110. مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان

【1】

مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان

مرتد کسے کہتے ہیں ؟ مرتد اس شخص کو کہتے ہیں جو دین اسلام سے پھر جائے یعنی ایمان واسلام کے نورانی دائرہ سے نکل کر کفر و شرک کے ظلمت کدوں میں چلا جائے۔ مرتد کے بارے میں حکم جب کوئی مسلمان نعوذ باللہ، اسلام سے پھر جائے تو اس کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جائے اگر وہ اسلام کے بارے میں کسی شک وشبہ کا شکار ہو تو اس کا شک وشبہ رفع کیا جائے گا، اگرچہ اسلام کی دعوت دینا اور اس کا شک وشبہ دور کرنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کیونکہ اسلام کی دعوت اس کو پہلے ہی پہنچ چکی ہے اب اس کی تجدید دعوت کی احتیاج نہیں ہے۔ نیز مستحب یہ ہے کہ ایسے شخص کو تین دن کے لئے قید میں ڈال دیا جائے اگر وہ ان تین دنوں میں توبہ کر کے دائرہ اسلام میں لوٹ آئے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کو قتل کردیا جائے کیونکہ اسلام نے مرتد کی سزا قتل مقرر کی ہے اور بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ اگر وہ مہلت طلب کرے تب واجب ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت (اقتلوا لمشرکین) (مشرکوں کو قتل کردو) اور آنحضرت ﷺ کے ارشاد حدیث (من بدل دینہ فاقتلوہ) (جس شخص نے اپنا دین اسلام تبدیل کردیا اس کو قتل کردو) سے یہی ثابت ہوتا کہ مرتد کو مہلت دینا واجب نہیں ہے۔ فساد برپا کرنے والے کون ہیں ؟ حدیث کے دوسرے جزو کا تعلق فساد برپا کرنے والوں سے ہے یوں تو عام طور پر فساد برپا کرنے والے سے وہ لوگ مراد ہوتے ہیں جو زمین پر فتنہ و فساد اور لوٹ مچاتے ہیں اور قتل و غارت گری کے ذریعہ لوگوں کے امن و سکون کو تباہ و برباد کرتے ہیں لیکن یہاں بطور خاص قطاع الطریق یعنی قزاق مراد ہیں کہ ان کی سزا بھی قتل ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ ا یت (انما جزآء الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا ان یقتلوا ) ۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے لڑتے ہیں اور زمین پر فساد برپا کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ ان کو قتل کردیا جائے، ارتداد اور مرتد کے بارے میں کچھ تفصیلی مسائل و احکام آج کل ہماری روز مرہ زندگی بڑی بےاعتدالیوں کی شکار ہے نہ ہمیں اپنی زبان پر قابو رہتا ہے، نہ ہم اپنے اعتقادات ونظریات کے دائرہ میں پوری طرح رہتے ہیں اور نہ ہماری افعال و اعمال پابند احتیاط ہوتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی بہت سی باتیں ہماری زبانوں سے نکلتی رہتی ہیں جنہیں ہم بظاہر بالکل غیر اہم سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ باتیں ہمیں کفر کے دائرہ تک پہنچا دیتی ہیں اسی طرح ایسے بہت سے افعال و اعمال ہم سے سرزد ہوتے رہتے ہیں جنہیں ہم بہت معمولی سمجھتے ہیں لیکن آخر کار وہ ہمارے لئے سخت خسران آخرت کا ذریعہ بن جاتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ اس موقع پر اس بارے میں تفصیل کے ساتھ کچھ عرض کیا جائے۔ فتاویٰ عالمگیری کے ایک باب میں مرتد کے احکام و مسائل بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں اس پورے باب کے علاوہ چند نادر الوجود مسائل کو یہاں نقل کیا جاتا ہے اس میں جو مسائل ہیں ان کا جاننا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے تاکہ مرتد کے بارے میں احکام و مسائل ہونے کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوجائے کہ وہ کون سے الفاظ ہیں جو زبان سے ادا ہونے پر کفر تک پہنچا دیتے ہیں یا وہ کون سے عقائد و اعمال ہیں جن کو اختیار کرنے والا کفر تک پہنچ جاتا ہے۔ مرتد عرف عام میں اس شخص کو کہتے ہیں جو دین اسلام سے پھر جائے۔ وجود ایمان کے بعد کلمہ کفر کا زبان سے ادا ہونا مرتد ہونے کا رکن ہے اور مرتد کا حکم صحیح ہونے کے لئے عقل کا ہونا شرط ہے لہٰذا مجنوں اور بےعقل بچے پر مرتد کا حکم لگانا صحیح نہیں ہے اور جس شخص پر جنون کی کیفیت مستقل طور پر طاری رہتی ہو تو اس پر مرتد کا حکم اس صورت میں لگے گا جب کہ وہ اپنے صحیح الدماغ ہونے کی حالت میں ارتداد کا مرتکب ہوا، اگر وہ اس وقت ارتداد کا مرتکب ہو جب کہ اس پر جنون کی کیفیت طاری تھی تو اس پر مرتد کا حکم نہیں لگے گا اسی طرح اس شخص پر بھی مرتد کا حکم لگانا صحیح نہیں ہوگا جو ہر وقت نشے کی حالت میں رہتا ہو اور اس کی عقل ماؤف ہوچکی ہو۔ مرتد کا حکم نافذ ہونے کے لئے بالغ ہونا شرط نہیں ہے یعنی یہ ضروی نہیں ہے کہ جو شخص حالت بلوغ میں ارتداد کا مرتکب ہو اسی کو مرتد قرار دیا جائے جب کہ نابالغ پر بھی مرتد کا حکم لگ سکتا ہے اسی طرح مرد ہونا بھی مرتد کے حکم نافذ ہونے کے لئے شرط نہیں بلکہ اگر عورت ارتداد کی مرتکب ہوگی تو اس پر بھی مرتد کا حکم لگے گا۔ مرتد کا حکم نافذ ہونے کے لئے رضا ورغبت شرط ہے لہٰذا اس شخص پر مرتد ہونے کا حکم نافذ نہیں ہوسکتا جس کو مرتد ہوجانے پر مجبور کیا گیا ہو۔ جس شخص کو برسام کی بیماری ہو اس کو کوئی ایسی چیز کھلا دی جائے جس سے اس کی عقل جاتی رہی اور ہزیان بکنے لگے اور پھر اسی حالت میں وہ مرتد ہوجائے تو اس پر مرتد کا حکم نہیں لگایا جائے گا، اسی طرح جو شخص مجنوں ہو یا وسواسی ہو یا کسی بھی قسم کا مغلوب العقل ہو تو اس پر بھی مرتد کا حکم نہیں لگے گا۔ جیسا کہ ابتداء باب میں بیان کیا گیا، جو شخص مرتد ہوجائے اس کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جائے اور اگر اس کو کوئی شک وشبہ ہو تو اسے دور کیا جائے۔ اور پھر جب وہ دائرہ اسلام میں آنا چاہئے تو کلمہ شہادت پڑھے اور مذہب اسلام کے سوا اور سب مذاہب سے بیزاری کا اظہار کرے اور اسی مذہب سے بیزاری کا اظہار کرے جس کے دائرہ میں وہ اسلام کو چھوڑ کر گیا تھا تو یہ بھی کافی ہوگا۔ اور کوئی شخص مرتد ہونے کے بعد پھر اسلام میں لوٹ آئے اور پھر کفر کی طرف لوٹ جائے، اسی طرح تین مرتبہ کرے اور ہر مرتبہ امام وقت سے مہلت چاہے تو امام وقت اس کو تین تین دن کی تینوں مرتبہ تو مہلت دے دے لیکن اگر وہ پھر چوتھی بار کفر کی طرف لوٹے اور مہلت طلب کرے تو اب چوتھی بار امام وقت اس کو مہلت نہ دے بلکہ اگر وہ آخری طور پر دائرہ اسلام میں واپس آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کو قتل کردیا جائے۔ اگر کوئی صاحب عقل لڑکا مرتد ہوجائے تو اس کا مرتد ہونا حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد کے نزدیک معتبر ہوگا لہٰذا اس کو دائرہ اسلام میں آجانے پر مجبور کیا جائے اور اس کو قتل نہ کیا جائے یہی حکم اس لڑکے کا ہے جو قریب البلوغ ہو۔ صاحب عقل لڑکے سے مراد ایسی عمر کا لڑکا ہے جو یہ سمجھتا ہو کہ اسلام نجات کا ذریعہ ہے اور وہ اچھے اور برے میں اور میٹھے اور کڑوے میں تمیز کرسکتا ہو۔ بعض حضرات کے نزدیک وہ لڑکا مراد ہے جو سات سال کی عمر کو پہنچ گیا ہو۔ اگر کوئی عورت مرتد ہوجائے تو اس کو قتل نہ کیا جائے بلکہ جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائے اس کو قید میں ڈالے رکھا جائے اور ہر تیسرے دن اس کو بطور تنبیہ مارا جائے تاکہ وہ اپنے ارتداد سے توبہ کر کے دائر اسلام میں آجائے لیکن اگر کوئی شخص کسی مرتد عورت کو قتل کر دے تو قاتل پر کچھ واجب نہیں ہوگا۔ کوئی باندی مرتد ہوجائے تو اس کا مالک اس کو اسلام قبول کرنے پر بایں طور مجبور کرے کہ اس کو اپنے گھر میں محبوس کر دے اس سے خدمت لینے کے ساتھ ساتھ سزاءً کچھ دوسرے کام بھی اس کے سپرد کر دے اور وہ مالک اس کے ساتھ صحبت نہ کرے۔ عاقلہ لڑکی کا وہی حکم ہے جو بالغہ کا ہے اسی طرح خنثیٰ مشکل بھی عورت کے حکم میں ہے۔ آزاد عورت جو مرتد ہوجائے اس کو اس وقت تک بطور باندی گرفتار نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ وہ دار الاسلام میں ہے ہاں اگر وہ دار الحرب میں چلی جائے اور پھر وہاں سے وہ (اسلامی لشکر کے) قیدیوں میں آئے تو اس کو باندی بنایا جاسکتا ہے۔ اور امام ابوحنیفہ کے نوادر میں سے ایک قول یہ ہے کہ مرتدہ کو دار الاسلام میں بھی بطور باندی گرفتار کیا جاسکتا ہے چناچہ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر اس قول پر اس عورت کے بارے میں فتویٰ دیا جائے جو خاوند والی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں بلکہ مناسب یہ ہے کہ اس عورت کا خاوند حکومت وقت سے اس کو باندی بنا لینے کی درخواست کرے یا اگر وہ خاوند اس کا مصرف (یعنی مسلمان) ہو تو حکومت وقت اس عورت کو خاوند کے تئیں ہدیہ کر دے۔ اس صورت میں خاوند اس عورت کو محبوس کرنے اور اسلام کے لئے اس کو سزاءً مارنے کا ذمہ دار ہوگا۔ جب کوئی مرتد اپنے ارتداد سے انکار کر دے تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت محمد ﷺ کی رسالت اور دین اسلام کی حقاینت کا اقرار کرے تو یہ گویا اس کی طرف سے توبہ کا مظہر ہوگا اور اس صورت میں وہ مسلمان سمجھا جائے گا۔ جب کوئی شخص مرتد ہوجاتا ہے تو اس کے مال سے اس کی ملکیت زائل ہوجاتی ہے لیکن یہ ملکیت کا زائل ہونا موقوف رہتا ہے اگر اس شخص کو توبہ کی توفیق نصیب ہوجائے اور پھر وہ مسلمان ہوجائے تو اس کی ملکیت بھی واپس آجاتی ہے اور اگر وہ اسی حالت ارتداد میں مرجائے یا اس کو قتل کردیا جائے تو اس کے اس مال کے جو اس نے اسلام کی حالت میں کمایا تھا اس کے مسلمان وارث اور حقدار ہوں گے اور ان کو اس مال کا وہی حصہ ملے گا جو اس زمانہ میں اس کے دین کی ادائیگی کے بعد جو کچھ بچے گا وہ فئی شمار ہوگا۔ یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا قول ہے، صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک مرتد کی ملکیت زائل نہیں ہوتی۔ مرتد کی میراث پانے والے کے بارے میں حضرت امام ابوحنیفہ کے مختلف اقوال بیان کئے جاتے ہیں، چناچہ حضرت امام محمد نے حضرت امام اعظم سے نقل کیا ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے کہ جب مرتد مرجائے یا اس کو قتل کردیا جائے اور یا وہ دار الحرب بھاگ جائے تو اس کا مسلمان وارث اس کی میراث پائے گا اسی طرح اس کے مرجانے یا قتل کئے جانے یا دار الحرب بھاگ جانے کے بعد اس کی مسلمان بیوی بھی اس کی مال کی وارث ہوگی بشرطیکہ اس (مرتد کی وفات یا قتل یا دارالحرب بھاگ جانے کے) وقت وہ بیوی عدت میں ہو کیونکہ وہ مرتد اپنے ارتداد کے ذریعہ گویا (اپنی بیوی کو اپنی میراث دینے سے) راہ فرار اختیار کرنے والا ہو لہٰذا اس کا ارتداد مرض الموت کی مانند ہوا (کہ جس طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے مرض الموت میں طلاق مغلظہ دے دے تو شریعت اس امر کے پیش نظر کہ اس کے شوہر نے اس کو اپنی میراث سے محروم رکھنے ہی کے لئے مرض الموت میں طلاق دی ہے اس کو اس کے شوہر کی میراث کی حقدار تسلیم کرتی ہے اسی طرح مرتد بھی اپنے ارتداد کے ذریعہ گویا اپنی بیوی کو اپنی میراث سے محروم رکھنا چاہتا ہے اس لئے شریعت اس کے (علی الرغم) اس کی بیوی کو اس کی میراث کا حقدار تسلیم کرتی ہے، اگر کوئی عورت مرتد ہوجائے تو (اس کے مرنے کے بعد) اس کا خاوند اس کی میراث کا حقدار نہیں ہوتا، ہاں اگر بیوی بیماری کی حالت میں مرتد ہوئی (پھر مرگئی) تو اس کا شوہر اس کی میراث پائے گا اسی طرح تمام اقرباء اس کے سارے مال کے وارث ہوں گے یہاں تک کہ اس نے حالت ارتداد میں جو مال جمع کیا ہوگا وہ بھی ان وارثوں کو ملے گا۔ اگر کوئی شخص مرتد ہو کر دار الحرب میں چلا گیا یا حاکم نے اس کے دار الحرب میں چلے جانے کا حکم نافذ کردیا تو اس کا مدبر غلام آزاد ہوجائے گا اور اس کی امہات اولاد بھی آزاد ہوجائیں گی اور اس کے جو دیون مؤ جلہ ہوں گے وہ فوری طور پر قابل ادائیگی ہونگے اور اس نے حالت اسلام میں جو مال پیدا کیا تھا وہ سب اس کے مسلمان ورثاء کی طرف منتقل ہوجائے گا اور اگر کسی مرتد نے اپنے زمانہ اسلام میں کوئی وصیت کی ہوگی تو مبسوط وغیرہ کی ظاہری روایت کے بموجب وہ وصیت مطلقاً باطل ہوگی یعنی اس کی وصیت کا اجراء نہیں ہوگا خواہ وہ اس وصیت کا تعلق کسی قرابت دار سے ہو یا غیر قرابت دار سے۔ مرتد جب تک دار السلام میں گھومتا پھرتا نظر آئے اس کے بارے میں قاضی ان احکام میں سے کوئی بھی حکم نافذ نہ کرے جو ذکر کئے گئے ہیں، جو شخص مرتد ہوجائے، معاملات وعقودات میں اس کے تصرف کرنے کی چار قسمیں ہیں۔ اول تو وہ تصرف ہے جو سب کے نزدیک پوری طرح جاری ونافذ ہوتا ہے جیسے اگر اس کو کوئی چیز ہبہ کی جائے اور وہ اس ہبہ کو قبول کرلے، یا وہ اپنی لونڈی کو ام ولد بنا دے، یا جب اس کی لونڈی کسی بچے کو جنم دے اور وہ مرتد اس بچے کے نسب کا دعوی کرے (یعنی یہ کہے کہ یہ میرا بچہ ہے) تو اس بچہ کا نسب اس سے ثابت ہوجائے گا اور وہ بچہ اس کے دوسرے وارثوں کے ساتھ اس کی میراث کا حقدار ہوگا اور وہ لونڈی (جس کے بطن سے بچہ پیدا ہوا ہے) اس مرتد کی ام ولد ہوگی نیز مرتد کی طرف سے تسلیم شفعہ کو قبول ونافذ کیا جائے گا، اسی طرح اگر مرتد اپنے ماذون غلام پر حجر نافذ کرے تو اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ دوسرا تصرف وہ ہے جو بالاتفاق باطل ہوتا ہے یعنی شریعت کی نظر میں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا جیسے نکاح کرنا کہ وہ مطلقاً جائز نہیں مفاوضت کرے تو اس کا حکم موقوف (معلق) رہتا ہے کہ اگر وہ مرتد مسلمان ہوگیا تو وہ شرکت مفاوضت بھی نافذ ہوجائے گی اور اگر وہ ارتداد کی حالت میں مرگیا یا اس کو قتل کردیا گیا یا وہ دارالحرب چلا گیا اور قاضی وحاکم نے اس کے دار الحرب چلے جانا کا حکم نافذ کردیا تو اس صورت میں وہ شرکت مفاوضت شروع سے شرکت عنان میں تبدیل ہوجائے گی، یہ صاحبین کا مسلک ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک شرکت مفاوضت سرے سے باطل ہی نہیں ہوتی۔ چوتھا تصرف وہ ہے جس کے موقوف رہنے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں جیسے خریدو فروخت کے معاملات اجارہ کرنا، غلام کو آزاد کرنا، مدبر کرنا یا مکاتب کرنا، وصیت کرنا اور قبض دیون وغیرہ، چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ ان سب معاملات میں مرتد کے تصرفات موقوف رہتے ہیں اگر وہ اسلام قبول کرے تو نافذ ہوجاتے ہیں اور اگر مرجائے، یا قتل کردیا جائے یا قاضی وحاکم اس کے دار الحرب چلے جانے کا حکم نافذ کر دے تو یہ سارے تصرفات باطل ہوجاتے ہیں۔ ارتداد کے دوران مکاتب کے سارے تصرفات نافذ ہوتے ہیں، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے مرتد غلام یا باندی کو فروخت کرے تو اس کی بیع جائز ہوتی ہے۔ اگر کوئی مرتد اپنے ارتداد سے تائب ہو کر دار الاسلام واپس آجائے اور یہ واپسی قاضی وحاکم کی طرف سے اس کے دار الحرب چلے جانے کے حکم کے نفاذ سے پہلے ہو تو اس کے مال و اسباب کے بارے میں اس کے مرتد ہوجانے کا حکم باطل ہوجاتا ہے اور وہ ایسا ہوجاتا ہے گویا کہ مسلمان ہی تھا اور نہ اس کی کوئی ام ولد آزاد ہوتی ہے اور نہ اس کا کوئی مدبر آزاد ہوتا ہے اور اگر اس کی واپسی قاضی وحاکم کے حکم کے نفاذ کے بعد ہوتی تو وہ اپنے وارثوں کے پاس جو چیز پائے اس کو لے لے اور جو مال و اسباب اس کے وراثوں نے بیع ہبہ اور عتاق وغیرہ کے ذریعہ اپنی ملکیت سے نکال دیا ہے اس کے مطالبہ کا حق اس کو نہیں پہنچے گا اور اپنے وارثوں سے اس کو ایسے مال کا بدلہ و معاوضہ لینے کا حق حاصل ہوگا۔ جو شخص اپنے ماں باپ کی اتباع میں مسلمان تھا (یعنی وہ بچہ تھا اور اپنے مسلمان ماں باپ کی وجہ سے مسلمان کے حکم میں تھا) اور پھر ارتداد کے ساتھ بالغ ہوا تو اگرچہ قیاس کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کو قتل کیا جائے مگر اس کے بارے میں از راہ استحسان یہ حکم ہے کہ اس کو قتل نہ کیا جائے (کیونکہ بلوغ سے پہلے وہ مستقل بالذات مسلمان نہیں تھا بلکہ اپنے ماں باپ کی اتباع میں مسلمان کے حکم میں تھا) اسی طرح یہی حکم اس شخص کے بارے میں ہے جو چھوٹی عمر میں مسلمان ہوگیا تھا مگر جب بالغ ہوا تو مرتد تھا، نیز اگر کسی شخص و زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اور پھر وہ اسلام سے پھر گیا تو اس کو بھی از راہ استحسان قتل نہ کیا جائے لیکن ان تمام صورتوں میں حکم یہ ہے کہ اس کو اسلام قبول کرلینے پر مجبور کیا جائے اور اگر اسلام قبول کرنے سے پہلے کسی نے اس کو مار ڈالا تو مارنے والے پر کچھ واجب نہیں ہوگا۔ لقیط (وہ بچہ جو کہیں پڑا ہوا پایا جائے) اگر دار الاسلام میں ہو تو اس کے مسلمان ہونے کا حکم نافذ کیا جائے اور کفر کی حالت میں بالغ ہو تو اس کو اسلام لانے پر مجبور کیا جائے لیکن اس کو قتل نہ کیا جائے۔ یہاں تک تو مرتد کے بارے میں کچھ احکام و مسائل کا ذکر تھا، اب کچھ ان باتوں کو بیان کردینا ضروری ہے جن کا مرتکب کافر ہوجاتا ہے چناچہ ان میں سے بعض باتیں وہ ہیں جن کا تعلق ایمان واسلام سے ہے بعض باتیں وہ ہیں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات وغیرہ سے ہے، بعض باتیں وہ ہیں جن کا تعلق نماز، روزے اور زکوٰۃ سے ہے، بعض باتیں وہ ہے جن کا تعلق علم اور علماء سے ہے بعض باتیں وہ ہیں جن کا تعلق حلال و حرام وغیرہ سے ہے، بعض باتیں وہ جن کا تعلق قیامت وغیرہ سے ہے اور بعض باتیں وہ ہیں جن کا تعلق کفر کی تلقین کرنے سے ہے۔ چونکہ یہ ایک طویل سلسلہ ہے اس لئے ان باتوں کو یعنی موجبات کفر کو ترتیب کے ساتھ الگ الگ عنوان کے ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔ وہ موجبات کفر جن کا تعلق ایمان واسلام سے ہے ایمان واسلام کے بارے میں وہ باتیں جن کا مرتکب کافر ہوجاتا ہے، یہ ہیں۔ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ مجھے نہیں معلوم، میرا ایمان ہے یا نہیں ؟ تو یہ خطائے عظیم ہے، ہاں اور اس بات کا مقصد اپنے شک کی نفی کرنا ہو تو خطائے عظیم نہیں ہے۔ جس شخص نے اپنے ایمان میں شک کیا اور یہ کہا کہ میں مؤمن ہوں انشاء اللہ تو وہ کافر ہے ہاں اگر وہ یہ تاویل کرے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں اس دنیا سے ایمان کے ساتھ اٹھوں گا یا نہیں ؟ تو اس صورت میں وہ کافر نہیں ہوگا جس شخص نے یہ کہا کہ قرآن مخلوق ہے، یا ایمان مخلوق ہے تو وہ کافر ہوگیا۔ جس شخص نے یہ عقیدہ رکھا کہ ایمان وکفر ایک ہیں تو وہ کافر ہے۔ جو شخص ایمان پر راضی و مطمئن نہ ہوا وہ کافر ہے جو شخص اپنے نفس کے کفر پر راضی ہوا وہ کافر ہے اور جو شخص اپنے غیر کے کفر پر راضی ہوا اس کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں اور فتویٰ اس قول پر ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے غیر کے کفر پر اس لئے راضی ہوا تاکہ وہ (کافر) ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے تو وہ کافر نہیں ہوگا اور اگر وہ اس کے کفر پر اس لئے راضی ہوا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حق میں اس چیز کا اظہار کرے جو اس کی صفات کے لائق نہیں ہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ جس شخص نے یہ کہا کہ اسلام کی صفت نہیں جانتا، تو وہ کافر ہوگیا۔ شمس الائمہ حلوائی نے اس مسئلہ کو بڑے سخت انداز میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کہنے والا ایسا شخص ہے جس کے لئے نہ دین ہے، نہ نماز ہے، نہ روزہ، نہ طاعت و عبادت ہے نہ نکاح ہے اور اس کی اولاد زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد ہے۔ ایک مسلمان نے کسی عیسائی لڑکی سے نکاح کیا جس کے ماں باپ بھی عیسائی ہیں اور پھر وہ اس حال میں بڑی ہوئی کہ وہ کسی مذہب اور دین کو نہیں جانتی یعنی نہ تو وہ دین کو دل سے پہنچانتی ہے اور نہ اس کو زبان سے بیان کرسکتی ہے اور وہ دیوانی بھی نہیں ہے تو اس صورت میں اس کے اور اس کے شوہر کے درمیان تفریق ہوجائے گی۔ اسی طرح کسی مسلم بچی سے نکاح کیا اور پھر جب وہ حالت عقل میں بالغ ہوئی تو نہ وہ اسلام کو دل سے جانتی پہنچانتی ہے اور اس کو زبان سے بیان کرسکتی ہے اور وہ دیوانی بھی نہیں ہے تو اس صورت میں بھی اس کے شوہر کے درمیان جدائی ہوجائے گی۔ اگر کسی عورت سے پوچھا گیا کہ توحید کیا ہے اس نے جواب میں کہا میں نہیں جانتی تو اس جواب سے اس امر کی مراد اگر یہ ہو کہ مجھے وہ توحید (یعنی کلمہ تو حید) یاد نہیں ہے جو بچے مکتب میں پڑھا کرتے ہیں، تو اس میں اس کا کوئی نقصان نہیں۔ لیکن اگر وہ اس جواب سے یہ مراد رکھتی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو نہیں پہنچانتی تو اس صورت میں وہ مؤمنہ نہیں رہے گی اور اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ اگر کوئی شخص اس حالت میں مرا کہ وہ یہ نہیں پہنچانتا تھا کہ کوئی میرا خالق ہے، اس کے گھر کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک اور گھر بھی ہے اور یہ کہ ظلم حرام ہے تو وہ مؤمن نہیں تھا۔ ایک شخص گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ (گناہ کے ذریعہ) اپنے اسلام کو ظاہر کرنا چاہئے تو وہ کافر ہے۔ ایک شخص نے کسی سے کہا کہ میں مسلمان ہوں تو اس نے جواب میں کہا کہ تجھ پر بھی لعنت اور تیری مسلمانی پر بھی لعنت، تو وہ کافر ہوگیا۔ ایک عیسائی نے اسلام قبول کیا، اس کے بعد اس کا (عیسائی) باپ مرگیا، اس نے کہا کہ کاش میں اس وقت مسلمان نہ ہوتا تو اپنے باپ کا مال پا جاتا، وہ کافر ہوگیا۔ ایک عیسائی کسی مسلمان کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ میرے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرو تاکہ میں تمہارے ہاتھ پر اسلام قبول کرلوں اس مسلمان نے جواب دیا کہ تم فلاں عالم کے پاس چلے جاؤ تاکہ وہ تمہارے سامنے اسلام پیش کرے۔ اور تم اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کرو اس طرح کہنے والے کے بارے علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ ابوجعفر کہتے ہیں کہ اس طرح کہنے والا کافر نہیں ہوگا۔ ایک کافر نے اسلام قبول کیا تو ایک مسلمان نے اس سے کہا کہ تمہیں اپنے دین میں کیا برائی نظر آئی تھی (جو تم نے اسلام قبول کرلیا ؟ ) یہ کہنے والا کافر ہوجائے گا۔

