111. حدود کا بیان

【1】

حدود کا بیان

حد کے معنی حدود حد کی جمع ہے اور حد کے اصل معنی ہیں ممنوع نیز اس چیز کو بھی حد کہا جاتا ہے جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہو اصطلاح شریعت میں حدود ان سزاؤں کو کہتے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں اور ساتھ ہی متعین ہیں جیسے چوری، زنا، شراب نوشی کی سزائیں۔ لفظ حد کے اصل معنی ممنوع یا حائل اگر پیش نظر ہوں تو واضح ہوگا کہ شرعی سزاؤں کو حدود اسی لئے کہتے ہیں کہ یہ سزائیں بندوں کو گناہوں میں مبتلا ہونے سے روکتی ہیں اور ان کا خوف انسان اور جرم کے درمیان حائل رہتا ہے۔ حدود اللہ محارم کے معنی میں بھی منقول ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (تلک حدود اللہ فلا تقربوھا) اسی طرح مقادیر شرعی یعنی تین طلاقوں کا مقرر ہونا وغیرہ کے معنی میں بھی منقول ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا) لیکن واضح رہے کہ ان دونوں میں بھی حدود کا اطلاق اصل معنی ممنوع ہی کے اعتبار سے ہے کہ محارم کی قربت (یعنی ان سے نکاح وخلوت) بھی ممنوع ہے اور مقادیر شرعی سے تجاوز کرنا بھی ممنوع ہے۔ سزا کی تفصیل شرعی قانون نے جرم و سزاء کا جو ضابطہ مقرر کیا ہے اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں سزائیں تین طرح کی ہیں۔ (١) وہ سزائیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے متعین کردیا ہے مگر ان کے اجزاء کو خود بندوں پر چھوڑ دیا ہے ان میں کسی خارجی طاقت جیسے حاکم یا حکومت کو دخل انداز ہونے کا حکم نہیں ہے، شریعت نے اس طرح کی سزا کا نام کفارہ رکھا ہے جیسے قسم کی خلاف ورزی یا رمضان میں بلا عذر شرعی روزہ توڑ دینے کا نام کفارہ ! (٢) وہ سزائیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں اور ساتھ ہی متعین ہیں، ان سزاؤں کو جاری کرنے کا اختیار تو حاکم یا حکومت کو ہے مگر ان میں قانون سازی کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے، اس طرح کی سزا کو شریعت میں حد کہتے ہیں جیسے چوری، زنا اور شراب نوشی کی سزائیں۔ (٣) وہ سزائیں جنہیں کتاب وسنت نے متعین تو نہیں کیا ہے مگر جن برے کاموں کی یہ سزائیں ہیں ان کو جرائم کی فہرست میں داخل کیا ہے اور سزا کے تعین کا مسئلہ حاکم یا حکومت کے سپرد کردیا ہے کہ وہ موقع ومحل اور ضرورت کے مطابق سزا خود متعین کریں گویا اس قسم کی سزاؤں میں حکومت کو قانون سازی کا حق بھی حاصل ہے مگر اس دائرہ کے اندر رہ کر جو شریعت نے متعین کر رکھا ہے اس طرح کی سزا شریعت میں تعزیر کہلاتی ہے۔ حد اور تعزیر میں فرق حد اور تعزیر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حد تو شریعت میں عقوبت ہے جو اللہ کا حق قرار دی گئی ہے اسی لئے اس کو حق اللہ کہا جاتا ہے بایں وجہ کہ اس میں کوئی بندہ تصرف نہیں کرسکتا اور تعزیر کو حق اللہ کہا جاتا ہے بایں وجہ کہ بندہ اس میں تصرف کرسکتا ہے یعنی اگر وہ کوئی مصلحت دیکھے تو قابل تعزیر مجرم کو معاف بھی کرسکتا ہے اور موقع ومحل اور جرم کی نوعیت کے اعتبار سے سزا میں کمی زیادتی اور تغیر وتبدل بھی کرسکتا ہے، حاصل یہ کہ حد تو اللہ کی طرف سے متعین ہے جس میں کوئی تصرف ممکن نہیں اور تعزیر قاضی یا حکومت کے سپرد ہے اسی عدم تقدیر و تحقیق کی بنا پر تعزیر کو حد نہیں کہا جاتا۔ چونکہ قصاص بھی بندہ کا حق ہے کہ وہ اپنے اختیار سے مجرم کو معاف کرسکتا ہے اس لئے اس کو بھی حد نہیں کہا جاتا۔

【2】

بارگاہ نبوت سے زنا کے ایک مقدمہ کا فیصلہ

حضرت ابوہریرہ اور حضرت زید ابن خالد کہتے ہیں ایک دن رسول کریم ﷺ کی خدمت میں دو آدمی اپنا قضیہ لے کر آئے، ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق حکم کیجئے دوسرے نے بھی عرض کیا کہ ہاں، یا رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق حکم کیجئے اور مجھے اجازت دیجئے کہ میں بیان کروں کہ قضیہ کی صورت کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا بیان کرو اس شخص نے بیان کیا کہ میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدور تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا، لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تمہارے بیٹے کی سزا سنگساری ہے لیکن میں نے اس کو سنگسار کرنے کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک لونڈی دیدی، پھر جب میں نے اس بارے میں علماء سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہارا بیٹا چونکہ محصن یعنی شادی شدہ نہیں ہے اسی لئے اس کو سزا سو کوڑے ہیں اور ایک سال کی جلا و طنی ہے اور اس شخص کی عورت کی سزا سنگساری ہے کیونکہ وہ شادی شدہ ہے رسول کریم ﷺ نے یہ قصہ سن کر فرمایا کہ آگاہ ! قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ یعنی قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ ہی کے موافق فیصلہ کروں گا تو سنو کہ تمہاری بکریاں اور تمہاری لونڈی تمہیں واپس مل جائے گی اور اگر خود ملزم کے اقرار یا چار گواہوں کی شہادت سے زنا کا جرم ثابت ہے تو تمہارے بیٹے کو سو کوڑوں کی سزا دی جائے گی اور ایک سال کے لئے جلا وطن کردیا جائے گا پھر آپ ﷺ نے حضرت انیس کو فرمایا کہ انیس تم اس شخص کی عورت کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا اقرار کرلے تو اس کو سنگسار کردو چناچہ اس عورت نے زنا کا اقرار کرلیا اور حضرت انیس نے اس کو سنگسار کردیا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح کتاب اللہ سے مراد قرآن کریم نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم مراد ہے کیونکہ قرآن کریم میں رجم وسنگساری کا حکم مذکور نہیں ہے، لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ کتاب اللہ سے قرآن کریم ہی مراد ہو اس صورت میں کہا جائے گا کہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ آیت رجم کے الفاظ قرآن کریم سے منسوخ التلاوت نہیں ہوئے تھے۔ ایک سال کے لئے جلا وطن کردیا جائے گا کے بارے میں حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ ایک سال کی جلا وطنی بھی حد میں داخل ہے یعنی ان کے نزدیک غیر شدہ زنا کار کی حد شرعی سزا یہ ہے کہ اس کو سو کوڑے بھی مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن بھی کردیا جائے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ایک سال کی جلاوطنی کے حکم کو مصلحت پر محمول فرماتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ایک سال کی جلاوطنی حد کے طور پر نہیں ہے بلکہ بطور مصلحت ہے کہ اگر امام وقت اور حکومت کسی سیاسی اور حکومتی مصلحت کے پیش نظر ضروری سمجھے تو ایک سال کے لئے جلا وطن بھی کیا جاسکتا ہے، بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ابتداء اسلام میں یہی حکم نافذ جاری تھا مگر جب یہ آیت کریمہ (اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ) 24 ۔ النور 2) (یعنی زانی اور زانیہ کو کوڑے مارے جائیں اور ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارے جائیں) نازل ہوئی تو یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ (فاعترفت فرجمہا) چناچہ اس عورت نے اقرار کیا اور حضرت انیس نے اس کو سنگسار کردیا اس سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ حد زنا کے جاری ہونے کے لئے ایک مرتبہ اقرار کرنا کافی ہے جیسا کہ امام شافعی کا مسلک ہے لیکن امام ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ چار مجلسوں میں چار بار اقرار کرنا ضروری ہے، یہاں حدیث میں جس اقرار کا ذکر کیا گیا ہے اس سے امام اعظم وہی اقرار یعنی چار مرتبہ مراد لیتے ہیں جو اس سلسلہ میں معتبر ومقرر ہے چناچہ دوسری احادیث سے یہ صراحتہ ثابت ہے کہ چار مرتبہ اقرار کرنا ضروری ہے۔

【3】

غیر محصن زانی کی سزا

اور حضرت زید ابن خالد کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو غیر محصن کے بارے میں یہ حکم دیتے ہوئے سنا ہے کہ اس کو سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے۔ (بخاری) تشریح محصن اس عاقل بالغ مسلمان کو کہتے ہیں جس کی شادی ہوچکی ہو اور اپنی بیوی سے ہم بستری کرچکا ہو غیر محصن اگر زنا کا مرتکب ہو تو اس کی سزا اس حدیث کے مطابق سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے، جلا وطنی کے بارے میں جو تفصیل ہے وہ پہلے بیان ہوچکی۔ کوڑے مارنے کے سلسلہ میں یہ حکم ہے کہ سر، منہ اور ستر پر کوڑے نہ مارے جائیں۔

【4】

محصن زانی کی سزا

اور حضرت عمر کہتے ہیں کہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان پر اپنی کتاب نازل کی چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب میں جو کچھ نازل کیا ہے اس میں آیت رجم بھی ہے۔ اور کتاب اللہ میں اس شخص کو رجم کرنے کا حکم ثابت ہے جو محصن ہونے کے باوجود زنا کرے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو اور یہ رجم کی سزا اس وقت دی جائے گی، جب کہ زنا کا جرم گواہوں کے ذریعہ یا حمل کے ذریعہ اور یا اعتراف و اقرار کے ذریعہ ثابت ہو۔ ( بخاری ومسلم) تشریح اوپر کی حدیث میں اس زانی کی سزا بیان کی گئی تھی جو غیر محصن ہو، اس حدیث میں اس زانی کی سزا بیان کی گئی ہے جو محصن ہو، محصن کی وضاحت اوپر کی حدیث کے ضمن میں کی جاچکی ہے چناچہ جو شخص محصن ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہو اور اس کا جرم ثابت ہوجائے اس کی سزا رجم یعنی سنگساری ہے کہ اس شخص کو پتھروں سے مار مار کر ہلاک کردیا جائے۔ جس آیت سے رجم کا حکم ثابت ہے وہ پہلے قرآن کریم میں موجود تھی لیکن بعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی یعنی اس کے الفاظ قرآن میں باقی نہیں رکھے گئے لیکن ان کا حکم بحالہ باقی رہا، وہ آیت یہ ہے۔ (الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فرجموہما البتۃ نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم ) ۔ حدیث کے آخر میں زنا کے ثبوت جرم کے لئے تین چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو ضروری قرار دیا گیا ہے یعنی (١) گواہ (٢) حمل (٣) اقرار، ان تینوں میں سے حمل کا تعلق اس عورت سے ہے جو بغیر خاوند والی ہو لیکن اس کا حکم بھی منسوخ ہوگیا ہے، گواہوں اور اقرار کا حکم جوں کا توں ہے کہ محصن زانی کو اسی وقت رجم (سنگسار) کیا جائے گا جب کہ اس کا جرم یا تو گواہوں کے ذریعہ ثابت ہو یا وہ خود اپنے جرم کا اعتراف و اقرار کرے۔

