112. چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احادیث مبارکہ

【1】

چور کے ہاتھ کاٹنے کا بیان

طیبی نے کہا ہے کہ قطع السرقۃ میں اضافت بحذف مضاف مفعول کی طرف ہے یعنی معنی کے اعتبار سے یہ عنوان یوں ہے باب قطع اہل السرقۃ۔ سرقہ کے معنی سرقہ سین کے زبر اور اور را کے زیر کے ساتھ چوری کے معنی میں ہے اور اصطلاح شریعت میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی مکلف کسی کے ایسے محرز مال میں سے کچھ یا سب خفیہ طور پر لے لے جس میں نہ تو اس کی ملکیت ہو اور نہ شبہ ملکیت۔ چوری کی سزا اور اس کا نصاب یہ بات تو عنوان ہی سے معلوم ہوگئی کہ اسلامی قانون چور کی سزا قطع ید ہاتھ کاٹ دینا ہے لیکن اس بارے میں فقہاء کا باہم اختلاف ہے کہ کتنی مالیت کی چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے ؟ چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ نصاب سرقہ مال کی وہ مقدار جس پر قطع ید کی سزا دی جائے گی کم از کم دس درہم تقریبا ساڑھے سات ماشہ چاندی ہے اس سے کم مالیت کی چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں دی جائے گی اور حضرت امام شافعی چوتھائی دینار سونا یا تین درہم چاندی اور یا اس قیمت کی کسی بھی چیز کو نصاب سرقہ قرار دیتے ہیں ان کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں چوتھائی دینار چرانے والے کو قطع ید کی سزا دینا مذکور ہے اور اس وقت چوتھائی دینار تین درہم کے برابر تھا اور ایک دینار کی مالیت بارہ درہم کے برابر تھی۔ امام اعظم ابوحنیفہ کی دلیل آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ حدیث (لا قطع الا فی دینار او عشرۃ دراہم ) ایک دینار یا دس درہم سے کم کی چوری پر قطع ید نہیں ہے۔ نیز ھدایہ کے قول کے مطابق اس بارے میں اکثر پر عمل کرنا اقل پر عمل کرنے سے بہتر ہے کیونکہ معاملہ ایک انسانی عضو کے کاٹنے کا ہے اور اقل میں عدم جنایت کا شبہ ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ فقہاء کے اس اختلاف کی بنیاد اس پر ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہاتھ کاٹنے کی سزا ایک ڈھال کی چوری پر دی گئی تھی چناچہ حضرت امام شافعی کی طرف سے تو یہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت ڈھال کی قیمت تین درہم تھی جب کہ حنفیہ کی طرف سے شمنی کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں اس کی قیمت دس درہم تھی حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن العاص سے ابن ابی شیبہ نے یہی نقل کیا ہے نیز کافی میں بھی یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں جس ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا دی گئی تھی تو اس کی قیمت دس درہم تھی۔

【2】

نصاب سرقہ کے بارے میں امام شافعی کی مستدل حدیث

حضرت عائشہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا چور کا ہاتھ اسی صورت میں کاٹا جائے جب کہ اس نے چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ کی مالیت کی چوری کی ہو۔ (بخاری ومسلم) تشریح یہ حدیث حضرت امام شافعی کے اس مسلک کی دلیل ہے کہ چوتھائی دینار سے کم مالیت کی چوری پر ہاتھ نہ کاٹا جائے گویا ان کے نزدیک نصاب سرقہ کی کم سے کم مقدار چوتھائی دینار ہے ملا علی قاری نے اپنی کتاب میں اس حدیث کے تحت بڑی تفصیلی بحث کی ہے اور اس مسئلہ میں علماء کے جو اختلافی اقوال ہیں ان کو نقل کر کے حنیفہ کے مسلک کو بڑی مضبوط دلیلوں سے ثابت کیا ہے۔

