرسکے اور عملی قوت پوری طرح بیدار ہوجائے۔ سجدوں سے مراد کوئی خاص سجدے نہیں بلکہ نماز کے سجدے بھی مراد ہوسکتے ہیں اور سجدہ تلاوت یا سجدہ شکر بھی مراد لئے جاسکتے ہیں۔

【161】

سجدہ کرنے کا طریقہ

حضرت وائل ابن حجر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رحمت عالم ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ ﷺ سجدہ کرنے کا ارادہ کرتے تو پہلے اپنے دونوں گھٹنے (زمین پر) ٹیکتے اور پھر دونوں ہاتھ رکھتے اور جب سجدے سے اٹھنے کا ارادہ کرتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے پھر دونوں گھٹنے اٹھاتے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی) تشریح حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیمہا کا مسلک بھی یہی ہے کہ سجدہ کرتے وقت پہلے دونوں گھٹنے زمین پر ٹیکنے چاہئیں اس کے بعد دونوں ہاتھ رکھے جائیں اسی طرح سجدے سے اٹھتے وقت پہلے دونوں ہاتھ اور پھر دونوں گھٹنے اٹھانے چاہئیں ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ (سجدے سے) گھٹنوں کے بل اٹھتے تھے اور اپنے دونوں ہاتھ رانوں پر ٹیکتے تھے۔ علماء نے اعضاء سجدہ کو زمین پر رکھنے کے سلسلے میں ایک اصول متعین کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اعضاء سجدہ کو زمین پر ٹیکنا زمین کے قرب کے اعتبار سے ہے یعنی جو عضو زمین سے زیادہ قریب ہو اسے پہلے زمین پر رکھا جائے اسی ترتیب سے تمام عضو رکھے جائیں اور سجدے سے اٹھتے وقت اس کا عکس ہونا چاہئے۔ یعنی جو عضو زمین سے سے زیادہ قریب ہو اسے سب سے بعد میں اٹھانا چاہئے۔ زمین پر ناک اور پیشانی ٹیکنے کے سلسلے میں مسئلہ تو یہ ہے کہ ناک اور پیشانی یہ دونوں عضو کے حکم ہیں کہ دونوں عضو ایک ساتھ زمین پر ٹیکنے چاہئیں لیکن بعض حضرات کا قول یہ بھی ہے کہ ناک زمین سے زیادہ قریب ہے اس لئے پہلے ناک رکھی جائے اس کے بعد پیشانی ٹیکی جائے۔ علامہ شمنی (رح) نے فرمایا ہے کہ سجدے میں جاتے وقت اگر کسی عذر مثلاً موزے وغیرہ کی بناء پر گھٹنوں کو دونوں ہاتھوں سے پہلے رکھنا دشوار ہو تو پہلے دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک لئے جائیں اس کے بعد دونوں گھٹنے رکھے جائیں

【162】

سجدہ کرنے کا طریقہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی جب سجدہ کرے تو وہ اونٹ کے بیٹھنے کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اسے چاہئے کہ اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے۔ (ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی) اور ابوسلیمان خطابی نے کہا ہے کہ حضرت وائل ابن حجر (رض) کی حدیث اس حدیث سے زیادہ (صحیح) ثابت ہے چناچہ کہا گیا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔ تشریح اونٹ کے بیٹھنے کی طرح نہ بیٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اونٹ زمین پر بیٹھنے کے وقت اپنے دونوں گھٹنے زمین پر پہلے رکھتا ہے۔ اس طرح سجدہ میں جاتے وقت پہلے دونوں گھٹنے زمین پر نہ ٹیکے جائیں۔ آپ ﷺ نے اونٹ کی بیٹھک سے مشابہت دی ہے باوجود یہ کہ اونٹ بیٹھتے وقت زمین پر پاؤں رکھنے سے پہلے ہاتھ رکھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا گھٹنا پاؤں میں ہوتا ہے اور جانور کا گھٹنا ہاتھ میں ہوتا ہے لہٰذا جب کوئی آدمی سجدے میں جاتے وقت زمین پر پہلے گھٹنے رکھے گا تو اونٹ کے بیٹھنے سے مشابہت ہوگی۔ بہر حال۔ یہ حدیث اوپر کی حدیث کے مخالف ہے کیونکہ پہلی حدیث تو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ پہلے گھٹنے زمین پر ٹیکے جائیں اور اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہاتھ زمین پر رکھے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ میں علماء کے ہاں اختلاف ہے چناچہ جیسا کہ اوپر کی حدیث کی تشریح میں بتایا جا چکا ہے جمہور علماء حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اوپر کی حدیث پر جو حضرت وائل ابن حجر (رض) سے مروی ہے عمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پہلے دونوں گھٹنے زمین پر ٹیکے جائیں۔ حضرت امام مالک اور اوزاعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہم اور کچھ دوسرے علماء حضرت ابوہریرہ (رض) کی اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پہلے زمین پر دونوں ہاتھ ٹیکے جائیں۔ ان دونوں احادیث کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی اس روایت سے حضرت وائل ابن حجر (رض) کی اوپر والی حدیث زیادہ صحیح، قوی تر اور مشہور تر ہے اور حفاظ حدیث کی ایک جماعت نے اس حدیث کو مرتبہ صحت پر پہنچا کر اسے ترجیح دی ہے اور فن حدیث کا یہ قاعدہ ہے کہ جب دو حدیثیں ایک دوسرے کے مخالف ہوتی ہیں تو عمل قوی تر اور صحیح تر پر کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علماء نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کو حضرت وائل کی روایت سے منسوخ قرار دیا ہے۔ نیز ایک روایت میں حضرت ابن خزیمہ سے بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدے میں جاتے تھے تو (سجدے کی) ابتدا گھٹنے سے کرتے تھے یعنی پہلے گھٹنوں کو زمین پر ٹیکتے تھے۔ انہی وجوہات کی طرف مولف مشکوٰۃ نے قال ابوسلیمان الخ کہہ کر اشارہ کیا ہے۔

【163】

دونوں سجدوں کے درمیان رسول اللہ ﷺ کی دعا

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ دونوں سجدوں کے درمیان یہ کہا کرتے تھے اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِی وَارْحَمْنِی وَاھْدِنْیِ وَعَافِنِیْ وَارْزُقْنِی۔ اے اللہ مجھے بخش دے مجھ پر رحم کر، مجھے ہدایت فرما (دونوں جہاں کی بلاؤں اور امراض ظاہری و باطنی سے) مجھے محفوظ رکھ اور مجھے رزق عطا فرما۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی )

【164】

دونوں سجدوں کے درمیان رسول اللہ ﷺ کی دعا

اور حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ دونوں سجدوں کے درمیان یہ کہا کرتے تھے کہ رب اغفرلی اے میرے پروردگار مجھے بخش دے۔ (سنن نسائی، دارمی) تشریح اس روایت کو ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے مگر ان کی روایت میں یہ دعائیہ کلمات تین مرتبہ مذکور ہیں یعنی آپ ﷺ دونوں سجدوں کے درمیان یہ دعا تین مرتبہ پڑھتے تھے۔

【165】

جلدی جلدی سجدہ کرنے کی ممانعت

حضرت عبدالرحمن ابن شبل (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے کوے کی طرح ٹھونگ مارنے اور درندوں کی طرح (ہاتھوں کو) بچھانے سے منع فرمایا ہے اور (اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ) کوئی آدمی مسجدوں میں جگہ مقرر کرے جیسا کہ اونٹ مقرر کرتا ہے۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی) تشریح اس حدیث میں تین چیزوں سے منع کیا جا رہا ہے پہلی تو یہ کہ جس طرح کوا زمین سے دانہ چگنے کے لئے جلدی جلدی چونچ زمین پر مار کر دانہ اٹھاتا ہے اس طرح سجدے سے سر جلدی جلدی نہ اٹھایا جائے۔ دوسری چیز یہ کہ جانور مثلاً کتے اور بھڑئیے وغیرہ جس طرح اپنے پہنچے زمین پر بچھا کر بیٹھتے ہیں اس طرح سجدے کے وقت پہنچے زمین پر نہ بچھا دئیے جائیں۔ تیسری چیز یہ کہ جس طرح اونٹ اپنے بیٹھنے کی ایک جگہ متعین و مقرر کرلیتا ہے کہ اس کے علاوہ دوسرا اونٹ اس جگہ نہیں بیٹھ سکتا اسی طرح مسجد میں کوئی جگہ متعین نہ کی جائے کہ اس جگہ کسی دوسرے کو نہ بیٹھنے دیا جائے کیونکہ مسجد سب کے لئے ہے جو جہاں چاہے بیٹھ سکتا ہے اپنے لئے کسی ایک جگہ کو متعین و مقرر کر کے وہاں دوسرے کو بیٹھنے سے روکنا مکروہ و ممنوع ہے۔ علامہ حلوانی (رح) لکھتے ہیں کہ ہمارے علماء کے نزدیک یہ مکروہ ہے کہ مسجد میں کسی خاص کپڑے کو اس لئے متعین کرلیا جائے کہ اس علاوہ کسی دوسرے کپڑے میں نماز پڑھی ہی نہ جائے کیونکہ اس طرح عبادت اس خاص کپڑے کے ساتھ عادت بن جاتی ہے کہ اس کے علاوہ کسی دوسرے کپڑے میں نماز پڑھنا دشواری و گرانی کا باعث بنتا ہے حالانکہ عبادت جب عادت ہوجاتی ہے تو اسے ترک کردینا چاہئے چناچہ اس وجہ سے ہمیشہ روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ پر اس کو قیاس کیا جاسکتا ہے کہ مسجد میں کسی جگہ کو اپنے لئے متعین کرلینا اور اس جگہ کسی دوسرے کو بیٹھنے سے روکنا شریعت کی نظر میں کوئی مستحسن فعل نہیں ہوسکتا جب کہ اس سے مقصد بھی کوئی اچھا نہ ہو۔

【166】

دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء ممنوع ہے

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا اے علی ! جو چیز میں اپنے لئے محبوب رکھتا ہوں وہ چیز تمہارے لئے بھی محبوب رکھتا ہوں اور جو چیز اپنے لئے ناپسند کرتا ہوں وہ چیز تمہارے لئے بھی ناپسند کرتا ہوں، دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء نہ کرو۔ (جامع ترمذی ) تشریح رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس یوں تو پورے عالم ہی کے لئے سراپا رحمت و شفقت تھی مگر آپ ﷺ اپنی امت کے لوگوں کے لئے تو بےانتہا شفیق تھے۔ آپ ﷺ کی شفقت و محبت ہی کا یہ اثر تھا کہ آپ ﷺ جس چیز کو اپنے لئے پسند فرماتے تھے۔ وہی چیز اپنی امت کے افراد کے لئے بھی پسند فرماتے تھے اور جس چیز کو اپنے لئے ناپسند سمجھتے اسے اپنی امت کے لوگوں کے لئے بھی ناپسند سمجھتے تھے۔ آپ ﷺ نے اپنے اسی جذبے کا اظہار حضرت علی المرتضیٰ سے فرمایا اور یہ ظاہر کردیا کہ چونکہ میں دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء کو اپنے لئے پسند نہیں کرتا اس لئے تمہارے اور دوسرے لوگوں کے لئے بھی مجھے یہ چیز پسند نہیں ہے اس لئے اس سے بچو۔ اقعاء کی تحقیق اقعاء کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح بیٹھا جائے کہ کو ل ہے زمین پر لگے ہوئے ہوں اور رانیں اور پنڈلیاں کھڑی ہوں اور ہاتھ زمین پر رکھے ہوں جس طرح کتا زمین پر بیٹھتا ہے۔ اقعاء کے صحیح معنی تو یہی ہیں البتہ بعض حضرات نے اس کا مطلب یہ کیا ہے کہ دونوں سجدوں کے درمیان پاؤں کے پنجوں کو کھڑا کر کے ایڑیوں پر بیٹھا جائے۔ ان کے علاوہ علماء نے اور بھی کئی معنی لکھے ہیں۔ بہر حال اقعاء کی جو بھی شکل اختیار کی جائے۔ دونوں سجدوں کی درمیان اسے اختیار کرنا متقفہ طور پر تمام علماء کے نزدیک مکروہ ہے۔

【167】

رکوع میں کمر سید ھی کرنی چاہئے۔

اور حضرت طلق ابن علی حنفی فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا اللہ بزرگ و برتر اس بندے کی نماز کی طرف نہیں دیکھتا جو اپنی نماز کے سجود و رکوع میں اپنی کمر سیدھی نہیں کرتا۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح بارگاہ الٰہی میں وہی نماز مقبولیت کے درجے کو پہنچتی ہے جس کے تمام ارکان پوری طرح ادا کئے جاویں اگر کوئی رکن اپنے قواعد و آداب کے مطابق درست نہیں ہو تو نماز قبولیت کے درجے کو نہیں پہنچتی چناچہ رکوع و سجود چونکہ نماز کے اہم ترین رکن ہیں اس لئے ان میں اگر نقص رہ جاتا ہے تو گویا پوری نماز ناقص رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ نماز اتمام و کمال کے مرتبے کو نہیں پہنچتی لہٰذا اس حدیث کے ذریعے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ رکوع و سجود ( کو پوری) احتیاط کے ساتھ ادا کرنا چاہئے یعنی پہلے رکوع و سجود سے اٹھنے کے بعد کمر کو اچھی طرح سیدھا کرلینا چاہئے اس کے بعد دوسرا رکوع و سجدہ کیا جائے اگر ایسا نہیں کیا جائے گا پہلے رکوع و سجدہ سے اٹھ کر کمر کو سیدھی کئے بغیر دوسرے رکوع و سجدے میں جلدی جلدی جائے گا تو وہ رکوع و سجود ادا کہلانے کا مستحق نہیں ہوگا جس کا نتیجہ یہ ہوگا اس کی نماز کی طرف رب قدوس نظر بھی نہیں کرے گا یعنی اسے قبول نہیں کریگا۔

【168】

دونوں ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں

اور حضرت نافع (رح) راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جو آدمی اپنی پیشانی زمین پر رکھے (یعنی سجدہ کرے) تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو بھی زمین پر وہیں رکھے جہاں پیشانی رکھی ہے پھر جب (سجدہ سے) اٹھے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو بھی اٹھائے کیونکہ جس طرح چہرہ سجدہ کرتا ہے اسی طرح دونوں ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں۔ (مالک) تشریح نمازی جب سجدے میں جاتا ہے تو صرف اس کی پیشانی اور ناک ہی سجدے میں نہیں جاتیں بلکہ اس کا ہر عضو بارگاہ الٰہی میں جھکتا ہے اور سجدہ کرتا ہے اسی لئے فرمایا جا رہا ہے کہ سجدے کے وقت ہاتھوں کو بھی زمین پر پیشانی رکھنے کی جگہ یعنی پیشانی کے برابر رکھنی چاہئیے تاکہ ہاتھوں کا سجدہ بھی پورا ہوجائے۔ سجدے میں دونوں ہاتھ کہاں رکھے جائیں ؟ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سجدے میں دونوں ہاتھوں کو پیشانی کے برابر رکھا جائے۔ چناچہ حنفیہ کا مختار مسلک بھی یہ ہے شوافع کا مختار مسلک یہ ہے کہ سجدے میں دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر رکھے جائیں۔ حدیث کے الفاظ فلیضع کفیہ علی الذی الخ کا مطب صحیح طور پر یہی ہے کہ دونوں ہاتھ پیشانی کے برابر رکھے جائیں لیکن اس کے یہ معنی بھی مراد لئے جاسکتے ہیں کہ دونوں ہاتھوں کو بھی زمین پر اسی طرح رکھے جس طرح پیشانی رکھی ہے یعنی قبلہ رخ رکھے۔ وا اللہ اعلم۔

【169】

تشہد کا بیان

شہادت کے معنی گواہی دینا اور ایسی سچی خبر دینا کہ اس میں دل و زبان کے ساتھ ہو یعنی جو خبر زبان سے دی جائے وہی دل میں بھی ہو۔ تشہد کہتے ہیں گواہ ہونے کو اور اس علم کے اظہار کرنے کو جو دل میں ہے۔ اصطلاح شریعت میں تشہد اشھد ان لا الہ الا اللہ واشد ان محمد الرسول اللہ کو اور اس ذکر کو جو قعدہ نماز میں پڑھا جاتا ہے کہتے ہیں۔ گویا التحیات کو تشہد اسی لئے کہا گیا ہے کہ اس میں شہادتین کا کلمہ بھی پڑھا جاتا ہے

【170】

التحیات میں ہاتھوں کو رکھنے کا طریقہ

حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ تشہد (یعنی التحیات) میں بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنا داہنا ہاتھ اپنے داہنے گھٹنے پر رکھتے تھے اور اپنا (داہنا) ہاتھ مثل عدد تریپن کے بند کر کے شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔ اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب آپ ﷺ نماز ( کے قعدہ) میں بیٹھتے تو دونوں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتے تھے اور داہنے ہاتھ کی اس انگلی کو جو انگوٹھے کے قریب ہے۔ (یعنی شہادت کی انگلی کو) اٹھاتے اور اس کے ساتھ دعا مانگتے (یعنی) اس کو اٹھا کر اشارہ وحدانیت کرتے) اور بایاں ہاتھ اپنے زانو پر کھلا ہوا رکھتے۔ (صحیح مسلم) تشریح مثل عد ترپین کا مطلب یہ ہے کہ اہل حساب گنتی کے وقت انگلیوں کو جس طرح بند کرتے جاتے ہیں کہ انہوں نے ہر انگلی کو ایک عدد متعین کے لئے مقرر کیا ہوا ہے کہ انہیں اکائیوں کے لئے یہاں رکھا جائے اور دہائی، سینکڑہ اور ہزار کے لئے فلاں فلاں جگہ۔ لہٰذا راوی کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شہادت کی انگلی کو اشارے کے لئے اٹھاتے وقت بقیہ انگلیوں کو اس طرح بند کیا جس طرح تریپن کے عدد کے لئے انگلیوں کو بند کرتے ہیں اور صورت اس کی یہ ہوتی ہے کہ چھنگلیا، اس کے قریب والی انگلی اور بیچ کی انگلی کو بند کرلیا جائے۔ شہادت کی انگلی کھلی رکھی جائے اور انگوٹھے کے سرے کو شہادت کی انگلی کی جڑ میں رکھا جائے۔ یہ عدد تریپن (٥٣) کہلاتا ہے۔ چناچہ حضرت امام شافعی اور ایک روایت کے مطابق حضرت امام احمد نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اسی طریقے کو اختیار کیا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک شہادت کی انگلی اٹھانے کا طریقہ ابھی آپ نے عدد تریپن کی وضاحت پڑھی اسی طرح ایک عدد تسعین (٩٠) ہوتا ہے اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ چھنگلیا اور اس کے قریب والی انگلی کو بند کرلیا جائے اور شہادت کی انگلی کو کھول دیا جائے اور انگوٹھے کا سرا بیچ کی انگلی کے سرے پر رکھ کر حلقہ کی شکل دے دی جائے۔ حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ شہادت کی انگلی اٹھانے کے لئے یہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ اور حضرت امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے نیز حضرت امام شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے اور یہی طریقہ آگے آنے والی صحیح مسلم کی روایت سے بھی ثابت ہے جو حضرت عبداللہ ابن زبیر سے مروی ہے، اسی طرح احمد، و ابوداؤد نے بھی حضرت وائل ابن حجر سے نقل کیا ہے۔ حضرت امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ داہنے ہاتھ کی تمام انگلیاں بند کرلی جائیں اور شہادت کی انگلی کھلی رکھی جائے۔ بعض احادیث میں انگلیوں کو بند کئے بغیر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا بھی ثابت ہے چناچہ بعض حنفی علماء کا کا مختار مسلک یہی ہے اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ کا عمل بھی مختلف رہا ہوگا کہ آپ ﷺ کبھی تو اشارہ بغیر عقد کے کرتے ہوں گے اور کبھی عقد کے ساتھ کرتے ہوں گے۔ اسی بنا پر ان مختلف احادیث کی توجیہ کہ جن سے یہ دونوں طریقے ثابت ہوتے ہیں یہی کی جاتی ہے۔ ماوراء النھر (یعنی بخارا و سمر قند وغیرہ) اور ہندوستان ( ممکن ہے کہ صاحب مظاہر حق علامہ نواب قطب الدین کے زمانے میں عمل عقد و اشارت کے ترک کے قائل ہوں مگر اب تو سب حنفی اس کے قائل ہیں) کے حنفیہ نے اس عمل عقد و اشارت (یعنی داہنے ہاتھ کی انگلیوں کو بند کر کے شہادت کی انگلی کو اٹھانے) کو ترک کیا ہے، گو متقدمین کے ہاں یہ عمل جاری تھا مگر متأخرین نے اس میں اختلاف کیا ہے لیکن حرمین اور عرب کے دوسرے شہروں کے علماء کے نزدیک مختار مسلک عمل عقد و اشارت کرنا ہی ہے۔ علامہ شیخ ابن الہمام (رح) نے جن کا شمار محققین حنفیہ میں ہوتا ہے فرمایا ہے کہ اول تشہد (التحیات) میں شہادتین تک تو ہاتھ کھلا رکھنا چاہئے اور تہلیل کے وقت انگلیوں کو بند کرلینا چاہئے نیز (شہادت کی انگلی سے) اشارہ کرنا چاہئے۔ موصوف لکھتے ہیں کہ اشارہ کرنے کو منع کرنا روایت اور درایت کے خلاف ہے۔ محیط میں مذکور ہے کہ دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو اٹھانا حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک سنت ہے اور حضرت امام ابویوسف (رح) سے بھی اسی طرح ثابت ہیے۔ علامہ نجم الدین زاہدی (رح) فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء کا متفقہ طور پر یہ قول ہے کہ عمل اشارت سنت ہے۔ لہٰذا جب صحابہ کرام تابعین، ائمہ دین، محدثین عظام، فقہائے امت اور علمائے کوفہ و مدینہ سب ہی کا مذہب و مسلک یہ ہے کہ التحیات میں شہادتین کے وقت دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو اٹھانا یعنی اشارہ وحدانیت کرنا چاہئے اور یہ کہ اس کے ثبوت میں بہت زیادہ احادیث اور اقوال صحابہ وارد ہیں تو پھر اس پر عمل کرنا ہی اولیٰ و ارجح ہوگا۔ اشارہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب کلمہ شہادت پر پہنچے تو شافعیہ کے نزدیک الا اللہ کہتے وقت شہادت کی انگلی اٹھالی جائے اور حنفیہ کے نزدیک جس وقت لا الہ کہے تو انگلی اٹھائے اور جب الا اللہ کہے تو انگلی رکھ دے۔ اس سلسلہ میں اتنی بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ انگلی سے اوپر کی جانب اشارہ نہ کیا جائے تاکہ جہت کا وہم پیدا نہ ہوجائے۔ حدیث کے الفاظ یدعوبھا) (اس کے ساتھ دعا مانگتے) کا مطلب یہی ہے کہ آپ ﷺ شہادت کی انگلی اٹھا کر اشارہ وحدانیت کرتے جس کی طرف ترجمہ میں یہ بھی اشارہ کردیا گیا ہے یا پھر دعا سے مراد ذکر ہے کو دعا بھی کہتے ہیں کیونکہ ذکر کرنے والا بھی مستحق انعام و اکرام ہوتا ہے۔ حدیث کے آخری جملے بایاں ہاتھ اپنے زانو پر کھلا ہوا رکھتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ بائیں ہاتھ کو زانو کے قریب یعنی ران پر کھلا ہوا قبلہ رخ رکھتے تھے۔

【171】

التحیات میں ہاتھوں کو رکھنے کا طریقہ

اور حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ جب (نماز میں التحیات پڑھنے کے لئے) بیٹھتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو اپنی دائیں ران پر اور اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور اپنے انگوٹھے کو اپنی بیچ کی انگلی پر رکھتے (یعنی اس طرح حلقہ بنا لیتے تھے) آپ ﷺ (کبھی) اپنے بائیں ہاتھ سے بایاں گھٹنا پکڑ لیتے۔ (صحیح مسلم) تشریح جیسا کہ ابھی پہلے بتایا جا چکا ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ التحیات میں کلمہ شہادت پڑھتے وقت دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اٹھاتے وقت یہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ چھنگلیاں اور اس کے قریب والی انگلی کو بند کرلیا جائے اور انگوٹھے کے سرے کو بیچ کی انگلی کے سرے پر رکھ کے حلقہ بنا لیا جائے اور شہادت کی انگلی اٹھالی جائے۔ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک التحیات پڑھنے کے لئے بیٹھتے وقت ہی اس طرح حلقہ بنا لینا چاہئے لیکن حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک یہ حلقہ انگلی اٹھاتے وقت ہی بنانا چاہئے۔

【172】

التحیات میں ہاتھوں کو رکھنے کا طریقہ

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہم سرور کائنات ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھتے تو (قعدہ میں التحیات کی بجائے) یہ پڑھا کرتے تھے۔ السلام علی اللہ قبل عبادہ السلام علی جبرائیل السلام علی میکائیل السلام علی فلان اللہ پر سلام ہے، میکائیل پر سلام ہے اس کے بندوں پر سلام بھیجے سے پہلے جبرائیل پر سلام ہے اور فلاں (یعنی فرشتوں میں سے کسی فرشتے پر یا انبیاء میں سے کسی نبی پر سلام ہے۔ چناچہ (ایک دن) جب رسول اللہ ﷺ (نماز پڑھ کر) فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اللہ پر سلام نہ کہو کیونکہ اللہ تعالیٰ (تو خود) سلام ہے یعنی پروردگار کی ذات تمام آفات و نقصانات سے محفوظ وسالم ہے وہ بندوں کو تمام ظاہری و باطنی آفات و نقصانات سے سلامتی دیتا ہے اور چونکہ اس کے لئے اور اس کی طرف سے سلامتی ثابت ہے اس لئے سلامتی کے لئے دعا تو اس کے لئے کرنی چاہئے جس کو نقصانات و آفات کا خوف ہو اور جو اس کی سلامتی کا محتاج ہو لہٰذا جب تم میں سے کوئی نماز (کے قعدہ) میں بیٹھے تو یہ کہے التحیات اللہ والصلوات والطیبات اسلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکا تہ السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین سب تعریفیں اور بدنی عبادتیں (یعنی نماز وغیرہ اور مالی عبادتیں (یعنی زکوٰۃ وغیرہ) اللہ ہی کے لئے ہے۔ اے نبی ﷺ تم پر سلام اور اللہ کی برکتیں ہوں۔ ہم پر بھی سلام اور اللہ کے سب نیک بندوں پر سلام۔ آپ ﷺ نے فرمایا جو آدمی ان کلمات کو کہتا ہے تو اس کی برکت زمین و آسمان کے ہر نیک بندے کو پہنچتی ہے۔ (اس کے بعد آپ ﷺ نے ان کلمات کو شہادتین پر ختم فرمایا جو تمام اعمال کی اصل اور خلاصہ ہے۔ چناچہ فرمایا۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر فرمایا اس کے بعد بندے کو جو دعا اچھی لگے اسے اختیار کرے اور اللہ کے سامنے دست سوال دراز کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح ابن ملک (رح) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کو معراج حاصل ہوئی اور آپ ﷺ بارگاہ الٰہی میں باریاب ہوئے تو اللہ جل شانہ کی تعریف میں آپ ﷺ یہ کلمات زبان سے ادا فرمائے التحیات اللہ والصلوات والطیبات۔ تمام تعریفیں اور مالی و بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ اس کے جواب میں بارگاہ الوہیت سے فرمایا گیا۔ السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اے نبی تم پر سلام اور اللہ کی برکتیں و رحمتیں !۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ علینا وعلی عباد اللہ الصالحین۔ ہم پر بھی سلام اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلام۔ تب جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسول۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ بہر حال السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحیں میں نیک بندوں کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ بدبخت و بدکار بندوں پر سلام بھیجنا یا ان کو سلام کہنا مناسب نہیں ہے۔ اس کی سعادت کے حقدار اور لائق تو وہی بندے ہیں جو اپنے عقیدہ و فکر اور اعمال و کردار کے اعتبار سے اللہ اور اللہ کے رسول کی نظر میں پسندیدہ ہیں جنہیں صالح کہا جاتا ہے اور بندہ صالح وہی ہے جو حقوق اللہ و حقوق العباد دونوں کی رعایت کو مد نظر رکھتا ہے اور دونوں کو پورا کرتا ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) نے فرمایا ہے کہ صالح دراصل اس حالت کا نام ہے جس میں بندے کے ذاتی و نفسانی ارادے و خواہشات موت کے گھاٹ اتر جائیں اور اللہ تعالیٰ کی مراد و مقصد پر قائم رہے (جس کی وجہ سے وہ بند صالح کہلانے کا مستحق ہو) لہٰذا بندے کو چاہئے کہ وہ پروردگار کی رضا و خواہش پر اس کیفیت کے ساتھ راضی اور اپنے تمام امور کو خداوندعالم کی طرف اس طرح سوپنے والا ہوجائے جیسا کہ نومولود بچہ دایہ کے ہاتھ میں یا میت نہلانے والوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ جب بندہ اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے اور اس کا جذبہ بندگی و اطاعت اس قدر لطیف و پاکیزہ ہوجاتا ہے تو وہ یقینی طور پر تمام دنیاوی و جسمانی اور نفسانی آفات اور بلاؤں سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔ آخر میں۔ اتنی بات اور سمجھتے چلے کہ التحیات کو دونوں قعدوں میں پڑھنا چاہئے اور یہ کہ درمیان کا قعدہ (یعنی جب دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے ہیں) واجب ہے اور آخری قعدہ (جس میں سلام پھیرا جاتا ہے) فرض ہے۔

【173】

التحیات میں ہاتھوں کو رکھنے کا طریقہ

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ جس طرح ہمیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے اسی طرح تشہد سکھایا کرتے تھے چناچہ کہا کرتے تھے التَّحِیاتُ الْمُبَارَکَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّیبٰتُ لِلّٰہِ السَّلَامُ عَلَیکَ اَیھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ اَلسَّلَامُ عَلَینَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ تمام بابرکت تعریفیں اور تمام مالی و بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اے نبی ﷺ ! تم پر سلام اور اللہ کی برکت و رحمتیں ہم پر بھی سلام اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ (صحیح مسلم) اور مولف مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ میں نے نہ تو صحیحین (یعنی صحیح البخاری و صحیح مسلم میں) اور نہ جمع بین صحیحین میں لفظ سلام علیک اور سلام علینا بغیر الف لام کے پایا ہے البتہ اس طرح اس کو صاحب جامع الاصول نے جامع ترمذی (کے حوالہ) سے نقل کیا ہے۔ تشریح اس روایت میں حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے تشہد یعنی التحیات کے جو الفاظ نقل کئے گئے ہیں اس پر حضرات شافعیہ عمل کرتے ہیں اور التحیات میں انہی الفاظ کو پڑھتے ہیں لیکن حنفیہ حضرات کے ہاں حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کے روایت کردہ تشہد کے الفاظ پر جو اس سے پہلی روایت میں گذرے ہیں عمل کیا جاتا ہے۔ حضرت عبدا اللہ ابن مسعود (رض) کے روایت کردہ تشہد کے بارے میں محدثین صراحت کرتے ہیں کہ یہ صحیح تر ہے۔ چنانچہ حضرت علامہ ابن حجر شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ تشہد کے سلسلے میں جتنی احادیث مروی ہیں ان سب میں سے حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کی روایت کردہ حدیث سب سے زیادہ صحیح تر ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل (رح) بھی عبداللہ ابن مسعود (رض) کی حدیث پر عمل کرتے ہیں اور صحابہ وتابعین میں سے اکثر اہل علم کا معمول بھی انہیں کی حدیث کے مطابق تھا۔ پھر یہ کہ خود رسول اللہ ﷺ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ ﷺ نے عبداللہ ابن مسعود (رض) کی روایت کردہ تشہد کے لئے حکم فرمایا تھا کہ اسے لوگوں کو سکھایا جائے، چناچہ مسند امام احمد ابن حنبل میں منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن مسعود کو (رض) کو حکم دیا تھا کہ وہ اسی تشہد کو لوگوں کو سکھائیں۔ ایک دوسری روایت میں مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور آپ ﷺ جس طرح مجھے قرآن کی تعلیم دیتے تھے اسی طرح آپ ﷺ نے مجھے تشہد سکھایا۔ پھر حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی روایتوں میں یہ بھی بڑا فرق ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کی روایت کو تو بخاری و مسلم دونوں نے نقل کیا ہے جبکہ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کو صرف مسلم نے نقل کیا ہے۔ حضرت امام مالک (رح) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے وہ تشہد اختیار فرمایا ہے جو حضرت عمر (رض) سے منقول ہے یعنی التحیات للہ الذاکیات للہ الطیبات للہ السلام علیک ایھا النبی الخ۔ بہر حال علماء لکھتے ہیں کہ یہ پوری بحث صرف اولیت وا فضیلت سے متعلق ہے یعنی حضرت امام اعظم (رح) کے نزدیک حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) سے مروی تشہد پڑھنا افضل ہے اور حضرت امام شافعی (رح) کے ہاں حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے مروی تشہد پڑھنا افضل ہے۔ لیکن جہاں تک جواز کا سوال ہے تو مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے جو تشہد بھی چاہے پڑھ لیا جائے جائز ہوگا۔ روایت کے آخری الفاظ ولم اجد (الخ) سے دراصل مولف مشکوٰۃ، صاحب مصابیح پر ایک اعتراض کر رہے ہیں وہ کہ یہ صاحب مصابیح نے عبداللہ ابن عباس (رض) سے مروی تشہد میں سلام علیک اور سلام علینا کو بغیر الف لام کے ذکر کیا ہے۔ حالانکہ اس طرح یہ روایت صحیح البخاری و صحیح مسلم میں منقول نہیں لہٰذا صاحب مصابیح کا اس روایت کو پہلی فصل میں ذکر کرنا صحیح نہیں ہے۔ وا اللہ اعلم۔

【174】

اشارہ کے وقت شہادت کی انگلی کو متحرک رکھنا

اور حضرت وائل ابن حجر (رض) فرماتے ہیں کہ پھر سرور کائنات ﷺ (سجدے سے سر اٹھا کر اس طرح) بیٹھے (کہ) اپنا بایاں پاؤں تو بچھا لیا اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھا اور دائیں ران پر دائیں کہنی الگ رکھی (یعنی کہنی کو ران پر رکھتے وقت اسے پہلو سے نہیں ملایا) اور دونوں انگلیاں (یعنی چھنگلیا اور اس کے قریب والی انگلی) بند کر کے (حنفیہ کے مسلک کے مطابق درمیان والی انگلی اور انگوٹھے کا) حلقہ بنایا پھر آپ ﷺ نے شہادت کی انگلی اٹھائی اور میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ اس انگلی کو حرکت دیتے تھے اور اس سے اشارہ (توحید) کرتے تھے۔ (سنن ابوداؤد، دارمی) تشریح یہ حدیث ایک مسلسل حدیث کا ٹکڑا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی تمام نماز کی تفصیل ذکر کی گئی ہے چونکہ اس موقع پر موضوع کی رعایت کے پیش نظر جلسہ کی کیفیت ذکر کرنی مقصود تھی اس لئے ثم جلس سے اس ٹکڑے کو ذکر کیا گیا ہے۔ اس حدیث سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ شہادت کی انگلی کو اٹھا کر اسے متحرک رکھنا چاہئے چناچہ حضرت امام مالک (رح) کا مسلک یہی ہے کہ اشارہ کے وقت انگلی کو ہلاتے رہنا چاہئے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے ہاں انگلی کو متحرک نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ اس کے بعد کی حدیث نے لا یتحرکھا کہہ کر صراحت کے ساتھ اس فعل سے منع کردیا ہے۔ جہاں تک اس حدیث کے الفاظ کا تعلق ہے تو کہا جائے گا کہ یہاں یتحرکھا یعنی حرکت دینے سے مراد انگلی کا اٹھانا ہی ہے کیونکہ انگلی کو اٹھانے میں بھی بہر حال حرکت ہوتی ہے اس توجیہ سے اس حدیث میں اور ما بعد کی حدیث میں تطبیق بھی ہوجائے گی۔

【175】

اشارے کے وقت انگلی کو متحرک نہ رکھنا چاہئے

اور حضرت عبداللہ ابن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ جب (قعدے میں) دعا کرتے (یعنی کلمہ شہادت پڑھتے تھے) تو اپنی انگلی سے اشارہ کرتے تھے لیکن اس کو ہلاتے نہ تھے (ابوداؤد سنن نسائی) اور ابوداؤد نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ اور آپ ﷺ کی نظر اشارے ( والی انگلی) سے تجازو نہ کرتی تھی۔ تشریح ابوداؤد کے روایت کردہ آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ انگلی اٹھانے کے وقت آپ ﷺ کی نظر انگلی ہی پر رہتی تھی دوسری طرف نہیں دیکھتے تھے تاکہ خیالات کی رو دوسری طرف نہ جائے بلکہ مضمون توحید دل میں رہے اور خشوع و خضوع حاصل رہے۔

【176】

اشارہ صرف ایک انگلی سے کرنا چاہئے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی تشہد میں (شہادت کی) دونوں انگلیوں سے اشارہ کرتا تھا چناچہ سرور کائنات ﷺ نے اس سے فرمایا کہ ایک انگلی سے اشارہ کرو۔ ایک ہی انگلی سے اشارہ کرو۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی، بیہقی) تشریح جیسا کہ ابوداؤد و نسائی نے صراحت کی ہے حضرت سعد ابن ابی وقاص (رض) قعدہ میں کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیوں سے اشارہ وحدانیت کرتے تھے جب رسول اللہ ﷺ نے یہ دیکھا تو انہیں اس طریقہ سے منع فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ قاعدہ کے مطابق صرف ایک ہی انگلی یعنی داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرو۔

【177】

قعدہ میں ہاتھوں پر ٹیک لگا کر نہیں بیٹھنا چاہئے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی نماز میں اپنے ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھے (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد) اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی نماز میں اٹھتے ہوئے ہاتھوں پر سہارا دے۔ تشریح حدیث کے پہلے جزء کا مطلب تو یہ ہے کہ جب کوئی آدمی قعدے میں بیٹھے یا قعدہ سے کھڑا ہونے لگے تو اسے چاہئے کہ ہاتھ پر ٹیک نہ لگائے۔ دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ سجدے وغیرہ سے اٹھتے وقت بھی ہاتھوں کا سہارا نہ لیا جائے یعنی ہاتھوں کو زمین پر ٹیکے بغیر گھٹنے کی طاقت سے اٹھا جائے چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا عمل اسی حدیث پر ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) کے ہاں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر ہی سجدے وغیرہ سے اٹھتے ہیں۔ ان کی مستدل وہ حدیث ہے جس سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سجدے وغیرہ سے اٹھتے وقت ہاتھوں کو زمین پر ٹیکا تھا حنفیہ اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل ضعف اور کبر سنی پر محمول ہوگا کہ اس وقت چونکہ ضعف و کمزوری کی وجہ سے آپ ﷺ کے لئے بغیر ہاتھوں کو ٹیکے ہوئے اٹھنا ممکن نہیں تھا اس لئے آپ ﷺ ہاتھوں کو سہارا دے کر اٹھے ورنہ آپ ﷺ بغیر عذر ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر نہیں اٹھتے تھے۔

【178】

قعدہ کی مقدار میں فرق

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ پہلی دو رکعتوں میں (یعنی پہلے قعدے میں) تشہد کے لئے اس قدر بیٹھتے تھے گویا آپ ﷺ گرم پتھر پر بیٹھے ہیں اور (جلد ہی) کھڑے ہوجاتے تھے۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی آدمی گرم پتھر پر زیادہ دیر تک نہیں بیٹھ سکتا بلکہ جلد ہی اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسی طرح آپ ﷺ پہلے قعدے میں چونکہ صرف التحیات پڑھتے تھے دیگر دعا و درود وغیرہ نہیں پڑھتے تھے اس لئے التحیات پڑھتے ہی کھڑے ہوجاتے تھے اس کے برعکس آخری قعدہ میں چونکہ التحیات کے ساتھ درود اور دوسری دعائیں بھی پڑھی جاتی ہیں اس لئے اس میں بیٹھنے کی مقدار پہلے قعدے میں بیٹھنے کی مقدار سے زیادہ ہوتی تھی۔

【179】

قعدہ کی مقدار میں فرق

حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ جس طرح ہم کو قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے اسی طرح تشہد بھی سکھاتے تھے (یعنی جس طرح باعتبار قرأت قرآن کی الفاظ مختلف ہیں اسی طرح تشہد کے الفاظ بھی مختلف ہیں چناچہ اس روایت میں تشہد کے الفاظ اس طرح ہیں بِسْمِ ا وَ بِا التَّحِیَّاتُ لِلّٰہ الصَّلٰواتُ الطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ ا وَ بَرَکَاتُہ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ ا الصَّالِحِیْنَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً اعَبْدُہ، وَرَسُوْلُہ، اَسْاَلُ ا الْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُ بِا مِنَ النَّارِ یعنی اللہ کے نام اور اللہ کی توفیق کے ساتھ شروع کرتا ہوں اور تمام تعریفیں اور تمام مالی و بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ اے نبی ﷺ تم پر سلام ہو اور اللہ کی برکت و رحمتیں اور ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلام اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں اللہ سے جنت کی درخواست کرتا ہوں اور دوزخ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ (سنن نسائی)

【180】

شہادت کی انگلی شیطان کے لئے باعث تکلیف ہے

اور حضرت نافع (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) جب نماز یعنی قعدے میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور (شہادت کی) انگلی سے اشارہ (وحدانیت) فرماتے اور نظر انگلی پر رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا یہ شہادت کی انگلی شیطان پر لو ہے سے زیادہ سخت ہے یعنی شہادت کی انگلی سے اشارہ وحدانیت کرنا شیطان پر نیز وغیرہ پھینکنے سے زیادہ سخت ہے۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح مطلب یہ ہے کہ شیطان کی آرزو اور تمنا تو یہ ہے کہ ہر آدمی ضلالت و گمراہی اور کفر و شرک میں مبتلا ہوجائے لیکن جب وہ ایک نمازی کو دیکھتا ہے کہ وہ اس کی تمنا و آزور کے برخلاف کفر و شرک سے اظہار بیزاری کرتے ہوئے شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے اللہ کی وحدانیت کا اظہار کر رہا ہے تو اس کی امیدوں پر اوس پڑجاتی ہے اور اس وقت اسے اتنی ہی شدید تکلیف پہنچتی ہے جتنی کہ اس کو نیزہ وغیرہ مارنے سے پہنچ سکتی ہے۔

【181】

التحیات آہستہ آواز سے پڑھنا سنت ہے

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ تشہد (یعنی التحیات) آہستہ آواز سے پڑھنا سنت ہے (ابوداؤد، جامع ترمذی) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح جب کوئی صحابی کسی فعل کے بارے میں یہ کہے کہ یہ سنت ہے تو اس کا یہ قول قال رسول اللہ ﷺ کے حکم میں ہوگا یعنی وہ حدیث مرفوع ہوگی۔ چناچہ عبداللہ ابن مسعود (رض) کی اس حدیث کے پیش نظر جمہور محدثین اور فقہا کا مسلک یہی ہے کہ تشہد یعنی التحیات آہستہ آواز سے پڑھنا چاہئے۔

【182】

رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے اور اس کی فضلیت کا بیان

لغوی طو پر صلوۃ کے معنی دعا، رحمت اور استغفار کے ہیں اور درود کا مطلب ہے بندوں کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کے لئے اللہ جل شانہ کی ایسی رحمت کو طلب کرنا جو دنیا و آخرت کی بھلائی کو شامل ہو۔ ا اللہ تعالیٰ نے بندوں کو رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ وسلام یعنی درود بھیجنے کا حکم دیا ہے چناچہ ارشاد بانی ہے۔ آیت ( يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِ يْمًا) 33 ۔ الاحزاب 56) اے ایمان والو تم آپ (یعنی رسول اللہ ﷺ پر سلام اور حمت بھیجو۔ علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم وجوب کے لئے ہے چناچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جتنی مرتبہ بھی رسول اللہ ﷺ کا نام مبارک سنا جائے ہر ہر بار درود بھیجا جائے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جس طرح پوری زندگی میں صرف ایک مرتبہ آپ ﷺ کی نبوت کی گواہی دینی فرض ہے اسی طرح پوری عمر میں صرف ایک مرتبہ آپ ﷺ پر درود بھیجنا فرض ہے۔ اس کے بعد زیادہ سے زیادہ درود بھیجنا مستحب و مسنون اور شعار اسلام میں ہے جس پر بیحد و حساب اجر وثواب کا وعدہ ہے۔ حضرت قاضی ابوبکر (رح) تو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین پر فرض کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر درود وسلام بھیجا جائے اور چونکہ اس سلسلے میں کوئی خاص وقت متعین نہیں کیا اس لئے واجب ہے کہ درود وسلام زیادہ سے زیادہ بھیجا جائے اور اس میں غفلت نہ برتی جائے لیکن بعض حضرات نے حضرت قاضی ابوبکر (رح) کے اس قول کے مقابلے میں پہلے قول کو ترجیح دی ہے۔ التحیات میں درود پڑھنا فرض ہے یا سنت حضرت امام اشافعی (رح) نے التحیات میں درود پڑھنے کو فرض کہا ہے لیکن علماء نے صراحت کی ہے کہ امام اشافعی (رح) کا یہ قول شاذ ہے اس مسئلے میں امام شافعی (رح) کا موافق کوئی عالم نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کا معتمد و مفتی بہ قول یہ ہے کہ کوئی آدمی اگر ایک ہی مجلس میں سرور کائنات ﷺ کا نام مبارک کئی مرتبہ سنے تو اس پر صرف ایک مرتبہ درود بھیجنا واجب ہے اور ہر مرتبہ بھیجنا مستحب ہے اور التحیات میں درود پڑھنا سنت ہے۔ صلوٰۃ وسلام کے الفاظ کا استعمال غیر انبیاء کے لئے جائز ہے یا نہیں ؟ علماء کے ہاں اس بات پر اختلاف ہے کہ انبیاء کے علاوہ دوسرے لوگوں کے ناموں سے ساتھ صلوٰۃ وسلام کے الفاظ استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ مثلاً رسول اللہ ﷺ کے اسم گرامی کے ساتھ ﷺ یا دوسرے انبیاء کے اسماء کے ساتھ (علیہ السلام) کے الفاظ بولے اور لکھے جاتے ہیں تو اس طرح انبیاء کے علاوہ کسی دوسری آدمی کے نام کے ساتھ ان الفاظ کا استعمال جائز ہوگا یا نہیں ؟ چناچہ جمہور علماء فرماتے ہیں کہ ان الفاظ کا استعمال صرف انبیاء کے لئے مخصوص ہے۔ ان کے علاوہ کسی دوسرے آدمی کے لئے ان الفاظ کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے البتہ دوسرے لوگوں کے اسماء کے ساتھ غفر اللہ، (رح) اور (رض) وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے جائیں۔ علامہ طیبی (رح) نے نقل کیا ہے کہ انبیاء کے علاوہ دوسرے لوگوں پر دورد بھیجنا خلاف اولیٰ ہے۔ بعض حضرات نے حرام اور مکروہ بھی کہا ہے اس مسئلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ غیر انبیاء اور ملائکہ پر صلوٰۃ وسلام بھیجنا ابتدا اور مستقلاً مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ یہ اہل بدعت کا شعار ہے البتہ انبیاء کے ساتھ ان پر بھیجنا جائز ہے مثلا اس طرح کہا جاسکتا ہے صلی اللہ علی محمد و علی الہ و اصحابہ وسلم یعنی محمد ﷺ پر اور آپ کی آل اولاد پر اور آپ ﷺ کے صحابہ پر اللہ کی رحمت و برکت وا اللہ اعلم

【183】

التحیات میں درود پڑھنے کا طریقہ

حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی (رح) (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت کعب ابن عجرہ (صحابی) سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں وہ چیز بطور ہدیہ پیش نہ کروں جس کو میں نے رحمت عالم ﷺ سے سنا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! مجھے وہ ہدیہ ضرور عنایت فرمائیے انہوں نے فرمایا کہ ہم چند صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ اور اہل بیت نبوت پر ہم درود کس طرح بھیجیں ؟ اللہ نے ہمیں یہ تو بتادیا ہے کہ آپ ﷺ پر سلام کس طرح بھیجا جائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس طرح کہو ! اللہم صل علی علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید اللہم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجیدا اے اللہ ! محمد پر آل محمد ﷺ پر رحمت نازل کر جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی بیشک تو بزرگ و برتر ہے۔ اے اللہ ! محمد ﷺ اور آل محمد ﷺ پر برکت نازل کر جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکت نازل کی بیشک تو بزرگ و برتر ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح صحابہ کے سوال کا حاصل یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو حکم دیا ہے کہ آپ ﷺ پر درود اور سلام بھیجیں تو سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ آپ ﷺ نے ہمیں سکھایا۔ کہ التحیات میں ہم السلام علیک ایھا النبی کہا کریں۔ اب یہ بھی بتا دیجئے کہ درود کس طرح بھیجیں ؟ صحابہ کے قول اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتادیا ہے کہ آپ ﷺ پر سلام کس طرح بھجیں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی لسان اقدس کے ذریعے ہمیں سلام بھیجنے کی تعلیم دی۔ اسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے تعلیم اس لئے کہا گیا ہے کہ حقیقت میں رسول اللہ ﷺ کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے جو بھی احکام بیان فرمائے ہیں وہ از خود اور اپنے ذہن و فکر سے نہیں بیان فرمائے ہیں بلکہ وہ احکام بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ ﷺ کو دیئے گئے اس کو آپ ﷺ اپنی لسان اقدس کے ذریعہ نافذ فرمایا۔ ال کی تعریف و تحقیق اہل و عیال کو کہتے ہیں اس کے معنی تابعدار بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ وعلی ال محمد میں آل کے تعین کے سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ال محمد سے مراد صرف آپ ﷺ کے اہل و عیال ہیں۔ کچھ حضرات نے کہا ہے کہ آل سے مراد تابعداد مراد ہیں بعض علماء کی رائے ہے کہ ہر مومن آل محمد میں سے ہے کسی نے کہا کہ ہر متقی مومن آل محمد میں شامل ہے یہ سب علماء کے اقوال ہیں لیکن بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں آل سے مراد تابعدار ہیں۔ گو بعض علماء نے آل کی تفسیر اہل بیت سے کی ہے یعنی ان حضرات کے نزدیک آل محمد سے اہل بیت یعنی وہ لوگ مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور جنہیں بنی ہاشم کہا جاتا ہے۔ امام فخر الدین رازی (رح) نے کہا ہے کہ اہل بیت میں آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اور اولاد شامل ہیں اور چونکہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا ربط بھی ان سب سے حضرت فاطمہ الزہراء (رض) کی وجہ سے بہت زیادہ تھا اس لئے وہ بھی اہل بیت میں داخل ہیں۔ کما صلیت علی ابراہیم میں صرف حضرت ابراہیم کی تخصیص کی گئی ہے اور کسی نبی کا ذکر نہیں کیا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ کے جد امجد ہیں، نیزیہ کہ اصول دین میں شریعت محمدی ان کے تابع ہے۔ اے اللہ محمد ﷺ پر برکت نازل کر کا مطلب یہ ہے کہ رب قدوس ! تو نے ہمارے سرکار و سردار رحمت عالم ﷺ کو جو شرف و فضیلت عطا فرمائی اور آپ ﷺ کو جو بزرگی و بڑائی دی ہے اس کو ہمیشہ اور باقی رکھ ! روایت کے آخری الفاظ الا ان مسلما لم یذکر الخ کا مطلب یہ ہے کہ مسلم نے جو روایت نقل کی ہے اس کے پہلے اور دوسرے دونوں ہی درود میں علی ابراہیم کے الفاظ نہیں ہیں یعنی اس کے الفاظ اس طرح ہیں کما صیلت علی آل ابراہیم اور کما بارکت علی آل ابراہیم

【184】

التحیات میں درود پڑھنے کا طریقہ

اور حضرت ابوحمید ساعدی (رح) فرماتے ہیں کہ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ ﷺ پر درود کس طرح بھیجیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کہو ؟ اللہم صل علی محمد وازواجہ وذریتہ کما صلیت علی ابراہیم وبارک علی محمد وازواجہ وذریتہ کما بارکت علی ال ابراہیم انک حمید مجید اے اللہ ! محمد ﷺ پر، آپ ﷺ کی ازواج مطہرات پر اور آپ ﷺ کی اولاد پر رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی اور محمد ﷺ پر، آپ ﷺ کی ازاوج مطہرات پر اور آپ ﷺ کی اولاد پر برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم پر برکت نازل فرمائی، بیشک تو بزرگ و برتر ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح درود کے الفاظ مختلف طریقے سے وارد ہوئے ہیں جیسا کہ ابھی آپ نے دیکھا۔ پہلی حدیث میں درود کے الفاظ کچھ اور ہیں اور اس حدیث کے الفاظ کچھ اور چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ پہلی حدیث میں جو درود ذکر کیا ہے وہ پڑھ لینا کافی ہے بعض روایتوں میں وارحم کما رحمت و ترحمت کے الفاظ بھی مذکور ہیں مگر یہ الفاظ صحیح طور پر ثابت نہیں ہیں۔ بعض محدثین نے وضاحت کی ہے کہ جس حدیث میں ان الفاظ و ترحم علی محمد وال محمد کما ترحمت علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم کا بھی اضافہ ہے وہ حدیث حسن ہے۔ وا اللہ اعلم

【185】

درود بھیجنے کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (صحیح مسلم) تشریح چونکہ ارشاد ربانی ہے من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثا لھا یعنی جو آدمی ایک نیکی کرتا ہے تو اس کے لئے اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب ہے اس لئے جو آدمی آنحضرت ﷺ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس خوشخبری کے مطابق اس آدمی پر دس مرتبہ رحمت نازل فرماتا ہے۔

【186】

درود بھیجنے کی فضیلت

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس (مرتبہ) رحمتیں نازل فرمائے گا، اس کے دس گناہوں کو معاف کرے گا اور (تقرب الی اللہ کے سلسلے میں) اس کے دس درجے بلند کرے گا۔ (سنن نسائی )

【187】

درود بھیجنے کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے قریب وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر اکثر درود پڑھنے والے ہیں۔ (جامع ترمذی ) تشریح ابن حبان (رح) نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی اور آپ ﷺ کی یہ خوشخبری عظمی محدثین کرام پر زیادہ صادق آتی ہے چونکہ کوئی جماعت محدثین سے زیادہ دورد نہیں بھیجتی اس لئے قیامت کے دن تمام لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ سے قریب یہی مقدس طبقہ ہوگا۔

【188】

فرشتے امتیوں کے سلام رسول اللہ ﷺ تک پہنچاتے ہیں

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرشتے جو زمین پر سیاحت کرنے والے ہیں میری امت کا سلام میرے پاس پہنچاتے ہیں۔ (سنن نسائی، دارمی) تشریح اس حدیث کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو روضہ اقدس سے دور رہتے ہیں اور انہیں روضہ مقدس پر حاضری کا شرف حاصل نہیں ہوتا، چناچہ ایسے لوگ جب رسول اللہ ﷺ پر قلیل یا کثیر تعداد میں سلام بھیجتے ہیں تو فرشتے ان کا سلام بارگاہ نبوت میں بصد عقیدت و احترام پیش کرتے ہیں۔ البتہ وہ حضرات جنہیں اللہ نے اپنے محبوب کے روضہ اقدس پر حاضری کی سعادت سے نواز رکھا ہے۔ جب وہ بارگاہ نبوت میں سلام پیش کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ تک پہنچانے کے لئے فرشتوں کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ روضہ اقدس پر حاضر ہونے والوں کے سلام آنحضور ﷺ خود سنتے ہیں۔ اس حدیث سے چند باتوں پر روشنی پڑتی ہے۔ اول یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو حیات جسمانی حاصل ہے کہ جس طرح آپ ﷺ کو اس دنیا میں زندگی حاصل تھی اس طرح آپ ﷺ کو قبر میں بھی زندگی حاصل ہے۔ دوم یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی امت کے لوگ جب آپ ﷺ پر سلام بھیجتے ہیں تو آپ ﷺ خوش ہوتے ہیں جو سلام بھیجنے والے کے حق میں انتہائی سعادت و خوش بختی کی بات ہے۔ سوم یہ کہ جب فرشتے کسی امتی کا سلام بارگاہ نبوت میں پیش کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سلام قبولیت کے درجہ کو پہنچ گیا ہے۔ اور اگلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ۔ آپ ﷺ سلام بھیجے والے کے سلام کا جواب بھی دیتے ہیں نیز ایک روایت میں مذکور ہے کہ جب فرشتے سلام لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوتے ہیں تو سلام بھیجنے والے کا نام بھی لیتے ہیں مثلا وہ فرماتے ہیں۔ یا رسول اللہ ﷺ ! مولانا محمد قطب الدین محی الدین آپ کی خدمت بابرکت میں سلام عرض کرتے ہیں۔ یا آپ کا ایک ادنیٰ غلام عبداللہ جاوید ابن مولانا محمد عبدالحق خدمت اقدس میں نذرانہ سلام پیش کرتے ہیں۔ یا فقیر محمد اصغر خدمت عالیہ میں سلام عرض کرتا ہے۔ جاں می دہم درآز والے قاصد آخر باز گو در مجلس آں نازنیں حرفے کہ ازامامی رود

【189】

رسول اللہ ﷺ سلام بھیجنے والے کے سلام کا جواب دیتے ہیں

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا جب کوئی آدمی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح کو مجھ پر لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ (سنن ابوداؤد، بیہقی) تشریح اہل سنت والجماعت کا یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ آقائے نامدار فخر دو عالم ﷺ (فداہ ابی و امی) عالم برزخ میں زندہ ہیں مگر اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ عالم برزخ میں زندہ نہیں ہیں بلکہ جب کوئی آدمی آپ ﷺ کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہے تو اس وقت آپ ﷺ کی روح مبارک جسم میں لوٹ آتی ہے پھر آپ ﷺ سلام کا جواب دیتے ہیں۔ اس تعارض کا جواب یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ روح لوٹانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روح مبارک آپ ﷺ کے مقدس بدن میں ہمہ وقت موجود نہیں رہتی صرف سلام بھیجنے کے وقت اسے کچھ وقت کے لئے بدن میں واپس کردیا جاتا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ۔ آپ ﷺ کی روح مبارک چونکہ ہمہ وقت مشاہدہ رب العزت میں مستغرق رہتی ہے اس لئے اس کو حالت استغراق و مشاہدہ سے ہٹا کر اس عالم کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے تاکہ آپ ﷺ اپنے امتیوں کے درود وسلام سنیں اور اس کا جواب دیں۔ چناچہ روح مبارک کے اسی متوجہ کرنے اور آگاہ کرنے کو ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری روح کو مجھ پر لوٹا دیتا ہے ورنہ تو تمام انبیاء صلوات اللہ علیہم اجمعین اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ اب سوال یہ رہ گیا کہ حدیث میں مذکورہ فضیلت خاص طو پر ان لوگوں سے متعلق ہے جو روضہ اقدس پر حاضری دیتے ہیں اور اس کی زیارت کرتے ہیں یا عمومی طور پر سب لوگوں کے لئے ہے ؟ تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی فضیلت کا تعلق عمومی طور پر ہے۔ یعنی خواہ کوئی آدمی آپ ﷺ کے مزار اقدس پر حاضر ہو کر سلام پیش کرے یا کسی دور دراز علاقے سے سلام بھیجے۔ سلام بھیجے۔ البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ جو آدمی روضہ اقدس پر حاضری کا شرف حاصل نہیں کرسکتا آپ ﷺ ان کا سلام فرشتوں کے واسطے سے سنتے ہیں جیسا کہ تیسری فصل میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی آنے والی حدیث سے بھی معلوم ہوجائے گا۔

【190】

گھروں کو قبر نہ بنایا جائے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں۔ کہ میں نے رحمت عالم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اپنے گھروں کو قبروں کی طرح نہ رکھو اور میری قبر پر عید (کی طرح میلہ) نہ مقرر کرو۔ تم مجھ پر درود پڑھا کرو۔ کیونکہ تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا درود میرے پاس پہنچتا ہے۔ (سنن نسائی) تشریح حدیث کے پہلے جزء کے تین مطلب ہوسکتے ہیں اول یہ کہ اپنے گھروں کو قبروں کی طرح نہ سمجھ لو کہ جس طرح مردے اپنی قبر میں پڑے رہتے ہیں تم بھی اپنے گھروں میں مردوں کی طرح پڑے رہو ان میں نہ عبادت کرو اور نہ کچھ نمازیں پڑھو بلکہ اسی طرح گھروں میں بھی عبادت کرو اور کچھ نمازیں پڑھو تاکہ اس کے انوار و برکات گھر اور گھر والوں کو پہنچیں اور اس کی شکل یہ ہونی چاہئے کہ فرض نمازیں تو مساجد میں ادا کرو اور سنن و نوافل اپنے گھر آکر پڑھو کیونکہ نوافل مساجد کی بہ نسبت گھر میں ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ۔ اپنے گھروں میں مردے دفن نہ کرو۔ اس موقعہ پر یہ اشکال پیدا نہ کیجئے کہ خود رسول اللہ ﷺ تو اپنے گھر ہی زیر زمین آرام فرما ہیں۔ کیونکہ یہ صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کو ایسا نہ کرنا چاہئے۔ تیسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ قبروں کو سکونت کی جگہ قرار نہ دو جیسا کہ آجکل اولیاء اللہ کے مزارات اور قبرستانوں پر ان کے خدام مجاوروں نے سکونت اختیار کر رکھی ہے، تاکہ دل کی نرمی اور طبیعت و مزاج کی شفقت و رحمت ختم نہ ہوجائے بلکہ ایسا کرنا چاہئے کہ قبروں کی زیارت کر کے اور ان پر فاتحہ وغیرہ پڑھ کر اپنے گھروں کو واپس آجاؤ۔ حدیث کے دوسرے جزء میری قبر کو عید (کی طرح) قرار نہ دو کا مطلب یہ ہے کہ میری قبر کو عید گاہ کی طرح نہ سمجھو کہ وہاں جمع ہو کر زیب وزینت اور لہو و لعب کے ساتھ خوشیاں مناؤ اور اس سے لطف و سرور حاصل کرو۔ جیسا کہ یہود و نصاری اپنے انبیاء کی قروں پر اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔ حدیث کے اس جزء سے آج کل کے ان نام نہاد ملاؤں اور بدھ پرستوں کو یہ سبق حاصل کرنا چاہئے جنہوں نے اولیا اللہ کے مزارات کو اپنی نفسانی خواہشات اور دنیاوی اغراض کا منبع و مرجع بنا رکھا ہے اور ان مقدس بزرگوں کے مزارات پر عرس کے نام سے دنیا کی وہ خرافات اور ہنگامہ آرائیاں کرتے ہیں جن پر کفر و شرک بھی خندہ زن ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ان کے حوالے مانڈوں نذر و نیاز اور لذت پیٹ و دہن نے ان کی عقل پر نفس پرستی اور ہوس کاریوں کے وہ موٹے پردے چڑھا دیئے ہیں جن کی موجودگی میں نہ انہیں نعوذ باللہ قرآنی احکام کی ضرورت ہے اور نہ انہیں کسی حدیث کی حاجت۔ اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے۔ آمین بعض علماء نے اس جزء کی تشریح یہ کی ہے عید کی طرح سال میں صرف ایک دو مرتبہ ہی میری قبر کی زیارت کے لئے نہ آیا کرو بلکہ اکثر و بیشتر حاضر ہوا کرو۔ اس صورت میں آپ ﷺ نے اپنی قبر کی زیادہ سے زیادہ زیارت اور اس محیط علم و عرفان اور منبع امن و سکون پر اکثر و بیشتر حاضری پر امت کے لوگوں کو ترغیب دلائی ہے۔ حدیث کے آخری جزء کا مطلب یہ ہے کہ مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجو، اگر کوئی آدمی میرے روضے سے دور ہے اور بعد مسافت اختیار کئے ہوئے ہے تو اس کو اس کا خیال نہ کرنا چاہئے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ اپنی جگہ بیٹھا ہوا ہی مجھ پر درود بھیجتا رہے کیونکہ جہاں سے بھی درود بھیجا جائے گا میرے پاس پہنچ جائے گا۔ اس طرح آپ ﷺ نے ان مشتاقان زیارت کی جنہیں روضہ اقدس پر حاضری کی سعادت حاصل نہیں ہوسکی۔ تسلی فرمائی ہے کہ اگرچہ مجبوریوں کی بنا پر تم مجھ سے دور ہو لیکن تمہیں چاہئے کہ توجہ اور حضور قلب سے غافل نہ رہو کہ قرب جانے چوں بود بعد کانے سہل ست

【191】

درود نہ بھیجنے پر وعید

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا خاک آلود ہو اس آدمی کی ناک کہ اس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھے پر درود نہ بھیجا، خاک آلود ہو اس آدمی کی ناک کہ اس پر رمضان آیا اور اس کی بخشش سے پہلے گذر گیا اور خاک آلود ہو اس آدمی کی ناک کہ اس کے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک نے اس کے سامنے بڑھاپا پایا اور انہوں نے اسے جنت میں داخل نہیں کیا۔ (جامع ترمذی ) تشریح اس حدیث میں تین قسم کے لوگوں کے لئے و عید بیان کی جا رہی ہے، سب سے پہلے ان لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے۔ جن کے سامنے سرور کائنات فخر دو عالم ﷺ کا نام نامی اسم گرامی لیا جائے یا آپ ﷺ کا ذکر مبارک کیا جائے اور وہ آپ ﷺ پر درود نہ بھیجیں کہ ان کی ناک خاک آلود ہو یعنی وہ ذلیل و خوار ہوں اور ہلاک ہوں۔ بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی مجلس میں جب بھی آپ ﷺ کا اسم گرامی لیا جائے ہر مرتبہ درود بھیجنا یعنی ﷺ کہنا واجب ہوتا ہے کیونکہ اس کے ترک پر اتنی شدت کے ساتھ وعید بیان فرمائی جا رہی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ پچھلے صفحات میں بتایا جا چکا ہے کہ ہر مرتبہ درود بھیجنا واجب نہیں ہے صرف ایک مرتبہ دورد بھیجنا واجب ہے البتہ ہر مرتبہ درود بھیجنا مستحب و افضل ہے اب اس حدیث کی توجیہ یہ کی جائے گی کہ وجوب کی دلیل آخرت کی وعید ہوتی ہے اور چونکہ اس وعید کا تعلق آخرت سے نہیں ہے اس لئے اس کا انتہائی امر یہ ہے کہ یہ وعید ہر مرتبہ درود بھیجنے کے استحباب و فضیلت پر دلالت کرتی ہے نہ کہ وجوب پر۔ دوسرے قسم کے لوگ جن کے لئے وعید بیان کی جا رہی ہے وہ ہیں جو رمضان کے حقوق ادا نہیں کرتے نہ تو روزہ ہی ٹھیک سے رکھتے ہیں اور نہ رمضان میں عبادتیں ہی پورے ذوق و شوق سے کرتے ہیں اور چونکہ یہ تمام چیزیں مغفرت اور بخشش کا ذریعہ ہیں اس لئے فرمایا جا رہا ہے کہ ان کے لئے تباہی و ہلاکت ہو جو رمضان میں اس مقدس مہینے کے فضل و شرف سے محروم رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس مہینے میں بخشش کی سعادت سے نوازے بھی نہیں جاتے اور یہ مہینہ اپنی تمام سعادتوں کے ساتھ گذر جاتا ہے۔ تیسری قسم کے لوگ جن سے اس نوعیت کا تعلق ہے وہ ہیں جو اپنے ماں باپ کے اطاعت گذار فرما نبردار نہیں ہیں۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا، ان کے حقوق ادا نہ کئے، اس کی رضا مندی و خوشنودی کا خیال نہیں رکھا اور خاص طور پر ان کی کبر سنی میں ان کی خدمت اور دیکھ بھال نہیں کی اور درحقیقت بڑے بدنصیب ہیں کیونکہ انہوں نے ان چیزوں کو ترک کر کے آخرت کا عذاب اور نقصان مول لیا ہے کہ یہ چیزیں جنت میں داخل ہونے کا سبب اور ذریعہ ہیں۔

【192】

درودو سلام کی فضیلت

اور حضرت ابوطلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) رحمت عالم ﷺ (صحابہ کے پاس) تشریف لائے اور اس وقت آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر بشاشت کھیل رہی تھی، آپ ﷺ نے (صحابہ کے دریافت کرنے کے بعد یا دریافت کرنے سے پہلے ہی) فرمایا۔ میرے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے تھے، وہ کہتے تھے کہ پروردگار فرماتا ہے، کہ اے محمد ﷺ ! کیا آپ ﷺ اس بات سے راضی نہیں ہیں کہ آپ ﷺ کی امت میں سے جو کوئی آپ ﷺ درود بھیجے گا میں اس پر دس مرتبہ رحمت نازل کروں گا اور آپ ﷺ کی امت میں سے جو کوئی آپ ﷺ پر سلام بھیجے گا میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجوں گا۔ (سنن نسائی و دارمی) تشریح رسول اللہ ﷺ چونکہ اپنی امت کے حق میں انتہائی مشفق و مہربان تھے اور امت کے لئے خیر کی طلب آپ ﷺ کی انتہائی غرض و خواہش تھی اس لئے جب آپ ﷺ کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعے یہ عظیم خوشخبری دی گئی تو آپ ﷺ کا چہرہ مبارک خوشی و مسرت سے کھل اٹھا اور آپ ﷺ نے یہ عظیم خوشخبری صحابہ کرام اور ان کے واسطے سے پوری امت تک پہنچا دی۔

【193】

درودو سلام بھیجنے کی کوئی مقررہ حد نہیں ہے

اور حضرت ابی ابن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں آپ ﷺ پر کثرت سے درود بھیجتا ہوں (یعنی کثرت سے درود بھیجنا چاہتا ہوں اب آپ ﷺ بتلا دیجئے کہ) اپنے لئے دعا کے واسطے جو وقت میں نے مقرر کیا ہے اس میں سے کتنا وقت آپ ﷺ پر درود بھیجنے کے لئے مخصوص کردوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس قدر تمہارا جی چاہے ! میں نے عرض کیا کیا چوتھائی (وقت مقرر کردوں) ؟ فرمایا جتنا تمہارا جی چاہے اور اگر زیادہ مقرر کرو تمہارے لئے بہتر ہے میں نے عرض کیا تو پھر دو تہائی مقرر کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس قدر تمہارا جی چاہے اور اگر زیادہ مقرر کرو تو تمہارے لئے بہتر ہے میں نے عرض کیا اچھا تو پھر میں اپنی دعا کا سارا وقت ہی آپ ﷺ کے درود کے واسطے مقرر کئے دیتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا یہ تمہیں کفایت کرے گا، تمہارے دین و دنیا کے مقاصد کو پورا کرے گا۔ اور تمہارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ (جامع ترمذی ) تشریح اجعل لک من صلوتی میں لفظ صلوٰۃ سے مراد دعا ہے۔ حضرت ابن کعب (رض) کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میری خواہش ہے کہ آپ ﷺ پر بہت زیادہ درود بھیجوں۔ چونکہ میں نے اپنے اوقات میں سے ایک خاص وقت کو اس لئے مقرر کر رکھا ہے کہ میں اس وقت اپنے نفس کے لئے دعا کیا کرتا ہوں، اب میں چاہتا ہوں کہ اسی وقت میں آپ ﷺ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا کروں لہٰذا آپ ﷺ ہی مقرر فرما دیجئے کہ اس وقت کا کتنا حصہ میں درود بھیجنے پر صرف کروں ؟ رسول اللہ ﷺ نے ان کی اس درخواست پر درود بھیجنے کے لئے اس وقت کا کوئی حصہ مقرر نہیں فرمایا بلکہ اسے ان کے اختیار پر چھوڑ دیا اور فرمادیا کہ تم تو خود ہی جانتے ہو کہ درود بھیجنے کی کتنی فضیلت ہے اور اس کے کیا فضائل و برکات ہیں اس مقدس کام کے لئے تمہاری سعادت جتنا وقت چاہئے مقرر کرلو، تاہم یہ سمجھ لو کہ تم اس کام کے لئے جتنا زیادہ سے زیادہ وقت دو گے اسی قدر تمہارے حق میں بہتر ہوگا۔ چناچہ جب انہوں نے اپنے اس پورے وقت کو درود بھیجنے پر صرف کرنے کا اظہار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اظہار اطمینان و خوشنودی فرمایا اور فرمایا کہ تم نے ایک مستقل وقت کو اس مقدس عمل کے لئے متعین کر کے درحقیقت دنیا اور آخرت کی بھلائی اور مقاصد کو حاصل کرلیا ہے کیونکہ جب بندہ اپنی طلب اور رغبت کو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ اور محبوب چیز میں خرچ کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کو اپنی خواہشات اور اپنے مطالب پر مقدم رکھتا تو خداوند اقدس اس کے تمام امور و مہمات میں اس کا مددگار و حامی ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی تمام دنیوی و دینی مقاصد پورے ہوجاتے ہیں من کان اللہ کان اللہ لہ یعنی جو اللہ تعالیٰ کا ہو کر رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ درود شریف کی یہ برکت و فضیلت ہے کہ جو آدمی اس کا ورد رکھے اور اسے اپنی زندگی کا ایک ضروری جزء بنالے تو اس کے لئے دین و دنیا دونوں جگہ آسانیاں اور سہولتیں فراہم ہوجاتی ہیں اور اس کے تمام مقاصد خیر پورے ہوجاتے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ جب میرے شیخ بزرگوار حضرت عبد الوہاب متقی نے مجھے مدینہ منورہ کی زیارت کے لئے رخصت فرمایا تو یہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ جاؤ ! اور یاد رکھو کہ اس راہ میں اداء فرض کے بعد کوئی عبادت رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے کے مماثل نہیں ہے لہٰذا (ادائے فرض کے بعد) تم اپنے اوقات کو اسی مقدس مشغلے میں صرف کرنا اور کسی دوسری چیز میں مشغول نہ ہونا حضرت شیخ عبدالحق (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اس کے لئے کوئی عدد مقرر فرما دیا جائے (کہ میں اتنی تعداد میں درود پڑھ لیا کروں) شیخ عبدالوہاب نے فرمایا اس سلسلے میں کسی عدد کا تعین کرنا شرط نہیں ہے بلکہ درود شریف اتنی کثرت کے ساتھ پڑھنا کہ اس کے ساتھ رطب اللسان ہوجاؤ اور اسی کے رنگ میں رنگین ہوجاؤ اور اسی میں مستغرق ہوجاؤ حصن حصین کے مصنف علام نے مفتاح میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے کے بیشمار فوائد ہیں اور دنیا اور آخرت میں اس کے لئے بےانتہا ثمرات مرتب ہوتے ہیں خصوصا تنگی و پریشانی، کسی خاص مہم، فکرات اور مطلب برآوری کے سلسلہ میں اس کا بارہا تجربہ ہوا ہے چناچہ خود میرا تجربہ ہے کہ میں اکثر خوف و ہلاکت کی جگہ گھر گیا اور مجھے وہاں سے اگر نجات ملی تو رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے کے صدقہ میں۔

【194】

درود کے بعد مانگی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے

اور حضرت فضالہ ابن عبید (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) جبکہ رحمت عالم ﷺ بیٹھے ہوتے تھے اچانک ایک آدمی آیا اس نے نماز پڑھی اور پھر یہ دعا مانگی۔ اللہم اغفرلی وارحمنی اے اللہ مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما ! ( یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے نماز پڑھنے والے تم نے (دعا کی ترکیب ترک کر کے) جلدی کی اور پھر فرمایا کہ جب تم نماز پڑھو تو (نماز کے بعد دعا کے لئے) بیٹھو اور اللہ کی تعریف کہ جس تعریف کے وہ لائق ہے بیان کرو اور مجھ پر درود بھیجو، پھر (تم جو چاہو اللہ سے مانگو (گویا آپ ﷺ نے اسے دعا کے یہ آداب و طریقے سکھائے) حضرت فضالہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ایک دوسرے آدمی نے نماز پڑھی ( آخر میں ) اس نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بھی بیان کی اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجا (مگر اس نے دعا نہیں مانگی) رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ اے نماز پڑھنے والے، دعا بھی مانگو قبول کی جائے گی۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی)

【195】

درود کے بعد مانگی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) میں نماز پڑھ رہا تھا رحمت عالم ﷺ (بھی وہیں) تشریف فرما تھے اور آپ ﷺ کے پاس حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر (رض) بھی حاضر تھے، چناچہ (نماز کے بعد) جب میں بیٹھا تو اللہ جل شانہ، کی تعریف بیان کرنا شروع کی اور پھر رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجا، اس کے بعد میں اپنے (دینی و دنیاوی مقاصد کے) لئے مانگنے لگا ( یہ دیکھ کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مانگو ! دئیے جاؤ گے۔ مانگو دیئے جاؤ گے (یعنی دعا مانگو ضرور قبول ہوگی) ۔ (جامع ترمذی )

【196】

امی کی تحقیق

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا جس آدمی کو یہ پسند ہو (یعنی اس کی خواہش ہو) کہ اسے بھر پور (اور زیادہ سے زیادہ) ثواب ملے تو اسے چاہئے کہ ہم اہل بیت پر اس طرح درود بھیجے اللہم صل علی محمد النبی الامی وازواجہ امھات المومنین وذریتہ واھل بیتہ کما صلیت علی ال ابراہیم انک حمید مجید۔ اے بار خدایا ! محمد ﷺ پر جو نبی امی ہیں، آپ ﷺ کی ازواج مطہرات پر جو سب مومنوں کی مائیں ہیں اور آپ ﷺ کی اولاد و اہل بیت پر رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی بیشک تو بزرگ و برتر ہے۔ ( ابوداؤد ، ) تشریح سرکار دو عالم ﷺ کے جہاں اور بہت سے اسماء ہیں کہ جو آپ ﷺ کی مختلف خصوصیات وصفات پر دلالت کرتے ہیں۔ وہیں آپ ﷺ کا ایک خاص اور عظیم لقب امی بھی ہے، آپ ﷺ کا یہ لقب توریت و انجیل اور آسمان سے اتری ہوئی تمام کتابوں میں مذکور ہے۔ امی لغت میں اس آدمی کو کہتے ہیں جو نہ تو لکھنا جانتا ہو اور نہ لکھے ہوئے کو پڑھنا جانتا ہو اور نہ کبھی مکتب و مدرسہ گیا ہو اور نہ کسی سے تعلیم حاصل کی ہو اور چونکہ امی منسوب ہے ام یعنی ماں کی طرف لہٰذا اس مناسبت سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسا آدمی ہے جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچہ کی طرح ہے اسے کسی نے نہ لکھنے کی تعلیم دی ہے اور نہ پڑھنے کی۔ چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ اس دنیا میں آخری نبی کی حیثیت سے مبعوث فرمائے گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو کسی استاد، کسی مکتب اور کسی معلم کا محتاج نہیں رکھا بلکہ خود آپ ﷺ کو دین و دنیا کے تمام علوم سے پوری طرح مکمل کر کے اس دنیا میں بھیجا چناچہ اس دنیا میں نہ تو آپ ﷺ نے کسی مکتب میں قدم رکھا اور نہ کسی استاد کی شاگردی کی بلکہ بظاہر نہ تو آپ ﷺ لکھتے تھے اور نہ لکھے ہوئے کو پڑھتے تھے اس وجہ سے آپ ﷺ کو امی کہا گیا نگار من کہ بہ مکتب نہ رفت و خط نہ نوشت بغمزہ مسئلہ آموز صد مدرس شد یتیمے کہ نا کردہ قرآن درست کتب خانہ چند ملت بشست بہ تعلیم و ادب اور اچہ نسبت کہ خود زآغاز او آد مودب بعض حضرات فرماتے ہیں کہ امی دراصل ام القری یعنی مکہ کی طرف منسوب ہے جو تمام زمین کی اصل ہے۔

【197】

درود نہ بھیجنے والا بخیل ہے

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا بخیل وہ آدمی ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا (یعنی میرا نام لیا گیا) اور اس نے مجھ پر درود نہیں بھیجا (جامع ترمذی) اس حدیث کو امام احمد نے حسین ابن علی سے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ ایک بخیل تو مال کا ہوتا ہے کہ وہ مال کی خواہش کی وجہ سے اپنی جبلت طبعی کے تقاضہ پر بخل کرتا ہے کہ کسی کو اپنا مال نہیں دیتا مگر بڑا بخیل وہ آدمی ہے جوا پنی طبعی کسل و غفلت اور سستی کے غلط تقاضے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے نام پر اپنی زبان اور اپنے دل سے درود کا ایک کلمہ نہیں نکالتا اور اس طرح وہ اداء حق اور شکر نعمت کا لحاظ بھی نہیں کرتا حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا امت پر وہ احسان و انعام ہے کہ اگر امت کے لوگ آپ ﷺ کے نام پر اپنی جانیں بھی قربان کردیں تو کم ہے چہ جائیکہ مجلس میں آپ ﷺ کا مبارک ذکر ہو اور آپ ﷺ کا نام لیا جائے اور اس آدمی کی زبان سے اور اس کے دل سے درود کے چند الفاظ بھی نہ نکلیں ؟ مرحبا اے پیک مشتاقان پیغام دوست تاکنم جال از سر رغبت فرائے نام دوست

【198】

درود رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچتے ہیں

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا جو آدمی میری قبر کے پاس کھڑا ہو کر مجھ پر درود پڑھتا ہے میں اس کو سنتا ہوں اور جو آدمی دور سے مجھے پر بھیجتا ہے وہ میرے پاس پہنچا دیا جاتا ہے۔ (بیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو میری قبر کی زیارت کی سعادت میسر آتی ہے اور وہ وہاں حاضر ہو کر سلام بھیجتا ہے تو میں بغیر کسی واسطہ کے اس کے سلام کو سنتا ہوں اور جس کو یہ سعادت میسر نہیں آتی بلکہ وہ جہاں کہیں سے بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اس کا سلام ملائکہ سیاحین میرے پاس پہنچا دیتے ہیں اور سلام کا جواب میں دونوں صورتوں میں دیتا ہوں۔ اس حدیث سے اندازہ لگا نا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ پر سلام بھیجنے کی فضیلت وسعادت ہے اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ پر سلام بھیجنے والے کو اور خاص طور پر اس آدمی کو جو برابر اور کثرت سے آپ ﷺ پر سلام بھیجتا ہے کیا شرف و مرتبہ حاصل ہے ؟ اگر کسی کے ایک سلام کا جواب بھی بارگاہ نبوت سے حاصل ہوجائے تو بہت بڑی سعادت ہے چہ جائکہ برابر اور ہر سلام کا جواب ملتا ہے۔ بہر سلام مکن رنجہ درجواب آن لب کہ صد سلام بس یکے جواب از تو

【199】

درود کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جو آدمی رحمت عالم ﷺ پر ایک مرتبہ درود بھجتا ہے اس پر اللہ اور اس کے فرشتے ستر مرتبہ رحمت بھیجتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے ہے کہ ایک مرتبہ درود بھیجنے کا یہ ثواب جمعہ کے دن سے متعلق ہے اس لئے کہ یہ ثابت ہے کہ جمعہ کے روز اعمال کا ثواب ستر گنا زیادہ ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حج اکبر (جو جمعہ کو ہوتا ہے) ستر حج کے برابر ہوتا ہے۔ اگرچہ حدیث موقوف ہے یعنی حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کا قول ہے لیکن پھر بھی مرفوع رسول اللہ ﷺ کا ارشاد کے حکم میں ہے کیونکہ کوئی بھی صحابی اعمال کا ثواب از خود بیان نہیں کرسکتا جب تک وہ اسے رسول اللہ ﷺ سے سن نہ لے اس لئے یقینی بات ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے یہ مضمون رسول اللہ ﷺ سے سنا ہوگا۔

【200】

درود کی فضیلت

اور حضرت رویفع (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا جو آدمی محمد ﷺ پر درود بھیجے اور (درود بھیجنے کے بعد یہ بھی کہے) اَللّٰہُمَّ اَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اے پروردگار ! محمد ﷺ کو اس مقام پر جگہ دے جو تیرے نزدیک مقرب ہے قیامت کے دن تو اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوجاتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح مقام مقرب سے مراد مقام محمود ہے جہاں قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر اللہ جل شانہ، کی ثنا و تعریف بیان فرمائیں گے اور بندوں کے حق میں شفاعت کریں گے۔ یوں تو رسول اللہ ﷺ کی شفاعت تمام مسلمانوں کے لئے ثابت ہے کہ آپ ﷺ ہر امتی کے لئے شفاعت فرمائیں گے یہ نہیں ہوگا کہ کسی امتی کے لئے شفاعت فرمائیں اور کسی کے لئے نہیں پھر بھی اس آدمی کو (جو درود کے بعد مذکورہ دعا پڑھتا ہے) ایک خاص درجہ حاصل ہوگا کہ اس کے لئے رسول اللہ ﷺ کی شفاعت واجب ہوگی۔ یا اس کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس ارشاد سے درحقیقت ایسے آدمی کے خاتمہ بالخیر کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ آدمی حسن خاتمہ کی دولت سے نوازا جائے گا۔

【201】

درود کی فضیلت

اور حضرت عبدالرحمن ابن عوف (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) رحمت عالم ﷺ (مسجد سے یا مکان سے) نکل کر کھجوروں کے ایک باغ میں داخل ہوگئے اور وہاں (بارگاہ خداوندی) میں) سجدہ ریز ہوگئے اور سجدے میں آپ ﷺ نے اتنا طول کیا کہ میں ڈرا کہ (خدانخواستہ) کہیں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وفات تو نہیں دے دی، چناچہ میں آپ ﷺ کو دیکھنے کے لئے آیا کہ آیا آپ ﷺ زندہ ہیں یا واصل بحق ہوچکے ہیں آپ ﷺ نے (میری آہٹ پاکر) ( اپنا سر مبارک (زمین سے) اٹھایا اور فرمایا کہ کیا ہوا۔۔۔ ؟ (یعنی ایسی کیا بات پیش آگئی ہے جو تم پر اس قدر (گھبراہٹ اور غم کی علامت طاری ہے) تب میں نے صورت حال ذکر کی ( کہ نصیب دشمناں میں تو آپ ﷺ کی طرف سے ڈر ہی گیا تھا) راوی فرماتے ہیں کہ (اس کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھ سے کہا ہے کہ کیا آپ ﷺ کو یہ خوشی خبری نہ سنا دوں کہ اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ جو آدمی آپ ﷺ پر درود بھیجے گا میں اس پر رحمت بھیجوں گا اور جو آدمی آپ ﷺ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلام بھیجوں گا۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح امام احمد نے اپنی دوسری روایات میں آخر کے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور سجدہ شکر کے سلسلہ میں اس سے زیادہ صحیح حدیث میری نظر میں نہیں ہے اور یہ روایت متعدد طریق سے مروی ہے۔

【202】

قبولیت دعا درود پر موقوف ہوتی ہے

اور امیر المومنین حضرت عمر ابن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ دعا اس وقت تک آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتی ہے اور اس میں سے کوئی چیز اوپر نہیں چڑھتی جب تک کہ تم اپنے نبی پر درود نہ بھیجو (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت درود پر موقوف ہے کیونکہ درود خود مقبول ہے اس لئے اس کے توسط اور وسیلے سے دعا بھی مقبول ہوتی ہے مور مسکین ہو سے داشت کہ درکعبہ رسد دست در پائے کبوتر زدہ ناگاہ رسید حصن حصین میں منقول ہے کہ حضرت شیخ ابوسلیمان درانی (رح) نے فرمایا جب تم اللہ کے سامنے اپنی کسی حاجت کی تکمیل کے لئے دست دعا دراز کرو تو ابتداء رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے سے کرو اس کے بعد تم جو کچھ چاہتے ہو اس کے لئے دعا مانگو اور دعا کو درود پر ختم کرو (یعنی دعا سے پہلے بھی رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجو اور دعا کے بعد بھی) کیونکہ اللہ جل شانہ اپنے فضل و کرم سے دونوں درودوں کو قبول کرتا ہے اور وہ اس چیز سے بزرگ و برتر ہے کہ اس دعا کو چھوڑ دے جو ان دونوں درودوں کے درمیان ہے۔ (یعنی اللہ کے رحم و کرم سے یہ بات بعید ہے کہ وہ دونوں کو تو قبول کر کے ان کے درمیان مانگی جانے والی دعا کو قبول نہ کرے) علامہ طبیی اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خود حضرت عمر (رض) کا ارشاد ہو اس شکل میں یہ حدیث موقوف ہوگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہو اس صورت میں یہ حدیث مرفوع ہوگی اور صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے یعنی حضرت عمر (رض) کا ہی ارشاد ہے۔ لیکن محققین علمائے حدیث فرماتے ہیں کہ اس قسم کی بات کوئی راوی اپنی طرف سے کہہ نہیں سکتا (جیسا کہ اسی باب کی حدیث نمبر ١٧ کے فائدے میں بتایا جا چکا ہے) اس لئے یہ حدیث روایۃ تو موقوف ہی ہے لیکن حکما مرفوع ہے۔

【203】

تشہد میں دعا پڑھنے کا بیان

آخری قعدے میں التحیات اور درود کے بعد دعا مانگنا سنت ہے، فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ نمازی التحیات اور درود پڑھنے کے بعد اپنی خواہش و پسند کے مطابق دعا مانگے لیکن دعا عام لوگوں کے کلام کے مشابہ نہ ہو جیسے کہ کوئی دعا مانگنے لگے یا اللہ ! مجھے روٹی دے مجھے کپڑا دے وغیرہ وغیرہ اس قسم کی دعا مانگنی ذرا مناسب نہیں ہے۔ ابھی باب التشہد بھی آپ نے وہ حدیث پڑھی ! جو حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) سے مروی ہے اس میں بھی یہ الفاظ منقول ہیں انہیں رسول اللہ ﷺ نے التحیات کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ پھر ان دعاؤں کو اختیار کرو جو تمہیں پسند ہوں ۔ اور چونکہ تشہد میں رسول اللہ ﷺ سے خاص دعائیں منقول ہیں کہ آپ تشہد میں وہ دعائیں پڑھا کرتے تھے۔ لہٰذا پسندیدہ سے مراد رسول اللہ ﷺ سے وہی منقول دعائیں ہوسکتی ہیں۔ بہر حال۔ حاصل یہ ہے کہ تشہد میں انہیں دعاؤں کو پڑھنا جو رسول اللہ ﷺ سے جو منقول ہیں زیادہ اولیٰ اور افضل ہے کیونکہ وہ دعائیں دنیا اور آخرت دونوں کے مقاصد کو جامع ہیں چناچہ اس باب کے تحت وہ دعائیں نقل کی جائیں گی جنہیں رسول اللہ ﷺ تشہد میں پڑھا کرتے تھے یا جن کی تعلیم آپ ﷺ دوسرے لوگوں کو فرمایا کرتے تھے۔

【204】

تشہد میں رسول اللہ کی دعا

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نماز میں (تشہد کے بعد) یہ دعا مانگتے تھے اللہم انی اعوذ بک من عذاب القبر واعوذ بک من فتنۃ المسیح الدجال واعوذ بک من فتنۃ المحیا و فتنہ الممات اللہم انی اعوذبک من الماثم والمغرم اے اللہ میں عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور کانے دجال کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور زندگی کے فتنوں اور موت کے فتنوں سے تیری پناہ کا طلب گار ہوں اے پروردگار ! میں تجھ سے گناہوں سے اور قرض سے پناہ چاہتا ہوں۔ (راوی کا بیان ہے کہ آپ ﷺ کی یہ دعا سن کر کسی کہنے والے نے کہا کہ آپ ﷺ قرض سے پناہ مانگنا بڑے تعجب کی بات ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جب آدمی قرضدار ہوتا ہے تو باتیں بناتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح دجال آخر زمانے میں قیامت کے قریب پیدا ہوگا جو خدائی کا دعویٰ کرے گا اور لوگوں کو اپنے مکر و فریب اور شعبدہ بازیوں سے گمراہ کرے گا۔ اس کا مفصل ذکر انشاء اللہ مشکوٰۃ کے آخری ابواب میں آئے گا۔ دجال کو مسیح کیوں کہتے ہیں دجال کو مسیح اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک آنکھ ملی ہوئی ہوگی یعنی وہ کانا ہوگا چونکہ ممسوح ہوگا اس لئے اس مناسبت سے اسے مسیح کہا جاتا ہے۔ ممسوح کا مطلب ہے تمام بھلائیوں، نیکیوں اور خیر و برکت کی باتوں سے بالکل بعید، نا آشنا اور ایسا کہ جیسے اس پر کبھی ان چیزوں کا سایہ بھی نہ پڑا ہوگا۔ اور ظاہر کہ اتنی بری خصلتوں کا حامل دجال کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے ؟ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مسیح کہنے کی وجہ اسی کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا لقب بھی مسیح ہے جس کی اصل مسیحا ہے اور مسیحا عبرانی زبان میں مبارک کو کہتے ہیں یا یہ کہ مسیح کے معنی ہیں بہت سیر کرنے والا چونکہ قرب قیامت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس دنیا میں آسمان سے اتارے جائیں گے اور دنیا سے گمراہی و ضلالت اور برائیوں کی جڑ اکھاڑنے اور پھر تمام عالم پر اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے حکمرانی کرنے پر مامور فرمائے جائیں گے اور اس سلسلے میں آپ ﷺ کو امور مملکت کی دیکھ بھال کرنے اور اللہ کے دین کو عالم میں پھیلانے اور کانے دجال کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے تقریبا پوری دنیا میں پھرنا پڑے گا۔ اس لئے اس مناسبت سے مسیح (علیہ السلام) کا لقب قرار پایا ہے۔ بہر حال لفظ مسیح کا اطلاق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دجال ملعون دونوں پر ہوتا ہے اور دونوں کے درمیان امتیازی فرق یہ ہے کہ جب صرف مسیح لکھا اور بولا جاتا ہے تو اس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات گرامی مراد لی جاتی ہے اور جب دجال ملعون مراد ہوتا ہے تو لفظ مسیح کو دجال کے ساتھ قید کردیتے ہیں یعنی مسیح دجال لکھتے اور بولتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس دعا میں چھ چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی ہے (١) عذاب قبر (٢) فتنہ دجال (٣) فتنہ زندگی (٤) فتنہ موت (٥) گناہ (٦) قرض۔ یہ چھ چیزیں اپنی ہیبت و ہلاکت اور دینی و دنیاوی خسران و نقصان کے باعث بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان چیزوں سے اگر اللہ تعالیٰ نے نجات دی اور اپنا فضل و کرم فرما دیا تو دینی و دنیاوی دونوں زندگیاں کامیابی و کامرانی سے اور رحمت وسعادت کی ہم آغوش ہوگی اور اگر خدانخوستہ کہیں کسی بدنصیب کا ان میں سے کسی ایک سے بھی پالا پڑگیا تو جانئے کہ اس کی دنیا بھی تباہ و برباد ہوجائے گی اور آخرت کی تمام سہولتیں و آسانیاں اور وہاں کی رحمتیں و سعادتیں بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیں گی اور وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مسحتق ہوگا اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے خود ان چیزوں سے پناہ مانگ کر امت کے لئے تعلیم کا دروازہ کھولا ہے کہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے پروردگار سے ان سخت وہیبت ناک چیزوں سے پناہ مانگتا رہے تاکہ پروردگار اس کو ان سے محفوظ و مامون رکھے۔ عذاب قبر اور فتنہ دجال یہ تو بالکل ظاہر ہیں ان کی کسی فائدہ و توضیح کی ضرورت نہیں ہے البتہ فتنہ زندگی یہ ہے کہ صبر و رضا کے فقدان کی وجہ سے زندگی کی مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار ہو اور نفس ان چیزوں میں مشغول و مستغرق ہوجائے جو راہ ہدایت اور راہ حق سے ہٹا دیتی ہوں اور زندگی کو گمراہیوں وضلالتوں کی کھائی میں پھینک دیتی ہوں۔ فتنہ موت کا مطلب یہ ہے کہ شیطان لعین حالت نزع میں اپنے مکروفریب کا جال پھینکنے اور مرنے والے کے دل میں وسو اس و شبہات کے بیج بو کر اس کے آخری لمحوں کو جن پر دائمی نجات و عذاب کا دارومدار ہے برائی و گمراہی کی بھینٹ چڑھا دے تاکہ اس دنیا سے رخصت ہونے والا نعوذ باللہ ایمان و یقین کے ساتھ نہیں بلکہ کفر و تشکیک کے ساتھ فوت ہوجائے (العیاذ با اللہ) اسی طرح منکر و نکیر کے سوالات کی سختی، عذاب قبر کی شدت اور عذاب عقبی میں گرفتاری بھی موت کے فتنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے ہر مسلمان کو محفوظ و مامون رکھے۔ آمین لفظ ماثم یا تو مصدر ہے یعنی گناہ کرنا، یا اس سے مراد وہ چیز ہے جو گناہ کا باعث ہے۔ بہر حال اس کا مطلب یہ ہے کہ ان گناہوں سے اللہ کی پناہ، جس کے نتیجے میں بندہ عذاب آخرت اور اللہ کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ یا ان چیزوں سے اللہ کی پناہ جو گناہ صادر ہونے کا ذریعہ ہیں، یا جن کو اختیار کر کے بندہ راہ راست سے ہٹ جاتا ہے اور ضلالت و گمراہی کی راہ پر پڑجاتا ہے۔ قرض سے پناہ مانگنے کی وجہ قرض سے پناہ مانگنے پر ایک صحابی کو تعجب ہوا کہ قرض میں ایسی کونسی برائی ہے جس سے پناہ مانگی جا رہی ہے بلکہ اس سے تو بہت سے ضرورت مندوں کے کام پورے ہوتے ہیں اور دنیاوی حالات میں اس سے بڑی حد تک مدد ملتی ہے رسول اللہ ﷺ نے اس کی قباحت اور برائی کی جس کی بنیادی حقیقت کی طرف توجہ دلائی وہ یقینا ایسی ہی ہے کہ اس سے پناہ مانگی جانی چاہئے۔ اول تو دنیاوی اعتبار سے بھی کسی کا قرضدار ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے پھر دین و آخرت کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کی وجہ سے ایسی چیزوں کا ارتکاب ہوتا ہے جو شریعت کی نظر میں نہ صرف یہ کہ معیوب بلکہ عذاب آخرت کا سبب بنتی ہیں۔ مثلاً جب کوئی آدمی کسی سے قرض مانگنے جاتا ہے تو پہلا مرحلہ یہی ہوتا ہے جب وہ گنہگار ہوتا ہے کیونکہ بسا اوقات قرض مانگنے والا سینکڑوں بہانے تراشتا ہے سیکڑوں غلط سلط باتیں بناتا ہے اور مقصد برآری کے لئے بڑے سے بڑا جھوٹ بولنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ قرض کی ادائیگی کا آتا ہے کہ قرض دار قرض لیتے وقت ایک وقت و عرصہ متعین کرتا ہے جس میں وہ قرض کی ادائیگی کا وعدہ کرتا ہے مگر تجربہ شاہد ہے کہ کوئی ایک آدھ ہی قرضدار ایسا ہوگا جو وقت معینہ پر ادائیگی کردیتا ہوگا ورنہ اکثر و بیشتر وعدہ خلافی کرتے ہیں اس موقع پر بھی نہ صرف یہ کہ وعدہ خلافی ہوتی ہے بلکہ عدم ادائیگی کے عذر میں ہر طرح کا جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ اس طرح قرضدار وعدہ خلافی اور جھوٹ کا ارتکاب کر کے گناہ گار ہوتا ہے۔ پھر عدم ادائیگی کا یہ عذر ایک دو مرتبہ ہی پر ختم نہیں ہوجاتا بلکہ اس کا ایک سلسلہ ہوتا ہے جو بہت دنوں تک چلتا رہتا ہے اس طرح قرضدار مسلسل جھوٹ پر جھوٹ بولتا ہے، ہر مرتبہ وعدہ خلافیاں کرتا ہے اور اس طرح وہ گناہوں کی پوٹ اپنے اوپر لادتا رہتا ہے۔ ظاہر کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور مواخذہ آخرت کا سبب ہیں اس لئے ایسی غلط چیز سے پناہ مانگی گئی ہے۔