【5】

شادی شدہ زانی اور زاینہ کو سنگسار کیا جائے۔

اور حضرت عبادہ ابن صامت راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا زانیہ کے بارے میں مجھ سے یہ حکم حاصل کرو، مجھ سے یہ حکم حاصل کرو کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے راہ مقرر کردی ہے، جو غیر محصن مرد کسی غیر محصنہ عورت سے زنا کرے تو سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کردیا جائے۔ اور جو محصن مرد کسی محصنہ عورت سے زنا کرے تو سو کوڑے مارے جائیں اور سنگسار کیا جائے۔ (مسلم) تشریح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے راہ مقر کردی ہے یہ دراصل اس آیت کریمہ (اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا) 4 ۔ النساء 15) کی وضاحت ہے۔ علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے یہ ارشاد اس وقت فرمایا تھا جب زانی اور زانیہ کے لئے حد مشروع ہوئی تھی، چناچہ آپ ﷺ کے اس ارشاد میں راہ سے مراد حد ہے جو اس سے پہلے تک مشروع نہیں تھی بلکہ اس بارے میں وہ حکم مشروع تھا جو آیت کریمہ میں مذکور ہے (وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَا ى ِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا) ۔ 4 ۔ النساء 15) تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بےحیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کو گواہ کرلو، سو اگر وہ گواہی دے دیں تو تم ان کو گھروں کے اندر مقید رکھو۔ یہاں تک کہ موت ان کا خاتمہ کر دے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی راہ مقرر کر دے۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا تھا کہ اگر عورتیں زنا کی مرتکب ہوں اور گواہوں کے ذریعہ ان کا یہ جرم ثابت ہوجائے تو ان کو گھر میں قید کردیا جائے یا تاآنکہ اسی قید کی حالت میں مرجائیں یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے کوئی راہ یعنی حد مقرر کی جائے۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے حد کا حکم نازل فرمایا تو آنحضرت ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے یہ راہ یعنی حد مقرر فرما دی ہے اور پھر اس کے بعد آپ نے حد کی وضاحت فرمائی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی محصن (شادی شدہ) زنا کا ارتکاب کرے تو اس کو سو کوڑے بھی مارے جائیں اور سنگسار بھی کیا جائے، چناچہ علماء ظواہر نے اور صحابہ وتابعین میں سے بعض نے اس پر عمل کیا ہے جب کہ جمہور علماء کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ جو زانی سنگسار کا مستوجب قرار پا چکا ہو اس کے حق میں سو کوڑے مارے جانے کا سزا کالعدم ہوگی یعنی اس کو صرف سنگسار کیا جائے گا۔ سو کوڑے نہیں مارے جائیں گے، کیونکہ یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص ماعز کو جو شادی شدہ ہونے کی باوجود زنا کے مرتکب قرار دئیے گئے تھے صرف سنگسار کیا تھا ان کو سو کوڑے مارنے کا حکم نہیں تھا، اسی طرح آگے آنے والی ایک حدیث میں ایک غامدیہ عورت کا جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے یا حضرت انیس کی جو حدیث پیچھے گذری ہے ان سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ایک دن یہودیوں کی ایک جماعت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور انہوں نے آپ ﷺ کے سامنے یہ بیان کیا کہ ان کی قوم میں سے ایک عورت اور ایک مرد نے جو دونوں محصن (یعنی شادی شدہ تھے) نے زنا کیا ؟ آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے تورات میں رجم کے بارے میں کیا پڑھا ہے ؟ یہودیوں نے کہا کہ ہم زنا کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں اور ان کو کوڑے مارے جاتے ہیں ان کی یہ بات سن کر حضرت عبداللہ ابن سلام نے کہا کہ تم لوگ جھوٹ بولتے ہو، تورات میں بھی رجم کا حکم مذکور ہے تورات لاؤ میں تمہیں رجم کا حکم دکھاتا ہوں چناچہ جب تورات لائی گئی اور اس کو کھولا گیا تو یہودیوں میں سے ایک شخص نے جھٹ سے اس جگہ اپنا ہاتھ رکھ دیا جہاں رجم کے بارے میں آیت تھی یعنی اس نے اپنے ہاتھوں سے رجم کی آیت کو چھپانے کی کوشش کی اور اس کے آگے پیچھے کی آیتیں پڑھنے لگا یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن سلام نے اس سے کہا کہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو دیکھا گیا کہ وہاں رجم کی آیت موجود تھی، اس آیت کو چھپانے والے نے کہا کہ اے محمد ! تورات میں رجم کی آیت موجود ہے مگر ہم آپس میں اس کو ظاہر نہیں کرتے، اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان دونوں کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور وہ دونوں سنگسار کردیئے گئے۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام نے اس شخص سے (کہ جس نے رجم کی آیت کو اپنے ہاتھ کے نیچے چھپانے کی کوشش کی تھی) کہا کہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ اور پھر جب اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو دیکھا گیا کہ وہاں رجم کی آیت موجود تھی، اس آیت کے نیچے کو چھپانے والے نے کہا کہ اے محمد ! تورات میں رجم کی آیت موجود ہے مگر ہم آپس میں آپس میں اس کو ظاہر نہیں کرتے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان دونوں کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور سنگسار کردیئے گئے۔ (بخاری ومسلم ) تشریح حضرت عبداللہ بن سلام پہلے یہودی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو راہ ہدایت پر گامزن کیا اور وہ مسلمان ہوگئے ان کا شمار بڑے اونچے درجہ کے علماء یہود میں ہوتا تھا تورات پر عبور رکھتے تھے، چناچہ مجلس نبوی میں جب یہودیوں نے اپنی روایتی تلبیس و تحریف سے کام لیا اور آنحضرت ﷺ سے یہ کہا کہ تورات میں زنا کے مرتکب کو سنگسار کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ ہم نے تورات میں یہ پڑھا ہے کہ جو شخص زنا کا ارتکاب کرے اس کو تعزیر کے ذریعہ ذلیل و رسوا کیا جائے اور کوڑے مارے جائیں تو حضرت عبداللہ ابن اسلام نے اس کی تکذیب کی اور یہ بتایا کہ تم یہ بات کہہ رہے ہو وہ سراسر تحریف ہے تورات میں رجم کا حکم موجود نہیں ہے اور پھر جب انہوں نے تورات منگائی اس میں مذکور رجم کی آیت دکھانی چاہی تو اس موقع پر بھی یہودیوں نے اپنی عیاری و مکاری دکھانی چاہی اور ان میں سے ایک شخص نے ایک روایت کے مطابق جس کا نام عبداللہ ابن صوریا تھا، اس جگہ اپنا ہاتھ رکھ دیا جہاں رجم کی آیت مذکور تھی۔ اور اس کے آگے پیچھے کی آیتیں پڑھنے لگا ! مگر عبداللہ بن سلام نے ان کی اس عیاری کا راز بھی طشت از بام کردیا۔ اگر یہاں یہ اشکال پیدا ہو کہ رجم (سنگساری) کا سزاوار ہونے کے لئے محصن شادی شدہ ہونا شرط ہے اور محصن ہونے کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے یعنی سنگساری کی سزا اسی زانی کو دی جاسکتی ہے جو محصن ہو اور محصن اطلاق اسی شخص پر ہوسکتا ہے جو مسلمان ہو تو آنحضرت ﷺ نے ان یہودیوں کو جو مسلمان نہیں تھے رجم کا حکم کیوں دیا ؟ اس کا جواب ہے یہ کہ آنحضرت ﷺ نے ان یہود کو رجم کا جو حکم دیا وہ تورات کے حکم کے تحت تھا اور یہودیوں کے مذہب میں رجم کے سزاوار کے لئے محصن ہونا شرط نہیں تھا، پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ اس بارے میں پہلے تورات کے حکم پر عمل کرتے تھے مگر جب قرآن میں اس کا حکم نازل ہوگیا تو تورات کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اس موقع پر یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک محصن ہونے کے لئے مسلمان ہونا شرط نہیں ہے یعنی ان کے مسلک کے مطابق محصن کا اطلاق اس شادی شدہ آدمی پر بھی ہوسکتا ہے جو مسلمان نہ ہو نیز حنیفہ میں سے حضرت امام ابویوسف کا بھی ایک قول یہی ہے۔ ایک اشکال یہ بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے محض یہودیوں کے کہنے پر ان دونوں کو کیسے سنگسار کرا دیا کیونکہ یہودیوں کی گواہی سرے سے معتبر ہی نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کیا ضروری ہے کہ آنحضرت ﷺ نے صرف ان یہودیوں کے کہنے پر ہی حکم نافذ کیا ہو، بلکہ بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے کہ یا تو خود ان دونوں نے زنا کا اقرار کیا ہوگا یا ان کے زنا کی چار مسلمانوں نے گواہی دی ہوگی اور اسی پر آنحضرت ﷺ نے ان دونوں کو سنگسار کرایا ہوگا۔ اس موقع پر ملا علی قاری نے بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے یہاں اس کا خلاصہ نقل کیا گیا ہے اہل علم ان کی کتاب مرقات سے مراجعت کرسکتے ہیں۔

【6】

زنا کے اقراری مجرم کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا فیصلہ رجم