【2】

مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان

وہ موجبات کفر جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے ہے وہ شخص کافر ہوجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی ایسے وصف کی نسبت کرے جو اس کی شان کے لائق نہیں، یا کسی کو اس کا شریک یا بیٹا اور یا بیوی ٹھہرائے، یا اس کی طرف جہل کی یا عجز کی یا کسی اور خرابی کی نسبت کرے۔ یہ کہنے والا بھی کافر ہے کہ یہ جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا کام کرے جس میں کوئی حکمت نہ ہو جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ کفر پر راضی ہوتا ہے تو وہ کافر ہے۔ اور کوئی شخص یوں کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے یہ کام کرنے کا حکم دے تو میں جب بھی یہ کام کروں تو وہ کافر ہوجائے گا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی طرف جو ید اور وجہ کی نسبت کی گئی ہے درآنحالیکہ وہ جارحہ نہیں، تو کیا کسی دوسری زبان میں ان چیزوں کا اطلاق جائز ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں بعض علماء نے فرمایا کہ جائز ہے بشرطیکہ ان چیزوں سے (ان کے حقیقی مفہوم یعنی) اعضاء مردانہ ہوں اور اکثر علماء یہ فرماتے ہیں کہ جائز نہیں اور یہی معتمد علیہ قول ہے۔ اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ فلاں شخص میری آنکھ میں ایسا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں یہودی، تو جمہور علماء کے نزدیک وہ شخص کافر ہوجائے گا (کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف آنکھ کے اصل معنی یعنی ایک انسانی عضو کی نسبت کی ہے) لیکن بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اگر اس جملہ سے کہنے والے کی مراد اس فلاں شخص کے افعال کی برائی کو ظاہر کرنا مقصود ہو تو کافر نہیں ہوگا۔ ایک انسان کی وفات ہوگئی ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اللہ کو ایسا نہیں چاہئے تھا۔ تو یہ کفر ہے۔ ایک شخص نے اپنے دشمن سے کہا کہ میں اللہ کے حکم سے تیرے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہوں دشمن نے جواب میں کہا کہ میں اللہ کا حکم نہیں جانتا یا یہ کہا کہ اس جگہ اللہ کا حکم نہیں چلتا یا یہ کہا کہ۔ اس جگہ کوئی حکم نہیں۔ یا یہ کہا کہ اللہ حکم کرنے کے لائق نہیں ہے یا یہ کہا کہ اس جگہ تو دیودہی کا حکم چلے گا یہ سب جملے کفر کو لازم کرتے ہیں۔ حاکم عبدالرحمن (رض) اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو یہ کہے کہ فلاں کام رواج کے مطابق کررہا ہوں اللہ کے حکم سے نہیں کرتا تو کیا ایسا شخص کافر ہوجائے گا ؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر اس جملہ سے اس مراد صرف فساد حق، ترک شریعت اور اتباع رسم ہے نہ کہ اس کا مقصد اللہ کے حکم کو رد کرنا ہے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔ اگر کوئی شخص کسی ایسے آدمی کے بارے میں جو کبھی بیمار نہ ہوتا ہو یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھول گیا ہے یا یہ کہا کہ یہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ بھول گیا ہے تو یہ کفر ہے جائے گا کسی شخص نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ تم تو اللہ تعالیٰ سے زیادہ محبوب ہو تو وہ کافر ہوجائے گا۔ یہ کہنا کہ فلاں شخص بری تقدیر میں پھنس گیا ہے خطائے عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے مکان کو ثابت کرنا کفر ہے چناچہ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی مکان خالی نہیں ہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اور اگر کسی نے یوں کہا کہ اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے تو دیکھا جائے گا کہ یہ بات اس نے کس مقصد سے کہی ہے، اگر اس کا مقصد اس چیز کی حکایت کرنا ہے جو ظاہری طور پر منقول ہے تو کافر نہیں ہوگا اور اگر اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنا ہے تو پھر وہ کافر ہوجائے گا۔ اور اکثر علماء کے نزدیک اگر اس کی نیت کچھ بھی نہ ہو تو بھی کافر ہوجائے گا۔ اسی طرح یہ کہنے والا بھی کافر ہوجائے گا۔ کہ اللہ تعالیٰ انصاف کے لئے بیٹھا یا اللہ تعالیٰ انصاف کے لئے کھڑا ہوا کیونکہ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف فوق اور تحت کی نسبت کی گئی ہے۔ یہ کہنا بھی کفر ہے کہ (میرا حامی و مددگار) آسمان پر اللہ ہے اور زمین پر فلاں شخص ہے۔ اکثر علماء کے نزدیک یہ کہنا بھی کفر ہے کہ اللہ آسمان پر سے نیچے دیکھ رہا ہے یا صرف یہ کہا کہ اللہ آسمان پر سے دیکھ رہا ہے۔ یا یہ کہا کہ اللہ عرش پر سے دیکھ رہا ہے ۔ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی طرف ظلم کی نسبت کی وہ کافر ہوگیا۔ اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ اے اللہ ! یہ ظلم مت پسند کر تو بعض علماء کے نزدیک وہ کافر ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص سے یوں کہا کہ اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے انصاف کیا تو مجھے تم سے انصاف ملے گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ہاں لفظ اگر کی بجائے جس وقت کہا تو وہ کافر نہیں ہوگا۔ اور اگر کسی سے یوں کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن حق اور عدل کے ساتھ حکم کیا تو میں تم سے اپنا حق لے لوں گا کافر ہوجائے گا۔ اگر کسی نے یوں کہا کہ اے اللہ ! جب ایک ظالم ظلم کرتا ہے تو اس کا ظلم قبول مت کر، اگر تو نے اس کا ظلم قبول کیا تو میں قبول نہیں کروں گا یہ کفر ہے کیونکہ اس شخص نے گویا یہ کہا کہ اے اللہ ! اگر تو اس کے ظلم پر راضی ہوگا تو میں راضی نہیں ہونگا۔ ایک شخص نے کسی سے کہا کہ جھوٹ مت کہو اس شخص نے جواب میں کہا کہ جھوٹ کس لئے ہے، کہنے ہی کے لئے تو ہے یہ کفر ہے۔ کسی شخص سے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرو اس نے کہا کہ مجھے نہیں چاہئے یا کسی نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کرے، غارت کروں یا کسی سے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی مت کرو کیونکہ اگر تم نافرمانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دوزخ میں داخل کرے گا اس نے کہا کہ میں دوزخ سے نہیں ڈرتا یا کسی سے یہ کہا کہ زیادہ مت کھاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہیں دوست نہیں رکھے گا اس نے کہا کہ میں تو کھاؤں گا چاہے دشمن رکھے چاہے دوست رکھے یہ باتیں کفر کو لازم کرتی ہیں۔ اسی طرح اگر کسی سے یہ کہا گیا کہ زیادہ مت ہنسو۔ یا زیادہ مت سوؤ اس کے جواب میں اس نے کہا کہ میں اتنا کھاؤں گا، اتنا سوؤں گا اور اتنا ہنسوں گا کہ جتنا چاہوں گا یہ کفر ہے۔ ایک شخص سے یہ کہا کہ گناہ مت کرو کیونکہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے اس نے کہا کہ میں عذاب کو ایک ہاتھ پر اٹھا لوں گا یہ کفر ہے۔ اگر کسی شخص سے یہ کہا گیا کہ اپنے ماں باپ کو مت ستاؤ اس نے کہا کہ ان کا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے یہ اگرچہ کفر نہیں ہے لیکن سخت گناہ کی بات ہے۔ ایک شخص نے ابلیس لعین سے کہا کہ اے ابلیس ! تو میرا فلاں کام کر دے تاکہ میں تیرا کہنا مانوں اور اپنے ماں باپ کو ستاؤں اور تو جس چیز سے منع کرے اس سے باز رہوں یہ کفر ہے۔ اگر کسی شخص نے کسی سے یہ کہا کہ اگر اللہ یہ دونوں جہاں نہ بناتا تو میں تم سے اپنا حق لے لیتا یہ کفر ہے۔ ایک شخص نے کوئی جھوٹی بات کہیں اور ایک سننے والے نے کہا کہ میرا اللہ تمہارے اس جھوٹ کو سچ کر دے۔ یا یہ کہا کہ تمہارے اس جھوٹ کے ساتھ برکت دے۔ تو یہ کفر کے قریب ہے اسی طرح ایک شخص نے جھوٹ بولا اور سننے والے نے کہا کہ اللہ تمہارے جھوٹ میں برکت دے تو وہ کافر ہوگیا۔ ایک شخص نے کسی سے کہا کہ فلاں شخص تمہارے ساتھ سیدھا نہیں چلتا اس نے جواب میں کہا کہ اس کے ساتھ تو اللہ بھی سیدھا نہیں چلے گا تو یہ کہنے والا کافر ہوگیا۔ اگر کسی نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ زر کو محبوب رکھتا ہے اس لئے مجھے زر نہیں دیا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ بشرطیکہ اس کے کہنے سے اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف بخل کی نسبت کرنا ہو۔ ہاں صرف اتنا کہنا کفر کو لازم نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ زر کو پسند نہیں کرتا ہے ۔ ایک شخص نے کسی سے کہا کہ انشاء اللہ تم یہ فلاں کام کرو اس نے جواب دیا کہ میں انشاء اللہ کے بغیر یہ کام کروں گا تو یہ کفر ہے۔ ایک مظلوم نے کہا کہ (میرے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے) تقدیر الہٰی کے مطابق ہے ظالم نے یہ سن کر کہا کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں تقدیر الہٰی کے بغیر کر رہا ہوں یہ کفر ہے۔ اگر کسی نے یہ کہا کہ اے اللہ ! مجھ پر رحمت کرنے سے دریغ نہ کیجئے تو یہ کفر یہ الفاظ میں سے ہے۔ میاں بیوی آپس میں گفتگو کر رہے تھے (بیوی کی طرف سے) جب گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا تو میاں نے کہا کہ اللہ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو بیوی نے جواب میں کہا کہ میں اللہ سے نہیں ڈرتی یہ کہنے سے بیوی مرتد ہوجائے گی۔ اور ان دونوں (میاں بیوی) کے درمیان جدائی واقع ہوجائے گی۔ بشرطیکہ میاں نے بیوی کو اس کی کسی صریح معصیت پر ٹوکا ہو اور اس کو اللہ سے ڈرایا ہو اور اس کے جواب میں بیوی نے مذکورہ جملہ کہا ہو، ہاں اگر میاں نے بیوی کو اس کی کسی اسی بات پر ٹوکا ہو جس میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا کوئی موقع نہ ہو (یعنی بیوی نے کوئی معصیت نہ کی ہو) تو اس صورت میں وہ کافر نہیں ہوگی۔ البتہ اگر اس صورت میں بھی اس جملہ سے بیوی کا مقصد خوف اللہ اور تقویٰ کی اہانت ہو تو دونوں کے درمیان جدائی واقع ہوجائے گی۔ ایک شخص نے کسی کو مارنے کا ارادہ کیا اور اس سے کہا کہ تم اللہ سے نہیں ڈرتے اس نے مارنے والے سے کہا کہ نہیں یہ کفر نہیں ہے کیونکہ اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کہے کہ اللہ سے ڈرنے کا سوال تو اس چیز میں پیدا ہوتا ہے جس کو میں کروں۔ ایک شخص کسی گناہ کا ارتکاب کر رہا تھا کہ کسی نے اس کو ٹوکا اور کہا کہ کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے اس نے جواب دیا کہ نہیں وہ کافر ہوجائے گا کیونکہ اس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے، اسی طرح کسی اور شخص سے کہا گیا کہ کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے اور اس نے غصہ کی حالت میں جواب دیا کہ نہیں تو وہ کافر ہوگیا۔ اگر کوئی شخص اللہ کے کسی حکم کو یا پیغمبر کی شریعت کو پسند نہ کرے مثلا زید سے بکر نے کہا کہ اللہ نے چار بیویاں حلال کی ہیں اور زید کہے کہ میں اس حکم کو پسند نہیں کرتا تو یہ کفر ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ صرف اللہ کا وجود ہونا چاہئے اور کسی چیز کا وجود نہیں ہونا چاہئے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ میرے حق میں تمام نیکیاں اللہ نے پیدا کی ہیں اور برائی کا خالق میں ہوں تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ایک شخص سے کہا گیا کہ یار تم اپنی بیوی کے بس میں نہیں آئے اس نے جواب دیا کہ عورتوں کے بس میں اللہ بھی نہیں آتا میں کیونکر بس میں آجاؤں گا یہ کفر ہے۔ اگر کسی شخص نے کسی سے یہ کہا کہ اللہ کی طرف سے دیکھتا ہوں اور تمہاری طرف سے دیکھتا ہوں (یعنی جو چیز مجھے ملی ہے وہ اللہ کی جانب سے ہے اور تمہاری جانب سے ہے) یا یہ کہا کہ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اور تم سے امید رکھتا ہوں تو یہ برا ہے ہاں اگر یوں کہے کہ میں اللہ کی طرف سے دیکھتا ہوں اور اس کا ظاہری سبب تمہیں سمجھتا ہوں تو یہ ایک اچھی بات ہے۔ ایک شخص نے اپنے کسی مخالف سے کسی بات میں قسم کھلوانی چاہی، اس مخالف نے کہا کہ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں لیکن قسم کھلوانے والے نے کہا کہ میں اللہ کی قسم نہیں چاہتا بلکہ طلاق یا عتاق کی قسم لینا چاہتا ہوں تو وہ بعض علماء کے نزدیک کافر ہوجائے گا لیکن اکثر علماء کے نزدیک کافر نہیں ہوگا اور یہی قول زیادہ صحیح ہے۔ اگر کسی شخص نے بطور ہنسی مذاق فارسی میں کہ من خدا یم یعنی اس کا مطلب یہ کہنا تھا کہ اللہ آئیم تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تمہیں ہمسایہ کے حق کی پرواہ نہیں بیوی نے کہا نہیں شوہر نے کہا تمہیں خاوند کے حق کی پرواہ نہیں، بیوی نے کہا نہیں ! پھر شوہر نے کہا تمہیں اللہ کے حق کی پرواہ نہیں بیوی نے اس کے جواب میں بھی کہا نہیں تو وہ کافر ہوجائے گی۔ اگر کسی شخص نے اپنی بیماری سے پریشان ہو کر تنگی معاش کے ابتلاء کی وجہ سے کہا کہ نہ معلوم اللہ نے مجھے پیدا کیوں کیا ہے جب کہ دنیا کی لذتوں اور راحتوں سے میں محروم ہوں تو اس کے بارے میں بعض علماء تو یہ کہتے ہیں کہ وہ کافر نہیں ہوگا لیکن اس کی یہ بات ایک خطائے عظیم ہے۔ ایک شخص نے کسی سے کہا کہ تم نے جو برائیاں کی ہیں ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب میں مبتلا کرے گا اس نے جواب میں کہا کہ کیا اللہ تم نے مقرر کر رکھا ہے کہ اللہ وہی کرے گا جو تم کہو وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ اللہ دوزخ بنانے کے سوا اور کیا کرسکتا ہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی بدنما جانور یا بدنما انسان کو دیکھ کر کہا کہ کیا کوئی اللہ کا کار پرداز نہیں ہے کہ اس نے اس قسم کا جانور یا انسان پیدا کیا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ایک مفلس نے شدت افلاس میں کہا کہ فلاں شخص بھی اللہ کا بندہ ہے اور اس کو اس قدر نعمتیں حاصل ہیں اور میں بھی اللہ کا بندہ ہوں اور اتنے رنج وآلام میں مبتلا ہوں، کیا یہ انصاف ہے یہ کہنے سے وہ کافر ہوگیا۔ اسی طرح ایک شخص سے کہا گیا کہ اللہ سے ڈرو، اس نے جواب دیا کہ اللہ کہاں ہے تو وہ کافر ہوگیا۔ نیز اگر کسی نے یہ کہا کہ پیغمبر اپنی قبر میں نہیں ہیں یا یہ کہا کہ اللہ کا علم قدیم نہیں ہے یا یہ کہا کہ معدوم کا علم اللہ کو نہیں ہے تو وہ کافر ہوگیا۔ اگر کسی شخص کا نام عبداللہ ہو اور ایک اور شخص اس کو پکارتے وقت لفظ اللہ کے بجائے حرف کاف کا اضافہ کر دے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ بشرطیکہ وہ پکارنے والا عالم ہو۔ اسی طرح اگر کوئی عالم لفظ خالق کی عمداً تصغیر کرے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ تمہارے دل پر رحم کرے میرے دل پر نہیں تو وہ کافر ہوجائے گا۔ بشرطیکہ اس نے یہ بات رحمت الہٰی سے بےنیازی کے پیش نظر کہی ہو۔ اور اگر اس بات سے اس کا مطلب یہ ہو کہ میرا دل ثابت باثبات اللہ ہے مضطرب نہیں ہے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔ اگر کسی شخص نے یوں قسم کھائی کہ اللہ کی قسم اور تیری خاک پاک کی قسم تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ہاں اگر کسی نے یوں قسم کھائی کہ اللہ کی قسم اور تیرے سر، تیری جان کی قسم، تو اس کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ وہ موجبات کفر جن کا تعلق انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ہے جو شخص انبیاء میں سے کسی بھی نبی کا اقرار نہیں کرے گا یا رسولوں میں سے کسی بھی رسول کی کسی بھی سنت پر ناراضگی یا عدم اعتقاد و اطمینان کا اظہار کرے گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ابن مقاتل سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو حضرت خضر یا حضرت ذی الکفل کی نبوت کا انکار کرے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ کسی ایسے نبی کی نبوت کا انکار کہ جس کی نبوت پر اس کی امت کے لوگ متفق نہ ہوئے ہوں، نقصان دہ نہیں ہے۔ اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ اگر فلاں نبی ہوتا تو میں اس پر ایمان لاتا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اور حضرت جعفر سے منقول ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء پر ایمان لایا اور مجھے نہیں معلوم کہ آدم (علیہ السلام) نبی تھے یا نہیں تو وہ کافر ہوجائے گا۔ حضرت جعفر سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو انبیاء کی طرف فواحش کی نسبت کرے جیسے کسی نبی کی طرف عزم زنا کی نسبت کرنا یا اسی طرح کی کوئی اور بات کہنا جیسا کہ حشویہ (ایک باطل فرقہ) حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں اس قسم کا اظہار کرتے ہیں، تو انہوں نے فرمایا کہ ایسا شخص کافر ہے، کیونکہ یہ انبیاء کے حق میں بد گوئی ہے اور ان کی اہانت کے مترادف ہے۔ ابو ذر کہتے ہیں کہ جس شخص نے یہ کہا کہ ہر نافرمانی کفر ہے اور پھر یہ کہا کہ انبیاء (علیہم السلام) نے نافرمانی کی تو وہ کافر ہے کیونکہ اس نے انبیاء کے حق میں بدگوئی کی اور یہ کہا کہ انبیاء (علیہم السلام) نے کبھی کوئی نافرمانی نہیں کی نہ حالت نبوت میں اور نہ اس سے پہلے تو وہ کافر ہے کیونکہ اس نے یہ بات کہہ کر گویا نصوص (قرآن کریم کی آیت (عصی ربہ الا) یۃ وغیرہ) کی تردید کی۔ بعض علماء سے یہ منقول ہے کہ جس شخص نے یہ نہیں جانا کہ محمد ﷺ خاتم النبیین ہیں، وہ مسلمان نہیں ہے، جو شخص اپنے قلب میں کسی بھی نبی کے بارے میں بغض رکھے وہ کافر ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ اگر فلاں اللہ کا رسول ہوتا تو میں اس پر ایمان نہ لاتا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ جیسا کہ یہ کہنے والا کافر ہوجاتا ہے۔ کہ اگر اللہ تعالیٰ بھی مجھے فلاں کام کا حکم دیتا تو میں نہ کرتا ۔ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ میں اللہ کا رسول ہوں یا فارسی میں کہا کہ من پیغمبرم اور اس سے اس کی مراد بھی یہ ہے کہ میں اللہ کا پیغام پہنچانے والا ہوں تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اور جس وقت اس نے یہ بات کہی اور کسی دوسرے شخص نے اس سے معجزہ طلب کرنے والے کا مقصد اس شخص کو ذلیل کرنا اور اسے عاجز کرنا ہے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔ اگر کسی شخص نے آنحضرت ﷺ کے بال مبارک کو چھوٹا سا بال کہا تو وہ بعض علماء کے نزدیک کافر ہوجائے گا اور بعض علماء کے نزدیک کافر نہیں ہوگا۔ ہاں اگر اس نے یہ بات اہانت کے طور پر کہی ہے تو ان کے نزدیک بھی کافر ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ میں نہیں جانتا کہ محمد ﷺ انسان تھے یا جن تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر کسی نے یوں کہا کہ اگر فلاں شخص پیغمبر ہے تو میں اس سے اپنا حق لوں گا وہ کافر ہوجائے گا۔ اور اگر کسی نے یہ کہا کہ محمد دریشک بود ( یعنی محمد ﷺ ایک چھوٹے فقیر تھے) یا یہ کہا کہ پیغمبر کا کپڑا بدبودار اور میلا کچیلا تھا۔ یا یہ کہ آنحضرت ﷺ کے ناخن بڑھ رہے تھے تو بعض علماء کے نزدیک وہ بلا کسی قید کے کافر ہوجائے گا جب کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ وہ اس صورت میں کافر ہوگا جب کہ وہ اس صورت میں کافر ہوگا جب کہ وہ یہ بات بطریق امانت کہے۔ اگر کسی نے کسی ایسے شخص کو گالی دی جس کا نام محمد یا احمد تھا یا اس کی کنیت ابوالقاسم تھی اور اس کو یوں مخاطب کیا کہ اے زانیہ کی اولاد، تو وہ کافر ہوگیا، بشرطیکہ (اس کا مقصد ہر اس شخص کو یہ گالی دینا ہو جس کا نام محمد یا احمد اور اس کی کنیت ابوالقاسم ہو اور اس طرح) نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی بھی اس کے پیش نظر ہو۔ یہ کہنے سے کوئی کافر نہیں ہوتا کہ ہر گناہ کبیرہ ہے لیکن انبیاء کے گناہ صغیرہ ہیں اور اگر کسی نے یہ کہا کہ ہر برائی کا کام جو قصدًا کیا جائے گناہ کبیرہ ہے اس کام کا کرنے والا فاسق ہے اور پھر اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ انبیاء کے معاصی قصدًا تھے تو وہ کافر ہوگیا کیونکہ اس نے انبیاء کی شان میں بدگوئی کی۔ ہاں اگر اس نے یہ کہا کہ انبیاء کے معاصی قصدًا نہیں تھے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔ جو رافضی حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کی شان میں بدزبانی کرے اور نعوذ باللہ ان پر لعنت بھیجے تو وہ کافر ہے ہاں اگر اس نے حضرت علی کو حضرت ابوبکر پر فضیلت دی تو وہ کافر نہیں ہوگا لیکن اس کو مبتدع کہا جائے گا، معتزلی بھی مبتدع ہے لیکن اگر وہ یہ کہے کہ اللہ کا دیدار محال ہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ حضرت عائشہ پر زنا کی تہمت لگانے والے اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا ہے ہاں اگر کسی نے آنحضرت ﷺ کی دوسری ازواج مطہرات پر زنا کی تہمت لگائی تو وہ کافر نہیں ہوتا لیکن مستحق لعنت ہوتا ہے اسی طرح جو شخص یہ کہے کہ حضرت عمر حضرت عثمان اور حضرت علی رسول کریم ﷺ کے صحابہ نہیں تھے تو وہ کافر نہیں ہوگا لیکن مستحق لعنت ہوگا۔ حضرت ابوبکر کی امامت و خلافت کا انکار کرنے والا بعض علماء کے نزدیک تو کافر ہوجاتا ہے اور بعض علماء کے نزدیک کافر نہیں ہوتا بلکہ مبتدع ہوتا ہے لیکن صحیح قول یہی ہے کہ وہ کافر ہوجاتا ہے۔ اسی طرح حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرنے والا بھی صحیح قول کے مطابق کافر ہوجاتا ہے۔ جو لوگ حضرت عثمان حضرت علی حضرت طلحہ حضرت زبیر اور حضرت عائشہ کو نعوذ باللہ کافر کہیں، خود ان کو کافر کہنا لازم ہے، اسی طرح فرقہ زیدیہ کے تمام لوگوں کو بھی کافر کہنا واجب ہے کیونکہ وہ یہ باطل اعتقاد رکھتے ہیں کہ نعوذ باللہ کسی عجمی ملک میں ایک نبی کا ظہور ہوگا جو ہمارے نبی ﷺ کے دین کو منسوخ کرے گا اور ہمارے سردار محمد رسول ﷺ کی رسالت کو کالعدم کرے گا۔ ان روافض کو بھی کافر کہنا واجب ہے جو تناسخ ارواح کے قائل ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ مرجانے والا دوبارہ دنیا میں لوٹ آئے گا اور ائمہ میں اللہ تعالیٰ کی روح حلول کئے ہوئے ہے، امام باطن کا ظہور ہوگا، جب تک اس امام باطن کا ظہور نہ ہو اوامرو نواہی معطل ہیں اور یہ کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے وحی لانے میں غلطی کی کیونکہ محمد ﷺ کی بجائے حضرت علی کے پاس لانی چاہئے تھی یہ فرقہ ملت اسلامیہ سے خارج ہے اور جو احکام مرتدوں کے بارے میں ہیں وہی فرقہ کے لوگوں پر نافذ ہوتے ہیں۔ جس شخص کو آنحضرت ﷺ کی شان میں بدزبانی کرنے پر مجبور کیا گیا ہو اس کی تین صورتیں ہیں۔ (١) اگر وہ یہ اقرار کرے کہ میرے دل میں محمد ﷺ کی برائی کا کوئی خطرہ بھی نہیں گزرا بلکہ میں نے اپنی زبان سے صرف وہی الفاظ ادا کئے جن کو ادا کرنے پر مجھے مجبور کیا گیا تھا درا نحالی کہ ان الفاظ کی ادائیگی بھی مجھ پر سخت شاق تھی، تو وہ کافر نہیں ہوگا اور اس کی مثال اس شخص کی سی ہوگی جس کو اپنی زبان سے کلمہ کفر کی ادائیگی پر مجبور کیا گیا ہوں اور اس نے وہ کلمہ کفر اپنی زبان سے ادا کیا ہو مگر اس کا قلب ایمان پر ثابت و مطمئن رہا ہو۔ (٢) اگر وہ اقرار کرے کہ (جب مجھے محمد کو برا کہنے پر مجبور کیا گیا تو) میرے دل میں اس عیسائی کا خیال آگیا جس کا نام محمد تھا چناچہ جب میں نے اپنی زبان سے محمد کے بارے میں برے الفاظ کہے تو میری مراد وہی عیسائی تھا، اس صورت میں بھی وہ کافر نہیں ہوگا۔ (٣) اور اگر وہ یہ اقرار کرے کہ (جب محمد کے بارے میں برے الفاظ کہنے پر مجبور کیا گیا تو) میرے دل میں اس عیسائی کا خیال آگیا جس کا نام محمد ہے لیکن میں نے اپنی زبان سے جو برے الفاظ ادا کئے وہ اس عیسائی کے بارے میں نہیں تھے بلکہ محمد ﷺ کے بارے میں تھے، اس صورت میں وہ کافر ہوجائے گا قانونًا بھی اور عند اللہ بھی۔ جس شخص نے یہ کہا کہ محمد ﷺ مجنوں تھے، وہ کافر ہے، ہاں یہ کہنے والا کہ محمد ﷺ بیہوش ہوگئے تھے، کافر نہیں ہوگا۔ اگر کسی شخص نے کہا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) (جنت میں) گیہوں نہ کھاتے تو ہم اشقیاء نہ ہوتے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ جس شخص نے حدیث متواتر کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا، جس شخص نے حدیث مشہور کا انکار کیا وہ بعض علماء کے مطابق تو کافر ہوگیا لیکن بعض علماء کے مطابق گمراہ ہوا کافر نہیں ہوا اور جس شخص نے خبر واحد کا انکار کیا وہ بھی کافر نہیں ہوتا مگر اس کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی نبی کے بارے میں اپنی خواہش کا اظہار کرے کہ وہ نبی نہ ہوتا تو اس کے متعلق علماء کہتے ہیں کہ اگر اس کی مراد یہ ہو کہ اس نبی کا مبعوث ہونا خارج از حکمت نہ ہوتا تو وہ کافر ہوگا اور اگر اس کی مراد اس نبی کی توہین اور اپنے کسی بغض کا اظہار ہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ایک شخص نے کسی کے سامنے کہا کہ آنحضرت ﷺ فلاں چیز مثلا کدو کو بہت پسند فرماتے تھے اگر سننے والے نے جواب میں کہا کہ میں اس کو پسند نہیں کرتا تو یہ کفر ہے، حضرت امام ابویوسف سے بھی یہی منقول ہے لیکن بعض متاخرین علماء فرماتے ہیں کہ اگر اس نے یہ بات کہ میں اس کو پسند نہیں کرتا بطور اہانت کہی ہے تو وہ کافر ہوجائے گا ورنہ کافر نہیں ہوگا۔ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے کپڑا بنا تھا اس لئے ہم سب جو لا ہے زادے ہیں یہ کفر ہے۔ ایک شخص نے کسی کے سامنے کہا کہ آنحضرت ﷺ جب کھانا کھاتے تھے تو اپنی تینوں انگلیاں چاٹ لیتے تھے اگر سننے والے نے یہ کہا یہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے تو وہ کافر ہوگیا۔ جس شخص نے یہ کہا کہ گنواروں میں عجیب رواج ہے کہ کھانا کھاتے ہیں اور ہاتھ نہیں دھوتے تو اگر اس نے یہ بات آنحضرت ﷺ کے عمل کی حقارت کے پیش نظر کہی ہے تو وہ کافر ہوگیا اسی طرح جس شخص نے یہ کہا کہ موچھیں پست (ہلکی ) کرنے اور عمامہ (کا سرا یعنی شملہ) گلے کے نیچے تک لٹکانے کا نہ معلوم کیسا رواج ہے ؟ تو اگر اس نے یہ بات رسول کریم ﷺ کی سنت پر طنز کے طور پر کہی تو وہ کافر ہوگیا۔ ایک شخص نے کوئی بات کہی اس پر دوسرے نے اس سے کہا کہ جھوٹ کہتا ہے اگرچہ ساری بات پیغمبرانہ ہے اس کہنے سے اس پر کفر لازم ہوجائے گا ایسے ہی اگر یہ کہا کہ میں اس کی بات نہیں مانوں گا اگرچہ اس کی ساری بات پیغمبرانہ ہے تو اس سے بھی کفر لازم آئے گا۔ ایک شخص نے اپنے غلام کو مارنے پیٹنے کا ارادہ کیا، اس سے دوسرے نے کہا کہ اسے مت مارو، اس نے کہا کہ تم تو تم، اگر محمد مصطفیٰ ﷺ بھی کہیں تو بھی نہیں چھوڑ سکتا، یا یہ کہا کہ اگر آسمان سے آواز آئے کہ اس کو مت مارو تو بھی میں نہیں چھوڑ سکتا، ماروں گا۔ یہ کہنے سے اس پر کفر لازم آئے گا۔ کسی نے احادیث نبوی ﷺ سے کوئی حدیث پڑھی جس کو سن کر ایک شخص نے کہا کہ ہمہ روز خلشہا خواند یعنی ہر روز الجھن کی چیز پڑھتا ہے تو اگرچہ اس نے اس کی نسبت آنحضرت ﷺ کی طرف نہ کی ہو بلکہ پڑھنے والے کی طرف کی ہو لیکن وہ کافر ہوجائے گا بشرطیکہ اس حدیث کا تعلق احکام شریعت میں سے کسی حکم کے ساتھ ہو یا دین کے ساتھ ہو اور اگر وہ ایسی حدیث تھی کہ جس کا تعلق دین و شریعت سے نہیں تھا تو اس کی تکفیر نہیں ہوگی اور اس کے قول کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ وہ اس کا پڑھنا غیر اولی بتارہا تھا۔ اگر کسی نے کہا بحرمت جو انک عربی اور اس جملہ سے اس کی مراد آنحضرت ﷺ تھے تو اس کی تکفیر کی جائے گی کسی نے کہا کہ نبی کریم ﷺ ایک وقت پیغمبر تھے۔ اور ایک وقت ایسا تھا کہ پیغمبر نہ تھے یا اس طرح کہا کہ میں نہیں جانتا کہ آنحضرت ﷺ کی قبر میں مؤمن ہیں یا کافر تو یہ کہنے سے کافر ہوجائے گا۔ کسی نے اپنی بیوی سے کہا کہ خلاف بات نہ کہو اس عورت نے کہا کہ پیغمبروں نے خلاف کہا ہے تو اس کا یہ کہنا کفر ہے توبہ کرے اور پھر نکاح کی تجدید کرے ! کسی نے کسی سے کہا کہ مجھے تیرا دیکھنا گویا ملک الموت کا دیکھنا معلوم ہوتا ہے، تو اس کا ایسا کہنا بہت بڑی غلطی ہے اور اس کے کفر میں مشائخ کا اختلاف ہے۔ بعضوں نے کہا کہ کافر ہوجائے گا اور اکثر علماء کہتے ہیں کہ اس کہنے سے وہ کافر نہیں ہوگا۔ اور فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہے کہ بعضوں نے یہ کہا ہے کہ اگر اس نے یہ جملہ ملک الموت سے عدوات کی بنیاد پر کہا تو وہ کافر ہوجائے گا اور اگر موت سے ناگواری کی بنا پر کہا ہے تو کافر نہیں ہوگا اور اگر یہ کہا کہ فلاں کے منہ کو ملک الموت کی طرح دشمن سمجھتا ہوں تو اکثر مشائخ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ کافر ہوجائے گا، کسی نے کہا کہ میں فلاں کی گواہی نہیں سنتا خواہ جبرائیل ومیکائیل ہو تو اس صورت میں اس کی تکفیر کی جائے گا۔ اگر کسی نے فرشتوں میں سے کسی فرشتے کو عیب لگایا تو اس کی تکفیر کی جائے گا، اگر کوئی کہے کہ میں فرشتہ ہوں تو اس کہنے سے وہ کافر نہیں ہوتا اور اگر یہ کہے کہ میں نبی ہوں تو اس کہنے سے وہ کافر ہوجائے گا۔ ایک شخص نے ایک عورت سے بغیر کسی شخص کی موجودگی کے نکاح کیا اور کہا کہ میں نے اللہ اور رسول کو گواہ بنایا، یا یہ کہا کہ اللہ اور فرشتہ کو گواہ بنایا تو اس صورت میں وہ کافر ہوجائے گا اور اگر کہا کہ دائیں اور بائیں والے فرشتوں کو گواہ بنایا تو اس صورت میں کافر نہ ہوگا۔ وہ موجبات کفر جن کا تعلق قرآن پاک سے ہے اگر کسی نے کہا کہ قرآن مخلوق ہے تو وہ کافر ہوجائے گا، اسی طرح اگر کسی نے کسی آیت قرآنی کا انکار کیا یا اس کے ساتھ ٹھٹھا مخول کیا، یا عیب لگایا تو ان صورتوں میں وہ کافر ہوجائے گا۔ کسی نے دف کی تھاپ پر یا بانسری کی لے پر قرآن پڑھا تو اس نے کفر کیا، ایک شخص قرآن پڑھ رہا تھا دوسرے نے سن کر کہا کہ یہ کیا طوفان کی آواز ہے تو اس کا یہ کہنا کفر ہے اور اگر کسی نے کہا کہ میں نے بہت قرآن پڑھا اور مجھ سے گناہ معاف نہیں کیا گیا تو اس کہنے سے وہ کافر ہوگیا۔ کسی نے کسی سے کہا کہ تو نے آیت (قل ہو اللہ) کی کھال کھینچ لی، یا یہ کہا کہ تو نے آیت (الم نشرح) کا گریبان پکڑ لیا، یا اس شخص سے جو کسی بیمار کے پاس سورت یٰسین پڑھ رہا تھا کہا یٰسین مردہ کے منہ میں مت رکھو یا کسی سے کہا اے آیت (انا اعطینک الکوثر) سے بھی زیادہ کو تاہ۔ یا ایک شخص قرآن پڑھ رہا تھا اور اس کو کوئی کلمہ یاد نہیں آرہا تھا اس سے کہا آیت (والتفت الساق بالساق) یا کسی کے پاس بھرا ہوا پیالہ لایا اور کہا آیت (کاسا دھاقا) یا کسی سے مذاق کے طور پر کہا آیت (فکانت سرابا) یا ناپ تول کے وقت مذاق کے پر کہا آیت (واذا کالوہم او وزنوہم یخسرون) یا کسی سے یہ کہا کہ تو نے (الم نشرح) کی پگڑی باندھ لی ہے اور اس کی مراد یہ تھی کہ تو نے علم کا اظہار کیا ہے یا کسی نے کسی جگہ کے لوگوں کو جمع کیا اور کہا (فجمعناہم جمیعا) یا یہ کہا آیت (وحشرناہم فلم نغادر منہم احدا) یا کسی سے کہا کہ تو (والنازعات نزعا) کیونکر پڑہتا ہے نون کے پیش کے ساتھ یا اسے زیر دے کر مراد اس کی طنز کرنا تھی، یا کسی گنجے شخص سے میں تو تجھ کو اس لئے بڑا کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (کلا بل ران) یا کسی سے کہا گیا کہ نماز پڑھنے چلو یا جماعت کی نماز میں چلو، اس نے جواب میں کہا کہ میں تنہا پڑھتا ہوں اللہ تعالیٰ کا قول ہے (ان الصلوۃ تنہا) تو ان تمام صورتوں میں کافر ہوگا۔ ایک شخص نے کسی سے کہا کہ تو نے ایسا گھر پاک صاف کیا ہے کہ جیسے (والسماء والطارق) تو بعضوں نے کہا کہ اس کہنے سے وہ کافر ہوجائے گا اور امام ابوبکر اسحاق نے کہا کہ یہ کہنے والا اگر جاہل ہے تو کافر نہیں ہوگا اور اگر وہ عالم ہے تو کافر ہوگا۔ اور اگر کسی نے کہا (قاعا صفا صفا) ہوگیا ہے تو اس جملہ میں بڑا خطرہ ہے کہ وہ کافر ہوجائے، یا دیگ میں کچھ لگا رہ گیا اس وقت کہا (والباقیات الصالحات) تو یہ بھی بڑے خطرے کی چیز ہے۔ اور جب کسی نے یہ کہا کہ قرآن عجمی ہے تو وہ کافر ہوگیا اور اگر یہ کہا کہ قرآن میں ایک کلمہ عجمی ہے تو اسے کافر کہنے میں عجلت نہ کرنی چاہئے یہ قابل غور ہے، کسی سے کسی نے کہا تو قرآن پاک کیوں نہیں پڑھتا ہے، اس نے جواب میں کہا کہ میں قرآن سے بیزار میں چکا تو اس کی تکفیر کی جائے گی، ایک شخص کو قرآن پاک کی کوئی ایسی سورت یاد ہے جسے وہ بکثرت پڑھتا رہتا ہے، دوسرے نے اس پڑھنے والے سے کہا کہ تو نے اس سورت کو کمزور وزبوں پا لیا ہے تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا، اگر کسی نے قرآن پاک کو مثلًا فارسی میں نظم کیا، تو اس کو قتل کیا جائے گا اس لئے کہ وہ کافر ہوگیا۔