【205】

نماز میں کن چیزوں سے پناہ مانگنی چاہئے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رحمت دو عالم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی (نماز میں) آخری تشہد (یعنی التحیات) سے فارغ ہوجائے تو اسے چاہئے کہ وہ چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ کا طلب گار ہو۔ (١) عذاب دوزخ (٢) عذاب قبر (٣) فتنہ زندگی و موت (٤) مسیح دجال کی برائی۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ کہ قعدہ اخیرہ میں تشہد سے فراغت کے بعد یہ دعا پڑھنی چاہئے۔ اللہم انی اعوذبک من عذاب جہنم ومن عذاب القبر ومن فتنۃ المحیاء والممات ومن شرالمسیح الدجال۔ اے اللہ ! میں دوزخ کے عذاب، قبر کے عذاب، زندگی اور موت کے فتنوں اور دجال کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

【206】

نماز میں کن چیزوں سے پناہ مانگنی چاہئے

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ ہم صحابہ اور اہل بیت کو یہ دعا اسی طرح سکھاتے تھے جس طرح آپ ﷺ ہمیں قرآن کی کوئی سورت سکھایا کرتے تھے کہ (کہ دعا اس طرح پڑھو اللہم انی اعوذ بک من عذاب جہنم واعوذبک من عذاب القبر واعوذ بک من فتنۃ المسیح الدجال واعوذبک من فتنۃ المحیا والممات اے اللہ ! میں عذاب جہنم سے تیری پناہ مانگتا ہوں، عذاب قبر سے تیری پناہ کا طلب گار ہوں، مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ چاہتا ہوں اور زندگی و موت کے فتنہ سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم)

【207】

تشہد و درود کے بعد کی دعا

اور امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق ( آپ کا نام عبداللہ اور کنیت ابوبکر ہے لقب آپ کا صدیق و عتیق ہے۔ بعض محققین کے مطابق آپ کا اصل نام عبدالکعبہ تھا پھر آپ ﷺ نے ان کا نام عبداللہ رکھا۔ آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابوقحافہ تھی۔ سب مسلمان مردوں میں سے آپ پہلے ایمان لائے اور ہجرت میں یار غار تھے حضور ﷺ کے وصال کے بعد آپ کو خلیفہ بنایا گیا ١٣ ھ میں ٦٣ سال کی عمر میں وفات پائی اور روضہ اطہر میں مدفون ہوئے) فرماتے ہیں کہ میں نے رحمت عالم ﷺ سے، عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسی دعا بتا دیجئے کہ جسے میں اپنی نماز میں (تشہد و درود کے بعد) پڑھ لیا کروں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ پڑھ لیا کرو اللہم انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا و لا یغفر الذنوب الا انت فاغفرلی مغفرۃ من عندک وارحمنی انک انت الغفور الرحیم اے پروردگار ! بیشک میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا ہے اور تیرے علاوہ کوئی دوسرا گناہوں کو نہیں بخشا سکتا لہٰذا تو مجھے بخش دے خاص طور سے بخشا اور مجھ پر رحم فرما، بیشک تو بخشنے والا اور رحمت کرنے والا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس روایت میں لفظ کثیرا ثاء مثلہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور صحیح مسلم کی بعض روایات باء موحدہ کے ساتھ یعنی کبیرا ذکر کیا گیا ہے لہٰذا اس دعا کو دونوں الفاظ کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے یعنی کبھی کثیرا پڑھا جائے اور کبھی کبیرا پڑھ لیا جائے۔

【208】

سلام پھیرنے کا بیان

اور حضرت عامر ابن سعد (رح) (تابعی) اپنے والد مکرم (حضرت سعد ابن وقاص (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (یعنی حضرت سعد نے) فرمایا کہ میں دیکھتا تھا کہ رحمت عالم ﷺ اپنے دائیں اور بائیں (اس طرح) سلام پھیرتے تھے کہ میں آپ کے رخساروں کی سفیدی دیکھ لیتا تھا۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سلام پھیرنے کے وقت اپنا چہرہ مبارک اتنا پھیرتے تھے کہ آپ ﷺ کا منور رخسار نظر آنے لگتا تھا۔ قبربان جائیے حضرت سعد (رض) کی اس سعادت پر کہ ان کو نماز میں رحمت عالم سرور کائنات ﷺ کا پہلوئے مبارک نصیب ہوتا تھا۔ کاش کے اندر نماز م جاشود پہلوئے تو تابہ تقریب سلام افتد نظر بر روئے تو

【209】

نماز کے بعد امام مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے

اور حضرت سمرہ ابن جندب (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ جب نماز پڑھ کر فارغ ہوجاتے تھے تو ہماری طرف اپنا مبارک منہ متوجہ کر کے بیٹھے تھے۔ (صحیح البخاری ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب جماعت ختم ہوجاتی اور آپ ﷺ نماز سے فارغ ہو لیتے تھے تو اپنا روئے اقدس مقتدیوں کی طرف متوجہ کر کے بیٹھ جاتے تھے۔

【210】

نماز کے بعد امام مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نماز سے فارغ ہونے کے بعد (کبھی) اپنی دائیں طرف پھر کر بیٹھے تھے۔ (صحیح مسلم)

【211】

نماز کے بعد امام مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنی نماز میں شیطان کا حصہ مقرر نہ کرے (یعنی) اس چیز کو لازم جانے کہ (نماز کے بعد) دائیں جانب ہی سے پھرے، کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ رحمت عالم ﷺ اکثر بائیں جانب سے پھرا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح ان احادیث کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سلام پھیرنے کے بعد کبھی تو دائیں جانب سے پھیرتے تھے اور بائیں طرف بیٹھتے تھے اور بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ آپ ﷺ سلام پھیر کر دعا مانگتے اور اپنے حجرہ شریف کی جانب (جو بائیں طرف تھا) تشریف لے جاتے تو کبھی اس کے برعکس کرتے تھے بائیں طرف سے پھر کر دائیں طرف بیٹھ جاتے تھے۔ پہلے طریقے کو عزیمت یعنی اولیت پر محمول کیا گیا ہے کیونکہ اس میں دائیں طرف سے ابتداء ہوتی ہے اور رسول اللہ ﷺ کا فعل اکثر اسی طرح ہوتا ہے، لیکن حضرت ابن مسود (رض) فرماتے ہیں کہ دوسری صورت یعنی بائیں طرف سے پھرنا اگرچہ رخصت یعنی جائز ہے اور اس صورت کو کم ہی اختیار بھی کیا جاتا تھا لیکن سنت کو واجب کا درجہ دینا چونکہ ٹھیک نہیں ہے اس لئے صرف پہلی صورت یعنی دائیں طرف سے پھرنے کو لازم و واجب قرار نہ دیا جائے اور شارع کی جانب سے دی گئی رخصت (یعنی اجازت) کو کہ وہ دوسری صورت سے ناقابل اختیار نہ جانا جائے اس لئے کہ حدیث شریف میں وارد ہے حق تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی جانب سے عنایت کی گئی رخصتوں پر عمل کیا جائے جیسا کہ وہ عزیمتوں پر عمل کرنے کو پسند کرتا ہے۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ چیز پسندیدہ اور محبوب ہے کہ اس عمل کو اختیار کیا جائے جس میں عزیمت یعنی اولیت ہے، اسی طرح اس کے نزدیک یہ چیز بھی قابل قبول اور پسندیدہ ہے کہ ان اعمال کو بھی اختیار کیا جائے جن کو حق تعالیٰ نے اولیٰ و افضل نہ سہی بہر حال جائز مقرر کر رکھا ہے۔ حضرات شوافع نے ان احادیث سے مصلی کے لئے یہ درمیانی طریقہ اختیار کیا ہے کہ وہ اپنی ضرورت و سہولت جس طرف دیکھے، اسی طرف پھرے یعنی اگر اس کا مکان وغیرہ اس کے دائیں جانب ہے تو اسے دائیں طرف پھرنا چاہیے اور اگر بائیں طرف ہو تو اسے بائیں طرف پھرنا ہے چاہیے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی منقول ہے کہ رحمت عالم ﷺ کبھی مقتدیوں کی طرف بھی منہ کر کے اور پشت قبلے کی طرف کر کے بیٹھتے تھے جیسا کہ اوپر والی حدیث میں گذرا۔ نماز میں شیطان کا حصہ اس لئے کہا گیا ہے کہ جب کوئی آدمی ایک غیر لازم چیز کو اپنے اوپر واجب و لازم ہونے کا اعتقاد کرے گا تو گویا وہ شیطان کا تابع ہوا لہٰذا اس کی نماز کا کمال جاتا رہے گا۔ علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ جس آدمی نے کسی امر مستحب کو مستقل طریقہ سے اختیار کئے رکھا اور اسے لازم کا درجہ دے دیا اور رخصت (یعنی جواز) پر عمل نہ کیا تو سمجھو کہ شیطان اسے گمراہ کرنے کے لئے اس کے پاس پہنچ گیا ہے۔ کاش کہ اہل بدعت اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ انہوں نے امر مستحب تو کجا خلاف شرع چیزوں اور بدعات کو اپنے اوپر لازم و واجب گردان کر اپنے آپ کو ضلالت و گمراہی کی کس وادی میں پھینک رکھا ہے اور اپنے اوپر شیطان کو کتنا مسلط کر رکھا ہے۔ یہ چاروں حدیثیں یعنی حدیث عامر، حدیث سمرہ، حدیث انس اور حدیث عبداللہ (رض) اس باب کے موضوع سے متعلق تو نہیں ہیں البتہ اس کے متعلقات سے ہیں۔

【212】

نماز کے بعد کی دعا

اور حضرت براء (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہم رحمت عالم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو اسے پسند کرتے تھے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے دائیں جانب ہوں تاکہ آپ ﷺ (سلام کے وقت سب سے پہلے) ہماری طرف متوجہ ہوں، برا فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (سلام کے بعد دعا کے طور پر) یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رب قنی عذابک یوم تبعث او تجمع عبادک اے پروردگار۔ مجھے اپنے عذاب سے بچا اس روز جب کہ تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا یا جمع کرے گا۔ (صحیح مسلم) تشریح یا تو آپ ﷺ یہ دعا ازراہ تواضع اور انکساری فرماتے ہوں گے یا اس سے آپ ﷺ کا مقصد امت کو تعلیم دینا تھا کہ لوگ نماز کے بعد اس دعا کو پڑھا کریں۔ تبعث اور تجمع میں راوی کو شک واقع ہو رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یا تو یوم تبعث فرمایا ہے یا یوم تجمع فرمایا ہے۔ بہر حال اس دعا کو ان دونوں الفاظ کے ساتھ کسی بھی ایک لفظ کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔

【213】

نماز کے بعد مقتدیوں کا امام سے پہلے اٹھ جانا غیر مستحب ہے

اور حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ کے زمانہ مبارک میں عورتیں (جب مردوں کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھتی تھیں تو، فرض نماز کا سلام پھیر کر فوا اٹھ جاتی تھیں اور اپنے گھروں کو چلی جاتی تھیں اور رسول اللہ ﷺ اور مردوں میں سے جو لوگ نماز میں شامل ہوتے تھے جتنی دیر اللہ کو منظور ہوتا بیٹھے رہتے تھے، پھر جب رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوتے تو سب مرد کھڑے ہوجاتے (اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے) ۔ (صحیح البخاری ) تشریح اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانہ میں جب کہ عورتیں بھی مردوں کے ساتھ ہی آپ ﷺ کے پیچھے نماز جماعت کے ساتھ ادا کرتیں تھیں اس وقت عورتوں کا یہ دستور ہوتا تھا کہ جوں ہی رسول اللہ ﷺ سلام پھیر کے فارغ ہوتے وہ اس وجہ سے کہ راستے میں مردوں سے مڈبھیڑ نہ ہو اور ان کے ساتھ راستے میں چلنا نہ پڑے فورا اٹھ جاتیں اور اپنے گھروں کو چل دیتیں تھیں۔ نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ کے بیٹھنے کے بارے میں میں کوئی دائمی معمول مذکور نہیں کہ آپ تمام نمازوں کے بعد ہمیشہ اتنی دیر تک بیٹھتے تھے بلکہ اس کا انحصار اختلاف اوقات پر ہوتا تھا چناچہ آپ ﷺ سلام پھیر کر کبھی تو اللہم انت السلام الخ پڑھنے تک بیٹھتے تھے اور کبھی آپ ﷺ اتنا بیٹھتے تھے کہ دعا وغیرہ سے فارغ ہو کر قرآن کریم پڑھتے اور صحابہ کو احکام الٰہی کی تعلیم دیتے اور کبھی آپ ﷺ فجر کی نماز میں مصلے پر طلوع آفتاب تک بیٹھے رہے تھے۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ امام کے لئے اس قسم کی ضرورت کے وقت نماز کے بعد مصلی پر کچھ دیر تک بیٹھے رہنا مستحب ہے۔ نیز مقتدیوں کے لئے یہ مستحب ہے کہ جب تک امام مصلے سے نہ اٹھے وہ بھی نہ اٹھیں۔ وسنذکر حدیث جابر بن سمرۃ فی باب الضحک انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور جابر ابن سمرہ کی (وہ) حدیث جس میں نماز کے بعد سے طلوع آفتاب تک رسول اللہ ﷺ کا بیٹھنا مذکور ہے اور جسے صاحب مصابیح نے یہاں نقل کیا تھا، ہم انشاء اللہ باب الضحک میں نقل کریں گے۔

【214】

نماز کے بعد کی دعا

حضرت معاذ ابن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) رحمت عالم ﷺ نے میرا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر فرمایا کہ معاذ ! میں تمہیں دوست رکھتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں بھی آپ ﷺ کو دوست رکھتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا (جب تم مجھے دوست رکھتے ہو تو) کسی بھی نماز کے بعد اس دعا کو پڑھنا ترک نہ کرو رب اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک اے پروردگار ! تو اپنے ذکر اپنے شکر اور اپنی اچھی عبادت میں میری مدد کر !۔ اس روایت کو احمد، سنن ابوداؤد اور سنن نسائی نے نقل کیا ہے مگر سنن ابوداؤد نے معاذ کے یہ الفاظ وانا احبک نقل نہیں کئے ہیں۔ تشریح اچھی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی عبادت ہو خواہ بدنی ہو یا مالی، پورے کمال اور حضور قلب کی اس کیفیت کے ساتھ کی جائے گویا کہ عبادت کرنے والا اللہ جل شانہ، کو دیکھ رہا ہے اور اس کی عبادت کر رہا ہے۔ کتاب الایمان کی بھی ایک حدیث میں اچھی عبات کا یہی مطلب بیان کیا گیا ہے وہاں اس کی وضاحت اچھی طرح کی جا چکی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی کسی کو دوست رکھتا ہے تو اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنی دوستی اور محبت کا اظہار اس سے کر دے۔ یہ حدیث اس فعل و قول (اخذ بیدی و یقول انا احبک) کے ساتھ مسلسل ہے۔ اس اصطلاح کی تعریف علماء و محدثین بخوبی سمجھتے ہیں چونکہ عوام سے اس کا تعلق نہیں ہے اس لئے ان کے سامنے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔

【215】

سلام پھیرنے کا طریقہ

اور حضرت عبدا اللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ اپنی دائیں جانب السلام علیکم و رحمتہ اللہ (یعنی تم پر اللہ کی سلامتی اور اللہ کی رحمت) کہتے ہوئے سلام پھیر تے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے دائیں رخسار کی سفیدی نظراتی اور اپنی بائیں جانب بھی السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہتے ہوئے سلام پھیرتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے بائیں رخسار کی سفیدی نظر آتی۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی) ترمذی نے اپنی روایت میں حتی یری بیاض خدہ کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں اور ابن ماجہ نے اس روایت کو عمار ابن یاسر سے نقل کیا ہے۔ تشریح ابوداؤد اور نسائی نے تو اس روایت کو انہیں الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ مگر امام ترمذی نے اپنی روایت میں حتی یری بیاض خدہ (یہاں تک کہ آپ کے رخسار کی سفیدی نظر آئی) نقل کیا ہے بلکہ انہوں نے صرف اس قدر نقل کیا ہے کہ کان یسلم عن یمینہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وعن یسارہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابن ماجہ نے عمار ابن یاسر سے یہ حدیث پوری اسی طرح نقل کی ہے نہ کہ ترمذی کی طرح اس کا کچھ حصہ نقل کیا ہے۔

【216】

رسول اللہ ﷺ نماز کے بعد اکثر بائیں جانب پھر کر بیٹھتے تھے

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نماز کے بعد اکثر بائیں جانب اپنے حجرے کی طرف پھرجاتے تھے۔ (شرح السنۃ) تشریح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے حجرہ مبارک کا دروازہ مسجد میں بائیں محراب کی طرف تھا۔ اس لئے جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوجاتے تھے تو اکثر و بیشتر بائیں جانب پھرتے تھے اور اپنے حجرے میں تشریف لے جاتے تھے۔

【217】

فرض کے بعد سنتیں پڑھنے کے لئے جگہ بدل لینی چاہئے

حضرت عطاء خراسانی (رح) حضرت مغیرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا امام اس جگہ نماز نہ پڑھے جہاں نماز پڑھ چکا ہے بلکہ وہاں سے سرک جائے اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ عطاء خراسانی کی ملاقات حضرت مغیرہ (رض) سے (ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ حدیث منقطع ہے۔ تشریح یہاں یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جس جگہ فرض نماز پڑھی گئی ہے اسی جگہ سنتیں نہ پر ھی جائیں بلکہ اس جگہ سے ذرا ہٹ کر اور جگہ بدل کر دوسری جگہ سنتیں پڑھی جائیں اس سلسلہ میں یہ بات جان لیجئے کہ اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم خاص طور پر امام ہی کے لئے ہے مقتدی اس میں شامل نہیں ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ حکم مجموعی طور پر امام اور مقتدی سب کے لئے ہے۔ فرض اور سنتیں دونوں ایک ہی جگہ پڑھنے سے منع یا تو اس لئے کیا گیا ہے کہ کوئی آنے والا یہ گمان نہ کرے کہ نمازی ابھی فرض نماز ہی پڑھ رہا ہے یا اس لئے کہ دونوں جگہیں قیامت کے روز پروردگار کے سامنے نمازی کی اطاعت گزاری کی گواہی دیں جس سے اس کے مرتبے میں اضافہ ہو۔ ملا علی قاری (رح) نے لکھا ہے کہ بعض علماء کا قول ہے کہ یہ حکم ان فرض نمازوں کے بارے میں ہے جن کے بعد سنت موکدہ ہیں اور جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں نہیں پڑھی جاتیں جیسے فجر و عصر تو ان کے بارے میں یہ حکم نہیں ہے مگر بعض علماء کی یہی رائے ہے کہ حکم تمام نمازوں کے بارے میں یکساں طور پر ہے۔

【218】

فرض کے بعد سنتیں پڑھنے کے لئے جگہ بدل لینی چاہئے

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ صحابہ کرام کو نماز پڑھنے کی رغبت دلاتے تھے اور ان کو اس بات سے منع فرماتے تھے کہ وہ نماز کے بعد آپ ﷺ کے اٹھنے سے پہلے اٹھیں۔ (ابوداؤد) تشریح حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہے کہ یا تو آپ ﷺ صحابہ کو مطلقاً نماز پڑھنے کی تاکید فرماتے تھے یا انہیں اس بات کی رغبت دلاتے تھے کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کریں۔ آپ ﷺ کے ارشاد کے دوسرے جزو کا مطلب یہ ہے کہ جب نماز ختم ہوجائے اور دعاء وغیرہ سے فارغ ہوجائے تو جب تک میں نہ اٹھ جاؤں مقتدی نہ اٹھیں تاکہ راستے میں مرد عورتوں سے مل نہ جائیں جیسا کہ پہلے ایک حدیث میں گزر چکا ہے کہ نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ اور دوسرے لوگ بیٹھے رہتے تھے یہاں تک کہ جب عورتیں اٹھ کر چلی جاتی تھیں تو پہلے آپ ﷺ اٹھتے تھے اس کے بعد دوسرے لوگ اٹھ کر اپنے گھروں کو چل دیتے تھے۔ اس صورت میں یہ نہی تنزیہی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ یہاں پہلے اٹھنے سے مراد مسبوق کا اٹھ کھڑا ہونا ہے۔ اس صورت میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ جب تک امام سلام نہ پھیرے اس وقت تک مسبوق اپنی بقیہ رکعتیں پڑھنے کے لئے کھڑا نہ ہو بلکہ جب امام سلام پھیرے تب مسبوق ( مسبوق اس آدمی کو کہتے ہیں جو جماعت میں ایک رکعت یا اس سے زیادہ ہوجانے کے بعد آکر شریک ہوا ہو) کھڑا ہو۔ اس سلسلے میں اتنی بات جان لیجئے کہ یہ شکل یعنی مسبوق کا امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اٹھ کھڑا ہونا حنفیہ کے نزدیک حرام ہے۔

【219】

تشہد کے بعد رسول اللہ کی دعا

حضرت شداد ابن اوس (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ اپنی نماز میں (تشہد کے بعد) یہ دعا پڑھا کرتے تھے اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ الثُّبَاتَ فِی الْاَمْرِ وَ الْعَزِیْمَۃَ عَلَی الرُّشْدِ وَاَسْأَلُکَ شُکْرَ نِعْمَتِکَ وَحُسْنَ عِبَادَتِکَ وَاَسْأَلُکَ قَلْبًا سَلِیْمًا وَلِسَانًا صَادِقَا وَاَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَاتَعْلَمْ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّمَا تَعْلَمُ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا تَعْلَمُ اے پروردگار ! میں تجھ سے دین میں ثابت قدمی اور راہ راست کے قصد کا سوال کرتا ہوں اور میں تجھ سے تیری نعمت کے شکر اور تیری عبادت کے حسن کی درخواست کرتا ہوں اور تجھ سے قلب سلیم اور سچی زبان مانگتا ہوں اور تجھ سے وہ بھلائی چاہتا ہوں جس کو تو جانتا ہے اور اس برائی سے پناہ مانگتا ہوں جس کو تو جانتا ہے اور معافی چاہتا ہوں ان گناہوں سے جن کو تو جانتا ہے۔ (سنن نسائی، مسند احمد بن حنبل) تشریح یہ دعا بھی آنحضرت ﷺ کی لسان مقدس سے تعلیم امت کے پیش نظر ارشاد ہوئی ہے کہ امت کے لوگ اس طرح دعا مانگا کریں۔ ورنہ تو جہاں تک رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی کا تعلق ہے آپ ﷺ کو یہ تمام بھلائیاں اور سعادتیں حاصل تھیں جن کی طرف اس دعا میں اشارہ کیا گیا ہے اور تمام گناہوں سے آپ محفوظ تھے، نیز آپ ﷺ کے تمام اگلے پچھلے گناہ بخشے جا چکے تھے۔ راہ راست کے قصد کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ! مجھے اس بات کی توفیق عنایت فرما کہ تو نے ہدایت کا جو راستہ دکھلایا ہے اس پر ہمیشہ ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہوں اور ہدایت کو اپنی زندگی کے لئے لازم پکڑوں۔ تجھ سے تیری نعمت کے شکر اور تیری عبادت کے حسن کی درخواست کرتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ مجھے اس بات کی توفیق عنایت فرما کہ تیری ان نعمتوں کو جن سے تو نے مجھے سرفراز فرمایا ہے تیری اطاعت و فرمانبرداری میں اس طرح صرف کروں کہ تیرے احکام و فرمان کا پابند رہوں اور جن چیزوں سے تو نے منع کیا ہے ان سے بچتا رہوں اور تیری عبادت کو اس کی پوری شرائط و آداب اور پورے ارکان کے ساتھ ادا کروں۔ قلب سلیم اس دل کو کہتے ہیں جو برے عقائد، کمزور خیالات اور غلط اعتقادات و نظریات سے پاک وصاف ہو اور خواہشات نفسانی کی طرف اس کا میلان نہ ہو نیز یہ کہ وہ ماسوی اللہ سے خالی ہو۔ دعا کے جملے وَاَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَا تَعْلَمُ میں لفظ ماموصولہ ہے یا موصوفہ اور عائد محذوف ہے۔ اسی طرح اس جملہ میں لفظ من زائد ہے یا بیانیہ اور مبین محذوف ہے۔ گویا اصل میں یہ عبارت اس طرح ہے اسالک شیئا ھو خیر ما تعلم یعنی میں تجھ سے اس اچھی چیز کی درخواست کرتا ہوں جس کے بارے میں تو جانتا ہے کہ وہ اچھی ہے یعنی میں ایسی چیز کی درخواست نہیں کرتا جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ اچھی چیز ہے کیونکہ بندہ تو کسی چیز کو اچھی سمجھ لیتا ہے حالانکہ حقیقت میں وہ اچھی نہیں ہوتی۔ اس لئے میں وہی چیز مانگتا ہوں جو تیرے نزدیک اچھی ہے۔ اسی طرح (واعوذبک من شرما تعلم) کا مطلب بھی یہی ہے کہ میں اس بری چیز سے پناہ مانگتا ہوں جو تیرے نزدیک بری اور جس کے بارے میں تیرا فیصلہ ہے کہ یہ بندے کے حق میں برائی کا باعث ہے۔

【220】

تشہد کے بعد رسول اللہ کی دعا

اور حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی نماز میں التحیات کے بعد فرماتے تھے، بہترین کلاموں کا کلام اللہ کا ہے اور بہت بہترین طریقوں کا طریقہ محمد ﷺ کا ہے روایت کیا اس کو نسائی نے۔

【221】

رسول اللہ ﷺ کے سلام کا طریقہ

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نماز میں ایک سلام پھیرتے تھے سامنے کے رخ پھر تھوڑا سا منہ کو دائیں جانب پھیرتے تھے۔ اس طرح آپ ﷺ سلام پورا فرماتے تھے۔ (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب آپ ﷺ سلام پھیرتے تھے تو یہ طریقہ اختیار فرماتے تھے کہ سلام کی ابتدا قبلہ رخ کرتے تھے درمیان میں دائیں جانب اس قدر چہرہ مبارک پھیرتے تھے کہ رخسار مبارک کی سفیدی نظر آنے لگتی تھی جیسا کہ پہلی روایتوں میں گذر چکا ہے اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نماز میں صرف ایک ہی سلام دائیں جانب پھیرتے تھے چناچہ حضرت امام مالک (رح) اسی حدیث کے پیش نظر فرماتے ہیں کہ نماز میں صرف ایک ہی سلام مشروع ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنفیہ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کے ہاں متفقہ طور پر نماز میں دوسلام یعنی دائیں اور بائیں دونوں جانب مشروع ہیں۔ کیونکہ اس سلسلہ میں بہت زیادہ احادیث وارد ہوئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دائیں اور بائیں دونوں طرف سلام پھیرنا چاہیے۔ اب اس حدیث کی تاویل ان ائمہ ثلاثہ کی جانب سے یہ کی جاتی ہے کہ ایک سلام تو آپ ﷺ بلند آواز سے کہتے تھے اور دوسرا سلام آہستہ آواز سے، اس لئے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے یہاں بلند آواز سے کہے جانے والے سلام کا اعتبار کیا ہے اور صرف اسی ایک کو ذکر کیا۔

【222】

سلام پھیرتے وقت جواب کی نیت

اور حضرت سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ سلام پھیرتے وقت امام کے سلام کے جواب کی نیت کریں، ہم آپس میں محبت رکھیں اور ایک دوسرے کو سلام کریں۔ (ابوداؤد) تشریح پہلے حکم کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی جب سلام پھیریں تو اس وقت وہ یہ نیت کریں کہ ہم امام کے سلام کا جواب دے رہے ہیں، اس کی شکل یہ ہوگی جو مقتدی امام کے دائیں جانب ہوں وہ تو دوسرے سلام میں، جو مقتدی بائیں جانب ہوں وہ پہلے سلام میں اور جو مقتدی امام کے مقابل ہوں وہ دونوں سلام میں امام کے سلام کے جواب کی نیت کریں اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جب امام سلام پھیرے تو وہ بھی اس وقت یہ نیت کرے کہ میں مقتدیوں کو سلام کر رہا ہوں۔ دوسرے حکم کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان آپس میں یعنی نمازیوں اور اللہ کے تمام بندوں سے محبت کریں، ان کے ساتھ خوشی خلفی، مروت اور اچھے اخلاق سے پیش آئیں۔ تیسرے حکم کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح امام سلام پھیرتے وقت مقتدیوں پر سلام کی اور مقتدی سلام پھیرتے وقت امام کے سلام کے جواب کی نیت کرتے ہیں اسی طرح تمام مقتدی نماز میں سلام پھیرتے وقت آپس میں ایک دوسرے کو سلام کی نیت کریں۔ اس طرح کہ دائیں طرف سلام پھیرتے وقت دائیں جانب کے مقتدیوں کی نیت کریں اور بائیں طرف سلام پھیرتے وقت بائیں جانب کے مقتدیوں کی نیت کرنی چاہیے۔ اور ہر نمازی کو چاہئے کہ وہ دونوں سلام میں ملائکہ کی بھی نیت کرے کیونکہ احادیث میں اس کا حکم بھی دیا گیا ہے اور حنفیہ کے بعض علماء نے تو کہا ہے کہ یہ سنت ہے گو دوسرے حضرات نے اسے ترک کیا ہے۔

【223】

نماز کے بعد کے ذکر کا بیان

اس باب کی تحت وہ احادیث ذکر کی جائیں گی جن سے نماز کے بعد دعا اور دیگر اور اوارد وظائف کے پڑھنے کی اہمیت اور فضیلت ظاہر ہوتی ہے، یہاں ذکر کا لفظ عام ہے جو دعا اور اور اوارد وظائف سب پر حاوی ہے۔ اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں پڑھی جاتی ہیں ان کے بعد نمازی دعا اور اور اوراد وظائف کے لئے کتنی دیر تک بیٹھ سکتا ہے، چناچہ در مختار میں لکھا ہے کہ فرض نماز پڑھ لینے کے بعد سنتوں کے پڑھنے میں تاخیر کرنا مکروہ ہے البتہ اللھم انت السلام (آخر تک) کے بقدر دعا وغیرہ پڑھنے کے لئے کچھ دیر بیٹھنا ثابت ہے۔ علامہ حلوانی (رح) کا قول یہ ہے کہ اوراد وظائف پڑھنے کی غرض سے فرض و سنتوں کے درمیان وقفہ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اسی قول کو کمال نے بھی اختیار کیا ہے۔ علامہ حلبی نے ان دونوں اقوال میں تطبیق یوں پیدا کی ہے کہ اگر یہاں مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی نہ لیا جائے بلکہ مکروہ تنزیہی مراد لیا جائے تو ان دونوں اقوال میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہے گا کیونکہ پہلے قول کا مطلب پھر یہ ہوگا کہ اور اوراد وظائف پڑھنے کے لئے سنتوں کے پڑھنے میں تاخیر کرنا کوئی گناہ کی بات نہیں ہے البتہ مکروہ تنزیہی ہے یعنی اگر تاخیر نہ کی جائے تو بہتر ہوگا۔ اسی طرح علامہ حلوانی کے قول کا مطلب یہ ہوگا کہ فرض نماز پڑھنے کے بعد اوارد وظائف پڑھنے کے لئے سنتوں میں تاخیر کرنے میں اگرچہ کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن مناسب یہی ہے کہ تاخیر نہ کی جائے، اس طرح یہ دونوں قول اپنی اپنی جگہ صحیح رہے اور دونوں میں کوئی تضاد بھی باقی نہیں رہا۔ صاحب درمختار کے ایک قول کا مفہوم یہ ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرض و سنت کے درمیان دعا اور اور اوارد پڑھے جائیں تو تعارض دور ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد موصوف فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ نماز کے بعد ( نمازوں میں سنتیں نہیں پڑھی جاتیں۔ ان میں فرض کے بعد اور جن کے بعد سنتیں پڑھی جاتی ہیں ان میں سنتوں کے بعد یہ اور اوارد پڑھے جائیں ١٢) ۔ تین مرتبہ استغفر اللہ پڑھا جائے، آیتہ الکرسی اور معوذات (یعنی سورت قل ہو اللہ قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) پڑھی جائے اور سبحان اللہ، الحمد اللہ اور اللہ اکبر تینتیس تینتیس مرتبہ پڑھے جائیں اور پھر ایک مرتبہ تحلیل (لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ الخ) پڑھ کر سو کے عدد کو پورا کیا جائے پھر اس کے بعد دعا مانگی جائے اور دعا کو اس جملے پر ختم کیا جائے سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمد للہ رب العلمین۔ جماعت ختم ہوجانے کے بعد جب سنتیں پڑھی جائیں تو مقتدیوں کو چاہئے کہ صفوں کو توڑ دیں یعنی سنت پڑھنے کے لئے صف بندی کے ساتھ کھڑے نہ ہوں بلکہ آگے پیچھے ہٹ کر کھڑے ہوں۔ اور امام کو بھی چاہئے کہ وہ بھی امامت کے مصلے سے ہٹ کر آگے پیچھے یا دائیں بائیں ہوجائے تاکہ بعد میں آنے والے نمازیوں کو یہ خیال نہ ہو کہ ہنوز جماعت کھڑی ہے اور کوئی نمازی اسی خیال میں امام کی اقتدا کر کے نماز کے لئے کھڑا ہوجائے اور پھر اس کی اقتداء فاسد ہو۔ اس چیز میں بھی اختلاف ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد دعا اور اوارد وغیرہ پڑھنے کے لئے امام کے لئے دائیں طرف گھوم کر بیٹھنا افضل ہے یا بائیں طرف ؟ چناچہ صحیح قول یہ ہے کہ اسے اختیار ہے چاہے دائیں طرف گھوم کر بیٹھے اور چاہے بائیں طرف لیکن اکثر حضرات کی رائے یہ ہے کہ بائیں طرف گھوم کر بیٹھنا ہی متفقہ طور پر سب کے نزدیک افضل ہے کیونکہ حجرہ شریف اسی سمت ہے۔ اگر کوئی آدمی فرض نماز کے بعد سنتیں پڑھ لے اور اس کے بعد احادیث میں مذکورہ اوراد وظائف پڑھے تو یہ اس بعدیت کے منافی نہیں ہوگا جو احادیث میں مذکور ہیں (یعنی احادیث میں مذکور ہے کہ نماز کے بعد فلاں فلاں دعا یا وظیفہ پڑھا جائے تو اگر کوئی آدمی فرض نماز پڑھ کر پہلے سنتیں پڑھے اور پھر اس کے بعد مذکورہ اوارد وظائف پڑھے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ اس فضیلت سے محروم رہا۔ کیونکہ حدیث کا مقصد تو یہ ہے کہ یہ اوارد وظائف نماز کے بعد پڑھے جائیں خواہ سنتوں کے بعد بلکہ سنتوں کے بعد ہی پڑھنا زیادہ مناسب ہے۔ اس طرح صحیح احادیث سے چونکہ یہ ثابت ہے کہ فجر اور مغرب کی نماز کے بعد لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کل شییء قدیر دس مرتبہ پڑھا جائے، یا ان نمازوں کے بعد آیت الکرسی پڑھنا احادیث سے ثابت ہے تو اگر کوئی آدمی مغرب کی فرض نماز کے بعد پہلے سنتیں پڑھ لے اور پھر اس کے بعد آیت الکرسی یا مذکورہ بالا تہلیل پڑھے تو حدیث کے مطابق اسے وہی فضیلت حاصل ہوگی جو فرض نماز کے بعد انہیں پڑھنے پر حاصل ہوتی۔ بعض لوگ سوچ کر کہ جلدی بھی ہوجائے اور مذکورہ بالا چیزوں کو پڑھنے کی فضیلت بھی حاصل ہوجائے، مغرب کی سنتوں میں آیۃ الکرسی پڑھ لیتے ہیں یہ محض وہم ہے کیونکہ احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مغرب کی سنتوں میں قل یا ایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد پڑھا کرتے تھے۔

【224】

نماز کے اختتام پر اللہ اکبر کہنا

حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں رحمت عالم ﷺ کی نماز کے ختم ہونے کو آپ ﷺ کے اللہ اکبر کہنے سے پہچان لیتا تھا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح نماز کے اختتام پر اللہ اکبر کہنے کی مراد کے تعین میں شارحین کے مختلف اقوال ہیں، چناچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہاں تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنے سے مراد ذکر ہے جیسا کہ صحیحین میں عبداللہ ابن عباس (رض) کی روایت منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں فرض نماز سے فراغت کے وقت لوگوں کے لئے بآواز بلند ذکر مقرر تھا۔ پھر حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں، کہ میں نماز کے اختتام کو اسی کے ذریعہ پہچانتا تھا (یعنی جب لوگ بلند آواز سے ذکر کرتے تھے تو میں جان لیتا تھا کہ نماز ہوچکی ہے) ۔ عبداللہ ابن عباس (رض) کی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد محمد بن اسماعیل البخاری نے پھر عبداللہ ابن عباس (رض) کی اس روایت کو نقل کیا ہے جو یہاں ذکر کی گئی ہے لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ تکبیر سے مراد مطلق ذکر ہے۔ لیکن اتنی بات بھی سمجھتے چلئے کہ حضرت امام شافعی (رح) نے رسول اللہ ﷺ کے اس ذکر بالجہر کو تعلیم امت پر محمول کیا ہے چناچہ بیہقی وغیرہ نے آہستہ آواز سے ذکر کرنے پر صحیحین کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کو اس بات کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ تہلیل و تکبیر بلند آواز سے نہ کریں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو، وہ (یعنی خدا) تو تمہارے ساتھ ہے اور قریب ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہاں تکبیر سے مراد وہ تکبیر ہے جو نماز کے بعد تسبیح وتحمید کے ساتھ دس مرتبہ یا تیس مرتبہ پڑھتے ہیں۔ کچھ محققین کی رائے ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں نماز کے بعد ایک بار یا تین بار تکبیر کہی جاتی تھی۔ بعض علماء کا قول ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی روایت کا تعلق ایام منیٰ سے ہے کہ وہاں تشریق کی تکبیرات کہتے تھے، بہر حال۔ ان تمام اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے بھی سب سے بڑا اشکال حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کے اس قول پر یہ وارد ہوتا ہے کہ یہ کیا وجہ ہے کہ عبداللہ ابن عباس (رض) سلام سے تو نماز کے اختتام کو نہ جانتے تھے اور تکبیر سے جانتے تھے کہ نماز ہوچکی ہے ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) اس وقت صغیر السن تھے اس لئے ممکن ہے کہ وہ ہمیشہ جماعت میں شریک نہ ہوتے ہوں گے، یا پھر یہ احتمال ہے کہ وہ جماعت میں شریک تو ہوتے ہوں گے لیکن پچھلی صف میں کھڑے ہوتے ہوں گے اس لئے وہاں تک رسول اللہ ﷺ کی آواز نہ پہنچنے کے سبب وہ سلام پر نماز کے اختتام کو نہ پہچانتے ہوں گے بلکہ جب مقتدی بآواز بلند تکبیر کہتے ہوں گے تو وہ یہ جان لیتے ہوں گے کہ نماز ختم ہوگئی ہے۔ وا اللہ اعلم۔

【225】

فرض کے بعد رسول اللہ ﷺ کے بیٹھنے کی مقدار

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ جب (فرض نماز کا) سلام پھیر لیتے تھے تو صرف اس دعا کے بقدر بیٹھتے تھے اللھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یاذای الجلال والاکرام۔ (رواہ صحیح مسلم) اے اللہ ! تو سالم ہے (یعنی تمام عیوب سے پاک ہے) اور تجھی سے (بندوں کی تمام آفات سے) سلامتی ہے۔ اے بزرگی و بخشش والے تو برتر ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں پڑھی جاتی ہیں ان کے سلام کے بعد رسول اللہ ﷺ صرف اسی قدر بیٹھتے تھے کہ یہ دعا پڑھ لیں۔ لیکن جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں نہیں ہیں۔ جیسے فجر، عصر، ان کے سلام پھیرنے کے بعد آپ ﷺ کا اس سے زیادہ بیٹھنا بھی ثابت ہے، چناچہ اسی بناء پر علماء کرام لکھتے ہیں کہ ان نمازوں کے بعد طلوع آفتاب و غروب آفتاب تک ذکر میں مشغول رہنا مستحب ہے۔ سلام کے بعد نہ بیٹھنے کی ایک توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ آپ ﷺ ہیت نماز میں صرف اتنی ہی دیر تک بیٹھے رہتے کہ یہ دعا پڑھ لیں یا یہ کہ آپ اکثر و بیشتر صرف اسی قدر بیٹھتے تھے۔ یہاں جو دعا ذکر کی گئی ہے اس میں یہ الفاظ بھی پڑھے جاتے ہیں والیک یرجع السلام فحینا ربنا بالسلام وادخلنا دار السلام حالانکہ یہ الفاظ احادیث سے ثابت نہیں ہیں بلکہ بعد میں ان الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے۔

【226】

فرض کے بعد رسول اللہ ﷺ کے بیٹھنے کی مقدار

اور حضرت ثوبان (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ جو اپنی نماز سے فارغ ہو لیتے تو (پہلے) تین مرتبہ استغفار کرتے اور (پھر) یہ دعا پڑھتے اللھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال والاکرام۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب آپ ﷺ سلام پھیر لیتے تھے تو پہلے تین مرتبہ استغفار کرتے یعنی استغفر اللہ تین مرتبہ کہتے اس کے بعد مذکورہ بالا دعا پڑھتے۔ بعض روایتوں میں مذکور ہے کہ آپ ﷺ استغفار کے لئے تین مرتبہ اس طرح کہتے تھے استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ۔

【227】

فرض نماز کے بعد کی دعا

اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شییء قدیر اللھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ کہتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے لئے ہر قسم کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ ! جو چیز تو نے عطا کی ہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں۔ اور جس چیز کو تو نے روک دیا ہے اس کو کوئی دینے والا نہیں ہے اور دولت مند کو اس کی دولت تیرے عذاب سے بچانے والی نہیں ہے۔ (صحیح البخاری، صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ یہ دعا اور دیگر دعائیں و کلمات اذکار جو مختلف احادیث میں مذکور ہیں نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے علماء کرام لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات تو سلام پھیرنے کے بعد بغیر کچھ پڑھے ہوئے کھڑے ہوتے تھے اور بعض اوقات مذکور دعا و اذکار میں سے کچھ یا سب پڑھا کرتے تھے۔ چونکہ احادیث سے نماز کے بعد پڑھنے کے لئے مختلف دعائیں ثابت ہیں اس لئے بعض علماء نے ان کے پڑھنے کی ترتیب اس طرح قائم کی ہے کہ اول تو استغفار کیا جائے اس کے بعد اللہم انت السلام آخر تک پڑھا جائے پھر اس کے بعد لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، آخر تک پڑھا جائے۔ ان دعاؤں کے علاوہ اور بہت سی دعائیں بھی احادیث میں مذکور ہیں جن کے بارے میں ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ انہیں نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے۔ اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ بعد سے یہ مراد نہیں کہ یہ دعائیں فرض نماز کے بعد متصلاً ہی پڑھنی چاہئیں بلکہ اگر سنتوں کے بعد بھی یہ دعائیں پڑھی جائیں گی تو نماز کے بعد پڑھنا ہی کہلائے گا۔

【228】

فرض نماز کے بعد کی دعا

اور حضرت عبدا اللہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ جب اپنی نماز سے سلام پھیرتے تھے تو (سلام کے بعد) بلند آواز سے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے لَآ اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ وحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہ لَہ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئ قَدِیر لَّا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ وَلَا نَعْبُدُ اِلَّا اِیاہُ لَہ النِّعْمَۃُ وَلَہ الْفَضْلُ وَلَہ الثَّنَآءُ الْحَسَنُ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُخْلِصِینَ لَہ الدِّینَ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے لئے ہر قسم کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، گناہوں سے باز رہنے اور عبادت کرنے کی قوت صرف اللہ ہی کی مدد سے ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں، اللہ ہی کے لئے اس کی بندگی کو خالص کرنے والے ہیں اگرچہ کافر اسے برا سمجھیں۔ (صحیح مسلم) تشریح علماء لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کلمات دعائیہ کو بھی تعلیم امت کے پیش نظر بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے۔ امام نووی (رح) نے کتاب مہذب میں لکھا ہے کہ اس دعا کو اور اس کے علاوہ دیگر دعاؤں کو آہستہ آواز سے پڑھنا افضل ہے خواہ امام ہو یا منفرد، ہاں اگر اس بات کی ضرورت ہو کہ کوئی دعا کسی کو سکھانا ہے تو اس کو بلند آواز سے پڑھ لینا چاہئے، چناچہ اس دعا کو رسول اللہ ﷺ کے بلند آواز سے پڑھنے کو اسی پر محمول کیا گیا ہے کہ چونکہ آپ ﷺ کا مقصد، صحابہ کرام کو یہ دعا سکھانا تھا اس لئے آپ ﷺ بلند آواز سے پڑھتے تھے اور جب لوگوں کو دعا یاد ہوگئی تو اسے آہستہ آواز سے پڑھنا ہی افضل ہوا۔

【229】

نماز کے بعد کن چیزوں سے پناہ مانگنی چاہئے

اور حضرت سعد (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کلمات دعائیہ کے یہ الفاظ سکھاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رحمت عالم ﷺ اپنی نماز کے بعد انہیں الفاظ کے ذریعے پناہ مانگا کرتے تھے۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ اَرْذَلِ الْعُمُرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیا و عَذَابِ الْقَبْرِ (رواہ البخاری) تشریح یہاں جبن سے مراد طاعت کی جرات نہ کرنا ہے اور بخل سے مراد یہ ہے کہ کسی غیر کو مال علم اور خیر خواہی سے فائد نہ پہنچایا جائے۔ ناکارہ عمر کا مطلب یہ ہے کہ انسان زندگی کے اس اسٹیج پر پہنچ جائے جہاں عقل میں خلل آجاتا ہے اعضا ضعیف ہوجاتے ہیں طاقت و قوت یکسر جواب دے دیتی ہے اور ایسا آدمی بالکل اپاہج و معذور ہو کر دین و دنیا کے کاموں کے لئے ناکارہ بن جاتا ہے۔ اسی عمر سے پناہ مانگنی چاہیے۔ کیونکہ انسانی زندگی کا حاصل اور مقصود تو صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہا جائے اس کی نعمتوں کا اچھی طرح شکر ادا کیا جاتا رہے اور ظاہر کہ اسی ناکارہ عمر میں کوئی آدمی نہ پوری طرح عبادت کرسکتا ہے اور نہ اداء شکر میں مشغول رہ سکتا ہے۔ اس طرح زندگی اور عمر کا جو اصل مقصد ہے وہ فوت ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ناکارہ زندگی سے بچائے

【230】

نماز کے بعد کی تسبیح اور اس کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن فقراء مہاجرین رحمت عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! دولت مند لوگ بلند درجات (یعنی ثواب، قرب الہٰی اور رضائے حق) اور دائمی نعمت) یعنی بہشت کی نعمت کو حاصل کرنے میں ہم سے سبقت) لے گئے (یعنی وہ اپنے مال و دولت کی وجہ سے بڑا ثواب حاصل کرتے ہیں اور بہشت کی نعمتوں کے مستحق ہوتے ہیں اور ہم تو اپنی غربت و افلاس کی وجہ سے بلندی درجات میں ان سے پیچھے رہ جاتے ہیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ کیسے ؟ انہوں نے عرض کیا وہ اسی طرح نماز پڑھتے ہیں جس طرح ہم پڑھتے ہیں اور وہ اسی طرح روزہ رکھتے ہیں جس طرح ہم رکھتے ہیں (ان اعمال میں تو وہ اور ہم برابر ہیں لیکن مال و زر کی وجہ سے) وہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور) غربت و افلاس کی وجہ سے) ہم صدقہ و خیرات کر نہیں سکتے، وہ غلام آزاد کرتے ہیں ہم غلام آزاد نہیں کرسکتے) (اس طرح وہ ان اعمال کے ثواب کے حق دار ہوجاتے ہیں اور ہم محروم رہتے ہیں (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو ایسی بات نہ بتادوں کہ اس پر عمل کر کے تم ان لوگوں کے درجات کو پہنچ جاؤ جو تم سے پہلے اسلام لا چکے ہیں اور ان لوگوں کے مرتبے سے بڑھ جاؤ جو تمہارے بعد کے ہیں (یعنی تمہارے بعد اسلام لائے ہیں یا تمہارے بعد پیدا ہوں گے) اور (مال دار لوگوں میں سے) کوئی آدمی تم سے بہتر نہ ہوگا بجز اس آدمی کے جو تم ہی جیسا عمل کرے (یعنی اگر مالدار لوگوں نے میری بتائی ہوئی بات پر تمہاری طرح علم کیا تو پھر مرتبہ کے اعتبار سے وہی تم سے بہتر ہوں گے) فقراء نے عرض کیا یا رسول اللہ ! بہتر ہے، فرمائیے (وہ کیا بات ہے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا تم لوگ ہر نماز کے بعد سبحان اللہ اللہ اکبر اور الحمد للہ تینتیس مرتبہ پڑھ لیا کرو۔ (حدیث کے ایک راوی) ابوصالح فرماتے ہیں کہ (کچھ دنوں کے بعد) فقراء مہاجرین (پھر) رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارے دولت مند بھائیوں نے ہمارے عمل کا حال سنا اور وہ بھی وہی کرنے لگے جو ہم کرتے ہیں (اس طرح پھر وہی لوگ ہم سے افضل ہوئے) آپ ﷺ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور روایت کے آخری الفاظ جو ابوصالح کا قول ہے صرف صحیح مسلم ہی نے نقل کئے ہیں نیز صحیح البخاری کی ایک روایت میں تینتیس مرتبہ پڑھنے کے بجائے یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد دس دس مرتبہ سبحان اللہ، الحمد اللہ اور اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ تشریح پہلی روایت میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ہر نماز کے بعد سبحان اللہ، اللہ اکبر اور الحمد اللہ تینتیس مرتبہ پڑھو تو اس میں دو احتمال ہیں اول تو یہ کہ ان تینوں کلمات کو مجموعی طور پر تینتیس تینتیس مرتبہ پڑھا جائے چناچہ مشائخ کا عمل اسی پر ہے اور یہی افضل بھی اور یہ کہ اس کی صراحت بھی بعض روایات میں تو موجود ہے۔ دوم یہ کہ ان تینوں کلمات کو ملا کر تینتیس مرتبہ پڑھا جائے، اس طرح ان میں سے ہر ایک کو بھی تینتینس مرتبہ پڑھنا ہوجائے گا۔ شکر کرنے والا امیر صبر کرنے والے غریب سے افضل ہے حدیث کے آخری لفظ ذلک فضل اللہ الخ ( اس دارالفناء میں جنتے ازم پیدا ہوئے وہ فانی ہیں صحیح اور باقی رہنے والی بات یہی ہے کہ انسانی جدوجہد اور تدابیر تقدیر الہٰی سے پابستہ زنجیر ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ نے دولت مند لوگوں کو تم پر فضیلت دی ہے تو یہ محض اس کا فضل و کرم ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے نواز کر اس کے قدموں میں مال و دولت کے ڈھیر ڈال دیتا ہے لہٰذا تمہیں چاہیے کہ اس معاملے میں صبر کا دامن پکڑے رہو اور تقدیر الہٰی پر راضی رہو کہ اس نے بعض بندوں کو بعض بندوں پر فضیلت و بزرگی عطا فرما دی ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ شکر کرنے والا دولت مند صبر کرنے والے غریب سے افضل ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی اتنی بات بھی ہے کہ دولت مند اپنے مال و دولت کے معاملے میں مختلف قسم کے گناہ کے خوف سے خالی نہیں ہوتا جب کہ فقیر و غریب ان گناہوں کے خوف سے جو مال و دولت کی بناء پر صادر ہوتے ہیں امن میں رہتا ہے۔ امام غزالی (رح) احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ علماء کرام نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے چناچہ حضرت جنید بغدادی (رح) اور دیگر اکثر اہل اللہ فضیلت فقر کے قائل ہیں اور ابن عطاء کا قول ہے کہ شاکر دولت مند جو دولت کا حق ادا کرتا ہو صابر غریب سے افضل ہے۔

【231】

نماز کے بعد کی تسبیح اور اس کی فضیلت

اور حضرت ابن عجرۃ (رح) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا ہر فرض نماز کے بعد پڑھنے کے چند کلمات ہیں جن کو کہنے والا، یا فرمایا کہ کرنے والا (حصول ثواب سے) محروم نہیں رہ سکتا (اور وہ کلمات یہ ہیں) سبحان اللہ تینتیس بار، الحمد اللہ تیتنیس اور اللہ اکبر چونتیس بار کہنا۔ (صحیح مسلم)

【232】

نماز کے بعد کی تسبیح اور اس کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی ہر نماز کے بعد سبحان اللہ تینتیس مرتبہ، الحمد اللہ تینتیس مرتبہ اللہ اکبر تینتیس مرتبہ کہے جن کا مجموعی عدد ننانوے ہو اور سو کے عدد کو پورا کرنے کے لئے ایک مرتبہ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شییء قدیر کہے تو اس کے تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر (یعنی بہت زیادہ) ہوں۔ (صحیح مسلم) تشریح بعض روایات میں ولہ الحمد کے بعد یحی و یمیت اور بعض میں بیدہ الخیر کے الفاظ بھی منقول ہیں، مذکورہ بالا کلمات جو نماز کے بعد پڑھے جاتے ہیں ان کے مختلف عدد منقول ہیں چونکہ رسول اللہ ﷺ خود بھی انہیں مختلف عدد کے ساتھ پڑھتے تھے اس لئے ان کلمات کو احادیث میں مذکور اعداد میں سے جس عدد کے ساتھ بھی پڑھا جائے گا۔ اصل سنت ادا ہوجائے گی۔ حافظ زین عراقی فرماتے ہیں کہ مذکورہ تمام اعداد بہتر ہیں اور جو عدد سب سے بڑا ہے وہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان تسبیحات کے ورد کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ثابت ہے کہ آپ ﷺ انہیں دائیں ہاتھ کی انگلیوں پر پڑھتے تھے اور یہ بھی منقول ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے فرمایا کہ انہیں انگلیوں پر شمار کرو کیونکہ قیامت کے روز انگلیوں سے (بندے کے اعمال کے سلسلہ میں) سوال کیا جائے گا اور (جواب کے لئے) انہیں گویائی کی قوت دی جائے گی۔ صحابہ کرام کے بارے میں منقول ہے کہ وہ انہیں کھجور کی گٹھلیوں پر پڑھتے تھے۔ بہر حال ان تسبیحات کو انگلیوں پر پڑھنا ہی افضل ہے اور گٹھلیوں وغیرہ پر پڑھنا بھی جائز ہے۔

【233】

قبولیت دعا کا وقت

حضرت ابوامامہ (رض) فرماتے ہیں کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ کسی وقت دعا بہت زیادہ قبول ہوتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا رات کے آخری حصے میں (یعنی سحر کے وقت) اور فرض نمازوں کے بعد۔ (جامع ترمذی )

【234】

ہر نماز کے بعد معوذات پڑھنے کا حکم

اور حضرت عقبہ ابن عامر (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں ہر نماز کے بعد معوذات پڑھوں۔ (مسند احمد بن حنبل و سنن ابوداؤد، سنن نسائی، بیہقی) تشریح معوذات قرآن کی ان سورتوں کو کہتے ہیں جن کی ابتداء میں اعوذ کا لفظ ہے یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس یہاں ان دونوں سورتوں کے لئے معوذات جمع کا صیغہ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ اقل جمع دو ہیں اور بعض علماء نے کہا ہے کہ قل ھو اللہ اور قل یا ایھا الکافرون بھی معوذات میں تغلیبًا داخل ہیں یعنی قل اعوذ برب الناس کو امتیاز دے کر سب کو معوذات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اگرچہ ان دونوں سورتوں کی ابتداء میں اعوذ کا لفظ نہیں ہے۔ گویا اس قول کے مطابق آپ نے چار سورتوں یعنی قل اعوذ برب الفلق، قل اعوذ برب الناس، قل ھو اللہ اور قل یا یھا الکافرون کے پڑھنے کا حکم دیا تھا۔

【235】

طلوع و غروب آفتاب تک ذکر میں مشغول رہنے کی فضلیت

اور حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا کہ ایک ایسی جماعت کے ساتھ میرا بیٹھنا جو نماز فجر سے طلوع آفتاب تک اللہ کے ذکر میں مشغول ہو میرے نزدیک حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے چار غلام آزاد کرنے سے بہتر ہے اور عصر کی نماز کے بعد سے غروب آفتاب تک ایسے لوگوں میں میرا بیٹھنا جو اللہ کے ذکر میں مشغول ہوں میرے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ میں چار غلام آزاد کروں۔ (سنن ابوداؤد) تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے آخری الفاظ میں بھی چار غلام سے مراد حضرات اسمعیل کی اولاد سے چار غلام ہوں اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہاں چار غلام مطلق مراد ہوں۔ حضرت اسمعیل کی اولاد کی تخصیص آپ ﷺ نے اس لئے کہ وہ افضل عرب ہیں اور خود رسول اللہ ﷺ ان کی اولاد میں سے ہیں۔

【236】

طلوع و غروب آفتاب تک ذکر میں مشغول رہنے کی فضلیت

اور حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا جو آدمی فجر کی نماز جماعت سے پڑھے اور طلوع آفتاب تک اللہ کی یاد میں مشغول رہے اور پھر دو رکعت نماز پڑھے تو اسے حج و عمرے کی مانند ثواب ملے گا راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پورے حج و عمرے کا پورے حج و عمرے کا پورے حج و عمرے کا ثواب اسے ملے گا۔ (جامع ترمذی ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو آدمی فجر کی نماز جماعت سے پڑھ کر اسی مسجد میں اور اسی مصلی پر طلوع آفتاب تک ذکر الٰہی میں مسلسل مشغول رہے اور پھر اس کے بعد دو رکعت نماز نفل پڑھے تو اسے اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ ایک پورے حج و عمرے کا ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی آدمی حالت ذکر میں طواف کے لئے یا طلب علم کے لئے اور یا مسجد ہی میں مجلس و عظ میں جانے کے لئے مصلے سے اٹھایا اسی طرح کوئی آدمی وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر چلا آئے مگر ذکر الٰہی میں برابر مشغول بھی رہے تو اسے بھی مذکورہ ثواب ملے گا۔ ذکر سے فارغ ہو کر طلوع آفتاب کے بعد دو رکعت نماز سورج کے ایک نیزے کے بقدر بلند ہوجانے کے بعد پڑھنی چاہئے تاکہ وقت کراہت ختم ہوجائے اس نماز کو نماز اشراق کہتے ہیں اور اکثر احادیث میں اس کا نام صلوۃ الضحٰی بھی منقول ہے اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں جن کے الگ الگ یہ دو نام ہیں۔ اس کا ابتدائی وقت آفتاب کے بلند ہوجانے کے بعد شروع ہوجاتا ہے اور انتہائی وقت سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے ہے۔ ابتدائی وقت بھی پڑھی جانے والی نماز کو نماز اشراق کہتے ہیں اور انتہائی وقت میں پڑھی جانے والی نماز نماز چاشت کے نام سے تعبیر کی جاتی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ ایسے آدمی کو حج و عمرے دونوں کا ثواب فرض نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی بناء پر ملتا ہے اور عمرے کا ثواب نفل نماز (یعنی نماز اشراق) پڑھنے کی وجہ سے ملتا ہے۔

【237】

دو نمازوں کے درمیان وقفہ کرنا چاہیے

اور حضرت ازرق ابن قیس (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ہمارے امام نے کہ جن کی کنیت ابورمثہ تھی ہمیں نماز پڑھائی اور (نماز کے بعد) انہوں نے فرمایا کہ میں نے (ایک روز) یہ نماز یا اس کی مانند نماز رحمت عالم ﷺ کے ہمراہ پڑھی، حضرت ابورمثہ کہتے تھے کہ (اس نماز میں) حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر (رض) ( بھی) رسول اللہ ﷺ کی دائیں طرف پہلی صف میں کھڑے تھے، ایک آدمی (پیچھے سے آکر) نماز کی تکبیر اولی میں شریک ہوا، رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی اور سلام ( کے وقت آپ ﷺ نے اپنے چہرہ مبارک کو اتنا) پھیرا کہ ہم نے آپ ﷺ کے مبارک رخساروں کی سفیدی دیکھ لی، پھر آپ ﷺ ابورمثہ کی یعنی میری طرف پھر کر بیٹھ گئے وہ آدمی جو تکبیر اولی میں شریک تھا کھڑا ہوگیا اور دو رکعت نماز پڑھنے لگا، حضرت عمر (رض) (یہ دیکھ کر) فورًا اٹھے اور اس آدمی کے دونوں کندھے پکڑ کر ہلائے اور فرمایا کہ بیٹھ جاؤ ! کیونکہ اہل کتاب (یعنی یہو و نصاری) اسی لئے ہلاکت کی وادی میں جاگرے کہ اپنی نمازوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے تھے، (حضرت عمر (رض) کی یہ بات سن کر) رسول اللہ ﷺ نے نظر مبارک اوپر اٹھائی اور فرمایا کہ اے خطاب کے بیٹے ! اللہ نے تمہیں راہ حق پر پہنچایا (یعنی تم نے سچ کہا) ۔ (ابوداؤد) تشریح ابتداء حدیث میں حضرت ابورمثہ نے اپنے قول یہ نماز سے اس نماز کی طرف اشارہ کیا تھا جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پڑھی تھی اور وہ ظہر یا عصر کی نماز تھی۔ الفاظ او مثل ھذہ الصلوۃ (یا اس کی مانند نماز) میں حرف اور اوی کے شک کو ظاہر کر رہا ہے، یعنی اس روایت کے راوی کو شک ہے کہ حضرت ابورمثہ نے ہذہ الصلوٰۃ فرمایا تھا یا مثل ہذہ الصلوۃ۔ فرمایا گیا ہے کہ ایک آدمی (پیچھے سے آکر) نماز کی تکبیر اولی میں شریک ہوا یہاں تکبیر اولی کی قید اس مقصد کے تحت لگائی گئی ہے تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ وہ آدمی مسبوق نہیں تھا کہ اپنی بقیہ نماز پوری کرنے کے لئے سلام کے بعد اٹھا ہو بلکہ وہ جماعت کے ساتھ پہلی ہی رکعت میں شامل ہوگیا تھا اور وہ سلام کے بعد سنت مؤ کدہ پڑھنے کے لئے اٹھ گیا تھا۔ فرق سے مراد یا تو سلام پھیر نے کے ساتھ فرق کرنا ہے یا جگہ بدل کر فرق کرنا مراد ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی ایک حدیث میں منقول ہے کہ تم میں سے جو آدمی نماز اداء کرتا ہے اسے کیا دشواری ہے کہ وہ آگے بڑھ جائے یا پیچھے ہٹ جائے یا دائیں طرف ہٹ کر کھڑا ہوجائے (یعنی ایک نماز پڑھ کر دوسری نماز پڑھنے کے لئے پہلی جگہ سے ہٹ جانا چاہئے) یا گفتگو کرنے اور مسجد سے نکلنے کے ساتھ فرق کرنا مراد ہے جیسا کہ مسلم کی ایک روایت میں حضرت سائب سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا ہمیں سرکار دو عالم ﷺ نے حکم فرمایا تھا کہ ہم (دو نمازوں کے درمیان وصل نہ کریں تا وقتیکہ کوئی گفتگو کریں یا باہر نکلیں اور اس طرح دونوں نمازوں کے درمیان وقفہ کریں۔ اس حدیث کو مصنف کتاب نے اس باب یعنی باب الذکر بعد الصلوٰۃ میں ذکر کر کے اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ فرق سے مراد نماز فرض ہے کے بعد ذکر کا ترک کرنا ہے یعنی فرض نماز کے بعد چاہے کہ ذکر کیا جائے جو کہ (اس موقع کے لئے دعاؤں کی شکل میں) احادیث میں مذکور ہے۔ اس کے بعد اٹھ کر سنتیں پڑھی جائیں۔ نیز یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز فرض کے ساتھ نفل کو ملانا نہیں چاہیے یعنی دونوں نمازوں کے درمیان اتنا توقف کرنا چاہئے کہ دونوں میں کوئی اشتباہ نہ ہو۔

【238】

نماز کے بعد کی تسبیح

اور حضرت زید ابن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ہر نماز کے بعد سبحان اللہ تینتیس مرتبہ الحمد اللہ تینتیس مرتبہ اللہ اکبر چونتیس مرتبہ کہیں (حضرت زید فرماتے ہیں کہ ایک دن) ایک انصاری نے ایک فرشتہ خواب میں دیکھا فرشتے نے اس نصاری سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم ہر نماز کے بعد اتنی تسبیح پڑھو ؟ اس انصاری نے کہا کہ ہاں ! فرشتے نے کہا کہ ان تینوں کلمات (کے پڑھنے) کی تعداد پچیس مقرر کرو اور اس کے ساتھ لا الہ الا اللہ بھی پچیس مرتبہ مقرر کرلو (تاکہ سو کا عدد پورا ہوجائے) جب صبح ہوئی تو انصاری رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے خواب سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر عمل کرو۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن نسائی، دارمی) تشریح رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد اس پر عمل کرو کی مراد غالباً یہ ہوگی کہ جس طرح تمہیں تسبیح پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اس طرح بھی پڑھو اور جس طرح فرشتہ نے خواب میں بتایا ہے اس طرح بھی پڑھ لیا کرو اور یہ بھی چونکہ ذکر کا ایک طریقہ ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کی توثیق فرما دی، اگر رسول اللہ ﷺ تقریر یعنی توثیق نہ فرماتے تو محض خواب اس سلسلے میں حجت نہ ہوتا۔

【239】

آیۃ الکرسی کی فضیلت

اور امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں نے رحمت عالم ﷺ کو لکڑی کے اس منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی ہر نماز کے بعد آیتہ الکرسی پڑھتا ہے اسے بہشت میں جانے سے سوائے موت کے اور کوئی چیز نہیں روک سکتی اور جو آدمی (آیت الکرسی کو) اپنی خواب گاہ میں جاتے وقت (یعنی سونے کے وقت) پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مکان میں اور اس کے ہمسائے میں (یعنی جو مکانات اس کے مکان سے ملے ہوئے ہوں) اور اس کے اردگرد مکانات میں (جو اگرچہ اس کے مکان سے متصل نہ ہوں) امن دیتا ہے اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی اسناد ضعیف ہے۔ تشریح حدیث کے ابتدائی جملوں سے ایک خلجان واقع ہوتا ہے وہ یہ کہ موت دخول جنت سے مانع نہیں ہے بلکہ موت تو خود جنت میں جانے کا ذریعہ ہے لہٰذا چاہیے تو یہ تھا کہ بجائے اس کے یہ فرمایا جائے لم یمنعہ من دخول الجنۃ الاالموت (یعنی اس کے بہشت میں جانے سے سوائے حیات کے اور کوئی چیز نہیں روک سکتی، کیونکہ انسان اس دنیا میں حیات کے جال میں پھنسا ہوا ہے جب زندگی ختم ہوگی اور موت آئے گی جنت میں اس وقت ہی دخول ممکن ہوگا لہٰذا دخول جنت کی مانع موت نہیں بلکہ حیات ہے۔ اس کا مختصر جواب علامہ طیبی (رح) نے یہ دیا ہے کہ بندے اور جنت کے درمیان موت ایک پردہ ہے کہ ایک طرف تو حیات ہے اور دوسری طرف جنت ہے جب یہ پردہ ہٹے گا یعنی بندے کو موت آئے گی تو فورًا جنت میں داخل ہوجائے گا۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہاں موت سے مراد بندے کا قیامت کے روز قبر سے اٹھنے سے پیشتر قبر میں بند رہنا ہے چناچہ جب بندہ قبر سے اٹھے گا فورًا جنت میں داخل ہوجائے گا۔ یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے فضائل اعمال کے سلسلے میں ضعیف حدیث پر بھی عمل کرنا جائز ہے حدیث کے پہلے جزو کو نسائی ابن حبان اور طبرانی نے بھی نقل کیا ہے ایک روایت میں آیت الکرسی کے ساتھ قل ہو اللہ پڑھنا بھی مذکور ہے۔

【240】

نماز فجر و مغرب کے بعد ذکر کی فضیلت

اور حضرت عبدالرحمن ابن غنم (رض) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ فرماتے تھے جو آدمی فجر اور مغرب کے بعد (نماز کی) جگہ سے اٹھنے سے پیشتر اور پاؤں موڑنے سے پہلے (یعنی جس طرح التحیات کے لئے بیٹھنا ہے اس ہیئت کے ساتھ) ان کلمات کو پڑھے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہ، لَہ الْمُلْکُ وَ لَہ الْحَمْدُ بِیَدِہ الْخَیْرِ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَھُوَ عَلَی کُلِّ شَیْیءٍ قَدِیْرٌ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے نہ اس کا کوئی شریک ہے، اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے واسطے تمام تعریفیں ہیں اسی کے ہاتھ میں بھلائی ہے، وہی (جسے چاہتا ہے) زندہ رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے) موت دے دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے تو اس کے لئے ہر ایک بار کے بدلہ میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کے دس گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور اس کے (مرتبے کے) دس درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں اور یہ کلمات اس کے لئے ہر بری چیز اور شیطان مردود سے امان کا باعث بن جاتے ہیں (یعنی نہ تو اس پر کسی دینی دنیاوی آفت و بلا کا اثر ہوتا ہے اور نہ مردود شیطان اس پر حاوی ہوتا ہے۔ اور شرک کے علاوہ کوئی گناہ (توفیق استغفار اور رحمت پروردگار کی وجہ سے) اسے ہلاکت میں نہیں ڈالتا (یعنی اگر شرک میں مبتلا ہوجائے گا تو پھر اس عظیم عمل کی وجہ سے بھی بخشش نہیں ہوگی) اور وہ آدمی عمل کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے بہتر ہوگا سوائے اس آدمی کے جو اس سے زیادہ افضل عمل کرے گا یعنی (یہ اس آدمی سے تو افضل نہیں ہوسکتا جس نے یہ کلمات) اس سے زیادہ کہے ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل) اس روایت کو امام ترمذی (رح) نے بھی ابوذر (رض) صرف الا الشرک تک نقل کی ہے نیز ان کی روایت میں صلوۃ المغرب اور بیدہ الخیر کے الفاظ بھی منقول نہیں ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

【241】

نماز فجر کے بعد ذکر کی فضیلت

اور امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک موقع) رحمت عالم ﷺ نے ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا چناچہ وہ لشکر (فتح و کامیابی کے بعد) بہت زیادہ مال غنیمت لے کر بہت جلد (مدینہ) واپس لوٹ آیا، ہم میں سے ایک آدمی نے جو لشکر کے ساتھ نہیں گیا تھا کہا کہ ہم نے تو ایسا کوئی لشکر نہیں دیکھا جو اس لشکر کی طرح اتنی جلدی واپس آیا ہو اور اپنے ساتھ اتنا مال غنیمت بھی لایا ہو ! (یہ سن کر) سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی جماعت کے بارے میں نہ بتلاؤں جو مال غنیمت میں اور جلد واپسی میں اس لشکر سے بھی بڑھی ہوئی ہے تو سنو وہ جماعت وہ ہے جو فجر کی نماز ( کی جماعت) میں حاضر ہوئی ہو اور پھر سورج نکلنے تک بیٹھی ہوئی اللہ کا ذکر کرتی رہی ہو، یہی وہ لوگ ہیں جو جلد واپس آنے اور مال غنیمت لانے میں ان سے بڑھے ہوئے ہیں۔ (یہ روایت ترمذی نے نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی حماد ابن ابوحمید ضعیف ہیں) تشریح مطلب یہ ہے کہ اس لشکر کے لوگوں کو صرف دنیا کی دولت ملی جو فانی ہے اور اس جماعت کے لوگوں کو تھوڑی سی دیر میں بہت زیادہ ثواب ملا جو باقی رہنے والا ہے جیسا کہ رب العزت کا ارشاد ہے۔ آیت (مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ ) 16 ۔ النحل 96) جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ فانی ہے اور جو کچھ اللہ جل شانہ کے پاس ہے وہ باقی ہے۔ لہٰذا اس جماعت کے لوگ نہ صرف یہ کہ مال غنیمت کے اعتبار سے اس لشکر کے لوگوں سے افضل ثابت ہوئے بلکہ جلد واپس لوٹنے میں بھی ان سے بڑھے رہے۔

【242】

نماز میں جائز اور ناجائز چیزوں کا بیان

اس باب میں ان چیزوں کا ذکر کیا جائے گا جن کو نماز میں اختیار کرنا جائز ہے نیز ایسی چیزوں کو بھی ذکر کیا جائے گا جن کو نماز میں اختیار کرنا حرام، مکروہ اور مباح ہے اور جن سے نماز پر کسی بھی حیثیت سے اثر پڑتا ہے۔

【243】

نماز میں چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا مفسد نماز ہے

حضرت معاویہ ابن حکم (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین ﷺ کے ہمراہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ (درمیان نماز) اچانک جماعت میں سے ایک آدمی کو چھینک آگئی میں نے (جواب میں) یرحمک اللہ کہا (یہ سن کر) لوگوں نے مجھ کو گھورنا شروع کیا ( کہ نماز میں چھینک کا جواب دیتے ہو) میں نے کہا کہ تمہاری ماں تمہیں گم کر دے تم لوگ مجھے کیوں گھور رہے ہو لوگوں نے (میری گفتگو سن کر مجھے چپ کرانے اور اظہار تعجب کے لئے) اپنی رانوں پر اپنے ہاتھ مارنے شروع کئے (جب) میں نے دیکھا کہ لوگ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں (تو مجھے بہت غصہ آیا کیونکہ مجھے اس فعل کی برائی کا علم نہ تھا) لیکن میں خاموش رہا جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھا چکے ( تو کیا کہوں) میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان میں نے تو ایسا اچھا تعلیم دینے والا نہ آپ ﷺ سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں دیکھا اللہ کی قسم ! نہ تو آپ ﷺ نے مجھے ڈانٹا، نہ مارا اور نہ برا بھلا کہا، (ہاں اتنا) فرمایا کہ نماز میں انسان کی بات مناسب نہیں ہے، نماز تو تسبیح و تکبیر اور قرآن پڑھنے کا نام ہے یا آپ نے اس کی مانند کچھ اور فرمایا (یعنی راوی کو شک ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہی الفاظ فرمائے تھے یا اس کے مانند دوسرے الفاظ تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں ایک نو مسلم ہوں (ابھی تک دین کے تمام احکام مجھے معلوم نہیں تھے ہاں (اب) اللہ نے ہمیں اسلام کی دولت سے مشرف فرمایا ہے، (تو دین کے تمام احکام سیکھ لوں گا پھر میں نے عرض کیا کہ) ہم میں سے بہت لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں (اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ) فرمایا تم ان کے پاس ہرگز نہ جایا کرو میں نے عرض کیا ہم میں سے بہت لوگ بد فالی (بھی) لیتے ہیں۔ فرمایا یہ ایک ایسی چیز ہے جسے وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں (یعنی یہ ان کا محض وہم اور ذہن کی اختراع ہے جو کاموں کے نفع و نقصان میں کوئی اثر نہیں رکھتا) انہیں اپنے کام سے رکنا نہیں چاہئے معاویہ (رض) فرماتے ہیں میں نے پھر عرض کیا ہم میں سے بعض لوگ خط کھینچتے ہیں اور اس کے ذریعے وہ غیب کی کچھ باتیں بتاتے ہیں) فرمایا انبیاء میں سے ایک نبی تھے جو خط کھینچتے تھے لہٰذا جس آدمی کا خط کھینچنا اس نبی کے خط کھینچتے کے موافق ہو وہ اس بات کو حاصل کرلیتا ہے۔ (صحیح مسلم) مؤلف مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ لٰکِنِّیْ سَکَتُ کو صحیح مسلم اور کتاب حمیدی میں اسی طرح دیکھا ہے (البتہ) صاحب جامع الاصول نے لفظ لکنی کے اوپر لفظ کذا) لکھ کر اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تشریح و اثکل امیاہ (یعنی تمہاری ماں تمہیں گم کرے) ان الفاظ کی تشریح پہلے بھی کسی موقع پر کی جا چکی ہے چناچہ وہاں بتایا جا چکا ہے کہ اہل عرب کے ہاں یہ الفاظ ایسے موقع پر استعمال کئے جاتے تھے کہ مخاطب کی کوئی بات یا اس کا کوئی فعل قابل تعجب ہوتا تھا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں چھینکنے والے نے الحمد اللہ کہا ہوگا اس کے جواب میں حضرت معاویہ (رض) نے یرحمک اللہ کہا۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا حرام ہے جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اب اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت معاویہ (رض) نے ایک مفسد نماز فعل کا ارتکاب کیا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں نماز لوٹانے کا حکم کیوں نہیں دیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ وہ نو مسلم تھے اسلام قبول کئے ہوئے انہیں زیادہ دن نہیں گذرے تھے اس لئے انہیں معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ نماز میں گفتگو کرنا منسوخ ہوچکا ہے اب گفتگو کرنے سے نماز باطل ہوجاتا ہے اس لئے آپ ﷺ نے اس کی ناواقفیت کی بناء پر انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔ حضرت امام نووی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی نماز میں یرحمک اللہ کہے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے کیونکہ اس میں دوسرے آدمی کو خطاب کرنا پایا جاتا ہے اور اگر کوئی ی (رح) کہے تو نماز اس کی باطل نہیں ہوتی حضرت ابن ہمام (رح) کا قول ہے کہ اگر کوئی اپنے نفس کے لئے یرحمک اللہ کہے تو نماز فاسد نہیں ہوتی جیسا کہ یرحمنی اللہ کہنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ ارشاد نبوت اِنَّ ھٰذِہِ الصَّلٰوۃَ لَا یَصْلُحْ فِیْھَا شَیْیءٌ مِنْ کَلاَمِ النَّاسِ (نماز میں انسان کی بات مناسب نہیں ہے) میں کلام الناس اس لئے فرمایا گیا ہے تاکہ اس حکم سے وہ تسبحیات و اذکار نکل جائیں جو نماز میں پڑھے جاتے ہیں جو اگرچہ انسان کا کلام ہی ہیں لیکن ان سے انسانوں کو خطاب کرنے یا ان کو سمجھانے کا ارادہ نہیں ہوتا لہٰذا یہاں کلام الناس (انسان کی بات) سے مراد وہ کلام ہے جس میں لوگوں کو خطاب کیا گیا ہو یا خود مخاطب بننے کا ارادہ ہو۔ فقہاء لکھتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی کسی نمازی سے حالت نماز میں پوچھے کہ تمہارے پاس کیا اور کس قسم کا مال ہے ؟ اور وہ نمازی جواب میں یہ آیت پڑھے (وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ ) 16 ۔ النحل 8) (گھوڑے، خچر اور گدھے) یا کسی نماز پڑھنے والے کے آگے کوئی کتاب رکھی ہو اور ایک آدمی یحییٰ نامی سامنے کھڑا ہوا ہو اور اس آدمی کو خطاب کرنے کی نیت سے یہ آیت پڑھے (يٰ يَحْ يٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ ) 19 ۔ مریم 12) (اے یحییٰ یہ کتاب لے لو) تو ان صورتوں میں نمازی نے اگرچہ قرآن کی آیتیں پڑھی ہیں لیکن یہ پڑھنا چونکہ ایک دوسرے آدمی کو خطاب کرنے کے ارادے سے ہے اس لئے نماز فاسد ہوجائے گی۔ ہاں اگر خطاب کا ارادے نہ کرے بلکہ قرأت کے ارادہ سے پڑھے گا تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔ کاہن کی تعریف عرب میں کاہن ان لوگوں کو کہتے ہیں جو جنات شیاطین اور ارواح خبیثہ کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور شیاطین جھوٹی سچی خبریں ان کو بتا تے تھے، اس طرح وہ لوگ علم غیب کا دعوی کر کے شیاطین و جنات کی پہنچائی ہوئی انہی باتوں کو غیب کی بات کہہ کر دوسرے لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ ایسے لوگوں کے پاس جانے سے رسول اللہ ﷺ نے روکا ہے چناچہ ایک دوسری روایت میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی کسی عراف یا کاہن کے پاس جائے اور ان کی بتائی ہوئی باتوں کو سچ جانے تو اس نے بیشک محمد ﷺ پر اتاری گئی چیز (یعنی قرآن) سے کفر کیا۔ اس روایت کو امام احمد نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ عراف کسے کہتے ہیں کاہن کی تعریف تو معلوم ہوگئی، اب یہ بھی جان لیجئے عراف کسے کہتے ہیں۔ عراف اس آدمی کو کہتے ہیں جو کسی عمل یا جادو و منتر کے ذریعے کسی چیز کی حقیقت بیان کرتا ہے، چوری کی چیزوں کا پتہ بتاتا ہے اور مکان کی کسی گم شدہ چیز کا حال بتاتا ہے ان کے پاس بھی جانے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ عمل رمل جس طرح جنات و شاطین کے ذریعے یا علم نجوم کے ذریعہ غیب کی باتوں کا پتہ لگانے کی کچھ لوگ کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح رمل کے ذریعے بھی کچھ لوگ غیب کی باتوں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ رمل اس علم کا نام ہے جس میں خطوط کھینچ کر اور ان کے ذریعے حساب لگا کر پوشیدہ باتوں کو جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حدیث کے الفاظ سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمل کے بارے میں ایک ایسا کلمہ بیان فرما دیا ہے جس سے کسی نہ کسی حد تک علم رمل کا جواز نکلتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ پہلے تو سمجھ لیجئے کہ وہ نبی جو علم رمل جانتے تھے اور خط کھینچتے تھے حضرت ادریس یا حضرت دانیال علیہما السلام تھے اس کے بعد حدیث کی طرف آئیے، رسول اللہ ﷺ کے ارشاد سے علم رمل کا جواز نہیں ہوتا کیونکہ بقول خطابی یہاں رسول اللہ ﷺ نے تعلیق بالمحال کی ہے یعنی رسول اللہ ﷺ نے فَمَن وَّافَقَ خُطُّہ ازراہ زجر فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دوسرے کا خط کھینچنا اس نبی ﷺ کے خط کھینچنے کے موافق نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ ان نبی کا معجزہ تھا اور معجزہ صرف نبی ﷺ کی ذات تک محدود رہتا ہے اور پھر یہ کہ اگر کوئی آدمی خط کھینچے اور کہے کہ یہ اس نبی کے خط کھینچنے اور کہے کہ یہ اس نبی کے خط کھینچنے کے موافق ہے تو یہ غلط ہوگا۔ اس لئے کہ خط کی موافقت صحیح طور پر تواتر یا نص سے ثابت ہوسکتی ہے جو رسول اللہ ﷺ سے منقول ہو۔ جب کہ رسول اللہ ﷺ سے یہ منقول نہیں۔ لہٰذا ارشاد نبوت سے حاصل یہ نکلا کہ جب کسی رمال (علم رمل جاننے والا) اور اس نبی کے خط میں موافقت نہیں ہوسکتی تو بھی عمل رمل کو اختیار کرنا بھی درست نہیں۔ اسی طرح کہ دو اور سلسلے ہیں ان کا مدار حساب پر ہے جنہیں اصطلاحی طور پر عمل تکسیر اور عمل تخریج سے موسوم کیا جاتا ہے ان کے بارے میں بھی محققین علماء اور مشائخ کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ اعمال بھی شرعًا جائز نہیں ہیں اور ان کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر مذکور ہوچکا ہے۔ آخر عبارت کا مطلب یہ ہے کہ لفظ کذا علامت صحت ہے یعنی اگر یہ ضرورت محسوس ہو کہ عبارت میں کسی ایسے لفظ پر کہ جس کے بارے میں عدم صحت کا گمان ہوگیا ہے کوئی ایسی علامت لگا دی جائے جس کے ذریعہ سے اس لفظ کا صحیح ہونا ثابت ہوجائے تو اس موقع پر اس لفظ پر کذا لکھ دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ لفظ اس طرح صحیح ہے، چونکہ اس حدیث کا لفظ لکنی اصول میں ہے، مگر مصابیح میں نہیں ہے، اس صورت میں یہ ممکن تھا کہ اس لفظ کے عدم صحت کا گمان ہوجاتا۔ اس لئے صاحب جامع الاصول نے اس لفظ پر کذا لکھ کر اس بات کی تصحیح کردی ہے کہ یہ لفظ اصول میں یوں ہی ہے اور یہ صحیح ہے۔

【244】

نماز میں سلام کا جواب دینا حرام ہے

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نماز میں ہوتے اور ہم آپ ﷺ کو سلام کرتے تو آپ ﷺ ہمارے سلام کا جواب دیتے تھے پھر کچھ دنوں کے بعد جب ہم نجاشی کے ہاں سے واپس آئے اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے (حسب معمول) ہم نے آپ ﷺ کو سلام کیا آپ ﷺ نے ہمارے سلام کا جواب نہیں دیا جب آپ ﷺ نماز پڑھ چکے تو) ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم آپ ﷺ کو نماز میں سلام کرتے تھے آپ ﷺ جواب دیتے تھے آج آپ ﷺ نے جواب کیوں نہیں دیا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نماز خود ایک بڑا شغل ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت ملک حبشہ کا بادشاہ ایک عیسائی تھا جس کا لقب نجاشی تھا چونکہ یہ ایک عالم تھا اس لئے جب توریت و انجیل کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کے نبی برحق ہونا معلوم ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لا کر اللہ کے اطاعت گزار بندوں میں شامل ہوگئے، جب ٩ ھ میں ان کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ﷺ کو بہت افسوس ہوا اور آپ ﷺ نے صحابہ کرام کے ہمراہ کھڑے ہو کر ان کے جنازے کی غائبانہ نماز پڑھی۔ چونکہ انہیں رسول اللہ ﷺ سے بہت زیادہ عقیدت تھی اس لئے جب مسلمان مکہ میں کفار کے ہاتھوں بڑی اذیت ناک تکالیف میں مبتلا ہوگئے اور ان کی جانوں کے لالے پڑگئے تو اکثر صحابہ رسول اللہ ﷺ کے ایماء پر ان کے ملک کو ہجرت کر گئے انہوں نے اپنے ملک میں صحابہ کی آمد کو اپنے لئے دین و دنیا کی بہت بڑی سعادت سمجھ کر صحابہ کی بہت زیادہ خدمت کی اور ان کے ساتھ بہت زیادہ حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے بعد میں جب صحابہ کو علم ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے جا چکے ہیں تو وہ بھی مدینہ چلے آئے۔ چنانچہ اسی وقت کا واقعہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) بیان فرما رہے ہیں کہ حبشہ سے واپس آنے والے قافلے میں میں بھی شریک تھا جب ہم لوگ مدینے پہنچ کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے ہم نے حسب معمول آپ ﷺ کو سلام کیا مگر آپ ﷺ نے ہمارے سلام کا جواب نہ دیا پھر نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ ﷺ نے ہمارے استفسار پر فرمایا کہ نماز خود ایک بہت بڑا شغل ہے یعنی نماز میں قرآن و تسبیحات اور دعا مناجات پڑھنے کا شغل ہی اتنی اہمیت و عظمت کا حامل ہے کہ ایسی صورت میں کسی دوسرے آدمی سے سلام و کلام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے یا یہ کہ نمازی کا فرض ہے کہ نماز میں پورے انہماک کے ساتھ مشغول رہے اور جو کچھ نماز میں پڑھے اس پر غور کرے اور نماز کے سوا کسی دوسری جانب خیال کو متوجہ نہ ہونے دے اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں کسی کے سلام کا جواب دینا یا کسی سے گفتگو کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ سر یا ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دینا مفسد نماز نہیں شرخ منیہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی نمازی کسی کے سلام کا جواب ہاتھ یا سر کے اشارے سے دے یا اسی طرح کوئی آدمی نمازی سے کسی چیز کو طلب کرے اور وہ سر یا ہاتھوں سے ہاں یا نہیں کا اشارہ کرے تو اس کی نماز فاسد تو نہیں البتہ مکروہ ہوجائے گی۔

【245】

نماز میں زمین کو برابر کرنے کا مسئلہ

اور حضرت معیقیب (رض) سرور کونین ﷺ سے اس آدمی کے بارے میں روایت کرتے ہیں جس نے اپنے بارے میں آپ ﷺ سے پوچھا تھا کہ (نماز میں) سجدے کی جگہ سے مٹی برابر کرتا ہوں اس کا کیا حکم ہے) تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم برابر کرنا ضروری ہی سمجھو تو صرف ایک مرتبہ ایسا کرلیا کرو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح شرح منیہ میں لکھا ہے کہ حالت نماز میں سجدے کی جگہ سے کنکر وغیرہ ہٹانا یا زمین برابر کرنا مکروہ ہے ہاں اگر صورت یہ ہو کہ سجدے کی جگہ سے کنکر ہٹائے بغیر نشیب و فراز کی وجہ سے زمین برابر کئے بغیر اس جگہ سجدہ کرنا ممکن نہ ہو تو وہاں سے کنکر ہٹا لیا جائے یا زمین برابر کرلی جائے مگر ایسا صرف ایک مرتبہ یا زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔

【246】

نماز میں خصر ممنوع ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے نماز میں خصر ( کوکھ پر ہاتھ رکھنے) سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس روایت میں لفظ خصر ہے بعض راویتوں میں نھی عن الاختصار اور ان یصلی مختصراً کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ خصر کی تعریف لغت میں خصر انسان کی کمر اور کوکھ کو کہتے ہیں، علماء کے ہاں خصر و اختصار کی تعریف کمر یا کوکھ پر ہاتھ رکھنا کی جاتی ہے حدیث کا حاصل یہ ہے کہ نماز میں کوئی آدمی اپنی کوکھ یعنی پہلو پر ہاتھ رکھ کر کھڑا نہ ہو۔ نماز میں خصر ممنوع کیوں ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنے سے منع کیوں فرمایا گیا ؟ جواب یہ ہے کہ اس کی مختلف وجوہ ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہونا سماجی حیثیت سے کوئی اچھی بات نہیں سمجھی جاتی جاننے والے جانتے ہیں کہ اکثر و بیشتر کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہونا یا چلنا دنیا کے ان بدنصیب لوگوں کا شیوہ ہے جنہیں دنیا و سماج کے ہر طبقے میں انتہائی ذلت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے یعنی ٹرنخے اور ہیجڑے اس کے علاوہ ایک دوسری حدیث میں صراحت کے ساتھ اس کی توجیہ یہ فرمائی گئی ہے کہ اختصار اہل نار کی حالت آرام کا ایک ذریعہ ہے جس کی تشریح یوں کی جاتی ہے کہ قیامت کے روز میدان حشر میں جب تمام لوگ حساب کتاب کے انتظار میں کھڑے ہوں گے تو اس وقت کثرت مشقت اور لعب کی وجہ سے وہ لوگ جن کے حصے میں دوزخ کی آگ ہوگی اپنی کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوں گے تاکہ اس طرح کچھ دیر کے لئے آرام مل جائے جیسا کہ عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی آدمی ایک طویل عرصہ تک کھڑا کھڑا تھک جاتا ہے تو ایک ٹانگ پر پورے بدن کا بوجھ ڈال کر اور کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوجاتا ہے یا یہ کہ اس حدیث میں اہل نار سے مراد یہودی ہیں کہ ان کی عادت اسی طرح کھڑے ہونے کی ہے۔ تیسری توجیہ ایک روایت کی روشنی میں یہ ہے کہ جس وقت شیطان مردود کو زمین پر اتارا گیا اور اسے ملعون قرار دیا گیا اس وقت وہ اپنی کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑا تھا۔ لہٰذا ان تمام توجیہات کے پیش نظر کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہونا چونکہ اہل نار اور شیطان ملعون کی صفت ہے اس لئے ان کی مشابہت سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ وہ نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے نہ ہوں نھی عن الخصر کا صحیح مطلب اور تشریح جو صحابہ اور علمائے سلف سے منقول ہیں مذکورہ بالا ہے لیکن بعض حضرات نے اس حدیث کی تشریح یہ بھی کی ہے کہ خصر (مخصرہ) کے معنی میں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں عصا پر ٹیک لگا کر کھڑا نہ ہونا چاہئے اس کے علاوہ دیگر تشریحات بھی کی گئی ہیں مگر جیسا کہ بتایا گیا ہے صحیح تشریح اور توضیح وہی ہے جو پہلے ذکر کی گئی۔ (اشعۃ اللمعات)

【247】

نماز میں ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے سرور کونین ﷺ سے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے بارے میں پوچھا کہ آیا یہ مفسد نماز ہے یا نہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اچک لینا ہے کہ شیطان بندے کی نماز میں سے اچک لیتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی نماز میں پوری توجہ اور پورے آداب کی ساتھ نہیں کھڑا رہتا بلکہ ادھر ادھر دیکھتا ہے تو شیطان مردود ایسے نمازی کی نماز کے کمال کو اچک لیتا ہے یعنی اس طرح نماز کا کمال باقی نہیں رہتا یہاں ادھر ادھر دیکھنے سے مراد یہ ہے کہ نماز میں کوئی آدمی گردن گھما کر ادھر ادھر اس طرح دیکھے کہ منہ قبلے کی طرف سے پھر جائے تو اس کا مسئلہ یہ ہے کہ ایسے آدمی کی نماز مکروہ ہوجاتی ہے۔ اور اگر کوئی آدمی نماز میں ادھر ادھر اس طرح دیکھے کہ منہ کے ساتھ ساتھ سینہ بھی قبلے کی طرف بالکل پھر جائے تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ کن انکھیوں سے ادھر ادھر دیکھنے سے نہ تو نماز فاسد ہوتی ہے اور نہ مکروہ ہوتی ہے البتہ یہ بھی خلاف اولیٰ ہے۔