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا جب کہ آپ ﷺ مسجد نبوی تشریف فرما تھے، اس شخص نے آواز دی یا رسول اللہ ! مجھ سے زنا کا ارتکاب ہوگیا ہے آپ ﷺ نے یہ سن کر اپنا منہ اس کی طرف سے پھیرلیا وہ شخص پھر اس سمت آپ ﷺ کے چہرہ مبارک کے سامنے آ کر کھڑا ہوگیا جدھر آپ ﷺ نے اپنا منہ پھیرا تھا اور کہا کہ مجھ سے زنا کا ارتکاب ہوگیا ہے آپ ﷺ نے پھر اپنا منہ اس کی طرف سے پھیرلیا، یہاں تک کہ جب اس نے اس طرح چار مرتبہ اپنے جرم کا اقرار کیا تو آنحضرت ﷺ نے اس کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ کیا تو دیوانہ ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں ! پھر آپ ﷺ نے پوچھا کیا تو محصن ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں یا رسول اللہ اس کے بعد آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اس شخص کو لے جاؤ اور اس کو سنگسار کردو۔ اس حدیث کے ایک راوی ابن شہاب کا بیان ہے کہ جس شخص نے اس حدیث کو حضرت جابر ابن عبداللہ سے سنا تھا، اس نے مجھے بتایا کہ حضرت جابر نے کہا کہ ہم نے آنحضرت ﷺ کے اس حکم کے بعد اس شخص کو مدینہ میں سنگسار کیا چناچہ جب ہم نے اس کو پتھر مارنے شروع کئے اور اس کو پتھر لگنے لگے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ ہم نے اس کو حرہ میں جا کر پکڑا مدینہ کا وہ مضافاتی علاقہ جو کالے پتھروں والا تھا حرہ کہلاتا تھا اور پھر اس کو سنگسار کیا تاآنکہ وہ مرگیا۔ (بخاری ومسلم ) اور امام بخاری کی ایک اور روایت میں جو حضرت جابر سے منقول ہے آنحضرت ﷺ کے پوچھنے پر کہ کیا تو محصن ہے ؟ اس شخص کے جواب ہاں کے بعد یہ الفاظ ہیں کہ اس کے بعد آپ نے اس شخص کو سنگسار کئے جانے کا حکم دیا چناچہ اس کو عید گاہ میں سنگسار کیا گیا جب اس کو پتھر لگنے لگے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا مگر پھر پکڑ لیا گیا اور سنگسار کیا گیا یہاں تک کہ مرگیا اس کے مرنے کے بعد آنحضرت ﷺ نے بھلائی بیان کی یعنی اس کی تعریف و توصیف کی اور اس کی نماز جنازہ پڑھی یا (وصلی علیہ) کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لئے دعا کی۔ تشریح اور اس نے چار مرتبہ اقرار کیا یعنی اس شخص نے چاروں طرف سے آپ ﷺ کے سامنے آ کر اپنے جرم کا اقرار کر کے اور گویا ہر دفعہ میں تبدیل مجلس کر کے اس طرح چار مجلسوں میں چار مرتبہ اپنے جرم کا اقرار کیا۔ چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے اس کے آنحضرت ﷺ کے چہرہ مبارک کے سامنے چاروں طرف سے آکر اقرار کرنے سے یہ استدلال کیا ہے کہ زنا کے ثبوت جرم کے لئے ملزم کا چار مجلسوں میں چار بار اقرار کرنا شرط ہے۔ کیا تو دیوانہ ہے ؟ یعنی کیا تم پر دیوانگی طاری ہے کہ تم اپنے گناہ کا خود افشاء کر رہے ہو اور سنگساری کے ذریعہ خود اپنی ہلاکت کا باعث بن رہے ہو حالانکہ چاہئے تو یہ کہ تم اللہ سے توبہ استغفار کرو اور آئندہ کے لئے ہر برائی سے بچنے کا پختہ عہد وعزم کرو۔ نووی فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کے ارشاد کا مقصد اس شخص کے حال کی تحقیق تھا کیونکہ عام طور پر کوئی بھی انسان اپنے کسی بھی ایسے جرم و گناہ کے اقرار پر مصر نہیں ہوتا جس کی سزا میں اس کو موت کا منہ دیکھنا پڑے بلکہ وہ اسی میں اپنی راہ نجات دیکھتا ہے کہ اپنے جرم و گناہ پر شرمسار ونادم ہو کر اللہ سے توبہ استغفار کرے اور اس کے ذریعہ اپنے گناہ کو ختم کرائے۔ حاصل یہ کہ یہ ارشاد جہاں اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ایسے معاملات میں مسلمان کی حالت کی تحقیق وتفتیش میں پوری پوری سعی کرنی چاہئے تاکہ فیصلہ میں کسی قسم کا کوئی اشتباہ نہ رہے وہیں اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ کسی جرم کی سزا میں ایک مسلمان کی جان بچانے کے لئے اس کو جو بھی قانونی فائدہ پہنچایا جاسکتا ہو اس سے صرف نظر نہ کیا جائے، نیز یہ جملہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر کوئی دیوانہ یہ کہے کہ میں نے زنا کیا ہے تو اس کا اقرار کا اعتبار نہیں ہوگا اور نہ اس پر حد جاری کی جائے گی۔ کیا تو محصن ہے ؟ امام نووی فرماتے ہیں کہ اس جملہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ امام وقت یا قاضی پر لازم ہے کہ وہ ان چیزوں کے بارے میں تحقیق کرلے جو سزائے رجم (سنگساری) کے نفاذ کے لئے شرط ہیں جیسے محصن ہونا وغیرہ، خواہ زنا کا جرم خود اس کے اقرار سے ثابت ہوچکا ہو یا گواہوں کے ذریعہ ثابت کیا گیا ہو، نیز اس ارشاد سے کنایۃ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایسا شخص اپنے اقرار سے رجوع کرلے تو اس کو معافی دے کر زنا کی حد ساقط کردی جائے۔ وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کسی مرد کو کسی بھی حد یا تعزیر میں مارا جائے تو کھڑا کر کے مارا جائے لٹکا کر نہ مارا جائے اور عورت کو بٹھا کر مارا جائے بلکہ اگر کسی عورت کو رجم کی سزا دی جا رہی ہو تو بہتر ہے کہ ایک گڑھا کھود کر اس میں اس کو (سینہ تک ) گاڑ کر سنگسار کیا جائے کیونکہ اس میں اس کے ستر (پردہ پوشی) کی زیادہ رعایت ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے غامدیہ کے لئے گڑھا کھدوایا تھا۔ یہاں تک کہ ہم نے اس کو حرہ میں جا کر پکڑا اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر سنگسار کیا جانے والا سنگساری کے دوران بھاگ کھڑا ہو تو اس کا پیچھا نہ کیا جائے بشرطیکہ اس کے جرم زنا خود اس کے اقرار سے ثابت ہوا ہو اور اگر اس کا جرم زنا گواہوں کے ذریعہ ثابت ہوا ہو تو پھر اس کا پیچھا کیا جائے اور اس کو سنگسار کیا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے کیونکہ اس کا بھاگنا دراصل اس کے رجوع (جرم سے انکار) کو ظاہر کرتا ہے اور یہ رجوع کار آمد نہیں ہوگا۔ نووی کہتے ہیں کہ علماء نے لکھا ہے کہ اس جملہ (فرجم بالمصلی) (چنانچہ اس کو عید گاہ میں سنگسار کیا گیا) میں مصلی سے مراد وہ جگہ ہے جہاں جنازے کی نماز پڑھی جاتی تھی، چناچہ ایک روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ بخاری وغیرہ کہتے ہیں کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس جگہ جنازے اور عیدین کی نماز پڑھی جاتی ہو اگر اس کو مسجد قرار نہ دیا گیا ہو تو وہ جگہ مسجد کے حکم میں نہیں ہوتی کیونکہ جنازہ یا عیدین کی نماز پڑھنے کی جگہ کا وہی حکم ہوتا جو مسجد کا ہوتا ہم تو اس جگہ کو خون سے آلودہ ہونے سے بچانے کے لئے اور اس کی تقدیس و احترام کے پیش نظر وہاں زانی کو سنگسار نہ کیا جاتا۔ مساجد میں حد و تعزیر جاری نہ کی جائیں علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ مسجد میں کسی پر کوئی حد جاری کی جائے اور نہ کسی کو کوئی تعزیر دی جائے کیونکہ اس پر تمام علماء کا اجماع و اتفاق ہے اور اس کی بنیاد آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے۔ حدیث (قال جنبوا مساجد صبیانکم و مجانینکم ورفع اصواتکم وشرائکم وبیع واقامۃ حدودکم وجمروہا فی جمعکم وضعوا علی ابوابہا المطاہر ) ۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم اپنی مسجدوں کو اپنے بچوں سے، دیوانوں سے، شور مچانے سے، خریدو فروخت کرنے سے اور حد قائم کرنے سے بچائے رکھو اور جمعہ کے دن مسجدوں کو اگر کی دھونی دو نیز مسجدوں کے دروازوں پر طہارت (وضو) کی جگہ بناؤ۔

【7】

جب تک زانی کے بارے میں پوری تحقیق نہ کرلو اس کی سزا کا فیصلہ نہ کرو

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ جب ماعز ابن مالک، نبی کریم ﷺ کے پاس (مسجد نبی میں ) آئے اور کہا کہ مجھ سے زنا کا ارتکاب ہوگیا ہے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ شائد تم نے اجنبیہ کا بوسہ لیا ہوگا، یا اس کو شہوت کے ساتھ چھوا ہوگا یا دیکھا ہوگا یعنی یہ چیزیں زنا کا باعث بنتی ہیں تم ان سے کوئی حرکت کر گذرے ہوں گے اور اب اسی کو زنا سے تعبیر کر رہے ہوں انہوں نے عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے جماع کیا ہے۔ اور راوی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ بات اشارے میں نہیں پوچھی بلکہ صاف لفظوں میں پوچھا کہ کیا واقعی تم نے زنا کیا ہے ؟ ماعز نے کہا ہاں میں نے جماع کیا ہے اس (تحقیق وتفتیش) کے بعد آپ ﷺ نے ماعز کو سنگسار کئے جانے کا حکم فرمایا۔ (بخاری)