【3】

ڈھال کی قیمت کے تعین میں اختلافی اقوال

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک ڈھال کے چرانے پر جس کی قیمت تین درہم تھی، چور کا داہنا ہاتھ کٹوا دیا تھا۔ (بخاری ومسلم ) تشریح شمنی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس روایت کے معارض ہے جو ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن العاص سے نقل کی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اس ڈھال کی قیمت دس درہم تھی حضرت ابن عباس اور عمرو ابن شعیب بھی اسی طرح منقول ہے نیز شیخ ابن ہمام نے بھی ابن عمر اور ابن عباس (رض) سے یہی بات نقل کی ہے کہ اس ڈھال کی قیمت دس درہم تھی اور عینی نے ھدایہ کے حاشیہ میں بھی یہی لکھا ہے چناچہ اسی بنیاد پر حنیفہ کا یہ مسلک ہے کہ قطع ید ہاتھ کاٹنے کی سزا اسی چور پر نافذ ہوگی جس نے کم سے کم دس درہم کے بقدر مال کی چوری کی ہو اس سے کم مالیت کی چوری پر یہ سزا نہیں دی جائے گی جہاں تک ابن عمر کی روایت کا تعلق ہے جس سے اس ڈھال کی قیمت تین درہم متعین کی حالانکہ حقیقت میں وہ ڈھال دس درہم کی مالیت کی تھی جیسا کہ اکثر روایتوں سے ثابت ہوا اس موقع پر شیخ عبد الحق اور ملا علی قاری نے اپنی اپنی شرح میں بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے اہل علم ان کی کتابوں سے مراجعت کرسکتے ہیں۔

【4】

تمام ائمہ کے مسلک کے خلاف ایک حدیث اور اس کی وضاحت

اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا چور پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کہ وہ بیضہ چراتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور رسی چراتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ (بخاری، مسلم ) تشریح امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بلا تعین گہنگاروں پر لعنت بھیجنا جائز ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت (الا لعنت اللہ علی الظالمین سے بھی ثابت ہے ہاں کسی شخص کو متعین کر کے یعنی اس کا نام لے کر اس پر لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے۔ نصاب سرقہ کے سلسلے میں یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ چوتھائی دینار یا تین درہم سے بھی کم مالیت کی چوری پر قطع ید کی سزا جاری ہوسکتی ہے جب کہ چاروں ائمہ میں سے کسی کے بھی مسلک میں چوتھائی دینار یا تین درہم سے کم میں قطع ید کی سزا نہیں ہے اس اعتبار سے یہ حدیث تمام ائمہ کے مسلک کے خلاف ہے لہٰذا ان سب کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں بیضہ سے بیضہ آہن مراد ہے کہ جسے خود کہا جاتا ہے اور جس کو مجاہدین اور فوجی اپنے سروں پر پہنتے ہیں اسی طرح رسی سے کشتی کی رسی مراد ہے جو بڑی قیمتی ہوتی ہے علاوہ ازیں بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ ابتداء اسلام میں انڈے اور رسی کے چرانے پر قطع ید کی سزا دی جاتی تھی مگر بعد میں اس کو منسوخ قرار دے دیا گیا، بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس ارشاد کی مراد یہ ہے کہ اس کو چوری کی عادت اسی عادت اسی طرح پڑتی ہے کہ چھوٹی چھوٹی اور کمتر چیزیں چراتے چراتے بڑی بڑی اور قیمتی چیزیں چرانے لگتا ہے جس کے نتیجے میں اس کو قطع ید کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔

【5】

پھل وغیرہ کی چوری میں قطع ید کی سزا ہے یا نہیں ؟

حضرت رافع ابن خدیج نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا درخت پر لگے ہوئے میوے اور کھجور کے سفید گابھے کی چوری میں قطع ید کی سزا نہیں ہے۔ (مالک، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، دارمی، ابن ماجہ ، ) تشریح یہ حدیث حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی مستدل ہے وہ اس کی بنیاد پر فرماتے ہیں کہ تر میوہ پھل چرانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا خواہ وہ میوہ محرز ہو یا غیر محرز۔ غیر محرز کی تعریف پیچھے گذر چکی ہے اسی پر گوشت دودھ اور ان چیزوں کو بھی قیاس کیا گیا ہے جو دیر پا نہ ہوں اور جلدی ہی خراب و متغیر ہوجاتی ہوں کہ ان کی چوری میں بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا امام اعظم علاوہ دوسروں نے ان سب چیزوں کی چوری میں قطع ید کی سزا کو واجب کیا ہے چناچہ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کا یہی مسلک ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ وہ چیزیں جو بہت معمولی اور حقیر ہوں اور جو دار السلام میں ہر شخص کے لئے مباح کے درجہ میں ہوں جیسے گھاس لکڑی نرسل مچھلی پرندہ ہڑتال اور چونا وغیرہ ان کی چوری کرنے والا بھی قطع ید کا سزا وار نہیں ہوگا۔ اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن العاص سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ سے درخت پر لگے ہوئے پھلوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص ان پھلوں میں سے کچھ اس وقت چرائے جب کہ ان کو درختوں سے توڑ کر جمع کرلیا گیا ہو اور ان (چرائے ہوئے پھلوں) کی قیمت ایک ڈھال کی قیمت کے برابر ہو تو وہ قطع ید کا سزا وار ہوگا۔ (ابو داؤد، نسائی) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ درخت پر لگے ہوئے پھل کی چوری میں قطع ید کی سزا نہیں ہے کیونکہ وہ محرز نہیں ہے ہاں جب وہ پھل درخت پر سے توڑ لئے گئے اور ان کو خشک ہونے کے لئے کھلیان میں جمع کردیا گیا تو اب ان کی چوری میں قطع ید کی سزا واجب ہوگی کیونکہ اس صورت میں وہ محرز ہوگئے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ حدیث امام ابوحنیفہ کے سوا جمہور علماء کی دلیل ہے کیونکہ امام ابوحنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ پھل جب تک خشک نہیں ہوا ہے اس کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے خواہ وہ پھل محرز ہو یا غیر محرز۔ اس حدیث کے بارے میں حنیفہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ حدیث میں جب کہ ان کو توڑ کر جمع کرلیا گیا ہو کی قید کا تعلق ان پھلوں کے خشک ہوجانے کے بعد سے ہے جیسا کہ عرب میں رواج تھا (کہ جس طرح درخت سے پھلوں کو توڑ کر خشک ہونے کے لئے کھلیان وغیرہ میں پھیلا دیا جاتا ہے تھا اس طرح پھلوں کو ان کے خشک ہونے کے بعد کسی جگہ جمع بھی کردیا جاتا تھا) اور حنیفہ کے نزدیک بھی ان پھلوں کی چوری میں قطع ید کی سزا جاری ہوگی جو خشک ہونے کے بعد کھلیان وغیرہ میں جمع کئے گئے ہیں۔ پھل جب تک خشک نہ ہوں اس وقت تک ان کی چوری میں قطع ید کی سزا نہیں ہوگی خواہ وہ درخت پر لگے ہوئے ہوں یا ان کو توڑ کر کھلیان وغیرہ میں جمع کردیا گیا ہو جیسا کہ ثمر (تازہ پھل) کے بارے میں پچھلی حدیث میں بیان کیا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات مدنظر رہنی چاہئے کہ یہ حدیث نہ صرف پچھلی حدیث (لا قطع فی ثمر والاکثر) کے مطلق مفہوم کے معارض ہے بلکہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد حدیث (والا قطع فی الطعام) (کھانے کی چوری میں قطع ید کی سزا نہیں ہے ) کے بھی معارض ہے چونکہ حدود کے باب میں ضروری ہے کہ مسلمان کی جان اور اس کے اعضاء کے تحفظ کے پیش نظر حد جاری کرنے میں حتی الا مکان احتیاط و رعایت کے تمام گوشوں کو ملحوظ رکھا جائے اور ہر ایسے نکتہ و پہلو کو ترجیح دی جائے جس سے نفاذ حد، کم سے کم قابل عمل رہے اس لئے ان احادیث کے تعارض کی صورت میں اس حدیث کو ترجیح دی جانی چاہئے جس کا مفہوم پھل کی چوری کے سلسلے میں بالکل مطلق ہے اس موقع پر بھی ملا علی قاری نے اپنی کتاب مرقات میں بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے اہل علم ان کی کتاب سے مراجعت کرسکتے ہیں۔

【6】

غیر مملوکہ پہاڑی جانوروں پر چوری کا اطلاق نہیں ہوگا :

اور حضرت عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابوحسین مکی سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا درخت پر لگے ہوئے میوے اور پہاڑوں پر چرنے والے جانوروں کے مقدمہ میں قطع ید کی سزا نہیں ہے ہاں اگر کوئی شخص کسی پہاڑی جانور کو جانوروں کے بندھنے کی جگہ لا کر باندھ دے یا میوے کو (خشک ہونے کے بعد) کھلیان میں جمع کر دے تو اس کی چوری میں قطع ید کی سزا دی جائے گی بشرطیکہ چیز مسروقہ کی مالیت ایک ڈھال کی قیمت کے بقدر یا اس سے زائد ہو۔ (مالک) تشریح طیبی کہتے ہیں کہ لفظ حریسۃ دراصل مفعول کے معنی میں ہے گویا (حریسۃ جبل) معنی کے اعتبار سے (محروسۃ جبل) ہے اور (محروسۃ جبل) اس جانور کو کہتے ہیں جو پہاڑوں پر چرتا پھرتا ہو اور کوئی شخص اس کی حفاظت نہ کرتا ہو یعنی وہ کسی کی ملکیت میں نہ ہو، ایسے ہی جانور کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس کو پکڑ لائے تو اس پر چوری کا اطلاق نہیں ہوگا کیونکہ نہ تو وہ جانور محرز ہے اور نہ کسی کی ملکیت میں ہے، ہاں اگر پہلے سے کسی شخص نے اس جانور کو پکڑ کر اپنے یہاں باندھ رکھا ہے تو چونکہ اب وہ جانور ایک شخص کی ملیکت میں آگیا ہے اس لئے اگر کوئی دوسرا شخص اس کو وہاں سے چرائے گا اور اس کی قیمت ایک ڈھال کی قیمت کے بقدر یا اس سے زائد ہوگی تو چرانے والے کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