【248】

نماز میں دعا کے وقت نگاہ آسمان کی طرف نہ اٹھانی چاہئے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا۔ لوگ نماز میں دعا کے وقت اپنی نگاہوں کو آسمان کی طرف اٹھانے سے باز رہیں ورنہ ان کی نگاہیں اچک لی جائیں گی۔ (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو متنبہ کرنے کے لئے ازراہ زجر یہ فرمایا ہے کہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ نماز میں دعا مانگنے کے وقت اپنی نگاہوں کو آسمان کی طرف نہ اٹھائیں ورنہ ان کی بینائی چھین لی جائے گی۔ اس سلسلے میں یہ مسئلہ ہے کہ یوں تو نماز میں مطلقاً اور خاص طور پر دعا کے وقت آسمان کی طرف نگاہ اٹھانی مکروہ ہے کیونکہ اس طرح اس بات کا وہم پیدا ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کے لئے آسمان میں مکان متعین ہے کہ وہ صرف آسمان ہی پر موجود ہے حالانکہ وہ مکانیت سے پاک ہے وہ ہر وقت ہر جگہ موجود ہے۔ نماز کے علاوہ دوسرے مواقع پر آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے کے بارے میں اختلاف ہے بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ بھی مکروہ ہے اور بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ جائز ہے مگر صحیح یہ ہے کہ نماز کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی دعا کے وقت نگاہ اوپر نہ اٹھانی چاہیے ایک روایت میں منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں اپنی نظر مبارک آسمان کی طرف اٹھاتے تھے مگر جب یہ آیت نازل ہوئی آیت (الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ ) 23 ۔ المومنون 2) تو رسول اللہ ﷺ اپنی نگاہ مبارک نیچے رکھنے لگے۔

【249】

رسول اللہ ﷺ کا اپنی نواسی کو نماز میں کندھے پر بٹھانا

اور حضرت ابوقتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ سرور کونین ﷺ (ایک روز) لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے (اور آپ ﷺ کی نواسی) امامہ بنت ابوالعاص آپ ﷺ کے مبارک کندھے پر بیٹھی تھیں جب آپ ﷺ رکوع کرتے امامہ کو (اشارے سے نیچے) بٹھا دیتے اور جب سجدے سے اٹھتے تو ان کو اپنے کندھے پر بٹھا لیتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح ابوالعاص سرکار دو عالم ﷺ کے داماد تھے جن کی شادی آپ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب سے (رض) ہوئی تھی انہیں کی بیٹی کا نام امامہ تھا۔ ایک اشکال اور اس کا جواب یہاں یہ ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ نماز میں رسول اللہ ﷺ کا امامہ کو اٹھانا اور نیچے بٹھانا اور پھر اٹھا کر کندھے پر رکھنا فعل کثیر ہوا اور اگر فعل کثیر نہ بھی ہو ( فعل کثیر وہ ہے جو بار بار کیا جائے اور خصوصاً دونوں ہاتھوں سے کیا جائے) ۔ تو قلیل فعل ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے اس لئے حالت نماز میں یہ فعل مکروہ ضرور تھا لہٰذا سمجھ میں نہیں آتا کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ایسا کیوں کیا ؟ خطابی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا امامہ کو اٹھانا اور بٹھانا قصدا نہ تھا چونکہ امامہ حضور اکرم ﷺ سے بہت زیادہ مانوس تھیں اور آپ ﷺ کے مبارک کندھے پر چڑھ کر بیٹھ جاتی تھیں اور پھر رکوع کے وقت کندھے سے گر پڑتی تھیں گویا اس طرح رسول اللہ ﷺ انہیں اتارتے تھے لہٰذا ان کو کندھے سے اتارنا یا کندھے پر بٹھانا رسول اللہ ﷺ کا فعل نہیں ہوا بلکہ اس فعل کی نسبت آپ ﷺ کی طرف مجازا کردی گئی اس توجیہ کے پیش نظر یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ فعل کثیر تھا کیونکہ فعل کثیر تو اس فعل کو کہتے ہیں جو پے در پے کیا جائے اور یہاں پے در پے نہیں پایا جاتا۔ ایک توجیہہ یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ عمل اس وقت کا ہے جب نماز میں فعل کثیر حرام نہیں ہوا تھا یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ صرف آنحضرت ﷺ کے ساتھ مخصوص تھا۔

【250】

نماز میں جمائی کے وقت منہ بند کرلینا چاہیے

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو نماز میں جمائی آئے تو اسے چاہئے کہ وہ حتی الامکان اسے روکے کیونکہ (جمائی کے وقت) شیطان (منہ میں) گھس جاتا ہے۔ (صحیح مسلم) اور بخاری کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ جب تم میں سے کسی کو نماز میں جمائی آئے تو حتی الامکان اسے روکنا چاہئے اور اور ہا نہ کہے (جیسا کہ جمائی کے وقت بےاختیار منہ سے یہ لفظ نکل جاتا ہے) اس لئے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے اور وہ اس سے ہنستا ہے۔ تشریح پیٹ بھر نے حو اس کی کدورت اور بدن کے ثقل کی وجہ سے جمائی آتی ہے اور یہ عبادت میں کسل و سستی کا باعث بنتی ہے اس لئے اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے کہ جمائی لیتے وقت شیطان منہ میں گھس جاتا ہے یعنی ایسی حالت میں اس کے لئے نمازی کو بہکانے اور عبادت سے روکنے کا موقعہ بہت اچھی طرح میسر آتا ہے اور اس کے ہنسنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ایسی حالت میں نمازی کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے کیونکہ اس سے عبادت میں کسل اور سستی پیدا ہوجاتی ہے۔ جو شیطان کا عین منشاء ہے۔ لہٰذا فرمایا گیا ہے کہ نماز میں جب کسی کو جمائی آئے تو اسے چاہیے کہ حتی الامکان جمائی کو روکے اور ایسی صورت میں منہ بند کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہونٹ بھینچ لئے جائیں اور نچلا ہونٹ دانتوں میں پکڑ لیا جائے یا جب جمائی آئے تو بائیں ہاتھ کی پشت منہ پر رکھ لی جائے۔ بعض فرماتے ہیں کہ جمائی روکنے کی سب سے بہتر ترکیب یہ ہے کہ جب جمائی آئے تو فورًا دل میں یہ خیال پیدا کرلینا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کو کبھی جمائی نہیں آئی۔ محض اس خیال میں جمائی رک جائے گی کہا جاتا ہے کہ یہ طریقہ مجرب ہے۔

【251】

رسول اللہ ﷺ کا جن کے ساتھ ایک واقعہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین ﷺ نے فرمایا آج رات جنوں میں سے ایک دیو ( یعنی ایک سرکش شیطان) چھوٹ کر میرے پاس آیا تاکہ میری نماز میں خلل ڈالے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اس پر حاوی کردیا چناچہ میں نے اسے پکڑ لیا اور چاہا کہ مسجد (نبوی) کے ستونوں میں سے کسی ستون سے اسے باندھ دوں تاکہ تم سب لوگ اسے دیکھ لو پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان (علیہ السلام) کی یہ دعا یاد آگئی آیت (رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْ بَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِيْ ) 38 ۔ ص 35) اے پروردگار مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما جو میرے بعد اور کسی کے لئے مناسب نہ ہو چناچہ میں نے اسے ذلیل بنا کر چھوڑ دیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دعا میں بادشاہت سے مراد جنات و شیاطین کو مسخر کرنا اور ان پر تصرف حاصل کرنا ہے چونکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا اپنے لئے کی تھی اور یہ مرتبہ صرف اپنے لئے ہی چاہا تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں چاہا کہ اس شیطان کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ کر ایسا طریقہ اختیار کریں کہ جس سے حضرت سلیمان کی اس خصوصیت پر کچھ اثر پڑے اور اپنے تصرف کا اظہار ہو ورنہ تو رسول اللہ ﷺ کو خود بھی یہ خصوصیت اور مرتبہ اور شیاطین و جنات پر تصرف کی قدرت حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے زیادہ حاصل تھی۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ شیطان کو چھونا نماز کو نہیں توڑتا۔

【252】

نماز میں کسی خاص موقعہ پر اشارہ کیا جا سکتا ہے

اور حضرت سہل بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جس آدمی کو نماز میں کوئی بات پیش آئے تو اسے چاہئے کہ وہ سبحان اللہ کہے اور دستک دینا یعنی تالی بجانا عورتوں کے لئے مخصوص ہے اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ فرمایا سبحان اللہ کہنا مردوں کے لئے مخصوص ہے اور تالی بجانا عورتوں کے لئے (مخصوص) ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ حالت نماز میں اگر کوئی خاص واقعہ پیش آجائے مثلاً کوئی آدمی گھر میں نماز پڑھ رہا ہے اور باہر دروازے پر اسے کسی نے آواز دی یا کسی نے گھر میں آنے کی اجازت طلب کی اور اسے معلوم نہیں کہ صاحب خانہ نماز پڑھ رہا ہے اور باہر دروازے پر اسے کسی نے آواز دی پھر یہ کہ گھر میں کوئی دوسرا آدمی ایسا موجود نہیں ہے جو باہر کی آواز کا جواب دے تو ایسی صورت میں مرد نمازی کو چاہئے کہ وہ بآواز بلند سبحان اللہ کہہ کر نماز میں مشغول ہونے کا اشارہ کر دے۔ اسی طرح اگر کوئی عورت نماز پڑھ رہی ہو تو مذکورہ بالا صورت میں اس کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ سبحان اللہ نہ کہے بلکہ تالی بجادے تاکہ باہر سے آواز دینے والا سمجھ لے کہ گھر میں صرف عورت موجود ہے اور وہ بھی نماز پڑھ رہی ہے۔ عورتوں کو سبحان اللہ کہنے سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ جس طرح وہ خود غیر مردوں کے سامنے نہیں آسکتی اسی طرح وہ اپنی آواز بھی غیر مرد کو نہیں سنا سکتی۔ اور ایسے موقعہ پر عورتوں کے لئے تالی بجانے کا بھی ایک طریقہ ہے وہ یہ کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر ماری جائے۔ ایک ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر نہ مارا جائے جیسا کہ گانے والیاں تالی بجاتی ہیں کیونکہ اس طرح تالی بجانے سے نماز فاسد ہوجائے گی۔

【253】

نماز میں سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے

حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ملک حبشہ سے واپسی سے قبل ہم سرور کونین ﷺ کو جب کہ آپ ﷺ نماز میں ہوتے تھے سلام کرتے تھے اور آپ ﷺ ہمارے سلام کا جواب دے دیا کرتے تھے پھر جب ہم ملک حبشہ سے واپس ہوئے تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت میں نے آپ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے پایا میں نے آپ ﷺ کو سلام کیا مگر آپ ﷺ نے جواب نہیں دیا جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے جس حکم کو چاہتا ہے ظاہر کرتا ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے اب یہ حکم ظاہر کیا ہے کہ نماز میں بات چیت نہ کیا کرو پھر آپ ﷺ نے میرے سلام کا جواب دیا اور اس کے بعد فرمایا نماز صرف قرآن پڑھنے اور اللہ کا ذکر کرنے کے لئے ہے لہٰذا جب تم نماز کی حالت میں ہو تو تمہارا بھی یہی حال ہونا چاہئے یعنی صرف قرآن پڑھو اور اللہ کا ذکر کرو۔ (ابوداؤد) تشریح ابن ملک (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد سلام کا جواب دینا مستحب ہے۔ اسی طرح اگر کوئی استنجاء کرتا ہوا ہو یا قرآن پڑھتا ہوا ہو اور کوئی دوسرا آدمی اسی حالت میں اسے سلام کرے تو اس کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ ان امور سے فراغت کے بعد سلام کا جواب دے۔

【254】

نماز میں اشارے سے سلام کا جواب دینے کا مسئلہ

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال (رض) سے پوچھا کہ جب سرور کونین ﷺ حالت نماز میں ہوتے تھے اور اس وقت کوئی آپ ﷺ کو سلام کرتا تھا تو آپ ﷺ سلام کا جواب کس طرح دیتے تھے ؟ حضرت بلال (رض) نے فرمایا آپ ﷺ اپنے ہاتھ سے اشارہ کردیا کرتے تھے۔ (جامع ترمذی) اور نسائی میں ایک روایت بجائے عبداللہ ابن عمر (رض) کے صہیب (رض) سے اچھی طرح منقول ہے (یعنی ترمذی کی روایت میں تو یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے حضرت بلال (رض) سے یہ سوال کیا اور نسائی کی روایت میں یہ ہے کہ حضرت صہیب (رض) نے حضرت بلال سے (رض) یہ سوال کیا تھا) ۔ تشریح رسول اللہ ﷺ اگر حالت نماز میں ہوتے اور اس وقت کوئی آپ ﷺ کو سلام کرتا تو آپ ﷺ اس کے سلام کا جواب اپنے ہاتھ کے اشارے سے دیا کرتے تھے اور اشارہ کرنے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ ہاتھ کا پنجہ کھول کر ہتھیلی کو زمین کی طرف لے جاتے تھے جیسا کہ ابوداؤد وغیرہ کی روایت میں اس کی صراحت بھی کی گئی ہے اور آپ ﷺ صرف انگلی سے اشارہ کرلینے پر اکتفا کرلیا کرتے تھے۔ نماز میں سلام کا جواب ہاتھ یا سر کے اشارے سے دینا مکروہ ہے فتاویٰ ظہیر میں مذکورہ ہے کہ اگر کوئی آدمی حالت نماز میں کسی کے سلام کے جواب میں ہاتھ یا سر کا اشارہ کرے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ خلاصہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی سر یا ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دے گا۔ تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ صحیح اور مفتی بہ قول جو شرح منیہ اور شامی وغیرہ میں مذکور ہے وہ یہ ہے کہ نمازی کو کسی کے سلام کا جواب ہاتھ یا سر کے اشارہ سے دینا مکروہ تنزیہی ہے لہٰذا اب اس حدیث کی توجیہ یہ کی جائے گی کہ رسول اللہ ﷺ حالت نماز میں سلام کا جواب ہاتھ کے اشارہ سے اس وقت دیا کرتے تھے جب نماز میں بات چیت ممنوع نہیں قرار دیا گیا تھا جب نماز میں کسی قسم کی کوئی بھی گفتگو ممنوع قرار دے دی گئی تو سلام کا جواب بھی زبان یا اشارہ سے دینا منسوخ ہوگیا کیونکہ اشارہ کرنا بھی ایک طرح کلام ہی کے معنی ہیں۔

【255】

نمازی چھینکنے کے بعد حمد بیان کرنا

اور حضرت رفاعہ ابن رافع (رض) فرماتے ہیں کہ ایک روز میں نے سرور کونین ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی نماز کے درمیان مجھے چھینک آگئی میں نے یہ کلمات حمد کہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ مُبَارَکًا عَلَیْہ کَمَا یُحِبُّ رَبَّنَا وَ یَرْضٰی تمام تعریف اللہ کے لئے ہے بہت زیادہ تعریف بہت پاکیزہ یعنی خالص بابرکت) اور برکت کی گئی جیسی (تعریف) کہ دوست رکھتا ہے ہمارا رب اور پسند کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھ چکے تو (ہماری طرف) متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ نماز میں باتیں کرنے والا کون ہے ؟ رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی کے خوف) سے کوئی نہیں بولا پھر آپ ﷺ نے دوسری مرتبہ یہی فرمایا جب بھی کوئی نہیں بولا جب تیسری مرتبہ آپ ﷺ نے یہی فرمایا تو رفاعہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں ہوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے (میں نے دیکھا ہے) کہ تیس سے زیادہ فرشتے ان کلمات کو لے جانے میں جلدی کر رہے تھے کہ ان میں سے کون پہلے اس کو لے جائے۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح ابن مالک (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز میں چھینکنے والے کے لئے حمد بیان کرنا جائز ہے لیکن اولیٰ یہ ہے کہ حمد دل میں کہے یا خلاف اولیٰ سے بچنے کی خاطر چھینک کے بعد سکوت اختیار کرے جیسا کہ شرح منیہ میں مذکور ہے۔

【256】

جمائی شیطانی اثر ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا نماز میں جمائی لینا شیطان (کے اثر) سے ہے لہٰذا جب تم میں سے کسی کو نماز میں جمائی آئے تو اسے حتی الامکان روکنا چاہئے۔ جامع ترمذی کی ایک دوسری روایت اور ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں (کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ نماز میں جسے جمائی آئے تو اسے اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لینا چاہئے۔ (جامع ترمذی ) تشریح پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ جمائی کا آنا شیطانی اثر کی وجہ سے ہے کیونکہ جمائی عبادت میں کسل و سستی اور نیند و غفلت کا باعث بنتی ہے اور شیطان ان چیزوں سے خوش ہوتا ہے اس لئے جمائی کو شیطان کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔

【257】

نماز کے راستے میں انگلیوں کے درمیان تشبیک نہ کرنے کا حکم

اور حضرت کعب ابن عجرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اچھی وضو کرے پھر نماز کا ارادہ کر کے مسجد کی طرف چلے (تو اسے چاہیے کہ راستے میں انگلیوں کے درمیان تشبیک نہ کرے کیونکہ وہ اس وقت سے گویا نماز میں ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی، ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی) تشریح حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی وضو کرے تو اسے چاہئے کہ وہ وضو کی تمام شرائط و آداب کو ملحوظ رکھے اور حضور قلب کے ساتھ وضو کرے تاکہ وضو پورے کمال اور حسن کے ساتھ ادا ہو۔ چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ جس قدر توجہ اور حضور قلب وضو میں حاصل ہوگا اسی قدر نماز میں خشوع و خضوع اور توجہ پیدا ہوگی۔ تشبیک کیا ہے ؟ حدیث کے دوسرے جزو کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی وضو کے بعد نماز کے ارادے سے مسجد کی طرف چلے تو راستے میں انگلیوں کے درمیان تشبیک نہ کرے یعنی ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر کھیلتا ہوا نہ چلے کیونکہ جب وہ نماز کی نیت سے گھر سے نکلا ہے تو گویا وہ نماز ہی میں ہے اور خشوع و خضوع کے منافی ہونے کی وجہ سے تشبیک چونکہ نماز میں ممنوع ہے اس لئے نماز کے راستے میں بھی یہ ممنوع ہے اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ جو چیز نماز میں ممنوع ہے وہ نماز کے لئے مسجد آتے ہوئے راستے میں بھی ممنوع ہوگی۔ اس حدیث سے اس بات پر تنبیہ مقصود ہے کہ بندے کو چاہئے کہ وہ نماز کے راستے میں حضور اور خشوع و ادب اور وقار کے ساتھ چلے محمد بن اسماعیل بخاری (رح) نے اپنی کتاب صحیح البخاری میں ایک باب مسجد میں تشبیک کے موضوع پر قائم کیا ہے جس کے تحت انہوں نے دو حدیثیں نقل کی ہیں دونوں حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مسجد میں انگلیوں کے درمیان تشبیک جائز ہے لہٰذا علماء کرام نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے ثابت شدہ ممانعت کا تعلق اس صورت میں ہے کہ جب کوئی آدمی انگلیوں کے درمیان تشبیک محض کھیل اور تفریح طبع کی خاطر کرے اور کوئی آدمی بطریق تمثیل کرے تو جائز ہے یا پھر صحیح البخاری کی روایت کردہ احادیث کی یہ توجیہ بھی کی جاسکتی ہے کہ ان احادیث کا تعلق اس وقت سے ہے جب کہ انگلیوں کے درمیان تشبیک کی ممانعت کا حکم نہیں ہوا تھا۔ وا اللہ اعلم۔

【258】

نماز میں ادھر ادھر دیکھنے سے ثواب میں کمی ہوجاتی ہے

اور حضرت ابوذر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا جب کوئی بندہ نماز میں ہوتا ہے تو اللہ عز وجل اس بندے کی طرف اس وقت تک متوجہ رہتا ہے جب تک وہ ادھر ادھر (گردن پھیر کر نہیں دیکھتا چناچہ جب بندہ ادھر ادھر دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے منہ پھیر لیتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی) تشریح ابن ملک (رح) نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منہ پھیرنے سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی نمازی حالت نماز میں گردن پھیر کر ادھر ادھر دیکھتا ہے تو اس کے ثواب میں کمی ہوجاتی ہے۔ امام ترمذی (رح) نے حضرت انس (رض) سے ایک صحیح روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ جب بندہ نماز میں کھڑا ہوتا ہے۔ تو پروردگار اپنی بزرگ و برتر ذات کے ساتھ اس طرف متوجہ ہوتا ہے (مگر) جب وہ بندہ (نماز میں) ادھر ادھر دیکھتا ہے اور اپنی نظر کو غیر کی طرف متوجہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم تو کس کی طرف دیکھ رہا ہے کیا تیرے لئے مجھ سے بھی کوئی بہتر ہے کہ جس کی طرف تیری نظر متوجہ ہو رہی ہے ؟ میری طرف اپنا منہ پھیر جب بندہ دوبارہ ادھر ادھر دیکھتا ہے تو پروردگار پھر یہی فرماتا ہے اور جب تیسری مرتبہ ادھر ادھر دیکھتا ہے تو اللہ جل شانہ اپنے روئے مبارک جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے اس بندے کی طرف سے پھیر لیتا ہے۔

【259】

نماز میں نظر سجدے کی جگہ پر رکھنی چاہیے

اور حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ انس نماز میں تم اپنی نگاہ وہاں رکھو جہاں سجدہ کرتے ہو اس روایت کو بیہقی نے سنن کبیر میں حضرت انس (رض) سے بطریق حسن نقل کیا ہے جس کو جزری نے مرفوع کیا ہے۔ تشریح اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پوری نماز میں نظر سجدے کی جگہ رکھنی چاہئے چناچہ شوافع کا عمل اسی پر ہے مگر علامہ طیبی (رح) نے فرمایا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ حالت قیام میں نظر سجدے کی جگہ، رکوع میں پشت قدم پر، سجدے میں ناک کی طرف اور بیٹھنے کی حالت میں زانو پر رکھنی چاہئے یہی مسلک حنفیہ کا بھی اتنے اضافے کے ساتھ ہے کہ سلام کے وقت نظر کندھوں پر رکھنی چاہئے بعض علماء کا یہ بھی قول ہے کہ حرم شریف میں نماز پڑھتے ہوئے نظر کعبہ پر رکھنی چاہئے۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ نماز میں آنکھیں بند کرنا مکروہ ہے اصل مشکوٰۃ میں روایت کے بعد جگہ خالی ہے بعد میں کسی شارح نے البیہقی سے آخر تک کی عبادت کا اضافہ کیا ہے۔

【260】

نماز میں ادھر ادھر دیکھنے پر وعید

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اے میرے بیٹے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے سے بچو کیونکہ نماز میں (گردن پھیر کر) ادھر ادھر دیکھنا (آخرت میں) ہلاکت کا سبب ہے اور اگر دیکھنا ضروری ہو تو نفلوں میں (تو خیر مضائقہ نہیں) مگر فرضوں میں (ہرگز درست) نہیں۔ (جامع ترمذی) تشریح نماز میں گردن ادھر ادھر پھیر کر دیکھنا آخرت میں ہلاکت کا سبب اس لئے ہے کہ ایسا کرنے والا دراصل شیطان کی اطاعت کرنا ہے کیونکہ شیطان کا بھی یہی مقصد ہوتا ہے کہ بندہ نماز میں پوری توجہ اور لگن کے ساتھ نہ رہے بلکہ ان کی نظر اور اس کا خیال ادھر ادھر بھٹکتا رہے۔ حدیث کے الفاظ فان کان لا بد کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارا احساس و شعور اور تمہاری سعادت اس بات سے متاثر نہیں ہوتی کہ تمہاری نماز میں نقصان ہوجائے یا نماز کا کمال ختم ہوجائے تو کم از کم فرض نماز میں تو ایسا نہ کرو کہ ادھر ادھر دیکھ کر اس نماز کے کمال کو ختم کرو ہاں نفل نماز میں تو کسی نہ کسی حد تک انگیز بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ نفل نماز فرض نماز کے مقابلے میں کچھ سہل ہے کہ فرض نماز کے لئے بہت زیادہ اور کامل اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں ذرا سا بھی نقصان اخروی حیثیت سے تباہی و ہلاکت کا باعث بن سکتا ہے اور عقلمندی اور سعادت کا تقاضا تو یہ ہونا چاہئے کہ ادھر ادھر دیکھ کر نفل نماز میں کوئی نقصان نہ پیدا کرنا چاہیے حقیقت میں نفل نماز کا نقصان فرض نماز کے نقصان کا باعث ہے اس لئے کہ نوافل در حقیق فرائض کی تکمیل کرنے والے ہیں لہٰذا حدیث کے اس جملے سے یہ مطلب اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ نفل نماز میں ادھر ادھر دیکھنا مکروہ نہیں بلکہ اس کا مقصد اس بات کی طرف رغبت دلاتا ہے کہ فرض نماز اپنی عظمت و اہمیت کے اعتبار سے اس بات کو برداشت نہیں کرسکتی کہ اس قسم کے افعال کا ارتکاب کر کے نماز میں نقصان پیدا کیا جائے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث اس بات کو واضح کر رہی ہے کہ نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کی کراہت فرض نماز کی بہ نسبت نفل نماز میں کم ہے۔

【261】

نماز میں کن آنکھیوں سے ادھر ادھر دیکھنا مکروہ نہیں ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نماز میں کن انکھیوں سے دائیں بائیں دیکھتے تھے مگر پیچھے پیٹھ کی طرف اپنی گردن کبھی نہیں موڑ تے تھے۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی ) تشریح رسول اللہ ﷺ نماز میں دائیں بائیں کن انکھیوں سے یا تو اس لئے دیکھتے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ نماز میں اس طرح دیکھنا نماز کو باطل نہیں کرتا یا پھر اپنے پیچھے کھڑے ہوئے مقتدیوں کے احوال دیکھنے کے لئے آپ ﷺ اس طرح دیکھا کرتے تھے۔ بہر حال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھنا تو مکروہ ہے مگر کن اکھیوں سے اس طرح دیکھنا کہ گردن کا رخ تبدیل نہ ہو مکروہ نہیں ہے اگرچہ اس طرح نہ دیکھنا بھی اولیٰ ہے۔

【262】

نماز میں شیطانی اثرات

اور حضرت عدی ابن ثابت اپنے والد مکرم سے اور وہ اپنے والد یعنی عدی کے دادا سے جنہوں نے اس حدیث کو رسول اللہ ﷺ تک پہنچایا ہے نقل کرتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا نماز میں چھینکنا، اونگھنا، جمائی کا آنا اور حیض کا آنا اور قے کا ہونا اور نکسیر کا پھوٹنا شیطان کے (اثر) سے ہے۔ (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں جب نماز میں پیدا ہوتی ہیں تو شیطان بہت زیادہ خوش ہوتا ہے کیونکہ ان چیزوں سے نماز پر اثر پڑتا ہے۔ یہاں چھینک سے مراد بکثرت چھینکنا ہے لہٰذا یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ چھینکنے کو پسند کرتا ہے کیونکہ اس چھینکنے سے مراد معتدل طریقے پر چھینکنا ہے اور معتدل کا اطلاق تین سے کم پر ہوتا ہے۔ ان دونوں احادیث کے درمیان ظاہری وجہ تطبیق یہ ہوسکتی ہے کہ نماز کے علاوہ دوسرے اوقعات میں چھینکنے کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور مکروہ چھینک وہ ہے جو نماز میں آئے۔ ان چیزوں سے شیطان اس لئے خوش ہوتا ہے کہ چھینکنا قرأت و حضور کے لئے مانع ہے اور اونگھ اور جمائی عبادت میں کسل و سستی کا باعث ہیں اور حیض و نکسیر و قے مفسد صلوٰۃ ہیں۔ حدیث میں پہلی تین چیزوں (چھینک، اونگھ، جمائی کے) ذکر کے بعد فی الصلوٰۃ ذکر کے آخر کی تین چیزیں (یعنی حیض، قے، نکسیر) کو جدا کردیا گیا ہے اس سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ پہلی تین چیزیں مفسد صلوٰۃ نہیں ہیں بلکہ مکروہ ہیں جب کہ آخری تینوں چیزیں مفسد صلوٰۃ ہیں یعنی ان سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

【263】

رونے سے نماز باطل نہیں ہوتی

اور حضرت مطرف ابن عبداللہ بن شخیر اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں ایک روز سرور کونین ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور آپ ﷺ کے اندر سے دیگ کے جوش جیسی آواز آرہی تھی یعنی رسول اللہ ﷺ رو رہے تھے اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اس وقت آپ ﷺ کے سینہ سے چکی کی سی رونے کی آواز آرہی تھی۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رونے سے نماز باطل نہیں ہوتی ہدایہ میں اس مسئلے کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ اگر کوئی آدمی نماز میں بہت روئے اور دوزخ یا عذاب وغیرہ کے ذکر اور یاد سے متاثر ہو کر آہ کرے یا بآواز روئے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوگی اور اگر کوئی آدمی کسی جسمانی درد اور تکلیف کی شدت کی وجہ سے آہ کرے یا بآواز بلند روئے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔

【264】

نماز میں کنکریاں نہ ہٹانے کا حکم

اور حضرت ابوذر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی نماز کے لئے کھڑا ہوجائے تو اسے ہاتھ سے کنکری نہیں ہٹانی چاہیے کیونکہ رحمت اس کے سامنے ہوتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ِ سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح رحمت سامنے ہوتی ہے کہ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی دنیا سے منہ موڑ کر نماز کی حالت میں اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے سامنے رحمت الہٰی کا نزول ہوتا ہے اس لئے ایسے مقدس و باعظمت موقع پر نمازی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کنکریوں سے کھیل کرے یا اس قسم کا کوئی دوسرا فعل کر کے بےادبی کا معاملہ کرے کہ جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے انوار فضل و رحمت سے محروم ہوجائے۔

【265】

سجدے کی جگہ کو صاف کرنے کے لئے پھونک نہ ماری جائے

اور ام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے ہمارے ایک غلام جس کا نام افلح تھا دیکھا کہ وہ جب سجدہ کرتا ہے تو سجدے کی جگہ کو صاف کرنے کے لئے پھونک مارتا ہے تاکہ منہ خاک آلود نہ ہوجائے رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ افلح اپنے منہ پر مٹی لگنے دو ۔ (جامع ترمذی ) تشریح رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ سجدے کی جگہ کو پھونک مار کر صاف نہ کرو بلکہ اپنے منہ کو خاک آلود ہوجانے دو کیونکہ بار گاہ الٰہی میں حاضری کے وقت اظہار عجز و بےکسی کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔ اس سے بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے۔

【266】

کوکھ پر ہاتھ رکھنا دوذخیوں کے آرام لینے کی صورت ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا نماز میں اختصار (یعنی کوکھ پر ہاتھ رکھنا) دوزخیوں کے آرام لینے کی صورت ہے۔ (ابوداؤد) تشریح اس باب کی حدیث نمبر ٤ کے فائدے کے ضمن میں خصر و اختصار کی وضاحت کی جا چکی ہے وہاں یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ میدان حشر میں جب دوزخی کھڑے کھڑے بہت زیادہ تکلیف محسوس کریں گے تو وہ اپنے کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوجائیں گے اور اس طرح وہ کچھ دیر کے لئے آرام اور سکون کی خواہش کریں گے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہونے کو منع فرمایا ہے کہ دوزخیوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔

【267】

نماز میں سانپ و بچھو مارنے کا مسئلہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ نماز میں دو کالوں یعنی سانپ اور بچھو کو مار ڈالو۔ احمد، ترمذی اور نسائی بالمعنیٰ ) تشریح ابن ملک (رح) فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں نماز پڑھتے ہوئے سانپ یا بچھو سامنے آجائے تو ان کو ایک چوٹ یا دو چوٹ کے ساتھ مارنا چاہیے اس سے زیادہ چوٹ نہ مارنی چاہیے کیونکہ یہ عمل کثیر ہوجائے گا جس سے نماز فاسد ہوجائے گی۔ شرح منیہ میں بعض مشائخ کا قول مذکور ہے کہ یہ (یعنی نماز میں سانپ بچھو مارنے کا حکم) اس صورت میں ہے جب کہ نمازی کو بہت زیادہ یعنی تین قدم پے در پے چلنا نہ پڑے اور نہ زیادہ مشغولیت ہو یعنی تین چوٹ پے در پے مارنے کی ضرورت پیش نہ آئے اور اگر کوئی نمازی سانپ یا بچھو مارنے کی غرض سے پے در پے تین قدم چلے گا یا پے در پے چوٹیں مارے گا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ کیونکہ اتنا زیادہ چلنا یا اتنی مقدار مشغولیت اختیار کرنا عمل کثیر ہے۔ سرخسی نے اسے مبسوط میں ذکر کیا ہے اور پھر کہا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ اس سلسلے میں یہ فرق نہ کیا جائے کہ تین قدم چلنے سے یا تین چوٹیں مارنے سے نماز فاسد ہوجائے گی کیونکہ جس طرح حدیث پیش آجانے (یعنی وضو ٹوٹ جانے کی شکل میں زیادہ چلنے کی سہولت دی گئی ہے اسی طرح اس مسئلے میں بھی سہولت دی گئی ہے۔ لیکن تحقیقی طور پر صحیح بات یہی ہے کہ تین قدم چلنے یا تین چوٹ مارنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ البتہ اتنی سہولت ہے کہ ایسے موقع پر جب کہ سانپ یا بچھو نماز میں سامنے آجائے اور اس کا مارنا ضروری ہو تو ایسی صورت میں ان کو مارنے کے لئے نماز توڑ دینا مباح ہے جیسا کہ کسی مظلوم کی فریاد رسی یا کسی کو ڈوبنے اور ہلاکت سے بچانے کی خاطر نماز توڑ دینا مباح ہے یعنی اگر کسی کے چھت سے گر جانے یا آگ میں جل جانے یا کنویں وغیرہ میں ڈوب جانے کا قوی خطرہ ہو اور قریب ہی ایک آدمی نماز میں ہو تو اس نمازی کو چاہئے کہ نماز کو توڑ دے اور انہیں بچانے کی کوشش کرے یا اسی طرح کسی نمازی کو حالت نماز میں اپنی یا غیر کی کسی چیز کے ضائع ہوجانے کا خوف ہو اور اس کی قیمت ایک درہم تک ہو تو اسے اس چیز کو بچانے کے لئے نماز توڑ دینا جائز ہے۔ اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف کالے سانپ ہی کو مارا جاسکتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ حدیث میں کالے سانپ کی تخصیص محض تغلیبا کی گئی ہے چناچہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ ہر قسم کے سانپوں کو مارنا جائز ہے کالے سانپوں ہی کی تخصیص نہیں ہے۔

【268】

رسول اللہ ﷺ نماز کے حالت میں دروازہ کھولتے تھے

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کونین ﷺ گھر میں نفل نماز میں مشغول ہوتے اور دروازہ بند رہا کرتا تھا میں ( گھر میں آتی تو دروازہ کھلواتی اور آپ ﷺ چل کر میرے لئے دروازہ کھول دیا کرتے تھے پھر مصلے پر واپس آجاتے ( اور اپنی نماز میں مشغول ہوجاتے) اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ دروازہ قبلے کی جانب تھا۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی) تشریح مطلب یہ ہے کہ دروازہ چونکہ قبلے کی طرف تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ دروازہ کھولنے کے لئے تشریف لاتے تھے تو آپ ﷺ کا چہرہ مبارک قبلے کی طرف سے پھرتا نہیں تھا کیونکہ قبلہ سامنے ہی ہوتا تھا پھر جب مصلے پر واپس تشریف لاتے تو پچھلے پاؤں ہٹ کر آتے تھے تاکہ پشت قبلے کی طرف نہ ہو۔ علماء لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا حجرہ مبارک زیادہ وسیع و عریض نہیں بلکہ بہت تنگ تھا اس لئے ایک دو قدم سے زیادہ چلنا نہیں پڑھتا تھا کہ یہ عمل کثیر ہوتا لیکن اس کے باوجود ایک اشکال پھر بھی واقع ہوتا ہے کہ دو قدم چلنا دروازہ کھولنا پھر مصلے پر واپس آنا یہ سب مل کر تو عمل کثیر ہوجاتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ افعال پے در پے نہیں ہوتے تھے کہ عمل کثیر ہو سکیں۔

【269】

نماز میں وضو ٹوٹ جانے کا مسئلہ

اور حضرت طلق ابن علی (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا نماز کی حالت میں جب تم میں سے کسی کی بغیر آواز کے ریح خارج ہو تو اسے چاہیے کہ جا کر وضو کرے اور نماز کو دوبارہ پڑھے۔ اس روایت کو ترمذی نے بھی کچھ کمی زیادتی کے ساتھ نقل کیا ہے۔ (ابوداؤد) تشریح جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر نماز کی حالت میں کسی کی ریح خود بخود خارج ہوجائے تو اسے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھنا افصل ہے لیکن فقہی شرائط کے مطابق اگر کوئی آدمی وضو کر کے نماز از سر نو شروع نہ کرے بلکہ جہاں سے نماز چھوڑی تھی اسی پر بقیہ نماز کی بناء کرے تو جائز ہے چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا یہی مسلک ہے اور انہوں نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے لیکن حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمم اللہ تعالیٰ علیہم کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے۔ یہ مسئلہ تو خود بخود ریح خارج ہونے کا ہے، اگر کوئی آدمی حالت نماز میں قصدا ریح خارج کرے تو اس کے لئے دوبارہ وضو کر کے از سر نو نماز پڑھنا واجب ہے۔

【270】

نماز میں وضو ٹوٹ جانے کا مسئلہ

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کا وضو حالت نماز میں ٹوٹ جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی ناک پکڑ کر نماز سے نکل آئے۔ (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر حالت نماز میں کسی آدمی کی ریح خارج ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وہ ناک پکڑ کر وضو کے لئے چلا جائے تاکہ لوگ یہ گمان کریں کہ نکسیر پھوٹی ہے۔ ناک پکڑ کر نماز سے نکلنے کا حکم اس لئے فرمایا گیا تاکہ ایسا آدمی ایسے موقعہ پر شرمندگی و ندامت سے بچ جائے۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ جس آدمی کی ریح خارج ہوئی ہے عام طور پر شرمندگی و ندامت کا باعث بنتا ہے پھر یہ کہ لوگ اس کے بارے میں کوئی چہ میگوئی نہ کریں گے بلکہ یہ جانیں گے کہ اس کی نکسیر پھوٹ گئی ہے جس کی وجہ سے نماز سے نکل گیا ہے۔ اس لئے علماء نے لکھا ہے کہ اگر کسی آدمی سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوجائے جو لوگوں کی نظروں میں معیوب اور محل اعتراض بنتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اس فعل کو پوشیدہ رکھے اور لوگوں پر ظاہر نہ کرے تاکہ لوگ نہ اس کے بےآبروئی کے درپے ہوں اور نہ کھلم کھلا اس کی طرف وہ عیب منسوب کیا جائے جسے وہ چھپائے رکھنا چاہتا ہے اور اس کا یہ فعل چھپانا جھوٹ میں شمار نہیں ہوگا بلکہ معاریض ( کسی واقعہ کو اس طرح بیان کرنا کہ واقعہ کی پوری صراحت نہ ہو ایسے انداز کو تعریض فرماتے ہیں۔ ١٢) ۔ کی قسم سے ہوگا۔

【271】

نماز میں وضو ٹوٹ جانے کا مسئلہ

اور حضرت عبدا اللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کا وضو اس وقت ٹوٹے جب کہ وہ اپنی نماز کے آخری قعدے میں (بمقدار تشہد بیٹھ چکا) ہو اور سلام نہ پھیرا ہو تو اس کی نماز پوری ہوگئی۔ ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک ایسی حدیث ہے جس کی اسناد مضبوط نہیں ہے اور انہوں نے اس کی اسناد میں اضطراب ہونا بیان کیا ہے۔ تشریح حدیث کی مذکورہ صورت میں امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی قصدًا وضو توڑے گا تو اس کی نماز پوری ہوجائے گی کیونکہ اس کے نزدیک نمازی کا اپنے کسی بھی فعل کے ذریعے نماز سے نکلنا فرض ہے یعنی اگر کوئی آدمی نماز کے پورے ارکان ادا کرنے کے بعد نماز کو مکمل طور ختم کرنا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا فعل اختیار کرے جو نماز کے خاتمے کا ذریعہ بن جائے جیسا کہ سلام پھیرنا۔ چنانچہ اتنی بات سمجھ لیجئے کہ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک نماز کو محض سلام کے ذریعے ہی ختم کرنا فرض نہیں ہے بلکہ اگر کوئی آدمی نماز کے ارکان کے بعد بجائے سلام پھیرنے کے کوئی ایسا دوسرا فعل اختیار کرے جو نماز کے منافی ہو تو اس کی نماز پوری ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ امام اعظم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی آخری قعدے میں تشہد وغیرہ پڑھنے کے بعد قصدا اپنا وضو توڑ ڈالے تو اس کی نماز پوری ہوجائے گی کیونکہ اس نے نماز کے ارکان پورے کرنے کے بعد ایسا طریقہ اختیار کیا ہے جو نماز کے خاتمہ کا ذریعہ بن گیا ہے اگرچہ وہ ترک واجب کا گنہ گاہ ہوگا مگر فرض ادا ہوجائے گا کیونکہ امام اعظم کے نزدیک سلام کے ذریعہ نماز کو پورا کرنا واجب ہے۔ صاحبین یعنی امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک قصدا وضو توڑنے کی شرط نہیں ہے بلکہ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ مذکورہ بالا صورت میں کسی کا وضو خود بخود ٹوٹ جائے تو اس کی نماز تمام ہوجائے گی یعنی فرض پورا ہوجائے گا۔ لہٰذا امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک یہ حدیث قصدا وضو توڑنے پر محمول ہے اور صاحبین کے نزدیک مطلق ہے خواہ کوئی قصدا وضو توڑ دے یا اس کا وضو خود بخود ٹوٹ جائے۔ چناچہ یہ حدیث حنفیہ خصوصا صاحبین کے مسلک کی موید ہے بخلاف حضرات امام شافعی (رح) کے کہ ان کے نزدیک نماز کو صرف سلام کے ذریعے پورا کرنا فرض ہے۔ حدیث مضطرب وہ حدیث کہلاتی ہے جو مختلف الفاظ اور مختلف وجوہ سے نقل کی گئی ہو اور یہ چیز حدیث کے ضعف کی علامت ہوتی ہے کیونکہ حدیث کا اس طرح مروی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ راویان حدیث کو حدیث پوری طرح یاد نہیں رہی۔ ملا علی قاری (رح) نے اس حدیث کو مضطرب و ضعیف تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے جن کو امام طحاوی (رح) نے نقل کیا ہے اور اصول حدیث میں یہ بات مسلم ہے کہ کسی حدیث ضعیف کا متعدد طرق سے مروی ہونا اسے حسن کے قریب کردیتا ہے۔

【272】

رسول اللہ ﷺ کا ایک واقعہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرور کونین ﷺ نماز کے لئے (مسجد میں) تشریف لائے۔ جب تکبیر کہنے کا ارادہ کیا گیا تو آپ ﷺ پیچھے مڑے اور صحابہ کرام کو یہ اشارہ کر کے کہ تم اپنی اپنی جگہ کھڑے رہو، مسجد سے باہر نکلے، چناچہ آپ ﷺ نے غسل کیا اور اس حال میں واپس تشریف لائے کہ آپ ﷺ کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے، پھر آپ ﷺ نے صحابہ کو نماز پڑھائی۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا کہ مجھے غسل کی حاجت تھی مگر میں غسل کرنا بھول گیا تھا۔ (مسند احمد بن حنبل) امام مالک نے بھی اس حدیث کو عطاء ابن یسار سے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

【273】

سجدے کی جگہ کو گرمی سے بچانے کے لئے حضرت جابر کا طریقہ

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں ظہر کی نماز سرور کونین ﷺ کے ہمراہ پڑھا کرتا تھا اور ایک مٹھی میں کنکریاں لے لیتا تھا کہ وہ میرے ہاتھ میں ٹھنڈی ہوجائیں۔ چناچہ (سجدے کی جگہ کی) شدت گرمی سے بچنے کی خاطر میں ان کنکریوں کو سجدے کے وقت اپنی پیشانی کے نیچے رکھ لیتا تھا۔ (ابوداؤد، سنن نسائی ) تشریح اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نماز میں اس قدر فعل اختیار کرنا معاف ہے اور اتنا فعل کثیر بھی نہیں ہے۔

【274】

نماز میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شیطان کا ایک عجیب معاملہ

اور حضرت ابودرداء (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین ﷺ کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے (نماز کے درمیان) میں نے سنا کہ آپ ﷺ فرما رہے ہیں میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں پھر آپ ﷺ نے تین مرتبہ یہ فرمایا کہ میں تجھ پر لعنت کرتا ہوں، اللہ کی لعنت اور (یہ فرماتے ہوئے) آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک اس طرح پھیلائے گویا آپ ﷺ کسی چیز کو پکڑ رہے ہوں، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوگئے تو ہم نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ! ہم نے آج آپ ﷺ کو نماز میں ایسی بات کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی آپ ﷺ کو یہ کہتے نہیں سنا اور آج ہم نے آپ ﷺ کو ہاتھ پھیلاتے ہوئے بھی دیکھا ہے ؟ آپ ﷺ نے یہ فرمایا اللہ کا دشمن ابلیس ملعون آگ کا شعلہ لے کر آیا تھا تاکہ اسے میرے منہ میں ڈالے چناچہ میں تین مرتبہ یہ کہا کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں پھر میں نے کہا کہ میں تجھ پر لعنت کرتا ہوں اللہ کی پوری لعنت، وہ نہیں ہٹا تو میں نے (یہ الفاظ) تین مرتبہ کہے، جب وہ پھر بھی نہ ہٹا تو میں نے (اپنے ہاتھ پھیلا کر) اسے پکڑانا چاہا لیکن اللہ کی قسم ! اگر ہمارے بھائی سلیمان کی دعا نہ ہوتی تو وہ (مسجد کے ستون) سے صبح تک بندھا رہتا اور مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے۔ (صحیح مسلم) تشریح اسی باب کی حدیث نمبر ٩ کے ضمن میں اس کی وضاحت کی جا چکی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جنات کے تابع ہونے اور ان پر تصرف کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تھی جو قبول ہوئی اور جنات ان کے فرمانبردار ہوئے چناچہ یہ سوچ کر کہ اس معاملے میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی امتیازی حیثیت پر اثر پڑے گا رسول اللہ ﷺ نے اس کو اپنا تابع کرنا نہیں چاہا اس حدیث سے یہ بات پوری قوت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ ابلیس یقینا جنات کی قوم سے ہے۔

【275】

نماز میں اشارے سے سلام کا جواب دینے کا مسئلہ

اور حضرت نافع فرماتے ہیں کہ (ایک روز) حضرت عبدا اللہ بن عمر (رض) کا گذر ایک آدمی پر ایسی حالت میں ہوا کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے اس آدمی کو سلام کیا اور اس نے حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے سلام کا جواب زبان سے دیا، حضرت عبداللہ ابن (رض) اس کی طرف لوٹے اور فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو نماز پڑھنے کی حالت میں سلام کیا جائے تو اس کو بولنا نہیں چاہئے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ سلام کا جواب دینے کے لئے) اپنے ہاتھ سے اشارہ کر دے۔ (مالک) تشریح اسی باب میں حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کی ایک روایت (نمبر ١٢) گذر چکی ہے۔ اس کے فائدہ کے ضمن میں نماز کی حالت میں ہاتھ یا سر کے اشارے سے سلام کا جواب دینے کا مسئلہ بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ حکم پہلے تھا پھر بعد میں اشارے سے بھی سلام کا جواب دینا منسوخ ہوگیا۔

【276】

سجدہ سہو کا بیان

نماز کے سنن و مستحبات اگر ترک ہوجائیں تو اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی یعنی نماز صحیح ہوجاتی ہے اور نماز کے فرائض میں سے کوئی چیز اگر سہواً یا عمداً چھوٹ جائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے جس کا کوئی تدارک نہیں جس کی وجہ سے نماز کا اعادہ ضروری ہوتا ہے۔ نماز کے واجبات میں سے اگر کوئی چیز عمداً چھوڑی جائے تو اس کا بھی تدراک نہیں ہوسکتا اور نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اگر نماز کے واجبات میں سے کوئی چیز عمداً نہیں بلکہ سہوا چھوڑ دی جائے تو اس کا تدارک ہوسکتا ہے اور وہ تدارک یہ ہے کہ قعدہ اخیر میں التحیات دورد شریف اور دعا حسب معمول پڑھ کر سلام پھیرا جائے انہیں سجدوں کو سجدہ سہو کیا جاتا ہے۔ اتنی بات سمجھ لیجئے کہ سرکار دو عالم ﷺ کے ان اقوال میں جو شرعی چیزوں کی خبر دینے اور دینی احکام کے بیان سے متعلق ہیں نہ تو کبھی سہو ہوا ہے اور نہ یہ ممکن ہے ہاں آپ ﷺ کے افعال میں سہو ہوتا تھا وہ بھی اس حکمت و مصلحت کے پیش نظر۔ تاکہ امت کے لوگ اس طرح سہو کے مسائل سیکھ لیں۔

【277】

رکعتوں کی تعداد بھول جانے کی صورت میں سجدئہ سہو کا حکم

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے پاس شیطان آتا ہے اور اسے شک و شبہ میں مبتلا کردیتا ہے یہاں تک کہ اس (نمازی) کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں، لہٰذا تم میں سے کسی کو اگر یہ صورت پیش آئے تو اسے چاہیے کہ وہ آخری قعدے میں) بیٹھ کردو سجدے کرے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث میں جو صورت بیان کی گئی ہے وہ سہو سے متعلق نہیں ہے بلکہ شک کی صورت ہے اور شک و سہو کے درمیان فرق یہ ہے کہ سہو میں ایک جانب کا تعین ہوتا ہے (کہ فلاں چیز بھول گیا) اور شک میں تردد ہوتا ہے کہ آیا یہ صحیح ہے یا وہ اور شیطان ملعون کی کیا مجال تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو شک و شبہ میں مبتلا کردیتا۔ ہاں غلبہ استغراق اور آخرت کی طرف بےانتہا توجہ کی بناء پر آپ ﷺ کو سہو ہوجاتا تھا۔ سجدہ سہو واجب ہونے کے سلسلہ میں شک اور سہو دونوں کا یکساں حکم ہے، اس مسئلے کی پوری وضاحت آئندہ حدیث کے فائدہ میں ملا حظہ فرما یے۔

【278】

رکعتوں کی تعداد بھول جانے کی صورت میں سجدئہ سہو کا حکم

اور حضرت عطاء ابن یسار حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی درمیان نماز شک میں مبتلا ہوجائے اور اسے یاد نہ رہے کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار رکعتیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا شک دور کرے اور جس عدد پر اسے یقین ہو اس پر بناء کرے (یعنی کسی ایک عدد کا تعین کر کے نماز پوری کرلے) اور پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرلے۔ اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھی ہوں گی تو یہ پانچ رکعتیں ان دو سجدوں کے ذریعے اس کی نماز کو جفت کردیں گی اور اگر اس نے پوری چار رکعتیں پڑھی ہوں گی تو یہ دونوں سجدے شیطان کی ذلت کا سبب بنیں گے مسلم اور مالک نے اس روایت کو عطاء سے بطریق ارسال نقل کیا ہے نیز امام مالک کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ نمازی ان دونوں سجدوں کے ذریعے پانچ رکعتوں کو جفت کر دے گا۔ تشریح صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے درمیان نماز وہ شک و شبہ میں مبتلا ہوگیا یعنی اسے یاد نہیں رہا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تو اسے چاہئے کہ وہ کمتر عدد کا تعین کرے اور اسی کا گمان غالب کر کے نماز پڑھ لے مثلاً اسے یہ شبہ ہو کہ نہ معلوم میں نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار رکعتیں تو اس صورت میں اس تین رکعتوں کا تعین کر کے نماز پوری کرنی چاہیے اور پھر آخری قعدے میں التحیات پڑھنے کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے دائیں طرف سلام پھیر کر سہو کے دو سجدے کرنا چاہئے۔ صحیح البخاری کی روایت میں سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کرنے کی قید نہیں ہے چناچہ اسی وجہ سے ائمہ کے ہاں اس بات پر اختلاف ہے کہ سجدے سلام پھیرنے سے پہلے کرنے چاہئے یا سلام پھیرنے کے بعد۔ اس مسئلے کی تفصیل ہم آئندہ کسی حدیث کے فائدہ کے ضمن میں بیان کریں گے۔ حدیث میں سہو کے دونوں سجدوں کا فائدہ بھی بتایا گیا ہے چناچہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی آدمی نے مذکورہ صورت میں تین رکعت کا تعین کر کے ایک رکعت اور پڑھ لی حالانکہ حقیقت میں وہ چار رکعتیں پہلے پڑھ چکا تھا اس طرح اس کی پانچ رکعتیں ہوگئی تو پانچ رکعتیں ان دونوں سجدوں کی وجہ سے اس کی نماز کو شفع (جفت کردیں گی کیونکہ وہ دونوں سجدے ایک رکعت کے حکم میں ہیں یعنی یہ پانچ رکعتیں ان دونوں سجدوں سے مل کر چھ رکعت کے حکم میں ہوجائیں گی اور اگر اس نے حقیقت میں تین ہی رکعتیں پڑھی ہیں اور سہو کی صورت میں اس نے تین ہی کا تعین کرکے ایک رکعت اور پڑھی اور اس کی چار رکعتیں پوری ہوگئیں تو اس کے وہ دونوں سجدے شیطان کی ذلت کا سبب بن جائیں گے۔ یعنی اس صورت میں جب کہ اس آدمی نے چار ہی رکعتیں پڑھی ہیں تو دونوں سجدوں کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ نماز کو جفت کردیں جیسا کہ پہلی صورت (پانچ رکعتیں پڑھنے کی صورت) میں ان دونوں سجدوں کی ضرورت تھی لیکن ان دونوں سجدوں کو جو بظاہر زائد معلوم ہوتے ہیں یہ فائدہ ہوا کہ ان سے شیطان کی ذلت و ناکامی ہوئی۔ کیونکہ شیطان کا مقصد تو یہ تھا کہ وہ نمازی کو شک و شبہ میں مبتلا کر کے اسے عبادت سے باز رکھے حالانکہ نمازی نے اس کے برعکس دو سجدے اور کر کے عبادت چھوڑنے کی بجائے اس میں زیادتی کی جو یقینی بات ہے کہ شیطان کی ناکامی و نامرادی کا باعث ہے۔ اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شک کی صورت میں اقل (کمتر) کو اختیار کرنا چاہئے تحری (غالب گمان) پر عمل نہ کیا جائے چناچہ جمہور ائمہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ امام ترمذی کا قول یہ ہے کہ اہل علم میں سے بعض حضرات کا مسلک یہ ہے کہ شک کی صورت میں نماز کا اعادہ کرنا چاہیے یعنی اگر کسی کو درمیان نماز میں رکعتوں کی تعداد کے بارے میں شک ہوجائے تو اسے چاہیے کہ نماز کو از سر نو پڑھے۔ اس مسئلے میں امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو نماز میں شک ہوجائے کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تو اگر اس آدمی کی عادت شک کرنے کی نہ ہو تو اسے چاہیے کہ پھر نئے سرے سے نماز پڑھے اور اگر اس کو شک ہونے کی عادت ہو تو اپنے غالب گمان پر عمل کرے یعنی جتنی رکعتیں اس کو غالب گمان سے یاد پڑیں تو اسی قدر رکعتیں سمجھے کہ پڑھ چکا ہے اور اگر غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو کمتر عدد کو اختیار کرے مثلاً کسی کو ظہر کی نماز میں شک ہوا کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار اور غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو اسے کو چاہیے کہ تین رکعتیں شمار کرے اور ایک رکعت اور پڑھ کر نماز پوری کرلے پھر سجدہ سہو کرلے۔ اتنی بات سمجھ لینی چاہیے کہ غالب گمان پر عمل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ شریعت میں غالب گمان کو اختیار کرنے کی اصل موجود ہے جیسا کہ اگر کوئی آدمی کسی ایسی جگہ نماز پڑھنا چاہے جہاں سے قبلے کی سمت معلوم نہ ہو سکے تو اس کے لئے حکم ہے کہ وہ جس سمت کے بارے میں غالب گمان رکھے کہ ادھر قبلہ ہے اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے اس کی نماز ہوجائے گی۔ غالب گمان کو اختیار کرنے کے سلسلے میں احادیث بھی مروی ہیں۔ چناچہ صحیحین میں حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کی ایک روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک واقع ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وہ صحیح رائے قائم کر کے (یعنی کسی ایک پہلو پر غالب گمان کر کے) نماز پوری کرلے اس حدیث کو شمنی نے بھی شرح نقایہ میں نقل کیا ہے نیز جامع الاصول میں بھی نسائی سے ایک حدیث تحری ( غالب گمان) پر عمل کرنے کے صحیح ہونے کے بارے میں منقول ہے۔ امام محمد (رح) نے اپنی کتاب موطا میں تحری کی افادیت کے سلسلے میں یہ کہتے ہوئے کہ تحری کے سلسلے میں بہت آثار وارد ہیں بڑی اچھی بات یہ کہی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے یعنی تحری کو قابل قبول نہ قرار دیا جائے تو شک اور سہو سے نجات ملنی بڑے مشکل ہوگی اور پہر شک و شبہ کی صورت میں اعادہ بڑی پریشانی کا باعث بن جائے گا۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) نے اس موقع پر مسئلہ مذکورہ کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس موقع پر حاصل کلام یہ ہے کہ اس مسئلہ کے سلسلہ میں تین احادیث منقول ہیں۔ پہلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں جب بھی کسی کو شک واقع ہوجائے تو وہ نماز کو از سر نو پڑھے دوسری حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ جب کسی کو نماز میں شک واقع ہوجائے تو اسے چاہئے کہ صحیح بات کو حاصل کرنے کے لئے تحری کرے۔ یعنی غالب گمان پر عمل کرے۔ تیسری حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب نماز میں شک واقع ہو تو یقین پر عمل کرنا چاہیے یعنی جس پہلو پر یقین ہو اسی پر عمل کیا جائے حضرت امام ابوحنیفہ (رح) نے ان تینوں حدیثوں کو اپنے مسلک میں جمع کردیا ہے اس طرح کہ انہوں نے پہلی حدیث کو تو مرتبہ شک واقع ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے، دوسری حدیث کو کسی ایک پہلو پر غالب گمان ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے اور تیسری حدیث کو کسی بھی پہلو پر غالب گمان نہ ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ حضرت امام اعظم کے مسلک کے کمال جامعیت اور انتہائی محقق ہونے کی دلیل ہے۔

【279】

رکعتوں کی تعداد بھول جانے کی صورت میں سجدئہ سہو کا حکم

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین ﷺ نے ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھ لی، چناچہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا نماز میں کچھ زیادتی ہوگئی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کیا ہوا ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں (یہ سن کر) آپ ﷺ نے سلام پھیر لینے کے بعد دو سجدے کئے۔ اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں انسان ہی تو ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو اس طرح میں بھی بھول جاتا ہوں جب میں کچھ بھول جایا کروں، مجھے یاد دلایا کرو اور جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وہ صحیح رائے قائم کرے اور اس رائے کی بنیاد پر نماز پوری کرلے اور پھر سلام پھیر کردو سجدے کرلے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں کمتر پر عمل کرنے کو نہیں کہا گیا گو مراد یہی ہے کہ اگر تحری فائدہ نہ دے یعنی کسی بھی عدد کے بارے میں غالب گمان نہ ہو سکے تو کمتر عدد کو اختیار کر کے نماز پوری کرلی جائے چونکہ حضرات شوافع تحری کے قائل نہیں ہیں اس لئے وہ بھی اس حدیث کے الفاظ فلیتحر الصواب سے مراد کمتر عدد کو اختیار کرنا لیتے ہیں۔ حنفیہ کے ہاں پانچ رکعت ادا کرلینے کی صورت میں مسئلے کی کچھ تفصیل ہے۔ چناچہ ان کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی قعدہ اخیرہ بھول کر پانچویں رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے اور پانچویں رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے اسے یاد آجائے تو اسے چاہیے کہ فورًا بیٹھ جائے اور التحیات پڑھ کر سجدہ سہو کرلے۔ اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کرچکا ہو تو پھر نہیں بیٹھ سکتا اور اس کی یہ نماز اگر فرض کی نیت سے پڑھ رہا تھا تو فرض ادا نہیں ہوگا بلکہ نفل ہوجائے گی۔ اور اس کو اختیار ہوگا کہ ایک رکعت کے ساتھ دوسری رکعت اور ملا دے تاکہ یہ رکعت بھی ضائع نہ ہو اور دو رکعتیں یہ بھی نفل ہوجائیں۔ اگر عصر اور فجر میں یہ واقعہ پیش آئے تب بھی دوسری رکعت ملا سکتا ہے اس لئے کہ عصر و فجر کے فرض کے بعد نفل مکروہ ہے اور یہ رکعتیں فرض نہیں رہی بلکہ نفل ہوگئی ہیں پس گویا فرض سے پہلے نفل پڑھی گئی ہیں اور اس میں کچھ کراہت نہیں۔ مغرب کے فرض میں صرف یہی رکعت کافی ہے دوسری رکعت نہ ملائی جائے، ورنہ پانچ رکعتیں ہوجائیں گی اور نفل میں طاق رکعتیں منقول نہیں اور اس صورت میں سجدہ سہو کی ضرورت نہ ہوگی۔ یہ شکل تو قعدہ اخیرہ میں بیٹھے بغیر رکعت کے لئے اٹھ جانے کی تھی۔ اگر کوئی آدمی قعدہ اخیرہ میں التحیات پڑھنے کے بقدر بیٹھ کر سلام پھیرنے سے پہلے پانچویں رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے تو اگر وہ پانچویں رکعت کا سجدہ نہ کرچکا ہو تو فورا بیٹھ جائے اور چونکہ سلام کے ادا کرنے میں جو واجب تھا تاخیر ہوگئی اس لئے سجدہ سہو کرلے اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کر نیکے بعد یاد آئے تو اس کو چاہیے کہ وہ اب نہ بیٹھے بلکہ ایک رکعت اور ملا دے تاکہ یہ پانچوں رکعت ضائع نہ ہو اور اگر رکعت نہ ملائے بلکہ پانچویں رکعت کے بعد سلام پھیر دے تب بھی جائز ہے مگر ملا دینا بہتر ہے۔ اس صورت میں اس کی وہ رکعتیں اگر فرض نیت کی تھی تو فرض ادا ہوں گی نفل نہ ہوں گی۔ عصر اور فجر کے فرض میں بھی دوسری رکعت ملا سکتا ہے اس لئے کہ عصر اور فجر کے فرض کے بعد قصدا نفل پڑھنا مکروہ ہے اور اگر سہوا پڑھ بھی لیا جائے تو کچھ کراہت نہیں۔ اس صورت میں فرض کے بعد رکعتیں پڑھی گئیں ہیں یہ ان موکدہ سنتوں کے قائم مقام نہیں ہوسکتیں جو فرض کے بعد ظہر و مغرب اور عشاء کے وقت مسنوں ہیں کیونکہ ان سنتوں کا تحریمہ سے ادا کرنا رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے۔ یہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ رسول اللہ ﷺ چار رکعت کے بعد قعدہ اخیرہ میں بیٹھ کر پھر بعد میں رکعت کے لئے اٹھ گئے تھے چونکہ اس حدیث سے بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچویں رکعت کے ساتھ چھٹی رکعت نہیں ملائی تھی اور صرف سہو پر اکتفاء کیا جیسا کہ امام شافعی (رح) کا مسلک ہے اس لئے کہا جائے گا کہ یہاں یہ احتمال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان جواز کی خاطر ایسا کیا ہوگا

【280】

رکعتوں کی تعداد بھول جانے کی صورت میں سجدئہ سہو کا حکم

اور حضرت ابن سیرین (رح) ( آپ کا اسم گرامی محمد اور کنیت ابوبکر ہے حضرت انس بن مالک (رض) کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ کے تیس بچے تھے جو آپ کی زندگی ہی میں سوائے ایک کے وفات پاگئے صرف ایک صاحبزادے عبداللہ بن محمد بن سیریں بقید حیات تھے۔ ستر سال کی عمر میں ١١٠ ھ میں ان انتقال ہوا) ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا (ایک دن) سرور کونین ﷺ نے ظہر یا عصر کی نماز جس کا نام ابوہریرہ (رض) نے تو بتایا تھا مگر میں بھول گیا، ہمیں پڑھائی۔ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی اور تیسری رکعت کے لئے اٹھنے کی بجائے سلام پھیرلیا، پھر اس لکٹری کے سہارے جو مسجد میں عرضا کھڑی تھی کھڑے ہوگئے اور (محسوس ایسا ہوتا تھا) گویا آپ ﷺ غصہ کی حالت میں ہیں، آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا اور انگلیوں میں انگلیاں ڈال لیں اور اپنا بایاں رخسار مبارک اپنے بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ لیا۔ جلد باز لوگ (جو نماز کی ادائیگی کے بعد ذکر اور دعا وغیرہ کے لئے نہیں ٹھہرتے تھے) مسجد کے دروازوں سے جانے لگے، صحابہ کہنے لگے کہ کیا نماز میں کمی ہوگئی ہے ؟ ( کہ رسول اللہ ﷺ نے چار رکعت کے بجائے دو ہی کعتیں پڑھی ہیں ؟ ) صحابہ کے درمیان (جو مسجد میں باقی رہ گئے تھے) حضرت ابوبکر و حضرت عمر (رض) بھی موجود تھے مگر خوف کی وجہ سے ان کو رسول اللہ ﷺ سے کلام کرنے کی جرات نہ ہوئی صحابہ میں ایک اور آدمی (بھی) تھے جن کے ہاتھ لمبے تھے اور جنہیں (اسی وجہ سے) ذوالیدین (یعنی ہاتھوں والا کے لقب سے) پکارا جاتا تھا انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا آپ ﷺ بھول گئے ہیں یا نماز ہی میں کمی ہوگئی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہوئی ہے پھر (صحابہ سے مخاطب ہوئے اور) فرمایا کیا تم بھی یہی کہتے ہو جو ذوالیدین کہہ رہے ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ جی ہاں یہی بات ہے اور یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ آگے آئے اور جو نماز (یعنی دو رکعت) چھوٹ گئی تھی اسے پڑھا اور سلام پھیر کر تکبیر کہی اور حسب معمول سجدوں جیسا یا ان سے بھی کچھ طویل سجدہ کیا اور پھر تکبیر کہہ کر سر اٹھایا لوگ ابن سیرین سے پوچھنے لگے کہ پھر اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیر دیا ہوگا ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے عمران بن حصین (رض) سے یہ خبر ملی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیر دیا اس روایت کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے مگر الفاظ صحیح البخاری کے ہیں۔ اور صحیح البخاری ومسلم ہی کی ایک اور روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ذوالیدین کے جواب میں) لم انس ولم تقصر (یعنی نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہوئی ہے) کے بجائے یہ فرمایا کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس میں سے کچھ بھی نہیں ہے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اس میں سے کچھ ضرور ہوا ہے۔ تشریح فتح الباری میں اس حدیث کی بہت لمبی چوڑی شرح کی گئی ہے اگر اس کو یہاں نقل کی جائے تو بات بڑی لمبی ہوجائے گی البتہ اتنا بتادینا ضروری ہے کہ اس حدیث کے بارے میں دو اشکال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا اشکال تو یہ ہے کہ علماء کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ خبر میں تو رسول اللہ ﷺ کو سہو ہونا ناممکن ہے اور افعال میں بھی اختلاف ہے مگر رسول اللہ ﷺ نے یہاں ذوالیدین کے جواب میں جو یہ فرمایا کہ نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہی ہوئی ہے کیا خلاف واقعہ نہیں ہے ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو خبر میں بھی سہو ہوسکتا تھا۔ اس کا جواب مختصر طریقہ پر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سہو ہونا ان خبروں میں ناممکن ہے جو تبلیغ شرائع، دینی علم اور وحی الہٰی سے متعلق ہیں نہ کہ تمام خبروں میں۔ دوسرا یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ سے افعال بھی سرزد ہوئے اور آپ ﷺ نے گفتگو بھی کی مگر اس کے باوجود آپ ﷺ نے از سر نو نماز نہیں پڑھی بلکہ جو رکعتیں باقی رہ گئیں تھی انہیں کو پورا کرلیا۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ مفسد نماز وہ کلام و افعال ہیں جو قصدا واقع ہوئے ہوں نہ کہ وہ کلام و افعال جو سہوا ہوگئے ہوں جیسا کہ امام شافعی (رح) کا مسلک ہے۔ لیکن چونکہ یہ جواب نہ صرف یہ کہ خود اپنے اندر جھول رکھتا ہے بلکہ حنفیہ کے مسلک کے مطابق بھی نہیں ہے کیونکہ ان کے ہاں مطلقا کلام مفسد صلوٰۃ ہے خواہ قصدا صادر ہوا ہو یا سہوا۔ اس لئے علماء حنفیہ کے نزدیک اس اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ نماز میں کلام اور افعال کا جواز منسوخ نہیں ہوا تھا۔ حضرت امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے کہ نماز میں کلام مطلقاً مفسد صلوٰۃ ہے خواہ قصدا ہو یا سہوا مگر ان کے ہاں اتنی گنجائش بھی ہے کہ نماز میں جو کلام امام یا مقتدی سے نماز کی کسی مصلحت کے پیش نظر صادر ہوا ہوگا وہ مفسد نماز نہیں ہوگا جیسا کہ حدیث مذکورہ میں پیش آمدہ صورت ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کو جب حضرت ابن سیرین لوگوں کے سامنے بیان کرچکے تو ان سے بطریق استفہام اکثر لوگوں نے پوچھا کہ کیا ابوہریرہ (رض) نے ثم سلم بھی کہا تھا گویا ان لوگوں کے پوچھنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے سجدہ سہو سلام کے بعد کیا تھا یا پہلے کیا تھا اس کے جواب میں ابن سیرین نے کہا ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں تو یہ الفاظ مجھے یاد نہیں پڑتے، ہاں حضرت عمران ابن حصین نے یہی حدیث مجھ سے روایت کی ہے ان کی روایت میں ثم سلم کے الفاظ موجود ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے سجدہ سہو سلام کے بعد کیا تھا اور میں نے ابوہریرہ (رض) کی روایت میں ثم سلم کے جو الفاظ نقل کئے ہیں وہ عمران ابن حصین ہی کی روایت سے اس جگہ لایا ہوں۔

【281】

سجدہ سہو سلام پھیر کر کرنا چاہیے یا اس کے بغیر؟

اور حضرت عبدا اللہ ابن بحینہ (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین ﷺ نے صحابہ کو ظہر کی نماز پڑھائی اور پہلی دو رکعتیں پڑھ کر (پہلے قعدے میں بیٹھے بغیر تیسری رکعت کے لئے) کھڑے ہوگئے، دوسرے لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہوگئے، یہاں تک کہ جب نماز پڑھ چکے اور (آخری قعدے میں) لوگ سلام پھیرنے کے منتظر تھے کہ آپ ﷺ نے بیٹھے بیٹھے تکبیر کہی اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کئے اور اس کے بعد سلام پھیرا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت امام شافعی (رح) کے مسلک میں اس حدیث کے مطابق سجدہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے ہی کیا جاتا ہے لیکن دوسری روایتوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے سلام پھیرنے کے بعد ہی سجدہ سہو کیا ہے نیز حضرت عمر فاروق (رض) کے بارے میں بھی ثابت ہوا ہے کہ وہ سلام پھیرنے کے بعد ہی سجدہ سہو کیا کرتے تھے لہٰذا حضرت عمر (رض) کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔

【282】

درود و دعا سجدہ سہو سے پہلے پڑھنی چاہیے یا بعد میں

اور حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے (ایک روز) لوگوں کو نماز پڑھائی ( درمیان نماز) آپ ﷺ کو سہو ہوگیا، چناچہ آپ ﷺ نے (سلام پھیر کر) دو سجدے کئے اس کے بعد آپ ﷺ نے التحیات پڑھی اور سلام پھیرا ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تشریح حضرت عمران کا قول فَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ کا مطلب یہی ہے کہ آپ ﷺ نے سلام پھیر کر سہو کے دونوں سجدے کئے جیسا کہ تیسری فصل کی پہلی حدیث سے (جو انہیں سے مروی ہے) بصراحت معلوم ہوجائے گی۔ اس حدیث میں نماز کا وہ رکن ذکر نہیں کیا گیا ہے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کو سہو ہوا اور آپ ﷺ اس کی ادائیگی کو بھول گئے تھے نیز اس حدیث میں سجدے کے بعد تشہد پڑھنے کا ذکر کیا گیا ہے جب کہ دوسری روایتوں میں تشہد کا ذکر نہیں ہے۔ حضرت عمران کی اس روایت کی روشنی میں جو تیسری فصل میں آرہی ہے یہ حدیث حنفیہ کے مسلک کی دلیل ہے کہ پہلے سلام پھیر کر پھر سجدہ سہو کرنا چاہیے۔ اسی طرح امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے بلکہ شوافع و مالکیہ کے بعض حضرات کا بھی یہی مسلک ہے۔ اس مسئلے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ درود و دعا جو التحیات میں پڑھی جاتی ہیں اسے تشہد میں پڑھنا چاہیے جو سجدہ سہو سے پہلے ہے یا سجدے کے بعد کے تشہد میں پڑھنا چاہیے ؟ چناچہ امام کرخی نے تو یہ اختیار کیا ہے کہ درود و دعا سجدہ سہو کے بعد کے تشہد میں پڑھے جائیں اور ہدایہ میں بھی اسی کو صحیح کہا گیا ہے۔ البتہ ہدایہ کی بعض شروح میں یہ کہا گیا ہے کہ سجدہ سہو سے پہلے تشہد میں پڑھنا بہتر ہے۔ امام طحاوی کا قول یہ ہے کہ دونوں تشہد میں پڑھنا چاہیے۔ شیخ ابن ہمام نے بھی امام طحاوی کے قول کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتیاط اسی میں ہے۔ حنفیہ کا معمول پہلے یہ بتایا جا چکا ہے کہ التحیات پڑھنے کے بعد دائیں طرف سلام پھیرا جائے اس کے بعد سہو کے دو سجدے کئے جائیں اس کے بعد دوبارہ التحیات اور پھر درود و دعا پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے۔

【283】

درود و دعا سجدہ سہو سے پہلے پڑھنی چاہیے یا بعد میں

اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جب امام دو رکعت پڑھ کر (پہلے قعدہ میں بیٹھے بغیر تیسری رکعت کے لئے) کھڑا ہوجائے تو اگر سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے اسے یاد آجائے تو اسے چاہیے کہ وہ (قعدہ کے لئے) بیٹھ جائے اور اگر وہ سیدھا کھڑا ہوچکا ہو (اس کے بعد اسے یاد آئے) تو وہ (اب) نہ بیٹھے اور (آخری قعدہ میں) سہو کے دو سجدے کرلے۔ (سنن ابوداؤد، و سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ صورت مذکورہ میں معتبر پوری طرح کھڑا ہونا یا پوری طرح کھڑا نہ ہونا ہے۔ اس سلسلہ میں حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ ایسا آدمی اگر بیٹھنے کے قریب تر ہوجائے تو التحیات پڑھے اور اگر کھڑے ہونے کے قریب تر ہو تو نہ بیٹھے بلکہ اپنی بقیہ دونوں رکعتیں پوری کرلے۔ قریب تر بیٹھنے مطلب یہ ہے کہ اٹھتے وقت اس کے نیچے کا بدن (مثلاً ٹانگیں وغیرہ) سیدھا نہ ہوجائے اور اگر نیچے کا بدن سیدھا ہوجائے تو کھڑے ہونے کے قریب تر ہوگا۔ شیخ ابن الہمام نے کہا ہے کہ اقربیت کے سلسلہ میں امام ابویوسف کی بھی ایک روایت ہے جس کو صحیح البخاری کے مشائخ نے اختیار کیا ہے مگر جیسا کہ اوپر بتایا گیا صحیح مسلک یہی ہے کہ جب تک پورا کھڑا نہ ہوجائے بیٹھا جاسکتا ہے پورا کھڑا ہوجانے کی صورت میں بیٹھنا نہیں چاہیے، یہی قول صحیح ہے اور اس کی تائید یہ حدیث بھی کرتی ہے۔ اگر کوئی آدمی کھڑا ہونے سے پہلے قعدے کے لئے بیٹھ جائے تو اس کے لئے سجدہ سہو کی ضرورت نہ ہوگی۔ ہاں جو آدمی پورا کھڑا ہوجائے اور اس سے پہلا قعدہ چھوٹ جائے تو اس کو سجدہ سہو کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں اتنی بات اور جان لیجئے جب کوئی آدمی پہلے قعدے میں بیٹھے بغیر تیسری رکعت کے لئے پوری طرح کھڑا ہوجائے تو اس کو بیٹھنا نہیں چاہیے کیونکہ اگر وہ بیٹھ جائے گا تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔

【284】

درود و دعا سجدہ سہو سے پہلے پڑھنی چاہیے یا بعد میں

حضرت عمران ابن حصین (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین ﷺ نے عصر کی نماز پڑھائی اور تین رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا اور گھر میں تشریف لے گئے۔ ایک آدمی نے کہ جس کا نام خرباق تھا اور اس کے ہاتھ کچھ لمبے تھے انہوں نے (یعنی ذوالید ین) کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اور انہوں نے (یعنی ذوالیدین) نے واقعہ بیان کیا (یعنی تین رکعت پڑھ کر سلام پھیرنے کے بارے میں ذکر کیا یہ سن کر رسول اللہ ﷺ غصے میں اپنی چادر مبارک کھینچتے ہوئے باہر نکلے اور لوگوں کے پاس (مسجد میں) پہنچے اور فرمایا کہ کہ کیا ذوالیدین ٹھیک کہہ رہے ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ جی ہاں ! چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت پڑھی، پھر سلام پھیر اور سہو کے دو سجدے کر کے سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ تین رکعت کے بعد سلام پھیر کر گھر تشریف لے گئے اور وہاں سے تشریف لائے، اس عرصے میں قبلے کی جانب سے منہ بھی پھرا، گفتگو بھی ہوئی اور بہت زیادہ چلنا ہوا، لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے از سر نو نماز نہیں پڑھی بلکہ صرف ایک رکعت جو پڑھنے سے رہ گئی تھی پڑھی، لہٰذا یہ افعال سہواً ہونے کے باوجود ( بھی حنفیہ کے مسلک میں چونکہ مفسد نماز ہیں اس لئے حنفیہ کی جانب سے اس حدیث کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ نماز میں گفتگو کی طرح یہ بھی منسوخ ہے یعنی یہ افعال و کلام پہلے نماز میں جائز تھے پھر بعد میں منسوخ ہوگئے۔ اور یہ واقعہ جواز کے منسوخ ہونے سے پہلے کا ہے۔ خرباق انہیں ذوالیدین کا نام ہے جن کی حدیث اس سے پہلے (نمبر ٤) گزر چکی ہے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ جو اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اور وہ واقعہ جو حدیث نمبر ٤ میں ذکر کیا گیا ہے دونوں ایک ہی ہیں لیکن اس حدیث اور حدیث نمبر ٤ میں چونکہ بعض باتوں میں با ہم تضاد ہے اس لئے علماء نے لکھا ہے کہ دونوں ایک ہی نہیں بلکہ الگ الگ واقعات ہیں اور دونوں واقعوں میں رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کرنے والے حضرت ذوالیدین ہی تھے۔ اس حدیث کے آخری جملوں سے یہ بات بصراحت معلوم ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے سلام پھیرا پھر سجدہ سہو کیا، اس کے بعد سلام پھیر کر نماز پوری کی، چناچہ علامہ طیبی (رح) نے کہا ہے کہ یہی مسلک امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے کہ ان کے یہاں سلام کے بعد سہو کے دو سجدے زیادتی اور نقصان کے پیش نظر کئے جاتے ہیں اس کے بعد تشہد پڑھا جاتا ہے اور سلام پھیرا جاتا ہے۔

【285】

نماز میں کمی کا شک واقع ہوجانے کی صورت میں کیا کیا جائے

اور حضرت عبدالرحمن ابن عوف (رض) ( نام عبدالرحمن اور کنیت ابومحمد ہے قریش کی ایک شاخ بنو زہرہ میں پیدا ہوئے جن دس صحابہ کو رسول اللہ ﷺ نے جنت کی خوشخبری دی تھی ان میں ایک ہیں۔ غزوہ تبوک میں حضور ﷺ نے ان کے پیچھے نماز پڑھی ٣٢ ھ میں بہتر سال کی عمر میں وفات پائی) ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس آدمی کو نماز پڑھتے ہوئے کمی کا شک ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وہ اور پڑھ لے تاکہ زیادتی کا شک ہوجائے۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح مطلب یہی ہے کہ شک واقع ہوجانے کی صورت میں اگر کسی جانب غالب گمان نہ ہو اور شک بھی کمی میں واقع ہو مثلاً چار رکعت والی نماز میں شک ہوجائے کہ نہ معلوم تین پڑھی ہیں یا چار تو ایسے آدمی کو چاہیے کہ کہ زیادتی میں شک کرے یعنی کم تر عدد کو اختیار کرے جیسے صورت مذکورہ میں تین رکعت کو اختیار کر کے ایک رکعت اور پڑھ لے تاکہ اب کمی کے شک کے بجائے زیادتی کا شک ہوجائے کہ نہ معلوم چار رکعتیں پڑھی ہیں یا پانچ رکعتیں۔ رسول اللہ ﷺ سے نماز میں کتنی جگہوں پر سہوا ہوا تھا نماز میں رسول اللہ ﷺ سے چند مواقع پر سہو ہوا تھا۔ ایک قعدہ اول میں سہواً ہوا تھا جیسا کہ عبداللہ ابن بحینہ کی روایت نمبر ٥ میں مذکور ہے۔ دوسرا سہو آخری دونوں رکعتوں میں ہوا تھا۔ جیسا کہ حضرت ذوالیدین کے واقعہ (حدیث نمبر ٤) سے معلوم ہوا۔ تیسرا سہو آخری رکعت میں ہوا تھا جیسا کہ خرباق والی حدیث (نمبر ٨) میں گذرا اور چوتھا سہو آپ ﷺ کو پانچویں رکعت کی زیادتی میں ہوا تھا جیسا کہ عبداللہ ابن مسعود (رض) کی (حدیث نمبر ٣) سے معلوم ہوا لہٰذا علماء مجتہدین نے رسول اللہ ﷺ کے عمل پر قیاس کرتے ہوئے یہ کلیہ بنایا کہ اگر نماز میں کسی آدمی سے نماز کے واجبات میں سے کسی واجب میں سہوہو جائے تو اس پر سہو کا سجدہ واجب ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں جتنی احادیث گزری ہیں ان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے سہو ہوجانے کی صورت میں بعض موقعوں پر تو سجدہ سہو سلام سے پہلے کیا اور بعض مواقع پر سلام پھیرنے کے بعد کیا۔ لہٰذا رسول اللہ ﷺ کا عمل چونکہ دونوں طرح تھا اس لئے یہی کہا جائے گا کہ دونوں طریقے جائز ہیں لیکن ائمہ نے اس سلسلے میں اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق الگ الگ صورت کو مقرر کردیا ہے۔ سجدہ سہو کے وقت کے بارے میں ائمہ کے مسلک چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک یہ ہے کہ ہر موقع پر سجدہ سہو سلام سے پہلے کرنا چاہیے۔ اس طرح وہ ان احادیث کو کہ جن سے سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنا ثابت ہوتا ہے ان احادیث پر کہ جن سے سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا ثابت ہوتا ہے ترجیح دیتے ہیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ تمام مواقع پر سلام پھیر کر سجدہ سہو کرنا چاہیے کیونکہ اس کے ثبوت میں بہت زیادہ صحیح احادیث وارد ہیں۔ نیز کہ ابوداؤد، ابن ماجہ اور عبدالرزاق نے ثوبان کی یہ روایت نقل کی ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر سہو کے لئے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے ہیں لہٰذا جب رسول اللہ ﷺ کا عمل متضاد مروی ہے کہ کبھی تو آپ ﷺ نے سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ کیا ہے اور کبھی سلام پھیرنے کے بعد۔ تو ایسی صورت میں امام اعظم نے رسول اللہ ﷺ کے قول کو بطور دلیل اختیار کیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک قول فعل سے قوی ہے جیسا کہ اصول فقہ میں مذکور ہے۔ حضرت امام احمد (رح) کا مسلک یہ ہے کہ جس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے سلام سے پہلے سجدہ کیا ہے اس موقع پر سلام سے پہلے ہی سجدہ کرنا چاہیے اور جس موقع پر آپ ﷺ نے سلام پھیرنے کے بعد سجدہ کیا ہے اس موقع پر سلام پھیر کر ہی سجدہ کیا جائے علماء لکھتے ہیں کہ حضرت امام احمد بن حنبل (رح) کا یہ قول سب سے قوی اور بہتر ہے۔ اتنی بات سمجھ لینی چاہیے کہ سجدیہ سہوا کے بارے میں یہ تمام اختلافات کہ سجدہ سلام کے بعد کرنا چاہیے یا پہلے محض فضیلت سے متعلق ہیں یعنی بعض ائمہ کے نزدیک سلام کے بعد سجدہ کرنا زیادہ افضل ہے اور بعض کے نزدیک سلام سے پہلے افضل ہے لیکن جہاں تک جواز کا تعلق ہے تو جیسا کہ ائمہ اربعہ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے اس بات پر سب متفق ہیں کہ جائز دونوں طرح ہے۔ ہدایہ میں لکھا ہے کہ صحیح تر یہ ہے کہ دونوں طرف سلام پھیر کر سجدہ سہو کرنا چاہیے۔

【286】

قرآن کے سجدوں کا بیان

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کے مطابق قرآن مجید میں چودہ آیتیں ایسی ہیں جن کے پڑھنے اور سننے سے خواہ قصداً نہ ہو ایک سجدہ واجب ہوتا ہے۔ ان آیتوں کی تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی۔ دیکر ائمہ کے نزدیک سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے۔ سجدہ تلاوت صرف ایک مرتبہ دو تکبیروں کے درمیان (یعنی) ایک تکبیر سجدے میں جاتے وقت اور دوسری تکبیر سجدے سے اٹھتے وقت کیا جاتا ہے اس سجدے کے لئے رفع یدین تشہد اور سلام کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سجدہ تلاوت صحیح ہونے کی وہی سب شرطیں ہیں جو نماز کے صحیح ہونے کی ہیں یعنی طہارت، ستر کی پردہ پوشی، نیت اور استقبال قبلہ تحریمہ اس میں شرط نہیں۔ اس کی نیت میں آیت کا تعین شرط نہیں ہے کہ یہ سجدہ فلاں آیت کے سبب سے ہے۔ اور اگر نماز میں آیت سجدہ پڑھی جائے اور فورًا سجدہ کیا جائے تو نیت بھی شرط نہیں۔

【287】

سورت نجم کا سجدہ

حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے سورت نجم میں سجدہ کیا اور آپ ﷺ کے ساتھ مسلمانوں، مشرکوں جنوں اور سب آدمیوں نے (بھی) سجدہ کیا۔ (صحیح البخاری ) تشریح رسول اللہ ﷺ سورت نجم کی تلاوت کرتے ہوئے آیت سجدہ آیت ( فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَاعْبُدُوْا 53 ۔ النجم 62) سجدہ کرو اللہ کا اور عبادت کرو۔ پر پہنچے تو آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی فرمانبرداری کی غرض سے سجدہ کیا جب آپ ﷺ نے سجدہ کیا تو تمام مسلمانوں نے بھی آپ ﷺ کی متابعت میں سجدہ کیا، اسی طرح مشرکین نے بھی جب بتوں یعنی لات و منات اور عزی کے نام سنے تو انہوں نے بھی سجدہ کیا، یا پھر مشرکوں کے سجدہ کرنے کا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں مسجد الحرام کے اندر جب سورت نجم کی ان آیتوں۔ آیت (اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى 19 وَمَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى 20 اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْاُنْثٰى 21) 53 ۔ النجم 19) یعنی بھلا تم لوگوں نے لات و عزی کو دیکھا اور تیسرے منات کو (کہ یہ بت کہیں اللہ ہوسکتے ہیں مشرکو ! ) کیا تمہارے لئے تو بیٹے ہیں اور اللہ کے لئے بیٹیاں۔ کو پڑھنے لگے تو شیطان ملعون نے اپنی آواز کو رسول اللہ ﷺ کی آواز سے مشابہ بنا کر یہ پڑھا تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَاِنَّ شَفَا عَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی۔ یعنی یہ بت بلند مرغابیاں ہیں اور بیشک ان کی شفاعت امید بخش ہے۔ مشرکین یہ سمجھے کہ (نعوذ باللہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے بتوں کی تعریف کی ہے اس سے وہ بہت زیادہ خوش ہوئے چناچہ جب رسول اللہ ﷺ نے سجدہ کیا تو انہوں نے بھی سجدہ کر ڈالا۔ بعض مفسرین نے اس موقع پر یہ تفسیر کی ہے کہ یہ الفاظ شیطان نے ادا نہیں کئے تھے بلکہ نعوذ باللہ خود رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سہوا نکل گئے تھے۔ یہ قول بالکل غلط اور محض ذہنی اختراع ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ شیطان ملعون نے اپنی آواز کو رسول اللہ ﷺ کی آواز سے مشابہ بنا کر یہ الفاظ ادا کر دئیے جس سے مشرکین یہ سمجھ بیٹھے کہ خود محمد ﷺ یہ الفاظ ادا کر رہے ہیں۔ حدیث میں مسلمانوں، مشرکوں، جنوں اور سب آدمیوں سے مراد وہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے پاس اس وقت موجود تھے۔ لفظ اِنْسٌ تعمیم بعد تخصیص ہے۔

【288】

سورت انشقاق او سورت علق کے سجدے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے سرور کونین ﷺ کے ساتھ ( سورت انشقاق یعنی اِذَا السَّمَاءُ اِنْشَقَّتِ اور ( سورت علق یعنی اِقْرَأْ بِاِسْمِ رَبِّکَ میں سجدہ کیا۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے امام مالک کے اس قول کا رد ہوتا ہے کہ مفصل میں سجدہ نہیں ہے

【289】

، سجدہ تلاوت واجب ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ سجدے (کی کوئی آیت) پڑھتے اور ہم آپ ﷺ کے قریب ہوتے تھے تو جب رسول اللہ ﷺ سجدہ کرتے ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ سجدہ کرتے اور (اس وقت) ہم لوگوں کا اس قدر اژدحام ہوتا تھا کہ ہم میں سے بعض کو تو اپنی پیشانی ٹیک کر سجدہ کرنے کی جگہ بھی نہیں ملتی تھی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سجدے کی کوئی آیت تلاوت فرماتے تو اس موقع پر آپ ﷺ کے ساتھ سجدہ کرنے کے لئے اتنے زیادہ لوگوں کا ہجوم ہوجاتا تھا کہ جگہ کی تنگی کی وجہ سے بعض لوگوں کو تو آپ ﷺ کے ساتھ سجدہ کرنا بھی نصیب نہ ہوتا تھا اور وہ پھر بعد میں سجدہ کرتے تھے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سجدہ تلاوت واجب ہے کیونکہ اگر تلاوت کا سجدہ واجب نہ ہوتا تو لوگ اتنا زیادہ اہتمام اور اژدحام کیوں کرتے۔ ایسے موقع پر جب کہ تلاوت کرنے والے کے پاس لوگ بیٹھے ہوں اور اس کی تلاوت سن رہے ہوں تو سجدے کی کوئی آیت پڑھنے کے بعد سجدہ کرنے کے سلسلے میں سنت یہ ہے کہ تلاوت کرنے والا آدمی آگے ہوجائے اور تلاوت سننے والے اس کے پیچھے ہو کر صف باندھیں اس طرح سب لوگ سجدہ کرلیں۔ یہ اقتداء صورۃ ہے حقیقۃ اقتداء نہیں ہے۔

【290】

رسول اللہ ﷺ کا سورت نجم میں سجدہ نہ کرنا

اور حضرت زید ابن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین ﷺ کے سامنے سورت نجم تلاوت کی اور آپ ﷺ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت امام شافعی (رح) کی جانب سے تو یہ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر سورت نجم میں سجدہ بیان جواز کے لئے نہیں کیا، حضرت امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ چونکہ مفصل میں سجدہ نہیں ہے اس لئے آپ ﷺ نے سجدہ نہیں کیا اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کی طرف سے اس حدیث کی توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آپ ﷺ نے اس موقعہ پر سجدہ یا تو اس لئے نہیں کیا کہ اس وقت آپ ﷺ با وضو نہیں تھے، یا یہ کہ وہ وقت کراہت تھا، یا پھر آپ ﷺ نے سجدہ اس لئے ترک کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ سجدہ تلاوت فرض نہیں ہے۔ ان چیزوں کے علاوہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ سجدہ تلاوت فی الفور واجب نہیں ہے اس لئے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس وقت تو سجدہ نہ کیا ہو البتہ بعد میں کسی وقت کرلیا ہو۔ لہٰذا اس سے کوئی آدمی یہ نہ سمجھے کہ سورت نجم کا سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے ایک حدیث میں صراحت کے ساتھ گذر چکا ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے اور دوسرے لوگوں نے بھی سورت نجم کا سجدہ کیا تھا۔

【291】

سورت ص کا سجدہ

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا سورت ص کا سجدہ بہت تاکیدی سجدوں میں سے نہیں ہے اور میں نے سرور کونین ﷺ کو اس سورت میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت مجاہد نے بیان کیا کہ میں نے حضرات عبداللہ ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ کیا میں سورت ص میں سجدہ کروں حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے یہ آیت (وَمِنْ ذُرِّيَّتِه دَاو دَ وَسُلَيْمٰنَ ) 6 ۔ الانعام 84) سے فَبِھَدَاھُمْ اقْتَدِہ) پڑھی اور فرمایا تمہارے نبی ﷺ بھی انھی لوگوں میں سے ہیں جنہیں پہلے نبیوں کی اتباع کا حکم تھا۔ (صحیح البخاری ) تشریح ( لَیْسَ مِنْ عَزَائِمِ السُّجُوْدِ بہت تاکیدی سجدوں میں سے نہیں) کا مطلب فقہ حنفی کی رو سے یہ ہے کہ یہ سجدہ فرائض میں سے نہیں ہے بلکہ واجبات تلاوت میں سے ہے۔ علماء لکھتے ہیں کہ سورت ص میں رسول اللہ ﷺ کا سجدہ کرنا حضرت داؤد (علیہ السلام) کی موافقت اور ان کی توبہ کی قبولیت کے شکر کے طور پر تھا۔ حضرت ابن عبادہ نے حضرت مجاہد کے سوال کے جواب میں پہلے آیت پڑھی جس سے اس بات کی دلیل دینا مقصود تھا کہ رسول اللہ ﷺ ان لوگوں میں سے ہیں کہ جنہیں سابقہ انبیاء کرام کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ لہٰذا حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو ان کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے تو تمہیں بطریق اولیٰ ان کی پیروی کرنی چاہیے یعنی جب حضرت داؤد (علیہ السلام) نے سجدہ کیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی ان کی موافقت و پیروی میں سجدہ کیا تو ہم کو چاہیے کہ ہم بھی سجدہ کریں۔