【8】

اقامت حد گناہ کو ساقط کردیتی ہے

اور حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ماعز ابن مالک آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے پاک کر دیجئے یعنی (مجھ سے جو گناہ سر زد ہوگیا ہے اس کی حد جاری کر کے میرے گناہ کی معافی کا سبب بن جائے) آپ ﷺ نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے واپس جا یعنی زبان کے ذریعہ استغفار کر اور دل سے توبہ کر راوی کہتے ہیں وہ چلا گیا اور تھوڑی دور جا کر پھر واپس آگیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! مجھے پاک کر دیجئے نبی کریم ﷺ نے وہی الفاظ فرمائے جو پہلے فرمائے تھے، چار مرتبہ اسی طرح ہوا اور (جب چوتھی بار ماعز نے کہا کہ یا رسول اللہ ! مجھے پاک کر دیجئے) تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ میں تجھے کس چیز سے اور کس وجہ سے پاک کروں ؟ اس نے کہا کہ (حد جاری کر کے) زنا کے گناہ سے آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ کیا اس نے شراب پی رکھی ہے ؟ (یہ سن کر ایک شخص نے کھڑے ہو کر اس کا منہ سونگھا تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس نے شراب پی رکھی ہے یا نہیں) لیکن شراب کی بو نہیں پائی گئی، آنحضرت ﷺ نے پھر ماعز سے پوچھا کہ کیا (واقعی) تو نے زنا کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں ! اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اس کو سنگسار کئے جانے کا حکم دیا چناچہ اس کو سنگسار کردیا گیا دو یا تین روز اسی طرح گذر گئے یعنی مجلس نبوی میں ماعز کی سنگساری کے بارے میں دو تین دن تک کوئی ذکر نہیں ہوا پھر (ایک دن) رسول کریم ﷺ تشریف لائے تو فرمایا کہ تم لوگ ماعز کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کرو بلا شبہ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس کے ثواب کو پوری امت پر تقسیم کیا جائے تو وہ سب کے لئے کافر ہوجائے، پھر اس کے بعد (ایک دن) ایک عورت جو قبیلہ ازد کے خاندان غامد میں سے تھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے پاک کر دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تجھ پر افسوس ہے، واپس جا اور اللہ تعالیٰ سے استغفار توبہ کر۔ اس عورت نے عرض کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جس طرح آپ ﷺ نے ماعز ابن مالک کو پہلی دفعہ واپس کردیا تھا اسی طرح مجھ کو بھی واپس کردیں ؟ اور درا نحالی کہ (میں) وہ عورت (ہوں جو) زنا کے ذریعہ حاملہ ہے لہٰذا اس اقرار کے بعد میرے انکار کی گنجائش تھی، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تو ! (یعنی آنحضرت ﷺ نے ایک طرح سے اپنے تغافل کو ظاہر کرنے اور اس کو اقرار زنا سے رجوع کرنے کا ایک اور موقع دینے کے لئے فرمایا کہ یہ تو کیا کہہ رہی ہے ؟ کیا زنا کے ذریعہ حاملہ ہے ! ) اس عورت نے اس کے باوجود اپنے اقرار پر اصرار کیا اور کہا کہ ہاں آپ ﷺ نے فرمایا اچھا تو اس وقت تک انتظار کر جب تک تو اپنے بچہ کی ولادت سے فارغ نہ ہوجائے۔ راوی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے بعد ایک انصاری نے اس عورت کی خبر گیری اور کفالت کا اس وقت تک کے لئے ذمہ لے لیا جب تک کہ وہ ولادت سے فارغ نہ ہوجائے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اس شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ وہ غامدیہ عورت ولادت سے فارغ ہوگئی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہم ابھی اس کو سنگسار نہیں کریں گے اور اس کمسن بچے کو اس حالت میں نہیں چھوڑیں گے کہ کوئی اس کو دودھ پلانے والا نہ ہو۔ یعنی اگر ہم نے اس کو ابھی سنگسار کردیا تو اس کا بچہ جو شیر خوار اور بہت چھوٹا ہے ہلاک ہوجائے گا، کیونکہ اس کی ماں کے بعد اس کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں ہے اس لئے ابھی اس کو سنگسار کرنا مناسب نہیں ہے) ایک اور انصاری (یہ سن کر) کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس بچہ کے دودھ پلانے اور اس کی خبر گیری کا میں ذمہ دار ہوں راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اس عورت کو سنگسار کئے جانے کا حکم دیا اور وہ سنگسار کی گئی ) ۔ ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس عورت سے فرمایا کہ جا جب تک کہ تو ولادت سے فارغ نہ ہوجائے (انتظار کر) پھر جب وہ ولادت سے فارغ ہوگئی تو آنحضرت ﷺ نے اس سے فرمایا جا اس بچہ کو دودھ پلا تاآنکہ تو اس کا دودھ چھڑائے اور پھر جب اس نے بچہ کا دودھ بھی چھڑا دیا تو اس بچہ کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئی اس وقت اس کے بچہ کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا، اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے اس بچہ کا دودھ چھڑا دیا ہے یہ اب روٹی کھانے لگا ہے ! آنحضرت ﷺ نے اس بچہ کو ایک مسلمان کے حوالے کیا اور اس عورت کے لئے حکم فرمایا کہ ایک گڑھا کھودا جائے جو اس کے سینہ تک کھودا جائے جب اس کے سینہ تک گڑھا کھود دیا گیا تو آپ ﷺ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور اس کو سنگسار کیا گیا اس کی سنگساری کے دوران جب حضرت خالد ابن ولید نے ایک پتھر اس کے سر پر مارا اور اس کے سر کا خون حضرت خالد کے منہ پر آکر پڑا تو حضرت خالد اس کو برا بھلا کہنے لگے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ خالد ! اس کی بخشش ہوچکی ہے اس کو برا بھلا مت کہو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر توبہ (ناروا) ٹیکس لینے والا کرے تو اس کی مغفرت و بخشش ہوجائے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے لوگوں سے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیا چناچہ پڑھی گئی اور وہ دفن کی گئی۔ (مسلم ) تشریح بلاشبہ ماعز نے توبہ کی اس ارشاد کے ذریعہ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے ماعز کی سعادت اور اس کی توبہ کی فضیلت کو ظاہر فرمایا کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے جو اس مغفرت اور رحمت کو لازم کرتی ہے جس کا دامن، مخلوق اللہ کی ایک بہت بڑی جماعت پر سایہ فگن ہوسکتا ہے یہاں اقامت حد (حد کی قائم ہونے) کو توبہ اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ جس طرح توبہ کے ذریعہ گناہ دھل جاتے ہیں اسی طرح حد جاری ہونے سے بھی گناہ ختم ہوجاتا ہے۔ جب تک کہ تو اپنے بچہ کی ولادت سے فارغ نہ ہوجائے ابن مالک کہتے ہیں کہ اس ارشاد سے یہ معلوم ہوا کہ حاملہ جب تک کہ ولادت سے فارغ نہ ہوجائے اس پر حد قائم نہ کی جائے تاکہ ایک بےگناہ کو جو اس کے پیٹ میں ہے ہلاک کرنا لازم نہ آئے۔ میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ زانیہ کو سنگسار کرنے میں اس وقت تک کی مہلت دی جائے جب تک کہ اس کا وہ بچہ جو اس کے زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے اس سے مستغنی نہ ہوجائے بشرطیکہ اس کی پرورش اور دیکھ بھال کرنے والا اور کوئی نہ ہو، چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے۔ اگر ایسی توبہ (ناورا) ٹیکس لینے والا کرے اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ غیر شرعی طور پر اور نامناسب طریقوں سے لوگوں سے محصول ٹیکس وصول کرتے ہیں وہ بڑے گناہگار ہیں کیونکہ اس طرح کے محصول وٹیکس وصول کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کا مال زور زبر دستی سے اور ظلم کر کے چھین لیا جائے۔ حدیث کے آخری جملہ میں لفظ صلی مسلم کے تمام راویوں سے صاد اور لام کے زبر یعنی صیغہ معروف کے ساتھ منقول ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس عورت کی نماز جنازہ پڑھی تھی جب کہ طبری کے نزدیک اور ابن ابی شیبہ اور ابوداؤد کی روایت میں یہ لفظ صاد کے پیش اور لام کے زیر یعنی صیغہ مجہول کے ساتھ منقول ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کی نماز جنازہ دوسرے لوگوں نے پڑھی آنحضرت ﷺ نے نہیں پڑھی چناچہ ابوداؤد کی روایت میں تو صراحت کے ساتھ یہ منقول ہے کہ (لم یصل علیہا) یعنی آنحضرت ﷺ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی بلکہ آپ ﷺ نے لوگوں کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیا، اسی وجہ سے ائمہ کے ہاں سنگسار کئے جانے والے کی نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں۔ چناچہ امام مالک کے ہاں اس کی نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے اور حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ امام وقت اور اہل فضل نہ پڑھیں دوسرے لوگ پڑھ سکتے ہیں لیکن حضرت امام شافعی اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے بلکہ ہر اس شخص کی نماز جنازہ پڑھی جائے جو کلمہ گو اور ا اہل قبلہ ہو اگرچہ وہ فاسق وفاجر ہو یا اس پر حد قائم کی گئی ہو نیز ایک روایت میں امام احمد سے بھی یہی منقول ہے۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ صحیح مسلم کے تمام راویوں نے لفظ صلی کو صاد اور لام کے زبر یعنی صیغہ معروف کے ساتھ نقل کیا ہے جب کہ طبری کے نزدیک یہ لفظ صاد کے پیش یعنی صیغہ مجہول کے ساتھ ہے نیز ابی شیبہ ابوداؤد اور امام نووی نے بھی اس طرح نقل کیا ہے لہٰذا اس بارے میں یہ بات کہنی زیادہ مناسب ہے کہ یہ لفظ اصل میں تو صیغہ معروف ہی کے ساتھ ہے البتہ ماقبل کے الفاظ (ثم امربہا) اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو اس عورت کے جنازہ کو نہلانے کفنانے اور نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ لانے کا حکم دیا، چناچہ اس کی تائید اس عبارت سے ہوتی ہے جو مسلم کی روایت میں ہے کہ حدیث (امربہا النبی ﷺ فرجمت ثم صلی علیہا فقال لہ عمر تصلی علیہا یا نبی اللہ وقد زنت) یہ روایت صراحت کے ساتھ یہ ثابت کرتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس کے جنازہ کی نماز پڑھی تھی۔ اور ابوداؤد کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حدیث (ثم امرہم یصلوا علیہا) (یعنی پھر آپ ﷺ نے یہ حکم دیا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے قاضی عیاض نے بھی وضاحت کی ہے کہ اگرچہ مسلم نے اپنی روایت میں آنحضرت ﷺ کا معاذ ابن مالک کے جنازے کی نماز پڑھنا ذکر نہیں کیا ہے لیکن بخاری نے اس کو ذکر کیا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ جب مسلم کے اکثر راویوں نے لفظ صلی صیغہ معروف کے ساتھ نقل کیا تو یہاں صاحب مشکوٰۃ نے اس لفظ کو صیغہ مجہول کے ساتھ کیوں نقل کیا ؟ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اگرچہ اثبات، نفی پر مقدم ہوتا ہے اس اعتبار سے صاحب مشکوٰۃ کو یہ لفظ صیغہ معروف کے ساتھ کر کے اثبات کو ترجیح دینا چاہئے تھا لیکن جب انہوں نے معتمد صحیح نسخوں میں دیکھا کہ اس بارے میں مختلف روایات ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس عورت کے جنازے کی نماز پڑھی یا نہیں پڑھی تو انہوں نے لفظ صلی کو صیغہ مجہول کے ساتھ نقل کرنے کو ترجیح دی تاکہ اس صورت میں دونوں ہی احتمال ملحوظ رہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ صورت ابہام سے خالی نہیں ہے اس لئے اس بارے میں اولیٰ اور بہتر یہی ہے کہ جمہور کی متابعت اور نقل مشہور کی موافقت کے پیش نظر اس لفظ کو صیغہ معروف ہی کے ساتھ قبول کیا جائے کہ آنحضرت ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تھی۔ بہرکیف یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حد، اس گناہ کو ختم کردیتی ہے جس کی سزا میں اس کا نفاذ اجراء ہوتا ہے مثلا اگر زید زنا کا مرتکب ہوا اور اس کے اس جرم کی سزا میں اس پر حد جاری کی جائے تو وہ زنا کے گناہ سے بری ہوجائے گا اور آخرت میں اس سے اس زنا پر کوئی مؤ اخذہ نہیں ہوگا۔ ایک بات اور نووی کہتے ہیں کہ (یہاں اس عورت کے بارے میں دو روایتیں نقل کی گئی ہیں اور) بظاہر دوسری روایت پہلی روایت کے مخالف ہے کیونکہ دوسری روایت سے تو صراحۃ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت کو اس وقت سنگسار کیا گیا جب اس عورت نے اپنے بچے کا دودھ چھڑا دیا تھا اور وہ روٹی کھانے لگا تھا لیکن پہلی روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس بچے کی ولادت کے بعد ہی سنگسار کردیا گیا تھا، لہٰذا دوسری دوسری روایت کے صریح مفہوم کے پیش نظر پہلی روایت کی تاویل کرنی ضروری ہوئی تاکہ دونوں روایتوں کا مفہوم یکساں ہوجائے کیونکہ دونوں روایتوں کا تعلق ایک ہی واقعہ سے ہے اور دونوں ہی روایتیں صحیح ہیں، پس تاویل یہ ہے کہ پہلی روایت میں جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک انصاری نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں اس بچے کو دودھ پلانے کا ذمہ دار ہوں تو انہوں نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب کہ اس عورت نے اپنے بچے کا دودھ چھڑا دیا تھا اور دودھ پلانے کا ذمہ دار ہونے سے اس کی مراد یہ تھی کہ میں اس بچہ کی کفالت اور پرورش کی ذمہ داری لیتا ہوں اور اپنے اس مفہوم کو انہوں نے مجازاً دودھ پلانے سے تعبیر کیا۔

【9】

بدکار لونڈی کی سزا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم میں سے کسی شخص کی لونڈی، زنا کی مرتکب ہو اور اس کا زنا ظاہر ہوجائے (یعنی اس کی زنا کاری ثابت ہوجائے) تو وہ اس پر حد جاری کرے اور اس کو عار نہ دلائے اگر وہ پھر زنا کی مرتکب ہو تو اس پر حد جاری کرے اور اس کو عار نہ دلائے اور اگر وہ تیسری مرتبہ زنا کی مرتکب ہو اور اس کی زنا کاری ثابت ہوجائے تو اب اس کو چاہئے کہ وہ لونڈی کو بیچ ڈالے اگرچہ بالوں کی رسی (یعنی حقیر ترین چیز) ہی کے بدلے میں کیوں نہ بیچنا پڑے۔ (بخاری ومسلم ) تشریح تو ! وہ اس پر حد جاری کرے، یعنی اس کو پچاس کوڑے مارے ! یہ واضح رہے کہ لونڈی غلام کی حد، آزاد مرد عورت کی بہ نسبت آدھی حد ہے اور لونڈی غلام کے لئے سنگساری کی سزا مشروع نہیں ہے۔ حضرت امام شافعی نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ آقا کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مملوک پر خود بخود جاری کرے جب کہ حنفی علماء کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے، ان کے نزدیک یہ حکم وہ اس پر حد جاری کرے دراصل سبب پر محمول ہے یعنی اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ آقا اپنی زنا کار لونڈی پر جاری ہونے کا سبب اور واسطہ بنے بایں طور کہ وہ اس لونڈی کو حاکم کے سامنے پیش کر دے تاکہ وہ اس پر حد جاری کرے۔ اور اس کو عار نہ دلائے کا مطلب یہ ہے کہ حد جاری ہوجانے کے بعد اس لونڈی پر لعن طعن نہ کرے اور نہ اس کو حد جاری ہونے کی عار وغیرہ دلائے کیونکہ جب اس نے حد کی صورت میں اپنے گناہ کا کفارہ بھر دیا اور وہ گناہ سے پاک ہوگئی تو اب اس پر لعن طعن کیسا اور اسے عار کیوں دلائی جائے ! اور یہ حکم خاص طور پر لونڈی ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ آزاد کا بھی یہی حکم ہے لیکن لونڈیاں چونکہ توبیخ وسرزنش کا محل ہوتی ہیں اس لئے خاص طور پر لونڈی کے بارے میں یہ حکم بیان کیا گیا۔ وہ اس لونڈی کو بیچ ڈالے کا مطلب یہ ہے کہ چاہئے تو حد جاری کرنے کے بعد اس کو بیچے اور چاہے حد جاری کرنے سے پہلے ہی بیچ دے لیکن حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حد جاری کرنے سے پہلے ہی بیچ دینا چاہئے۔ امام نووی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ فاسق وفاجر اور اہل معاصی کے ساتھ رہن سہن کو ترک کردینا اور اس طرح کی لونڈی کو بیچ دینا مستحب ہے لیکن علماء ظواہر کے نزدیک واجب ہے۔