【7】

لٹیرے کی سزا قطع ید نہیں ہے :

اور حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا لٹیرے کی سزا قطع ید نہیں ہے اور جو شخص لوگوں کو لوٹے وہ ہم میں سے نہیں ہے (یعنی ہمارے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والا نہیں ہے ) ۔ (ابوداؤد) تشریح لٹیرا (لوٹنے والا) اس شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں کا مال زبردستی حاصل کرے اس طرح لوگوں کا مال لوٹنا اگرچہ چوری چھپے مال اڑانے سے بدتر ہے لیکن ایسے شخص پر چور کا اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے اس کو قطع ید کی سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ چور اس شخص کو کہتے ہیں جو چھپ چھپا کر لوگوں کا مال اڑائے۔

【8】

خائن قطع ید کا سزا وار نہیں :

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ خیانت کرنے والے، لوٹنے والے اور اچکّے کا ہاتھ کاٹنا مشروع نہیں۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) اور صاحب مصابیح نے شرح السنۃ میں یہ روایت نقل کی ہے کہ (ایک دن) حضرت صفوان ابن امیہ مدینہ تشریف لائے اور مسجد میں سر کے نیچے اپنی چادر رکھ کر سو گئے اسی (دوران) ایک چور آیا اور اس نے ان کی وہ چادر (آہستہ سے کھینچ لی (اور بھاگنا چاہا) مگر صفوان نے اس کو پکڑ لیا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لائے (اور واقعہ بیان کیا، آنحضرت ﷺ نے (خود مجرم کے اقرار یا گواہوں کے ذریعہ چوری ثابت ہوجانے پر) اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، (یہ فیصلہ سن کر) حضرت صفوان (کو رحم آگیا اور انہوں نے کہا کہ اس کو آپ ﷺ کی خدمت میں لانے سے میرا یہ ارادہ نہیں تھا (کہ صرف میری چادر کی وجہ سے اس کے ہاتھ کاٹے جائیں اس لئے میں سفارش کرتا ہوں کہ آپ ﷺ اس کو معاف فرما دیں) میں نے اپنی چادر اس کو صدقہ کردی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا پھر اس کو میرے پاس لانے سے پہلے ہی تم نے اپنی چادر اس کو صدقہ کیوں نہ کردی تھی اور اس کو معاف کیوں نہیں کردیا تھا۔ اسی طرح کی روایت ابن ماجہ نے عبداللہ ابن صفوان سے اور انہوں نے اپنے والد (حضرت صفوان سے) اور دارمی نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کی۔ تشریح خائن اس شخص کو کہتے ہیں جس کو کوئی چیز بطور عاریت کے یا امانت رکھنے کے لئے دی جائے اور وہ اس کی چیزیں کچھ یا سب ہضم کر جائے اور یہ دعوی کرے کہ وہ چیز ضائع ہوگی ہے یا سرے سے اس کا انکار کر دے یعنی یہ کہے کہ وہ چیز مجھے نہیں دی گئی ہے۔ اگرچہ ایسا شخص بہت گنہگار ہوتا ہے مگر قطع ید کا مستوجب نہیں ہوتا کیونکہ خائن جس چیز کو ہتھیاتا ہے وہ پوری طرح محرز یعنی محفوظ مال کے حکم میں نہیں ہوتی ہدایہ میں یہ مسئلہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح لٹیرے اور اچکے کو بھی قطع ید کی سزا اس لئے نہیں دی جاتی کہ وہ غیر کا مال چھپ چھپا کر نہیں لیتے جیسا کہ پچھلی حدیث کی تشریح میں اس کی وضاحت کی گئی۔ ابن ہمام کہتے ہیں کہ چاروں ائمہ کا یہی مسلک ہے۔ سر کے نیچے چادر رکھنے کے بارے میں ھدایہ میں لکھا ہے کہ صحیح تر بات یہ ہے کہ کسی چیز کا اپنے سر کے نیچے رکھنا حرز ہے حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اس کو پہلے ہی کیوں نہ معاف کردیا تھا اور اپنا حق کیوں نہیں چھوڑ دیا تھا اب جب تم اس کو میرے پاس لے آئے اور اس کا جرم ثابت ہوجانے پر میں نے اس کا ہاتھ کاٹے جانے کا حکم دے دیا تو اس کا ہاتھ کاٹنا واجب ہوگیا ہے اب اس معاملہ میں تمہارا کوئی حق باقی نہیں رہ گیا ہے بلکہ یہ اللہ کا حق ہوگیا ہے لہٰذا تمہارے معاف کرنے سے اس کا جرم معاف نہیں ہوگا ! اس سے معلوم ہوا کہ چور جب حاکم کے سامنے پیش ہوجائے اور اس کا جرم ثابت ہوجائے تو پھر اسے کوئی بھی سزا سے نہیں بچا سکتا، خود مدعی اور صاحب مال کے معاف کرنے سے بھی اس کی سزا معاف نہیں ہوگی، ہاں حاکم کے پاس قضیہ پہنچنے سے پہلے اس کو معاف کردینا جائز ہے۔ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو چوری کی وجہ سے اس کے ہاتھ کاٹنے کی سزا سنا دی جائے اور پھر اسے چوری کی ہوئی چیز کو اس کا مالک اس شخص (چور) کو ہبہ کر کے اس کے سپرد کر دے یا اس چیز کو اس کے ہاتھ فروخت کر دے تو اس صورت میں اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ لیکن امام زفر امام شافعی اور امام احمد یہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور حضرت امام ابویوسف کا بھی ایک قول یہی ہے اور حضرت صفوان کی مذکور حدیث بھی اسی کی تائید کرتی ہے چناچہ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک روایت میں تو یہ حدیث اسی طرح ہے جس طرح یہاں نقل کی گئی لیکن حاکم وغیرہ کی روایت میں اس طرح نہیں ہے بلکہ کچھ اضافہ و زیادتی کے ساتھ ہے۔ لہٰذا اس اضافہ و زیادتی کی وجہ سے اضطراب واقع ہوگیا اور اضطراب حدیث کے ضعیف ہونے کا موجب ہوجاتا ہے۔