【292】

قرآن میں کل کتنے سجدے ہیں؟

اور حضرت عمرو ابن العاص (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے انہیں (یعنی عمرو ابن العاص کو) قرآن میں پندرہ سجدے پڑھائے ان میں سے تین تو مفصل (سورتوں میں ہیں اور دو سجدے سورت حج میں ہیں۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح مشکوٰۃ کے بعض نسخوں میں لفظ اقراء کے بجائے لفظ اقرائنی ہے یعنی رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے سامنے پڑھوں۔ اس حدیث کے مطابق قرآن کریم کی پندرہ آیتیں ایسی ہیں جن کے پڑھنے اور سننے سے ایک سجدہ واجب ہوتا ہے آیتوں کی تفصیل یہ ہے سورت اعراف کے آخر میں یہ آیت آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِه وَيُسَبِّحُوْنَه وَلَه يَسْجُدُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف 206) بیشک جو لوگ (یعنی فرشتے) تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے غرور اور انکار نہیں کرتے اور اس کا سجدہ کرتے ہیں۔ ( اس آیت میں ولہ یسجدون پر سجدہ ہے) ۔ (٢) سورت رعد کے دوسرے رکوع میں یہ آیت آیت ( وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا وَّظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ) 13 ۔ الرعد 15) وہ تمام چیزیں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہیں خوشی سے، کوئی نا خوشی سے اور ان کا سایہ صبح و شام۔ ( اس آیت میں بالغد و والاصال سجدہ ہے) ۔ (٣) سورت نحل کے پانچویں رکوع کے آخر کی یہ آیت آیت (وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ مِنْ دَا بَّ ةٍ وَّالْمَلٰ ى ِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ 49) 16 ۔ النحل 49) اور تمام جاندار جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب اللہ کے آگے سجدہ کرتے ہیں اور فرشتے بھی اور وہ ذرا بھی غرور نہیں کرتے اور اپنے پروردگار سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں نیز انہیں جو حکم دیا جاتا ہے وہ اس پر عمل کرتے ہیں۔ ( اس آیت میں و یفعلون ما یو مرون پر سجدہ ہے) ۔ (٤) سورت بنی اسرائیل کے بارھویں رکوع میں یہ آیت آیت (وَيَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُهُمْ خُشُوْعًا) 17 ۔ الاسراء 109) اور وہ منہ کے بل گرپڑتے ہیں (اور) روتے جاتے ہیں اور اس سے ان میں اور زیادہ عاجزی پیدا ہوتی ہے (یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو رسول اللہ ﷺ سے پہلے ایماندار لوگ تھے) ۔ ( اس آیت میں ویزیدھم خشوعا پر سجدہ ہے) ۔ (٥) سورت مریم کے چوتھے رکوع میں یہ آیت آیت ( اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُكِيًّا ) 19 ۔ مریم 58) جب پڑھی جاتی ہیں ان پر رحمٰن کی آیتیں تو گرتے ہیں وہ سجدہ کرنے کے لئے روتے ہوئے (یہ انبیاء اور ان کے اصحاب کا حال بیان کیا گیا ہے) ۔ ( اس آیت میں سجدا و ب کیا پر سجدہ ہے ) (٦) سورہ، حج کے دوسرے رکوع میں آیت آیت ( اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسْجُدُ لَه مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَا بُّ وَكَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَكَثِيْرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَمَنْ يُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَه مِنْ مُّكْرِمٍ اِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يَشَا ءُ ) 22 ۔ الحج 18) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو (مخلوق) آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور سورج اور چاند ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اور بہت سے آدمی ایسے ہیں جن پر عذاب ثابت ہوچکا ہے اور جس آدمی کو اللہ ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں، بیشک اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ( اس آیت میں یسجد لہ پر سجدہ ہے مگر پوری آیت پڑھنے کے بعد سجدہ ہے) ۔ (٧) سورت حج کے آخری رکوع کی یہ آیت آیت ( يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَ يْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ) 22 ۔ الحج 77) اے ایمان والو ! رکوع اور سجدہ کرتے اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو اور نیک کام کرو تاکہ فلاح پاؤ۔ ( اس آیت میں لعلکم تفلحون پر سجدہ ہے) ۔ (٨) سورت فرقان کے پانچویں رکوع کی یہ آیت آیت ( وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُوْرًا) 25 ۔ الفرقان 60) اس آیت میں وزادھم نفورا پر سجدہ ہے) ۔ اور جب ان (عرب کے کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ سجدہ کرو رحمن کا تو کہتے ہیں کہ رحمن کیا چیز ہے۔ کیا ہم سجدہ کرلیں اس کو جس کو تم کہتے ہو اور ہم کو نفرت بڑھتی ہے۔ ( اس آیت میں لا یسکتبرون پر سجدہ ہے) ۔ (٩) سورت نمل کے دوسرے رکوع میں آیت آیت ( اَلَّا يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ 25 اَللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ 26) 27 ۔ النمل 25) اور نہیں سمجھتے کہ اللہ کو جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو نکالتا ہے اور تمہارے پوشیدہ و ظاہر اعمال کو جانتا ہے کیوں سجدہ نہ کریں ؟ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (١٠) سورت الم تنزیل السجدہ کے دوسرے رکوع میں یہ آیت آیت ( اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ 15) 32 ۔ السجدہ 35) ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان رکھتے ہیں کہ جب انہیں وہ آیتیں یاد دلائی جائیں تو سجدہ کرنے کے لئے گرجائیں اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کریں اور یہ لوگ غرور نہیں کرتے۔ (١١) سورت ص کے دوسرے رکوع میں یہ آیت آیت (وَخَرَّ رَاكِعًا وَّاَنَابَ 24 فَغَفَرْنَا لَه ذٰلِكَ وَاِنَّ لَه عِنْدَنَا لَ زُلْفٰى وَحُسْنَ مَاٰبٍ 25) 38 ۔ ص 24) اور (داؤد علیہ السلام) گرپڑے سجدے کے لئے اور توبہ کی۔ پس ہم نے ان کو بخش دیا اور بیشک ہمارے ہاں ان کا تقرب ہے اور عمدہ مقام ہے۔ ( اس آیت میں وحسن ماب پر سجدہ ہے) ۔ (١٢) سورت حم سجدہ کے پانچویں رکوع میں یہ آیت آیت (فَاِنِ اسْ تَكْبَرُوْا فَالَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُوْنَ لَه بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْ َ مُوْنَ ) 41 ۔ فصلت 38) اگر یہ لوگ سرکشی کریں تو (اللہ کو بھی ان کی پرواہ نہیں جو فرشتے) تمہارے پروردگار کے پاس ہیں وہ رات دن اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور کبھی تھکتے ہی نہیں ( اس آیت میں لا یسئمون پر سجدہ ہے یا تعبدون پر ہے) (١٣) سورت نجم کے آخر میں یہ آیت آیت ( فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَاعْبُدُوْا 62 ڙ) 53 ۔ النجم 62) سجدہ کرو اللہ کا اور عبادت کرو۔ ( اس آیت میں واعبدوا پر سجدہ ہے) ۔ (١٤) سورت انشقاق میں یہ آیت آیت (فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ 20 وَاِذَا قُرِي َ عَلَيْهِمُ الْقُرْاٰنُ لَا يَسْجُدُوْنَ 21 ڍ) 84 ۔ الانشاق 24) تو ان لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ ایمان نہیں لاتے اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔ ( اس آیت میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اور یہاں رب العرش العظیم اور بعض کے نزدیک لعلکم تغلبون پر سجدہ ہے) ۔ ( اس آیت میں لا یسجدون پر سجدہ ہے) ۔ (١٥) سورت علق میں یہ آیت (وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ 19 ڙ) ( ا 96 ۔ العلق 19) آیت میں واقترب پر سجدہ ہے) ۔ (اے محمد ! ) سجدہ کیجئے اور اللہ کے نزدیک ہوجائیے۔ ائمہ کے ہاں سجدوں کی تعداد ائمہ کے ہاں اس بات پر اختلاف ہے کہ قرآن کریم میں کل کتنی آیتیں ایسی ہیں جن کے پڑھنے یا سننے سے ایک سجدہ تلاوت واجب ہوجاتا ہے۔ حضرت امام احمد نے اس حدیث کے مطابق کہا ہے کہ ایسی آیتیں پندرہ ہیں جن کی تفصیل اوپر بیان کی گئی ہے چناچہ انہوں نے اس حدیث کے ظاہر پر عمل کیا ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) کے ہاں آیت سجدہ کی تعداد چودہ ہے۔ اس طرح کہ سورت حج میں تو دو سجدے ہیں اور سورت ص میں کوئی سجدہ نہیں ہے۔ حضرت امام مالک (رح) کے ہاں آیت سجدہ کی تعداد گیارہ ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ سورت ص، سورت نجم، سورت انشقت اور سورت اقرا میں سجدہ نہیں ہے حضرت امام شافعی (رح) کا قول قدیم بھی یہی ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ کل سجدوں کی تعداد چودہ ہے اس طرح کہ سورت حج میں دو سجدے نہیں ہیں بلکہ ایک ہی سجدہ ہے جو دوسرے رکوع میں ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ حضرت عمرو ابن العاص کی یہ حدیث جس سے سجدوں کی تعداد پندرہ ثابت ہوتی ہے ضعیف ہے اور اس کو دلیل بنانا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس کے بعض راوی مجہول ہیں۔ نماز میں بھی سجدہ تلاوت کرنا چاہیے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز فرض اور نماز نفل میں اگر کسی آیت سجدہ کی قرأت کی جائے تو نماز ہی میں سجدہ کیا جائے یعنی جو سجدہ تلاوت نماز میں واجب ہو اسے خارج نماز میں ادا نہ کیا جائے۔ آیت سجدہ اگر فرض نماز میں پڑھی جائے تو اس کے سجدے میں نماز کی طرح سبحان ربی الاعلی کہنا ہی بہتر ہے اور اگر نفل نماز میں یا خارج نماز میں پڑھی جائے تو اس کے سجدے میں اختیار ہے کہ سبحان ربی الاعلی کہا جائے اور تسبیحیں جو احادیث میں وارد ہوئی پڑھی جائیں مثلاً یہ تسبیح سَجَدَ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہ، وَصَوَّرَہ، وَشَقَّ سَمْعَہ وَبَصَرَہ، بِحَوْلِہ وَقُوَّتِہ فَتَبَارَکَ ا اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنِ ۔ میرے منہ نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اس کو پیدا کیا جس نے اسی کو بنا لیا اور اس میں کان و آنکھ پیدا کیں اپنی طاقت اور قوت سے پس بزرگ ہے اللہ اچھا پیدا کرنے والا ہے۔ نماز میں آخر سورت میں سجدہ کی آیت آجانے کا مسئلہ بعض علماء کا یہ قول ہے کہ نماز میں سجدہ کی جو آیت آخر سورت میں آجائے تو رکوع کرنا ہی سجدے کے لئے کافی ہوجاتا ہے یعنی رکوع کرنے میں سجدہ تلاوت بھی ادا ہوجاتا ہے۔ یہ قول حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے اور یہی مسلک حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا ہے۔ فقہ کی کتابوں میں اس مسئلے کی تفصیل اس طرح مذکور ہے کہ اگر آیت سجدہ نماز میں پڑھی جائے اور فورًا رکوع کیا جائے یا آیت سجدہ کے بعد دو تین آیتیں پڑھ کر رکوع کرلیا جائے اور اس رکوع میں جھکتے وقت سجدہ تلاوت کی بھی نیت کرلی جائے تو سجدہ ادا ہوجائے گا اور اگر اسی طرح آیت سجدہ پڑھنے کے بعد نماز کا سجدہ کیا تب بھی سجدہ ادا ہوجائے گا اور اس میں نیت کی بھی ضرورت نہ ہوگی مگر شرط یہ ہے کہ کہ ہر دو صوت میں آیت سجدہ کے بعد تین آیتوں سے زیادہ قرأت نہ کی گئی ہو کیونکہ آیتوں کے پڑھنے میں تو اختلاف بھی ہے مگر یہ مسئلہ متفق علیہ ہے کہ تین سے زیادہ آیتیں پڑھنے کی صورت میں نماز کے رکوع یا سجود میں سجدہ تلاوت ادا نہیں ہوگا بلکہ الگ سے سجدہ تلاوت کرنا ضروری ہوگا۔

【293】

دو سجدوں کی وجہ سے سورت حج کی فضیلت

اور حضرت عقبہ ابن عامر فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! سورت حج کو اس لئے فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! جو آدمی دونوں سجدے نہ کرے تو وہ ان دونوں سجدوں کی آیتوں کو نہ پڑھے۔ (سنن ابوداؤد جامع ترمذی) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی اسناد قوی نہیں ہے اور مصابیح میں مثل شرح السنۃ کے فلا یقراھما (تو وہ دونوں سجدوں کی آیتوں کو نہ پڑھے) کے بجائے فلا یقراھا (تو وہ اس سورت کو نہ پڑھے) کے الفاظ ہیں۔ تشریح رسول اللہ ﷺ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی سجدے کی ان دونوں آیتوں کو نہ پڑھے تو اسے وہ آیتیں ہی نہ پڑھنی چاہئیں تاکہ وہ ترک واجب کا گنہگار نہ ہو یعنی قرآن کریم پڑھنے والے کے حق میں سجدے کی آیت کی تلاوت کی وجہ سے ایک سجدہ مشروع ہوا ہے اور سجدہ تلاوت کرنا تلاوت کے حقوق سے ہے لہٰذا اگر کوئی آدمی سجدہ تلاوت کو ترک کرنے کے درپے ہو تو اس کے لئے یہی مناسب ہے کہ وہ ان آیتوں ہی کو نہ پڑھے جن کی وجہ سے سجدہ واجب ہوجاتا ہے کیونکہ سجدہ واجب ہے اور اس کو چھوڑنے والا گنہگار ہوتا ہے اس لئے ترک سجدہ سے ترک تلاوت اولیٰ ہے۔ مشکوٰۃ کے ایک دوسرے صحیح نسخہ میں بجائے فلا یقراھما کے فلم یقراھا کے الفاظ ہیں اس طرح رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے معنی یہ ہوں گے کہ جس نے وہ دونوں سجدے نہ کئے گویا اس نے انہیں پڑھا ہی نہیں یعنی جب اس نے اس آیت کے تقاضے پر عمل نہ کیا تو اس کا پڑھنا نہ پڑھنا دونوں برابر ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سورت حج کا دوسرا سجدہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک واجب نہیں ہے وہ فرماتے ہیں کہ وہ سجدہ نماز کا ہے کیونکہ وہاں لفظ ارکعوا کا مذکور ہونا اس بات کا قرینہ ہے۔ امام ترمذی (رح) نے آخر میں ھذا حدیث لیس اسنادہ بالقوی کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔

【294】

سورت الم تنزیل السجدہ کا سجدہ

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز سرور کونین ﷺ نے ظہر کی نماز میں سجدہ کیا اور کھڑے ہوئے پھر رکوع کیا اور لوگوں کو یہ گمان تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے سورت الم تنزیل السجدہ پڑھی ہے۔ (ابوداؤد) تشریح صحابہ نے محض سجدے سے معلوم نہیں کیا تھا کہ آپ ﷺ نے سورت آلم تنزیل السجدہ پڑھی ہے بلکہ سورت کی ایک آیت رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوگی اس سے انہیں معلوم ہوگیا ہوگا کہ آپ ﷺ یہ سورت پڑھ رہے ہیں۔ چناچہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ (آہستہ آواز سے پڑھی جانے والی نمازوں میں) کبھی کبھی ایک آیت بآواز بلند بھی پڑھ دیا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ فلاں سورت کی قرأت ہو رہی ہے یا یہ کہ انتہائی شوق اور حضور قلب کی وجہ سے بےاختیار آپ ﷺ کی لسان مقدس سے کوئی آیت بآواز بلند جاری ہوجاتی تھی۔ بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے آیت سجدہ پڑھ کر جب سجدہ کیا اور سجدے سے اٹھے تو بقیہ سورت پوری نہیں کی بلکہ رکوع میں چلے گئے چناچہ یہ جائز ہے اگرچہ افضل یہی ہے کہ سجدے سے اٹھ کر بقیہ سورت پوری کی جائے اس کے بعد رکوع کیا جائے لہٰذا یہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا بیان جواز کی خاطر کیا ہو باوجود یہ نص سے بصراحت تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ نے بقیہ سورت پوری نہیں کی اور رکوع میں چلے گئے تاہم بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے محض رکوع پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مستقلاً سجدہ کیا جیسا کہ حنفیہ کے ہاں ایسی صورت میں رکوع ہی میں سجدہ ادا ہوجاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ افضل اور اولیٰ چونکہ سجدہ کرلینا ہی ہے اس لئے آپ ﷺ نے افضل طریقہ کو اختیار فرمایا۔

【295】

سجدہ تلاوت قاری اور سامع دونوں پر واجب ہوتا ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ ہمارے سامنے قرآن کریم پڑھتے اور جب سجدے کی کسی آیت پر پہنچتے تو تکبیر کہتے اور سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ سجدہ کرتے تھے۔ (ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے یہ بات بصراحت معلوم ہوگئی کہ سجدہ تلاوت قاری (یعنی قرآن کریم پڑھنے والے) اور سامع (یعنی تلاوت سننے والے) دونوں پر واجب ہے۔ صرف سجدے کے وقت تکبیر کہنی چاہیے یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سجدہ تلاوت کے لئے تکبیر صرف سجدے میں جاتے وقت کہنی چاہیے چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا اسی پر عمل ہے۔ البتہ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک یہ مسئلہ ہے کہ جب کوئی آدمی سجدہ تلاوت کرے تو اسے پہلے ہاتھ اٹھا کر تکبیر تحریمہ کہنی چاہیے اس کے بعد سجدے کے لئے دوسری تکبیر کہے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت کی روشنی میں یہ ثابت ہے کہ سجدہ تلاوت کے وقت پہلے کھڑے ہونا اور اس کے بعد سجدے میں جانا مستحب ہے۔

【296】

سجدہ تلاوت قاری اور سامع دونوں پر واجب ہوتا ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فتح مکہ کے سال (کوئی) آیت پڑھی چناچہ تمام لوگوں نے (رسول اللہ ﷺ کے ساتھ) سجدہ تلاوت کیا سجدہ کرنے والوں میں سے بعض تو سواریوں پر تھے (اور بعض زمین پر تھے سواریوں والے اپنے ہاتھ ہی پر سجدہ کرتے تھے۔ (ابوداؤد) نشریج رسول اللہ ﷺ نے یا تو آیت سجدہ کے ساتھ کچھ اور آیتیں بھی ملا کر پڑھی ہوں گی یا پھر محض آیت سجدہ بیان جواز کے لئے پڑھی ہوگی، کیونکہ حنفیہ کے مسلک کے مطابق صرف آیت سجدہ کی تلاوت کرنا خلاف استحباب ہے۔ سواریوں والے اپنے ہاتھ ہی پر سجدہ کرتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنی سواریوں مثلاً گھوڑے وغیرہ پر بیٹھے ہوئے تھے وہ اپنے ہاتھوں کو زین وغیرہ پر رکھ کر ان پر سجدہ کرتے تھے اس طرح انہیں حالت سجدہ میں زمین کی سی سختی حاصل ہوجاتی تھی۔ حضرت ابن ملک فرماتے ہیں کہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی آدمی گردن جھکا کر اپنے ہاتھوں پر سجدہ کرے تو اس کا سجدہ جائز ہوجائے گا اور یہی قول حضرت امام ابوحنیفہ کا ہے البتہ حضرت امام شافعی کا یہ قول نہیں ہے۔ ابن ملک نے حضرت امام اعظم کا جو یہ قول ذکر کیا ہے یہ ان کے مسلک میں غیر مشہور ہے چناچہ شرح منیہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی ہجوم واژدہام کی وجہ سے اپنی ران پر سجدہ کرلے تو جائز ہوگا اسی طرح ران کے علاوہ کسی دوسرے عضو پر بھی سجدہ کرنا جائز ہے جب کہ اسے کوئی ایسا عذر پیش ہو جو سجدہ کرنے سے مانع ہو، بغیر عذر ایسا کرنا جائز نہ ہوگا نیز اگر کوئی آدمی اپنا ہاتھ زمین پر رکھ کر اس پر سجدہ کرلے تو اگرچہ اسے کوئی عذر نہ ہو یہ جائز ہے مگر مکروہ ہوا۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی بیمار ہو سجدے کی کوئی آیت پڑھے اور سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو تو اسے سجدے کا اشارہ کرلینا کافی ہوگا۔

【297】

رسول اللہ کا مفصل سورتوں میں سجدہ نہ کرنا

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ مدینہ تشریف لانے کے بعد مفصل سورتوں میں سے کسی سورت میں سجدہ نہیں کیا۔ (ابوداؤد) تشریح حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ تشریف لانے سے پہلے مکہ میں تو مفصل سورتوں میں سجدہ تلاوت کیا اور ان کے ساتھ دوسرے لوگوں نے بھی کیا مگر جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لے آئے تو یہاں آپ نے مفصل سورتوں میں سجدہ تلاوت نہیں کیا۔ ابوہریرہ (رض) کی حدیث سے تعارض اس حدیث سے تو بصراحت یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں مفصل سورتوں میں سجدہ تلاوت نہیں کیا حالانکہ اس سے پہلے حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت (نمبر ایک) گزر چکی ہے کہ جس میں ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اَذَا السَّمَاء انْشَقَّتْ اور اِقْرَأْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ میں سجدہ کیا لہٰذا اب جب کہ ان دونوں حدیثوں میں تعارض پیدا ہوگیا تو ان میں سے کسی ایک کو راجح قرار دینا ہوگا اور راجح حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہوگی کیونکہ حضرت ابوہریرہ (رض) مدینہ میں سات ہجری میں اسلام لائے اور ظاہر ہے کہ ان کی روایت کا تعلق مدینہ ہی سے ہے اور فنی طور پر بھی حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت صحیح تر ہے پھر یہ کہ ان کے علاوہ بہت زیادہ صحابہ کی روایات ہیں کہ مفصل سورتوں میں سجدہ ہے نیز اصول ہے کہ مثبت پہلو منفی پہلو پر فوقیت رکھتا ہے اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی روایت سے منفی پہلو ثابت ہوتا ہے جب کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت مثبت پہلو کو ظاہر کر رہی ہے۔ لہٰذا حاصل یہ نکلا کہ مفصل سورتوں میں رسول اللہ ﷺ سے سجدہ کرنا ثابت ہے اس لئے ان سورتوں میں سجدے کی جو آیتیں ہیں ان کی تلاوت یا سماعت پر سجدہ کرنا چاہیے۔ مفصل چھوٹی سورتوں کو کہتے ہیں کہ وہ سورت حجرات سے آخر تک ہیں۔

【298】

سجدہ تلاوت کی تسبیح

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کونین ﷺ رات کو قرآن کے سجدوں میں یہ تسبیح پڑھتے تھے۔ سَجَدَ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہ وَشَقَّ سَمْعَہ وَبَصَرَہ، بِحَوْلِہ وَقُوَّتِہ میرے منہ نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا اور اپنی قوت وقدرت سے کان اور آنکھیں بنائیں (ابوداؤد جامع ترمذی، سنن نسائی) اور حضرت امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تشریح رات کی قید اتفاقی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے یہ تسبیح رات ہی میں سنی ہوگی چناچہ اسی کو بیان کیا ورنہ تو رات یا دن کی قید کے بغیر مطلقاً طور پر بھی یہ ثابت ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ تسبیح سجدہ تلاوت میں پڑھتے تھے نیز بعض روایات میں یہ تسبیح بھی منقول ہے۔ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ میرے پروردگار میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا مجھے بخش دے۔ حنفیہ کا صحیح مسلک یہ ہے سجدہ تلاوت میں سبحان ربی الاعلی پڑھنا کافی ہے جیسا کہ نماز کے سجدوں میں پڑھتے ہیں لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ سجدہ تلاوت کی جو تسبیحیں ثابت ہیں ان کا پڑھنا اولیٰ ہے۔

【299】

سجدہ تلاوت کی تسبیح

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک روز ایک آدمی سرور کونین ﷺ کی خدمت اقدس حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے آج رات خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ گویا ایک درخت کے نیچے میں نماز پڑھ رہا ہوں اور یہ بھی دیکھا کہ جب میں نے سجدہ تلاوت کیا تو اس درخت نے بھی میرے ساتھ سجدے کے وقت سجدہ کیا تو میں نے یہ سنا کہ وہ درخت یہ دعا پڑھتا تھا۔ اَللّٰہُمَّ اکْتُبْ لِیْ بِھَا عِنْدَکَ اُجْرَ وضَعَ عَنِّیْ بِھَا وِزْرًا وَاجْعَلَھَا لِیْ عِنْدَکَ زُخْرًا وَتَقَبَّلَھَا مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَھَا مِنْ عَبْدِکَ دَاؤْدَ اے اللہ ! میرے لئے اس سجدے کا ثواب اپنے پاس رکھ اور اس کی وجہ سے میرے گناہ معاف فرما اور اس سجدے کو میرے واسطے خیر بنا کر اپنے پاس رکھ اور میرے اس سجدے کو ایسا قبول کر جیسا اپنے بندے داؤد سے قبول کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا پڑھنے کی غرض سے اسی مجلس میں یا بعد میں سجدے والی آیت پڑھ کر سجدہ تلاوت کیا اور میں نے آپ ﷺ کو (دعا کے) وہی کلمات کہتے ہوئے سنے جو اس آدمی نے درخت سے نقل کئے تھے یعنی آپ ﷺ نے وہی دعا پڑھی۔ (جامع ترمذی ) اس روایت کو ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے مگر ان کی روایت میں وَتَقَبَّلَھَا مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَھَا مِنْ عَبْدِکَ دَاؤْدَ کے الفاظ نہیں ہیں نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی نے سورت ص کے سجدے کی آیت پڑھی ہوگی اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ہے کہ آپ ﷺ نے بھی یا تو سورة ص ہی کے سجدے والی آیت پڑھی ہوگی یا پھر سورہ، سجدہ کی تلاوت کی ہوگی۔

【300】

سجدہ تلاوت کی تسبیح

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے ایک روز سورت النجم کی تلاوت فرمائی اور اس میں سجدہ کیا آپ ﷺ کے پاس جو لوگ تھے انہوں نے بھی سجدہ کیا۔ مگر قریش کے ایک بوڑھے نے کنکریاں یا مٹی کی ایک مٹھی لے کر اپنی پیشانی پر لگالی اور بولا کہ میرے لئے یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اس واقعہ کے بعد دیکھا کہ وہ آدمی کفر کی حالت میں مارا گیا۔ (امام بخاری و مسلم) اور صحیح البخاری نے ایک روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ وہ بوڑھا امیہ بن خلف تھا۔ تشریح یہ واقعہ فتح مکہ سے پہلے کا ہے امیہ بن خلف قریش کا ایک معزز سردار اور ذی اثر فرد تھا اسلام اور رسول اللہ ﷺ کے خلاف کی جانے والی تمام سازشوں میں اس کا پارٹ اہم ہوتا تھا اسے اپنی بڑائی پر بڑا ناز تھا، چناچہ اس موقع پر جب کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مجلس میں موجود تمام ہی اشخاص نے کیا مسلمان اور کیا کفار جب رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سجدہ کیا تو اس آدمی نے ازراہ غرور وتکبر سجدہ نہیں کیا بلکہ یہ حرکت کی کہ کنکری یا مٹی کی ایک مٹھی لے کر اسے پیشانی سے لگا لیا۔

【301】

سورۃ ص کا سجدہ

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے سورت ص میں سجدہ کیا اور فرمایا کہ حضرت داؤد نے سورت ص کا یہ سجدہ توبہ کی قبولیت کے لئے کیا تھا (جس کی تفصیل سورت ص میں مذکور ہے) اور ہم یہ سجدہ (ان کی قبولیت پر) شکر گزاری کے لئے کرتے ہیں۔ (سنن نسائی)

【302】

ان اوقات کا بیان جن میں نماز پڑھنا ممنوع ہے

اس باب کے تحت وہ احادیث نقل کی جائیں گی جو اوقات نہی کو ظاہر کرتی ہیں یعنی جن اوقات میں نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ لہٰذا یہ باب ان تینوں اوقات کو شامل ہے جن میں نماز حرام ہے جیسے طلوع آفتاب کا وقت، غروب آفتاب کا وقت اور استواء کا وقت یعنی نصف النہار کا وقت اور ان اوقات کو بھی شامل ہے جیسے فجر ( طلوع صبح صادق سے طلوع آفتاب تک فجر کے پورے وقت میں فجر کی دو سنتوں کے علاوہ دوسرے نوافل مکروہ ہیں البتہ فرض و واجب کی قضا پڑھی جاسکتی ہے مگر عصر کا پورا وقت مکروہ نہیں بلکہ فرض نماز کے بعد نفل پڑھنا مکروہ ہے البتہ فرض و واجب کی قضا عصر کے فرض بعد بھی پڑھ سکتے ہیں) ۔ اور عصر کی نماز کے بعد کا وقت۔ حنفیہ کے مسلک میں یہ نہی فرض اور نفل دونوں کو شامل ہے چناچہ پہلے تینوں اوقات یعنی طلوع آفتاب، غروب آفتاب اور استواء کے وقت نماز جائز نہیں ہے خواہ ادا ہو یا قضا البتہ اسی دن کی عصر کی نماز جائز ہے اسی طرح نہ جنازہ کی نماز جائز ہے اور نہ تلاوت کا سجدہ جائز ہے ہاں اس جنازے کی نماز جائز ہوگی جو انہیں اوقات میں پڑھا گیا ہو اسی طرح وہ سجدہ تلاوت جائز ہوگا جب آیت سجدہ انہیں اوقات میں پڑھی گئی ہو۔ تاہم ان اوقات سے مؤخر کرنا اولیٰ ہوگا۔ نماز جنازہ سجدہ تلاوت اور قضا نماز فجر کے پورے وقت میں اور عصر کی نماز کے بعد بھی جائز ہے نفل نماز ان اوقات میں بھی مکروہ ہے اگر کوئی آدمی ان اوقات میں نفل نماز شروع کر دے گا وہ لازم ہوجائے گی یعنی اس وقت سے اسے نماز توڑ دینی چاہیے اور پھر وقت مکروہ کے نکل جانے کے بعد اس کی قضا پڑھنی چاہیے اور اگر کوئی آدمی نماز توڑے نہیں بلکہ اسی وقت پوری کرے تو وہ اس سے عہدہ برآ ہوجاتا ہے مگر نماز توڑ دینا ہی افضل ہے۔ حضرت امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک ان اوقات میں قضا نماز اور اس جنازے کی نماز جو اسی وقت لایا گیا ہو جائز ہے نیز تحیۃ المسجد کی نماز پڑھنی بھی جائز ہے اگر اتفاق سے مسجد میں داخل ہوجائے اور اگر کوئی آدمی قصدًا تحیۃ المسجد کی نماز پڑھنے کی خاطر مسجد میں ان اوقات میں آئے یا قضا نماز میں تاخیر اس مقصد سے کرے کہ انہیں اوقات میں پڑھے تو اس صورت میں جائز نہیں کیونکہ ان اوقات میں قصدا یہ نمازیں پڑھنا حدیث کے بموجب ممنوع ہے اسی طرح ان کے نزدیک ان اوقات میں کسوف کی نماز وضو کے بعد کی دو رکعت نماز اور احرام و طواف کی دو رکعت نماز نیز سجدہ تلاوت جس کی آیت انہیں اوقات میں پڑھی جائے جائز ہے۔ ان اوقات میں نماز پڑھنے کی کراہت حنفیہ کے نزدیک ہر وقت اور ہر جگہ ہے لیکن حضرت امام شافعی (رح) اور ان علماء کے نزدیک جو حضرت امام شافعی (رح) کے ساتھ ہیں جمعہ کے روز استواء یعنی نصف النہار کے وقت نماز جائز ہے نیز ان اوقات میں مکہ معظمہ میں بھی جائز ہے۔ اتنی بات سمجھ لیجئے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک اس سلسلے میں احوط (یعنی احتیاط پسندی پر مبنی) ہے کیونکہ جب کسی چیز کے بارے میں مباح اور حرام دونوں کے دلائل متعارض ہوں تو حرمت کے پہلو کو ترجیح دی جاتی ہے۔

【303】

طلوع وغروب آفتاب کے وقت نماز نہیں پڑھنی چاہیے

حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی آفتاب کے نکلنے اور ڈوبنے کے وقت نماز پڑھنے کا قصد نہ کرے۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب سورج کا کنارہ نکل آئے تو نماز چھوڑ دو یہاں تک کہ سورج خوب ظاہر ہوجائے یعنی (ایک نیزے کے بقدر بلند ہوجائے) نیز جب سورج کا کنارہ ڈوب جائے تو مطلقاً کوئی بھی نماز خواہ فرض ہو یا نفل چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ بالکل غروب ہوجائے اور آفتاب کے طلوع و غروب ہونے کے وقت نماز پڑھنے کا ارادہ نہ کرو اس لئے کہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کے الفاظ قصد نہ کرے سے حضرت امام شافعی (رح) نے یہ نیتجہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی ان اوقات میں قصدا تحیۃ المسجد اور قضا کی نماز پڑھے گا تو اس حدیث کی رو سے خلاف کرے گا ہاں اگر کوئی آدمی اتفاقا پڑھ لے تو جائز ہوگا لیکن حنفیہ فرماتے ہیں کہ حدیث کا مقصد مطلق طور پر ان اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کرنا ہے اس میں قصدًا یا اتفاقًا کی قید لگانا حدیث کی منشاء کے خلاف ہے۔ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان آفتاب نکلنے کا مطلب شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان آفتاب نکلنے کا مطلب اس کے سر کے دونوں جانبوں کے درمیان آفتاب نکلنا ہے یعنی شیطان طلوع آفتاب کے وقت آفتاب کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے تاکہ آفتاب اس کے سر کے دونوں جانبوں کے درمیان نکلے اور اس حرکت سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ آفتاب کو پوجتے ہیں شیطان ان کا قبلہ بن جائے چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اس وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے تاکہ اللہ کے ان باغیوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔

【304】

وہ تین اوقات جن میں نماز پڑھنا ممنوع ہے

اور حضرت عقبہ ابن عامر (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ تین وقتوں میں نماز پڑھنے اور اپنے مردوں کو دفن کرنے سے منع فرماتے تھے۔ اول آفتاب نکلنے کے وقت یہاں تک کہ بلند ہوجائے، دوسرے دوپہر کا سایہ قائم ہونے (یعنی نصف النہار) کے وقت یہاں تک کہ آفتاب ڈھل جائے اور تیسرے اس وقت جبکہ آفتاب ڈوبنے لگے یہاں تک کہ غروب ہوجائے۔ (صحیح مسلم) تشریح مردوں کو دفن کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان اوقات میں مردے دفن نہ کئے جائیں بلکہ اس کا مطلب جنازے کی نماز سے منع کرنا ہے کیونکہ مردے ہر وقت دفن کئے جاسکتے ہیں۔

【305】

فجر و عصر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھنی چاہیے

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا صبح (کی نماز) کے بعد اس وقت تک کہ (بقدر نیزہ) آفتاب بلند نہ ہوجائے کوئی نماز نہیں اور عصر کی نماز کے بعد اس وقت تک کہ آفتاب چھپ نہ جائے کوئی نماز نہیں۔ (صحیح مسلم) تشریح یہاں نفی سے مراد نماز کے کمال کی نفی ہے۔ اس لئے کہ ان دونوں اوقات میں نماز پڑھنا حرام نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے۔

【306】

نماز کے اوقات

اور حضرت عمر و ابن عبسہ (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ مدینہ تشریف لائے تو میں بھی مدینہ آیا اور آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا یہ یا رسول اللہ مجھے نماز کے اوقات بتا دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا صبح کی نماز پڑھو اور پھر نماز سے رک جاؤ جب تک کہ آفتاب طلوع ہو کر بلند نہ ہوجائے اس لئے کہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور اس وقت کافر (یعنی سورج کو پوجنے والے) اس کو سجدہ کرتے ہیں پھر (اشراق کی) نماز پڑھو کیونکہ اس وقت کی نماز مشہودہ ہے (یعنی فرشتے نمازی کی گواہی دیتے ہیں) اور اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں یہاں تک کہ (جب) سایہ نیزے پر چڑھ جائے اور زمین پر نہ پڑے (یعنی ٹھیک دوپہر ہوجائے) تو نماز سے رک جاؤ کیونکہ اس وقت دوزخ جھونکی جاتی ہے، پھر جب سایہ ڈھل جائے تو (ظہر کے فرض اور جو چاہو نفل) نماز پڑھو کیونکہ یہ وقت فرشتوں کے شہادت دینے اور حاضری کا ہے یہاں تک کہ تم عصر کی نماز پڑھ لو پھر نماز سے رک جاؤں یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوجائے کیونکہ آفتاب شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار (یعنی آ فتاب کو پوجنے والے) اس کی طرف سجدہ کرتے ہیں حضرت عمرو ابن عبسہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے (پھر) عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! وضو (کی فضیلت) کے متعلق (بھی) بتا دیجئے ! آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو آدمی وضو کا پانی لے اور (نیت کرنے اور بسم اللہ پڑھنے اور دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک دھونے کے بعد) کلی کرے اور ناک میں پانی ڈالے اس کے چہرے (کے اندر) کے منہ کے اور ناک کے نتھنوں کے (صغیرہ) گناہ جھڑ جاتے ہیں پھر جب وہ اپنے چہرے کو اللہ کے حکم کے مطابق دھوتا ہے تو اس کے چہرے کے گناہ اس کی داڑھی کے کناروں سے پانی کے ساتھ گرجاتے ہیں اور جب وہ اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوتا ہے تو اس کے دونوں ہاتھوں کے گناہ اس کی انگلیوں کے سرے سے پانی کے ساتھ گرجاتے ہیں اور جب وہ اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوتا ہے تو اس کے دونوں پاؤں کے گناہ اس کی انگلیوں کے سرے سے پانی کے ساتھ گرجاتے ہیں اور پھر (وضو سے فارغ ہو کر) جب وہ کھڑا ہوتا ہے اور نماز پڑھتا ہے نیز (نماز کے بعد) اللہ کی تعریف کرتا ہے ثنا بیان کرتا ہے (یعنی ذکر اللہ بہت زیادہ کرتا ہے) اور اسے اس بزرگی کے ساتھ جس کے وہ لائق ہے یاد کرتا ہے اور اپنے دل کو اللہ کے لئے فارغ (یعنی اس کی طرف متوجہ) کرتا ہے تو وہ (نماز کے بعد) گناہوں سے ایسا پاک ہو کر لوٹتا ہے گویا اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح حدیث کے الفاظ جب سایہ نیزے پر چڑھ جائے اور زمین پر نہ پڑے کا تعلق مکہ و مدینہ اور ان کے گرد و نواح سے ہے کیونکہ ان مقامات پر بڑے دنوں میں عین نصف النہار کے وقت سایہ زمین پر بالکل نہیں پڑتا۔ حدیث کے آخری الفاظ سے یہ مفہوم واضح ہوتا ہے کہ صغیرہ اور کبیرہ دونوں گناہ بخش دیئے جاتے ہیں تو اس سلسلے میں تحقیقی بات یہ ہے کہ صغیرہ گناہ تو ضرور بخش دیتے ہیں البتہ کبیرہ گناہوں کی بخشش کا انحصار حق تعالیٰ کی مشیت اور اس کی مرضی پر ہے کہ چاہے تو وہ کبیرہ گناہ بھی اپنے فضل و کرم سے بخش سکتا ہے۔

【307】

رسول اللہ ﷺ کا عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا

اور حضرت کریب (حضرت عبداللہ ابن عباس کے خادم) راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس، مسورابن مخرمہ اور عبدالرحمن ابن ازہر (رض) نے انہیں (یعنی کریب کو) حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی خدمت میں بھیجا اور ان سے تینوں نے کہا کہ (ہمارے طرف سے) حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں سلام پیش کر کے ان سے عصر کے بعد دو رکعت نماز کے بارے میں پوچھنا کریب فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان تینوں نے جس پیغام کو پہنچانے کے لئے مجھے بھیجا تھا میں نے وہ پیغام ان تک پہنچا دیا حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا کہ حضرت ام سلمہ (رض) ( کے پاس جاؤ اور ان) سے پوچھو میں (یہ جواب سن کر) ان تینوں صحابہ کرام کے پاس واپس لوٹ آیا، انہوں نے مجھے (پھر) حضرت ام سلمہ (رض) کے پاس بھیجا، حضرت ام سلمہ (رض) نے (میرا سوال سن کر) فرمایا کہ میں نے سرور کونین ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ ان دونوں رکعتوں (کے پڑھنے) سے منع فرمایا کرتے تھے۔ پھر میں نے (ایک دن) دیکھا کہ آپ ﷺ ان دونوں رکعتوں کو پڑھتے ہیں۔ جب آپ ﷺ (ان دونوں رکعتوں کو مسجد میں پڑھ کر گھر میں یا باہر صحن میں پڑھ کر مکان کے اندرونی حصے میں داخل ہوئے تو میں نے خادمہ کو آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا اور اس سے کہا کہ تم رسول اللہ ﷺ سے جا کر کہو کہ ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے آپ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ ان دونوں رکعتوں ( کے پڑھنے) سے منع فرماتے تھے اور (اب) میں نے آپ ﷺ کو دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے (اس کی کیا وجہ ہے) رسول اللہ ﷺ نے (خادمہ سے کہا کہ ام سلمہ (رض) سے جا کر کہو کہ) ابوامیہ کی بیٹی ! تم نے عصر کے بعد دو رکعتوں کے (پڑھنے کے) بارے میں پوچھا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ قبیلہ عبدالقیس کے کچھ لوگ (اسلامی تعلیمات اور احکام سیکھنے کی غرض سے) میرے پاس آئے تھے چناچہ (انہیں دینی احکامات بتانے کی مشغولیت میں) ظہر کے بعد کی میری دونوں رکعتیں رہ گئی تھیں انہیں کو میں نے عصر کے بعد پڑھا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح سائلین کا مطلب یہ تھا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے عصر کی نماز کے بعد نفل وغیرہ پڑھنے سے منع فرمایا تھا تو خود عصر کے بعد دو رکعت نماز کیوں پڑھی تھی چناچہ انہوں نے حضرت کریب کو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس کی تحقیق کریں اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے حقیقت حال معلوم کریں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے حضرت کریب کو حضرت ام سلمہ (رض) کا حوالہ دیا کہ ان سے معلوم کیا جائے، کیونکہ حضرت ام سلمہ (رض) اس بارے میں پوری طرح واقفیت رکھتی تھیں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ کے اس عمل کے بارے میں پہلے ہی تحقیق کرلی تھی، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے جب حضرت کریب کو حضرت ام سلمہ (رض) کے پاس جانے کو کہا تھا تو انہیں قاعدے میں حضرت ام سلمہ (رض) کے پاس ہی جانا چاہیے تھا لیکن وہ بپ اس ادب پہلے ان تینوں صحابیوں کے پاس آئے جن کے پیغامبر بن کر وہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے پاس گئے تھے، جب ان صحابیوں نے انہیں حضرت ام سلمہ (رض) کے پاس بھیجا تب وہ ان کے پاس گئے اور ان تینوں صحابیوں کا پیغام انہیں پہنچا کر حقیقت حال سے مطلع ہوئے۔ حضرت ام سلمہ (رض) کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد جو دو رکعتوں سے منع فرماتے تھے تو ان دو رکعتوں سے آپ ﷺ کی مراد مطلقاً نفل نماز پڑھنا تھا اور اسی کے ضمن میں ان دونوں رکعتوں کی نہی بھی شامل تھی لیکن یہ بھی احتمال ہے۔ کہ آپ ﷺ نے ان دونوں رکعتوں ہی کے پڑھنے سے منع فرمایا ہو۔ ابوامیہ حضرت ام سلمہ (رض) کے والد کا نام تھا چناچہ رسول اللہ ﷺ نے خادمہ سے فرمایا کہ ام سلمہ (رض) سے اس سوال کا جواب اس طرح دینا یا یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے براہ راست حضرت ام سلمہ کو جواب دیتے ہوئے ابوامیہ کی بیٹی ! کہہ کر مخاطب فرمایا۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ علم دین کی تعلیم احکام شریعت کی تبلیغ اور اللہ کی مخلوق کی ہدایت کرنا نماز نفل پر مقدم ہے اگرچہ سنت غیر موکدہ ہی کیوں نہ ہوں۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی فرض نماز کے بعد کی سنتوں کو موخر کیا اور پہلے وفد عبدالقیس کو دینی مسائل اور احکام شریعت کی تعلیم دی۔ یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر نوافل وقتیہ فوت ہوجائیں تو انہیں دوسرے وقت قضا پڑھ لینا چاہیے جیسا کہ حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے مسلک میں نوافل وقتیہ کو صرف انہیں کے اوقات میں پڑھنا چاہیے غیر وقت میں ان کی قضاء نہیں ہے چناچہ ان کی جانب سے اس حدیث کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی فرض نماز کے بعد ہی سنت کی دونوں رکعتیں پڑھنی شروع کردی ہوں گی مگر وفد عبدالقیس کو علم دین کی تعلیم دینے کی ضرورت کی وجہ سے آپ ﷺ نے نماز توڑ دی ہوگی اس وجہ سے آپ ﷺ نے ان دونوں رکعتوں کی قضا عصر کی نماز کے بعد پڑھی۔ اس موقعہ پر اگر کہ کہا جائے کہ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد جو دو رکعت نماز پڑھی تھی وہ دراصل ظہر کے فرض کے بعد کی سنتیں تھیں جو وفد عبدالقیس کے ساتھ تعلیم دین کی مشغولی کی بناء پر پڑھنے سے رہ گئی تھیں لیکن ان احادیث کا کیا جواب ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تو ہمیشہ ہی عصر کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے چناچہ صحیح البخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی یہ روایت منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے رسول اللہ ﷺ کو اس دنیا سے اٹھایا آپ ﷺ نے عصر کے بعد کی دو رکعتیں پڑھنا نہ چھوڑیں یہاں تک کہ آپ ﷺ نے پروردگار سے ملاقات کی۔ اس قسم کی دیگر روایتیں بھی منقول ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے کہ عصر کی فرض نماز کے بعد دوسری نماز پڑھنا مکروہ ہے چناچہ جمہور علماء کی بھی یہی رائے ہے نیز امیرالمومنین حضرت عمر فاروق (رض) کے بارے میں بھی ثابت ہے کہ وہ عصر کی فرض نماز کے بعد دوسری نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ ایسے لوگوں کو مارتے بھی تھے جو عصر کے بعد نفل وغیرہ پڑھتے تھے۔ لہٰذا۔ اب یہی کیا جائے گا کہ اس ممانعت کے باوجود رسول اللہ ﷺ کا عصر کی نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا دراصل آپ ﷺ کے خصائص میں سے تھا جیسا کہ آپ ﷺ صوم وصال (پے در پے روزے) رکھتے تھے مگر دوسروں کو اس سے منع فرماتے تھے۔

【308】

فجر کی سنتوں کی قضا کا مسئلہ

حضرت محمد ابن ابراہیم، قیس ابن عمرو سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ( ایک دن) سرور کونین ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ فجر کی فرض نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھا رہا ہے، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ صبح کی نماز دو کعت ہے (پھر فرمایا کہ) دو رکعت ہی پڑھو ! اس آدمی نے عرض کیا کہ فجر کی فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں (سنت) میں نے نہیں پڑھی تھیں انہیں کو میں نے اس وقت پڑھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ ( یہ سن کر) خاموش ہوگئے۔ (سنن ابوداؤد) امام ترمذی نے بھی اس طرح نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کی اسناد متصل نہیں ہے کیونکہ محمد بن ابراہیم کا قیس ابن عمرو سے سننا ثابت نہیں ہے، نیز شرح السنہ اور مصابیح کے بعض نسخوں میں قیس ابن فہد سے اسی طرح منقول ہے۔ تشریح حدیث کے جملہ صَلٰوۃُ الصُّبْحِ رکعتین سے پہلے ایک لفظ مقدر ہے یعنی یہ عبارت پوری طرح یوں ہے اِجْعَلُوا صَلٰوۃُ الصُّبْحِ رَکْعَتَیْںِ ۔ لفظ رکعتین نفی زیادیت کی تاکید کے لئے مکرر فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فجر کی فرض دو ہی رکعتیں پڑھو اس کے بعد اور کوئی نماز نہ پڑھو۔ رسول اللہ ﷺ نمازی کا جواب سن کر خاموش رہے۔ محدیثن کی اصطلاح میں اس خاموشی کو تقریر کہا جاتا ہے رسول اللہ کے سامنے کوئی عمل کیا گیا اور آپ ﷺ نے اس پر سکوت فرمایا گویا آپ ﷺ اس عمل سے راضی ہوئے، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر فجر کی فرض نماز سے پہلے کی دو سنتیں نہ پڑھی جاسکیں تو فرض پڑھنے کے بعد ان کی قضا پڑھنی چاہیے، چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کا یہی مسلک ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام ابویوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک اس سلسلے میں یہ ہے کہ فجر کی سنتوں کی قضا نہ تو طلوع آفتاب سے پہلے ہے اور نہ طلوع کے بعد ہے لیکن سنتیں اگر فرض کے ساتھ فوت ہوں گی تو وہ بھی فرض کے ساتھ زوال آفتاب سے پہلے پہلے قضا پڑھی جائیں گی۔ حضرت امام محمد (رح) فرماتے ہیں کہ محض سنتوں کی بھی قضا پڑھی جاسکتی ہے مگر طلوع آفتاب کے بعد سے زوال آفتاب تک۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت ابویوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کی دلیل یہ ہے کہ سنتوں میں اصل عدم قضا ہے اور قضا واجب کے ساتھ مخصوص ہے اور حدیث جو سنتوں کے قضا کے اثبات میں وارد ہے وہ ان سنتوں کے بارے میں ہے جو فرض کے ساتھ فوت ہوگئی ہوں بقیہ سنتیں اپنی اصل ( عدم قضا پر رہیں گی یعنی ان کی قضا نہیں کی جائے گی جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو محمد ابن ابراہیم کی یہ حدیث چونکہ ضیعف ہے اس لئے اسے کسی مسلک کی بنیاد اور دلیل بنانا ٹھیک نہیں ہے۔ اسی طرح دوسرے اوقات کی سنتوں کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ وقت کے بعد تنہا ان کی قضا نہ کی جائے البتہ وہ سنتیں جو فرض کے ساتھ فوت ہوگئی ہوں فرض کے ساتھ ان کی قضا کے بارے میں اختلاف ہے۔

【309】

خانہ کعبہ کا طواف ہر وقت کیا جا سکتا ہے

اور حضرت جبیر ابن مطعم (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا اے عبد مناف کی اولاد ! کسی کو اس گھر (خانہ کعبہ) کا طواف کرنے سے نہ روکو ! اور رات دن میں جس وقت کوئی چاہیے اسے نماز پڑھنے دو ۔ (جامع ترمذی ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح خانہ کعبہ کی خدمت عبد مناف کی اولاد کے سپرد تھی اور وہاں کے انتظامات و نگرانی انہیں کے ذمہ تھی چناچہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم فرمایا کہ رات و دن کے کسی بھی حصے میں کوئی خانہ کعبہ کا طواف کرنا چاہیے تو اسے نہ روکو بلکہ اسے طواف کرنے دو ، چناچہ رات و دن کے ہر حصے میں خواہ آفتاب کے طلوع کا وقت ہو یا استواء (نصف النہار) کا وقت ہو تمام علماء کے نزدیک خانہ کعبہ کا طواف کیا جاسکتا ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ خانہ کعبہ میں ہر وقت نماز پڑھنے کا مسئلہ البتہ اس بارے میں علماء کا یہاں اختلاف ہے کہ خانہ کعبہ میں رات و دن کے کسی بھی حصہ میں خواہ اوقات مکروہہ کیوں نہ ہوں نماز پڑھی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک اس حدیث کی بناء پر خانہ کعبہ میں ہر وقت کوئی بھی نماز خواہ وہ طواف کی دو رکعتیں ہوں یا دوسری نماز ہو پڑھی جاسکتی ہے۔ حضرت امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ خانہ کعبہ میں صرف طواف کی دو رکعتیں کسی وقت بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک خانہ کعبہ کے اندر اوقات مکروہ میں کوئی بھی نماز جائز نہیں ہے اوقات کی حرمت اور کراہت کے سلسلے میں مکہ کا حکم بھی دیگر شہروں کی طرح ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اوقات کی حرمت و کراہت کا حکم اور ان میں نماز پڑھنے کی ممانعت کے سلسلے میں جو احادیث منقول ہیں وہ سب عام ہیں ان میں کسی جگہ اور کسی شہر کی کوئی تخصیص نہیں ہے کہ فلاں جگہ تو ان اوقات میں نماز پڑھنی جائز ہے اور فلاں جگہ ناجائز ہے۔ جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کی مراد یہ ہے کہ خانہ کعبہ میں جس وقت چاہے نماز پڑھی جاسکتی البتہ اوقات مکروہ میں وہاں بھی نماز نہیں پڑھی جاسکتی۔ اس تاویل سے تمام احادیث میں موافقت اور مطابقت بھی ہوجاتی ہے جو ایک ضروری چیز ہے۔

【310】

جمعہ کے روز نصف النہار کے وقت نماز پڑھنے کا مسئلہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے ٹھیک دوپہر کے وقت جب تک کہ آفتاب ڈھل نہ جائے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے البتہ جمعہ کے دن (جائز ہے) ۔ (شافعی) تشریح حضرت امام شافعی (رح) کا تو یہی مسلک ہے کہ جمعہ کے روز ٹھیک دوپہر کے وقت بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک جمعہ کے روز بھی نصف النہار کے وقت نماز پڑھنی درست نہیں ( امام اعظم کا مسلک تو یہی ہے جو یہاں نقل کیا گیا ہے مگر امام ابویو سف کا قول صحیح ہے اور معتمد کذا فی الاشباہ) ہے اس لئے کہ وہ احادیث جن میں مطلقاً نہی ثابت ہے اس حدیث کے مقابلے میں زیادہ مشہور ہیں اور یہ حدیث ضعیف ہے ان احادیث کا مقابلہ نہیں کرسکتی یا پھر یہ کہا جائے گا کہ قاعدے کے مطابق کسی چیز کے بارے میں حرام اور مباح دونوں کے دلائل ہوں تو حرام کے دلائل کو ترجیح دی جائے گی۔

【311】

جمعہ کے روز نصف النہار کے وقت نماز پڑھنے کا مسئلہ

اور حضرت ابوالخیل حضرت ابوقتادہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ ٹھیک دوپہر کے وقت جب تک کہ سورج نہ ڈھل جائے نماز پڑھنے کو مکروہ سمجھتے تھے علاوہ جمعہ کے دن کے۔ نیز آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ علاوہ جمعہ کے دن کے روزانہ (دوپہر کے وقت) دوزخ جھونکی جاتی ہے۔ اسی روایت کو امام ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت ابوقتادہ (رض) سے ابوالخلیل کی ملاقات ثابت نہیں ہے (لہٰذا اس حدیث کی اسناد متصل نہیں ہے) ۔

【312】

اوقات مکروہ

حضرت عبداللہ صنابحی (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس کے ساتھ شیطان کا سینگ ہوتا ہے پھر جب وہ بلند ہوجاتا ہے تو وہ الگ ہوجاتا ہے پھر جب دوپہر ہوتی ہے تو شیطان آفتاب کے قریب آجاتا ہے اور جب آفتاب غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے تو شیطان اس کے قریب آجاتا ہے اور جب آفتاب غائب (یعنی غروب) ہوجاتا ہے تو شیطان اس سے جدا ہوجاتا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے ان اوقات میں (یعنی آفتاب کے طلوع و غروب کے وقت اور ٹھیک دوپہر کے وقت) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (مالک، مسند احمد بن حنبل، سنن نسائی ) تشریح رسول اللہ ﷺ نے ان اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے نماز خواہ حقیقۃً ہو یا حکماً جیسے نماز جنازہ یا سجدہ تلاوت اور امام مالک (رح) نے باوجود اس کے کہ یہ روایت خود نقل کی ہے مگر وہ ٹھیک دوپہر کے وقت نماز کے حرام ہونے کے قائل نہیں ہیں بلکہ انہوں نے فرمایا ہے کہ ہم نے اہل فضل کو دیکھا ہے کہ وہ کوشش کرتے تھے اور دوپہر میں نماز ادا کرتے تھے۔

【313】

نماز عصر کے بعد کوئی نماز جائز نہیں

اور حضرت ابوبصرہ غفاری فرماتے ہیں کہ ( ایک دن) سرور کونین ﷺ نے مقام مخمص میں ہمیں عصر کی نماز پڑھائی اور پھر فرمایا کہ یہ نماز تم سے پہلے لوگوں پر لازم کی گئی تھی لیکن انہوں نے ضائع کردیا (یعنی نہ تو انہوں نے اس پر مداومت کی اور نہ اس کے حقوق ادا کئے) لہٰذا جو آدمی اس نماز کی حفاظت کرے گا (یعنی اس کو ہمیشہ پڑھتا اور اس کے حقوق ادا کرتا رہے گا) اس کو دوگنا ثواب ملے گا اور (آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ) عصر کے بعد کوئی نماز نہیں جب تک کہ شاہد نہ نکلے اور شاہد ستارہ ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح دوگنا ثواب کا مطلب یہ ہے کہ ایک ثواب تو اس لئے ملے گا کہ یہ (یعنی نماز پڑھنا) نیک عمل ہے اور ہر نیک عمل پر ثواب ملتا ہے اور دوسرا ثواب اس نماز کی محافظت کرنے کی وجہ سے ملے گا برخلاف پچھلی قوموں کے کہ انہوں نے اس کی محافظت نہیں کی، اس لئے وہ مستحق عذاب ہوئے۔ ستارہ کو شاہد اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ رات کو حاضر ہوتا ہے یعنی طلوع ہوتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک غروب نہ ہوجائے عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔

【314】

عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کی ممانعت

اور حضرت معاویہ (رض) نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ تم لوگ نماز پڑھتے ہو اور ہم سرور کونین ﷺ کی صحبت میں رہے لیکن ہم نے آپ ﷺ کو یہ دو رکعتیں پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ آپ ﷺ نے تو ان سے ( یعنی عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے سے) منع فرمایا ہے۔ (صحیح البخاری ) تشریح دیگر روایات میں تو صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے تھے لیکن یہاں حضرت معاویہ (رض) اس سے انکار کر رہے ہیں۔ لہٰذا اس حدیث کی تاویل یہ کی جائے گی کہ حضرت معاویہ (رض) کے ارشاد کی مراد آپ ﷺ یہ دو رکعتیں باہر لوگوں کے سامنے تو پڑھتے نہیں تھے۔ البتہ گھر میں عام لوگوں کی نگاہوں سے الگ ہو کر پڑھتے ہوں گے تاکہ دوسرے لوگ اس سلسلے میں آپ ﷺ کی پیروی نہ کریں کیونکہ عصر کے بعد یہ دو رکعتیں صرف رسول اللہ ﷺ ہی کو پڑھنی درست تھیں دوسرے لوگوں کے لئے جائز نہیں تھیں۔ حضرت امام طحاوی (رح) اس مسئلے میں کہ آیا عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا جائز ہیں یا نہیں ؟ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے متواتر احادیث ثابت ہیں کہ آپ ﷺ نے عصر کی فرض نماز پڑھ لینے کے بعد کوئی دوسری نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے نیز صحابہ کا عمل بھی اسی پر رہا ہے اس واسطے یہ کسی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اس کے کچھ خلاف کرے یعنی عصر کے بعد نماز پڑھنے کو جائز قرار دے۔

【315】

عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کی ممانعت

اور حضرت ابوذر (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے کعبہ کے زینے پر چڑھ کر فرمایا کہ جس آدمی نے مجھے پہچانا (یعنی میرا نام جان لیا) اس نے مجھے (یعنی میری سچائی کو) پہچان لیا اور جس نے مجھ کو نہیں پہچانا تو (میں اس کو بتادینا چاہتا ہوں کہ میں جندب ہوں میں نے سرور کونین ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ صبح کی نماز کے بعد جب تک آفتاب طلوع نہ ہوجائے کوئی نماز نہیں ہے اور نہ عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز ہے جب تک آفتاب غروب نہ ہوجائے مگر مکہ میں مگر مکہ میں مگر مکہ میں (مسند احمد بن حنبل، رزین) تشریح خانہ کعبہ کا دوازہ چونکہ بلند ہے اس لئے اس پر چڑھنے کے لئے زینہ تھا چناچہ اب بھی ایک چوبی زینے منبر کی شکل میں ہے جو خانہ کعبہ کے سامنے چاہ زمزم کے پاس رکھا رہتا ہے جب خانہ کعبہ کے اندر داخلہ ہوتا ہے تو اس کو دروازے کے سامنے لگا دیتے ہیں اور پھر اس کے بعد اس زینے کو وہاں سے ہٹا کر اپنی جگہ رکھ دیتے ہیں لہٰذا احتمال ہے کہ اس وقت بھی اس قسم کا یا کسی دوسری طرح کا زینے ہوگا جس کے ذریعے خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوتے ہوں گے۔ بہر حال حضرت ابوذر (رض) نے کہ جن کا نام جندب تھا۔ خانہ کعبہ کے زینے پر چڑھ کر یہ بات کہی تاکہ لوگ ان کی صداقت شعاری اور سچائی کی بناء پر حدیث کو صحیح جانیں۔ اس طرح حضرت ابوذر (رض) نے گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ ابوذر (رض) زیادہ کسی راست گو اور سچے انسان پر نہ تو آسمان نے سایہ کیا اور نہ زمین نے اپنے اوپر اٹھایا۔ مکہ مکرمہ میں اوقات مکروہہ میں نماز کے جائز ہونے کے مسئلے کو اس سے پہلے حدیث نمبر سات میں بتایا جا چکا ہے اس موقعہ پر تو صرف اتنی بات جان لیجئے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔

【316】

جماعت اور اس کی فضیلت کا بیان

جماعت کی فضیلت اور تاکید میں صحیح احادیث اس کثرت سے وارد ہیں کہ اگر سب کو یکجا کیا جائے تو ایک دفتر تیار ہوسکتا ہے اس باب کے تحت اسی قسم کی احادیث نقل کی جائیں گی جن سے جماعت کی فضیلت و تاکید اور اس کے احکام و مسائل کا علم حاصل ہوگا۔ ان احادیث کو دیکھنے کے بعد یقینی طور پر آپ یہی نتیجہ اخذ کریں گے کہ جماعت نماز کی تکمیل میں ایک اعلیٰ درجے کی شرط ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے کبھی جماعت کو ترک نہیں فرمایا حتی کہ حالت مرض میں جبکہ آپ ﷺ کے لئے خود چل کر مسجد میں پہنچنا ممکن نہ تھا دو آدمیوں کے سہارے سے مسجد میں تشریف لے گئے اور جماعت سے نماز پڑھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت محمد یہ میں جماعت کا بڑا اہتمام کیا گیا ہے اور ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ نماز جیسی عظیم عبادت کی شان اسی کی متقاضی تھی کہ جس چیز سے اس کی تکمیل ہو اسے اعلیٰ درجے پر پہنچایا جائے۔ جماعت فرض و واجب ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ آیا جماعت سنت ہے یا واجب اور یا فرض عین ہے یا فرض کفایہ ؟ چناچہ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جماعت فرض عین ہے الا کسی عذر کی وجہ سے، یہ قول امام احمد بن حنبل، داؤد، عطاء اور ابوثورِ رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا ہے بعض علماء کا قول یہ ہے کہ جو کوئی نماز کے لئے اذان سنے اور مسجد میں حاضر نہ ہو تو اس کی نماز درست نہیں، حضرت امام شافعی کے (رح) کے نزدیک جماعت فرض کفایہ ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے متبعین رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک یہ ہے کہ جماعت سنت موکدہ واجب کے قریب ہے لیکن فقہ کی کتابوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ جماعت کے بارے میں حنفی فقہاء کے دو قول ہیں بعض کتابوں میں جماعت کو واجب لکھا گیا ہے اور بعض میں سنت موکدہ اور وجوب ہی کا قول راجح اور اکثر محققین حنفیہ کا مسلک بیان کیا گیا ہے چناچہ مشہور محقق حضرت ابن ہمام لکھتے ہیں کہ ہمارے اکثر مشائخ کا مسلک یہی ہے کہ جماعت واجب ہے لیکن اس کو سنت اس لئے کہا جاتا ہے کہ جماعت کا ثبوت سنت یعنی حدیث سے ہے نہ یہ کہ خود جماعت سنت ہے جیسا کہ نماز عیدین، وہ واجب ہے مگر اسے سنت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کا ثبوت حدیث سے ہے۔ جماعت کے احکام و مسائل کتاب بدائع میں لکھا ہے کہ جماعت کے لئے مسجد میں حاضر ہونا ہر عقال بالغ غیر معذور پر واجب اور اگر ایک مسجد میں جماعت نہ ملے تو دوسری مسجدوں میں پھرنا واجب نہیں ہے البتہ جماعت کی سعادت حاصل کرنے کی خاطر اگر دوسری مسجدوں میں جائے تو یہ اچھی ہی بات ہوگی، قدوری نے لکھا ہے کہ اس صورت میں کہ اگر مسجد میں جماعت نہ ملے، تو چاہیے کہ اہل و عیال کو جمع کر کے گھر ہی میں جماعت سے نماز پڑھ لی جائے۔ اس مسئلے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ محلے کی مسجد میں جماعت افضل ہے یا جامع مسجد میں، اگر ایک محلے میں دو مسجدیں ہوں تو ان میں سے قدیم مسجد کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر دونوں برابر ہوں تو پھر جو مسجد قریب ہو اسے اختیار کیا جائے، جماعت نماز تراویح میں اگرچہ ایک قرآن مجید جماعت کے ساتھ ہوچکا ہو اور نماز کسوف کے لئے سنت موکدہ ہے، رمضان کے وتر میں جماعت مستحب ہے رمضان کے علاوہ اور کسی زمانہ کے وتر میں جماعت مکروہ تنزیہی ہے مگر اس کے مکروہ ہونے میں یہ شرط ہے کہ مواظبت کی جائے اگر مواظبت نہ کی جائے بلکہ کبھی کبھی دو تین آدمی جماعت سے پڑھ لیں تو مکروہ نہیں۔ نماز خسوف میں اور تمام نوافل میں جماعت مکروہ تحریمی ہے بشرطیکہ نوافل اس اہتمام سے ادا کئے جائیں جس اہتمام سے فرائض کی جماعت ہوتی ہے یعنی اذان و اقامت کے ساتھ یا کسی اور طریقے سے لوگوں کو جمع کر کے ہاں اگر بغیر اذان و اقامت کے اور بغیر بلائے ہوئے دو تین آدمی جمع ہو کر کسی نفل کو جماعت سے پڑھ لیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ جماعت کی حکمتیں اور فائدے جماعت کی حکمتیں کیا ہیں ؟ اور اس کے کیا فائدے مرتب ہوتے ہیں، اس موضوع پر علماء نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن اس سلسلے میں امام الکبیر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے جو لطیف و جامع بات کہی ہے وہ کہیں نظر نہیں آتی چناچہ اس موقع پر انہیں کی تقریر نقل کی جاتی ہے وہ فرماتے ہیں کہ (١) کوئی چیز اس سے زیادہ سود مند نہیں کہ کوئی عبادت اس طرح رسم عام کردی جائے کہ وہ عبادت ایک ضروری عادت ہوجائے کہ اس کو چھوڑنا کسی عادت کو ترک کرنے کی طرح ناممکن ہوجائے اور تمام عبادتوں میں نماز سے زیادہ عظیم و شاندار کوئی عبادت نہیں کہ اس کے ساتھ یہ خاص اہتمام کیا جائے (٢) مذہب میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں جاہل بھی عالم بھی، لہٰذا یہ بڑی مصلحت کی بات ہے کہ سب لوگ جمع ہو کر ایک دوسرے کے سامنے اس عبادت کو ادا کریں تاکہ کہ اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو دوسرا اسے بتادے گویا اللہ کی عبادت ایک زیور ہوئی کہ تمام پرکھنے والے اسے دیکھتے ہیں جو خرابی اس میں ہوتی ہے بتلاد یتے ہیں اور جو عمدگی ہوتی ہے اسے پسند کرتے ہیں پس نماز کی تکمیل کا یہ ایک ذریعہ ہوگا۔ (٣) جو لوگ بےنمازی ہوں گے ان کا بھی اس سے حال کھل جائے گا اور ان کے لئے وعظ و نصیحت کا موقع ملے گا۔ (٤) چند مسلمانوں کا مل کر اللہ کی عبادت کرنا اور اس سے دعا مانگنا حق تعالیٰ کی رحمت کے نزول اور قبولیت کے لئے ایک عجیب خاصیت رکھتا ہے۔ (٥) اس امت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا یہ مقصود ہے کہ اس کے نام کا کلمہ بلند ہو اور کلمہ کفر پست ہو اور روئے زمین پر کوئی اسلام سے غالب نہ رہے اور یہ بات جب ہی ہوسکتی ہے کہ یہ طریقہ مقرر کیا جائے کہ تمام مسلمان خواہ وہ کسی درجے اور کسی طبقے کے ہوں، عام و خاص مسافر اور مقیم، چھوٹے اور بڑے سب ہی اپنی کسی بڑی اور مشہور عبادت کے لئے جمع ہوں اور اسلام کی شان و شوکت اور اس کی ترغیب دی گئی اور اس کے چھوڑنے کی ممانعت کی گئی۔ (حجۃ اللہ البالغہ) (٦) جماعت میں یہ فائدہ بھی ہے کہ تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے حال پر اطلاع ہوتی رہے گی اور وہ ہر ایک کے درد و مصیبت میں شریک ہو سکیں گے جس سے دینی اخوت اور ایمانی محبت کا پورا اظہار و استحکام ہوگا جو اس شریعت کا ایک بڑا مقصود ہے اور جس کی تاکید و فضیلت جا بجا قرآن عظیم اور احادیث رسول اللہ ﷺ میں بیان فرمائی گئی ہے۔ (علم الفقہ) موجودہ زمانے کی نظریاتی دوڑ کے مطابق دیکھا جائے تو جماعت اسلام کے نظریہ مساوات کا سب سے اعلیٰ مظہر ہے دن میں پانچ مرتبہ اللہ کے تمام بندے جو دنیاوی اعتبار سے کسی بھی منصب و مرتبے کے ہوتے ہیں اپنی تمام برتری و فوقیت اور اپنے دنیاوی جاہ و جلال کو بالائے طاق رکھ کر اللہ کے حضور میں تمام عام مسلمانوں کے ساتھ مل کر سر بسجود ہوجاتے ہیں اور زبان حال سے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز ترک جماعت کے عذر جیسا کہ بتایا جا چکا ہے ہر عاقل بالغ غیر معذور پر جماعت واجب ہے لیکن اگر ایسا کوئی آدمی ہو یعنی اسے ایسا عذر لاحق ہو جس کی وجہ سے وہ مسجد میں جا کر جماعت میں شریک نہیں ہوسکتا ہو تو اس کے لئے جماعت واجب نہیں رہتی، چناچہ فقہاء نے ترک جماعت کے پندرہ عذر (ماخوذاز علم الفقہ) بیان کئے ہیں۔ (١) نماز کے صحیح ہونے کی شرط مثلاطہارت یا ستر عورت وغیرہ کا نہ پایا جانا۔ (٢) پانی کا بہت زوروں کے ساتھ برسنا، اس سلسلے میں حضرت امام محمد نے اپنی کتاب موطا میں لکھا ہے کہ اگرچہ شدید بارش کی صورت میں جماعت کے لئے نہ جانا جائز ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ جا کر جماعت سے نماز پڑھی جائے۔ (٣) مسجد کے راستے میں سخت کیچڑ کا ہونا۔ (٤) سردی اتنی سخت ہو کہ باہر نکلنے میں یا مسجد تک جانے میں کسی بیماری کے پیدا ہوجانے یا بڑھ جانے کا خوف ہو۔ (٥) مسجد تک جانے میں مال و اسباب کے چوری ہوجانے کا خوف ہو۔ (٦) مسجد جانے میں کسی دشمن کے مل جانے کا خوف ہو۔ (٧) مسجد جانے میں کسی قرض خواہ کے ملنے اور اس سے تکلیف پہنچنے کا خوف ہو بشرطیکہ اس کے قرضے کے ادا کرنے پر قادر نہ ہو اگر قادر ہو تو وہ ظالم سمجھا جائے گا اور اس کو ترک جماعت کی اجازت نہ ہوگی۔ (٨) رات اس قدر اندھیری ہو کہ راستہ نہ دکھائی دیتا ہو ایسی حالت میں یہ ضروری نہیں کہ لالٹین وغیرہ ساتھ لے کر جائے۔ (٩) رات کا وقت ہو اور آندھی بہت سخت چلتی ہو۔ (١٠) کسی مریض کی تیمارداری کرنا ہو کہ اس کے جماعت میں چلے جانے سے اس مریض کی تکلیف یا وحشت کا خوف ہو۔ (١١) پیشاب یا پاخانہ معلوم ہوتا ہو۔ (١٢) سفر کا ارادہ رکھتا ہو اور خوف ہو کہ جماعت سے نماز پڑھنے میں دیر ہوجائے گی اور قافلہ نکل جائے گا، ریل کا مسئلہ بھی اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے مگر فرق اس قدر کہ وہاں ایک قافلے کے بعد دوسرا قافلہ بہت دنوں کے بعد ملتا ہے اور یہاں ریل ایک دن کئی بار جاتی ہے اگر ایک وقت کی ریل نہ ملی تو دوسرے وقت جاسکتا ہے ہاں اگر ایسا ہی سخت حرج ہوا ہو تو جماعت چھوڈ دینے میں مضائقہ نہیں۔ (١٣) فقہ وغیرہ پڑھنے یا پڑھانے میں ایسا مشغول رہتا ہو کہ بالکل فرصت نہ ملتی ہو۔ (١٤) کوئی ایسی بیماری مثلاً فالج وغیرہ ہو یا اتنا ضعیف ہو کہ چلنے پر قادر نہ ہو یا نا بینا ہوا گرچہ اس کو مسجد تک پہنچا دینے والا کوئی مل سکے یا لنگڑا ہو یا دونوں طرف سے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہوں۔ (١٥) کھانا تیار یا تیاری کے قریب ہو اور ایسی بھوک لگی ہو کہ نماز میں جی نہ لگنے کا خوف ہو۔

【317】

جماعت کی نماز کا ثواب

حضرت عبداللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جماعت کی نماز تنہا نماز سے) (ثواب میں) ستائیس درجے زیادہ ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کی اس روایت سے تو جماعت کی نماز کے ثواب کی زیادتی ستائیس درجے معلوم ہوتی ہے مگر دوسری روایتوں میں پچیس درجے زیادتی مذکور ہے چناچہ علماء محدثین لکھتے ہیں کہ اکثر روایتوں میں یہی ثابت ہے کہ جماعت کی نماز کا ثواب تنہا نماز کے ثواب سے پچیس درجے زیادہ ہوتا ہے حضرت عمر (رض) ہی کی ایک ایسی روایت ہے کہ جس میں ستائیس درجے کا زکر کیا گیا ہے، لہٰذا اس حدیث اور ان احادیث میں یہ تطبیق پیدا کی جائے گی کہ پہلے وحی کے ذریعے پچیس ہی درجے ثواب کی زیادتی معلوم ہوئی ہوگی پھر بعد میں حق تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ستائیس درجے ثواب کی زیادتی کا اعلان فرمایا ہوگا۔ یا تطبیق کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ یہ کہا جائے کہ درجات کا اختلاف نمازی کے احوال کے تفاوت کی بناء پر ہے یعنی کسی نمازی کو جماعت کی نماز کا ثواب اس کے اپنے احوال کی بناء پر ستائیس گنا ملتا ہے اور کسی نمازی کو جماعت کی نماز کا ثواب اس کے اپنے احوال کی بناء پر پچیس گناہ ملتا ہے۔ اس بارے میں اختلاف ہے کہ ثواب کی زیادتی کی یہ فضیلت اس جماعت کی نماز کے ساتھ مختص ہے جو مسجد میں ادا کی جائے گی یا اس جماعت کی نماز کے لئے بھی ہے جو مسجد میں نہیں بلکہ گھر وغیرہ میں ادا کی جائے چناچہ علماء کے رائے تو یہ ہے کہ یہ فضیلت مسجد کی جماعت کے ساتھ مختص ہے مگر دوسرے بعض علماء کا قول ہے کہ یہ فضیلت عمومی طور پر ہر جماعت کی نماز کے لئے ہے خواہ مسجد میں ادا کی جانے والی جماعت ہو یا مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ۔

【318】

ترک جماعت پر وعید

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ (کسی خادم کو) لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں اور جب لکڑیاں جمع ہوجائیں تو (عشاء) کی نماز کے لئے اذان کہنے کا حکم دوں اور جب اذان ہوجائے تو لوگوں کو نماز پڑھانے کے لئے کسی آدمی کو مامور کروں اور پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں (جو بغیر کسی عذر کے نماز کے لئے جماعت میں نہیں آتے اور ان کو اچانک پکڑوں) ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ (آپ ﷺ نے یہ فرمایا) ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو جلا دوں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے (جو لوگ نماز کے لئے جماعت میں شریک نہیں ہوتے ان میں سے) اگر کسی کو یہ معلوم ہوجائے کہ (مسجد میں) گوشت کی فربہ ہڈی بلکہ گائے یا بکری کے دو اچھے کھر مل جائیں گے تو عشاء کی نماز میں حاضر ہوں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس حدیث سے جماعت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو لوگ جماعت کے لئے مسجدوں میں نہیں آتے ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہونے کی وعید کس مبالغے کے ساتھ بیان فرمائی جا رہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بذات خود ارادہ فرمایا کہ جماعت ترک کردیں اور ان لوگوں کو جماعت میں حاضر نہ ہونے کے جرم کی سزا دیں۔ آخر حدیث میں ایسے لوگوں کی ذہنی افتاد اور طبعی کمزوری کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ انہیں اگر یہ معلوم ہوجائے کہ مسجد میں دنیا کی ایسی حقیر شی بھی مل جائے گی تو وہ نماز میں شریک ہونے کے لئے بھاگے ہوئے آئیں مگر آخر کی سعادت وثواب اور حق جل شانہ، کا قرب عظیم وغیر فانی چیز کے حصول کی طرف ان کا میلان نہیں ہوتا۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی عذر کی بناء پر کسی کو اپنا قائم مقام بنا دے اور خود اپنی ضرورت کی وجہ سے چلا جائے۔

【319】

نا بینا آدمی کو بھی جماعت میں شریک ہونے کی تاکید

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک نا بینا آدمی (حضرت عبداللہ ابن مکتوم) سرور کونین ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے لئے ایسا کوئی رہبر نہیں ہے جو مجھے مسجد میں لے جائے۔ پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ انہیں گھر میں نماز پڑھ لینے کی رخصت یعنی اجازت دے دی جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی (اس کے بعد) جب وہ مجلس نبوی ﷺ سے واپس لوٹے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں پھر بلایا اور ان سے فرمایا کہ کیا تم نماز کی اذان سنتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے لئے مسجد میں حاضر ہونا ضروری ہے۔ (صحیح مسلم) نشریح صحیحین کی حدیث میں منقول ہے کہ جب حضرت عتبان ابن مالک (رض) نے اپنی بینائی کا شکوہ کیا (کہ اس کی وجہ سے میں مسجد میں حاضری سے معذور ہوں) تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس بات کی اجازت دے دی کہ وہ اپنے گھر ہی میں نماز پڑھ لیا کریں۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ نابینا آدمی کو جماعت چھوڑنے کی اجازت ہے مگر جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم (رض) کو جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں دی اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فضلائے مہاجرین میں سے تھے ان کی شان کے لائق یہی بات تھی کہ وہ اولیٰ پر عمل کریں یعنی جماعت میں حاضر ہوا کریں چناچہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں پہلے تو اجازت دے دی مگر پھر وحی آجانے یا اجتہاد کے بدل جانے کی وجہ سے آپ ﷺ نے اجازت واپس لے لی، اس حدیث میں اذان سننے کے بعد مسجد میں حاضری کی ضرورت و اہمیت کو کمال مبالغے کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔

【320】

سخت سردی و بارش کی وجہ سے جماعت چھوڑ دینا جائز ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے ایک رات میں جبکہ (سخت) سردی اور ہوا تھی نماز کے لئے اذان دی اور (اذان سے فارغ ہو کر لوگوں سے) کہا کہ خبردار ! اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو پھر فرمایا کہ سرور کونین ﷺ اس رات میں جبکہ (سخت) سردی اور بارش ہوتی مؤذن کو حکم دیتے تھے۔ کہ وہ (اذان سننے کے بعد لوگوں سے پکار کر یہ بھی) کہہ دے کہ خبر دار ! اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سخت سردی اور بارش بھی ترک جماعت کے لئے عذر ہے ایسے اوقات میں جمات چھوڑ کر اپنے گھر میں نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ حضرت ابن ہمام حضرت ابویوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ؟ میں نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) سے پوچھا کہ کیچٹر وغیرہ کی حالت میں جماعت کے لئے آپ کیا حکم دیتے ہیں تو انہوں نے فرمایا جماعت کو چھوڑ دینا مجھے پسند نہیں۔

【321】

کھانا سامنے آجائے تو کھانے سے فارغ ہو کر نماز پڑھنی چاہیے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کے سامنے رات کا کھانا رکھا جائے اور (اسی وقت) نماز کی تکبیر کہی جائے تو وہ کھانا شروع کر دے اور کھانا کھانے میں جلدی نہ کرے بلکہ اس سے اطمینان کے ساتھ فارغ ہو۔ اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب ان کے سامنے کھانا رکھا جاتا اور نماز شروع ہوجاتی تو نماز کے لئے اس وقت تک نہ آتے جب تک کہ کھانے سے فارغ نہ ہو لیتے اور امام کی قرأت سنتے رہتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح ظاہر ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ نماز پڑھنے والا بھوکا ہو اور وہ جانتا ہو کہ اس بھوک کی حالت میں نماز پڑھوں گا تو دھیان کھانے ہی میں لگا رہے گا اور نماز دل جمعی اور سکون کے ساتھ ادا نہیں کرسکوں گا تو اس کے لئے یہی اولیٰ ہوگا کہ وہ پہلے کھانا کھالے اس کے بعد نماز پڑھے بشر طی کہ وقت میں وسعت ہو یعنی اتنا وقت ہو کہ وہ کھانے سے فراغت کے بعد اطمینان سے نماز پڑھ سکتا ہو۔

【322】

بول براز کی حاجت کے وقت نماز نہ پڑھنی چاہیے

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے سرور کونین ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کھانا سامنے ہونے کی صورت میں نماز کامل نہیں ہوتی اور نہ اس حالت میں (نماز پوری ہوتی ہے) جب کہ دو خبیث (یعنی پیشاب و پاخانہ) اس ( کی نماز میں حضوری قلب) کو ختم کریں۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کے سامنے کھانا آیا ہو یا اسے پیشاب و پاخانہ کی حاجت ہو تو اسے اس وقت نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ بلکہ وہ ان چیزوں سے فارغ ہو کر نماز پڑھے۔ علامہ نووی فرماتے ہیں کہ جب کسی کے سامنے کھانا آجائے اور اسے کھانے کی خواہش ہو یا اسی طرح بول و براز کا تقاضا ہو تو اسی صورت میں اسے نماز پڑھنی مکروہ ہے اور ریح وقے بھی اس حکم میں ہے یعنی ان کو روک کر نماز نہ پڑھے کیونکہ ان کی وجہ سے نماز میں حضوری قلب اور خشوع و خضوع باقی نہ رہے گا جس کی وجہ سے نماز کامل طو پر ادا نہ ہوگی، مگر ان سب صورتوں میں وسعت وقت کی شرط ہے اگر وقت تنگ ہو تو بہر صورت نماز پہلے پڑھنی چاہیے۔

【323】

فرض نماز کی تکبیر ہوجانے پر دوسری نماز نہیں پڑھنی چاہیے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جب نماز کھڑی ہوجائے (یعنی فرض نماز کے لئے تکبیر کہی جائے) تو فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مؤذن کے تکبیر کہنے کے بعد فجر کی سنتیں بھی نہ پڑھنی چاہئیں بلکہ امام کے ساتھ فرض نماز میں شریک ہوجانا چاہیے چناچہ امام شافعی (رح) کا یہی مسلک ہے مگر امام اعطم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر فجر کی سنتیں پڑھنے میں فرض کی ایک رکعت بھی ہاتھ لگ جانے کا یقین ہو تو سنتیں پڑھ لی جائیں اس کے بعد جماعت میں شریک ہوا جائے تاکہ سنتوں کا ثواب بھی ہاتھ سے نہ جائے اور جماعت کا ثواب بھی مل جائے۔ لیکن اس صورت میں سنتیں صف سے الگ ایک طرف پڑھنی چاہئیں ہاں اگر سنتیں پڑھنے میں فرض نماز کی دونوں رکعتیں فوت ہوجانے کا خوف ہو تو پھر اس صورت میں سنتیں چھوڑ دیں۔ حضرت ابن مالک (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جو حکم ذکر کیا گیا ہے فجر کی سنتیں اس سے مشثنی ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے صلو ھاوان طردتکم الخیل فجر کی سنتیں (ضرور) پڑھو اگرچہ تمہیں لشکر ہانکے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ فجر کی سنتوں کو پڑھنے کی بڑی تاکید ہے انہیں چھوڑنا نہیں چاہیے۔ حضرت علامہ ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ فجر کی سنتیں تمام سنتوں میں سب سے زیادہ اہم اور قوی تر ہیں یہاں تک کہ حسن کی حضرت امام ابوحنیفہ (رح) سے یہ روایت ہے کہ فجر کی سنتوں کو بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں۔

【324】

عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کی عورت مسجد میں جانے کی اجازت مانگے تو اس کو منع مت کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح امام نووی (رح) نے فرمایا ہے کہ یہ نہی کراہت تنزیہی پر محمول ہے اور حضرت مظہر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورتوں کا مسجد میں جانا جائز ہیں لیکن موجودہ دور میں فتنے کے خوف سے عورتوں کو مسجد میں جانا مکروہ ہے چناچہ اس کی موید صحیح البخاری و صحیح مسلم کی یہ روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا اگر رسول اللہ ﷺ اس چیز کو دیکھتے جو عورتوں نے پیدا کی ہے تو بیشک آپ ﷺ ان کو (مسجد جانے سے) منع کردیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کردیا گیا تھا۔ نیز حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے عورتوں کو (مسجد میں) جانے سے منع فرمایا مگر بوڑھی عورتوں کو (اجازت دی وہ بھی) کاروبار کے یعنی میلے اور پرانے کپڑوں میں۔ اس کا حال یہ ہے کہ اگر بوڑھی عورتیں بغیر بناؤسنگار اور خوشبو لگائے بغیر مسجد میں جانا چاہیں تو ان کے لئے ایک حد تک اجازت ہے۔ مگر جوان عورتوں کو تو مسجد میں جانے کی قطعا اجازت نہیں ہے۔ پھر یہ کہ اس زمانے میں عورتیں مسجدوں میں دینی مسائل و احکام سیکھنے کی خاطر جایا کرتی تھی لیکن اب تو اس کی بھی احتیاج نہیں کیوں کہ دینی مسائل و احکام اتنے مشہورو واضح ہوچکے ہیں کہ گھر میں بیٹھی عورتوں کو بآسانی معلوم ہوجاتے ہیں۔

【325】

عورتیں خوشبو لگا کر مسجد میں نہ جائیں

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کی زوجہ مطہرہ حضرت زینب (رض) کہتی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی (عورت) مسجد میں جائے تو وہ خوشبو نہ لگائے۔ (صحیح مسلم)

【326】

عورتوں کے لئے گھر ہی میں نماز پڑھنا بہتر ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جو عورت بخور (یعنی خوشبو) لگائے وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں شریک نہ ہو۔ (صحیح مسلم) تشریح خوشبو دار چیز کا دھواں لینے کو بخور کہتے ہیں جیسے اگر بتی وغیرہ۔ اس حدیث میں خاص طور پر عشاء کے وقت کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ اندھیرے کا وقت ہوتا ہے اس میں کسی فتنے و شر کے پیدا ہونے کا زیادہ خوف رہتا ہے۔ ویسے اوپر والی حدیث میں گزر ہی چکا ہے کہ آپ ﷺ نے مطلقاً خوشبو لگا کر مسجد میں آنے سے منع فرمایا ہے۔

【327】

عورتوں کے لئے گھر ہی میں نماز پڑھنا بہتر ہے

حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا تم اپنی عورتوں کو مسجدوں (میں آنے) سے نہ روکو لیکن (نماز پڑھنے کے لئے) ان کے گھر ان کے لئے بہتر ہیں۔ (ابوداؤد)

【328】

عورت کا کس جگہ نماز پڑھنا افضل ہے

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا عورت کا گھر کے اندر (یعنی دالان میں) نماز پڑھنا صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور کوٹھری میں نماز پڑھنا کھلے ہوئے مکان میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ (ابوداؤد) تشریح اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت جتنا پوشیدہ اور باپردہ ہو کر نماز پڑھے اس کے لئے افضل اور بہتر ہے کیونکہ اس کا سارا دارو مدار پردے کے اوپر ہے، یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نَعَمَ الصَّھْرُ الْقَبْرُ (یعنی اچھی سسرال قبر ہے) ۔ بہر حال اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو نماز پڑھنے کے لئے جس قدر پردہ زیادہ ہو بہتر ہے۔

【329】

خوشبو لگا کر مسجد میں جانے والی عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس عورت کی نماز قبول نہیں کی جاتی جو مسجد جانے کے لئے خوشبو لگائے یہاں تک کہ وہ اگر خوشبو لگائے ہوئے ہو تو اچھی طرح) غسل نہ کرے جیسا کہ ناپاکی کا غسل کیا جاتا ہے۔ (سنن ابوداؤد، مسند احمد بن حنبل، سنن نسائی) تشریح اس حدیث میں بھی اسی بات سے شدت کے ساتھ منع کیا گیا ہے کہ کوئی عورت خوشبو لگا کر مسجد میں جانے کی جرأت نہ کرے یہاں تک کہ اگر کسی نے خوشبو لگا رکھی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ مسجد جاتے وقت غسل کرلے یعنی اگر اس نے پورے بدن پر خوشبو لگا رکھی ہے تو سارا بدن پانی سے دھو ڈالے تاکہ اس کے بدن سے خوشبو جاتی رہے اور اگر بدن کے کسی خاص حصے پر خوشبو لگی ہوئی ہو تو صرف اسی حصے کو دھو ڈالے اور اگر خوشبو کپڑوں پر لگی ہوئی ہو تو اس صورت میں وہ کپڑے تبدیل کر دئیے جائیں۔ خوشبو لگے ہوئے بدن کو دھونے یا کپڑے کو بدلنے کا یہ حکم اسی صورت میں ہے جب کہ مسجد میں جانے کا ارادہ کرلے۔ اگر مسجد میں جانے کا ارادہ نہ ہو بلکہ گھر ہی میں نماز پڑھنی ہو تو پھر اس حکم پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ حضرت ابن مالک (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حکم خوشبو لگا کر مسجد میں جانے والی عورتوں کو زجر میں مبالغے کے طور پر ہے کیونکہ اس صورت میں فتنہ و شر زیادہ پیدا ہوتا ہے معطر عورت کی طرف لوگوں کی رغبت زیادہ ہوتی ہے۔

【330】

خوشبو لگا کر باہر نکلنے والی عورتوں کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوموسی (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا ہر آنکھ زنا کرنے والی ہے (جب کہ وہ کسی غیر عورت کی طرف بری نظر سے دیکھے کیونکہ اجنبی عورت کی طرف بری نظر سے دیکھنا آنکھ کا زنا ہے) اور جو عورت خوشبو لگا کر (مردوں کی) مجلس سے گزرے (اور چاہے کہ لوگ اس کی طرف دیکھیں تو وہ ایسی ہے ایسی ہے یعنی زانیہ ہے۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح جس عورت نے خوشبو لگا کر مردوں کی مجلس میں اپنے آپ کو جلوہ گاہ بنایا تو وہ زانیہ ہے کیونکہ اس نے خوشبو لگا کر غیر مردوں کو اس بات کی رغبت دلائی کہ وہ اس کی طرف دیکھیں اور جب انہوں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ آنکھوں کے زنا میں مبتلا ہوئے اور چونکہ یہ عورت اس فتنے کا خود باعث بنی ہے اس لئے گویا اسی نے زنا کے فعل کا ارتکاب کیا ہے۔

【331】

فجر اور عشاء کی نمازوں کی فضیلت

اور حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک روز سرور کونین ﷺ نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی جب آپ ﷺ سلام پھیر چکے تو ( ایک آدمی کا نام لے کر اس کے بارے میں) فرمایا کہ فلاں آدمی حاضر ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں آپ ﷺ نے (ایک دوسرے آدمی کا نام لے کر اس کے بارے میں) فرمایا کہ فلاں شخص حاضر ہے، صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں۔ (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا تمام نمازوں میں سے یہ دونوں (یعنی فجر و عشاء) کی نمازیں منافقین پر بہت گراں گزرتی ہیں، اگر تم جان لیتے کہ ان دونوں نمازوں کا کتنا ثواب ہے، تو تم (دوڑ کر اور) گھٹنوں کے بل (یعنی افتاں و خیزاں) آتے اور (ثواب و فضیلت نیز تقرب الی اللہ کے سلسلے میں) پہلی صف فرشتوں کی صف کی طرح ہے اگر تم پہلی صف کی فضیلت جان لو تو اس میں شامل ہونے کے لئے جلدی پہنچنے کی کوشش کرنے لگو اور آدمی کا اکیلے نماز پڑھنے سے دوسرے آدمی کے ساتھ مل کر پڑھنا زیادہ ثواب کا باعث ہے اور دو آدمیوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھنا ایک آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے سے زیادہ ثواب کا باعث ہے اور جس قدر زیادہ (نمازی ایک ساتھ یعنی جماعت سے نماز پڑھتے) ہوں اللہ کے نزدیک یہ سب سے محبوب ہے۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح منافق کا ہر عمل ریا پر مبنی ہوتا ہے اور اس کی ہر عبادت نمائش کی خاطر ہوتی ہے چناچہ فجر و عشاء کے علاوہ دوسری نمازیں تو منافقین پر زیادہ گراں نہیں گزرتیں کیونکہ ان نمازوں میں نہ صرف یہ کہ زیادہ کسل و سستی نہیں ہوتی بلکہ زیادہ نمائش بھی خوب ہوجاتی ہے برخلاف اس کے کہ فجر وعشا کی نماز میں چونکہ محنت زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ کسل بھی ہوتا ہے اور پھر یہ کہ ریا و نمائش کا زیادہ موقع نہیں ملتا اس لئے دونوں نمازیں ان پر بڑی گراں گزرتی ہیں۔ اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ فرمایا گیا ہے اور اس کے بعد ان دونوں نمازوں کی فضیلت کو ظاہر کردیا گیا ہے تاکہ مخلص و صادق مسلمان ان نمازوں سے کسی بھی وجہ سے محروم نہ رہیں۔

【332】

جماعت سے نماز پڑھنے والوں پر شیطان غالب نہیں ہوتا

اور حضرت ابودرداء (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جس بستی اور جنگل میں تین آدمی ہوں اور جماعت سے نماز نہ پڑھتے ہوں تو ان پر شیطان غالب رہتا ہے لہٰذا تم جماعت کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ اس بکری کو بھیڑیا کھا جاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہو (کر تنہا رہ) جاتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح اجتماعیت میں فلاح و کامیابی ہے اور انفرادیت میں خسران و ناکامی، چناچہ اسلام اپنے متبعین کو اجتماعیت کی تعلیم بڑی اہمیت کے ساتھ دیتا ہے اور اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ اگر اپنی قوم وملی شان و شوکت کو برقرار رکھنا ہے اور اپنی امتیازی حیثیت کو پوری طاقت کے ساتھ دنیا سے منوانا ہے تو پھر اجتماعیت کے راستہ سے کبھی انحراف نہ کرنا، یہی وجہ ہے کہ اسلام کی اکثر و بیشتر عبادات شان اجتماعیت کی حامل ہیں۔ یہ تو دنیا کی دیکھی بات ہے کہ جو آدمی تن تنہا رہتا ہے نہ تو اس کی کوئی حیثیت و وقعت ہوتی ہے اور نہ اس کی کسی بات میں کوئی طاقت ہوتی ہے جب کوئی چاہتا ہے بڑی آسانی کے ساتھ اس پر قابو پا لیتا ہے لیکن جو افراد اجتماعیت کے ساتھ رہتے ہیں نہ صرف یہ کہ ان کی ہر بات میں ایک وزن ہوتا ہے بلکہ ان کی قوت و طاقت سے سب ہی لوگ مرعوب رہتے ہیں۔ یہی حالت شیطان کا ہے کہ کسی تنہا مسلمان پر اس کا اثر بہت جلدی ہوتا ہے مگر اس کے برخلاف مسلمانوں کی کسی جماعت پر اس کے مکر و فریب کا جادو نہیں چلتا۔ چنانچہ اس حدیث میں یہی بتایا جا رہا ہے کہ اگر کسی بستی یا کسی جنگل میں تین افراد رہتے ہوں اور اس کی مثال یہ دی گئی ہے کہ جس طرح ایک بھیڑیا بکریوں کے کسی ریوڑ پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کرتا مگر جب کوئی بکری ریوڑ سے الگ ہو کر بالکل تنہا رہ جاتی ہے تو بھیڑیا اسے آن واحد میں اپنی غذا بنا لیتا ہے۔