【3】

مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان

وہ موجبات کفر جن کا تعلق نماز روزہ اور زکوٰۃ سے ہے کسی نے کسی بیمار سے کہا کہ تو نماز پڑھ لے اس نے اس کے جواب میں کہا اللہ کی قسم میں کبھی نماز نہیں پڑھوں گا اور اس نے پھر کبھی نماز پڑھی بھی نہیں یہاں تک کہ مرگیا تو وہ کافر کہا جائے گا اور اگر صرف یہ کہا کہ نہیں پڑھوں گا تو اس کے اس کہنے میں چار احتمال ہیں۔ (١) ایک تو یہ کہ نماز نہیں پڑھتا اس لئے کہ پڑھ چکا۔ (٢) دوسرے یہ کہ نماز نہیں پڑھتا یعنی تیرے حکم سے نہیں پڑھتا اس لئے تجھ سے جو بہتر ہے وہ حکم کرچکا ہے۔ (٣) تیسرے یہ کہ نہیں پڑھتا یعنی بےباکی اور فسق کے طور پر کہا، ان تینوں صورتوں میں وہ کافر نہیں ہوگا۔ (٤) چوتھے یہ کہ نماز نہیں پڑھتا اس وجہ سے کہ مجھ پر نماز واجب نہیں ہے اور نہ مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے، اس چوتھی صورت میں وہ کافر ہوجائے گا اور اگر اس نے جواب میں مطقًا یہ کہا کہ میں نماز نہیں پڑھتا تو وہ ان وجوہ کی وجہ سے کافر نہیں ہوگا۔ کسی سے کہا گیا کہ نماز پڑھ لے اس نے جواب میں کہا کہ میں پاگل ہوں جو نماز پڑھوں اور اپنے اوپر کام بڑھاؤں یا اس طرح کی مدت گزری کہ میں نے بیگار نہیں کی، یا یہ کہا کہ وہ کام کون آخر تک پورا کرسکتا ہے، یا یہ کہ عقل مند کو ایسے کام میں نہ پڑنا چاہئے جس کو آخر تک نباہ نہ سکے، یا یہ کہا کہ میرے واسطے اور لوگ کرلیتے ہیں یا یہ کہا کہ نماز پڑھنے سے مجھے کوئی سرفرازی نہیں مل جاتی ہے، یا یہ کہ تو نے نماز پڑھ لی تو کیا سر بلندی حاصل کرلی، یا کہا کہ میں نماز کس لئے پڑھوں میرے ماں باپ تو مرچکے ہیں، یا کہا کہ نماز پڑھنی نہ پڑھنی دونوں برابر ہے یا کہا کہ اس قدر نماز پڑھ چکا کہ دل اکتا گیا، یا کہا کہ نماز ایسی چیز نہیں ہے کہ وہ باقی رہے گی تو سڑ جائے گی۔ یہ تمام جوابات کفریہ ہیں۔ اسی طرح ایک شخص نے کسی سے کہا کہ آؤ فلاں کام کے لئے نماز پڑھیں، اس نے کہا میں نے بہت نماز پڑھی میری کوئی حاجت پوری نہیں ہوئی اور جواب میں یہ بات بطور طنز واستخفاف کہی تو اس سے وہ کافر ہوجائے گا، ایک فاسق نمازیوں کو مخاطب کر کے کہے آؤ مسلمانی دیکھو اور اس کے بعد وہ فسق کی مجلس کی طرف اشارہ کرے تو وہ کافر ہوجائے گا اور اگر کسی نے کہا کہ بےنماز ہونا کیا ہی بہتر ہے تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا، ایک شخص نے کسی سے کہا کہ نماز پڑھو تاکہ تمہیں بندگی کا مٹھاس حاصل ہو، یا فارسی میں کہے نماز بخوان تا حلاوت نمازیابی۔ اس کے جواب میں اس نے کہا کہ تو مکن کہ حلاوت بےنمازی بہ بینی یعنی تم نماز نہ پڑھو تاکہ نماز نہ پڑھنے کی لذت محسوس کرسکو تو اس کہنے سے وہ کافر ہوجائے گا۔ غلام سے کسی نے کہا کہ نماز پڑھ اس نے کہا میں نہیں پڑھتا اس لئے کہ اس کا ثواب میرے آقا کو حاصل ہوگا وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا۔ ایک شخص سے کسی نے کہا کہ نماز پڑھ لے اس نے جواب میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے مال میں نقصان دیا لہٰذا میں اس کے حق میں نقصان کروں گا تو یہ جواب کفر ہے۔ ایک شخص نے صرف رمضان میں نماز پڑھتا ہے پھر بعد میں نہیں پڑھتا اور کہتا ہے کہ یہی بہت ہے، یا کہتا ہے یہی بہت زیادہ ہوگی اس لئے کہ رمضان کی ہر نماز ستر نمازوں کے برابر ہے تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا، کوئی جان بوجھ کر قبلہ کے سوا کسی اور طرف منہ کر کے نماز پڑھے مگر اتفاق سے وہ قبلہ نکل گیا تو امام اعظم فرماتے ہیں کہ وہ کافر ہوگیا اور اسی پر فقیہ ابواللیث نے عمل کیا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی نماز بغیر وضو پڑھے یا ناپاک کپڑوں میں پڑھے تو کافر ہوجائے گا اور اگر کوئی جان بوجھ کر اس طرح نماز پڑھا کرتا ہے تو وہ بھی کافر ہے، ایک شخص کو قبلہ کا پتہ نہیں چلا اس نے تحری کی یعنی نماز پڑھی، امام ابوحنیفہ ایسے شخص کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں اس کے حق میں کفر کا خوف رکھتا ہوں اس لئے کہ اس نے قبلہ سے اعراض کیا اور دوسرے مشائخ کا اس کے کفر میں اختلاف ہے شمس الائمہ حلوائی فرماتے ہیں کہ جب اس نے قبلہ چھوڑ کر بطور استہزاء و اہانت دوسری طرف نماز پڑھی تو ظاہریہ ہے کہ وہ کافر ہوجائے گا۔ اور اگر کوئی ایسی صورت میں کسی وجہ سے مبتلا ہوگیا مثلًا چند لوگوں کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ اسے حدث ہوگیا اور شرم کی وجہ سے اس نے سوچا کہ ظاہر نہ ہونے پائے چناچہ چھپانے کے لئے بغیر وضو نماز پڑھتا رہا یا دشمن کے پاس تھا اور کھڑے ہو کر اس حالت میں نماز پڑھی کہ وہ پاک نہ تھا، بعض مشائخ نے یہ کہا ہے کہ اس صورت میں وہ کافر نہیں ہوگا اس لئے کہ اس نے استہزاء کے طور پر نہیں کیا ہے لیکن اگر کوئی ضرورت یا حیاء کی وجہ سے ایسی صورت میں مبتلا ہوجائے تو اس کو چاہئے کہ اپنے اس قیام سے نماز کے قیام کا ارادہ نہ کرے اور نہ کچھ پڑھے اور جب ان کے ساتھ رکوع میں جائے تو وہ رکوع کا قصد نہ کرے اور نہ تسبیح پڑھے تاکہ وہ کسی کے نزدیک کافر نہ ہونے پائے اور ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھنے سے بعض علماء کہتے ہیں کہ کافر نہیں ہوتا۔ کسی نے کہا کہ نماز فرض ہے لیکن رکوع سجدہ فرض نہیں تو اس کہنے سے کافر نہ ہوگا، اس لئے اس کو تاویل کی گنجائش ہے کہ نماز سے میری مراد جنازہ کی نماز تھی جس میں رکوع سجدے فرض نہیں ہیں۔ اگر کوئی رکوع اور سجدوں کی فرضیت کا بالکلیہ انکار کرے گا تو وہ کافر ہوجائے گا حتی کہ اگر صرف دوسرے سجدے کی فرضیت کا بھی انکار کرے گا تو وہ کافر ہوگا اس لئے کہ اس نے اجماع اور تواتر کا رد کیا۔ کسی نے کہا کہ اگر کعبہ مکرمہ قبلہ نہ ہوتا اور اس کی جگہ بیت المقدس قبلہ ہوتا تو بھی میں کعبہ ہی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا اور بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نہ پڑھتا، یا اس طرح کہا کہ اگر فلاں قبلہ ہوتا تو اس کی طرف میں منہ نہ کرتا، یا یوں کہا کہ اگر فلاں جانب کعبہ ہوتا تو میں اس طرف منہ نہ کرتا، یا یہ کہا کہ قبلے دو ہیں ایک کعبہ، دوسرا بیت المقدس، تو ان تمام صورتوں میں وہ کافر ہوجائے گا۔ ابراہیم بن یوسف نے کہا ہے کہ اگر کسی نے دکھلانے کے لئے نماز پڑھی تو اس کو ثواب نہیں ملے گا بلکہ اس کے نامہ اعمال میں گناہ لکھا جائے گا۔ اور بعضوں نے کہا ہے کہ اس سے کافر ہوجاتا ہے اور بعضوں نے کہا کہ اس صورت میں اس پر نہ گناہ ہے اور نہ اس کے لئے ثواب ہی ہے اور وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے نماز نہیں پڑھی۔ ایک شخص کسی کافر کے پاس آیا اور ایک دو وقت کی نماز چھوڑ دی نہیں پڑھی، اگر اس نے ایسا اس کافر کی تعظیم کی وجہ سے کیا ہے تو کافر ہوگا اور اس پر ان نمازوں کی قضا نہیں ہے اور اگر ایسا فسق وفجور کی وجہ سے کیا ہے تو کافر نہ ہوگا اور اس کو ان نمازوں کی قضاء کرنی ہوگی۔ ایک شخص نے دار السلام میں اسلام قبول کیا ایک ماہ کے بعد اس سے پنچ وقتہ نماز کے متعلق سوال کیا گیا، اس نے جواب میں کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ مجھ پر فرض ہے تو اس سے وہ کافر ہوجائے گا، ہاں اگر وہ نو مسلموں میں رہتا ہے تو کافر نہ ہوگا۔ اگر کوئی مؤذن سے اذان دیتے وقت کہے کہ تو نے جھوٹ کہا تو وہ کافر ہوجائے گا، اگر کوئی اذان سن کر یہ کہے کہ گھنٹے کی آواز ہے تو وہ کافر ہے ایک شخص سے کہا گیا تم زکوٰۃ ادا کروں، اس نے یہ سن کر کہا کہ میں ادا نہیں کرتا تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا، بعض حضرات علماء نے کہا کہ مطقاً اس جواب سے کافر ہوجائے گا اور بعض کہتے ہیں کہ احوال ظاہرہ میں اس جواب سے کافر ہوگا لیکن احوال باطنہ میں اس جواب سے کافر نہ ہوگا اور مناسب یہ ہے کہ یہاں بھی نماز کی طرح چار احتمال ہونے چاہئیں اور تین صورتوں میں کافر نہ ہوگا اور ایک صورت میں کافر ہوجائے گا، اگر کوئی کہے کہ کاش رمضان فرض نہ ہوتا تو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ کہنے والے کی نیت پر موقوف ہوگا۔ اگر اس نیت سے یہ کہا کہ رمضان کے حقوق اس سے ادا نہیں ہوسکتے تو کافر نہ ہوگا، اگر کوئی رمضان آتے وقت یہ کہے کہ بھاری مہینہ یا بھاری مہمان آیا ہے تو کافر ہوگا، جب رجب کا مہینہ آیا اور کسی نے کہا کہ اس کے بعد خرابی میں مبتلا ہوں گے تو اگر اس نے یہ محترم مہینوں کے لئے حقارت کے طور پر کہا ہے تو کافر ہوگا اور اگر اپنے نفس پر گرانی کو ظاہر کرنے کے لئے کہا ہے تو کافر نہ ہوگا اور اس سے پہلے مسئلہ میں بھی جواب اسی تفصیل کے ساتھ ہونا چاہئے۔ ایک شخص نے کہا کہ رمضان کا روزہ جلد گزر جائے تو بعض کہتے ہیں کہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا اور بعض کہتے ہیں کہ کافر نہیں ہوگا اور اگر کوئی کہے کہ چند ازیں روزہ کہ مرا دل بہ گرفت یعنی اتنے روزے کب تک ؟ میرا تو اس سے دل اکتا گیا تو اس کا یہ کہنا کفر ہے اور اسی طرح کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ نے طاعات کو فرض نہ کرتا تو ہمارے لئے عذاب بنادیا ہے اس جملہ کی اگر تاویل کی تو کافر نہ ہوگا، یا اسی طرح یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ اگر ان طاعات کو فرض نہ کرتا تو ہمارے لئے بہتر ہوتا، اگر اس جملہ کی کوئی تاویل کرے تو کافر نہ ہوگا۔ کوئی کہے کہ نماز میرے لائق نہیں ہے یا حلال میرے مناسب نہیں ہے یا یہ کہا کہ کس لئے نماز پڑھوں بیوی بچے تو میں رکھتا ہی نہیں یا اس طرح کہا کہ نماز کو میں نے طاق پر رکھ دیا تو اس ان تمام صورتوں میں کافر ہوجائے گا۔ وہ موجبات کفر جن کا تعلق علم اور علماء سے ہے اگر کوئی بغیر کسی ظاہر سبب کے کسی عالم دین سے بغض رکھے تو اس کے کافر ہوجانے کا بھی خوف ہے اور اس پر بھی کفر کا خوف ہے جو کسی عالم یا فقیہ کو بغیر سبب برا کہے اور وہ کافر ہوجاتا ہے جو کسی کو اس طرح کہے کہ تیرے علم کے مقعد میں گدھے کا ذکر اور اس علم سے اس کی مراد علم دین ہو۔ ایک جاہل نے علم سیکھنے والے کو اس طرح کہا کہ یہ جو کچھ سیکھتے ہیں وہ کہانیاں اور داستانیں ہیں یا یہ کہا کہ یہ سب فریب ہے یا یہ کہا کہ میں علم حیلہ کا منکر ہوں۔ واضح رہے کہ یہ سب جملے کفریہ ہیں۔ ایک اونچی جگہ پر بیٹھ جائے اور پھر لوگ اس سے بطور مذاق اور استہزاء مسائل پوچھنے لگیں اور اس کے بعد اس کو تکیوں سے مارنے لگیں اور سب ہنسنے لگیں تو وہ سب اس فعل کی وجہ سے کافر ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی علم کی مجلس میں واپس آ رہا تھا اس کو کسی نے کہا کہ تو بت خانہ سے آ رہا ہے تو وہ اس کی وجہ سے کافر ہوجاتا ہے، یا اسی طرح یہ کہا کہ مجھے علم کی مجلس سے کیا کام، یا یہ کہا کون شخص ان چیزوں کے ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہے جو علماء کہتے ہیں تو وہ کافر ہوگا۔ اگر کوئی کہے کہ علم کو کا سہ اور کیسہ میں نہیں رکھ سکتے یعنی یہ علم نہ کھانے کے پیالہ میں رکھنے کے لائق ہے اور نہ روپے کی تھیلی میں اور ضرورت انہی دونوں کی ہے، یا یہ کہا کہ علم کا کیا کروں گا مجھے جیب میں چاندی چاہئے تو اس کہنے سے وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر کوئی کہے کہ مجھے بال بچوں کی اتنی مصروفیات ہے کہ علم کی مجلس میں نہیں پہنچ سکتا اور اس نے اس سے علم کی اہانت کا ارادہ کیا تو اس جملہ سے بھی کفر کا خطرہ ہے۔ کوئی عالم فقیہ، علم کا تذکرہ کر رہا تھا یا کوئی صحیح حدیث بیان کر رہا تھا کسی نے اسے سن کر کہا کہ یہ کچھ نہیں ہے اور اسے رد کردیا یا کہا کہ یہ بات کیا کام آوے گی روپیہ چاہئے، کہ آج اسی کو عظمت حاصل ہے علم کیا کام آتا ہے، تو یہ کفر ہے۔ اگر کسی نے کہا کہ دانشمندی سے بہتر فساد برپا کرنا ہے تو یہ کفر ہے، کوئی عورت جس کا شوہر عالم ہو اگر یوں کہے کہ عالم شوہر کے اوپر لعنت ہو تو وہ کافر ہوجائے گی کسی نے کہا کہ عالموں کا فعل وہی ہے جیسے کافروں کا تو وہ اس کہنے سے اس وقت کافر ہوجائے گا جب تمام افعال میں برابری ظاہر کرے کہ اس طرح حق و باطل میں اس نے برابری کو ظاہری کیا۔ ایک شخص کا کسی فقیہ سے کسی بات میں جھگڑا ہوگیا، اس فقیہ نے اس کو کوئی شرعی وجہ بیان کی، اسے سن کر جھگڑنے والے نے کہا، یہ عالمانہ پن نہ کر، یہاں کچھ نہیں چل سکتی، تو ایسے شخص پر کفر کا خوف ہے، اگر کسی نے فقیہ سے کہا اے دانشمندک یا علویک تو اس سے کافر نہ ہوگا اگر اس کی نیت اہانت دین کی نہیں ہے۔ ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ایک فقیہ عالم نے اپنی کتاب ایک دکاندار کی دکان میں رکھ دی اور کسی کام سے چلا گیا پھر جب وہ دکان سے گزر تو دکاندار نے اس کو مخاطب کر کے کہا کہ تم بسولہ بھول گئے، فقیہ نے کہا تیری دکان میں میری کتاب ہے بسولہ نہیں، دکاندار نے کہا کہ بڑھئی بسولہ سے لکڑی کاٹتا ہے اور تم کتاب سے لوگوں کی گردن کاٹتے ہو۔ فقیہ نے شیخ امام ابوبکر محمد بن فضل سے اس واقعہ کا شکوہ کیا۔ انہوں نے اس شخص کے قتل کا حکم کیا۔ ایک شخص نے بیوی پر غصہ کیا اور کہا کہ تو اللہ کی اطاعت کر اور ساتھ ہی گناہ سے منع کیا، بیوی نے جواب میں کہا میں اللہ اور علم کیا جانوں میں نے اپنے کو دوزخ میں رکھ چھوڑا ہے تو وہ اس کی وجہ سے کافر ہوگئی، ایک شخص سے کہا گیا کہ علم دین کے طلب کرنے والے فرشتوں کے بازوؤں پر چلتے ہیں، اس نے کہا یہ جھوٹ ہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر کوئی کہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قیاس صحیح نہیں تو وہ کافر ہوجائے گا ہوجائے گا اس لئے کہ اس نے مطلقاً قیاس کی صحت کا انکار کیا کسی نے کہا کہ ثرید پلاؤ کا پیالہ علم سے بہتر ہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اور کہا کہ پلاؤ کا پیالہ اللہ سے بہتر ہے تو وہ کافر نہ ہوگا۔ یہ اس وجہ سے کہ اللہ سے کا مطلب اللہ کی طرف سے ہوسکتا ہے اور علم میں یہ تاویل نہیں ہوسکتی۔ ایک شخص نے اپنے دشمن سے کہا کہ میرے ساتھ شریعت کی طرف چلو اس نے کہا کہ کوئی سپاہی بلاؤ تو چلوں بےجبر واکراہ نہیں جاسکتا تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا کیونکہ اس نے شریعت کا مقابلہ کیا اور اگر اس نے یہ کہا کہ میرے ساتھ قاضی کے پاس چل اور اس نے یہی جواب دیا تو کافر نہ ہوگا اور اگر اس نے یہ کہا کہ میرے ساتھ شریعت اور حیلہ مفید نہیں ہوگا، یا یہ کہا کہ یہ پیش نہ جاویں گے۔ یا یہ کہا کہ میرے لئے کھجور کا حلوہ ہے شریعت کیا کروں گا، یہ ساری صورتیں کفر کی ہیں اور اگر یہ کہا کہ جس وقت تو نے چاندی لی تھی اس وقت شریعت اور قاضی کہاں تھا اس کی وجہ سے کافر ہوجائے گا۔ اور علماء متاخرین میں سے بعض نے کہا کہ اگر اس نے قاضی سے شہر کے قاضی کو مراد لیا ہے، تو کافر نہ ہوگا۔ کسی شخص سے کہا گیا کہ اس بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے اس نے جواب دیا کہ میں رسم پر عمل کرتا ہوں نہ کہ شریعت پر تو اس کہنے سے بعض کے نزدیک کافر ہوجائے گا، ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو کیا کہتی ہے شریعت کا کیا حکم ہے بیوی نے بلند آواز سے ڈکار لی اور کہا اینک شرع را تو وہ کافر ہوجائے گی۔ اور اس کا نکاح جاتا رہے گا۔ ایک شخص نے اپنے مخالف کے سامنے ائمہ کا فتویٰ پیش کیا، اس نے اس فتویٰ کو رد کردیا اور کہا یہ فتوؤں کا انبار تو کیا لے آیا ہے ؟ بعضوں نے کہا کہ وہ کافر ہوجائے گا اس لئے اس نے شریعت کا حکم رد کردیا۔ اسی طرح اگر اس فتویٰ کے بارے میں کچھ نہ کہا مگر فتویٰ لے کر زمین پر ڈال دیا اور کہا یہ کیا شریعت ہے ؟ تو بھی کافر ہوجائے گا۔ ایک شخص نے ایک عالم سے اپنی بیوی کے متعلق کا مسئلہ دریافت کیا، اس نے جواب دیا کہ تمہاری بیوی پر طلاق واقع ہوگئی پوچھنے والے نے کہا میں طلاق ملاق کو کیا جانوں ماں بچے گھر میں ہونے چاہئیں تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا۔ دو شخصوں میں جھگڑا ہوا، اس میں سے ایک دوسرے کے پاس علماء کا فتویٰ لے کر آیا اس نے کہا ایسا نہیں جیسا کہ فتویٰ دیا یا یہ کہا کہ میں اس پر عمل نہیں کرتا تو اس کو تعزیرًا (سزا) دی جائے گی۔ وہ موجبات کفر جن کا تعلق حلال و حرام اور فاسق و فاجر وغیرہ کے کلام سے ہے جو کوئی حلال کے حرام ہونے کا یا حرام کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھے گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ لیکن اگر کوئی حرام و حلال اس لئے بتائے کہ یہ سامان رائج ہوجائے یا ایسا جہالت کی وجہ سے کیا تو وہ کافر نہ ہوگا، لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ وہ حرام حرام لعینہ ہو اور وہ اس کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھے تب کافر ہوگا اور اگر حرام، حرام لغیرہ ہو اور اس کو حلال بتائے تو کافر نہ ہوگا اور اس حرام لعینہ کو حلال سمجھنے میں کافر ہوگا جب اس کی لعینہ حرام کی حرمت دلیل قطعی سے ثابت ہو، لیکن اگر حرام لعینہ کی حرمت خبر احاد سے ثابت ہوگی تو اس کے حلال کا عقیدہ رکھنے میں کافر نہ ہوگا۔ ایک شخص سے کہا گیا کہ ایک حلال تم کو زیادہ پسند ہے یا دو حرام، اس نے کہا دونوں میں سے جو جلد پہنچ جائے، تو اس کے بارے میں کفر کا خوف ہے، اسی طرح اس وقت بھی خوف کفر ہے جب کہے کہ ہمیں مال چاہئے خواہ حلال ہو خواہ حرام ہو اور اگر یہ کہا کہ جب تک میں حرام پاؤں گا حلال کے پاس نہیں پھٹکوں گا تو اس کہنے سے کافر نہ ہوگا۔