【9】

سفر جہاد میں چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے :

اور حضرت بسر ابن ارطاۃ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ غزوہ میں قطع ید کی سزا نافذ نہیں ہوگی۔ (اس روایت کو ترمذی، دارمی، ابوداؤد اور نسائی نے نقل کیا ہے لیکن ابوداؤد اور نسائی کی روایت میں غزوہ کی بجائے سفر کا لفظ ہے۔ تشریح ابن مالک کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب ہے کہ جب اسلامی لشکر دارالحرب میں کفار سے برسر جہاد ہو اور امام وقت ان میں موجود نہ ہو بلکہ امیر لشکر ان کا کار پرداز ہو اور اس وقت (جہاد میں) کوئی شخص چوری کا مرتکب ہوجائے تو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے، اس طرح دوسری حدود بھی جاری نہ کی جائیں۔ چناچہ بعض فقہاء نے اس پر عمل کیا ہے اور اس کی بنیاد یہ احتمال ہے کہ مبادا وہ شخص (اس سزا کے خوف سے) دار الحرب ہی کو اپنا مستقل مسکن بنا لے اور اس طرح وہ فتنہ و گمراہی میں مبتلا ہوجائے یا یہ خوف بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے مجاہدین میں بددلی اور تفرقہ نہ پیدا ہوجائے۔ طیبی نے وضاحت کی ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہ مسلک ہے۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ غزوہ میں قطع ید کی سزا نافذ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسلامی لشکر کا کوئی فرد مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کچھ چرائے تو اس کے ہاتھ نہ کاٹے جائیں کیونکہ اس مال غنیمت میں اس کا بھی حق ہے۔ طیبی کہتے ہیں ابوداؤد اور نسائی کی روایت میں سفر کا جو لفظ مطلق نقل کیا گیا ہے اس کو مقید پر محمول کیا جائے یعنی سفر سے سفر جہاد مراد لیا جائے۔