【333】

بغیر عذر جماعت میں شریک نہ ہونے والے نمازی کی نماز قبول نہیں ہوتی

اور حضرت عبداللہ ابن عباس راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جو آدمی اذان کہنے والے (یعنی موذن) کی اذان سنے اور مؤذن کی تابعداری (یعنی مسجد پہنچ کر جماعت میں شریک ہونے) سے اسے کوئی عذر نہ روکے لوگوں نے پوچھا کہ عذر کیا ہے ؟ فرمایا کہ ) (دشمن سے) ڈرنا، بیماری تو اس کی نماز جو بغیر جماعت اگرچہ مسجد ہی میں پڑھے قبول نہیں کی جاتی۔ (ابوداؤد، دارقطنی) تشریح حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) یہ حدیث بیان فرما رہے تھے کہ لوگوں نے درمیان میں پوچھا کہ وہ کیا عذر ہے جو جماعت سے روک سکتا ہے تو حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ڈر، خواہ کسی دشمن سے جان کا ہو یا مال و آبرو کا، یا کوئی سخت بیماری ہو حضرت ابن مالک نے ڈر کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ڈر خواہ تو کسی کے ظلم کا شکار ہوجانے کا ہو یا ڈر کسی قرضدار کا ہو ایسی صورت میں کہ وہ اپنی مفلسی کی وجہ سے قرض ادا کرنے پر قادر نہ ہو۔ ان اعذار کے علاوہ اس سے پہلے بقیہ اعذار ذکر کئے جا چکے ہیں مثلاً سخت سردی و بارش یا کھانا سامنے آچکا ہو، یا استنجے کی حاجت ہو یہ سب چیزیں ترک جماعت کے حق میں معقول عذر ہیں اسی طرح بیماری بھی عذر ہے، مگر ایسی بیماری جس کی وجہ سے مسجد میں پہنچنا ممکن نہ ہو۔ بہر حال اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو آدمی مؤذن کی اذان سنے اور پھر مؤذن کی تابعداری نہ کرے یعنی جماعت میں بلا عذر شریک نہ ہو تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ ہاں اگر کوئی آدمی کسی عذر کی بنا پر جماعت میں شریک نہ ہو تو اس کی نماز قبول ہوجائے گی لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ یہاں قبول نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی نماز سرے سے ادا نہیں ہوگی بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ اس کے ذمہ سے نماز کی فرضیت تو ساقط ہوجائے گی مگر اسے نماز کا ثواب نہیں ملے گا۔ جیسا کہ اگر کوئی آدمی غصب کی گئی زمین پر نماز پڑھے تو اس کے ذمہ سے نماز کی فرضیت تو ساقط ہوجاتی ہے مگر اسے نماز کا ثواب نہیں ملتا یا اسی طرح اگر کوئی آدمی حرام مال سے حج کرے تو اس کے ذمہ سے فرض تو اتر جاتا ہے مگر اسے ثواب نہیں ملتا۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حدیث اور اس سے پہلے گزرنے والی حدیث کے پیش نظر کسی آدمی کے لئے قصداً بلا عذر جماعت ترک کرنے کی مطلقاً اجازت نہیں ہے۔

【334】

جماعت کھڑی ہوجائے اور استنجے کی حاجت ہو تو پہلے ستنجے سے فارض ہوجانا چاہیے

اور حضرت عبدا اللہ ابن ارقم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر نماز ( کے لئے) جماعت کھڑی ہوجائے اور تم میں سے کسی کو پاخانے کی حاجت ہو تو اسے چاہیے کہ وہ پہلے پاخانے کو چلا جائے ( اگرچہ جماعت ترک ہوجائے) ۔ (جامع ترمذی، مالک، ابوداؤد، سنن نسائی)

【335】

تین چیزوں کی ممانعت

اور حضرت ثوبان (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا تین چیزیں ایسی ہیں جن کا کرنا کسی کے لئے حلال نہیں ہے۔ اول تو یہ کہ کوئی آدمی کسی جماعت کا امام بنے اور دعاء میں جماعت کو شریک کئے بغیر اپنی ذات کو مخصوص کرے اگر کسی نے ایسا کیا تو اس نے جماعت کے ساتھ خیانیت کی۔ دوم یہ کہ کوئی آدمی کسی کے گھر میں اجازت حاصل کئے بغیر نظر نہ ڈالے۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو اس نے گھر والوں کے ساتھ خیانت کی۔ سوم یہ کہ کوئی آدمی ایسی حالت میں نماز نہ پڑھے کہ وہ پیشاب یا یاخا نہ کئے ہوئے ہو یہاں تک کہ وہ (استنجے سے فارغ ہو کر) ہلکا ہوجائے۔ (ابوداؤد، ، جامع ترمذی )

【336】

کھانے کی وجہ سے نماز میں تاخیر کی ممانعت

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے (صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ کھانے کے لئے یا کسی اور وجہ سے نماز کو ( اس کے وقت سے) موخر نہ کرو۔ (شرح السنۃ) تشریح اس سے پہلے ایک حدیث (نمبر ٦) گزرچکی ہے جس سے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ (جب کھانا سامنے آجائے تو) پہلے کھانا کھالیا جائے اور اس کے بعد نماز پڑھی جائے اور یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ کھانے وغیرہ کی خاطر نماز کو موخر نہ کیا جائے، چونکہ ان دونوں احادیث میں تعارض واقع ہو رہا ہے کہ اس لئے سمجھ لیجئے کہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ اگر کھانا کھانے کی صورت میں نماز کا وقت ختم ہوجانے کا اندیشہ ہو تو پھر یہی حکم ہے کہ نماز کو موخر نہ کیا جائے۔ اور حدیث نمبر ٦ کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ وقت میں وسعت ہو اور کھاناسامنے آچکا ہو نیز کھانے کی خواہش بھی ہو تو یہ حکم ہوگا کہ پہلے کھانا کھالیا جائے اس کے بعد نماز پڑھی جائے۔ اس فائدے سے دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہا۔

【337】

جماعت سے نماز پڑھنے کی تاکید

حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ نماز با جماعت سے صرف وہی منافق لوگ پیچھے رہتے تھے جن کا نفاق معلوم اور کھلا ہوا تھا (یعنی جن لوگوں کا نفاق پوشیدہ تھا وہ بھی جماعت میں حاضر ہوتے تھے) یا بیمار رہ جاتے تھے (یعنی جس مریض کو مسجد آنے کی کچھ نہ کچھ طاقت ہوتی تھی وہ بھی جماعت میں آتا تھا چناچہ جو مریض دو آدمیوں کے درمیان (یعنی ان کے سہارے سے) چل سکتا تھا وہ بھی نماز میں آتا تھا۔ (اس کے بعد) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا بیشک سرور کونین ﷺ نے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھائے ہیں اور ہدایت کے ان طریقوں میں سے (ایک طریقہ) اس مسجد میں (جماعت سے) نماز پڑھنا ہے جس میں اذان دی جاتی ہو ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عبدا اللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا جس آدمی کے لئے یہ بات خوش کن ہو کہ وہ کل کے دن اللہ سے کامل مسلمان کی حیثیت سے ملاقات کرے تو اسے چاہیے کہ وہ ان پانچوں نمازوں کی اس جگہ حفاظت کرے جہاں ان نمازوں کے لئے اذان دی جاتی ہو (یعنی مسجد میں ان پانچوں نمازوں کو جماعت کے ساتھ پابندی سے ادا کرتا رہے ہے) کیونکہ اللہ جل شانہ نے تمہارے رسول اللہ ﷺ کے لئے ہدایت کے (تمام) طریقے مقرر کردیئے تھے اور ان پانچوں نمازوں کو جماعت سے پڑھنا بھی ہدایت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ اگر تم اپنی نماز کو اپنے گھروں میں (اگرچہ جماعت سے) پڑھو گے جیسا کہ یہ پیچھے رہنے والا (یعنی منافق) نماز پڑھتا ہے تو سمجھ لو کہ تم اپنے نبی ﷺ کی سنت کو چھوڑنے والے ہوگے اور اگر اپنے نبی ﷺ کی سنت کو چھوڑ دو گے تو بیشک گمراہ ہوجاؤ گے۔ اور جو آدمی پاک ہو کر اچھی طرح وضو کرتا ہے (یعنی وضو کے پورے حقوق و آداب کا لحاظ رکھتا ہے اور اس کے تمام واجبات و سنن کو ادا کرتا ہے اور پھر ان مساجد میں سے کسی مسجد میں جاتا ہے تو رب قدوس اس کے ہر قدم کے بدلے جو وہ ( مسجد کی راہ میں) رکھتا ہے ایک نیکی لکھتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک برائی کو اس سے دور کردیتا ہے ہم نے دیکھا ہے کہ کھلے ہوئے منافق کے علاوہ کوئی آدمی جماعت سے پیچھے نہ رہتا تھا (یعنی جماعت ترک نہ کرتا تھا) یہاں تک کہ بیمار آدمی اس حالت میں نماز میں لایا جاتا کہ وہ (انتہائی ضعف و کمزوری کیوجہ سے دو آدمیوں کا سہارا لئے ہوئے ہوتا اور اس کو صف میں لا کھڑا کردیا جاتا تھا۔ (صحیح مسلم) تشریح سنن الھدی (ہدایت کے طریقے) ان طریقوں اور راستوں کو کہتے ہیں جن پر عمل کرنا ہدایت کا موجب اور حق تعالیٰ جل شانہ کے قرب اور اس کی رضا کا باعث ہو۔ رسول اللہ ﷺ کے افعال کی قسمیں رسول اللہ ﷺ کے افعال دو نوعیت کے ہوتے تھے ! ایک قسم کے افعال تو وہ تھے جنہیں رسول اللہ ﷺ بطور عبادت کرتے تھے۔ دوسرے قسم کے افعال وہ تھے جو آپ ﷺ بطریق عادت کرتے تھے۔ جن افعال کو آپ ﷺ بطریق عادت کرتے تھے انہیں سنن زوائد کہا جاتا ہے اور جن افعال کو آپ ﷺ بطریق عبادت کرتے تھے انہیں سنن ہدی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ پھر سنن ہدی کی دو قسمیں ہیں (١) سنن مؤ کدہ (٢) سنن غیر مؤ کدہ۔ سنن موکدہ۔ وہ افعال ہیں جنہیں آپ ﷺ نے بطریق مواظبت کے کیا اور لوگوں کو ان افعال کے کرنے کی تاکید فرمائی۔ سنن غیر موکدہ۔ وہ افعال ہیں جو نہ آپ ﷺ سے بطریق مواظبت کے صادر ہوتے تھے اور نہ آپ ﷺ ان پر عمل کرنے کے لئے لوگوں کو تاکید فرماتے تھے۔ اس حدیث میں جن سنن ہدی کا ذکر فرمایا گیا ہے اس سے مراد سنن موکدہ ہیں۔ جو حضرات جماعت کو واجب قرار دیتے ہیں یہ تعریف ان کے نقطہ نظر کے بھی منافی نہیں ہے کیونکہ لغۃً واجب بھی سنن ہدی کی تعریف میں داخل ہے احمد بن حنبل اور طبرانی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے رسول اللہ ﷺ سے مرفوعاً روایت نقل کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ظلم پورا ظلم، کفر اور نفاق (کا حامل) وہ (آدمی) ہے کہ اللہ کے پکارنے والے کو سنا کہ وہ مسجد کی طرف (نماز کی جماعت میں شریک ہونے کے لئے) پکارتا ہے مگر اس (آدمی نے) جواب نہیں دیا (یعنی مسجد میں پہنچ کر جماعت میں شریک نہیں ہوا) اس روایت کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ان لوگوں کے بارے میں جو (مسجد میں ہونے والی) جماعت کو ترک کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی یہ سخت ترین وعید ہے۔ کما یصلی ھذا المتخلف فی بیتہ (جیسا کہ یہ پیچھے رہنے والا آدمی اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے) سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی خاص آدمی تھا جو جماعت میں حاضر نہیں ہوتا تھا چناچہ عبداللہ ابن مسعود (رض) نے اس آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح یہ آدمی جماعت کی سعادت سے اپنے آپ کو محروم کر کے گھر میں نماز پڑھ لیتا ہے، اسی طرح اگر تم لوگ بھی اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو یہ سمجھ لو کہ اس آدمی کی طرح تمہارا بھی یہ فعل رسول اللہ ﷺ کی سنت کو چھوڑنے کے مترادف ہوگا اور ظاہر ہے کہ سنت کو ترک کرنے والا آدمی ضلالت و گمراہی کی تباہ کن کھائی میں گرتا ہے۔

【338】

جماعت کو چھوڑنے والا سخت گناہ گار ہوتا ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا اگر گھر میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے تو میں عشاء کی نماز قائم کر کے خادموں کو حکم دیتا کہ ( جو لوگ نماز میں حاضر نہیں ہوئے ان کے) گھر بار آگ سے جلا دئیے جائیں۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں اور بچوں کے لئے جماعت سے نماز پڑھنا چونکہ واجب نہیں ہے اس لئے ان کو بچانے کا خیال ضروری ہے کہ یہ بےخطاد وسروں کی سزا میں تکلیف نہ پاجائیں۔ اگر عورتوں اور بچے گھروں میں نہ ہوتے تو عشاء کی نماز قائم کرنے کا حکم دیتا اور صحابہ سے کہتا کہ جو لوگ جماعت میں حاضر نہیں ہوئے ہیں ان کو اور ان کے گھروں کے اسباب کو آگ کے شعلوں میں جھونک دیا جائے تاکہ انہیں احساس ہو کہ جماعت کو ترک کرنے کی سزا کیا ہے ؟ اس سے معلوم ہوا کہ جماعت چھوڑنے والا سخت گناہ گار ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے جلانے کا قصد فرمایا ہے۔

【339】

اذان ہوجانے کے بعد بغیر نماز پڑھے مسجد سے نہ نکلنے کا حکم

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ تم مسجد میں موجود ہو اور نماز کے لئے اذان ہو جاے تو تم میں سے کوئی آدمی بغیر نماز پڑھے مسجد سے نہ نکلے۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح علماء حنفیہ کے نزدیک اذان کے بعد مسجد سے نہ نکلنے کا یہ حکم اس آدمی کے لئے ہے جو کسی دوسری جماعت کا منتظم نہ ہو یعنی اگر کوئی آدمی کسی دوسری مسجد کا امام ہو تو اذان کے بعد مسجد سے جاسکتا ہے اگر کوئی آدمی دوسری مسجد کا امام نہ ہو یا جا کر واپس آنے کا قصد نہ کرے تو اس کا اذان سن کر مسجد سے نکلنا جائز نہیں۔ ہاں اگر کوئی آدمی نماز پڑھ چکا ہے تو اس کے لئے مسجد سے نکلنا مکروہ نہیں لیکن ظہر اور عشاء کی نماز کے لئے اگر مؤذن تکبیر کہنی شروع کر دے تو اسے بھی نماز پڑھ لینے کے باوجود جماعت میں شریک ہونا چاہیے تاکہ ترک جماعت کا الزام نہ آئے دوسرے ائمہ کے نزدیک ایسی صورت میں ہر نماز میں شریک ہوجانا چاہیے۔ ان کے ہاں ظہر و عشاء کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔

【340】

اذان ہوجانے کے بعد بغیر نماز پڑھے مسجد سے نہ نکلنے کا حکم

اور حضرت ابوشعثاء فرماتے ہیں کہ (ایک دن) اذان ہوجانے کے بعد ایک آدمی مسجد سے نکلا تو حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ اس آدمی نے ابوالقاسم (یعنی رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی۔ (صحیح مسلم)

【341】

اذان ہوجانے کے بعد بغیر نماز پڑھے مسجد سے نہ نکلنے کا حکم

اور حضرت عثمان ابن عفان (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جو آدمی مسجد میں ہو اور اذان ہوجائے پھر وہ بغیر کسی ضرورت کے مسجد سے چلا جائے اور (جماعت میں شریک ہونے کے لئے) واپس آنے کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو تو وہ منافق ہے۔ (ابن ماجہ) تشریح اگر کوئی آدمی مسجد میں موجود ہو اور اذان ہوجائے اور پھر وہ جماعت کی سعادت سے منہ موڑ کر مسجد سے چلا جائے تو یہ بڑی بدبختی کی بات ہے۔ چناچہ فرمایا جا رہا ہے کہ ایسا آدمی ترک جماعت کا گناہ گار ہونے کی وجہ سے منافق کی طرح ہوتا ہے۔

【342】

زبان و عمل سے اذان کا جواب نہ دینے والے کی نماز کامل نہیں ہوتی

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے اذان سنی اور اس کا جواب نہ دیا تو اس کی نماز ( کامل یا قبول نہیں ہوتی مگر کسی عذر کی وجہ سے (ایسا کیا تو مضائقہ نہیں۔ (دار قطنی) تشریح اذان کا جواب دینا ایک تو زبان سے ہوتا ہے جیسے موزن کلمات اذان کہے تو سننے والا ان کلمات کو دہرائے اور ایک جواب عمل سے ہوتا ہے چناچہ جو آدمی مؤذن کی اذان سن کر مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے کے لئے آتا ہے وہ اپنے عمل سے مؤذن کی اذان کا جواب دیتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زبان و عمل دونوں کے جواب پر نماز کی قبولیت اور نماز کی تکمیل موقوف ہے یعنی جس آدمی نے اذان سن کر اس کا جواب نہ تو زبان سے دیا اور نہ مسجد میں آکر عمل سے دیا تو اس کی نماز پائے تکمیل اور باب قبولیت کو نہیں پہنچتی اتنی بات سمجھ لیجئے کہ اصل جواب عمل یعنی مسجد میں آنا ہی ہے اور اس کی زیادہ تاکید ہے۔

【343】

نابینا آدمی کو بھی جماعت نہ چھوڑنی چاہیے

اور حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول ! مدینہ میں موذی جانور اور درندے بہت ہیں اور میں نابینا ہوں (اس عذر کی وجہ سے) کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں جماعت میں نہ آؤں اور اپنی نماز میں گھر ہی پڑھ لوں) رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن) کر فرمایا کیا تم حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح سنتے ہو ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! فرمایا جماعت میں آیا کرو اور انہیں جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں دی۔ (ابودارؤد، سنن نسائی) تشریح رسول اللہ ﷺ نے خاص طور پر حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کا ذکر کیا کیونکہ ان الفاظ میں نماز کی طرف بلانا اور ترغیب ہے۔

【344】

نابینا آدمی کو بھی جماعت نہ چھوڑنی چاہیے

اور حضرت ام درداء (رض) فرماتی ہیں کہ (ایک روز میرے خاوند) حضرت ابودرد اء (رض) میرے پاس غصے میں بھرے بھرے ہوئے آئے (ان کی حالت دیکھ کر) میں نے پوچھا کہ کس چیز نے آپ کو غضبناک بنایا ؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! سرور کونین ﷺ کی امت کے بارے میں (پہلی جیسی) ایک یہی بات جانتا تھا کہ وہ جماعت سے نماز پڑھتے ہیں مگر ( اب اسے بھی چھوڑ دیتے ہیں) ۔ (صحیح البخاری )

【345】

فجر کی نماز جماعت سے پڑھنا رات بھر عبادت کرنے سے بہتر ہے

اور حضرت ابوبکر ابن سلیمان ابن ابی حثمہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) حضرت عمر فاروق نے فجر کی نماز میں ( میرے والد) حضرت سلیمان ابن ابی حثمہ کو نہیں پایا۔ حضرت عمر جب صبح کو بازار جانے لگے تو سلیمان کا مکان چونکہ مسجد اور بازار کے درمیان تھا اس لئے وہ سلیمان کی والدہ شفاء کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ (کیا بات ہے) آج میں نے سلیمان کو فجر کی نماز میں نہیں دیکھا ؟ سلیمان کی والدہ کہنے لگیں (کہ بات یہ ہوئی) کہ سلیمان نے آج پوری رات نماز پڑھنے میں گزاری اور (صبح ہوتے ہوتے) ان کی آنکھ لگ گئی (اس لئے وہ نماز فجر میں حاضر نہ ہو سکے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں صبح کی نماز جماعت سے پڑھ لینا رات بھر (عبادت کے لئے) کھڑے رہنے سے بہتر سمجھتا ہوں۔ (مالک) تشریح اس حدیث سے نماز فجر با جماعت پڑھنے کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ لگائیے کہ حضرت سلیمان (رض) رات بھر عبادت الٰہی میں مصروف رہے اور نماز پڑھتے رہے مگر صبح ہوتے ہوتے آنکھ لگ جانے کی وجہ سے چونکہ وہ فجر کی جماعت میں شریک نہ ہو سکے تو حضرت عمر (رض) نے ان کی والدہ سے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ افضل نہیں ہے کہ رات بھر عبادت کی جائے مگر فجر کی جماعت چھوڑ دی جائے اگر کوئی آدمی رات بھر عبادت الٰہی میں مشغول رہنے کے باوجود فجر کی جماعت میں شامل ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس سے افضل کوئی بات ہی نہیں ہے۔ مگر رات بھر عبادت خداوندی میں مصروف رہنے اور پھر بعد میں بتقاضائے بشریت آنکھ وغیرہ لگ جانے کی وجہ سے فجر کی جماعت ترک ہوجائے تو میں اسے اچھا نہیں سمجھتا۔ یہ بہتر ہے کہ رات بھر آرام کیا جائے اور فجر کی جماعت میں پابندی سے شرکت کی جائے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رات کو عبادت کرنے اور تہجد کی نماز پڑھنے سے فجر کی جماعت میں شریک ہونا زیادہ فضیلت کی بات ہے۔

【346】

دو آدمیوں کی جماعت ہوجاتی ہے۔

اور حضرت ابوموسی اشعری (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا دو آدمی ہوں یا دو سے زیادہ ہوں، ان سے جماعت ( ہوسکتی) ہے۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جماعت کے انعقاد کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ ہوں یا کم سے کم تین آدمیوں کا ہونا ضروری ہے بلکہ اگر صرف دو آدمی ہوں اور ان میں سے ایک امام بن جائے اور دوسرا مقتدی، اس طرح دونوں مل کر نماز پڑھ لیں تو جماعت ہوجاتی ہے اور دونوں کو جماعت کا ثواب مل جاتا ہے۔

【347】

عورتوں کے مسجد جانے کا مسئلہ

اور حضرت بلال ابن عبداللہ اپنے والد مکرم (حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (ایک روز) کہا کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا کہ جب عورتیں تم سے مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو تم انہیں (روک کر) ان کو مساجد کے حصے سے محروم نہ کرو (یعنی مسجد میں جانے کا ثواب انہیں ملتا ہے تو انہیں مسجدوں میں جانے سے روک کر اس ثواب کے حاصل کرنے سے نہ روکو) بلال نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم تو انہیں ضرور منع کریں گے حضرت عبداللہ نے بلال سے فرمایا کہ میں تو کہہ رہا ہوں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے اور تم کہتے ہو کہ تم تو انہیں ضرور منع کرو گے۔ ایک دوسری روایت میں حضرت سالم نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ پھر (اس کے بعد) حضرت عبداللہ بلال کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں اس قدر برا بھلا کہا کہ میں نے تو کبھی حضرت عبداللہ کی زبان سے انہیں اس قدر برا بھلا کہتے نہیں سنا اور پھر کہا کہ میں تو کہتا ہوں یہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے اور تم کہتے ہو کہ ہم انہیں ضرور منع کریں گے۔ تشریح حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) بلال سے اس لئے ناراض ہوئے اور انہیں برا بھلا کہا کہ انہوں نے بظاہر ایسے الفاظ سے جواب دیا جن سے اپنی رائے کے ساتھ حدیث کا مقابلہ کرنا معلوم ہوتا تھا۔ اگر بلال اس نزاکت کا احساس دلاتے ہوئے کہتے کہ اب اس زمانہ میں عورتوں کا مسجد میں جانا مناسب نہیں ہے تو حضرت عبداللہ ناراض نہ ہوتے، یہی وجہ ہے کہ علماء نے ماحول کی نزاکت کے پیش نظر عورتوں کو مسجد میں جانے سے منع کیا ہے چناچہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ ہمارے زمانے میں امام عورتوں کی نیت نہ کرے۔ اس سلسلے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ موجودہ دور کے تمام علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اب اس زمانہ میں جب کہ فتنہ و شر کا دور ہے عورتوں کے لئے مسجد میں جانا مکروہ ہے۔

【348】

عورتوں کے مسجد جانے کا مسئلہ

حضرت مجاہد حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا کہ کوئی آدمی اپنے اہل (یعنی اپنی بیوی) کو مساجد میں جانے سے منع نہ کرے۔ (یہ سن کر) حضرت عبداللہ (رض) کے ایک صاحبزداے (بلال) نے کہا کہ ہم تو انہیں منع کریں گے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے ان سے فرمایا کہ میں تو رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم یہ کہہ رہے ہو۔ راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد حضرت عبداللہ (رض) نے اپنے بیٹے سے (آخر عمر تک) گفتگو نہیں کی یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح اس حدیث کی وضاحت وہی ہے جو پہلے کی جا چکی ہے کہ اپنے صاحبزادے سے حضرت عبداللہ (رض) کی اس قدر شدید ناراضگی کہ آخر عمر تک ان سے گفتگو نہیں کی محض اس بناء پر تھی کہ ان کے صاحبزادے نے اپنے مافی الضمیر کو اس انداز سے ظاہر کیا جو حدیث نبوی کے مقابل معلوم ہوتا تھا۔ بہر حال اس حدیث سے اتنی بات معلوم ہوئی کہ اگر کسی آدمی کی اولاد سنت کو ترک کر دے یا سنت کے خلاف اپنی رائے کو غلط انداز میں پیش کرے تو اس سے ترک کلام کیا جاسکتا ہے۔ اس باب کی چونکہ یہ آخری حدیث ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے حاصل کرنے میں بعض طریقے اور مسائل جن کا جاننا ضروری ہے نقل کردئیے جائیں۔

【349】

جماعت کے بعض مسائل

اگر کوئی آدمی اپنے محلہ یا مکان کے قریب مسجد میں ایسے وقت پر پہنچا کہ وہاں جماعت ہوچکی تھی تو اس کے لئے مستحب ہے کہ دوسری مسجد میں دوبارہ جماعت کے لئے جائے اور اسے یہ بھی اختیار ہے کہ اپنے گھر واپس آکر آدمیوں کو جمع کر کے جماعت کرلے۔ اگر کوئی آدمی نفل نماز شروع کرچکا ہو اور فرض جماعت ہونے لگے تو اس کو چاہیے کہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے اگرچہ چار رکعت نفل کی نیت کی ہو۔ یہی حکم ظہر اور جمعہ کی سنت موکدہ کا ہے کہ اگر شروع کرچکا ہو اور فرض ہونے لگے تو دوہی رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے اور پھر ان سنتوں کو فرض کے بعد پڑھ لے۔ ظہر کی سنتیں ان سنتوں کے بعد پڑھی جائیں جو فرض کے بعد پڑھی جاتی ہیں۔ اگر فرض نماز ہو رہی ہو تو پھر سنتیں وغیرہ شروع نہ کی جائیں بشرطیکہ کسی رکعت کے چلے جانے کا خوف ہو ہاں اگر یقین یا گمان غالب ہو کہ کوئی رکعت نہ جانے پائے گی تو پڑھ لے۔ مثلاً ظہر کے وقت جب فرض شروع ہوجائے اور خوف ہو کہ سنت پڑھنے سے کوئی رکعت جاتی رہے گی تو پھر موکدہ سنتیں جو فرض سے پہلے پڑھی جاتی ہیں چھوڑ دے اور فرض کے بعد دو رکعت سنت موکدہ پڑھ کر ان سنتوں کو پڑھ لے مگر فجر کی سنتیں چونکہ زیادہ موکدہ ہیں لہٰذا ان کے لئے حکم ہے کہ اگر فرض شروع ہوچکا ہو تب بھی ادا کرلی جائیں، بشر طی کہ قعدہ اخیرہ مل جانے کی امید ہو اور اگر قعدہ اخیرہ کے بھی نہ ملنے کا خوف ہو تو پھر نہ پڑھے۔ ( ماخودذاز علم الفقہ ١٢) ۔ اگر یہ خوف ہو کہ فجر کی سنتیں اگر نماز کے سنن و مستحبات وغیرہ کی پابندی سے ادا کی جائیں تو جماعت نہ ملے گی تو ایسی حالت میں چاہیے کہ صرف فرائض اور واجبات پر اختصاد کرے اور سنن وغیرہ چھوڑ دے۔ فرض شروع ہوجانے کی صورت میں جو سنتیں پڑھی جائیں خواہ فجر کی ہوں یا کسی اور وقت کی تو وہ ایسے مقام پر پڑھی جائیں جو مسجد سے علیحدہ ہو اس لئے کہ جہاں فرض نماز ہوتی ہو تو پھر کوئی دوسری نماز وہاں پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ اور اگر کوئی ایسی جگہ نہ ملے تو صف سے علیحدہ مسجد کے کسی گوشے میں پڑھ لے اور یہ بھی نہ ہو تو نہ پڑھے۔ اگر جماعت کا قعدہ مل جائے اور رکعتیں نہ ملیں تب بھی جماعت کا ثواب مل جائے گا اگرچہ اصطلاح فقہاء میں اس کو جماعت کی نماز نہیں کہتے۔ جماعت سے ادا کرنا جب ہی کہا جائے گا کہ جب کل رکعتیں مل جائیں۔ یا اکثر رکعتیں مل جائیں مثلاً چار رکعت والی نماز کی تین رکعت مل جائیں یا تین رکعت والی نماز کی دو رکعت مل جائیں اگرچہ بعض فقہا کے نزدیک جب تک کل رکعتیں نہ ملیں جماعت میں شمار نہیں ہوتا۔ جس رکعت کا رکوع امام کے ساتھ مل جائے گا تو سمجھا جائے کہ وہ رکعت مل گئی۔ ہاں اگر رکوع نہ ملے تو پھر اس رکعت کا شمار ملنے میں نہ ہوگا۔

【350】

صفوں کے برابر کرنے کا بیان

صفوں کو برابر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب لوگ نماز کے لئے جماعت میں کھڑے ہوں تو صف بندی اس طرح کریں کہ آپس میں بالکل مل کر کھڑے ہوں تاکہ ایک دوسرے کے درمیان خلا نہ رہے اور آگے پیچھے ہٹ کر کھڑے نہ ہوں بلکہ برابر کھڑے رہیں اگر کئی صفیں ہوں تو وہ اس طرح قائم کی جائیں کہ ایک دوسری صف کے درمیان شروع سے لے کر آخر تک یکساں فرق رہے ایسا نہ ہو کہ کسی جگہ سے تو دونوں صفوں کا درمیانی فاصلہ کم ہو اور کسی جگہ سے زیادہ۔ اس باب کے تحت جو احادیث نقل کی جائیں گی ان سے صفوں کو برابر کرنے کی اہمیت و تاکید معلوم ہوگی اور صف بندی کے جو مسائل و احکام ہیں وہ واضح ہوں گے۔

【351】

صف برابر رکھنے کا حکم

حضرت نعمان ابن بشیر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفیں (اس طرح) برابر (سیدھی) کیا کرتے تھے کہ گویا تیر بھی ان صفوں سے سیدھا کیا جاسکتا تھا یہاں تک کہ ہم بھی آپ ﷺ سے (صفوں کی برابر کرنے کی اہمیت) سمجھ گئے۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ (مکان سے نکل کر) تشریف لائے اور (نماز کے لئے) کھڑے ہوگئے اور تکبیر (تحریمہ) کہنے ہی کو تھے کہ ایک آدمی کا سینہ صف سے کچھ نکلا ہوا ہے آپ ﷺ نے دیکھ لیا چناچہ (یہ دیکھ کر) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ کے بندو ! اپنی صفیں سیدھی کردو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا۔ (صحیح مسلم) تشریح عرب میں تیر کی ہمواری اور سیدھا پن اس قدر مشہور تھا کہ دوسری چیزوں کے سیدھے پن اور ہمواری کو بھی تیر سے تشبیہ دیا کرتے تھے اس طرح گویا تیر بھی ان صفوں سے سیدھا کیا جاتا تھا۔ یہ جملہ کسی چیز کی ہمواری اور سیدھے پن کے لئے مثل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ تیروں کے ذریعہ دوسری چیزوں کو سیدھا اور برابر کرتے ہیں اور یہاں یہ مبالغے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے کہ صفیں اس قدر سیدھی اور ہموار ہوتی تھیں کہ تیر بھی ان کے ذریعہ سیدھے کئے جاسکتے تھے، بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ عبارت اپنے عکس پر محمول ہے لہٰذا اس کا مطب یہ ہے کہ گویا صفیں تیروں کے ذریعہ برابر کرتے تھے حدیث کے آخری جملے کا مطلب مولانا مظہر نے یہ بیان کیا ہے کہ ظاہری ادب و فرمانبرداری نہیں کرو گے تو تمہاری یہ ظاہری نافرمانی تمہارے باطن یعنی دلوں کے اختلاف کی طرف تمہیں پہنچائے گی۔ جو آگے چل کر آپس کے بغض وعناد اور کدورت و عداوت کا سبب بن جائے گی اور پھر قلوب کے یہ اختلاف اور یہ باطنی بری خصلتیں تمہاری ظاہری زندگی میں بھی اس طرح سرایت کر جائیں گی کہ تمہارے درمیان بغض و عداوت پیدا ہوجائے گی چناچہ تم میں سے ہر آدمی ایک دوسرے سے اعراض کرے گا اور کسی کے دل میں کسی کے لئے ہمدردی کا کوئی جذبہ باقی نہ رہ جائے گا بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ صفوں کو سیدھا اور ہموار رکھنے کی بڑی اہمیت ہے جب جماعت کھڑی ہو تو ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو صف کے برابر کرلے اور ایک دوسرے سے آگے پیچھے نہ کھڑا ہونا چاہیے، اگر صف سیدھا کرنے کے اس حکم کی پیروی نہیں کی جائے گی تو جان لو کہ رب قدوس اس کی سزا تمہیں یہ دے گا کہ تمہارے درمیان بغض و نفرت پیدا ہوجائے گی جس سے تمہارے معاشرتی و سماجی امن و سکون کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا۔

【352】

جب تک ایک صف پوری نہ ہو دوسری صف قائم نہ کی جائے

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک روز جب) نماز کھڑی ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا چہرہ مبارک ہماری طرف متوجہ کرکے فرمایا کہ اپنی صفیں سیدھی کرو اور آپس میں مل کر کھڑے ہو، بیشک میں اپنی پشت کے پیچھے سے بھی تمہیں دیکھ سکتا ہوں (یعنی نماز کے حالت میں مکاشفے کے ذریعے نمازیوں کے احوال پر مطلع رہتا ہوں) اس روایت کو صحیح البخاری نے نقل کیا اور بخاری و مسلم دونوں کی روایت یہ ہے کہ ) (رسول اللہ نے فرمایا صفوں کو پورا کرلیا کرو، میں تم کو اپنی پشت کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ تشریح دوسری روایت کے الفاظ صفوں کو پورا کرلیا کرو کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ایک صف پوری نہ ہوجائے دوسری صف قائم نہ کرو ایسا نہ ہونا چاہیے کہ آگے صف میں جگہ خالی ہو اور اس میں مزید نمازیوں کے کھڑے ہونے کی گنجائش ہو لیکن اس کے باوجود پیچھے دوسری صف قائم کرلی جائے ایسا کرنا غلط ہے۔

【353】

صف برابر رکھنا نماز کی تکمیل میں سے ہے

اور حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنی صفوں کو برابر رکھا کرو کیونکہ صفوں کو برابر رکھنا نماز کی تکمیل میں ہے۔ (صحیح البخاری) مسلم کی روایت من اقامۃ الصلوۃ کی بجائے من تمام الصلوۃ کے الفاط ہیں) تشریح قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے (اقیمو الصلوۃ یعنی) نماز تعدیل ارکان، سنن و آداب کی رعایت کے ساتھ پڑھو لہٰذا یہاں حدیث میں الفاظ اقامۃ الصلوۃ سے اسی آیت کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ صفوں کو برابر کرنا بھی اقیموا الصلاۃ کے حکم میں داخل ہے۔

【354】

صف برابر نہ رکھنے سے قلوب میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے

اور حضرت ابومسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (جب نماز پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو) ہمارے کندھوں پر اپنا دست مبارک رکھ کر فرماتے تھے کہ برابر رہو مختلف (یعنی آگے پیچھے کھڑے) نہ ہو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہوجائے گا اور تم میں سے جو لوگ عاقل و بالغ ہوں وہ میرے قریب رہیں پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہوں اور پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہوں۔ حضرت ابومسعود نے (لوگوں کے سامنے یہ حدیث بیان کر کے) فرمایا کہ آج تم لوگوں میں اختلاف بہت زیادہ ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح مختلف نہ ہو کا مطلب یہ ہے کہ جب صف بندی کر کے نماز کے لئے کھڑے ہو تو اس بات کا بطور خاص خیال رکھو کہ سب کے بدن برابر رہیں ایک دوسرے سے آگے پیچھے ہو کر کھڑے نہ ہو اور اپنے بدن کا کوئی عضو صف سے باہر نہ نکالو اور اگر تم لوگ صف میں اپنے بدن کے ظاہری اعضاء کو غیر برابر اور ناہموار رکھو گے تو اس کا اثر باطنی طور پر یہ ہوگا کہ تمہارے قلوب میں اختلاف پیدا ہوجائے گا کیونکہ بدن کے ظاہری اعضاء اور قلب کے درمیان بڑا لطیف تعلق ہے اور ایک دوسرے کی تاثیر بڑی عجیب ہے اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ جیسے ظاہری اعضاء کی ٹھنڈک باطنی اعضاء پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اور باطنی اعضاء کی ٹھنڈک ظاہری اعضاء کو متاثر کرتی ہے اسی طرح صف میں ظاہری بدن کو غیر برابر رکھنا قلوب پر اثر انداز ہوتا ہے جس کا خاصہ ہے کہ دلوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ صف کی ترتیب حدیث کے دوسرے جزو میں صف کی ترتیب یہ بتائی گئی ہے کہ میرے قریب وہ لوگ کھڑے ہوں جو صاحب عقل و فہم اور بالغ ہوں، یعنی پہلی صف میں ان لوگوں کو کھڑا ہونا چاہیے جو بالغ اور عقل و فہم کے مالک ہوں تاکہ وہ نماز کی کیفیت اور اس کے احکام دیکھیں اور یاد کریں اور پھر امت کے دوسرے لوگوں کو ان کی تعلیم دیں، پھر دوسری صف میں وہ لوگ کھڑے ہوں جو ان کے قریب ہوں یعنی مراہق (جو بالغ ہونے کے قریب ہوں) اور لڑکے اور پھر تیسری صف میں وہ کھڑے ہوں جو ان کے قریب ہوں یعنی مخنث (جن میں مرد و عورت دونوں کی علامتیں پائی جائیں) پھر ان کے بعد آخر میں عورتوں کی صف قائم کی جائے یہاں حدیث میں عورتوں کی صف کے بارے میں ذکر نہیں کیا گیا ہے کیونکہ یہ متعین ہے آخر میں عورتوں ہی کی صف ہوتی ہے۔ آخر میں حضرت ابومسعود (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ آج تمہارے اندر افتراق و انتشار پیدا ہوگیا ہے اور آپس میں تم لوگ جو اتنا اختلاف کرتے ہو نیز فتنوں کی جو بھر مار ہو رہی ہے ان سب کی وجہ یہ ہے کہ تم لوگ اگر ان فتنوں اور اختلاف سے بچنا چاہتے ہو تو پہلے اپنے ظاہری اختلاف کو ختم کر ڈالو یعنی صفوں کو برابر رکھو پھر اللہ تعالیٰ تمہارے باطنی اختلاف کو بھی ختم کر دے گا۔

【355】

مساجد میں شور شرابہ نہیں مچانا چاہیے

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو لوگ صاحب عقل اور بالغ ہوں وہ (نماز میں) میرے قریب کھڑے ہوں پھر وہ لوگ کھڑے ہوں جو ان کے قریب ہوں۔ یہ الفاظ آپ ﷺ نے تین بار فرمائے اور تم (مساجد میں) بازاروں کی طرح شور شرابہ مچانے سے بچو۔ (صحیح مسلم) تشریح پہلی حدیث میں عورتوں کی صف کا ذکر نہ پیش نظر تھا اس لئے وہاں ثم الذین یلونھم کے الفاظ دو مرتبہ ذکر فرمائے گئے اور یہاں چونکہ عورتوں کی صف کا ذکر بھی پیش نظر تھا اس لئے یہ الفاظ تین مرتبہ فرمائے گئے اس طرح صف کے چار درجے ہوگئے، یعنی پہلی صف میں بالغ اور صاحب عقل و فہم لوگ کھڑے ہوں اس کے بعد کی صفوں میں مراہق اور لڑکے کھڑے ہوں۔ اس کے بعد صفوں میں مخنث کھڑے ہوں اور پھر آخر میں عورتوں کی صف قائم کی جائے۔

【356】

مساجد میں شور شرابہ نہیں مچانا چاہیے

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے (جب) دیکھا کہ صحابہ کرام (پہلی صف میں آنے میں) تاخیر کرتے ہیں تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ آگے بڑھو ! اور میری اقتداء کر تاکہ وہ لوگ جو تمہارے پیچھے کھڑے ہیں وہ تمہاری اقتداء کریں (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا) ایک جماعت ہمیشہ ( پہلی صف میں کھڑے ہونے میں) تاخیر کرتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بھی (اپنا فضل اور رحمت بھی) انہیں پیچھے ڈال دے گا۔ (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ نے جب صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ پہلی صف میں کھڑے ہونے کی کوشش نہیں کرتے تو ان سے فرمایا کہ آگے بڑھو اور پہلی صف میں کھڑے ہو کر میری اقتداء کرو یعنی پیچھے مجھ سے قریب ہو کر کھڑے رہو تاکہ میرے افعال دیکھتے رہو اسی طرح جو لوگ تم سے پیچھے کھڑے ہوں وہ تمہاری متابعت کریں کیونکہ پچھلی صف کے لوگ اگلی صف کے لوگوں کی متابعت بایں طور کرتے ہیں کہ نماز کے جو افعال اگلی صف والے کرتے ہیں وہی افعال پچھلی صف والے کرتے رہتے ہیں لہٰذا یہ متابعت اور اقتداء ظاہر کے اعتبار سے ہے ورنہ تو حقیقت میں سب نمازی امام ہی کے تابع ہوتے ہیں۔

【357】

صفیں پوری اور برابر رکھنی چاہئیں

اور حضرت جابر ابن سمرۃ (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تشریف لائے اور ہمیں مختلف حلقوں میں بیٹھے دیکھ کر فرمایا کہ کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں الگ الگ جماعتوں کی صورت میں (بیٹھے ہوئے) دیکھ رہا ہوں (یعنی اس طرح الگ الگ جماعت کر کے نہ بیٹھا کرو کیونکہ یہ نا اتفاقی اور انتشار کی علامت ہے) پھر اسی طرح (ایک روز) رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ (نماز میں) اس طرح صف کیوں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اللہ کے حضور میں (بندگی کے لئے کھڑے ہونے کے واسطے) صف باندھتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ فرشتے اپنے پروردگار کے حضور میں کس طرف صف باندھتے ہیں ؟ فرمایا پہلی صفوں کو پوری کرتے ہیں اور صف میں بالکل (برابر، برابر) کھڑے ہوتے ہیں۔ (صحیح مسلم)

【358】

مرد اور عورت کی بہترین صف کون سی ہے؟

اور حضرت ابوہریرۃ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مردوں کی بہترین صف پہلی صف ہے اور بد ترین صف پچھلی صف ہے عورتوں کی بہترین صف پچھلی صف ہے اور بدترین صف پہلی صف ہے۔ (صحیح مسلم) فائدہ بہترین سے مراد ثواب کی زیادتی ہے یعنی پہلی صف والے دوسری صف والوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ثواب کے حق دار ہوتے ہیں۔ مردوں کے لئے بہترین صف پہلی صف کو اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ اس صورت میں وہ امام سے قریب ہوتے ہیں اور عورتوں سے دور اور پچھلی صف بدترین اس لئے ہوتی ہے کہ اس شکل میں امام سے دوری ہوجاتی ہے اور عورتوں سے نزدیکی۔ اس طرح عورتوں کے لئے پہلی صف اس لئے بدترین ہے کہ وہ پہلی صف میں کھڑے ہونے سے مردوں سے نزدیک ہوجاتی ہیں پچھلی صف ان کے لئے اس وجہ سے بہترین ہے کہ اس صورت میں وہ مردوں سے دور رہتی ہے۔ بہرحال حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ مردوں کو تو پہلی صف میں کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے اور عورتوں کو آخری صف میں شامل ہونے کی سعی کرنی چاہیے۔

【359】

صفوں میں خلاء رکھنا چاہیے

اور حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنی صفیں ملی ہوئی رکھو (یعنی آپس میں خوب مل کر کھڑے ہو) اور صفوں کے درمیان قرب رکھو (یعنی آپس میں خوب مل کر کھڑے ہو) اور صفوں کے درمیان قرب رکھو (یعنی دو صفوں کے درمیان اس قدر فاصلہ نہ ہو کہ ایک صف اور کھڑی ہو سکے) نیز اپنی گردنیں برابر رکھو (یعنی صف میں تم میں سے کوئی بلند جگہ پر کھڑا نہ ہو بلکہ ہموار جگہ پر کھڑا ہو تاکہ سب کی گردنیں برابر رہیں) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں شیطان کو بکری کے کالے بچے کی طرح تمہاری صفوں کی کشادگی میں گھستے دیکھتا ہوں۔ (ابوداؤد)

【360】

صفیں پوری کرو

اور حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پہلی صف کو پورا کرو پھر جو اس کے قریب (یعنی اس کے بعد) ہو اسے پورا کرو اور صف میں جو کمی رہے تو وہ سب سے پچھلی صف میں ہونی چاہیے۔ (ابوداؤد)

【361】

پہلی صفوں کی فضیلت

اور حضرت براء ابن عازب (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو لوگ پہلی صفوں کے قریب ہوتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قدم سے زیادہ محبوب کوئی قدم نہیں ہے جو چل کر صف میں ملے (یعنی اگر صف میں جگہ خالی رہ گئی ہو تو وہاں جا کر کھڑا ہوجائے) ۔ (ابوداؤد) تشریح چونکہ دوسری صف کو بھی ان صفوں پر جو اس کے بعد ہوتی ہیں فضیلت حاصل ہے اس لئے جب رسول اللہ ﷺ نے پہلی صف کی بہت زیادہ فضیلت بیان فرمائی تو پہلی صفوں کی اور دوسری صف کی فضیلت کی طرف بھی اشارہ فرمایا۔

【362】

صف میں دائیں طرف کھڑا ہونا افضل ہے

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا صفوں کے دائیں طرف والے لوگوں پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں۔ (ابوداؤد) تشریح علماء نے لکھا ہے کہ صف میں امام کے دائیں طرف کھڑا ہونا خواہ امام سے دور ہی کیوں نہ ہو بائیں طرف کھڑے ہونے سے خواہ امام سے کتنا ہی نزدیک کیوں نہ ہو افضل ہے ہاں اگر صف میں بائیں طرف جگہ خالی ہو تو پھر صف کے دونوں جانب کو برابر کرنے کی پیش نظر بائیں طرف ہی کھڑا ہونا افضل ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ صفوں کو برابر کرنے کے بعد نماز شروع کرتے تھے

【363】

صف میں دائیں طرف کھڑا ہونا افضل ہے

اور حضرت نعمان ابن بشیر (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہم لوگ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو پہلے رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں کو (زبان یا ہاتھ سے) برابر فرماتے چناچہ جب صفیں برابر ہوجاتیں تو آپ تکبیر تحریمہ کہتے۔ (ابوداؤد)

【364】

صف میں دائیں طرف کھڑا ہونا افضل ہے

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (جب نماز شروع کرتے تو پہلے) اپنے دائیں طرف (متوجہ ہو کر) فرمایا کرتے تھے سیدھے کھڑے ہوجاؤ اور اپنی صفیں برابر کرلو پھر بائیں (بھی متوجہ ہو کر یہی) فرماتے تھے کہ سیدھے کھڑے ہوجاؤ اور اپنی صفیں برابر کرلو۔ (ابوداؤد)

【365】

نماز میں نرم کندے والے بہتر ہیں

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جن کے کندھے نماز میں بہت نرم رہیں۔ (ابوداؤد) تشریح نماز میں نرم کندھے کی توضیح و فائدے میں علماء نے بہت کچھ لکھا ہے اس کے کئی معنی ہیں چناچہ اس کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ اگر کوئی آدمی جماعت میں اس طرح کھڑا ہو کہ صف برابر نہ ہوئی ہو اور پیچھے سے آکر کوئی آدمی اس کا کندھا پکڑ کے اسے سیدھا کھڑا ہوجانے کے لئے کہے تو وہ ضدوہٹ دھرمی اور تکبر نہ کرے بلکہ اس آدمی کا کہنا مان لے اور سیدھا کھڑا ہو کر صف برابر کرلے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی آدمی صف میں آکر کھڑا ہونا چاہیے اور جبکہ صف میں جگہ بھی ہو تو اسے منع نہ کرے صف میں کھڑا ہوجانے دے۔ اس کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ کندھوں کو نرم رکھنا نماز میں خشوع و خضوع اور سکون و قار کے لئے کنایہ ہے۔ یعنی نماز میں سب سے بہتر وہ آدمی ہے جو نہایت خاطر جمعی حضوری قلب اور اطمینان و وقار کے ساتھ نماز پڑھتا ہے۔

【366】

نماز میں نرم کندے والے بہتر ہیں

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ تم (نماز میں) برابر کھڑا ہوا کرو، برابر کھڑے ہوا کرو، برابر کھڑے ہوا کرو اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں جس طرح اپنے سامنے سے تمہیں دیکھتا ہوں اسی طرح (مشاہدے اور مکاشفے کے ذریعے) اپنے پیچھے سے بھی تمہیں دیکھتا ہوں۔ (ابوداؤد)

【367】

پہلی صف کے مقابلہ میں دوسری صف کی فضیلت کم ہے

اور حضرت ابوامامہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے پہلی صف (والوں) پر رحمت بھیجتے ہیں (یہ سن کر) صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ! دوسری صف (والوں) پر بھی (یعنی اس طرح فرمائے کہ پہلی اور دوسری صف پر رحمت بھیجتے ہیں مگر) رسول اللہ ﷺ نے (اس مرتبہ بھی دوسری صف کا ذکر نہیں کیا بلکہ) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے پہلی صف پر رحمت بھیجتے ہیں صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اور دوسری صف پر بھی فرمائیے۔ آنحضرت ﷺ نے (پھریہی فرمایا) کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے پہلی صف پر رحمت بھیجتے ہیں، صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ دوسری صف پر بھی فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اور دوسری صف پر بھی (ا اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں) پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اپنی صفوں کو برابر کو اپنے کندھوں کو ہموار رکھو (یعنی ایک سطح اور ہموار جگہ پر کھڑا ہو اور اونچا نیچا ہو کر مت کھڑے ہو) اور اپنے بھائیوں کے ہاتھ کے آگے نرم رہو۔ (یعنی اگر کوئی آدمی کندھے پر ہاتھ رکھ کر تمہیں صف میں برابر کرے تو اس سے انکار نہ کرو بلکہ برابر ہوجاؤ، نیز صفوں میں خلا پیدا نہ کرو کیونکہ شیطان خذف یعنی بھیڑ کا چھوٹا بچہ بن کر تمہارے درمیان گھس جاتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح صحابہ کے قول و علی الثانی میں جو عطف ہے اسے عطف تلقین فرماتے ہیں یعنی صحابہ کا مطلب یہ تھا کہ پہلی صف کی فضیلت آپ ﷺ نے بیان فرما دی دوسری صف کی فضیلت بھی بیان فرما دیجئے کہ دوسری صف پر بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے تیسری مرتبہ دوسری صف کو بھی پہلی صف کی صف مذکورہ میں شامل فرما دیا جس سے معلوم ہو کہ فضیلت کے اعتبار سے دوسری صف کا درجہ پہلی صف سے کم تر ہے۔

【368】

پہلی صف کے مقابلہ میں دوسری صف کی فضیلت کم ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صفوں کو سیدھی کرو اپنے کندھوں کے درمیان ہمواری رکھ۔ صفوں کے خلاء کو پر کرو اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم رہو (یعنی اگر کوئی آدمی تمہیں ہاتھوں سے پکڑ کر صف میں برابر کرے تو اس کا کہنا مانو) اور صفوں میں شیطان کے لئے خلا نہ چھوڑو اور (فرمایا) جس آدمی نے صف کو ملایا ( یعنی صف میں خالی جگہ پر جا کھڑا ہوگیا) تو اللہ تعالیٰ اسے (اپنے فضل اور اپنی رحمت سے) ملا دے گا اور (یاد رکھو) جو شخص صف کو توڑے گا تو اللہ تعالیٰ اسے توڑ ڈالے گا (یعنی مقام قرب سے دور پھینک دے گا۔ (ابوداؤد) نسائی نے اس حدیث کو من وصل صفا سے آخر تک نقل کیا ہے (یعنی سنن نسائی کی روایت میں من وصل صفا سے پہلے عبارت نہیں ہے)

【369】

امام کو درمیان میں کھڑا ہونا چاہیے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا امام کو درمیان میں رکھو (یعنی صف بندی اس طرح کرو کہ امام کی دائیں اور بائیں جانب کے آدمی برابر ہوں) اور (صف کے) خلا کو بند کرو۔ (ابوداؤد)

【370】

پہلی صف میں شمولیت نہ کرنے پر وعید

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کچھ لوگ ہمیشہ پہلی صف سے پیچھے ہٹتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں دوزخ میں پیچھے ڈالے رکھے گا۔ (ابوداؤد) تشریح حتی یؤخر اللہ فی النار کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ ( جو لوگ پہلی صف میں شامل ہونے کی کوشش نہیں کریں گے اور برابر پیچھے کی صفوں میں شامل ہوتے رہیں گے تو) اللہ تعالیٰ انہیں آخر الامر دوزخ میں داخل کرے گا یا دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ میں پیچھے رہنے والا کرے گا۔ بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ پہلی صف میں شامل ہونے کی کوشش کرتے مگر انہوں نے چونکہ اپنی تساہلی اور کاہلی کی بناء پر ہمیشہ پچھلی صفوں میں کھڑا رہ کر اپنے آپ کو اس ثواب سے محروم رکھا اس لئے اس کے بدلہ میں وہ یہ سزا پائیں گے۔

【371】

صف کے پیچھے تنہا کھڑے ہونے والے کا حکم

اور حضرت وابصہ ابن معبد فرماتے ہیں کہ (ایک روز) رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے تنہا (کھڑا ہوا) نماز پڑھ رہا تھا چناچہ آپ ﷺ نے اسے دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ (ابوداؤد جامع ترمذی) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔ تشریح چونکہ پہلی صف میں جگہ خالی تھی اس کے باوجود وہ آدمی صف کے پیچھے تنہا کھڑا تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اسے بطور استحباب دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ اس سلسلہ میں مسئلہ یہ ہے کہ جو آدمی صف کے پیچھے تنہا کھڑا ہو کر نماز پڑھے گا یعنی پچھلی صف میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا نمازی نہیں ہوگا۔ تو امام احمد کے مسلک کے مطابق اس کی نماز نہیں ہوگی۔ مگر حضرت امام اعظم، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم ان تینوں ائمہ کے نزدیک صف کے پیچھے تنہا پڑھنے والے کی نماز ہوجاتی ہے۔ تاہم ان حضرات کا قول یہ ہے کہ صف کے پیچھے تنہا نماز نہیں پڑھنی چاہیے کیونکہ یہ مکروہ ہے۔

【372】

امام اور مقتدی کے کھڑنے ہونے کی جگہ کا بیان

حضرت عبدا اللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں نے اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ (رض) کے ہاں رات گزرای چناچہ ( جب رسول اللہ ﷺ (تہجد) نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو میں آپ ﷺ کے بائیں طرف جا کر کھڑے ہوگیا رسول اللہ ﷺ نے اپنے پیچھے سے میرا ہاتھ پکڑ کر اس طرح پھیرا (کہ) مجھے اپنے پیچھے کی جانب سے لا کر دائیں طرف کھڑا کرلیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے کئی مسائل کا استنباط ہوتا ہے۔ (١) نفل نماز جماعت سے پڑھنا جائز ہے۔ (٢) اگر جماعت صرف دو آدمیوں کی ہو یعنی ایک امام اور ایک مقتدی۔ تو مقتدی کو امام کی دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے۔ (٣) نماز میں تھوڑا سا عمل جائز ہے۔ (٤) مقتدی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ امام سے آگے ہو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کو آگے کی جانب سے پھیرنے کی بجائے اپنے پیچھے سے پھیر کر دائیں طرف لا کھڑا کیا۔ (٥) ایسے آدمی کے پیچھے اقتداء جائز ہے جس نے شروع سے امام کی نیت نہ کر رکھی ہو۔ ہدایہ میں لکھا ہے کہ صورت مذکورہ میں اگر تنہا مقتدی امام کے پیچھے یا بائیں طرف نماز پڑھے تو جائز ہے لیکن مناسب نہیں ہے۔

【373】

تین آدمیوں کی جماعت

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو میں نے آکر آپ ﷺ کی بائیں طرف کھڑا ہوگیا رسول اللہ ﷺ نے (اپنے پیچھے سے) میرا (داہنا) ہاتھ پکڑا اور (اپنے پیچھے کی جانب سے مجھے لا کر) اپنی دائیں طرف کھڑا کردیا۔ پھر جبار ابن صخر آئے اور رسول اللہ ﷺ کی بائیں طرف کھڑے ہوگئے رسول اللہ ﷺ نے ہم دونوں کے ہاتھ اکٹھے پکڑے (یعنی اپنے دائیں ہاتھ سے ایک کا بایاں ہاتھ پکڑا اور ایک بائیں ہاتھ سے دوسرے کا دایاں ہاتھ پکڑا اور ہمیں اپنی اپنی جگہ سے ہٹا کر اپنے پیچھے کھڑا کردیا۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مقتدی ایک ہو تو وہ امام کے دائیں طرف کھڑا ہوجائے اور اگر ایک سے زیادہ مقتدی ہوں تو پھر سب امام کے پیچھے کھڑے ہوں۔ قاضی نے کہا ہے کہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھوں کو ایک مرتبہ یا بغیر وقفے سے دو مرتبہ حرکت میں لانے سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

【374】

مقتدی مرد و عورت کس طرح کھڑے ہوں

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اور یتیم نے اپنے مکان میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز (جماعت سے) پڑھی اور ام سلیم ہمارے پیچھے تھیں۔ (صحیح مسلم) تشریح ام سلیم حضرت انس (رض) کی والدہ محترمہ کا نام تھا اور یتیم ان کے بھائی کا نام تھا۔ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ یتیم ہی ان کا نام تھا لیکن کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ ان کا نام ضمیرہ تھا۔ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر امام کے پیچھے مرد و عورت دونوں مقتدی کی حیثیت سے نماز میں شامل ہوں تو مردوں کو اپنی صف آگے قائم کرنی چاہیے اور عورتوں کی صف پیچھے رکھنی چاہیے۔

【375】

مقتدی مرد و عورت کس طرح کھڑے ہوں

اور حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ نے ان کے (یعنی حضرت انس کے) اور ان کی والدہ (ام سلیم) یا ان کی خالہ کے ہمراہ نماز پڑھی حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ (اس موقع پر) رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو اپنی دائیں طرف اور عورت (یعنی ان کی والدہ یا خالہ) کو اپنے پیچھے کھڑا کیا۔ (صحیح مسلم)

【376】

مقتدی مرد و عورت کس طرح کھڑے ہوں

اور حضرت ابوبکرہ (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ وہ (ایک مرتبہ نماز میں شامل ہونے کے لئے) رسول اللہ ﷺ کے پاس اس وقت پہنچے جب کہ آپ ﷺ رکوع میں تھے وہ (اس بات کے پیش نظر کہ رکوع ہاتھ سے چلا نہ جائے نیت اور تکبیر تحریہ کے بعد) صف میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع میں چلے گئے پھر آہستہ آہستہ چل کر صف میں شامل ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ سے اس واقعے کا ذکر کیا گیا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ (اطاعت اور نیک کام کے بارے میں) تمہاری حرص اور زیادہ کرے۔ لیکن آئندہ ایسا نہ کرنا۔ (صحیح البخاری) تشریح جس وقت حضرت ابوبکرہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو جماعت کھڑی ہوچکی تھی اور آپ ﷺ رکوع میں جا چکے تھے یہ بجائے اس کے کہ صف میں شامل ہو کر نیت اور تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع میں جاتے صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی نیت اور تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع میں چلے گئے اور پھر وہاں سے دو قدموں کے برابر یا دو قدموں سے بھی زیادہ مگر غیر متوالیہ یعنی قدم پے در پے رکھتے ہوئے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر قدم رکھتے ہوئے چلے اور صف میں شامل ہوگئے چناچہ دو ایک قدم چلنے سے نماز کا اعادہ لازم نہیں آتا لیکن اولیٰ یہی ہے کہ اس سے بھی احتراز کیا جائے۔ حدیث کے آخری لفظ لا تعد کئی طرح منقول ہے۔ (١) ایک تو اسی طرح جیسا کہ یہاں حدیث میں نقل کیا گیا ہے کہ یعنی تا کے زبر اور عین کے پیش کے ساتھ جو عود سے ماخوذ ہے اس کے معنی ہیں آئندہ ایسا نہ کرنا۔ (٢) دوسرے عین کے سکون اور دال کے پیش کے ساتھ لا تعد جو عدوم دوڑنا سے ماخوذ ہے۔ اس طرح اس لفظ کا مطلب یہ ہوگا کہ آئندہ نماز کے لئے چلنے میں اس طرح جلد نہ کرنا بلکہ صبر و سکون اور اطمینان و وقار کے ساتھ چلو۔ یہاں تک کہ صف میں شامل ہوجاؤ پھر اس کے بعد نماز شروع کرو (٣) تیسرے تاکہ پیش اور عین کے زیر کے ساتھ یعنی لاتعد جو اعادۃ (لوٹنا) ماخوذ ہے۔ اس شکل میں حدیث کے معنی یہ ہوں گے جو نماز تم پڑھ چکے ہو اسے لوٹاؤ نہیں۔ بہر حال ان سب میں پہلا قول یعنی لا تعد (آئندہ نہ کرنا) ہی عقل و نقل کی روشنی میں سب سے زیادہ صحیح اور اولیٰ ہے یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ صف کے پیچھے تنہا کھڑا ہونا نماز کو باطل نہیں کرتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر (رض) سے نماز لوٹانے کے لئے نہیں فرمایا۔ ہاں کراہت بلا شبہ ہے۔

【377】

تین آدمیوں کی جماعت ہو تو ان میں سے ایک امام بن جائے

حضرت سمرۃ ابن جندب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ جب ہم تین آدمی (نماز پڑھنے والے) ہوں تو ہم میں سے ایک آدمی (جو ہم میں بہتر ہو) ہمارے آگے ہوجائے (یعنی ہمارا امام بن جائے) ۔ (جامع ترمذی ) تشریح اس حدیث سے تو تین آدمیوں کی جماعت کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک آدمی جو امامت کا مستحق ہو۔ آگے ہوجائے اور امامت کا فریضہ انجام دے۔ یہی حکم دو آدمیوں کی جماعت کا بھی ہے کہ ایک آدمی امام بن جائے اور دوسرا مقتدی، مگر دو آدمیوں کی جماعت کی صورت میں امام آگے نہیں ہوگا بلکہ دونوں برابر برابر کھڑے ہوں گے یعنی امام بائیں جانب رہے اور مقتدی دائیں طرف۔

【378】

امام کے لئے تنہا جگہ پر کھڑا ہونا مکروہ ہے

اور حضرت عمار (رض) سے نماز کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے (ایک روز) مدائن میں (جو کوفہ کے نزدیک ایک شہر ہے) لوگوں کی امامت کی چناچہ وہ نماز پڑھنے کے لئے ایک چبوترے پر کھڑے ہوئے۔ مقتدی ان سے نیچے کھڑے تھے (یہ دیکھ کر) حضرت حذیفہ صف سے نکل کر آگے بڑھے اور عمار کے دونوں ہاتھ پکڑے (اور انہیں نیچے کی طرف کھینچا تاکہ وہ چپوترے سے اتر کر مقتدیوں کے برابر کھڑے ہوں) حضرت عمار (رض) نے حضرت حذیفہ (رض) سے کوئی تعارض نہیں کیا۔ چناچہ حضرت حذیفہ (رض) نے انہیں (چبوترے سے) نیچے اتار لیا۔ حضرت عمار (رض) جب نماز پڑھ کر فارغ ہوچکے تو حضرت حذیفہ (رض) نے ان سے کہا کہ کیا آپ نے یہ نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب کوئی آدمی کسی جماعت کا امام بنے تو وہ اس جگہ پر نہ کھڑا ہو جو مقتدیوں کے کھڑے ہونے کی جگہ سے بلند ہو۔ یا اس کے مانند الفاظ فرمائے حضرت عمار (رض) نے جواب دیا کہ اسی لئے تو جب آپ نے میرے ہاتھ پکڑے تو میں نے آپ کا اتباع کیا۔ (اور کوئی تعارض نہیں کیا یعنی آپ کا کہنا مان کر نیچے اتر آیا۔ ) (ابوداؤد) تشریح صورت مذکورہ میں مسئلہ یہ ہے کہ امام تنہا بلند مقام پر اس طرح کھڑا ہو کہ کچھ مقتدی تو اس کے ساتھ اسی بلند جگہ پر ہوں اور کچھ نیچے ہوں تو یہ مکروہ نہیں ہے البتہ اگر امام تنہا بلند مقام پر کھڑا ہو اور تمام مقتدی نیچے ہوں تو یہ مکروہ ہوگا چناچہ حضرت عمار (رض) اس طرح کھڑے ہوئے کہ وہ تنہا بلند جگہ پر تھے ان کے ساتھ کچھ مقتدی نہیں تھے اور اسی لئے حضرت حذیفہ (رض) نے انہیں نیچے اتار کر کھڑا کیا۔ اگر امام نیچے اور مقتدی بلند جگہ پر ہوں تو کیا حکم ہے صورت تو یہ ہے کہ امام بلند جگہ پر ہو اور مقتدی نیچے ہوں، اگر معاملہ اس کے برعکس ہو یعنی امام تو نیچے کھڑا ہو اور مقتدی بلند مقام پر ہوں تو مسئلے میں مشائخ کے ہاں اختلاف ہے چناچہ حضرت امام طحاوی فرماتے ہیں کہ یہ مکروہ نہیں ہے اس لئے کہ اس طرح اہل کتاب (یعنی غیر مسلموں) کے ساتھ مشابہت نہیں ہوتی کیونکہ ان کے ہاں امام کو بطور خاص بلند جگہ پر کھڑا کیا جاتا تھا لہٰذا امام کا تنہا بلند جگہ پر کھڑا ہونا تو ان کی مشابہت کے پیش نظر مکروہ ہوسکتا ہے لیکن امام کا نیچی جگہ پر اور مقتدیوں کا اونچی جگہ پر کھڑا ہونا مکروہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن جہاں تک ظاہری روایات اور عقلی تقاضہ کا تعلق ہے تو یہ بھی مکروہ ہے کیونکہ اس طرح امام کی حقارت لازم آتی ہے اور اس کی عظمت پر حرف آتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس بلندی پر امام کا تنہا کھڑا ہونا مکروہ ہے اس کی حد کیا ہے ؟ یعنی وہ کتنی بلند جگہ ہو کہ اس پر امام تنہا کھڑا نہ ہو ؟ چناچہ اس سلسلہ میں بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ بقدر قد آدمی بلندی پر امام کے لئے تنہا کھڑا ہونا مکروہ ہے لیکن دوسرے حضرات کا کہنا ہے کہ بلندی کی حد ایک ہاتھ ہے یعنی اگر ایک ہاتھ اونچی جگہ پر بھی امام کھڑا ہوگا تو یہ مکروہ ہوگا اور اسی قول پر فتوی ہے یہ تو مسئلے کی وضاحت تھی اب حدیث کی طرف آئیے ! حدیث کے الفاظ وقام علی دکان یصلی سے ظاہری طور پر یہ کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ جس وقت حضرت حذیفہ نے حضرت عمار کو ٹوکا اور انہیں نیچے اتارا اس وقت حضرت عمار حقیقۃ نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے تھے یعنی نیت باندھ چکے تھے یا انہوں نے صرف نماز پڑھنے کا ارادہ ہی کیا تھا اور کھڑے ہی ہو رہے تھے کہ حضرت حذیفہ نے انہیں نیچے اتارا ؟ ظاہری طور پر یہی ہے کہ حضرت عمار نے اس وقت تک نیت نہیں باندھی تھی بلکہ نماز کے لئے کھڑے ہو ہی رہے تھے اور نیت باندھنے والے تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔ اونحو ذالک حضرت حذیفہ نے رسول اللہ ﷺ کی حدیث جب بیان فرمائی تو آخر میں یہ الفاظ فرمائے کیونکہ انہیں حدیث کے الفاظ بعینہ یاد نہیں رہے تھے۔ لہٰذا انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے یا تو بعینہ یہی الفاظ فرمائے تھے یا اس کی مانند دوسرے الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔ حدیث کے آخری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمار (رض) کو یہ مسئلہ معلوم تھا اور وہ رسول اللہ ﷺ سے یہ سن چکے تھے کہ امام کو تنہا بلند جگہ پر نہیں کھڑا ہونا چاہیے، لہٰذا یہاں یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ جب حضرت عمار ارشاد نبوت پر مطلع تھے اور انہیں یہ مسئلہ معلوم تھا تو انہوں نے اس کے خلاف کیوں کیا ؟ اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ حضرت عمار کو یہ مسئلہ معلوم تھا اور وہ رسول اللہ ﷺ سے اس کی ممانعت سن بھی چکے تھے مگر اس وقت ان کے ذہن میں نہ یہ حدیث رہی اور نہ انہیں یہ مسئلہ یاد آیا۔ ہاں جب حضرت حذیفہ نے تعارض کیا اور انہیں نیچے اتارا تو یہ مسئلہ ان کو یاد آیا اور ایک صادق سچے فرما نبردار ہونے کے ناطے انہوں نے فوراً اس پر عمل کیا۔

【379】

تعلیم کے پیش نظر امام تنہاد اور نچی جگہ کھڑا ہوسکتا ہے

اور حضرت سہل ابن سعد ساعدی (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے (ایک روز) پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کا منبر کس چیز (یعنی کس لکٹر) کا تھا ؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ جنگلی جھاؤ کی لکڑی کا تھا۔ جسے فلاں آدمی نے جو فلاں عورت کا آزاد کردہ غلام تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے لئے بنایا تھا۔ چناچہ جب وہ تیار ہوگیا اور (مسجد میں) رکھا گیا تو رسول اللہ ﷺ (اس پر کھڑے ہوئے اور) قبلہ رو ہو کر (نماز کے لئے) تکبیر تحریمہ کی اور سب لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے رسول اللہ ﷺ نے منبر ہی پر قرأت فرمائی اور رکوع کیا اور دوسرے لوگوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے پیچھے رکوع کیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنا سر مبارک رکوع سے اٹھایا اور پچھلے پاؤں ہٹ کر (یعنی منبر سے اتر کر) زمین پر سجدہ کیا۔ یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور بخاری ومسلم کی متفقہ روایت بھی اس طرح ہے اس حدیث کے راوی نے حدیث کے آخر میں یہ (بھی) کہا ہے کہ (جب نماز سے) رسول اللہ ﷺ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ یہ میں نے اس لئے کیا ہے تاکہ تم لوگ میری پیروی کرو اور میری نماز کی کیفیات اور اس کے احکام و مسائل سیکھ لو۔ تشریح مدینہ منورہ سے نو کوس کے فاصلے پر ایک جنگل ہے وہاں درخت بہت کثرت سے تھے وہیں کے جھاؤ کی لکڑی سے رسول اللہ ﷺ کے لئے منبر بنایا گیا تھا۔ فلاں آدمی سے مراد یا قوم رومی ہیں اور فلاں عورت سے عائشہ انصاریہ کی ذات مراد ہے۔ مولانا مظہر نے لکھا ہے کہ اس منبر پر چھڑنے اترنے کے لئے تین سیڑھیاں تھیں جو بہت قریب قریب بنائی گئی تھیں ان کے ذریعہ سے منبر پر ایک یا دو قدم کے ساتھ چڑھنا بہت آسان تھا۔ لہٰذا اس وجہ سے فعل کثیر لازم نہیں آیا کہ آپ ﷺ کی نماز باطل ہوتی۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر امام اس بات کا ارادہ کرے کہ اس کی نماز کی حرکات و سکنات اور اس کی کیفیات کو دور و نزدیک کھڑے ہوئے سب ہی نمازی دیکھیں اور اس کے ذریعے نماز کے احکام و مسائل سیکھیں تو اس کے لئے بلند جگہ پر تنہا کھڑے ہونا جائز ہے۔ ھذا الفظ البخاری ( یہ الفاظ بخاری کے ہیں) کہ الفاظ اور اس کے بعد عبارت نقل کر کے مصف مشکوٰۃ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ حدیث چونکہ بخاری و مسلم دونوں ہی نے نقل کی ہے اس لئے اس کو پہلی فصل میں ذکر کرنا چاہیے تھا لیکن اس حدیث کو اس فصل میں اس لئے نقل کیا گیا ہے۔ اس لئے مصابیح نے اس کو حسان میں (بخاری و مسلم کے علاوہ دوسرے ائمہ حدیث کی روایتوں کے ساتھ نقل کیا تھا اس کے لئے صاحب مصابیح کی اتباع میں ہم نے بھی اس فصل میں نقل کرنا مناسب سمجھا۔

【380】

اعتکاف میں رسول اللہ ﷺ کی امامت

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجرے کے اندر نماز پڑھی اور لوگوں نے حجرے کے باہر آپ ﷺ کی اقتداء کی۔ (سنن ابوداؤد) تشریح اس حدیث کا تعلق رمضان شریف سے ہے رسول اللہ ﷺ نے مسجد کے ایک حصہ میں اعتکاف کے لئے بوریے کا ایک حجرہ سا بنا لیا تھا۔ آپ ﷺ نے اس حجرہ میں چند شب تراویح کی نماز پڑھی چناچہ صحابہ اس موقع پر حجرے سے باہر کھڑے ہو کر آپ ﷺ کی اقتدا کرتے تھے۔

【381】

صف بندی کا طریقہ

حضرت ابومالک اشعری (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے (لوگوں سے) کہا کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز (کیفیت) سے آگاہ نہ کروں ؟ تو سنو کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز ( کے لئے لوگوں) کو کھڑا کر کے (اول) مردوں کی صف قائم کی پھر ان کے پیچھے لڑکوں کی صف باندھی اور انہیں نماز پڑھائی۔ ابومالک نے رسول اللہ ﷺ کی نماز (کی کیفیت) بیان کی اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے (نماز پڑھ کر فرمایا کہ نماز اسی طرح پڑھنی چاہیے۔ عبدالاعلی (جنہوں نے یہ روایت ابومالک سے نقل کی ہے) فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابومالک نے میری امت کی (بھی) کہا ہے یعنی ابومالک نے حدیث کے آخری الفاظ اس طرح نقل کئے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ھٰکَذَا صَلٰوۃُ اُمَّتِی (یعنی میری) امت کی نماز اسی طرح ہونی چاہیے۔ (ابوداؤد) تشریح حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ میری امت کے لوگوں کو چاہیے کہ نماز کی جو کیفیت مجھے سے نقل کی گئی ہے اسی طرح نماز میں پڑھیں نیز اس سے یہ تنبیہ بھی مقصود ہے کہ جو لوگ اس طریقے سے یعنی سنت نبوی کے مطابق نماز نہیں پڑھیں گے وہ اپنے اس علم سے یہ ظاہر کریں گے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی تابعدار امت میں سے نہیں ہیں۔

【382】

صف بندی کا طریقہ

اور حضرت قیس ابن عباد (رح) (تابعی) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) میں مسجد میں پہلی صف میں کھڑا (نماز پڑھ رہا) تھا۔ ایک آدمی نے پیچھے سے مجھے کھینچا اور مجھ کو ایک طرف کر کے خود میری جگہ کھڑا ہوگیا اللہ کی قسم ! (اس غصے کی وجہ سے کہ اس نے مجھے پہلی صف سے جو افضل ہے کھینچ لیا باوجود اس کے کہ میں وہاں پہلے سے کھڑا تھا) مجھے اپنی نماز کا بھی ہوش نہ رہا۔ ( کہ میں نماز کس طرح ادا کر رہا ہوں اور کتنی رکعتیں پڑھ رہا ہوں) جب وہ آدمی نماز پڑھا چکا (اور میں نے بھی نماز پڑھنے کے بعد دیکھا) تو معلوم ہوا کہ وہ حضرت ابی بن کعب (رض) تھے (مجھے غصے کی حالت میں دیکھ کر) انہوں نے فرمایا کہ اے جوان (اس وقت میں نے تمہارے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہیں غمگین نہ کرے۔ (چونکہ) ہمارے لئے رسول اللہ ﷺ کی یہ وصیت ہے کہ ہم آپ کے پاس کھڑے ہوا کریں ( اس لئے آپ کے بعد اب ہم امام کے قریب کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں) پھر قبلے کی طرف منہ کر کے تین مرتبہ فرمایا رب کعبہ کی قسم ! اہل عقد (یعنی سردار) ہلاک ہوگئے ! اور فرمایا اللہ کی قسم ! مجھے سرداروں کا کوئی غم نہیں ہے، غم تو ان لوگوں (یعنی رعایا) کا ہے جنہیں سردار گمراہ کرتے ہیں ( بایں طور کہ جو کام سردار کرتے ہیں وہی کام ان کی رعایا کرتی ہے) قیس ابن عباد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی ابن کعب (رض) سے عرض کیا کہ ابویعقوب ! اہل عقد سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ فرمایا امراء (یعنی سردار و حکام ) ۔ (سنن نسائی ) تشریح حضرت ابی بن کعب کے الفاظ اِنْ ھٰذَا عَھْدٌ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الخ سے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی طرف اشارہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا لِیَلنِی مِنْکُمْ اُوْلُوْ الْاَحْلَامِ وَالنُّھٰی یعنی (نماز میں) تم میں سے صاحب عقل و بالغ میرے نزدیک کھڑے ہوا کریں۔ اس ارشاد کا حاصل چونکہ یہ تھا کہ جو لوگ صاحب عقل و فہم اور بالغ ہوں وہ امام کے قریب کھڑے ہوا کریں اور قیس ابن عباد اس زمرے میں آتے نہیں تھے۔ اس لئے حضرت ابی بن کعب نے انہیں وہاں سے ہٹا دیا اور خود وہاں کھڑے ہوگئے۔ ھَلَکَ اَھْلُ الْعَقْدِ (اہل عقد یعنی سرور و احکام ہلاک ہوگئے) اس کا مطلب یہ ہے کہ رعایا کے اعمال و کردار اور ان کے دینی و دنیاوی احکام و افعال یہاں تک صف بندی کی رعایت اور نگہداشت حکام و سرداروں کے ذمہ ہے لیکن وہ حکام و سردار جو اپنی رعایا کے دینی و دینوی کاموں کے نگہبان و سربراہ ہونے کی حیثیت سے لوگوں کے افعال و کردار پر نظر رکھتے تھے اور انہیں سنت نبوی پر چلاتے تھے ختم ہوگئے۔ اس لئے نیتجہ یہ ہوا کہ لوگوں کو دینی کاموں میں سست رفتاری بےراہ روی اور غلط انداز عمل و انداز فکر پیدا ہوگیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان الفاظ کے ذریعے حضرت کعب نے اپنے زمانے کے حاکم پر طعن کیا ہے مگر حضرت کعب کا انتقال چونکہ حضرت عثمان (رض) کی خلافت کے زمانے میں ہوا ہے اس لئے یہ کہا جائے گا کہ ان الفاظ کا محمل خود خلیفہ کی ذات نہیں ہے بلکہ حضرت کعب کے پیش نظر حضرت عثمان (رض) کے وہ بعض حکام ہوں گے جو اپنے فرائض کو پورے طور سے انجام نہیں دیتے تھے۔

【383】

امامت کا بیان

شریعت میں نماز کی امامت کا بڑا اہم اور عظیم الشان کام ہے تمام مقتدیوں کی نمازوں کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے امام مقرر کرنے کے سلسلے میں شریعت نے کچھ شرائط مقرر کی ہیں اور یہ بتایا ہے کہ اس اہم اور عظیم الشان منصب کا حامل کون آدمی ہوسکتا ہے، اس باب کے تحت اس قسم کی احادیث نقل کی جائیں گی جن سے معلوم ہوگا کہ امام مقرر کرنے کے وقت کن باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور یہ کہ امامت کا استحقاق کن لوگوں کو حاصل ہے۔ اس سلسلہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ مقتدیوں کو چاہیے کہ حاضر نمازیوں میں جس آدمی میں امامت کے لائق زیادہ اوصاف ہوں اس کو امام بنائیں اگر کئی آدمی ایسے ہوں جن میں امامت کی لیاقت ہو تو کثرت رائے پر عمل کیا جائے یعنی جس آدمی کی طرف زیادہ لوگوں کی رائے ہوں اسی کو امام بنایا جائے اگر کسی ایسے آدمی کی موجودگی میں جو امامت کا مستحق اور لائق ہو کسی غیر مستحق اور نالائق آدمی کو امام بنا لیا جائے گا تو سب نمازی ترک سنت کے فتنے میں مبتلا ہوں گے۔ (١) امامت کا سب سے زیادہ استحقاق اس آدمی کو ہے جو نماز کے مسائل خوب جانتا ہو بشر طی کہ ظاہری طور پر اس میں کوئی فسق وغیرہ نہ ہو اور کم سے کم بقدر قرأت مسنون اسے قرآن یاد ہو۔ (٢) پھر وہ آدمی جو قرآن مجید اچھا یعنی عمدہ آواز سے قرأت کے قاعدے کے موافق پڑھتا ہو۔ (٣) پھر وہ آدمی جو سب سے زیادہ خوبصورت ہو (٤) پھر وہ آدمی جو سب سے عمر زیادہ رکھتا ہوں۔ (٥) پھر وہ آدمی جو سب سے زیادہ خلیق ہو (٦) پھر وہ آدمی جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو (٧) پھر وہ آدمی جو سب سے عمدہ لباس پہنے ہو (٨) پھر وہ آدمی جس کا سر سب سے زیادہ بڑا ہو (٩) پھر وہ آدمی جو مقیم ہو بہ نسبت مسافروں کے (١٠) پھر وہ آدمی جو اصلی آزاد ہو (١١) پھر وہ آدمی جس نے حدث اصغر سے تییم کیا ہو بنسبت اس آدمی کے جس نے حدث اکبر سے تییم کیا ہو۔ جس آدمی میں دو وصف پائے جائیں وہ امامت کا زیادہ مستحق ہے بہ نسبت اس آدمی کے جس میں ایک ہی وصف پایا جاتا ہے۔ مثلاً وہ آدمی جو نماز کے مسائل بھی جانتا ہو اور قرآن مجید بھی اچھی طرح پڑھتا ہو امامت کا زیادہ مستحق اور اہل ہے بہ نسبت اس آدمی کے جو صرف نماز کے مسائل جانتا ہو قرآن مجید اچھی طرح نہ پڑھتا ہو۔

【384】

امامت کا مستحق کون ہے؟

حضرت ابومسعود (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قوم کی امامت وہ آدمی کرے جو نماز کے احکام و مسائل جاننے کے ساتھ قرآن مجید سب سے اچھا پڑھتا ہو (یعنی تجوید سے واقف ہو۔ اور حاضرین میں سب سے اچھا قاری ہو) اگر قرآن مجید اچھا پڑھنے میں سب برابر ہوں۔ تو وہ آدمی امامت کرے جو (قرأت مسنونہ اچھی طرح پڑھنے کے ساتھ) سنت کا علم سب سے زیادہ رکھتا ہو۔ اگر (قرآن مجید اچھی طرح پڑھنے اور) سنت کا علم جاننے میں سب برابر ہوں تو وہ آدمی امامت کرے جو (مدینہ میں) سب سے پہلے ہجرت کر کے آیا ہو اگر ( علم قرأت اور) ہجرت میں سب برابر ہوں تو وہ آدمی امامت کرے جو عمر میں سب سے بڑا ہو ! اور کوئی دوسرے کے علاقے میں امامت نہ کرے (یعنی دوسرے مقررہ امام کی جگہ امامت نہ کرے) اور کسی کے گھر میں اس کی مسند پر اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے۔ (صحیح مسلم) اور مسلم کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (آپ ﷺ نے فرمایا) کہ کوئی آدمی دوسرے کے گھر میں (اس کی اجازت کے بغیر اگرچہ وہ صاحب خانہ سے افضل ہی کیوں نہ ہو) امامت نہ کرے۔ تشریح علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ فَاَعْلَمُھُمْ بِالسُّنَۃِ میں سنت سے مراد رسول اللہ ﷺ کی احادیث ہیں عہد صحابہ میں جو آدمی احادیث زیادہ جانتا تھا وہ بڑا فقیہ مانا جاتا تھا حضرت امام احمد اور امام ابویوسف کا عمل اسی حدیث پر ہے، یعنی ان حضرات کے نزدیک امامت کے سلسلہ میں قاری عالم پر مقدم ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ حضرت امام محمد حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک یہ ہے کہ زیادہ علم جاننے والا اور فقیہ امامت کے سلسلے میں بڑے قاری پر مقدم ہے کیونکہ علم قرأت کی ضرورت تو نماز کے صرف ایک ہی رکن میں (یعنی قرأت کے وقت ہوتی ہے، برخلاف اس کے کہ علم کی ضرورت نماز کے تمام ارکان میں پڑتی ہے) جن احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالم پر سب سے اچھا قرآن پڑھنے والا مقدم ہے اس کا جواب ان حضرات کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو لوگ قاری ہوتے تھے وہی سب سے زیادہ علم والے بھی ہوتے تھے کیونکہ وہ لوگ قرآن کریم مع احکام کے سیکھتے تھے اسی وجہ سے احادیث میں قاری کو عالم پر مقدم رکھا گیا ہے اور اب ہمارے زمانے میں چونکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اکثر قاری مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں، اس لئے ہم عالم کو قاری پر مقدم رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان حضرات کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں حضرت ابوبکر صدیق سے لوگوں کو نماز پر ھوائی باوجود اس کے وہ قاری نہ تھے بلکہ سب سے زیادہ علم والے تھے حالانکہ اس وقت ان سے زیادہ بڑے بڑے موجود تھے۔ فاقدمہم ہجرۃ کے بارے میں ابن مالک (رح) فرماتے ہیں کہ آج کل ہجرت چونکہ متروک ہے اس لئے اب یہاں حقیقی ہجرت کے بجائے معنوی ہجرت (یعنی گناہوں اور برائیوں سے ترک) کا اعتبار ہوگا یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے علم اور قرأت میں برابری کے بعد پرہیز گاری کو مقدم رکھا ہے یعنی اگر وہ آدمی ایسے جمع ہوں جو عالم بھی ہوں اور قاری بھی ہوں تو ان دونوں میں سے امامت کا مستحق وہ آدمی ہوگا جو دوسرے کی بہ نسبت زیادہ پرہیز گاری کے وصف کے حامل ہوگا۔ اس حدیث میں امامت کے صرف اتنے ہی مراتب ذکر کئے گئے ہیں لیکن علماء نے کچھ اور مراتب ذکر کئے ہیں چناچہ اگر عمر میں بھی سب برابر ہوں تو وہ آدمی امامت کرے جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق و الا ہو اگر اخلاق میں بھی سب برابر ہوں تو وہ آدمی امامت کرے جو اچھے چہرے والا ہو یعنی خوبصورت ہو اگر خوبصورتی میں سب برابر ہوں تو وہ آدمی امامت کرے جو سب سے عمدہ لباس پہنے ہوئے ہو یا سب سے زیادہ شریف النسب ہو اگر تمام اوصاف میں سب برابر ہوں تو اس صورت میں بہتر شکل یہ ہے کہ قرعہ ڈالا جائے جس کا نام نکل آئے وہ امامت کرے یا پھر قوم جسے چاہیے اپنا امام مقرر کرے اور اس کے پیچھے نماز پڑھے۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کی سلطنت و علاقے میں امامت نہ کرے اسی طرح ایسی جگہ بھی امامت نہ کرے جس کا مالک کوئی دوسرا آدمی ہو جیسا کہ دوسری روایت کے الفاظ فی اھلہ سے ثابت ہوا۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی مقام پر حاکم وقت امامت کرتا ہے یا حاکم وقت کی جانب سے مقرر شدہ اسی کا نائب جو امیر اور خلیفہ کے ہی حکم میں ہوتا ہے امامت کے فرائض انجام دیتا ہے تو کسی دوسرے آدمی کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ سبقت کر کے امامت کرے خاص طور پر عیدین اور جمعہ کی نماز میں تو یہ بالکل ہی مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح جس مسجد میں امام مقرر ہو یا کسی مکان میں صاحب خانہ کی موجودگی میں مقررہ امام اور صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر امامت کی طرف سبقت کرنا کسی دوسرے آدمی کا حق نہیں ہے کیونکہ اس طرح امور سلطنت میں انحطاط آپس میں بعض وعناد ترک ملاقات، افتراق و اختلاف اور فتنہ و فساد کا دروازہ کھلتا ہے اور جب کہ جماعت کی مشروعیت ہی انہیں غیر اخلاقی چیزوں کے سد باب کے لئے ہوئی ہے چناچہ اس سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کا یہ رویہ قابل تقلید ہے کہ وہ اپنے فضل و شرف اور علم وتقوی کے باوجود حجاج بن یوسف جیسے ظالم و فاسق کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔

【385】

امامت کا مستحق کون ہے؟

حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب (نماز پڑھنے کے لئے) تین آدمی (جمع) ہوں تو ان میں سے ایک امام بن جائے اور ان میں سے امامت کا زیادہ مستحق وہ ہے جو زیادہ تعلیم یافتہ ہو۔ (صحیح مسلم) تشریح تین آدمیوں کی قید اتفاقی ہے تین سے کم یا زیادہ ہونے کی شکل میں بھی یہی حکم ہے کہ ان میں سے ایک امام بن جائے اور باقی مقتدی علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اکثر صحابہ عمر کا ایک بڑا حصہ طے کرچکے تھے جب اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئے اس وجہ سے وہ لوگ قرآن پڑھنے سے پہلے علم دین سیکھتے تھے لیکن بعد میں یہ صورت نہ رہی بلکہ اب تو لوگ عمر کے ابتدائی حصے میں علم دین حاصل کرنے سے پہلے قرآن کریم پڑھنا سیکھ لیتے ہیں۔ بہر حال۔ امامت کے سلسلے میں اچھے قاری پر اس فقیہ اور عالم کو اولیت حاصل ہوگی جو نماز کے احکام و مسائل کا علم جانتا ہو معاملات کا زیادہ علم رکھنے والا قاری پر مقدم نہیں ہوسکتا۔ وَذَکَرَ حَدِیْثٌ مَالِکِ بْنِ اَلْحُوَیْرِثِ فِیْ بَابِ فَضْلِ الْاذَانَ اور مالک بن حویرث کی روایت باب فضل الاذان کے بعد کے باب میں ذکر کی جا چکی ہے (یعنی اس حدیث کو صاحب مصابیح نے یہاں ذکر کیا تھا مگر ہم نے اسے وہاں نقل کردیا ہے۔

【386】

امامت کا مستحق کون ہے؟

حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو لوگ بہتر ہیں انہیں اذان دینی چاہیے اور تم میں جو لوگ خوب تعلیم یافتہ ہوں انہیں تمہاری امامت کرنی چاہیے۔ (ابوداؤد) تشریح نماز و روزے کے اوقات کی ذمہ داری مؤذنوں پر ہی ہوتی ہے نیز جب مؤذن بلند جگہ پر کھڑے ہو کر آذان دیتا ہے تو بسا اوقات اس کی نظر لوگوں کے گھروں پر پڑتی ہے لہٰذا مؤذن اگر صاحب دیانت اور دیندار متقی ہوگا تو وہ نماز روزے کے اوقات کی بھی رعایت کرے گا اور اپنی نظر کو غیر محرم پر پڑنے سے بھی بچائے گا۔

【387】

امامت کا مستحق کون ہے؟

اور حضرت ابوعطیہ عقیلی (رح) (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت مالک ابن حویرث (رض) (صحابی) مسجد میں آیا کرتے تھے اور (ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ کی) حدیث بیان کرتے (اور بات چیت کرتے رہتے) تھے ایک دن (جب کہ وہ ہمارے درمیان مسجد میں موجود تھے) نماز کا وقت ہوگیا۔ ابوعطیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے مالک سے (ان کی شان صحابیت کی عظمت و فضیلت کے پیش نظر) کہا کہ آگے ہوجائیے اور ہمیں نماز پڑھائیے حضرت مالک نے فرمایا کہ تم اپنے ہی میں سے کسی کو آگے کرو تاکہ وہ تمہیں نماز پڑھائے اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں نماز کیوں نہیں پڑھاتا (تو سنو کہ) میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو آدمی کسی قوم سے ملاقات کرے تو وہ ان کی امامت نہ کرے (بلکہ ان میں سے کسی آدمی کو ان کی امامت کرنی چاہیے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی) نسائی نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے مگر انہوں نے صرف رسول اللہ ﷺ ذکر نہیں کیا بلکہ صرف رسول اللہ ﷺ کے الفاظ پر اکتفاء کیا ہے یعنی انہوں نے اپنی روایت میں حضرت مالک کے مسجد میں آنے کا واقعہ اور ان کا امامت سے انکار کرنا ذکر نہیں کیا بلکہ صرف رسول اللہ ﷺ کے الفاظ من زاد سے آخر تک نقل کیا ہے) تشریح حضرت مالک نے اپنی فضیلت و بڑائی اور ان لوگوں کی اجازت کے باوجود امامت کا فریضہ انجام نہیں دیا کیونکہ ان کے سامنے رسول اللہ ﷺ کا یہ اشارہ تھا کہ انہوں نے بظاہر حدیث پر عمل کرنا ہی اپنے حق میں بہتر سمجھا۔

【388】

نا بینے آدمی کی امامت جائز ہے

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبدا اللہ ابن ام مکتوم (رض) کو اپنا قائم مقام مقرر کیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں اور وہ نابینا تھے۔ (سنن ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نا بینے کی امامت بلا کراہت جائز ہے اس سلسلے میں حنفی مسلک میں یہ فقہی روایتیں بھی وارد ہیں کہ اگر نابینا قوم کا سردار ہو تو اس کی امامت جائز ہے بلکہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اگر نابینا بہت زیادہ علم کا حامل ہو تو امامت کے سلسلے میں وہ اولیٰ ہے۔ (شرح کنز، اشباہ و النظائر)

【389】

نا پسندیدہ امام کی نماز قبول نہیں ہوتی

اور حضرت ابوامامہ (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کی نماز ان کے کانوں سے بلند نہیں ہوتی (یعنی درجہ قبولیت کو نہیں پہنچتی) ایک تو اپنے مالک کے ہاں سے بھاگا ہوا غلام جب تک کہ وہ (اپنے مالک کے پاس) واپس نہ آجائے دوسری وہ عورت جو اس حالت میں رات گزرا دے کہ اس کا خاوند اس سے ناراض ہو تیسرا وہ امام جسے اس کی قوم پسند نہ کرتی ہو۔ (امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے) تشریح غلام کے حکم میں باندی بھی داخل ہے یعنی اگر باندی بھی اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ جائے تو اس کا بھی یہی حال ہوگا کہ جب تک وہ اپنے آقا کے پاس واپس نہ آجائے گی اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ عورت کے بارے میں جو فرمایا گیا ہے تو یہ اس شکل میں ہے جب کہ عورت بدخلق ہو اور اس کا خاوند اس کی بد خلقی، نافرما نبرداری اور بےادبی کی وجہ سے اس سے ناراض ہو اور اگر خاوند ہی بدخلق ہو اور اپنی بیوی سے ناحق ناراض و خفا ہے تو عورت گنہگار نہیں ہوگی بلکہ مرد ہی گنہگار ہونگے۔ امام کے بارے میں حضرت ابن ملک (رح) فرماتے ہیں کہ امام پر یہ گناہ اس وقت ہوگا جب کہ اس کی بدعت اور اس کے فسق یا اس کے جہل کی وجہ سے اس کے مقتدی اس سے ناراض ہوں اور اگر مقتدی کسی دینوی غرض کے تحت اس سے کراہت و عداوت رکھتے ہوں تو امام مطلقاً گنہگار نہیں ہوگا اور نہ ایسے امام کے حق میں حدیث کا مذکورہ بالا حکم ہے بلکہ مقتدی ہی گنہگار رہیں گے۔ اتنی بات سمجھ لیجئے کہ حدیث میں مذکورہ امام سے مراد بھی نماز کا امام بھی ہے اور حاکم و خلیفہ بھی یعنی اگر کسی حاکم اور خلفیہ سے اس کی رعایا اس کی بداعمالیوں اور غلط کاریوں کی وجہ سے نا خوش ہوگی تو وہ بھی ایسا ہی گنہگار ہوگا۔