【4】

مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان

اگر کوئی شخص حرام مال کسی فقیر کو ثواب کی نیت سے دے اور ثواب کی امید رکھے تو وہ کافر ہوجاتا ہے اور اگر فقیر کو یہ معلوم تھا کہ یہ مال حرام ہے اور کے باوجود اس نے وہ مال لے لیا اور دینے والے کو دعا دی اور اس دینے والے نے آمین کہی، تو وہ کافر ہوگا۔ ایک شخص سے کہا گیا کہ حلال مال کھاؤ اس نے کہا کہ مجھے تو حرام مال بہت پیارا ہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اور اگر اس کے جواب میں یہ کہا کہ اس دنیا میں کسی ایک حلال کھانے والے کو لاؤ تاکہ میں اسے سجدہ کروں تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا، کسی نے ایک شخص سے کہا کہ حلال کھایا کرو جواب میں اس نے کہا کہ مجھے تو حرام چاہئے تو وہ کافر ہوگیا۔ کسی فاسق کے لڑکے نے شراب پی۔ پھر اس کے عزیز و اقا رب آ کر اس پر روپے نچھاور کرنے لگے تو وہ سب کافر ہوگئے اور اگر نچھاور نہیں کیا بلکہ کہا کہ تمہیں مبارک ہو تو بھی کافر ہوجائیں گے۔ اگر کسی نے کہا کہ شراب کی حرمت قرآن سے نہیں ثابت ہوتی تو وہ کافر ہوجائے گا۔ کسی نے شراب پینے والے سے کہا کہ قرآن سے شراب کی حرمت ثابت ہے پھر تو شراب کیوں پیتے ہو توبہ کیوں نہیں کرتے ؟ تو اس کے جواب میں شرابی نے کہا کہ ازشیرمادر شکید یعنی کیا ماں کے دودھ سے صبر ہوسکتا ہے ؟ تو وہ اس کے کہنے سے کافر نہیں ہوگا، اس وجہ سے کہ یا تو یہ استفہام ہے یا شراب اور دودھ میں شغف کے اندر برابری ظاہر کرنا ہے۔ اگر کوئی حالت حیض میں اپنی بیوی سے جماع (صحبت) کو حلال سمجھے گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اسی طرح وہ بھی کافر سمجھا جائے گا جو اپنی بیوی سے اغلام (لواطت) کو جائز جانے اور نوارد میں امام محمد سے روایت ہے کہ ان دونوں صورتوں میں کافر نہیں ہوتا اور اس حکم کو صحیح قرار دیا گیا ہے۔ ایک شخص نے شراب پی اور پھر کہا کہ جو شخص ہمارے اس کیف میں ہمارا شریک مسرت ہے اصل مسرت اسی کی ہے اور جو شخص ہمارے اس کیف ومسرت سے ناراض ہے وہ گھاٹے میں ہے تو وہ کافر ہوگیا۔ اسی طرح وہ شراب پینے میں مشغول تھا تو اس نے کہا کہ مسلمان ہونے کو آشکارا کر رہا ہوں یا مسلمان ہونا ظاہر ہو رہا ہے تو اس سے کافر ہوجائے گا۔ اگر بدکار اور شرابی نے یہ کہا کہ اگر شراب کا کوئی قطرہ گرجائے گا۔ تو جبرائیل (علیہ السلام) اپنے پیروں سے اٹھائیں گے تو اس سے وہ کافر ہوجائے گا۔ ایک فاسق سے کسی نے کہا کہ تو ہر دن اس طرح صبح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور مخلوق اللہ کو تکلیف دیتا ہے، اس نے کہا خوب کرتا ہوں تو وہ کافر ہوجائے گا۔ گنا ہوں کے متعلق کسی نے کہا کہ یہ بھی ایک مذہب ہے تو وہ اس کی وجہ سے کافر ہوجائے گا۔ محیط میں ایسا ہی ہے اور تجنیس ناطقی میں ہے کہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ کہنے والا کافر نہیں ہوتا، اسی طرح وہ بھی کافر ہوگا جو تسبیح وتہلیل کے وقت یہ جملے کہے۔ ایک شخص نے سبحان اللہ کہا، دوسرے نے کہا کہ تو نے سبحان اللہ کی رونق ختم کردی، یا کہا کہ تو نے اس کی کھال ادھیڑ دی تو وہ کافر ہوجائے گا۔ کسی سے کہا گیا کہ تم لا الٰہ الا اللہ نہیں کہتا تو وہ کافر ہوگا اور بعضوں نے کہا کہ مطلقًا کافر ہوجائے گا اور اگر جواب میں یہ کہا کہ تو نے یہ کلمہ پڑھ کر کیا بلندی حاصل کرلی کہ میں کہوں، تو بھی کافر ہوجائے گا، ایک بادشاہ کو چھینک آئی، اس کی چھینک پر کسی نے کہا (یرحمک اللہ) ۔ دوسرے نے یرحمک اللہ کہنے والے سے کہا کہ بادشاہ کے لئے اس طرح مت کہو تو یہ کہنے والا کافر ہوجائے گا۔ وہ موجبات کفر جن کا تعلق یوم قیامت اور قیامت سے متعلق چیزوں سے ہے جو کوئی قیامت یا جنت دوزخ یا میزان وپل صراط اور نامہ اعمال کا انکار کر دے تو وہ کافر ہوجائے گا، اسی طرح کوئی مرنے کے بعد پھر جی اٹھنے کا انکار کر دے تو وہ بھی کافر ہے۔ کوئی شخص یہ کہے میں یہ نہیں جانتا کہ یہود و انصاری قیامت میں جب اٹھائے جائیں گے تو وہ آگ کے عذاب کے مبتلا کئے جائیں گے یا نہیں تو اس کہنے سے وہ کافر ہوجائے گا۔ اسی طرح وہ شخص بھی کافر ہوجاتا ہے جو جنت میں داخل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے دیدار کا انکار کر دے۔ یا مرنے کے بعد عذاب قبر کا انکار کرے یا انسان کے حشرونشر کا انکار کرلے، لیکن انسان کے علاوہ دوسری مخلوق کے حشر کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہوتا اسی طرح وہ بھی کافر نہیں ہوتا جو یہ کہے کہ عذاب اور ثواب کا تعلق صرف روح سے مخصوص ہے۔ ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ گناہ نہ کرو اس لئے کہ ایک دوسری دنیا بھی ہے جہاں حساب و کتاب ہوگا اس نے جواب دیا کہ اس دنیا کی کس کو خبر ہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ایک شخص کا دوسرے کے ذمہ قرض باقی تھا، اس نے اس کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر یہاں تم نہیں دیتے ہو تو قیامت میں تم سے وصول کرلوں گا اس نے جواب میں کہا جی ہاں قیامت قائم ہوگی ؟ تو اگر اس نے قیامت کی توہین کے ارادہ سے ایسا کہا تو کافر ہوجائے گا۔ ایک شخص نے دوسرے پر ظلم وستم ڈھایا، اس پر مظلوم نے کہا آخر قیامت کا دن آنے والا ہے اس لئے ڈرو اس نے جواب میں کہا فلاں گدھا قیامت میں ہوگا تو اس سے کافر ہوجائے گا ایک شخص نے اپنے قرضدار سے کہا میرے روپے دنیا میں دیدے قیامت میں روپیہ نہ ہوگا اس نے کہا کہ اچھا دس روپے اور دیدو اس دنیا میں لے لینا یا میں تمہیں وہاں دے دوں گا تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا کسی نے کہا کہ مجھے حشر سے کیا کام ہے، یا یہ کہا کہ میں قیامت سے نہیں ڈرتا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ کسی نے اپنے دشمن سے کہا کہ میں اپنا حق تجھ سے قیامت میں وصول کرلوں گا اس نے کہا اس دن اس بھیڑ میں مجھے کہاں پائے گا ؟ مشائخ کو اس کے کفر میں اختلاف ہے فقیہ اللیث کہتے ہیں کہ وہ اس کہنے سے کافر نہ ہوگا۔ کسی نے کہا اس دنیا میں سب اچھا رہنا چاہے اس دنیا میں جو ہوگا سو ہوگا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ایک شخص سے کہا گیا کہ تم آخرت کے پیش نظر دنیا سے گریز کرو اس نے کہا کہ نقد چھوڑ کر ادھار پر کون بھروسہ کرے ؟ تو وہ کافر ہوجائے گا۔ کسی نے کہا کہ جو اس دنیا میں بےعقل وخرد ہوگا وہ اس دنیا میں اس شخص کی طرح ہوگا جس کی تھیلی پھٹی ہوئی ہے یعنی ناکارہ ہوگا امام ابوبکر محمد بن الفضل نے کہا کہ اگر اس سے اس کا منشا آخرت کے ساتھ تمسخر اور طنز ہے تو یہ باعث تکفیر ہوگا۔ کسی نے کسی سے کہا کہ میں تیرے ساتھ دوزخ میں جاؤں گا لیکن اندر نہیں آسکتا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر کسی نے کہا کہ جب تک تم رضوان جنت کے لئے کچھ نہیں لے جاؤ گے تو وہ جنت کا دروازہ نہیں کھولے گا تو اس کہنے سے کافر ہوجائے گا۔ کسی نے بھلائی کا حکم دینے والوں سے کہا کہ یہ کیا ہنگامہ مچا رکھا ہم اگر یہ انکار و رد کے طور پر کہا ہے تو اس کے کافر ہوجانے کا خوف ہے کسی نے ایک شخص سے کہا کہ فلاں کے گھر جا کر بھلی بات کا حکم کرو، جواب میں کہا کہ اس نے میرے ساتھ کیا کیا ہے یا مجھے اس کو اذیت دینے کی کیا وجہ ہے ؟ یا کہا میں الگ تھلگ ہوں اس فضول کام سے کیا واسطہ ؟ تو یہ سب کفریہ الفاظ ہیں۔ کسی نے ایک شخص سے تعزیت کرتے ہوئے کہا جو اس کی جان سے کم ہوا وہ تم پر زیادہ ہو تو اس سے بھی کفر کا خوف ہے۔ یا کہا کہ تم پر زیادہ کیا جائے تو یہ جہالت اور غلطی ہے یہ کہا کہ فلاں کی جان کم ہو کر تیری جان پر آگیا، تو یہ بھی جہالت ہے اور اگر یہ کہا کہ وہ مرگیا لیکن اپنی جان تیرے سپرد کر گیا تو کافر ہوجائے گا۔ ایک شخص بیمار تھا وہ اچھا ہوا دوسرے نے اس سے کہا فلاں گدھا پھر بھیج دیا تو یہ بھی کفر ہے۔ ایک شخص بیمار ہوا اور اس کی بیماری بہت بڑھ گئی اور اس نے طول کھینچا بیمار نے اکتا کر اللہ کو خطاب کر کے کہا کہ خواہ تو حالت اسلام پر موت دے یا حالت کفر پر تو یہ بھی باعث کفر ہے۔ وہ موجبات کفر جن کا تعلق تلقین کفر و ارتداد وغیرہ سے ہے جب کوئی کسی کو کلمہ کفر کی تلقین کرے گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ خواہ یہ کھیل کود اور ہنسی مذاق ہی کے طور پر کیوں نہ ہو اسی طرح وہ بھی کافر ہوجائے گا جو کسی کی بیوی کو حکم دے کہ تو مرتد ہوجا اور اس طرح اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرلے، امام اعظم اور امام ابویوسف سے یہی روایت ہے ایک شخص نے کسی کو حکم دیا کہ تو کافر ہوجا تو حکم دینے والا کافر ہوجائے گا خواہ جس کو حکم دیا گیا ہے وہ کافر ہو یا نہ ہو۔ امام ابواللیث فرماتے ہیں کہ جس وقت کوئی شخص کسی کو کلمہ کفر کی تعلیم دے گا وہ کافر ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کسی مرد یا عورت کو مرتد ہونے کا حکم دے گا تو بھی وہ کافر ہوگا۔ امام محمد فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو مجبور کیا گیا کہ وہ کفر زبان سے نکالے ورنہ اس کے ساتھ ایسا ایسا کرے گا یعنی جان یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دی گئی اس نے خوف سے کلمہ کفر زبان سے کہ دیا تو اس کی چند صورتیں ہوگی اگر اس نے کلمہ کفر اس طرح زبان سے ادا کیا کہ اس کا دل ایمان پر بالکل مطمئن ہے دل میں کفر کا کھٹکا تک بھی نہیں گذرا صرف زبان سے کلمہ کفر سرزد ہوا ہے تو اس صورت میں نہ قضاء اس کی تکفیر کی جائے گی اور نہ وہ عند اللہ کافر ہوگا اور اگر کلمہ کفر زبان سے کہنے والا کہے کہ میں نے یہ سوچا تھا کہ اپنے بارے میں زمانہ ماضی میں کفر کی جھوٹی خبر دے کر چھٹکارا حاصل کرلوں میں نے مستقل کفر کا ارادہ نہیں کیا تھا تو اس صورت میں قضا یعنی قانونًا اس کے کفر کا فیصلہ دیا جائے گا اور قاضی اس میں اور اس کی بیوی میں تفریق کر دے گا اور اگر وہ یہ کہے کہ کلمہ کفر کہتے وقت میرے دل میں یہ بات گذری کہ گذرے کہ زمانہ میں کفر کی جھوٹی خبر دے دوں لیکن زمانہ میں جھوٹے کفر کا میں نے ارادہ نہیں کیا بلکہ ایام مستقبل میں ارادہ کیا تو اس صورت میں اللہ کے نزدیک بھی کافر ہوجائے گا اور دنیا کے حکم میں بھی۔ ایک شخص کو مجبور کیا گیا کہ وہ صلیب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے چناچہ اس نے پڑھی تو اس کی تین صورتیں ہوں گی۔ (١) اگر وہ یہ کہتا ہے کہ زبردستی کی وجہ سے صلیب کی طرف نماز پڑھ لی ہے لیکن دل میں کوئی وہم اس کی عقیدت کا نہیں گذرا ہے تو وہ کافر نہیں ہوگا نہ قضاءً اور نہ فی ما بینہ وبین اللہ۔ (٢) اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میرے دل میں یہ بات گذری کہ اللہ تعالیٰ کے لئے نماز پڑھ رہا ہوں نہ کہ صلیب کے لئے تو اس صورت میں بھی وہ کافر نہ ہوگا۔ (٣) اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میرے دل میں یہ بات گذری کہ میں اللہ کے لئے نماز پڑھوں لیکن میں اس کو چھوڑ دیا اور صلیب کے لئے نماز پڑھی تو اس صورت میں وہ قضاءً بھی کافر ہوگا اور فی ما بینہ وبین اللہ بھی۔ ایک مسلمان سے کہا گیا کہ تم بادشاہ کو سجدہ کرو ورنہ ہم تمہیں قتل کر ڈالیں گے تو افضل یہ ہے کہ سجدہ نہ کرے ایک شخص نے کلمہ کفر زبان سے جان بوجھ کر نکالا لیکن کفر کا اعتقاد پیدا نہیں ہوا تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ کافر نہیں ہوگا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ کافر ہوجائے گا اور یہی صحیح ہے۔ ایک شخص نے کلمہ کفر زبان سے ادا کیا لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کفر کا کلمہ ہے مگر اس نے یہ اپنے اختیار سے کہا ہے کہ تمام علماء کے نزدیک ہوجائے گا۔ اور جہالت عذر شمار نہ ہوگی اور بعض لوگوں نے کہا کہ کافر نہیں ہوگا مذاق کرنے والا یا ٹھٹھا کرنے والا جب کلمہ کفر استخفاف کے طور پر بالذات آفرینی کے طور پر بکے گا تو وہ تمام کے نزدیک کافر قرار دیا جائے گا اگرچہ اس کا اعتقاد اس کے خلاف ہو۔ ایک شخص کی زبان سے کلمہ کفر غلطی سے جاری ہوگیا اس طرح کہ وہ دوسرا کلمہ بولنا چاہئے تھا لیکن آگیا کفر کا کلمہ تو وہ کافر نہیں ہوگا مجوسیوں کی ٹوپی سر پر رکھنے سے مسلمان کافر ہوجاتا ہے البتہ گرمی یا سردی سے بچنے کے لئے ایسا کرے تو کافر نہ ہوگا زنار یعنی حینؤ پہننے سے مسلمان کافر ہوجاتا ہے لیکن اگر لڑائی میں جاسوسی کے لئے ایسا کرے تو کافر نہ ہوگا۔ کسی نے کہا کہ تو جو کچھ کر رہا ہے اس سے بہتر کفر کرنے والا ہے، اگر اس سے نیت کفر کا اچھا جاننا ہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اور بعض علماء جیسے فقیہ ابواللیث کہتے ہیں کہ صرف اس جملہ سے آدمی کافر ہوجاتا ہے خواہ اس کی نیت کچھ بھی ہو۔ مجوس نو روز کے دن جو کچھ کرتے ہیں اگر مسلمان اس کی موافقت میں ان کے ساتھ نکلے گا تو کافر ہوجائے گا، کھانے پینے اور ضروریات زندگی کی چیز خریدنے سے کافر نہیں ہوگا، اس دن اگر کوئی مسلمان مشرکوں کو اس دن کی تعظیم کے اظہار کے لئے کوئی تحفہ بھیجے خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو تو وہ کافر ہوجائے گا ہاں اگر ان کے بچوں کی رسم مونڈن میں دعوت قبول کرے تو اس سے کافر نہ ہوگا۔ کفار کی باتوں اور معاملہ کو اچھاجاننے والا کافر ہوجاتا ہے مثلاً یہ کہے کہ کھانے کے وقت مجوس کا یہ مذہب بہتر ہے کہ اس وقت گفتگو نہ کی جائے یا مجوس کی یہاں یہ اچھا ہے کہ حالت حیض میں بیوی کو ساتھ لیٹنے بھی نہ دیا جائے، اس کہنے سے کافر ہوجائے گا کسی نے کسی شخص کی عزت وجاہ کی وجہ سے اس کے جوڑے پہننے کے وقت جانور ذبح کیا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اور یہ ذبیحہ مردار ہے اس کا کھانا جائز نہیں۔ اسی طرح غیر اللہ کی عظمت کے اظہار کے لئے گائے، اونٹ یا کسی جانور کا ذبح کرنا یا غازیوں اور حاجیوں کی واپسی پر اس کی عظمت کے اظہار کے لئے ایسا کرنا باعث کفر ہے۔ جو جانور کسی دیوی دیوتا یا بزرگ کے نام پر چھوڑا گیا اور نامزد کر کے اس کو شہرت دیدی گئی جسے اور بدعقیدہ لوگ کوئی جانور مثلا بکرا چھوڑا دیتے ہیں اور کہتے پھرتے ہیں کہ یہ بکرا شیخ سدو کے نام پر ہے یا یہ گائے احمد کبیر کی ہے یا یہ مرغا مدار صاحب کا ہے وغیرہ وغیرہ یا کسی غیر اللہ کے نام کی عظمت اور تقریب کے لئے کیا گیا تو یہ سب کفر کی باتیں ہیں، اسی طرح بزرگوں کی قبر پر یا دریا کے کنارے جانور ذبح کرنا یا کسی دیوی دیوتا کو بھوگ دینا یہ سب کام ایسے ہیں کہ ان کی وجہ سے آدمی کافر ہوجاتا ہے اور ایسا ذبیح مردار کے حکم میں ہے اس کا کھانا درست نہیں اس سے کوئی فرق نہیں ہوتا کہ ان مواقع پر جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو دونوں صورتوں میں وہ حرام ہے کیونکہ جب غیر اللہ کے نام پر نامزد ہوچکا ہے تو بسم اللہ پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ایسا ہی الاشباہ النظائر، تنویر الابصار، درمختار، منح الغفار، فتاوٰی عالمگیری اور مطالب المؤمنین وغیرہ کتابوں میں مذکور ہے۔ ان میں سے بعض کتابوں میں یہ بھی صراحت ہے کہ ایسے غیر اللہ کے نام پر چھوڑے ہوئے جانوروں کا ذبح کرنے والا کافر ہے اور یہ ذبیحہ حرام ہے علماء میں ابوحصص کبیر ابوعلی دقاق، عبداللہ کاتب، عبد الواحد اور ابوالحسن نووی وغیرہ مشہور علماء نے یہی لکھا ہے۔ اور اس کو صحیح کہا ہے اور تفسیر نیشاپوری میں ہے کہ تمام علماء کا اس مسئلہ میں اتفاق ہے کہ جو مسلمان کسی جانور کو اللہ کے سوا کسی اور کے تقرب و تعظیم کے لئے ذبح کرے وہ مرتد ہے اور اس کے ذبح کئے ہوئے جانور کا وہی حکم ہے جو ایک مرتد کے ذبح کئے ہوئے جانور کا ہے اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ وہ شخص معلون ہے جو غیر اللہ کے تقرب و تعظیم کے لئے جانور ذبح کرے جیسا کہ حدیث کی مشہور کتاب مشکوٰۃ شریف میں ہے اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اپنی کتاب تفسیر عزیزی میں آیت ( وَمَا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِه) 16 ۔ النحل 115) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ جانور جو غیر اللہ کے نام کے ساتھ شہرت دیا گیا ہے وہ خنزیر سے بدتر اور مردار ہے جن حضرات کو تفصیل مطلوب ہو ان کو چاہیے کہ وہ تفسیر عزیزی کے مطالعہ کریں انشاء اللہ اس کے مطالعہ سے یہ مسئلہ منقع ہو کر ان کے ذہن نشین ہوجائے گا۔ ایک عورت نے اپنی کمر پر رسی باندھ کر کہا کہ یہ زنار (جینؤ) ہے تو وہ کافر ہوگئی ایک شخص نے اس طرح کہا کہ خیانت کرنے سے بہتر کافر ہی ہے تو اکثر علماء کہتے ہیں کہ وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا اس اور اسی پر ابوالقاسم صغار کا فتویٰ ہے ایک شخص نے عورت کو مارا اس عورت نے کہا تو مسلمان نہیں ہے تو مرد نے یہ سن کر کہا ہاں میں مسلمان نہیں ہوں تو وہ اس کہنے سے کافر ہوجائے گا ایک شخص نے کہا کیا تو مسلمان نہیں ہے اس نے کہا نہیں تو یہ بھی کافر ہے ایک عورت نے اپنے شوہر سے کہا کہ تمہارے اندر دینی حمیت اور اسلامی غیرت نہیں کہ تم اسے پسند کرتے ہو کہ میں اجنبی مردوں کے ساتھ خلوت کروں ؟ خاوند نے جواب میں کہا ہاں مجھ میں دینی حمیت اور اسلامی غیرت نہیں ہے تو وہ اس سے کافر ہوجائے گا۔ ایک مرد نے کہا اپنی بیوی کو اس طرح مخاطب کیا اے یہودیہ، اے مجوسیہ اے کافرہ ! عورت نے یہ سن کر کہا کہ میں ایسی ہی ہوں یا کہا ایسی ہوں تو مجھے طلاق دے دو یا یہ کہا کہ اگر ایسی ہوتی تو تمہارے ساتھ کیسی رہتی یا نہ رہتی یا یہ کہا کہ اگر ایسی نہ ہوتی تو تمہارے ساتھ صحبت نہ کرتی یا تم مجھے نہ رکھتے تو اس کہنے سے وہ عورت کافر ہوجائے گی اور اگر اس کے جواب میں یہ کہا کہ اگر میں ایسی ہوں تو تم مجھے نہ رکھو تو اس سے کافر نہ ہوگی اور اگر کسی بیوی نے اپنے شوہر کو مخاطب کیا اے کافر اے یہودی، اے مجوسی ، ! پس شوہر نے اس کے جواب میں کہا اگر ایسا نہ ہوتا تو تم کو نہ رکھتا تو وہ اسی کیوجہ سے کافر ہوگیا اور اگر کہا کہ اگر میں ایسا ہوں تو تم میرے ساتھ نہ رہو تو اس صورت میں وہ کافر نہ ہوگا۔ اور اگر کسی اجنبی سے کہا اے کافر یہودی ! اس نے کہا کہ میں ایسا ہی ہوں میرے ساتھ تم مت رہو یا کہا اگر ایسا نہ ہوتا تو تمہارے ساتھ نہ رہتا یا اسی طرح کا کوئی جملہ کہا تو وہ کافر ہوجائے گا ایک شخص نے ایک کام کا ارادہ کیا اس کی بیوی نے اس سے کہا کہ اگر تم یہ کام کرو گے تو کافر ہوجاؤ گے اس شوہر نے وہ کام کیا اور عورت کی بات پر توجہ نہ دی تو وہ شوہر کافر نہ ہوگا۔ اپنی بیوی کو کسی نے مخاطب کر کے کہا اے کافرہ ! بیوی نے کہا میں نہیں تم ہو، کسی عورت نے اپنے شوہر سے کہا اے کافر ! شوہر نے کہا کہ میں نہیں بلکہ تو کافرہ ہو تو اس سے میاں بیوی میں جدائی واقع نہیں ہوگی اور اگر کسی اجنبی مسلمان سے کہا اے کافر یا اجنبی عورت کو کہا اے کافرہ اور مخاطب مرد و عورت نے جواب میں کچھ نہیں کہا یا کسی شوہر نے اپنی بیوی کو کہا اے کافرہ ! اور عورت نے کچھ جواب نہ دیا یا بیوی نے اپنے شوہر کو کافر کے ساتھ خطاب کیا اور شوہر نے کچھ جواب نہ دیا تو اس صورت میں ابوبکر اعمش بلخی کا قول ہے کہ کہنے والا کافر ہے اور بقیہ دوسرے علماء بلخ کہتے ہیں کہ وہ کافر نہیں ہوتا اور صحیح جواب یہ ہے کہ اگر کہنے والے کا ارادہ صرف برا بھلا کہنا مقصد ہے تو وہ کافر نہیں ہوتا اور اگر وہ اعتقاد بھی یہ ہی رکھتا ہے کہ یہ مسلمان کافر ہے اور پھر اس کو کافر سے خطاب کرتا ہے تو البتہ وہ اس کی وجہ سے کافر ہوجائے گا۔ اگر کوئی عورت اپنے بچے کو کافر بچہ کے ساتھ خطاب کرے تو یہ باعث کفر نہیں ہے اور بعضوں نے کہا ہے کہ یہ کفر ہے اسی طرح کوئی مرد اپنے بچہ کو ان الفاظ سے خطاب کرے تو وہ بھی کافر نہیں ہے اور اگر اپنے جانور کو کہا اے کافر تو اس سے کافر نہ ہوگا اور کسی شخص نے کسی مسلمان کو اے کافر اے یہودی یا اے مجوسی کہہ کر خطاب کیا اور اس مسلمان نے جواب میں لبیک کہا تو وہ کافر ہوگا۔ اگر یوں کہے کہ میں ڈر گیا کہ کہیں کافر نہ ہوجاؤں تو اس سے کافر نہ ہوگا اگر کسی نے کسی سے کہا کہ تو نے مجھے اتنا ستایا کہ میرا جی چاہا کہ کافر ہوجاؤں تو وہ کافر ہوجائے گا۔ کسی نے کہا کہ یہ زمانہ مسلمان رہنے کا نہیں بلکہ یہ زمانہ کافری کا ہے۔ بعضوں نے کہا اس سے کافر ہوجائے گا اور صاحب محیط نے لکھا ہے کہ میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ وہ کافر نہ ہوگا۔ ایک مجوسی اور ایک مسلمان ایک جگہ ساتھ ساتھ تھے ایک شخص نے مجوسی کو پکارا کہ اے مجوسی اب اگر مسلمان نے یہ سمجھ کر جواب دیا کہ مجھے پکار رہا ہے تو وہ کافر نہیں ہوگا بشرطیکہ وہ دونوں اس پکارنے والے کے کسی ایک کام میں مشغول تھے اور اگر دونوں کسی ایک کام میں مشغول نہ تھے بلکہ الگ الگ کاموں میں مشغول تھے تو اس پر کفر کا خوف ہے۔ اگر مسلمان کہے کہ میں ملحد ہوں تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اور اگر وہ کہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس جملہ سے آدمی کافر ہوجاتا ہے تو اسے اس کی وجہ سے معذور قرار نہیں دیا جائے گا ایک شخص نے ایک جملہ زبان سے نکالا جسے لوگوں نے کفریہ کلمہ سمجھا حالانکہ درحقیقت وہ کلمہ کفر نہ تھا مگر اس سے ان لوگوں نے کہا کہ تو کافر ہوگیا اور تیری بیوی کے درمیان جدائی واقع ہوگئی، اس کے جواب میں اس نے کہا کافر شدہ گیر، وزن طلاق شدہ گیر، تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اور اس کی بیوی اور اس کے درمیان جدائی واقع ہوجائے گی۔ ایک شخص نے کہا کہ میں فرعون ہوں یا کہا کہ میں ابلیس ہوں تو اس سے وہ کافر ہوجائے گا ایک شخص نے ایک بدکار کو نصیحت کی اور توبہ کی ترغیب دی اس کے جواب میں اس نے کہا از پس ایں ہمہ کلاہ مغاں پر سر نہم تو وہ اس سے کافر ہوجائے گا ایک عورت نے اپنے شوہر سے کہتا کہ تمہارے ساتھ رہنے سے کافر ہونا بہتر ہے تو وہ کافر ہوجائے گی۔ ایک عورت نے کہا کہ اگر میں ایسا کام کروں تو کافر ہوں ابوبکر محمد بن الفضل کہتے ہیں کہ اس کہنے سے وہ عورت کافر ہوگئی اور اس کا نکاح ٹوٹ گیا اور قاضی علی السعدی کا کہنا ہے کہ یہ جملہ تعلیق ویمین ہے کفر نہیں ہے ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا کہ تم اس کے بعد مجھ پر ظلم کرو گے یا یہ کہا کہ اگر تم میرے لئے ایسی چیز نہ خریدو گے تو میں کافر ہوجاؤ نگی تو وہ فوراً یہ کہتے ہی کافر ہوگئی۔ ایک شخص نے تمثیل کے طور پر کہا کہ میں مجوسی تھا مگر مسلمان ہوگیا یہ صرف زبان سے بطور حکایت کہا اعتقادًا نہ کہا تو بھی وہ کافر ہوجائے گا اگر کوئی مسلمان کسی آدمی کو سجدہ تحیتہ کرے گا تو وہ اس سے کافر نہ ہوگا ایک شخص نے کسی مسلمان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تم سے تمہارا ایمان چھین لے اس نے اس کے جواب میں آمین کہا تو وہ دونوں کافر ہوجائیں گے کسی شخص نے کسی کو تکلیف دی اس نے کہا کہ مجھے مت ستاؤ میں مسلمان ہوں ستانے والے نے جواب دیا چاہے مسلمان رہو چاہے کافر تو وہ ایذاء دینے والا کافر ہوجائے گا یا کہا کہ اگر تو کافر بھی ہوجائے تو میرا کیا نقصان تو اس سے بھی کافر ہوجائے گا۔ ایک کافر نے اسلام قبول کیا لوگوں نے اس کو تحفے ہدئیے دیئے ایک مسلمان نے یہ دیکھ کر کہا کہ کاش میں بھی کافر ہوتا اور پھر مسلمان ہوتا تو لوگ مجھ کو بھی تحفے ہدیئے دیتے یا اس نے یہ بات کہی نہیں لیکن دل میں آرزو کی تو وہ کافر ہوگیا۔ ایک شخص نے آرزو کی کہ اللہ تعالیٰ شراب کو حرام نہ کرتا تو اس سے وہ کافر نہ ہوگا۔ اور اگر کسی نے یہ آرزو کی کہ اللہ تعالیٰ ظلم وزنا کو حرام نہ کرتا یا ناحق قتل وخون ریزی کو حرام نہ کرتا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اس لئے کہ یہ وہ چیزیں ہیں کہ کبھی بھی حلال نہ رہیں گویا پہلی صورت میں ایسی چیز کی آرزو کی جو محال نہیں اور دوسری میں ایسی چیز کی آرزو کی جو محال ہے اسی طرح اگر کوئی آرزو کرے کہ بھائی بہن کے درمیان نکاح حرام نہ ہوتا تو اس سے کافر نہ ہوگا۔ اس لئے کہ یہ شروع میں حلال رہ چکا ہے لہٰذا محال نہیں کہا جائے گا۔ ماحصل یہ ہوا کہ جو چیز کبھی حلال تھی اور بعد میں حرام ہوگئی اس کے حلال ہونے کی تمنا کرنا موجب کفر نہیں ہے۔ ایک مسلمان نے کسی خوبصورت گداز بدن عیسائی عورت کو دیکھ کر آرزو کی کہ کاش میں عیسائی ہوتا کہ اس سے بیاہ کرسکتا، تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ایک شخص نے کسی سے کہا حق بات پر میری مدد کرو اس نے کہا کہ کہیں مدد حق پر کی جاتی ہے میں ناحق پر البتہ تیری مدد کروں گا تو وہ اس کی وجہ سے کافر ہوجائے گا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ میں نے اس درخت کو پیدا کیا ہے تو وہ اس کہنے سے کافر نہیں ہوا اس لئے کہ اس کی مراد درخت لگانا سمجھی جائے گی ہاں اگر کوئی حقیقتًا پیدا کرنا مراد لے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ایک شخص نے کہا کہ جب تک میرے یہ بازو موجود ہیں میری روزی کم نہ ہوگی تو بعض مشائخ نے کہا کہ اس کی وجہ سے وہ کافر ہوجائے گا اور بعضوں نے کہا ہے کہ اس پر کفر کا خوف ہے ! اگر کوئی یہ کہے کہ درویشی یا تصوف بدبختی ہے تو یہ بہت بری بات ہے۔ کسی نے چاند کے گرد کوئی دائرہ دیکھا اور دعوی کیا کہ بارش ہوگی اور اس طرح اس نے غیب کا دعوی کیا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ایک نجومی نے کسی سے کہا کہ تیری بیوی حاملہ ہے اور اس نے اس پر اعتقاد جما لیا تو وہ کافر ہوگیا۔ ایک شخص نے الو کی آواز سنی اور پھر کسی سے کہا کہ بیمار مرجائے گا یا کوئی مصیبت آئے گی یا اسی طرح کوا بولا اور اس کی آواز سن کر کسی نے کہا کہ کوئی سفر سے آ رہا ہے تو ایسے شخص کے کفر میں مشائخ کے اختلافی اقوال ہیں۔ کسی نے کوئی ناجائز بات کہی دوسرے نے اس سے کہا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ اس کہنے سے تم کافر ہوجاؤ گے ! اس نے کہا کہ پھر میں کیا کروں کافر ہوتا ہوں گا تو ہوجاؤں گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ایک شخص نے قرأت کے دوران حرف ضاد کی جگہ زا پڑھا یا اصحاب الجنۃ کی جگہ اصحاب النار پڑھا تو ایسے شخص کی امامت جائز نہیں ہے اگر کوئی قصدًا ایسا پڑھے گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔۔ جو شخص کہے قسم ہے تیری زندگانی کی یا میری زندگانی کی یا اسی طرح کی کوئی اور قسم کھائے تو اس پر کفر کا خوف ہے۔ ایک شخص نے کہا کہ رزق تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے مگر وہ بندے سے حرکت چاہتا ہے تو بعضوں نے کہا یہ شرک ہے ایک شخص نے کہا کہ میں ثواب و عذاب سے بری ہوں تو کہا گیا کہ اس سے کافر ہوجائے گا۔ اگر کسی نے کہا کہ فلاں شخص جو کچھ بھی کہے گا میں کروں گا اگرچہ وہ کفر ہی کیوں نہ ہو تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر کوئی کہے کہ میں مسلمان ہونے سے بیزار ہوں تو وہ کافر ہوجائے گا۔ مامون رشید کے زمانے کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ خلیفہ وقت نے ایک فقیہ سے اس شخص کے متعلق سوال کیا جس نے کسی کپڑا بننے والے کو قتل کردیا تھا کہ اس قاتل پر کیا واجب ہوگا فقیہ نے کہا تعزیر واجب ہے مامون نے حکم دیا کہ فقیہ کو پیٹا جائے چناچہ اسے پیٹا گیا یہاں تک کہ وہ مرگیا، پھر مامون نے کہا کہ میں نے یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ اس نے شریعت کے ساتھ استہزا کیا اور شریعت کے ساتھ اس طرح کا مذاق کفر ہے ایک فقیر کالی کملی اوڑھے ہوئے تھا کسی نے اس کو دیکھ کر مدثر کہا تو یہ کفر ہے۔ جو ظالم بادشاہ کو عادل کہے وہ کافر ہے اور بعضوں نے کہا کہ وہ کافر نہیں ہوتا ہے اگر کوئی کسی ظالم کو اے اللہ سے خطاب کرے گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اور اگر کہے اے بار اللہ تو اکثر مشائخ کہتے ہیں اس سے کافر نہیں ہوگا ایک عالم صغار نامی سے ان خطیبوں کے متعلق سوال کیا گیا جو جمعہ کے دن منبروں پر خطبہ پڑھتے ہیں اور سلطان کو العادل الاعظم یا شہنشاہ الاعظم یا مالک رقاب الامم یا سلطان ارض اللہ یا مالک بلاد اللہ یا معین خلیفۃ اللہ کے لقب سے یاد کرتے ہیں کیا بادشاہوں کو خطبہ میں ان القاب کے ساتھ یاد کرنا جائز ہے یا ناجائز ؟ تحقیق اس مسئلہ میں کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ ان القاب کے بعض الفاظ کفر ہیں اور بعض معصیت اور کذب ہیں۔ اور شہنشاہ کا لفظ بغیر اعظم کی صفت کے اللہ تعالیٰ کے اسماء کے لئے مخصوص ہے اس کے ساتھ بندوں کی صفت بیان کرنا جائز نہیں ہے اور مالک رقاب الامم کا جملہ بادشاہ کے لئے صریح جھوٹ ہے اسی طرح بادشاہ کو سلطان ارض اللہ یا اس طرح کے لقب سے یاد کرنا بھی جھوٹ ہے۔ امام ابومنصور نے کہا کہ اگر کوئی کسی کے آگے زمین بوسی کرے یا اس کے سامنے جھکے، یا اپنا سر جھکائے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ اس کا منشا تعظیم و تکریم ہے عبادت نہیں ہے اور دوسرے مشائخ نے کہا کہ جابروں کے سامنے سجدہ ریز ہونا گناہ کبیرہ ہے اور بعض عالموں نے کہا کہ اس سے وہ مطلقاً کافر ہوجاتا ہے اور بعضوں نے کہ اس میں تفصیل ہے اگر عبادت کا ارادہ کیا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اور اگر تعظیم کا ارادہ کیا تو کافر نہ ہوگا مگر اس کا یہ فعل حرام ہوگا اور اگر کوئی ارادہ سرے سے پایا ہی نہ جائے تو بھی اکثر کے نزدیک کافر ہوگا زمین چومنا سجدہ کرنے کے برابر ہے ہاں زمین پر پیشانی یا رخسار رکھنے سے ہلکا جرم ہے، اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ خراج، سلطان کی ملکیت ہے تو یہ کفر ہے ! اگر کوئی کسی کے ساتھ برائی سے پیش آئے اور وہ یہ کہے کہ یہ سب تیری لائی ہوئی مصیبت ہے اللہ کو اس میں دخل نہیں ہے تو یہ بھی کفر ہے اگر کوئی بادشاہ کے خلعت زبیب تن کرتے وقت اس کی خوشنودی اور مبارکبادی کے لئے قربانی کرے گا تو کافر ہوگا اور یہ قربانی مردار کے حکم میں ہوگی اور اس کا کھانا درست نہ ہوگا۔ کہیں کہیں یہ جو ہندوانہ رواج ہے کہ جب کسی کو چیچک نکلتی ہے تو عورتیں کسی پتھر کا نام چیچک رکھ دیتی ہیں اور اس کی پوجا کر کے بچوں کی چیچک سے شفا چاہتی ہیں اور اعتقاد رکھتی ہیں کہ اس سے بچہ اچھا ہوجائے گا یہ باعث کفر ہے اور وہ عورتیں کافر ہوجاتی ہیں اور اگر ان کے شوہر بھی اسے پسند کریں تو وہ بھی کافر ہیں۔ اسی طرح دریا کے کنارے جا کر پانی کو پوجنا اور وہاں بکری وغیرہ ذبح کرنا بھی خالص مشرکانہ رسم ہے اور باعث تکفیر ہے اور وہ بکری مردار کے حکم میں ہے اور اس کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے ایسے ہی گھر میں تصویر بنا کر رکھنا اور اس کی پرستش کرنا جیسا کہ آتش پرست کرتے ہیں۔ یا بچہ پیدا ہونے کے وقت شنگرف سے نقشہ بنانا اور اس میں تیل ڈالنا اور پھر بھوانی بت کے نام سے اس کی پوجا کرنا یا اس طرح اور جو دوسرے کام کئے جاتے ہیں یہ سب مشرکانہ رسم اور کفر کا باعث ہیں چناچہ جو عورتیں یہ سب کچھ کرتی ہیں وہ کافر ہوجاتی ہیں اور ان کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ آجکل جب تک خیانت نہ کرو اور جھوٹ نہ بولو گزارہ نہیں ہوسکتا ہے کہ جب تک خریدو فروخت میں تم جھوٹ نہ بولو گے روٹی نہیں ملے گی، یا کسی سے کوئی کہے کہ تم کیوں خیانت کرتے ہو، یا کیوں جھوٹ بولتے ہو، وہ جواب دے کہ اس کے علاوہ چارہ نہیں ہے تو ان الفاظ سے وہ کافر ہوجائے گا ! اگر کوئی کسی سے کہے کہ تم جھوٹ نہ بولا کرو اور وہ اس کے جواب میں کہے کہ یہ بات تو کلمہ (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) سے زیادہ درست ہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر کسی کو غصہ آئے اور دوسرا اس کا غصہ دیکھ کر کہے کہ غصہ سے بہتر تو کافر ہی ہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر کوئی شخص ایک ناجائز بات کہنے لگے دوسرا کہے یہ تم کیا کہہ رہے ہو اس سے تو تم پر کفر لازم آ رہا ہے وہ جواب میں کہے کہ اگر مجھ پر کفر آتا ہے تو تم کیا کرو گے۔ تو وہ اس کی وجہ سے کافر ہوجائے گا کسی کے دل میں ایسی چیز کا خطرہ گذرا جو باعث کفر ہے اگر وہ اس کو اس حالت میں زبان پر لایا کہ وہ اسے برا جانتا ہے تو یہ ایمان کی علامت ہے اور اگر کفر کے ارادہ سے اس کو زبان پر لایا تو اسی وقت وہ کافر ہوجائے گا۔ اگرچہ سو برس کے بعد کفر اختیار کرے اگر کوئی شخص بخوشی اپنی زبان پر کلمہ کفر لایا مگر اس کا دل ایمان پر قائم ہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اور عند اللہ مؤمن باقی نہ رہے گا اور جو شخص بھول کر ایسے الفاظ زبان پر لائے جو باعث کفر نہیں ہیں تو وہ علی حالہ مؤمن ہے اور اس کو نہ توبہ کا حکم دیا جائے گا اور نہ تجدید نکاح کا اگر کسی شخص نے کوئی ایسی بات کہی یا کوئی ایسا عمل کیا جس میں کئی صورتیں کفر کی ہوں اور ایک صورت ایسی ہو کہ کفر لازم نہ آتا ہو تو مفتی پر لازم ہے کہ اسی عدم کفر کی طرف رجحان رکھے ہاں اگر وہ شخص صراحت کے ساتھ اس صورت کو اختیار کرے جو باعث کفر ہے تو اس وقت کوئی تاویل مفید نہیں ہوگی، لیکن اگر کہنے والے کی نیت میں وہ صورت ہو جس سے آدمی کافر نہیں ہوتا ہے تو وہ مسلمان ہے اور اگر وہ صورت اختیار کرے جو باعث کفر ہے تو کسی قسم کا فتویٰ اس کے لئے کارآمد نہ ہوگا اور اسے حکم دیا جائے گا کہ وہ توبہ کرے اور اس سے رجوع کرے اور اپنی بیوی سے دوبارہ نکاح کرے۔ مسلمان کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ صبح وشام ذیل کی دعا پڑھتا رہے انشاء اللہ وہ کفر وشرک کی ہر صورت سے محفوظ رہے گا اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا ہی فرمایا ہے وہ دعا یہ ہے (اللہم انی اعوذ بک من ان اشرک بک شیأ وانا اعلم بہ واستغفرک لما لا اعلم بہ) فتاوٰی عالمگیری سے موجبات کفر کی جو بحث نقل کی جا رہی تھی الحمد للہ وہ پوری ہوئی۔