【10】

دوبارہ اور سہ بارہ چوری کرنے کی سزا

اور حضرت ابوسلمہ حضرت ابوہریرہ (رض) یہ نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے چور کے بارے میں فرمایا کہ جب وہ چوری کرے تو اس کا (دایاں) ہاتھ کاٹا جائے، پھر اگر چوری کرے تو اس کا (بایاں) ہاتھ کاٹا جائے اور پھر اگر چوری کرے تو اس کا (دایاں) پیر کاٹا جائے۔ (شرح السنۃ) تشریح پہلی مرتبہ چوری کرنے پر دایاں ہاتھ کاٹنا اور پھر دوبارہ چوری کرنے پر بایاں پیر کاٹنا تو علماء کا متفقہ مسلک ہے لیکن پھر تیسری مرتبہ چوری کرنے پر بایاں ہاتھ کاٹنے اور چوتھی مرتبہ چوری کرنے پر دایاں ہاتھ اور بایاں پیر کاٹا جائے، لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ تیسری مرتبہ چوری کرنے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا بلکہ اس کو قید خانہ میں ڈال دیا جائے گا تاآنکہ وہ اسی میں مرجائے یا توبہ کرے امام اعظم کے اس مسلک کی دلیل یہ ہے کہ اول تو اس بات پر صحابہ کا اجماع و اتفاق ہوگیا تھا، دوم یہ کہ کسی شخص کو اس کے چاروں ہاتھ پیر سے محروم کردینا گویا اس کو اپنے وجود کی بقاء کے سارے ذرائع و اسباب سے محروم کردینا ہے جو اس کے حق میں سزا سے بڑھ کر ایک قسم کی زیادتی ہے جہاں تک اس حدیث کا سوال ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ اصل میں یہ حدیث تہدید و سیاسی مصالح پر محمول ہے، دوسری بات یہ کہ محدثین نے اس کے صحیح ہونے میں کلام کیا ہے چناچہ طحاوی نے اس حدیث پر ان الفاظ میں طعن کیا ہے کہ میں نے صحابہ کے بہت سارے آثار وقضایا (اور نظائر و فیصلے) دیکھے لیکن انتہائی تلاش کے باوجود مجھے اس حدیث کی کوئی بنیاد نہیں مل سکی، علاوہ ازیں میں نے بہت سے حفاظ حدیث سے ملاقات کی وہ سب اس حدیث (کی واقفیت) سے انکار کرتے تھے۔ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ پیر کاٹنے کے بارے میں اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ گھٹنے کے پاس سے پاؤں کاٹا جائے۔ اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک چور کو لایا گیا تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کا (دایاں) ہاتھ کاٹ دو ، چناچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا، دوبارہ اس کو پھر لایا گیا تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ (اس کا بایاں پاؤں) کاٹ دیا گیا پھر تیسری مرتبہ لایا گیا تو آپ ﷺ نے حکم دیا (اس کا بایاں ہاتھ) کاٹ دو ، چناچہ اس کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا پھر چوتھی مرتبہ لایا گیا تو فرمایا کہ (اس کا دایاں پیر) کاٹ دو ، چناچہ (اس کا دایاں پیر) کاٹ دیا گیا اور پھر جب پانچویں مرتبہ اس کو لایا گیا تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کو مار ڈالو، چناچہ ہم اس کو (پکڑ کر) لے گئے اور مار ڈالا، اس کے بعد ہم اس کی لاش کو کھینچتے ہوئے لائے اور کنویں میں ڈال کر اوپر سے پتھر پھینک دئیے (ابو داؤد، نسائی) اور بغوی نے شرح السنۃ میں چور کے ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ اس کا ہاتھ کاٹو اور پھر اس (ہاتھ کو داغ دو ) ۔ تشریح اور پھر اس کو داغ دو کا مطلب یہ ہے کہ جس ہاتھ کو کاٹا گیا ہے اس کو گرم تیل یا گرم لوہے سے داغ دو تاکہ خون بند ہوجائے اگر داغا نہ جائے گا تو جسم کا تمام خون بہہ جائے گا اور چور ہلاک ہوجائے گا۔ خطابی فرماتے ہیں کہ میرے علم میں ایسا کوئی فقیہہ وعالم نہیں ہے جس نے چور کو مار ڈالنا مباح رکھا ہو خواہ وہ کتنی ہی بار چوری کیوں نہ کرے، چناچہ وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی حدیث (لا یحل دم امرء الا باحدی ثلث) کے ذریعہ منسوخ ہے ، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس چور کو مار ڈالنے کا حکم دیا وہ سیاسی وانتظامی مصالح کی بناء پر تھا، چناچہ امام وقت (حاکم) کو یہ حاصل ہے کہ وہ مفسدہ پردازوں، چور اچکوں اور ملکی امن و قانون کے مجرموں کی تعزیر میں اپنی رائے و اجتہاد پر عمل کرے اور جس طرح چاہے ان کو سزا دے۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو یہ معلوم ہوا ہوگا کہ یہ شخص مرتد ہوگیا ہے اس لئے آپ ﷺ نے اس کا خون مباح کردیا اور اس کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔ اسی طرح بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اس بات پر محمول کرنا اولی ہے کہ وہ شخص چوری کو حلال جانتا تھا اس لئے بار بار اس کا ارتکاب کرتا تھا اسی وجہ سے اس کو اتنی سخت سزا دی گئی بہرکیف ان تاویلات میں سے کسی بھی ایک تاویل کو اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کو مار ڈالنے کے بعد اس کی لاش کو اس طرح کھینچ کر کنویں میں ڈال دینا ہرگز مباح نہ ہوتا۔