【390】

تین آدمیوں کی نماز قبول نہیں ہوتی

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کی نماز قبول نہیں ہوتی (یعنی انہیں نماز کا ثواب نہیں ملتا) ایک تو وہ آدمی جو کسی قوم کا امام ہو اور قوم اس سے خوش نہ ہو دوسرا آدمی جو نماز میں پیچھے آئے اور پیچھے کا مطلب یہ ہے کہ نمازوں کا (مستحب) وقت نکل جانے کے بعد آئے اور تیسرا وہ آدمی جو آزاد کو غلام سمجھے۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح اعتبد محروۃ (آزاد کو غلام سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ غلام کو آزاد کر دے اور پھر بعد میں زبردستی اس سے خدمت لینے لگے یا غلام کو آزاد کردیا مگر اس کی آزادی کو خود اس غلام سے چھپائے یا کسی آزاد آدمی کے بارے میں دعوی کرے کہ یہ میرا غلام ہے اور اس کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک بھی کرے۔ یا بردہ ( غلام) مول لے کر اس پر مالکانہ تصرف کرے مگر حقیقت میں اس کی خریداری شرعی طور پر نہ ہوئی ہو جیسا کہ لوگ غیر شرعی طور پر غلام اور لونڈی مول لیتے ہیں۔ شرعی غلام اور لونڈی کی تفصیل فقہاء اس طرح لکھتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کی جماعت دارالاسلام سے دارالحرب جا کر غلبہ حاصل کرے اور زبر دستی حربی کافر کو خواہ مرد ہوں یا عورت خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے غلام اور لونڈی بنا کر دارالاسلام میں لائے یا۔ اسی طرح کسی ملک کے حربی کفار دوسرے ملک کے حربی کفار پر غلبہ حاصل کر کے انہیں زبردستی لے آئیں تو ان دونوں صورتوں میں غلام اور لونڈی بنانے والے خواہ وہ مسلمان ہوں یا کافر ان غلاموں اور لونڈیوں کے مالک ہوتے ہیں ان غلاموں اور لونڈیوں کی خریدو فروخت کرنا ان کو رہن رکھنا ان کو ہبہ کرنا، لوندیوں کے ساتھ بغیر نکاح کا ہم بستری کرنا اور اسی طرح ان پر تمام مالکانہ تصرفات کرنے جائز ہیں نیز اس صورت میں لونڈی کی اولاد بھی ان ہی کا حکم رکھتی ہے بشرطیکہ وہ مالک یا ذی رحم مالک سے پیدا نہ ہو اور اگر ان میں سے کسی سے پیدا ہوگی تو وہ آزاد ہوگی بہر حال فقہاء نے بردے کی یہ دونوں قسمیں لکھ کر مزید قسمیں بھی لکھی ہیں اور ان میں سے بعض کے بارے میں کہا ہے کہ ان صورتوں میں شرعی بردے نہیں ہوتے اور بعض کے بارے میں اختلاف کیا ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ مذکورہ بالا دونوں قسموں کے علاوہ اور کسی صورت میں شرعی بردے نہیں ہوتے اور نہ ان کی خریدو فروخت شرعی طور پا جائز ہوتی ہے۔ لہٰذا مسلمان کو چاہیے کہ وہ غلام اور لونڈی کے بارے میں احتیاط سے کام لیں اگر شرعی لونڈی ہو تو اسے خدمت میں لائیں ورنہ ایسا نہ کریں کہ جس پر بھی لونڈی ہوجانے کا داغ لگ جائے اگر وہ شرعی لونڈی نہ ہو تو جانوروں کی طرح اندھا دھند اس سے صحبت نہ کرنے لگیں کہ درحقیقت ایسا کرنا حرام کاری اور زنا میں مبتلا ہونا ہے اسی طرح اس کے ساتھ دیگر مالکانہ تصرفات بھی نہ کئے جائیں۔

【391】

امامت سے عام گریز قیامت کی علامت ہے

اور حضرت سلامۃ بنت حر راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کی علامتوں میں سے (ایک علامت یہ ہے کہ مسجد کے لوگ امامت کو دفع کریں گے یعنی امام بننے سے گریز کریں گے) اور کوئی نماز پڑھانے والا ان کو نہ ملے گا۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح یہ دراصل آخری زمانے کے عام جہل و فسق سے کنایہ ہے کہ قیامت کے قریب جہل و فسق عمومی طور پر اس طرح پھیل جائے گا۔ اور لوگ اتنے جاہل و نااہل پیدا ہوں گے کہ کوئی آدمی امامت کا اہل نہیں ہوگا تمام لوگ اپنی نا اہلی و جہالت کے پیش نظر امامت سے گریز کرنے لگیں گے اور آس پاس میں ایک دوسرے سے نماز پڑھانے کے لئے کہیں گے مگر ہر آدمی امام بننے سے انکار کرے گا۔ ہاں اگر کوئی آدمی کسی کو اپنے سے افضل سمجھ کر خود امامت سے گریز کرے اور اس سے نماز پڑھانے کے لئے کہے تو اس کا تعلق اس حدیث سے نہیں ہوگا کیونکہ دوسرے کو افضل اور اپنے سے بہتر سمجھ کر خود امامت سے گریز کرنا اور اس افضل کو امامت کے لئے کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

【392】

فاسق کی امامت جائز ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے اوپر جہاد ہر سردار کے ہمراہ خواہ وہ نیک ہو یا بد واجب ہے اگرچہ وہ (سردار) گناہ کبیرہ کرتا ہو اور تم پر نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے خواہ وہ (نماز پڑھانے والا) نیک ہو یا بد واجب ہے اگرچہ گناہ کبیرہ کرتا ہو اور نماز جنازہ ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ نیک ہو یا بد اگرچہ گناہ کبیرہ کرتا ہو۔ (ابوداؤد) تشریح جہاد واجب ہے کا مطلب یہ ہے کہ بعض صورتوں میں تو جہاد فرض عین ہے اور بعض صورتوں میں فرض کفایہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے خواہ وہ فاسق ہی کیوں نہ ہو بشرطیکہ اس کا فسق کفر کی حد تک نہ پہنچ چکا ہو فاسق کے پیچھے نماز ادا تو ہوجاتی ہے لیکن اس کے پیچھے نماز پڑھنا بہر حال مکروہ ہے۔ علماء لکھتے ہیں کہ نیک بخت کی موجودگی میں فاسق کو امامت نہیں کرنی چاہیے۔ نماز جنازہ کے واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان پر جنازہ کی نماز پڑھنا فرض کفایہ ہے۔

【393】

نا بالغ کی امامت کا مسئلہ

حضرت عمرو ابن سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم پانی کے کنارے رہتے تھے جو لوگوں کی گزر گاہ تھا قافلے ہمارے پاس سے گزرتے ہم ان سے پوچھتے تھے کہ لوگوں کے واسطے (ایک آدمی یعنی رسول اللہ ﷺ نے جو دین نکالا ہے وہ) کیا ہے ؟ اور اس آدمی (یعنی حضرت محمد ﷺ کی صفات کیا ہیں ؟ وہ لوگ ہم سے بیان کرتے کہ وہ (رسول ﷺ دعوی کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں (اپنا نبی برحق بنا) کر بھیجا ہے اور (قافلے کے لوگ قرآن کی آیتیں سنا کر کہا کرتے تھے کہ یہ) ان کے پاس وحی آتی ہے (اس طرح) ان کے پاس وحی آتی ہے چناچہ میں (رسول اللہ ﷺ کے اوصاف کو جو قافلے والے بیان کرتے تھے اور کلام کو) یعنی قافلے والے جو آیتیں پڑھ کر سنایا کرتے ان کو اس طرح یاد کرلیتا تھا گویا وہ میرے سینے میں جم جاتی تھیں (یعنی قرآن کی آیتیں مجھے خود یاد ہوجایا کرتی تھیں) اہل عرب (رسول اللہ ﷺ کی جماعت کے علاوہ) اسلام لانے کے سلسلے میں مکہ کے فتح ہونے کا انتظار کر رہے تھے (یعنی یہ کہتے تھے کہ اگر مکہ فتح ہوگیا تو ہم اسلام لائیں گے اور یہ) کہا کرتے تھے تھے ان (رسول ﷺ کو ان کی قوم پر چھوڑ دو اگر وہ اپنے لوگوں پر غالب آگئے اور مکہ کو فتح کرلیا) تو سمجھو کہ وہ سچے نبی ہیں (کیونکہ ان کی اس ظاہری بےسروسامانی اور مادی کمزوری کے باوجود اہل عرب پر غالب آجانا اور مکہ کو فتح کرلینا ان کا معجزہ ہوگا اور معجزہ صرف سچے نبی ہی سے صادر ہوسکتا ہے چناچہ جب اللہ نے اپنے دین کا بول بالا کیا اور مکہ فتح ہوگیا تو لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے ٹوٹ پڑے میرے والد نے اپنی قوم پر پہل کی اور سب سے پہلے اسلام لے آئے جب وہ یعنی میرے والد لوٹ کر آئے تو اپنی قوم سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ! میں سچے نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ فلاں وقت میں ایسی ( اور اتنی) نماز پڑھو اور فلاں وقت میں ایسی (اور اتنی) نماز پڑھو (یعنی آپ نے نماز کی کیفیات اور اوقات بیان کئے) اور جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے ایک آدمی اذان دے اور تم میں سے جو آدمی قرآن زیادہ جاننے والا ہو وہ تمہاری امامت کرائے چناچہ جب نماز کا وقت آیا اور جماعت کی تیاری ہوئی تو لوگوں نے آپس میں دیکھا ( کہ امام کسے بنایا جائے ! ) مجھ سے زیادہ کوئی قرآن کا جاننے والا نہیں تھا کیونکہ میں (پہلے ہی سے) قافلے والوں سے قرآن سیکھ رہا تھا چناچہ لوگوں نے مجھے آگے کردیا (اور نماز میں میری اقتداء کی) اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور میرے بدن پر فقط ایک چادر تھی چناچہ جب میں سجدہ کرتا تو وہ چادر میرے بدن سے سرک جاتی تھی (اور کو لھے کھل جاتے تھے) قوم میں سے ایک عورت نے (یہ دیکھ کر) کہا کہ ہمارے سامنے سے تم لوگ اپنے امام کی شرم گاہ کیوں نہیں ڈھانکتے ؟ تب قوم نے کپڑا خریدا اور میرے لئے کرتہ بنوا دیا اس مرتبے کی وجہ سے مجھے جیسی خوشی ہوئی ایسی خوشی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ (صحیح البخاری) تشریح عام طور پر سلمہ لام کے زبر کے ساتھ ہے مگر یہ عمرو جو قوم کے امام بنے تھے ان کے والد کے نام سلمہ میں لام زبر کے ساتھ ہے۔ اس کے بارے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ عمرو ابن سلمہ بھی اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اسلام قبول کرنے گئے یا نہیں ؟ اسی وجہ سے اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا یہ صحابی نہیں یا ہیں ؟ بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے والد تنہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گئے تھے یہ ان کے ساتھ نہیں گئے تھے۔ حضرت امام شافعی (رح) لڑکے کی امامت کے جواز میں اسی حدیث سے استدالال کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نابالغ لڑکے کی امامت جائز ہے البتہ جمعے کی نماز میں نابالغ لڑکے کی امامت کے سلسلے میں امام شافعی کے دو قول ہیں ایک قول سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ جمعے کی نماز میں بھی لڑکے کی امامت کے جواز کے قائل ہیں اور دوسرے قول سے عدم جواز کا اثبات ہوتا ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم فرماتے ہیں کہ نابالغ کی امامت جائز نہیں ہے البتہ نفل نماز کے سلسلہ میں علماء حنفیہ کے ہاں اختلاف ہے چناچہ بلح کے مشائخ نماز میں نابالغ لڑکے کی امامت کے جواز کے قائل ہیں اور اسی پر ان کا عمل ہے نیز مصر اور شام میں بھی اس پر عمل کیا جاتا ہے ان کے علاوہ دیگر علماء نے نفل نماز میں بھی نابالغ لڑکے کی امامت کو ناجائز قرار دیا ہے چناچہ علماء ماوراء النہر کا عمل اسی پر ہے۔ زیلعی نے شرح کنز میں اس مسئلے کے متعلق کہا ہے کہ امام شافعی نے اس مسئلے میں کہ نابالغ لڑکے کی امامت جائز ہے حضرت عمرو ابن سلمہ کے اس قول فقد مونی الخ سے استدلال کیا ہے لیکن ہمارے (یعنی حنیفہ کے) نزدیک حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کے اس قول کی روشنی میں کہ وہ لڑکا جس پر حدود واجب نہیں ہوئی امامت نہ کرے نابالغ لڑکے کی امامت جائز نہیں ہے اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کا قول بھی یہی ہے کہ لڑکا جب تک محتلم (یعنی بالغ) نہ ہوجائے امامت نہ کرے۔ لہٰذا یہ جائز نہیں ہے کہ فرض نماز پڑھنے والا نابالغ لڑکے کی اقتداء کرے جہاں تک عمرو ابن سلمہ کی امامت کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ ان کی امامت رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی بنا پر نہیں تھی بلکہ یہ ان کی قوم کے لوگوں کے اپنے اجتہاد تھا کہ عمرو چونکہ قافلے کے لوگوں سے قرآن کریم سیکھ چکے تھے اس لئے ان کو امام بنادیا۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ حضرات شوافع حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق (رض) اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین کے اقوال سے تو استدلال نہیں کرتے۔ ایک نابالغ لڑکے (عمرو ابن سلمہ) کے فعل کو مستدل بناتے ہیں۔

【394】

آزد کردہ غلام کی امامت

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ مدینہ میں پہلے آنے والے مہاجرین آئے تو ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام حضرت سالم (رض) انہیں نماز پڑھاتے تھے اور ان (مقتدیوں) میں حضرت عمر، حضرت ابوسلمہ ابن عبدالاسد (رض) (بھی) ہوتے تھے۔ (صحیح البخاری ) تشریح حضرت سالم ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام اور بہت اچھے قاری تھے ان کا شمار نہایت بزرگ اور اونچے درجے کے قراء صحابہ میں ہوتا تھا رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ قرآن کریم چار لوگوں سے حاصل کرو اور ان چار لوگوں میں حضرت سالم کا نام بھی شمار کیا تھا۔ حضرت عمر حضرت ابوسلمہ ابن عبدالاسد اور ان جیسے دوسرے جلیل القدر اور باعظمت و فضیلت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجودگی میں حضرت سالم (رض) کے امام مقرر ہونے کی وجہ یا تو یہ تھی کہ یہ بہت اچھے قاری تھے یا پھر اس میں کوئی اور مصلحت ہوگی۔

【395】

وہ لوگ جن کی نماز قبول نہیں ہوتی

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین طرح کے لوگ ایسے ہیں جن کی نماز ان کے سروں سے بالشت بھر (بھی) بلند نہیں ہوتی (یعنی درجہ قبولیت کو نہیں پہنچتی) ایک تو وہ آدمی جو قوم کا امام ہو اور انہیں اس سے (دینی امور) میں نا خوشی ہو۔ دوسرے وہ عورت جو اس حالت میں رات گزارے کہ اس کا خاوند (اس کی نافرمانی یا اس کی جانب سے اپنے حق کی عدم ادائیگی کی وجہ سے) خفا ہو تیسرے ایسے دو بھائی جو آپس میں نا خوش ہوں۔ (سنن ابن ماجہ)

【396】

امام پر لازم چیزوں کا بیان

اس باب کے تحت وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے معلوم ہوگا کہ مقتدیوں کی رعایت کے سلسلے میں امام کے لئے کیا چیزیں ضروری ہیں۔

【397】

نماز کو بھاری نہیں بنانا چاہیے

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی نماز سے زیادہ ہلکی اور کامل نماز کسی امام کے پیچھے نہیں پڑھی اور آپ ﷺ کی (عادت تھی کہ) جب آپ نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اس اندیشے سے کہ اس کی ماں کہیں فکر مند نہ ہوجائے نماز کو ہلکا کردیتے تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے اول جز کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز باوجود پورے کمال و اتمام کے بہت ہلکی ہوتی تھی اور ہلکی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ قرأت اور تسبیحات حد سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے اور قرأت میں بےمحل مدوشد نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کی قرأت بےتکلف اور ترتیل کے ساتھ ہوتی تھی اور یہ تو رسول اللہ ﷺ کی قرأت کی خاصیت تھی کہ اگرچہ وہ طویل ہوتی تھی مگر لوگوں کو ہلکی معلوم ہوتی تھی۔ حاصل یہ کہ آپ ﷺ کی قرأت ہلکی ہوتی تھی اور رکوع و سجود نیز تعدیل ارکان وغیرہ میں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔ حنفی مسلک میں یہ مسئلہ ہے کہ امام کے لئے مناسب نہیں ہے کہ تسبیحات وغیرہ کو اتنا طویل کرے کہ لوگ ملول ہوں کیونکہ نماز کو زیادہ طویل کرنا نماز کی طرف سے لوگوں کو بےتوجہ بنانا ہے اور یہ مکروہ ہے ہاں اگر مقتدیوں ہی کی یہ خواہش ہو کہ قرأت و تسبیحات وغیرہ طویل ہوں تو پھر ان میں امام زیادتی کرسکتا ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں اس امام کو یہ بھی نہیں چاہیے کہ مقتدیوں کو خوش کرنے کی غرض سے قرأت اور تسبیحات میں اس درجے سے بھی کمی کر دے جو سب سے کم مسنون درجہ ہے۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو نماز ہلکی کردیا کرتے تھے۔ تاکہ اس بچے کی ماں جو جماعت میں شامل ہوتی، بچے کی طرف سے فکر میں نہ پڑجائے اور جس کی وجہ سے اس کی نماز کا حضور اور خشوع و خضوع ختم ہوجائے۔ خطابی نے اس جملہ کے فائدے میں کہا ہے کہ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ امام رکوع میں ہونے کی حالت میں اگر آہٹ پائے کہ کوئی آدمی نماز میں شریک ہونے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ رکوع میں اس آدمی کا انتظار کرے تاکہ وہ آدمی رکعت حاصل کرے مگر بعض حضرات نے اسے مکروہ قرار دیا ہے بلکہ ان حضرات کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے والے کے بارے میں یہ خوف ہے کہ وہ کہیں شرک کی حد تک پہنچ جائے گا۔ چناچہ یہی مسلک حضرت امام مالک کا بھی ہے۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ امام اگر رکوع کو تقرب الی اللہ کی نیت سے نہیں بلکہ اس مقصد سے طویل کرے گا کہ کوئی آنے والا آدمی رکوع میں شامل ہو کر رکعت پالے تو یہ مکروہ تحریمی ہوگا۔ بلکہ اس سے بھی بڑے گناہ کے مرتکب ہونے کا احتمال ہوسکتا ہے تاہم کفر و شرک کی حد تک نہیں پہنچے گا کیونکہ اس سے اس کی نیت غیر اللہ کی عبادت بہر حال نہیں ہوگی۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر امام آنے والے کو پہچانتا نہیں ہے تو اس شکل میں رکوع کو طویل کرنے کا کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ اس کا ترک اولیٰ ہے ہاں اگر کوئی امام تقرب الی اللہ کی نیت سے رکوع کو طویل کرے اور اس پاک جذبے کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ ایسی حالت کا ہونا چونکہ نادر ہے اور پھر یہ کہ اس مسئلے کا نام ہی مسئلہ الریا ہے اس لئے اس سلسلے میں کمال احتیاط ہی اولیٰ ہے۔

【398】

نماز کو بھاری نہیں بنانا چاہیے

اور حضرت قتادہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نماز میں داخل ہوتا ہوں تو نماز کو طویل کرنے کا ارادہ کرتا ہوں مگر جب بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو یہ جان کر کہ بچے کے رونے کی وجہ سے اس کی ماں سخت فکر مند ہوگی نماز میں تخفیف کردیتا ہوں۔ (صحیح البخاری)

【399】

نماز کو بھاری نہیں بنانا چاہیے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے چاہیے کہ نماز کو ہلکا کرے کیوں کہ مقتدیوں میں بیمار کمزور اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں (ور ان کی رعایت ضروری ہے) اور جب تم میں سے کوئی آدمی تنہا اپنی نماز پڑھے تو اسے اختیار ہے کہ جس قدر چاہے نماز کو طویل کرے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں امام کے لئے یہ ہدایت دے دی گئی ہے کہ وہ نماز پڑھاتے وقت مقتدیوں کی رعایت ضرور کرے اس بات کا لحاظ رکھے کہ مقتدیوں میں بیمار بوڑھے اور کمزور لاغر لوگ بھی ہوں گے جو نماز کی طوالت سے تکلیف و پریشانی میں مبتلا ہوجائیں گے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ پریشانی اور تکلیف سے بچنے کی خاطر جماعت میں شریک ہونا ہی چھوڑ دیں اس لئے ان کی رعایت کے پیش نظر نماز ہلکی ہی پڑھانی چاہیے ہاں اگر کوئی آدمی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو اسے اختیار ہے کہ جس قدر چاہیے طویل نماز پڑھے۔ اسی طرح اگر تمام مقتدی حضور قلب کے حامل ہوں اور نماز کی طوالت سے گھبراتے نہ ہوں نیز مذکورہ بالا لوگوں میں سے یعنی بیمار و ضعیف وغیرہ نہ ہوں تو اس شکل میں بھی امام جس قدر چاہے طویل نماز پڑھائے۔

【400】

نماز کو بھاری نہیں بنانا چاہیے

اور حضرت قیس ابن ابی حازم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) نے مجھ سے فرمایا کہ (ایک دن) ایک آدمی نے ( رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر) کہا کہ یا رسول اللہ (رض) ! میں صبح کی نماز سے اس لئے پیچھے رہ جاتا ہوں کہ فلاں آدمی ہمیں بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے ابومسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نصیحت کرنے کے بارے میں اس دن جیسے غصے میں بھرے ہوئے کبھی نہیں دیکھا چناچہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نصیحت کرنے کے بارے میں اس دن جیسا غصہ میں بھرے ہوئے کبھی نہیں دیکھا چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے بعض لوگ (طویل نماز پڑھا کر جماعت سے) لوگوں کو نفرت دلانے والے ہیں (خبردار) تم میں سے جو آدمی لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے چاہیے کہ وہ ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ مقتدیوں میں کمزور، بوڑھے اور حاجت مند لوگ بھی ہوتے ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

【401】

غلط نماز پڑھانے والا امام اپنی غلطی کا خمیازہ خود بھگتے گا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہیں امام نماز پڑھائیں گے چناچہ اگر وہ نماز اچھی پڑھائیں گے تو اس کا فائدہ تمہارے لئے ہے (اور ان کے لئے بھی ہے) اور اگر انہوں نے خطا کی (بےطرح نماز پڑھائی) تو تمہیں (پھر بھی) ثواب ملے گا اور اس کا گناہ ان پر ہوگا۔ (بخاری ) تشریح اگر امام اچھی طرح اور شرعی و مسنون طریقہ سے پڑھائے گا تو ظاہر ہے کہ اس کا ثواب امام اور مقتدی دونوں ہی کو ملے گا اور اگر امام نماز بےقاعدہ اور غیر شرعی و غیر مسنون طریقہ سے پڑھائے گا تو اس کی ذمہ داری متقدیوں پر نہیں ہے مقتدیوں کو تو اس صورت میں بھی ثواب ملے گا کیونکہ انہوں نے تو نماز اچھی طرح ادا کی اور جماعت میں شریک ہونے کی نیت کی البتہ امام اپنی غلطی اور خطا کا خمیازہ خود بھگتے گا کیونکہ اس نے نماز پڑھانے میں تق صیر کی ہے۔ اس حدیث کے ذریعے داصل رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو وصیت فرمائی ہے کہ بعد میں جب برے اور غلط کار حاکم پیدا ہوں گے اور امامت کریں گے تو وہ امامت کی ادائیگی میں احکام و آداب کی رعایت نہیں کریں گے۔ لہٰذا اس وقت تم کو چاہیے کہ اپنی نماز درست اور صحیح طریقے پر ادا کرو۔ اگر امام اچھی طرح نماز پڑھائے گا تو اس کا فائدہ امام اور مقتدی دونوں کو ہوگا ورنہ غلط نماز پڑھانے کی شکل میں مقتدیوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا غلط نماز پڑھانے کی ذمہ داری تنہا امام پر ہوگی اور نقصان اسی کو ہوگا۔

【402】

بوڑھے اور بیمار مقتدیوں کی رعایت امام کے لئے ضروری ہے

حضرت عثمان ابن ابی العاص (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے جو آخری وصیت کی تھی وہ یہ تھی کہ جب تم لوگوں کی امامت کرو تو انہیں ہلکی نماز پڑھاؤ۔ ( مسلم) اور کی ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان غنی (رض) سے فرمایا کہ اپنی قوم کی امامت کرو۔ حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اپنے دل میں کچھ کھٹک محسوس ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ میرے قریب آؤ۔ (جب میں آپ ﷺ کے قریب آگیا تو) آپ ﷺ نے مجھے اپنے آگے بٹھایا اور میرے سینے پر دونوں چھاتیوں کے درمیان اپنا دست مبارک رکھا پھر فرمایا کہ پشت پھیرو (میں نے اپنی پشت آپ ﷺ کی جانب کردی) چناچہ آپ ﷺ نے میری پشت پر دونوں کندھوں کے درمیان اپنا دست مبارک پھیر کر فرمایا کہ جاؤ اور اپنی قوم کی امامت کرو اور یہ (یہ یاد رکھو) کہ جب کوئی آدمی کسی قوم کا امام بنے تو اسے چاہیے کہ ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ ان میں بوڑھے بھی ہیں اور بیمار بھی ان میں کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں اور حاجتمند بھی ہاں جب کوئی تنہا نماز پڑھے تو اسے اختیار ہے جس طرح چاہیے پڑھے۔ تشریح حضرت عثمان (رض) کے ارشاد انی اجد فی نفسی شیا (یعنی مجھے اپنے دل میں کچھ کھٹک محسوس ہوتی ہے) کا مطلب یہ تھا کہ میں امامت کے حقوق کی ادائیگی سے اپنے آپ کو عاجز پاتا ہوں یا کچھ وسوسے اور شبہات ہیں جو دل میں آتے ہیں یا یہ کہ امامت کے وقت میرے دل کے اندر ایک قسم کی برتری اور غرور کی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کیفیات کے دفعیہ کے لئے ان کے سینے اور پشت پر اپنا دست مبارک پھیرا جس کی برکت سے ان کی دل کی وہ کھٹک جاتی رہی جس کی موجودگی انہیں امامت پر آمادہ نہیں ہونے دیتی تھی۔ فاذا صلی احد کم الخ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تنہا نماز پڑھنے والا اپنی نماز کے معاملے میں مختار ہے چاہے تو وہ طویل نماز پڑھے چاہے مختصر لیکن علماء لکھتے ہیں کہ تنہا نماز پڑھنے والے کے لئے افضل یہی ہے کہ وہ طویل نماز پڑھے۔ اس زمانہ کے ائمہ کا معاملہ بڑا عجیب ہے جب وہ لوگوں کو نماز پڑھاتے ہیں تو بہت زیادہ طوالت سے کام لیتے ہیں مگر جب تنہا نماز پڑھتے ہیں تو صرف اتنے ہی اختصار پر اکتفا کرتے ہیں جس سے نماز ادا ہوجائے۔ ائمہ کو اس طریق کار کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

【403】

بوڑھے اور بیمار مقتدیوں کی رعایت امام کے لئے ضروری ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ہلکی نماز (پڑھا نے) کا حکم دیا کرتے تھے اور آپ ہمیں نماز پڑھاتے تو سورت صافات کی قرأت کرتے۔ (سنن نسائی) تشریح حدیث کے دونوں جزوں میں بظاہر تو تعارض نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو آپ ہلکی نماز پڑھانے کا حکم دیتے تھے اور دوسری طرف خود امامت کرتے وقت سورت صافات کی قرأت فرماتے جو ایک طویل سورت ہے، اس تعارض کو دفع کرنے کے لئے علماء نے یہ جواب دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ لمبی لمبی سورتیں اور بہت زیادہ آیتیں بہت کم عرصے میں پڑھ لیتے تھے جس سے لوگوں کو کوئی گرانی اور اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی اور یہ خصوصیت دوسروں کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس طرح دونوں جزء میں کوئی تعارض نہیں رہا۔

【404】

مقتدی کے لئے امام کی تابعداری کے لزوم اور مسبوق کا بیان

اس بات کے تحت وہ احادیث ذکر کی جائیں گی جن سے معلوم ہوگا کہ مقتدی کیلئے امام کی تابعداری کتنی ضروری اور لازم ہے اور یہ کہ مقتدی کو امام کی متابعت کن چیزوں اور کس طرح کرنی چاہیے۔ نیز اس باب میں وہ احادیث بھی نقل کی جائیں گی جن سے مسبوق کا حکم معلوم ہوگا کہ وہ اپنی نماز کس طرح پوری کرے اور اسے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ گذشتہ صفحات میں کسی موقع پر مسبوق کی تعریف کی جاچکی ہے یعنی مسبوق اس نمازی کو کہتے ہیں جو ابتداء سے جماعت میں شریک نہ ہو بلکہ ایک رکعت یا اس سے زیادہ ہوجانے کی بعد جماعت میں آکر شریک ہوا ہو۔ امام کی متابعت کے سلسلے میں آنے والی حدیث کے ضمن میں حسب موقع مسائل کی وضاحت کی جائے گی تاہم اس موقع پر اجمالی طور پر اتنی بات جانتے چلئے کہ نماز کے ان ارکان میں جو فرض یا واجب ہیں تمام مقتدیوں کو امام کی متابعت و موافقت کرنا واجب ہے ہاں ان ارکان میں جو سنت وغیرہ ہیں مقتدیوں کے لئے امام کی متابعت ضروری نہیں چناچہ اگر امام، شافعی المذہب ہو اور رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرے یعنی دونوں ہاتھوں کو اٹھائے تو حنفی مقتدی کو ہاتھوں کا اٹھانا ضروری نہیں ہے کیونہ ان دونوں موقعوں پر رفع یدین ان کے نزدیک بھی سنت ہے اس طرح فجر کی نماز میں شافعی المذہب امام قنوت پڑھے تو حنفی مقتدیوں کے لئے قنوت پڑھنا واجب نہیں ہاں رات میں قنوت پڑھنا واجب ہے لہٰذا اسی طرح شافعی المذہب امام اگر اپنے مذہب کے موافق قنوت رکوع کے بعد پڑھے تو حنفی مقتدیوں کو بھی امام کی متابعت و موافقت کے پیش نظر رکوع کے بعد ہی قنوت پڑھنا چاہیے۔ (علم الفقہ)

【405】

امام کی متابعت

حضرت براء ابن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے چناچہ آپ جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو جب تک رسول اللہ ﷺ (سجدے کیلئے) اپنی جبیں مبارک زمین پر نہیں رکھتے تھے ہم میں سے کوئی آدمی اپنی پیٹھ جھکاتا (بھی) نہیں تھا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت براء (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ہم رکوع سے اٹھ کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہی سجدے میں نہیں چلے جاتے تھے بلکہ کھڑے رہتے تھے اور جب رسول اللہ ﷺ زمین پر اپنی پیشانی رکھ لیتے تو ہم سجدے میں جاتے۔ مولانا مظہر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مقتدی کے لئے یہ سنت ہے کہ وہ اپنی نماز کے ارکان امام کی نماز کے ارکان کے اس قدر بعد ادا کرے اور اگر امام کے افعال و صلوٰۃ اور مقتدی کے افعال صلوٰۃ کے درمیان ادائیگی کا اتنا وفقہ نہ ہو تو بھی جائز ہے مگر تکبیر تحریمہ کے وقت مقتدی کے لئے اتنا توقف کرنا ضروری ہے کہ جب امام تکبیر تحریمہ کہہ کر فارغ ہو تو مقتدی تکبیر تحریمہ کہیں۔ مگر حنفی فقہ کا مسئلہ یہ ہے کہ مقتدی کے لئے امام کی متابعت بطریق مواصلت واجب ہے یعنی مقتدیوں کو ہر رکن امام کے ساتھ ہی بلا تاخیر ادا کرنا چاہیے، تحریمہ بھی امام کی تحریمہ کے ساتھ کریں رکوع بھی امام کے رکوع کے ساتھ قومہ بھی امام کے قومہ کے ساتھ سجدہ بھی امام سجدے کے ساتھ غرض کہ ہر فعل امام کے ہر فعل کے ساتھ کریں۔ ہاں اگر قعدہ اولی میں امام اس سے پہلے کھڑا ہوجائے کہ مقتدی التحیات پوری کریں تو مقتدیوں کو چاہیے کہ التحیات پوری کر کے سلام پھیریں۔ ہاں رکوع و سجود میں اگر مقتدیوں نے تسبیح تین مرتبہ بھی نہ پڑھی ہوں اور امام سر اٹھائے تو صحیح مسئلہ یہی ہے کہ مقتدیوں کو چاہیے کہ وہ تسبیح پڑھے بغیر ہی امام کے ساتھ کھڑے ہوجائیں، اگر مقتدی رکوع یا سجدے سے اپنا سر امام کے سر اٹھانے سے پہلے اٹھاویں تو ان کو چاہیے کہ وہ دوبارہ رکوع یا سجدے میں چلے جائیں اور پھر امام کے ساتھ ہی اپنا سر اٹھائیں اس طرح یہ رکوع یا سجدے دو نہیں ہوں گے بلکہ ایک ہی شمار ہوں گے۔

【406】

مقتدی امام سے پہلے کوئی رکن ادا نہ کریں

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی جب آپ نماز پڑھ چکے تو اپنا چہرہ مبارک ہماری طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ لوگو ! میں تمہارا امام ہوں ! لہٰذا تم رکوع کرنے، سجدہ کرنے کھڑے ہونے اور پھر نے (یعنی نماز سے فارغ ہونے) میں مجھ سے جلدی نہ کیا کرو میں تمہیں اپنے آگے اور (بذریعہ مکاشفہ یا بطور معجزہ بذریعہ مشاہدہ) اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔ (صحیح مسلم)

【407】

مقتدی امام سے پہلے کوئی رکن ادا نہ کریں

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اپنے امام پر پہل نہ کیا کرو جب امام تکبیر کہے تو تم (بھی اس کے ساتھ ہی) تکبیر کہو جب امام ولا الضالین کہے تو تم رکوع میں جاؤ اور جب امام سمع اللہ لم حمدہ کہے تو تم اللہم ربنا لک الحمد ( اے اللہ ! اے ہمارے رب تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں کہو۔ اس روایت کو بخاری ومسلم نے نقل کیا ہے مگر امام بخاری (رح) نے اپنی روایات میں و اذا قال و لا الضالین کے الفاظ نقل نہیں کئے ہیں۔ تشریح فقولوا آمین کہہ کر اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ جب امام سورت فاتحہ پڑھے تو مقتدی خاموش کھڑے رہ کر اسے سنیں اور سورت فاتحہ کی قرأت نہ کریں۔ حدیث کے آخری جزو سے یہ معلوم ہوا کہ امام جب رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لم حمدہ کہے تو مقتدی ربنا لک الحمد کہیں جیسا کہ امام اعظم کا مسئلہ ہے۔

【408】

امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں یا کھڑے ہو کر

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی سفر کے دوران رسول اللہ ﷺ گھوڑے پر سوار تھے کہ اتفاقاً آپ ﷺ نیچے گرپڑے اس کی وجہ سے آپ ﷺ کی داہنی کروٹ (ایسی) چھل گئی کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر آپ ﷺ قادر نہ رہے چناچہ آپ ﷺ نے ان پانچ فرض نمازوں میں سے کوئی نماز ہمیں بیٹھ کر پڑھائی ہم نے آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھ کر ہی نماز پڑھی۔ جب آپ ﷺ نماز پڑھ کر فارغ ہوگئے تو ہم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ امام اسی لئے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے لہٰذا جب امام کھڑا ہو کر نماز پڑھائے تو تم کھڑے ہو کر نماز پڑھو جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ رکوع سے اٹھے تو تم بھی رکوع سے اٹھو، جب وہ سمع اللہ لم حمدہ کہے تو ربنا لک الحمد کہو اور جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔ حمیدی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔ آپ ﷺ کی پہلی بیماری میں تھا اور اس کے بعد (مرض الموت میں انتقال سے ایک دن پہلے) رسول اللہ ﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی تو لوگوں نے آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور آپ ﷺ نے انہیں بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم نہیں فرمایا اور رسول اللہ ﷺ کے اسی فعل پر عمل کیا جاتا ہے جو آخری ہے (یعنی پہلا فعل منسوخ اور دوسرافعل ناسخ ہوتا ہے۔ یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور مسلم بھی لفظ اجمعون تک بخاری کے موافق ہیں (یعنی روایت کو اس لفظ تک بخاری اور مسلم دونوں نے نقل کیا ہے اور ایک دوسری روایت میں مسلم نے یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ امام کے خلاف نہ کرو اور جب وہ امام سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔ تشریح اس روایت کے آخر میں جس حمیدی کا قول نقل کیا گیا ہے یہ وہ حمیدی نہیں جو جمع بین الصحیحین کے مولف ہیں بلکہ یہ صحیح البخاری کے استاد حمیدی ہیں بہر حال اکثر ائمہ کا مسلک حمیدی کے قول کے مطابق ہی ہے کہ اگر امام کسی عذر کی بناء پر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کھڑے ہو کر پڑھیں انہیں بیٹھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔

【409】

رسول اللہ کی علالت اور حضرت ابوبکر صدیق کی امامت کا واقعہ

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ بہت زیادہ بیمار تھے تو (ایک دن) حضرت بلال (رض) آپ ﷺ کو نماز کے لئے بلانے آئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر (رض) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں چناچہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے لوگوں کو ان دنوں میں سترہ نمازیں پڑھائیں پھر جب (ایک دن) رسول اللہ ﷺ نے اپنی طبیعت کچھ ہلکی محسوس فرمائی تو آپ ﷺ (نماز کے لئے مسجد میں) دو آدمیوں کا سہارا لے کر (اس طرح) آئے کہ آپ ﷺ اپنے ہاتھ سے صحابہ کے کندھوں پر ٹیک رکھے ہوئے تھے اور (ضعف و کمزوری کے سبب) آپ ﷺ کے پاؤں مبارک زمین پر گھسٹتے جاتے تھے جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو حضرت ابوبکر (رض) نے آپ ﷺ کی آمد کی آہٹ محسوس کی اور پیچھے ہٹنا شروع کیا (تاکہ رسول اللہ ﷺ ان کی جگہ کھڑے ہوجائیں اور امامت کریں) رسول اللہ ﷺ نے (یہ دیکھ کر) حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی طرف اشارہ کیا کہ پیچھے نہ ہٹو پھر آپ ﷺ (آگے) بڑھے اور حضرت ابوبکر (رض) کے بائیں طرف بیٹھ گئے چناچہ حضرت ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہے اور رسول اللہ ﷺ ضعف و کمزوری کی بناء پر) بیٹھ کر نماز پڑھتے رہے حضرت ابوبکر رسول اللہ ﷺ کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابوبکر (رض) کی نماز کی اقتداء کرتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح شرح السنہ میں لکھا ہے کہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رسول اللہ ﷺ کے بعد تمام لوگوں میں سے افضل ہیں نیز یہ کہ تمام لوگوں میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہی رسول اللہ ﷺ کی خلافت کے سب سے زیادہ مستحق اور سب سے اولیٰ ہیں چناچہ رسول اللہ ﷺ کی جانب سے حضرت ابوبکر (رض) کو امامت کے اس عظیم اور سب سے اہم منصب کا اہل و اولی قرار دئیے جانے کی پیش نظر ہی بعض جلیل القدر صحابہ کا یہ ارشاد بالکل حقیقت پسندانہ اور منشاء رسالت کے عین مطابق تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کو اپنی زندگی میں دین کا سب سے بڑا اور اہم منصب امامت عنایت فرما کر اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا تھا کہ میرے بعد حضرت ابوبکر کو ہمارے دین (کی پیشوائی) کے لئے پسند فرمایا تو کیا ہم انہیں اپنی دنیا کی رہبری کے لئے پسند نہ کریں ؟ یعنی جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ہی کی وہ آدمییت ہوسکتی ہے جو مسلمانوں کی دینی پیشوائی اور رہبری کو انجام دے سکے تو حضرت ابوبکر مسلمانوں کی دینوی رہبری اور پیشوائی کے بدرجہ اولی مستحق ہوئے لہٰذا خلافت جیسے عظیم الشان منصب کے سب سے زیادہ اہل وہی ہیں۔ رَجُلَیْنِ (دو صحابہ) سے مراد حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت عباس (رض) کی ذات گرامی ہے یعنی آپ ﷺ اپنی کمزوری و نا تو انی کے سبب حجرہ مبارک سے مسجد نبوی تک ان دونوں جلیل القدر صحابہ کے کندھوں پر سہارا دیکر تشریف لائے۔ حدیث کے الفاظ والناس یقتدون بصلوۃ ابی بکر ( اور لوگ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے) کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ چونکہ بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے اور حضرت ابوبکر آپ ﷺ کے پہلوئے مبارک میں کھڑے تھے اس لئے رسول اللہ ﷺ جو فعل کرتے حضرت ابوبکر (رض) بھی اس طرح کرتے تھے اور جو فعل حضرت ابوبکر کرتے تھے دوسرے مقتدی بھی اسی طرح کرتے جاتے تھے۔ لہٰذا یہاں اقتداء کے یہی معنی ہیں یہ معنی مراد نہیں ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تو حضرت ابوبکر کے امام تھے اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) دوسرے مقتدیوں کے امام تھے کیونکہ مقتدی کی اقتداء کرنا جائز نہیں۔ بہر حال حاصل یہ ہے امام رسول اللہ ﷺ ہی تھے حضرت ابوبکر بھی آپ ﷺ کی اقتداء کر رہے تھے اور دوسرے لوگ بھی آپ ﷺ ہی کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے۔ کیا نماز کے دوران امامت میں تغیر جائز ہے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نماز کے دوران امامت میں تغیر جائز ہے ؟ یعنی نماز شروع چکی ہے ایک امام لوگوں کو نماز پڑھا رہا ہے اور ایک دوسرا آدمی آتا ہے اور شروع سے نماز پڑھانے والے امام کی جگہ کھڑا ہوجاتا ہے اور امامت شروع کردیتا ہے تو کیا یہ جائز ہے ؟ جیسا کہ واقعہ مذکورہ میں صورت پیش آئی کہ حضرت ابوبکر (رض) نے لوگوں کو نماز پڑھانی شروع کردی تھی کہ رسول اللہ ﷺ بعد میں تشریف لائے اور حضرت ابوبکر (رض) کی جگہ لوگوں کی امامت شروع فرمادی ! تو اس سلسلے میں علامہ ابن عبدالبر (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کا اس بارے میں اجماع ہے کہ صورت مذکور میں رسول اللہ ﷺ کا یہ فعل آپ ﷺ کے خصائص میں تھا، یعنی دوسروں کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اس طرح امامت میں تغیر کیا جائے۔ لیکن حضرت امام شافعی نے اس میں اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ مذکورہ بالا صورت کی طرح امامت اور اقتداء جائز ہے (ملا حظہ فرمایئے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ) اس سلسلے میں بعض علماء حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ اس حدیث سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نماز شروع کرچکے تھے یعنی حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس وقت نماز شروع نہیں کی تھی چناچہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور امامت شروع فرما دی۔ وا اللہ اعلم اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی صاف ہوگیا کہ اگر امام کسی عذر کی بناء پر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھیں چناچہ ہدایہ میں لکھا ہوا ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی جائے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ، عیدین نیز زیادہ نمازی ہونے کی صورت میں عام نمازوں میں بھی موذنوں کے لئے جائز ہے کہ وہ امام کے ساتھ تکبیرات بآواز بلند کہتے جائیں تاکہ جو مقتدی امام سے فاصلے پر ہوں وہ بھی تکبیرات سن لیں۔

【410】

امام سے پہلے سر اٹھانے پر وعید

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ آدمی جو امام سے پہلے (رکوع و سجود سے) سر اٹھاتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ جل شانہ اس کے سر کو بدل کر گدھے جیسا سر کر دے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح جو آدمی نماز کے ارکان امام کے ساتھ ادا نہیں کرتا بلکہ امام سے پہلے ہی ادا کرلیتا ہے مثلاً رکوع و سجود سے امام کے سر اٹھانے سے پہلے اپنا سر اٹھالیتا ہے تو ایسے آدمی کے بارے میں مذکورہ بالا حدیث سخت ترین وعید ہے۔ گو علماء لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی ایسا کرے گا اللہ تعالیٰ اسے گدھے کی مانند کم فہم و عقل کر دے گا کیونکہ تمام جانوروں میں گدھا ہی سب سے زیادہ کم فہم ہوتا ہے لہٰذا یہ مسخ حقیقی نہیں ہوگا بلکہ مسخ معنوی ہوگا تاہم علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس حدیث کو اپنے حقیقی معنی پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس امت میں بھی مسخ ممکن ہے جیسا کہ باب اشراط الساعۃ میں مذکور ہے اور اس کے موئید ایک روایت ہے کے یہ الفاظ ہیں کہ ان یحول اللہ صورتہ حمار یعنی اللہ تعالیٰ اس سے نہیں ڈرتا کہ اس کی صورت کو گدھے جیسی صورت کر دے۔ خطابی فرماتے ہیں کہ اس امت میں بھی مسخ جائز ہے لہٰذا اس حدیث کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کرنا جائز ہے۔ علامہ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ یہ مسخ خاص ہے اور امت کے لئے جو مسخ ممتنع ہے وہ مسخ عام ہے چناچہ احادیث صحیحہ سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ مسخ صورت کی ایک عبرت ناک مثال علامہ ابن حجر (رح) کے مذکورہ بالاقول کی تائید ایک عبرتناک واقعہ سے بھی ہوتی ہے جو ایک جلیل القدر محدث سے منقول ہے کہ وہ طلب علم اور حصول حدیث کی خاطر دمشق کے ایک عالم کے پاس پہنچے جو اپنے علم و فضل کی بناء پر بہت مشہور تھا انہوں نے اس عالم سے درس لینا شروع کیا مگر حصول علم کے دروان یہ واقعہ طالب علم کے لئے بڑا حیرتناک بنا رہا کہ استاد پوری مدت کبھی بھی ان کے سامنے نہیں آیا درس کے وقت استاد اور شاگرد کے درمیان ایک پردہ حائل رہتا تھا ان کو اس کی بڑی خواہش تھی کہ کم سے کم ایک مرتبہ اپنے استاد کے چہرے کی زیارت تو کریں۔ چناچہ جب انہیں اس عالم کی خدمت میں رہتے ہوئے بہت کافی عرصہ گذر گیا تو اس نے یہ محسوس کرلیا کہ طالب علم حصول حدیث کے شوق اور تعلق شیخ کے بھر پور جذبات کا پوری طرح حامل ہے تو استاد نے ایک دن درمیان میں حائل پردہ کو اٹھایا ان کی حیرت اور تعجب کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ جو جلیل القدر عالم اور ان کا استاد جس کے علم وفضل کی شہرت چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے اپنے انسانی چہرے سے محروم ہے بلکہ اس کا من گدھے جیسا ہے استاد نے شاگرد کی حیرت اور تعجب کو دیکھتے ہوئے جو بات کہی اسے سنئے اور اس سے عبرت حاصل کیجئے۔ اس نے کہا اے میرے بیٹے ! نماز کے ارکان ادا کرنے کے سلسلہ میں امام پر پہل کرنے سے بچنا میں نے جب یہ حدیث سنی کہ کیا جو شخص امام سے پہلے سر اٹھاتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے جیسا کر دے تو مجھے بہت تعجب ہو اور میں نے اسے بعید از امکان تصور کیا چناچہ (یہ میری بدقسمتی کہ میں نے تجربہ کے طور پر) نماز کے ارکان ادا کرنے کے سلسلہ میں امام پر پہل کی جس کا نتیجہ میرے بیٹے اس وقت تمہارے سامنے ہے کہ میرا چہرہ واقعی گدھے کے چہرے جیسا ہوگیا۔ بہر حال ملا علمی قاری اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشا دراصل شدید تہدید اور انتہائی وعید کے طور پر ہے یا یہ کہ ایسے آدمی کو برزخ اور دوزخ میں اس عذاب کے اندر مبتلا کیا جائے گا۔

【411】

امام کی موافقت کرنے کا حکم

حضرت علی اور حضرت معاذ ابن جبل (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی جماعت میں شریک ہونے کے لئے نماز میں آئے اور امام کسی حالت میں ہو تو جو کچھ امام کر رہا ہے وہی اسے کرنا چاہیے۔ اس حدیث کو امام ترمذی (رح) نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح حدیث کا حاصل یہ ہے کہ افعال نماز میں اس آدمی کو امام کی اقتداء کرنی چاہیے اور اسے ارکان نماز کی ادائیگی کے سلسلے میں امام سے مقدم یا موخر نہ ہونا چاہیے۔ ابن ملک فرماتے ہیں ہے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امام جس حالت میں بھی ہو اس کی موافقت اسے کرنی چاہیے، یعنی جماعت شروع ہوجانے کے بعد اگر کوئی آدمی بعد میں شریک ہونے کے لئے آئے تو امام جس حالت میں ہو تو اسے بھی وہی حالت اختیار کرنی چاہیے اگر وہ رکوع میں ہو تو اسے بھی رکوع میں چلے جانا چاہیے اگر سجدے میں ہو تو اسے بھی سجدے میں چلے جانا چاہیے دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ جماعت شروع ہوجانے کے بعد یوں ہی کھڑے رہتے ہیں یا باتوں میں مصروف رہتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ جب امام رکوع میں جائے تو جا کر نماز میں شریک ہوں یہ طریقہ بہت غلط اور غیر شرعی ہے اس سے اجتناب ضروری ہے۔ امام ترمذی (رح) نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے تاہم علماء کا اس حدیث پر عمل ہے اور امام نووی (رح) نے بھی کہا ہے کہ حدیث کی اسناد ضعیف ہے لیکن جس حدیث پر علماء کا عمل ہوتا تھا اسے امام ترمذی صحیح قرار دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ حدیث کی صحت علماء کے عمل سے ثابت ہوجائے جیسا کہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث پہنچی کہ جو آدمی لا الہ الا اللہ ستر ہزار مرتبہ پڑھے تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے اسی طرح جس آدمی کے لئے پڑھا جائے اس کی بھی مغفرت کردی جاتی ہے چناچہ میں اس کلمہ کو روایت کردہ عدد کے مطابق خاص طور سے کسی کے لئے نیت کئے بغیر پڑھا کرتا تھا اتفاق سے ایک دن میں ایک جگہ دعوت میں گیا وہاں میرے چند رفیق بھی تھے اس میں سے ایک آدمی جوان تھا جو کشف کے سلسلے میں بہت مشہور تھا کھانے کے دوران اچانک وہ رونے لگا میں نے حیرت زدہ ہو کر اس سے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ میں (کشف کے ذریعہ) دیکھ رہا ہوں کہ میری ماں عذاب میں مبتلا ہے یہ سنتے ہی میں نے کلمہ مذکورہ کا ثواب دل ہی دل میں اس کی ماں کے لئے بخش دیا اب وہ ہنسنے لگا اور اس نے کہا کہ اب میں اپنی ماں کو جنت میں دیکھ رہا ہوں۔ اس واقعہ کو ذکر کرنے کے بعد آدمی محی الدین ابن عربی نے فرمایا کہ اس آدمی کے کشف کے صحیح ہونے سے میں نے اس حدیث کو صحیح جانا اور اس حدیث کے صحیح ہونے سے اس آدمی کے کشف کو صحیح مانا۔

【412】

رکوع میں شریک ہوجانے سے پوری رکعت ہوجاتی ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم (جماعت میں شریک ہونے کے لئے) نماز میں آؤ اور مجھے سجدے کی حالت میں پاؤ تو تم بھی سجدے میں چلے جاؤ اور اس سجدے کو کسی حساب میں نہ لگاؤ ہاں جس آدمی نے (امام کے ساتھ) رکوع پا لیا تو اس نے پوری رکعت پا لی۔ (ابوداؤد) تشریح علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی آدمی جماعت میں آکر اس حال میں شریک ہو کہ امام سجدے میں ہو اور وہ بھی سجدے میں چلا جائے تو اس کی پوری رکعت نہیں ہوتی ہاں اگر کوئی آدمی اس حال میں شریک ہو کہ امام رکوع میں ہو اور اسے رکوع مل جائے تو اس کی پوری رکعت ادا ہوجاتی ہے چناچہ اس حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی آدمی جماعت میں اس وقت شریک ہو جب امام سجدے میں ہو تو وہ سجدے میں چلا جائے۔ مگر اس سجدے کی وجہ سے وہ اس رکعت کا ادا کرنا نہ سمجھے کیونکہ جس طرح رکوع میں شریک ہوجانے سے پوری رکعت مل جاتی ہے اسی طرح سجدے میں شریک ہونے پر پوری رکعت نہیں ملتی۔ دوسرے جزو کے علماء نے دو مطلب بیان کئے ہیں (١) حدیث میں لفظ رکعۃ سے رکوع مراد ہے اور صلوٰۃ سے رکعت یعنی جس نے امام کو رکوع میں پایا اور وہ رکوع اس نے بھی پا لیا تو اس کو پوری رکعت مل گئی (٢) رکعۃ اور صلوٰۃ دونوں اپنے حقیقی معنی میں استعمال کئے گئے ہیں اس طرح حدیث کے اس جزء کا مطلب یہ ہوگا کہ جس آدمی نے جماعت میں ایک رکعت بھی پالی تو اس نے امام کے ساتھ پوری نماز کو پالیا لہٰذا اسے نماز با جماعت کو ثواب بھی ملے گا اور جماعت کی فضیلت بھی حاصل ہوگی۔

【413】

چالیس روز تکبیر اولیٰ کے ساتھ با جماعت نماز پڑھنے والے کے لئے خوشخبری

اور حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جو آدمی چالیس روز تک اللہ تعالیٰ کے لئے جماعت کے ساتھ اس طرح نماز پڑھے کہ وہ تکبیر اولی بھی پائے تو اس کے لئے دو قسم کی نجات لکھی جاتی ہے ایک تو دوزخ سے نجات اور دوسری نفاق سے نجات۔ (جامع ترمذی ) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو مسلسل چالیس روز تک یہ سعادت حاصل ہوجائے کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضاء کی خاطر جماعت سے نماز اس طرح پڑھے کہ اس کی تکبیر تحریمہ فوت نہ ہو یعنی وہ ابتداء سے نماز میں شریک رہے کہ جب امام تکبیر تحریمہ کہے تو وہ بھی تکبیر کہے یا بعض علماء کے قول کے مطابق زیادہ سے زیادہ امام کے سبحانک اللہم پڑھنے تک جماعت میں شریک ہوجائے تو اس کے لئے بارگاہ رب العزت سے دو چیزوں سے نجات کا پروانہ عنایت فرما دیا جاتا ہے ایک تو دوزخ سے کہ اسے نشاء اللہ دوزخ کی آگ دیکھنا نصیب نہیں ہوگی اور دوسری نفاق سے۔

【414】

نفاق سے نجات کا مطلب

نفاق سے نجات کا پروانہ دئیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مرد مومن کو اس بات سے اپنے حفظ وامان میں رکھے گا کہ اس سے منافقوں جیسے عمل سرزد ہوں جیسے نماز میں کسل و سستی اور ریا، جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی وغیرہ وغیرہ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے اہل حق اور اہل اخلاص کے سے عمل کرنے کی توفیق دے گا اور آخرت میں اسے اس عذاب سے کہ جس میں منافقین کو مبتلا کیا جائے گا۔ بچائے گا نیز میدان حشر میں اس کے بارے میں یہ گواہی دی جائے گی کہ یہ بندہ منافق نہیں ہے بلکہ بندہ مومن و صادق ہے اور رحم و کرم کی یہ بارشیں محض اس وجہ سے ہوں گی کہ یہ آدمی نماز میں اس قدر پہلے آیا کہ تکبیر اولیٰ میں شریک ہو سکے نیز دل کے پورے خلوص اور انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز میں کھڑے ہو کر اپنے رب کی خوشنودی اور رضا مندی کو حاصل کیا۔ حق تعالیٰ ہم سب کو اس سعادت سے بہرہ مند فرمائے۔ آمین

【415】

جماعت کی نیت سے مسجد میں جانے والے کو جماعت نہ ملنے کی صورت میں بھی ثواب ملتا ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے وضو کیا اور اچھا (یعنی پوری شرائط و آداب اور حضور دل کے ساتھ) وضو کیا اور پھر (مسجد میں) گیا اور وہاں دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے اس نمازی کے برابر ثواب عنایت فرما دیتا ہے جس نے وہاں جماعت میں حاضر ہو کر نماز پڑھی تھی اور اس کا ثواب دینے سے دوسرے (یعنی جماعت میں حاضر ہونے والوں) کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کرتا۔ (ابوداؤد النسائی ) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی جماعت میں شریک ہونے کی نیت سے مسجد میں آئے اور اتفاق سے اسے جماعت نہ مل سکے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اسے جماعت میں شریک ہونے والوں کے برابر ثواب عنایت فرماتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ قصداً دیر کر کے جماعت میں شریک ہونے سے نہ رہ جائے بلکہ اتفاقاً یا کسی عذر کی بناء پر اس کی جماعت جاتی رہے اگر کوئی قصدا جماعت کے وقت حاضر نہ ہو بلکہ جماعت ہوجانے کی بعد آئے تو اسے یہ ثواب نہیں ملے گا۔ حدیث کے آخری جز کا مطلب ہے کہ اسے یہ ثواب ان نمازیوں کے ثواب میں سے جو جماعت میں حاضر تھے کم کر کے نہیں ملے گا کہ جس کی وجہ سے ان کے ثواب میں کمی ہوجائے بلکہ ان نمازیوں کو تو اپنے فعل یعنی جماعت میں شریک ہونے کا بھر پور اجر ملے گا اور اسے جماعت کی نیت اور جماعت کے حاصل کرنے کے غلبہ شوق کی بناء پر ثواب دیا جائے گا۔

【416】

جماعت کی فضیلت

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک روز مسجد میں) ایک آدمی ایسے وقت پہنچا جب کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ چکے تھے آپ نے (اس آدمی کو دیکھ کر) فرمایا کہ کیا کوئی آدمی ایسا نہیں جو اسے اللہ کی راہ میں دے۔ چناچہ ایک آدمی (رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد سن کر) کھڑا ہوا اور اس نے اس آدمی کے ساتھ نماز پڑھی۔ (جامع ترمذی و ابوداؤد) تشریح یتصدق (اللہ کی راہ میں دے) کا مطلب یہ تھا کہ کیا کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو اس آدمی کے ساتھ بایں طور احسان کرے کہ وہ اس کے ساتھ نماز پڑھے تاکہ اسے جماعت کا ثواب حاصل ہوجائے اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی کسی کو نیک راہ بتائے یا اس کے نیک راستے اختیار کرنے کا باعث بنے تو اسے وہی اجر وثواب ملے گا جو اللہ کی راہ میں بخشش کا ثواب ملتا ہے۔ مولانا مظہر فرماتے ہیں کہ آنے والے آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے کو صدقہ (خدا کی راہ میں دینے) سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ اس آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے والے نے اس کو چھبیس گناہ زیادہ ثواب صدقہ کیا کیونکہ اگر وہ اس آدمی کے ساتھ نماز نہ پڑھتا تو جماعت نہ ہونے اور تنہا نماز پڑھنے کی وجہ سے ایک ہی نماز کا ثواب ملتا اور اس آدمی کے باعث جماعت حاصل ہونے کی وجہ سے اسے ستائیس نمازوں کا ثواب ملا۔

【417】

رسول اللہ ﷺ کے مرض موت میں ابوبکر کی امامت کا واقعہ

حضرت عبیداللہ ابن عبداللہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ کیا آپ مجھ سے رسول اللہ ﷺ کی بیماری کا حال (کہ جس میں آپ آخری مرتبہ نماز پڑھانے کے لئے مسجد تشریف لے گئے تھے) بیان فرمائیں گی ؟ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا کہ ہاں (کیوں نہیں ! تو سنو کہ جب) رسول اللہ ﷺ زیادہ بیمار ہوئے تو (نماز کے وقت) پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں ؟ ہم نے کہا کہ ابھی نہیں یا رسول اللہ ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ (یہ سن کر) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا میرے لئے لگن (طشت) میں پانی رکھو۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم نے لگن میں پانی رکھ دیا چناچہ آپ نے غسل کیا اور چاہا کہ کھڑے ہوں مگر کمزوری کی وجہ سے آپ کو غش آگیا اور) بےہوش ہوگئے، جب ہوش آیا تو پھر فرمایا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں ؟ ہم نے کہا کہ ابھی نہیں ! لوگ آپ کے منتظر ہیں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا لگن میں پانی رکھ۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ (جب ہم نے لگن میں پانی رکھ دیا تو) آپ ﷺ نے غسل فرمایا اور چاہا کہ کھڑے ہوں مگر بےہوش ہوگئے جب ہوش آیا تو پھر پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں ؟ ہم نے عرض کیا کہ ابھی نہیں لوگ آپ کے منتظر ہیں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا لگن میں پانی رکھو۔ (جب ہم نے پانی رکھ دیا تو) آپ بیٹھے اور غسل کیا اور پھر جب اٹھنا چاہا تو بےہوش ہوگئے جب ہوش آیا تو فرمایا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں ؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں لوگ آپ ﷺ کے منتظر ہیں یا رسول اللہ ! اور لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے عشاء کی نماز کے لئے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کر رہے تھے چناچہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کو (یعنی حضرت بلال کو) حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس یہ کہلا کر بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، چناچہ قاصد (یعنی حضرت بلال (رض) ان کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کے لئے نبی ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں حضرت ابوبکر (رض) ایک نرم دل آدمی تھے (یہ سن کر) حضرت عمر (رض) سے کہنے لگے کہ عمر (رض) تم ہی لوگوں کو نماز پڑھادو (کیونکہ میں تو نبی ﷺ کی جگہ کھڑا ہونے کا متحمل نہیں ہوسکتا) لیکن حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اس عظیم مرتبے کے سب سے زیادہ اہل آپ ہیں، چناچہ حضرت ابوبکر (رض) نے ان دنوں میں (یعنی رسول اللہ کے ایام مرض میں سترہ نمازیں لوگوں کو پڑھائیں (جب ایک روز) رسول اللہ ﷺ اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس فرمائی تو دو آدمیوں کا سہارا لے کر ان میں سے ایک حضرت عباس (رض) تھے نماز ظہر کے لئے (مسجد میں) تشریف لے گئے حضرت ابوبکر صدیق (رض) لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کی آہٹ سنی تو پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں اشارہ کے ذریعہ پیچھے ہٹنے سے منع فرما دیا اور ان دونوں سے (جن کا سہارا لے کر آپ ﷺ مسجد میں آئے تھے) فرمایا کہ مجھے ابوبکر کے پہلو میں بٹھا دو ! چناچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو حضرت ابوبکر (رض) کے پہلو میں بٹھا دیا اور آپ ﷺ بیٹھے (نماز پڑھاتے) رہے حضرت عبداللہ (اس حدیث کے راوی) فرماتے ہیں کہ میں (حضرت عائشہ سے یہ حدیث سن کر) حضرت عبداللہ ابن عباس کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ کیا میں آپ سے وہ حدیث نہ بیان کر دوں جو میں نے حضرت عائشہ (رض) رسول اللہ ﷺ کی بیماری کے بارے میں سنی ہے ؟ حضرت عبداللہ ابن عباس نے فرمایا کہ ہاں بیان کرو ! چناچہ میں نے ان کے سامنے حضرت عائشہ کی حدیث بیان کی حضرت عبداللہ ابن عباس نے اس میں سے کسی بات کا انکار نہیں کیا البتہ یہ فرمایا کہ کیا حضرت عائشہ نے تم سے اس آدمی کا نام بیان کیا ہے جو حضرت عباس کے ساتھ تھے ؟ میں نے کہا کہ نہیں حضرت عبداللہ ابن عباس نے فرمایا کہ وہ حضرت علی المرتضیٰ تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت عائشہ (رض) نے حضرت عباس (رض) کا نام تو لے لیا مگر دوسرے آدمی کا نام نہیں لیا جو ان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کو سہارا دے کر مسجد لے گئے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے ایک طرف تو حضرت عباس مستقل طور پر آپ ﷺ کو سہارا دئیے ہوئے تھے مگر دوسرے طرف ایک ہی آدمی مقرر نہ تھا بلکہ نوبت بہ نوبت بدلتے جاتے تھے کبھی تو حضرت علی سہارا دیتے کبھی حضرت اسامہ یا فضل ابن عباس یہی وجہ ہے کہ ایک دوسری طرف روایت میں حضرت عائشہ کے الفاظ کچھ اس طرح منقول ہیں جو بطریق احتمال سب ناموں کو شامل ہیں چناچہ وہ الفاظ یہ ہیں کہ آپ ﷺ کے دوسری طرف اہل بیت سے میں سے ایک آدمی (سہارا دئیے ہوئے) تھا۔

【418】

سورت فاتحہ نہ پڑھنے سے ادھوراثواب ملتا ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے جس نے رکوع پایا اسے پوری رکعت مل گئی اور جو آدمی سورت فاتحہ پڑھنے سے رہ گیا وہ بہت سارے ثواب سے (بھی محروم) رہ گیا۔ (مالک) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس نے نماز میں سورت فاتحہ نہیں پڑھی تو چونکہ وہ اس وجہ سے بہت زیادہ ثواب سے محروم رہ گی اس لئے اس کی نماز کا ثواب ناقص ہے۔ اس حدیث سے بین طریقہ پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض نہیں ہے کیونکہ اگر سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض ہوتا تو نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑھنے کی وجہ سے کمی و نقصان نہیں ہوتا بلکہ نماز نہ ہونے کی وجہ سے سرے سے ثواب ملتا ہی نہیں۔ اس حدیث سے بین طریقہ پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض نہیں ہے کیونکہ اگر سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض ہوتا تو نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑھنے کی وجہ سے کمی و نقصان نہیں ہوتا بلکہ نماز نہ ہونے کی وجہ سے سرے سے ثواب ملتا ہی نہیں۔

【419】

امام پر پہل کرنے کی وعید

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ( یہ بھی) فرماتے تھے کہ جو آدمی (رکوع و سجود) میں اپنے سر کو امام سے پہلے اٹھائے یا جھکائے تو (سمجھو کہ) اس کی پیشانی شیطان کے ہاتھ میں ہے۔ (مالک)

【420】

دو مرتبہ نماز پڑھنے والے آدمی کا بیان

اگر کوئی آدمی ایک ہی نماز دو مرتبہ خواہ حقیتا یا صورۃ پڑھتا ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ آیا دونوں مرتبہ کی نمازیں ایک ہی قسم سے ادا ہوں گی یا ان کی حیثیت میں فرق ہوجائے گا ؟ یا دونوں مرتبہ فرض ادا ہوں گے یا ایک مرتبہ فرض اور دوسری مرتبہ نفل ؟ یہی باتیں بتانے کے لئے یہ باب قائم کیا گیا ہے اور انہیں مضامین پر مشتمل احادیث اس باب کے تحت نقل کی جائیں گی۔

【421】

حضرت معاذ کے دو مرتبہ نماز پڑھنے کی حقیقت

حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ ابن جبل (رض) (پہلے تو) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے اور پھر اپنی قوم کے پاس آکر انہیں نماز پڑھاتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح حضرت معاذ ابن جبل (رض) کا یہ معمول تھا کہ وہ عشاء کی سنتیں یا نفل رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پڑھتے تھے تاکہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی فضیلت وسعادت حاصل ہوجائے اور رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنے کا طریقہ بھی معلوم ہوجائے پھر وہاں سے اپنی قوم میں آکر لوگوں کو فرض نماز پڑھایا کرتے تھے۔

【422】

حضرت معاذ کے دو مرتبہ نماز پڑھنے کی حقیقت

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ ابن جبل (رض) عشاء کی نماز (پہلے تو) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پڑھتے تھے پھر اپنی قوم میں آتے اور ان کو عشاء کی نماز پڑھاتے اور وہ ان کے لئے نفل ہوتی۔ تشریح حضرت معاذ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پہلے تو عشاء کی نماز پڑھتے وقت عشاء کی سنت کی نیت کرتے ہوں گے یا نفل نماز کی نیت کرلیتے ہوں گے پھر اپنی قوم کے پاس آکر ان کی امامت کرتے اور اس وقت فرض نماز پڑھتے تھے۔ حدیث کے آخری الفاظ وھی لہ نا فلۃ کا مطلب سمجھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیجئے کہ دو مرتبہ نماز پڑھنے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ایک تو یہ کہ ایک آدمی نے اپنے مکان میں تنہا یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھی اس کے بعد مسجد آیا تو دیکھا کہ وہاں اسی نماز کی جماعت ہو رہی ہے تو جو پہلے پڑھ چکا ہے۔ وہ مسجد میں جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کی غرض سے جماعت میں شریک ہو کر دوبارہ نماز پڑھ لیتا ہے اس صورت میں فرض نماز کی ادائیگی چونکہ پہلے ہوچکی ہے اس لئے یہ جماعت کی نماز اس کے لئے نفل ہوجائے گی۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک آدمی کسی مسجد کا امام ہے وہ اپنی مسجد میں نماز پڑھانے سے پہلے کسی خاص موقعہ پر یا کسی خاص آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت حاصل کرنے کی غرض سے بہ نیت نفل نماز پڑھ لیتا ہے پھر اس کے بعد اپنی مسجد میں آکر لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے ایسی صورت میں بعد کی نماز فرض ادا ہوگی اور پہلی نماز نفل ہوجائے گی۔ اس تفصیل کو سمجھنے کے بعد اس جملے کا مطلب آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ دوسری نماز جو جماعت کے ساتھ فرض یا نفل ادا ہوتی ہے یا پہلی نماز دو مرتبہ پڑھنے والے کے حق میں نافلہ یعنی خیرو بھلائی کی زیاتی اور ثواب کی کثرت کا باعث ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے اس جملے کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ دوسری نماز جو حضرت معاذ (رض) قوم کے ہمراہ پڑھتے تھے حضرت معاذ (رض) کی نفل نماز اور ان کی قوم کی عشاء کی فرض نماز ہوتی تھے۔ حقیقت سے دور ہے کیونکہ یہ بات تو اسی وقت صحیح ہوسکتی ہے جب کہ اس مطلب کو بیان کرنے والے حضرت معاذ کا کوئی ایسا قول بھی پیش کریں جس میں حضرت معاذ خود یہ بتائیں کہ ان کی نیت دونوں مرتبہ کیا ہوتی تھی کیونکہ نیت کی حقیقت تو اس وقت تک معلوم نہیں ہوتی جب تک کہ نیت کرنے والا اپنی نیت کے بارے میں خود نہ بتائے کہ اس کی نیت کیا ہے اور ظاہر ہے کہ حضرت معاذ نماز پڑھتے وقت نیت دل میں کرتے ہوئے گے زبان سے اظہار نہیں کرتے ہوں گے جیسا کہ ابن ہمام نے نقل کیا ہے کہ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ زبان سے نیت کرتے تھے پھر یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ جملہ وہی نافلہ حدیث کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ اضافہ ہے جو صحیح روایتوں میں موجود نہیں ہے چناچہ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حضرت امام شافعی نے اپنے اجتہاد و مسلک کے مطابق اس کا اضافہ کیا ہے پھر یہ مشکوٰۃ کے اصل نسخے میں یہ جگہ خالی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف مشکوٰۃ نے سنن کے کسی بھی طریق سے یہ جملہ نہیں پایا۔ علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ علماء حدیث کا یہ قول ہے کہ وھی لہ نافلۃ حدیث جابر میں غیر محفوظ ہے۔ نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟ اس مسئلے میں ائمہ کا جو اختلاف ہے اسے پوری وضاحت کہے ساتھ مظاہر حق جدید کی قسط ٩ میں باب القراۃ فی الصلوٰۃ کی حدیث نمبر ١٠ کے فائدہ کے ضمن میں بیان کیا جا چکا ہے۔

【423】

جماعت کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم

حضرت یزید ابن اسود (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج (حجۃ الوداع) میں شریک تھا چناچہ (اس موقع پر ایک دن میں نے آپ ﷺ کے ہمراہ مسجد خیف میں صبح کی نماز پڑھی جب آپ ﷺ نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دو آدمی جماعت کے آخر میں بیٹھے ہوئے جنہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی رسول اللہ ﷺ نے (انہیں دیکھ کر لوگوں سے) فرمایا کہ ان دونوں کو میرے پاس لاؤ ! وہ دونوں حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں اس حال میں حاضر کئے گئے کہ (رسول اللہ ﷺ کی ہیبت کی وجہ سے) ان کے کندھوں کا گوشت تھر تھرا رہا تھا رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تمہیں ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روک دیا تھا ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم اپنے مکان میں نماز پڑھ چکے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آئندہ ایسا نہ کرنا، اگر تم اپنے مکان میں نماز پڑھ چکو اور اس مسجد میں آؤ جہاں جماعت ہو رہی ہو تو لوگوں کے ساتھ (بھی) نماز پڑھ لو، یہ نماز تمہارے لئے نفل ہوجائے گی۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ آخر میں پڑھی جانے والی نماز نفل ہوجائے گی خواہ پہلی نماز جماعت سے پڑھی ہو یا تنہا پڑھی ہو۔

【424】

جماعت کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم

حضرت بسر ابن محجن اپنے والد محترم سے روایت کرتے ہیں کہ وہ (یعنی ان کے والد محترم حضرت محجن) ایک مجلس میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے کہ نماز کیلئے اذان ہوگئی چناچہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے نماز پڑھ کر جب آپ ﷺ فارغ ہوئے تو دیکھا کہ محجن اپنی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے تمہیں کس چیز نے روک دیا تھا کیا تم مسلمان نہیں ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہاں میں مسلمان ہوں لیکن (بات یہ ہوئی کہ) میں اپنے گھر والوں کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جب تم مسجد میں آؤ اور نماز (اپنے گھروں میں) پڑھ چکے ہو اور مسجد میں جماعت کھڑی ہو تو لوگوں کے ساتھ (دوبارہ) نماز پڑھ لو اگرچہ تم نماز پڑھ چکے ہو۔ (مالک، سنن نسائی)

【425】

دوبارہ نماز پڑھنا باعث ثواب ہے

اور قبیلہ اسد ابن خزیمہ کے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے کہ اس نے حضرت ابوایوب انصاری (رض) سے پوچھا کہ ہم میں سے کوئی آدمی (اپنے گھر میں) نماز پڑھ لیتا ہے پھر وہ مسجد میں آتا ہے اور (دیکھتا ہے کہ) وہاں نماز پڑھی جا رہی ہے تو کیا میں نے ان کے ساتھ (دوبارہ) نماز پڑھ لوں ؟ میں اپنے دل میں ایک کھٹک محسوس کرتا ہوں ( یعنی میرے دل میں یہ شبہہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا دوبارہ نماز پڑھنا میرے لئے بہتر ہے یا نہیں ؟ ) حضرت ابوایوب انصاری (رض) نے فرمایا کہ میں نے (بھی اس مسئلے کو) رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ (دوبارہ نماز پڑھنا) اس کے لئے جماعت کا نصیبہ ہے۔ (مالک و سنن ابوداؤد) تشریح فَذٰلِکَ لَہ سَھْمُ جَمْعٍ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی ایک مرتبہ مکان میں فرض نماز پڑھ لینے کے بعد پھر دوبارہ مسجد میں جماعت کے ساتھ وہی نماز پڑھتا ہے تو اس کے حق میں سراسر سعادت کی بات ہے کیونکہ اس طرح اس جماعت کی فضیلت اور اس کا ثواب ہاتھ لگتا ہے لہٰذا اس سلسلہ میں دل کے اندر کوئی و سوسہ و شبہ پیدا نہیں کرنا چاہیے۔

【426】

دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم

اور حضرت یز ید ابن عامر (رض) فرماتے ہیں (ایک روز) میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ اس وقت (لوگوں کے ہمراہ) نماز پڑھ رہے تھے میں (ایک طرف) بیٹھ گیا اور ان لوگوں کے ساتھ جماعت میں شامل نہیں ہوا جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ کر فارغ ہوئے اور مجھے (ایک طرف) بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ یزید کیا تم مسلمان نہیں ہو کہ نماز نہیں پڑھی ؟ میں نے عرض کیا ہاں رسول اللہ ! بیشک میں مسلمان ہوں ! آپ نے فرمایا تو پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے تمہیں کس چیز نے روک دیا تھا ؟ میں نے عرض میں اپنے مکان میں نماز پڑھ چکا تھا اور (اب آتے وقت) یہ خیال تھا کہ آپ ﷺ بھی نماز سے فارغ ہوچکے ہوں گے پھر فرمایا۔ جب تم نماز کو آؤ اور لوگوں کو (نماز پڑھتے ہوئے) پاؤ تو تم بھی ان کے ہمراہ نماز میں شامل ہوجاؤ اگرچہ تم (پہلے وہ) نماز پڑھ چکے ہو یہ دوسری مرتبہ کی نماز) تمہارے لئے نفل ہوجائے گی اور وہ (پہلی نماز) فرض ادا ہوگی۔ (ابوداؤد)

【427】

دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے ایک آدمی نے پوچھا میں اپنے گھر میں نماز پڑھ لیتا ہوں پھر مسجد میں (ایسے وقت پہنچتا ہوں کہ) لوگ امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہوتے ہیں تو کیا میں بھی اس امام کے پیچھے نماز پڑھوں ؟ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ ہاں ! پھر اس آدمی نے پوچھا کہ (ان میں سے) اپنی (فرض) نماز کسے قرار دوں ؟ (پہلی یا دوسری کو) حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے فرمایا ( کیا یہ تمہارا کام ہے ؟ (یعنی ان میں سے کسی ایک کو فرض نماز مقرر کرنا تمہارا کام نہیں ہے) یہ تو اللہ بزرگ و برتر کے اختیار میں ہے کہ وہ جسے چاہے تمہاری (فرض) نماز قرار دے۔ (مالک) تشریح یہ حدیث بعض شوافع اور امام غزالی (رح) کے اس قول کی تائید کرتی ہے کہ ان دونوں نمازوں میں ایک نماز بلا تعین فرض ادا ہوتی ہے خواہ پہلی نماز ہو یا دوسری۔ لیکن اکثر احادیث سے یہ بات بصراحت معلوم ہوتی ہے کہ ان دونوں میں پہلی نماز فرض ادا ہوتی ہے اور دوسری نماز نفل ہوجاتی ہے اور یہی بات قرین قیاس بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ کوئی آدمی کسی ایسے کام کو جو اس کے لئے ایک وقت میں ایک مرتبہ کرنا ضروری ہو اگر دو مرتبہ کرے تو ظاہر ہے کہ وہ بری الذمہ پہلی مرتبہ ہوتا ہے نہ کہ دوسری مرتبہ، اسی طرح فرض نماز کی ادائیگی پہلی مرتبہ ہوتی ہے اور دوسری مرتبہ کی نماز اس کے حق میں نفل کی صورت میں فضیلت وسعادت کا سرمایہ بن جاتی ہے۔

【428】

ایک نماز کو دوبارہ نہ پڑھنے کا حکم

اور ام المومنین حضرت میمونہ (رض) کے آزاد کردہ غلام حضرت سلیمان فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے پاس مقام بلاط میں آئے لوگ اس وقت (مسجد میں) نماز پڑھ رہے تھے میں نے عبداللہ ابن عمر (رض) سے عرض کیا کہ آپ لوگوں کے ہمراہ نماز نہیں پڑھتے ؟ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے فرمایا میں نماز پڑھ چکا ہوں اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم ایک دن (یعنی ایک وقت میں) ایک نماز دو مرتبہ نہ پڑھو۔ (ابوداؤد، سنن نسائی، مسند احمد بن حنبل) تشریح بلاط مدینہ منورہ میں ایک جگہ کا نام ہے جسے امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) نے مسجد سے باہر اس مقصد کے لئے بنایا تھا کہ لوگوں کو باتیں وغیرہ کرنی ہوں تو مسجد سے باہر اس جگہ کیا کریں اور مسجد میں دنیاوی امور پر مشتمل بات چیت نہ ہو۔ دوبارہ نماز پڑھنے کے حکم کی تطبیق گزشتہ احادیث سے بظاہر یہ حدیث گذشتہ احادیث سے متعارض نظر آتی ہے جو ایک نماز کو دوبارہ پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں لہٰذا اس حدیث کے حکم و گذشتہ احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ دراصل اس حدیث کے حکم کا تعلق اس آدمی سے ہے جو پہلی مرتبہ جماعت سے نماز پڑھ چکا ہو اور گذشتہ احادیث کا تعلق اس آدمی سے ہے جس نے پہلی مرتبہ نماز جماعت سے نہیں بلکہ تنہا پڑھی ہو جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے۔ یا۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دوسری مرتبہ نماز بطریق فرضیت نہ پڑھو یعنی دوسری نماز اگر نفل جان کر اور نفل کی نیت سے پڑھو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے الفاظ قد صلیت ( میں نماز پڑھ چکا ہوں) کی یہ تشریح کی جائے گی کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) شاید جمات سے نماز پڑھ چکے ہوں گے اس لئے وہ دوبارہ نماز میں شریک نہیں ہوئے یا یہ کہ جس وقت کا یہ واقعہ ہے۔ وہ فجر یا عصر و مغرب کا وقت ہوگا۔ کہ ان اوقات میں دوبارہ نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ آخر میں اتنی بات بھی سمجھ لیجئے کہ اس سلسلے میں اکثر حدیثیں عام ہیں یعنی ان احادیث سے بظاہر معلوم یہی ہوتا ہے کہ یہ حکم کہ اگر کوئی آدمی تنہا نماز پڑھ کر مسجد میں آئے اور وہاں جماعت ہو رہی ہو تو وہ جماعت میں شریک ہوجائے اور دوبارہ نماز پڑھ لے تمام اوقات کی نمازوں سے متعلق ہے لیکن مجتہدین اور علماء نے ان احادیث پر بھی نظر رکھی ہے جن سے بعض اوقات میں دوبارہ نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا گیا لہٰذا ان احادیث کے پیش نظر انہوں نے ان اوقات کو متعین کردیا ہے جن میں دوبارہ نماز پڑھ لینی چاہیے اور ان اوقات کو بھی مختص کردیا ہے جن میں دوبارہ نماز نہیں پڑھنی چاہیے چناچہ اگلی حدیث میں یہ تخصیص مذکور ہے۔

【429】

وہ اوقات جن میں دوبارہ نماز پڑھنا ممنوع ہے

اور حضرت نافع راوی ہیں کہ حضرت عبدا اللہ ابن عمر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ جس آدمی نے مغرب یا فجر کی نماز (تنہا) پڑھ لی اور پھر ان نمازوں کو امام کے ساتھ پایا (یعنی جہاں جماعت ہو رہی تھی وہاں پہنچ گیا) تو وہ ان کو دوبارہ نہ پڑھے۔ (مالک) تشریح یہ حدیث حضرت امام مالک (رح) کے مسلک کی تائید کرتی ہے کیونکہ ان کے ہاں صرف مغرب اور فجر کی نمازوں کا اعادہ ممنوع ہے مگر حنفیہ کے ہاں عصر کی نماز بھی اس حکم میں ہے حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک تمام نمازوں میں اعادہ ہوسکتا ہے اس حدیث میں اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ مذکورہ بالا حکم اس آدمی کے بارے میں ہے جس نے پہلی مرتبہ جماعت سے نہیں بلکہ تنہا نماز پڑھی ہو لہٰذا پہلی مرتبہ جماعت سے نماز پڑھ لینے کی شکل میں تو بطریق اولیٰ دوبارہ نماز پڑھنی چاہیے۔

【430】

سنتوں اور اس کی فضیلتوں کا بیان

شریعت اسلامی میں نماز چونکہ سب سے عمدہ اور اعلیٰ درجے کی عبادت ہے نیز دوسری عبادتوں کے مقابلہ میں اس کی بڑی اہمیت اور رب قدوس کی بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے اس لئے اس عبادت میں جتنی زیادہ کثرت اور زیادتی اختیار کی جاتی ہے اسی قدر نہ صرف یہ کہ بندے کی سعادت و بھلائی بےپناہ رفعتیں اور عروج و بلندیاں ہوتی ہیں بلکہ وہ اپنی پوری پوری عبودیت اور خداوند عالم کی حاکمیت وکبریائی کا اظہار بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت میں دوسری عبادتوں کو جہاں صرف فرائض تک محدود رکھا ہے وہاں اس عبادت کو فرائض و واجبات کے علاوہ سنن سے بھی نوازا ہے چناچہ ہر فرض نماز کے ساتھ کچھ سنتیں بھی مقرر کی گئی ہیں تاکہ نہ صرف یہ کہ وہ فرض کے ساتھ آسانی سے ادا ہوجائیں بلکہ فرض نماز کی ادائیگی میں جو نقصان و کوتاہی واقع ہوگئی ہو وہ پوری ہوجائے۔ سنتیں یعنی وہ نماز جو دن و رات میں فرض نمازوں کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں۔ (١) روا تب یہ وہ سنت نمازیں کہلاتی ہیں جن پر رسول اللہ ﷺ نے مداومت اختیار فرمائی۔ (٢) غیر رواتب یہ وہ سنت نمازیں کہلاتی ہیں جن پر رسول اللہ ﷺ نے مداومت اختیار نہیں فرمائی جیسے عصر کے وقت کی سنتیں۔ سنتیں پڑھنے کا بھی وہی طریقہ ہے جو فرض نماز پڑھنے کا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ فرض نماز کی صرف دو رکعتوں میں سورت فاتحہ کے بعد دوسری سورت بھی پڑھنے کا حکم ہے اور سنت نماز کی سب رکعتوں میں سورت فاتحہ کے بعد دوسری سورت بھی پڑھی جاتی ہے اور سنت نماز کی رکعتوں میں جو سورتیں پڑھی جاتی ان کا برابر نہ ہونا خلاف سنت نہیں ہے نیز سنت نمازیں دن میں دو رکعت تک اور رات میں چار رکعت تک ایک ہی سلام سے پڑھی جاسکتی ہیں مگر دو رکعت کے بعد التحیات پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ (علم الفقہ) یہ بات بھی جان لیجئے کہ سنت نفل تطوع، مندوب مستحب، مرغوب فیہ اور حسن یہ تمام الفاظ مترادف ہیں ان سب کے معنی ایک ہی ہیں۔ یعنی وہ نماز جس کے پڑھنے کو شارع نے نہ پڑھنے پر ترجیح دی ہے اگرچہ ان نمازوں میں بعض ایسی ہیں جو دوسری بعض کے مقابلہ میں سنت موکدہ ہیں۔

【431】

سنتوں کی تعداد اور ان کی پڑھنے کی فضیلت

حضرت ام حبیبہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی دن و رات میں بارہ رکعتیں نماز پڑھے تو اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جاتا ہے اور وہ بارہ رکعتیں یہ ہیں چار رکعت ظہر (کی فرض نماز) سے پہلے اور دو رکعت اس کے بعد، دو رکعت مغرب کی فرض نماز کے بعد، دو رکعت عشاء کی فرض نماز کے بعد اور دو رکعت فجر کی فرض نماز سے پہلے۔ (جامع ترمذی ) اور صحیح مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت ام جیبہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو بندہ مسلمان ہر دن میں اللہ جل شانہ کے لئے فرض نمازوں کے علاوہ بارہ رکعتیں (سنت) پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے یا یہ فرمایا کہ اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جاتا ہے۔ تشریح حدیث میں دن و رات کی سنتوں کی جو تعداد مذکورہ تفصیل کے ساتھ بتائی گئی ہے وہ تمام سنتیں مؤ کدہ ہیں اور فجر کی دونوں سنت رکعتیں سب سے زیادہ مؤ کدہ ہیں حتی کہ حضرت امام حسن بصری (رح) اور بعض حنفیہ حضرات نے ان کو واجب تک کہا ہے امام حسن بصری (رح) نے تو مغرب کی دونوں سنتوں کو بھی واجب کہا ہے لیکن اس حدیث کے پیش نظر ان کے قول کی تردید کی گئی ہے کہ وہ واجب نہیں بلکہ سنت ہیں۔

【432】

سنتوں کی تعداد اور ان کی پڑھنے کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ظہر ( کی فرض نماز) سے پہلے دو رکعتیں، اس کے بعد دو رکعتیں اور آپ ﷺ کے گھر (یعنی حضرت حفصہ جو عبداللہ ابن عمر کی بہن تھیں کے حجرے) میں مغرب ( کی فرض نماز) کے بعد دو رکعتیں پڑھی ہیں نیز حضرت عبداللہ ابن عمر نے فرمایا۔ کہ حضرت حفصہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ دو ہلکی رکعتیں اس وقت پڑھا کرتے تھے جب فجر طوع ہوتی تھی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے ظہر سے پہلے کی سنتوں کے لئے رکعتین (دو رکعتیں) کا استعمال فرمایا ہے جس کا ظاہری مطلب تو یہی ہے کہ آپ ﷺ نے ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں لیکن اہل علم کا قول ہے کہ تثنیہ (دو ) جمع (چار) کے منافی نہیں ہے یعنی اگر یہاں رکعتین کے معنی بجائے دو رکعت کے چار رکعت مراد لئے جائیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اس توجیہ کے ذریعے اس حدیث میں اور اس حدیث میں کہ جس سے ظہر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعت سنتیں ثابت ہوتی ہیں تطبیق ہوجاتی ہیں (ملا علی قاری) حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حضرت امام شافعی کی مستدل ہے کیونکہ ان کے نزدیک ظہر کی فرض نماز سے پہلے سنت دو رکعتیں ہیں مگر حنفیہ کے نزدیک چار رکعتیں ہیں حنفیہ مسلک کی مستدل بھی بہت سی احادیث مروی ہیں جو حضرت علی المرتضیٰ حضرت عائشہ اور حضرت ام حبیبہ وغیرہ سے منقول ہیں نیز حضرت امام ترمذی نے حنفیہ مسلک کے حق میں فرمایا ہے کہ اسی مسلک پر حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ میں سے اکثر اہل علم کا عمل ہے اور یہی قول سفیان ثوری، ابن المبارک اور اسحق کا بھی ہے نیز حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا قول بھی چار رکعتوں ہی کے بارے میں منقول ہے لیکن اس طرح کہ چار رکعتیں دو سلام کے ساتھ پڑھی جائیں حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے اس ارشاد کی ایک توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی چار رکعت سنتیں گھر میں پڑھا کرتے تھے لہٰذا ازواج مطہرات نے چار رکعتوں ہی کے بارے میں ذکر کیا اور جب آپ ﷺ فرض نماز پڑھانے کے لئے مسجد میں تشریف لاتے تو وہاں تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھتے تھے اس لئے تحیۃ المسجد کی دو رکعتوں کو حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے ظہر کی سنتیں سمجھ کر فرمایا کہ میں نے آپ ﷺ کے ہمراہ ظہر کی فرض نماز سے پہلے دو رکعت سنتیں پڑھی ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے یہاں ظہر، مغرب اور عشاء کی سنتوں کا تذکرہ کیا ہے فجر کی سنتوں کا تذکرہ نہیں کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز نہیں پڑھتے تھے اس لئے فجر کی سنتیں خود ذکر نہیں کیں بلکہ حضرت حفصہ (رض) کی روایت ذکر کردی تاکہ ان نمازوں کے ساتھ فجر کی سنتیں بھی معلوم ہوجائیں۔

【433】

جمعہ کی سنتیں

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ (گھر میں) واپس تشریف لاتے اور مکان میں دو رکعتیں پڑھتے۔ (صحیح البخاری ) تشریح حضرت ابن ملک فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں رکعتین سے جمعہ کی سنتیں مراد ہیں چناچہ ایک قول کے مطابق حضرت امام شافعی (رح) کا عمل اسی حدیث میں ہے کہ جمعہ کی سنتیں ظہر ہی کی سنتوں کی طرح یعنی دو رکعتیں ہیں دیگر صحیح احادیث میں منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کی نماز سے پہلے بھی اور جمعہ کی نماز کے بعد بھی چار چار رکعت سنتیں پڑھتے تھے چناچہ حضرت امام ابویوسف (رح) فرماتے ہیں کہ نماز جمعہ کے بعد چھ رکعتیں سنتیں پڑھنی چاہئیں۔ جیسا کہ پہلے کسی موقعہ پر بتایا جا چکا ہے کہ نوافل نماز گھر میں پڑھنے افضل ہیں اس لئے رسول اللہ ﷺ جمعہ کے بعد کی سنتیں گھر ہی میں پڑھا کرتے تھے۔

【434】

رسول اللہ ﷺ کے نوافل کی تعداد

اور حضرت عبداللہ ابن شفیق فرماتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی نفل میں نمازوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ پہلے میرے گھر میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھتے پھر (مسجد) تشریف لے جاتے (اور وہاں) لوگوں کے ہمراہی (ظہر کی فرض) نماز پڑھتے پھر آپ ﷺ (گھر میں) تشریف لاتے اور دو رکعتیں نماز پڑھتے۔ (اسی طرح) آپ ﷺ مغرب کی نماز لوگوں کے ہمراہ (مسجد میں) ادا فرماتے اور پھر گھر میں تشریف لا کردو رکعتیں نماز پڑھتے۔ نیز آپ عشاء کی نماز لوگوں کے ہمراہ (مسجد میں) پڑھتے اور پھر میرے گھر تشریف لا کردو رکعتیں نماز پڑھتے اور آپ ﷺ رات میں (تہجد کی) نماز ( کبھی) نو رکعت پڑھا کرتے تھے ان میں وتر (کی نماز بھی) شامل ہوتی اور رات میں دیر تک کھڑے ہو کر اور دیر تک بیٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے اور جس وقت آپ ﷺ کھڑے ہو کہ نماز پڑھتے تو کھڑے ہی کھڑے رکوع و سجود میں چلے جایا کرتے تھے اور جب بیٹھ کر نماز پڑھتے تو ہی ہوئے رکوع و سجود میں جایا کرتے تھے اور جب صبح صادق ہوتی تو دو رکعت فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح مسلم) ابوداؤد نے یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں۔ (فجر کی دو سنتیں پڑھ کر) پھر آپ ﷺ (مسجد) تشریف لے جاتے اور وہاں لوگوں کے ہمراہ فجر کی فرض نماز ادا فرماتے۔ تشریح یہ حدیث اس بات کی صریحی طور پر دلیل ہے کہ سنتیں گھر میں ہی پڑھنا افضل ہیں فیھن الو تر کا مطلب یہ ہے جب رسول اللہ ﷺ تہجد کی نماز ادا فرماتے تو اس کے ساتھ وتر بھی تین رکعت (جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے) یا ایک رکعت (جیسا دیگر ائمہ کا مسلک ہے) پڑھ لیا کرتے تھے۔ رات کو رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھنے کے سلسلے میں مختلف روایتیں منقول ہیں کہ کبھی رکعتین پڑھنے کبھی اٹھ اور کبھی نو اسی طرح کبھی دس کبھی گیارہ اور کبھی تیرہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ رَکَعَ وَ سَجَدَ وَھُوَ قَائِمٌ کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت آپ ﷺ تہجد کی نماز کھڑے ہو کر پڑھا کرتے تھے تو آپ حالت قیام ہی سے رکوع و سجود میں جایا کرتے تھے یہ نہیں ہوتا تھا کہ قرأت تو کھڑے ہو کر کرتے ہوں اور رکوع و سجود بیٹھ کر کرتے ہوں اسی طرح جب آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے تو رکوع و سجود بھی بیٹھے ہوئے ہی کرتے تھے تاہم اس صورت کے بارے میں یہ بھی منقول ہے کہ آپ رکوع و سجود میں کھڑے ہو کر جایا کرتے تھے یعنی قرأت تو بیٹھ کر کرتے پھر کھڑے ہوتے اور تھوڑی سی قرأت کر کے تب رکوع و سجود میں جاتے تھے۔ بہر حال تمام احادیث کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ تہجد کی نماز تین طرح سے پڑھتے تھے۔ (١) پوری نماز کھڑے ہو کر پڑھتے تھے۔ (٢) پوری نماز بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ (٣) قرأت بیٹھ کر کرتے پھر کھڑے ہوتے اور رکوع و سجود میں جاتے۔ اس تیسری صورت کا عکس نہیں فرماتے تھے۔ یعنی اس طرح نماز نہیں پڑھتے تھے کہ قرأت تو کھڑے ہو کر کرتے ہوں اور پھر بیٹھ کر رکوع و سجود میں جاتے ہوں جیسا کہ یہ حدیث اس کی نفی کر رہی ہے۔

【435】

فجر کی سنتوں کی تاکید

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نوافل کے پڑھنے میں کسی کی ایسی محافظت اور مداومت نہیں فرماتے تھے جیسی کہ فجر کی (سنت کی) دو رکعت کے پڑھنے پر مداومت اور محافظت فرماتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ فجر کی سنتیں اتنی زیادہ اہم اور مؤ کدہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کسی بھی حال میں خواہ سفر میں ہوتے یا حضر میں انہیں پڑھنا نہیں چھوڑتے تھے۔ فجر کی سنتوں کی اہمیت و عظمت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ بغیر کسی عذر کے فجر کی سنتوں کو بیٹھ کر پڑھنا درست نہیں ہے۔