【5】

مرتد کی سزا قتل ہے

حضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ زندیق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں لائے گئے تو انہوں نے ان کو جلا ڈالا پھر جب اس بات کی خبر حضرت ابن عباس کو ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں ہوتا تو ان کو نہ جلاتا کیونکہ رسول کریم ﷺ نے یہ ممانعت فرمائی ہے کہ کسی شخص کو ایسے عذاب میں مبتلا نہ کرو جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح ہو جیسے کسی کو آگ میں جلانا بلکہ میں ان کو قتل کردیتا کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اس کو قتل کردو۔ (بخاری ) تشریح اصل میں زندیق مجوسیوں کی ایک قوم کا نام ہے جو زردشت مجوس کی اختراع کی ہوئی کتاب زند کے پیروکار ہیں لیکن اصطلاح عام میں ہر ملحد فی الدین کو زندیق کہا جاتا ہے، چناچہ یہاں بھی زندیق سے وہ لوگ مراد ہیں جو دین اسلام چھوڑ کر مرتد ہوگئے تھے۔ بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں جن لوگوں کو زندیق کہا گیا ہے وہ دراصل عبداللہ ابن سبا کی قوم میں سے کچھ لوگ تھے جو حدود اسلام میں فتنہ و فساد برپا کرنے اور امت کو گمراہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے اور حضرت علی کے بارے میں خدائی کا دعویٰ کرتے تھے، چناچہ حضرت علی نے ان کے اس عظیم فتنہ کا سر کچلنے کے لئے ان سب کو پکڑوا بلایا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ سب توبہ کریں اور یہ فتنہ پھیلانے سے باز رہیں لیکن جب انہوں نے اس سے انکار کردیا تو حضرت علی نے ایک گڑھا کھدوا کر اس میں آگ جلوائی اور ان سب کو آگ کے اس گڑھے میں ڈلوا دیا۔ منقول ہے کہ جب حضرت ابن عباس کا مذکورہ قول حضرت علی تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ بیشک ابن عباس نے سچ کہا اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی نے اس مسئلہ میں اپنے اجتہاد پر عمل کیا اور اس مصلحت کے پیش نظر ان سب کو جلوا دیا کہ یہی لوگ نہیں بلکہ ان کا عبرتناک انجام دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس قسم کی مفسدہ پردازی سے باز رہیں۔

【6】

کس کو آگ میں جلانے کی سزا نہ دو

اور حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا آگ کے عذاب میں تو صرف اللہ تعالیٰ مبتلا کرتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی انسان کو اس کے کسی جرم کی وجہ سے آگ میں جلانے کی سزا دے۔ (بخاری)