【11】

چور کا کٹا ہوا اس کی گردن میں لٹکا دینے کا مسئلہ

اور حضرت فضالہ ابن عبید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک چور لایا گیا چناچہ (آنحضرت ﷺ کے حکم سے) اس کا ہاتھ کاٹا گیا پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کا کٹا ہوا ہاتھ اس کی گردن میں لٹکا دیا جائے (تا کہ اس سے دوسرے عبرت پکڑیں) چناچہ وہ ہاتھ اس کی گردن میں لٹکا دیا گیا۔ (ابو داود، نسائی ابن ماجہ ) تشریح ابن ہمام فرماتے ہیں کہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد سے یہ منقول ہے کہ چور کا کٹا ہوا ہاتھ اس کی گردن لٹکا دینا سنت ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک یہ امام (حاکم) کی مرضی پر موقوف ہے کہ اگر وہ مناسب جانے تو چور کا کٹا ہوا ہاتھ اس کی گردن میں لٹکا دے، یہ سنت نہیں ہے کیونکہ یہ ثابت نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے چور کا کٹا ہوا ہاتھ اس کی گردن میں لٹکایا ہو۔

【12】

جو غلام چوری کرنے لگے اس کو بیچ ڈالو :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر غلام چوری کرے تو اس کو بیچ ڈالو اگرچہ نش کے بدلے میں اس کو بیچنا پڑے۔ (ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ) تشریح نش نون کے زبر اور شین کے ساتھ) نصف اوقیہ یعنی بیس درہم کو کہتے تھے مراد یہ ہے کہ چوری کرنے والے غلام کو بیچ ڈالو اگرچہ اس کو کتنی ہی کم قیمت میں کیوں نہ بیچنا پڑے کیونکہ چوری کا ارتکاب کر کے وہ عیب دار ہوگیا ہے اور عیب دار غلام کو اپنے پاس رکھنا مناسب نہیں ہے۔ حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور اکثر اہل علم یہ فرماتے ہیں کہ اگر غلام چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے خواہ وہ بھگوڑا ہو یا غیر بھگوڑا۔ اس بارے میں امام اعظم ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ اگر خاوند بیوی میں سے کوئی ایک دوسرے کا مال چرائے یا کوئی غلام اپنے مالک یا اپنے مالک کی بیوی اور یا اپنی مالکہ کے خاوند کے مال کی چوری کرے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ عام طور پر خاوند بیوی کو ایک دوسرے کے مال پر اور غلام کو اپنے آقا اور اس کے گھر والوں کے مال و اسباب پر خود ان کی اجازت سے دسترس حاصل ہوتی ہے اس صورت میں حرز کی شرط پوری طرح نہیں پائی جاتی جو قطع ید کی سزا کے لئے ضروری ہے۔

【13】

مجرم کو معاف کردینے کا حق حاکم کو حاصل نہیں ہے :

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک چور لایا گیا اور جب آنحضرت ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ ہمیں یہ خیال نہ تھا کہ آپ ﷺ اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائیں گے (بلکہ ہمارا گمان تو یہ تھا کہ آپ اس کو معاف کردیں گے) آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر ) فرمایا اگر فاطمہ (بنت محمد ﷺ بھی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کٹوا دیتا۔ تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ چور کوئی ایسا شخص تھا جس سے آنحضرت ﷺ کی کوئی قرابت تھی، یا آپ ﷺ کے متعلقین میں سے کوئی فرد تھا اور اسی وجہ سے صحابہ کے گمان کے مطابق اس کے ساتھ نرمی اور رعایت کئے جانے کا امکان تھا چناچہ آنحضرت ﷺ نے واضح کردیا کہ قطع ید کی سزا اللہ تعالیٰ کا حق ہے جس کو نافذ کرنا مجھ پر واجب ہے، اس میں چشم پوشی کرنا نہ صرف یہ کہ عدل و انصاف کے منافی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی اور اس کے حق میں بےجا مداخلت کے مترادف بھی ہے اگر بالفرض میرے جگر کا ٹکڑا فاطمہ سے بھی یہ فعل صادر ہوتا تو میں اس پر بھی یہ سزا نافذ کرتا اور اس کے ہاتھ کٹوا دیتا۔