【436】

فجر کی سنتوں کی فضیلت

اور ام المومنین حضرت عائشہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فجر کی سنتوں کی دو رکعتیں دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ بہتر ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح فجر کی سنتوں کو دنیا اور دنیا کی چیزوں پر یہ فضیلت اس صورت میں دی گئی ہے کہ دنیا اور دنیا کی چیزیں اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کردی جائیں تب بھی فجر کی سنتیں ہی افضل ہوں گی کیونکہ دنیا کی چیزوں میں بخل کرنے اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے میں اچھائی کب ہے کہ فجر کی سنتوں کو ان سے افضل کہا جاتا۔ علماء نے لکھا ہے کہ سب سے زیادہ موکدہ سنتیں فجر کی ہیں اس کے بعد مغرب کی سنتیں اور اس کے بعد ظہر کی فرض نماز کے بعد کی سنتیں اس کے بعد عشاء کی فرض نماز کے بعد کی سنتیں اور پھر سب کے بعد ظہر کی فرض نماز سے پہلے کی سنتیں۔

【437】

مغرب کی فرض نماز سے پہلے دو رکعت پڑھنے کا حکم

اور حضرت عبداللہ ابن مغفل (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مغرب کی فرض نماز سے پہلے ( دو رکعتیں) نماز پڑھو (آپ نے یہ الفاظ دو مرتبہ فرمائے اور پھر) بوجہ اس بات کے مکروہ سمجھنے کے کہ لوگ انہیں سنت نہ قرار دے دیں تیسری مرتبہ یہ فرمایا کہ جو چاہے (پڑھ لیا کرے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح دو مرتبہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ مغرب کی فرض نماز پڑھنے سے پہلے دو رکعت نفل پڑھ لیا کرو مگر پھر یہ جان لو کہ لوگ دونوں رکعتوں کو سنت موکدہ کا درجہ دے دیں گے لمن شاء (جو چاہے) کہہ کر اس بات کی آگاہی دے دی کہ یہ رکعتیں سنت نہیں ہیں بلکہ ان کا درجہ زیادہ سے زیادہ استحباب تک ہے اگر کوئی آدمی انہیں پڑھ لے گا تو اسے ثواب ملے گا۔ اور جو آدمی نہیں پڑھے گا اس سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ مغرب کی فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں نفل پڑھنے کے سلسلے میں پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اکثر فقہاء نے انہیں پڑھنے سے منع کیا ہے چناچہ باب فضل الاذان کی حدیث نمبر ٩ کے ضمن میں اس کی تفصیل بیان ہوچکی ہے اور اس باب کی تیسری فصل میں بھی اس کی کچھ تفصیل ذکر کی جائے گی۔

【438】

جمعہ کے بعد چار رکعت سنتیں پڑھنی چاہیں

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو آدمی جمعہ کی فرض نماز کے بعد نماز پڑھنے والا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ چار رکعت پڑھے۔ صحیح مسلم اور مسلم ہی کی ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی جمعہ کی نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے بعد چار رکعت سنتیں بھی پڑھے۔

【439】

ظہر کی سنتیں پڑھنے کی فضیلت

حضرت ام حبیبہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی ظہر (کی فرض نماز) سے پہلے چار رکعت اور اس کے بعد چار رکعت کی محافظت کرتا ہے (یعنی انہیں پا بندی سے بلا ناغہ پڑھتا ہے) تو اللہ تعالیٰ اس پر (دوزخ کی) آگ حرام کردیتا ہے (بایں طور کے اس کو مطلقاً دوزخ میں نہیں ڈالے گا یا یہ کہ اسے دوزخ میں ابدی طور پر نہیں رکھے گا) ۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) تشریح اس روایت سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ظہر کے بعد چار رکعت نماز ایک ہی سلام سے پڑھی جائے جب کہ دوسری روایت میں منقول ہے کہ ظہر کے بعد کی چار رکعتیں دو سلام کے ساتھ ادا کی جائیں، بہر حال اس موقع پر بحث ہے کہ ظہر کی یہ چار رکعتیں جن کے بارے میں حدیث میں ذکر کیا جا رہا ہے آیا سنت کی دو رکعتوں کے علاوہ ہیں یا سنت کی وہ دونوں رکعتیں بھی اس میں شامل ہیں۔ تو ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار رکعتیں سنت کی ان دونوں کے علاوہ ہیں جو فرض کے بعد پڑھی جاتی ہیں لیکن ملا علی قاری کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان چار رکعتوں میں سنت کی وہ دونوں رکعتیں بھی شامل ہیں۔ چناچہ وہ فرماتے ہیں کہ ان چار رکعتوں میں دو رکعت سنت موکدہ ہیں اور دو رکعت مستحب اور اولیٰ ہیں مزید یہ کہ یہ چار رکعت دو سلام کے ساتھ ادا کی جائیں۔

【440】

ظہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھنے کی فضیلت

اور حضرت ابوایوب انصاری (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ظہر سے پہلے کی وہ چار رکعتیں کہ جن ( کے درمیان) میں سلام نہیں پھیرا جاتا (یعنی ان چار رکعتوں کے پڑھنے کے سلسلہ میں افضل یہی ہے کہ چار رکعتیں پوری کر کے آخر میں سلام پھیرا جائے) ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ (ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح ظہر سے پہلے پڑھی جانے والی چار رکعتوں کی فضیلت ظاہر فرمائی جا رہی ہے کہ جب وہ پڑھی جاتی ہیں تو ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں یعنی وہ بارگاہ رب العزت میں پہنچ کر قبولیت کا درجہ پاتی ہیں اور ان کے سبب سے رحمت الہٰی کے انوار نازل ہوتے ہیں۔ ان چار رکعتوں کے بارے میں اختلاف ہے آیا ان سے مراد سنت راتبہ کی وہی چار رکعتیں ہیں جو ظہر کے فرض سے پہلے پڑھی جاتی ہیں یا ان کے علاوہ ہیں جن کو نماز فی الزوال کہتے ہیَ چناچہ مختار قول یہی ہے کہ یہ غیر رواتب یعنی فجر کے فرض سے پہلے کی سنت مؤ کدہ کے علاوہ نماز فی الزوال کی چار رکعتیں ہیں۔

【441】

نماز فی الزوال کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ ابن سائب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سورج ڈھلنے کے بعد اور ظہر سے پہلے (فی الزوال کی) چار رکعت نماز پڑھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ ایسا وقت ہے جس میں (نیک اعمال کے اوپر جانے کے لئے) آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں لہٰذا میں اسے محبوب رکھتا ہوں کہ اس وقت میرا نیک عمل اوپر جائے۔ (جامع الترمذی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج ڈھلنے کے بعد کا وقت ساعت قبولیت ہے اس وقت جو بھی نیک عمل کیا جائے گا وہ بارگاہ رب العزت میں مقبولیت کا درجہ پائے گا اور ظاہر ہے کہ تمام نیک اعمال میں سے نماز سب سے افضل ہے اس لئے اس وقت نماز پڑھنا افضل ہوگا۔

【442】

عصر کی سنتیں

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحمت نازل فرمائے جو عصر (کی فرض نماز) سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی، سنن ابوداؤد)

【443】

عصر کی سنتیں دو رکعت ہیں یا چار رکعت

اور امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عصر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے تھے۔ اور ان کے درمیان مقرب فرشتوں اور ان کے بعد میں جو مسلمان اور مومنین ہیں سب پر سلام بھیج کر فرق کرتے تھے۔ (جامع ترمذی ) تشریح یہاں تسلیم (سلام بھیجنے) سے مراد التحیات پڑھنا ہے، یعنی آپ ﷺ دو رکعتوں کے بعد التحیات پڑھتے تھے اور پھر چار رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے تھے

【444】

عصر کی سنتیں دو ہیں یا چار ہیں

امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عصر سے پہلے دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ (ابوداؤد) تشریح عصر کی سنتوں کے بارے میں متعدد رکعتیں منقول ہیں بعض سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ عصر سے پہلے دو رکعتیں سنت کی پڑھا کرتے تھے اور بعض روایتوں سے چار رکعت کا ثبوت ملتا ہے چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ نمازی کو اختیار چاہیے تو وہ دو رکعت پڑھے اور چاہے تو چار رکعت، تاہم افضل چار ہی رکعت پڑھنا ہے۔

【445】

صلوۃ الاوابین کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی مغرب کی نماز پڑھ کر چھ رکعت (نفل اس طرح) پڑھے کے ان کے درمیان کوئی فحش گفتگو نہ کرے تو ان رکعتوں کا ثواب اس کے لئے بارہ سال کی عبادت کے ثواب کے برابر ہوجائے گا۔ امام ترمذی (رح) نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے کیونکہ ہم یہ حدیث صرف عمر ابن خثم کی سند کے (اور کسی سند سے) نہیں جانتے اور میں نے محمد ابن اسمعیل بخاری (رح) سے سنا وہ کہتے تھے کہ یہ (عمر ابن خثعم) منکر الحدیث ہے نیز انہوں نے اس حدیث کو بہت ضعیف کہا ہے۔ تشریح مغرب کی نماز کے بعد چھ رکعت نماز نفل تین سلام کے ساتھ پڑھی جاتی ہے اسے صلوٰۃ الاوابین کہتے ہیں یہ نماز سنت ہے اور اس نماز کا نماز صلوٰۃ الاوابین حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے منقول ہے اس نماز کی بہت زیادہ فضیلت ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے۔ حدیث سے بظاہر تو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ مغرب کے بعد جو دو رکعت معمولی سنت پڑھی جاتی ہے وہ بھی ان چھ رکعتوں میں شامل ہے، نیز اگلی حدیث میں صلوٰۃ الاوابین کی چوبیس رکعتیں ذکر کی جا رہی ہیں ان میں بھی یہ دونوں رکعتیں داخل ہیں۔ علامہ یحییٰ نے فرمایا ہے کہ پہلے دو رکعتیں سنت کی الگ سے پڑھ لی جائیں اس کے بعد میں اختیار ہے کہ چاہے کوئی چاروں رکعت پڑھ لے، چاہے دو ہی پڑھے۔ اس حدیث کو اگرچہ امام ترمذی (رح) وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے مگر فضائل اعمال کے سلسلے میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے پھر اس کے علاوہ اس حدیث کو ابن خزیمہ (رح) نے اپنی صحیح میں اور ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے، نیز میرک شاہ (رح) کا قول یہ ہے کہ حضرت عمار ابن یاسر (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھتے تھے نیز انہوں نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنے محبوب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ ﷺ مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھتا ہے اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں اگرچہ وہ (گناہ) دریا کی جھاگ کے مانند ہوں۔ (طبرانی) حضرت مولانا شاہ اسحق محدث دہلوی (رح) کا قول ہے کہ ہماری تحقیق یہ ہے کہ اس حدیث میں صلوٰۃ الاوابین کی جو چھ رکعت ذکر کی گئی ہیں یا اسی طرح اگلی حدیث میں جو بیس رکعتیں ذکر کی جائیں گے۔ یہ دونوں تعداد مغرب کے بعد کی سنت موکدہ کی دو رکعت کے علاوہ ہے۔

【446】

صلوٰۃ الاوابین کی انتہائی تعداد بیس رکعت ہے

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی مغرب کے بعد بیس رکعتیں (صلوٰۃ الاوابین کی) پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے بہشت میں گھر بناتا ہے۔ (جامع ترمذی ) تشریح گو محدیثن نے اس حدیث کو بھی ضعیف قرار دیا ہے لیکن علامہ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ اس بارے میں ایک حدیث اور منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس نماز کی بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے یہ صلوٰۃ الاوابین ہے لہٰذا جس آدمی نے یہ نماز پڑھی تو (سمجھو کہ) اس کی مغفرت کردی گئی۔ چناچہ اکثر علماء سلف اور صلحائے امت اسے پڑھنا اپنی سعادت اور خوش بختی تصور کرتے تھے اور اسے پڑھتے تھے۔ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ صلوٰۃ الاوابین کی رکعت کی تعداد کے سلسلے میں مختلف احادیث منقول ہیں چناچہ ایک حدیث تو اس سے پہلے ہی گذر چکی ہے جس میں چھ رکعتیں ذکر کی گئی ہیں ایک حدیث یہ ہے جس میں بیس رکعت منقول ہے اسی طرح بعض روایتوں میں دو رکعت اور بعض روایتوں میں چار رکعت بھی منقول ہے۔ لہٰذا ان تمام احادیث کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جائے گا کہ صلوٰۃ الاوابین کی کم سے کم تعداد دو رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ بیس رکعت جو آدمی دو سے لے کر بیس تک جتنی زیادہ رکعتیں پڑھے گا اس کے حق میں اسی قدر بہتری و بھلائی ہوگی۔

【447】

عشاء کی سنتیں

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی (مسجد میں) عشاء کی (فرض) نماز پڑھ کر میرے پاس آتے تھے تو (سنت کی چار رکعت یا چھ رکعت ضرور پڑھتے تھے۔ (ابوداؤد) تشریح عشاء کے بعد سنتوں کے سلسلے میں جتنی بھی مشہور روایتیں منقول ہیں ان میں یا تو دو رکعت پڑھنا منقول ہے یا چار رکعت، صرف یہی ایک ایسی حدیث ہے جس میں چھ رکعت پڑھنے کا ذکر کیا جا رہا ہے جن احادیث میں دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے ان میں سے کچھ پہلے بھی گزر چکی ہیں جن روایتوں سے چار رکعت پڑھنا معلوم ہوتا ہے ان میں سے منجملہ ایک حدیث یہ بھی ہے جس کو سعید ابن منصور نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے عشاء سے پہلے چار رکعت نماز پڑھی تو گویا اس نے اس رات میں تہجد (کی نماز) پڑھی اور جس آدمی نے عشاء کے بعد چار رکعت نماز پڑھی تو گویا اس نے لیلۃ القدر میں چار رکعت نماز پڑھی۔ بہر حال۔ اس روایت کی وضاحت یہ ہے کہ آپ عشاء کے بعد جو چار رکعتیں پڑھتے تھے اس میں سے دو رکعتیں تو سنت مؤ کدہ کی ہوتی تھیں اور دو رکعت مستحب۔ البتہ او ست رکعات میں حرف او کے بارے میں دو احتمال ہیں یا تو یہ شک کے لئے ہے یا پھر تنویع کے لئے ہے۔

【448】

ارشاد باری ادبار النجوم اور ادبار السجود سے فجر اور مغرب کی سنتیں مراد ہیں

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (تسبیح) اور ادبار النجوم سے فجر سے پہلے کی دو رکعتیں (یعنی فجر کی سنتیں) مراد ہیں اور (تسبیح) ادبار السجود سے مغرب کے بعد کی دو رکعتیں (یعنی مغرب کی سنتیں) مراد ہیں۔ (جامع ترمذی ) تشریح قرآن کریم کی سورت طور کے آخر میں یہ آیت ہے آیت ( وَسَبِّ حْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَ قُوْمُ 48 وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِ 49) 52 ۔ الطور 48) جب تم اٹھا کرو تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کیا کرو اور رات کے بعض اوقات میں بھی اور ستاروں کے پیٹھ پھیرنے (یعنی ڈوبنے) کے وقت بھی اس کی پاکی بیان کرو۔ اس آیت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ادبار النجوم ستاروں کے پیٹھ پھیرنے کے وقت پروردگار کی پاکی بیان کرنے سے فجر کی سنتیں پڑھنی مراد ہیں کہ وہ ستاروں کے چھپنے کے وقت یعنی صبح صادق کے بعد پڑھی جاتی ہیں۔ اس طرح قرآن کریم کی سورت ق کی یہ آیت ہے آیت ( وَسَبِّ حْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَ قُوْمُ 48 وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِ 49) 52 ۔ الطور 48) اور آفتاب کے طلوع ہونے سے پہلے اور آفتاب کے غروب ہونے سے پہلے اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرو اور رات کے بعض اوقات میں بھی سجود کے بعد بھی اس کی پاکی بیان کرو۔ حدیث کے دوسرے جزء میں رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اس سجود سے مراد مغرب کی تین رکعت فرض ہیں اور ادبارالسجود یعنی سجود کے بعد پاکی بیان کرنے سے مغرب کے فرض کے بعد کی دو رکعت سنتیں پڑھنی مراد ہیں۔

【449】

ظہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھنے کا ثواب

امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ظہر سے پہلے اور سورج ڈھلنے کے بعد (ظہر کی سنت یا فی الزوال) کی چار رکعت نماز (ثواب اور فضیلت میں) تہجد کے وقت چار رکعت نماز پڑھنے کے برابر ہوتی ہے اور وقت (یعنی ظہر سے پہلے اور سورج ڈھلنے کے بعد) تمام چیزیں اللہ رب العزت کی پاکی کی تسبیح کرتی ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت ( يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُه عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَا ى ِلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ 48) 16 ۔ النحل 48) تمام چیزوں کے سائے دائیں طرف سے اور بائیں طرف سے اللہ جل شانہ کے لئے سجدہ کرتے ہوئے جھکتے ہیں اور وہ سب حقیر ہیں۔ (جامع ترمذی، بیہقی) تشریح رسول اللہ ﷺ نے اس وقت نماز پڑھنے کی ترغیب دلانے کے لئے اپنے ارشاد کی دلیل کے طور پر یہ آیت پڑھی آیت میں سجدے سے مراد تابعداری ہے خواہ طبعاً ہو یا اختیارا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں جس چیز کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اس مقصد کی تکمیل ہی درحقیقت پروردگار کی تابعداری ہے۔

【450】

عصر کے بعد دو رکعت نماز کا ذکر

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی میرے نزدیک (یعنی میرے گھر میں) عصر کے بعد دو رکعت (نماز پڑھنی) نہیں چھوڑی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور بخاری کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا قسم ہے اس پاک ذات کی جس نے رسول اللہ ﷺ کی روح مبارک قبض کی، آپ نے یہ دو رکعتیں کبھی نہ چھوڑیں یہاں تک کہ وصال حق فرمایا۔ تشریح گذشتہ صفحات میں کسی موقعہ پر عصر کے بعد نماز پڑھنے کے سلسلے میں بتایا جا چکا ہے یہ دو رکعت پڑھنی رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت تھی اور صرف رسول اللہ ﷺ کے لئے جائز تھیں، دوسرے لوگوں کو عصر کے بعد نفل نماز پڑھنا جائز نہیں کیونکہ اس کی مخالفت میں بہت زیادہ احادیث منقول ہیں۔

【451】

غروب آفتاب کے بعد اور مغرب کی نماز سے پہلے نفل نماز پڑھنے کا مسئلہ

اور حضرت مختار ابن فلفل فرماتے ہیں کہ میں نے (ایک دن) حضرت انس (رض) سے عصر کے بعد نفل نماز پڑھنے کے بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ (اس معاملے میں) امیر ا المومنین حضرت عمر فاروق (رض) ( کا تو اتنا سخت رویہ تھا کہ وہ) عصر کے بعد نفل نماز کی نیت باندھنے والے کے ہاتھ پر مارتے تھے (یعنی انتہائی سختی اور شدت سے اس وقت نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے) اور ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں آفتاب غروب ہونے کے بعد اور مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں (نفل نماز کی) پڑھا کرتے تھے۔ (یہ سن کر) میں نے حضرت انس (رض) سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ بھی یہ دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا آپ ﷺ ہمیں نماز پڑتے دیکھتے تھے لیکن ہمیں اس کے پڑھنے کا نہ تو حکم ہی دیتے تھے اور نہ ہمیں اس کے پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت انس (رض) کے قول نہ تو ہمیں حکم ہی دیتے تھے اور نہ منع فرماتے تھے، سے رسول اللہ ﷺ کی تقریر ثابت کی یعنی آپ ﷺ اس وقت نماز پڑھنے کو درست سمجھتے تھے کیونکہ اگر آپ ﷺ کے نزدیک اس وقت نماز پڑھنا مکروہ ہوتا تو آپ ﷺ اس سے ضرور منع فرماتے، لیکن خلفائے راشدین کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ حضرات اس وقت نماز پڑھنے کو درست نہیں سمجھتے تھے لہٰذا اس سلسلے میں خلفائے راشدین کی اقتداء کافی ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر فقہاء نے اس وقت نماز پڑھنے سے منع کیا ہے کیونکہ اس سے مغرب کی نماز کی تاخیر لازم آتی ہے۔

【452】

غروب آفتاب کے بعد اور مغرب کی نماز سے پہلے نفل نماز پڑھنے کا مسئلہ

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ میں تھے (اس وقت یہ حال تھا کہ) جب مؤذن مغرب کی اذان دیتا تو (بعض صحابہ یا تابعین) مسجد کے ستونوں کی طرف دوڑتے اور دو رکعت نماز پڑھنے لگتے، یہاں تک کہ کوئی (مسافر آدمی اگر مسجد میں آتا تو اکثر لوگوں کو (تنہا تنہا) دو رکعت نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر یہ گمان کرتا کہ نماز ہوچکی ہے (اور اب لوگ سنتیں پڑھ رہے ہیں) ۔ (صحیح مسلم) تشریح علامہ طیبی شافعی فرماتے ہیں کہ غروب آفتاب کے بعد اور مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نماز کے اثبات کی یہ حدیث ظاہری دلیل ہے۔ اس سلسلہ میں ملا علی قاری حنفی کے قول کا مفہوم یہ ہے کہ یہ حدیث اس وجہ سے ان دونوں رکعتوں کے اثبات کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ اس طریقے کے نادر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ عمومی طور پر مغرب کی نماز کی ادائیگی میں جلدی فرماتے تھے جب کہ ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے سے نہ صرف یہ کہ مغرب کی ادائیگی میں تاخیر لازم آتی ہے بلکہ بعض علماء کے قول کے مطابق تو نماز کا اپنے وقت سے خروج ہی لازم آجاتا ہے۔ لہٰذا اس حدیث کی تاویل یا تو یہ کی جائے گی کہ حضرت انس (رض) یہ ہمیشہ کا طریقہ نقل نہیں کر رہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ کسی ایک دن بعض لوگوں نے یہ طریقہ اختیار کرلیا ہو کہ مغرب کی اذان سنتے ہی مسجد آگئے ہوں اور وہاں نماز مغرب سے پہلے دو رکعت نماز نفل پڑھ لی ہو یا پھر اس کی سب سے بہتر تاویل جیسا کہ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ پہلے یہ نماز پڑھی جاتی تھی مگر پھر بعد میں اسے چھوڑ دیا گیا، لہٰذا اب اس نماز کا پڑھنا مکروہ ہے۔

【453】

غروب آفتاب کے بعد اور مغرب کی نماز سے پہلے نفل نماز پڑھنے کا مسئلہ

اور حضرت مرثد ابن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عقبہ جہنی (رض) (صحابی) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ کیا میں آپ کو ابوتمیم (رح) (تابعی) کا ایک تعجب انگیز فعل نہ بتادوں ؟ (وہ یہ کہ) ابوتمیم مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نماز (نفل) پڑھتے ہیں ؟ حضرت عقبہ نے فرمایا کہ یہ نماز تو ہم (میں سے بعض صحابہ کبھی کبھی) رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی پڑھا کرتے تھے، جب میں نے پوچھا کہ پھر یہ نماز پڑھنے سے آپ کو کس چیز نے روک رکھا ہے ؟ تو فرمایا کہ دنیا کی مشغولیت) مشغولیت زیادہ ہو تو نوافل کو دوسرے وقت پر چھوڑا جاسکتا ہے۔ (نے۔ (صحیح البخاری ) تشریح اس حدیث سے کم سے کم اتنی بات تو ثابت ہو ہی گئی کہ یہ نماز سنت نہیں ہے بلکہ مباح ہے کیونکہ اگر مسنون ہوتی تو حضرت عقبہ (رض) کو جو صحابیت جیسے عظیم مرتبے پر فائز تھے دنیا کی مشغولیت سنت کی ادائیگی یعنی اس نماز کے پڑھنے سے نہ روکتی۔

【454】

نوافل گھروں میں ادا کئے جائیں

اور حضرت کعب ابن عجرہ (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) رسول اللہ ﷺ (انصار کے ایک قبیلے) بنی عبد الاشہل کی مسجد میں تشریف لائے اور وہاں مغرب کی (فرض اور سنت) نماز پڑھی، جب (بعض) لوگ (اپنی فرض) نماز پڑھ چکے تو آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ وہ فرض نماز ادا کرنے کے بعد نفل نماز (یعنی مغرب کی سنتیں بھی وہیں) پڑھ رہے ہیں رسول اللہ ﷺ نے (دیکھ کر) فرمایا کہ یہ (یعنی مغرب کی سنت یا مطلقا نفل نماز) گھر میں پڑھنے کی ہے۔ (ابوداؤد) جامع ترمذی و سنن نسائی کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب لوگ (فرض نماز کے بعد) نفل پڑھنے کھڑے ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم پر لازم ہے کہ یہ نماز (اپنے اپنے) گھروں میں پڑھو۔ تشریح حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ نفل نماز خواہ وہ سنت مؤ کدہ ہو یا غیر مؤ کدہ گھر میں پڑھنا افضل ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ گھر میں نوافل نماز پڑھنے والا ریا و نمائش سے دور اور اخلاص و صدق کے قریب تر ہوتا ہے بلکہ اس سے گھروں میں رحمت الٰہی اور برکت کا نزول ہوتا ہے۔ ویسے جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو تمام علماء کے نزدیک متفقہ طور پر مسجد میں نفل نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے مسجد اور گھر کے پڑھنے میں صرف افضلیت اور غیر افضلیت کا فرق ہے۔ لیکن اتنی بات بھی سمجھ لیجئے کہ گھروں میں نفل نماز پڑھنے کا یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے جو فرض نماز کی ادائیگی کے بعد گھروں کو واپس ہونے کا ارادہ رکھتے ہوں جو لوگ فرض کی ادائیگی کے بعد گھر نہیں جاتے جیسے مسجد کے اندر اعتکاف میں بیٹھنے والے تو وہ مسجد ہی میں نوافل پڑھ لیں۔ بہر حال فرض نماز کے علاوہ نفل نمازیں گھر جا کر پڑھنا افضل ہیں چناچہ رسول اللہ ﷺ کا معمول یہی تھا کہ آپ فرض مسجد میں پڑھ کر حجرہ مبارک میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں فوافل پڑھتے تھے۔ ہاں کسی خاص عذر اور سبب کی بات تو الگ ہے کہ ایسے موقع پر مسجد ہی میں نوافل بھی پڑھ لیتے تھے۔ پھر بھی مغرب کی سنتیں گھر میں پڑھنے کا اہتمام تو آپ ﷺ بطور خاص فرماتے تھے اور اکثر گھر ہی میں پڑھتے تھے یہی وجہ ہے کہ مغرب کی سنتوں کے بارے میں بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی مغرب کی نماز سنت مسجد میں پڑھے تو وہ مسنون ادا نہیں ہوتی بلکہ بعض علماء تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ مغرب کی سنتیں مسجد میں پڑھنے والا گنہگار ہوتا ہے۔ مگر جمہور علماء کی رائے ہے کہ گنہگار نہیں ہوتا کیونکہ انہیں گھر میں ادا کرنے کا حکم امر وجوبی نہیں ہے بلکہ امر استحبابی ہے۔ ہدایہ کے حاشیہ میں جامع صغیر سے منقول ہے کہ کوئی آدمی مغرب کی نماز مسجد میں پڑھے اور اس کو یہ خوف ہو کہ اگر گھر میں گیا تو کسی مشغولیت کی بناء پر سنت وہاں نہیں پڑھ سکوں گا تو اسے چاہیے کہ وہ مغرب کی سنتیں بھی مسجد کے صحن میں پڑھ لے اور اگر گھر پہنچ کر کسی کام میں مشغول ہوجانے کا خوف نہ ہو تو افضل یہی ہے کہ وہ گھر جا کر نماز سنت پڑھے۔

【455】

مغرب کی سنتوں میں طویل قرات

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مغرب ( کی فرض نماز) کے بعد دو رکعت سنتوں میں کبھی اتنی طویل قرأت فرماتے تھے کہ مسجد کے لوگ (اپنی اپنی نمازوں سے فارغ ہو کر) چلے جاتے تھے۔ (ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ مغرب کی سنتیں مسجد میں پڑھتے تھے لہٰذا اس سلسلے میں کئی احتمال ہیں اول تو یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو کوئی ایسا عذر پیش آگیا ہوگا جس کی وجہ سے وہ حجرہ مبارک میں تشریف نہیں لے جاسکے ہوں گے اس لئے سنتیں مسجد ہی میں پڑھ لیں۔ دوم یہ کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت اعتکاف میں ہوں گے اس لئے سنتیں پڑھنے کے لئے حجرہ مبارک میں نہیں گئے۔ سوم احتمال یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سنتیں مسجد میں پڑھی ہی نہ ہوں بلکہ اپنے حجرہ مبارک میں پڑھی ہوں جو مسجد سے بالکل ملا ہوا تھا اور اس کا دروازہ بھی مسجد ہی کی طرف تھا۔ چناچہ حضرت عبداللہ ابن عباس نے سامنے سے آپ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہو اور اسی کو یہاں بیان کیا ہو۔ جہاں تک حدیث کے اس جزء کا تعلق ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے مغرب کی سنتوں میں طویل قرأت کی تو اس کے بارے میں بھی ظاہری احتمال یہ ہے کہ آپ ﷺ نے کسی دن اتنی طویل قرأت کی ہوگی ورنہ تو مغرب کی سنتوں میں آپ ﷺ اکثر چھوٹی سورتیں پڑھا کرتے تھے چناچہ یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مغرب کی سنت میں قل یایھا الکافرون اور قل ھو اللہ کی قرأت کیا کرتے تھے۔

【456】

مغرب کے بعد نفل پڑھنے کی فضیلت

حضرت مکحول (تابعی) اس روایت کو رسول اللہ ﷺ تک پہنچاتے ہیں (یعنی) رسول اللہ ﷺ سے بطریق ارسال روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جو آدمی مغرب کی (فرض یا سنت مؤ کدہ) نماز پڑھ کر (دنیاوی) گفتگو کرنے سے پہلے دو رکعت اور ایک روایت میں ہے کہ چار رکعت نماز پڑھے تو اس کی یہ نماز علیین میں پہنچائی جاتی ہے۔ تشریح دو رکعت سے سنت نماز بھی مراد ہوسکتی ہے اور اس کے علاوہ بھی اس طرح چار رکعت میں دو رکعت سنت اور دو رکعت اس کے علاوہ چاروں کی چاروں ہی سنت نماز کے علاوہ مراد لی جاسکتی ہیں۔ بہر حال یہ دو رکعت یا چار رکعت جو سنت کے علاوہ ہوں صلوۃ الاوابین کہلاتی ہیں اس نماز کی فضیلت اس سے پہلے بھی نقل کی جا چکی ہے یہاں بھی اس کی فضیلت و عظمت بیان کی جا رہی ہے کہ اس نفل نماز کے پڑھنے والے آدمی کی یہ نماز یا اس نماز کی ساتھ اس کے فرض نماز بھی مقام علیین میں پہنچائی جاتی ہے یعنی اس کی نمازیں قبولیت کے انتہائی مرتبے پر پہنچتی ہیں اور اس آدمی کو بےپناہ اجر وثواب سے نوازا جاتا ہے۔ علیین کیا ہے ؟ ساتویں آسمان پر ایک مقام کا نام علیین ہے جہاں مؤمنین کی روحیں پہنچائی جاتی ہیں اور وہاں ان کے عمل لکھے جاتے ہیں۔

【457】

فرض ونوافل کے درمیان فرق کرنا چاہیے

اور حضرت حذیفہ (رض) سے (بھی) اسی طرح (یعنی اوپر والی حدیث) مروی ہے لیکن ان کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ تم لوگ مغرب کے بعد دو رکعت (سنتیں جلدی پڑھ لیا کرو کیونکہ وہ (دونوں رکعتیں) فرضوں کے ساتھ اوپر (علیین میں) پہنچائی جاتی ہیں، یہ دونوں روایتیں رزین نے نقل کی ہیں اور بیہقی نے حذیفہ کے زائد الفاظ کو اسی طرح شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں رکعتیں چونکہ فرض نماز کے ساتھ مقام علیین میں پہچائی جاتی ہیں اس لئے ان کو فرض نماز کے بعد زیادہ تاخیر کر کے نہ پڑھو تاکہ وہ فرشتے جو اعمال کو علیین تک پہنچاتے ہیں منتظر نہ رہیں اور ظاہر یہ ہے کہ ان اوارد و اذکار کو جنہیں فرض کے بعد جلدی پڑھنا ثابت ہوچکا ہے ان دونوں رکعتوں کے بعد پڑھنا اس تعجیل (جو احادیث میں فرض کے فورًا بعد اور اوراد وذکار کے پڑھنے کے سلسلے میں ثابت ہے) کے منافی نہیں ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ ان اوراد و اذکار کو ان دونوں رکعتوں کے بعد پڑھنا بعدیت (یعنی حدیث کے اس حکم کہ فرض نماز کے بعد اور اوراد و ذکار پڑھے جائیں) کے منافی نہیں ہے اس بات کو مزید وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ پیچھے باب الذکر بعد الصلوۃ میں وہ احادیث گزر چکی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فرض نماز کے فورًا بعد اوراد و اذکار (جن کی تفصیل ان احادیث میں مذکور ہے) پڑھے جائیں۔ تو اب اگر ان اور اوراد و اذکار کو فرض نماز کے بعد پڑھنے کے بجائے اس حدیث کی فضیلت کے پیش نظر دو رکعت سنتوں کے بعد پڑھا جائے تو اس احادیث سے ثابت شدہ تعجیل و بعدیت (یعنی اوراد و اذکار کو فرض نماز کے فورا بعد پڑھنے کا حکم) کے خلاف نہیں ہوگا۔ لیکن اس بات کے علاوہ یہاں ایک اور اشکال وارد ہوتا ہے وہ یہ کہ ان دونوں رکعتوں کو گھر میں پڑھنے کی فضیلت بھی احادیث ہی سے ثابت ہے لہٰذا اگر کوئی آدمی ان دونوں رکعتوں کو گھر میں پڑھے اور اس کا گھر بھی مسجد سے دور ہو تو ظاہر ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے میں جلدی نہیں ہوسکتی۔ تو اس صورت میں کیا جائے۔ آیا ان احادیث کے پیش نظر ان دونوں رکعتوں کو گھر ہی میں جا کر پڑھا جائے تاکہ گھر میں پڑھنے کی فضیلت حاصل ہو یا اس حدیث کے پیش نظر مسجد ہی میں پڑھا جائے تاکہ ان کو جلدی پڑھ لینے کی فضیلت حاصل ہوجائے ؟۔ اس سلسلہ میں علماء لکھتے ہیں کہ نفل نماز گھر میں پڑھنے کی فضیلت چونکہ بہت زیادہ ہے اور پھر یہ کہ اس کی تاکید بھی بہت زیادہ کی گئی ہے اس لئے مناسب یہی ہے کہ سنتوں کو گھر ہی میں پڑھا جائے۔ وا اللہ اعلم۔

【458】

فرض ونوافل کے درمیان فرق کرنا چاہیے

اور حضرت عمرو ابن عطا (رح) ( تابعی) کے بارے میں منقول ہے کہ انہیں (یعنی عمرو کو) حضرت نافع ابن جبیر (رح) (تابعی) نے حضرت سائب (رض) (صحابی) کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان سے وہ چیزیں پوچھیں جو حضرت امیر معاویہ (رض) نے انہیں نماز میں کرتے ہوئے دیکھا تھا ( اور اس سے انہیں منع کیا تھا چناچہ حضرت عمرو حضرت سائب کے پاس گئے اور ان سے اس چیز کی تفصیل معلوم کی تو) انہوں نے فرمایا کہ ہاں (ایک مرتبہ) میں نے حضرت امیر معاویہ (رض) کے ہمراہ مقصودہ میں جمعہ کی نماز پڑھی جب امام نے سلام پھیرا تو میں اسی جگہ (جہاں جمعہ کی نماز پڑھی تھی) کھڑا ہوگیا اور فرض و سنت میں کوئی امتیاز کئے بغیر جمعہ کی سنتیں پڑھنے لگا، جب حضرت امیر معاویہ (نماز سے فراغت کے بعد) اپنے مکان پر چلے گئے تو میرے پاس ایک آدمی کو یہ کہلا بھیجا کہ اس وقت تم نے جو کچھ کیا ہے آئندہ ایسا نہ کرنا، (یعنی جس جگہ نماز پڑھو اسی جگہ امتیاز پیدا کئے بغیر نفل نماز نہ پڑھنا چنانچہ) جب تم جمعہ کی نماز پڑھو تو اس (جمعہ کی فرض نماز) کو کسی ( دوسری یعنی نفل یا قضا) نماز سے نہ ملاؤ تاوقتیکہ تم کوئی گفتگو نہ کرلو یا (مسجد سے) باہر نہ نکل جاؤ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہم ایک نماز کو دوسری نماز کے ساتھ نہ ملائیں تاوقتکیہ (درمیان میں) بات چیت نہ کرلیں یا (مسجد سے) باہر نہ چلے جائیں۔ (صحیح مسلم) تشریح پچھلے زمانے میں جب کہ سلاطین و امراء نمازیں پڑھنے کے لئے مسجد میں آتے تھے تو ان کی امتیازی حیثیت وشان کی پیش نظر ان کے لئے مسجد کے اندر ایک مخصوص جگہ بنادی جاتی تھی جسے مقصورہ کہا جاتا تھا، بادشاہ یا خلیفہ مسجد میں آکر اسی جگہ نماز پڑھتا تھا۔ حدیث کے الفاظ اذاصلیت الجمعۃ میں جمعہ کی قید اتفاقی اور مثال کے طور پر ہے کیونکہ جمعہ کے علاوہ بھی تمام نمازوں کا یہی حکم ہے کہ فرض کے ساتھ نفل نماز ملا کر نہ پڑھی جائے چناچہ اس کی تائید حضرت امیر معاویہ (رض) کی روایت کردہ حدیث کر رہی ہے جس میں کسی خاص نماز کے بارے میں نہیں فرمایا گیا بلکہ ہر نماز کے متعلق یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب فرض نماز پڑھ لی جائے تو نوافل پڑھنے کے لئے ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے فرض اور نوافل میں فرق و امتیاز پیدا ہوجائے مثلاً جس جگہ فرض نماز پڑھی گئی ہے اسی جگہ کوئی اور نماز (خواہ سنت مؤ کدہ ہو یا غیر مؤ کدہ) نہ پڑھی جائے بلکہ اس جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ کھڑے ہو کر پڑھی جائے تاکہ دونوں نمازوں کے درمیان امتیاز پیدا ہو سکے اور اس فرض و نفل کے درمیان التباس پیدا نہ ہو۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ او نخرج سے اسی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے اب اونخرج سے مسجد سے حقیقۃً نکلنا بھی مراد ہوسکتا ہے یعنی فرض پڑھ کر مسجد سے نکل کر گھر وغیرہ آجائے اور وہاں نوافل پڑھے جائیں اور حکماً نکلنا بھی مراد ہوسکتا ہے یعنی جس جگہ فرض نماز پڑھی ہے اس جگہ سے ہٹ کر نوافل دوسری جگہ پڑھے جائیں۔ فرض و نوافل کے درمیان نمازوں کے درمیان فرق و امتیاز پیدا کرنے کی ایک اور صورت ہے اور وہ یہ کہ جب فرض نماز پڑھ لی جائے تو اس کے بعد کسی دوسرے آدمی سے کوئی گفتگو کرلی جائے تاکہ اس سے ان دونوں نمازوں کے درمیان فرق و امتیاز پیدا ہوجائے چناچہ حتی نتکلم سے یہی بتایا جا رہا ہے۔ اتنی بات ملحوظ رہے کہ فرض و نوافل کے درمیان جس فرق و امتیاز کے لئے کہا جا رہا ہے وہ دنیاوی بات چیت اور گفتگو ہی سے حاصل ہوتا ہے ذکر اللہ وغیرہ سے وہ فرق حاصل نہیں ہوتا۔

【459】

فرض ونوافل کے درمیان فرق کرنا چاہیے

اور حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) جب مکہ میں جمعہ کی نماز پڑھ چکتے تو (جس جگہ فرض نماز پڑھتے اس سے) آگے بڑھ جاتے اور دو رکعت پڑھتے اس کے بعد پھر آگے بڑھتے اور جب آپ مدینہ میں ہوا کرتے تو (یہ معمول تھا کہ) جمعہ کی (فرض) نماز پڑھ کر اپنے مکان میں تشریف لاتے اور گھر میں دو رکعت نماز پڑھتے مسجد میں (فرض کے علاوہ کوئی نماز) نہیں پڑھتے تھے، جب ان سے اس (گھر میں پڑھنے اور مسجد میں نہ پڑھنے) کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ (اس لئے کہ) رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ (ابوداؤد) اور جامع ترمذی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عطاء نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر کو (رض) کو دیکھا ہے کہ وہ جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھ کر پھر چار رکعت پڑھتے تھے۔ تشریح حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کا فرض پڑھ کر سنت پڑھنے کے لئے آگے بڑھ جانا بمنزلہ مسجد سے نکلنے کے تھا جیسا کہ حضرت امیر معاویہ (رض) کے ارشاد میں مذکور ہوا۔ علماء نے لکھا ہے کہ مکہ اور مدینہ کے معمول کے درمیان فرق غالباً اس لئے تھا کہ مدینہ میں حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کا مکان مسجد کے قریب تھا اور مکہ میں چونکہ مسافر ہوتے تھے اور قیام گاہ حرم سے فاصلے پر ہوتی تھی اس لئے مدینہ میں تو آپ کا معمول یہ ہوتا تھا کہ فرض پڑھ کر اپنے مکان پر تشریف لے جاتے تھے اور وہاں سنتیں پڑھتے تھے مگر مکہ میں مکان کے دور ہونے کی وجہ سے سنتیں بھی مسجد ہی میں پڑھ لیتے تھے مگر جگہ بدل کر دونوں نمازوں کے درمیان فرق کرتے رہتے تھے۔ اور اس طرح آگے بڑھنے کو گھر کے قائم مقام کرلیتے تھے۔ مکہ اور مدینہ کے معمول کے درمیان دوسرا فرق یہ تھا کہ مکہ میں تو آپ جمعہ کے بعد چھ رکعت پڑھا کرتے تھے اور مدینہ میں دوہی رکعت پڑھتے تھے چناچہ مکہ میں اس زیادتی کی وجہ یہ تھی کہ حرم میں چونکہ نماز پڑھنے کا ثواب بہت زیادہ ہوتا ہے اس لئے وہاں زیادہ نماز پڑھتے تھے۔ چونکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک جمعہ کے بعد سنتیں چار رکعت ہیں اس لئے ملا علی قاری نے حدیث کے الفاظ کہ حضرت عبداللہ ابن عمر جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھتے پھر اس کے بعد (آگے بڑھ کر) چار رکعت پڑھتے تھے کا مطلب یہ لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) پہلے جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے اس کے بعد انہوں نے چار رکعتیں پڑھنی شروع کردیں یعنی ان دو رکعتوں میں جو ان کے نزدیک احادیث سے ثابت تھیں اور جنہیں آپ پہلے پڑھا کرتے تھے دو رکعتوں کا اور اضافہ کردیا اس طرح بعد میں چار رکعت پڑھنے لگے۔ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک جمعہ کے بعد سنتیں چھ رکعتیں ہی ہیں یعنی وہ فرماتے ہیں کہ جمعہ کی فرض نماز پڑھ کر پہلے چار رکعت سنت پڑھی جائیں پھر اس کے بعد دو رکعت سنت اور پڑھی جائیں۔ فقہ حنفیہ میں سنتوں کی تفصیلی تعداد چونکہ یہ بات ختم ہو رہی ہے اس لئے مناسب ہے کہ اس موقع پر تمام نمازوں کی سنتوں کی تفصیلی تعداد ذکر کردی جائے تاکہ وہ ذہن میں محفوظ رہیں۔ فجر کے وقت فرض سے دو رکعت سنت موکدہ ہیں ان کی تاکید تمام مؤ کدہ سنتوں سے زیادہ ہے یہاں تک کہ بعض روایات میں امام ابوحنیفہ سے ان کا وجوب منقول ہے اور بعض علماء نے لکھا ہے کہ ان کے انکار سے کفر کا خوف رہتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ فجر کی سنتیں نہ چھوڑو چاہے تمہیں گھر کچل ڈالیں یعنی جان جانے کا خوف ہو تب بھی نہ چھوڑو، اس سے مقصود صرف تاکید اور ترغیب ہے ورنہ جان کے خوف سے تو فرائض کو چھوڑنا بھی جائز ہے۔ ظہر کے وقت فرض سے پہلے چار رکعت ایک سلام سے اور فرض کے بعد دو رکعت سنت موکدہ ہیں۔ جمعہ کے وقت فرض سے پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے سنت مؤ کدہ ہیں اور فرض کے بعد بھی ایک ہی سلام سے چار رکعتیں سنت ہیں۔ عصر کے وقت کوئی سنت موکدہ نہیں، ہاں فرض سے پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے مستحب ہیں۔ مغرب کے وقت فرض کے بعد دو رکعت سنت مؤ کدہ ہیں۔ عشاء کے وقت فرض کے بعد دو رکعت سنت مؤ کدہ ہیں اور فرض سے پہلے کی چار رکعتیں ایک سلام سے مستحب ہیں۔ وتر کے بعد بھی دو رکعتیں رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں لہٰذا وتر کے بعد کی دو رکعت مستحب ہیں۔

【460】

رات کی نماز کا بیان

رات کی نماز یعنی تہجد وغیرہ کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے جو روایات ان کے پڑھنے کے طریقے وغیرہ کے بارے میں منقول ہیں اس باب کے تحت نقل کی جائیں گی۔ رات کی نماز پڑھنے کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے مختلف روایتیں منقول ہیں ان میں سے جس روایت کے مطابق بھی نماز پڑھی جائے گی اتباع نبوی کی فضیلت اور سنت کی ادائیگی کی سعادت حاصل ہوگی ہاں اگر تمام روایات کی اتباع کے پیش نظر یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ کبھی تو کسی روایت کے مطابق پڑھی جائے اور کبھی کسی روایت کے مطابق، تو یہ طریقہ نہ صرف یہ کہ انتہائی مناسب اور بہتر بلکہ سنت کے عین مطابق ہوگا۔ رات میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی رکعتوں کی تعداد کے بارے میں مختلف روایتیں منقول ہیں، چناچہ تیرہ گیارہ نو اور سات رکعتیں منقول ہیں، بعض علماء نے پانچ رکعتیں بھی روایت کی ہیں، تاہم تیرہ سے زیادہ ثابت نہیں ہے، پھر یہ کہ بعض علماء نے یہ تعداد فجر کی سنت کے ساتھ ذکر کی ہے اور بعض نے فجر کی سنتوں کے علاوہ اور صحیح قول یہی ہے، اسی طرح وتر کی تعداد کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں، بعض روایتوں میں تو وتر ایک رکعت کے ساتھ منقول ہے اور بعض میں تین رکعتوں کے ساتھ، نیز بعض روایات میں وتر کی رکعت کو بھی نماز تہجد کی رکعتوں میں شامل کر کے انہیں شمار کیا گیا ہے اور بعض روایات میں وتر کی رکعتوں کو ان سے الگ شمار کیا گیا ہے اسی طرح بعض روایات میں وتر کا اطلاق ایک رکعت پر کیا گیا ہے۔ اور بعض میں تین پانچ اور ساتھ تک پر کیا گیا ہے بلکہ بعض روایات میں تو رات کی تمام نماز کو وتر کہا گیا ہے، انہیں تمام روایات کو آپ تفصیل کے ساتھ اس باب میں پڑھیں گے۔

【461】

عشاء و فجر کے درمیان گیارہ رکعت

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نماز عشاء سے فارغ ہو کر نماز فجر تک (اکثر) گیارہ رکعت نماز پڑھا کرتے تھے اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے اور (پھر آخر میں) ایک رکعت کے ساتھ وتر کرلیا کرتے تھے اور اس رکعت میں اتنا طویل سجدہ کرتے جتنی دیر میں کوئی آدمی اپنا سر اٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے پھر جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہوجاتا اور فجر طلوع ہوجاتی یعنی صبح کی روشنی پھیلنے لگتی تو آپ ﷺ کھڑے ہوتے اور دو رکعتیں ہلکی ( یعنی فجر کی سنتیں) پڑھتے اور (اس کے بعد تھوڑی دیر کے لئے) اپنی داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے تھے یہاں تک کہ مؤذن تکبیر کے لئے (یعنی تکبیر کہنے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے) آپ ﷺ کے پاس آتا تو آپ ﷺ نماز کے لئے (مسجد) تشریف لے جاتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کے الفاظ ویوتر بواحدۃ کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ﷺ وتر کے لئے ایک رکعت علیحدہ پڑھتے تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ گیارہ رکعتیں اس طرح پڑھا کرتے تھے کہ آخری دونوں رکعتوں یعنی نویں اور دسویں کے ساتھ ایک رکعت بڑھا کر تینوں کو وتر بنادیا کرتے تھے۔ علامہ ابن حجر شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں، اوّل یہ کہ وتر کی کم سے کم ایک رکعت ہے یعنی وتر کی ایک رکعت علیحدہ سے پڑھی جاسکتی ہے، دوم یہ کہ تہجد کی نماز میں ہر دو رکعت پر سلام پھیر دینا چاہیے، چناچہ حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا یہی مسلک ہے۔ فیسجد السجدۃ الخ سے بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر رکعت کا سجدہ بقدر مذکورہ طویل کرتے تھے لیکن اس کا مفہوم یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ صرف وتر کے سجدوں میں سے ایک سجدہ یا وتر کے سب سجدے بقدر مذکور طویل کرتے تھے۔ بعض مقامات پر کچھ لوگ وتر کے بعد کیفیت معروفہ کے ساتھ دو سجدے کرتے ہیں اور بعض ضعیف فقہی روایات میں ان کی فضیلت بھی مذکور ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ احادیث میں ان دونوں سجدوں کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ فقہ کی وہ روایت جو معتمد و مختار ہیں ان میں ان کا کوئی ذکر ہے۔ نیز حرمین شر یفین بلکہ پورے عرب میں کہیں بھی یہ سجدے نہیں کئے جاتے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی منقول ہے جس میں ان سجدوں کو اختراع محض کا درجہ دیا گیا ہے پھر یہ کہ چاروں ائمہ میں سے کوئی بھی امام اس کے نہ مسنون ہونے کا قائل ہے اور نہ ہی مستحب ہونے کا بلکہ بلادعرب کے اکثر حنیفہ تو اسے جانتے بھی نہیں اور بعض علماء نے اسے مکروہ قرار دیا ہے، بہر حال اگر کسی جگہ یہ طریقہ رائج ہے تو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ رکعتیں خفیفتین یعنی فجر کی سنتیں ہلکی پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ سنت کی دونوں رکعتوں میں قل یا ایھا الکا فرون اور قل ھو اللہ پڑھا کرتے تھے اور یہی مستحب ہے مگر لازم نہیں ہے۔ فجر کی سنتیں پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے آپ ﷺ اس لئے لیٹ جاتے تھے تاکہ تمام رات عبادت الٰہی اور نماز میں مشغول رہنے کی وجہ سے جو تکان وغیرہ پیدا ہوجاتا تھا وہ تھوڑی دیر آرام کرلینے سے ختم ہوجائے اور فرض پوری چستی اور بشاشت کے ساتھ ادا ہوں، لہٰذا مختار یہ ہے کہ جو آدمی رات کو عبادت الہٰی اور ذکر اللہ وغیرہ میں مشغول رہے اس کے لئے فجر کی سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیر کے لئے بغرض استراحت لیٹ جانا مستحب ہے۔

【462】

فجر کی فرض نماز اور سنتوں کے درمیان بات چیت کرنا

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگتی ہوتی تو مجھ سے بات چیت میں مشغول ہوجاتے اور اگر میں سوتی ہوئی ہوتی تو ( آپ ﷺ بھی لیٹ جاتے۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت ابن مالک (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ فجر کی فرض نماز اور سنتوں کے درمیان فرق کرنا جائز ہے نیز یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس وقت (یعنی فجر کی فرض نماز اور سنتوں کے درمیان) اپنے اہل خانہ سے بات چیت میں مشغول ہونا مستحب ہے، گویا حضرت ابن مالک کے ارشاد کے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ یہ فرماتے ہیں کہ فرض اور سنت نمازوں کے درمیان گفتگو کرنا نماز کو یا اس کے ثواب کو ختم کردیتا ہے یہ قول غلط ہے لیکن پھر بھی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا محور دنیا نہیں ہوتی تھی بلکہ آپ ﷺ کی گفتگو دینی اور اخروی موضوع سے متعلق ہوتی تھی، اس لئے اتنا تو ماننا ہی پڑھے گا کہ فرض و سنت نمازوں کے درمیان دنیاوی گفتگو میں مشغول ہونا خلاف اولی ہے۔ کیونکہ سنت نمازوں کی مشروعیت کی حکمت ہی یہ ہے کہ فرض نماز پڑھنے والا آدمی پہلے سے کچھ نمازیں پڑھ کر حالت کمال کے لئے تیار ہو اور اس سے غفلت و سستی دور ہوجائے تاکہ فرض نماز میں پورے خشوع و خضوع کمال حضور اور عبادت الٰہی کے حقیقی و پر لطف جذبے کے ساتھ شامل ہو سکے اور اس کا دل و دماغ دنیا سے پوری طرح یکسو ہو کر توجہ الی اللہ میں پوری طرح مستغرق ہوجائے، برخلاف اس کے کہ سنت نماز پڑھ کر فرض شروع کرنے سے پہلے دنیاوی گفتگو میں مشغول ہونا اس حکمت کے خلاف ہے کیونکہ اس طرح دل و دماغ شوق و حضوری سے الگ ہو کر دنیا کی باتوں کے چکر میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) نے لکھا ہے کہ صحابہ کرام وغیرہ سے بعض علماء نے طلوع فجر کے بعد نماز فجر ادا کرنے سے پہلے کسی دنیاوی گفتگو میں مشغول ہونے کو مکروہ کہا ہے ہاں ذکر اللہ یا ایسا دنیاوی کلام جس کی حقیقت میں اس وقت ضرورت ہو اس سے مستثنی ہے۔ چناچہ احمد، اسحاق کا یہی قول ہے۔ لہٰذا اس حدیث کے بارے میں کہا جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی سنت نماز پڑھ کر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے جو کلام کرتے تھے یا تو وہ دینی اور اخروی ہوتا تھا یا پھر کسی حاجت اور ضرورت کی بنا پر آپ ﷺ ان سے گفتگو میں مشغول ہوتے تھے، چناچہ اس سلسلہ میں حضرت عائشہ کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ان کانت لہ الی حاجۃ کلمنی (اگر آپ ﷺ کو کوئی ضرورت مجھ سے متعلق ہوتی تو آپ ﷺ مجھ سے گفتگو کرتے) بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

【463】

فجر کی سنتوں کے بعد استراحت!

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ فجر کی دو رکعت سنتیں پڑھ کر اپنی دائیں کروٹ پر (یعنی رو بقبلہ) لیٹ جاتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

【464】

فجر کی سنتوں کے بعد استراحت!

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں نماز پڑھتے تھے ان میں وتر (کی تین رکعتیں) اور فجر کی سنت کی دو رکعتیں بھی شامل ہوتیں۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو جو تیرہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے ان میں وتر کی تین رکعتیں اور فجر کی سنت کی دو رکعتیں بھی شامل ہوتی تھیں، گو حدیث کے الفاظ میں وتر کے ساتھ تین رکعت کا ذکر نہیں ہے لیکن تمام علماء کے نزدیک چونکہ وتر کی تین رکعتیں ہی پڑھنا افضل ہے اس لئے تین رکعت کی قید لگانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ پھر یہ کہ دوسری روایات میں تین رکعت کی صراحت بھی ہے۔ چناچہ ترمذی نے شمائل میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی ایک روایت نقل کی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ثم یصلی ثلثا (پھر آپ تین رکعتیں پڑھتے تھے) اسی طرح صحیح مسلم کی روایت ثُمَّ اَوْتَرَ بِثَلاَثٍ (یعنی پھر آپ ﷺ تین رکعت و تر پڑھتے تھے) کے الفاظ منقول ہیں۔ اس حدیث میں رکعتوں کی تعداد تیرہ اس طرح نقل کی گئی ہے کہ فجر کی سنت کی دو رکعتوں کو بھی ان میں شمار کیا گیا ہے ورنہ تو رسول اللہ ﷺ رات کو مع وتر کے کل گیارہ رکعتیں نماز پڑھا کرتے تھے جیسا کہ دوسری روایتوں میں مذکور ہے چونکہ تہجد کی نماز پڑھنے اور فجر کی سنتیں پڑھنے کا درمیانی وقفہ زیادہ نہیں ہوتا تھا بلکہ تقریباً دونوں نمازیں ساتھ ہی پڑھتے تھے اس لئے ان دونوں رکعتوں کو بھی ان میں شمار کرلیا گیا ہے۔

【465】

فجر کی سنتوں کے بعد استراحت!

اور حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے سرور کائنات کی رات کی نماز کے بارے میں دریافت کیا (کہ کتنی رکعتیں پڑھتے تھے ؟ ) تو انہوں نے فرمایا کہ کبھی تو آپ ﷺ سات رکعتیں پڑھتے تھے کبھی نو رکعتیں اور کبھی گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے علاوہ فجر کی سنتوں کے۔ (صحیح البخاری ) تشریح ظاہر یہ ہے کہ علاوہ فجر کی سنتوں کے کا تعلق احدی عشرۃ رکعۃ (گیارۃ رکعتوں سے) ہے۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جن روایات میں تیرہ رکعتیں منقول ہیں ان میں دو رکعت فجر کی سنت کی بھی شامل ہیں۔ ملا علی قاری (رح) فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں جو یہ منقول ہے کہ آپ ﷺ نے رات میں پندرہ رکعتیں بھی پڑھتے ہیں تو اس کا محمول یہ ہے کہ پندرہ میں فجر کی سنت کی دو رکعتیں بھی شمار کی گئی ہیں، یعنی تیرہ رکعت تہجد کی اور دو رکعت فجر کی سنت کی لیکن اس احتمال سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ بارہ رکعتیں تو آپ ﷺ نے تہجد کی پڑھی ہوں اور تین رکعتیں وتر کی۔ چناچہ اس کی دلیل ایک روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ جس روز رسول اللہ ﷺ پر نیند کا غلبہ ہوجاتا تھا اور آپ ﷺ تہجد پڑھے بغیر سو جاتے تھے تو دن میں بارہ رکعتیں پڑھ لیا کرتے تھے۔

【466】

تہجد کی ابتدائی دو رکعتوں کی کیفیت کیا ہوتی تھی؟

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ جب رات کو (تہجد) کی نماز پڑھنے کھڑے ہوتے تو اپنی نماز کی ابتداء دو ہلکی رکعتوں سے فرماتے تھے۔ تشریح کتاب ازہار میں لکھا ہے کہ دو ہلکی رکعتیں وضو کی دو رکعتیں ہیں کہ ان میں تخفیف یعنی ان کو مختصر پڑھنا ہی مستحب ہے۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ دونوں رکعتیں تہجد کی ہوتی تھیں جو تحیۃ الوضو کے قائم مقام تھیں اور آپ ﷺ اس وقت وضو کے لئے علیحدہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔

【467】

تہجد کی ابتدائی دو رکعتوں کی کیفیت کیا ہوتی تھی؟

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی رات کو نماز پڑھنے کے لئے نیند سے اٹھے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی نماز کی ابتداء دو ہلکی رکعتوں سے کرے۔ (صحیح مسلم)

【468】

تہجد کی ابتدائی دو رکعتوں کی کیفیت کیا ہوتی تھی؟

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں نے اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ (رض) کے ہاں ایک رات گزاری، رسول اللہ ﷺ (بھی اس رات کو) انہیں کے ہاں تھے (یعنی اس رات کو حضرت میمونہ (رض) کے ہاں کی باری تھی) کچھ رات گئے تک آپ ﷺ اپنی زوجہ (حضرت میمونہ) سے باتیں کرتے رہے پھر سو گئے، جب تہائی یا اس سے بھی کچھ رات باقی رہ گئی تو آپ ﷺ اٹھ بیٹھے اور آسمان کی طرف دیکھ کر یہ آیت پڑھی آیت (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ١٩٠) 3 ۔ آل عمران 190) (آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات و دن کے اختلاف (یعنی کبھی) اندھیرا، کبھی اجالا، کبھی گرمی، کبھی جاڑا، کبھی درازی، کبھی کمی) میں بیشک عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں) آپ ﷺ نے پوری سورت پڑھی، پھر اٹھ کر مشک کے پاس گئے اور اس کا بند کھول کر پیالہ میں پانی ڈالا، پھر اچھا درمیانہ وضو کیا (یعنی نہ تو پانی اتنا زیادہ بہایا کہ حد اسراف کو پہنچ جاتا اور نہ اتنا کم ڈالا کہ اعضاء بھی تر نہ ہوتے بلکہ درمیانے درجے کا وضو کیا۔ چناچہ حدیث کے راوی فرماتے ہیں کہ درمیانے وضو کا مطلب یہ ہے کہ) بہت زیادہ پانی نہیں بہایا بلکہ (جن اعضاء کا دھونا فرض ہے) پانی ان اعضاء تک پہنچایا، پھر آپ ﷺ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے یہ (دیکھ کر) میں بھی اٹھا اور (جس طرح رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا تھا) میں بھی اسی طرح وضو کر کے رسول اللہ ﷺ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا، رسول اللہ ﷺ نے میرا کان پکڑ کر اپنی بائیں طرف سے مجھے گھما کر اپنی دائیں طرف کھڑا کردیا جب آپ ﷺ کی تیرہ رکعت نماز پوری ہوگئی تو لیٹ گئے، چونکہ آپ ﷺ سوتے وقت خر اٹے لیتے تھے اس لئے سو کر خر اٹے لینے لگے، اتنے میں حضرت بلال (رض) نے آکر نماز کا وقت شروع ہوجانے اور جماعت کے تیار ہونے کی اطلاع کی، چناچہ آپ ﷺ نے وضو کئے بغیر (سنت) نماز پڑھی اور آپ ﷺ (فرض و سنت کے درمیان) دعا میں یہ پڑھتے تھے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُورًا وَّفِیْ بَصَرِیْ نُورًا وَّفِیْ سَمْعِی نُوْرًا وَّعَنْ یَّمِیْنِیْ نُوْرًا وَّعَنْ یَّسَارِیْ نُوْرًا وَّفَوْقِیْ نُوْرًا وَّ تَحْتِیْ نُوْرًا وَّ اَمَامِیْ نُوْرًا وَّخَلْفِیْ نُوْرًا وَّاجْعَلْ لِیْ نُوْرًا ( اے اللہ میرے دل میں میری آنکھوں میں، میرے کانوں میں، میرے دائیں، میرے بائیں، میرے اوپر، میرے نیچے، میرے آگے اے اللہ ! میرے پیچھے، نور عطا کر اور میرے لئے نور ہی نور پیدا کر دے) اور بعض راویوں نے یہ الفاظ بھی نقل کئے وَفِیْ لِسَانِیْ نُوْرًا (یعنی میری زبان میں نور پیدا کر دے) بعض راویوں نے یہ الفاظ ذکر کئے ہیں۔ عَصَبِیْ وَلَحْمِیْ وَدَمِیْ وَشَعْرِیْ وَبَشَرِیْ یعنی میرے اعصاب میں، میرے گوشت میں، میرے خون میں، میرے بالوں میں اور میری جلد میں نور پیدا کر دے (بخاری و مسلم) اور بخاری و صحیح مسلم ہی کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں وَاجْعَلْ فِیْ نَفْسِیْ نُوْرًا وَّ اَعْظِمُ لِیْ نُوْرًا یعنی اے اللہ ! میری جان میں نور پیدا کر دے اور میرے لئے نور میں بڑائی دے۔ مسلم کی ایک دوسری روایت میں یہ ہے اَللّٰھُمَّ اَعْطِنِیْ نُوْرًا یعنی اے اللہ ! مجھے نور عطا فرما۔ تشریح جب حضرت بلال (رض) نے آکر رسول اللہ ﷺ کو نماز کا وقت ہوجانے کی اطلاع دی اور آپ ﷺ نیند سے بیدار ہوئے۔ تو بغیر وضو کئے ہی فجر کی سنتیں پڑھ لیں اس موقع پر یہ اشکال پیدا نہیں کیا جاسکتا کہ آپ نے وضو کئے بغیر نماز کیسے پڑھی کیونکہ علماء لکھتے ہیں کہ سو جانے کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے وضو اس لئے نہیں کیا کہ فقط سو جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا بلکہ نیند سے بیداری کے بعد نماز پڑھنے کے لئے وضو اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ نیند میں وضو ٹوٹ جانے کا احتمال رہتا ہے۔ مگر رسول اللہ ﷺ کا دل چونکہ ہمیشہ بیدار رہتا تھا یہاں تک کہ نیند کی حالت میں بھی آپ ﷺ کے دل پر کوئی غفلت طاری نہیں ہوتی تھی اس لئے آپ ﷺ کے سونے میں یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ آپ ﷺ کا وضو ٹوٹ گیا ہو اور آپ ﷺ کو معلوم نہ ہوا ہو۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد ایسی بات چیت جس کا موضوع دین و آخرت اور وعظ و نصیحت ہو یا اپنے اہل خانہ سے بطریق اختلاط ہو تو وہ مکروہ نہیں ہے۔ یہ حدیث حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی گزشہ حدیث سے مخالف نظر آتی ہے کیونکہ یہاں حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کے قول سے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رات کو جو تیرہ رکعتیں پڑھیں ان میں وتر کی تین رکعت تو شامل تھیں لیکن فجر کی سنت کی دو رکعتیں ان میں شامل نہیں تھیں۔ جب کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تیرہ رکعتوں میں وتر کے ساتھ ساتھ فجر کی دو رکعتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ لہٰذا ان دونوں حدیثوں میں اس تاویل سے مطابقت پیدا کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کبھی تو تیرہ رکعت اس طرح پڑھتے تھے کہ ان میں فجر کی دو سنتیں بھی شامل ہوتی تھیں جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے ذکر کیا ہے اور کبھی اس طرح پڑھتے تھے کہ ان میں فجر کی دو سنتیں شامل نہیں ہوتی تھیں جیسے کہ یہاں حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کے الفاظ سے معلوم ہوا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کے الفاظ سے یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نیند کی حالت میں خر اٹے لیتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ خر اٹے لینا سانس کی نالیوں کی کشادگی اور قوائے جسمانی کی صفائی اور صحت کی علامت ہے اور اس سے کسے انکار ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نہ صرف یہ کہ روحانی اور باطنی طور پر کامل و اکمل تھے بلکہ جسمانی طور پر انتہائی صحت مند، قوی اور مضبوط و صاف اعضاء جسم کے مالک تھے۔ حدیث میں مذکور دعاء دعائے طویل کہلاتی ہے یہ دعا اکثر مشائخ کے معمول میں داخل ہے اسے تہجد کے بعد بھی پڑھنا ثابت ہے۔ اس دعا کی بڑی عظمت و فضیلت اور برکت ہے چناچہ حضرت شیخ امام شہاب الدین سہروردی نے عوراف میں لکھا ہے کہ جس آدمی کو بھی میں نے اس دعا پر مواظبت و مداومت کرتے دیکھا ہے اس کے پاس ایک برکت محسوس ہوئی ہے۔

【469】

وتر کی تین رکعتیں ہیں

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ (ایک رات) سرور کائنات ﷺ کے ہاں سوئے چناچہ ( انہوں نے بیان کیا کہ) آپ ﷺ رات کو بیدار ہوئے، مسواک کی اور وضو کیا پھر یہ آیت پڑھی (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ١٩٠) 3 ۔ ال عمرن 190 تا 200) آخر سورت تک، اس کے بعد آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی جس میں قیام، رکوع اور سجود کو طویل کیا پھر (دو رکعت نماز سے) فارغ ہو کر سو گئے اور خر اٹے لینے لگے، تین مرتبہ آپ ﷺ نے اسی طرح کیا (یعنی دو رکعت مذکورہ طریقہ سے پڑھ کر لیٹ جاتے پھر اٹھ کردو رکعت پڑھتے اور پھر لیٹ جاتے) اس طرح آپ ﷺ تین مرتبہ میں چھ رکعتیں پڑھیں اور تینوں مرتبہ میں سے ہر بار آپ ﷺ مسواک بھی کرتے وضو بھی کرتے اور آیتیں بھی پڑھتے تھے۔ پھر آخر میں آپ ﷺ نے وتر کی تین رکعتیں پڑھیں۔ (صحیح مسلم) تشریح یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ وتر کی تین ہی رکعتیں ہیں، چناچہ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ گو حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک وتر کی ایک ہی رکعت ہوسکتی ہے لیکن اس حد تک تو وہ بھی حنفیہ ہی کے ساتھ ہیں کہ ان کے نزدیک بھی وتر کے لئے صرف ایک رکعت پڑھنا مکروہ ہے۔

【470】

رسول اللہ ﷺ کی نماز تہجد کی کیفیت

اور حضرت زید بن خالد جہنی (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ میں نے ارادہ کیا کہ) میں آج کی رات سرور کائنات ﷺ کی نماز کو دیکھتا رہوں گا چناچہ ( میں نے دیکھا کہ) پہلے آپ ﷺ نے دو رکعتیں ہلکی پڑھیں پھر دو رکعتیں طویل سی پڑھیں، پھر آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھی جو ان دونوں رکعتوں سے کم (طویل) تھیں جو آپ ﷺ نے ان سے پہلے پڑھی تھیں، پھر آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں جو پہلے پڑھی گئی دونوں رکعتوں سے کم (طویل) تھیں، پھر آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں جو پہلے پڑھی جانے والی دونوں رکعتوں سے کم (طویل) تھیں۔ پھر آپ ﷺ نے وتر پڑھے اور یہ سب تیرہ رکعتیں ہوگئیں (صحیح مسلم) اور زید کا یہ قول کہ پھر دو رکعتیں پڑھیں جو پہلے پڑھی گئی دونوں رکعتوں سے کم تھیں، صحیح مسلم میں حمیدی کی کتاب میں ہے کہ جس میں انہوں نے فقط مسلم کی ہی روایتیں نقل کی ہیں اور مؤطا امام مالک، سنن ابی داؤد، نیز جامع الاصول سب میں چار مرتبہ منقول ہے۔ تشریح اس حدیث سے صریحی طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ نے وتر کی تین رکعتیں پڑھی تھیں یا ایک ہی رکعت پڑھی تھی اور کیونکہ اگر دو رکعتیں ہلکی اس نماز میں شمار نہ کی جائیں تو وتر کی تین رکعتیں ثابت ہوجائیں گی اور اگر ان دونوں رکعتوں کو بھی اس نماز میں شامل کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وتر کی ایک ہی رکعت پڑھی گئی، تاہم صحیح اور ظاہر یہی ہے کہ دونوں ہلکی رکعتیں اس نماز میں شامل نہیں تھیں اس طرح آپ ﷺ نے وتر کی تین رکعتیں پڑھیں۔ حمیدی کی کتاب جمع بین الصحیحین میں تین قسم کی احادیث منقول ہیں۔ (١) متفق علیہ یعنی بخاری اور مسلم دونوں کی روایتیں (٢) افراد صحیح بخاری یعنی وہ روایتیں جنہیں صرف صحیح البخاری نے نقل کیا ہے۔ (٣) افراد مسلم۔ یعنی وہ روایتیں جنہیں صرف مسلم نے نقل کیا ہے۔ لہٰذا روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ وَ ھُمَادُوْنَ قَبْلَھُمَا متن صحیح مسلم میں چار مرتبہ منقول ہے اسی طرح کتاب حمیدی کہ جس میں صرف مسلم کی روایات منقول ہیں۔ موطا، امام مالک، سنن ابی داؤد اور جامع الاصول میں بھی چار ہی مرتبہ منقول ہے۔ مؤلف مشکوٰۃ نے اس چیز کو یہاں اتنی شد و مد اور مبالغے کے ساتھ اس لئے بیان کیا ہے کہ صاحب مصابیح کا رد ہوجائے کہ انہوں نے اس عبارت کو تین مرتبہ نقل کیا ہے جس کی بنا پر رکعتوں کی تعداد گیارہ رہ جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ آخر عمر میں نفل نماز بیٹھ کر پڑھتے تھے

【471】

رسول اللہ ﷺ کی نماز تہجد کی کیفیت

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ جب عمر کے آخری حصے کو پہنچے اور (بڑھاپے کی وجہ سے) بدن بھاری ہوگیا تو آپ اکثر نفل نمازیں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) نماز تہجد میں آنحضرت ﷺ کون کون سی سورتیں پڑھتے تھے ؟

【472】

رسول اللہ ﷺ کی نماز تہجد کی کیفیت

حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جو سورتیں آپس میں ہم مثل ہیں اور سرور کائنات ﷺ جنہیں جمع کرتے تھے انہیں جانتا ہوں۔ چناچہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے اپنی ترتیب کے مطابق بیس سورتیں جو مفصل کے اول میں ہیں گن کر بتائیں۔ رسول اللہ ﷺ ان سورتوں کو اس طرح جمع کرتے تھے کہ ایک ایک رکعت میں دو دو سورتیں پڑھا کرتے تھے اور (ان بیس سورتوں میں) آخر کی دو سورتیں حم الدخان اور عم یتساء لون ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) فائدہ آپس میں ہم مثل سورتوں سے مراد وہ سورتیں ہیں جو طوالت و اختصار میں آپس میں برابر ہیں۔ مفصل کا مطلب باب القرأت میں بیان کیا جا چکا ہے۔ کہ قول مشہور کے مطابق سورت حجرات سے آخر تک کی سورتوں کو مفصل کہتے ہیں وہ سورتیں جو آپس میں ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود مسعود (رض) کی ترتیب کے مطابق کہ جنہوں نے کلام اللہ کو جمع کیا تھا، یکجا کیا تھا، ان بیس سورتوں کی تفصیل ابوداؤد میں اس طرح مذکور ہے رسول اللہ ﷺ ایک ایک رکعت میں دو ، دو سورتیں (اس طرح) پڑھا کرتے تھے کہ سورت رحمن اور سورت نجم ایک رکعت میں اقتربت الساعۃ اور الحافۃ ایک رکعت میں، طور اور ذاریات ایک رکعت میں، اذا وقعت الواقعۃ اور سورت نون ایک رکعت میں سال سائل اور والناز عات ایک رکعت میں، ویل اللمطففین اور عبس ایک رکعت میں، مدثر اور مزمل ایک رکعت میں، ھل اتی اور لا اقسم بیوم القیامۃ ایک رکعت میں، عم یتساء لون اور مرسلات ایک رکعت میں دخان اور اذالشمس کورت ایک رکعت میں ابوداؤد نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ یہ ترتیب حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے جمع کرنے کے مطابق ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ طریقے کے مطابق رسول اللہ ﷺ سورت دخان اور عم یتساء لون ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں سورتیں نہ صرف یہ کہ ہم مثل اور آپس میں برابر نہیں ہیں بلکہ اس طرح حدیث کے اس آخری جز اور حدیث کے ظاہری معنی و مفہوم میں مطابقت نہیں رہے گی، چناچہ اس جزء کی توضیح یہ کی جائے گی کہ حدیث کے ان الفاظ کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ ان بیس سورتوں میں سے آخری سورتیں حم الدخان اور اس کے ہم مثل یعنی اذا الشمس کورت اور عم یتساء لون اور اس کے ہم مثل یعنی والمرسلات ہیں۔ اس کا مطلب اب یہ ہوجائے گا کہ آپ ﷺ ایک رکعت میں حم الد خان اور اذالشمس کورت پڑھتے تھے جو ہم مثل اور برابر کی سورتیں ہیں اسی طرح ایک رکعت میں عم یتساء لون اور والمرسلات پڑھتے تھے جو ہم مثل اور برابر کی سورتیں ہیں۔ قرآن پڑھنے کی ترتیب علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم اسی ترتیب کے مطابق پڑھا جائے جو اب مروج ہے کسی دوسری ترتیب کے مطابق نہ پڑھا جائے، ہاں بچوں کو ضرورتا یعنی تعلیم وغیرہ کی وجہ سے آخر کی طرف سے بھی پڑھا دینا جائز ہے اور اگر نماز میں خلاف ترتیب قرآن پڑھا جائے گا تو یہ خلاف اولی ہوگا بلکہ بعض علماء کے نزدیک تو یہ مکروہ ہے چناچہ حضرت امام احمد کا یہی مذہب ہے۔ پہلی رکعت میں سورت وا لناس پڑھ لینے کا مسئلہ اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی آدمی پہلی رکعت میں سورت والناس پڑھ لے تو دوسری میں کیا پڑھے ؟ چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اس شکل میں دوسری رکعت میں بھی سورت والناس ہی پڑھنی چاہیے، لیکن حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر پہلی رکعت میں سورت الناس پڑھی گئی ہے تو دوسری رکعت میں سورت بقرہ شروع کردی جائے اس طرح اس طرح الم سے لے کر مفلحون تک کی آیتیں پڑھی جائیں، ایک روایت میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ سے بھی یہی منقول ہے بلکہ یہی قول زیادہ اولیٰ ہے۔

【473】

رسول اللہ ﷺ کی نماز تہجد کی کیفیت

حضرت حذیفہ (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے سرور کائنات ﷺ کو رات کو (تہجد کی) نماز پڑھتے دیکھا ہے چناچہ (ان کا بیان ہے کہ) رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر یہ کہا ذوالملکوت والجبروت والکبریاء والعظمۃ ( اللہ تعالیٰ ، ملک، غلبہ، بڑائی اور بزرگی کا مالک ہے) اس کے بعد آپ ﷺ نے سبحانک اللہم پڑھ کر سورت بقرہ کی قرأت فرمائی اور اس کے بعد رکوع کیا آپ ﷺ کا رکوع (تقریباً ) قیام کے برابر تھا رکوع میں آپ ﷺ نے سبحان رب العظیم کہا اور آپ کا کھڑا ہونا یعنی قومہ (تقریباً آپ کے رکوع کے برابر تھا اور (رکوع سے اٹھ کر سمع اللہ لم حمدہ کہنے کے بعد) آپ ﷺ کہتے لربی الحمد (میرے پروردگار ہی کے لئے ساری تعریف ہے) پھر سجدہ کیا اور آپ ﷺ کے سجدہ کی مقدار آپ کے قومے کے برابر تھی اور سجدے میں آپ ﷺ کہتے سبحان ربی الاعلی پھر آپ ﷺ نے سجدہ سے سر اٹھایا اور آپ ﷺ دونوں سجدوں کے درمیان (یعنی جلسہ میں) اپنے سجدے کے برابر بیٹھتے اور یہ کہتے رب اغفرلی رب اغفرلی (اے میرے رب میری بخش کر اے میرے رب مجھے بخش دے) اسی طرح آپ ﷺ نے چار رکعتیں پڑھیں۔ اور ان (چاروں رکعتوں میں) سورت بقرہ، سورت ال عمران، سورت نساء اور سورت مائدہ یا سورت انعام پڑھیں (حدیث کے راوی) شعبہ کو شک واقع ہوگیا ہے (کہ حدیث میں آخری سورت مائدہ کا ذکر گیا تھا یا انعام کا ) ۔ تشریح آپ کا رکوع قیام کے برابر تھا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حقیقۃً آپ ﷺ کا رکوع تقریباً قیام کے برابر تھا، یا یہ کہ آپ ﷺ رکوع میں اتنی ہی دیر تک رہتے تھے جتنی دیر تک قیام کرتے تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آپ نے معمول سے کچھ زیادہ قیام کو طویل کیا تھا اسی طرح رکوع کو بھی مقدار معمول سے زیادہ دراز کیا، ہاں کبھی دونوں یعنی قیام اور رکوع برابر ہوتے تھے جیسا کہ نسائی نے حضرت عوف بن مالک کی روایت نقل کی ہے۔ رب اغفرلی دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے اس سلسلے میں یہ احتمال بھی ہے کہ آپ ﷺ رب اغفرلی دو مرتبہ کہتے تھے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے احتمال دو سے زائد بہت مرتبہ کہنا ہو۔ وا اللہ اعلم۔

【474】

نماز تہجد میں زیادہ قیام کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جو آدمی دس آیتوں کے (پڑھنے کے) ساتھ قیام کرے تو وہ غافلین میں شمار نہیں کیا جاتا (یعنی اس کا نام صحیفہ غافلین میں نہیں لکھا جاتا) اور جو آدمی سو آیتوں کے (پڑھنے کے) ساتھ قیام کرے تو اس کا نام فرما نبرداروں میں لکھا جاتا ہے اور جو آدمی ہزار آیتوں کے (پڑھنے کے) ساتھ قیام کرے تو اس کا نام بہت زیادہ ثواب پانے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو آدمی تہجد کی نماز میں دس، سو یا ہزار آیتوں کی قرأت ترتیل اور اطیمنان کے ساتھ کرے تو اسے مذکورہ بالا ثواب اور سعادت کی فضیلت حاصل ہوگی اور اگر کوئی آدمی اپنی نماز میں دس آیتیں پڑھے گا تو فضیلت وثواب کے اعتبار سے وہ آدمی اس سے کمتر ہوگا جو سو آیتیں اپنی نماز میں پڑھے گا، اسی طرح جو آدمی اپنی نماز سو آیات میں پڑھے گا تو وہ فضیلت وسعادت کے اعتبار سے اس آدمی سے کم تر ہوگا جو اپنی نماز میں ایک ہزار آیتوں کی قرأت کرے گا۔ اس موقع پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں، اوّل تو یہ کہ آیتوں کی مذکورہ تعداد ایک رکعت میں پڑھنے کا اعتبار ہوگا یا ایک سے زائد رکعت میں یہ تعداد پڑھی جائے۔ دوم یہ کہ تعداد سورت فاتحہ کی آیتوں کو شامل ہے یا اس کے علاوہ ہے۔ پہلے سوال کے متعلق علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ آیتوں کی مذکورہ تعداد دو یا دو سے زیادہ رکعتوں میں پڑھی جائے۔ دوسرے سوال کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ حدیث کے ظاہری الفاظ تو یہی مراد بتاتے ہیں کہ سورت فاتحہ کے علاوہ دس آیتیں ہوں لیکن صحیح اور ظاہر یہ ہے کہ حدیث میں مذکورہ ثواب اس شکل میں بھی حاصل ہوتا ہے کہ مذکورہ تعداد سورت فاتحہ کو شامل کر کے پڑھی جائے بایں طور کہ سات آیتیں تو سورت فاتحہ کی ہوجائیں گی اور تین آیتیں مزید کہ جو نماز کی قرأت کا ادنیٰ درجہ ہے۔ قانتین کے معنی ہیں اطاعت پر مواظبت اور مداومت کرنے والے یا عبادت الٰہی میں قیام (یعنی کھڑے ہونے) کو طویل کرنے والے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نماز میں سو آیتیں پڑھتے ہیں ان کا نام اطاعت الٰہی پر مواظبت و مداومت کرنے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ یا عبادت خداوندی میں قیام کو طویل کرنے والوں کی جماعت میں لکھا جاتا ہے جو انتہائی سعادت اور خوش بختی کی بات ہے۔ علامہ طیبی (رح) کے الفاظ سے جو اس حدیث کے فائدے میں ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث مطلق ہے، دن یا رات کے ساتھ مقید نہیں ہے یعنی خواہ کوئی سی بھی نماز ہو، دن کی ہو یا رات کی ہو جس نماز میں بھی آیتوں کی مذکورہ تعداد پڑھی جائے گی، ثواب حاصل ہوگا، تاہم علامہ بغوی نے اس حدیث کو کامل ترین موقعہ پر یعنی باب صلاۃ اللیل میں نقل کر کے اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ رات کو (یعنی تہجد کی نماز میں) مذکورہ تعداد میں جو آیتیں پڑھی جائیں گی تو اس کا ثواب بہت زیادہ حاصل ہوگا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ قیام کرنا اس بات سے کنایہ ہے کہ مذکورہ تعداد میں آیتیں یاد کی جائیں اور انہیں ہر وقت پڑھا جائے نیز یہ کہ ان کے معنی و مقاصد میں غور و فکر اور ان پر عمل کیا جائے۔ وا اللہ اعلم۔

【475】

نماز تہجد میں رسول اللہ ﷺ کی قرأت کا طریقہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رات کی نماز میں سرور کائنات ﷺ کی قراءت مختلف ہوتی تھی۔ کبھی تو آپ ﷺ بلند آواز سے قرأت فرماتے ہیں اور کبھی پست آواز سے۔ (ابوداؤد) نشریح مطلب یہ ہے کہ جیسا وقت اور موقع دیکھتے اسی کے مطابق قرأت فرماتے، چناچہ علماء نے لکھا ہے کہ اگر آپ ﷺ تنہا ہوتے اور دوسروں کی نیند خراب ہونے کا خدشہ نہ ہوتا تو آپ ﷺ بآواز بلند قرأت فرماتے تھے اور اگر آس پاس کوئی سویا ہوا ہوتا تو پھر آپ ﷺ اس کی نیند اچاٹ ہونے کے خوف سے قرأت پست آواز سے فرماتے تھے۔

【476】

نماز تہجد میں رسول اللہ ﷺ کی قرأت کا طریقہ

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ اتنی آواز سے قرأت فرماتے تھے کہ اگر آپ ﷺ حجرے کے اندر پڑھتے ہوتے تو باہر صحن میں موجود آدمی سن لیتا تھا۔ (ابوداؤد) تشریح یعنی نہ تو آپ بہت زیادہ بلند آواز سے قرأت کرتے تھے اور نہ بالکل ہی پست آواز سے کہ کوئی سن بھی نہ سکے۔ بلکہ اتنی آواز سے پڑھا کرتے تھے کہ اگر آپ ﷺ حجرے کے اندر نماز پڑھتے ہوتے تو وہ لوگ جو باہر صحن میں موجود ہوتے تھے آپ ﷺ کی قرأت سن لیتے تھے۔ اتنی بات جان لیجئے کہ قرأت کے سلسلے میں یہ جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے اس کا تعلق رات (یعنی تہجد) کی نماز سے ہے کیونکہ جب آپ ﷺ مسجد میں نماز پڑھتے تھے تو رات کی نماز کی بہ نسبت زیادہ بلند آواز سے قرأت فرماتے تھے۔

【477】

تہجد کی قراءت میں ابوبکر و عمر کا طریقہ

اور حضرت ابوقتادہ (رض) راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرور کائنات ﷺ رات کو باہر نکلے تو ناگہاں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس سے گزرے جو نماز میں پست آواز سے (قرآن کریم) پڑھ رہے تھے، پھر آپ ﷺ حضرت عمر (رض) کے پاس سے گزرے جو نماز میں بلند آواز سے (قرآن کریم) پڑھ رہے تھے، ابوقتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب (صبح کو) حضرت ابوبکر و حضرت عمر (رض) دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یکجا (حاضر) ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر ! (آج کی رات) ہم تمہارے پاس سے گزرے تو تم نماز میں پست آواز سے (قرآن کریم) پڑھ رہے تھے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کی یا رسول اللہ ! میں جس سے مناجات کر رہا تھا اسے ہی سنا رہا تھا (یعنی میں اپنے پروردگار سے مناجات میں مشغول تھا اور وہ سننے کے لئے بلند آواز کا محتاج نہیں ہے وہ ہر طرح سے سنتا ہے) پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر (رض) سے فرمایا کہ، عمر ! (آج کی رات) ہم تمہارے پاس سے (بھی) گزرے تھے تم نماز میں بآواز بلند (قرآن کریم) پڑھ رہے تھے، حضرت عمر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں (بآواز بلند قرآن کریم پڑھ کر ان) سوئے ہوئے لوگوں کو جگاتا تھا (جو عبادت الٰہی یعنی تہجد کے وقت اٹھنا تو چاہتے ہیں مگر نیند کے غلبے کی وجہ سے ان کی آنکھیں کھل نہیں پاتیں) اور شیطان کو بھگاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے (دونوں کی باتیں سن کر حضرت ابوبکر (رض) سے) فرمایا کہ، ابوبکر ! تم اپنی آواز کو کچھ اور بلند کرو اور (حضرت عمر (رض) سے فرمایا کہ) عمر ! تم اپنی آواز کو پست کرو یعنی اس طرح رسول اللہ ﷺ نے حد اعتدال کی طرف دونوں کی راہنمائی فرمائی۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی)

【478】

رسول اللہ ﷺ ایک آیت پڑھتے ہوئے تمام رات کھڑے رہے

اور حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک رات نماز تہجد میں) سرور کائنات ﷺ صبح تک کھڑے رہے اور یہ آیت پڑھتے رہے۔ آیت (اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ١١٨) 5 ۔ المائدہ 118) اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اگر تو انہیں بخش دے تو تو بڑا حکمت والا ہے۔ (سنن نسائی، ابن ماجہ) تشریح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کی دن ! باری تعالیٰ کے حضور اپنی امت کے حق میں یہ آیت عرض کریں گے اور رحمت دو عالم شافع محشر، سرکار دو عالم ﷺ نے تہجد کے وقت اپنی امت کے حسب حال یہ آیت پڑھی یعنی پروردگار کے حضور آپ ﷺ نے اپنی امت کا حال عرض کیا اور اللہ کی بخشش کے طلب گار ہوئے، صدقے جائیے سرور کائنات ﷺ کے (آپ ﷺ پر میری جان قربان) کہ نماز تہجد میں کھڑے ہونے کے وقت سے لے کے صبح تک بار بار یہی دعا آپ ﷺ پڑھتے اور اپنی امت کی مغفرت و بخشش چاہتے رہے۔ ﷺ الف الف صلوٰۃ۔

【479】

فجر کی سنتیں پڑھ کی دائیں کروٹ پر لیٹنا چاہیے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی فجر کی سنت کی دو رکعتیں پڑھ لے تو اسے چاہیے کہ جماعت شروع ہونے تک اپنی دائیں کروٹ پر لیٹا رہے۔ (جامع ترمذی و ابوداؤد) تشریح فجر کی سنتیں پڑھ کر جماعت شروع ہونے تک دائیں کروٹ پر لیٹ رہنے کی توجیہ بعض حنفی علماء نے یہ بیان کی ہے کہ نماز تہجد اور رات کو عبادت الٰہی میں مشغول رہنے کی وجہ سے چونکہ سستی اور طبیعت میں گرانی پیدا ہوجاتی ہے اس لئے فجر کی سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیر لیٹے رہنے کا حکم دیا تاکہ کسل و سستی ختم ہوجائے اور کچھ راحت و سکون حاصل ہوجائے جس کی وجہ سے فرض نماز اطمینان و سکون اور قلب و دماغ کی بشاشت و فرحت کے ساتھ ادا ہو۔ ابن مالک فرماتے ہیں کہ جو آدمی رات کو اللہ کی عبادت میں مشغول رہتا ہے اور نماز تہجد پڑھتا ہے اس آدمی کے حق میں یہ (یعنی فجر کی سنتیں پڑھنے کے بعد دائیں کروٹ پر لیٹ جانے کا حکم) امر استحباب ہے۔ حضرت سید زکریا جن کا شمار حنفیہ کے ہاں علم حدیث کے مشائخ میں ہوتا ہے فرماتے ہیں کہ لائق اور بہتر یہ ہے کہ یہ طریق (یعنی سنت پڑھ کر دائیں کروٹ پر لیٹنا) پوشیدہ طور پر اختیار کرے یعنی گھر میں ایسا کرے۔ مسجد میں لوگوں کے سامنے نہ کرے، نیز یہ کہ یہ لیٹنا محض لیٹنے کی حد تک رہے اور اپنے آپ کو نیند سے بچائے، ایسا نہ ہو کہ لیٹ کر سو جائے اور اٹھ کر جماعت میں شریک ہو اور اس طرح فرض نماز بغیر وضو پڑھ لے۔

【480】

مداومت عمل

اور حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ سے (رض) سے دریافت کیا کہ سرور کونین ﷺ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون سا عمل تھا ؟ انہوں نے فرمایا کہ مداومت عمل میں نے پھر (یہ) پوچھا کہ رات تہجد کی نماز پڑھنے کے لئے آپ ﷺ کس وقت کھڑے ہوتے تھے ؟ فرمایا کہ آپ ﷺ اس وقت کھڑے ہوتے تھے جب مرغ کی آواز سنتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح مداومت عمل کا مطلب یہ ہے کہ وہ نیک اور با مقصد عمل جس کو کرنے والا ہمیشہ پابندی کے ساتھ کرتا رہے اور جیسا کہ بعض روایات میں مذکور ہے کہ اگرچہ وہ عمل قلیل ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے اطراف میں تو عام طور پر مرغ رات کے بالکل آخر حصے یعنی صبح کے قریب بولتے ہیں مگر عرب میں عمومی طور پر آدھی رات کے بعد مرغ بولتے ہیں۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ مرغ کے بولنے کی آواز سن کر اٹھتے تھے اور اس وقت تہجد کی نماز پڑھتے تھے۔

【481】

رسول اللہ ﷺ کا رات معمول

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ، اگر ہم چاہتے کہ سرور کونین ﷺ کو رات کے وقت نماز پڑھتے ہوئے دیکھیں تو آپ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے ہی دیکھتے تھے اور اگر یہ چاہتے کہ رسول اللہ ﷺ کو سوتے ہوئے دیکھیں تو آپ ﷺ کو سوتے ہوئے ہی دیکھتے تھے۔ (سنن نسائی ) تشریح حضرت انس (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تہجد وغیرہ پڑھنے کے سلسلے میں معتدل رویہ اختیار فرماتے تھے، نہ تو تمام رات تہجد وغیرہ ہی میں گزار دیتے تھے اور نہ تمام رات سوتے ہی رہتے تھے بلکہ آپ ﷺ ہر رات کو سوتے بھی تھے اور تہجد وغیرہ کی نماز بھی پڑھتے تھے۔ لہٰذا آپ ﷺ چونکہ نماز تہجد وغیرہ کے لئے نہ تو تمام رات بیدار ہی رہتے تھے اور نہ تمام رات سوتے ہی رہتے تھے اس لئے آپ ﷺ رات کو نماز تہجد وغیرہ میں مشغول بھی دیکھے جاتے تھے اور سوتے ہوئے بھی آپ ﷺ کو دیکھا جاتا تھا۔

【482】

رسول اللہ ﷺ کا رات معمول

اور حضرت حمید بن عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ کے ایک صحابی نے بیان کیا کہ (ایک مرتبہ) جب کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سفر میں تھا تو (اپنے دل میں یا اپنے بعض احباب سے کہا) کہ اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ (جب تہجد کے لئے اٹھیں گے تو آپ ﷺ کو میں نماز کے وقت دیکھتا رہوں گا تاکہ میں آپ ﷺ کے افعال دیکھوں (اور پھر اسی کے مطابق عمل کروں) چناچہ جب رسول اللہ ﷺ نے عشاء کی نماز کہ جسے عتمہ فرماتے ہیں پڑھ لی تو لیٹ گئے (اور کچھ دیر آرام کیا، پھر آپ ﷺ بیدار ہوئے اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کہ یہ آیت ( رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا) 3 ۔ آل عمران 191) پڑھی یہاں تک کہ آپ ﷺ اس آیت تک پہنچے ( اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ ١٩٤) 3 ۔ ال عمران 194) بیشک تو وعدے سے پھرا نہیں کرتا۔ پھر آپ ﷺ اپنے بستر کی طرف متوجہ ہوئے اور وہاں سے مسواک نکالی، اس کے بعد ایک چھاگل میں سے جو آپ ﷺ کے پاس رکھی ہوئی تھی (وضو کرنے یا مسواک تر کرنے کے لئے) پیالہ میں پانی نکالا پھر مسواک کرنے کے بعد (وضو کر کے یا پہلے کے وضو کے ساتھ نماز پڑھنے) کھڑے ہوئے اور (جب) آپ ﷺ نے نماز پڑھ لی، میں نے (دل میں) کہا کہ جتنی دیر آپ سوئے تھے اتنی ہی دیر اب آپ ﷺ نے نماز پڑھی پھر آپ ﷺ لیٹ گئے اور میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ جتنی دیر آپ ﷺ نے نماز پڑھی تھی اتنی ہی دیر سوئے، پھر آپ ﷺ بیدار ہوئے اور جو کچھ پہلے کیا تھا وہی اب کیا یعنی مسواک وغیرہ کی اور جو کچھ (یعنی آیت مذکورہ) پہلے پڑھا تھا وہی اب پڑھا، رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر سے پہلے اسی طرح تین مرتبہ کیا۔ (سنن نسائی ) تشریح آیت پڑھنے کے سلسلے میں دو احتمال ہیں، ایک تو یہ کہ ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس رات کو مذکورہ آیت ( اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ ١٩٤) 3 ۔ ال عمران 194) تک ہی پڑھی۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ آپ نے یہ آیتیں آخر سورت تک پڑھی ہوں گی مگر سننے والے نے آیت ( اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ ١٩٤) 3 ۔ ال عمران 194) کے بعد کی آیتیں نہیں سنی ہوں گی۔ اسی طرح اس حدیث میں اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی حدیث (نمبر آٹھ) میں تطبیق بھی پیدا ہوجائے گی جس سے معلوم ہوچکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آخر سورت تک تلاوت کی تھی۔