【7】

فرقہ خوارج کی نشاندہی

اور حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب اس زمانہ کے آخر میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو نوجوان ہوں گے ہلکی عقل والے ہونگے لوگوں کی اچھی باتیں بیان کریں گے لیکن ان کا ایمان ان کے حلق سے آگے نہیں جائے گا ایمان سے مراد نماز ہے یعنی ان کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی اور وہ لوگ دین یعنی امام وقت اور علماء حق کی اطاعت سے اس طرح نکل بھاگیں جس طرح تیر شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے لہٰذا تم میں سے جس شخص کی ایسے لوگوں سے مڈبھیڑ ہوجائے وہ انہیں قتل کر دے کیونکہ ان کے قتل کرنے کا اس شخص کو قیامت کے دن انعام ملے گا جو انہیں قتل کرے گا۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح لوگوں کو اچھی باتیں بیان کریں گے اس سے مراد یہ ہے کہ مذکورہ لوگ وہ بہترین اقوال اور اچھی باتیں بیان کریں گے جو عام طور پر اللہ کے نیک بندوں کی زبانوں پر رہتی ہیں یعنی قرآن کریم کی آیات لیکن ملحوظ رہے کہ مشکوٰۃ کے نسخوں میں تو (من خیر قول البریۃ) ہے یعنی خیر کا تعلق قول سے ہے چناچہ یہاں اسی کے مطابق ترجمہ و مطلب بیان کیا گیا ہے جب کہ مصابیح میں (من قول خیر البریہ) ہے یعنی اس میں خیر کا تعلق البریہ سے ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ بہترین انسان کے اقوال بیان کریں گے اس صورت میں قرآن کریم کی آیات کی بجائے رسول کریم ﷺ کی احادیث مراد ہوں گی۔ لیکن علماء کہتے ہیں کہ جملہ کی زیادہ مناسب اور موزوں ترکیب وہی ہے جو یہاں مشکوٰۃ میں نقل کی گئی ہے کیونکہ احادیث میں خوارج کے بارے میں منقول ہے کہ وہ قرآن کریم کی آیات پڑھیں گے اور ان سے اپنے غلط عقائد ونظریات پر استدلال کریں گے اور ان آیات کی غلط سلط تاویل کریں گے۔ جس طرح تیر شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے اور اس شکار میں جلدی پیوست ہو کر فورًا نکل جانے کی وجہ سے وہ تیر شکار کے خون وغیرہ سے آلودہ نہیں ہوتا اسی طرح وہ لوگ بھی امام وقت اور علماء حق کی اطاعت سے نکل جائیں گے ! طیبی کہتے ہیں کہ اس تمثیل کی مراد ان لوگوں کا دین کے دائرہ میں داخل ہونے پھر دین کے دائرہ سے نکل جانے اور اس تیر کی مانند کہ جو شکار میں پیوست ہو کر نکل جائے اور آلودہ نہ ہو ان لوگوں پر دین کی کسی بات کے اثر نہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے نیز اس کا منشاء ان خوارج کی نشان دہی کرنا ہے جو امام وقت اور اسلامی حکومت کے اطاعت گزار نہیں ہوتے اور لوگوں پر ہتھیار اٹھاتے ہیں چناچہ ابتداء میں ان خوارج کا ظہور حضرت علی کے عہد خلافت میں ہوا جن میں سے اکثر کو حضرت علی نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خوارج کے بارے میں علماء کا فیصلہ خطابی کہتے ہیں کہ علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خوارج کی جماعت باوجود گمراہی کے مسلمانوں ہی کے فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے ان کے ہاں نکاح کرنا بھی جائز اور ان کا ذبیحہ کھانا بھی درست ہے نیز ان کی گواہی بھی معتبر ہے چناچہ منقول ہے کہ حضرت علی (رض) سے ان سے لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ منافق ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ منافق تو اللہ تعالیٰ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں اس لئے انہیں منافق بھی نہیں کہا جاسکتا پھر پوچھا گیا کہ تو آخر وہ کیا ہیں ؟ حضرت علی نے فرمایا کہ وہ مسلمانوں میں سے ایک فرقہ کے لوگ ہیں فتنہ و گمراہی نے ان کو گھیر لیا ہے چناچہ وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ہیں۔ جیسا کہ بتایا گیا خوارج مسلمانوں کے ایک فرقہ کا نام ہے جو گمراہی میں مبتلا ہے اس فرقہ کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ بندہ نہ صرف گناہ کبیرہ بلکہ صغیرہ گناہوں کے ارتکاب سے بھی کافر ہوجاتا ہے۔

【8】

خوارج کے بارے میں آنحضرت ﷺ کی پیش گوئی

اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کچھ دنوں بعد میری امت دو فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی ان دونوں فرقوں میں ایک ایسی جماعت پیدا ہوگی جو حق کی اطاعت سے نکلنے والی ہوگی اس جماعت کو موت کے گھاٹ اتارنے کی ذمہ داری ان دونوں فرقوں میں سے وہ شخص پورا کرے گا جو حق سے زیادہ قریب ہوگا۔ (مسلم) تشریح دو فرقوں سے مراد ایک تو حضرت علی کے حامیوں کی جماعت ہے اور دوسری حضرت امیر معاویہ کے حامیوں کی جماعت ہے ان دونوں کے درمیان سے جو ایک تیسری جماعت پیدا ہوئی اسی کو خوارج کہا گیا ہے خوارج کو فنا کے گھاٹ اتارنے اور ان کے فتنہ و فساد کا دفعیہ کرنے کی طرف حضرت علی متوجہ ہوئے کیونکہ اس وقت انہی کی شخصیت حق سے زیادہ قریب کا سب سے بڑا مصداق تھی۔

【9】

مسلمان کا مسلمان کو قتل کرنا کفر کے قریب پہنچ جانا ہے۔

اور حضرت جریر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ خبردار میرے بعد کفر کے ذریعہ پیچھے نہ پھرجانا کہ تم میں سے ایک دوسرے کی گردن مارنے لگے۔ (بخاری) تشریح تم میں سے ایک دوسرے کی گردن مارنے لگے یہ استیناف ہے یعنی ایک جملہ ہے جو اس ممانعت کفر کے ذریعہ پیچھے نہ پھرجانا کی وضاحت اور بیان ہے گویا سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ کفر کے ذریعہ پیچھے پھرجانا ممکن ہے ؟ تو جواب میں فرمایا گیا کہ مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنا یعنی یہ ایک ایسا عمل ہے جو کافروں کے عمل کے مشابہ ہے یا یہ عمل کفر کے قریب پہنچا دیتا ہے۔ اور حضرت ابوبکرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب دو مسلمانوں کی آپس میں اس طرح مڈبھیڑ ہو کہ ان میں کا ایک اپنے دوسرے (مسلمان) بھائی پر ہتھیار اٹھائے دوزخ میں ڈالے تو وہ دوزخ جائیں کنارے پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کر دے تو دونوں ایک ساتھ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ ایک روایت ابوبکرہ ہی سے یوں منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فریا ما اگر دو مسلمانوں کی آپس میں تلوار کے ساتھ مڈبھیڑ ہو اور ان میں کا ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل و مقتول دونوں ہی دوزخ کی آگ میں ڈالے جائیں گے میں نے عرض کیا کہ قاتل کا دوزخ میں جانا تو ظاہر ہے کہ اس نے چونکہ ظلم کیا ہے اس لئے وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا مگر مقتول کے بارے میں ایسا کیوں ہے ؟ کہ وہ تو مظلوم ہے اس کو دوزخ میں کیوں ڈالا جائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس لئے کہ وہ بھی تو اپنے ساتھی یعنی حریف کو قتل کرنے پر آمادہ تھا یہ اور بات ہے کہ اس کا وار خالی گیا اور دوسرے کا وار بھر پور پڑا۔ (بخاری ومسلم) تشریح دونوں ایک ساتھ دوزخ میں ڈالے جائیں گے کہ بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ ان دونوں میں سے ایک بھی حق پر نہ ہو، ہاں اگر ان میں سے ایک حق پر ہوگا تو دوزخ کی آگ میں اسی کو ڈالا جائے گا جو ناحق پر ہوگا، لیکن یہ بھی اسی صورت میں ہے جب کہ اشتباہ، التباس اور تاویل سے قتل سرزد نہ ہو۔ وہ بھی تو اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر آمادہ تھا اور ابن ملک کہتے ہیں کہ یہ ارشاد اس بات کی دلیل ہے کہ کسی حرام چیز کے ارتکاب کی محض آمادگی پر بھی مواخذہ ہوتا ہے چناچہ صورت مذکورہ میں یہی نوعیت ہے کہ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی جان کے طلبگار ہوتے ہیں ہاں اگر مقتول محض اپنے دفاع کا ارادہ رکھتا ہو اور اس کی نیت میں دوسرے کے قتل کی خواہش و ارادہ کا دخل نہ ہوتا تو اس سے مواخذہ نہ ہوتا کیونکہ شریعت نے دفاعی کاروائی کی اجازت دی ہے۔

【10】

مرتد اور قزاقوں کی سزا

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں قبیلہ عکل کے کچھ لوگ آئے اور اسلام قبول کیا لیکن ان کو مدینہ کی آب وہوا موافق نہ آئی جس کی وجہ سے وہ اس مرض میں مبتلا ہوگئے کہ ان کے پیٹ پھول گئے اور رنگ زرد ہوگیا آنحضرت ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ شہر سے باہر زکوٰۃ کے اونٹوں کے رہنے کی جگہ چلے چائیں اور وہاں ان اونٹوں کا پیشاب اور دودھ پیا کریں، چناچہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور اچھے ہوگئے پھر وہ ایسی گمراہی میں مبتلا ہوئے کہ مرتد ہوگئے اور مستزاد یہ کہ ان اونٹوں کے چرواہوں کو قتل کر کے اونٹوں کو ہانک کرلے گئے جب رسول کریم ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے ان کے پیچھے چند سواروں کو بھیجا جو ان سب کو پکڑ لائے۔ ان کے اس جرم کی سزاء کے طور پر آنحضرت ﷺ کے حکم سے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں اور پیروں کو گرم تیل میں داغا نہیں گیا یعنی جیسا کہ قاعدہ ہے کہ ان اعضاء کو کاٹنے کے بعد گرم تیل میں داغ دیا جاتا ہے تاکہ خون بند ہوجائے لیکن ان کے ساتھ یہ بھی نہیں کیا گیا) آخر کار وہ سب مرگئے ! تشریح ان اونٹوں کا پیشاب اور دودھ پیا کریں اس ارشاد گرامی سے حضرت امام محمد نے یہ استدلال کیا ہے کہ جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کا پیشاب بھی پاک ہے یہی قول امام مالک اور حضرت امام احمد کا ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام ابویوسف کے نزدیک ان جانوروں کا پیشاب نجس (ناپاک) ہے ان کی طرف سے اس ارشاد گرامی کی یہ تاویل کی جاتی ہے کہ ان لوگوں کے مرض کی نوعیت کے اعتبار سے آنحضرت ﷺ کو بذریعہ وحی یہ معلوم ہوا ہوگا کہ ان کے مرض کا علاج صرف اونٹ کا پیشاب ہے اس لئے آپ ﷺ نے مخصوص طور پر ان لوگوں کو اس کا حکم دیا۔ پھر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ جس طرح اونٹ کا پیشاب پینا دوا کے علاوہ حلال نہیں ہے اسی طرح دوا کے طور پر پینا بھی حلال نہیں ہے، کیونکہ اس بات پر کوئی متفق نہیں ہے کہ پیشاب میں کسی مرض کی شفا ہے، لیکن حضرت امام ابویوسف کے نزدیک کسی مرض کے علاج کے لئے پینا حلال ہے۔ ابن مالک فرماتے ہیں کہ باوجودیکہ آنحضرت ﷺ نے مثلہ سے منع فرمایا ہے لیکن آپ ﷺ نے ان لوگوں کو اس طرح کی سزا دی، اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ ان لوگوں نے اونٹوں کے چرواہوں کے ساتھ یہی برتاؤ کیا تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے بطور قصاص ان لوگوں کے ساتھ بھی ویسا ہی معاملہ کیا یا یہ وجہ تھی کہ چونکہ ان مفسدوں نے بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا تھا یعنی مرتد بھی ہوئے، چرواہوں کو قتل بھی کیا ہے اور قزاقی بھی کی کہ لوٹ مار کر کے سارے اونٹ لے گئے اور امام وقت کو حق پہنچتا ہے کہ اس قسم کے جرم کی صورت میں بطور زجر و تنبیہ اور ب مصلحت امن و انتظام مجرم کو مختلف طرح کی سزائیں دے چناچہ آپ ﷺ نے اسی کے پیش نظر ان لوگوں کے ساتھ اس طرح معاملہ کیا۔ نووی کہتے ہیں کہ اس حدیث کے معنی ومنشاء کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، بعض حضرات تو یہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جو واقعہ نقل کیا گیا ہے وہ ان آیات کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے جن میں حدود شرعی سزاؤں اور قزاقوں کی سزا کے بارے میں صریح احکام بیان کئے گئے ہیں اسی طرح آنحضرت ﷺ نے مثلہ کی جو ممانعت فرمائی ہے وہ بھی اس واقعہ کے بعد کا حکم ہے اس اعتبار سے یہ حدیث منسوخ ہے، لیکن دوسرے بعض حضرات کا قول یہی ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے، بلکہ اسی موقعہ پر وہ آیت نازل ہوئی تھی جس میں قزاقوں کی یہ سزا بیان کی گئی ہے کہ ان کو قتل کردیا جائے یا سولی دے دی جائے اور ان کا ایک اور پیر کاٹ دیا جائے، لیکن آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کو جو سزا دی وہ بطور قصاص تھی کہ انہوں نے اونٹوں کے چرواہوں کے ساتھ جو معاملہ کیا تھا ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا گیا۔ اب رہی یہ بات کہ آخری وقت میں ان مفسدوں کو پانی کیوں نہیں دیا گیا، تو اس کے بارے میں بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ بھی قصاص کے طور پر تھا کہ ان مفسدوں نے بھی اونٹوں کے چرواہوں کو اسی طرح بغیر پانی کے تڑپا تڑپا کر مار ڈالا تھا چناچہ ان کے ساتھ بھی یہی کیا گیا کہ جب انہوں نے پانی مانگا تو انہیں پانی نہیں دیا گیا، لیکن بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ان کو پانی نہ دینے کا حکم آنحضرت ﷺ نے نہیں دیا تھا بلکہ لوگوں نے ان مفسدوں کے تئیں انتہائی نفرت اور غصہ کے اظہار کے طور پر از خود ان کو پانی نہیں دیا۔ اس بارے میں جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص سزا موت کا مستوجب ہوچکا ہو اور اس کو قتل کرنا واجب ہو وہ اگر پانی مانگے تو پانی دینے سے انکار نہ کرنا چاہئے۔

【11】

مثلہ کی ممانعت

حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صدقہ دینے پر ہمیں رغبت دلاتے تھے اور مثلہ سے منع فرماتے تھے (ابو داؤد ، ) نسائی نے اس روایت کو حضرت انس (رض) سے نقل کیا ہے۔ تشریح جسم کے کسی عضو جیسے ناک، کان، ستر یا کسی اور حصہ جسم کے کاٹ ڈالنے کو مثلہ سے منع فرمانا بعض حضرات کے نزدیک تو بطور تحریم ہے یعنی یہ مکروہ تحریمی ہے اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ بطور تنزیہی ہے یعنی یہ مکروہ تنزیہی ہے لیکن زیادہ صحیح قول تحریم ہی کا ہے جہاں تک اس سے پہلی حدیث میں مذکورہ واقعہ کا تعلق ہے تو یہ بات وہاں بھی بتائی جا چکی ہے کہ آپ کی طرف سے ان مفسدوں کے اعضاء جسم کا کاٹا جانا قصاص کے طور پر تھا۔

【12】

جانوروں کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا جذبہ رحمت

اور حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک مرتبہ ہم لوگ رسول کریم ﷺ کے ہمراہ سفر میں تھے جب ایک موقع پر آنحضرت ﷺ قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک حمرہ کو دیکھا جس کے ساتھ دو بچے تھے ہم نے ان دونوں بچوں کو پکڑ لیا، اس کے بعد حمرہ آئی اور اپنے بچوں کی گرفتاری پر احتجاج شروع کیا جبھی نبی کریم ﷺ تشریف لے آئے، آپ ﷺ نے جب حمرہ کو اس طرح بیتاب دیکھا تو فرمایا کہ کس نے اس کے بچوں کو پکڑ کر اس کو مضطرب کر رکھا ہے ؟ اس کے بچے اس کو واپس کردو پھر آپ ﷺ نے ان چیونٹیوں کے رہنے کی جگہ کو دیکھا جس کو ہم نے جلا دیا تھا اور فرمایا کہ ان چیونٹیوں کو کس نے جلایا ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ ہم نے جلایا ہے آپ ﷺ نے فرمایا پروردگار کے علاوہ کہ جو آگ کا بھی مالک ہے اور کسی کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کو آگ کے عذاب میں مبتلا کرے۔ (ابو داؤد) تشریح حمرہ ح پر پیش اور میم پر تشدید و زبر ایک پرندے کا نام سے جو سرخ رنگ کا اور چڑیا کی مانند چھوٹا ہوتا ہے، حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ آگ کے ذریعہ کسی کو عذاب دینا صرف اللہ تعالیٰ ہی کے شایاں ہے اور چونکہ یہ سب سے بڑا عذاب ہے اس لئے کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو آگ میں جلائے۔ چیونٹیوں کے بارے میں مسئلہ یہ ہے اگر چیونٹیاں تکلیف پہنچانے میں ابتداء کریں یعنی از خود کسی کو کاٹنے لگیں تو ان کو مار ڈالنا چاہئے ورنہ ان کو مارنا مناسب نہیں ہے، اسی طرح چیونٹیوں کے بلوں کو آگ سے جلانا بھی ممنوع ہے، نیز چیونٹیوں کو پانی میں ڈالنا مکروہ ہے اگر ایک چیونٹی کاٹے تو صرف اسی کو مارا جائے اس کے ساتھ اور چیونٹیوں کو مار ڈالنے کی ممانعت ہے۔

【13】

ایک باطل فرقہ کے بارے میں پیش گوئی

اور حضرت ابوسعید خدری اور حضرت انس ابن مالک رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا عنقریب میری امت میں اختلاف وافتراق پیدا ہوگا ایک فرقہ جو باتیں تو اچھی کرے گا مگر اس کا عمل برا ہوگا اس فرقہ کے لوگ قرآن کریم پڑھیں گے لیکن ان کا وہ پڑھنا ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا یعنی قبول نہیں ہوگا اور وہ لوگ دین یعنی امام وقت اور علماء حق کی اطاعت سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے اور وہ دین کی طرف اس وقت تک نہیں لوٹیں گے جب تک کہ تیر اپنے سوفار کی طرف نہ لوٹ آئے اور وہ لوگ آدمیوں اور جانوروں میں سب سے بدترین ہوں گے۔ خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو ان لوگوں کو قتل کر دے یا وہ لوگ اس کو قتل کردیں۔ یعنی جو شخص ان لوگوں کے فتنہ اور ان کی گمراہی کا سر کچلنے کے لئے ان کا مقابلہ کرے یہاں تک کہ یا تو وہ ان لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتار دے یا وہ ان لوگوں سے حق کے لئے لڑتا ہوا خود قتل ہوجائے تو دونوں صورتوں میں اس کے لئے حق تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت کی سعادتوں کی خوشخبری ہے کہ پہلی صورت میں تو وہ غازی کا لقب پائے گا اور دوسری صورت میں شہادت کا عظیم مرتبہ حاصل کرے گا وہ بظاہر تو انسانوں کو کتاب اللہ کی دعوت دیں گے لیکن رسول کریم ﷺ کی سنت اور ان کی احادیث کو ترک کرنے پر اکسائیں گے حالانکہ احادیث نبوی ﷺ قرآن کریم کی تفسیر و تشریح ہیں کہ احادیث کے بغیر قرآن کریم کو سمجھنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا ناممکن ہے وہ لوگ کسی معاملہ میں ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہیں یعنی وہ کسی بات میں مسلمان شمار نہیں ہوں گے جو شخص ان لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتارے گا وہ اپنی جماعت میں اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہوگا صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! ان لوگوں کی پہنچان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا سرمنڈانا۔ (ابو داؤد ) تشریح میری امت میں اختلاف وافتراق پیدا ہوگا کا مطلب یہ ہے کہ میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو آپس میں اختلاف وافتراق کو ہوا دیں گے اور اپنی اغراض کے لئے امت کے اتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے ! یہ جملہ ایک فرقہ باتیں تو اچھی کرے گا ماقبل کے جملہ کی وضاحت اور بیان ہے یعنی امت میں جو لوگ اختلاف وافراق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے ان کی ایک خاص علامت یہ ہوگی کہ وہ باتیں تو بڑی اچھی اچھی کریں گے لیکن ان کا عمل بہت ہی برا ہوگا ان کی زبان سے تو یہ ظاہر ہوگا کہ پوری امت میں یہی لوگ ہیں جو دین کے شیدائی ہے، اللہ اور رسول ﷺ کے سچے اطاعت گزار ہیں اور مسلمانوں کے بھی خواہ ہیں لیکن ان کے عمل و کردار کا یہ حال ہوگا کہ وہ اپنی اغراض کے لئے مسلم دشمن طاقتوں کا آلہ کار اپنے نفس کے غلام اپنی خواہشات کے بندے اور مال وجاہ کے حرص میں مبتلا ہوں گے اور ان کا مقصد اتحاد امت کی جڑیں کھوکھلی کرنا ہوگا۔ یہ جملہ (یقرؤون القران) اس فرقہ کے لوگ قرآن پڑھیں گے یا تو استیناف یعنی ایک الگ جملہ ہے جو ماقبل کی عبارت کی توضیح وبیان ہے یا شاطبی کے مسلک کے مطابق بدل ہے یا پھر اس سے نفس اختلاف کی وضاحت مراد ہے کہ عنقریب میری امت کے لوگوں میں اختلاف و افتراق پیدا ہوجائے گا اور دو فرقوں میں تقسیم ہوجائیں گے ان میں سے ایک فرقہ حق پر ہوگا اور ایک فرقہ باطل پر ہوگا طیبی کہتے ہیں کہ اس تاویل کی تائید آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے جو اسی باب کی پہلی فصل میں نقل ہوچکا ہے کہ حدیث (تکون امتی فرقتین فتخرج من بینہما مارقۃ یلی فتلہم اولاہم بالحق) اس صورت میں کہا جائے گا کہ لفظ قوم مابعد کے جملہ کا موصوف ہے اور ایک کی خبر جملہ (یقرؤوں القران) ہے اور اس جملہ کا مقصد ان دونوں فرقوں میں سے ایک فرقہ کی (جو باطل ہے ) نشان دہی کرنا ہے جب کہ دوسرے فرقہ کے ذکر کو اس لئے چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ خود بخود مفہوم ہوجاتا ہے۔ حدیث (لا یجاوز تراقیہم) ان کا پڑھنا ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ وہ لوگ بنیادی طور پر گمراہی میں مبتلا ہوں گے اور محض آلہ کار کے طور پر قرآن کریم کی آیات کا کوئی بھی اثر نہ ان کے دل پر ہوگا اور نہ ان کے دوسرے اعضاء حرکت وعمل اثر ان کا مخارج حروف اور ان کی آوازوں سے آگے نہیں جائے گا جس کی وجہ سے قرآن کریم کی آیات کا کوئی بھی اثر نہ ان کے دل پر ہوگا اور نہ ان دوسرے اعضاء حرکت وعمل اثر پذیر ہوں گے چناچہ قرآن کریم کی جن باتوں پر یقین و اعتقاد کرنا لازم ہے ان پر وہ اعتقاد و یقین نہیں رکھیں گے اور قرآن کریم کی جن باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے وہ ان پر عمل نہیں کریں گے۔ یا اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قرأت کو اس دنیا سے اوپر نہیں اٹھائے گا یعنی اس کو قبول نہیں کرے گا گویا ان کی قرأت ان کے حلقوم سے آگے نہیں بڑھے گی۔ حدیث (حتی یرتد السہم علی فوقہ) جب کہ تیر اپنے سوفار کی طرف نہ لوٹ آئے یہ تعلیق بالمحال ہے یعنی جس طرح تیر کا اپنے سوفار اپنی چٹکی کی جگہ واپس آنا محال ہے اسی طرح ان لوگوں کا دین کی طرف آنا بھی محال ہے گویا یہ جملہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت (حتی یلج الجمل فی سم الخیاط) کی مانند ہے اور اس جملے کا منشاء اس بات کو تاکید اور شدت کے ساتھ بیان کرنا ہے کیونکہ وہ لوگ سخت قسم کی جہالت اور گمراہی میں مبتلا ہوں گے اور یہ غلط گمان ان کے قلب و دماغ میں بیٹھ چکا ہوگا کہ ہم حق اور ہدایت پر ہیں اس لئے ان کا دین کے دائرہ میں لوٹ آنا ناممکن ہوگا۔ سرمنڈانا آپ ﷺ نے یہ بات شائد اس لئے فرمائی کہ اس زمانہ میں عرب میں سرمنڈانے کا رواج نہیں تھا، بلکہ اکثر لوگ سروں پر بال رکھا کرتے تھے، اس ارشاد کا مقصد سرمنڈانے کی برائی یا تحقیر کرنا نہیں ہے کیونکہ سرمنڈانا تو اللہ کے شعار اور اس کی طاعت میں سے ایک عمل ہے اور ان لوگوں کی عادات میں سے ہے جو اللہ کے نیک و صالح بندے ہیں۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ تحلیق سے مراد سرمنڈانا نہیں ہے بلکہ لوگوں کو حلقہ در حلقہ بٹھانا مراد ہے جو ان لوگوں کی طرف سے محض نمائش اور تکلف کے طور پر ہوگا۔