【10】

مریض پر حد جاری کرنے کا مسئلہ

اور حضرت علی کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا لوگو ! اپنے غلام لونڈیوں پر حد جاری کرو یعنی اگر وہ زنا کے مرتکب ہوں تو پچاس کوڑے مارو خواہ وہ محصن یعنی شادی شدہ ہوں یا غیر محصن۔ رسول کریم ﷺ کی ایک لونڈی نے زنا کا ارتکاب کیا تو آنحضرت ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اس پر حد جاری کروں مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ ابھی حال ہی میں اس کی ولادت ہوئی ہے تو مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں اس کے پچاس کوڑے مارتا ہوں تو وہ مرجائے گی چناچہ میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا کہ اس حالت میں اس پر حد جاری نہیں کی۔ (مسلم ) اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (جب حضرت علی نے آنحضرت ﷺ سے اس بارے میں ذکر کیا تو) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب تک کہ اس کا نفاس کا خون بند نہ ہوجائے اس وقت تک کے لئے اسے چھوڑ دو اس کے بعد اس پر حد جاری کرو اور اپنے بردوں غلام لونڈیوں پر حد جاری کیا کرو۔ تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حد کی سزا اور عورت اگر نفاس کی حالت میں ہو تو اس پر اس وقت تک حد جاری نہ کی جائے جب تک کہ وہ نفاس سے فارغ نہ ہوجائے کیونکہ نفاس ایک طرح کا مرض ہے اور مریض کو اس کے اچھا ہونے تک مہلت دینی چاہئے۔ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مریض، زنا کا مرتکب ہو اور اس کے محصن شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اس کو رجم سنگساری کا سزا اور گردانا چکا ہو تو اس کو اسی مرض کی حالت میں رجم کیا جائے اور اگر اس کے غیر محصن غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اس کو کوڑے مارے جانے کا سزا وار گردانا گیا ہو تو پھر اس کو اس وقت تک کوڑے نہ مارے جائیں جب تک کہ وہ اچھا نہ ہوجائے ہاں اگر وہ کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جس سے بچنے کی امید نہ کی جاتی ہو جیسے دق وسل وغیرہ یا وہ ناقص و ضعیف الخلقت ہو تو اس صورت میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ سزا پوری کرنے کے لئے اس کو کھجور کی کسی ایسی بڑی شاخ سے مارا جائے جس میں چھوٹی چھوٹی سو ٹہنیاں ہوں اور وہ شاخ اس کو ایک دفعہ اس طرح ماری جائے کہ اس کی ایک ایک ٹہنی اس کے بدن پر لگ جائے اسی لئے کہا گیا ہے کہ اس مقصد کے لئے پھیلی ہوئی شاخ استعمال کرنا ضروری ہے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ تلف کے خوف سے کوڑے مارنے کی حد نہ تو شدید گرمی میں جاری کی جائے اور نہ سخت جاڑے میں بلکہ اس کے لئے معتدل موسم کا انتظار کیا جائے۔

【11】

اگر زنا کا اقراری مجرم اپنے اقرار سے رجوع کرلے تو حد ساقط ہوجائے گی یا نہیں ؟

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ماعز اسلمی نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ اس نے (یعنی میں نے) زنا کیا ہے، یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے اپنا منہ اس طرف سے پھیرلیا وہ دوسری جانب سے گھوم کر یعنی تبدیل مجلس کر کے پھر آپ ﷺ کے سامنے آیا اور کہا کہ اس نے زنا کیا ہے آنحضرت ﷺ نے پھر اس کی طرف منہ پھیرلیا اور وہ بھی پھر دوسری جانب سے گھوم کر آپ ﷺ کے سامنے آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! اس نے زنا کیا ہے ! آخر کار چوتھی مرتبہ میں آنحضرت ﷺ نے اس کے سنگساری کا حکم صادر فرمایا چناچہ اس کو حرہ میں لایا گیا جو مدینہ کا کالے پتھروں والا مضافاتی علاقہ ہے اور اس کو پتھر مارے جانے لگے جب اسے پتھروں کی چوٹ لگنے لگی تو بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ وہ ایک شخص کے پاس سے گذرا جس کے ہاتھ میں اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی اس شخص نے اسی جبڑے کی ہڈی سے اس کو مارا اور دوسرے لوگوں نے بھی دوسری چیزوں سے اس کا مارا تاآنکہ وہ مرگیا۔ جب صحابہ نے رسول کریم ﷺ سے یہ ذکر کیا کہ وہ پتھروں کو چوٹ کھا کر اور موت کی سختی دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا تھا لیکن ہم نے اس کا پیچھا کر کے سنگسار کردیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا ؟۔ (ترمذی، ابن ماجہ ) ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ ذکر سن کر فرمایا کہ تم لوگوں نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا، بہت ممکن تھا کہ وہ توبہ کرلیتا اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا۔ تشریح حدیث (یتوب فیتوب اللہ علیہ) کا مطلب یہ ہے کہ وہ تو اپنے اس برے فعل سے رجوع کرتا (یعنی ندامت وشرمساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے اس گناہ کی معافی چاہتا اور اللہ تعالیٰ قبولیت توبہ کے ساتھ اس پر رجوع کرتا یعنی بنظر رحمت اس کی طرح متوجہ ہوتا اور اس کے گناہ کو معاف کردیتا۔ ) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص پہلے اپنے ارتکاب زنا کا خود اقرار کرے اور پھر بعد میں یہ کہے کہ میں نے زنا کا ارتکاب نہیں کیا ہے یا میں جھوٹ بولا ہے یا میں اب اپنے اقرار سے رجوع کرتا ہوں تو اس صورت میں اس سے حد ساقط ہوجائے گی اسی طرح اگر وہ حد قائم ہونے کے درمیان اپنے اقرار سے رجوع کرے تو حد کا جو حصہ باقی رہ گیا ہے وہ ساقط ہوجائے گا جب کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس سے حد ساقط نہیں ہوگئی۔

【12】

ماعز کا اعتراف جرم

اور حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ماعز ابن مالک سے فرمایا کہ تمہارے بارے میں مجھے معلوم ہوا کہ تم نے فلاں شخص کی لونڈی سے زنا کیا ہے ؟ ماعز نے عرض کیا کہ ہاں (یہ سچ ہے) اور اس نے یہ (چار مجلسوں میں) چار مرتبہ اقرار کیا۔ لہٰذا رسول کریم ﷺ نے اس کی سنگساری کا حکم فرمایا اور ان کو سنگسار کردیا گیا ! (مسلم) تشریح اس حدیث کے بارے میں صاحب مصابیح پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو پہلی فصل کے بجائے یہاں دوسری فصل میں کیوں نقل کیا ؟ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ماعز کے ارتکاب زنا کا علم تھا اور پھر آپ ﷺ نے اس سے اعتراف جرم کرایا جب کہ دوسری احادیث سے اس کے برخلاف ثابت ہوتا ہے ؟ گویا اس اعتبار سے ان احادیث میں باہم تضاد نظر آتا ہے لہٰذا ان کے درمیان وجہ تطبیق یہ ہوگی کہ دراصل اس حدیث میں اختصار کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور پورا واقعہ نقل کئے بغیر صرف رجم کا ذکر کیا گیا ہے جب کہ دوسری احادیث میں واقعہ کو پوری تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا چناچہ یہ اغلب ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ماعز کے ارتکاب زنا کا علم پہلے سے ہوگا پھر بعد میں آپ ﷺ خود ماعز سے اس کا اقرار کرایا اور صورت وہ اختیار کی جو دوسری احادیث میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے کہ جب ماعز اپنے ارتکاب زنا کا اقرار کرتا تو آپ ﷺ اس کی طرف سے اپنا منہ پھیر لیتے تھے، اس طرح آپ ﷺ نے جب گویا چار مجلسوں میں چار مرتبہ اقرار کرا لیا تب سنگساری کا حکم صادر فرمایا اس اعتبار سے ان احادیث میں باہم کوئی تضاد نہیں رہا۔

【13】

دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی کرو

اور حضرت یزید ابن نعیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ماعز رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے سامنے (چار مجلسوں) چار مرتبہ (اپنے زنا) کا اقرار کیا چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور اس کو سنگسار کردیا گیا نیز آنحضرت ﷺ نے ہزال سے فرمایا کہ اگر تم ماعز کو اپنے کپڑے سے چھپالیتے یعنی اس کے زنا کے واقعہ پر پردہ ڈال دیتے اور اس کو ظاہر نہ کرتے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوتا ابن منکدر جو تابعی اور اس حدیث کے راوی ہیں کہتے ہیں کہ ہزال ہی نے ماعز سے کہا تھا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ کو اپنے واقعہ سے آگاہ کردو۔ (ابو داؤد) تشریح ہزال کی ایک لونڈی تھی جس کا نام فاطمہ تھا اس کو انہوں نے آزاد کردیا تھا اسی فاطمہ سے ماعز نے زنا کا ارتکاب کیا اور جب ہزال کو اس کا علم ہوگیا تو انہوں نے ماعز کو آمادہ کیا کہ وہ آنحضرت ﷺ کے پاس جا کر واقعہ کی اطلاع دے اور اپنے جرم کا اعتراف کرلے اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے ہزال سے فرمایا کہ اگر تم اس کے گناہ کا افشاء نہ کرتے بلکہ اس پر پردہ ڈال دیتے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوتا کہ اس کے سبب اللہ تعالیٰ تمہیں خیر و بھلائی سے نوازتا اور تمہارے گناہوں کی پردہ پوشی کرتا۔

【14】

کسی حاکم کو حد معاف کرنے کا اختیار حاصل نہیں

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ بن العاص سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم آپس میں اپنی حدود کو معاف و محو کردیا کرو اس سے پہلے کہ ان کی خبر مجھ تک پہنچے ہاں اگر اطلاع مجھ تک پہنچ جائے گی اور وہ ثابت ہوجائے گا تو پھر اس پر حد جاری کرنا واجب یعنی فرض ہوجائے گا۔ (ابو داؤد، نسائی ) تشریح حدود کو معاف و محو کردیا کرو یہ دراصل عوام سے خطاب ہے چناچہ ان کو اس احسان کی تلقین کی جاری ہے کہ اگر تم میں سے کسی شخص سے کوئی گناہ جرم سرزد ہوجائے تو اس کا قضیہ حاکم کے سامنے نہ لے جاؤ بلکہ اس سے در گذر کرو۔ ہاں اگر وہ قضیہ حاکم کے پاس پہنچ جائے گا تو پھر حاکم کے لئے یہ جائز نہیں ہوتا کہ وہ اس کو معاف کر دے، لہٰذا آپ ﷺ نے اپنے ارشاد اگر جرم کی اطلاع مجھ تک پہنچ جائے گی کے ذریعہ اسی کو واضح کیا ہے کہ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اگر وہ قضیہ حاکم کے پاس پہنچ جائے اور اس میں حد واجب ہوتی ہو تو اس حد کو معاف کرنا اس کے لئے جائز نہیں ہوگا۔ حدیث کا مطلق مفہوم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر کسی مملوک (غلام یا لونڈی) سے اس قسم کا کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس کے آقا کو نہ تو خود اس مملوک پر حد جاری کرنا چاہئے اور نہ اس کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ اس مملوک کو حاکم کے سامنے پیش کرے بلکہ چاہئے کہ وہ اس کو معاف کر دے۔ یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ حدیث میں معاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ وجوب کے طور پر نہیں ہے بلکہ استحباب کے طور پر ہے۔

【15】

عزت داروں کی لغزشوں سے در گذر کرنا چاہئے

اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عزت داروں کی خطائیں معاف کرو علاوہ حدوں کے کہ ان کی معافی جائز نہیں ہے (ابو داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر ان سے بھول چوک میں کوئی گناہ سر زد ہوجائے اور ناگہانی طور پر کسی لغزش میں مبتلا ہوجائیں تو ان کو معاف کردیا جائے، سزا و عقوبت میں مبتلا کر کے ظاہری طور پر ان کو ذلیل ورسوا مت کرو خواہ ان کی لغزش و گناہ کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے ہاں اگر ان سے کوئی ایسا جرم صادر ہو جس کی وجہ سے ان پر حد جاری کرنا واجب ہوتا ہو تو اس جرم کو معاف کرنے کی اجازت نہیں ہے خواہ اس جرم کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے۔ گویا اس حکم کے مخاطب دوسرے لوگ بھی ہیں نیز یہ حکم بھی استحباب کے طور پر ہے۔