【483】

رسول اللہ ﷺ کا رات معمول

اور حضرت یعلی بن مملک کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے (ایک مرتبہ) حضرت ام سلمہ زوجہ مطہرہ سرور کونین ﷺ سے رسول اللہ ﷺ کی قرأت اور نماز کے بارے میں پوچھا (جو آپ ﷺ رات کو پڑھتے تھے) انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ کی نماز (اور قرأت بیان کرنے) سے تمہیں کیا (حاصل ہوگا تم میں اتنی قوت کہاں کہ آپ ﷺ کے برابر قرأت کرسکو اور آپ ﷺ کی طرح نماز پڑھ سکو اور اگر سننا ہی چاہتے ہو تو سنو کہ) آپ نماز پڑھتے، پھر جتنی دیر تک آپ ﷺ نماز پڑھتے اتنی ہی دیر تک سوتے، پھر (اٹھ کر) اتنی ہی دیر تک نماز پڑھتے جتنی دیر تک سو چکے ہوتے پھر جتنی دیر تک آپ ﷺ نماز پڑھتے اتنی ہی دیر تک سوتے یہاں تک کہ (یہ سلسلہ جاری رہتا اور) صبح ہوجاتی، اس کے بعد حضرت ام سلمہ نے آپ ﷺ کی قرأت بیان کی یہاں تک کہ انہوں نے خوب واضح اور ایک ایک حرف قرأت کا بیان کیا۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی)

【484】

نماز تہجد میں رسول اللہ ﷺ کی دعا

حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ جب رات کو تہجد ( کی نماز) پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو یہ (دعا) پڑھتے اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ قَیمُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالاَ رْضِ وَمَنْ فِیھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ مَلِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَ لِقَآئُکَ حَقٌّ وَقَوْلُکَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَّالنَّارُ حَقٌّ وَّالنَّبِیوْنَ حَقٌّ وَّمُحَمَّدٌ حَقٌّ وَّالسَّاعَۃُ حَقٌّ اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیکَ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَاِلَیکَ حَاکَمْتُ فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَمَا اَسْرَرْتُ وَمَا اَعْلَنْتُ وَمَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِہ مِنِّیْ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ وَلَا اِلٰہَ غَیرُکَ ۔ (اے میرے رب تیرے ہی لئے تعریفیں ہیں تو ہی آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے اور اس چیز کو جو ان کے درمیان ہے اور تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں تو ہی زمین و آسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہیں سب کو روشن کرنے والا ہے اور تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں اور تو ہی زمین و آسمانوں کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا بادشاہ ہے اور سب تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں تو ہی حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیری ملاقات حق ہے تیرا کلام حق ہے بہشت حق ہے، دوزخ حق ہے، تمام نبی حق ہیں، محمد ﷺ حق ہیں اور قیامت حق ہے، اے پروردگار ً میں تیرا تابعدار ہوں، میں نے تیرے تمام احکامات قبول کئے، میں تجھ پر ایمان لایا اور تجھی پر بھروسہ کیا، تیری طرف میں نے رجوع کیا، تیری ہی مدد سے میں (دین کے) دشمنوں سے جھگڑتا ہوں اور تیرے ہی پاس اپنی فریاد لایا ہوں، پس تو میرے ان گناہوں کو بھی بخش دے جو میں نے پہلے کئے ہیں اور ان گناہوں کو بھی جو بعد میں مجھ سے سرزد ہوں گے نیز ان گناہوں کو بھی (بخش دے) جو میں نے پوشیدہ طور پر اور ظاہری طور پر کئے اور جو کچھ میری خطائیں ہیں جنہیں تو ہی مجھ سے بہتر جانتا ہے (سب کو معاف کر دے) اور تو ہی (جسے چاہے) آگے کرنے والا اور پیچھے ڈال دینے والا ہے تو ہی معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح ظاہر تو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا افتتاح یعنی تکبیر تحریمہ کے بعد یا رکوع کے بعد قومہ میں پڑھتے تھے جیسا کہ بعض روایتوں میں اس کی تصریح ہے۔

【485】

نماز تہجد میں رسول اللہ ﷺ کی دعا

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کونین ﷺ جب رات کو کھڑے ہوتے اور (تہجد کی) نماز شروع کرتے تو یہ دعا پڑھتے۔ آیت ( اَللّٰھُمَّ رَبَّ جِبْرَئِیلَ وَمِیکَآئِیلَ وَاِسْرَافِیلَ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِمَ الْغَیبِ وَالشَّھَادَۃِ اَنْتَ تَحْکُمُ بَینَ عِبَادِکَ فِی مَا کَانُوْا فِیہِ یخْتَلِفُوْنَ اِھْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِکَ اِنَّکَ تَھْدِیْ مَنْ تَشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ ۔ اے اللہ ! اے پروردگار جبرائیل، میکائیل، اسرفیل کے ! اے پیدا کرنے والے آسمانوں اور زمین کے اور پوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز میں جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں فیصلہ کرے گا، اے اللہ امر حق میں جو اختلاف کیا گیا ہے اس میں میری راہنمائی کر، کیونکہ جسے تو چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے (صحیح مسلم)

【486】

نیند سے بیدار ہونے کے بعد کی تسبیح اور اس کی فضیلت

اور حضرت عبادہ بن صامت (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جو آدمی رات کو بیدار ہو تو یہ تسبیح پڑھے آیت ( لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہ لَہ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیرٌ وَسُبْحَانَ اللّٰہ وَالْحَمْدُ للہ و لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و لا حول و قوۃ الا با اللہ (ا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اس کے لئے بادشاہت ہے اور اس کے لئے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور پاک ہے اللہ، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ بہت بڑا ہے اور گناہوں سے بچنے اور عبادت کی قوت اللہ کی مدد سے ہے) اور اس کے بعد یہ کہے رب اغفرلی (اے میرے رب مجھے بخشش دے) یا فرمایا کہ پھر دعا کرے (یعنی راوی کو شک واقع ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خاص طور پر رب اغفرلی پڑھنے کو فرمایا یا یہ فرمایا کہ جو دعا چاہے پڑھے) اس کی دعا قبول کی جائے گی، پھر اگر وضو کرے اور نماز پڑھے تو اس کی نماز قبول کی جائے گی۔ (صحیح البخاری ) تشریح تعار کے معنی بعض نے نیند سے بیدار ہونے اور بعض نے کروٹ لینے کے لکھے ہیں اور ابن مالک نے اس کے معنی آواز کے ساتھ جاگنے کے لکھے ہیں جیسا کہ بیدار ہونے کے وقت منہ سے آواز نکلتی ہے لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے اسے پسند اور بہتر فرمایا ہے کہ جاگنے کے بعد جو آواز منہ سے نکلے وہ تسبیح وغیرہ کی آواز ہو چناچہ اللہ سے تعلق رکھنے والے جب نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو ان کے منہ سے کلمہ یا اسی قسم کی تسبیح و دعا کی آواز نکلتی ہے۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اس دعا کو جو نیند سے بیدار ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے درھم الکیس فرماتے ہیں یعنی جس طرح کوئی آدمی درہم و روپیہ تھیلی میں رکھتا ہے اور جب چاہتا ہے اس میں سے نکالتا ہے جس سے اس کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے اسی طرح یہ دعا ہے جو مومن کے قلب و دماغ میں محفوظ رہتی ہے جب وہ نیند سے بیدار ہوتا ہے اور یہ دعا اس کے منہ سے نکلتی ہے تو وہ بارگاہ رب العزت میں قبولیت کا درجہ پاتی ہے۔

【487】

جاگنے کے وقت رسول اللہ ﷺ کی دعا

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کونین ﷺ جب رات کو (نیند سے) بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے لَا اِلٰہ اِلَّا اَنْتَّ سُبْحَانَکَ اَللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَسْتَغْفِرُکَ لِذَنْبِی وَاَسْأَلُکَ رَحْمَتَکَ اَللّٰھُمَّ زِدْنِی عِلْمًا وَلَا تُزِغْ قَلْبِی بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنِی وَھَبْ لِی مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ ) (اے اللہ ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، اے اللہ ! میں تیری تعریف کے ساتھ تیرے تسبیح کرتا ہوں اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں اور تجھ سے تیری رحمت کا طلبگار ہوں۔ اے اللہ ! میرے علم میں زیادتی عطا فرما اور مجھے ہدایت یافتہ بنانے کے بعد (حق سے باطل کی طرف میرے دل میں کجروی پیدا نہ ہونے دے اور اپنے پاس سے میرے لئے (ایمان و ہدایت پر ثابت قدمی اور دینی توفیق کی) رحمت عطا فرما بیشک تو ہی بخشنے والا ہے۔

【488】

رات کو بیداری کے بعد ذکر اللہ کی فضیلت

اور حضرت معاذ بن جبل (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جو بھی مسلمان رات کو پاکی کی حالت میں (یعنی وضو یا تییم کر کے) ذکر اللہ کرتا ہوا سو جائے اور پھر رات کو بیدار ہونے کے بعد اللہ سے بھلائی کی دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے (دنیا یا آخرت میں ضرور ہی بھلائی دیتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد)

【489】

نماز تہجد سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی تسبیح و دعا

اور حضرت شریق الہوزنی فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ان سے پوچھا کہ سرور کونین ﷺ رات کو بیدار ہونے کے بعد (عبادت) کس چیز سے شروع کرتے تھے ؟ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ تم نے مجھ سے (آج) وہ چیز پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے مجھ سے نہیں پوچھی (تو سنو کہ) رسول اللہ ﷺ جب رات کو بیدار ہوتے تو (پہلے) اللہ اکبر دس مرتبہ الحمد اللہ دس مرتبہ، سبحان اللہ وبحمدہ دس مرتبہ، سبحان الملک القدوس دس مرتبہ کہتے، دس مرتبہ استغفار کرتے، لا الہ الا اللہ دس مرتبہ کہتے اور دس مرتبہ یہ کہتے اللھم انی اعوذ بک من ضیق الدنیا وضیق یوم القیامۃ (اے پروردگار ! میں تجھ سے دنیا کی تنگی (یعنی سختیوں) اور آخرت کی تنگی سے پناہ مانگتا ہوں۔ پھر اس کے بعد آپ ﷺ نماز تہجد شروع فرماتے) (ابوداؤد) تشریح صوفیاء کرام رحمہم اللہ کے ہاں دس تسبیحات ہیں جو سات سات مرتبہ پڑھی جاتی ہیں اور جنہیں ان کی اصطلاح میں مسبعات عشرۃ کہتے ہیں، اس حدیث میں سات تسبیحات ہیں جنہیں دس دس مرتبہ پڑھنا ذکر کیا گیا۔ چناچہ صوفیاء کی اصطلاح مسبعات عشرہ کے مقابلہ میں محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں اس حدیث میں مذکورہ تسبیحات اور ان کے اعداد کو معشرات سبعہ کہتے ہیں۔

【490】

نماز تہجد سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی تسبیح و دعا

حضرت ابوسعید (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ جب رات کو نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہہ کر یہ پڑھتے۔ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَ تَعَالٰی جَدُّ کَ وَلاَ اِلٰہَ غَیْرکْ (اے اللہ تو پاک ہے ہم تیر حمد کرتے ہیں تیرا نام بابرکت ہے تیری بزرگی بلند ہے اور تیرے سوا کوئی کوئی معبود نہیں ہے) پھر اللہ اکبر کبیرا (ا اللہ بہت بڑا ہے بڑا) کہتے اور یہ دعا پڑھتے۔ اَعُوْذُ بِا السَّمِیْعُ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیَطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمَزَہ وَنَفَخَہ وَنَفْثِہ (میں اللہ سننے والے، جاننے والے کی شیطان مردود سے، اس کے وسو سے سے، اس کے تکبر سے اور اس کے برے شعر سکھانے سے پناہ مانگتا ہوں، (جامع ترمذی و ابوداؤد، سنن نسائی) ابوداؤد نے اپنی روایت میں حدیث کے الفاظ ولا الہ غیرک کے بعد یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ پھر آپ لا الہ الا اللہ تین مرتبہ کہتے اور آخر حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ پھر پڑھتے یعنی اَعُوْذُ بِا السَّمِیْعُ الْعَلِیْمِ الخ پڑھنے کے بعد قرأت فرماتے۔

【491】

نماز تہجد سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی تسبیح و دعا

اور حضرت ربیعہ کعب اسلمی (رض) فرماتے ہیں کہ میں سرور کونین ﷺ کے حجرہ مبارک کے قریب ہی رات بسر کیا کرتا تھا، چناچہ میں آپ ﷺ کی آواز سنا کرتا تھا کہ جب آپ ﷺ رات کو (تہجد کی) نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو دیر تک سبحان رب العالمین (تمام عالم کا پروردگار پاک ہے) کہا کرتے تھے، پھر دیر تک کہتے سبحان اللہ وبحمدہ ( اللہ پاک ہے میں اس کے تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتا ہوں (سنن نسائی) ترمذی نے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

【492】

رات کے قیام پر رغبت دلانے کا بیان

قیام اللیل (رات کے قیام) کا مطلب ہے رات کو عبادت الٰہی مثلاً نماز تہجد اور ذکر اللہ وغیرہ میں مشغول رہنا اسی مناسبت سے قائم اللیل ان خوش نصیب اور سعادت لوگوں کو کہا جاتا ہے جو راتوں کو اٹھ کر اپنے پروردگار کی عبادت اور اس کے ذکر و یاد میں مشغول رہتے ہیں۔

【493】

رات کو عبادت خداوندی سے روکنے کے لئے شیطان کی مکاریاں

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی (رات کو) سوتا ہے تو شیطان مردود اس کے سر کی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے، ہر گرہ پر (یہ کہہ کر) مارتا ہے (یعنی اس کے دل میں یہ بات ڈالتا ہے) کہ ابھی بہت رات باقی ہے سوتا رہ لہٰذا اگر کوئی آدمی (شیطان کے اس مکر میں نہیں آتا اور عبادت الہٰی کے لئے) جاگتا ہے اور (دل میں ہی یا زبان سے) اللہ کو یاد کرتا ہے تو (غفلت و سستی کی) ایک گرہ کھل جاتی ہے پھر جب وہ وضو کرتا ہے تو (نجاست کی) دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور اس کے بعد جب نماز پڑھتا ہے تو (کسالت و بطالت کی) تیسری گرہ (بھی کھل جاتی ہے چناچہ ایسا آدمی شادماں اور پاک نفس صبح کرتا ہے ورنہ وہ (جو آدمی نہ جاگتا ہے نہ ذکر کرتا ہے اور نہ وضو کر کے نماز ہی پڑھتا ہے تو وہ) کاہل اور پلید نفس صبح کرتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح گرہ کے معنی و مراد کے تعین میں اختلاف ہے ابن مالک کا قول یہ ہے کہ گرہ سے مراد کسل و سستی کی گرہ ہے یعنی شیطان اپنی مکاریوں کے ساتھ رات کو عبادت الٰہی کے لئے اٹھنے والوں کے کسل و سستی کا باعث ہوتا ہے۔ میرک شاہ کے قول کے مطابق بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ حقیقت پر محمول ہے یعنی شیطان مردود واقعی سونے والے کی گدی پر گرہ لگا دیتا ہے جیسا کہ جادوگر جادو کرتے وقت کسی پر گرہ لگاتے ہیں اس کی تائید ایک روایت سے بھی ہوتی ہے جو مرقات میں منقول ہے۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ مجاز پر محمول ہے گویا گرہ لگانا جو ساحر کا فعل ہے کہ وہ اس کے ذریعے مسحور کو اس کی مراد سے روک دیتا ہے اس کے ساتھ سونے والے کو رات کو نماز پڑھنے اور ذکر اللہ میں مشغول ہونے سے شیطان کے روکنے کو مشابہت دی گئی ہے۔ یعنی جس طرح ایک ساحر سحر کے وقت کسی پر گرہ لگا کر اس کو اس کے مقاصد سے روک دیتے ہیں بائیں طور کہ مسحور کی عملی قوتیں مفلوج ہوجاتی ہیں اسی طرح شیطان رات کو سونے والوں کو اپنی مکاریوں کے ذریعے اللہ کے ذکر اور نماز میں مشغول ہونے کے لئے اٹھنے سے روک دیتا ہے۔ کچھ علماء کا قول یہ ہے کہ اس سے مراددل کی گرہ اور شیطان کی طرف سے سونے والے کو ایک چیز پر مصمم اور قائم کرنا ہے یعنی شیطان سونے والے کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے اور اس بات کا اسے یقین دلاتا ہے کہ ابھی رات بہت باقی ہے، سوتا رہ، لہٰذا بندہ شیطان کی فریب کاریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور بیدار ہو کر نماز پڑھنے سے رک جاتا ہے۔ حدیث کے آخر جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی رات کو شیطان کے مکر و فریب میں نہیں پھنستا اور اس کے بہکا وے میں نہیں آتا بلکہ وہ وقت پر اٹھ کر نماز تہجد اور ذکر اللہ میں مشغول ہوجاتا ہے تو اس کے لئے صبح اپنی جلو میں شادمانی و خوش نصیبی اور نفس کی پاکی و پاکیزگی کی سعادتیں لئے ہوئے آتی ہے جس کی وجہ سے وہ تمام دن اللہ کی رحمتوں کے سائے میں رہتا ہے اور اس کا دل و دماغ ہر قسم کے خوف و خطر سے لا پروا ہو کر دین و دنیا کے امور میں اطمینان سے لگا رہتا ہے۔ اس کے برخلاف جو آدمی رات کو شیطان کی عیاریوں کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کے مکر کے جال میں پھنس جاتا ہے جس کی وجہ سے نہ تو وہ رات کو اٹھ کر ذکر اللہ کرتا ہے اور نہ ہی نماز تہجد میں مشغول ہوتا ہے بلکہ سویا رہتا ہے تو اس کے لئے صبح اپنے دامن میں کسالت و بطالت و غفلت و پلید نفسی کے غلیظ ڈھر لے کر آتی ہے جس کی وجہ سے وہ تمام دن پلید نفس، غمگین دل، متفکر اور اپنے امور کی انجام دہی میں حیران و پریشان اور کسل مند رہتا ہے یعنی سستی و غفلت کی وجہ سے وہ اپنے جس کام کو بھی کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس میں ناکام اور بددل رہتا ہے کیونکہ وہ شیطان کے مکر و فریب کے جال میں مقید اور قرب الٰہی کی رحمتوں سے دور ہوتا ہے۔

【494】

رسول اللہ ﷺ کی کثرت عبادت اداء شکر کے لئے ہوتی تھی

اور حضرت مغیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے رات کو (نماز پڑھنے کے لئے) اس قدر قیام کیا (یعنی اتنی دیر تک کھڑے رہے) کہ آپ ﷺ کے مبارک پاؤں پر ورم آگیا (یہ حال دیکھ کر) آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ آپ ﷺ اس قدر عبادت کیوں کرتے ہیں آپ ﷺ کے تو اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اللہ کا شکر ادا کرنے والا بندہ نہ بنوں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے تمام گناہ بخشش دئیے ہیں اور مجھے دین و دنیا کے سب سے اعلیٰ مقام پر فائز کیا ہے تو کیا میرا حق یہی ہے کہ میں عبادت کی محنت و مشقت اٹھا کر اس اللہ کا جس نے مجھے اپنی بیشمار رحمتوں اور نعمتوں سے سرفراز کیا ہے شکر گذار بندہ نہ بنوں ؟ نہیں بلکہ اللہ نے مغفرت و بخشش کی جو نعمت مجھے عطا فرمائی ہے۔ اور اپنی جس لا محدود اور بےانتہا نعمتوں سے مجھے نوازا ہے اس کے پیش نظر میرا فرض ہے کہ میں اس کی خوشنودی ورضا حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت و مشقت اٹھاؤں اور زیادہ سے زیادہ عبادت کروں تاکہ اس کا شکر ادا کرنے والا بندہ بن جاؤں۔ عباد کے بارے میں حضرت علی المرتضیٰ کا مقولہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات علم و فضل، ذہانت و فراست اور عقل و دانش کے اعتبار سے پوری امت میں امتیازی مقام کی حامل ہے عبادت کے بارے میں انہوں نے جو تجزیہ فرمایا ہے اور جو رائے قائم کی ہے اسے سنئے اور اپنے لئے مشعل راہ قرار دیجئے فرمایا جن لوگوں نے (نعمتوں کی) طلب یعنی جنت کی آرزو اور ثواب کی تمنا) میں عبادت کی تو ایسی عبادت سوداگروں کی عبادت ہے۔ جن لوگوں نے (اللہ تعالیٰ کا عذاب اور دوزخ کے) ڈر سے عبادت کی تو وہ غلاموں کی عبادت ہے۔ اور جن لوگوں نے اپنے مولیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی ادائیگی شکر کے لئے عبادت کی تو وہ آزاد لوگوں کی عبادت ہے۔ (اور یہی عبادت سب سے اونچے درجے کی عبادت ہے) ۔

【495】

رات کو خداوند کی عبادت کے لئے نہ اٹھنے والے کی برائی

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرور کونین ﷺ کے سامنے ایک آدمی کا ذکر آیا، چناچہ آپ ﷺ سے کہا گیا کہ وہ آدمی صبح تک سویا رہتا ہے نماز کے لئے نہیں اٹھتا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ ایسا آدمی ہے کہ اس کے کان میں یا آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے دونوں کانوں میں شیطان پیشاب کرتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح نماز سے مراد تہجد کی نماز بھی ہوسکتی ہے اور فجر کی نماز بھی یعنی یا تو یہ آدمی تہجد کی نماز کے لئے نہیں اٹھتا ہوگا یا یہ کہ فجر کی نماز اس کی قضا ہوجاتی ہوگی۔ بہر حال شیطان کے پیشاب کرنے کے بارے میں بعض علماء نے کہا ہے کہ حقیقۃً ایسا ہوتا ہے چناچہ بعض صالحین کے بارے میں منقول ہے کہ (کسی دن) ان کی آنکھ نہ کھلی جس کی وجہ سے (تہجد یا فجر کی فرض) نماز پڑھ سکے چناچہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی جو سیاہ رنگ کا تھا آیا اور اس نے اپنا پیر اٹھا کر ان کے کان میں پیشاب کردیا۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ شیطان کا پیشاب کرنا اس بات سے کنایہ ہے کہ شیطان ایسے آدمی کو حقیر و ذلیل سمجھتا ہے کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ جو آدمی کسی چیز کو حقیر و کمتر سمجھتا ہے تو اس پر پیشاب کردیتا ہے۔

【496】

عورتوں کے لئے نماز تہجد کا ذکر

اور ام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک روز رات کو سرور کونین ﷺ گھبرا کر یہ کہتے ہوئے بیدار ہوگئے کہ سبحان اللہ ! آج کی رات کس قدر خزانے اتارے گئے ہیں اور کس قدر فتنے نازل کئے گئے ہیں، ہے کوئی جو ان حجروں والیوں کو اٹھا دے، آپ ﷺ کی مراد ازواج مطہرات سے تھی کہ وہ (اٹھ کر) نماز پڑھیں تاکہ رحمت الٰہی حاصل کرسکیں اور عذاب و فتنوں سے بچ سکیں کیونکہ اکثر عورتیں دنیا میں تو کپڑے پہننے والی ہیں لیکن آخرت میں ننگی ہوں گی۔ (صحیح البخاری ) تشریح حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہے کہ جو خزانے اور مال رسول اللہ ﷺ کی امت میں مقدر ہوچکے تھے کہ کس امتی کو کتنا مال و زر ملے گا اور کسی امتی کی قسمت میں کتنی دولت لکھی ہے اس رات کو ان کا اترنا رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوگیا تھا اس طرح اس رات کو جتنے فتنے مقدر ہوچکے تھے وہ بھی اس رات کو رسول اللہ ﷺ کو پہلے ہی سے معلوم ہوگئے تھے۔ ملا علی قاری اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ حدیث میں خزانے سے مراد رحمت الٰہی اور فتنے سے مراد اس کا عذاب ہے۔ عورتوں کے لئے وعید حدیث کے آخری جز کے کئی مطلب ہیں اول یہ کہ اکثر عورتیں دنیا میں تو طرح طرح کے اور عمدہ سے عمدہ کپڑے پہنیں اور ان پر فخر و مباہات کریں گی حالانکہ ان کی حالت یہ ہوگی کہ حکم الٰہی کو نہ ماننے کی وجہ سے وہ آخرت میں نیک اور اچھے اعمال سے خالی ہوں گی۔ دوم یہ کہ اکثر عورتیں دنیا میں نیند کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی یعنی نیند کی غفلت کی وجہ سے اللہ کی یاد سے غافل ہو نگی جس کا نیتجہ یہ ہوگا کہ آخرت میں اچھے درجات اور بڑائیوں سے خالی ہوں گی، سوم یہ کہ اکثر عورتیں جسم کو ظاہر کرنے والے ایسے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی کہ وہ دنیا میں لباس پوش ہوں گی مگر آخرت کے حکم کے اعتبار سے ننگی ہوں گی یعنی جو کپڑے دیکھنے میں عمدہ خوبصورت اور باریک معلوم ہوتے ہیں جیسے کہ جالی اور نائیلون وغیرہ کے کپڑے کہ جن کا عورتوں کے لئے استعمال کرنا ازروئے شرع ممنوع ہے ایسے کپڑوں والی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی۔ اس حدیث سے ان عورتوں کو خاص طور پر عبرت حاصل کرنی چاہیے جو آج کے فیشن زدہ دور میں کپڑوں کے معاملے میں انتہائی بےراہ روی اور غیر شرعی طریقہ اختیار کئے ہوئے اور ایسے ایسے کپڑے استعمال کرتی ہیں جو اللہ اور اللہ کے رسول کی مرضی کے خلاف اور آخرت کے عذاب کا موجب ہیںَ مائیں اور بہنیں کان کھول کر سن لیں کہ دنیا چاہے جتنی فیشن زدہ ہوجائے، تہذیب و تمدن چاہے جتنے عروج پر پہنچ جائیں اور انسان کی ذہنی و فکری اور عملی جولانیاں چاہے چاند کو مسخر کرلیں، اسلام اور پیغمبر اسلام کے وہ فرمان جو آج سے چودہ سو سال پہلے جاری ہوئے تھے آج بھی پوری طرح موجود ہیں، ان کی اہمیت اور ان پر عمل کرنے کی شدت کسی حال میں بھی ختم نہیں ہوسکتی، اسلامی اور شرع احکام کا دقیانوسیت کے الفاظ سے مذاق اڑا کر، فیشن کا نام لے کر آج بھلے کوئی عورت اپنی ظاہری زندگی کو اور دنیا کی نظروں میں جاذب نظر دیدہ زیب اور ماڈرن معزز بنا لے مگر اسے یاد رکھ لینا چاہیے کہ دنیا کی اس چند روزہ زندگی اور موجودہ فیشن کے فانی رنگ و روپ کو ختم کر کے ایک دن اسے اس اللہ کی بارگاہ میں پہنچنا ہے جو غفار و رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ جبار وقہار بھی ہے اور پھر انہیں وہاں اپنی بد عملیوں کا جواب دینا ہوگا۔

【497】

رحمت خداوندی کے نزول کا وقت

اور حضر ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا ہر رات کو آخر انتہائی رات کے وقت ہمارا بزرگ و برتر پروردگار دنیا کے آسمان (یعنی نیچے کے آسمان) پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اسے قبولیت بخشوں ؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت کا طلبگار ہو اور میں اسے بخشوں ؟ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ پھر اللہ جل شانہ اپنے (لطف و رحمت کے) دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے اور کہتا ہے کہ کون ہے جو ایسے کو قرض دے جو نہ فقیر ہے اور نہ ظلم کرنے والا ہے اور صبح تک یہی فرماتا رہتا ہے۔ تشریح یَنْزِلُ رَبَّنَا (ہمارا رب نزول فرماتا ہے) کا مطلب ظاہر ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ جل شانہ خود آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے کیونکہ وہ جسم کی ثقالت و کثافت سے پاک و صاف ہے اور ایسا نور ہے جو ہمہ وقت کائنات کے ذرے ذرے پر محیط و حاوی ہے اور کسی خاص مقام و کسی وقت کا پابند نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت علامہ ابن حجر اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے اس کی تاویل کرتے ہوئے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اللہ جل شانہ کا فرمان، اس کی رحمت یا اس کی ملائکہ اس وقت آسمان دنیا پر اترتے ہیں (ا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مذکورہ اعلان کرتے ہیں) چناچہ اس کی تائید ایک حدیث صحیح سے بھی ہوتی ہے جو مرقات میں مذکور ہے، یا پھر یہ کہا جائے کہ یہ ارشاد متشابہات میں سے ہے جس کے حقیقی معنی و مطلب اللہ جل شانہ ہی جانتے ہیں۔ مَنْ یَّدْ عُوْنِی دعا کے معنی ہیں پکارنا جیسا کہ بندہ کہے یا رب اس کے مقابلے پر اجابت اور قبولیت ہوتی ہے جیسے کہ پروردگار بندے کے اس پکارنے کے جواب میں کہے لبیک عبدی مَنْ یَّسْاَلَنِیْ سوال کے معنی کسی کا مانگنا اور اس کا طلب کرنا اور اس کے مقابلے میں سوال کا پورا کرنا ہے یعنی جو چیز طلب کی جائے اور مانگی جائے اس کا دینا۔ یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں منقول ہے کہ اللہ جل شانہ (آسمان دنیا پر) اس وقت نزول فرماتا ہے جب اول تہائی رات گذر جاتی ہے نیز اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں منقول ہے کہ اس وقت نزول فرماتا ہے جب آدھی رات یا دو تہائی رات گذرتی ہے کیونکہ احتمال ہے کہ بعض صورتوں میں تو نزول آخری تہائی رات کے وقت، بعض راتوں کو اول تہائی رات کے گذرنے کے بعد اور بعض راتوں کو آدھی یا دو تہائی رات گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔ مَنْ یُّقْرِضُ کون ہے جو قرض دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کون ہے جو بطریق قرض اور جزا لینے کے لئے بدنی اور مالی عبادت اللہ جل شانہ کو دے جو نہ تو فقیر ہے اور نہ عطا و بخشش سے عاجز ہے نیز یہ کہ نہ ظلم کرنے والا ہے کہ اپنے عہد کو پورا نہ کرے یا ناقص ثواب دے۔ یعنی اس پیرائے سے مسلمانوں کو دنیا میں نیک و صالح عمل کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ کون خوش نصیب اور با سعادت مسلمان ہے جو آخرت کی سعادتوں و راحتوں اور وہاں کے ثواب کی امید میں اس غنی پروردگار کے لئے دنیا میں نیک عمل کرے جو اس کے حق یعنی آخرت میں دنیا کے نیک عمل کا ثواب دینے سے عاجز نہیں ہے اور کون خوش نصیب وسعادت مند مومن ہے جو اس عادل اللہ کے لئے دنیا میں نیک عمل کرتا ہے تو اللہ جل شانہ اس کا ثواب اس کے عمل سے بھی کئی گنا زیادہ کر کے دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بطور خاص قابل غور ہے کہ یہاں اللہ جل شانہ کی تعریف بایں طور کی گئی ہے اس کی پاک ذات سے ان دونوں صفات یعنی فقر اور ظلم کی نفی کی گئی ہے کیونکہ قرض کی واپسی کے سلسلے میں یہی دونوں صفتیں حائل ہوتی ہے۔ اگر کوئی عاجز و فقیر ہوتا ہے تو وہ قرض کی واپسی سے معذور ہوتا ہے۔ اگر کوئی آدمی ظالم ہوتا ہے تو اپنے ظلم کی بنا پر قرض کی پوری ادائیگی نہیں کرتا بلکہ اس میں کمی و نقصان کر کے واپس کردیتا ہے اور اللہ جل شانہ کی ذات ان دونوں صفتوں سے پاک ہے۔ نہ تو وہ ظالم ہے اور نہ عاجز فقیر ہے بلکہ عادل ہے اور غنی ہے لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آدمی دنیا میں بھلائی کرے گا اور نیک عمل کرے گا وہ اللہ جل شانہ کے پاس عقبی میں کامل جزاء اور ثواب پائے گا۔

【498】

ہر رات میں قبولیت کی ایک ساعت ہوتی ہے

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رات کو ایک ایسی ساعت آتی ہے کہ جو مسلمان اسے پاتا ہے اور اس میں اللہ جل شانہ سے دنیا یا آخرت کی کسی بھلائی کا سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے (ضرور) پورا فرماتا ہے اور (قبولیت کی) یہ ساعت ہر رات میں ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ ہر شب کو ایک گھڑی ضرور آتی ہے جو قبولیت کی خوشخبری اپنے دامن میں لئے ہوئی آتی ہے جس با سعادت و خوش نصیب مسلمان کو وہ ساعت اور وہ گھڑی نصیب ہوجاتی ہے۔ اور وہ اس میں جل شانہ کے سامنے اپنی جس دنیاوی و اخروی بھلائی کے لئے درخواست پیش کرتا ہے بامراد و کامیاب ہوتا ہے اور اس کی درخواست بارگاہ رب العزت سے قبولیت کا درجہ پاتی ہے ہاں وہ قبولیت اللہ جل شانہ کی طرف سے عطا و بخشش حکما بھی ہوسکتی ہے اور حقیقۃً بھی۔ ساعت قبولیت کے تعین کے بارے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے چناچہ بعض حضرات تو فرماتے ہیں کہ یہ ساعت مبہم ہے جیسے لیلۃ القدر اور ساعت جمعہ کہ ان میں کسی خاص وقت کے بارے میں تعین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ ساعت فلاں وقت اور فلاں ٹائم آتی ہے اسی طرح ہر رات کو بھی قبولیت کی ساعت کا کوئی خاص وقت اور ٹائم مقرر نہیں ہے بلکہ کسی بھی وقت آجاتی ہے بعض علماء فرماتے ہیں کہ نصف شب کا وقت ساعت قبولیت ہے وا اللہ اعلم۔

【499】

حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نماز اور روزے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو تمام نمازوں میں سے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نماز زیادہ پسند اور تمام روزوں میں سے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے روزے زیادہ پسند ہیں اور ان کی نماز کی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ وہ آدھی رات سوتے اور تہائی رات قیام کرتے (یعنی نماز پڑھتے) اور پھر رات کے چھٹے حصے میں سوتے اور وہ (روزہ اس طرح رکھتے تھے) ایک دن تو روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چونکہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نماز اور ان کے روزے کا یہ طریقے بہت پسند تھا اس لئے اس طریقہ کے مطابق پڑھی جانے والی نفل نماز اور رکھے جانے والے نفل روزے اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔ مذکورہ بالا طریقے سے رات کو پڑھی جانے والی نماز اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب اس لئے ہے کہ جب کوئی آدمی رات کے دو تہائی حصے سوئے گا اور اس کا نفس اتنی دیر تک آرام کرلے گا تو اس کی عبادت پوری فرحت و بشاشت اور قلب و دماغ کے پورے نشاط کے ساتھ ادا ہوگی۔ اس طرح مذکورہ بالا طریقے سے رکھے جانے والے روزے بھی اس لئے پسندیدہ ہیں کہ اس میں نفس کو بہت زیادہ محنت و مشقت ہوتی ہے جو حاصل عبادت ہے۔

【500】

رات کی عبادت میں رسول اللہ ﷺ کا معمول

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کونین ﷺ (رات اس طرح بسر کرتے تھے کہ) آپ ﷺ رات کے ابتدائی حصے میں تو سوتے تھے اور رات کے آخری حصہ کو زندہ رکھتے (یعنی بیدار رہتے اور عبادت کرتے تھے) پھر اگر آپ کو اپنی زوجہ مطہرہ سے ( ہم بستری کی) ضرورت ہوتی تو اپنی ضرورت پوری کرتے اور سو جاتے، چناچہ اگر آپ (فجر کی) پہلی اذان کے وقت حالت ناپاکی میں ہوتے تو اٹھتے اور اپنے بدن پر پانی ڈالتے (یعنی نہاتے) اور اگر ناپاکی کی حالت میں نہ سوتے تو نماز کے لئے وضو کرتے اور پھر فجر کی سنت کی دو رکعتیں پڑھتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح شمائل میں حضرت عائشہ (رض) سے یہ روایت تفصیلی طور پر اس طرح بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ رات کے ابتدائی حصہ میں (یعنی عشاء کی نماز کے بعد سے آدھی رات تک) سوتے پھر رابع و خامس سادس یعنی چوتھے و پانچویں و چھٹے حصے میں تہجد کی نماز کے لئے اٹھتے جب سحر کا وقت ہوتا تو وتر پڑھتے پھر بستر پر (آرام فرمانے کے لئے) تشریف لے آتے (کیونکہ نماز تہجد وغیرہ سے فراغت کے بعد اور نماز فجر سے پہلے کچھ دیر تک آرام کرنا مستحب ہے تاکہ فجر کی نماز اور اس کے بعد کے اوراد وظائف کی ادائیگی کے لئے بشاشت و قوت حاصل ہو سکے) پھر اگر کسی دن آپ کو اپنی زوجہ مطہرہ سے ہم بستری کی ضرورت ہوتی تو اسے پورا کرتے یہاں تک کہ آپ ﷺ فجر کی اذان سن کر اٹھتے اور اگر حالت ناپاکی میں ہوتے تو اپنے بدن پر پانی ڈالتے یعنی نہاتے اور اگر حالت ناپاکی میں نہ ہوتے تو وضو کرتے اور فجر کی سنت کی دونوں رکعتیں گھر ہی میں پڑھ کر نماز کے لئے باہر مسجد میں تشریف لے جاتے۔ اس تفصیل کی روشنی میں حدیث بالا کے ابتدائی جزء رات کے ابتدائی حصے میں سوتے اور رات کے آخری حصہ کو زندہ رکھتے تھے کے معنی واضح ہوگے ہیں۔ بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ وظیفہ زوجیت سے فراغت کے بعد وضو کرتے ہوں گے، اس کے بعد پھر سوتے ہوں گئے۔ ندائے اول (پہلی اذان) سے مراد اذان متعارف ہے اور دوسری اذان تکبیر کو کہتے ہیں۔ حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ آدھی رات تو سوتے تھے اور آدھی رات اپنے پروردگار کی عبادت میں گذارتے تھے، کیونکہ اول سدس یعنی رات کے ابتدائی چھٹے حصے میں عشاء تک جاگتے تھے پھر عشاء کے بعد دوسرے تیسرے سدس میں آرام فرماتے تھے پھر چوتھے اور پانچویں سدس میں بیدار رہتے اور چھٹے میں سو جاتے اس طرح تین سدس تو آپ ﷺ سوتے اور تین سدس بیدار رہتے۔ ﷺ

【501】

نماز تہجد پڑھنے کی تاکید و فضیلت

اور حضرت ابوامامہ راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا قیام اللیل (یعنی نماز تہجد پڑھنے کو) ضروری جانو کیونکہ (اول تو) یہ طریقہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا ہے اور پھر مزید یہ کہ) قیام لیل تمہارے لئے پروردگار کی نزدیکی اور گناہوں کے دور ہونے کا سبب ہے، نیز یہ کہ تمہیں گناہوں سے باز رکھنے والا ہے۔ (جامع ترمذی ) تشریح نیک لوگوں سے مراد پہلے زمانے کے انبیاء اور اولیاء ہیں گویا اس طرح رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے لوگوں کو تنبیہ فرما رہے ہیں کہ تمہیں تو یہ نماز بطریق اولی پڑھنی چاہیے کیونکہ تم تو پہلے کی تمام امتوں سے بہتر اور اعلیٰ ہو۔ یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جو لوگ تمام فرائض کی نماز تو پڑھتے ہیں لیکن تہجد کی نماز نہیں پڑھتے تو وہ صالحین کا ملین کے زمرے میں داخل نہیں ہیں بلکہ ان کا درجہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ظاہری طور پر زکوٰۃ دینے والوں کا درجہ ہوتا ہے ان لوگوں کے مقابلے پر جو پوشیدہ طور پر زکوٰۃ دیتے ہیں۔

【502】

نماز تہجد پڑھنے والوں کی خوش بختی

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا تین (قسم کے) لوگ ایسے ہیں جن کی طرف (دیکھ کر) اللہ جل شانہ ہنستا ہے (یعنی ان سے بےحد خوش ہوتا ہے اور ان کی طرف اپنی رحمت و عنایت کی نظر فرماتا ہے) (١) وہ آدمی جو رات کو تہجد کی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے (٢) وہ لوگ جو نماز پڑھنے کے لئے اپنی صفوں کو درست کرتے ہیں (٣) وہ لوگ جو دشمنوں سے لڑنے کے لئے (یعنی جہاد کے وقت) صف بندی کرتے ہیں۔ (شرح السنۃ)

【503】

نماز تہجد پڑھنے والوں کی خوش بختی

اور حضرت عمرو بن عنبسہ راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا پروردگار اپنے بندے سے سب سے زیادہ قریب آخری شب میں ہوتا ہے لہٰذا اگر تم بھی اس وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں میں ہوسکتے ہو تو ضرور ہو یعنی اس بات کی کوشش کرو تم بھی ان خوش نصیب مسلمانوں میں شمار کئے جاؤ جو اس وقت اپنے پروردگار کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں اور سعادت میں خوش بختی کے خزانے اپنے دامن میں سمیٹ کر پروردگار کی رضا و خوشنودی کو اپنے قریب تر پاتے ہیں) امام ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور سند کی وجہ سے غریب ہے۔ تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رات کا آخر حصہ بایں طور افضل و اشرف ہے کہ وہ اپنے دامن میں پروردگار کی رحمتوں اور اس کی عنایتوں کے خزانے سمیٹے ہوئے ہوتا ہے، اب یہ قسمت اور مقدروالوں کی بات ہے کہ کون اس خزانے سے مستفید ہوتا ہے اور کون محروم رہ جاتا ہے۔ چنانچہ جن کی طبیعت سعادت مند ہوتی ہے وہ رات کے اس حصے میں اٹھ کر رحمت الٰہی کے خزانے سے اپنے دامن کو بھرتے ہیں اور جو حرماں نصیب ہوتے ہیں وہ شیطان کی لوریاں کھا کھا کر نہ صرف اپنے دل و دماغ اور جسم کو نیند کے حوالے کئے ہوتے ہیں بلکہ ان کی سعادت اور ان کی خوش بختی بھی غفلت و سستی کی نذر ہوجاتی ہے۔ بہر حال پروردگار کا اپنے بندے سے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی رضا و خوشنودی بندے سے قریب تر ہوتی ہے اور اس کی رحمتوں کا سایہ بندے کے اوپر ہوتا ہے۔ آخری نصف رات سے رات کا وہ حصہ مراد ہے جس کی ابتداء ثلث آخر (یعنی آخری تہائی) سے ہوتی ہے اور وہی وقت تہجد کی نماز کے لئے اٹھنے کا ہوتا ہے۔ حضرت عمرو بن عنبسہ جنہیں لسان نبوت سے حدیث میں مذکورہ سعادت حاصل کرنے کے لئے فرمایا جا رہا ہے حضرت حق جل مجدہ کی درگاہ کبریائی کے ایک مجذوب اور دربا رسالت ﷺ کے ایک مقرب اور زی شان خادم تھے ان کی بہت زیادہ عظمت اور فضیلت ہے۔ ابتداء ظہور نبوت میں جبکہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں کفر و شرک سے اکڑی ہوئی ہوئی گردنوں کو خدائے واحد کے حضور میں جھکانے کی سعی میں مصروف تھے اور آپ ﷺ کی تبلیغ کی ابتداء ہوچکی تھی تو حضرت عمرو بن عنبسہ اپنے وطن میں تھے یکایک ان کے دل میں نور توحید ضوفشاں ہوا اور شرک و بت پرستی کی کراہیت و نفرت نے بےچین کردیا، جب ہی سنا کہ ایک آدمی مکہ میں پیدا ہوا ہے جو لوگوں کو توحید کی طرف بلاتا ہے اور بتوں کی عبادت سے منع کرتا ہے، یہ سنتے ہی قلب مضطر نے فوراً ہی مکہ پہنچنے پر مجبور کردیا، انہوں نے مکہ پہنچ کر رسول اللہ ﷺ کے بارے میں دریافت کیا، رسول اللہ (فداہ روحی) اس زمانے میں کفار کی شدید مخالفت اور دشمنان دین کی بےپناہ سختیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے دشمنوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر اللہ کے دین کی تبلیغ اور اس کی عبادت میں مصروف تھے، حضرت عمرو بن عنبسہ نے لوگوں سے پوچھا کہ تم میں کون آدمی پیدا ہوا ہے جو تمہاری روش اور تمہارے راستے سے ہٹ کر دوسرے دین کی طرف دنیا کو بلاتا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہے کہ ہاں ایک دیوانہ ہے (آپ ﷺ کی عقل و دانش پر دونوں جہان قربان) جس نے اپنے باپ دادا کا طریقہ اور راستہ چھوڑ دیا ہے اور ایک نئی رسم نکالی ہے۔ دیوانہ کنی ہر دوجہانش بخشی دیوانہ تو ہر دو جہاں راچہ کند انہوں نے پوچھا کہ اچھا وہ کہاں ملیں گے ؟ لوگوں نے کہا کہ وہ آدمی آدھی رات کو باہر نکالتا ہے اور اس خانہ کعبہ کے اردگرد گھومتا ہے۔ حضرت عمرو بن عنبسہ آدھی رات کے وقت حرم شریف میں آئے اور کعبۃ اللہ کے پردہ مبارک میں چھپ کر کھڑے ہوئے اچانک دیکھا کہ ایک آدمی ظلمتوں کے پردوں کو چیرتا ہوا نور کی ایک دنیا اپنے جلوؤں میں لئے نمودار ہوا۔ اس آدمی کی سراپا کشش، آدمییت اور نورانی چہرے و جسم کا یہ عالم کہ مہر و ماہ اس کے سامنے شرمندہ اور دنیا کے تمام لوگ اس کے پاک آستانے کی خاک ﷺ عمرو فوراً پردہ سے نکل کر باہر آئے اور نمودار ہونے والے آدمی کو سلام کیا اور پوچھا کہ آپ کون ہیں اور آپ کا دین کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں ﷺ اور میرا دین لا الہ الا اللہ ہے یہ خوشی سے جھوم اٹھے اور فورا بولے کہ میں بھی اس دین کو پسند کرتا ہوں چناچہ سرکار دو عالم ﷺ کے سامنے جبھی ایمان لائے، اس طرح حضرت عمرو بن عنبسہ تیسرے یا چوتھے مسلمان ہیں یعنی ان سے پہلے صرف دو یا تین آدمی ہی اسلام کی دولت سے مشرف ہوچکے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے انہیں رخصت کیا اور فرمایا کہ میرے پروردگار نے مجھ سے ایک وعدہ کیا ہے۔ جب وہ وعدہ پورا ہوگا تو میرے پاس آنا چناچہ رسول اللہ ﷺ جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو عمرو بن عنبسہ آپ ﷺ کے پاس مدینہ پہنچ گئے اور آپ ﷺ کی خدمت میں رہنے کی سعادت حاصل کی اور نگاہ نبوت کی کرشمہ سازی نے آپ ﷺ کو درجہء کمال پر پہنچا دیا۔

【504】

عبادت میں ایک دوسرے کی مدد کی جائے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحمت نازل فرمائے جو رات کو اٹھ کر (خود بھی تہجد کی) نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی جگائے تاکہ وہ بھی نماز پڑھے اور اگر بیوی (نیند کے غلبے اور کثرت غفلت و سستی کی وجہ سے) نہ جاگے تو (اس کی نیند ختم کرنے کے لئے) اس کے منہ پر پانی کے چھنیٹے ڈالے اور اللہ تعالیٰ اس عورت پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو رات کو اٹھ کر (خود بھی تہجد) کی نماز پڑھے اور اپنے خاوند کو جگائے تاکہ وہ بھی نماز پڑھے اور اگر شوہر (غلبہء و نیند و سستی کی وجہ سے) نہ جاگے تو وہ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے ڈالے۔ (ابوداؤد، سنن نسائی ) تشریح رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے سے مراد تہجد کی ہی نماز ہے لیکن اگر مرد و عورت کسی کی بھی کوئی نماز قضا ہوگئی ہو اور اس وقت اس کے ذمہ قضا ہو تو قضا نماز کا پڑھنا ہی اس وقت اولی ہوگا۔ منہ پر پانی کے چھینٹے دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو نماز پڑھنے اور پروردگار کی عبادت کے لئے بیدار کرنے کے واسطے جس طرح بھی ممکن ہو، سعی و کوشش کرے۔ بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ خاوند و بیوی جس طرح سماجی زندگی اور دنیاوی امور میں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہوتے ہیں اسی طرح انہیں دینی امور، طاعت الہٰی اور عبادت الٰہی کے بارے میں ایک دوسرے کا مددگار و معاون بننا چاہیے اور اگر کسی وقت بیوی نماز نہ پڑھے تو شوہر کا حق ہے کہ وہ اسے جس طرح بھی ممکن ہو نماز پڑھنے پر مجبور کرے۔ اسی طرح اگر خاوند نماز پڑھنے میں تساہل و سستی کرے یا کسی ایسی وجہ سے نماز پڑھنے سے رک جائے جو نماز کی ادائیگی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے تو بیوی کا حق ہے کہ وہ اسے پوری قوت سے نماز پڑھنے کے لئے کہے اور جو چیز اس کے نماز پڑھنے میں رکاوٹ بن رہی ہے اسے ختم کرے۔ مثلاً اگر میاں بیوی دونوں میں سے کوئی ایک اس طرح غفلت میں پڑا ہوا ہے کہ اس کی نماز خواہ فرض نماز ہو یا تہجد وغیرہ کی نماز رہی جاتی ہو تو دونوں میں سے جو بھی بیدار ہو وہ دوسرے کو بھی نیند سے اٹھائے اگر وہ نہ اٹھے تو ایسی ترکیب کرے جس سے اس کی نیند ختم ہوجائے اور وہ اٹھ کر نماز پڑھ سکے۔ اسی طرح کسی ایک جگہ اجتماعی طور پر رہنے والے لوگوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں اور رفیقوں میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار بن کر رہیں اور ایک دوسرے کو نماز پڑھنے اور عبادت الٰہی میں مشغول و مصروف رکھنے کی کوشش کریں۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ کسی آدمی پر بھلائی کے معاملے میں جبر کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔

【505】

قبولیت دعا کا وقت

اور حضرت ابوامامہ (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرور کونین ﷺ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ! کس وقت کی دعا بہت زیادہ مقبول ہوتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا آخری تہائی رات میں اور فرض نمازوں کے بعد۔ (جامع ترمذی)

【506】

اعمال صالحہ کرنے والوں کے لئے خوشخبری

اور حضرت ابومالک اشعری راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کے باہر کی چیزیں اندر اور اندر کی چیزیں باہر دکھائی دیتی ہیں۔ اور یہ بالا خانے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے تیار کئے ہیں جو دوسرے لوگوں سے نرمی سے بات کرتے ہیں (غریب و ناداروں کو) کھانا کھلاتے ہیں، پے در پے (یعنی اکثر) نفل روزے رکھتے ہیں اور رات کو ایسے وقت (تہجد) کی نماز پڑھتے ہیں جب کہ (اکثر) لوگ نیند کی آغوش میں ہوتے ہیں۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ نیز جامع ترمذی نے بھی اس طرح کی روایت کو حضرت علی المرتضیٰ سے نقل کیا ہے مگر ان کی روایت میں لمن اطاب الکلام کے الفاظ ہیں (اور دونوں کے معنی ایک ہی ہیں) ۔ تشریح بعض علماء فرماتے ہیں کہ حدیث میں پے در پے نفل روزے رکھنے کے بارے میں جو فرمایا گیا ہے تو اس کا آخری درجہ یہ ہے کہ ہر مہینے میں کم سے کم تین روزے بہ نیت نفل رکھے جائیں۔

【507】

نماز تہجد کو ترک کرنے کی ممانعت

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے (ایک روز) مجھ سے فرمایا کہ عبداللہ (دیکھو) فلاں آدمی کی طرح نہ ہوجانا کہ وہ رات کو قیام کرتا تھا (یعنی تہجد کی نماز پڑھتا تھا) پھر بعد میں رات کے قیام کو اس نے چھوڑ دیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح کوئی صحابی ہوں گے جو پہلے تو تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے مگر پھر بعد میں بغیر کسی عذر کے محض نفس کی خواہش میں مبتلا ہو کر اس عظیم سعادت سے کنارہ کشی کر بیٹھے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو کو متنبہ فرمایا کہ دیکھو کہیں تم بھی انہیں کی طرح نماز تہجد کو چھوڑ کر فریب نفس میں مبتلا نہ ہوجانا کیونکہ ایسے لوگ جو نیک عمل کی عادت اور اپنے معمولات دینی کو بغیر کسی عذر و مجبوری کے چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان لوگوں کے سلسلے میں داخل ہوجاتے ہیں جن کے بارے میں صحیح فیصلہ یہی ہے کہ تَارِکُ الْوِرْدِ مَلْعُونٌ (یعنی معمولات دینی کو چھوڑنے والا ملعون ہے) ۔ گویا اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ عبادت الٰہی کو ترک کردینا اور عادت یعنی نفسانیت کے غلط راستے کی طرف لوٹنا درحقیقت سعادت مندی اور صلاح و فلاح میں زیادتی کے بعد نقصان کا واقع ہوجانا ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے بایں طور پناہ مانگی ہے کہ نعوذ باللہ من الحور بعد الکور (یعنی ہم زیادتی کے بعد نقصان کے واقع ہوجانے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ لہٰذا راہ طریق و شریعت کے سالک کو چاہیے کہ نہ صرف یہ کہ وہ اپنی عبادت الٰہی اور ذکر اللہ کی عادت کو ترک نہ کرے اور اس میں کمی نہ اختیار کرے بلکہ ان میں زیادتی ہی کا طالب رہے کیونکہ یہ کہا گیا ہے جو آدمی زیادتی کا طالب نہیں ہے وہ نقصان کے راستے پر ہے۔

【508】

رات کو حضرت داؤد (علیہ السلام) کی عبادت اور ساعت قبولیت

اور حضرت عثمان بن العاص (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت داؤد کے لئے رات ( کے آخری نصف حصہ میں) ایک وقت مقرر تھا جس میں وہ اپنے اہل خانہ کو جگاتے اور فرماتے کہ آل داؤد ! اٹھو اور نماز پڑھو کیونکہ یہ ایسا وقت ہے جس میں اللہ بزرگ و برتر دعا کو قبول فرماتا ہے سوائے جادوگر اور عشار (کی دعا) کے (یعنی ان دونوں کی دعا اس وقت بھی قبول نہیں ہوتی ) ۔ (مسند احمد بن حنبل ) تشریح عشار سے چوکیدار قسم کے وہ راہزن مراد ہیں جو راستوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور لوگوں کے مال ازراہ ظلم لے لیتے ہیں اس سے وہ عمال بھی مراد لئے جاسکتے ہیں جو محصول وغیرہ کی وصولیابی کے لئے مقرر ہوتے ہیں اور ناجائز و غلط طریقے پر لوگوں سے ان کے مال و اسباب غصب کرتے ہیں۔ بہر حال حاصل یہ ہے کہ اس مقدس ساعت اور رحمت الٰہی کے عام فیضان کے اس بابرکت موقع پر بھی ساحر یعنی جادوگر اور عشار کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ ان لوگوں سے اللہ کی مخلوق کو بہت تکلیف پہنچتی ہے اور پروردگار عالم ان لوگوں کے ساتھ کبھی بھی بہتر معاملہ نہیں فرماتا جو اس کی مخلوق کے لئے ایذارسانی اور تکلیف و مصیبت کا سبب بنتے ہیں، وجہ سے بعض عارفین کا یہ عارفانہ ارشاد ہے کہ کمال عبودیت یعنی پوری طرح اللہ کا بندہ ہوجانا چاہیے کہ حکم الٰہی کی تعظیم کی جائے اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ شفقت و مہربانی کا برتاؤ کیا جائے۔

【509】

نماز تہجد کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کو پڑھی جانے والی (یعنی تہجد کی) نماز ہے۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح حضرت میرک شاہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حضرت ابواسحق مروزی شافعی کے اس قول کی دلیل ہے کہ تہجد کی نماز سنن رواتب سے افضل ہے جبکہ اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ سنن رواتب افضل ہیں چناچہ ابواسحق مروزی ہی کا قول قوی تر ہے کیونکہ یہ حدیث صراحت کے ساتھ ان کے قول کی تائید کر رہی ہے۔ بہر حال اس مسئلے کی تحقیق یہ ہے کہ نماز تہجد بایں طور افضل ہے کہ اس نماز میں نفس بہت زیادہ مشقت میں مبتلا ہوتا ہے اور اس نماز کو پڑھنے والا ریا و نمائش سے بعید ہوتا ہے اور سنن رواتب بایں جہت افضل ہیں کہ فرض نمازوں کے ساتھ ان کے پڑھنے کے بہت تاکید کی گئی ہے نیز یہ کہ سنن رواتب فرض نمازوں کے لئے متمم ہیں یعنی ان کے ذریعے فرض نمازیں درجہ کمال و اتمام کو پہنچتی ہیں، لہٰذا اس طرح دونوں کی افضلیت اپنی اپنی جگہ مسلم ہے اور دونوں اقوال میں کوئی منافات نہیں ہے، یا پھر رات کی نماز کی فضیلت کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ رات کی نماز اس لئے افضل ہے کہ یہ وتر پر بھی مشتمل ہے اور وتر واجب ہے۔ سید الطائف حضرت جنید بغدادی (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ انتقال کے بعد انہیں کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ پروردگار نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ تاھت العبادات وفنیت الا شارات وما نفعنا الا رکعات صلینا ھا فی جوف اللیل۔ وہ باتیں جو میں حقائق و معارف کے بیان میں کہتا تھا جاتی رہیں اور وہ نکات جو میں بیان کیا کرتا تھا ختم ہوگئے مجھے تو صرف نماز کی ان چند رکعتوں نے فائدہ دیا جو نصف شب کو پڑھا کرتا تھا۔ گویا طالبین راہ حقیقت و شریعت اور سالکین راہ طریقت کو ترغیب دلائی گئی کہ تصوف و طریقت کے حکمات و نکات کے پیچھے نہ پڑو اور گفتار کے نہیں کردار کے غازی بنو، عملی زندگی کو سنوار نے اور اللہ کی بندگی کی راہ پر لگانے کی پوری پوری کوشش کرو اور عبادت و ریاضت کا پورا پورا اہتمام کرو کیونکہ اسی میں دنیا کی بھلائی ہے اور آخرت کی بھی۔ کارکن کار، بگزر از گفتار کاندریں راہ کار دارو کار

【510】

تہجد کی نماز برائی سے روکتی ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی سرور کونین ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فلاں آدمی رات کو تو نماز پڑھتا ہے مگر صبح اٹھ کر چوری کرتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا عنقریب اس کی نماز اسے اس چیز سے روک دے گی جو تم کہہ رہے ہو۔ (مسند احمد بن حنبل، بیہقی) تشریح نماز کی خاصیت ہے کہ وہ انسان کو برائی کے راستے سے روکتی ہے اور نیکی کے راستے پر گامزن کرتی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے آیت ( اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَا ءِ وَالْمُنْكَرِ ) 29 ۔ العنکبوت 45) نماز بےحیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے جب ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا گیا جو رات کو تو عبادت الٰہی یعنی نماز تہجد میں مشغول رہتا اور صبح اٹھ کر چوری جیسے برے فعل کا مرتکب ہوتا تھا تو آپ ﷺ نے یہی فرمایا کہ اگر وہ خلوص نیت اور جذبہ خالص کے تحت رات کی نماز پر مداومت کرتا ہے تو انشاء اللہ جلد ہی اللہ تعالیٰ اس نماز کی برکت سے اسے اس فعل قبیح سے توبہ کی توفیق عطا فرما دے گا اور اپنے قلب و دماغ میں نماز کی برکت و نورانیت کے اثر کی وجہ سے وہ چوری سے باز رہے گا۔

【511】

اہل خانہ کے ہمراہ نماز تہجد پڑھنے کی فضیلت

اور حضرت ابوسعید خدری و حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا اگر کوئی آدمی رات میں بیوی کو جگائے اور وہ دونوں نماز پڑھیں، یا یہ فرمایا کہ ان میں سے ہر ایک دو رکعتیں اکٹھی پڑھیں تو وہ (دونو) ذکر کرنے والے مردوں اور ذکر کرنے والی عورتوں (کے زمرے) میں لکھے جاتے ہیں۔ (ابوداؤد و ابن ماجہ) تشریح حدیث میں لفظ اہل سے مراد صرف بیوی بھی لی جاسکتی ہے اور بیوی اولاد، غلام اور لونڈیاں بھی مراد لی جاسکتی ہیں۔ درمیان روایت میں راوی کو شک واقع ہوگیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لفظ فَصَلَّیَا (یعنی اور وہ دونوں نماز پڑھیں) فرمایا ہے۔ یا لفظ صلی (یعنی ہر ایک دو رکعتیں اکٹھی پڑھیں) فرمایا ہے۔ بہرکیف یہ صرف لفظی اختلاف ہے دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔ آیت ( وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا 35) 33 ۔ الاحزاب 35) اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے مرد اور عورتیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مغفرت اور بہت زیاہ ثواب (کا اجر و انعام) تیار کر رکھا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو آدمی رات کو خود بھی اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھے گا اور ذکر اللہ میں مشغول رہے گا اور اپنی بیویو دیگر اہل خانہ کو بھی جگا کر اللہ کی عبادت میں مشغول رکھے گا تو ان سب کا شمار ان نیک و با سعادت مرد و عورتوں میں ہوگا جن کی فضیلت اس آیت میں بیان کی جاری ہے۔

【512】

امت میں بلند مرتبہ کون لوگ ہیں

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا میری امت کے اشراف یعنی بلند مرتبہ لوگ قرآن اٹھانے والے (اور رات (میں اٹھنے) والے ہیں۔ (بیہقی) تشریح قرآن اٹھانے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم یاد کرتے ہیں اور اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں بایں طور کہ قرآن نے جن امور کو کرنے کا حکم دیا ہے ان کو کرتے ہیں اور جن امور سے منع کیا ہے ان سے بچتے ہیں، آنحضور ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ میری امت کے بلند مرتبہ اور باسعادت افراد ہیں، چناچہ قرآن حفظ کرنے والے اور اس کے احکام کے پابند لوگوں کی فضیلت ایک دوسری روایت میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جس آدمی نے قرآن حفظ کیا تو بیشک اس پر فیضان نبوت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں مگر اس کے پاس وحی (یعنی وحی جلی) نہیں آتی، البتہ وحی خفی اس کے پاس آتی ہے (یعنی وحی جلی کے مطالب و معارف کا فیضان اس کے قلب و دماغ پر ہوتا ہے) مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم حفظ کرنے والا آدمی اس وجہ سے بہت زیادہ فضیلت وسعادت کا پیکر مانا جاتا ہے کہ اس کے قلب کے اندر قرآن کے الفاظ کی شکل میں نور نبوت و دیعت فرما دیا جاتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وحی خفی یعنی قرآن کے ظاہری الفاظ کے مطالب و معارف کا فیضان اس کے قلب و دماغ کو منور کردیتا ہے اور قرآن کے الفاظ کے نور کی برکت سے وحی جلی پر (جو کہ انبیاء کا مخصوص حصہ ہے) اس کا ایمان و ایقان قوی تر ہوتا ہے۔ علامہ یحییٰ فرماتے ہیں کہ قرآن حفظ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن یاد کرے اور اپنی عملی زندگی کو اس کے سانچے میں ڈھالے، بایں طور کہ قرآن نے جو احکام دیئے ہیں ان پر پوری قلبی خلوص اور مداومت کے ساتھ عمل کرے ورنہ تو محض قرآن یاد کرنے والا اور اس پر عمل کرنے والا ان لوگوں میں شمار کیا جاتا جن کے بارے میں حق تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ آیت ( كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا) 62 ۔ الجمعہ 5) یعنی (جو لوگ حافظ قرآن ہوں مگر عامل قرآن نہ ہوں تو) وہ ایسے ہیں جیسے کہ گدھے پر کتابیں لاد دی جائیں۔ یعنی جس طرح کہ گدھے پر کتابیں لاد دینے سے گدھے کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں پہنچتا بالکل اسی طرح قرآن پر عمل کرنے والے حافظ کو بھی قرآن حفظ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور وہ سعادت و مرتبے کے اعتبار سے کسی بھی حیثیت میں نہیں ہوتا۔ اَصْحَابُ اللَّیْلِ (رات والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جو نماز و قرآن پڑھنے کے شب بیداری پر مداومت کرتے ہیں یعنی پابندی کے ساتھ روزانہ رات کو اٹھتے ہیں اور عبادت الٰہی و ذکر اللہ میں مشغول ہوتے ہیں ایسے لوگ اللہ اور اللہ کے رسول کی نظروں میں بڑی فضیلت کے حامل ہوتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق امت مرحومہ کے بلند مرتبہ افراد میں شمار کئے جاتے ہیں۔

【513】

رات کی عبادت کے سلسلے میں حضرت عمر کا معمول

اور حضرت عبداللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ ان کے پدر بزرگوار حضرت عمر بن خطاب رات کو جس قدر اللہ چاہتا نماز پڑھتے رہتے اور رات جب آخر ہوتی تو اپنی زوجہ محترمہ کو نماز پڑھنے کے لئے اٹھاتے اور فرماتے کہ نماز پڑھو، پھر یہ آیت پڑھتے ( وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْ َ لُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى ١٣٢) 20 ۔ طہ 132) (اور اے محمد ﷺ اپنے متعلیقن کو بھی نماز کا حکم کرتے رہیے اور خود بھی اس (کی مشقتوں) پر صبر کیجئے ہم آپ ﷺ سے رزق نہیں مانگتے، رزق ہم ہی آپ ﷺ کو دیتے ہیں اور آخرت کی بھلائی تو پرہیز گاروں ہی کے لئے ہے۔ (مالک) تشریح آیت کا مطلب یہ ہے کہ اپنے متعلیقن اور اہل خانہ کو نماز پڑھنے کی ہدایت کرتے رہیے اور خود بھی نماز پڑھنے کی مشقتوں محنتوں پر صبر کیجئے اور اس سلسلہ میں آپ ﷺ کے متعلقین کو بھی جو محنت و مشقت اٹھانی پڑے اسے بھی برداشت کیجئے اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی میں مشغول رہیے، اللہ تعالیٰ کی ذات پر تو کل کیجئے، اسی سے ظاہری و باطنی غناء کے لئے مدد کے طلبگار رہیے اپنے رزق اور معاش کی فکر نہ کیجئے اور دیکھئے ہم آپ ﷺ سے رزق نہیں مانگتے کہ اپنے رزق اور اسباب معیشت کے حصول اور دوسروں کے لئے رزق کی ذمہ داری آپ کو جدوجہد اور محنت و سعی کے ایسے بندھنوں میں باندھ دے جو آپ ﷺ کے لئے ادائیگی نماز میں رکاوٹ بن جائے جس طرح ہم دوسروں کو رزق دیتے ہیں اسی طرح آپ ﷺ کو بھی رزق بخشتے ہیں، آپ ﷺ کا کام تو صرف یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کے امور سے منہ موڑ کر اپنے قلب و دماغ کو صرف آخرت کی بھلائی اور اپنے متعلقین کی اصلاح میں مصروف رکھیے اور یہ جان لیجئے کہ عاقبت محمودہ یعنی دنیا اور آخرت دونوں جگہ انجام کار بخیر ہونا صرف متقیوں اور اللہ کے نیک بندوں ہی کے لئے ہے

【514】

اعمال میں میانہ روی اختیار کرنے کا بیان

اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے معلوم ہوگا کہ جس طرح دنیاوی امور میں افراط وتفریط یعنی حد سے زیادہ زیادتی اور حد سے زیادہ کمی غیر نفع بخش ہے اسی طرح دینی امور یعنی اعمال نفل میں بھی افراط وتفریط مطلوب نہیں ہے بلکہ اس راستے پر بھی میانہ راوی اور ان میں اعتدال اختیار کرنا ضروری ہے۔

【515】

اعمال میں میانہ روی اختیار کرنے کا بیان

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ مہینہ (کے اکثر ایام) میں (نفل) روزہ نہ رکھتے، یہاں تک کہ ہم گمان کرتے کہ آپ ﷺ اس مہینے میں روزہ نہیں رکھیں گے اور آپ ﷺ مہینہ ( اسی مہینے یا دوسرے مہینے کے اکثر ایام) میں روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم گمان کرتے کہ اب (اس مہینے کا) کوئی دن بھی آپ ﷺ بغیر روزے کے نہیں چھوڑیں گے اور اگر آپ ﷺ کو رات کو نماز پڑھتے ہوئے تم دیکھنا چاہتے ہو تو نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھ لیتے اور اگر آپ ﷺ کو رات کو سوتے ہوئے تم دیکھنا چاہتے تو سوتے ہوئے ہی دیکھ لیتے۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اعمال نفل میں اعتدال کی راہ اختیار فرماتے تھے چناچہ نہ تو آپ ﷺ ہمیشہ روزہ ہی رکھتے تھے کہ افراط یعنی زیادتی لازم آتی اور نہ ہمیشہ بغیر روزے کے ساتھ رہتے تھے کہ تفریط یعنی کمی لازم آتی، بلکہ آپ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ ہر مہینے میں کچھ دن تو آپ ﷺ روزے سے رہا کرتے تھے اور کچھ دن بغیر روزے کے۔ اسی طرح نفل نماز کے سلسلے میں بھی آپ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ رات کو آپ ﷺ سوتے بھی تھے اور نماز بھی پڑھتے تھے نہ تو تمام رات سوتے ہی تھے اور نہ تمام رات نماز ہی میں گزارتے تھے۔ غرضیکہ تمام امور میں آپ ﷺ کا عمل اوسط درجے کا تھا، نہ زیادہ تھا اور نہ کم تھا۔

【516】

مداومت عمل کی فضیلت

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا (بندوں کے نیک اعمال میں) اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت مظہر فرماتے ہیں کہ اہل تصوف و طریقت اسی حدیث کے پیش نظر اورادو وظائف کو ترک کرنا ایسا ہی برا جانتے ہیں جیسا کہ فرائض کے ترک کو، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ ترک اولیٰ ہے یعنی فرائض کے ترک اور اوراد وظائف کے ترک میں فرق ہے، فرائض کا ترک گناہ کبیرہ ہے جبکہ اوراد وظائف کا ترک اولیٰ کا ترک کرنا ہے اور ظاہر کہ اولیٰ کا ترک کرنا فرائض کے ترک کرنے کے درجے میں نہیں آسکتا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ جب بندے نے طاعت بغیر ضرورت کے ترک کی تو گویا اس نے مولیٰ کی عبادت سے اعراض کیا لہٰذا وہ عتاب کا مستحق ہوا، بخلاف مداومت کرنے والے کے کہ وہ اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ پروردگار کا محبوب ہو۔ وَاِنْ قَلَّ (اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو) کا مطلب یہ ہے کہ تھوڑا عمل اگر اس پر مداومت و مواظبت اختیار کی جائے تو وہ زیادہ عمل سے جب کہ اس کے آداب و شرائط کی رعایت نہ ہوتی ہو اور ہمیشہ نہ کیا جاتا ہو، بہتر ہے۔

【517】

بساط سے باہر عبادت نہیں کرنی چاہیے

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا تم اسی قدر عمل کیا کرو جتنی کہ (ہمیشہ) کرنے کی طاقت رکھتے ہو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے میں) تنگی نہیں کرتا یہاں تک کہ تم خود تنگی نہ کرو (یعنی تنگ آکر عبادت ہی نہ چھوڑ دو ) ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح مطلب یہ ہے کہ اپنے لئے اتنی زیادہ عبادت ضروری قرار نہ دے دو جسے تم ہمیشہ نباہنے کی طاقت نہ رکھتے ہو بلکہ اسی قدر عبادت کرو کہ جتنی تم ہمیشہ پابندی کے ساتھ کرسکو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے میں تنگی نہیں کرتا یعنی ثواب دینا ترک نہیں کرتا یہاں تک کہ تم خود عبادت کی زیادتی سے پریشان ہو کر سرے سے عبادت ہی نہ چھوڑ دو ۔ حاصل یہ کہ اللہ جل شانہ عبادت کرنے والے کو ثواب دئیے جاتا ہے ہاں اگر کوئی آدمی زیادتی کے سبب تھک کر عبادت چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ ثواب دینا بھی چھوڑ دیتا ہے لہٰذا عبادت کے معاملے میں اعتدال کی راہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہمیشہ عبادت جاری رہے اور حق تعالیٰ کی طرف سے ثواب کا سلسلہ بھی قائم رہے

【518】

اس وقت تک عبادت کرنی چاہے جب تک دل گلے

اور حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا تمہیں چاہے کہ اسی وقت تک نماز پڑھو جب تک کہ خوش دلی رہے اور جب طبیعت سست ہوجائے تو بیٹھ جاؤ۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کا حاصل یہ ہے کہ آخرت کی راہ سعادت اور بھلائی اختیار کرنے والے کو چاہیے کہ عبادت میں اپنی بساط اور طاقت کے مطابق کوشش کرے طاعت کے معاملے میں میانہ روی اختیار کرے اور تنگ دلی و انقباض کے ساتھ عبادت کرنے سے احتراز کرے۔ عبادت اسی وقت تک کرے جب تک کہ بشاشت قلبی اور سکون و اطمینان حاصل رہے۔ جب طبیعت سست ہوجائے تو عبادت ترک کر دے، اگر کوئی آدمی عبادت کرتے کرتے تھک جائے اور سست ہوجائے، نیز عبادت چھوڑ کر اس خیال سے کسی امر مباح میں مشغول ہوجائے مثلاً سو جائے یا گفتگو وغیرہ میں لگ جائے تاکہ آئندہ عبادت کے لئے مزید بشاشت و خوشی اور اطمینان و سکون حاصل ہو سکے تو اس کی یہ مشغولیت عبادت وطاعت ہی میں شمار کی جاتی ہے۔ اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ عالم کی نیند ( بھی) عبادت ہے کسالت و ملالت اور طبیعت کی تنگی کے وقت نفل اعمال کو ترک کردینے کے سلسلے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں، چناچہ ایسے موقعہ پر جبکہ طبیعت میں اضمحلال اور سستی پیدا ہوجائے نفل اعمال کو ترک کردینے کی اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ عمل کا نفس پر گراں ہونا آخر کار عمل کے بالکل چھوٹ جانے یا اس میں نقصان واقع ہوجانے کا سبب بن جاتا ہے۔ لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ نفس کو بہت زیادہ عبادت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ طبیعت عبادت کی مشقت و ریاضت کی خوگر ہوجائے، کاہل طبیعت، آرام طلب اور سست مزاج لوگوں کی طرح ہوجانا چاہیے جو کہ مختصر سی عبادت اور تھوڑے سے عمل میں بھی تھک جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عبادت اور ریاضت و مجاہدہ کو ادھورا چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن بہت زیادہ عبادت کرنے کی اگر عادت پڑجاتی ہے تو زیادہ سے زیادہ عبادت طبیعت پر گراں نہیں ہوتی، چناچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو پہلے دو رکعت نماز پڑھنی اور قرآن کے ایک پارے کی تلاوت بھی گراں گذرتی تھی اور اس کی وجہ سے ان کی طبیعت میں سستی و اضمحلال پیدا ہوجاتا تھا انہوں نے ہی جب زیادہ عبادات اور ریاضت و مجاہدہ کی عادت پیدا کرلی اور اپنے نفس اور اپنی طبیعت کو راہ الٰہی کی سعادتوں کے حصول کی خاطرمشقت و محنت کا عادی بنا لیا تو انہیں سو رکعت نماز پڑھنی اور قرآن کے دس پاروں کی تلاوت بھی آسان معلوم ہونے لگی۔

【519】

اونگھنے کی حالت میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کی حالت میں اونگھنے لگے تو اسے چاہیے کہ سو رہے یہاں تک کہ نیند جاتی رہے کیونکہ جب تم میں سے کوئی اونگھتا ہوا نماز پڑھتا ہے تو نیند کے غلبے کی وجہ سے اسے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ وہ تو مغفرت کا طالب ہو مگر (اونگھنے کی وجہ سے) اپنے نفس کے لئے (اس کی زبان سے) بد دعا نکل جائے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح مطلب یہ کہ نیند کے غلبے اور اونگھنے کی حالت میں نماز نہ پڑھی جائے کیونکہ ایسے وقت پر نہ تو دل و دماغ حاضر رہتے ہیں اور نہ زبان ہی قابو میں ہوتی ہے یہی وجہ سے کہ ایسی حالت میں انسان کہنا کچھ چاہتا ہے مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھئے کہ ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے اس پر نیند کا غلبہ ہے اور وہ اونگھ رہا ہے جس کی وجہ سے اس کے دل و دماغ اور زبان پر غفلت و سستی کا قبضہ ہے اب وہ اس حالت میں کہنا چاہتا ہے اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ۔۔۔ اے اللہ میری مغفرت فرما۔ مگر نیند کی غفلت اس کی زبان یہ الفاظ ادا کر رہی ہے۔ اَللّٰھُمَّ اعفِرْلی۔۔۔ اے اللہ مجھے خاک آلود کر دے۔ دیکھا آپ نے ؟ نیند کی غفلت سے صرف ایک نقطے کے فرق نے کیا گل کھلا دیا کہاں تو اپنی مغفرت اور آخرت میں اپنی عزت و کامیابی کی دعا مانگنا چاہتا تھا اور کہاں اپنے نفس کے لئے بد دعا کے الفاظ نکال کر ذلت و خواری کا سامان کر بیٹھا، اسی لئے منع کیا جا رہا ہے کہ جب نیند کا غلبہ ہو اور اونگھ کا تسلط ہو تو ایسے وقت میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔

【520】

دین آسان چیز ہے اسے اپنے عمل سے سخت اور ہیبت ناک نہ بناؤ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا بیشک دین آسان ہے لیکن جو آدمی دین میں سختی کرتا ہے دین اس پر غالب آجاتا ہے لہٰذا (دینی) امور میں میانہ روی اور اپنی طاقت کے مطابق عمل اختیار کرو اور جنت و سلامتی نیز اللہ رب العزت کے انعامات و اکرامات کے ساتھ خوش رہو (کیونکہ اللہ رب لعزت تو تھوڑے ہی سے عمل پر) اگر وہ مداومت اور خلوص نیت کے ساتھ ہو تو بہت زیادہ ثواب دیتا ہے اور صبح کے وقت شام کے وقت نیز کچھ رات کے آخری حصے میں بھی اللہ رب العزت سے مدد مانگو۔ (صحیح البخاری ) تشریح اس حدیث میں صفائی کے ساتھ اعلان کیا جا رہا ہے کہ دین بہت آسان ہے انسانی مزاج و فطرت کے عین مطابق ہے اور انسان کی ذہنی، فکری، عملی قوتیں بڑے سکون کے ساتھ اس کی ہمنوا بن سکتی ہے۔ ہاں اس کا تو کوئی علاج نہیں کہ کوئی آدمی اپنی طرف سے بےجا پابندیاں عائد کر کے اعمال کی زیادتی کرے اور دین شریعت میں اپنی طرف سے باتیں بڑھا کر خود ہی اپنے اوپر مشکلات و تنگیوں کو مسلط کرے۔ چنانچہ یہاں صراحت کے ساتھ حکم دیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چونکہ دین کے احکام بہت آسان مقرر کئے ہیں اس لئے رہبانیت کے طور پر ان احکام کو اپنے لئے سخت وہیبت ناک نہ بناؤ۔ دین اس پر غالب آجاتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اپنے نفس پر غیر واجب باتیں واجب کرلیتا ہے اور مشکل طریقوں سے عبادت کی مشغولیت اختیار کرلینا ہے تو دین اس پر غالب آجاتا ہے یعنی وہ بعد میں دین کے حق کی ادائیگی سے عاجز ہوجاتا ہے اس طرح وہ مغلوب اور دین غالب ہوجاتا ہے۔ قَارِبُوْا کا مطلب یہ ہے کہ سہولت اور آسانیوں کے ساتھ دینی امور کے قریب ہوجاؤ اور اپنے اوپر بےجا پابندیوں کو عائد کر کے اور سختی و مشکلات میں اپنے آپ کو مبتلا کر کے دین سے بعد اختیار نہ کرو۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ قَارِبُوْا دراصل سَدِّدُوْا (یعنی میانہ روی اختیار کرو) کی تاکید ہے لہٰذا جو معنی سَدِّدُوْا کے ہیں وہی معنی قَارِبُوْا کے ہیں بعض حضرات نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ اللہ جل شانہم کا قرب ڈھونڈو۔ بہر حال حدیث کا اصل یہ ہے کہ بہت زیادہ عبادت نہ کرو کہ ہر وقت اپنے آپ کو عبادت کی محنت و مشقت ہی میں مبتلا رکھو بلکہ ان تین اوقات میں عبادت کرلینے ہی کو غنیمت جانو یعنی دن کے ابتدائی حصے میں، دن کے آخری حصے میں اور رات کے آخری حصے میں، یہ تہجد کی نماز کی طرف اشارہ ہے۔

【521】

رات کے بقیہ اور ادوو ظائف کودن میں پڑھ لینا چاہیے

اور حضرت عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا (جو آدمی رات کو پورا وظیفہ پڑھے بغیر سو رہا یا وظیفہ کا کچھ حصہ پڑھنے سے رہ گیا اور پھر اس نے اس کو نماز فجر اور نماز ظہر کے درمیان پڑھ لیا تو اس کے لئے یہی لکھا جائے گا کہ گویا اس نے رات ہی کو پڑھا۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ کسی آدمی نے کلام اللہ، نماز اوراد و اذکار کی قسم سے کچھ وظیفہ مقرر کر رکھا ہے جسے وہ رات کو پڑھتا ہے مگر کسی دن وہ سوگیا اور اس کا پورا وظیفہ یا اس وظیفے کا کچھ حصہ رات کو پڑھنے سے رہ گیا اور اس نے نماز فجر اور نماز ظہر کے درمیان یعنی زوال سے پہلے پڑھ لیا تو اس کے لئے رات ہی میں پڑھنے کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح دن کے وظیفہ کا حکم ہے کہ اگر دن کو وظیفہ پڑھنے سے رہ گیا اور پھر اس رات کو پڑھ لیا تو اس کے لئے دن میں ہی پڑھنے کا ثواب لکھا جاتا ہے رات دن آپس میں ایک دوسرے کے خلیفے ہیں۔ حدیث میں صرف رات کے وظیفے ہی کے بارے میں اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ اکثر و بیشتر رات ہی کا وظیفہ رہ جاتا ہے یعنی نیند کے غلبے کی وجہ سے نماز تہجد اورادو اذکار فوت ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کو اس باب میں ذکر کیا گیا ہے۔

【522】

معذوری کی حالت میں بیٹھ کر اور لیٹ کر نماز پڑھنے کا حکم

اور حضرت عمران بن حصیبن راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا نماز کھڑے ہو کر پڑھو اور اگر (کسی عذر کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر) قادر نہ ہو سکو تو بیٹھ کر پڑھو اور اگر بیٹھ کر نماز پڑھنے پر بھی) قادر نہ ہو سکو تو (پھر) کروٹ پر پڑھو۔ (صحیح البخاری ) تشریح اگر کوئی آدمی کسی عذر شدید مثلاً سخت بیماری وغیرہ کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو بیٹھ کر اپنی نماز ادا کرے اور اگر عذر اتنا شدید ہو کہ بیٹھ کر بھی قدرت سے باہر ہو تو پھر آخری مرحلہ یہ ہے کہ (لیٹے لیٹے) کروٹ سے بقبلہ ہو کر پڑھ لے پھر اس میں بھی اتنی آسانی کہ اگر کوئی آدمی قبلے کی طرف منہ نہ کرسکے یا یہ کہ کوئی آدمی ایسا پاس موجود نہ ہو جو معذور کا منہ قبلے کی طرف کرسکے تو جس طرف بھی منہ ہو ادھر ہی کی طرف پڑھ لے، ایسے موقع پر کسی بھی سمت منہ کر کے نماز پڑھ لینا جائز ہے۔ حنفیہ فرماتے ہیں کہ لیٹ کر نماز پڑھنے کے سلسلے میں افضل یہ ہے کہ رو بقبلہ ہو کر چت لیٹے کندھے کے نیچے تکیہ رکھ کر سر کو اونچا کرے اور اشاروں سے نماز پڑھے۔ چناچہ دارقطنی نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ اس سے چت لیٹ کر ہی نماز پڑھنے کا اثبات ہوتا ہے یہاں جو حدیث ذکر کی گئی ہے اس کے بارے میں حنفیہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم بطور خاص حضرت عمران کے لئے فرمایا تھا کیونکہ وہ بواسیر کے مرض میں مبتلا تھے اور چت نہیں لیٹ سکتے تھے لہٰذا یہ حدیث دوسروں کے لئے حجت نہیں ہوسکتی۔ آخر میں اتنی بات اور جان لیجئے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم فرض نماز کے لئے ارشاد فرمایا ہے اس لئے نفل نمازوں میں یہ بطریق اولی جائز ہوگا۔

【523】

بغیر عذر بیٹھ کر نفل نماز پڑھنے والے کو آدھا ثواب ملتا ہے

اور حضرت عمران بن حصین (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو (کھڑے ہونے کی طاقت رکھنے کے) باوجود نفل نماز بیٹھ کر پڑھتا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بہتر تو وہی ہے جو کھڑے ہو کر نماز پڑھے لیکن جو آدمی (نفل) نماز (بغیر عذر) کے بیٹھ کر پڑھے گا تو اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کی بہ نسبت نصف ثواب ملے گا۔ (صحیح البخاری ) تشریح یہ حدیث نفل نماز پر محمول ہے کیونکہ فرض نماز بغیر عذر کے بیٹھ کر پڑھنا درست نہیں ہے ہاں اگر کوئی عذر ہو تو قیام ساقط ہوجاتا ہے اور معذور بیٹھ کر فرض نماز بھی پڑھ سکتا ہے۔ بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نفل نماز بغیر عذر کے بیٹھ کر پڑھنے والے کو نماز کا پورا ثواب نہیں ملتا بلکہ جتنا ثواب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کو ملتا ہے اس کا نصف ثواب اسے ملتا ہے ہاں اگر کوئی عذر ہو کہ کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو تو پھر بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کی بہ نسبت آدھا ثواب نہیں ملے گا بلکہ اسے بھی پورا ثواب ملے گا۔ بغیر عذر لیٹ کر نفل نماز پڑھنی جائز ہے یا نہیں حضرت علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ جو آدمی کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر نفل نماز پڑھ سکتا ہے اور اسے قیام و قعود کی قدرت نہیں ہے تو آیا اس آدمی کے لئے نفل نماز لیٹ کر پڑھنا جائز ہے یا نہیں چناچہ بعض علماء تو کہتے ہیں کہ بغیر عذر کے لیٹ کر نفل نماز جائز نہیں۔ مگر علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ بغیر عذر لیٹ کر نفل نماز پڑھنا جائز ہے۔ نیز اس جماعت کا یہ قول بھی ہے کہ بغیر عذر لیٹ کر نفل نماز پڑھنے والے کو بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی بہ نسبت آدھا ثواب ملتا ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے چناچہ حسن بصری (رح) کا قول بھی یہی ہے اور حدیث سے ثابت ہونے کی وجہ سے یہی قول صحیح تر اور اولی ہے۔ مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ جائز نہیں ہے اور اس حدیث کے بارے میں ان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ حدیث فرض نماز کے بارے میں ہے کہ اگر کوئی آدمی اس درجے بیمار ہو کہ مرض کی زیادتی اور شدت کے باوجود کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر نماز پڑھنا اس کے لئے ممکن ہو تو اسے لیٹ کر نماز پڑھنے کی صورت میں بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی بہ نسبت آدھا ثواب ملے گا۔

【524】

نیند آتے تک باوضوذ کر اللہ میں مشغولیت

حضرت ابوامامہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو آدمی (وضو یا تیمم کے ذریعے نجاستوں سے یا یہ کہ گناہوں سے) پاک ہو کر اپنے بستر پر لیٹے اور نیند آنے تک (زبان سے یا دل سے) ذکر اللہ میں مشغول رہے تو وہ رات کو جب بھی اس حال میں کروٹ بدلے کہ اللہ جل شانہ سے دنیا اور آخرت کی کسی بھلائی کا سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ بھلائی ضرور دیتا ہے، (یہ حدیث علامہ نووی (رح) نے کتاب الاذکار میں ابن السنی کی روایت سے نقل کی ہے۔

【525】

وہ دو خوش نصیب جن سے اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے

اور حضرت عبدا اللہ بن مسعود راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا ہمارا رب دو آدمیوں سے بہت خوش ہوتا ہے ایک تو وہ آدمی جو رات کو اپنے نرم بستر و لحاف سے اور اپنی محبوبہ اور بیوی کے پاس سے (تہجد) کی نماز کے لئے اٹھتا ہے چناچہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے میرے بندے کی طرف دیکھو جو میرے پاس کی چیزوں (یعنی جنت اور ثواب) کے شوق سے اور میرے پاس کی چیزوں (یعنی دوزخ اور عذاب) کے ڈر کی وجہ سے اپنے فرش و نرم بستر اور اپنی محبوبہ اور بیوی کو چھوڑ کر اپنی نماز پڑھنے کے لئے اٹھا۔ اور دوسرا وہ آدمی جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور (بغیر کسی شدید عذر کے) اپنے ساتھیوں سمیت میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا، مگر جب اسے بلا عذر میدان جہاد سے بھاگ نکلنے کی سزا اور پھر جنگ میں واپس آجانے کا ثواب یاد آیا تو (میدان کار زار میں) واپس آگیا اور (اللہ کے دشمنوں سے) اس قدر لڑا کہ جام شہادت نوش کیا، چناچہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ میرے بندے کی طرف (بنظر تعجب) دیکھو جو میرے پاس کی چیزوں (یعنی جنت وثواب) کے شوق میں اور میرے پاس کی چیزوں (یعنی دوزخ و عذاب) کے خوف سے (میدان جنگ میں) لوٹ آیا اور اللہ کے راستہ میں یہاں تک لڑا کہ اپنی جان بھی دیدی۔ (شرح السنۃ) تشریح مطلب یہ ہے کہ رات کے پر سکون ماحول اور آرام میں کسی آدمی کے لئے نرم بستر، آرام دہ لحاف اور محبوب بیوی کا قرب ہی سب سے زیادہ پسندیدہ اور پیاری چیزیں ہوتی ہیں مگر اس کے باجود وہ آدمی اپنے رب کی عبادت اور اس کی جزاء و انعام کے شوق میں ان سب چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے اور پروردگار کے حضور اپنی بندگی و عبودیت کا نذرانہ پیش کرنے لگتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دنیا کی تمام پسندیدہ چیزیں دنیا میں تو قلب و دماغ کے سکون اور انسانی عیش و مسرت کا سامان بن سکتی ہیں مگر نہ تو یہ قبر میں نفع پہنچائیں گی اور نہ حشر میں کامیابی و سرخروئی کی ضامن ہوں گی۔ قبر اور حشر میں تو صرف پروردگار کی اطاعت اور اس کی عبادت ہی کام آئے گی اور وہی سعادت و کامیابی کی منزل سے ہم کنار کریں گی۔ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے واسطے عبادت کرنا اور اس پر ثواب کی امید رکھنا اخلاص اور کمال کے منافی نہیں ہے اگرچہ یہ اکمل درجے کے منافی ہے کیونکہ عبادت کے سلسلے میں اکمل درجہ یہی ہے کہ عبادت محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لئے کی جائے اور اس سے کوئی غرض مثلاً ثواب کا حصول یا عذاب کا خوف وابستہ نہ ہو لیکن ہاں کوئی آدمی اگر عبادت محض ثواب کے واسطے یا عذاب کے خوف سے کرتا ہے تو اسے یہ نہ جان لینا چاہیے کہ اس کی یہ عبادت، عبادت نہیں صرف تضییع اوقات ہے۔

【526】

وہ دو خوش نصیب جن سے اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ مجھ سے یہ حدیث بیان کی گئی کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا (بغیر عذر) بیٹھ کر (نفل) نماز پڑھنے والے کی نماز (کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کے مقابلے میں آدھی ہوتی ہے حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں (ایک دن) رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا (اتفاق سے) رسول اللہ ﷺ اس وقت بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے (جب نماز سے فارغ ہوئے تو) میں نے آپ ﷺ کے سر مبارک پر اپنا ہاتھ رکھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمرو ! کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے تو یہ بتایا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی نماز آدھی ہوتی ہے اور اب آپ ﷺ ہی بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے (یعنی تم نے جو کچھ سنا ہے) صحیح ہے لیکن میں تم جیسا تو نہیں ہوں۔ (صحیح مسلم) تشریح اہل عرب کی عادت ہے کہ جب کوئی آدمی کسی سے کوئی تعجب کی بات دیکھتا ہے تو اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا ہے اور ان کے نزدیک ایسا کرنا کوئی خلاف ادب نہیں ہے بلکہ یہ کمال محبت اور انتہائی بےتکلفی کے سبب سے ہوتا ہے چونکہ حضرت عبداللہ بن عمرو کو رسول اللہ ﷺ سے انتہا درجے کی محبت اور بےتکلفی تھی اس لئے جب آپ ﷺ نے نماز پڑھ لی تو انہوں نے بھی ازراہ تعجب اپنا ہاتھ آپ ﷺ کے سر مبارک پر رکھا اور انہیں تعجب اس بات پر ہوا کہ رسول اللہ ﷺ تو افضل بات پر عمل کیا کرتے تھے پھر آپ ﷺ نے بیٹھ کر نماز کیوں پڑھی۔ رسول اللہ ﷺ کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ نہ تو دوسروں پر مجھے اور نہ مجھ پر دوسروں کو قیاس کرو کیونکہ یہ تو صرف میری خصوصیت ہے کہ بیٹھ کر بھی نماز پڑھتا ہوں تو میری نماز ناقص نہیں ہوتی ہے، میں چاہے جس طرح بھی نماز پڑھوں میری نماز پوری ادا ہوتی ہے۔

【527】

نماز میں راحت و سکون ہے۔

اور حضرت سالم بن ابی الجعد فرماتے ہیں کہ (ایک دن) قبیلہء خزاعہ کا ایک آدمی کہنے لگا کہ کاش میں نماز پڑھتا اور راحت پاتا جب لوگوں نے اس کے اس کہنے کو برا سمھا تو اس نے کہا کہ میں نے سرور کونین ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ ﷺ نے (حضرت بلال (رض) سے) فرمایا کہ بلال ! نماز کے لئے تکبیر کہو تاکہ ہم اس کے ذریعے راحت حاصل کریں۔ (ابوداؤد) تشریح نماز کی تاثیر انسانی راحت و اطمینان اور قلبی سکون ہے جو آدمی خلوص قلب کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اسے ایک عجیب قسم کی راحت ملتی ہے اور اس کے دل و دماغ میں سکون و اطمینان کے خزانے بھر جاتے ہیں چناچہ قبیلہء خزاعہ کے مذکورہ آدمی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ نماز پڑھوں اور پھر اپنے پروردگار کی عبادت، اس کی مناجات اور حمد اور اس کے کلام پاک کے پڑھنے کی لذت سے راحت و سکون حاصل کروں۔ لوگوں نے اس کے کہنے کو جو برا سمجھا تو ایک وجہ تھی وہ یہ کہ اس کے قول کے دو معنی محتمل تھے اول تو یہ کہ نماز کے ذریعے راحت پاؤں دوسرے یہ کہ نماز سے راحت پاؤں یعنی نماز پڑھ کر آرام سے بیٹھ جاؤں۔ اس کی مراد تو اول معنی تھے لیکن لوگوں نے دوسرے معنی مراد لئے جو انہیں پسند نہیں تھے اس لئے اس نے لوگوں کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے اور مراد کو واضح کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد جو آپ ﷺ نے حضرت بلال سے فرمایا تھا نقل کیا کہ اے بلال تکبیر (اقامت) کہو تاکہ ہم اس کے ذریعے راحت حاصل کریں کیونکہ آپ ﷺ کے لئے تو بس اللہ کی عبادت ہی میں راحت تھی اور نماز میں مشغول رہنا ہی آپ ﷺ کے لئے آرام و سکون کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ نماز ہی کے اندر اپنے پروردگار کی بڑائی اور اپنے خالق کی مناجات و حمد بیان کی جاتی ہے کہ ایک کامل و اکمل بندے کا اپنے پروردگار کی مناجات میں مشغول رہنا ہی اس کے لئے سب سے بڑی راحت ہے اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ قُرَّۃُ عَیْنِی فِی الصَّلٰوۃ مجھے تو نماز (ہی) میں راحت ملتی ہے۔