【14】

اگر غلام اپنے مالک کی چوری کرے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمر فاروق کے پاس اپنے غلام کو لے کر آیا اور کہا کہ اس کے ہاتھ کٹوا دیجئے کیونکہ اس نے میری بیوی کا آئینہ چرا لیا ہے، لیکن حضرت عمر نے فرمایا کہ یہ قطع ید کا مستوجب نہیں ہے کیونکہ یہ تمہارا خدمت گار ہے اور تمہاری ہی چیز اس نے لی ہے۔ (مالک ) تشریح گویا حضرت عمر نے اپنے فیصلہ کے ذریعہ اس پر قطع ید کی سزا نافذ نہ کرنے کی علت و وجہ کی طرف اشارہ کیا اور وہ اذن (یعنی اجازت) کا پایا جانا ہے کہ تمہارے خادم ہونے کی حیثیت سے جب اس کو تمہارے ساتھ رہنے سہنے اور تمہارے مال و اسباب کی دیکھ بھال کرنے کی اجازت حاصل ہے اور اس اعتبار سے تمہارے اور تمہارے گھر کا مال خود تمہاری مرضی سے اس کی دسترس میں ہے تو اس صورت میں احراز یعنی مال کا غیر کی دسترس سے محفوظ ہونا نہ رہا اور جب احراز نہ رہا تو پھر یہ قطع ید کا سزاوار بھی نہیں ہوگا چناچہ حنیفہ اور حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے جب کہ دوسرے علماء کا مسلک اس کے برخلاف ہے۔

【15】

کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے یا نہیں ؟

اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا اے ابوذر ! میں نے عرض کیا میں حاضر ہوں یا رسول اللہ ! اور فرمانبردار ہوں، فرمائیے کیا ارشاد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم اس وقت کیا کرو گے جب لوگوں کو موت) یعنی کوئی وبا اپنی لپیٹ میں لے لے کی (کیا اس وقت تم موت سے بھاگ کھڑے ہو گے یا صبر و استقامت کی راہ اختیار کرو گے ؟ اور گھر یعنی قبر کی جگہ ایک غلام کے برابر ہوجائے گی (یعنی اس وقت وبا کی وجہ سے اتنی کثرت سے اموات ہوں گی کہ ایک قبر کی جگہ ایک ایک غلام کی قیمت کے برابر خریدی جائے گی میں نے عرض کیا اس کے بارے میں اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں (یعنی میں نہیں جانتا کہ اس وقت میرا کیا ہوگا، آیا میں صبر و استقامت کی راہ اختیار کروں یا اپنا مسکن چھوڑا کر بھاگ کھڑا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس وقت تم پر صبر لازم ہے حضرت حماد ابن سلمہ کہتے ہیں کہ کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے کیونکہ وہ میت کے گھر میں داخل ہوا ہے۔ (ابوداؤد ) تشریح حضرت حماد ابن ابوسلیمان نے آنحضرت ﷺ کے ارشاد سے بظاہر بڑا لطیف نکتہ پیدا اور یہ استدلال کیا کہ آنحضرت ﷺ نے چونکہ قبر کو گھر کہا ہے اس طرح گھر کی طرح قبر بھی حرز ہوئی جیسے اور کوئی شخص گھر میں سے کوئی چیز چرائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے ایسے ہی اگر کوئی شخص قبر میں سے کفن چرائے گا تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت حماد کا یہ استدلال مضبوط نہیں ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ جگہ حرز کے حکم میں ہوں جس پر گھر کا اطلاق ہوتا ہو مثال کے طور پر فرض کیجئے اگر کوئی شخص کسی ایسے گھر میں سے کچھ مال چراتا ہے جس کا دروازہ بند نہ ہو یا جس میں کوئی نگہبان موجود نہ ہو تو متفقہ طور پر تمام علماء کا فیصلہ یہ ہے کہ اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ اگرچہ اس نے ایک گھر کے اندر سے مال چوری کیا ہے مگر اس گھر کے عدم محفوظ ہونے کی وجہ سے وہ حرز نہیں رہا اور جب اس صورت میں حرز کی شرط نہیں پائی گئی تو اس پر قطع ید کی سزا بھی نافذ نہیں ہوگی۔ ٹھیک اسی طرح قبر کو اگرچہ گھر فرمایا گیا ہے لیکن چونکہ وہ حرز یعنی محفوظ نہیں ہے اس لئے اس میں سے کفن چرانے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد کا مسلک یہ ہے کہ ہاتھ کاٹنے کی سزا کفن چور پر نافذ نہیں ہوگی جب کہ تینوں آئمہ او حنفیہ میں سے) حضرت امام ابویوسف کا قول یہ ہے کہ کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا اس مسئلہ کی باقی تفصیل مرقات میں دیکھی جاسکتی ہے۔