【16】

شبہ کا فائدہ ملزم کو ملنا چاہئے

اور حضرت عائشہ راوی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کو حد کی سزا سے بچاؤ اگر مسلمان (ملزم) کے لئے بچاؤ کا ذرا بھی کوئی موقع نکل آئے تو اس کی راہ چھوڑ دو یعنی اس کو بری کردو کیونکہ امام یعنی حاکم ومنصف کا معاف کرنے میں خطا کرنا، سزا دینے میں خطا کرنے سے بہتر ہے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حضرت عائشہ (رض) روایت کی گئی ہے اور اس کا سلسلہ رواۃ آنحضرت ﷺ تک نہیں پہنچایا گیا ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے کہ یہ حدیث حضرت عائشہ کا اپنا ارشاد ہے حدیث نبوی ﷺ نہیں ہے کیونکہ جس سلسلہ سند سے یہ حدیث موقوف ثابت ہوتی ہے وہ اس سلسلہ سند سے زیادہ صحیح اور قوی ہے جس سے اس کا حدیث مرفوع ہونا معلوم ہوتا ہے۔ تشریح اس ارشاد کے مخاطب دراصل حکام ہیں جنہیں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر کسی مسلمان کے بارے میں کوئی ایسا قضیہ ان کے پاس آئے جس کی سزا حد ہے مثلاً زنا کا قضیہ، تو انہیں چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے اس مسلمان کو حد سے بچانے کی کوشش کریں اور شبہ کا جو بھی موقع نکلتا ہو اس کا فائدہ ملزم کو پہنچائیں، یہی نہیں بلکہ وہ ملزم کو عذر کی تلقین کریں یعنی اس سے پوچھیں کہ کیا تم دیوانے ہو ؟ کیا تم نے شراب پی رکھی ہے ؟ کیا ایسا تو نہیں ہے کہ تم نے اس عورت سے زنا کے ارتکاب کے بجائے اس کا بوسہ لے لیا ہو یا شہوت کے ساتھ اس کو چھو لیا ہو۔ اور اب تم اس کو اپنے اقرار میں زنا سے تعبیر کر رہے ہو غرضیکہ اس سے اس قسم کے سوالات کئے جائیں تاکہ وہ اس تلقین عذر کی بنا پر کوئی عذر بیان کر دے جس سے حد کا اجراء نہ ہو سکے اور وہ بری ہوجائے، چناچہ ماعز وغیرہ سے آنحضرت ﷺ نے جو اس قسم کے سوالات کئے ان کا مقصد بھی تلقین عذر تھا۔ آخر میں نے جو یہ فرمایا کہ امام کے معاف کرنے میں خطاء سزا دینے میں خطا کرنے سے بہتر ہے تو اس کا منشاء بھی مذکورہ بالا بات کو مبالغہ و تاکید کے ساتھ بیان کرنا ہے اور یہ واضح کرنا ہے کہ اگر کوئی حاکم کسی مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے ملزم کو بری کر دے اور اس کے اس فیصلہ میں کوئی غلطی ہوجائے یا وہ ملزم کو سزا دینے کا فیصلہ کرے اور اس میں کوئی غلطی ہوجائے تو اگرچہ غلطی کے اعتبار سے دونوں ہی فیصلے محل نظر ہوں گے اور انصاف کے معیار پر پورے نہیں اتریں گے لیکن چونکہ ملزم کی برأت میں بہرحال ایک مسلمان کی جان وعزت بچ جائے گی۔ اس لئے یہ غلطی اس غلطی سے بہتر ہوگی جو سزا کے فیصلہ میں سرزد ہو اور جس کے نتیجے میں ایک مسلمان کو اپنی جان اور عزت سے ہاتھ دھونا پڑے۔

【17】

زنا بالجبر میں صرف مرد پر حد جاری ہوگی

اور حضرت وائل ابن حجر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک عورت کے ساتھ زبردستی کی گئی یعنی ایک مرد نے اس سے زبردستی زنا کیا اس عورت کو تو حد سے برأت دی گئی لیکن اس زنا کرنے والے پر حد جاری کی گئی۔ راوی نے یہ ذکر نہیں کیا کہ آنحضرت ﷺ نے اس عورت کو زنا کرنے والے سے مہر بھی دلوایا۔ (ترمذی) تشریح راوی کے ذکر نہ کرنے سے لازم نہیں آتا کہ ایسی صورت میں مہر واجب نہیں ہوتا کیونکہ دوسری احادیث سے یہ ثابت ہے کہ جس عورت سے زنا بالجبر کیا گیا ہو اس کے لئے مہر واجب ہوتا ہے اور یہاں مہر سے مراد عقر صحبت حرام اور صحبت تشبہ کے مابین (عوض اور بدلہ) کو کہتے ہیں اور اس کا اطلاق ایک ایسی مقدار پر ہوتا ہے کہ اگر حرام صحبت کی اجرت یعنی حلال ہوتی تو وہ مقدار واجب ہوتی۔ برجندی فتاویٰ عالمگیری میں یہ لکھا ہے کہ عقر مہر مثل کو کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ زنا بالجبر کی صورت میں زنا کرنے والے مرد سے عورت کو جو رقم دلوائی جائے گی اس کی مقدار اس عورت کے مہر کے مثل کے برابر ہونی چاہئے۔ اور حضرت وائل ابن حجر کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک دن ایک عورت نماز کے لئے گھر سے نکلی تو راستہ میں اس کو ایک شخص ملا جس نے اس پر کپڑا ڈال کر اس سے اپنی حاجت پوری کرلی یعنی اس کے ساتھ زبردستی زنا کیا وہ عورت چلائی اور وہ مرد اس کو وہیں چھوڑ کر چلا گیا، جب کچھ مہاجر صحابہ ادھر سے گزرے تو اس عورت نے ان کو بتایا کہ اس شخص نے میرے ساتھ ایسا ایسا کیا ہے یعنی میرے اوپر کپڑا ڈال کر مجھے بےبس کردیا اور پھر مجھ سے بدکاری کی لوگوں نے اس شخص کو پکڑ لیا اور رسول کریم ﷺ کی خدمت میں لائے اور سارا واقعہ بیان کیا آنحضرت ﷺ نے اس عورت سے تو یہ فرمایا کہ جاؤ تمہیں اللہ تعالیٰ نے بخشش دیا ہے۔ (کیونکہ اس بدکاری میں نہ صرف یہ کہ تمہاری خواہش ورضا کا داخل نہیں تھا بلکہ تمہیں مجبور وبے بس بھی کردیا گیا تھا) اور جس شخص نے اس عورت سے بدکاری کی تھی اس کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ اس کو سنگسار کردیا جائے یعنی اس نے اپنے جرم کا اقرار کیا اور چونکہ وہ محصن تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ اس کو سنگسار کردو چناچہ اس کو سنگسار کردیا گیا۔ اس سنگسار کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص نے اپنے اوپر حد جاری کرا کر ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس طرح کی توبہ مدینہ والے کرتے تو ان کی توبہ قبول کی جاتی۔ (ترمذی ابوداؤد ) تشریح حدیث کے آخر جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے جرم کی سزا بھگت کر ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس توبہ کو اہل مدینہ کے درمیان تقسیم کیا جاتا تو نہ صرف یہ کہ ان سب کی توبہ قبول کی جاتی بلکہ اس کا ثواب سارے مدینے والوں کے لئے کافی ہوجاتا۔ گویا اس ارشاد کے ذریعہ آپ نے یہ واضح کیا کہ اس شخص نے اگرچہ شروع میں ایک بڑی بےحیائی کا ارتکاب کیا اور سخت برا کام کیا مگر جب اس پر حد جاری کردی گئی تو وہ اپنے جرم سے پاک ہوگیا اور بخش دیا گیا۔

【18】

ایک زنا کی دو سزائیں

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک عورت سے زنا کیا تو نبی کریم ﷺ نے اس کو کوڑے مارے جانے کا حکم دیا، چناچہ اس کو بطور حد، کوڑے مارے گئے، اس کے بعد جب آپ کو بتایا گیا کہ وہ شخص محصن ہے تو آپ ﷺ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور وہ سنگسار کردیا گیا۔ (ابو داؤد) تشریح آنحضرت ﷺ نے پہلے کوڑے مارے کا جو حکم دیا اس کے بارے میں یہ بھی احتمال ہے کہ آپ کو یہ بتایا گیا ہوگا کہ وہ شخص غیر محصن غیر شادی شدہ ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ کو بتایا نہیں گیا ہوگا بلکہ خود آپ ﷺ نے ہی گمان کیا ہوگا کہ یہ غیر محصن ہے اس لئے آپ ﷺ نے اس کو کوڑے کی سزا دی، لیکن جب بعد میں یہ ثابت ہوا کہ یہ شخص محصن ہے اور محصن ہونے کی وجہ سے سنگساری کا سزاوار ہے تو اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا، اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر امام وقت (حاکم شرعی) کسی کو حد کی کوئی سزا دے اور پھر بعد میں اسے معلوم ہو کہ یہ مجرم حد کی اس سزا کا نہیں بلکہ حد کی کسی دوسری سزا کا مستوجب ہے مثلا اس کو کوڑے مارنے کی سزا دی مگر بعد میں ثابت ہوا کہ حقیقت میں یہ سنگساری کا سزا وار ہے تو اس حاکم کے لئے ضروری ہے کہ وہ دوبارہ اس سزا کو جاری کرے جس کا وہ مجرم شرعی طور پر مستوجب ہے۔

【19】

بیمار مجرم پر حد جاری کرنے کا طریقہ

اور حضرت سعید بن سعد ابن عبادہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت سعد ابن عبادہ ایک ایسے شخص کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لائے جو اپنے محلہ کا ایک ناقص الخلقت کمزور اور بیمار شخص تھا (اور ایسا بیمار تھا کہ اس کے اچھا ہونے کی کوئی امید نہ تھی اس شخص کو اہل محلہ کی لونڈیوں میں سے ایک لونڈی کے ساتھ زنا کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا) نبی کریم ﷺ نے اس کے بارے میں یہ حکم صادر فرمایا کہ کھجور کی ایک ایسی (بڑی) ٹہنی لو جس میں سو چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں ہوں اور پھر اس ٹہنی سے اس شخص کو ایک دفعہ مارو (شرح السنۃ) ابن ماجہ نے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ تشریح ایک دفعہ مارو کا مطلب یہ ہے کہ اس بڑی ٹہنی کو اس طرح ایک دفعہ مارو کہ اس کی ساری سو ٹہنیوں کی چوٹ اس کے جسم کو پہنچ جائے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام حاکم کو اس بات کی نگہبانی کرنی چاہئے کہ جس شخص کو کوڑے مارنے کی سزا دی جاری ہو وہ مر نہ جائے۔ اور یہ مسئلہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی مریض کسی حد کا مستوجب ہو تو اس پر اس وقت تک حد جاری نہ کی جائے جب تک کہ وہ اچھا نہ ہوجائے اور جس مریض کے اچھا ہونے کی توقع ہی نہ ہو اس پر اس طرح حد جاری کی جائے جس طرح اس حدیث میں مذکور ہے۔