【14】

وہ تین صورتیں جن میں ایک مسلمان کو سزائے موت دی جاسکتی ہے

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا نفس مسلمان کہ جو اس امر کی شہادت دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اس کا خون حلال نہیں ہے ہاں ان تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت واقع ہوجانے کی وجہ سے اس کا خون حلال ہوجاتا ہے ایک تو یہ کہ وہ محصن ہونے کے بعد زنا کرے تو اس کو سنگسار کردیا جائے دوسری صورت یہ کہ کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے نکلے یعنی جو مسلمان قزاقی کرے یا بغاوت کی راہ پر لگ جائے تو اس کو قتل کردیا جائے یا سولی دے دی جائے اور یا اس کو قید میں ڈال دیا جائے اور تیسری صورت قتل نفس کی ہے کہ جو مسلمان کسی کو عمداً قتل کر دے تو اس کے بدلے میں اس کو قتل کردیا جائے۔ (ابو داؤد) تشریح محصن ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ مسلمان جو آزاد ہو مکلف ہو اور نکاح صحیح کے ساتھ صحبت کرچکا ہو یعنی شادی شدہ ہو اور پھر اس کے بعد زنا کا مرتکب ہو اس کی سزا یہ ہے کہ اس کو سنگسار کر کے ختم کردیا جائے۔ قزاقی کرنے والے کے بارے میں تین سزائیں بیان کی گئی ہیں۔ (١) قتل کردیا جائے۔ (٢) سولی دیا جائے (٣) قید میں ڈالا جائے ان تینوں میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ قزاق مال تو نہ لوٹ سکا ہو مگر اس نے کسی کو جان سے مار ڈالا ہو تو اس صورت میں اس کو قتل کیا جائے گا اور اگر اس نے مال بھی لوٹا ہو اور کسی کو قتل بھی کیا ہو تو اس صورت میں اس کو سولی دی جائے گی۔ اب اس کے متعلق حضرت امام مالک تو یہ فرماتے ہیں کہ اس کو زندہ سولی پر لٹکا دیا جائے تاکہ وہ مرجائے لیکن حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ اس کو قتل کر کے اس کی لاش سولی پر لٹکا دی جائے تاکہ دوسرے لوگوں کو اس کے انجام سے عبرت ہو۔ تیسری سزا قید کی ہے اس کے لئے حدیث میں (ینفیٰ فی الارض) کے الفاظ ہیں اس کے معنی حضرت امام شافعی کے نزدیک تو یہ ہے کہ اس کو مسلسل شہر بدر کیا جاتا رہے یعنی اسے کسی ایک شہر میں ٹھہرنے اور رہنے نہ دیا جائے بلکہ ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف نکالا جاتا رہے تاکہ اسے قرار و آرام نہ مل سکے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک ان الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ اس کو قید میں ڈال دیا جائے اور یہ قید کی سزا اس صورت میں ہے جب کہ اس نے نہ تو مال لوٹا ہو اور نہ کسی کو قتل کیا ہو بلکہ راہگیروں کو ڈرایا دھمکایا ہو اس طرح اس نے راستے کے امن و عافیت کی طرف سے لوگوں کو خوف و تشویش میں مبتلا کیا ہو حدیث کا یہ جزء جس میں قزاقوں اور راہزنوں کی مذکورہ بالا سزاؤں کا حکم ہے ؟ دراصل قرآن کریم کی اس آیت سے مستبظ ہے کہ ا یت (اِنَّمَا جَزٰ ؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْ ا اَوْ يُصَلَّبُوْ ا اَوْ تُ قَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْض ) ۔ 5 ۔ المائدہ 33) جو لوگ اللہ تعالیٰ اس کے رسول ﷺ سے لڑتے ہیں اور ملک میں فساد یعنی بدامنی پھلاتے پھرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا سولی دئیے جائیں، یا ان میں سے ہر ایک کا ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں کاٹ دیا جائے یا زمین سے نکال کر جیل خانہ میں بھیج دیئے جائیں اس اعتبار سے بظاہر حدیث میں (او ینفیٰ فی الارض) سے پہلے یہ عبارت (او یقطع یدہ ورجلہ) میں خلاف بھی ہونی چاہئے تھی تاکہ یہ حدیث مذکورہ آیت کی پوری مطابق ہوجاتی لیکن یہ قوی احتمال ہے کہ اصل حدیث میں تو یہ عبارت رہی ہو البتہ یہاں حدیث کے راوی کی بھول سے نقل ہونے سے رہ گئی ہو یا راوی نے اختصار کے پیش نظر اس کو قصدًا حذف کردیا ہے۔ حرف او حدیث میں بھی قرآن کی آیت میں بھی اظہار تفصیل کے لئے ہے لیکن بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ تخییر کے لئے ہے یعنی یہ ظاہر کرنے کے لئے ہے کہ امام وقت اور حاکم کو یہ اختیار ہے کہ وہ مذکورہ تفصیل کا لحاظ کئے بغیر ان سزاؤں میں سے جو سزا مناسب جانے قزاق کو دے۔

【15】

کسی مسلمان کو خوف ودہشت میں مبتلا کرنے کی ممانعت

اور حضرت ابن ابی لیلی (تابعی) کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کے صحابہ نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ وہ کسی موقع پر رات میں رسول کریم ﷺ کے ہمراہ سفر میں تھے ان میں سے ایک شخص جب کسی پڑاؤ پر سو گیا تو ان میں کا ایک دوسرا شخص اپنی جگہ سے اٹھ کر چلا اور سونے والا اس سے ڈر گیا، آنحضرت ﷺ نے بھی اس کی یہ حرکت دیکھ لی یا آپ ﷺ نے اس کے بارے میں سنا تو فرمایا کہ کسی مسلمان کے لئے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو ڈرائے۔ (ابو داؤد )

【16】

اسلام کی عزت کا کفر کی ذلت سے سودا نہ کرو

اور حضرت ابودرداء رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کسی جزیہ والی زمین کو خریدا اس نے اپنی ہجرت کو توڑ دیا اور جس نے کافر کی ذلت کو اس کی گردن سے نکال کر اپنی گردن میں ڈال لیا اس نے اسلام کو پس پشت ڈال دیا۔ (ابو داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کسی ذمی سے کوئی خراجی جزیہ والی زمین خریدی تو اس مسلمان پر اس زمین کا وہ جزیہ عائد ہوگا جو اس زمین کے پہلے مالک ذمی پر عائد تھا۔ اور اسی طرح گویا وہ مسلمان دار الاسلام کی طرف ہجرت کرنے کی وجہ سے جن حقوق اور جس شرف وعزت کے دائرہ میں تھا اس سے نکل جائے گا اور ایک کافر کی ذلت یعنی جزیہ کی سختی کو اپنے ہاتھوں اپنے گلے میں ڈالنے والا ہوگا۔ اور جس نے کافر کی ذلت کو اس کی گردن سے نکال کر۔۔۔۔۔ الخ۔ حدیث کا یہ جزء دراصل پہلے جزء کا بیان اور اس کی وضاحت ہے کہ جس مسلمان نے ایک کافر کے جزیہ کو اپنے ذمہ لے لیا اس نے گویا اسلام کی عطا کی ہوئی عزت دے کر کفر کی ذلت و رسوائی مول لے لی اور اس طرح اس نے کفر کو اسلام کا بدل قرار دیا ہے۔ خطابی کہتے ہیں کہ یہاں جزیہ سے مراد خراج ہے یعنی اگر کوئی مسلمان کسی کافر سے کوئی خراجی زمین خریدے گا تو اس زمین کا خراج ساقط نہیں ہوگا بلکہ اب وہ اس مسلمان پر عائد ہوجائے گا۔ چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے۔

【17】

مسلمان، کافروں میں مخلوط نہ رہیں

اور حضرت جریر ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے قبیلہ خثعم کے مقاتلہ پر ایک لشکر بھیجا تو اس قبیلہ کے کچھ لوگ (جو اسلام قبول کرچکے تھے لیکن ان کا رہن سہن قبیلہ کے کافروں ہی کے ساتھ تھا نماز کی پناہ پکڑنے لگے) یعنی لشکر والوں کو علم ہوجائے کہ یہ مسلمان ہیں اور اس طرح وہ حملہ سے بچ جائیں لیکن ان کے قتل میں عجلت سے کام لیا گیا یعنی لشکر والوں نے ان کے سجدوں کا اعتبار نہ کیا اور یہ گمان کر کے کہ یہ بھی کافر ہیں اور محض قتل سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہے ہیں ان کو بھی قتل کردیا جب اس واقعہ کی اطلاع رسول کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے ان مسلمان مقتولین کے ورثاء کو آدھی دیت دیئے جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں اس مسلمان سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جو مشرکوں کے درمیان اقامت اختیار کرے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کی بیزاری کا سبب کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مسلمانوں کو کافروں سے اتنی دور رہنا چاہئے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں (لیکن اگر کوئی مسلمان کافروں میں مخلوط رہا تو گویا اس نے حکم کی پرواہ نہیں کی ) ۔ (ابو داؤد) تشریح رسول کریم ﷺ نے ان مقتولین کے مسلمان ہونے کا علم ہوجانے کے باوجود ان کے ورثاء کو پوری دیت کا حقدار قرار نہیں دیا بلکہ آدھی دیت دیئے جانے کا حکم فرمایا اس کا سبب یہ تھا کہ ان لوگوں نے مشرکین کے درمیان اقامت اختیار کر کے گویا خود اپنے قتل میں معاونت کی جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے اس کا اظہار بھی فرمایا کہ میں ہر اس مسلمان سے اپنی بیزاری اور برأت کا اظہار کرتا ہو جو مشرکین اور کفار کے درمیان اقامت پذیر ہو۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں۔ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اور کافر ایک دوسرے سے اتنی دور اقامت اختیار کریں کہ اگر دونوں طرف آگ جلائی جائے تو مسلمان کی آگ کافر نہ دیکھ سکیں اور کافروں کی آگ مسلمان نہ دیکھ سکیں۔ جیسا کہ ترجمہ میں وضاحت کی گئی ہے اس جملہ میں آنحضرت ﷺ کی اس بیزاری کی علت مذکور ہے جو آپ ﷺ نے کافروں کے درمیان رہنے والے مسلمانوں کے متعلق ظاہر فرمائی ہے۔

【18】

بلا تحقیق حال کسی کو قتل نہ کرو

اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ایمان اپنے حامل یعنی مؤمن کو اس بات سے روکتا ہے کہ وہ کسی کو ناگہاں قتل کر دے، لہٰذا کوئی مؤمن ناگہاں قتل نہ کرے۔ (ابو داؤد) تشریح حدیث کا حاصل یہ ہے کہ کسی مسلمان کو یہ نہ چاہئے کہ وہ غفلت میں کسی کی جان لے لے اور کسی کو اس کے حال کی تحقیق کے بغیر کہ وہ مسلمان ہے یا کافر، قتل کر دے۔ چونکہ ذمی کافر، اسلامی حکومت کی طرف سے جان ومال کی حفاظت کے عہد و یقین دہانی کے زیر سایہ ہوتا ہے اس لئے اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اس کو بھی قتل نہ کیا جائے ہاں اگر کوئی مفسد وغدار ہو کہ وہ مسلمانوں کے در پئے آزار ہو اور فتنہ و فساد اور بدامنی پھیلاتا ہو تو اس کی بات دوسری ہے، جیسا کہ کعب ابن اشرف یہودی یا ابورافع کو ناگہاں قتل کیا گیا، علاوہ ازیں ان دونوں کو آنحضرت ﷺ نے جو قتل کیا وہ خاص بحکم الہٰی تھا۔ نیز بعض حضرات یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان دونوں کا قتل، اس ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہے۔

【19】

دار الحرب بھاگ جانے والے غلام کو قتل کردینے والا مستوجب مواخذہ نہیں

اور حضرت جریر نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب کوئی غلام، شرک یعنی دار الحرب کی جانب بھاگ جائے تو اس کا خون حلال ہوگا۔ (ابو داؤد ) تشریح اس کا خون حلال ہوگا۔ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایسے غلام کو کوئی قتل کر دے تو قاتل سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا اور نہ اس پر کچھ واجب ہوگا بایں سبب کہ اس غلام نے مشرکوں کی محافظت اختیار کی اور دار الاسلام کو ترک کیا۔ اور اگر کوئی غلام نہ صرف یہ کہ دار الحرب بھاگ جائے بلکہ مرتد بھی ہوجائے تو اس کا خون بطریق اولی حلال ہوگا۔

【20】

آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والا ذمی مباح الدم ہے یا نہیں ؟

اور حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کو برا بھلا کہا کرتی تھی اور آپ میں عیب نکال کر طعن کیا کرتی تھی، چناچہ آپ ﷺ کی شان اقدس میں یہ گستاخی ایک شخص برداشت نہ کرسکا اور اس عورت کا گلا گھونٹ ڈالا جس سے وہ مرگئی، نبی کریم ﷺ نے اس کا خون معاف کردیا۔ (ابو داؤد) تشریح اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی ذمی کافر آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے لگے تو وہ اس عہد وذمہ کو توڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے اسلامی حکومت میں اس کو اپنی جان ومال کی حفاظت حاصل تھی اور وہ مباح الدم حربی وہ کافر جس کا خون مباح ہو اس کی مانند ہوجاتا ہے جیسا کہ حضرت امام شافعی کا مسلک ہے، لیکن حضرت امام اعظم ابوحنفیہ فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ سے اس ذمی کا عہد نہیں ٹوٹتا چناچہ یہ مسلک فقہ کی کتابوں میں کتاب الجزیہ کے آخر میں مذکور ہے اور ھدایہ میں اس کے دلائل بھی لکھے ہوئے ہیں،

【21】

ساحر کو قتل کردیا جائے

اور حضرت جندب کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جادوگر کو حد (شرعی سزا) یہ ہے کہ اس کو تلوار سے قتل کردیا جائے (ترمذی) تشریح علماء کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ جادو کرنا حرام ہے۔ ویسے جادو کے مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، حضرت امام شافعی تو یہ فرماتے ہیں کہ جادوگر کو قتل کردیا جائے بشرطیکہ اس کا جادو موجب کفر ہو اور وہ توبہ نہ کرے۔ حضرت امام ملک اور بعض دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ ساحر کافر ہے، سحر کفر ہے، سحر سیکھنا سیکھانا بھی کفر ہے ساحر کو قتل کردی جائے اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے خواہ اس نے کسی مسلمان پر سحر کیا ہو یا کسی ذمی پر۔ اور حنیفہ یہ کہتے ہیں کہ اگر ساحر کا یہ عقیدہ ہو کہ کار ساز شیطان کی ذات ہے کہ وہ میرے لئے جو چاہتا ہے کرتا ہے تو وہ کافر ہے اور اگر یہ عقیدہ ہو کہ سحر، مجرد خیال ہے تو وہ کافر نہ ہوگا بلکہ فاسق ہے اور سحر کا سیکھنا حرام ہے۔ درمختیار کے حاشیہ طحطاوی میں یہ لکھا ہے کہ سحر کی تین قسمیں ہیں۔ (١) فرض۔ (٢) حرام۔ (٣) جائز اگر کوئی شخص اہل حرب کے ساحر کے توڑ کے لئے سحر سیکھے تو وہ فرض ہے، اگر کوئی شخص اس مقصد کے لئے سیکھے کہ اس کے ذریعہ میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دے گا تو حرام ہے اور اگر اس مقصد کے لئے سیکھے کہ اس کے ذریعہ میاں بیوی کے درمیان پیار و محبت پیدا کرے گا تو جائز ہے۔ سحر کے کفر ہونے میں اگرچہ حنبلی علماء کے اختلافی اقوال ہیں لیکن تنقیح میں ان کی کتابوں کے حوالہ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ ساحر کی توبہ کا اعتبار نہ کیا جائے۔ ساحر اپنے سحر کی وجہ سے کافر ہوجاتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان پر سحر کرے اس کو قتل کردیا جائے۔ سحر کی طرح کہانت، نجوم، رمل اور علم شعبدہ کا سیکھنا اور سیکھانا بھی حرام ہے اور اس کے ذریعہ کمایا ہوا مال بھی حرام ہے۔ حضرت اسامہ ابن شریک کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص امام وقت کے خلاف خروج کرے اور اس طرح وہ میری امت میں تفرقہ ڈالے تو اس کی گردن اڑا دو (نسائی) تشریح امام وقت، امت کے اتحاد واجماعیت کا بنیادی محور ہوتا ہے اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہر مسلمان پر اسی لئے لازم ہے کہ اس کی وجہ سے نہ صرف اسلام کی تعلیم اجتماعیت کا تقاضہ پورا ہوتا ہے بلکہ مسلمان ایک جھنڈے کے نیچے متفق ومتحد رہ کر اسلام دشمن ومسلم مخالف طاقتوں کے مقابلہ پر ایک مضبوط چٹان بن جاتے ہیں اور اس طرح وہ اسلام کی شان و شوکت کو باقی رکھنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں، لیکن اگر کوئی شخص اس اجتماعی دائرہ سے نکلتا ہے تو وہ صرف ایک برائی کا مرتکب نہیں ہوتا بلکہ پوری امت کے اتفاق و اتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی اعتراض ہو تو اس کے اس شک وشبہ اور اعتراض کو دور کیا جائے گا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی حرکت سے باز نہ آئے اور اصلاح کی کوئی کوشش اس کو سرکشی و بغاوت کی راہ سے واپس نہ لاسکے تو پھر اس کو مار ڈالا جائے جیسا کہ حضرت علی نے خوارج کے ساتھ کیا۔

【22】

خوارج کے متعلق پیشین گوئی

اور حضرت شریک ابن شہاب تابعی کہتے ہیں کہ میری ایک یہ بڑی آرزو تھی کہ میں نبی کریم ﷺ کہ کسی صحابی سے ملاقات کی سعادت حاصل کروں اور ان سے خوارج کے بارے میں پوچھوں کہ آج کل جو خوارج پیدا ہو رہے ہیں کیا آنحضرت ﷺ نے ان کے متعلق کوئی پیشین گوئی کی تھی ؟ چناچہ میں ایک صحابی حضرت ابوبرزہ سے عید کے دن ان کے دوستوں کی موجودگی میں ملا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول کریم ﷺ کو خوارج کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں ! میں نے اپنے کانوں سے رسول کریم ﷺ کو خوارج کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے اور اپنی آنکھوں سے یہ واقعہ بھی دیکھا ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں کچھ مال لایا گیا، آپ ﷺ نے اس مال کو حاضرین مجلس میں اس طرح تقسیم فرمایا کہ جو لوگ آپ کی داہنی جانب بیٹھے ہوئے تھے ان کو دیا اور جو لوگ بائیں جانب بیٹھے تھے ان کو دیا لیکن جو لوگ آپ کے پیچھے تھے ان کو کچھ نہیں دیا۔ چناچہ آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اے محمد ﷺ آپ ﷺ نے تقسیم میں انصاف نہیں کیا۔ وہ شخص کالے رنگ کا تھا، اس کے سر کے بال منڈے ہوئے تھے اور دو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ (اسکی بات سن کر) رسول کریم ﷺ سخت غضبناک ہوگئے اور فرمایا کہ اللہ کی قسم ! تم میرے بعد کسی شخص کو مجھ سے زیادہ انصاف کرنے والا نہیں پاؤ گے اور پھر فرمایا کہ آخر زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہوگا اور یہ شخص گویا اسی گروہ کا ایک فرد ہے اس گروہ کے لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کا پڑھنا ان کے حلق سے آگے نہیں جائے گا اور وہ لوگ امام وقت کے خلاف خروج و سرکشی کے ذریعہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے ان لوگوں کی علامت یہ ہے کہ ان کے سرمنڈے ہوئے ہوں گے اس گروہ کے لوگ ہر زمانہ میں پائے جائیں گے اور ہمیشہ خروج کرتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری شخص مسیح دجال یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف خروج کرے گا جب کہ وہ قیامت کے قریب دنیا میں نازل ہوں گے، لہٰذا جب بھی تمہارا ان سے سامنا ہوجائے ان کو قتل کر ڈالو، وہ لوگ آدمیوں اور جانوروں میں بد ترین مخلوق ہیں۔ (نسائی )

【23】

قیامت کے دن اہل حق کے چہرہ منور اور اہل باطل کے چہرے سیاہ ہوں گے

اور حضرت ابوغالب (تابعی) کہتے ہیں کہ حضرت ابوامامہ (صحابی) نے (ایک دن) دمشق کی شاہراہ پر (خوارج کے) سر پڑے ہوئے دیکھے یا وہ سولی پر لٹکے ہوئے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ یہ دوزخ کے کتے ہیں اور آسمان کے نیچے بدترین مقتول ہیں اور بہترین مقتول وہ ہے جس کو انہوں نے قتل کیا ہو۔ اور پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ اس قیامت کے دن کہ بہت سے منہ سفید منور ہوں گے اور بہت سے منہ سیاہ ہوں گے ابوغالب نے حضرت ابوامامہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ بات رسول کریم ﷺ سے سنی ہے ؟ ابوامامہ نے فرمایا اگر میں نے یہ بات ایک بار دو بار تین بار یہاں تک کہ انہوں نے سات بار گنا نہ سنی ہوتی تو تمہارے سامنے بیان نہ کرتا یعنی اگر میں اس بات کو آنحضرت ﷺ سے اتنی کثرت سے بار بار نہ سنتا تو میں تمہارے سامنے بیان نہ کرتا۔ ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔ تشریح حضرت ابوامامہ نے جو آیت پڑھی وہ پوری یوں ہے۔ (یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ فاما الذین اسودت وجوہہم اکفرتم بعد ایمانکم فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون ) ۔ (ال عمران ٣ ١٠٦) اس دن کو بہت سے منہ سفید (منور) ہوں گے اور بہت سے منہ کالے ہوں گے پس جن کے منہ کالے ہونگے ان سے کہا جائے گا کہ تم ایمان لانے کے بعد پھر کافر ہوگئے تھے ؟ تو تم نے جو کچھ کفر کیا ہے اس کے بدلے میں عذاب چکھو۔ حدیث میں جن لوگوں کے سروں کا ذکر ہے ان کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ وہ مرتد تھے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ بدعتی تھے، جب کہ حضرت ابوامامہ سے منقول ہے کہ وہ خوارج تھے۔