【20】

اغلام کی سزا

اور حضرت عکرمہ حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر تم کسی شخص کو قوم لوط کا سا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو مار ڈالو۔ (ترمذی ابن ماجہ ) تشریح شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اغلام کی حد کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، چناچہ حضرت امام شافعی کے دو قولوں میں سے زیادہ صحیح قول اور صاحبین حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کا قول یہ ہے کہ فاعل اغلام کرنے والے کی حد وہی ہے جو زانی کی حد ہے یعنی اگر وہ محصن ہو تو اس کو سنگسار کیا جائے اور اگر غیر محصن ہو تو سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کردیا جائے خواہ وہ مرد ہو یا عورت جب کہ ایک جماعت کا رجحان اس طرف ہے کہ اغلام کرنے والے کو بہر صورت سنگسار کیا جائے خواہ محصن ہو یا غیر محصن ہو حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا قول بھی یہی ہے حضرت امام شافعی کا دوسرا قول یہ ہے کہ فاعل ومفعول اغلام کرنے والے اور اغلام کرانے والے دونوں ہی کو قتل کردیا جائے جیسا کہ اس حدیث کے ظاہر مفہوم سے معلوم ہوتا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ ان کے قتل کا طریقہ کیا ہو تو بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں پر مکان گرا دیا جائے تاکہ وہ اس کے نیچے دب کر مرجائیں اور بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ان کو پہاڑ کے اوپر لے جا کر وہاں سے نیچے پھینک دیا جائے۔ اس بارے میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اغلام کی سزا کے تعین کا اختیار حاکم وقت کے سپرد ہے کہ اگر وہ چاہے تو اغلام کرنے والے کو قتل کر دے جب کہ یہ برائی اس کی عادت بن چکی ہو، نیز چاہے اس کو مارے اور چاہے قید خانہ میں ڈال دے۔

【21】

جانور کے ساتھ بد فعلی کرنے والے کی سزا

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی جانور سے ساتھ بدفعلی کرے اس کو قتل کردو اس کے ساتھ اس جانور کو بھی قتل کردو۔ حضرت ابن عباس (رض) سے کہا گیا کہ جانور کے بارے میں یہ حکم کیوں ہے یعنی نہ تو عقل رکھتا ہے اور نہ وہ مکلف ہے تو اس کو قتل کرنے کا کیوں حکم ہے ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں نے اس کی حکمت و مصلحت کے بارے میں رسول کریم ﷺ سے کچھ نہیں سنا ہے البتہ میرا گمان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ جس جانور کے ساتھ بدفعلی کی گئی ہے اس کا گوشت کھایا جائے یا اس کے دودھ بالوں اور اس کی افزائش نسل سے فائدہ اٹھایا جائے اور جب اس جانور سے کسی قسم کا کوئی فائدہ اٹھانا مکروہ ہوا تو پھر اس کو قتل کردینا ہی ضروری ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، ابوداؤد) تشریح اس کو قتل کردو سے مراد یہ ہے کہ اس کی بہت سخت پٹائی کرو۔ گویا اس کو قتل کردینے کا حکم سخت زجروتہدیر کے طور پر ہے اس کو واقعۃً قتل کردینا مراد نہیں ہے۔ اس کے جانور کو بھی قتل کردو اس حکم کی حکمت وعلت بعض حضرات نے یہ بیان کی ہے کہ اگر وہ جانور زندہ رکھا گیا تو ہوسکتا ہے کہ جس شخص نے اس کے ساتھ بدفعلی کی ہے اس کا نطفہ اس کے رحم میں قرار پا جائے اور اس کے نتیجہ میں ایک حیوان بصورت انسان پیدا ہوجائے اس لئے اس صورت حال سے بچنے کے لئے اس کو مار ڈالنا ہی ضروری ہے یا یہ کہ اس جانور کی موجودگی اس کے مالک کو دنیاوی ذلت و رسوائی سے دو چار کرسکتی ہے لہٰذا اس کو مار ڈالا جائے۔ شرح مظہر میں لکھا ہے کہ چاروں امام اس بات پر متفق ہیں کہ جو شخص کسی جانور کے ساتھ بدفعلی کرے اس کو قتل نہ کیا جائے بلکہ تعزیرًا کوئی دوسری سزا دی جائے اور یہ حدیث زجر و توبیخ پر محمول ہے رہی جانور کی بات تو بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ جانور ایسا ہے جس کا گوشت کھایا جاتا ہے تو اس کو قتل کردیا جائے اور اگر اس کا گوشت نہیں کھایا جاتا تو اس کے بارے میں دونوں صورتیں ہیں کہ اگر اس حدیث کا ظاہر مفہوم پیش نظر ہو تو اس کو قتل کردیا جائے اور اگر اس کو ملحوظ رکھا جائے کہ جانور کا گوشت کھانا مقصود یا حلال نہ ہو اس کو ذبح کرنے کی ممانعت منقول ہے تو اس جانور کو قتل نہ کیا جائے۔

【22】

اغلام، بدترین برائی ہے

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اپنی امت کے بارے میں مجھے سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ قوم لوط کا عمل (یعنی اغلام) ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح یعنی مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں میری امت کے لوگ خواہشات نفسانی کا شکار ہو کر بےصبری نہ کربیٹھیں اور اس برائی میں مبتلا ہوجائیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ یہ کام نہایت برا اور سخت قبیح ہے اور اس کی حرمت بڑی شدید ہے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میری امت کے لوگ اس میں مبتلا نہ ہوجائیں اور اس کی وجہ سے انہیں عذاب الہٰی میں گرفتار ہونا پڑے۔

【23】

ایک ہی شخص کو پہلے زنا کی سزا اور پھر تہمت زنا کی سزا

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن بکر بن لیث کے خاندان کا ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور اقرار کیا کہ اس نے (یعنی میں نے) ایک عورت کے ساتھ چار بار یعنی چار مجلسوں میں زنا کیا ہے چناچہ نبی کریم ﷺ نے اس کو سو کوڑے لگوائے اور وہ شخص غیر محصن یعنی کنوارہ تھا پھر آنحضرت ﷺ نے اس سے اس عورت کی زنا کاری پر گواہ طلب کئے، عورت نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم یا رسول اللہ ! یہ شخص جھوٹ بولتا ہے اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اس شخص پر تہمت لگانے کی حد جاری کی۔ (ابو داؤد) تشریح گواہ طلب کئے کا مطلب یہ ہے کہ جب اس شخص نے ایک عورت کے ساتھ زنا کا اقرار کیا تو اس کے اس اقرار پر اس کو زنا کی سزا دی گئی یعنی اس کے سو کوڑے مارے گئے اور چونکہ یہ بات اس عورت کو بھی زنا کا مرتکب گردانتی تھی اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس شخص سے کہا کہ اب تو ایسے گواہوں کو پیش کرو جو اس عورت کے ساتھ تمہارے زنا کو ثابت کریں مگر جب وہ شخص گواہ پیش کرنے سے عاجز رہا تو اس عورت نے کہا کہ اللہ کی قسم یہ شخص جھوٹا ہے یہ میری طرف زنا کی نسبت کر رہا ہے حالانکہ میں اس برائی سے پاک ہوں اس طرح اس عورت نے یہ ثابت کیا کہ اس مرد نے اس پر تہمت لگائی ہے لہٰذا آنحضرت ﷺ نے اس شخص کو دوسری سزا تہمت لگانے کی دی یعنی اسی کوڑے مارے۔

【24】

حضرت عائشہ پر تہمت لگانے والوں کو سزا

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب میری برأت نازل ہوئی یعنی عفت و پاکدامنی کے ثبوت میں آیتیں نازل ہوئیں تو نبی کریم ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا اور اس کا ذکر کیا اور پھر جب آپ ﷺ نے منبر سے اترے تو دو مردوں اور ایک عورت کو سزا دینے کا فیصلہ کیا چناچہ تہمت لگانے کی ان پر حد جاری کی گئی۔ (ابو داؤد ) تشریح بعض لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ پر نعوذ باللہ زنا کا بہتان لگایا تھا اور آنحضرت ﷺ کے دل میں بھی اس کی طرف سے کچھ شک پڑھ گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی برأت نازل کی جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ان کے دامن عفت وعصمت پر تہمت کے جو چھینٹے ڈالے گئے ان کا تعلق محض ایک سازش اور چند لوگوں کی مفسدہ پردازی سے تھا، چناچہ جب حضرت عائشہ کی عفت و پاکدامنی کے ثبوت میں آیتیں نازل ہوئیں جو سورت نور میں ہیں تو آنحضرت ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور یہ اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے حرم نبوی ﷺ کی تقدیس و حرمت کی لاج رکھ لی ہے اور عائشہ کو عفت مآب وپاک دامن قرار دیا ہے اور اس کے ثبوت میں آپ نے نازل ہونے والی آیتوں کا ذکر کیا پھر منبر سے اترتے ہی آپ نے ان لوگوں پر حد قذف تہمت لگانے کی شرعی سزا کہ وہ اسی کوڑے ہیں جاری کرنے کا حکم دیا جنہوں نے اس ناپاک سازش میں حصہ لیا تھا، ان میں دو مرد تھے جن کا نام مسطح اور حسان ابن ثابت تھا اور ایک عورت تھی جس کا نام حمنہ بنت جحش تھا اور جو اس واقعہ میں سب سے بڑی فتنہ پرداز تھی ان سب کو اسی اسی کوڑے مارے گئے۔

【25】

زنا بالجبر میں صرف زانی حد کا سزا وار ہوگا

حضرت نافع (رض) سے روایت ہے کہ حضرت صفیہ بنت ابوعبید نے ان سے بیان کیا کہ امارت و خلافت یعنی حضرت عمر کی حکومت کے ایک غلام نے ایک لونڈی سے زنا کرنا چاہا جو مال غنیمت کے خمس میں سے تھی اور جب وہ لونڈی اس بدکاری کے لئے تیار نہیں ہوئی تو اس نے اس کے ساتھ زبردستی جماع کیا یہاں تک کہ اس کی بکارت یعنی اس کے کنوارپنے کو زائل کردیا چناچہ حضرت عمر فاروق نے اس کو پچاس درے لگوائے اور لونڈی کے درے نہیں لگوائے یعنی اس کو اس بدکاری کی سزا نہیں دی کیونکہ اس غلام نے اس کے ساتھ زبردستی جماع کیا تھا۔ (بخاری)

【26】

ماعز کے واقعہ زنا کی ایک اور تفصیل

اور حضرت یزید ابن نعیم ابن ہزال اپنے حضرت نعیم ابن ہزال سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی حضرت نعیم نے کہا کہ ماعز ابن مالک یتیم تھا میرے والد حضرت ہزال کی پرورش میں تھا اس نے جوان ہو کر محلہ کی ایک لونڈی سے زنا کرلیا جب میرے والد کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس سے کہا کہ تو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں چلا جا اور جو کچھ تو نے کہا وہ آپ ﷺ کو بتادے شاید آنحضرت ﷺ تیری مغفرت کی دعا کردیں اور میرے والد کے اس کہنے کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں تھا کہ استغفار گناہ سے اس کی نجات کا سبب بن جائے یعنی میرے والد کا یہ مقصد نہیں تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ کے پاس جائے اور آنحضرت ﷺ اس کو سنگسار کئے جانے کا حکم دیں جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے ماعز نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھ سے زنا کا ارتکاب ہوگیا ہے آپ مجھ پر کتاب اللہ کا حکم جاری کیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کی بات سن کر اپنا منہ اس کی طرف سے پھیرلیا وہ وہاں سے ہٹ گیا اور پھر آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! مجھ سے زنا کا ارتکاب ہوگیا ہے آپ مجھ پر کتاب اللہ کا حکم جاری کیجئے یہاں تک کہ اس نے یہ بات چار بار یعنی چار مجلسوں میں کہی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تو نے یہ بات چار بار کہی یعنی چار بار اقرار کرنے سے تیرا جرم زنا ثابت ہوگیا ہے اب یہ بتا کہ تو نے کس کے ساتھ زنا کیا ہے اس نے نام لے کر کہا کہ فلاں عورت کے ساتھ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو اس کے ساتھ ہمخواب یعنی آغوش ہوا تھا اس نے کہا ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو نے اس کے بدن کو اپنے بدن سے لپٹایا تھا ؟ اس نے کہا ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو نے اس کے ساتھ جماع کیا تھا ؟ اس نے کہا ہاں اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ چناچہ اس کو حرہ لے جایا گیا اور جب وہاں سنگسار کیا جانے لگا اور اسے پتھروں کی چوٹ لگنے لگی تو وہ بدحو اس ہوگیا یعنی وہ پتھروں کی چوٹ برداشت نہ کرسکا اور جہاں سنگسار کیا جا رہا تھا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا راستہ میں اس کو عبداللہ ابن انیس ملے جن کے ساتھی یا ماعز کو سنگسار کرنے والے تھک گئے عبداللہ نے اونٹ کے پاؤں کی ہڈی اٹھائی اور اس سے ماعز کو مارا یہاں تک کہ انہوں نے اس کو ختم کر ڈالا اس کے بعد عبداللہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ ﷺ کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا شاید وہ اپنے اقرار سے رجوع کرلیتا اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر کے سنگساری کئے بغیر ہی اس کا گناہ معاف کردیتا۔ (ابو داؤد ) ۔ تشریح اس کو حرہ لے جایا گیا، ابن حمام کہتے ہے کہ صحیح بخاری کی روایت میں تو یہ ہے کہ ماعز کو مصلی میں سنگسار کیا گیا اور مسلم اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ ہے کہ اس کو بقیع غرقد لے جایا گیا ان دونوں روایتوں میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے لیکن اگر یہ بات ملحوظ رہے کہ مصلی سے نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ مراد ہے اور نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ وہیں بقیع غرقد میں تھی تو پھر کوئی تضاد نہیں رہے گا رہی یہ بات کہ ترمذی کی روایت میں جو یہ منقول ہے کہ ماعز کے چوتھی بار اقرار کرنے کے بعد اس کو سنگساری کا حکم جاری کیا گیا چناچہ اس کو حرہ لے جایا گیا اور وہاں سنگسار کیا گیا جیسا کہ یہاں ابوداؤد کی روایت میں بھی یہی ہے کہ اس کو حرہ لے جایا گیا تو اس کی تاویل یہ کی جائے گی کہ جب وہ پتھروں کی چوٹ کھا کر بھاگا تو اس کا پیچھا کیا گیا تاآنکہ اس کو حرہ لے جایا گیا تو اس کی تاویل کی ضروری ہے کہ پھر یہ بات صحیح ثابت نہیں ہوگی کہ ماعز کو سنگسار کرنے کے لئے حرہ لے گیا تھا کیونکہ صحاح اور حسان کی روایتیں اس بات کی موئید ہیں کہ شروع میں ماعز کو سنگسار کرنے کے لئے حرہ کی طرف نہیں لے جایا گیا تھا بلکہ جب اس کو سنگسار کیا جانے لگا تو وہ خود بھاگ کر حرہ چلا گیا تھا یا یہ توجیہ کی جائے کہ مصلی جہاں ماعز کو سنگسار کیا گیا حرہ ہی کے آس پاس ہوگا لہٰذا کسی راوی نے تو مصلی کا ذکر کیا اور کسی راوی نے حرہ کا اس صورت میں دونوں احادیث کے مفہوم میں یکسانیت پیدا ہوجائے گی۔

【27】

زنا کی کثرت کا وبال

اور حضرت عمرو ابن العاص کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب قوم میں زنا کی کثرت ہوجاتی ہے اس کو قحط اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور جس قوم میں رشوت کی وبا عام ہوجاتی ہے اس پر رعب (وخوف) مسلط کردیا جاتا ہے۔ (احمد) تشریح رشوت اس مال کو کہتے ہیں جو کسی شخص کو اس شرط کے ساتھ دیا جائے کہ وہ اس کے کام میں مدد کرے۔ بعض حضرات نے اس کی تعریف میں اس قید کا بھی اضافہ کیا ہے کہ اس کام میں اتنی مشقت و محنت نہ ہو جس کی اجرت عام طور پر دئیے گئے مال کی بقدر دی جاتی ہو جیسے کسی بادشاہ یا حاکم کے سامنے کوئی بات سفارش کے طور پر کہہ دینی یا اس میں سعی و کوشش کرنی اس سے معلوم ہوا کہ محنت ومشقت کے بقدر مال دینا رشوت نہیں کہلائے گا اسی طرح اگر بلا شرط مال دیا جائے تو بھی رشوت کے حکم میں نہیں ہوگا۔ بہرکیف اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رشوت محض ایک سماجی برائی اور ایک شرعی گناہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی ظلم بھی ہے کہ جس کی سزا آخرت میں تو ملے گی اس کا وبال مختلف صورتوں میں اس دنیا میں بھی ظاہر ہوتا ہے چناچہ یہاں حدیث میں اسی کو ذکر کیا گیا ہے کہ رشوت کی نحوست ساری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور اسے بزدل بنا کر غیروں کی ہیبت میں اور اپنوں کے خوف میں مبتلا کردیتی ہے۔ غیروں کی ہیبت تو یوں مسلط ہوجاتی ہے کہ راشی رشوت لینے والا اپنا ضمیر و ایمان بیچ ڈالتا ہے اور جب وہ ضمیر و ایمانداری کی دولت سے محروم ہوجاتا ہے تو اس کے اندر سے وہ ساری توانائی اور قوت ختم ہوجاتی ہے جو اس کو غیروں کے مقابلہ پر عظمت و برتری کا احساس دلاتی ہے۔ اپنوں کا خوف اس طرح مسلط ہوجاتا ہے کہ اگر کوئی حاکم و کارکن رشوت نہیں لیتا تو وہ اپنا حکم اپنے ہر ادنی واعلی پر جاری کرتا ہے اور اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں کسی قسم کی جھجک محسوس نہیں کرتا لیکن جب وہ رشوت سے آلودہ ہوجاتا ہے تو پھر اس پر ایک خوف مسلط ہوجاتا ہے جو اسے قدم قدم پر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی اور اجرائے احکام سے جھجکاتا رہتا ہے کہ اس کے کسی حکم یا کسی کاروائی سے کوئی ایسا شخص ناراض نہ ہوجائے جس سے کہ اس کو رشوت کی صورت میں ناجائز مالی فائدے حاصل ہیں یا جو اس کو رشوت ستانی کے جرم کا راز دار ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب رشوت کی وباعام ہوجاتی ہے اور اس کی وجہ سے ہر حاکم وکارکن ہیبت وخوف میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پورا نظام حکومت بہت خوفناک قسم کی بدحالی وبے اعتمادی اور لا قانونیت کا شکار ہوجاتا ہے اور ساری قوم بےاطمینانی اور مصائب وپریشانیوں میں گھر کر رہ جاتی ہے۔

【28】

اغلام لعنت کا باعث ہے

اور حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص قوم لوط کا سا عمل یعنی اغلام کرے وہ ملعون ہے۔ (رزین) اور رزین ہی کی ایک روایت میں حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ حضرت علی نے بطور سزا اغلام کرنے والے اور کرانے والے دونوں کو جلوا دیا تھا اور حضرت ابوبکر نے ان پر دیوار گروا دی تھی۔ ۔ تشریح جامع صغیر میں امام احمد نے حضرت حسن کی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے جو روایت نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ جو شخص اپنی ماں کو برا کہے وہ ملعون ہے جو شخص غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرے وہ ملعون ہے جو شخص اسلامی سلطنت کی زمین کی سرحدوں میں رد و بدل کرے وہ ملعون ہے جو شخص کسی اندھے کو غلط راستہ بتائے وہ ملعون ہے جو شخص جانور سے بدفعلی کرے وہ ملعون ہے اور جو شخص قوم لوط کا سا عمل کرے یعنی اغلام کرے وہ ملعون ہے۔ اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل اس شخص پر نظر رحمت نہیں کرتا جو کسی مرد یا عورت کے ساتھ بدفعلی کرے۔ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

【29】

جانور کے ساتھ بدفعلی کرنے والا حد کا سزا وار نہیں ہوتا

اور حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ انہوں نے (بطریق مرفوع) کہا کہ جو شخص جانور کے ساتھ بدفعلی کرے وہ حد کا سزاوار نہیں لیکن قابل تعزیر ہے اس روایت کو ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے نیز ترمذی سفیان ثوری سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (یعنی سفیان نے) کہا کہ یہ حدیث ابن عباس کی اس پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے جو دوسری فصل میں ان سے نقل کی گئی ہے اور وہ پہلی حدیث یہ ہے کہ جو شخص جانور سے بدفعلی کرے اس کو مار ڈالو چناچہ علماء نے اسی پر عمل کیا ہے کہ جانور کے ساتھ بدفعلی کرنے والا حد کا سزا وار نہیں ہوتا البتہ بطور تعزیر اس کو کوئی سزا دی جاسکتی ہے۔ تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث حضرت ابن عباس کا اپنا قول ہے لیکن اس صورت میں سفیان ثوری کے اس قول کہ یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے کے کوئی معنی نہیں رہیں گے لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ یہ حضرت ابن عباس کا اپنا قول نہیں ہے بلکہ ارشاد نبوی ﷺ ہے۔

【30】

حدجاری کرنے میں کوئی فرق وامتیاز نہ کر و

اور حضرت عبادہ ابن صامت روای ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قریب و بعید سب پر حدود اللہ جاری کرو اور خبر دار اللہ کا حکم یعنی حد جاری کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت تمہارے آڑے نہ آئے۔ (ابن ماجہ) تشریح قریب وبعید سے نزدیک کے اور دور کے رشتے دار مراد ہیں کہ اگر مجرم تمہارا دور کا جاننے والا ہے تو اس پر بھی حد جاری کرو اور اگر نزدیکی رشتہ دار ہے تو اس پر حد جاری کرنے سے باز ہو یا یہ کہ قریب سے مراد کمزور ہے کہ اس تک پہنچنا نزدیک اور اس پر حد جاری کرنا آسان ہوتا ہے اور بعید سے مراد قوی ہے کہ اس تک پہنچنا بعید اور اس پر حد جاری کرنا دشوار ہوتا ہے اور یہی مراد حدیث کی منشاء کے زیادہ قریب ہے کیونکہ یہاں بھی ہدایت دینا مقصد ہے کہ حد ہر مجرم پر جاری کرو خواہ وہ امیر ہو یا غریب، شاہ ہو یا گدا کمزور ہو یا قوی اور اپنا عزیز ہو یا غیر عزیز ہو۔

【31】

حدجاری کرنے کے دور رس فوائد

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ حدود اللہ میں سے کسی ایک حد کا جاری کرنا اللہ کے تمام شہروں پر چالیس رات تک بارش برسنے سے بہتر ہے (ابن ماجہ) نسائی نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ (رض) نقل کیا ہے۔ تشریح اس کی وجہ یہ ہے کہ حد جاری کرنا گویا مخلوق کو گناہ سے اور معاصی کے ارتکاب سے روکنا ہے اور یہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے یعنی نزول برکات کا سبب ہے، اس کے برخلاف حدود کو معاف کرنا یا ان کو جاری کرنے میں سستی کرنا گویا مخلوق کو گناہ و معاصی میں مبتلا ہونے کا موقع دینا ہے اور یہ چیز یعنی گناہ و معاصی کا پھیل جانا قحط سالی میں گرفتار ہونے کا سبب اور انسان ہی نہیں بلکہ غیر انسانی مخلوق کو بھی ہلاکت و بربادی کے دروازے پر پہنچانے کا ذریعہ ہے جیسا کہ منقول ہے کہ حباری بنی آدم کے گناہوں کے سبب مارے دبلاپے کے مرجاتا ہے یعنی انسان عمومی طور پر برائیوں کی راہ پر لگ جاتا ہے اور گناہ و معاصی کے ارتکاب کی کثرت ہوجاتی ہے تو اس کی نحوست سے اللہ تعالیٰ بارش نہیں برساتا اور جب بارش نہیں ہوتی تو صرف انسانوں ہی کے لئے قحط نہیں پھیلتا بلکہ اس کی وجہ سے چرند وپرند بھی اپنے رزق سے محروم ہوجاتے ہیں اور وہ بھی مرنے لگتے ہیں۔ حباری ایک جانور کا نام ہے یہاں خاص طور پر اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ دور دور سے اپنے لئے چارہ تلاش کر کے لاتا ہے۔